’قراردادِ مقاصد‘ ایک تاریخی دستاویز ہی نہیں، ایک ایسا آئینہ بھی ہے، جس میں تحریکِ پاکستان کے اصل مقصد اور منزل کی ایک واضح تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کے ’دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ میں دیباچے کے طور پر اسے شامل کرنے کے بعد دیباچے کے دوسرے حصے میں کہا گیا کہ جو دستور منظور اور نافذ کیا جا رہا ہے وہ ’’قادر مطلق اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے بندوں کے سامنے اپنی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘‘۔ اور جو تصور ریاست اور حکمرانی کا نظام اس میں تجویز کیا جا رہا ہے، وہ محض اس وقت کی اسمبلی کے احساسات کا عکاس نہیں بلکہ وہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے اس اعلان سے وفاداری کے ساتھ کیا جا رہا ہے، جو انھوں نے برعظیم کے مسلمانوں سے سماجی عدل کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری حکومت کے قیام کے لیے کیا تھا اور جس کے لیے پورے برعظیم کے مسلمانوں نے عظیم قربانیاں دی تھیں اور دے رہے ہیں۔
’قراردادِمقاصد‘ اور اس کی روشنی میں بننے والے دستور کا یہی وہ امتیازی پہلو ہے، جو اس کے اسلامی، جمہوری اور فلاحی تصور کو اس کی ناقابلِ تغیر شناخت بنادیتاہے، اور انتظامی دروبست کو ایک ثانوی حیثیت دیتا ہے، جس میں حسب ِ ضرورت تبدیلی اور ترمیم ہوسکتی ہے، مگر اس مملکت کی نظریاتی بنیاد اور اس کو مستحکم کرنے والی دستوری دفعات میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، جو اس شناخت کو مجروح کرنے والی ہو۔ پاکستان کا وجود تحریکِ پاکستان کا نتیجہ ہے اور اس تحریک میں پورے برعظیم کے مسلمانوں نے کچھ خاص مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی تھی۔ اس ملک کا قیام ایک معاہدۂ عمرانی کا نتیجہ ہے، جسے کسی مصلحت یا وقتی رو کے نتیجے میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کے تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس بنیاد کی حفاظت کریں اور اس شناخت کو روشن تر کرنے کی کوششیں کریں اور اس کو کمزور کرنے یا اس کی شکل بگاڑنے کی ہر کوشش کا پوری قوت سے مقابلہ کریں۔ ہر ادارے کی حقانیت (legitimacy) کا انحصار اس بصیرت (vision) سے وفاداری پر ہے۔ ہر ادارہ قرآن و سنت کی بالادستی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود کی پاس داری کا ذمہ دار ہے۔ پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ ہی نہیں، پارلیمنٹ کو منتخب کرنے والے عوام بھی ان حدود کے دائرے ہی میں اپنا اختیار استعمال کرنے کے پابند ہیں۔
اللہ کی حاکمیت اور اس کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست کا اپنا مزاج اور اپنا نظام ہے۔ اس ریاست کو دوسروں کے معیارات کا تابع کرنا اس عہد سے بے وفائی اور صریح ظلم ہوگا، جو اس مملکت کی بنیاد ہے۔ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے، لیکن یہ اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ ایک شخص محض اس دعوے کی بنیاد پر کہ میں آزاد ہوں، اپنی آزاد مرضی سے اپنے کو کسی دوسرے کی غلامی میں نہیں دے سکتا اور نہ خود اپنی جان لے سکتا ہے۔ خودکشی ہر مہذب نظام میں ایک جرم ہے اور انسانوں کی فروخت رضامندی سے بھی ناقابلِ قبول عمل ہے۔ اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ کی حاکمیت اور تمام اختیارات کو امانت تسلیم کرنے کے بعد یہ حق مانگنا کہ: ’’فلاں ادارہ ’سپریم‘ ہے، اور وہ دستور میں ترمیم کے نام پر جو تبدیلی چاہے کرسکتا ہے‘‘ فی الحقیقت امانت اور خلافت کے تصور ہی کی نفی ہے۔ اللہ کی حاکمیت کے اقرار کے بعد وہ تمام حدود محترم ہوجاتی ہیں جو قرآن و سنت نے مقرر فرما دی ہیں۔ اس لیے ہماری آزادی کا دائرہ ان حدود کے اندر ہے، ان کے باہر نہیں۔
دستورِ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کا بطور دیباچہ اور دفعہ ۲-الف کے طور پر شامل کرنا اسے دستور کا وہ ترازو بنادیتا ہے، جس پر مطلوب اور نامطلوب کا تعین کیا جائے گا۔ جس طرح عدلیہ دستور کی تخلیق (creature) ہے، بالکل اسی طرح پارلیمنٹ، انتظامیہ اور فوج بھی اس کی تخلیق ہیں، حتیٰ کہ عوام بھی دستور کے تحت ہی اپنے حکمرانی کے اختیارات استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔ اسلامی نظریہ اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں جمہوریت، عدلِ اجتماعی، قانون کی حکمرانی اور عوامی فلاح و بہبود کے اہداف وہ ناقابلِ تغیر پہلو ہیں، جن کے بارے میں کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دستور میں قرآن و سنت کے احکام کے خلاف قانون سازی کی واضح طور پر تحدید کر دی گئی ہے۔ اسی طرح بنیادی حقوق کو مجروح کرنے والی قانون سازی کے اختیار سے مقننہ کو محروم کیا گیا ہے۔ دفعہ۶ میں دستور کو توڑنے، اس کو تہ و بالا (subvert) کرنے، معطل (suspend) کرنے، غیرمؤثر کرنے، یا اسی نوعیت کے عمل میں کسی قسم کی معاونت کو جرم اور غداری قرار دیا گیا ہے۔ اس پابندی کا اطلاق ہر فرد اور ادارے پر ہے: بشمول انتظامیہ، فوج، مقننہ اور عدلیہ۔
دستورِ پاکستان میں صرف یہی ایک جرم ایسا ہے، جسے دفعہ۱۲(۲) کی رُو سے اطلاق بہ ماضی کی حُرمت سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، یعنی دستور ۱۹۷۳ء میں بنا ہے مگر اس کا اطلاق ۱۹۵۶ء سے ہوگا، جب پاکستان میں پہلا دستور نافذ ہوا تھا۔ نیز عدالتوں پر بھی ایسے اقدام کے لیے بعد از عمل جواز (validation) پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پھر اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ صدرِمملکت، وزیراعظم ، وزرا اور پارلیمنٹ کے ارکان کے حلف نامے میں دستور کی پابندی اور اس کے مطابق کام کرنے کے عہد کے ساتھ ساتھ، دستور کے تحفظ اور دفاع اور اسلامی نظریے کے تحفظ کا عہد بھی لیا جاتا ہے۔ کیا یہ تمام اُمور اس امر کا ثبوت نہیں ہیں کہ اسلام جو پاکستان کی بنیاد ہے اور ’قرادادِ مقاصد‘ نظامِ حکمرانی کے جن اصولوں اور حدود کی نشان دہی کرتے ہیں، وہ دستور کی اساس اور اس کے ناقابلِ تغیر حصوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کوئی ان کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو روکنے کا کوئی نہ کوئی انتظام ہونا چاہیے۔
قانون کے دائرے میں اس کا معروف طریقہ یہی ہے کہ عدلیہ، دستور کے محافظ کے طور پر اپنا کردار ادا کرے۔ البتہ حالات کو دیکھ کر عدلیہ دونوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کرسکتی ہے، یعنی یہ کہ وہ ایسی ترمیم کو پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کرنے کے لیے بھیج دے، تاکہ پارلیمنٹ خود اصلاح کرے، جیساکہ اٹھارھویں ترمیم کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے کیا۔ بصورتِ دیگر ایسی ترامیم کو دستور کی اصل سے متصادم ہونے کی حد تک غیرمؤثر کرنے کا اختیار عدلیہ کو حاصل ہونا چاہیے۔ یہ اعتراض کہ اس طرح’ منتخب نمایندوں‘ پر ’غیر منتخب عدلیہ‘ کی بالادستی کا نظام قائم ہوجائے گا، خلطِ مبحث سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اگر دفعہ۸ کے تحت پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کو کالعدم قرار دینے سے منتخب نمایندوں کی بے توقیری نہیں ہوتی اور ان پر ’غیرمنتخب‘ کی بالادستی صادق نہیں آتی، اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی رُو سے قرآن و سنت سے متصادم قانون مہلت کے ختم ہوتے ہی غیرمؤثر ہوجاتا ہے، اور اس کے پارلیمنٹ کے اختیارات پر کوئی ضرب نہیں لگتی، تو دستوری ترمیم کے سلسلے میں عدلیہ کے اقدام کو ’عدالتی جارحیت‘ اور عدالتی استبداد‘ (judicial autocracy) کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟
اگر غیرمنتخب عدلیہ ،پارلیمنٹ کے اکثریت سے منظور کردہ قانون کو خلافِ قانون قرار دے کر مطلق العنان نہیں بنتی تو دستوری ترمیم کے باب میں کیسے اس الزام کی سزاوار ہوسکتی ہے؟ عام حالات میں دستوری ترمیم سیاسی عمل ہی سے ہونی چاہیے۔ لیکن اگر مقننہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتی ہے تو دستور ہی میں طے کردہ گرفت کرنے اور توازن قائم کرنے (check and balance) کے نظام کے تحت اس کے ہاتھ کو کیسے روکا جاسکتا ہے کہ وہ بھی دستور اور قانون ہی کی پیداوار اور تخلیق ہے اور ان کی پابند بھی ہے۔ پھر عدلیہ بھی اسی دستور سے اپنے اختیارات حاصل کر رہی ہے، جس دستور سے پارلیمنٹ، حکومت اور عوام حاصل کرتے ہیں۔
اگر ایک منتخب صدر، وزیراعظم، رکن پارلیمنٹ کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو کیا غیرمنتخب پولیس اس کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرے؟ کیا غیرمنتخب الیکشن کمیشن، منتخب ارکان کی بے ضابطگیوں پر احتساب نہ کرے؟کیا غیرمنتخب آڈیٹر جنرل منتخب حکومت کی بدعنوانی یا بے قاعدگی پر گرفت نہ کرے؟ ریاست کا ہر ادارہ اپنے دائرے میں اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ بھی اپنے دائرۂ اختیار سے اگر تجاوز کرتی ہے تو عقل اور عدل کا تقاضا ہے کہ اس پر گرفت کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ عوام کا احتساب اور انتخابات میں محاسبہ بھی ایک حقیقت ہے، لیکن وہ احتساب کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ مختلف معاملات کے سلسلے میں اپنے اپنے دائرے میں احتساب اور گرفت کی دوسری شکلیں بھی ہیں، جو معروف ہیں۔ ایسی تمام صورتیں دستور کے نظام کا حصہ ہیں، اس لیے محض منتخب اور غیرمنتخب کے حوالے سے پارلیمنٹ کو کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔
بلاشبہہ ایک اسلامی معاشرے میں مسلم آبادی کے لیے یہ ایک طے شدہ امرِواقعہ ہے کہ پوری کائنات پر خودمختاری اور فرماںروائی اللہ وحدہ کو سزاوار ہے۔ لیکن اس الہامی اصول کے حدود کے اندر ان معاملات میں منتخب نمایندے ہی اقدام کرنے کے مجاز ہیں، کوئی اور نہیں۔ اسی کا اطلاق دستوری ترامیم پر بھی ہوتا ہے۔
ہم بڑے ادب سے عرض کریں گے اور اسلامی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ اربابِ اقتدار کے قرآن و سنت سے انحراف کے معاملات پر عوام الناس نے اپنے انداز میں، اور علما، فقہا اور عدلیہ نے اپنے انداز میں احتساب کیا ہے اور ہر دور میں کھلے عام یہ احتساب کرنا ان کی ذمہ داری رہی ہے۔
دورِ خلافت ِ راشدہؓ میں آزاد عدلیہ کا قیام وجود میں آگیا تھا اور خلیفۂ وقت بھی عدلیہ کے سامنے اسی طرح جواب دہ تھا جس طرح کوئی دوسرا فرد۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی عام افراد کی طرح قاضی کے سامنے پیش ہوئے۔ ہماری ساری فقہ آزاد اور غیرسرکاری انتظامات کے تحت وجود میں آئی ہے۔ افتا اور قضا یہ دو اہم ادارے تھے، جن کے ذریعے پورا قانونی سرمایہ وجود میں آیا ہے۔ مہر کی حد مقرر کرنے کے سلسلے میں خود حضرت عمر فاروقؓ کے فیصلے کو ایک محترمہ صحابیہؓ نے چیلنج کیا اور امیرالمومنین نے اپنے طے کردہ قانون کو واپس لیا اور اعتراف فرمایا کہ: ایک خاتون نے مجھے ایک بڑی غلطی سے بچالیا۔ ہماری تاریخ میں، ججوں کے وضع کردہ قوانین ( judge made law) کا ایک بڑا کردار ہے۔ اسلام نے تو اربابِ اختیار کے باب میں اطاعت کے لیے اصول ہی یہ طے کیا ہے کہ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق ( کسی انسان کی اطاعت جائز نہیں، اگر اس کے نتیجے میں اللہ کی نافرمانی واقع ہوتی ہو)۔ اسلامی حکمرانی کا ایک بنیادی اصول قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا o(النساء ۴:۵۹) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اللہ کے رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر تم اگر کسی معاملے میں تمھارے اور ان کے درمیان نزاع ہو تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو، اگر تم ایمان رکھتے ہو، اللہ اور آخرت کے دن پر۔ یہ بہتر ہے اور بلحاظ انجام بھی اچھا ہے۔
غیرمشروط اطاعت صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہے۔ اصحابِ امر کے اختلاف اور دلیل سے ان سے مجادلہ اور مباحثہ زندگی کی ایک حقیقت ہی نہیں، بلکہ ایک جائز حق بھی ہے۔ لیکن آخری فیصلے کے لیے معیار: اللہ اور اس کے رسولؐ کے ارشادات ہی ہیں، اور فطری طور پر اس کے جائزے اور تحکیم کے لیے کوئی نہ کوئی ادارہ ہونا چاہیے۔ ہماری تاریخ میں علما، فقہا اور قاضی حضرات یہ خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ آج کے دور میں جب قانون سازی کے ادارے انتخابی بنیادوں پر وجود میں آگئے ہیں، تو ایسے منظم نظام کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے۔ ہمارے دور کے اہلِ علم نے اس نازک اور بنیادی ذمہ داری کے تعین کے لیے عدلیہ ہی کو مناسب ادارہ تجویز کیا ہے۔ خود ہمارے دستور میں ’وفاقی شرعی عدالت‘ کا وجود اس کی مثال ہے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے اس سلسلے میں جس راے کا اظہار کیا تھا، اس سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تعبیرِ دستور کے مسئلے پر کلام کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
رہے عام دستوری مسائل، جن میں شریعت کوئی منفی یا مثبت احکام نہیں دیتی، ان میں مقننہ کو آخری فیصلہ کن اختیارات دے دینا بحالاتِ موجودہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک غیر جانب دار ادارہ ایسا موجود ہونا چاہیے، جو یہ دیکھ سکے کہ مقننہ نے کوئی قانون بنانے میں دستور کے حدود سے تجاوز تو نہیں کیا ہے اور ایسا ادارہ ظاہر ہے کہ عدلیہ ہی ہوسکتا ہے۔ (اسلامی ریاست ، مولانا مودودی،ص ۵۳۹)
تاریخی نظائر کا معاملہ بہت نازک ہے۔ ہر دور کے اپنے حالات، مسائل اور امکانات ہوتے ہیں، اور شریعت نے ان کا لحاظ رکھا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملوکیت (بادشاہت) کے باوجود اسلامی قانون کی برکت سے اربابِ اقتدار پر بڑی گرفت رہی۔ یوں قانون کی حکمرانی اور بالادستی کی اعلیٰ نظیریں ہر دور میں مل جاتی ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے بارے میں امریکی مصنف پروفیسر جان لویئس اسپوزیٹو اور پروفیسر جان وول اپنی کتاب Islam and Democracy میں لکھتے ہیں:
بعد کی صدیوں میں عثمانی سلطنت کے دور میں اس معاہدے کے مفہوم کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔ سلطنت ایک اسلامی سلطنت تھی اور اس کا سربراہ سلطان اسلامی قانون کے ماتحت تھا اور اس کا یہ اختیار تسلیم کیا جاتا تھا کہ انتظامی فرمان جاری کرے جو قانون کے مثل ہوتے تھے۔ اِس سلطانی نظام کے علما کو بہرحال یہ حق حاصل تھا جو عموماً سیاسی وجوہ کی بنا پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا کہ بادشاہ کے جاری کردہ کسی ضابطے کو اگر اُن کی راے میں وہ اسلامی قانون کے مطابق نہیں ہے ناجائز قرار دیں۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر سلطنت میں سرکاری علما کا سربراہ شیخ الاسلام ایسے احکامات جاری کرسکتا تھا جس میں بنیادی اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر سلطان کو معزول کیا گیا ہو۔ گو کہ یہ اختیار خال خال ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ اختیار سلطان ابراہیم (۱۶۴۸ئ)، محمد چہارم (۱۶۸۷ئ)، احمد سوم (۱۷۳۰ئ)، سلیم سوم (۱۸۷۷ئ) کی معزولی میں حقیقتاً استعمال کیا گیا۔ اِن رسمی اقدامات میں سلطان کے اختیارات پر تاریخی قدغن اس واقعے کی بنیاد پر عائد کی گئی کہ علما دستور کے نمایندے تھے، یعنی اس میں اسلامی قانون کا مکمل اظہار ہوتا تھا۔ اسلامی ورثے میں یہ اختیارات کے علیحدگی کی امکانی جہتوں کو ظاہر کرتا ہے۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے، تاریخی نظائر سے مقصود اس امر کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ مختلف اَدوار اور زمانوں میں اپنے اپنے حالات کے مطابق، اصل مسئلے کا حل نکالنے کی کوششیں کی گئی ہیں، اور آج ہمارے اپنے حالات کی روشنی میں اس امر کی ضرورت ہے کہ مقننہ (Legislature) کی قانون سازی کو، دستور کی حدود میں رکھنے اور بنیادی دستوری ڈھانچے کی حفاظت کے لیے اداراتی (institutional)انتظام ہو۔ اعلیٰ عدلیہ یہ خدمت انجام دے سکتی ہے اور اس میں اس کی صلاحیت پیدا کرنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ خود عدلیہ پر بھی عوام، میڈیا، علما اور سول سوسائٹی کی نگاہ اسی طرح ہونی چاہیے، جس طرح پارلیمنٹ اور حکومت پر رکھی جانی ضروری ہے۔ تقسیمِ اختیارات کے ذریعے زیادہ مؤثر انداز میں ایک جدید ریاست میں شریعت کے مقاصد اور اسلامی جمہوری نظام کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔احتساب سے بالاکسی کو بھی نہیں ہونا چاہیے، لیکن یہ تصور کہ قانون سازی اوردستور میں ترمیم کے غیرمحدود اختیارات پارلیمنٹ کو صرف اس لیے دے دیے جائیں کہ وہ منتخب ہے، ایک محل نظر مفروضہ ہے۔ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور مملکت کی نظریاتی، اخلاقی اور جمہوری شناخت کی حفاظت کے لیے عدلیہ کا ایک واضح کردار، مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ البتہ خود عدلیہ کی ساخت ، معیار اور عمل کے باب میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے کہ وہ معیارِ مطلوب پر پوری اُترے اور خوداحتسابی کی روایت کے فروغ کے ساتھ، آزادانہ احتساب کے لیے بھی عدالت کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے مناسب اور مبنی بر حکمت انتظام کا اہتمام بھی مفید ہوگا۔
ہر جج ہی نہیں، ہر صاحب ِ علم کا حق ہے کہ وہ اپنے مطالعے اور تجزیے کی روشنی میں اپنی دیانت دارانہ راے قائم کرے اور اس کا بلاتکلف اظہار کرے۔ اختلاف راے اگر غوروفکر کی نئی راہیں کھولنے کا ذریعہ بنے تو ایک بڑی نعمت ہے۔ ہر علمی بحث و مباحثے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کو ایسے بہت سے گوشوں پر سوچنے کی تحریک ہوتی ہے، جو بالعموم نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ محترم جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے بالعموم اپنی راے کا اظہار دلائل سے اور سلیقے سے کیا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’قراردادِ مقاصد ‘ کی طرح خود ’دستورِ پاکستان‘ کے بارے میں ان کی متعدد آرا نے کچھ ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ وہ چونکا دینے والی ہیں۔ چونکہ ان آرا کا اظہار عدالت ِ عظمیٰ کے ایک بڑے وقیع فیصلے کا حصہ ہے، اس لیے اس پر کلام، تلاشِ حق کی جستجو کا ایک ناگزیر حصہ بن گیا ہے۔ ہم پورے ادب سے عرض کریں گے کہ پاکستان کے دستور، اس کے پس منظر، اور اس کے بنانے والوں کے بارے میں جو کچھ انھوں نے فرمایا ہے اس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ دستور کے بارے میں ایک خاص نوعیت کا بیانیہ زیربحث مسائل کی تفہیم اور تنقیح کے لیے کہاں تک ضروری تھا۔ نیز بھارت کے دستور کے معتبر اور محترم ہونے اور پاکستانی دستور کے اعتبار نامے (credentials) کے داغ دار ہونے کے تذکرے سے کتنی روشنی ان تین امور پر پڑتی ہے، جن کے بارے میں عدالت کو رہنمائی دینا تھی اور فیصلہ کرنا تھا۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور ایک بار پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ ۱۹۷۳ء کا دستور جن حالات میں منظور ہوا، وہ ایک تاریخی کارنامہ تھا۔ تاہم وہ ایک انسانی کوشش تھی۔ بہت سے پہلوئوں سے اس میں کئی خلا اور سقم تھے، جن میں سے کچھ کو ترامیم کے ذریعے دُور کردیا گیا ہے مگر کچھ اب بھی باقی ہیں، جن کی اصلاح کی کوشش جاری رہنی چاہیے۔
’قراردادِ مقاصد‘ ، اسلامی تعلیمات و احکام کی تنفیذ اور دستور کے مندرجات کے سلسلے میں بھی کچھ مسائل اور اُلجھنیں تاحال موجود ہیں۔ خصوصیت سے وہ اُمور جن کا تعلق دفعہ۴۵ اور دفعہ ۲۴۸ سے ہے۔ تمام ہی اصلاح طلب اُمور پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔ پالیسی کے اصولوں میں سے جو چیزیں حقوق کے دائرے میں آنی چاہییں اور جنھیں قابلِ داد رسی (justiciable) ہونا چاہیے، ان کے لیے کوشش جاری رہنی چاہیے لیکن دستور ایک محترم دستاویز ہے، اس کے بارے میں احترام اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔
بھارت میں اس کے بانیوں نے دستور تیار کیا تھا۔ اس لیے بھارت کے دستور کی فکر اور ارتقا میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہے (پیرا ۱۸۵-اے) ۔ (ص ۵۳۵)
یاد رہے کہ بھارتی دستور بہت پہلے ۱۹۴۹ء میں تشکیل دیا گیا تھا اور دستور کے بنانے والے وہ لوگ تھے جنھوں نے آزادی کی جدوجہد کی تھی۔ دستور کو اپنی اصل شکل میں بھارت کے دستوری قانون میں اسے خصوصی تقدس کا مقام حاصل ہے۔
ہمیں اعتراف ہے کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی بروقت دستور بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی، اور جب ۱۹۵۴ء میں دستور کا مسودہ تیار ہوگیا تو اس طاقت ور اور بے لگام بیوروکریسی نے، جس کا فی الحقیقت پاکستان کی تحریک میں کوئی حصہ نہ تھا، شب خون مارا اور اسمبلی کو برطرف کردیا۔ لیکن دنیا کا ہر تحریری دستور محترم ہے، اور حکمرانی سے متعلقہ اُمور میں آخری مرجع کی حیثیت رکھتا ہے۔ محض اس بنا پر کہ اس کے بنانے والے تحریکِ آزادی کے قائدین ہیں، وہ غلطیوں اور کمزوروں سے پاک نہیں ہوجاتا۔ ہم بھارت کے دستور کے مشہور ترین شارح پروفیسر باسو کے حوالے سے عرض کرچکے ہیں کہ دستور کے بنانے والے بلاشبہہ تحریکِ آزادی کے قائدین تھے مگر دستور کا تین چوتھائی حصہ ’۱۹۳۵ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ‘ سے ماخوذ تھا اور باقی حصوں میں بھی دنیا کے کئی دساتیر کی خوشہ چینی کی گئی تھی۔ پھر اسی بھارتی دستور میں ۱۵؍اگست ۲۰۱۵ء تک ۱۰، ۲۰ نہیں پوری ۱۰۰؍ ترامیم ہوچکی ہیں۔ان میں چار ترامیم ایسی ہیں، جنھیں وہاں کی اعلیٰ عدلیہ خلافِ دستور قرار دے چکی ہے۔
واضح رہے کہ مغربی دنیا کا پہلا تحریری دستور امریکا کا ہے، جو ۱۷۸۹ء میں نافذ ہوا اور اس میں ۲۲۶سال میں کل ۲۷ ترامیم ہوئی ہیں۔ پاکستان کے دستور میں جو ۱۹۷۳ء میں نافذ ہوا، ۲۰۱۵ء تک ۲۱؍ ترامیم ہوئی ہیں۔
کسی دستور کے معیاری ہونے کی بنیاد دستور کے مندرجات پر ہے، محض اس امر پر نہیں کہ اس کے بنانے والے تحریکِ آزادی کے قائدین تھے۔ گذشتہ ۷۰سال میں ۱۵۰ ملک آزاد ہوئے ہیں اور بیش تر کے دساتیر ان کی تحریکاتِ آزادی کے قائدین ہی کے بنائے ہوئے ہیں، لیکن کتنے دستور ایسے ہیں، جو باربارناکام ہوچکے ہیں اورکتنے ہیں جو بدترین آمریتوں کے قیام کا ذریعہ بنے ہیں۔
پاکستان کی ’قراردادِ مقاصد‘ بھی تو اس دستورسازاسمبلی نے بنائی تھی جو تحریکِ پاکستان کے قائدین پر مشتمل تھی اور جن کا انتخاب انھی بنیادوں پر اور اسی طریق کار سے ہوا تھا، جن پر بھارت کی دستورساز اسمبلی منتخب ہوئی تھی۔ لیکن ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ’قراردادِ مقاصد‘ اپنے انقلابی پیغام اور منفرد تصورِ ریاست کے باوجود کیوں معتبر نہ تصور کی جائے؟ اور بھارت کا دستور معتبر اور روشنی کا مینار تصور کیا جائے؟
۱۹۷۳ء کا دستور بانیانِ پاکستان کے نظریات کا اظہار نہیں کرتا تھا بلکہ اس وقت کے سیاسی رہنمائوں کے نظریات کا اظہار کرتا تھا۔ اسے ایک ایسی پارلیمنٹ نے بنایا تھا جس کی اکثریت ایک خاص پارٹی کے ممبران پر مشتمل تھی جو کھلے سوشلسٹ منشور پر منتخب ہوئی تھی۔ یہ نکتہ کچھ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ آزادی و خودمختاری کے لیے اصل حرکت کا آغاز ایک بالکل مختلف بنیاد پر ہوا تھا، یعنی قائداعظم کا پیش کیا ہوا وژن کہ برعظیم کے مسلمان ہربامعنی مفہوم میں ایک قوم ہیں اور اس کا حق رکھتے ہیں کہ ایک قومی ریاست بنائیں اور تخلیق کریں۔ تاریخی طور پر بیان کیا جائے کہ اسلامی نظریہ، پاکستان کی تخلیق کا اصل سبب اسلام تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جن پارٹیوں نے ۱۹۶۵ء کا دستور بننے سے پہلے انتخابات میں حصہ لیا خاص طور پر مذہبی پلیٹ فارم سے وہ پارلیمنٹ میں مناسب مقام حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔(ص ۱۸، ۸۴، ۳۰۸)
جب ہم دستور کا معائنہ کرتے ہیں جیساکہ وہ اصل میں تحریر کیا گیا تھا تو ہم دیکھتے ہیں مذہبی اصول اور ساتھ ہی ساتھ سوشلسٹ نظریات کا عکاس ہے۔ دستور کی دفعہ۲ یہ بیان کرتی ہے کہ اسلام ہی ریاست کا مذہب ہوگا۔ اس کے فوراً بعد دفعہ۳ بتاتی ہے کہ ریاست استحصال کے تمام طریقوں کے خاتمے کو یقینی بنائے گی اور اس بنیادی اصول کی بتدریج تکمیل کو یقینی بنائے گی اور ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے گا۔ اس طرح دفعہ۳دراصل دستور کی سوشلسٹ اصل کا اظہار کرتی ہے۔ ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق لینا اور کام کے مطابق دینا بلاشبہہ مارکسزم اور لینن ازم کا بنیادی اصول ہے (درحقیقت یہ زبانUSSR کے دستور ، جیساکہ وہ اُس وقت تھا، کی دفعہ ۱۲ سے نقل کی گئی ہے جو بلاشبہہ کارل مارکس کی تحریرات پر مبنی تھا)۔ استحصال کے تصور کا ایک فنی مفہوم ہے جیساکہ وہ معاشیات میں کارل مارکس کے نظری کام میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ حوالہ کسی بھی استحصال یا ہر استحصال کے لیے نہیں ہے بلکہ استحصال کی وہ قسم ہے جو سرمایہ دارانہ طبقہ ورکنگ کلاس کے مفادات کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ دل چسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دفعہ۲ اور ۳ کی دفعات میں کس طرح مفاہمت پیدا کی جائے کیونکہ دونوں اصول دستور کے لیے بنیادی اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ واضح طور پر یہ بنیادی ثنویت ہے۔ مارکسزم مذہب کی تمام شکلوں کو مسترد کرتا ہے کیونکہ وہ صبر اور تکلیف برداشت کرنے کو بڑی خوبی بتاتا ہے جو ایک پُرتشدد اور انقلابی جدوجہد ہے (کمیونسٹ پارٹی جس کا ہراول دستہ بورژوا کا تختہ اُلٹتا ہے)۔ مارکسزم کے ایک مشہور مقولے کے مطابق: مذہب کو افیون بیان کیا گیا ہے۔ بہرحال یہ ناپسندیدہ حقیقت برقرار رہتی ہے کہ ہمیں مارکسزم اور اسلام کے عقائد کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے۔
ہم نے فاضل جج صاحب کا یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ ان کے ذہن کا وہ مخمصہ جس سے وہ پریشان ہیں، انھی کے الفاظ میں سامنے آجائے اور جس اُلجھن کی وجہ سے وہ دستور کے بنیادی ڈھانچے کے برملا منکر ہیں، اس کی بنیاد کو سمجھا جاسکے اور اس پر گفتگو ہوسکے۔
محترم جج صاحب کے فیصلے کے پیراگراف ۱۸ اور ۱۹ کا تجزیہ کیا جائے تو درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
۱- پاکستان کا ۱۹۷۳ء کا دستور بنانے والے، پاکستان کے اصل معمار نہیں تھے اور وہ صرف ۱۹۷۰ء کے عشرے کی سیاسی نسل کی نمایندگی کرتے تھے۔
۲- یہ دستور ایک خاص جماعت کے ذہن کی تخلیق ہے جو سوشلزم کی علَم بردار تھی۔
۳- پاکستان کے قیام کی تحریک کا محرک نظریاتی تھا۔ اسلام قیامِ پاکستان کی اصل بنیاد ہے۔
۴- ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ان جماعتوں کو قابلِ لحاظ کامیابی نہ ہوئی جو اسلام کے پلیٹ فارم سے شریکِ انتخاب ہوئی تھیں۔
۵- دستور، اسلام اور مارکس ازم، لینن ازم کے دو متحارب تصورات کی زد میں آگیا اور وہ ان دونوں کاملغوبہ ہے، جو باہم متحارب تصورات اور نظریات ہیں۔
۶- ایسے تضادات کی موجودگی میں دستور کا ایک بنیادی ڈھانچا کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ایک ایسا تضاد ہے جس نے دستور کو یک رنگی سے محروم کر دیا ہے اور اس میں کسی بنیادی اور مربوط ڈھانچے کا تصور ہی ممکن نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نکتہ ۲۱ میں جناب خالد انور صاحب ایڈووکیٹ کے الفاظ میں اسے ’بے راحت شادی‘ قرار دیا ہے اور یہ فتویٰ بھی اس فیصلے میں موجود ہے کہ ایسی شادی کا مقدر طلاق ہی ہوسکتا ہے۔
اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی دستور سازی کی ذمہ داری ادا نہ کرسکی اور پھر ۱۹۵۶ء میں جو پہلا دستور بنا، اسے فوجی قیادت نے بیوروکریسی کے تعاون سے منسوخ کرڈالا۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف وجوہ سے دساتیر منسوخ یا غیرمؤثر ہوتے رہے ہیں اور ہرناکامی کے بعد ہر زندہ قوم نے اپنے لیے نیا دستور بنایا اور اپنے اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے منزل کی جانب گامزن ہوئی۔ فرانس اور جرمنی اس کی اہم ترین مثالیں ہیں۔
فرانس میں تو اس وقت پانچواں دستور نافذ ہے، لیکن اس عمل کی وجہ سے نیا دستور غیرمعتبر نہیں ہوجاتا اور ضروری نہیں کہ نئی نسل کا بنایا ہوا دستور تاریخی حقائق کے ادراک اور قومی عزائم کی ترجمانی کے باب میں اپنے پیش روئوں سے تہی دست ہو۔ فرانس اور جرمنی میں بھی فسطائی قوتوں نے اصل دساتیر کو تار تار کر دیا تھا، مگر پھر فرانس نے اپنے تصور کے مطابق اٹھارھویں صدی کے انقلابِ فرانس ہی کے نعروں اور مقاصد کے اعادے کے لیے نیا دستور بنایا۔ جرمنی اور اٹلی نے ہٹلر اور مسولینی کے دستوروں سے نجات پاکر، اپنے اپنے حالات کے مطابق جمہوری دساتیر کی تدوین کی۔ روس نے کبھی زارِشاہی دور کے دستور کے تحت زندگی گزاری۔ پھر اشتراکی انقلابِ روس کے جلو میں نیا دستور بنا۔ اسی نظام کے تحت ۱۹۳۶ء میں دوسرا دستور وجود میں آیا۔ پھر ۲۰۰۷ء کا دستور بنا۔ زندگی کے ایسے نشیب و فراز سے بہت سی اقوام کو سابقہ رہتا ہے۔
ہماری تاریخ بھی کچھ ایسے ہی حادثات سے عبارت ہے۔ لیکن یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’قراردادِ مقاصد‘ وہ بنیاد کا پتھر ہے جو ہردور میں دستور اور نظامِ حکمرانی کے لیے رہنما قوت رہا ہے اور تسلسل کا ذریعہ ہے۔ ۱۹۵۶ء کا دستور جس اسمبلی نے بنایا، وہ اس وقت کی پیداوار تھی، مگر دستور کے خدوخال کا تعین اس وقت کی سیاسی قوتوں، خصوصیت سے چودھری محمدعلی کی قیادت میں تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور قراردادِ مقاصد کی روشنی میں کیا گیا تھا۔ ۱۹۶۲ء کا دستور ایک فوجی آمر کا مسلط کیا ہوا دستور تھا، مگر اسے بھی نئی اسمبلی کے تحت صدارتی شکل دینے کے باوجود، ۱۹۵۶ء کے نظام کے قریب کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسی طرح جو اسمبلی دستور سازی کے اختیار کے ساتھ ۱۹۷۰ء میں منتخب ہوئی تھی ، اس نے دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ۱۹۷۲ء اور ۱۹۷۳ء میں دستور سازی کے عمل کو تیز کیا۔ مسلسل کوشش سے اپریل ۱۹۷۳ء میں نیا دستور منظور کیا، جو ۱۴؍اگست ۱۹۷۳ء سے نافذ ہوا۔ بلاشبہہ یہ ۱۹۷۰ء کے عشرے کی سیاسی قیادت کا بنایا ہوا دستور ہے ،لیکن محض ان کے دماغ کی اختراع نہیں ہے۔ اس کی بنیاد ۱۹۴۹ء کی ’قراردادِ مقاصد‘ اور ۱۹۵۶ء کا دستور تھے۔ اس طرح اس وقت کی قیادت کے خیالات اور عزائم کے ساتھ تاریخی تسلسل کی قوت بھی ایک کارفرما قوت کی حیثیت سے موجود تھی۔
۱۹۷۳ء کا دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان، ۱۹۶۲ء کے دستور سے جوہری طور پر مختلف مگر ۱۹۵۶ء کے دستور سے بھی بہتر دستاویز ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس میں بہت سے معاملات پر سمجھوتا کیا گیا اور کچھ پہلو سے خامیاں رہیں۔ لیکن ۱۹۷۱ء کے بعد کے حالات پر نظر رکھی جائے تو اسے ایک مثبت اور تاریخی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس وقت کے دستور کی کچھ خامیوں کی نشان دہی محترم جج صاحب نے کی ہے، جن میں متعدد حوالوں سے درست نشان دہی ہے۔ ان میں سے بیش تر خامیوں کی اصلاح دستوری ترامیم کے ذریعے کردی گئی ہے۔ خصوصیت سے اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے اور اس کا اعتراف و اِدراک محترم جج صاحب کے فیصلے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ارتقا کا ایک فطری عمل ہے۔ لیکن محض اس وجہ سے کہ یہ دستور تحریکِ پاکستان کی قیادت کا بنایا ہوا نہیں ہے، اس سے دستور بے توقیر نہیں ہوجاتا۔ ہماری نگاہ میں تاریخی تسلسل کی وجہ سے اس دستور کو فطری ارتقائی عمل کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس پہلو سے یہ دستور ایک ایسی دستاویز ہے جس پر قوم بجاطور پر فخر کرسکتی ہے۔
جس اسمبلی نے یہ دستور منظور کیا ، اس کے تمام ارکان نے اسے متفقہ طور پر منظور کیا تھا، غالباً صرف ایک رکن ایسا تھا، جس نے دستخط نہیں کیے۔ گویا اسے پوری اسمبلی کی تائید حاصل تھی۔ پھر پوری قوم نے جس طرح اس کو قبول کیا اور بعد کے اَدوار میں ہرانحراف کے بعد اس دستور کی طرف مراجعت کے لیے جو تاریخی جدوجہد کی ہے، اس نے اس دستور کو بجاطور پر ایک تاریخی قومی دستاویز کا درجہ دے دیا ہے۔
ہم پھر یہ بات عرض کریں گے کہ کسی دستور کے معیاری یا غیر معیاری اور معتبر یا غیرمعتبر ہونے کا انحصار محض اس بات پر نہیں ہوتا کہ اس کے بنانے والوں میں کون شریک تھا، جو اپنی جگہ اہم ہے مگر فیصلہ کن نہیں، بلکہ اصل اہمیت دستور کے مندرجات (content) کی ہے اور اسی کسوٹی پر اسے جانچنا چاہیے۔
اس پس منظر میں ہم دو اُمور کی طرف خصوصیت سے متوجہ کرنا چاہتے ہیں:
پہلا یہ کہ ۱۹۷۳ء سے اب تک کے دستوری اور سیاسی تجربات اس بات پر شاہد ہیں کہ ۱۹۷۳ء کا دستور ہی ملک اور قوم کو مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کر رہا ہے اور ہر انحراف کے بعد اس کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے۔ اس دستور میں ہر تحریف کے بعد اصل کی طرف مراجعت میں نجات کی راہ موجود ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ’قراردادِ مقاصد‘ اور پاکستان کے اصل اہداف کی روشنی میں دستور میں نئی اصلاحات اور اضافے ہوتے رہیں۔
دوسری بات جس پر غور کرنے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ریاست کی نظریاتی تشکیل اور اسلامی نظریے کو دورِ جدید میں ریاست اور حکمرانی کے نظام میں سمونے کے سلسلے میں جو پہلا تاریخی قدم ’قراردادِ مقاصد‘ کی شکل میں ۱۹۴۹ء میں اُٹھایا گیا تھا ، اس نے دستور سازی کے میدان میں وسیع پیمانے پر اثر ڈالا۔ اس کی روشنی میں اللہ کی حاکمیت، قانون سازی میں قرآن و سنت کے کردار، انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو میں اسلام کے رہنما اصولوں اور اقدار کا کردار، اسلام کے نظامِ انصاف اور عدلِ اجتماعی کو پالیسی کے اصول بنانے کے باب میں نشانِ منزل متعین کرنے کا جو اقدام پاکستان میں اُٹھایا گیا تھا، اس کے اثرات عالمِ اسلام میں بعد میں بننے والے دساتیر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
۱۹۴۹ء میں پاکستان کی ’قراردادِ مقاصد‘ کی منظوری سے پہلے کے دساتیر پر نگاہ ڈالیے، زیادہ سے زیادہ دو چیزیں چند مسلم ممالک کے دساتیر میں ملتی ہیں، یعنی: ’’ریاست کا مذہب اسلام ہوگا اور سربراہِ مملکت مسلمان ہوگا‘‘۔ لیکن جمہوریت،حقوقِ انسانی، اجتماعی عدل، تعلیم و تربیت، معیشت اور معاشرت کے باب میں اسلام کا کردار کیا ہوگا، اس باب میں دساتیر خاموش تھے۔ اسی طرح مملکت کا نام ملک کے دینی اور نظریاتی تشخص کا آئینہ دار ہو، یہ بھی ہمیں نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اس سلسلے میں پہل ’قراردادِمقاصد‘ اور پھر ۱۹۵۶ء کے دستور کی تشکیل میں ہوئی۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ممالک نے اپنے نظریاتی تشخص کے اظہار کے لیے ملک کے نام میں اسلام کو شامل کیا۔ ۱۹۷۹ء کے انقلابِ ایران کے بعد ایران کو ’اسلامی جمہوریہ ایران‘ قرار دیا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں موریتانیا نے اپنے کو ’اسلامی جمہوریہ‘ قرار دیا اور دستور کی ’دفعہ ۱‘ میں اس کی تشریح یوں کی کہ: ’’موریتانیہ ایک اسلامی ، ناقابلِ تقسیم، جمہوری اور سوشل جمہوریہ ہے‘‘۔
اسی طرح افغانستان میں اشتراکی روس کے انخلا کے بعد جو دو نظام قائم ہوئے، ان میں سے ایک میں اسلامی امارت (۱۹۹۶ئ) اور دوسرے میں اسلامی جمہوریہ افغانستان (۲۰۰۴ئ) قراردیا۔ اگر ان ممالک کے دساتیر کے دیباچے کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں اللہ کی حاکمیت کے تصور کا صاف الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے۔ اس طرح ریاست کی پالیسی کے رہنما اصولوں میں بھی اسلام کے اصولوں اور اقدار کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے، گویا:
ہم نے جو طرزِ فغاں کی تھی قفس میں ایجاد
’آج‘ گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھیری ہے
سوشلزم اور اسلام کے ’ملغوبے‘ کا طعنہ؟
محترم جسٹس ثاقب نثار صاحب نے دستور کی ایک اور کمزوری کے طور پر اس امر کا اظہار کیا ہے کہ: وہ ایک خاص جماعت کے ذہن کی تخلیق ہے اور یہ کہ وہ جماعت سوشلزم کی علَم بردار تھی جو اسلام کی ضد ہے۔ اس اسلام کی، جو پاکستان کے قیام کا اصل محرک تھا۔ عدالتی فیصلے میں کیے گئے یہ دونوں دعوے محلِ نظر ہیں۔
۱۹۷۳ء کے دستور کی صورت گری کا ہرمرحلہ کھلی کتاب کی طرح موجود ہے اور خود اسمبلی کی کارروائی اور دستوری مسودات، کمیٹیوں کی رپورٹیں، اختلافی نوٹ اور پھر متفق علیہ اعلانات پبلک ریکارڈ کا حصہ ہیں، جن سے ہرکوئی استفادہ کرسکتا ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ اتنی معلومات کی موجودگی میں فاضل جج نے یہ دعویٰ کیسے کر دیا کہ یہ دستور محض ایک جماعت کے ذہن کا عکاس ہے۔
اس دستور کی تو سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ یہ متفق علیہ دستاویز ہے اور ہمیں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں اور متعدد اقدامات سے کتنی ہی شکایت ہو، لیکن یہ ان کا ایک تاریخی کارنامہ ہے کہ انھوں نے دستور سازی کو پارٹی کی سیاست کا شکار نہیں ہونے دیا اور پوری کوشش کی کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں اس عمل میں شریک ہوں۔ ان کے نقطۂ نظر کی ہمراہی سے معاملات طے کیے جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنی اعلان شدہ پوزیشن سے بار بار پیچھے ہٹنا گوارا کرلیا اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے قربانی دی اور دوسروں کو بھی ہم کار اور ہم راہ رکھنے کے لیے دستور سازی میں دعوت دی۔ ان کا یہی وہ عمل ہے جس نے ۱۹۷۳ء کے دستور کو پیپلزپارٹی کا نہیں پاکستان کی تمام جماعتوں کا اتفاق راے سے طے کیا جانے والا دستور بنایا۔ ان کے بعد یہی روایت قائم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ خصوصیت سے اٹھارھویں ترمیم میں جس کے ذریعے دستور کے بہت سی کج رویوں ( distortions) کو دُور کردیا گیا اور ۱۹۷۳ء کے وژن سے قریب تر کیا گیا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ کے وژن کی روشنی میں آگے قدم بڑھائے گئے اور یہ کام بھی تمام جماعتوں کے مکمل تعاون اور اتفاق راے سے ہوا۔ چند اُمور پر اگر اختلاف رہا بھی تو اسے مشترکات کی بنیاد پر قومی اتفاق راے پیدا کرنے میں حائل نہ ہونے دیا۔
اس سلسلے میں تاریخی حقائق کے نظروں سے اوجھل ہوجانے سے بچنے کے لیے ہم چند اُمور کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں:
۱۹۷۳ء میں دستور سازی کا عمل جب شروع ہوا، تو اس کا آغاز ایک عبوری آئین سے ہوا، جو پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے ذہن کا عکاس تھا اور اس میں پارلیمانی نہیں صدارتی نظام کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ اسلامی نظریہ، بنیادی حقوق، اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاملہ بھی بہت کمزور تھا۔ لیکن حزبِ اختلاف کی تمام ہی جماعتوں نے ان تمام کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دستور کو صحیح اسلامی جمہوری اور وفاقی اصولوں کے مطابق مرتب کرانے کی جدوجہد کی، چار اُمور مرکزی نوعیت اختیار کرگئے:
۱- اسلامی نظریہ اور ’قراردادِ مقاصد‘ کا کردار۔
۲- انسانی حقوق کا مسئلہ۔
۳- صوبوں اور مرکز کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور صوبوں کی خودمختاری کی حدود۔
۴- پارلیمنٹ کا کردار اور انتظامیہ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے اختیارات میں توازن۔
کئی مہینے کے مذاکروں، احتجاجوں، اسمبلی کے بائیکاٹ اور نہ معلوم کس کس عمل کے بعد ۲۰؍اکتوبر ۱۹۷۲ء کو حکومت اور حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں دستور سازی کے لیے کیے گئے ۴۲؍ اصولوں پر اتفاق ہوا۔ وزیرقانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے دستور کے مسودے پر خطاب کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں اس امر کا اعتراف کیا کہ اسمبلی کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اجتماع میں:
چار دن کی گفتگو اور بحث و مباحثے کے بعد ۴۲ بنیادی اصولوں پر اتفاق راے ہوا، جسے ’’۲۰؍اکتوبر کی دستوری مفاہمت‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان تجاویز کا تعلق کم سے کم ۴۰ فی صد حزبِ اختلاف سے تھا جنھیں اکثریتی پارٹی نے قبول کیا۔ (کارروائی قومی اسمبلی، ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ئ، ص ۲۴۶۴)
بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔ ان اصولوں کی روشنی میں دستور کے پورے مسودے پر نظرثانی کی گئی اور اس طرح ۲۸۰ دفعات پر مشتمل دستور کا مسودہ تیار ہوا۔ حزبِ اختلاف کے مزید اصرار پر ۱۰ سے ۱۵ دفعات میں ترامیم تسلیم کیں اور پھر آخری مرحلے پر ایک بار پھر پالیسی کے بنیادی اصولوں کے متعلق ۱۲ دفعات میں حزبِ اختلاف کے اصرار پر تبدیلی کی گئی۔ آخری دو دنوں میں ایک بار پھر دستور کی سات دفعات میں حزبِ اختلاف کی ترامیم کو قبول کیا گیا۔ بالکل آخری مرحلے پر ججوں کے احتساب کے بارے میں پارلیمنٹ کے کردار کے مسئلے پر حکومت کے موقف کو حزبِ اختلاف نے ماننے سے انکار کیا اور بھٹوصاحب نے کمال دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کے نقطۂ نظر کو قبول کرلیا۔
یہ ہیں اصل تاریخی حقائق___ ان کے باوجود اگر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اسمبلی کا متفق علیہ دستور نہیں تھا اور وہ صرف ایک جماعت کے ذہن کا عکاس ہے تو اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ؎
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو ، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
اس سلسلے کے دوسرے نکتے پر بھی کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ پیپلزپارٹی نے سوشلزم کو اپنی معاشی پالیسی کی بنیاد قرار دیا اور ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے سے سیاسی فائدہ اُٹھایا۔ عالمی سطح پر اور خود ملک میں ۱۹۶۰ء کے عشرے کے اواخر اور ۱۹۷۰ء کے عشرے کے شروع میں سوشلسٹ فکرنے ایک ہلچل مچائی ہوئی تھی اور جماعت اسلامی پاکستان نے اور دوسری دینی قوتوں نے سوشلزم کی اس یلغار کا سیاسی، علمی اور مکالماتی سطح پر بھرپور مقابلہ کیا۔ لیکن پیپلزپارٹی کو ’مارکسزم اور لینن ازم‘ سے مربوط فکر اور سیاسی اسٹرے ٹیجی کا علَم بردار کہنا اور پاکستان کے دستور میں سوشلزم کے وجود کا دعویٰ کرنا ایسے دعوے ہیں جو دلیل سے محروم ہیں۔
مارکسزم ایک مربوط فلسفہ ہے جس کا اپنا تصورِ کائنات، تصورِ تاریخ، تصورِ زندگی، تصورِ انسان، تصورِ قانون، تصورِ معیشت اور ایک مخصوص تجزیہ اور تنظیم نو کا نقشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس اور لینن اس سوشلزم سے برأت کا اعلان کرتے ہیں، جو ۱۸ویں صدی سے ۲۰ویں صدی تک یورپ میں مختلف شکلوں میں ظہور پذیر ہوئے۔ مارکس کی تصنیف Das Kapital[سرمایہ] محض معاشیات کے موضوع پر ایک کتاب نہیں ہے، بلکہ وہ تاریخ اور خصوصیت سے صنعتی انقلاب کے بعد سرمایہ دارانہ نظام پر ایک ایسی نقدو جرح (critique) ہے، جو طبقاتی تصادم (class conflict) کے محور کے گرد گھومتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں سوشلزم اور اسلام کو جمع کرنے کی کوشش ضرور کی گئی تھی۔ مگر جہاں تک دستورِ پاکستان کا تعلق ہے، وہ مارکسزم کے فلسفے اور اس کے سیاسی و معاشی نظام سے دُور دُور تک کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ پیپلزپارٹی میں بھی یہ بات صرف سوشلزم کے تذکرے کی حد تک تھی، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی نے جو منشور دیا تھا، اس کے چار ستون تھے جن کی نشان دہی پارٹی کی تمام دستاویزات میں نمایاں طور پر کی گئی تھی اور وہ یہ تھے:
۱۹۷۰ء کے منشور کا دوسرا پیراگراف ہی یہ اعلان کرتا ہے کہ:
پارٹی پروگرام کی روح اور تفصیلات اسلام کی تعلیمات کا تقاضا کرتی ہیں اور سرگرمیاں اُس کے مطابق ہوتی ہیں۔ پارٹی اسلام اور قرآن کے خلاف کوئی قانون نہیں بنائے گی۔ پارٹی کی تجاویز: عقیدے میں درج احکامات کے اصول اور روح سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ اسلام میں مسلمانوں کے اندر جو مساوات بیان کی گئی ہے، وہ صرف ایک ایسے معاشی اور سماجی ڈھانچے میں ممکن ہے، جو اسے حاصل کرنے کے لیے روبۂ عمل لایا گیا ہو۔ ( پیپلزپارٹی کا منشور ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۷ئ، پی پی پی سرکاری مطبوعات، ۲۰۰۹ئ)
اس منشور میں استحصال (exploitation) سے پاک معاشرے کی بات ہوئی ہے، لیکن مارکس اور لینن کے تصور کے مطابق نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کے طور پر۔ ملاحظہ ہو:
ایک سوشلسٹ پروگرام اختیار کرنے ہی میں مسائل کا حقیقی حل ہے، جیساکہ منشور میں بیان کیا گیا ہے۔ پورے پاکستان کی معیشت کو تبدیل کردیا جائے، استحصال کو روک دیا جائے اور دستیاب وسائل کو اختیار کرکے سرمایہ دارانہ مداخلتوں کے بغیر ملک کو ترقی دی جائے۔ یہ اسلام کی سیاسی اور اجتماعی اخلاقیات کا نتیجہ ہے۔ اس طرح پارٹی دراصل مسلم عقیدے کے اعلیٰ اصولوں کو عملاً برپا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ (ایضاً، ص۹)
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پارٹی کے خیالات میں جھول اور تضادات تھے۔ جن کے تحت وہ سوشلزم کو ایک محدود معنی میں لے رہی تھی حالانکہ وہ ایک مکمل نظامِ زندگی کا دعویٰ رکھتا تھا۔ نیز اسلام کے کچھ تصورات کی تشریح کے باب میں بھی اس کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا تھا اور ہم نے کیا۔ لیکن منشور کے ان واضح اعلانات کے علی الرغم یہ کہنا کہ دستور سازی کے عمل میں شریک بڑی جماعت پیپلزپارٹی مارکسزم اور لینن ازم کی علَم بردار تھی اور اس نے دستور میں روس کے نظام کے تصورات کو ٹھونس دیا ہے، ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں۔
اسلام اور سوشلزم کو خلط ملط کرنے اور متضاد اور متصادم تصورات کے امتزاج سے ایک ملغوبہ بنانے کے باب میں اگر تنقید کا ہدف اس وقت کی اکثریتی جماعت پیپلزپارٹی کا ۱۹۷۰ء کا منشور ہوتا تو اس میں صداقت ہوتی۔ واضح رہے کہ ۱۹۷۷ء میں اسی پارٹی کے منشور کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ اس پارٹی کی قیادت خود سوشلزم کے معروف تصور سے جان چھڑانے اور اسلام کے سہارے سے تعبیرات کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور کے متن میں ایسے تضادات کے اجتماع کا دعویٰ حقیقت سے کوئی نسبت نہیں رکھتا، اور ایک معتبر عدالتی فیصلے میں ایسے دعویٰ کا آنا اور اس کو چیلنج نہ کیا جانا علمی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے بڑے خسارے کا معاملہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تعبیر کی اس غلطی کی اصلاح ضروری سمجھتے ہیں۔
محترم جسٹس صاحب کے پورے فیصلے میں جس ایک بات کو دستور کو سوشلسٹ نظریے سے ہم آہنگ کرنے کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’دستور کی دفعہ ۳ میں استحصال اور تقسیم دولت کا جو تصور دیا گیا ہے، وہ اس وقت کی سوویت یونین کے دستور کی دفعہ۱۲ سے ماخوذ ہے۔ گویا یہ ایک مماثلت، دستور کو سوشلسٹ رنگ میں رنگنے کے لیے کافی ہے‘‘۔ دستورِ پاکستان کی دفعہ۳ میں ہے:
ریاست استحصال کی تمام قسموں کے خاتمے کو یقینی بنائے گی اور بتدریج اِس بنیادی اصول کی تکمیل کرے گی کہ ہر ایک سے اُس کی صلاحیت کے مطابق لیا جائے اور ہر ایک کو اُس کے کام کے مطابق دیا جائے۔
سوویت روس کے اُس وقت کے دستور کی دفعہ ۱۲ میں درج تھا:
سوویت یونین میں کام ایک فرض ہے اور ہر مناسب جسامت کے مالک شہری کے لیے عزت کی بات ہے۔ اس اصول کے مطابق جو کام نہیں کرتا وہ کھائے بھی نہیں۔ سوویت یونین میں سوشلزم کے اس اصول پر عمل ہوتا ہے کہ ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے اور کام کے مطابق دیا جائے۔
پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ سوویت یونین کے دستور کی دفعہ۱۲ میں جو بات کہی گئی ہے، وہ اس سے پہلے کی ۱۱ دفعات سے مربوط ہے۔ جس میں سوشلسٹ اسٹیٹ کا پورا نقشہ بیان کیا گیا ہے اور پرولتاریہ کی آمریت اور اس کے لیے جن اداروں اور ریاست کی جس نوعیت کی تنظیم درکار ہے، اس کے خدوخال پیش کیے گئے ہیں۔ پیداوار کے پورے نظام کو سرکاری ملکیت میں لینا اور کمیونسٹ پارٹی اور The Soviets of Working Peoples Deputies کے ذریعے سیاسی اور معاشی عمل کو نئی بنیادوں پر مرتب کرنے کا نقشہ دیا گیا ہے۔ اس انتظامی اور تنظیمی ڈھانچے اور ملکیت کے نظام کی تبدیلی کے بغیر سوشلسٹ معیشت کا قیام ممکن نہیں۔ پاکستان کے دستور میں ان چیزوں کا دُور دُور کوئی وجود نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر روسی دستور کی دفعہ۱۲ پر تنقیدی نظر ڈالی جائے، تو اس میں جو کچھ کہا گیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں بدترین استحصالی دروبست کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، اس میں اور اس دفعہ میں بیان کردہ ضابطے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
کام اور محنت کا ایک ذمہ داری ہونا ہر نظام کا حصہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں بھی تو یہی ہوتا ہے کہ جو کام نہ کرے وہ بھوکا مرے! اس میں سوشلزم نے کون سا تیر مار لیا؟ہرشخص سے اس کی صلاحیت کے مطابق محنت اور اس کی کارکردگی کے مطابق اُجرت___ اس سے کس کو اختلاف ہوگا؟ سرمایہ دار بھی کم از کم نظری طور پر یہی کہتا ہے: ’’ہر کام کرنے والے کو اس کی کارکردگی اور صلاحیت کے مطابق اُجرت دی جائے‘‘۔ مارکس کے نظریۂ محنت میں اسے چیلنج کیا گیا کہ محنت کا ایک حصہ سرمایہ دار لے اُڑتا ہے اور مزدور محروم رہتا ہے۔ عدل پر مبنی ہر نظام میں محنت کار کو اس کی کارکردگی اور صلاحیت کے مطابق اُجرت ملنی چاہیے۔ اس اصول کے تعین میں سوشلزم کو کوئی امتیاز حاصل نہیں۔ مارکس کے افکار کے مطالعے سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سرمایہ داری کے نظامِ استحصال سے نکلنے کے لیے وسائل پیداوار کو قومی ملکیت میں لے کر تقسیمِ دولت کے جو اصول بیان کیے، اس کے دو مراحل بیان کیے تھے: درمیانی(transitional) دور میں یہ اصول ہوگا: ’’ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور محنت کا اجر کارکردگی کے مطابق ہوگا‘‘۔
لیکن جب اشتراکیت طبقات سے پاک معاشرہ بنائے گی تو پھر اصل سوشلزم کا اصول آئے گا جس میں:’’کام صلاحیت کے مطابق لیا جائے گا، اور اُجرت ضرورت کے مطابق دی جائے گی‘‘۔ یہ ہے اشتراکیت یا مارکسزم کا اعلان کردہ موقف۔
ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک دوسرے پس منظر میں دستورِ پاکستان کی دفعہ ۳ میں ایک بے ضرر سے جملے کے شامل کیے جانے سے پورا قصر کریملین کیسے تعمیر کیا جاسکتا ہے؟ ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں مارکس نے استحصال کا ایک خاص تصور پیش کیا ہے۔ لیکن ہراخلاقی اور مصنفانہ نظام میں استحصال ایک جرم ہے اور اس سے معاشرے کو پاک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے دستور میں استحصال کی کسی خاص شکل کا ذکر نہیں۔
’استحصال‘ (exploitation) کا لفظ انگریزی زبان میں دو مختلف بلکہ ایک حد تک متضاد مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے۔ مثبت معنی میں یہ لفظ کسی ’چیز کو دریافت کرنا‘ اور ’ترقی دینے‘ کے مفہوم کی ادایگی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس طرح کہ exploit resources of country یا explore new venues ۔ اس کے برعکس دوسرے مفہوم میں، استحصال اور دوسروں کے حقوق پر ناجائز قبضہ یا ان کو حقوق سے محروم رکھنے اور ان کے وسائل سے ناجائز فائدہ اُٹھانا شامل ہے، جس میں ذم کا پہلو ہے اور اس استحصال کی درجنوں شکلیں ہوسکتی ہیں۔ کارل مارکس نے اس کی ایک خاص شکل کو، جو اس کی نگاہ میں نظامِ سرمایہ داری کی پہچان ہے اور طبقہ واریت کی بنیاد پر مظلوم اور کمزور طبقات کے حقوق پر بااثر طبقات خصوصیت سے اہلِ سرمایہ کی دست درازیاں ہیں۔ پاکستان کے دستور کی دفعہ۳ میں یہ لفظ اپنے وسیع تر مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور جس پر all forms of exploition (استحصال کی تمام صورتوں ) کے الفاظ شاہد ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس کو صرف ایک مخصوص شکل تک محدود کردیا جائے اور طلسماتی عینک سے وہ تصویر بھی دیکھ لی جائے، جس میں مارکس اور لینن کی شبیہہ جھلکتی ہو!
محترم جج صاحب نے ایک مقام پر شکایتاً ایک بڑی معقول تنبیہہ ’’قراردادِمقاصد میں زیادہ معنی نکالنے کی ترغیب‘‘ (ص ۵۳۸) کے بارے میں کی ہے۔ بلاشبہہ یہ علمی دیانت کا تقاضا ہے اور اس تنبیہہ کا اطلاق نہ صرف ’قراردادِ مقاصد‘ پر ہوتا ہے بلکہ خود دستورِ پاکستان پر بھی۔ ہماری کوشش ہونا چاہیے کہ جو اس میں ہے اسے من و عن پیش کردیں، نہ کچھ چیزوں کو دیکھنے سے انکار کریں اور نہ وہ کچھ ان میں بڑھا ڈالیں جن کا کوئی وجود نہیں۔
استحصال کی ہرقسم کا ذکر ہے اور یہ وہ تصور ہے جو خود اسلام نے پیش کیا ہے۔ قرآن صاف الفاظ میں متنبہ کرتا ہے کہ:
وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo(البقرہ ۲:۱۸۸) اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض سے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَوْفُوا الْکَیْلَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ o وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ o وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ o وَاتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِیْنَo (الشعرا ۲۶: ۱۸۱-۱۸۴) پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو۔ صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔ زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اس ذات کا خوف کرو جس نے تمھیں اور گذشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo(انفال ۸:۲۷-۲۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامان آزمایش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔
اسلام نے ظلم اور استحصال کی ہرشکل سے اجتناب کا حکم دیا ہے اور ہر حق دار کا حق ادا کرنا اہلِ ایمان پر فرض کیا ہے۔ مزدور کو اس کی محنت کا پورا پورا حق اور پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اُجرت ادا کردینے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی معاشرے اور حکومت پر ڈالی ہے کہ کمزوروں کے لیے سہارا بنیں، ناداروں کی مدد کریں، قرض دار کو قرض سے نجات دلانے میں معاونت کریں، غریب اور مستحق کی مالی معاونت کریں اور معاشرے میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے بلالحاظ مذہب و نسل و رنگ، جو بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہو___ اس حکم کا کوئی تعلق اشتراکیت سے نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کے اخلاقی ، سماجی ، معاشی اور دینی نظام کا بنیادی اصول ہے، جس کی پاس داری ہر مسلمان فرد اور مسلمان حکومت کے لیے ضروری ہے۔ ’قراردادِ مقاصد‘ کے تقاضوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ۱۹۵۱ء میں تمام مکاتب ِ فکر کے چوٹی کے ۳۱ علما نے اسلامی مملکت کے جو ۲۲نکات مرتب کیے، ان میں یہ تین دفعات بھی شامل تھیں:
یہ ہے اسلام کا مطلوبہ نظام جس کے قیام کا تصور ’قراردادِ مقاصد‘ نے دیا ہے۔ اس کی موجودگی میں مسلمان اُمت کو دوسرے نظریات سے خوشہ چینی کی کیا ضرورت ہے۔
ہم پورے ادب سے عرض کریں گے پاکستان پیپلزپارٹی نے ۱۹۷۰ء میں سوشلزم کے بارے میں جو کچھ بھی کہا ہو، جہاں تک ۱۹۷۳ء کے دستور کا تعلق ہے، اس پر سوشلزم کی پرچھائیں تک نہیں پڑی۔ ہم پیپلزپارٹی سے اپنے تمام اختلافات کے باوجود اسے اس الزام سے بری سمجھتے ہیں اور اپنے اس دعوے کے ثبوت میں دو مزید شہادتیں پیش کرنا چاہتے ہیں، یعنی خود جناب ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تقریر جو انھوں نے دستور کے مسودے کی آخری سماعت اور دستور کی منظوری کے موقعے پر کی اور جس میں دستور کے بنیادی ڈھانچے کو انھوں نے اپنے الفاظ میں پیش کر دیا۔ اس پوری تقریر میں سوشلزم یا اس کے کسی جزوی پہلو کا بھی کہیں دُور دُور ذکر نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
۲۵سال کے بعد بہت سارے اعتراضات اور جھگڑوں کے بعد ہم ایک ایسے نکتے پر پہنچ چکے ہیں، جہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ایک بنیادی قانون ہے، ہمارا ایک دستور ہے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جمہوریت کی کسی بھی تعریف کے مطابق یہ ایک جمہوری دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ایک وفاقی دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ صوبائی خودمختاری کے بارے میں ایک مفاہمت ہے، اور اس پر خدا کا شکر ہے۔ کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ایک اسلامی دستور ہے۔ اس میں پاکستان کے کسی بھی ماضی کے دستور سے زیادہ اور مسلمان ملکوں کے علاوہ بادشاہتوں پر مبنی ممالک کے کسی بھی دستور سے زیادہ اسلامی دفعات ہیں۔ اگر آپ بادشاہتوں پر مبنی ممالک سے اس کا موازنہ کریں تو اس میں پاکستان کے کسی بھی سابقہ دستور سے زیادہ اسلامی دفعات ہیں۔ (قومی اسمبلی کی رُوداد، ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ئ، ص ۲۴۶۸)
چنانچہ میرے دوستو! یہ دستور جو جمہوری ہے، جو وفاقی ہے، جس میں اسلامی نظام کی اہم خصوصیات شامل ہیں، اور اسلامی معاشرے کو تحفظ دیتا ہے، اور عدلیہ کو آزادی فراہم کرتا ہے، یہ دستور شہریوں کے بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ (ایضاً، ص ۲۴۶۹)
اور اپیل کی کہ اس دستور کو پورے قلبی اطمینان کے ساتھ اور مکمل اتفاق راے سے منظور کیجیے، خصوصیت سے تمام اپوزیشن جماعتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا:
اب میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ایوان میں واپس آگئے ہیں ایک قدم آگے بڑھانے کے لیے، تاکہ اپنی حاضری کو منطقی انجام تک پہنچائیں اور ہمارے ساتھ پاکستان کے عوام کو ایک ایسا دستور دیں جو ایک متفق علیہ دستور ہو۔(ایضاً، ص ۲۴۶۹)
اور پھر اسمبلی نے مکمل اتفاق راے سے دستور کو منظور کیا اور حزبِ اختلاف کے ایک قائد مولانا مفتی محمود صاحب [سربراہ :جمعیت علماے اسلام] سے دعاے شکرانہ کروا کر اسمبلی کی کارروائی ختم کی۔
۱۹۷۳ء کا دستور ایک متفقہ قومی دستاویز ہے، کسی ایک پارٹی کے خیالات کا عکاس نہیں۔ اس دستور کا بنیادی ڈھانچا جن اصولوں پر مشتمل ہے، وہ پانچ ہیں: l اسلام l جمہوریت l وفاق اور تقسیمِ اختیارات l بنیادی حقوق کا تحفظ l عدلیہ کی آزادی۔
گو بات واضح ہوگئی ہے، لیکن صرف اتمامِ حجت کے لیے ہم ایک شہادت اور پیش کردیتے ہیں اور یہ ہے پیپلزپارٹی کا ۱۹۷۷ء کا منشور، جس میں وہ ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اپنے ایک کارنامے کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ لیکن دیکھیے کہ دستور کی جن چیزوں کی داد طلب کررہے ہیں ، وہ یہ ہیں:
پیپلزپارٹی نے ایک ایسے دستور کا وعدہ کیا تھا جو اسلامی، جمہوری،پارلیمانی اور وفاقی طرزِحکومت کا آئینہ دار ہو۔ ہم نے یہ عہد پورا کردیا ہے۔
۱۲؍اپریل ۱۹۷۳ء کو پاکستان کا پہلا دستور عوام کے ان نمایندوں نے متفقہ طور پر منظور کیا جو بالغ راے دہی کی بنیاد پر براہِ راست منتخب ہوئے تھے اور ۱۴؍اگست ۱۹۷۳ء سے نافذالعمل ہوا۔ (پاکستان پیپلزپارٹی، منشور، ۱۹۷۷ئ، ص ۴۶)
اس منشو ر میں جو بھٹو صاحب کے دستخطوں سے جاری ہوا تھا، سوشلزم کا ذکر تو صرف ایک دو بار سرسری طور پر وہ بھی اس صراحت کے ساتھ کہ وہ اسلام کے مقدس اور ابدی اصولوں کے مطابق ہوگا، لیکن اسلام کے بارے میں شروع ہی میں بڑے مؤثرانداز میں اپنی خدمات کا ذکر کیا:
پیپلزپارٹی نے اپنے منشورکے آغاز ہی میں یہ اعلان کیا کہ: اسلام ہمارا عقیدہ ہے۔ ہم نے آغاز ہی میں عہد کیا کہ ہمارا پروگرام اسلام کی روح اور احکامات کے مطابق ہوگا۔ گذشتہ پانچ سال میں پیپلزپارٹی کی پالیسیاں ہمارے اسی عہد پر مبنی تھیں اوراسلام کی عظمت و شان کے لیے ایسے جذبے سے نافذ کی گئیں، جس کا کوئی مقابلہ کسی سابقہ حکومت سے نہیں ہوسکتا۔
پہلی دفعہ دستور کی دفعات میں اسلامی نظریۂ حیات ایمان داری سے شامل کیا گیا ہے۔ اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے۔ ہم نے دستور میں اپنا یہ عہد رقم کردیا ہے کہ ہم قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کریں گے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے ٹھوس اقدامات اُٹھائے ہیں:
o ۹۰ سالہ قادیانی مسئلہ، دستور میں یہ اعلان کرکے کہ جو شخص محمدؐ کی ختم نبوت کو تسلیم نہیں کرتا مسلمان نہیں ہے، حل کر دیا۔
o فروری ۱۹۷۴ء میں لاہور میں مسلم ریاستوں اور حکومتوں کے سربراہوں کی سربراہ کانفرنس منعقد کی۔
o اعلان کیا کہ جولائی ۷۷ء سے اتوار کے بجاے ہفتہ وار تعطیل جمعہ کی ہوگی۔
o پہلی بار سیرت کانفرنس منعقد کی اور مسجد نبویؐ کے اماموں کے دوروں کا اہتمام کیا۔
o حاجیوں پر سابقہ حکومتوں کی لگائی ہوئی پابندیاں ختم کیں، جس سے تقریباً ۳لاکھ پاکستانیوں نے فریضۂ حج ادا کیا۔
o زکوٰۃ کے لیے منصوبہ بند پالیسی بنائی اور اختیار کی۔
o غلطیوں کے بغیر قرآنِ پاک کی طباعت کے لیے قوانین نافذ کیے۔
o جہیز اور شادی کے تحائف پر اسلام کی روح کے مطابق پابندی کا قانون نافذ کیا، جو عام آدمی کو شادی کے موقعے پر کمرتوڑ اخراجات سے نجات دلاتا ہے۔
oریڈ کراس کا نام ہلال احمر سوسائٹی کردیا۔
محترم جج صاحب کے ارشادات کے سلسلے کے پہلے دو نکات پر ہم نے تفصیل سے گفتگو کرلی ہے۔ تیسرے نکتے کے بارے میں ہم اتنا ہی عرض کریں گے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت کا منصفانہ اعتراف ہے اور ہم اس پر انھیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ البتہ چوتھے نکتے کے بارے میں صرف ریکارڈ درست کرنے کے لیے یہ عرض کریں گے کہ ۱۹۷۰ء کی انتخابی مہم میں بلاشبہہ اسلام اور سوشلزم دونوں کی صداے بازگشت موجود تھی، لیکن یہ بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام متنازع نہیں تھا۔ اختلاف جو بھی تھا، وہ اسلام کے تصور اور تقاضوں کے ادراک کے باب میں تھا۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں بھی اسلام سرفہرست تھا۔ مسلم لیگ کے تین دھڑے میدان میں تھے، مگر ہرایک نے اسلام کو اپنی ترجیح کے طور پر بیان کیا تھا۔
جن جماعتوں کو دینی جماعتیں کہا جاتا ہے، ان کے پلیٹ فارم کا مرکزی نکتہ اسلام اور اس کا نظامِ حیات ہی تھا۔ اس لیے پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے موازنے میں ان کے تصورِ اسلام کے بارے میں اختلافات اور ترجیحات کے نظام میں فرق کی بات تو معقول اور مناسب ہے، لیکن پاکستان میں اسلام کے کردار کو نزاع کا باعث کہنا حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ رہا معاملہ اسمبلی میں نشستوں اور عوامی مقبولیت کا، تو اس بارے میں عمومی راے کو ایک دوسرے تصور کے مطابق پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔
بلاشبہہ اسمبلی میں پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو اکثریت حاصل تھی مگر یہ سب سیاسی بساط کے روایتی کھیل کا حصہ ہے کیونکہ اس وقت کے صوبہ سرحد [خیبر پختونخوا] اور بلوچستان میں جمعیت علماے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی (NAP) شریکِ اقتدار تھے اور صوبہ سرحد کی حکومت مولانا مفتی محمودصاحب کی وزارتِ اعلیٰ میں نیشنل عوامی پارٹی کی تائید اور شمولیت سے وجود میں آئی تھی۔ دستور سازی کے باب میں نظریاتی پہلو اور سیاسی گروہ بندی میں اگر فرق رکھا جائے تو حالات کو سمجھنے میں سہولت ہوگی۔
اُوپر کی گزارشات کی روشنی میں یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ دستور کی یہ تعبیرکہ وہ اسلام اور سوشلزم کا ایک مرکب ہے، قطعاً اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتی۔ اور اگر یہ مفروضہ درست نہیں تو پھر اس غبارے سے بھی ساری ہوا نکل جاتی ہے کہ ان دو متضاد رجحانات کی موجودگی کی وجہ سے دستور میں کسی بنیادی ڈھانچے کی تلاش لاحاصل مشق ہے۔ دستور کا ایک واضح ڈھانچا، اس کی مستحکم واضح بنیاد اور اساسی اصول موجود ہیں اور دستور کی تعبیر میں ان کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے اور رہے گی۔
آخر میں ہم بحث کا خلاصہ ان نکات میں پیش کرتے ہیں:
۱- ’قراردادِ مقاصد‘ ایک مستقل بالذات دستوری دستاویز ہے، جو تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور اہداف کی ترجمان اور پاکستان کی منزلِ مقصود کی آئینہ دار ہے۔ یہ قرارداد ہی دستور کی بنیاد اور اس کے بنیادی ڈھانچے کی اصل صورت گر ہے۔
۲- دستورِ پاکستان اس قرارداد کی روشنی میں مرتب اور مدون کیا گیا ہے۔ ریاست پاکستان جس اصول پر قائم ہے، وہ یہ ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور پاکستانی قوم حدوداللہ کی مکمل پاس داری کے عہدوپیمان کے ساتھ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کو اپنا مقصدِ وجود سمجھتی ہے، اور دستور اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک فریم ورک کی حیثیت رکھتا ہے۔
۳- اس دستور کی بنیاد اور اس کے ناقابلِ تغیر پہلو کم از کم پانچ ہیں، یعنی:lاس کا اسلامی کردار اور شناخت ۔ lجمہوری طرزِ حکومت جس میں قانون کی بالادستی اور عوام کی مرضی کے مطابق ان کی فلاح و بہبود اور ان کے اخلاقی، نظریاتی، تہذیبی، معاشی عزائم اور توقعات کی تکمیل کو اولیں حیثیت حاصل ہے۔lبنیادی حقوق کا تحفظ اور اسلام کے اصولِ حکمرانی اور حقوق و فرائض کے نظام کا مکمل احترام ایک بنیادی قدر ہے، جس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ lپاکستان کا نظام وفاقی ہے جس میں مرکز اور وفاق کی اکائیوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا مکمل احترام اور وسائل کے طے شدہ اصولوں اور شرائط کی روشنی میں استعمال کا اہتمام ضروری ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری، جو انصاف کی فراہمی کے ساتھ دستور کے تحفظ اور بنیادی حقوق کی پاس داری کی نگرانی کے نظام کی آخری ذمہ دار ہے۔
یہ دستور کا بنیادی ڈھانچا ہے، جس کی پاس داری مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور عوام سب کی ذمہ داری ہے۔
۴- قرآن و سنت کی بالادستی اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیروترقی اصل ہدف اور منزل ہے۔
۵- اخلاقی اقدار کو ہمارے نظام میں مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے، تاکہ قوم و ملک کی ترقی کا وہ نقشہ حقیقت کا رُوپ دھار سکے، جس میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو، انسانوں کے درمیان حقیقی مساوات قائم ہو، اور اللہ کی زمین فساد سے پاک اور خیر اور فلاح کا گہوارا بن سکے۔
۶- عوام کی اخلاقی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی ترقی ہمارا مقصود ہے اور اس عمل میں عوام ہی کا کردار سب سے اہم ہے۔ ہرسطح پر عوام کو اختیارات کی منتقلی اور ان اختیارات کے مناسب استعمال کے مواقع کی فراہمی، ریاست اور اس کے تمام اداروں کی ترجیح اور ریاستی وسائل کے استعمال کا مقصد و محور ہونا چاہیے۔
۷- حقوقِ انسانی کا تحفظ، قانون کی حکمرانی، اختیارات کی تقسیم اور توازن، خاندانی نظام کی تقویت اور معاشرے میں امن، برداشت، مشاورت، تعاون باہمی کا فروغ اور اچھی حکمرانی کامیابی کا معیار اور میزان ہوں۔
۸- دستور پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل اور افراد کی اصلاح کے ساتھ اداروں کا استحکام اصل ترجیح ہو۔
۹- آزادی اور قومی سلامتی کے تحفظ کے ساتھ ایک حقیقی جمہوری، فلاحی اور استحصال سے پاک معاشرے کا قیام اور معاشرے کے تمام طبقات کو ترقی کے مساوی مواقعے کی فراہمی کا اہتمام ہو۔
۱۰- اقلیتوں کا تحفظ اور ان کے لیے ایسے مواقع کی فراہمی کہ وہ اپنے مذہب اور ثقافت کے دائرے میں رہتے ہوئے قومی زندگی کی تعمیر اور ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
یہ وہ اہداف ہیں جو ’قراردادِ مقاصد‘ اور دستور کے قومی پالیسی کے خطوطِ کار کا تقاضا ہیں اور یہی وہ میزان اور کسوٹی ہے جس پر حکومت، سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کی کامیابی یا ناکامی کو جانچا جانا چاہیے۔