نومبر ۲۰۱۵

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| نومبر ۲۰۱۵ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

مشترکہ خاندان میں رہایش

سوال: میں مشترکہ خاندان میں رہتا ہوں اور شادی کو دو سال ہوچکے ہیں۔ میری بیوی اور گھر کی دیگر خواتین کے درمیان کسی نہ کسی بات پر اَن بن ہوتی رہتی ہے، جس پر میری بیوی مجھ سے الگ رہایش کا مطالبہ کرتی ہے۔ میں یہ انتظام کرنے کی معاشی حیثیت نہیں رکھتا۔البتہ کرایے کے مکان میں رہ سکتا ہوں، مگر میری والدہ اس کے لیے راضی نہیں ہیں۔ راہ نمائی فرمائیں، میں کیا کروں؟

جواب: ہمارے ملک میں مشترکہ خاندانی نظام کی جو صورت رائج ہے، اس میں بڑے مفاسد پائے جاتے ہیں۔ نئی نویلی دلہن سے خادمائوں جیسا برتائو کیاجاتا ہے۔ سُسر، ساس، نند، دیور اور خاندان کے دیگر افراد کی خدمت کرنا اور ان کی چھوٹی بڑی ضرورتیں پوری کرنا اس کی ذمے داری سمجھی جاتی ہے اور اس معاملے میں اگر اس سے کچھ تھوڑی سی بھی کوتاہی سرزد ہوجائے تو اس کو طعنے دیے جانے لگتے ہیں۔ اَزدواجی زندگی کی خلوت (privacy)بھی متاثر ہوتی ہے۔

بیوی کی ذمے داری اصلاً صرف شوہر کی خدمت ہے، البتہ خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ وہ اچھا برتائو کرے گی، ان کے ساتھ محبت سے پیش آئے گی اور ان سے خوش گوار تعلقات رکھے گی، تو ان کی جانب سے بھی اسے محبت ملے گی اور خاندان کے تمام افراد باہم شیروشکر ہوکر رہیں گے۔اِسی طرح اگر بیوی کا معاملہ دیگر افرادِ خاندان سے درست نہ ہوگا، یا وہ لوگ اس کے ساتھ اپنائیت کا مظاہرہ نہیں کریں گے، تو پھر ان کے درمیان اَن بن رہے گی اور گھر میں کشیدگی کی فضا قائم رہے گی۔

اگر مشترکہ خاندان میں کئی جوڑے رہتے ہوں تو کوشش کرنی چاہیے کہ ہر جوڑے کی پرائیویسی قائم رہے۔ وہ روزمرہ کے کاموں کو آپس میں اس طرح تقسیم کرلیں کہ کسی کے لیے شکایت کا موقع نہ رہے، باہمی معاملات میں محبت اور ایثار کی روش کو اپنائیں، چھوٹی موٹی شکایتوں کو نظرانداز کریں۔ لیکن اگر ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے ان میں اَن بَن رہتی ہو، ایک دوسرے سے شکایت میں اضافہ ہورہا ہو، یہاں تک کہ لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہو تو بیوی کو الگ رہایش فراہم کرنا شوہر کی ذمے داری ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ الگ سے مکان خرید کر بیوی کو دے، بلکہ معاشی تنگی کی صورت میں وہ اسے کرایے کا مکان فراہم کرسکتا ہے۔ مشترکہ خاندان میں رہتے ہوئے اہلِ خانہ باہم لڑتے جھگڑتے رہیں اور تنائو اور کشیدگی کے ساتھ زندگی گزاریں، اس سے بہتر ہے کہ وہ الگ الگ رہیں اور ان کے باہمی تعلقات خوش گوار رہیں۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)


اذان کے کلمات میں اضافہ

س: ہمارے یہاں ایک صاحب نے اذان کے آخری کلمہ لاالٰہ الااللہ کے بعد مائک ہی پر دھیمی آواز میں محمد رسول اللہ کہا۔ اس پر میں نے انھیں سخت الفاظ میں ٹوکا اور کہا کہ اگر یہ اضافہ مقصود ہوتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی یہ اضافہ کردیتے۔ جب آپؐ  نے اضافہ نہیں کیا ہے تواب ہمیں بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جواب میں ان صاحب نے کہاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار نماز پڑھارہے تھے۔ رکوع سے اٹھتے ہوئے جب آپؐ  نے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ فرمایا تو ایک صحابی نے رَبَّنَالَکَ الحَمد کے ساتھ حَمْداً کَثِیراً طَیّباً مُبَارَکاً فِیْہِ کہا۔ اس اضافے پر آپؐ  نے نکیر کرنے کے بجاے ان کی تعریف کی۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی ایسا اضافہ، جو دین کی بنیادی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہو، غلط نہیں ہے۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟

ج:دین کی جزئیات ہمیں جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہیں، اسی طرح ان پر عمل مطلوب و مقصود ہے۔ ان میںکسی طرح کی کمی بیشی ہمارے لیے روا نہیں ہے، مثلاً کوئی شخص فجر کی فرض نماز دورکعت کے بجاے چار رکعت پڑھنے لگے، یا فرض روزوں میں اضافہ کرلے تو اس کا یہ عمل دین میںبدعت قرار پائے گا اور قابل رد ہوگا۔ البتہ جو اضافے عہدنبویؐ میں صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے اور آپؐ  نے ان کی تائید وتصویب فرمائی وہ سنت قرار پائے اور دین کا جز بن گئے۔ مثلاً ایک موقعے پر حضرت بلالؓ نے فجر کی اذان میں   الصَّلاَۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوم کا اضافہ کردیا تو آپؐ  نے اسے پسند فرمایا۔ چنانچہ اس کے بعد یہ اضافہ بھی اذان میں شامل ہوگیا (ابن ماجہ، ۷۱۶)۔چوں کہ اذان کا خاتمہ لاالہ الااللہ پر ہوتا ہے، اس پر محمد رسول اللہ کا اضافہ نہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا اور نہ کسی صحابی نے کیا، جس کی آپؐ  نے تصویب کی ہو، اس لیے اب کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ دین کے نام پر خودساختہ اضافہ کرتا پھرے۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)


مجبوری میں نماز پڑھنے کی تاخیر

س: میں سرکاری بسوں کی ورک شاپ میں کاری گر کی حیثیت سے کام کرتا ہوں۔ ہربس کو چیک کرنا اور چھوٹی بڑی خرابی کو دُور کرنا میری ذمہ داری ہے۔ شام کے وقت ڈپو میں آنے والی بسوں کا ہجوم ایک دم بڑھ جاتا ہے۔ اگر میں تھوڑی دیر کے لیے بھی وہاں سے ہٹ جائوں تو بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں اور افسران کی ڈانٹ ڈپٹ الگ۔ اس بنا پر میری عصر اور مغرب کی نمازیں اکثر و بیش تر قضا ہوجاتی ہیں۔ اور پھر اتنا وقت بھی نہیں نکال سکتا کہ ڈیزل اور پٹرول سے لتھڑے کپڑے بدل کر، صاف کپڑے پہنوں اور نماز ادا کروں، اور پھر واپس کام پر آکر دوبارہ ایمان داری سے ڈیوٹی انجام دے سکوں۔ اس طرح نمازیں قضا ہونے سے میں سخت الجھن میں ہوں۔ دفتر میں کسی دوسرے شعبے میں تبدیلی کی کوشش بھی کی ہے لیکن ممکن نہ ہوسکا۔ بعض احباب ملازمت ترک کر دینے کا مشورہ دیتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ بیوی بچوں کی کفالت فرض ہے، لہٰذا انھیں پریشانی میں مبتلا کرنا مناسب نہیں۔ یاد رہے کہ میں نے باقاعدہ انجینیرنگ کی ڈگری لے رکھی ہے، مگر بے روزگاری اور معاشی تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ معمولی نوکری کر رہا ہوں۔مجھے مشورہ دیجیے کہ میں کیا کروں؟

ج: عام حالات میں پنج وقتہ نمازوں کی ادایگی ان کے اوقات میں ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا o(النساء ۴:۱۰۳) نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندیِ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔

متعدد صحابہ کرامؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں کو ہمیشہ ان کے اوقات میں ادا کرنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں: ’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ (کسی دوسرے وقت) میں پڑھی ہو۔ سواے دو نمازوں کے‘‘۔(بخاری، کتاب الحج ۱۶۸۲)

تاہم، عذر کی صورت میں بعض نمازیں اکٹھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہروعصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا جائے اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع کے دوران اسی طریقے سے مذکورہ نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا ثابت ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’نمازوں کے اوقات عام لوگوں کے لیے پانچ اور اہلِ عذر کے لیے تین ہیں‘‘۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ (ھود ۱۱:۱۱۴) ’’نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر‘‘۔

دوسرے سرے پر ظہروعصر ہے اور رات گزرنے پر مغرب و عشا۔ اسی طرح اس کا ارشاد ہے:

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ(بنی اسرائیل ۱۷:۷۸)’’نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو‘‘۔ اس آیت میں ’دلوک‘ میں ظہروعصر اور ’غسق‘ میں مغرب و عشاء شامل ہیں۔ ’’اسی اصول کو اختیار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہروعصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو جمع فرمایا تھا‘‘۔(فتاویٰ ابن تیمیہؒ، ۲۴-۲۵)

احناف کے نزدیک جمع بین الصلاتین (دو نمازوں کو اکٹھی پڑھنا) جائز نہیں ہے۔ ہاں، ان کو جمع کرنے کی ظاہری صورت اختیار کی جاسکتی ہے، یعنی ایک نماز اس کے آخر وقت میں اور دوسری نماز اس کے اول وقت میں پڑھی جائے۔ لیکن دیگر فقہا اس کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک جمع تقویم اور جمع تاخیر دونوں صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ دوسری نماز کو مقدم کرکے پہلی نماز کے ساتھ پڑھ لیا جائے، یا پہلی نماز کو مؤخر کر کے دوسری نماز کے ساتھ پڑھا جائے۔

عذر میں حالت ِ سفر،مرض، طوفانی بارش، خوف یا کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ احادیث میں ان عذروں کا ذکر آیا ہے، بلکہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر مدینہ میں رہتے ہوئے ظہروعصر کی نمازیں اور مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں، جب کہ اس وقت نہ کسی خوف کا موقع تھا، نہ بارش ہوئی تھی (دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت نہ کسی خوف کا موقع تھا نہ آپ حالت ِ سفر میں تھے)۔ حضرت ابن عباسؓ کے شاگرد نے ان سے دریافت کیا: پھر آں حضرتؐ نے ایسا کیوں کیا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: آپؐ نے ایسا اس لیے کیا تھا، تاکہ آپؐ کی اُمت کا کوئی فرد مشقت میں نہ پڑے‘‘۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب الجمع بین الصلاتین فی السفر)

حالت ِ سفر میں کسی عذر کی بنا پر جمع بین الصلاتین کی اجازت دینے والے فقہا (مثلاً مالکیہ میں سے اشہبؒ، شوافع میں سے ابن المنذرؒ اور ابن سیرینؒ و ابن شبرمہؒ وغیرہ) ساتھ ہی یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ اسے عادت نہ بنا لیا جائے، یعنی کسی شدید عذر کی بنا پر ہی جمع کیا جائے، ورنہ ہر نماز کو اس کے وقت ہی میں ادا کیا جائے۔ (نووی، المجموع شرح المہذب، طبع جدہ، ۴؍۲۶۴، ابن قدامہ، المغنی، طبع ریاض ۱۹۸۱ئ، ۲؍۲۷۸، الموسوعۃ الفقیہۃ، کویت، ۱۵؍۲۹۲)

آپ نے اپنی جو مخصوص صورت بیان کی ہے اس کا شمار عذر میں ہوسکتا ہے لیکن کوشش کیجیے کہ وہ زیادہ دنوں تک باقی نہ رہے۔ اپنے افسران سے کہیے کہ وہ آپ کی علمی قابلیت اور خدمات کو دیکھتے ہوئے آپ کو پروموشن دیں، یا کوئی دوسرا کام لیں، جس میں آپ کی ایسی شدید مصروفیت باقی نہ رہے۔ ورک شاپ میں آپ سے متعلق جو کام ہے، اس کی انجام دہی کے لیے آپ کے علاوہ دوسرے افراد بھی ہوں گے۔ آخر آپ کی بیماری یا رخصت کے دنوں میں ورکشاپ میں تالا نہ لگ جاتا ہوگا اور بسیں چلنی بند نہ ہوجاتی ہوں گی۔ ان افراد سے تعاون لیجیے۔ ان کے بعض کام آپ کردیجیے تاکہ وہ آپ کے کچھ کام اپنے ذمے لے کر آپ کو نمازوں کی ادایگی کے لیے مہلت دے دیا کریں۔ دین میں نماز کی اہمیت اور اس کے مقام سے آپ بہ خوبی واقف ہیں، اس لیے کوشش کیجیے کہ   حتی الامکان آپ کی تمام نمازیں وقت پر ادا ہوں۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)


روضۂ رسولؐ پرسلام __ایک وضاحت

س: ’روضۂ رسولؐ کے سامنے‘ (عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۱۵ئ) میں سلام پیش کرنے کا جو طریقہ لکھا گیا ہے اس سے تو بریلوی حضرات اذان سے قبل جو صلوٰۃ و سلام پڑھتے ہیں وہ ٹھیک معلوم ہوتا ہے؟ وضاحت فرما دیں۔

ج: روضۂ رسولؐ پر سلام پیش کرنے کا طریقہ وہی ہے جو نبی اکرمؐ نے اہلِ ایمان پر قبرستان میں سلام پیش کرنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے۔ سنن ابن ماجہ میں باب ما یقال اذا دخل المقابر، کہ جب قبرستان میں آدمی جائے توکیا کہا جائے؟ عنوان کے تحت امام ابن ماجہ نے حضرت عائشہؓ کی روایت نقل کی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کو گم پایا تو دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع میں ہیں اور فرماتے ہیں: سلام ہو تم پر اے وہ لوگو جو ایمان والوں کے گھر میں ہو۔ اس روایت کے مطابق خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان والوں کو خطاب کر کے سلام پیش کیا ہے۔ لہٰذا نبی اکرمؐ کے روضے پر آپؐ کو خطاب کر کے الصلٰوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ، کہنا کیسے ناجائز ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ کے الفاظ میں درود شریف پڑھتا ہے تو وہ بھی درود شریف ہی پڑھتا ہے، البتہ رسولؐ اللہ کو حاضر وناظر سمجھنا صحیح نہیں ہے۔

’روضۂ رسولؐ کے سامنے‘ (ستمبر۲۰۱۵ئ) میں پروفیسر ظفرحجازی صاحب نے جو صلوٰۃ و سلام ذکر کیا ہے وہ اس سے زیادہ نہیں ہے کہ نبی اکرمؐ کو رسول اللہ کے جملے کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے جو خود نبی اکرمؐ سے ثابت ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ مساجد میں لائوڈاسپیکر پر الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ پڑھا جائے تو ایسا کرنا ٹھیک ہوگا۔ آپ نے جو سمجھا ہے وہ درست نہیں سمجھا ہے۔

مزاروں پر مسلمان جہالت کی بنا پر جو کچھ کرتے ہیں اس کی اصلاح کی ضرورت مسلّم ہے اور علماے کرام اور مصلحین اس سلسلے میں لوگوں پر شرک اور کفر کے فتوے لگانے کے بجاے، تذکیر کا ذریعہ اختیار کرتے ہیں۔ آپ بھی حکمت کے ساتھ اصلاح کی کوشش کریں، فتوے لگانے سے پرہیز کریں۔( مولانا عبدالمالک)