نومبر ۲۰۱۵

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| نومبر ۲۰۱۵ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

ذلّت کے سر پر رُسوائی کا تاج

اکتوبر ۱۹۵۴ء کی ایک شام یکایک یہ خبر لائی کہ گورنر جنرل بہادر نے سرے سے دستورساز اسمبلی ہی توڑ دی.... مگر اس انقلابی کارروائی کے معاً بعد جو آوازیں سننے میں آئیں وہ یہ تھیں کہ امریکی طرز کا ایک دستور نمایندگانِ ملک کے ذریعے سے مدوّن نہیں بلکہ ایک فرمانِ مبارک کے ذریعے سے مسلّط کیا جائے گا ، اور یہ کہ اسلامی ریاست نہ کبھی بنی ہے نہ بن سکتی ہے۔ مذہب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذہبی لوگ اگر اللہ اللہ چھوڑ کر سیاست میں دخل دیں گے تو کیفرکردار کو پہنچائے جائیں گے، بلکہ شاید ان کا پارسل بھی کہیں روانہ کیا جانے والا تھا ....

انڈی پنڈنس ایکٹ کی نئی قانونی تعبیر ملکۂ برطانیہ کے نمایندے کو مالک الملک بنا چکی ہے اور اس اسمبلی کا وجود و عدم اُس کی مرضی پر منحصر ہے.... ایک فردِ واحد اسے قانون کی حیثیت بھی دے سکتا ہے اور ردّی کی ٹوکری میں بھی پھینک سکتا ہے۔ نئی قانونی تعبیر نے یہ اختیارِ مطلق اُسی ملکۂ برطانیہ کے نمایندے کو سونپا ہے....گذشتہ ماہ جولائی میں اس اسمبلی کے اجلاس شروع ہوئے۔ اس موقعے پر اس کے ارکان کو توجہ دلائی گئی کہ سابق دستور ساز اسمبلی جو کام کرچکی ہے اس پر پانی نہ پھیرا جائے ....مگر اب جو خبریں پردے کے پیچھے سے چھن چھن کر آرہی ہیں وہ یہ ہیں کہ نیا دستوری خاکہ اُن تمام اسلامی دفعات سے خالی ہے جو پچھلی اسمبلی میں طے ہوئی تھیں اور اسلام کا جو تھوڑا بہت نام و نشان اس میں پایا جاتا ہے اُسے بھی خارج کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مخلوط انتخاب کی تجویز اُس پر مزید، اور قراردادِ مقاصد تک کو اُڑا دینے کی افواہیں اس پر مزید علی المزید:__ اب یہ بات کچھ سمجھ میں آنے لگی ہے کہ.... اس مرتبہ ان کی توپوں کا رُخ براہِ راست جماعت اسلامی کی طرف کیوں ہے؟

 ....لیکن ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اگر خدانخواستہ یہ خاکہ ویسا ہی ہے جیسا بیان کیا جاتا ہے تو پچھلے آٹھ سال کی داستان پر یہ تازہ اضافہ گویا ذلّت کے سر پر رُسوائی کا تاج ہے۔

(اس ہشت سالہ رُوداد پر جو شخص بھی غور کرے گا اس سے یہ بات پوشیدہ نہ رہے گی کہ اس ملک میں خود مسلمانوں کا ایک نہایت بااثر طبقہ ایسا موجود ہے جو ساری قوم کے علی الرغم اسلامی ریاست کے تخیل کی مزاحمت کر رہا ہے اور اسے یہ چیز اتنی ناگوار ہے کہ وہ اسے زک دینے کے لیے اخلاق، دیانت اور حُب ِ وطن کے کسی تقاضے کو بھی پامال کردینے میں باک نہیں رکھتا)۔ (’اشارات‘، ابوالاعلیٰ مودودی،  ترجمان القرآن، جلد۴۵،عدد۳، ربیع الاول ۱۳۷۵ھ ،نومبر ۱۹۵۵ئ، ص۶-۷)

______________