جماعت اسلامی نے ’اسلامی پاکستان خوش حال پاکستان‘ کا نعرہ لگا کر یہ پیغام دیا ہے کہ خوش حالی اور اسلام کو اختیار کرنا یہ دونوں باتیں لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام کے بغیر خوش حالی، خوش حالی نہیں۔اسلام اگر مکمل صورت میں آئے گا تو صرف خوش حالی نہیں، عروج کی داستانیں بھی ساتھ لائے گا۔ جب عرب کے بدو اسلام کی دعوت قبول کرکے دنیا میں نکلے تو قیصروکسریٰ کے تخت و تاج گر گئے۔ مسلمانوں نے صدیوں تک اللہ کی زمین پر اللہ کا پیغام سربلند کیے رکھا۔
حکمرانوں کی تقریریں سن کر معلوم ہوتا ہے کہ ترقی میں سب سے اہم معیشت کا دائرہ ہے۔ گویا معاشی ترقی ہی اصل ترقی ہے اور سب سے اہم سالانہ ترقی کی رفتار ہے۔ اس وقت ۴ فی صد پر گزارا ہے اور ۶ سے۸ فی صد کے خواب دیکھتے ہیں، جیسے یہ حاصل ہوگیا تو سب کچھ حاصل ہوگیا۔
اس سے آگے بڑھیں تو ہر بات میں مثال مغربی ممالک کی دی جاتی ہے جیسے ترقی کی معراج یہی ہے۔ سیاسی لیڈر ہر بات میں برطانیہ، امریکا، یورپ کی مثالیں دیتے ہیں۔ بہت کم ذکر خلافت ِ راشدہ کا آتا ہے۔ یہ ساری ترقی سراسر سراب ہے، جس کے پیچھے پوری قوم کو دوڑایا جا رہا ہے۔ اس سے مراد جھوٹی خوش حالی ہے۔ گاڑیاں، کارخانے، سڑکیں تو ہیں لیکن انسان کی زندگی سکون سے محروم ہے۔ خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ خواتین کی عزت و عصمت محفوظ نہیں۔ پھر یہ کیسی ترقی ؟
جماعت اسلامی کی دعوت یہ ہے کہ انسان اس جھوٹے سحر سے نکلے، حقیقی دنیا میں آنکھ کھولے۔ قرآن کہتا ہے کہ اس طرح کے خوش حال لوگوں کو اللہ تباہی کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ حقیقی خوش حالی اس وقت حاصل ہوگی اور ترقی یافتہ معاشرہ وہ ہوگا جہاں لوگ خدا کو ماننے والے ہوں اور اس کے سامنے جواب دہ ہوں، آخرت پر یقین رکھتے ہوں، زمین پر رسولؐ اللہ کا لایا ہوا نظامِ شریعت نافذ ہو۔
ایمان کے بغیر، پاکستان کو خوش حال کرنے کی تدبیریں تباہی کی طرف لے جانا والا راستہ ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایسی قوموں کی مثالیں دی ہیںجو اپنے وقت کی ترقی یافتہ قومیں تھیں، لیکن جب انھوں نے اللہ کے رسولؐ کی دعوت کا انکار کیا تو اللہ کی گرفت میں آگئیں اور تباہ و برباد ہوگئیں۔ آیئے دیکھیے قرآن ہمیں کیا بتاتا ہے:
وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ o وَ لَقَدْ جَآئَ ھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْھُمْ فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَھُمُ الْعَذَابُ وَھُمْ ظٰلِمُوْنَ o (النحل ۱۶: ۱۱۲ - ۱۱۳) اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کررہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔ ان کے پاس ان کی اپنی قوم میں سے ایک رسول آیا مگر انھوں نے اس کو جھٹلا دیا۔ آخرکار عذاب نے ان کو آلیا، جب کہ وہ ظالم ہوچکے تھے۔
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (النحل۱۶: ۱۸) اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ (ابراہیم۱۴:۳۴) اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تذکرہ کہاں سے شروع کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم، یعنی سب سے اچھی صورت پر پیدا فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین۹۵:۴)ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔
پھر انسان کو ساری مخلوق پر فضیلت دی:
وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا (بنی اسرائیل۱۷: ۷۰)یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔
انسان کو وہ شعور اور وہ عقل دی جو باقی مخلوق کو نہیں دی۔ انسان مٹی کا پتلا ہے لیکن اسے دل و دماغ کی نعمتیں دی گئیں۔ اسے پکڑنے کے لیے ہاتھ ، چلنے کے لیے پائوں، کھانے کے لیے منہ، بولنے کے لیے زبان، دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے کان، سونگھنے کے لیے ناک، اور محسوس کرنے والا جسم عطا فرمایا۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں اور ان کی کوئی مارکیٹ نہیں۔ یہ نعمتیں اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی درخواست کے عنایت فرمائیں۔ اس کی ذات جو کسی کی محتاج نہیں، محض بندے کے فائدے کے لیے چاہتی ہے کہ بندہ اپنے منعم کو پہچانے۔ جو نعمتیں اس نے دی ہیں ان نعمتوں کو اسی کی طرف سے سمجھے اور ان نعمتوں کی شکرگزاری کے طور پر اس کی بندگی کرے۔ اس کی غلامی اور اطاعت اور اس کی حکمرانی اپنے جسم و جان اور معاشرے پر قائم کرے۔ اس کے دین پر ایمان لائے اور اسے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کرے۔ اس کے نتیجے میں اس کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت میں بھی سرخرو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (النحل ۱۶: ۹۷)جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے اجر، ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔
دنیا میں پاکیزہ زندگی میں روٹی، کپڑا، مکان اور بہترین نظم و نسق بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر انعام فرماتے ہیں۔ انھیں شکرگزاری اور بندگی کے لیے مہلت عطا کرتے ہیں۔ جب مہلت کا مقررہ وقت ختم ہوجاتا ہے تو پھر تکالیف اور مصائب سے آزماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَھْلَھَا بِالْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَ(اعراف۷:۹۴) ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو، اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی سختی میں مبتلا نہ کیا اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اُتر آئیں۔
اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام بھیج کر لوگوں کے شعور کو بیدار فرماتے ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی معرفت دیتے ہیں۔ انھیں بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نعمتیں دینے والا ہے۔ اس نے تمھیں نعمتیں دی ہیں تاکہ تم اس کی بندگی کرو، اسے یاد کرو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تکالیف اور مصائب سے دوچار ہوجائو گے۔ تکالیف اور مصائب بھی اس لیے آتے ہیں کہ تم اپنے مالک کی طرف رجوع کرو۔ پھر بھی سیدھے راستے پر نہ آئے تو تباہ و برباد کردیے جائو گے۔ جو نبی بھی آیا اس نے اسی انداز سے لوگوں کو خبردار کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو ۴۰سال بعد نبوت ملی۔ انھوں نے ساڑھے نوسوسال لوگوں کے سامنے دعوت پیش کی۔ انھوں نے فرمایا:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا o یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا o وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْہٰرًا o مَا لَکُمْ لاَ تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا o وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا o (نوح۷۱:۱۰-۱۴)
میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمھیں بنایا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال دعوت و تبلیغ کی۔ جب قوم نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو ان ناپاک لوگوں سے پاک کر دیا اور ساری زمین حضرت نوحؑ اور ان کے پیروکاروں (جو ۸۰ کی تعداد میں تھے) کے قبضے میں دے دی گئی۔ حضرت آدم ؑ کے بعد حضرت نوحؑ پہلے نبی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے مبعوث ہوئے۔ حضرت نوحؑ کو آدمِ ثانی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ زمین میں ان کے بعد انھی کی اولاد آباد ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل میں ہے:
ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ط اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا (۱۷:۳)اے وہ لوگو جو ان لوگوں کی اولاد ہو جو نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ نوحؑ تو اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بندے تھے۔
دوسری دفعہ انسان کی آبادی اللہ تعالیٰ کی بندگی اور دین کی حکمرانی کا نتیجہ ہے جو انسان کو یاد دلاتا ہے کہ تمھارا تو وجودہی اللہ تعالیٰ کی بندگی کی برکت سے ہے۔ اب اگر تم اللہ کے دین کو چھوڑ کر تباہ ہوگے تو تمھارے پاس کوئی عذر نہ ہوگا۔ تمھیں اللہ کی نافرمانی اور جہالت کے بجاے اپنی اصل کو یاد رکھنا چاہیے۔تمھاری اصل یہ ہے کہ تم نیک لوگوں کی اولاد ہو، جو نیکی کی بدولت زندہ رہے۔
حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اولاد کے ذریعے دنیا میں دوسری بڑی قوم ’عاد‘ کو وجود ملا۔ عاد کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود ؑ کو مبعوث فرمایا لیکن انھوں نے بھی وہی رویہ اختیار کیا جو قومِ نوحؑ نے اختیار کیا تھا ۔ چنانچہ یہ قوم بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئی۔ قومِ عاد کے بعد تیسری بڑی قوم ثمود ان لوگوں کی اولاد تھی جو ہود علیہ السلام کی پیروی کی برکت سے قومِ ثمود کے ساتھ تباہی سے بچ گئی۔ ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا لیکن اس قوم نے بھی اپنے ماضی کو بھلا دیا اور صالح علیہ السلام کی نصیحتوں اور معجزات کو ٹھکرا دیا جس کے نتیجے میں یہ قوم بھی تباہی سے دوچار ہوئی۔
قرآن ہمارے سامنے حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاق ؑ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑ کے حالات پیش کرتا ہے کہ کس طرح انبیا اور ان کی پیروی سے انسان کی دنیا بنتی ہے اور کس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا حق دار ٹھیرتا ہے اور کس طرح نمرود اور اس کے پیروکار تباہی سے دوچار ہوئے۔ حضرت موسٰی ؑ اور حضرت ہارون ؑ نے فرعون کے سامنے دعوت پیش کی، معجزات دکھائے اورعرصۂ درازتک اسے ہدایت دینے کی جدوجہد کرتے رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور آلِ فرعون کو سمندر میں غرق کر دیا اور اس کی لاش کو عبرت کے لیے محفوظ کر دیا جو آج بھی مصر میں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام اور ان کے ساتھ ۶ لاکھ بنی اسرائیل کو سمندر میں پانی کو روک کر اور ۱۲ راستے بناکر سمندرپار کرا دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کی برکت تھی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارِقریش کے سامنے دین کی دعوت پیش کی۔ جو سعادت مند لوگ تھے انھوں نے اس دعوت پر لبیک کہا، ایمان لائے اور آپ کی اطاعت و فرماںبرداری کی، لیکن جو ضدی اور عنادی تھے، جاہ پرست تھے، اپنی بڑائی اور سرداری قائم رکھنا چاہتے تھے انھوں نے سخت مخالفت کی۔ آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں اور مٹانے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں پہلے تو سخت ترین قحط کی آفت سے دوچار کیا۔ مکہ کی وہ بستی جہاں ہرچیز وافر تھی، دنیا بھر میں پیدا ہونے والے غلے اور پھل وہاں پہنچتے تھے۔ اس بستی میں امن تھا۔ لوگ اطمینان ، چین اور سکون کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب بستی والوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی خصوصاً اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو انھی کی قوم سے تھے، وہ ان کے خاندان کی شرافت اور آپؐ کی سیرت سے واقف اور آپؐ کی صداقت اور امانت و دیانت کے معترف تھے، تو اللہ تعالیٰ نے امن و چین اور دنیا بھر سے پہنچنے والا رزق روک دیا اور قحط کی وجہ سے بھوک اور خوف ان پر مسلط ہوگیا۔ اس آفت نے وقتی طور پر انھیں بیدار کیا۔ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، درخواست کی کہ ہم ایمان لے آئیں گے۔آپؐ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں اس قحط کی ہلاکت سے بچالے۔
آپؐ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے قحط کو دُور کر دیا لیکن کچھ مہینے گزرنے کے بعد وہ پھر اپنی سابقہ کافرانہ روش پر واپس آگئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے تھوڑے عرصے بعد غزوئہ بدر میں ان کے ۷۰سرداروں کو قتل اور ۷۰ کو قید سے دوچار کر دیا۔ پھر چند ہی سال بعد انھوں نے صلح حدیبیہ کی، ہتھیار ڈال دیے۔ بالآخر آٹھ ہجری کو مکہ فتح ہوگیا اور سرزمین عرب دین اسلام کے لیے مسخر ہوگئی۔ اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ نے عزت عطا فرما دی اور کفار ذلت و رُسوائی اور ہلاکت سے دوچار ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہوا اور سرزمینِ عرب سے نکل کر قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کو مسخر کرتا چلا گیا اور تھوڑے ہی عرصے میں آباد دنیا کو مسخر کرلیا۔ تمام عالمی طاقتیں ختم ہوگئیں اور اسلام اور اُمت مسلمہ عالمی طاقت کی حیثیت سے دنیا پر غالب ہوگئی۔
اُمت مسلمہ کی اس سوپرپاور نے دنیا کو امن اور خوش حالی دی، معاشی فراخی دی۔ زکوٰۃ دینے والے اپنی زکوٰۃ لے کر فقرا کی تلاش میں نکلتے لیکن کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلبۂ اسلام اور اس کے ذریعے امن و امان اور معاشی خوش حالی کی پیش گوئی فرما دی تھی۔
حضرت عدیؓ بن حاتم سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپؐ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے فاقے کی شکایت کی۔ اس کے بعد ایک اور آدمی آیا اور اس نے ڈاکے کی شکایت کی۔ آپؐ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: عدی! تم نے ’حیرہ‘ کا شہر دیکھا ہے۔ اگر تم نے لمبی زندگی پائی تو دیکھو گے کہ ایک عورت حیرہ سے سفر پر روانہ ہوگی۔ وہ کعبے کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گی (یعنی ڈاکے ختم ہوجائیں گے مکمل طور پر امن و امان ہوگا)۔ اور اگر تم نے لمبی زندگی پائی تو تم کسریٰ کے خزانے خرچ کرو گے۔ اور اگر تُو نے لمبی زندگی پائی تو دیکھو گے کہ ایک آدمی اپنا ہاتھ سونے یا چاندی سے بھر کر نکلے گا، تلاش کرے گا کہ کوئی ملے جو اسے قبول کرلے لیکن کوئی نہیں ملے گا۔ تم میں سے ایک آدمی قیامت کے روز اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے: کیا میں نے تیری طرف رسول نہیں بھیجا تھا جو تجھے میرا دین پہنچاتا تو وہ جواب میں کہے گا: کیوں نہیں۔ اے میرے رب! وہ اپنے دائیں دیکھے گا تو جہنم ہوگا، بائیں دیکھے گا تو جہنم ہوگا۔ پس جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک چھلکا خرچ کر کے بچ سکو۔ یہ بھی نہ پائے تو اچھی بات کرکے۔
عدی کہتے ہیں کہ میں نے اس عورت کو دیکھ لیا جو حیرہ سے چلتی ہے اور مکہ میں پہنچ کر طواف کرتی ہے، اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ اور میں ان لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے۔ پھر انھوں نے کہا کہ اگر تم نے لمبی زندگی پائی تو وہ بھی دیکھ لو گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ہاتھ کو سونے اور چاندی سے بھر کر نکلنے والے کو دیکھ لو گے کہ اس کے سونے اور چاندی کو قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔(بخاری)
اسلام کی بدولت دنیا میں امن بھی ہوگیا اور معاشی فراوانی بھی۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں بیت المال اس قدر بھر گیا کہ حضرت عثمانؓ نے عوام سے کہا کہ اپنی زکوٰۃ خود تقسیم کریں، بیت المال کے پاس پہلے سے جو مال ہے وہ کافی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد سونے اور چاندی کو اموالِ باطنہ قرار دے کر لوگوں کو اس کی زکوٰۃ خود ہی دینا پڑی۔ اور اسلامی حکومتوں میں سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کی تقسیم کا اسی طرح سے سلسلہ جاری رہا۔
آج اُمت مسلمہ ہرجگہ دہشت گردی اور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ دیہات ہی نہیں شہروں میں بھی دن دہاڑے ڈاکے پڑتے ہیں۔ حکومتیں ڈاکوئوںاور دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں اور معاشی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے، ملکی سودی قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ سودی قسط ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔ اس وقت پاکستان اربوں ڈالر کے قرضوں تلے دبا ہوا ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سودی قرضوں کے ذریعے ہماری دولت کو لوٹ رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام شب و روز محنت کر کے جو سرمایہ حاصل کرتے ہیں وہ ان کے کام آنے کے بجاے یہ عالمی ادارے لے جاتے ہیں جو امریکا کے یہودیوں کی تجوریوں کو بھرتے ہیں۔
فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ o الَّذِیْٓ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ o (قریش۱۰۶:۳-۴) پس عبادت کر اس گھر کے رب کی جس نے ان کی بھوک ختم کی، کھانا دیا اور خوف کو ختم کیا اور امن دیا۔
اسلامی تاریخ بھی گواہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی بھی دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے۔اگر آج اُمت مسلمہ دہشت گردی اور بھوک و افلاس اور معاشی بحران سے نجات چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ صحیح معنوں میں اللہ کی بندگی کی طرف لوٹے اور اپنے ملکوں میں اسلامی نظام نافذ کرے۔ پاکستان کے مسائل و مشکلات کا حل بھی اسلامی پاکستان میں ہے۔ پاکستان اسلامی ہوگا تو امن و امان ہوگا اور بھوک و افلاس کا خاتمہ ہوگا۔ اسلامی پاکستان اور خوش حال پاکستان کا ایجنڈا قرآن پاک اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ جماعت اسلامی کی یہی دعوت ہے، اور یہی اُمت مسلمہ کے مسائل کا بنیادی حل ہے۔
ہمارے مسائل اور مشکلات کا حل اس میں نہیں ہے کہ ہمارے پاس مال و دولت زیادہ ہوجائے، مادی آسایش اور وسائل زیادہ ہوجائیں۔ کوٹھیاں ، بنگلے، گاڑیاں اور وسائل زیادہ ہوجائیں، بلکہ ہمارے مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم دین کی طرف لوٹ آئیں۔ اسلام کی اخلاقی قدروں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی کے احساس کی طرف لوٹ آئیں۔
اُمتوں کے عروج و زوال میں مال و دولت کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کو دخل ہے۔ مال دار اور خوش حال لوگوں کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندوں کو دخل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب مال دار اور خوش حال لوگ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بستیوں والے انھیں راہِ راست پر نہیں لاتے بلکہ ان کو اپنا سربراہ بنا لیتے ہیں تو ہم ان بستیوں کو تباہ کردیتے ہیں۔ وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا o(بنی اسرائیل ۱۷:۱۶) ’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہوجاتاہے اور ہم اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں‘‘۔
مفکرِ اسلام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں حکم سے مراد حکمِ طبعی اور قانونِ فطری ہے، یعنی قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہوجاتے ہیں۔ ہلاک کرنے کے ارادے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ تعالیٰ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کا ظہور اس طریقے سے ہوتا ہے۔ درحقیقت اس آیت میں جس حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخرکار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے خوش حال لوگوں اور اُونچے طبقوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحب ِ اقتدار لوگ فسق و فجور پر اُتر آتے ہیں۔ ظلم و ستم، بدکاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو، اسے فکر ہونی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بداخلاق لوگوں کے ہاتھ میں نہ جانے پائیں‘‘۔ (بنی اسرائیل کی آیت۳، حاشیہ ۱۸)
تاریخ گواہ ہے کہ جب ہم اخلاقی قدروں پر اپنی زندگیوں کو استوار کرتے تھے اور فکرِ آخرت کو اپنے ہر کام کا محور بناتے تھے تو وسائل اور اسباب کی کمی کے باوجود ہمیں ذہنی اور قلبی سکون بھی حاصل تھا اور ہمارے تمام مسائل بھی حل ہوتے تھے۔ حکمران، عدلیہ، اصحاب مال و دولت، رؤسا، سب عدل کرتے تھے اور ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ دینی رہنمائی کے لیے اہلِ علم کی طرف رجوع کرتے تھے۔ قرآن و سنت کے احکام کو سینے سے لگاتے تھے۔ عوام بھی دوسروں کے بجاے اپنی اصلاح کو اہمیت دیتے تھے اور حکمرانوں کو بھی اپنی فکر ہوتی تھی۔ تب حکمران اور عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کے ہمدرد تھے۔ جماعت اسلامی اسی طرح کا معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے جو اُمت مسلمہ کی ضرورت ہے اور ہماری خوش حالی کا ضامن بھی ہے۔
آیئے جماعت اسلامی کا ساتھ دیجیے۔ اپنی دنیا بھی بنایئے اور آخرت بھی سنوار لیجیے۔
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ، اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں خوش حالی عطا فرما دیجیے اور آخرت میں بھی اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے نجات عطا فرما دیجیے، آمین!