’قراردادِ مقاصد: دستور سازی اور اعتراضات کا جائزہ‘ (اکتوبر ۲۰۱۵ئ) میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے نہایت جانفشانی اور عرق ریزی سے قراردادِ مقاصد کا تاریخی پس منظر واضح کیا ہے اور ایسے گوشے سامنے لائے ہیں جو اکثر و بیش تر لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں، اور اسے محض ایک رسمی سی قرارداد سمجھا جاتا ہے۔
’قراردادِ مقاصد‘ اور دستور سازی پر پروفیسر خورشیداحمد کے دو مقالات (ستمبر اور اکتوبر ۲۰۱۵ئ) بہت مدلل اور مؤثر ہیں۔ پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستورِ پاکستان کی اسلامی شقوں کے بارے میں ہمارے ملک کا بالائی طبقہ اور بعض دانش ور مخالفت یا لاتعلقی کا جو رویہ اپنائے ہوئے ہیں، یہ اس کا رد ہے۔
’اسلام فوبیا، مسلم دنیا اور امریکا‘ (ستمبر ۲۰۱۵ئ) میں طارق مہنا کا ایک امریکی قیدی کی حیثیت سے بیان امریکا کی انصاف پسندی کی حقیقت کھول کر رکھ دیتا ہے اور سیّد قطب شہید کے بارے میں (جولائی اور اگست میں ۲۰۱۵ئ) میں بہترین تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ استقامت فی الدین کے یہ اعلیٰ نمونے عالمِ اسلام کے لیے قیمتی اثاثہ ہیں۔
محترم خرم مراد صاحب کی ’’خرم مراد: حیات و خدمات‘‘ حصہ دوم کے بارے اکتوبر کے شمارے میں ضروری اعلان کیا گیا ہے۔ دسمبر میں اشاعت پیش نظر ہے۔ احباب سے گزارش ہے کہ جو اپنی یادوں کا سرمایہ بھیجنا چاہیں وہ ۲۰؍نومبر تک ضرور بھیج دیں۔ جن احباب نے لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ وہ اسے ملتوی نہ کریں۔ ۲۰ سال بعد یہ موقع مل رہا ہے، اس کا فائدہ اُٹھائیں۔
مسلم سجاد ، منشورات، منصورہ، لاھـور-فون:042-35252211
’قومی زبان: عدالت عظمیٰ کا تاریخی فیصلہ‘ (اکتوبر ۲۰۱۵ئ) میں درج مصرعہ ذوقؔ کا نہیں داغؔ کا ہے۔
ترجمان القرآن محض ایک رسالہ یا اسلام کے فضائل و برکات کے بیان کا سلسلہ نہیں، بلکہ یہ تحریک برپا کردینے اور قلوب و اذہان کو مسخر کر کے احیاے اسلام کی مؤثر جدوجہد میں شمولیت کا عملی راستہ دکھانے کا باعث رہا۔ آج بھی افکار و عمل کی یہ خوشبو رسالے کی سب سے مؤثر تشہیر کا باعث ہے۔ کیا ہم یہ گل دستہ پیش کرنے میں کامیاب ہیں؟