ڈاکٹر صفدر محمود سیاسیات اور تاریخ کے معلّم رہے ہیں۔ سیاست اور تاریخ کا آپس میں گہرا تعلق ہے، چنانچہ ہماری سیاسی اور ملّی تاریخ کے دو بڑے کرداروں (اقبال اور جناح)اور ایک بڑے محور (پاکستان) سے ان کی دل چسپی فطری ہے___ اگر معلّم صاحب ِ نظر ہو اور قلم و قرطاس سے بھی علاقہ رکھتا ہو، تو وہ معلّمی کی ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد بھی، اپنے خیالات کے اظہار سے کبھی سبک دوش نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے ہزاروں قارئین کو قومی، ملّی،علمی، تہذیبی اور تعلیمی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے متعلق اپنے خیالات سے مستفید کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے سیکڑوں ہی کالم لکھے ہوں گے۔
ڈاکٹر موصوف کے نسبتاً مفصل مضامین کا مجموعہ اقبال، جناح اور پاکستان کے عنوان سے چند برس پہلے شائع ہوا تھا، جس کا مطالعہ پیشِ نظر ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت بلاشبہہ بہت دل کش تھی۔ انھوں نے پاکستان کا مقدمہ جس قانونی اور سیاسی مہارت سے لڑا اور برعظیم کی ملّت ِاسلامیہ کی ڈولتی ہوئی کشتی کو کھینچ کر سلامتی سے ساحل پر لے آئے، اس نے انھیں لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا محبوب لیڈر بنا دیا۔ قائداعظم، ڈاکٹر صفدر محمود کے بھی محبوب لیڈر ہیں۔
جب انسان کسی شخصیت کا گرویدہ ہو تو وہ کوئی نہ کوئی ’اتفاق‘ یا ’مناسبت‘ تلاش کر لیتا ہے۔ جس کی بظاہر تو کوئی اہمیت نہیں ہوتی مگر وہ اسے اپنی عقیدت اور گرویدگی کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنالیتا ہے۔ دیکھیے، صفدر محمود نے ایک ’اتفاق‘ اور ’مناسبت‘ تلاش کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’یہ ایک دل چسپ اتفاق ہے کہ قائداعظم کی واحد اولاد، یعنی ان کی بیٹی دِینا جناح نے ۱۴؍اور۱۵؍اگست ۱۹۱۹ء کی درمیانی شب کو جنم لیا۔ ان کی دوسری اولاد اس کے صحیح ۲۸برس بعد ۱۴؍ اور ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی درمیانی شب کو معرضِ وجود میں آئی اور اس کا نام ’پاکستان‘ رکھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم اپنی اولاد کو دل و جان سے چاہتے تھے‘‘۔ (ص ۳۰)
قائداعظم مغربی تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ تھے اور اپنی ظاہری وضع قطع، رہن سہن اور لباس و اَطوار سے وہ ایک جدید اور تہذیبِ مغرب میں ڈھلے ہوئے ماڈرن قسم کے شخص معلوم ہوتے تھے۔ صفدر محمود صاحب نے ان کے کچھ ایسے پہلو دکھائے ہیں جن سے وہ پکّے پیڈے، اوّل و آخر اور مذہبی فرقوں سے ماورا خالص مسلمان نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ محمد علی جناح نے اپنا نکاح ایک سُنّی عالم مولانا نذیراحمد صدیقی سے پڑھوایا (جو مولانا شاہ احمد نورانی کے سگے تایا تھے)۔ یہ معلوم ہے کہ قائداعظم کا خاندانی تعلق اِثناعشری فرقے سے تھا مگر ان کے نزدیک فرقوں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ زیرنظر کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ایک بار کسی نے قائداعظم سے پوچھا: آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے؟ قائداعظم نے جواباً سائل سے پوچھا: آں حضور نبی کریمؐ کا مذہب کیا تھا؟ ظاہر ہے قائداعظم کا جواب بہت معنی خیز اور بلیغ تھا۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے بجا طور پر قائداعظم کو ایک سچا، کھرا اور باوقار انسان قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قائداعظم کے ہاں راست گوئی اور عظمت ِکردار سیرت النبیؐ کے گہرے مطالعے کا اعجاز تھی۔ وہ کہتے ہیں: قائداعظم کی تقریریں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت، اسلام کی بقا اور عظمت، اسوۂ حسنہ، اپنے ضمیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی جیسے احساسات و تصورات، اُن کے خون میں شامل تھے۔ ڈاکٹر موصوف، قائداعظم کی ۱۹۳۹ء کی ایک تقریر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انھیں برعظیم کے مسلمانوں کے مسلّمہ راہنما کا مقام اور مرتبہ اس وجہ سے ملا کہ وہ خدا کے حضور سرخرو ہونے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مرنے کی آرزو اور رضاے الٰہی کی تمنا رکھتے تھے (ص ۳۶)۔ وہ سرتاپا سچے مسلمان اور پکّے مومن تھے۔ صفدر محمود صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ خواب سچا ہے‘‘۔ وہ خواب کیا تھا؟ لکھتے ہیں:
مولانا اشرف علی تھانوی نہ صرف عالم و فاضل شخصیت اور مفسر قرآن تھے بلکہ ایک بلند روحانی مرتبہ بھی رکھتے تھے اور ان کے لاکھوں معتقدین ہندو پاکستان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ تعمیر پاکستان اور علماے ربانی کے مصنف منشی عبدالرحمن نے [قائداعظم کا مذہب و عقیدہ کے] ص ۱۱۱ پر لکھا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہر زادے مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت تھانوی نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’میں خواب بہت کم دیکھتا ہوں مگر آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ ایک بہت بڑا مجمع ہے گویا کہ میدانِ حشر معلوم ہو رہا ہے۔ اس مجمع میں اولیا، علما اور صلحا کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور مسٹر محمد علی جناح بھی عربی لباس پہنے ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں۔ میرے دل میں خیال گزرا: یہ اس مجمعے میں کیسے شامل ہوگئے؟ تو مجھ سے کہا گیا کہ محمدعلی جناح آج کل اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں، اسی واسطے ان کو یہ درجہ دیا گیا ہے‘‘۔ یقینا اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا اتنا سا صلہ تو ضرور ہوگا۔ انھی مولانا اشرف علی تھانوی نے ۴جولائی ۱۹۴۳ء کو مولانا شبیراحمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو طلب کیا اور فرمایا: ’’۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان کو کامیابی نصیب ہوگی۔ میرا وقت آخری ہے۔ میں زندہ رہتا تو ضرور کام کرتا۔ مشیت ِایزدی یہی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم ہو۔ قیامِ پاکستان کے لیے جو کچھ ہوسکے، کرنا اور اپنے مریدوں کو بھی کام کرنے پر اُبھارنا۔ تم دونوں عثمانیوں میں سے ایک میرا جنازہ پڑھائے گا اور دوسرا عثمانی جناح صاحب کا جنازہ پڑھائے گا‘‘۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قیامِ پاکستان سے کئی برس قبل اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان قائم ہوا، مولانا ظفر عثمانی نے تھانوی صاحب کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور سوا پانچ سال قبل کی گئی پیشین گوئی کے مطابق قائداعظمؒ کی نمازِ جنازہ مولانا شبیراحمد عثمانی نے پڑھائی۔ (ص ۳۵-۳۶)
ان دنوں ڈاکٹر صفدر محمود ایک کثیر الاشاعت اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔ اسی اخبار کے کچھ بزعمِ خویش دانش ور کالم نویس وقتاً فوقتاً ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر شخص تھے اور وہ پاکستان کو بھی سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر بھی بحث کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے اپنی تقریروں یا تحریروں میں کبھی لفظ ’سیکولرازم‘ استعمال نہیں کیا۔ ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر (جس کا سیکولرسٹ دانش ور سہارا لیتے ہیں) فی البدیہہ تھی اور خود قائد نے کہا تھا کہ یہ کوئی سوچا سمجھا بیان نہیں ہے۔
جب انھوں نے یہ کہا کہ آپ آزاد ہیں، مندر میں پوجا کریں، یا مسجد میں عبادت کریں۔ آپ کا کس مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق ہے، اس سے حکومت کو سروکار نہیں (ص۴۲)، تو اس کے یہ معنٰی نہیں کہ پاکستان سے اسلام کو بے دخل کردیا جائے گا بلکہ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ بطور شہری، مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی وغیرہ برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صفدرمحمود کہتے ہیں کہ قائداعظم کو اسلام سے گہرا لگائو تھا۔ اسلام ان کے تیقّن اور باطن کا حصہ تھا۔ انھوں نے قرآن اور سیرت کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا۔ اس ضمن میں انھوں نے قائداعظم کی تقریروں کے کچھ حوالے بھی دیے ہیں، مثلاً:
۱- ’’اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا‘‘۔ (پشاور، نومبر ۱۹۴۵ئ)
۲- ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوئہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرؐ اسلام نے دیا ہے‘‘۔ (سبّی، بلوچستان، ۱۴فروری ۱۹۴۷ئ)
۳- ’’میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں‘‘ ۔ (لاہور، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ئ)
۴- ’’میں ان لوگوں کے عزائم کو نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح ۱۳۰۰ سال پہلے ہوتا تھا‘‘۔ (کراچی، ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ئ)
اس طویل مضمون کے آخر میں ڈاکٹر صفدر محمود نے قارئین سے سوال کیا ہے: ’’اب آپ خود فیصلہ کرلیجیے کہ کیا قائداعظم ذہنی طور پر سیکولر تھے اور کیا وہ پاکستان کے لیے کسی سیکولر نظام کا خواب دیکھتے تھے؟‘‘
زیرنظر کتاب میں مصنف نے تصورِ پاکستان کے مختلف پہلوئوں، تعبیرات اور تحریکِ پاکستان کے مختلف عنوانات (تقسیم ہند کی تجویز، خطبۂ الٰہ آباد، قراردادِ لاہور، کابینہ مشن پلان) پر بھی بحث کی ہے۔ ان سب مباحث میں قائداعظم کی ذات، ان کی شخصیت اور ان کے بیانات و تقاریر کا حوالہ بار بار آیا ہے۔ آٹھویں مضمون بہ عنوان: ’قائداعظم سے منسوب غلط بیانات و احکامات‘ میں بعض بے بنیاد اور مشکوک روایات کو دلائل کے ساتھ رد کیا ہے، مثلاً قائداعظم سے ایک جملہ منسوب ہے: ’’پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا‘‘۔ ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل ہے، نہ کوئی حوالہ۔ ڈاکٹر مبارک علی نے ۲۵دسمبر ۲۰۰۱ء کو روزنامہ ڈان میں اپنے ایک مضمون میں قائداعظم سے یہ جملہ منسوب کیا تھا: He said that he and his typwriter made Pakistan۔ ڈاکٹر صفدر محمود کہتے ہیں کہ جب میں نے سوال کیا کہ حوالہ کیا ہے؟ تو جواب میں ڈاکٹر مبارک علی نے اعتراف کیا کہ اس جملے کی صحت کے لیے ان کے پاس کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے، البتہ میں نے یہ بات مسلم لیگی لیڈر احمد سعید کرمانی سے سنی تھی۔ صفدر محمود صاحب کرمانی صاحب کے پاس پہنچے تو کرمانی نے مکمل نفی میں جواب دیا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے اپنی گفتگو لکھ کر ڈاکٹر مبارک علی کو بھیجی مگر انھوں نے چپ سادھ لی۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر مبارک علی جیسے غالی اشتراکی کو ایسی ہی حرکت زیبا ہے۔ اس سے پہلے وہ اصلاحِ احوال کے لیے سرسیّداحمد خاں،شبلی اور اقبال جیسے اکابر کی کاوشوں کو رد کرچکے ہیں۔ ان کے خیال میں سرسیّداحمد خاں جاگیردارانہ ذہن رکھتے تھے اور ان کی تمام تر کاوشوں کا مقصود مسلم عوام کی بھلائی نہیں،بلکہ امرا، زمین داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ انھیں تو یہ بات بھی کھٹکتی اور بُری لگتی ہے کہ شبلی نے الفاروق، النعمان اور المامون لکھ کر مسلمانوں کو ان کے ماضی کی عظمت کا احساس دلا کر اپنی شان دار روایات پر ’ بے جا فخر‘ کرنا سکھایا۔ اور عبدالحلیم شرر نے تاریخی ناول لکھ کر ان میں مسلمانوں کی عظمت اور برتری کو پیش کیا‘۔ وہ مسلم فتوحات کو بھی ’سامراجیت‘ کے ذیل میں شمار کرتے ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری، ڈاکٹر مبارک علی کے نزدیک ’مغرب کے خلاف نفرت کے جذبات‘ پیدا کرتی ہے۔ اقبال جمہور دشمن تھے، معاشرے میں عورت کے صحیح مقام کا تعین نہیں کرسکے اور معاشرے کو کوئی مثبت پیغام دینے میں ناکام رہے۔ بحیثیت مجموعی ان کے افکار اور شاعری معاشرے کی ترقی اور شعور بیدار کرنے میں قطعی ناکام رہی ہے۔ (ملاحظہ ہو: ڈاکٹر مبارک علی کا کتابچہ سرسیّد اور اقبال: آگہی پبلی کیشنز، حیدرآباد، سندھ، ۱۹۸۴ئ)
وہ سندھ یونی ورسٹی میں تاریخ کے استاد تھے مگر وہاں ان کی دال نہیں گلی۔ لاہور کے بائیں بازو والوں نے انھیں خوش آمدید کہا۔ درحقیقت مبارک علی کا شمار قائداعظم کے بقول ’جان بوجھ کر شرارت‘ کرنے اور یہ پروپیگنڈا کرنے والوں میں ہونا چاہیے جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی (ص ۴۷)۔ صفدر محمود صاحب نے مبارک علی کے اس جھوٹ کی بھی تردید کی ہے کہ قائداعظم کہتے تھے کہ میں پاکستان کا واحد خالق (sole creator) ہوں۔
اسی مضمون میں صفدر محمود صاحب نے قائداعظم سے منسوب اس فقرے ’’میری جیب میں کھوٹے سکّے ڈال دیے گئے ہیں‘‘ پر بھی بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ قائداعظم نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مذکورہ بالا جملے کے راوی میاں عبدالعزیز مالواڈہ ہیں، اور ان کا بیان قلم بند کرنے والے سابق سیکرٹری مالیات حکومت ِ پاکستان جناب ممتاز حسن تھے، جو تحریکِ پاکستان کے پُرجوش مؤیّد اور محب ِ وطن پاکستانی تھے اور قائداعظم اور اقبال سے بے پایاں عقیدت رکھتے تھے۔ اس کا حوالہ ہے: نقوش لاہور کا اقبال نمبر، حصہ دوم،ص ۶۲۶،۱۹۷۷ئ۔
پروفیسر محمد منور نے بھی اس فقرے کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے مضامین میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ صفدر محمود صاحب غور فرمائیں کہ اِنھی کھوٹے سکّوں کی کثرت کی وجہ سے آج پاکستان اس حال کو پہنچا ہوا ہے، لہٰذا قائداعظم نے جب اور جس مناسبت سے بھی کھوٹے سکّوں کا ذکر کیا تو کچھ غلط نہیں کیا۔کتاب کے آخر میں تین ضمیمے شامل ہیں۔
چودھری رحمت علی، تحریکِ آزادیِ ہند کے ایک اہم کردار تھے۔ جنوری ۱۹۳۳ء میں انھوں نے Now or Never (اب یا کبھی نہیں) نامی کتابچہ شائع کیا تھا جو ڈاکٹر صفدر محمود کے بقول: ’’پاکستان کے مقدمے کی ایک مکمل دستاویز‘‘ ہے۔ کتاب کے ضمیمہ نمبر ایک میں انھوں نے چودھری رحمت علی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک نازک اور ایک حد تک مایوسی کے دور میں، وہ ایک پُرخلوص والہانہ جذبے سے برطانیہ کے مقتدر حلقوں تک پاکستان کا جواز ثابت کرنے اور پیغام پہنچانے میں لگے رہے۔ باستثناے اقبال اس وقت تک مسلمانوں نے ایک الگ اور آزاد مسلم ریاست کے بارے میں سوچا نہ تھا۔ ’’ Now or Never ہماری تحریکِ آزادی میں جلنے والا وہ چراغ ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کی منزل کی نشان دہی کی بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ کی سمت بھی متعین کردی۔ اس لحاظ سے ہم بہ حیثیت قوم چودھری رحمت علی کے احسان مند ہیں‘‘ (ص۱۴۷)۔ آخر میں مصنف اظہار افسوس کرتے ہیں کہ چودھری رحمت علی کی جذباتی افتادِ طبع سے معاملہ بگڑ گیا۔ انھیں زمینی حقائق کا احساس نہ ہوا (انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے تقسیم ہند منصوبے کو The greatest betrayal (عظیم ترین غداری) قرار دیا۔ انھوں نے قائداعظم کے خلاف زہر اُگلا۔ کاش تقسیم سے قبل وہ ہندستان آکر عملاً تحریکِ آزادی میں حصہ لیتے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان آئے تو قدرتی طور پر خفیہ اداروں نے ان کی نگرانی کی، مایوس ہوکر واپس برطانیہ چلے گئے۔
ضمیمہ نمبر۲ میں قائداعظم کے اے ڈی بریگیڈیئر نوراے حسین کا ایک مضمون نقل کیا ہے جس میں انھوں نے قائداعظم سے منسوب بعض بے بنیاد باتوں کی تردید کی ہے۔
ڈاکٹر صفدر محمود کے یہ مضامین ان کے برسوں کے غوروفکر اور تحقیق کا ثمر ہیں۔ جیساکہ انھوں نے دیباچے میں لکھا ہے: ان کے اظہارخیال کا انداز واسلوب غیر روایتی ہے۔ بلاشبہہ قاری اس کتاب کے مطالعے سے بہت کچھ حاصل کرتا ہے۔ یہ احساس نہیں ہوتا کہ روپے کے ساتھ، وقت بھی ضائع کیا ہے۔
آخر میں صاحب ِ کتاب سے ایک شکوہ: کتاب کے عنوان میں لفظ ’اقبال‘ سب سے پہلے مگر آزادی یا قیامِ پاکستان میں ان کے حصے اور خدمات پر کوئی مکمل مضمون کتاب میں شامل نہیں ہے۔ قاری کو تیسرے ضمیمے میں خطبۂ الٰہ آباد پر صرف پروفیسر شریف المجاہد کا مضمون میسر آتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے ضمن میں کیا علامہ اقبال کی خدمات، قائداعظم سے کم ہیں؟
(اقبال، جناح اور پاکستان، ڈاکٹر صفدر محمود۔ ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنز، لوئرمال، لاہور)