نومبر ۲۰۱۵

فہرست مضامین

اُمت مسلمہ کے لیے ایک سوال!

بینا حسین خالدی | نومبر ۲۰۱۵ | حالات حاضرہ

Responsive image Responsive image

سبزرنگ کے قیدیوں والے لباس میں ملبوس، سر پر سفید اسکارف اوڑھے ہوئے ایک نحیف و نزار خاتون، جیل اہل کاروں کے گھیرے میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرئہ عدالت میں داخل ہوتی ہے۔ اُس کے ہاتھوں پیروں میں آہنی بیڑیاں ہیں اور ہاتھوں سے خون ٹپک رہا ہے جو اس پر چند لمحوں پہلے کیے گئے تشدد کی علامت ہے۔ کمرئہ عدالت میں موجود یہودی، عیسائی اور مسلمان اس کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اُٹھتے ہیں۔ اُس مظلوم عورت کو دیکھنے کے لیے آنے والی خواتین اشکبار ہوجاتی ہیں۔ مین ہٹن امریکا کی اِس عدالت میں اُس خاتون کو ایک ’خطرناک دہشت گرد‘ کے طور پر جج کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

وہ جج کے سامنے اپنے بیان میں کہتی ہے: ’’میں پاگل نہیں ہوں… میں ایک مسلمان عورت ہوں… مجھے مرد فوجی زبردستی برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور میرے قدموں میں قرآن کو پھاڑ کر پھینکا جاتا ہے اور مجھے کہا جاتا ہے کہ اِس پر چلو… یہ تو وہ کلامِ پاک ہے جو رسولِ پاکؐ کے سینۂ مبارک پر اُترا تھا۔ میں اس پر کیسے چلوں؟ جیل اہل کار مجھے اس بات پر مجبور کرنے کے لیے کپڑے نہیں دیتے۔ اگر میں اپنے بھائی سے ملنا چاہوں تب بھی یہ کہتے ہیں کہ ہماری بات مان کر قرآن کے اُوپر پائوں رکھ کر چلو۔ اگر وکیل سے ملنے کا کہتی ہوں تو پھر بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں۔ میرا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں امریکا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک یا قوم کے خلاف نہیں ہوں۔ میں دنیا میں امن چاہتی ہوں۔ میں تعلیم یافتہ اور ذہنی طور پر تندرست ہوں۔ مجھے ذہنی امراض کی ادویات مت دی جائیں۔ مجھے امریکا سے نفرت نہیں ہے البتہ اس کے عدالتی نظام پر اعتماد نہیں ہے۔

۶جولائی ۲۰۰۹ء کو امریکی عدالت میں پیش کی جانے والی یہ خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں۔ امریکی قید میں اُن کی پُرصعوبت اور پُرتشدد زندگی کا یہ ساتواں سال تھا۔ ان سات برسوں میں وہ کون سا ستم ہے جو انھوں نے اپنے جسم اور ذہن پر نہیں سہا ہے۔ قرآن سے محبت کی سزا ان کی روح تک کو دی جارہی ہے۔ پاکستانی سینیٹر مشاہدحسین نے ایک مرتبہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ’’عافیہ پر تشدد کے انتہائی بھیانک اور غیر روایتی طریقے استعمال کیے گئے ہیں‘‘۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان کے ایک انتہائی معزز گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ حافظۂ قرآن خاتون ہیں جنھوں نے ابتدائی عمر میں بچوں کی ذہنی نشوونما کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اور ایک ایسا تعلیمی نصاب مرتب کیا جو اگر پاکستان کے تعلیمی اداروں میں رائج ہوجاتا تو ہربچہ قرآن کا علم اپنے سینے میں محفوظ کر کے فارغ التحصیل ہوسکتا تھا۔ انھوں نے دین اسلام کی تبلیغ کے لیے، دورانِ تعلیم امریکا میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ اینڈ ٹیچنگ قائم کیا۔ جیلوں میں قیدیوں کے لیے ہزاروں کی تعداد میں قرآنِ پاک تقسیم کیے۔ دین کا علم حاصل کرنے کی جستجو میں، پاکستان واپس آکر انھوں نے مختلف مذاہب کے تقابلی جائزے پر اپنی تحقیق کے سلسلے میں اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے موضوع پر تحقیق کی۔ Islamization in Pakistan and its effects on women کے موضوع پر تحقیق کی جس پر انھوں نے Carrol Wilson ایوارڈ حاصل کیا۔

عمررسیدہ اور ضعیف افراد سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ امریکا میں دورانِ تعلیم وہ Old Women House میں اعزازی طور پر خدمات سرانجام دیتی تھیں۔ ڈاکٹر عافیہ نے بوسنیا کی مظلوم عورتوں اور بچوں کی امداد کے لیے تنِ تنہا ہزاروں ڈالر جمع کیے جو شاید کسی طالبہ کی طرف سے فنڈ جمع کرنے کا عالمی ریکارڈ تھا۔ وہ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے امریکی حکومت کی جانب سے دی گئی شہریت کی پیش کش کو شکریے کے ساتھ واپس کرچکی تھیں۔ وہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو بدلنے کی خواہش رکھتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی نصاب میں اسلامیات بطور ایک لازمی مضمون نہیں بلکہ ہرمضمون کا لازمی جزو ہونا چاہیے کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس کی مدد سے ہم زندگی کا ہرشعبہ بہترین انداز میں چلا سکتے ہیں اور یہی پاکستان کے تمام مسائل کا حقیقی حل ہے    ؎

مکتبِ عشق کے دستور نرالے دیکھے

اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا

اسی شعر کے مصداق جس طرح آج دنیا بھر میں قرآن کو سینوں میں بسانے والوں اور اقامت ِ دین اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کو عقوبت خانوں میں اذیتیں دی جارہی اور سولی پر چڑھایا جا رہا ہے، اسی طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی قرآن فہمی کے ’جرمِ بے گناہی‘ کی سزا  ۸۶ سال  قیدِتنہائی کی صورت میں دی گئی ہے۔

مارچ ۲۰۰۳ء کے ایک پُرامن دن میں اس باحجاب مسلم خاتون پر یکایک قیامت ٹوٹ پڑی جب وہ اپنے تین معصوم بچوں کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد جانے کے لیے گلشنِ اقبال میں واقع اپنے گھر سے ٹیکسی میں سوار ہوکر نکلیں۔ انھیں راستے میں روک لیا گیا۔ وہ ۱۵، ۲۰ ؍افراد تھے۔ ان میں سے کچھ مسلح اور کچھ غیرمسلح تھے اور ایک خاتون پولیس آفیسر بھی تھی۔ عافیہ زبانِ حال سے خود اپنی کہانی سناتے ہوئے کہتی ہیں: ’’ایک دن میں اپنے تین معصوم بچوں کے ساتھ اسلام آباد جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئی تو راستے میں پولیس نے مجھے روک لیا۔ ان کے ساتھ ایف بی آئی کی ایک ٹیم بھی تھی۔ میں نے اپنے جرم کے بارے میں سوال کیا تو میرے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیے گئے اور ایسی غلیظ گالیوں کا زہر میرے کانوں میں انڈیلا گیا جن سے آج تک میرا واسطہ نہ پڑا تھا۔ مجھے گھسیٹ کر ایک گاڑی میں پھینک دیا گیا اور میرے بچوں کو دوسری گاڑی میں بٹھادیا گیا۔ اُن کا جرم یہ تھا کہ وہ میرے گھر میں پیدا ہوئے۔ میں روتی تڑپتی اور سرپٹختی رہی اور اپنے بے گناہ ہونے کا یقین دلاتی رہی لیکن انھیں مجھ پر ترس نہ آیا۔ میرے چہرے سے نقاب نوچا گیا۔ میرے بچوں کے سامنے سرعام میری تذلیل کی گئی۔ کپڑے پھاڑ دیے گئے، دوپٹا لیر لیر کر دیا گیا۔ ایف بی آئی کی خاتون انسپکٹر نے میرے چہرے پر تھپڑ مارے، پائوں سے ٹھڈے مارے۔ میرے بچے بس روتے ہی چلے جارہے تھے۔ رونے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ ماں کے سامنے معصوم بچوں کو بھی تھپڑ، ٹھڈے اور گھونسے مارے جارہے تھے‘‘۔

عافیہ کہتی ہیں کہ: ’’میں بس یہ درخواست کیے جارہی تھی کہ میرے بچوں کو نہ مارو، میرے بچوں کو نہ تڑپائو۔ اس کے جواب میں ایک سیاہ رنگ والے موٹے شخص نے جس کے چہرے سے نفرت اور بُغض ٹپکتا تھا… میرے سینے پر اس زور سے لات ماری کہ میں دُور کھڑی گاڑی سے جاٹکرائی۔ میرے سر میں چوٹ آئی۔ یہ دیکھ کر میرے معصوم بچے اور زیادہ زور زور سے رونے لگے۔ ایک بونے قد کے آدمی نے میرے بچوں کو جانوروں کی طرح ایک گاڑی میں دھکیل دیا اور دروازہ بند کر کے تالا لگادیا۔ پھر ان ۱۰، ۱۵؍ افراد میں سے چھے ہوشیار اور چاق و چوبند کراٹے ماسٹرز نے مجھ نہتی پر یکبارگی حملہ کر دیا۔ گھونسوں، مکوں، لاتوں اور بوٹوں کی بارش کر دی۔ آٹھ مسلح افراد میرے چاروں طرف اسلحہ تانے الرٹ کھڑے تھے۔ جب میں نیم بے ہوش ہوگئی تو میری آنکھوں پر کالی پٹی کس کر باندھ دی گئی اور ہتھکڑیاں لگا کر دھکے دے کر گاڑی میں پھینک دیا گیا‘‘۔(انور غازی کی کتاب عافیہ  سے اقتباس)

ڈاکٹر عافیہ کی والدہ اور بہن ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق اغوا کے بعد تین سال تک معلوم نہیں ہوسکا کہ ڈاکٹر عافیہ اور اُس کے بچے کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ ۲۰۰۶ء میں معلوم ہوا کہ افغانستان کے CIA Detention Centre میں ڈاکٹر عافیہ قید ہیں جہاں اُن پر بے پناہ تشدد کے ذریعے یہ بات منوانے کی کوششیں کی گئیں کہ وہ القاعدہ نامی دہشت گرد تنظیم کی رُکن ہیں۔ لیکن  یہ اقرار کروانے میں ناکامی پر سی آئی اے اہل کاروں نے ڈاکٹر عافیہ کو جیل سے نکال کر غزنی کے گورنر کے بنگلے کے قریب چھوڑ دیا اور افغان حکام کو اطلاع دی کہ ایک خطرناک دہشت گرد گورنر کے بنگلے کے قریب موجود ہے جسے دیکھتے ہی فوراً گولیاں مار دی جائیں۔ لیکن افغان اہل کاروں نے ڈاکٹر عافیہ کو مسجد کے قریب اس حالت میں پایا کہ وہ عصر کی نماز کے لیے سجدہ ریز تھیں اور تلاشی لینے پر کوئی اسلحہ یا خودکش مواد برآمد نہ ہوسکا۔ یہ واقعہ ۱۷جولائی ۲۰۰۸ء میں ہوا۔ ۱۸جولائی ۲۰۰۸ء میں امریکی اہل کاروں نے افغان حکام کے منع کرنے کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کو گولیاں مار کر شدید زخمی کردیا اور انھیں مُردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن افغان حکام کی بروقت طبی امداد کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ کی جان معجزانہ طور پر بچ گئی اور میڈیا کے ذریعے یہ اطلاع عوام الناس کو بھی ملی۔ اس واقعے کے تقریباً ۱۷ دن بعد ۳؍اگست کو امریکی حکام ڈاکٹر عافیہ کو اغو کر کے زخمی حالت میں نیویارک امریکا لے گئے جہاں اُن پر امریکی فوجیوں پر فائرنگ کا بے بنیاد اور جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران امریکی ماہر تفتیش کار نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا جس کے مطابق جاے وقوعہ پر ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے ثابت ہوسکے کہ ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجیوں پر حملہ کیا تھا۔  ایم فور رائفل پر ڈاکٹر عافیہ کے فنگرپرنٹس موجود نہیں تھے اور نہ کسی عام عورت یا مرد کے لیے ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ اس رائفل کے نمبرسسٹم کے تحت خفیہ لاک کو کھول سکے۔ کیونکہ اس کے   خفیہ لاک صرف رائفل کے مالک ہی کو معلوم ہوتے ہیں۔

اس مقدمے کا فیصلہ ۲۳ستمبر ۲۰۱۰ء کو سنایا گیا۔ متعصب جج رچرڈ برمن نے قانون و انصاف کے تمام تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ۸۶برس قید کی سزا سنائی، جب کہ جج نے اپنے فیصلے میں یہ بھی تسلیم کیا کہ ڈاکٹر عافیہ جو کہ پاکستانی شہری ہیں، اس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عافیہ کو صرف اس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ اس نے امریکی فوجیوں کو قتل کے ارادے سے بندوق اُٹھائی اور ان پر گولیاں چلائیں اور فوجیوں کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہوئی۔ جج نے اپنے فیصلے میں یہ بات بھی لکھی کہ باوجود اس کے کہ عافیہ کے خلاف کسی قسم کے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں لیکن پاکستانی وکلا نے جو دلائل دیے ہیں ان کی روشنی میں عافیہ کو ۸۶برس کی سزاے قید دی جارہی ہے۔ مشہور امریکی تجزیہ نگار اسٹیفن لینڈ نے یہ سزا سن کر بیان دیا کہ ’’عافیہ کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے‘‘۔

متعصب امریکی وکیل و تجزیہ نگار اسٹیون ڈائونز ، جس نے ہمیشہ عافیہ کی مخالفت میں تبصرے تحریر کیے تھے، عافیہ کی جرمِ بے گناہی کی سزا سن کر چیخ اُٹھا اور اُس نے کہا: ’’میں ایک مُردہ قوم کی بیٹی کو ملنے والی سزا دیکھنے آیا تھا لیکن اب میں انسانیت کی ماں، ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو سلام پیش کرتا ہوں‘‘۔

عدالت میں اس فیصلے کے بعد جج کے خلاف شیم شیم کے نعرے بلند ہوئے۔ عدالت میں موجود عیسائی، یہودی اور مسلمانوں نے عافیہ سے یک جہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ آج امریکی عدالت میں انصاف کا قتلِ عام ہوگیا ہے۔

عالمی میڈیا اِس بات کا گواہ ہے کہ امریکی جیلوں میں خواتین قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتا ہے۔ ٹیکساس کی جس جیل میں ڈاکٹر عافیہ کو رکھا گیا تھا اس کو House of Horror کہا جاتا ہے۔ امریکا کی عدالت میں ایسے مقدمے موجود ہیں جن میں ٹیکساس جیل سے رہائی پانے سے پہلے ہی ایک خاتون کو بھیانک تشدد کے بعد ہلاک کردیا گیا تاکہ وہ جیل سے باہر جاکر دنیا کو جیل میں گزرنے والے بھیانک حالات سے آگاہ نہ کرسکے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو مسلسل تشدد، تذلیل اور ادویات کے ذریعے ذہنی طور پر ناکارہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے جسم کو ہی نہیں بلکہ ان کی روح اور فکر کو بھی سزا دی جارہی ہے۔ ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے مطابق اپریل ۲۰۱۴ء سے اب تک ان کی صحت اور خیریت کی کوئی اطلاع نہیں ہے، نہ جیل حکام ہی امریکا میں موجود     ڈاکٹر عافیہ کے بھائی کو ان سے ملنے کی اجازت دیتے ہیں۔

امریکی عوام نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اظہارِ یک جہتی کے لیے متعدد بار احتجاجی مظاہرے کیے۔ حال ہی میں ۲۳ستمبر ۲۰۱۵ء کو بھی امریکا میں ڈاکٹر عافیہ کے خلاف مذکورہ عدالتی فیصلے کے دن کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا گیا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے صدر بارک اوباما کے نام اپیل کی گئی جس پر ایک لاکھ امریکی شہریوں کے دستخط لیے گئے۔ لیکن اِن تمام کارروائیوں کے جواب میں امریکی حکومت ہر بار ایک ہی جواب دیتی ہے کہ پاکستان کی حکومت کے سربراہان عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کریں تو وہ  عافیہ صدیقی کو رہا کرنے پر تیار ہیں۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی حالت ِ زار پر حرمین شریفین مکہ مکرمہ سے استاذ الشیخ ابومحمد عبداللہ الحجازی نے ایک فتویٰ تحریر کیا تھا جس کے مطابق: ’’اگر کوئی مسلمان عورت یہود و نصاریٰ یا غیرمسلموں کے ہاتھوں قید ہو تو تمام مسلمانوں پر اور مسلمان ملکوں پر لازم ہے کہ اس کو مکمل طور پر آزاد کرائیں‘‘۔

امام ابوابکر بن العربی ؒ نے فرمایا: ’’اگر مسلمان غیرمسلموں کے ملک میں قید ہوجائیں تو تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان کمزور مسلمانوں کی رہائی کے لیے بدنی اور مالی ہرممکن تعاون کریں۔ یہاں تک کہ ہرمسلمان غیرمسلموں کی قید سے آزاد ہوجائے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی دولت خرچ کرنا پڑے اور ایک بھی درہم باقی نہ بچے‘‘۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے علماے کرام کے فتوے متعدد بار جاری ہوتے رہے ہیں۔ بے گناہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مسلسل ۱۲سال سے امریکی جیلوں میں پُرصعوبت زندگی گزار رہی ہے اور بے بسی کی تصویر بنی عالمِ اسلام کی طرف دیکھ رہی ہے لیکن مسلم حکمرانوں کی خاموشی پوری اُمت مسلمہ کے لیے ایک سوال ہے…!