زراعت کے بعد صنعت و تجارت ہی انسان کا قدیم ترین پیشہ ہے لیکن پچھلی دو صدیوں میں تجارت اور خاص طور پر بین الاقوامی تجارت اور کاروبار کو جو فروغ ہوا، اس سے ساری دنیا ایک عالمی منڈی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ تجارت اور کاروبار اب وسیع علم کی شکل اختیار کرچکے ہیں، اور ساری دنیا میں ایسے معتبر ادارے قائم ہوچکے ہیں، جہاں ان علوم کی تعلیم و تدریس نہایت اعلیٰ پیمانے پر کی جارہی ہے۔ پاکستان میں اس طرح کا پہلا بڑا ادارہ،امریکی امداد سے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں قائم ہوا تھا۔ اب اس طرح کے کئی ادارے سارے ملک میں قائم ہیں۔ لیکن زندگی کے اور دوسرے شعبوں کی طرح اس میدان میں بھی غیرمذہبی/لادینی اور خالص کاروباری انداز میں تعلیم و تدریس کا اہتمام ہے۔ تقریباً ساری نصابی کتابیں مغرب کے سرمایہ دارانہ اور ’خالصتاً‘ تاجرانہ انداز پر تحریر کردہ اور درآمد شدہ ہیں یا اُن کا چربہ ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ استثنائی مثالیں، ہندستان میں شائع شدہ کتابوں کی ہیں، تاہم ہمارے طلبہ کا سارا تحصیل علم کا عمل (orientation) مغرب کے سرمایہ دارانہ، لوٹ کھسوٹ کے نظام کی تعلیم و تدریس ہی کا ہے۔ ہماری جامعات اور ’مدارسِ تجارت‘ منڈی کی معیشت کے لیے ایسے کرایے کے سپاہی تیار کر رہے ہیں، جو اس غیرمنصفانہ نظام کے چلانے میں اہلِ دولت کے رفیقِ کار ہیں۔
پیش نظر کتاب اس استحصالی حبس کے موسم میں ایک تازہ اور خوش گوار جھونکا محسوس ہوتی ہے۔ مرتبین جو رفاہ یونی ورسٹی اسلام آباد کے شعبۂ تحقیق سے وابستہ ہیں، اپنی اس کوشش کو ’اسلام کے اخلاقی تناظر میں ایک ابتدائی مکالمہ‘قرار دیتے ہیں۔ لیکن اصل میں یہ اپنے موضوع پر ایک بنیادی حوالے کی دستاویز ہے۔
کتاب ۱۰؍اکائیوں (units) اور ایک ضمیمے پر مشتمل ہے۔ ان ابواب میں ’اسلام کا تصورِ مال اور رزق‘، ’دولت کا استعمال اور صَرف‘ ، ’وسائل: کیا وسائل فی الواقع محدود ہیں؟‘ تین بڑے نظام ہاے معیشت: سرمایہ داری، اشتراکیت اور اسلام، آبادی اور اس کی تحدید کے مسائل، دولت اور وسائل معاش کی تقسیم، کفالت، صدقہ، خیرات اور فیاضی، نیز زکوٰۃ کی اہمیت، دولت کی گردش کے لیے اِن اداروں کی اہمیت، احتیاج، ضرورت اور خواہش کے ذہنی محرکات، اسراف و تبذیر کی ممانعت اور ایک متوازن زندگی کی ضرورت و اہمیت، زمین اور اس کی تقسیم، زرعی اور صنعتی معاشی مراکز، وسائلِ دولت: زمین، سمندر، شمسی اور ہوائی توانائی، معدنی توانائی کے ذخائر: تیل، کوئلہ اور ان کا استعمال زیربحث لائے گئے ہیں۔ کاروبار اور ’کاروباری شخصیت‘ میں ہمارے لیے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک بہترین نمونہ ہے۔ اس ضمن میں جائز و ناجائز، مطلوب اور غیرمطلوب، نیز سرمایہ کاری کے طریقوں، مضاربہ، مرابحہ، مشارکہ اور ر ٰبواور ’تجارتی سود‘ پر بحث کی گئی ہے۔ آخر میں فکروعمل کی ایک نئی تمثال (paradigm) پر گفتگو کی گئی ہے ، جس میں دنیا اور آخرت، مادہ اور پُرتکلف اور پُرتعیش زندگی، منافع اندوزی اور کفایت، برکت اور فلاح زیربحث ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد ، وائس چانسلر، رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی اسلام آباد نے بالکل درست کہا ہے کہ ’’اسلامی معاشیات، بنیادی طور پر ایک اخلاقی سیاسی معیشت ہے، جس میں سماجی جواب دہی کے تصور پر زور دیا گیا ہے‘‘۔
ضمیمے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ربوٰ (سود) سے متعلق ارشادات جمع کر دیے گئے ہیں۔ یہ اساتذہ کے لیے بھی راہ نمائی کا ایک قیمتی وسیلہ ثابت ہوگی، اور اسلامی نظامِ معیشت کے حوالے سے ایک وقیع دستاویز ہوگی۔
کتاب نہایت خوب صورت، نفیس طباعت کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔ یہ نہ صرف کاروبار اور معاشیات کے ہر ادارے اور طالب علم کی ضرورت کو پورا کرتی ہے، بلکہ ہر دینی اسلامی مدرسے کو معلم اور طالب علم کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اس کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہوجائے۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
زیرنظر کتاب میں حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ کے تمام واقعات تفصیلاً زیربحث نہیں آئے، البتہ بعض اُمور کے متعلق مصنف نے اپنا نقطۂ نظر واضح کیا ہے اور اپنی آرا محکم دلائل سے پیش کی ہیں۔ کتاب کے ۵۰؍ابواب میں سیرت النبیؐ کے متعدد پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چند عنوانات یہ ہیں: نظامِ نبوت و رسالت، نبی موعود کی آمد، قریش کی پریشانی اور مسلمانوں پر سختی، رسولؐ اللہ کی شخصیت پر [مشرکین کے] اعتراضات، ہجرت، حق و باطل کے درمیان پہلا معرکہ، قریش کی نئی مہم، اہلِ ایمان کی کردارکشی کی کوششیں، فتح مکہ، ختم نبوت اور جمع و تدوین قرآن، رسولؐ کے فرائض اور رسولؐ اللہ کے حقوق۔
قرآنِ مجید کو سیرت النبیؐ کے اصل ماخذ و مصدر کی حیثیت حاصل ہے۔ مصنف نے اسی خیال کے پیش نظر قرآن و سنت ہی کو مرکزِ توجہ بنایا ہے۔ عام طور پر سیرت نگار مصنّفین نے اپنی اپنی کتاب میں کسی نہ کسی خاص پہلو کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ زیرنظر کتاب میں حضور اکرمؐ کو اللہ کے رسولؐ کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہی حیثیت حضور اکرمؐ کو دیگر کامیاب مصلحین، عظیم سپہ سالاروں اور داعیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ رسول اللہ تعالیٰ کی حفاظت و نگرانی میں فرائض نبوت ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو جزاے خیر عطا کرے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ انھوں نے نہایت محبت و عقیدت سے رسول اکرمؐ کی سیرت ایک اُچھوتے انداز میں پیش کی ہے۔(ظفر حجازی)
علامہ شبلی نعمانی کے تلامیذ میں مولانا سیّد سلیمان ندوی کے بعد مولانا عبدالسلام ندوی کا نام سرفہرست ہے۔ مولانا نے اپنے استاد کی تاریخی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مشاہیر اسلام، فلسفہ اور شعروادب کے میدان میں اعلیٰ خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر کبیراحمد جائیسی نے شگفتہ اندازِ تحریر کے ساتھ مولانا کی حیات اور کارناموں کا ایک عمومی جائزہ اس کتاب میں پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کے بقول پاکستان میں مولانا عبدالسلام ندوی پر طبع ہونے والی یہ پہلی جامع کتاب ہے۔ڈاکٹر نگار نے علمی تحریرات کی اشاعت کے ذریعے اُردو اور پاکستان میں سنجیدہ علمی موضوعات کو متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کے لیے وہ ہدیۂ تبریک کی مستحق ہیں۔
کتاب میں نقشِ حیات کے زیرعنوان مولانا کا سوانحی خاکہ تیار کیا گیا ہے اور پھر ان کی نثرنگاری خصوصاً مطبوعہ تصانیف کا تعارف شامل ہے۔ ان میں انقلابِ اُمم، سیرت عمر بن عبدالعزیز، اسوئہ صحابہؓ، اسوئہ صحابیاتؓ، شعر الہند اور فقہاے اسلام شامل ہیں۔
مولانا عبدالسلام ندوی برعظیم پاک و ہند میں علامہ شبلی کے تاریخ نگاری کے مدرسے کی علمی روایت کی جامع نمایندگی کرتے ہیں۔ چنانچہ شعروادب، تاریخ ، فلسفہ و کلام پر جامعیت کے ساتھ ہرموضوع کا حق ادا کرتے ہیں۔ ان جیسی جامع شخصیات اب بہت کم نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر جائیسی کی یہ کتاب ہر علمی لائبریری کے سرمایہ میں شامل ہونی چاہیے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
اس طرح کے کارنامے دل کی لگن اور اللہ کی مدد کے بغیر انجام نہیں پاتے۔ خطباتِ مشاہیر جامعہ حقانیہ کی پیش کش ہے جو ۱۰ ضخیم جلدوں میں سامنے آئی ہے۔
عظیم بین الاقوامی یونی ورسٹی جامعہ حقانیہ کے منبرومحراب سے تقریباً پون صدی کے عرصے میں اساطین علم و فضل، علما و محدثین، مشائخ و اکابرینِ اُمت، دانش ور و مصنّفین اور نام وَر خطباے کرام جو خطبات دیتے رہے، مواعظ و نصائح کا علمی، فقہی، روحانی مجموعہ مرتب ہوگیا۔ یوں علم و عمل، معارف و حکم، دعوت و جہاد، حکمرانی و سیاست اور تصوف و ارشاد کا بحرِ ذخار وجود میں آیا جو ۱۰خوب صورت جلدوں پر مشتمل ہے۔ کم سے کم ضخامت ۴۰۰ اور زیادہ سے زیادہ ۷۰۰ صفحات ہے۔ طباعت معیاری ہے۔ سفید کاغذ پر کھلی مشینی کتابت ہے۔ نظروں کو بھلی لگتی ہے، آسانی سے پڑھی جاتی ہے۔
منبرحقانیہ سے جامعہ کے قیام کے بعد سے جو کچھ سرگرمی ہوئی ہے جو خطابات کیے گئے ہیں، جو کانفرنسیں اور کسی خاص موضوع پر سیمی نار ہوا، کتابوں کی رُونمائی ہوئی ہے، اسے جمع کرنے کا شان دار کام کیا گیا ہے۔پہلی جلد میں دارالعلوم دیوبند کے ۱۰؍اساطین بشمول مولانا حسین احمد مدنی، طیب قاسمی اور انظر شاہ کشمیری، دوسری جلد میں مشاہیر عالمِ اسلام، تیسری جلد میں زعما مشائخ پاکستان، چوتھی جلد میں مولانا عبدالحق، پانچویں جلد میں مولا سمیع الحق، چھٹی اور ساتویں جلد میں اساتذہ جامعہ حقانیہ کے خطبات جمع کیے گئے ہیں۔ آٹھویں جلد میں کُل پاکستان اجتماع کی رُوداد ہے جو دینی مدارس کے نصاب و نظام اور تجاویز کے حوالے سے منعقد ہوا۔ نویں جلد میں کتب کی رُو نمائی کی رُودادیں ہیں اور دسویں جلد میں جلسہ ہاے دستاربندی کے احوال ہیں (غلطی سے اس پر تقریبات راہ نمائی براے مطبوعات لکھ دیا گیا ہے)۔
اس تفصیل سے بہت تھوڑا سا اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان ۱۰کتابوں میں کیا کیا خزانے مستور ہیں۔ اگر ہر کتاب کو ایک صفحہ دیا جائے تو تبصرے کے لیے ۱۰صفحے درکار ہیں۔
کون سا دینی موضوع ہے جس پر گفتگو نہ کی گئی ہو۔ جہاد اور طالبان کے بارے میں تبصرہ ملتا ہے کہ مدرسے کے اساتذہ اور طالب علم ان کے شانہ بشانہ جہاد میں حصہ لے رہے ہیں۔ شریعت بل کے بارے میں جدوجہد کی پوری داستان مل جائے گی۔ غرض دین و سیاست کے قومی زندگی کے سارے مراحل نظر سے گزر جاتے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ ان ۱۰ جلدوں کی جو وسعت ہے اسے کسی تبصرے میں سمیٹنا تبصرہ نگار کے لیے ممکن نہیں۔ کن کن شخصیات کے نام آگئے ہیں، شمار ممکن نہیں۔
یہ برعظیم کے اس دور کی علمی، دینی و سیاسی سرگرمیوں کے طالب علموں کے لیے شان دار تحفہ ہے۔دیگر علمی مراکز کے لیے ایک نمونے کا کام ہے۔ اگر اسی طرح کے مجلدات سب نمایاں مدرسے پیش کریں تو زبردست علمی سرگرمی سامنے آئے گی۔(مسلم سجاد)
’عظیم کھیل‘ (گریٹ گیم) کوئی نئی بات نہیں۔ گذشتہ صدی میں بھی یہ کھیل دوعالمی طاقتوں کے درمیان کھیلا گیا تھا (جو آج صفحۂ ہستی سے مٹ چکیں)، اور آج امریکا عالمی بالادستی کے لیے دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں اسی روش پر گامزن ہے، جب کہ اُمت مسلمہ اس کا خصوصی ہدف ہے۔
گذشتہ صدی میں اس وقت کی دو عالمی طاقتوں برطانیہ اور سوویت یونین نے افغانستان کو مرکز بناتے ہوئے جس طرح سے یہ ’عظیم کھیل‘ کھیلا، زیرتبصرہ کتاب اس کے دل چسپ تجزیے پر مبنی ہے۔ بقول مترجم: ’’گذشتہ صدی اس گریٹ گیم کی کہانی ان دونوں عالمی استعماری طاقتوں کے مابین کشاکش کی ایک دل چسپ، خوں چکاں اور اسرارو تجسس سے بھرپور ایسی کہانی ہے جو قاری کو اپنے سحر میں جکڑنے کے بھرپور لوازم سے آراستہ ہے‘‘(ص۶)۔ پھر یہ کتاب گھر کی گواہی ہے۔ مصنف نے کتاب ان لوگوں کی یادداشتوں سے مرتب کی ہے جو عملاً اس ’عظیم کھیل‘ کا حصہ تھے۔
کتاب کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ استعماری طاقتیں اپنے سامراجی عزائم اور مذموم مقاصد کے لیے کس طرح سے سازشوںکے جال بُنتی ہیں، ایجنٹوں کا جال بچھایا جاتا ہے، حساس اداروں اور حکمرانوں پر اثرانداز ہونے کے لیے افراد کو متعین کیا جاتا ہے اور پھر ان سے من مانے فیصلے کروائے جاتے ہیں۔ بسااوقات غلط فہمیاں پھیلا کر مختلف ممالک میں جھڑپیں کروائی جاتی ہیں اور انھیں اُلجھا دیا جاتا ہے۔ معصوم انسانوں کا بے دریغ خون بہایا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر بے دردی سے تباہی کا سامان کیا جاتا ہے۔ اس کھیل میں اصولوں اور نظریات کو بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے،جیساکہ اسٹالن نے مطلب برآری کے لیے برطانیہ کا اتحادی بنتے ہوئے کیا۔ لمحوں میں ’سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ‘ ’عوامی جنگ‘ اور بالآخر حب الوطنی کی عظیم جنگ کا رُوپ دھار گئی اور اشتراکیت کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
آج امریکا افغانستان، عراق، عالمِ عرب اور بالخصوص پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک کر ایسا ہی کھیل کھیل رہا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے موجودہ ’عظیم کھیل‘ کی حقیقت اور اُمت مسلمہ جن سازشوں سے دوچار ہے ان کی وجوہات سامنے آجاتی ہیں، نیز سدباب کی حکمت عملی بھی۔توراکینہ قاضی صاحبہ نے عمدہ ترجمہ کر کے مفید علمی خدمت انجام دی ہے۔(امجد عباسی)
محترم شیخ محمد عمرفاروق صاحب کے آخری پارۂ عم کی درس کی ضخیم کتاب کا تازہ ایڈیشن دستیاب ہے۔ جس جگہ احباب گروپ بناکر باقاعدگی سے مطالعۂ قرآن کرتے ہوں، وہ درس کی اس کتاب کو ۵۰ روپے ڈاک ٹکٹ بھیج کر طلب کرسکتے ہیں۔ شیخ عمر فاروق ، 15-B وحدت کالونی، وحدت روڈ، لاہور۔فون: 042-37810845