پورے ۱۴۳۶ سال گزرگئے، سیرتِ اطہرؐ کے تمام ابواب کی طرح باب ہجرت آج بھی سراسر باب رُشد و ہدایت ہے۔ ہجرت کے ایک ہی موڑ نے، اہل ایمان کو ظلم و عذاب سے نجات دلا کر، ایک حقیقی اسلامی انقلاب کی منزل سے آشنا کردیا تھا۔ پھر یثرب، یثرب نہ رہا قیامت تک کے لیے ایک شہر روشن: ’مدینہ منورہ ‘ میں بدل گیا۔ عناد و تکبر کے بت دیکھتے ہی دیکھتے رزق خاک ہوتے چلے گئے اور صرف آٹھ برس بعد قافلۂ حق جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ (حق آگیا اور باطل رسوا ہوگیا) کا سرمدی ترانہ دہراتے ہوئے، بیت اللہ کو اپنے مخلصانہ سجدوں سے آباد کررہا تھا۔
سفر ہجرت یقینا قربانیوں کی ایک بے مثال و لازوال داستان ہے۔ مقصدِ حیات کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا گھر بار، مال و متاع بلکہ اہل و عیال تک قربان کردیے۔ سفر ہجرت، اللہ کی معیت و نصرت اور معجزاتِ نبیؐ کا ایمان افروز تذکرہ بھی ہے۔ غارِ ثور کی سرگوشی لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ج ( فکر نہ کریں اللہ یقینا ہما رے ساتھ ہے۔ التوبہ ۹:۴۰)، اُم معبد کا خیمہ اور سراقہ کی سواری سب اس کی تفصیل سناتے ہیں۔ لیکن سفر ہجرت آپؐ کی عظیم منصوبہ بندی اور اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ (ان کے مقابلے کے لیے جتنی تیاری کرسکتے ہو ضرور کرو۔ انفال ۸:۶۰) کی جامع تفسیر بھی ہے۔ خون کے پیاسے دشمن ہی سے نہیں، ان کی طرف سے اعلان کردہ بڑی انعامی رقم کے لالچ میں ہر قدم پر ممکنہ دشمن سے خطرات لاحق تھے۔ آپؐ نے احتیاط و حذر، مناسب سواری، جاں نثار یارِ غار، صحرائی راستوں کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح جاننے والے راہ نما، دشمن کی نقل و حرکت سے آگاہ کرنے والے زیرک خبررساں___ گویا ایک ایک ضرورت کا اہتمام اور انتظام فرمایا تھا۔ پورا سفر خود اذنِ الٰہی سے شروع ہوا تھا، اللہ پر بھروسا اور اعتماد بھی آپؐ سے زیادہ کون کرسکتا تھا، لیکن انسان ہونے کے ناتے ہر وہ تیاری کی گئی جس کا تصور اس دور میں کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ منتظم ہی کرسکتا تھا۔
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی، تو وحی کے انداز و موضوعات بھی بدلتے گئے۔ اب دعوت و تربیت، ایک اُمت اور ایک ریاست میں بدل رہی تھی۔ انسانیت کو عقائد و عبادات کے ساتھ، معاشرت و ریاست کے تفصیلی احکام کی بھی ضرورت تھی۔ یہاں تک کہ ایک روز یہ بشارت مل گئی کہ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے، اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے، اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘ (المائدہ۵:۳)۔ زندگی کا کوئی گوشہ رہنمائی کے بغیر نہیں چھوڑا گیا۔ خالق نے مخلوق کے حقوق بھی تمام تر جزئیات کے ساتھ بیان کردیے۔ یہ اعزاز و سرفرازی اتنی شان دار تھی کہ غیر مسلم بھی حسرت سے کہنے لگے: ’’یہ آیت ہمارے لیے نازل ہوئی ہوتی تو ہم آج کا دن روزِ عید قرار دے دیتے‘‘۔
اسی کامل و اکمل شریعت میں کئی اہم اُمور ایسے ہیں جن کے بارے میں اصولی رہنمائی دے کر بندوں کو فیصلے اور چناؤ کا اختیار دے دیا گیا۔ یہ بھی رحمن و رحیم پروردگار کی رحمت ہی کا ایک پرتو تھا، تاکہ بندے ہر بدلتے حالات میں اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق فیصلہ کرسکیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق:’’ اللہ تعالیٰ نے تم پر فرائض عائد کردیے، انھیں ضائع نہ کرو۔ تمھارے لیے حدود متعین کردیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔ تمھیں کچھ چیزوں سے منع کردیا، ان کا ارتکاب نہ کرو۔ اور کچھ اُمور کے بارے میں اس نے بھولے بغیر او رتم پر رحم کرتے ہوئے سکوت اختیار فرمایا، ان کے بارے میں غیر ضروری تکلف میں پڑے بغیر انھیں قبول کرلو‘‘۔
حکومت سازی اور انتقالِ اقتدار کا معاملہ بھی انھی اہم اُمور میں سے ایک ہے۔ اسلام میں کسی بھی طرح کی آمریت، ظلم و تعدی یا انتشار و فساد کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔ مسلم معاشرے کا ہرشہری یکساں حقوق و مواقع رکھتا ہے۔ واضح حکم دے دیا گیا کہ: شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ( ہر اہم کام میں ان سے مشورہ کیا کیجیے۔آل عمران۳:۱۵۹)۔ آپؐ اور آپؐ کے بعد صحابہ کرامؓ نے اجتماعیت کے اس بنیادی حسن، شورائیت و مشاورت کا حق ادا کردیا۔ اللہ کا نبی اور صاحبِ وحی ہونے کے باوجود صحابہ کرامؓ نے اگر آپؐ کی راے سے مختلف کوئی راے رکھی، تو کامل اخلاص و محبت سے اس کا اظہار کیا۔ آپ نے بھی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے ان کی آرا کو تسلیم کیا۔ بدر میں پڑاؤ اور اُحد کے میدان کا انتخاب جیسے درجنوں واقعات اس مشاورتی عمل کی روشن مثالیں پیش کرتے ہیں۔ آپؐ کی رحلت کے بعد انتقالِ اقتدار کا مرحلہ آپؐ کی تربیت اور قرآنی تعلیمات پر عمل در آمد کا پہلا کڑا امتحان تھا۔ یہی صورت خلیفۂ اول اور ان کے بعد آنے والوں کو درپیش آئی۔ آئیے! یہاں چاروں خلفاے راشدین کے انتقالِ اقتدار کے واقعات مختصراً تازہ کرلیں۔
’’میں نے اپنے بعد عمر بن الخطاب کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ ان کی بات سنیں اور ان کی اطاعت کریں۔ میں نے اللہ، اس کے رسول، اس کے دین اور خود اپنی بھلائی کے لیے بہترین فیصلہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا۔ اگر انھوں نے انصاف سے کام لیا تو ان کے بارے میں میرا یہی گمان اور علم ہے۔ اور اگر وہ اس راے سے مختلف نکلیں، تو ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے، مجھے کوئی علم غیب نہیں۔ کیا آپ بھی انھیں تسلیم کرتے ہیں جنہیں میں نے اپنے بعد آپ لوگوں کا خلیفہ بنایا ہے؟‘‘ تمام صحابہ کرام نے بالاجماع اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
بظاہر ان چاروں خلفاے راشدین کے لیے طریق انتخاب مختلف رہا، لیکن سب نے اسلامی تعلیمات کی بنیادی روح، یعنی آزادانہ راے اور شورائیت کی اعلیٰ مثالیں پیش کیں۔ ان سب قدسی نفوس نے ہمیشہ خود کو عوامی عدالت میں پیش کیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے الفاظ میں کہا: ’’میں آپ کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں لیکن تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر اللہ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کریں اور اگر غلطی کروں تو میری اصلاح کردیں‘‘۔ اس ضمن میں صحابہ کرامؓ اس قدر دوٹوک اور بیدار تھے کہ ایک خاتون نے بھی راہ چلتے خلیفۂ راشد کو روک کر کہا: آپ نے کیسے یہ فرمان جاری کردیا کہ خواتین کے لیے حق مہر کی رقم ایک متعین حد سے زیادہ نہیں ہوسکتی حالانکہ خود قرآن کریم ڈھیروں کے ڈھیر مہر ہوسکنے کا ذکر کرتا ہے ۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ وہ خلیفہ تھے کہ کئی مواقع پر ان کی راے کی توثیق خود وحی الٰہی نے کی تھی۔ آپ چند لمحے سوچ کر بولے: أَصَابَت اِمرَأَۃٌ وَ أَخطَأَ عُمَر( ایک خاتون کی راے درست ہے اور عمر کی راے غلط)۔ حق مہر کی رقم محدود کردینے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ پورا دور خلافت راشدہ آزادیِ راے اور حقیقی جمہوریت کی ایسی لاتعداد مثالوں سے درخشاں ہے۔ رسول اکرمؐ نے بھی اس درخشندہ دورِ خلافت راشدہ کی بشارت دیتے ہوئے اسے انسانیت کے لیے رول ماڈل قرار دیا تھا۔ ’’آپ نے مختلف فتنوں سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’آپ لوگوں میں سے میرے بعد جو زندہ رہا، وہ معاشرے میں بہت سارے اختلافات دیکھے گا۔ ایسے میں آپ لوگ میری اور میرے بعد آنے والے سراپا ہدایت خلفاے راشدین کی سنت کی پیروی کیجیے گا۔ اسے مضبوطی سے تھامے رکھیے گا‘‘۔ (صححہ الالبانی)
۱۴۳۶ سالوں پر مشتمل تاریخ شاہد ہے کہ اس پورے عرصے میں جو معاشرہ جتنا جتنا اس سرچشمہء خیر سے قریب رہا، اتنا ہی کامران ہوا۔ شورائیت، احترامِ آدمیت، امانت اور عدل و رحمت کے اس درست ترین پیمانے سے جو بھی او رجتنا بھی دُور ہوا اتنا ہی برباد و بے آبرو ہوتا چلا گیا۔ تاریخ کے تمام ادوار اور زندگی کے باقی تمام ابواب ایک طرف رکھ کر، ہم اگر عہد حاضر کے مختلف نظام ہاے حکومت ہی پر نگاہ دوڑائیں، تو صرف وہی نظام سرخرو ثابت ہوگا کہ جس میں ان بنیادی اسلامی تعلیمات کی روح کارفرماہوگی۔ شورائیت، احترامِ آدمیت، امانت اور عدل و رحمت کا نظام رائج ہو تو غیر مسلم معاشرے بھی امن و خوش حالی کی اعلیٰ مثالیں بن کر دنیا کے سامنے آنے لگتے ہیں۔
دوسری جانب جب آزاد اور پُرامن معاشروں میں اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلتے ہوئے اسلامی ریاست قائم کرنے کی بات ہو تو یہ تحریکیں مکمل طور پہ پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں۔ ان کی قیادت اور کارکنان کو پھانسیوں پر چڑھادیا گیا اور چڑھایا جارہا ہے۔ ان کے کارکنان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا۔ مصر، شام، بنگلہ دیش اور یمن سمیت کئی ممالک میں آج بھی ان تحریکوں کے ایک لاکھ سے زائد کارکنان جیلوں میں عذاب و اذیت سہ رہے ہیں، لیکن کسی بھی جگہ انھوں نے دل و دماغ پر دعوت کی دستک دینے کے بجاے، بم دھماکوں یا اپنے مخالفین کو ذبح کردینے کی بات نہیں کی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تین نکات کی صورت دوٹوک اصول واضح کردیے:
۱- آپ اس ملک میں اسلامی نظام زندگی عملاً قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
۲-آپ جس ملک میں کام کررہے ہیںوہاں ایک آئینی و جمہوری نظام قائم ہے اور اس نظام میں قیادت کی تبدیلی کا ایک ہی آئینی راستہ ہے: انتخابات۔
۳- ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی قیادت کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے۔
اور پھر فرمایا: ’’ان تین حقیقتوں کو ملا کر جب آپ غور کریں گے توبالکل منطقی طور پر وہی نتیجہ نکلے گا جو قرارداد میں بیان کیا گیا ہے۔ آپ انتخابات میں آج حصہ لیں یا ۱۰،۲۰،۵۰ برس بعد، بہرحال اگر آپ کو یہاں کبھی اسلامی نظام زندگی قائم کرنا ہے تو راستہ آپ کو انتخابات ہی کا اختیار کرنا پڑے گا‘‘۔
رب ذو الجلال کی مشیت ان اسلامی تحریکات کو ایک اور طرۂ امتیاز عطا کرتی ہے۔ مصر، شام، بنگلہ دیش، فلسطین یا ترکی و یمن کی جیلیں ہوں یا وہاں کے پھانسی گھاٹ اور عقوبت خانے، جتنا جتنا ان تحریکات کو کچلنے کی کوشش کی گئی اور کی جارہی ہے، ان تحریکات کو اللہ نے مزید قوت و اہمیت عطا کی ہے۔ وہ تحریک جسے مصر اور پاکستان ہی میں نابود کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، آج نہ صرف پورے عالم اسلام بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی مضبوط و توانا وجود رکھتی ہے۔ ۱۹۴۹ء میں امام حسن البناؒ کو شہید کرکے ساری تحریکی قیادت جیلوں میں بند کردی گئی۔ جیلوں اور شہادتوں کا یہ سلسلہ تب سے لے کر آج تک جاری ہے۔ ۲۰۱۱ء میں پہلی بار اخوان کو برسرِاقتدار آکر قوم کی رہنمائی و نمایندگی کا موقع ملا تو ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ جو ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں گئے تھے، اب صرف مصر میں ان کی تنظیمی افرادی قوت ۲۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ تقریباً یہی عالم دیگر مسلم ممالک میں ہے۔
ترکی میں ملّی نظام پارٹی، ملّی سلامت پارٹی، رفاہ پارٹی اور پھر فضیلت پارٹی پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ لیکن آج ان پابندیوں اور گرفتاریوں کا شکار رہنے والی قیادت ہی ترکی میں اصلاح و استحکام کی شان دار مثالیں قائم کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی نے کبھی انتخابی نتائج میں وہ سرخروئی حاصل نہیں کی تھی، جو جیلوں میں رہ کر حالیہ بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی ہے۔ خاکم بدہن بہت ممکن ہے کہ یہ پرچہ آپ تک پہنچنے تک علی احسن مجاہد ( سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش) کی شہادت کی روح فرسا خبر بھی پہنچ جائے، لیکن پیچھے رہ جانے والوں سے زیادہ، ان آگے جانے والوں کو یقین ہے کہ ان کی یہ قربانیاںبالآخر شورائیت پر مبنی حقیقی جمہوریت کے قیام کی بنیاد بنیں گی۔ رہ گئیں ان کی قربانیاں، تو دنیا میں ہر آنے والے کو بہرحال واپس جانا ہے، اور شہادت کی سعادت کے لیے خود رسولِؐ رحمت اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ تمنا اور دُعائیں کرتے رہے۔
یہ حقیقت بھی کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ مادر پدر آزاد معاشروں کی مغربی جمہوریت اور سر پہ ’حاکمیت اعلیٰ‘ کا تاج سجائے مسلمان ممالک کے تصورِ جمہوریت میں ایک جوہری فرق ہے۔ مغربی ممالک کا جمہوری نظام اس حوالے سے یقینا باعث رشک ہے کہ اس میں اب بھی کرپشن، دھاندلی،ہارس ٹریڈنگ، غنڈا گری اور جعل سازی کا عنصر قدرے محدود ہے، جب کہ مصر، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک میں یہ سب خرابیاں اور انتخابات لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن ان سب مفاسد کے باوجود مسلم ممالک، اپنی مجالس شوریٰ، یعنی ایوان ہاے اسمبلی کے ذریعے اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہنے کے پابند ہیں۔ مثال کے طور پہ کوئی مسلم معاشرہ اہل مغرب کی طرح اس بہیمیت و حیوانیت کی سطح تک گرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ عورتوں کی عورتوں اور مردوں کی مردوں سے شادی کو جائز و ممکن قرار دینے جیسے جرائم کا ارتکاب کرسکے۔ اصل سوال البتہ یہ ہے کہ مروجہ نظام راے دہی، یعنی انتخابی عمل کی خامیوں سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟
افسوس ناک امر یہ ہے کہ جب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نظام سے زیادہ خود اپنی اور اپنے معاشرے کی خامیاں سامنے آئیں گی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور سکھایا تھا: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَفْجُرُکَ، ہم تیرے نافرمان ہر شخص کی اطاعت کا قلاوہ اتارنے اور اسے چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے تھے: ’’جس نے کسی فاجر کو اپنا ذمہ دار چنا تو وہ بھی اسی کی طرح کا فاجر ہے‘‘۔
امام غزالی احادیثِ نبویؐ کی روشنی میں فرماتے ہیں: ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ دنیا کے بغیر دین پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اور دین جڑواں چیزیں ہیں۔ دین اصل اور اقتدار نگہبان ہے۔ جس عمارت کی اصل و بنیاد نہ ہو، وہ ڈھے جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ ضائع ہوجاتا ہے‘‘۔ امام احمد بن حنبل نے کہا تھا’’اگر میری ایک ہی دُعا قبول ہونی ہوتی تو میں وہ دُعا حکمران کی اصلاح کے لیے کرتا‘‘۔ لیکن اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا دعوے دار ہمارا معاشرہ صرف آپ کی ولادت و بعثت و ہجرت اور مختلف صحابہ کرامؓ کی شہادت کے ایام منانے ہی کو دین کی اصل معراج قرار دیتا ہے۔ انتخاب و اقتدار کو محض ایک کھیل تماشا، اور مفادات کی غلیظ جنگ بنادیا گیا ہے۔ اس پوری جدوجہد کو دینی فریضہ اور عبادت سمجھنے والوں کی اکثریت بھی اس کے تقاضے پورے کرنے کے بجاے اپنے محدود دائرے میں مخصوص سرگرمیوں پر اکتفا کرکے خود کو بری الذمہ قرار دیے بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت اور آپؐ کی سراپا عمل و جہاد حیاتِ طیبہ کا ذکر تو کرتے ہیں، لیکن خود آپؐ کے نقوش پا کی پیروی کرنے کا مرحلہ آئے تو صرف طفل تسلیوں سے دل بہلاتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت اخبارات، ٹی وی کے تبصروں، باہمی پسند و ناپسند اور گروہ بندیوں اور افراد کی غلطیوں کی بنا پر پوری تحریک کو مطعون کرتے ہوئے مایوسی پھیلانے کی نذر ہوجاتا ہے۔
بعثت کا اعزاز ملنے کے بعد سے لے کر وصال تک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لمحوں کے لیے بھی اس فریضے کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔مکہ والوں میں سے کوئی ایک بھی فرد ایسا نہ چھوڑا جس تک آپ نے اپنی دعوت نہ پہنچائی۔ قریبی شہروں میں بھی تشریف لے گئے اور مکہ آنے والے ایک ایک قافلے اور قبیلے کے پاس جاکر انھیں اس قافلہء حق میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ بالآخر ایک شب یثرب کے چھے مبارک نفوس ابتدائی قبولِ دعوت کے بعد واپس چلے گئے۔ اگلے برس موسم حج میں وہ دُگنے (۱۲) ہوکر آئے۔ بیعتِ عقبہ اولیٰ ہوئی۔ اس سے اگلے برس (۷۵) (چھے گنا سے بھی زیادہ) ہوگئے۔ آپ نے ان کے ۱۲ نقیب مقرر کرکے گویا انھیں ۱۲ ذیلی تنظیموں کی لڑی میں پُرو دیا۔ چند ہی ماہ بعد پورا یثرب آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگا۔ اور پھر ایک وقتیَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کا منظر نصیب ہوگیا۔
آج ہمارا کام تو نسبتاً آسان ہے۔ ہم نے کسی کو اس کے دینِ آبا سے نکال کر دائرۂ اسلام میں داخل نہیں کرنا۔ ہم نے انھیں صرف حقیقت ِاسلام بتانی اور یاد دلانی ہے۔ خصوصی طور پر قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں دین، عبادت، رب اور الٰہ کا حقیقی مفہوم بتانا ہے۔ رسولؐ و بتولؓ کے جگرگوشے نے اپنے ناناؐ کی قائم کردہ اور خلفاے راشدین کی امانت اسلامی ریاست اور نظامِ حکومت کی حفاظت کی خاطر، کربلا میں جو عظیم قربانی پیش کی تھی، اس کے اصل مقصد سے آشنا کروانا ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کرکے اس کے حق میں اپنا ووٹ دینے سے انکار ہی تو کیا تھا۔ آج ہمیں اپنے معاشرے اور اس سے پہلے خود کو یہ فرمانِ الٰہی یاد دلانا ہے کہ وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ o(ھود۱۱: ۱۱۳)’’ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجائو گے‘‘۔
ہم نے اپنے حصے کا یہ کام کرلیا، بلااستثنا معاشرے کے ہر فرد تک پہنچنے اور انھیں قافلۂ حق میں شریک کرنے کا آغاز کردیا تو ان شاء اللہ بہت جلد ایک اور فرمانِ الٰہی ہمیں بشارت دے رہا ہوگا: وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ o(الروم۳۰: ۴۷) ’’اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں گے‘‘۔