پاکستان اور مسلم ممالک کم از کم گذشتہ ۲۵سال سے ایک ایسے سیاسی خلفشار ، عدم استحکام اور سیاسی بازی گری کا شکار ہیں، جس نے نہ صرف عوام بلکہ باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بھی جمہوریت پر اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے اور عموماً یہ بات کہی جارہی ہے کہ:’ایسی جمہوریت سے تو بادشاہت اور فوجی آمریت ہی بہتر ہیں‘۔ اس مفروضے کو مستحکم کرنے کے لیے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ: ’عام طور پر فوجی آمریت کے دور میں ملک کی معیشت میں ترقی ہوئی ہے، اس لیے جمہوریت کو خیر باد کہہ کر ہمیں صدارتی یا آمرانہ نظام کو اختیار کرنا چاہیے‘۔ اس کیفیت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت سے محبت کے تعلق سے قطع نظر اور جمہوری اَدوار کی بدعنوانیوں ، ظلم اور نا انصافی ، طبقاتی تناؤ اور تفاوت کو کچھ دیر کے لیے ذہن سے محو کرتے ہوئے معروضی طور پر یہ جائزہ لیا جائے کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے؟ کیا واقعی مسلم ممالک اپنی تاریخی روایات کے تناظر میں جمہوریت کے لیے ناموزوں اور بادشاہت یا آمریت کی روح اور نظام سے قریب تر ہیں؟ اور کیا واقعی ان کی نجات صرف مغربی جمہوریت میں ہے؟ اس آخری بات کو خاص طور پر تیونس کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
جس نظام کو مسلم دنیا میں ’مغربی جمہوریت‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، وہ باقیات ہیں اس مغربی سامراجی نو آباد یاتی نظام کے ورثے کی جسے وہ جاتے ہوئے ہمیں تحفے میں دے گیا۔ اب ہم نے اس تحفے کی جو حالت بنائی ہے؟ وہ سب کے سامنے ہے۔ چنانچہ پاکستان ہو یا ملایشیا، مصرو شام ہو یا الجزائر ، تیونس ہو یا نائیجریا، جو مسلم خطے مغربی استحصالی سامراج کے زیر تسلط رہے اور آزادی اور حریت کی تحریکوں کے باعث آخر کار سامراج کو انھیں چھوڑنا پڑا، وہ اسی نظام کو اپنے انداز میں اپنائے ہوئے ہیں۔ مقبوضات چھوڑنے کے بعد استعماری قوتوں نے مستقبل کے ایسے انتظام پر توجہ دی جس کے نتیجے میں ان تمام ممالک میں وہی سیاسی ، قانونی اور تعلیمی نظام برقرار رہے ،جو استحصالی سامراج نے مسلط کیا تھا۔ چنانچہ یہ نظام برقرار ہے۔ تیونس فرانسیسی زبان اور ثقافت کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ پاکستان ، ملایشیا اور نائیجریا انگریزی میں اظہار خیال اور انگریز کی فکر، لباس اور غذا کو ترقی اور کمال سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ انگریز کی چھوڑی ہوئی قانونی ، تعلیمی اور سیاسی روایت جوں کی توں ، اپنی بوسیدگی اور خستگی کے باوجود برقرار ہے بلکہ روز بہ روز زیادہ مطلوب و مرغوب ہوتی جا رہی ہے۔ اسی کو کامیابی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
سیاسی تناظر میں پارلیمانی جمہوریت ایوان بالا اور ایوان زیریں کی شکل میں جیسی برطانیہ میں پائی جاتی ہے، اس کا ایک ناقص چربہ ہم نے اختیار کر رکھا ہے، حالاں کہ خود کئی یورپی ممالک (فرانس ، جرمنی ، اٹلی) برطانوی طرزِ جمہوریت کو پسند نہیں کرتے۔
مغربی جمہوریت کی بنیاد عوام کی حاکمیت اور منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے اپنے حق کے استعمال کے اصول پر کام کرنا ہے۔ جس میں قوت کا اصل سرچشمہ عوام قرار پاتے ہیں اور عوام کے منتخب نمایندے اس قوت کو تفویض کردہ اختیارات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ قانون سازی پارلیمنٹ کرتی ہے اور عدلیہ ایک آزاد ادارے کی حیثیت سے انتظامیہ اور قانون ساز اداروں میں توازن برقرار رکھنے کا کردار ادا کرتی ہے۔ چنانچہ قانون سازی کہاں تک دستور یا روایات سے مطابقت رکھتی ہے؟ اس کا فیصلہ اعلیٰ عدلیہ (عدالت ِ عظمیٰ )کرتی ہے اور عدالت عظمیٰ کی تعبیر کو حتمی خیال کیا جاتا ہے۔مغربی جمہوریت کے ان تین ستونوں، یعنی پارلیمنٹ ، انتظامیہ ، عدلیہ اور مسلح افواج کے کردار اور اختیار کو متعین کرنے کے بعد اسے اس کا پابند کر دیا گیا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان چاروں اداروں کو نفسیاتی الجھاؤ کی بنا پر گڈمڈ کر دیا ہے اور ساتھ ہی ہمارے اخلاقی زوال نے ان چاروں اداروں کو مسموم بھی کر دیا ہے۔ ہمارے سیاست دان اپنی پشت پناہی کے لیے عوام کی طرف نہیں دیکھتے۔ وہ اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ عوام ان کے زر خرید ہیں۔ دوسری جانب عسکری و بیرونی قوتوں سے ضرور اُمید یں باندھ لیتے ہیں اور ان کے منظور نظر ہونے پر پھولےنہیں سماتے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات بھی موجود ہیں کہ جب بعض نام نہاد وزراے اعظم نے گریہ وزاری کے لہجے میں امریکی صدورسے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے حمایت کی درخواست کی۔ اسی طرح ایک آمر صرف ایک بیرونی کال پر ڈھیر ہو گیا۔
ہماراالمیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے مغربی جمہوریت کو جو مغرب کی فضا ، ، ماحول ، روایات ، نظامِ حیات ، تہذیبی اقدار اور اخلاق پر مبنی تھی ، بغیر کسی بنیادی تبدیلی کے یہ سمجھ کر اختیار کر لیا کہ جس صورت میں یہ وہاں رائج ہے، اسی شکل میں یہاں بھی مفید ہو گی۔چنانچہ ایک فوجی آمر کے دور میں ایک فوجی افسر نے پاکستان کو یونین کونسلوں کے نظام کا تحفہ دیا جو برطانیہ میں کام کرتا ہے لیکن یہ نہ سوچا کہ وہ سیاسی تربیت ، تقسیم اختیارات و قوت جو اس کی بنیاد ہے اس کے بغیر یہ کیسے کام کرے گا۔
مغربی جمہوریت کے خمیر میں جو اجزا شامل ہیں وہ ہماری روایات ، نظام حیات اور اقدار سے ٹکراتے ہیں لیکن ہم نے جمہوریت کے بت کو سب سے متبرک سمجھتے ہوئے اس پر مختلف غازے چڑھا کر یہ سمجھ لیا کہ یہ ہمارے لیے مناسب ہو گی۔ چنانچہ مغربی جمہوریت کے لوازمات: لادینیت، سرمایہ دارانہ ذہنیت ، مادہ پرستی ، حق کی جگہ پارٹی پرستی ، پارٹی پرستی کی جگہ شخصیت پرستی اور مفاد پرستی، مساوات مردو زن کا نعرہ لگا کر معاشرتی عدم استحکام کو تقویت دی۔ غرض مغربی جمہوریت جس نظام کو قائم کرتی ہے وہ مسلمانوں کی ثقافت ، عقیدے اور روایات سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا، لیکن ہم نے سادہ لوحی اور دین سے بغاوت کرتے ہوئے اسے ایک واجب تعظیم بُت کا مقام دے دیا ۔ آج پاکستان کی وہ تین بڑی سیاسی جماعتیں جو ہر لمحے جمہوریت کا وظیفہ پڑھتی ہیں، اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ان کا اندرونی نظام اور ملکی سیاست میں ان کا طرزِ عمل خلافِ جمہوریت کارناموں کی ’ا علیٰ ترین‘ مثال کہا جا سکتا ہے۔
مختصراً مغربی جمہوریت کے تحائف میں سرفہرست لادینیت ، مغرب پر انحصار ، ثقافتی مغلوبیت، انفرادی سطح پر خود پرستی ، معاشرتی اقدار سے بغاوت ،آزادی اور ’مذہب‘ کو مخصوص عبادت گاہوں میں محدود کر دینے کی ثقافت ہیں۔ جہاں کہیں بھی اسے اختیار کیا گیا، وہاں اس نے معاشرتی عدم استحکام اور سیاسی افراتفری پیدا کی، اخلاقی قدروں کو پامال کیا اور معاشی حوالے سے ایک طبقاتی، نظام وجود میں لانے کا باعث بنی۔ مسلم ممالک میں موجودہ سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ومعاشی بحرانوں کی طویل فہرست مغرب کی اندھا دھند تقلید ہی کا نتیجہ ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ مسلم ممالک کے ذہنی اور فکری طور پرمغلوب اور غلام فرماں روا کبھی خود احتسابی کی طرف راغب نہیں ہوتے۔
ہم نے جمہوریت کا جو ماڈل پاکستان میں نافذکر رکھا ہے، اس کے لیے مناسب نام ’مفاد پرست جاگیرداریت‘ ہے۔اس کے عناصر ترکیبی میں موروثی سیاست سب سے نمایاں ہے۔ چنانچہ ناموں سے قطع نظر سیاسی جماعتوں پر (صرف جماعت اسلامی کو چھوڑتے ہوئے ) نظر ڈالی جائے تو ہر جماعت اپنے لیڈر کی میراث پر فخر کرتے ہوئے اپنے مقام کو بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے سیاسی نعروں میں نہ کارکردگی کا تذکرہ آتا ہے ، نہ مستقبل کا لائحہ عمل بلکہ ’مرحومین‘ اور قیادت کے منصب پر فائز تاحیات شخصیتوں کے نام کو اپنا امتیاز بتایا جاتا ہے۔ یہ جاگیر دارانہ مو روثی جمہوریت پاکستان کے لیے زہرِقاتل ہے۔
دوسرا بنیادی عارضہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت علاقائیت یا صوبائیت پر مبنی ہے۔چنانچہ نام نہاد ’بڑی‘ جماعتیں اپنی صوبائی جڑوں پر فخر کرتی ہیں اور اپنے صوبے کوبطور اشتہار پیش کرتی ہیں کہ انھوں نے ، جس صوبے پر وہ عرصے سے مسلط ہیں، وہاں یہ یہ کارنامے سرانجام دیے ہیں ، اس لیے انھیں آیندہ بھی یہ موقع دیا جائے۔فقط ایک صوبے تک محدود نظر ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے جو ملک کی سالمیت اور دفاع کے لیے ایک خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر معروضی طور پر دیکھا جائے تو صرف جماعت اسلامی یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اس کی پہچان کوئی صوبہ نہیں ہے، نہ اس کی قیادت صوبائی بنیاد پر ہے، نہ اس کی ممبر شپ کسی جاگیردارانہ وابستگی سے ہے، بلکہ وہ صرف اورصرف اپنے نظریے اور اسلام کی جامعیت و ہمہ گیریت کی بنیاد پر ہر صوبے میں اپنی دعوت کی بنیاد پر موجود ہے۔اس کے ساتھ داخلی سطح پر اس میں شورائیت اور بے لاگ احتساب کا نظام بھی قائم ہے۔
مروّجہ پاکستانی جمہوریت کی ایک اورخصوصیت سیاسی قیادت کاآمرانہ طرز عمل ہے۔ جن جماعتوں کو ہمارے ذرائع ابلاغ تین بڑی جماعتیں کہتے ہیں، ان کا قائد عملاً سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے ، اس کا نام پارٹی پالیسی ہے۔ پارٹی کے اندر نہ صحیح جمہوری انتخابات کی صورت ہے اور نہ فیصلوں میں مشاورت کا کوئی نظام ہے۔
قطع نظر جمہوریت کے حوالے سے نہ تو مغربی جمہوریت اور نہ مروجہ پاکستانی جمہوریت پاکستانی عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے اور نہ ملکی سالمیت ، استحکام اور ترقی کے لیے کارگر ہو سکتی ہے۔ہمارے نوجوانوں کا اضطراب اور جمہوریت پر اعتماد اٹھنے کا سبب ان دونوں طرز کے جمہوری نظاموں کا بنیادی نقص ہے۔اگر اس کی اصلاح بروقت نہ کی گئی تو نوجوانوں کا اضطراب انھیں غیرجمہوری یا آمرانہ نظاموں کی طرف راغب کر سکتا ہے،جو ملکی سالمیت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ نام نہاد جمہوریت میں پارٹی لیڈر کا آمر ہونا، یا فوجی آمرکا قابض ہو کر انھی سیاسی مہروں میں سے کچھ کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کرنا، یکساں طور پر ملک وملت کے لیے نقصان دہ ہے۔ان دونوں ممکنہ راستوں سے ہٹ کر شاہراہِ کامیابی اگر کوئی ہے تو وہ صرف وہ نظام ہے ، جس میں عدلِ اجتماعی ، عوام کی عزت وتکریم اور قرآن وسنت کی بالا دستی کو نافذکیا گیا ہو۔
للہیت سے مراد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا انفرادی ، خاندانی ، معاشرتی، سیاسی، معاشی، قانونی، غرض زند گی کے تمام کاروبار میں فیصلہ کن مقام حاصل کرنا ہے۔یہ کسی خانقاہ میں دنیا سے کٹ کر بیٹھنے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی زمین پر اللہ کے حکم کے نفاذ کا نام ہے۔اسلامی عادلانہ نظام میں ہرفیصلے کی بنیاد للہیت ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اس کا م کا کرنا۔اسلام زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنے کا نام نہیں بلکہ زندگی کے تمام کاموں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں دے دینے کا نام ہے۔للہیت سیاسی سرگرمی سے نہیں روکتی، بلکہ یہ اخلاقی صورت گری کا ذریعہ بنتی ہے، تاکہ سیاست کا مقصد ذاتی شہرت یا شخصیت کی مرکزیت نہ ہو، اس کی جگہ اللہ کی بندگی کو قرار دیا جائے۔ یہ ملک و ملّت کی قیادت، خدمت، عدالت، انکسار ، بے غرضی اور نمود و نمایش سے دوری کا نام ہے۔ یہ کسی مصنوعی لبادہ اوڑھنے سے پیدا نہیں ہوسکتی نہ کسی جبہ و دستار کی محتاج ہے۔یہ انسان کے روز مرہ کے طرز عمل میں پائی جاتی ہے۔ فخر و اعزاز بادشاہت کا ہو یا کسی پہنچے ہوئے فقیر کا، دونوں للہیت کی ضد ہیں۔یہ صبر و قناعت اور استقامت کا نام ہے۔
اسلامی اقدار توحید ، عدل ، صدق ، امانت ، حیا کا عکس اسلامی قوانین کی شکل میں نظر آتا ہے۔ جھوٹ اور بہتان کا سدِّ باب قرآن و سنت کے دیے ہوئے مثبت اور تعمیری اخلاقی اصولوں کے ساتھ تادیب اور تعزیر کے نظام سے کیا گیا ہے۔ہر قانونی اقدام سے پہلے مثبت اخلاقی اقدار کا وجود اور ہر خلاف ورزی کی شکل میں پہلے اصلاح ، عفو و درگزر اور آخر کار تادیب و تعزیرانسانی معاشرے میں عدل و سکون کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔یہ بات قلم اور زبان تک محدود نہیں ، اسلامی قانون کا تحقیقی مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام سزااور تعزیر سے زیادہ اپنی اخلاقی اقدار کے بل بوتے پر اور انسانی نفسیات کو اخلاق کا تابع کر کے ایک صحت مند ماحول اور معاشرہ پیدا کرتا ہے،جہاں اگر کسی سے غلطی کا ارتکاب ہو بھی جائے تو بجاے کسی کوتوال یا مخبر کے، انسان کا ضمیر نجات چاہتا ہے اور بغیر کسی گواہ کے، ملزم خود آکر اعترافِ گناہ کے ساتھ اپنے لیے سزا کی درخواست کرتا ہے۔یہ اعزاز صرف اسلامی شریعت کو حاصل ہے کہ تجسس، مخبری اور جاسوسی کے بغیر اگر کسی سے غلطی ہو جاتی ہے تو اس کا ضمیر اسے اپنی اصلاح پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسلامی اقدارِ حیات کا اطلاق اسی وقت ممکن ہے جب نہ صرف مقنّنہ،عدلیہ اور انتظامیہ اس کی برتری اور حتمی ہونے کے قائل اور اس پرعامل ہوں، بلکہ تعلیم اور ابلاغ عامہ کے ذریعے اسلامی اقدار کو معاشرے کے ہر فرد کے ذہن میں جاگزیں کر دیا جائے۔
اسلامی نظام عدل کا قیام اسی وقت ہو سکے گا جب قوم کے ضمیر کو اسلامی اقدار کی پابندی پر تعلیمی حکمت عملی سے آمادہ کیا جائے۔ اسلام کوڑے کے مقابلے میں زبان و قلم اور عملی مثال سے تعلیم دینےکو فوقیت دیتا ہے، اور نیا نظام ان شاء اللہ اس معاشرتی برائی کو دستوری ذرائع سے ہی درست کرے گا اور کسی تعزیر کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ تعلیم کو نہ صرف انگریز سامراج نے بلکہ اس کے جانشینوں نے اس ڈگر پر قائم رکھا جس پر انگریز نے اسے چلایا تھا۔۷۰ سالہ دور میں نہ تو معیارِ تعلیم کو بلند کیا گیا اور نہ تربیت کی طرف توجہ دی گئی۔تعلیم دراصل تہذیبِ اخلاق کا نام ہے۔ حصولِ معلومات اس کا ایک پہلو ضرورہے لیکن وہ تعلیم جو تہذیب و اخلاق سے خالی ہو ، ایک بے روح جسم اور دماغ تو پیدا کر سکتی ہے، ایک مکمل انسان وجود میں نہیں لا سکتی۔
اسلام کے عادلانہ نظام کی پہچان ایسے نظام تعلیم کا نفاذ ہے جو قومی ضروریات ، فنی مہارت اور جدید ترین معلومات کے ساتھ تعمیرِ اخلاق کو اوّلیت دے۔ ملک میں امن و سکون اور رواداری اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب تعلیم اخلاق و تہذیب کے فروغ کا ذریعہ ہو۔تحریک اسلامی کو اس نئے نظام کے قیام کے لیے نئے نظام کے خدو خال کو بار بار پیش کرنا ہو گا،تاکہ صداقت اور حق پر گردوغبار اور غلط فہمیوں کی جو دبیزچادر ڈال دی گئی ہے، وہ دُور ہو، اور حق آجائے اور باطل معدوم ہو جائے کیوں کہ باطل معدوم ہونے کے لیے ہی ہے۔
قرآن و سنت اور مکی اور مدنی ادوار کے تجزیاتی مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حق وباطل کی کش مکش اور نظام کی تبدیلی کے لیے سب سے پہلے خود حق کے نظام پر مکمل اعتماد و ایمان شرطِ اوّل ہے۔قرآن کریم نے اسے واضح الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ اللہ کے رسول جس چیز پر مکمل ایمان لائے اور جو اہل ایمان کی ہدایت کے لیے ان پر نازل کی گئی، یعنی کتاب وشریعت۔ دوسری بنیادی شرط اس ہدایت کا اپنی زندگی میں احسن شکل میں نافذ کرنا ہے۔ فرمایا گیا کہ: کیوں تم وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘(الصف ۶۱:۲-۳)۔ گویا تحریک اسلامی کی جانب سے ایسے افراد کی ایک جماعت ِکثیر کی تیاری جو اپنےعلم و عمل کے لحاظ سے پختہ کار ہوں اور نظریے سے آگہی اور نظریے کے فروغ کے لیے اپنے کردار سے آگاہ ہوں ، ایثار ، قربانی و دیگر اسلامی خصائص سے مثالی طور پر مزین ہوں، جسے ہم آج کی زبان میں افراد کار کی تیاری سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ کام محض جلسوں اور مظاہروں سے نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے پِتّا ماری کے ساتھ قرآن و سیرت سے براہِ راست تعلق ، تفقہ فی الدین، اور تحریکی مزاج کا پیدا کرنا ہے۔یہ خاصیت برسوں کی محنت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں صبر و استقامت کاہونا شرط ہے۔
تبدیلی کے اس عمل کی ایک اور اہم شرط تعداد کی اہمیت کو کم کیے بغیر معیار کو فوقیت دینا ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکن اپنی علمی ، فکری ، تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں میں صف ِاوّل میں ہونے چاہییں۔ انھیں عصر حاضر کے علوم کے ساتھ قرآن وسنت کے علوم پر مکمل عبور ہوبلکہ مقامِ اجتہاد پر فائز ہوں۔یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی کے قیام کے وقت جو افراد کو جمع ہوئے تھے، ان میں ایک واضح تعداد ان افراد کی تھی جو علمی اور فکری طور پر سر براہی کے مقام پر فائز ہونے کے لائق تھے۔ آج بھی تبدیلی لانے کے لیے ایسے افراد تیار کرنا ہوں گے جو دینی اور عصری علوم، دونوں پر عبور رکھتے ہوں۔یہ کام انفرادی طور پر نہیں بلکہ اداراتی بنیاد پر کرنا ہوگا، تاکہ ایسے ادارےموجود ہوں جو محض وقتی طور پر نہیں بلکہ مستقل طور پر بطور ادارہ متحرک ہوں، اور مطلوبہ افرادی قوت کی تیاری و فراہمی میں کمی نہ ہو۔ تحریک کے افراد کی معیاری برتری ہی تحریک کی کامیابی کی شرط ہے۔
تبدیلیِ نظام کے لیے ایک اور شرط متبادل نقشۂ عمل اور لائحۂ عمل کی تیاری ہے۔نہ صرف ایک خاکہ بلکہ اس میں تفصیلات کی شکل میں رنگ کا بھرنا۔اگر تعلیمی نظام بدلنا ہے تو اس کا نیا نصاب کیا ہو گا؟اس نصاب کی روشنی میں درسی کتب کون سی ہوں گی؟ان کتب کو پڑھانے والا استاد کس کردار اور علمی رُتبے پر ہو گا؟اسکول، کالج اور یونی ورسٹیوں میں کامیابی کا معیار کیا ہوگا؟طلبہ اور اساتذہ میں کن اخلاقی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دی جائے گی؟ درسی کتب کے ساتھ جدید ابلاغ عامہ کو تعلیم کے لیے کیسے استعمال کیا جائے گا؟ کیا ملک کی ۱۸۵ موجودہ جامعات میں تبدیلی لانے کے لیے ایسے افرادِ کار تیار ہیں جو تعلیم، تجربہ اور صلاحیت میں اعلیٰ مقام پر ہوں؟ تعلیم، ملکی معاشی پالیسی، ملک کی دفاعی پالیسی ، ملک کی صحت کی پالیسی پر جب تک تحریک کے پاس ایک واضح نظام عمل موجود نہ ہو، تو کیا محض پارلیمان میں کامیابی تبدیلی لا سکتی ہے ؟
نظام میں تبدیلی کے لیے ایک اور شرط عالمی سیا ست سے اتنی واقفیت بہم پہنچانا ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کی حکمت عملی اور ملک کے اندر اور باہر مختلف عناصر کی منصوبہ بندی سے مکمل آگاہی کے ساتھ ہمارے پاس ایک متبادل حکمت عملی بھی موجود ہو، جس میں حالات کے لحاظ سے تبدیلی لانے کی گنجایش ہو۔جن عالمی قوتوں سے تحریک کا سامنا ہے، وہ کسی بھی صورت حال میں حق کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔ انھیں محض بدعائیں دے کر ناکام نہیں کیا جاسکتا۔ان کی سازشوں کا علم بھی کافی نہیں ہے۔ جب تک ہماری اپنی حکمت عملی ان سے بہتر اور برتر نہ ہو ، کامیابی ممکن نہیں، اور نہ کوئی تبدیلی دیرپا ہو سکتی ہے۔
ان شرائط پر غور کیا جائے تو ان پر عمل صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب دستوری ذرائع ، تعلیمی ذرائع اورتربیتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔ یہ کام کسی قوت یا طاقت کے ذریعے محض اعلیٰ سطح پر تبدیلی لانے سے نہیں ہو سکتا۔ اسلام جس نظامِ عدل کا قیام چاہتا ہے وہ فرد، معاشرہ ، تعلیم ، قانون، معیشت اور سیاست میں ہمہ گیر تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔یہ صبر و استقامت سے کرنے کا کام ہے۔ اس کے لیے تحریک کے نظامِ تربیت کا انتہائی مؤثر ہونا شرط اوّل ہے، تاکہ کارکن سے قیادت تک للہیت ، فہم دین ، تفقہ ، عصری علوم پر عبور،قرآن وسنت سے انتہائی قریبی تعلق ، معاملات میں شفافیت ، سادگی ، انکسار، ایثار و قربانی کی صفات کارکنوں کی شخصیت کا حصہ ہوں۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور سچا وعدہ ہے۔ جو لوگ اللہ کو رب مان لیں گے اور اہل ایمان کی صفات سے مزین ہوں گے تو ان کی کامیابی کی ضمانت دنیا اور آخرت دونوں مقامات پر رب کریم نے خود دی ہے۔ اس کا یہ وعدہ جیسا ماضی میں حق تھا، آج بھی حق ہے۔ فرمایا:
وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۳۹ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
قصور میں ہونے والی وحشیانہ اور جنسی درندگی کے واقعے نے پوری قوم کو صدمے سے دوچار کیا۔ پھر اس واقعے پر جس یک جہتی کے ساتھ قوم نے مظلوم زنیب کے ساتھ اپنی ہمدردی اور اس درندہ صفت شخص کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے،وہ ایک قابلِ تعریف احساس ہے۔ یہ ردِعمل اس بات کا ایک زندہ ثبوت ہے کہ اخلاقی انحطاط کے اس دور میں بھی ہرپاکستانی اس وحشیانہ عمل کے سد باب اور مظلوموں کو بلاتاخیر انصاف اور مجرموںکو قرار واقعی اور عبرت ناک سزا کے بارے میں یک آواز ہے (اسی نوعیت کے شرم ناک واقعات انھی دنوں کراچی، ڈیرہ اسماعیل خاں اور مردان وغیرہ میں بھی ہوئے ہیں)۔
حقیقت یہ ہے کہ بچے قوموں کا مستقبل ہوتے ہیں اور اگر وہ تحفظ ، تعلیم ،محبت ، عزت اور تربیت کی جگہ عدمِ تحفظ کا شکار ہوں تو پھر قومیں روشن مستقبل سے محروم ہو جاتی ہیں ۔بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جو فضا پائی جاتی ہے ، اس میں نہ صرف بچوں کو بلکہ بالغ اور معمر افراد وخواتین کو بھی اپنے غیر محفوظ ہونے کا شدید احساس ہو رہا ہے۔ یہ نظام کی ناکامی اور اجتماعی بگاڑ کا واضح ثبوت ہے، جس کی اصلاح اور فوری اور مؤثر اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔
ہم نے انگریز سے جو نظام، وراثت میں لیا ، اس میں جا گیردارانہ نظام کا تحفظ ، پولیس ، سول انتظامیہ اور سیا سی شخصیات سے تعاون جائز تصور کیا جاتا تھا ۔ بڑی زمینداریوں کا وجود اکثر و بیش تر انگریز سرکاری کی وفاداری کا مرہونِ منت تھا ۔خان بہادر اور نائٹ یا سر کا خطاب بھی اِلا ماشاء اللہ، انھی کو دیا گیا جو برطانوی سامراج کی نگاہ میں بےضرر یا وفادارِ تاج برطانیہ تھے۔ یہی لوگ سیاسی لیڈر بنے اور انگریز کی نگاہ میں اپنی قوم کے نمایندہ قرار پائے۔
ہمارے ملکی نظام میں سیاسی اداروں پر انھی افراد کا قبضہ رہاجو معاشی طور پر خوش حال تھے اور جو اپنے مزدور اور کسان پر مکمل قابو رکھتے تھے ۔ جس کے نتیجے میں قانون مال داروں کے تحفظ میں تو دل چسپی رکھتا تھا لیکن کمزور اور بے سہارا کے لیے انصاف حاصل کرنا جوے شیر لانا تھا۔ ہم نے اس نظام کو برقرار رکھا اور ماضی میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں ، انھیں سرعامِ برہنہ کرنے اور انتقامی جذبات کی تسکین کے لیے خواتین کی بے عزتی کو اپنی ساکھ کا مسئلہ بنائے رکھا۔ اگر معاشرے میں قانون کا احترام کم ہو جائے اور اخلاقی روایات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، تو نہ صرف خواتین بلکہ کسی بھی عمر کے انسان کے ساتھ کسی قسم کا واقعہ ہو سکتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سانحے پر غم وغصہ کے اظہار کے ساتھ سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ ایسا کیوں ہوا اور آیندہ ایسے اندوہناک واقعات کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں غیر سرکاری اعداد و شمار عموماًبیرونی امداد سے قائم ہونے والی این جی اوز جمع کرتی ہیں (جن میں حقائق سے زیادہ ظن و تخمین کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے، تاہم ان کی بنیاد سے انکار نہیں کیا جاسکتا)۔ پاکستان کے مقامی اخبارات نے ایک ایسے ہی ادارے کے اعداد و شمار شائع کیے ہیں، جن کے مطابق ۲۰۱۷ء میں پاکستان میں روزانہ بچوں سے زیادتی کے۱۱ واقعات ہوئے ہیں(ڈیلی ٹائمز ، ۱۸ جنوری ۲۰۱۸ء، د ی نیوز، ۲۳جنوری ۲۰۱۸ء)۔ یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ ان اعداد و شمار میں نمونے (sample)کا حجم کیا ہے؟ اور جب تک تمام تفصیلات معلوم نہ ہوں کسی بھی جائزے اور اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ اس کے باوجود یہ تعداد بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے حوالے سے ایک خطرناک صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے ۔بچوں پر زیادتی کا جائزہ لیتے وقت مناسب ہو گا کہ ایک سرسری نگاہ بنیادی اسباب پر ڈال لی جائے۔
بالعموم تجزیاتی جائزے یہ بتاتے ہیں کہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام میں بااثر معاشی آقا اپنے سے کم تر طبقات کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے ۔ہمارے ہاں بھی اخباری اطلاعات یہی بتاتی ہیں کہ با اثر افراد کی بنا پر اس قسم کے ظالمانہ کام کرنے والے قانون کی گرفت سے بچ جاتےہیں، اور معاشی طور پر کم زور افراد کی عزت اور ذات ان ظالموں کے ہاتھوں برباد ہوتی رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچوں ، کم عمر لڑکیوںکو پیسےکا لالچ دے کر ایسے کاموں میں پھنسایا جاتا ہے۔ قصور ہی میں کچھ عرصہ قبل ایک گروہ کا پردہ چاک ہوا جو بچوںکی عریاں ویڈیو فلمیں بنا کر اپنی دھمکیوں کے ذریعے انھیں اپنے زیرِ تصرف لا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا بڑا سبب معاشی بدحالی بتایا جاتا ہے۔
لیکن تجزیہ کرنے والے افراد یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ ظلم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان ممالک میں بھی عام ہے جو ہمارے کم فہم افراد کے لیے ایک ’مثالی معاشرہ‘ سمجھے جاتے ہیں۔ امریکا اس کی چشم کشا مثال ہے جہاں اس کا سبب محض غربت نہیں بلکہ نشہ آور اشیا کا استعمال ، مخلوط معاشرہ اور انفرادیت پرستی کا نظریہ اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔سب سے زیادہ بنیادی بات اخلاقی اور دینی تربیت کا فقدان ہے ، جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔
یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہ بچے جو ذہنی طور پر پریشان یا کسی فطری کمی کی بنا پر اپنا اچھا بُرا نہیں سوچ سکتے،ایسے افراد کا شکار ہو جاتے ہیں جو انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ لیکن نظری طور پر درست ہونے کے باوجود ہمارے پاس ابھی تک سائنسی بنیادوں پر جمع شدہ اور مصدقہ اعداد وشمار کا ایسا کوئی جائزہ نہیں ہے جو ان بچوں کے بارے میں جن سے زیادتی کی گئی ہو یہ بات وثوق سے بتائے کہ وہ جسمانی یا ذہنی طور پر معذور تھے اور اس بنا پر انھیں غلط استعمال کیا گیا۔
اس کے مقابلے میں جو اعداد وشمار ملتے ہیں وہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ اس عمر کے اتنے بچے ان مظالم کا شکار ہوئے یا ان ان صوبوں یا شہروں میں اتنے بچوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوئے۔ اس طرح کے جائزوں میں بالعموم پنجاب میں ایسے واقعات کی کثرت بتائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ سماجی بگاڑ اور اخلاقی فساد دوسرے صوبوں میں بھی موجود ہے اور ہرجگہ اور ہرصورت میں ناقابلِ برداشت ہے ۔ اس کے رد عمل کے طور پر کچھ علاقوں میں ہجوم اور بلوہ کی کیفیت نظر آر ہی ہے ۔ قا نون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی اور عوامی غم وغصہ مل کر جومنظر پیش کررہے ہیں، وہ انتہائی ہولناک ہے ۔ قصور اس کی ایک مثال ہے ۔
یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ خاندانی نظام میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ایسے مقام پر آگیا ہے کہ بعض اوقات سوتیلے رشتوں اور بعض اوقات جاہلی رسوم و رواج کی بنا پر ان خاندانی رشتوں سے احتیاط نہیں کی جاتی جنھیں ہمارے دین نے ہمارے لیے ’خطرناک‘کہا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس کا سبب وہ نام نہاد مشرقیت ہے ، جس میں ایک سالی ، بھابی ، سالے یا دیور سے تعلقات کی نوعیت وہ نہیں ہوتی جو دین چاہتا ہے، بلکہ اس حد کو پار کرکے انتہائی بے تکلفی کی حد تک تعلقات کو بڑھا دیا جاتا ہے جو آخر کار کسی غیر اخلاقی عمل کی شکل میں انجام تک پہنچتا ہے۔یہ معاملہ بالغوں تک محدود نہیں ۔ اس میں بچے (اگر ہم انھیں یونیسکو کی تعریف کی رُو سے ۱۸ سال کی عمر تک بچہ کہیں) بھی شامل ہیں ۔ گویا ہمارے معاشرے میں ہندووانہ رسومات اتنی جڑ پکڑ چکی ہیں اور مغربی معاشرت کو اتنا اپنا لیا گیا ہے کہ اب ان سے خطرناک نتائج کثرت سے ظاہر ہو رہے ہیں۔
ایک بات جو بار بار بچوں پر زیادتی کے حوالے سے سننے میں آتی ہے بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں پائی جاتی ہے وہ معاشی ، دیوانی، اور فوجداری معاملات میں نظام عدل میں تاخیر ، مالی اور سیاسی اثرات اور قانونی دفعات کا غلط استعمال ہے۔ جس میں نہ صرف محرراور وکیل بلکہ پولیس اہلکار، حتیٰ کہ وہ منصف بھی شامل ہیں جو ان قوانین کے بارے میں درست معلومات نہیں رکھتے جن کی بنیاد پر وہ فیصلے لکھتے ہیں ۔حدود کے معاملات میں صحیح اور مصدقہ معلومات نہ ہونے کی بناپر ان دفعات کا استعمال کیا گیا جن کےا ستعمال کی ضرورت نہیں تھی۔خود عوام کو اپنے قانونی حقوق نہیں معلوم ، حتیٰ کہ قانون کے طالب علم اپنے ملک کے دستور کی تمام دفعات سےآگاہ نہیں ہوتے۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ بچوں کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہ کر دینے سے مسئلے کا حل ہوجائے گا، ایک خیالی جنت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
قانون کا ایک بنیادی کردار معاشرے کے افرادا کو تحفظ اور احساسِ تحفظ فراہم کرنا ہے۔ قانون کا احترام احساسِ تحفظ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر کسی معاشرے میں احساسِ تحفظ اُٹھ جائے تو پھر قانون محض ان کتابوں تک محدود ہو جاتا ہے جو کلیاتِ قانون میں پڑھائی جاتی ہیں۔قانون کا احترام قوت سے نہیں بلکہ تہذیبی شعور سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک اندرونی کیفیت ہے جو ایک انسان کو اپنے ضمیر کی آواز سننے اور اس پر عمل کرنے پر ابھارتی ہے ۔کوئی اسے اندر سے پکارتا ہے: یہ غلط ہے، یوں مت کرو!یہ احساس اور کیفیت تنہا کسی خوف سے نہیں بلکہ انسانی فطرت کی پاکیزگی سے پیدا ہوتی ہے۔ایک ایسے ماحول میں بھی جہاں جرم اور گناہ عام ہو ، صحیح انسانی فطرت ایسے کام کو غلط ہی سمجھتی ہے ۔
جب تک ایک قوم اپنی تہذیبی اقدار پر عامل ہو،اور جب ہر ادارہ سرگرمی کے ساتھ اور شعوری طور پر بچپن سے لے کر جوانی تک اس کی اہمیت سے آگاہ کرےاورعملاً مثال قائم کرے تو یقینا اس کا مثبت اثر آنے والی نسل پر ضرور پڑے گا۔ اگر ایک تین سال کا بچہ اپنے باپ یا ماں کو کار چلاتے وقت سرخ بتی کا احترام کرتے ہوئے نہیں دیکھتا، تو وہ خود بھی بڑا ہو کر جب کار چلائے گا تو اس کے تحت الشعور کی آوازاسے ایک غلط کام کرنے سے نہیں روکے گی۔
بُرائی کو روکنے کے لیے قانون کا احترام وہ مثبت ذریعہ ہےجو سزا کے خوف سے زیادہ قانون کے احترام کے ساتھ انسان کی پوری کیفیت کو متاثر کرتا ہے ۔تہذیبی اور ثقافتی زاویے سے دیکھا جائے تو ہم جس تہذیب کو اپنی پہچان قرار دیتے ہیں، وہ اصلاً ایک اخلاقی تہذیب ہے ۔ قرآن کریم نے اخلاق کی اصطلاح کو اس کے وسیع تر مفہوم میں استعمال فرمایا ہے۔چنانچہ اسلامی تہذیب کی بنیاد وہ اخلاق ہے جسے قرآن نے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا خُلُقٍ عَظِیْمقرار دیا ہے، یعنی اخلاق کا نقطۂ کمال۔
ہماری تہذیب جن دو بنیادوں پر قائم ہے وہ حلال و حرام یا طیب اور خبیث یا پاک اور ناپاک ہونے کا احساس ہے۔ جب بھی اور جہاں کہیں بھی کسی معاشرے سے پاک اور ناپاک ہونے کا تصور مٹ جاتا ہے، وہ معاشرہ درندگی ، دہشت ، ظلم و زیادتی اور بداعمالیوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ اگر ایک بچے کو ابتدا ہی سے یہ احساس ہو جائے کہ اس کے لباس پر اس کے جسم سے نکلنے والا ایک قطرہ بھی لگ گیا تو وہ ناپاک ہو جائے گا، تو وہ مرتے دم تک نہ صرف اپنے لباس بلکہ اپنی زندگی کے ہرہر عمل کو آلودگی سے شعوری طور پر بچانا چاہتا ہے۔اس کے مقابلے میں اگر ایک بچے کی تعلیم و تربیت اس کے والدین کی جگہ کارٹون نیٹ ورک کے سپر د کر دی جائے جو اسے روز چار سے چھے گھنٹے تک دوسروں کو تکلیف پہنچانے ، چکر دینے اور مارنے کی تعلیم دے ، پھر اس سے یہ امید رکھنا کہ اس میں اخلاقی اقدار پیدا ہوں گی ، ایک نیک خواہش سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
حصولِ آزادی سے قبل غیرمنقسم خطے میں حصولِ آزادی کے لیے جدوجہد کے عمل سے جو مسلمان قوم وجود میں آئی وہ اپنی ترکیب میں ایک منفرد قوم تھی۔اس انفرادیت کی بنیاد نہ ہندستان کی زمین تھی،نہ یہاںکا پانی اور ہوا،نہ ان کا رنگ و نسل ، نہ ان کے معاشی فوائد ، نہ ان کی قبائلی اور علاقائی وابستگی۔ وہ جنوب ہند سے ہوں، یا سرحد کے غیور افراد، وہ پنجابی بولنے والے ہوں یا بنگالی بولنے والے ،وہ تاجر ہوں یا ملازمت پیشہ ، ان کا رنگ گندمی ہو یا سیاہ یا وہ کسی بھی نسل سے تعلق رکھتے ہوں ، ان سب نے لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کا اعلان اور پاکستان کے حصول کے لیے نعرہ بلند کیا تاکہ یہاں اپنی تہذیب و ثقافت اور دین کو آزادی کے ساتھ قائم کرسکیں۔ یہ تہذیب نہ بلوچی تھی ، نہ پنجابی، نہ پشتون، نہ سندھی،بلکہ اسلامی اور صرف اسلامی تھی۔لیکن ملک بننے کے بعد بانیِ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے تصورات کو پس پشت ڈال کر عصبیت ، علاقائیت اور صوبائیت کو فروغ دیا گیا اور ملّی یک جہتی کے لیے کو ئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا ۔
اس خلا کو مغربی تہذیب اور لادینیت نے پُر کیا اورہماری تعلیم ، تجارت ، سیاست، تمدن، معیشت اور ابلاغِ عامہ نے صرف اور صرف لادینیت کی اشاعت کو اپنا مشن قرار دیا۔ تہذیبی زاویے سے دیکھا جائے تو ہم اپنی نئی نسل کو گذشتہ ۷۰برسوں سے اپنی حقیقی تہذیب سے آگاہ نہیں کراسکے۔ ہماری تہذیب میں بچوں کی محبت ، ماں باپ کا احترام، ایثار اور قربانی ، رشتوں کا احترام، سچائی ، ایمان داری، حلال و حرام کا احساس، پاک اور ناپاک میں تمیز بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک فرد چاہے نمازباقاعدہ نہ پڑھتا ہو، لیکن اس میں یہ احساس ہمیشہ رہا کہ وہ رشتوں کا احترام کرے، لیکن جدیدیت ، مغربیت اور مغرب کی مرعوبیت کے نتیجے میں ہم نے نئی نسل کی تعلیم و تربیت سے اخلاقی اقدار کو خارج کر دیا اور بزعمِ خویش ’جدیدیت‘ کے راستے پر گامزن ہوگئے۔
ہم نے پہلی جماعت کی کتاب سے لے کر بارھویں جماعت کی کتاب سے ہر اس واقعے کو نکال دیا جس سے اخلاق، مروّت، نرمی ، محبت، ایثار، قربانی کا کوئی سبق مل سکتا تھا۔ نوجوانوں میں بے راہ روی کا ایک سبب یہ تہذیبی اور اخلاقی خلا ہے جو ہمارے نظام تعلیم نے پیدا کیا ہےاور جسے پُر کرنے کی کوشش میں والدین بھی مکمل ناکام رہے ۔
آج ہمیں جس اخلاقی بحران کا سامنا ہے،اس کا ایک اہم سبب تہذیبی اور ثقافتی اداروں کی ناکامی ہے ۔یہ ادارے ہماری تہذیبی پہچان اور ایک وقت میں ہمارے عروج کا سبب تھے۔ لیکن ہم نے ان کی قدر نہ کی اور انھیں اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان اداروں میں سب سے پہلا ادارہ خاندان ہے۔ہماری ثقافت اور تہذیب میں خاندان محض شوہر، بیوی اور ان کے حد سے حد دو بچوں کا نام نہیں ہے، بلکہ خاندان کا مطلب وہ سب رشتے ہیں جو ہماری تہذیب کو وجود بخشتے ہیں ۔
ہماری تہذیب میں بچے کی آمد وہ لڑکا ہو یا لڑکی ایک با برکت چیز تصور کی جاتی تھی۔کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان افراد کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا تھا جو اپنی تین یا دو یا ایک بیٹی کی صحیح تربیت کر کے اسے صالح لڑکی بنائیں ۔ہم نے جاہلی روایات کو خوش آمدید کہتے ہوئے لڑکیوں کی پیدایش کو ناپسند کیا اور جاگیر دارانہ ثقافت میں ان کےمقام کو ہمیشہ کم تر سمجھا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو بچوں اور خواتین پر جنسی زیادتی کے واقعات کا تناسب ملک کے ان حصوں میں زیادہ ہے ، جہاں جاگیردارانہ ذہن معاشرے پر حاوی ہے۔
ہم نے اپنی تہذیبی روایات کو چھوڑ کر جس کی پہچان شرم و حیا تھی، بے حیائی کے ساتھ عریانیت اور جسم کی نمایش کو اپنے معاشرے میں ہر سطح پر عام کر دیا۔آج ہمارے اخبارات ہوں، ٹی وی نیٹ ورک ہوں، ہر جگہ عریانیت کو عام کر دیا گیا ہے۔اس کے اثرات دیکھنے والوں پر شہوانیت ہی کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ جنسی جذبات و ہیجان کو ابھارنے میں ہمارے ابلاغ عامہ کا کردار بڑا واضح نظر آتاہے۔ظاہر ہے تعلیم اخلاق و تربیت سے خالی ہو اور ۲۴گھنٹے جو مناظر ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہوں اور وہ جنسی جذبات کو اُبھارنے والے ہوں اور پھر مخلوط معاشرت کو جانتے بوجھتے فروغ دیا جائے، تو نوجوانوں میں بے راہ روی کا پھیلنا ایک فطری عمل ہے ۔
مغربی سامراجیت ، لادین جمہوریت ، خود پرست انسان، انفرادیت پسند معاشرتی تصوّر کو ’جدیدیت‘ کے زیر عنوان ہمارے اخبار نویسوں ، دانش وروں ، سیاستدانوں نے ملک پر مسلط کرنے کے لیے تعلیم ،معیشت، معاشرت، ہر چیز کو مغرب کے ساتھ مربوط کر دیا ۔ مغربی جمہوریت نے شعوری طور پر خود کو کلیسا کے اثرات سے آزاد کرایا تھا ، ہم نے بھی اس میں خیر سمجھی کہ ’مذہب‘ کو زندگی کے ہر خانے سے خارج کرنے میں پوری قوت صرف کردی جائے۔
پاکستان کی بنیاد ہی اسلام کی آفاقی ، الہامی ، اقدار و اخلاق پر تھی۔ قائداعظم نے خاصی سوچ بچار کے بعد کہا تھا: ایمان، اتحاد ، تنظیم۔ یہ محض تین الفاظ نہیں تھے، بلکہ پورانظریۂ پاکستان ان تین الفاظ کے اندر سمویا ہوا ہے۔ ہم نے اس کا مفہوم آج تک نہیں سمجھنا چاہا ۔
مغربی تہذیب میں جنسی اختلاط ایک روز مرہ کا عمل ہے ۔ اسکول ہوں یا تجارتی ادارے یا سرکاری دفاتر، ہر جگہ مرد و خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں ۔ ہم نے بھی اسی کو ترقی کی علامت سمجھااور اپنے معاشرے میں ’مساوات‘ کے نام پر مخلوط اداروں کو فروغ دیا ۔ اور یہ بھول گئے کہ یہ تجربہ خود مغرب میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔
مغرب کی مخلوط معاشرت اور معیشت کےحوالے سے صرف امریکا میں اس کے نتائج کو دیکھا جائے تو ہم اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ ادارہ والٹر اینڈ میلک (Walters and Melick) کے مطابق امریکا میں ہر سال۱۲لاکھ ۷۰ ہزار خواتین زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں، حتیٰ کہ فوج جیسے منظم ادارے میں بھی ان کی عصمت محفوظ نہیں رہتی۔
یورپ اور امریکا میں آج نہیں ۷۰سال پہلے ’جنسی آگاہی‘ کو متعارف کروایا گیا۔ حتیٰ کہ بچوں کے اسکولوں میں مشروبات اور ماکولات کی دکانوںمیں وہ مصنوعات بھی فراہم کر دی گئیں جو جنسی بے راہ روی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ان تمام دانش ورانہ اقدامات کے باوجود اگر دیکھا جائے تو مطبوعہ اعداد و شمار (جو کوئی بھی محقق چند لمحات میں نیٹ سے حاصل کر سکتا ہے)، یہ گواہی دیتے ہیں کہ اسکولوں ، کالجوں اور جامعات میں جنسی تعلیم نہ اخلاقی بے راہ روی کو روک سکی ،اور نہ اس کی بنا پر معصوم بچیاں درندہ صفت انسانوں کی دست برد سے محفوظ ہو سکیں۔
دُورجانے کی ضرورت نہیں صرف امریکا میں بچوں کے ساتھ جنسی بے ضابطگی کے حوالے سے چلڈرن بیورو نے ۲۰۱۷ء میں ۲۰۱۵ءکے اعداد و شمار پر مبنی جو رپورٹ طبع کی ہے ، اس کے مطابق امریکا میں ایک سال میں ۱۷۴۰بچے جنسی استحصال کی وجہ سے جان سے گئے۔ گویا روزانہ پانچ بچوں کی موت جنسی استحصال سے واقع ہوئی ۔اس سے بڑھ کر جو چیز افسوس ناک ہے وہ یہ کہ ان میں سے ٪ ۸۰واقعات وہ ہیں جن میں بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، جب کہ اس ظلم میں ان کے والدین میں سے کسی ایک کا براہِ راست دخل تھا۔ جنسی استحصال کے کُل واقعات میں کم از کم ۶۰کا تعلق جنسی تعلق سے رہا اور ان میں سے ۹۰ فی صد کسی اجنبی کے ہاتھوں شکارنہیں ہوئے ۔اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان حادثات میں تین سال کی عمر سے ۱۷سال کی عمر تک کے بچوں میں تین سال کی عمر والے۱۰ء۷ فی صد، جب کہ ۱۷سال کی عمر والے ۳ء۵ فی صد بچے تھے۔گویا اس درندگی میں عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے ۔اور گذشتہ تین سال کے جائزے اس رجحان میں اضافے کا پتا دے رہے ہیں۔
مختلف اسباب پر غور کرنے کے بعد عموماً برقی ابلاغ عامہ اور اخبارات میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں ان میں اولاً: اسکولوں میں جنسی تعلیم ، ثانیاً: تعلیم میں بچوں کو اپنے قریبی رشتہ داروں سے خبردار رہنے کی تعلیم تجویز کی گئی ہے ۔یہ وہی حل ہے جو امریکا اور یورپ میں گذشتہ ۵۰ برسوں سے متعارف کیا جا چکا ہے،اور اس کے باوجود اوپر کے اعداد و شمار یہ پتا دیتے ہیں کہ اس حل سے مسئلہ وہیں کا وہیں رہا ۔
مغرب میں بچوں کو جنسی تعلیم دینا اس لیے اختیار کیا گیا کہ وہاں معاشرے نے ’محفوظ جنسی‘ تعلق کو جائز قرار دے دیا۔ اس لیے اگر کوئی دوا یا مانع حمل تدابیرکا استعمال کرنا سیکھ لے تو ان کے خیال میں ایڈز اور حمل دونوں سے محفوظ ہو سکتا ہے ۔ ا س تجویز کا پس منظر یہ ہے کہ جنسی بے راہ روی کوئی بری چیز نہیں ، صرف احتیاط کر لی جائے تو مناسب ہے !کیا یہ حل ایسے افراد کے لیے جن کا دین نکاح کے علاوہ ہر قسم کے جنسی تعلق کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیتا ہو ، قابل قبول ہو سکتا ہے؟
لیکن کوشش یہ کی جارہی ہے کہ ایک جذباتی فضا میں زینب کے سانحے کے سہارے اس مذموم حل کو نافذکروایا جائے ، بلکہ بہت سے اسکولوں میں جنسی تعلیم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ہرباشعور پاکستانی اس حل کو رد کرتا ہے ، کیوں کہ یہ اس کے دین ، تہذیب اور اس کی اخلاقی روایات کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حل کہ بچوں کو اپنے رشتہ داروں سے خبردار کیا جائے، خاندان کے ادارے کو تباہ کرنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے ۔کیا خاندان کا مطلب یہ ہے کہ ایک بچہ صرف اپنے ماں باپ پر اعتماد کرے اور باقی ہر رشتے کو شک کی نگاہ سے دیکھے ؟ کیا خاندان صرف ماں باپ کا نام ہے؟جن مقامات پر یہ فکر اختیار کی گئی ہے وہاں بات رشتہ داروں پر نہیں بلکہ خود والدین تک بھی پہنچی ہے ۔امریکا میں ہونے والے بچوں کے جنسی استحصال میں ۸۰بچوں کی موت میں خود ان کے والدین میں سے کسی کا دخل بتایا جاتا ہے ۔ احتیاط کس کس سے اور کب تک کرائی جائے گی؟
مسئلہ شک و شبہے سے نہیں بلکہ اسلام کے مثبت نظام خاندان سے حل کیا جاسکتا ہے۔ جس میں ماں باپ کو ان کی ذمہ داری سے آگاہ کیا جائے کہ وہ کس طرح تربیتِ اولاد کریں۔ وہ کس طرح محبت اور نرمی کے ساتھ بچوں کو طہارت اور پاکیزہ کردار کی تعلیم دیں ۔ ہمارا فقہی سرمایہ روزِ اوّل سے بچے کو سمجھاتا ہے کہ پاکی اور ناپاکی میں کیا فرق ہے ۔ وہ یہ سمجھاتا ہے کہ وہ نہ اپنے اعضا کسی کو دیکھنے دے، نہ کسی کے اعضا دیکھے ۔ وہ روزِ اوّل سے اس میں ایک اخلاقی قوت پیدا کرتا ہے جو جنسِ مخالف سے مناسب دُوری اس کی فطرت میں شامل کر دیتی ہے ۔وہ نگاہ کے فتنے سے ، جسم کے لمس سے ، زبان کے فتنے سے ، بچپن سے تعلیم کے ذریعے اپنے گھر کے ماحول میں اسے یہ سب باتیں سکھانا چاہتا ہے ۔ اگر ہم اسلام کی ان عملی اور آفاقی تعلیمات کو خاندان کی ذمہ داری کے طور پر ادا نہ کریں توقصور خاندان کا ہے یا کسی اور کا ؟
مسئلے کا حل اسکولوں کے تعلیمی نصاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں آداب و اخلاق کی تعلیم ہے ۔ یہ کام کتابوں میں جنسی اعضا کی تصاویر بنا کر نہیں کیا جاسکتا ۔حقیقت یہ ہے کہ جنسی تعلیم انھیں جنسی تجربے پر اُبھارے گی ،جب کہ پاکیزگی ، عصمت و عفت اور رشتوں کے احترام کی تعلیم انھیں مثبت طور پر ایک صالح معاشرے اور خاندان کی تعمیر میں مدد فراہم کرے گی ۔
اس کے ساتھ میڈیا کے کردار اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو بد اخلاقی پھیلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کا فوری اور مؤثر تدارک ضروری ہے ۔بعض افسانے اور ڈرامے بھی جنسی جذبات اُبھارنے کا سبب بنتے ہیں۔ ۵۰ کے عشرے میں تو سعادت حسن منٹو پر فحاشی پھیلانے پر مقدمے بھی چلے اور ایک مقدمے میں تو سپریم کورٹ نے انھیں تین ماہ قید ِ سخت کی سزا بھی سنائی۔ اس طرح کے افسانے آج کل بھی لکھے جارہے ہیں۔ لہٰذا ادیبوں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ اسی طرح فیسٹیول کے نام پر بعض ادارے جو مخلوط گانے بجانے کی مخلوط محفلوں کا اہتمام کرتے ہیں، ان کا کوئی جواز نہیں۔ آزادیِ اظہار بجا لیکن وہ آزادی جو اخلاقی بگاڑ اور بے راہ روی کا ذریعہ بنے ، آزادی نہیں فساد اور تباہی کا آلہ ہے ، جسے ملک کے آئین و قانون اور اخلاقی قدروں کا پابند بنانا ضروری ہے ۔پھر اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون کی اصلاح ، قانون کا بے لاگ نفاذ ، انتظامیہ ، پولیس اور عدالت کے نظام کی اصلاح اور مجرموں کو قانون کے مطابق بروقت اور قرار واقعی سزا کا دیا جانا اصلاحِ احوال کے لیے اولین ضرورت ہے ۔
روزنامہ جنگ اور دی نیوز کے صابر شاہ نے ۱۷ جنوری ۲۰۱۸ء کی اشاعت میں ایک چشم کشا جائزہ مرتب کیا ۔ جس میں اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ کے فروغ میں انٹرنیٹ اور میڈیا کے کردار پر بحث کی گئی ہے اور پاکستان اور مغربی دنیا کے حوالوں سے اُن دروازوں کی نشان دہی کی گئی ہے ، جس سے یہ تباہی خود ہمارے معاشرے کو تہ وبالا کر رہی ہے۔ جہاں ان دروازوں کو بند کرنا ضروری ہے وہیں جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو مؤثر سزاکے ذریعے نشانِ عبرت بنانا بھی ان جرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہے ۔ صابر شاہ رقم طراز ہیں: ’’ہم میں سے اکثر لوگوں کو یاد ہو گا کہ ۱۹۸۱ء میں ’پپو‘ نامی لڑکے کو لاہور کے علاقے باغبانپورہ (نزد شالا مار باغ) سے اغوا کیا گیا اور چند روز بعد اس کی لاش قریبی ریلوے لائن کے جوہڑ سے ملی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں اغوا کنندگان اور قاتل کو موت کی سزا سنائی گئی اور ایک ہفتے کے اندر ان مجرموں کو سرعام پھانسی دی گئی۔ ان مجرموں کی لاشوں کو غروب آفتاب تک لٹکائے رکھا گیا اور اس سخت سزا کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے ایک عشرے یا اس سے زائد عرصے کے دوران وہاں کوئی لڑکا اغوا ہوا نہ کسی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔
ہمارے مسائل کا حل ہماری اپنی تہذیبی روایات، دینی تعلیمات اور مطلوبہ خاندان کی روشنی میں ہونا چاہیے۔درآمد کیے ہوئے حل نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئے ہیں اور نہ آج ہو سکتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنی مستقبل کی نسلوں سے محبت ہے تو ہمیں خاندان ، نظامِ تعلیم اور ابلاغِ عامہ کو صحیح کردار ادا کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ اس وقت نہ خاندان اپنا فرض پورا کر رہا ہے ، نہ اسکول اور نہ ریاست۔ ہمیں تینوں محاذوں پر کام کرنا ہو گا۔قانون کا مؤثر استعمال اس کا اہم حصہ ہے۔
ہمارے ابلاغِ عامہ کو آفاقی اسلامی اقدارِ حیات کو متعارف کروانا ہو گا اور عریانیت، فحاشی، اور ہندووانہ ثقافت کو جو اس وقت ہمارے ابلاغ عامہ کی پہچان بن گئی ہے ،خیرباد کہنا ہو گا۔ جب تک ہم اعتماد اور یقین کے ساتھ اس کام کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچاتے جو ظلم اور زیادتی ملک میں ہو رہی ہے ، اس سے اپنے آپ کو بری نہیں کر سکتے۔
مسئلہ فلسطین اور خاص طور پر بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ۶دسمبر ۲۰۱۷ء کا شرم ناک اعلان، جہاں فلسطین اور عالمِ اسلام کے خلاف ایک اعلانِ جنگ کی حیثیت رکھتا ہے، وہیں بین الاقوامی قانون، جنیوا معاہدات (جنیوا کنونشن) اور اقوامِ متحدہ اور اس کے چارٹر سے بھی عملاً امریکا کی لاتعلقی کا اعلان ہے۔ فکری اور عملی، ہردواعتبار سے اس کے بڑے دُور رس اثرات ہیں جن کو سمجھنا اور ان کے شرسے بچنے کے لیے صحیح اور مؤثر حکمت عملی اور لائحۂ عمل بنانا وقت کا اصل چیلنج ہے۔
عالمِ اسلام کے لیے خاص طور پر اور عالمی برادری کے لیے عام طور پر، اس ضمن میں افسوس اور غصے کا اظہار بالکل فطری چیز ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خطرناک اعلان کے جو تباہ کن اثرات اور نتائج و عواقب (consequences) ہیں، ان کا صحیح ادراک پیدا کیا جائے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس سلسلے کے چند اہم ترین پہلوئوں کی نشان دہی کریں اور مسلم اُمت اور عالمی برادری کو اس طرف متوجہ کریں کہ امریکا کی موجودہ قیادت، قیامت کی جو چال چل گئی ہے، اس کا کس طرح مقابلہ کیا جائے؟
درحقیقت صدر ٹرمپ سے بالکل ایسی ہی عاقبت نااندیشی، حماقت اور سفاکی کے اقدام کا خطرہ تھا، اس لیے یہ بیان کسی پہلو سے بھی غیرمتوقع نہیں ہے۔ جو اہلِ قلم ، دانش ور اور سیاست دان اس سے کسی بھلے اقدام کی توقع رکھتے تھے یا سمجھتے تھے کہ عالمی سوپرپاور کا صدر اتنا غیرذمہ دار نہیں ہوسکتا، وہ صدر ٹرمپ اور اسرائیل کے اصل ایجنڈے کا اِدراک ہی نہیں رکھتے اور نوشتۂ دیوار کو پڑھنے میں غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اسرائیل اور شرقِ اوسط کے بارے میں صدر ٹرمپ کے اصل بھروسے کے لوگوں میں تین افراد بہت اہم ہیں: ۱- جیسن گرین بی لاٹ (صدر ٹرمپ کے ڈپلومیٹک ایڈوائزر)،۲- ڈیوڈ فریڈمین (اسرائیل میں امریکا کے سفیر اور ایک مدت سے سرزمینِ فلسطین پر صہیونی آبادکاری کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے)، ۳- جارید کشنر (موصوف کے داماد، نیتن یاہو کے وفادار اور صدر امریکا کے دست ِ راست)۔ یہ تثلیث مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ایک خطرناک منصوبے پر کاربند ہے۔
اس منصوبے کے مطابق شرقِ اوسط میں سُنّی اور شیعہ تصادم کا فروغ، اسرائیلی اور ’سُنّی اسلام‘ کا متحدہ محاذ، فلسطین کی آزاد ریاست کے تصور کو دفن کر کے بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل دارالحکومت بنانا اور فلسطینیوں کے لیے ایک ایسی بے معنی ضمنی ریاست کا قیام جو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں پر مشتمل ہو، جس کی کوئی مستقل فوج نہ ہو، جس کا دارالحکومت بیت المقدس سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر ایک گائوں ابودیس (Abu Dis) ہو، اور جو ایسی کٹی پھٹی، لولی لنگڑی اور کمزور (نام نہاد) ریاست ہو، جو معاشی طور پر کبھی خودکفیل نہ ہوسکے اور جو ہمیشہ مالی اعتبار سے امریکا اور چند دوسرے ممالک پر منحصر رہے۔
اس شیطانی منصوبے کے لیے امریکا اور اسرائیل نے جو لائحۂ عمل بنایا ہے اور امریکی اخبارات کے مطابق جس کے سلسلے میں کچھ عرب ممالک کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے، اسے ۲۰۱۸ء کے شروع میں ارضِ فلسطین پر مسلط کرنے کا پروگرام ہے۔ اس اصل پروگرام کے پیش خیمہ کے طور پر ہی ۶دسمبر کا اعلان کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس میں منتقلی کے بارے میں ۱۹۹۵ء کا جو امریکی قانون ہے، اس کے تحت ہر چھے مہینے گزرنے پر صدر کو سفارت خانہ منتقل نہ کرنے کے لیے مزید مہلت کی دستاویز پر دستخط کرنا پڑتے ہیں اور اس مشق پر ۲۲سال سے عمل ہورہا تھا۔ اسی تسلسل میں خود صدر ٹرمپ نے جون ۲۰۱۷ء میں سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ اب اس روش کو تبدیل کرکے نئے منصوبے کی طرف پیش رفت کے لیے سفارت خانے کی منتقلی کا لائحہ عمل دینا مطلوب ہے۔
ٹرمپ اور اس کے حواریوں کا خیال تھا کہ یہ پہلا قدم، مختصر نمایشی احتجاج کے ساتھ قبول کرلیا جائے گا اور پھر جنوری/فروری ۲۰۱۸ء میں پورے منصوبے کا اعلان ہوگا۔ لیکن صدر ٹرمپ اور اسرائیل کا یہ خطرناک کھیل پہلے ہی قدم پر زمین بوس ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسے فلسطینیوں، اُمت مسلمہ اور عالمی برادری کی بڑی اکثریت نے جارحانہ اقدام اور ’ریڈلائن‘ کو روندنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اس اعلان کو عملاً بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے اور اسرائیلی جارحیت کو سند ِ جواز فراہم کرنے کی جارحانہ کارروائی قرار دیا، نیز فلسطین اور اُمت مسلمہ نے اسے اقدامِ جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ مزیدبرآں اقوامِ متحدہ میں امریکا کو منہ کی کھانا پڑی۔ ساری دھونس، دھمکی اور سامراجی فرعونیت کے اظہار کے باوجود،سلامتی کونسل میں امریکا بالکل تنہا رہ گیا اور باقی چودہ کے چودہ ارکان نے اس اقدام کو غلط، غیرقانونی اور ناقابلِ قبول قرار دیا، البتہ امریکی ’ویٹو‘ (حقِ استرداد)کی وجہ سے قرارداد نامنظور ہوگئی۔ اس کے جواب میں جنرل اسمبلی نے ۹ کے مقابلے میں ۱۲۸ووٹوں کی اکثریت سے امریکا کے اس اقدام کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اسے باطل اور بے اثر (null and void) قرار دیا، جو امریکا کے منہ پر ایک بھرپور طمانچا ہے۔ عرب لیگ نے کمزور الفاظ میں، جب کہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) نے استنبول میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں دوٹوک الفاظ میں اسے رد کر دیا۔
عیسائی دُنیا کے اہم ترین اداروں اور شخصیات بشمول رومن کیتھولک سربراہ پوپ فرانسس، گریک آرتھوڈوکس کے سربراہ پیٹریارک تھیوفیلوس سوم اور مصر کے قبطی چرچ کے سربراہ نے نہ صرف اس کی مذمت کی، بلکہ امریکی نائب صدر سے ملنے سے بھی اسی طرح انکار کر دیا، جس طرح فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمودعباس نے انکار کیا ہے۔ فلسطین کی عیسائی قیادت نے بھی اس اقدام کو تسلیم کرنے سے صاف لفظوں میں انکار کر دیا۔ یروشلم کے آرچ بشپ عطالاحنا کے الفاظ ہیں: ’’ہم فلسطینی، مسیحی اور مسلمان، امریکا کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں‘‘۔
مسلم اُمت نے پوری یک جہتی سے اور عالمی برادری کی عظیم اکثریت نے امریکا کے اس جارحانہ قدم کو رد کیا ہے۔ الحمدللہ، یہ اقدام بیداری کی ایک سبیل (wake up call) بن گیا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ امریکا اور اسرائیل کے ہاتھوں مسئلہ فلسطین کوتتربتر( liquidate ) کرنے کے منصوبے کو خاک میں ملانے اور اس کے خلاف صف آرا ہونے کی تحریک کو قوت اور تحرک عطا کرنے کا باعث ہوگا۔ انسان کیا سوچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کیا ہوتی ہے؟
فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًاO (النساء ۴:۱۹) ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
یہاں چند بنیادی حقائق بہت ہی اختصار کے ساتھ پیش نظر رہیں، تاکہ درپیش چیلنج کی وسعت اور حقیقی نوعیت کو بہتر طورپر سمجھا جاسکے اور آگے کی حکمت عملی کے خدوخال طے کیے جاسکیں:
بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور بنی اسرائیل کی نافرمانیاں نہ صرف تاریخ کا حصہ ہیں بلکہ خود ان کی مقدس کتب اور قرآنِ پاک ان پر شاہدہیں۔ بنی اسرائیل کو ارضِ فلسطین پر کم از کم گذشتہ دوہزار سال میں کبھی اقتدار حاصل نہیں رہا اور ان کا یہ دعویٰ کہ: ’’یروشلم تین ہزار سال سے ان کا دارالحکومت ہے‘‘، اور صدرٹرمپ کا اسے ایک حقیقت (reality) کے طور پر پیش کرنا تاریخی بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔ صہیونی تحریک ایک سیکولر، خالص سیاسی اور اپنی اصل کے اعتبار سے سامراجی تحریک ہے، جس نے مذہب کی اصطلاحات اور جذبات کو استعمال کیا ہے اور آج کے منظرنامے کو سمجھنے کے لیے اس پہلو کی تفہیم ضروری ہے۔
مسلمانوں کے ۱۳سو سالہ دورِ حکومت میں، ارضِ فلسطین میں جو یہودی بھی آباد تھے وہ ریاست کے شہریوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں جب صہیونی تحریک نے ارضِ فلسطین میں دَراندازی شروع کی، تو فلسطین کے مسلمان ہی نہیں، وہاں کے نسلاً بعد نسلاً رہنے والے یہودی بھی اس کے مخالف تھے۔ ہماری اس گزارش کا مقصد بھی دو اُمور کی وضاحت ہے: ایک یہ کہ ارضِ فلسطین پر یہودیوں کا وجود نہ کبھی مسئلہ تھا اور نہ آج کوئی قضیہ ہے۔ دوسرا یہ کہ فطری انداز میں انتقالِ آبادی پر بھی کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔ لیکن صہیونی تحریک نے سامراجی انداز میں، قوت اور دولت کی بنیاد پر پہلے دولت ِ عثمانیہ کی قیادت کو رشوت کی پیش کش کی گئی، لیکن وہ قبول نہ کی گئی، پھر سلطنت ِ عثمانیہ کے خلاف سازشیں کیں، اور بعدازاں ارضِ فلسطین پر فرانسیسی اور برطانوی سامراج کے قبضے کے بعد ان کی سرپرستی میں ایسی منظم انتقالِ آبادی کی، جس نے فلسطین میں آبادی کے تناسب (demographic composition ) کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ اس کے بعد یہ افسانہ وضع کیاکہ: ’’فلسطین ، وہ سرزمین ہے جہاں انسان نہیں ہیں، اور یہودی وہ قوم ہیں جنھیں زمین میسر نہیں‘‘___ دراصل یہ حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے کہ فلسطین کی آبادکاری اور بازیافت یہودیوں کا تاریخی مشن ہے۔ یہ صریح جھوٹ ہے جس کا پردہ چاک ہونا چاہیے۔ ۱۹۱۷ء میں اعلانِ بالفور کے وقت فلسطین کی آبادی ۸لاکھ افراد سے زیادہ تھی ، جب کہ کُل یہودی ۵۳ہزار کے قریب تھے، اس طرح یہود، کُل آبادی کا ساڑھے تین فی صد تھے.
عرب ممالک کی کمزوری اور اہلِ فلسطین سے بے وفائی کے نتیجے میں، ۱۹۴۵ء-۱۹۴۷ء کی جنگ کے دوران اسرائیل نے ارضِ فلسطین کے ۷۵ فی صد حصے پر قبضہ کرلیا۔ پھر جون ۱۹۶۷ء کی جنگ کے نتیجے میں پوری ارضِ فلسطین اور اس کے علاوہ سطح مرتفع گولان (Golan Heights) اور صحراے سینا کے پورے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح علمِ سیاست کی اصطلاح میں اسرائیل متعین سرحدیں رکھنے والی ریاست نہیں ہے، بلکہ یہ قابض اور وضع کردہ جارح ریاست ہے۔
طرفہ تماشا دیکھیے کہ صدر ٹرمپ نے اس قرارداد اور اس کے بعد کی قراردادوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ۶دسمبر کا اعلان کیا ہے، جو صریح طور پر بین الاقوامی قانون، اقوامِ متحدہ کے واضح قانونی اور قابلِ تنفیذ احکام اور خود امریکا کی اپنی قبول کردہ پالیسی کے خلاف ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا خلاصہ یہ ہے:
قرارداد کے یہ پانچوں نکات بہت واضح (incisive) اور قطعی (categorical) ہیں۔ امریکی صدر نے ۶دسمبر کے اعلان کے ذریعے ان سب کی خلاف ورزی کی ہے، جس سے امریکا اقوامِ متحدہ ہی نہیں عالمی قانون اور پوری عالمی برادری کی عدالت میں ایک مجرم بن گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے اس اعلان کے بعد اپنی ۱۹۸۰ء کی قرارداد کا اعادہ کیا ہے، اور جنرل اسمبلی نے ۲۱دسمبر ۲۰۱۷ء کو ۹ کے مقابلے میں ۱۲۸ ووٹوں کی اکثریت سے امریکی اقدام کی جو مذمت کی ہے اور اسے غلط اور غیرقانونی قراردیا ہے، وہ اسی پوزیشن کا تازہ ترین اظہار و اعلان ہے۔
ان گزارشات کی روشنی میں اگر امریکی صدر کے اس اعلان کا جائزہ لیا جائے تو درج ذیل اُمور واضح ہوتے ہیں:
اقوامِ متحدہ کے ارکان کو ڈرانے، دھمکانے اور امداد کی چھڑی استعمال کرنے کے جو بھونڈے ہتھکنڈے انھوں نے خود اور ان کی بھارتی النسل اقوام متحدہ میں مستقل نمایندہ ’نِکی ہیلی‘ نے استعمال کیے ہیں، اس سے امریکا کے چہرے سے وہ نقاب اُترگئی، جو اس کے بدنما داغوں کو ڈھانپے ہوئے تھی۔امریکا نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے لیے اپنی مالی اعانت میں ۲۸کروڑ ۵۰لاکھ ڈالر کی کٹوتی کرے گا اور خلاف ووٹ دینے والے ممالک کو بھی بیرونی امداد بندکرنے یا کم کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔
بین الاقوامی مسائل کے بارے میں اپنے تعصبات کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے مالی ہتھیار کا اس طرح استعمال امریکا کی خارجہ پالیسی اور اس کے اندازِ حکمرانی کی بڑی مکروہ شکل پیش کرتا ہے، اور معاشی ترقی اور انسانی ہمدردی کے تمام دعوئوں کی قلعی کھول دیتا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اس کا بڑا مؤثر جواب دیا ہے کہ: ’’ہماری راے اور عزت کوئی قابلِ فروخت شے نہیں ہے‘‘، اور دولت کے بھروسے پر ضمیر خریدنے کا یہ کاروبار کسی بھی قوم کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔ امریکی صدر، امریکا کے چہرے کو اور بھی داغ دار کررہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے کالم نگار رک گلیڈسٹون اور مارک لینڈلرنے ۲۲دسمبر کی اشاعت میں اسے اقوامِ عالم کی طرف سے امریکا کے لیے ایک واضح سرزنش اور ملامت (rebuke) قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ دنیا کی اقوام نے امریکا کی دھمکیوں کو کوئی وقعت نہیں دی۔ کالم نگاروں نے اس پورے عمل کو صدرٹرمپ کے لیے ایک شکست خوردگی (setback) بھی کہا ہے۔
اسی طرح امریکا کے اہم اخبارات اور دانش وروں اور سابقہ پالیسی سازوں کی ایک تعداد نے اس فیصلے کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ Congressional Progressive Caucus کے سربراہ نے اس اقدام کو امریکا کے مفاد سے متصادم اور علاقے میں امن کے قیام کی کوششوں کی راہ میں مشکلات کے اضافے کا باعث قرار دیا ہے۔ سب سے زیادہ چشم کشا سروے وہ ہے، جو امریکی یہودیوں کے ایک نمایندہ ادارے Global Jewish Advocacy (AJC) نے ستمبر ۲۰۱۷ء میں کروایا تھا، اور جس کے مطابق اس اقدام سے پہلے، متوقع راے عامہ کو معلوم کرنے والے اس جائزے کی رُو سے ۴۴فی صد امریکی یہودیوں کا خیال ہے کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل نہیں ہونا چاہیے۔۳۶ فی صد کا خیال ہے کہ اگر اسے منتقل کرنا ہی ہے تو یہ مسئلۂ فلسطین کے بارے امن مذاکرات کے حصے کے طور پر ہونا چاہیے، اور صرف ۱۶ فی صد اس راے کے حامی ہیں کہ اسے منتقل کر دینا چاہیے۔ اسی طرح دوامریکی یونی ورسٹیوں کے زیراہتمام کیے جانے والے سروے میں، عام امریکیوں کی راے کے مطابق ۶۱فی صد کے نزدیک منتقلی درست نہیں۔ اگرامریکی راے عامہ کے رجحانات کے بارے میں یہ سروے درست ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خود امریکا میں اس سلسلے میں مؤثر مزاحمتی تحریک کو فروغ دینے کے بارے میں امکانات خاصے روشن ہیں۔ (میڈابنجمن، ایریل گولڈ: Where are the Democrats? ، [ commondreams.org]بحوالہ دی نیوز، ۱۴دسمبر۱۷ء)
سی این این کے انٹرنیشنل ڈپلومیٹک ایڈیٹر نِک روبرٹسن نے بھی ۱۰دسمبر ۲۰۱۷ء کو ادارے کی ویب پر شائع کردہ مضمون: Trump has to Live with the Consequences of his Israel Decision میں فلسطین کے عوام اور سفارتی حلقوں دونوں کے ردعمل کی روشنی میں اس راے کا اظہار کیا ہے کہ: ’’ٹرمپ نے اس وقت اس مسئلے کو چھیڑ کر بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا ہے اور امریکا کے لیے اس کے اثرات مضر ہوں گے‘‘۔
حالات اور رجحانات کے اس جائزے کی روشنی میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ امریکی صدر کے اس اقدام کے اثرات محض وقتی نہیں ہوں گے بلکہ بڑے دُور رس ہوں گے۔ بحیثیت مجموعی اس سے امریکا کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے دوستوں میں کمی آئے گی اور مخالفت میں اضافہ ہوگا۔ ویسے بھی دنیا کے حالات بدل رہے ہیں۔ امریکا گو اب بھی دنیا کی اہم ترین عسکری اور سیاسی قوت ہے، لیکن گذشتہ ۲۰برسوں میں اس کی قوت اور اثرات میں کمی واقع ہوئی ہے، کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
روس کے ۱۹۹۰ء کے عالمی قوت کی حیثیت سے غیرمؤثر ہونے کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی تھی، اور اس کے فوراً بعد دوعشروں میں امریکا کے نہ صرف واحد سوپر پاور ہونے اور اس حیثیت کو ۲۱ویں صدی میں بھی برقرار رکھنے کے لیے جو غوغا آرائی اور سخن سازی کی گئی تھی، وہ پادر ہوا ہو رہی ہے۔ اس زمانے میں عوامی جمہوریہ چین نے غیرمعمولی ترقی کی ہے اور وہ دوسری عالمی قوت کی حیثیت سے اُ بھرا ہے۔ روس نے بھی گذشتہ ۱۰برسوں میں نئی کروٹ لی ہے۔ امریکا اور مغربی اقوام ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کے اثرات سے اب تک نہیں نکل سکے۔ صدرٹرمپ نے ’سب سے پہلے امریکا‘ عالم گیریت سے شدید بے زاری، دائیں بازو کے قوم پرستانہ خیالات و اہداف کی حوصلہ افزائی، تجارت میں داخلیت کی طرف جھکائو، اقوامِ متحدہ، یورپین یونین،ناٹو اور راے عامہ کے عالمی اداروں کے بارے میں سردمہری کا جو مظاہرہ کیا ہے، اس سے امریکا کے عالمی کردار کے محدود ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔صاف نظر آرہا ہے کہ دنیا آہستہ آہستہ یک قطبی (Unilateral) نظام سے کثیر قطبی (Multilateral)نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
مسلم دُنیا خصوصیت سے شرقِ اوسط، معاشی اور سیاسی اعتبار سے کمزور ہورہا ہے۔ لیکن ترکی، ایران، انڈونیشیا اورملایشیا رُوبہ ترقی ہیں اور ان کا کردار بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاکستان اپنی بے پناہ استعداد (potential) کے باوجود اندرونی کمزوریوں اور خودشکنی کی وجہ سے اپنا صحیح مقام حاصل اور کردار ادا نہیں کرپا رہا۔ شام، عراق، افغانستان، لیبیا، یمن بُری طرح تباہ ہوچکے ہیں۔ مصر بھی وسائل اور امکانات کے باوجود، دوڑ میں نہ صرف بہت پیچھے بلکہ داخلی اعتبار سے تباہ کن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ تیونس اور مراکش میں زندگی اور تبدیلی کے آثار ہیں۔ ان حالات میں سیاسی، عسکری اور معاشی، ہر میدان میں نئی صف بندی کی ضرورت ہے۔
صدرٹرمپ کے حالیہ اقدام کے منفی پہلو تو بے شمار ہیں، لیکن اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہوسکتے ہیں جن کی فکر کرنے کی ضرورت ہے:
ہم اپنے قارئین کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں اپنے خیالات اور نتائجِ فکر سے ادارے کو مطلع کریں اور ہماری بھی کوشش ہوگی کہ اپنی معروضات ان شاء اللہ مستقبل قریب میں آپ کے اور اُمت مسلمہ کے غوروخوض کے لیے پیش کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق سے نوازے، آمین!
اگرچہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا تعلق کسی خاص مہینے، دن یا واقعے کا محتاج نہیں، ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ہر دن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے زیر سایہ گزرتا ہے،لیکن بعض لمحات اور بعض دنوں میں سیرتِ اطہر کی خوش بُو چہار جانب چھائی محسوس ہوتی ہے۔
اُمتیوں کا یہ معاملہ البتہ عجیب ہے کہ ہم میں سے اکثر نے حیاتِ طیبہ کے صرف کسی ایک گوشے پر اکتفا کر رکھا ہے۔ کہیں چند اذکار اور کہیں صرف وقتی ذکر شہِ ابرار۔ کہیں اطاعت ِرسولؐ کی روح سے عاری مجالس نعت، اور کہیں صرف مخصوص وضع قطع پر اکتفا۔ پھر کھلا تضاد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو سراپا رحمت و محبت تھے، جنھوں نے بدترین منافق کو بھی بے نقاب نہیں فرمایا، اور ہم گاہے عشق و محبت کے زعم میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی واجب القتل قرار دینے پر مُصر دکھائی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے کبھی کسی نے وقار سے گرا ہوا لفظ تک نہ سنا تھا اور ہم ایک سانس میں آپؐ پر فدا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور دوسرے سانس میں غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں۔ آپؐ نے خون کے پیاسے قبائل کو، ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے بھائی بنادیا تھا اور ہم کسی جزوی اختلاف پر بھی اپنے بھائیوں سے جینے کا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔ آپؐ نے پوری اُمت کو جسدِ واحد قرار دیتے ہوئے اپنے تمام مسلمان بھائیوں کی خبرگیری کا حکم دیا، ایسا نہ کرنے والوں کو سخت تنبیہ فرمائی ، اور ہم اُمت کی بات کرنے والوں پر پھبتیاں کستے ہیں۔
سیرتِ طیبہ کا یہی باب دیکھ لیجیے ہم میں سے کتنوں کو اور کتنا یاد رہتا ہے، اور سوچیے جب ایک جانب مشرکینِ مکہ کے مظالم تھے اور دوسری جانب، پہلے جناب ابو طالب اور پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا سانحہ، جب پورا سال ہی غم کا سال قرار پایا۔ جب مشرکین مکہ کے بعد اہلِ طائف نے بھی اذیتیں پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایسے میں ربِّ ذوالجلال نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی کا اہتمام فرمایا۔ کائنات کا ایک ایسا منفرد واقعہ پیش آیا کہ جو نہ پہلے کبھی وقوع پذیر ہوا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی ہوگا۔
خالقِ کائنات اپنے بندے کو مکہ سے فلسطین اور وہاں سے سفرِ معراج پر لے گیا۔ اپنی نشانیاں دکھائیں، جنت و دوزخ کے مناظر دکھاتے ہوئے اُمتیوں کے لیے نصیحت کا اہتمام فرمایا۔ آنکھوں کی ٹھنڈک (نماز) کا تحفہ عطا فرمایا اور پھر اس واقعے کو اپنی آخری کتاب کا حصہ بنادیا، تاکہ تاقیامت سیرتِ طیبہ کے اس اہم باب کی تلاوت ہوتی رہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ O(بنی اسرائیل۱۷: ۱)’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے تاکہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا‘‘۔
یہ حقیقت بھی اہم تر ہے کہ سرزمینِ اقصیٰ کے مبارک ہونے کا ذکر صرف اسی آیت ہی میں نہیں، قرآن کی پانچ آیات میں کیا گیا ہے۔ ابو الانبیا حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت لوط، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت صالح، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلاۃ و السلام سمیت تقریباً ۱۴ ؍انبیا اس مقدس سرزمین پر قیام پذیر رہے۔ لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو بھی داخلے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن اس نے واضح حکم الٰہی سے کھلی بغاوت کردی۔ حضرت موسٰی اپنی قوم کی نافرمانی کے باوجود اسے چھوڑ کر نہ گئے اور خود بھی اس مبارک سرزمین میں داخل نہ ہوسکے، یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔
سفر معراج کا ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس رات میں موسٰی کے پاس سے گزرا۔ و ہ سرخ ریت کے ڈھیر کے پاس اپنی قبر میں نماز ادا کررہے تھے۔ آپ لوگ میرے ساتھ ہوتے تو میں آپ کو راستے کے کنارے ان کی قبر دکھاتا۔ آپؐ کا مسجد اقصیٰ لے جایا جانا، تمام انبیا کا وہاں دوبارہ اتارا جانا اور آپؐ کی امامت میں نماز ادا کرنا، اس بات کا اعلان بھی تھا کہ اب باقی تمام شریعتیں اختتام پذیر ہوئیں۔ آپؐ کی لائی ہوئی شریعت ہی اب ان تمام تعلیماتِ الٰہیہ کا نقطۂ کمال ہے۔
مکہ میں رہتے اور مدینہ ہجرت کے ۱۷ ماہ بعد تک، اسی مبارک مسجد اقصیٰ ہی کو آپؐ اور آپؐ کے اُمتیوں کے لیے قبلہ بنائے رکھا گیا۔ اس مقدس دھرتی کی فضیلت و منزلت بتاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِی عَلَی الدِّیْنِ ظَاھِرِیْنَ لِعَدُوِّھِمْ قَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ اِلَّا مَا اَصَابَہُمْ مِنْ لَأوَاءٍ حَتّٰی یَأتِیَ أَمْرُ اللہِ وَہُمْ کَذٰلِکَ قَالُوْا وَ أَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ بِبِیْتِ الْمَقْدِسِ وَ أَکْنَافِ بِیْتِ الْمَقْدِسِ (حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں)،’’ میری اُمت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انھیں تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں‘‘۔
صدیوں کے بعد گزرتی صدیاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کرتی چلی جارہی ہیں۔ باقی تمام اَدوار چھوڑ کر صرف گذشتہ صدی پر ہی غور کرلیجیے۔ اپنے نبی کی امانت، آپؐ کے قبلۂ اوّل اور آپؐ کے فرمان کے مطابق مکہ و مدینہ کے بعد اس مقدس ترین مقام کی حفاظت کرنے والوں کے خلاف کیا کیا سازشیں نہیں ہوئیں۔ ان پر کیا کیا مظالم نہیں توڑے گئے، لیکن اہل فلسطین کے دل سے اپنے نبی کی محبت اور ان کے قبلۂ اول کی آزادی کا جذبہ چھینا نہیں جاسکا۔ آج ان حقائق کی یاددہانی کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بار پھر سازشوں کے وہی جال بنے جارہے ہیں۔
۲ نومبر ۲۰۱۷ء کو اُس ظالمانہ برطانوی اعلانِ بالفور کے ۱۰۰ سال پورے ہوئے، جس کے مطابق ہزاروں سال سے سرزمین فلسطین پر مقیم اس کے باشندوں کو بے گھر کرتے ہوئے اور دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں جمع کرکے، ایک نئی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ۱۹۱۷ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کے اس اعلان کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف ۵۵ہزار تھی۔ اس منحوس اعلان سے قبل برطانیہ نے مشرق وسطیٰ پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے جو مختلف اقدامات کیے، ان میں سرفہرست مسلمانوں کو باہم لڑانا تھا۔ حجاز کے والی شریف حسین بن علی کو لالچ دیا گیا کہ وہ اگر خلافت عثمانیہ سے بغاوت کرتے ہوئے اس منصوبے کا ساتھ دے، تو اسے پورے جزیرۂ عرب، عراق اور شام سمیت عالم عرب کے اکثر علاقوں کا تاج دار بنادیا جائے گا۔ موصوف نے ۱۵ جون ۱۹۱۶ء کو یہ اعلانِ انقلاب کردیا۔ مسلمانوں کی قوت تقسیم اور کمزور ہوئی تو دسمبر ۱۹۱۷ء تک سرزمین فلسطین پر برطانوی قبضہ مکمل ہوگیا۔ برطانوی افواج کا سربراہ جنرل ایلن بی (Allenby )سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر کے پاس پہنچا اور اس پر پاؤں رکھتے ہوئے بولا: ’’آج صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوگیا‘‘۔ گویا یہ سارا منصوبہ بیت المقدس پر قبضے کے لیے لڑی جانے والی ۸۰۰ سالہ صلیبی جنگوں ہی کا تتمہ تھا۔
ایک طرف یہ سامراجی منصوبہ ساز اور شریف مکہ جیسے ان کے ہم نوا مسلم حکمران تھے، اور دوسری طرف اپنا سب کچھ بیت المقدس کی آزادی کی خاطر قربان کرتے ہوئے، جدوجہد کرنے والے اہل ایمان تھے۔ ۲۷ جنوری سے ۱۵ فروری ۱۹۱۹ء تک بیت المقدس میں پہلی فلسطینی کانفرنس ہوئی۔ شرکا نے بلاد الشام (موجودہ فلسطین، شام، لبنان، اُردن اور عراق) کی تقسیم اور اس پر قبضہ مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ موسیٰ الحسینی اور مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، نئی فلسطینی قیادت کے طور پر اُبھرے۔ فلسطین پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں یہودیوں کے خلاف اپریل ۱۹۲۰ء میں پہلی عوامی تحریک شروع ہوئی۔
۱۹۲۱ء میں فلسطین کے شہر یافا میں تحریک کا دوسرا دور دیکھنے کو آیا اور اگست ۱۹۲۹ء میں مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار، دیوار بُراق کی بے حرمتی کرنے پر ایک طاقت ور ’تحریک بُراق‘ دیکھنے میں آئی۔جس دوران میں ۱۳۳ یہودی مارے گئے ۳۳۹ زخمی ہوئے جواب میں برطانوی افواج نے ۱۱۶ فلسطینی شہید اور ۲۳۲ زخمی کردیے۔ ان تین عوامی تحریکوں کے بعد بیت المقدس اور گردونواح کی عرب آبادی میں جہاد فلسطین کی نئی روح پیدا ہوئی۔ شام کے چوٹی کے عالم دین عزالدین القسام اور عبد القادر حسینی نے اپنی اپنی جہادی کوششوں سے قبلۂ اول آزاد کروانے کے لیے جدوجہد کا حق ادا کیا۔
مسئلۂ فلسطین صرف وہاں کے عرب عوام کا مسئلہ نہیں تھا،صرف اہلِ فلسطین یا عرب آبادی ہی اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کوشاں نہیں تھی، پوری مسلم دنیا اس کار جہاد میں شریک تھی۔ ۷تا ۱۷دسمبر ۱۹۳۱ء کو مفتی اعظم امین الحسینی کی سربراہی میں بیت المقدس میں پہلی اسلامی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ۲۲ ممالک کے رہنما شریک ہوئے۔ برصغیر کی نمایندگی علامہ محمد اقبال اور مولانا شوکت علی نے کی۔ لبنان کے امیر شکیب ارسلان، مصر کے علامہ محمد رشید رضا، ایران کے ضیاء الدین طباطبائی اور تیونس کے عبد العزیز الثعالبی جیسی شخصیات اس کانفرنس کی روح رواں تھیں۔ کانفرنس کے اختتام پر پورے عالم اسلام میں فلسطین کمیٹیاں بنانے اور قبلہء اول کی حفاظت کا جذبہ اُجاگر کرنے کا اعلان کیا گیا۔
فلسطین کے اندر بھی جہادی سرگرمیوں کے علاوہ پرامن عوامی جدوجہد کے مختلف مراحل سامنے آئے۔ ۲۰ ؍اپریل ۱۹۳۶ء کو فلسطینی عوام نے دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لائے جانے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کردی۔ یہ ایک بے مثال ہڑتال تھی جو چند روز یا چند ہفتے نہیں، تقریباً چھے ماہ جاری رہی۔ اگر آس پاس کے مسلمان حکمران ایک بار پھر برطانوی احکام بجا لاتے ہوئے اپنا منفی کردار ادا نہ کرتے تو۱۷۸ روزہ یہ ہڑتال اپنے مثبت نتائج حاصل کرلیتی۔ برطانیہ نے صورتِ حال اور فلسطینی عوام کے مطالبات کا جائزہ لینے کے بہانے اکتوبر ۱۹۳۶ء میں لارڈ پِیل (Lord Peel) کی سربراہی میں رائل کمیشن بھیجا۔ کمیشن نے چھے ماہ بعد جو رپورٹ جاری کی، وہ فلسطین کی بندر بانٹ کا ایک خاکہ تھا جسے فلسطینی عوام نے فوراً مسترد کردیا۔ ایک مضبوط عوامی تحریک دوبارہ برپا ہوئی۔ اس دوران برطانوی گورنر لویس انڈریوز بھی قتل ہوگیا۔ برطانوی افواج نے یہودی ملیشیاؤںکے ساتھ مل کر ظلم کی نئی تاریخ رقم کردی۔ مفتی امین الحسینی لبنان جانے پر مجبور ہوگئے، لیکن دیگر کئی رہنما گرفتار کرکے براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع اور بحرہند میں گھری برطانوی کالونی جزائر سیشل میں قید کردیے گئے۔ تحریکِ آزادی کا یہ مرحلہ مزید تقریباً دو سال جاری رہا۔ ایک مرحلے پر فلسطینی عوام نے کئی دیہات اور شہروں کے گردو نواح کا علاقہ آزاد کروالیا لیکن برطانیہ نے جنرل منٹگمری اور جنرل ویول سمیت چوٹی کے عسکری رہنماؤں کے ساتھ مزید کمک بھیجتے ہوئے لاتعداد فلسطینی شہری شہید کردیے۔
عوامی غیظ و غضب اور دوسری جنگ عظیم کے گہرے ہوتے ہوئے سایے کی وجہ سے برطانیہ کو مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑا۔ اس نے تقسیم کا منصوبہ معطل کردیا۔ گرفتار و ملک بدر رہنماؤں کو رہا کردیا۔ مسئلے کے حل کے لیے لندن میں گول میز کانفرنس بلائی جو ناکام رہنا تھی، اور ناکام رہی۔ مئی ۱۹۳۹ء میں قرطاس ابیض (وائٹ پیپر) جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو یہودی ریاست نہیں بنانا چاہتا، عربوں اور یہودیوں کی مشترک حکومت بنانا چاہتا ہے۔ وعدہ کیا کہ وہ آیندہ دس برس کے اندر اندر ایک آزاد فلسطینی ریاست تشکیل دے گا۔ فلسطینی عوام کو ان اعلانات کی صداقت پر یقین نہیں تھا، اس لیے انھوں نے انھیں مسترد کردیا۔ اسی دوران میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی۔ مفتی امین الحسینی کئی ملکوں سے ہوتے جرمنی پہنچ گئے۔ جرمنی نے برطانیہ کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت اور امداد کا اعلان کیا۔ اسی اثنا میں صہیونی قیادت نے عالمی قیادت کا مرکز امریکا منتقل ہوتا دیکھ کر اپنا قبلہ بھی ادھر پھیرلیا۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن دونوں پارٹیوں نے ان کی مکمل سرپرستی کی۔ ٹرومین صدر منتخب ہوا تو اس نے برطانیہ سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے مزید ایک لاکھ یہودی فلسطین منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ جنگ جیتنے کے بعد برطانیہ نے بھی توقع کے عین مطابق اپنے وائٹ پیپر کی منسوخی کا اعلان واپس لے لیا۔ مسئلۂ فلسطین کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے اینگلو امریکن مشترک کونسل تشکیل دے دی گئی۔ اب امریکا اس پورے قضیے میں باقاعدہ اور براہِ راست شریک تھا۔ ۲ ؍اپریل ۱۹۴۷ء کو برطانیہ نے اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پر ایک قرارداد پیش کی، جس نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو اسے منظور کرتے ہوئے، سرزمین فلسطین کے ۷ء۵۴ فی صد علاقے پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا۔
۲نومبر ۱۹۱۷ء کو کیے جانے والے برطانوی اعلان بالفور سے لے ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیلی ریاست کے باقاعدہ قیام کے اعلان تک، زمینی حقائق کیسے تبدیل کیے گئے؟ اس کا اندازہ درج ذیل اعداد و شمار سے ہوتاہے: ۱۹۱۸ء میں غیر یہودی فلسطینی آبادی ۶لاکھ سے متجاوز تھی، جب کہ باہر سے آکر بسنے والوں سمیت یہودیوں کی کل تعداد ۵۵ ہزار تھی جو آبادی کا ۴. ۸ فی صد تھے اور ان کے پاس فلسطین کا ۲ فی صد علاقہ تھا۔ ۱۹۴۸ء تک ان کی تعداد ۶لاکھ ۴۶ ہزار ہوچکی تھی، اور وہ کل آبادی کا ۷ء۳۱ فی صد تھے۔ انھوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے ۶ فی صد رقبہ حاصل کرلیا تھا۔ اس وقت بھی فلسطینیوں کی تعداد ۱۳ لاکھ ۹۰ ہزار تھی جو کل آبادی کا ۳ء۶۸ فی صد رہ گئے۔ لیکن اقوام متحدہ نے ۶ فی صد رقبہ رکھنے اور باہر سے آکر ایک پرائے ملک پر قابض ہونے والے ۷ء۳۱ فی صد یہودیوں کو تقریباً ۵۵ فی صد رقبہ عطا کردیا۔
تقسیم سرزمین اقصیٰ کا اعلان ہونے پر فلسطینی عوام نے احتجاج کیا تو جواب میں ان کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا گیا۔ بدقسمتی سے کسی پڑوسی عرب ریاست یا حکومت نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔ سب نے بہانہ بنایا کہ جب اعلان کے مطابق ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو برطانوی افواج یہاں سے نکل جائیں گی، تو اس وقت وہ فلسطینی عوام کی مدد کریں گے۔ فلسطینی عوام نے خود ہی اپنے نبیؐ کی امانت کی حفاظت کا فیصلہ کیا۔ پڑوسی علاقوں (بالخصوص مصر سے) عوام ان کی جو مددکرسکتے تھے وہ انھوں نے کی۔ الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا اور ان کی جماعت، اہل فلسطین کی مدد کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ اخوان کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں رکھی گئی تھی۔ صرف ۲۰ سال بعد انھوں نے قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے پہلی کھیپ کے طور پر ۱۰ ہزار مجاہدین فلسطین بھیجنے کا اعلان کیا۔ مصری حکومت خود اہل فلسطین کی مدد تو کیا کرتی، اس نے اخوان کے ان فداکاروں کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ جو اہل ایمان جاسکے، انھیں بھی جنگ بندی کے بعد ملک واپسی سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا۔ ساتھ ہی پورے مصر میں اخوان کے کارکنان جیلوں میں بند کیے جانے لگے۔ قبلہء اول کی آزادی کے لیے قربانیاں دینا اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی پکار پر لبیک کہنا، اتنا سنگین جرم تھا کہ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ہی ۱۱ فروری ۱۹۴۹ء کی شام اخوان کے بانی اور مرشد عام حسن البنا کو مصری دارالحکومت قاہرہ کی ایک شاہراہ پر شہید کردیا گیا۔
۱۹۴۸ء کی اس خوفناک جنگ میں فلسطینی عوام نے عزیمت کی نئی تاریخ رقم کی۔ جنگ کے پہلے چھے ماہ تو وہ اکیلے ہی یہودی ملیشیاؤں اور ان کے عالمی سرپرستوں کے مقابل ڈٹے رہے۔ انھوں نے سرزمین فلسطین کے ۸۲ فی صد علاقے کی حفاظت کیے رکھی۔ آخرکار سات عرب ممالک کی افواج نے اہل فلسطین کی مدد کا اعلان کیا، لیکن ان کا فلسطین جانا، ان کے وہاں نہ جانے سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔
ان افواج کی حقیقت اسی بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں سے ایک ملک کی ارسال کردہ فوج کے اعلیٰ افسران میں سے ۴۵ افسر عرب نہیں برطانوی تھے۔ سات عرب ریاستوں کی افواج کی وہاں موجودگی کے دوران دسمبر ۱۹۴۸ء میں جنگ بندی کا اعلان ہوا، تو فلسطین کا ۷۷ فی صد علاقہ یہودی افواج کے ہاتھ دیا جاچکا تھا۔ اس دوران ۱۳ لاکھ ۹۰ہزار فلسطینیوں میں سے ۸ لاکھ شہری زبردستی ملک بدر کردیے گئے۔ مزید ۳۰ ہزار سے زائد ملک کے اندر مہاجر ہوگئے۔ ساڑھے چار ہزار سال سے وہاں آباد ایک پوری قوم سے ان کے آباو اجداد کی سرزمین چھین لی گئی۔ مسلمانوں سے ان کا قبلۂ اول اور عیسائیوں سے ان کے مقدس مقامات چھین لیے گئے۔( ۱۹۲۲ء میں وہاں عیسائیوں کی تعداد ۷۱ ہزار ۶۴۶ تھی)۔ ان کے گھر اور بستیاں مسمار کرکے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کی جانے لگیں۔ ۱۴ نومبر ۱۹۷۳ء کو شائع ہونے والے برطانوی اخبار دی گارڈین میں اسرائیلی فوج کے سربراہ، اور وزیر دفاع موشے دایان (Moshe Dayan) نے اعتراف کیا کہ ’’اس ملک میں ایک بھی یہودی بستی ایسی نہیں ہے، جو کسی نہ کسی عرب آبادی کے اوپر تعمیر نہ کی گئی ہو‘‘۔
۱۹۴۸ء میں اہل فلسطین پر مسلط کی جانے والی جنگ آخری جنگ نہیں تھی۔ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مل کر دوبارہ جنگ چھیڑ دی۔ غزہ کی پٹی اور مصری صحراے سینا پر قبضہ جمالیا اور پھر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے بعد سینا کا علاقہ خالی کردیا۔ ۵ جون ۱۹۶۷ء کی صبح اسرائیل نے مصر، اُردن اور شام پر ایک بار پھر بیک وقت اور اچانک حملہ کرتے ہوئے بچا کھچا فلسطینی علاقہ (مغربی کنارہ ۵۸۷۸ کلومیٹر اور غزہ کی پٹی ۳۶۳ کلومیٹر) مصری صحراے سینا (۶۱ ہزار ۱۹۸ مربع کلومیٹر) شامی گولان کی پہاڑیاں (۱۱۵۰ مربع کلومیٹر) بھی قبضے میں لے لیا۔ مصر، شام اور اُردن کی تقریباً ساری فضائی قوت ان کے ہوائی اڈّوں پر ہی تباہ کردی۔ ۱۰ ہزار سے زائد مصری، ۶ ہزار اُردنی اور ایک ہزار شامی فوجی مارے گئے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ۳لاکھ ۳۰ ہزار مزید فلسطینی شہری ملک بدر اور بے گھر کردیے گئے۔ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں صہیونی ریاست سے شام اور مصر کی چوتھی جنگ ہوئی۔ آغاز میں مصر و شام کا پلہ بھاری رہا، لیکن پھر امریکی فضائی کمک کے نتیجے میں، صہیونی افواج نہر سویز کے مغربی علاقے اور شام کی کئی نئی بستیوں پر بھی قابض ہوگئیں لیکن مجموعی طور پر اس جنگ میں صہیونی ریاست اور اس کی افواج کو بڑا دھچکا لگا۔
یہ جنگ عرب ممالک کے ساتھ صہیونی ریاست کی آخری کھلی جنگ تھی، لیکن اس کے بعد اس سے بھی زیادہ خوفناک ایک جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس نئی جنگ میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والے عرب ممالک، اب سرزمین اقصیٰ پر صہیونی قبضہ اور ان کی ناجائز ریاست تسلیم کرتے ہوئے خود اس کی جانب سے لڑنے لگے۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مصر نے لڑائی ختم کرنے کا معاہدہ کیا اور ستمبر ۱۹۷۸ء میں انور السادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرتے ہوئے خطے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک نئی دوڑ شروع کردی۔ وقتی طور پر عرب لیگ نے مصر کی رکنیت معطل کردی، لیکن پھر نہ صرف اس کی رکنیت بحال کی بلکہ خود بھی اسی دوڑ میں شامل ہوگئی۔ اب جس حکمران کو بھی خود اپنے عوام یا کسی برادر ملک کے خلاف سہارے کی ضرورت ہوتی، وہ قبلۂ اول پر قابض دشمن سے دوستی کے رشتے قائم کرنا شروع کردیتا۔ پہلے اس کی آب یاری خلافت عثمانیہ کے قاتل مصطفیٰ کمال پاشا اور اس کے وارث کررہے تھے، اب خطے کا سب سے اہم ملک مصر بھی ان کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ بظاہر اس معاہدے کے نتیجے میں صحراے سینا سے صہیونی فوجوں کا انخلا ہوگیا، لیکن ایسی کڑی شرطوں کے ساتھ کہ گویا وہاں موجود مختصر سی مصری افواج عملاً اسرائیلی افواج کے ماتحت کام کررہی ہوں۔ مصر کے بعد اُردن بھی اسی روسیاہی کا شکار ہوا۔
اگست ۱۹۹۳ء میںکئی سال کے خفیہ مذاکرات کے بعد ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مسئلۂ فلسطین کے اکلوتے اور قانونی وارث ہونے کے دعوے دار یاسر عرفات نے امن کے نام پر ایک طویل معاہدہ کرلیا۔ اس گنجلک معاہدے کا حتمی نتیجہ یہ تھا کہ اگر باقی ماندہ فلسطینی شہری، اسرائیلی ریاست کو اپنی اطاعت کا مرحلہ وار ثبوت دیتے چلے جائیں تو آخرکار غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو بعض اختیارات دے دیے جائیں۔ اس معاہدے کا سب سے قبیح پہلو یہ تھا کہ اس میں مذکورہ چند موہوم وعدوں کی قیمت پر پہلے ہی ہلے میں سرزمینِ اقصیٰ کے ۷۷ فی صد سے زائد علاقے پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کرلیا گیا تھا۔ سب سے اہم اور حساس معاملے، یعنی بیت المقدس کے مستقبل کو تمام مذاکرات سے خارج کرتے ہوئے، بعد کے کسی مرحلے کے لیے اُٹھا رکھا گیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی نے نہ صرف یہ عہد کیا کہ وہ آیندہ کبھی اسرائیل کے خلاف قوت کا استعمال نہیں کرے گی، بلکہ یہ معاہدہ بھی کیا کہ اگر کوئی بھی فرد یا گروہ ایسا کرے گا، تو فلسطینی اتھارٹی اس کا قلع قمع کرے گی۔ مزید ذلت آمیز شرط یہ رکھی گئی کہ اسرائیلی افواج جب چاہیں گی فلسطینی علاقوں میں آکر کارروائیاں کرسکیں گی۔ ان کے آنے پر فلسطینی اتھارٹی کی پولیس یا فوج کے تمام افراد ان کے راستے سے روپوش ہوجائیں گے۔ اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ اسرائیلی فوجی اتنی اچانک آجائیں کہ وہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو تو فلسطینی سپاہی اپنا اسلحہ زمین پر رکھ کر دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجائیں گے تاآنکہ اسرائیلی وہاں سے چلے جائیں۔ اس معاہدے میں دنیا بھر کی خاک چھاننے پر مجبور کردیے جانے والے فلسطینی مہاجرین (اب تک جن کی تعداد ۷۰ لاکھ تک پہنچ چکی ہے) کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔ گویا وہ لاوارث اب اپنی سرزمین پر واپسی کا خواب تک بھی نہ دیکھیں۔ فلسطینی علاقوں میں مسلسل تعمیر کی جانے والی یہودی بستیوں کے بارے میں بھی چپ سادھے رکھی گئی۔
مکمل طور پر اسرائیلی رحم و کرم پر جینے والی اس اتھارٹی کا سب سے بنیادی مقصد فلسطینی عوام میں روز افزوں تحریک انتفاضہ کو کچلنا رہ گیا۔ یعنی جو کام خود صہیونی افواج انجام نہیں دے سکی تھیں، وہ اب خود فلسطینی عوام سے کروایا جانے لگا۔ اس ذمہ داری کے لیے محمد دحلان نامی شخص کا انتخاب بھی خود ہی کردیا گیا۔ موصوف نے مغربی کنارے اور غزہ میں جاسوسی، جیل خانوں اور اذیت گاہوں کا ایک وسیع نظام قائم کردیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں تحریک مزاحمت و آزادی کے کئی اہم ترین رہنما شہید ہوگئے اور بڑی تعداد میں گرفتار۔ یہ تمام جتن کرنے کے باوجود بھی اہل فلسطین کے دل سے سرزمین اقصیٰ آزاد کرنے کا جذبہ ختم نہ کیا جاسکا۔
سال ۲۰۰۰ء میں اس حقیقت کا بے مثال ثبوت ایک بار پھر پوری قوت سے ساری دنیا کے سامنے آگیا۔ متعصب صہیونی جماعت لیکوڈ پارٹی کے سربراہ اور ۱۹۸۲ء میں لبنان کے فلسطینی کیمپوں صبر ا، شاتیلا میں خوفناک قتل عام کروانے والے سابق وزیر دفاع آرییل شارون نے اعلان کردیا کہ ’’اسرائیل ایک ناقابل تسخیر حقیقت ہے۔ یروشلم (بیت المقدس) سمیت اس کی ساری سرزمین ہماری ہے اور میں اس حقیقت کا اعلان کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ میں جاؤں گا۔ اسرائیلی حکومت نے اس اعلان کی تائید کی اور شارون کی مدد کرنے کے لیے ۶۰۰ مسلح افراد اس کے ہمراہ بھیج دیے۔ اس نے ۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء کو اس ناپاک جسارت کا ارتکاب کیا تو پوری فلسطینی قوم بپھر کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ انتفاضۂ اقصیٰ شروع ہوگیا جو تقریباً ۵ برس تک جاری رہا۔ اس دوران صہیونی افواج نے ممنوعہ ہتھیاروں سمیت ہر ہتھکنڈا استعمال کرکے دیکھ لیا۔ ساڑھے چار ہزار شہری جن میں سیکڑوں بچے اور خواتین بھی شامل تھے شہید کردیے لیکن ان جرائم کے نیتجے میں مسجد اقصیٰ سے اُمت مسلمہ کی محبت و تعلق تو کیا کم ہوتا، ناجائز صہیونی ریاست اور اس کے سرپرست امریکا کا اصل چہرہ ان کے سامنے مزید بے نقاب ہوگیا۔
اس دوران کئی دیگر اہم واقعات بھی پیش آئے۔ یاسر عرفات اب نہ صرف مزید کسی کام کا نہ رہا تھا بلکہ اب وہ اوسلو معاہدے میں زینت کے لیے رکھی گئی شقوں پر عمل بھی چاہتا تھا، علاج کے بہانے اسے فرانس لے جاکر زہر دے دیا گیا۔ ۱۱ نومبر ۲۰۰۴ء کو وہ دنیا سے چلے گئے۔ ان سے پہلے ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ء کو تحریک حماس کے بانی اور فلسطین میں نسل نو کے روحانی رہنما، شیخ احمد یاسین کو بھی نماز فجر کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے ڈرون حملے سے شہید کردیا گیا۔ اگلے ہی ماہ ۱۷؍اپریل ۲۰۰۴ء کو ان کے جانشین ڈاکٹر عبد العزیز رنتیسی بھی ایسے ہی ایک حملے کی نذر ہوگئے۔ اسی سال دیگر کئی جماعتوں کے اہم قائدین بھی شہید کردیے گئے۔
یاسر عرفات کے بعد محمود عباس (ابو مازن) نے ان کی جگہ سنبھالی۔ ان کا بنیادی فلسفہ ہی ’عسکریت‘ یعنی آزادیِ اقصیٰ کے لیے مسلح جہاد کا خاتمہ تھا۔ انھوں نے ذمہ داری سنبھالتے ہی کئی دیگر اقدامات کے علاوہ بلدیاتی اور پارلیمانی انتخابات کا اعلان بھی کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ شہادتوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ تحریک حماس (فلسطینی اخوان) جہاں اپنے عسکری بازو عزالدین القسام بریگیڈ کی وجہ سے سب سے مؤثر جہادی گروہ ہے، وہیں وہ فلسطینی عوام کے اعتماد و حمایت کی حامل اہم ترین جماعت بھی ہے۔ مختلف مشاورتوں کے بعد انھوں نے ۲۰۰۵ء کے بلدیاتی اور ۲۰۰۶ء کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ نتائج آئے تو پوری دنیا کے لیے حیران کن تھے۔ ۱۳۲ کے ایوان میں حماس کو ۷۸ اور محمود عباس کی جماعت الفتح کے تمام دھڑوں کے مشترکہ پینل کو ۴۵ نشستیں حاصل ہوئیں۔ اسرائیل کے لیے حماس کی یہ جیت تحریک انتفاضہ سے بھی بڑا زلزلہ ثابت ہوئی۔ حماس نے اکیلے حکومت سازی کے بجائے ہر ممکن قربانی دے کر بھی قومی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن نہ صرف ان کی تمام کوششیں ناکام بنادی گئیں، بلکہ نومنتخب حکومت کی راہ میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے۔
انتخابات ہوجانے کے دو ہفتے بعد بھی اسی پرانی اسمبلی کا اجلاس بلاکر اہم دستوری ترامیم کردی گئیں۔ تمام تر اختیارات منتخب حکومت کے بجاے صدر کو منتقل کردیے گئے۔ نومنتخب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا تو کچھ عرصے بعد ہی اس کے سپیکر سمیت کئی ارکان اسمبلی کو اسرائیلی افواج یا فلسطینی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرلیا۔ ۲۰۰۷ء میں یہ محاصرہ شدید تر ہوگیا۔ تین اطراف سے اسرائیل کا محاصرہ تھا، چوتھی جانب سے مصر نے بھی اس سے زیادہ سخت حصار کرلیا تھا۔
محمود عباس نے بھی منتخب حکومت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے غزہ کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۲ء میں اسرائیل نے غزہ پر خوفناک جنگ مسلط کردی۔ کیمیائی ہتھیار تک استعمال کرڈالے۔ غزہ کے عوام سے صرف ایک مطالبہ کیا جارہا تھا کہ وہ حماس کا ساتھ چھوڑتے ہوئے، مسجد اقصیٰ سے دست بردار ہوجائیں اور اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ ایسے کڑے حصار اور پے در پے جنگوں کے بعد غزہ میں محصور ۸ لاکھ سے زائد انسانوں کا زندہ بچ جانا بھی ایک معجزہ ہوتا۔ لیکن وہ نہ صرف زندہ رہے، بلکہ انھوں نے حماس کا ساتھ چھوڑنے سے بھی انکار کردیا۔
۲۰۱۶ء سے آج ۲۰۱۷ء تک یہ محاصرہ اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ جاری ہے۔ اس دوران ۲۰۱۱ء میں عالم عرب کی عوامی تحریکوں کے نتیجے میں مصر سمیت کئی ملکوں سے آمریت کا عارضی خاتمہ ہوا۔ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کا ایک سالہ دور اقتدار (جون ۲۰۱۲ء - جولائی ۲۰۱۳ء) ہی ایسا گزرا کہ مصر نے اہل غزہ کے لیے سرحدوں اور دلوں کے دروازے کھول دیے۔ یہی اقدام صدر محمد مرسی کا سب سے بڑا جرم بن گیا اور انھیں بدترین خونی فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار سے ہٹا کر جیل میں بند کردیا گیا۔ ان پر سب سے اہم الزام یہ لگایا گیا کہ انھوں نے حماس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہوئے اسے اہم راز پہنچائے۔
نبی اکرمؐ کے قبلۂ اول اور سرزمین بیت المقدس پر قبضہ کرکے وہاں ایک صہیونی ریاست تشکیل دینے کے لیے پورے ۱۰۰ سال پر محیط سازشوں اور مظالم کا قدرے طویل ذکر اس لیے کیا جارہا ہے کہ آج ایک بار پھر ہم تاریخ کے ایک سنگین دوراہے پر لاکھڑے کیے گئے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ۱۰۰ سال بعد بھی وہی ہتھکنڈے، وہی سازشیں اور وہی عناصر پوری اُمت مسلمہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
۱۰۰ برس قبل برطانیہ نے اعلان بالفور کیا تھا، اب امریکا اس صدی کا سب سے بڑا سودا مَفقَۃُ الْقَرنْ (Deal of the Century) کرنے جارہا ہے۔ مصر کے سرکاری اخبارات میں شائع شدہ جنرل عبدالفتاح السیسی اور امریکی صدر ٹرمپ کا مکالمہ ملاحظہ فرمائیے:
السیسی: ’’آپ مجھے مسئلۂ فلسطین کے حل کے لیے صدی کی سب سے بڑی ڈیل کرنے کے لیے پوری قوت سے تیار و آمادہ پائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کام آپ ہی کرسکتے ہیں‘‘۔ صدر ٹرمپ: ’’یہ کام ہم سب مل کریں گے۔ ہم مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے اور ہماری دوستی طویل عرصے تک رہے گی‘‘۔
صدی کی سب سے بڑی یہ ڈیل کیا ہے؟ اس کی تفصیل ابھی خفیہ رکھی جارہی ہے۔ واقعات و عمل درآمد کی رفتار لیکن بہت تیز ہے۔
ابھی آپ نے پڑھا کہ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹنے کے بعد ان کے خلاف جو سب سے پہلا مقدمہ قائم کیا گیا، وہ ’دہشت گرد تنظیم‘ حماس کے ساتھ گٹھ جوڑ کا تھا۔ قطر سے قطع تعلق کرتے ہوئے اس پر بھی حماس کو پناہ دینے کا الزام لگایا گیا۔ کئی مغربی ممالک نے اس کانام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران میں اسی دہشت گرد حماس اور محمود عباس کی الفتح کے درمیان نہ صرف صلح کروا دی گئی کہ بلکہ اسے ایک کارنامہ قرار دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کارنامہ جنرل سیسی ہی نے انجام دیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں گیارہ سال سے جاری غزہ کے محاصرے میں مرحلہ وار نرمی کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
حماس الفتح معاہدے کا ایک فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حماس مکمل حصار اور خوفناک جنگوں کے باوجود گذشتہ گیارہ سال سے غزہ میں قائم اپنی عبوری حکومت سے دست بردار ہوگئی ہے۔ اس نے غزہ آنے جانے کے تمام راستوں سمیت امن و امان کا انتظام محمود عباس انتظامیہ کے سپرد کردیا ہے۔ البتہ اس نے جس بات سے کسی بھی صورت دست بردار نہ ہونے کا اعلان کیا ہے، وہ زیر زمین پناہ گاہیں ہیں جہاں اس نے صہیونی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا عسکری سازوسامان اور دستیاب ہتھیار رکھے ہیں۔ حماس کے اعلیٰ قائدین نے ایک ملاقات میں بتایا کہ اگرچہ اس معاہدے کے بارے میں بہت سارے خدشات پائے جاتے ہیں، لیکن ایک تو ہم اس بارے میں یکسو اور مطمئن ہیں کہ آزادیِ اقصیٰ کے لیے حاصل اور تیار کیے جانے والے ہمارے یہ ہتھیار محفوظ و مامون ہیں، دوسرے ہم اور غزہ کے عوام اس بات پر مطمئن ہیں کہ گیارہ سالہ طویل و کڑی آزمایش میں اللہ کی توفیق سے سرخرو ہوئے۔ کوئی بڑی سے بڑی آفت و ابتلا ہمیں جھکا نہیں سکی۔ اور تیسری بات یہ کہ اگر غزہ کے محصور ۹ لاکھ عوام کے دکھ اور مصائب ختم یا کم کرنے کے لیے، اپنے اصل مقاصد سے دست بردار ہوئے بغیر کوئی آبرومندانہ موقع پیدا ہورہا ہے تو ہم اسے ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
غور کرنے کی بات البتہ یہ ہے کہ یہ صلح کروانے بلکہ اس پر اصرار کرنے والوں کے اصل اہداف کیا ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تحریک حماس اب ایک اتنی بڑی زمینی حقیقت ہے کہ مسئلۂ فلسطین کا کوئی بھی حل اس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس میں شامل نہ ہو۔ لیکن دوسرا بلکہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ صدی کا سب سے بڑا سودا کرنے والے حماس کو بھی یقینا کسی سودے بازی یا بے دست و پا کرنے کی سازش کا شکار کرنا چاہیں گے۔ اس پورے تناظر میں ایک تیز رفتار اور اہم پیش رفت یہ ہورہی ہے کہ ایک دو نہیں، درجن بھر سے زائد مسلم ممالک، صہیونی ریاست کے ساتھ اس وقت خفیہ مذاکرات کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر دانی دانون کا ایک بیان ۲۶ نومبر کے اسرائیلی اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس نے انکشاف کیا ہے کہ ’’اس وقت اسرائیل ایسے ۱۲ مسلم ممالک سے خفیہ مذاکرات کررہا ہے کہ جن سے ہمارے تعلقات نہیں ہیں۔ اسرائیلی سفیر نے طنزیہ انداز میں کہا کہ: ’’اس سے پہلے یہ مسلم سفرا اسرائیلیوں کو دیکھ کر راستہ بدل لیا کرتے تھے، اب وہ ہم سے تقریباً ہفتہ وار ملاقاتوں میں مشترک منصوبوں پر گفت و شنید کرتے ہیں‘‘۔ دانون کے بقول: ’’اس وقت ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بند کمروں میں ہونے والے یہ مذاکرات منظر عام پر کیسے لائے جائیں‘‘۔ دانون کے علاوہ کئی اسرائیلی وزرا خود وزیراعظم نتن یاہو اور فوجی سربراہ گیڈی ایزنکوٹ بھی ایسے متعدد بیانات دیتے ہوئے خطے کے کئی اہم ترین مسلم ممالک کا نام لے چکے ہیں۔
پورے منصوبے کے بارے میں اب تک نشر کی جانے والی تجاویز میں سے اسرائیلی وزیر سوشل مساوات جیلا جملیل کے بیان کی تصدیق و تائید کئی اطراف سے ہورہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’کسی فلسطینی ریاست کے قیام کی اب ایک ہی صورت ہے کہ غزہ اور مصری صحراے سینا کے ایک حصے کو ملا کر وہاں یہ مجوزہ ریاست بنادی جائے‘‘۔ ۱۱؍ نومبر کو اپنا یہ بیان دینے کے دو ہفتے بعد موصوفہ مصر کے دورے پر آئیں۔ وہ مصر میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں بھی شریک ہوئیں اور یہ مصر میں کسی اسرائیلی وزیر کی پہلی علانیہ شرکت تھی۔
خود فلسطینی صدر محمود عباس بھی اپنی تمام تر وفاداریوں کے بعد اب مختلف اطراف سے دباؤ کا شکار ہیں۔ ان سے تقاضا کیا جارہا ہے کہ وہ صدی کے اس اہم ترین فیصلے میں غیر مشروط تعاون کریں۔ محمود عباس کے ایک قریبی دوست سے ملاقات میںانھوںنے محمود عباس کا یہ جملہ دہراتے ہوئے صورتِ حال سے آگاہ کیا: ’’میں کہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ کیے جانے والے معاہدے پر الف سے یا تک عمل درآمد ہو اور آغاز الف سے کیا جائے لیکن ان کا کہنا ہے کہ معاہدہ کرو، ہم اس پر عمل بھی کریں گے لیکن اس پر عمل درآمد یا سے الف کی طرف شروع کیا جائے‘‘۔انھیں مزید دباؤ میں لانے کے لیے واشنگٹن میں ان کے دفتر کی تجدید کرنے سے انکار کیا جاچکا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس مرحلے پر ۸۲ سالہ محمود عباس بھی اپنے پیش رو یاسر عرفات کے انجام کو پہنچا دیے جائیں۔ ان کی جگہ اب محمد دحلان کو آگے بڑھایا جائے، جو محمود عباس سے سنگین اختلافات کے بعد ایک عرصے سے ابوظبی میں فعال ہیں۔ حماس الفتح حالیہ مذاکرات کے موقعے پر بھی وہ بہت متحرک دکھائی دیے۔ مصری حکومت نے حماس کے بعض ذمہ داران سے بھی ان کی ملاقات کا خصوصی اہتمام کیا۔
غیب کا علم تو صرف خالق کائنات کو ہے لیکن سرزمینِ اقصیٰ کے بارے میں ایک بار پھر بڑی سازش تیار کرنے والوں کو یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر گذشتہ ۱۰۰ برس سے جاری تمام تر کوششوں اور مظالم کے باوجود وہ بیت المقدس کے امین فلسطینی عوام کے دل سے آزادی کا عزم ختم نہیں کرسکے تو وہ ان شاء اللہ آیندہ بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ آج وہ ۱۹۴۸ء کی نسبت کہیں زیادہ پُرعزم اور کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ خود مسلمان حکمرانوں کو بھی پہلے یہودی وزیراعظم بن گورین کا یہ اعلان یاد رکھنا چاہیے کہ ’’آج ہم نے یروشلم (بیت المقدس) پر قبضہ کرلیا ہے، اب ہماری اگلی منزل یثرب ہے‘‘۔ چوتھی وزیراعظم گولڈا مائیر نے سرزمینِ حجاز کی جانب رخ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’مجھے مدینہ اور حجاز سے اپنے آبا و اجداد کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ ہمارا علاقہ ہے اور ہم نے اسے واپس لینا ہے‘‘۔ حکمرانوں کو یہ حقیقت یاد رہے یا نہ رہے، مسلم اُمت اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اسی حقیقت کا اعتراف گذشتہ دنوں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کیا ہے کہ:’’ مسلم حکمران تو ہم سے تعاون پر آمادہ ہیں، اصل رکاوٹ مسلم عوام ہیں‘‘۔ صہیونیوں کے خواب یقینا بکھرتے رہیں گے اور مسلمانانِ عالم قبلۂ اوّل سے اپنی محبت اور قبلہ و کعبہ سے وابستگی کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنائے رکھیں گے۔ یہی چیز، مسلمانوں کے مداہنت پسند حکمرانوں کی سازشوں کو ناکام بناتی رہے گی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِی عَلَی الدِّیْنِ ظَاھِرِیْنَ لِعَدُوِّھِمْ قَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ اِلَّا مَا اَصَابَہُمْ مِنْ لَأوَاءٍ حَتّٰی یَأتِیَ أَمْرُ اللہِ وَہُمْ کَذٰلِکَ قَالُوْا وَ أَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ بِبِیْتِ الْمَقْدِسِ وَ أَکْنَافِ بِیْتِ الْمَقْدِسِ (حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں)، میری اُمت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انھیں تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ صحابۂ کرامؓ نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں‘‘۔
نفرت، تعصب، حسد اور لالچ، ہمارے ازلی دشمن شیطان کے بنیادی ہتھکنڈے ہیں۔ لیکن اولاد آدم ہے کہ مسلسل انھی خطاؤں کی مرتکب ہوکر تباہی کے راستے پر چلی جارہی ہے۔ تعصب اور لالچ ،افراد و اقوام کی نامرادی کی بنیاد بن رہے ہیں۔ ابلیس ایک طرف ان کے زہریلے بیج بورہا ہے اور دوسری طرف ان فصلوں سے فائدہ سمیٹنے والے خناسوں کو شہ دیتے ہوئے، پہلے سے منقسم اُمت کو نت نئے تعصبات کی نذر کرتا چلا جارہا ہے۔ صدیوں پرانے مسلکی تنازعات کی بنا پر نفرت کے الاؤ مزید بھڑکائے جارہے ہیں۔ ایک ایک مسلک یا فقہ کے ماننے والوں کو نسلی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جارہا ہے۔ ان میں سے بھی کوئی اختلافی بنیاد نہ ملے تو ریاستوں کے مابین سیاسی اختلافات ہی کو جنگوں کا بہانہ بنادیا جاتا ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اس وقت کے بعض مسلم حکمرانوں کو شاہ بلکہ شہنشاہ بننے کا لالچ دے کر اپنے ناپاک منصوبے نافذ کیے گئے اور پھر وفادارانہ وابستگی کے وعدے پر پورے خطے کو چھوٹی چھوٹی متحارب ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا۔ تقسیم کرنے والے چاہتے تو اس وقت خطے میں پائی جانے والی بڑی ’کرد‘ آبادی کا بھی ایک الگ ملک بنادیتے، لیکن اصل ہدف علاقے یا عوام کا مفاد نہیں، فتنے کاشت کرنا تھا۔ کرد علاقے کو چار ممالک ترکی، شام، عراق اور ایران میں بانٹ دیا گیا، اور پھر گذشتہ پوری صدی ان کے دلوں میں ’کرد‘ شناخت کی پرستش راسخ کی گئی۔ اس جذبۂ پرستش میں شدت پیداکرنے کے لیے، مختلف مراحل میں اور مختلف حکمرانوں کے ذریعے ان کے حقوق بھی سلب کروائے گئے، اور ترقی کے خواب دکھا کر ان کے ہاتھوں میں بندوق تھما دی گئی۔
ترکی میںکرد تحریک بظاہر ختم ہوگئی، لیکن کئی مراحل کے بعد ۱۹۷۸ء میں ۳۰ سالہ باغی رہنما عبداللہ اوجلان کی صدارت میں ’پارٹی کارکراں کردستان ‘ (PKK)کی صورت میں دوبارہ سامنے آئی۔ یہ جماعت ۸۰ کے عشرے میں خوفناک مسلح کارروائیوں کے ذریعے ترکی سے علیحدگی اور کردستان کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے لگی۔ ان مسلح کارروائیوں میں ۴۰ہزار سے زائد انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ ترک دستاویزات کے مطابق اس بدامنی کے نتیجے میں۵۰۰ ؍ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی نقصانات ہوئے۔ عبداللہ اوجلان نے لبنان اور شام میں مسلح تربیتی کیمپ قائم کیے، جو ۱۹۹۸ء میں ترکی کے دباؤ پر بالآخر ختم کرنا پڑے۔ فروری ۱۹۹۸ء میں ترک خفیہ ادارے اوجلان کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے گرفتار کرکے ترکی لے گئے۔ عدالت نے اسے سزاے موت سنائی جو بالآخر عمر قید میں بدل دی گئی۔
۲۰۱۴ء میں اوجلان نے جیل سے اپنے پیغام کے ذریعے ترکی کے ساتھ ۳۰ سالہ مسلح تصادم ختم کرنے اور اپنی جدوجہد پُرامن رکھنے کا اعلان کیا۔ملک میں نئی کرد سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ ایک جماعت پر عدالت نے پابندی لگادی تو دوسری وجود میں آگئی، جو اس وقت پارلیمنٹ کی اہم سیاسی جماعت ہے۔ لیکن بعض گروہ اب بھی مختلف مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی سمیت دنیا کے کئی ممالک نے ’پی کےکے‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
۱۹۷۹ء میں انقلابِ ایران کے بعد انھیں پہلے سے بھی زیادہ سختی سے کچل دیا گیا۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے ان کے خلاف اعلانِ جہاد کرتے ہوئے ۱۹۸۲ء تک جاری رہنے والی کارروائیوں کے ذریعے ان کی آواز تقریباً خاموش کرادی۔
عراقی وزیراعظم عبد الکریم قاسم اور ملا مصطفےٰ البارزانی کے درمیان یہ گرم جوش تعلقات عراق میں امن و استحکام کی نوید سنانے لگے۔ لیکن دو برس کے اندر اندر ہی مختلف اندرونی و بیرونی قوتوں نے غلط فہمیوں کی پہاڑ کھڑے کرتے ہوئے ملک کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ ۲۳؍اپریل ۱۹۶۱ء کو عبد الکریم قاسم نے عراقی وزارت دفاع میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ: ’’برطانوی سفارت خانے نے تخریبی کارروائیوں اور مفاد پرست عناصر کی پشتیبانی کرتے ہوئے فتنہ جوئی کے لیے تقریباً ۵ لاکھ دینار خرچ کیے ہیں‘‘۔ عراقی سوشلسٹ پارٹی نے بھی اپنے ایک دستاویزی بیان میں انکشاف کیا کہ: ’’جون ۱۹۶۱ء کے دوران ایران میں امریکی سفیر نے دیگر امریکی سفارت کاروں اور عسکری ماہرین کے ساتھ مل کر کرد علاقوں کے کئی دورے کیے ہیں‘‘۔ شاہِ ایران نے بھی جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے اپنے آقاؤں کا حق نمک ادا کیا۔
اس خانہ جنگی کے دوران ۸ فروری ۱۹۶۳ کو وزیراعظم عبدالکریم قاسم کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ بعث پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ کردوں نے انقلاب کی حمایت کی اور کچھ عرصے کے لیے لڑائی رک گئی، لیکن جلد ہی دوبارہ شروع ہوگئی۔ اس ساری جنگ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اس زمانے میں عراق کے ساتھ تیل کے معاہدوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا بھی تھا۔ ۱۱ستمبر ۱۹۶۱ء سے شروع ہونے والی یہ لڑائی مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی ۱۹۷۰ء میں کردستان کی داخلی خود مختاری کے معاہدے پر آکر تھمی۔
کرد قوم پرستی کی راکھ تلے دبی چنگاریاں گاہے گاہے شعلہ جوالا بن کر لاتعداد انسانی جانیں بھسم کرتی رہیں۔ اس دوران مختلف انقلابات بھی آتے رہے۔ ۱۹۷۹ میں صدام حسین نے بعثی حکومت کے لیڈر کی حیثیت سے عراق کا اقتدار سنبھالا اور کئی مواقع پر کرد آبادی کے خلاف بے مہابا قوت استعمال کی۔ ایران عراق جنگ کے اختتامی مرحلے پر ایرانی سرحد پر واقع حلبچہ نامی قصبہ، ایرانی قبضے سے چھڑواتے ہوئے اس پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی انھی کارروائیوں کا حصہ ہے۔ جس سے بیک وقت ۵۵۰۰ سے زائد کرد شہری موت کے منہ میں چلے گئے۔ بعد کے برسوں میں ان کیمیائی اثرات کی وجہ سے مزید کئی ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ صدام حکومت کا الزام تھا کہ یہ حملہ وہاں سے پسپا ہوتی ہوئی ایرانی افواج نے کیا ہے۔ حملہ جس نے بھی کیا ہو، لیکن اس کے نتیجے میں خطے کے تمام کردوں کے دل میں تعصب کی گرہ مزید مضبوط ہوگئی۔
۱۹۹۰ء میں عراقی صدر صدام حسین سے کویت پر چڑھائی کا ارتکاب کروایا گیا۔ اس کی آڑ میں عرب سرزمین پر امریکی افواج کی آمد کے بعد سے عراق میں ایک نیا منظرنامہ تشکیل پانے لگا۔ تیل کی وافر دولت ہونے کے باوجود پورے ملک میں تباہی و بدحالی عروج کو چھونے لگی۔ پہلے کویت کی آزادی اور پھر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) تیار کرنے کاالزام لگاتے ہوئے، عراق کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جانے لگا۔ اپریل ۱۹۹۱ء سے اقوام متحدہ کے ذریعے عراق کے وسیع علاقوں پر فضائی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔ ان پابندیوں کا بظاہر مقصد شمال میں کردوں اور جنوب میں شیعہ آبادی کا تحفظ قرار دیا گیا۔ لیکن عملاً ان فضائی پابندیوں کی آڑ میں برطانوی اور امریکی فضائیہ، عراقی فضائی حدود پر قابض ہوگئی۔ اسی عرصے میں کرد ملیشیا ’پیش مرگہ‘ نے اربیل اور سلیمانیہ سے عراقی افواج کو بے دخل کرتے ہوئے اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ پھر مئی ۱۹۹۱ء میں کرد پارلیمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے عام انتخابات کروادیے گئے۔ مسعود البارزانی کی جماعت کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) کو ۵۰ء۸فی صد اور جلال الطالبانی کے کرد قومی اتحاد PUK (Patriotic Union of Kurdistan) کو ۴۹ء۲ فی صد ووٹ ملے۔
۱۹۹۶ء میں اقوام متحدہ نے عراقی تیل کی قیمت کا ۱۳ فی صد حصہ کرد علاقوں کے لیے ضبط کرنے کی قرار داد منظور کرتے ہوئے، ’تیل کے بدلے خوراک‘ کا منصوبہ نافذ کردیا۔ دونوں کرد رہنماؤں مسعود البارزانی اور جلال الطالبانی کے مابین اختلافات اور جھڑپوں کی طویل تاریخ تھی۔ ۱۹۹۸ء میں امریکا نے دونوں کو واشنگٹن میں جمع کیا اور ان کے مابین جامع امن معاہدہ طے کروادیا۔ عراق سے مسلسل جنگ، چہار اطراف سے محاصرہ، اس کے بیرونی اکاؤنٹس پر تسلط، تباہ کن اسلحے کا الزام، ایک کے بعد دوسری پابندی، مسلسل نگرانی و تلاشی، ساتھ ساتھ دہشت گردی کے کارروائیاں جاری تھیں، جب کہ دوسری جانب عراق ہی کے کرد علاقوں کی مکمل سرپرستی،وافر مالی امداد اور اس پورے عرصے میں تقریباً کامل امن و امان___ ایک ہی ملک میں دو مختلف ریاستوں کا نقشہ واضح کرتا چلا جارہا تھا۔
۲۰۰۳ء کے اوائل میں صدام حسین حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے امریکی افواج نے پورے عراق پر قبضہ کرلیا۔ پھر اپنی مرضی کا سیاسی نظام وضع کرتے ہوئے کرد اور شیعہ آبادی کو اقتدار سونپ دیا۔ ۲۰۰۴ء میں دستور ساز اسمبلی اور ۲۰۰۵ء میں عام انتخابات بھی کروادیے۔ اہلِ سنت آبادی کے بڑے حصے نے دونوں انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ امریکی سفیر پال بریمر نے ملک میں ’نیا نظام‘ متعارف کروایا، جس کے مطابق ملک کا صدر کردی النسل، وزیراعظم شیعہ اور سپیکر اہلِ سنت میں سے ہونا طے کیاگیا۔ عراق کی تمام مسلح افواج کو تحلیل کرتے ہوئے، نئی افواج ترتیب دینے کا اعلان کیا گیا۔ البتہ کرد ملیشیا پیش مرگہ کے بارے میں طے پایا کہ اسے تحلیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی کتاب: My Year in Iraq (عراق میں میرا سال) میں بریمر نے عراقی اور کرد رہنماؤں سے ملاقاتوں کی تفصیل لکھی ہے کہ انھوں نے کس طرح جلال الطالبانی کو عراق کی اور مسعود البارزانی کو کردستان کی صدارت کے لیے آمادہ کیا۔ بدقسمتی سے طالبانی کو صدر مملکت کا عہدہ دیا جانا یا دیگر کرد نمایندوں کو اہم مرکزی مناصب سونپنا، عراق کو متحد رکھنے کے لیے نہیں، بلکہ اسی ہدف کے لیے تھا کہ وہ فیصلہ سازی کے اہم مراکز میں بیٹھ کر کردستان کو الگ کرنے کا عمل تیز اور پھر مکمل کریں۔
۲۰۰۵ء میں منتخب کی جانے والی پارلیمنٹ کے ذریعے عراق کا نیا دستور بنایا گیا اور اس کے مطابق کردستان کو داخلی خود مختاری کے درجے سے اُٹھا کر ’کردستان ریجن‘ قرار دے دیا گیا۔ دستور کی شق ۵۳ کے الفاظ ہیں کہ :’’ عراق، کردستان ریجن کی حکومت کو ایک قانونی حکومت تسلیم کرتا ہے۔ یہ ریجن اس سرزمین پر واقع ہے، جو ۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء سے پہلے دہوک، اربیل، سلیمانیہ، کرکوک، دیالی اور نینویٰ کے اضلاع پر مشتمل اور اسی حکومت کے زیر اختیار تھی‘‘۔ اب وہاں اپنے طور پر تیل کی تلاش کا کام مزید تیز کردیا گیا۔ اپنی الگ وزارت خارجہ کے ذریعے بیرونی دنیا سے تعلقات قائم اور معاہدے کیے جانے لگے۔ عراقی پرچم کے بجاے اور کہیں ساتھ ساتھ، کردستان کا پرچم لہرایا جانے لگا۔ اپنا قومی ترانہ متعارف کروادیا گیا۔ اسی طرح کردستان کی الگ کرنسی اور پاسپورٹ کی تیاری شروع ہوگئی۔۲۰۰۷ء میں امریکی افواج نے کردستان کے دفاع اور امن و امان کی ذمہ داری مکمل طور پر کردستان ریجن کی حکومت کے سپرد کرتے ہوئے وہ علاقہ خالی کردیا۔ ۲۰۰۹ء میں تیل برآمد کرنا شروع کردیا گیا۔ ۲۰۱۴ء میں کردستان حکومت نے داعش کے قبضے سے بچانے کا دعویٰ کرتے ہوئے، عراق میں تیل کے اہم مرکزی شہر کرکوک کو بھی اپنے انتظام میں شامل کرلیا۔ اس طرح عراقی تیل کے تقریباً ایک تہائی ذخائر کردستان کے زیر اختیار آگئے۔
عالمی رپورٹیں اعتراف کرتی ہیں کہ یہ علاقہ تیل کے سمندر پر تیر رہا ہے۔ اس علاقے میں زمین کے اندر پائے جانے والے تیل کی مقدار کا اندازہ ۴۵ ؍ارب بیرل لگایا جاتا ہے۔امریکا کی مشہور کاروباری شراکت دار کمپنی ’بلومبرگ‘ (Bloomberg) کے مطابق کردستان ریجن صرف کرکوک کے کنوئوں سے ۶ لاکھ بیرل تیل روزانہ برآمد کررہا ہے۔ اس اثنا میں تیل کی معروف عالمی کمپنیوں: امریکی ’اکسن‘(Exxon) فرانسیسی ’ٹوٹل‘(Total ) ، امریکی ’شیورون‘( Chevron)، روسی ’گیس پروم‘ (Gas Prom) سمیت تیل کے سب اہم سوداگر کردستان میں آن براجمان ہوئے۔ شیورون نے گذشتہ دو برس سے وہاں اپنا کام بند کررکھا تھا، حالیہ ریفرنڈم سے ایک ہفتہ قبل نئے معاہدے کے تحت پھر واپس آگئی۔ یہاں گیس کے ذخائر کا اندازہ ۶۶,۵ کھرب میٹر مکعب لگایا گیا ہے۔ روسی کمپنی ’گیس پروم‘ نے بھی اپنے سابقہ معاہدوں کے علاوہ حالیہ ریفرنڈم سے چند روز قبل، وہاں ۴؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔
اس تاریخی و سیاسی سفر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کے حصے بخرے کرنے کے منصوبے ،کس قدر طویل مدتی سازشوں کے ذریعے بالآخر حقیقت بنادیے جاتے ہیں۔ ۲۵ستمبر کو کردستان میں کرایا جانے والا ریفرنڈم تو محض ایک رسمی کارروائی تھی۔ البتہ ریفرنڈم کے بعد کے حالات بتا رہے ہیں کہ اپنوں کی منافقت اور دشمنوں کی سازشیں ایک طرف اور تدبیر الٰہی کا ایک اشارہ دوسری طرف۔ ۲۵ ستمبر کو یک طرفہ طور پر ریفرنڈم کروانے کی دیر تھی، کہ خطے میں سرد مہری کے شکار کئی مسلم ممالک میں تحرک پیدا ہوا۔
ایران کی جانب سے شام میں بشار الاسد کی بھرپور حمایت کیے جانے پر ترکی، ایران تعلقات میں بہت گرم جوشی نہ رہی تھی۔ کردستان ریفرنڈم کے بعد، پہلے ایرانی ذمہ داران نے ترکی کا دورہ کیا۔ پھر ترک افواج کے سربراہ خلوصی آکار اور ۴ ؍اکتوبر کو خود ترک صدر طیب ایردوان ایران آئے۔ عسکری اور حکومتی ذمہ داران سے مفصل مذاکرات کیے اور اعلان کیا کہ: ’’دونوں ملک کسی صورت عراق کو تقسیم کرنے اور کردستان کو الگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ خطے کے تقریباً تمام ممالک کی جانب سے ریفرنڈم مسترد کردیے جانے پر عالمی قوتوں نے بھی بظاہر اس کی مخالفت کردی۔
تیل کے وسیع ذخائر، بڑی آبادی، وسیع رقبہ (۷۲ ہزار مربع کلومیٹر) دریائے دجلہ و فرات اور زرخیز سرزمین، کردستان کے مثبت و مضبوط پہلو ہیں۔ لیکن کمزور پہلوؤں میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اسے کوئی سمندری ساحل میسر نہیں ہے۔ خشکی میں گھرے اس علاقے کو اپنا تیل بیچنے کے لیے عراق، شام یا ترکی کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ وہ اب بھی جو تیل برآمد کررہا تھا، ترکی میں بچھائی گئی ’جیہان‘ نامی پائپ لائن کے ذریعے ہی بھیجا جا رہا تھا۔ ریفرنڈم کے فوراً بعد ترکی اور ایران نے، فضائی اور بری حدود بند کرتے ہوئے کردستان کے دونوں فعال ایئرپورٹ (اربیل، سلیمانیہ) مفلوج کردیے۔ زمینی راستوں سے بھی انسانی ضرورت کی انتہائی ناگزیر اشیا کے علاوہ ہر شے کی نقل و حمل روک دی۔اور سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ عراقی فوج نے، ایرانی عسکری دستوں کے تعاون اور ایرانی القدس بریگیڈ کے جنرل قاسم سلیمانی کی سرپرستی میں کارروائی کرتے ہوئے، کرکوک جیسا اہم علاقہ کردستان سے واپس لے لیا۔ جواب میں کرد مزاحمت تقریباً ناقابلِ ذکر تھی۔
ریفرنڈم کے اگلے ہفتے (۴ ؍اکتوبر۲۰۱۷ء) جلال الطالبانی، دنیا سے رخصت ہوگئے۔ تعزیت کے بہانے ان کے وارثوں سے کئی عالمی ذمہ داران کی ملاقاتیں ہوئیں۔ انھی ملاقاتوں میں ایک اہم ملاقات، عراق و شام میں نمایاں ترین عسکری کارروائیوں کے نگران ایرانی القدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی تھی۔ انھوں نے جلال الطالبانی کی بیوہ اور بیٹے سے ملتے ہوئے انھیں کرکوک شہر کے بارے میں اپنے فیصلوں سے بھی آگاہ کیا۔مسعود بارزانی کرکوک میں شکست کا اصل ذمہ دار بھی جلال الطالبانی کے وارثوں کو قرار دے رہے ہیں۔ کرکوک ہاتھ سے نکل جانے، کردستان کے فضائی و زمینی راستے مسدود ہوجانے، بیرونی سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کے فرار ہوجانے اور عالمی سرپرستوں سمیت ساری بیرونی دنیا کی مخالفت کے بعد فی الحال کردستان کی علیحدگی آسان نہ ہوگی۔ مگر یہ خوش فہمی بھی درست نہ ہوگی کہ کرد مسئلہ ختم ہوگیا۔ خدشہ یہی ہے کہ تقریباً ایک صدی سے سازشیں کرنے والے آیندہ بھی فتنہ جوئی کرتے رہیں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم موشے شیرٹ نے ۱۹۵۴ء میں اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ ’’عالمِ عرب میں مختلف اقلیتوں کے دل میں علیحدگی کے جذبات کو تقویت دینا، ان سے علیحدگی و آزادی کی جدوجہد کروانا، ان کے دلوں میں ’اسلامی مظالم‘ سے نجات حاصل کرنے کی تمنا پیدا کرنا ہی اصل میں وہ کام ہے، جس سے ان علاقوں کا امن و امان تباہ کیا (اور خود محفوظ رہا) جاسکتا ہے‘‘۔ ۱۸۹۷ء میں وجود میں آنے والی ’عالمی صہیونی تنظیم‘ WZO نے ۸۰ کے عشرے میں اپنی جو حکمت عملی شائع کی، اس میں خطے کے تمام ممالک کو تقسیم در تقسیم کرنا شامل تھا۔ اس میں واضح طو رپر لکھا گیا تھا کہ: ’’عراق، شام سے زیادہ طاقت ور ہے، وہ اسرائیل کے لیے زیادہ اور فوری خطرہ ہے، اس لیے پہلے عراق کو پارہ پارہ کرنا، شام کو تقسیم کرنے سے زیادہ ضروری ہے‘‘۔ ۱۹۹۲ء میں اسرائیل نے عرب اقلیتوں کے بارے میں ایک سیمی نار منعقد کیا۔ اس کی سفارشات میں صراحت سے کہا گیا: ’’ایسی متحرک اور مضطرب اقلیتیں، اسرائیل کے محفوظ مستقبل کے لیے برابر کی شریکِ کار ہیں۔ اسلام اور عرب قومیت کے نظریات پر نظر ثانی کرنے کے عمل میں بھی ان اقلیتوں کا بنیادی کردار ہے‘‘۔
مشرق وسطیٰ اور اسلام کے بارے میں کئی اہم کتابوں کے مصنف برطانوی نژاد امریکی دانش وَر برنارڈ لیوس سے منسوب عالم اسلام تقسیم کرنے کے منصوبے، امریکی لیفٹیننٹ کرنل رالف پیٹر کا Blood Borders (خونیں سرحدیں)کے عنوان سے پیش کردہ نیا علاقائی نقشہ، امریکی کانگریس میں پاکستان سمیت کئی ممالک کے حصے بخرے کرنے کی باز گشت، امریکی دفاعی اداروں میں پڑھائے جانے والے نئے مشرق وسطیٰ کے نقشے، کئی عالمی رسائل و جرائد میں مسلسل شائع ہونے والے مضامین، قبائلی علاقائی اور لسانی تعصبات کو اُجاگر کرنے کے لیے مسلسل لکھی جانے والی کتب، عالمی یونی ورسٹیوں میں تقسیم اُمت پر کروائی جانے والی لاتعداد تحقیقات، اور مہیب ابلاغیاتی مہم دیکھیں تو موجودہ صورتِ حال کی اصل سنگینی مزید اُجاگر ہوکر سامنے آتی ہے۔
’کردستان‘ ریاست بنانے کی حالیہ کوشش سے پہلے یہی تجربہ جنوبی سوڈان اور انڈونیشیا کے علاقے مشرقی تیمور میں کیا جاچکا ہے۔ حال یا مستقبل کی کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کے لیے ان تجربات میں بڑی عبرت کا سامان پوشیدہ ہے۔ جنوبی سوڈان میں بھی کردستان کی طرح سالہا سال کی سازشوں، قتل و غارت اور خانہ جنگی کے بعد ریفرنڈم اور اعلان آزادی کیا گیا۔ وہاں بھی تیل سے مالامال حصے کو الگ ملک بنایاگیا۔ وہاں کے عوام کو بھی اس کے نتیجے میں شان دار اقتصادی ترقی کے خواب دکھائے گئے۔ وہاں بھی شمالی سوڈان کی طرف سے جنوبی سوڈان پر مظالم اور وسائل ہڑپ کرنے کے الزامات ذہنوں میں راسخ کیے گئے۔ اسلحہ، مالی وسائل اور عسکری تربیت دی گئی۔
ایک طویل عرصے سے جاری ان کوششوں کے نتیجے میں ۲۰۱۱ء میں ریفرنڈم کے بل پر علیحدگی ہوگئی۔ علیحدگی کے بعد کا جنوبی سوڈان دیکھیں تو، اپنے قومی وقار کا بھرم رکھنے کی کوششیں کرتا ہوا متحدہ سوڈان، جنت نظیر دکھائی دیتا ہے۔ الگ ملک بنانے والے قبائل، شمالی سوڈان کے بعد، اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ مختلف بغاوتوں، لڑائیوں اور سازشوں کے بعد اب وہاں قحط سالی سے بھی زیادہ تباہی اور مفلوک الحالی ہے۔ جنوبی سوڈان تیل کے وسیع ذخائر کے علاوہ، انتہائی زرخیز سرزمین اور دریائے نیل سے مالامال ہے، لیکن ا س وقت دس لاکھ سے زیادہ افراد مہاجر کیمپوں میں جابسنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا مسلح قبیلہ مخالف قبائل کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا ہے اور عالمی سامراجی آقا، فریقین کو مزید اسلحے سے نوازتا ہے۔اس الم ناک صورتِ حال سے لاتعلق عالمی کمپنیاں دھڑا دھڑ تیل نکال رہی ہیں، لیکن اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق: ’’جنوبی سوڈان کو دنیا کے بدترین غذائی بحران کا سامنا ہے‘‘۔
پھر صرف جنوبی سوڈان ہی کو الگ کرنے پر اکتفا نہیں کیا گیا، سوڈان کے مغربی علاقے دار فور میں بھی شورش برپا کردی گئی۔ جنوبی سوڈان میں محرومیوں کا واویلا اور مسلم مسیحی اختلافات کی آگ بھڑکائی گئی تھی، دار فور میں عربی الاصل اور افریقی الاصل مسلمان قبائل کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔
ایک طرف افغانستان، مختلف بھارتی ایجنسیوں اور بے خبر بلوچ نوجوانوں کو اپنے ناپاک عزائم کی بھینٹ چڑھانے کے لیے قائم، تربیتی کیمپوں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔اور دوسری جانب پاکستان کے قریب ترین دوست اور برادر ممالک علی الاعلان بلوچستان الگ کرنے کی بات کر ر ہے ہیں۔ یقینا اس کی وجہ ایران عرب مخاصمت اور شیعہ سُنّی تنازعات کا افسوس ناک عروج ہے۔ یہ ممالک کبھی کبھی اس سے پاکستان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں، اور ان کے سرکاری و غیر سرکاری ذرائع ابلاغ صرف ’ایرانی بلوچستان‘ کا نام ہی لیتے ہیں، لیکن اس تجاہلِ عارفانہ اور خودفریبی سے وہ عالمی منصوبے تبدیل نہیں ہوسکتے، جو پاکستان و ایران ہی نہیں ، خود افغانستان کے حصے بخرے کرنے کے لیے نافذ کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تقسیم در تقسیم کیے جانے کے ان منصوبوں کی فہرست میں تقریباً تمام ہی عرب ممالک کا نام بھی شامل ہے، حتیٰ کہ مکہ و مدینہ کو الگ کرنا بھی انھی مکروہ عزائم میں شامل ہے۔
منافقین نے ریاست نبویؐ مستحکم ہوتے دیکھی تو باہم مشورہ کرتے ہوئے اوس و خزرج اور انصار و مہاجرین کا تعصب اُبھارنا چاہا۔ آپؐ کو اطلاع ملی تو فوراً تشریف لائے۔ چہرئہ مبارک ناراضی سے سُرخ تھا۔ آتے ہی فرمایا: مَا بَالُ دَعْوَی الجَاھِلِیَّۃ ’یہ کیسی جاہلانہ بات ہے؟‘ پھر فرمایا: دعوھا فَاِنَّھَا فِتْنَۃ ’یہ تعصبات چھوڑ دو یہ بدبُودار لاش ہے‘۔
معروف تابعی جناب شَہر بن حوشب نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ سے دریافت کیا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کون سی دُعا سب سے زیادہ کیا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: آپ اکثر فرماتے تھے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ، اے دلوں کو پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر جما دے۔ اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور معروف فرمان پر جتنا بھی غور کریں، رہنمائی کے نئے سے نئے باب کھلتے چلے جاتے ہیں۔
أَلَا وَ اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ لَہَا الْجَسَد وَ اِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَ ہِیَ الْقَلْبُ ، خبردار رہو، جسم میں ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ جب وہ درست ہوجاتا ہے تو سارا جسم درست رہتا ہے۔ وہ فساد زدہ ہوجاتا ہے تو سارا جسم فساد زدہ ہوجاتا ہے۔ خبردار رہو وہ دل ہے۔
یعنی دل ایمان، تقویٰ، عزیمت اور محبت کا مرکز بھی ہوسکتا ہے اور دل ہی کفر، عناد، تعصب، نفرت اور لالچ کی آماج گاہ بھی بن سکتا ہے۔ دلوں میں خیر و بھلائی کی شمع روشن ہوجائے، تو ایک فرد ہی نہیں، پوری قوم اور معاشرہ نجات و فلاح پاجاتا ہے۔ دل غفلت کا شکار ہوکر زنگ آلود ہوجائیں، گناہوں کے سیاہ نقطے بڑھتے بڑھتے پورے دل کو لپیٹ میں لے لیں تو افراد ہی نہیں، اقوام و ممالک تباہی و بربادی کی جانب بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
شیطان رجیم بھی اپنے دل میں پائے جانے والے تکبر اور عناد کی وجہ سے تباہ ہوا۔ پھر آدم و حوا علیہما السلام پر بھی دل ہی کی راہ سے حملہ آور ہوا: فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطَانُ، (شیطان نے ان کے دل کو بہکایا)۔ آکر بڑے چاپلوسانہ انداز میں قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا: اِنِّی لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ (میں آپ دونوں کا بڑا خیر خواہ ہوں)۔ پھر کائنات کا پہلا قتل بھی آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں میں سے ایک کے دل میں نفرت و حسد کی آگ بھڑکاتے ہوئے کروایا گیا۔ ایک کے اخلاص قلب اور تقویٰ کے باعث، اس کی قربانی قبول ہوئی، دوسرے کے دل میں کھوٹ تھا، عمل قبول نہ ہوا۔ بجاے اس کے، کہ وہ اپنی اصلاح کرتا، حسد اور نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے بھائی کے قتل کا ارادہ و اعلان کردیا۔ لَأَقْتُلَنَّکَ (میں تمھیں قتل کرکے چھوڑوں گا)۔
رب ذوالجلال نے نفرت و حسد پر مبنی اس واقعے کا ذکر کرنے کے بعد کسی ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دے دیا اور کسی ایک انسان کو بچالینا گویا پوری انسانیت کو بچالینا قرار دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جرم کی سنگینی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قتل ہونے والا کوئی بے گناہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے قتل کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے قاتل بیٹے کو نہ پہنچتا ہو، کیوں کہ اس نے قتل متعارف کروایا۔ گویا اتنے خوفناک عذاب کا آغاز دل میں جلنے والی آتش حسد و نفرت سے ہوا۔ سب مل کر اسے بجھانے کی کوشش کریں گے تو ایک بار پھر باہم محبت و اخوت کی نعمت نصیب ہوجائے گی۔ دنیا ہی نہیں آخرت بھی سنور جائے گی:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَO( اٰل عمرٰن۳: ۱۰۳ ) سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے ، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔
ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ۱۴۳۸ھ سال گزر گئے۔ صرف یہ عرصہ ہی نہیں، قیامت تک دنیا و آخرت میں کامرانی صرف اور صرف قرآن و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کے عطا کردہ نظام کے لیے ہے۔ قیامت تک صرف وہی حق اور خیر ہے، جسے قرآن و سنت نے درست فرمادیا۔ ان سے متصادم ہر نظام، نظریے، افراد اور اقوام نے بالآخر نامراد ہونا ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کبھی شر اس قدر غالب آجائے کہ ظلم و جبر، مکاری و منافقت اور خیانت و دھاندلی ہی کامیابی کی راہ قرار دی جانے لگے۔ ایک سے ایک بڑا قارون اُٹھے اور سب اسی جیسی دولت و شہرت کی تمنا کرنے لگیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک فرعون اور نمرود سامنے آئیں، اور خود کو موت و حیات کا مالک اور ربِّ اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئےأَنَا أَحْیِیْ وَ أُمِیْتُ اور أَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی کی صدائیں لگانے لگیں لیکن بالآخر سب دعوے کھوکھلے اور ساری چکاچوند ماند پڑجائے گی۔
خود آپؐ کی بعثت اسی ابدی حقیقت کی ایک روشن مثال ہے۔آپ ایسے معاشرے میں تشریف لائے کہ جس میں صدیوں سے بیت اللہ تک کو اپنے تراشیدہ بتوں سے آراستہ کیا جارہا تھا۔ عریانی و بدکاری یوں مسلط تھی کہ خانہ کعبہ کا طواف بھی بے لباس ہوکر کیا جاتا تھا۔ دُعا و استغفار کے بجاے سیٹیاں اور تالیاں بجانا (مُکَاءً وَّتَصْدِیَۃ) عبادت قرار دیا جاتا تھا۔ انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنا غلام اور ’عبد‘ بنالیتے اور بھیڑ بکریوں کی طرح ان کی خریدو فروخت کیا کرتے تھے۔ آپؐ نے تمام بندگیاں چھوڑ کر صرف ’رب العالمین‘ کی بندگی کی دعوت دی تو آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو کیا کیا اذیت و عذاب نہ دیا گیا۔ آخر کار بیت اللہ کا سایہ اور آبا و اجداد کی سرزمین چھوڑ کر سیکڑوں میل دُور یثرب کی طرف ہجرت کرنا پڑی لیکن ابتلا کا یہ مرحلہ، نجات و فتح مبین کا اولیں باب ثابت ہوا۔ پھر اس دور کی عالمی قوتیں (Super Powers) روم و فارس بھی زیر ہوئیں، کعبۃ اللہ سب بتوں اور بت گروں سے پاک ہوا اور مکہ میں قیامت تک کے لیے اعلان کردیا گیا کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا O (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔
۲۳سال پر مشتمل عہد نبوت نے قیامت تک معیار حق بننے والا نظام حیات ہی عطا نہیں کیا بلکہ اس نظام کو عملاً نافذ کرتے ہوئے ایک شان دار اسلامی ریاست بھی تشکیل کرکے دکھائی۔ رب ذو الجلال چاہتا تو عظیم تبدیلی کے یہ تمام مراحل صرف ایک حکم اور اشارے ہی سے طے ہوجاتے، لیکن بندوں کو اصلاح و انقلاب کے اصول و ضوابط بتانا اور سکھانا مقصود تھا۔
یہ فرامینِ الٰہی سنتے ہی پوری زندگی کا دھارا بدل گیا۔ اب ایک ہی مقصد اور ایک ہی لگن تھی کہ ایک ایک فرد اور ایک ایک قبیلے کو رب کی طرف بلانا ہے۔ پھر مکہ آنے یا وہاں سے گزرنے والا کوئی فرد یا قافلہ ایسا نہ تھا کہ جس تک آپ نے دین کی دعوت اور اللہ کا پیغام نہ پہنچا دیا ہو۔ اسی لگن کا مظہر وہ منظر تھا کہ جب ایک روز صبح سے شام تک کارِ نبوت انجام دیتے رہے۔ تاریکی چھانے لگی تو گھر لوٹے، کمر بستر سے نہ لگی تھی کہ کانوں میں آواز آئی کہ کسی نئے قافلے نے پڑاؤ ڈالا ہے۔ فوراً اُٹھ کر دوبارہ باہر جانے لگے۔ اہل خانہ نے عرض کیا کہ کچھ آرام فرمالیجیے، صبح دم ملاقات کرلیجیے گا۔ چہرہ انور کا رنگ بدلا اور یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لے گئے کہ: ’’کیا آپ کو یقین ہے کہ قافلہ رات ہی کے کسی پہر کوچ نہ کرجائے گا؟
حج کا موقع ہو، سالانہ مجلس ادب و شاعری کا انعقاد یا کھیل کود کا میدان سجے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے دعوت دین اور تزکیہ و تربیت کا حق ادا کردیا۔ اس دوران میں آلِ یاسر کو شہید ہوتے، سیّدنا بلالؓ کو گرم ریت پر تڑپتے، شِعب ابی طالب میں بچوں کو بلکتے اور اپنی صاحب زادی سمیت کئی صحابہ کرامؓ کو ہجرت حبشہ پر مجبور ہوتے دیکھا۔ یہی نہیں اعلیٰ و ارفع مناصب، مال و دولت کے انباروں اور بتوں کی پوجا سے نہ روکنے کی شرط پر مفاہمت کی پیش کش بھی ہوئی لیکن آپؐ کا ایک ہی پیغام تھا کہ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص (البقرہ ۲:۲۰۸) ’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو‘‘۔ وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ط (الانعام ۶:۱۵۳) ’’اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹاکر تمھیں پراگندا کردیں گے‘‘۔
اس دوران دار ارقم کی تربیت گاہ میں اہل ایمان کی تعلیم و تزکیہ کا سفر بھی جاری رہا اور اللہ کے حضور دُعائیں بھی کہ پروردگار ،مکہ کے مؤثر ترین افراد کو بھی اس قافلۂ حق کا ساتھی بنادے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب حمزہ و عمر رضی اللہ عنہما جیسی پُروقار ہستیاں بھی عطا کردیں۔ پھر مکہ ہی نہیں قریبی بستیوں کا رخ کیا، اس ضمن میں سفر طائف ایک مکمل داستان رکھتا ہے جس کا اختتام آپ کی اس دردبھری دُعا پہ ہوتا ہے کہ ’’اے اللہ! میں اپنی کمزوری، بے بسی اور لوگوں کی نظر میں بے وقعتی کا شکوہ صرف آپ ہی کی جناب میں کرتا ہوں۔ اے اللہ! مجھے کن کے سپرد کیا جارہا ہے، ان غیروں کے جو مجھے پہچان ہی نہیں رہے؟ یا ان اپنوں کے کہ جو پہچان کر بھی نادانیوں پر اترے ہوئے ہیں… پروردگار، لیکن اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں تو پھر مجھے کسی تکلیف کی کوئی پروانہیں‘‘۔
عہد مکہ ہی نہیں، مدینہ پہنچ کر اور اولیں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد بھی پے در پے آزمایشیں اور مہمات درپیش رہیں۔ کبھی مشرکین مکہ کے پے درپے حملے بدرو اُحد اور احزاب کا عنوان بنے۔ کبھی عمرے کی ادایگی کی نیت سے مکہ داخل ہونے سے روک دیا گیا اور کبھی خود مدینہ کے اندر بیٹھے منافقین نے بدترین الزامات، تہمتوں اور دشمن سے گٹھ جوڑ کرنے کی شرمناک مثالیں قائم کیں۔ مدینہ کے قرب و جوار میں بیٹھے یہودی قبائل نے بھی آپؐ کو شہید کرنے کی سازش کی اور آپؐ کے ہر دشمن کو شہ دی۔ جزیرۂ عرب کے منافق قبائل نے ایمان لانے کا ڈھونگ رچا کر ۷۰،۷۰ حفاظ کرام شہید کردیے۔ کبھی شمالی سرحدوں پر ایک سوپر پاور قیصر روم نے فوجیں جمع کردیں اور کبھی مشرق میں دوسری عالمی طاقت کسریٰ فارس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارسال کردہ مکتوب مبارک ٹکڑے ٹکڑے کرکے حقارت سے پاؤں میں روند دیا۔ صفحات سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ خالق کائنات کا محبوب، ساری انسانیت کے لیے پیغام رحمت، تمام انبیا کی جدوجہد کا نقطۂ کمال اور اسراء و معراج جیسے منفرد و بے مثال معجزات کا حامل، لیکن ایسی جہدمسلسل، ایسی پُرمشقت صبح و شام… سبحان اللہ۔
غزوۂ اُحد کے زخم اور سیّد الشہداء حضرت حمزہؓ سمیت ۷۰ شہدا کا غم دلوں میں لیے مغرب کے بعد مدینہ واپس لوٹتے ہیں۔ مدینہ کا کوئی گھر نہ تھا جہاں سے کوئی نہ کوئی شہید نہ ہوا ہو یا زخموں کا کوئی اعزاز نہ ملا ہو۔ اسی مدینے میں اگلی ہی صبح آپ کی طرف سے منادی کروائی جارہی تھی کہ ’’مشرکین کے لشکر کا پیچھا کرنے کے لیے فوری طور پر نکلنا ہے‘‘۔ یہی نہیں بلکہ فرمایا: لَا یَخْرُجَنَّ مَعَنَا أَحَدٌ اِلَّا مَنْ حَضَرَ یَوْمَنَا بِالْأَمْسِ (ہمارے ساتھ صرف وہی لوگ جائیں گے جو کل ہمارے ساتھ میدان میں لڑے تھے)۔ اپنوں اور پرایوں کے لیے پیغام تھا کہ ہم کل کے زخموں کی وجہ سے کمزور یا شکستہ خاطر اور پست ہمت نہیں ہوئے۔ رب ذو الجلال کو یہ عزم و عزیمت اتنی پسند آئی کہ پورا واقعہ قرآن کریم میں ثبت فرمادیا۔ لشکر حمراء الاسد پہنچا۔ تین روز وہاں قیام کیا، معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ کا لشکر اُحد کے اگلے ہی روز واپس پلٹ کر مدینے پر ہلہ بولنے کی تیاریاں کررہا تھا، آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کی آمد کی خبر سن کر ہی خوف زدہ ہوکر بھاگ نکلا۔
غزوۂ احزاب، ایک فیصلہ کن اور اس قدر خوف ناک معرکہ تھا کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَاO (احزاب۳۳: ۱۰) ’’جب دشمن اُوپرسے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے‘‘۔لیکن بالآخر اللہ کی نصرت آئی۔ طوفانی آندھیوں اور برفانی سردی نے دشمن کے لشکر اُلٹ دیے۔ تمام تر مہیب لمحات اور آزمایش کی گھڑیاں ختم ہوئیں، جزیرۂ عرب سے اکٹھے ہوکر آنے والے سب سفاک دشمن نامراد ہوکر لوٹ گئے۔
آپؐ اور صحابہ کرامؓ بھی ظہر کے بعد گھروں میں واپس پہنچے۔ آپؐ ابھی کمر کھول ہی رہے تھے کہ جبریل امینؑ تشریف لاتے اور فرماتے ہیں: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ کے ساتھ غزوۂ احزاب میں شریک فرشتوں نے تو ابھی کمر نہیں کھولی اور آپؐ ہتھیار کھول رہے ہیں؟ معاہدہ ہونے کے باوجود دوران جنگ آپؐ کی مدد کرنے کے بجاے، حملہ آور فوجوں کی مدد کرنے والے بنوقریظہ سے بھی ابھی نجات حاصل کرنا ہوگی‘‘۔ آپؐ نے فوراً منادی کروادی: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلَا یُصَلِّیْنَّ الْعَصْرَ اِلَّا فِی بَنِیْ قُرَیْظَۃ،’’جو بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، بنوقریظہ تک پہنچنے سے پہلے نماز عصر ادا نہ کرے‘‘۔ صحابہ کرامؓ فوراً پھر روانہ ہوئے اور اسلامی ریاست کو بنی قریظہ کے خطرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔
پھر فتح مکہ کی لازوال تاریخ رقم ہوتی ہے… لیکن اسے بھی آخری فتح یا حصول منزل نہیں قرار دیا، فوراً ہی غزوۂ حنین اور ساتھ ہی فتح طائف کا آغاز ہوجاتا ہے۔ گویا ایک مہم کے ساتھ ہی اگلی منزلوں کی جانب سفر شروع ہوجاتا ہے۔ تکمیل دین بھی انھی معرکوں اور میدانوں میں ہوتی ہے۔ احکامِ شریعت بھی ساتھ ساتھ صادر ہورہے ہیں۔ شراب و سود اور جوے کی حرمت ہوتی ہے۔ فتح مکہ کے بعد ۸ ہجری میں پہلی بار اسلام کے بتائے اصولوں کے مطابق اسلام کا پانچواں رکن حج ادا کیا جاتا ہے۔ ۹ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بناکر بھیجا جاتا ہے اور ۱۰ہجری کو آپؐ خود حج کی ادایگی کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ خطبۂ حجۃ الوداع کی صورت میں حقوقِ انسانی کا جامع ترین اور ابدی چارٹر جاری کردیا جاتا ہے۔ حج کی فرضیت اور اہمیت جاننے کے لیے آپؐ کا یہ فرمان ہی کافی ہے کہ حج سے واپس جانے والا تمام گناہوں سے پاک ہو کر یوں واپس لوٹتا ہے، جیسے آج ہی جنم لیا ہو لیکن حکیم و خبیر ہستی نے اپنے حبیب کو زندگی کے آخری سال فریضۂ حج ادا کروایا۔ اُمتیوں کو یہ پیغام بھی دے دیا گیا کہ ترجیحات کے تعین میں اقامتِ دین، ریاست اسلامی کے قیام اور تبدیلی و انقلاب کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔
مدنی دور کے کئی اہم واقعات کے بعد فتح مکہ کے موقعے پر بھی یہی حکمت نبیؐ سامنے آئی اور آپؐ نے ۲۰ سالہ عتاب بن اُسید ؓکو مکہ کا گورنر مقرر کردیا۔ اہلِ عرب قریش مکہ کے بعد بنوثقیف کو سب سے معزز قبیلہ قرار دیتے تھے۔ پورا جزیرۂ عرب اسلام کے زیر سایہ آنے لگا تو بنوثقیف نے بھی اپنا وفد مدینہ بھیجا۔ آپؐ نے مسجد نبویؐ کے باہر ان کے لیے خیمہ لگوادیا کہ اہل ایمان کو نماز پڑھتے دیکھتے اور قرآن کی تلاوت سنتے رہیں۔ وہ ظہر سے قبل مسجد میں آکر آپؐ سے مکالمہ و مذاکرات کرتے اور اپنے سامان کے پاس ایک نوجوان عثمان بن ابی العاصؓ کو چھوڑ آتے۔ ظہر کے بعد واپس آتے تو جناب عثمان دوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے پہنچ جاتے۔ آپ نہ ملتے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے رجوع کرتے۔ جب بنوثقیف نے طویل مذاکرات کے بعد بالآخر اسلام قبول کرلیا تو آپ نے اسی ۲۰سالہ نوجوان عثمان بن ابی العاصؓ کو ان کا سربراہ مقرر فرما دیا کہ ان کے دل میں شوق ایمان اور سوالات میں حکمت و دانائی فراواں تھی۔ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی آپؐ نے اپنا آخری لشکر ۲۰ سالہ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت ہی ترتیب دیا، جس میں جناب صدیق و عمرفاروق رضی اللہ عنہما سمیت تمام جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ آپؐ بار بار لشکر اُسامہ کی روانگی کی بابت دریافت فرماتے رہے جو آپ کے مرض کو دیکھ کر تاخیر کا شکار ہورہا تھا۔
بچوں اور نوجوانوں پر آپؐ کی خصوصی توجہ میں خود نوجوانوں کی لیے ایک پیغام عظیم ہے۔ آپؐ نے متعدد بار صرف نوجوانوں سے خطاب فرمایا۔ احادیث میں یَا مَعْشَرَ الشَّبَاب، اے نوجوانو! یَا بُنَّی، اے میرے مُنے! یَا غُلَام، اے بیٹے جیسے الفاظ نوجوانوں کو مسلسل ان فرمانات نبویؐ کی جانب بلارہے ہیں۔ آپؐ نے سات طرح کے افراد کو روز محشر اس وقت اللہ کے عرش کے سایے تلے جگہ ملنے کا ذکر فرمایا، جب اس کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ ان سات افراد کا ذکر بھی امام عادل، انصاف کرنے والے حکمران کے بعد دوسرے نمبر پر شَابٌّ نَشَأَ فِی طَاعَۃِ اللہِ ، ’’وہ نوجوان جس نے اللہ کی اطاعت کے سایے میں پرورش پائی‘‘ سے کیا۔
ایک جانب یہ سایۂ رحمت اور دوسری جانب آج کی یا کسی بھی زمانے کی شیطانی دنیا کو دیکھیں، تو ان کا سب سے بڑا ہدف بھی یہی نوجوان ہیں۔ دور رسالت میں قرآن و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور کرنے کے لیے مشرکین مکہ دور دراز سے لونڈیاں، گویّے اور موسیقی کے آلات منگوایا کرتے تھے۔ قرآن میں بیان کیے گئے سابقہ اقوام کے عبرت ناک واقعات کے مقابلے میں قصہ گو مرد اور عورتیں بلایا کرتے تھے۔ آج ان سب شیطانی ہتھکنڈوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک راستے کھول دیے گئے ہیں۔ ایک ایک بچے اور بڑے کے ہاتھ میں، موبائل فون کے نام پر تباہی اور غلاظت کا بارود تھما دیا گیا ہے۔ یقینا یہ ایک سہولت، مفید ٹکنالوجی اور کسی حد تک ضرورت بھی ہے، لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف موبائل فون اور مختلف سروسز پیش کرنے والی کمپنیوں کے اشتہارات ملاحظہ کرنا ہی کافی ہے۔ اشتہار کم اور کھلم کھلا بلکہ زبردستی دعوتِ گناہ زیادہ ہوتی ہے۔ تیز رفتار دنیا سے پیچھے رہ جانا ممکن ہے، نہ دین کا تقاضا لیکن گزرجانے والے ۱۴۳۸ سال جہاں تیزی سے گزرتے وقت کی اہمیت یاد دلا رہے ہیں، وہیں آپؐ کے مبارک الفاظ میں راہ نجات بھی واضح کررہے ہیں۔ آپؐ نے دل کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے بار بار فرمایا کہ التقویٰ ھٰہُنا، ’’اصل تقویٰ تو یہا ں ہے‘‘۔ مزید فرمایا: الاِیْمَانُ مَا وَقَرَ فِی الْقَلْبِ وَصَدَّقَہٗ الْعَمَل،’’ حقیقی ایمان وہ ہے جو دل میں راسخ ہوگیا اور عمل نے اس کی تصدیق کردی‘‘۔ دل میں اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جتنی سچی ہوگی، ہر شیطانی یلغار کا مقابلہ اتنا ہی آسان و ممکن ہوجائے گا۔
رب ذو الجلال نے اسی محبت اور ایمان کی تجدید کے لیے دن میں پانچ بار مسجد حاضری کا اہتمام کیا۔ نماز جمعہ کی صورت میں ہفت روزہ اجتماع کا شان دار انتظام کیا۔ رمضان اور روزوں کے ذریعے ایک ماہ کی سالانہ تربیت گاہ کا حکم نازل فرمایا اور حج کی صورت میں ایک عالمی مشاورت اور اجتماع اُمت کا حکم دیا۔ان عبادات کی اصل روح دلوں میں اسی صورت اتر سکتی ہے کہ بندہ ہر وقت آپؐ اور آپؐ کی لائی ہوئی تعلیمات کے اصل ہدف سے وابستہ اور مخلص رہے۔
آپؐ کا مقصد ِبعثت ہی انسان کے لیے فائدہ مند، ہر پاکیزہ چیز کی حفاظت و نمو اور انسان کے لیے تباہ کن ہر بات اور ہر کا م کی بیخ کنی اور اس سے بچاؤ تھا۔ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط (اعراف۷: ۱۵۷)’’وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتاہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندش کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔
مغربی پالیسی ساز اداروں کے الفاظ میں آج کے ذرائع ابلاغ، ان کی خوفناک خفیہ جنگ کے خاموش ہتھیار ہیں، (Silent Weapons of a Quiet War)۔ یہ جنگ دل و دماغ کو مسحور و مقید کرنے والی جنگ ہے (War of Hearts and Minds) ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت دلوں میں جو پاکیزگی، مقصد حیات کی تازگی اور زندگی مابعد الموت میں ابدی جنتوں کی طلب پیدا کرتی ہے، جب کہ آج اپنے عروج پر پہنچی دل و دماغ کی جنگ اسی پاکیزہ دلی کو ہر نوع کے جرائم سے معمور کردینا چاہتی ہے۔ مغربی دنیا خود اس تباہی کو بری طرح بھگت رہی ہے۔ ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۶ء کے دوران صرف امریکا میں زبردستی بدکاری کے ۹۵ہزار ۷سو۳۰ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے اور جو زبردستی بدکاری کے زمرے میں آتے ہیں، اپنی مرضی سے غلاظت پھانکنا تو ان کے ہاں جرم ہی نہیں قرار پاتا۔ اس عرصے کے دوران لوٹ مار کے ۸۰ لاکھ واقعات رپورٹ ہوئے اور ۱۷ہزار ۲سو۵۰ افراد قتل ہوئے۔ یہ تو صرف ایک پہلو اور ایک جھلک ہے۔ اس تہذیب کے دیگر اثرات جس میں ایڈز جیسی ہلاکتوں، مختلف نفسیاتی بیماریوں ، منشیات کے پھیلاؤ، رشتوں اور خاندانوں کے بکھر جانے کے واقعات، ماں باپ کے جھگڑوں یا علیحدگی کے باعث تنہا رہ جانے والے بچوں کی تعداد جیسے اعداد و شمار پر نگاہ دوڑائیں تو اوسان خطا ہونے لگتے ہیں۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ ان تمام تباہیوں کی دلدل میں ڈوبتی بزعم خود مہذب دنیا، ان تباہیوں سے نجات پانے کے لیے سایۂ رحمت میں پناہ لینے کے بجاے ہم سب سے بھی یہ سایہ چھین لینا چاہتی ہے۔
۲۲ستمبر کو مصر کی ایک جیل میں اللہ کے ایک ولی ۸۹ سالہ محمد مہدی عاکف اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ۱۹۲۸ء میں پیدا ہونے والے جناب عاکف جوانی ہی سے دل میں حبیب خدا کی محبت بسائے ہوئے تھے۔ ۱۹۴۸ء میں اہلِ مغرب نے قبلۂ اوّل پر صہیونی قبضہ کرواکے اسے اسرائیل بنانے کا اعلان کردیا تو نوجوان محمد عاکف بھی الاخوان المسلمون کے نوجوانوں کے ہمراہ، مصری افواج کے شانہ بشانہ جہاد کے لیے فلسطین چلا گیا۔ اس ’گناہ‘ کی پاداش میں واپسی پر گرفتار کرلیا گیا۔ تقریباً دوسال گرفتار رہا۔ ۱۹۵۴ء میں پھر گرفتار کیا اور پورے ۲۰ برس جیل میں رکھا گیا۔ ۱۹۹۶ء میں پھر گرفتار کرلیے گئے اور تین برس بلاوجہ قید رکھے گئے۔ ۲۰۱۳ء میں جنرل سیسی کا خونیں انقلاب آیا تو پھر گرفتار کرلیے گئے اور ۲۲ ستمبر بروز جمعہ زندان ہی سے رب کے حضور پہنچ گئے۔ تدفین بھی رات کی تاریکی میں عمل میں لائی گئی۔ اہلیہ، صاحبزادی، داماد اور وکیل کے سوا کسی کو قبرستان تک نہ آنے دیا گیا، نہ نماز جنازہ ہی کی اجازت دی گئی۔ اور تو اور اگلے روز ملک بھر میں غائبانہ نماز جنازہ پر بھی پابندی لگادی گئی۔ اب اصل المیہ ملاحظہ فرمائیے۔ محمد مہدی عاکف کا ایک ہی جرم تھا کہ وہ مصر میں اللہ اور اس کے رسول کا نظام اور شریعت چاہتے تھے۔ وہ اپنے دل میں نبی رحمتؐ کی سچی محبت رکھتے تھے۔ لیکن جس وقت اس عاشق صادق کی نماز جنازہ تک پر پابندی تھی، عین اس وقت قاہرہ کی ایک شاہراہ پر ’ہلا گلا نائٹ‘ مناتے ہوئے ہم جنس پرستوں کا ایک جشن ہورہا تھا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہم جنس پرستوں کے معروف پرچم لہراتے، سرعام خرمستیاں کرتے خود کو ترقی یافتہ ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کررہے تھے۔ انھیں جنرل سیسی، عالمی ذرائع ابلاغ اور موبائل انٹرنیٹ فراہم کرنے والی مختلف کمپنیوں کی سرپرستی حاصل تھی۔
محمد مہدی عاکف کو جب سپردخاک کیا گیا تو یہ نئے ماہ کی دوسری شب تھی۔ ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ جب رات کے سناٹے میں شہید کا جسد ِ خاکی قبر میں اتارا جارہا تھا، مجھ سمیت سب حاضرین نے محسوس کیا کہ تاریک راتیں ہونے کے باوجود پورے ماحول پر جیسے چودھویں کے چاند کا نور چھایا ہوا ہے۔ میں نے محاصرہ کیے ہوئے پولیس اور فوج کو متوجہ کرتے ہوئے کہا: ’’الحمد للہ! یہ نور میرے مرحوم شوہر اور ہم سب کے لیے راحت و تشفی کا باعث بن رہا ہے‘‘۔ سنتے ہی پیچھے کھڑا ہوا ایک فوجی اپنے ضمیر پر طاری بوجھ کی تاب نہ لاتے ہوئے گرا اور بے ہوش ہوگیا۔
یہ نُور اللہ کی جانب سے ظالم نظام کے لیے کوئی پیغام اور استعارہ تھا ؟ اخوان کے بانی امام حسن البنا کو فروری ۱۹۴۹ء کی ایک شام شہید کیا گیا تھا، اس وقت مصر میں اسلامی تحریک کے ارکان کی تعداد چند ہزار تھی ۔ تقریباً سب گرفتار کر لیے گئے ۔ ۶۲برس بعد ڈکٹیٹرشپ سے نجات ملی تو صرف اس کے ارکان و امیدواران رکنیت کی تعداد ۲۰ لاکھ سے متجاوز ہوچکی تھی ۔ آج ایک بار پھر مصر ، بنگلہ دیش ، شام اور لیبیا سمیت کئی ممالک میں تحریکات اسلامی کے لاکھوں کارکنان جیلوں میں ہیں اور قرآن و سیرت حتمی پیغام سنارہے ہیں کہ :
اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ O (البقرہ ۲:۲۱۴) ’’واضح رہے کہ اللہ کی نصرت بہت قریب ہے‘‘۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے صبرواستقامت سے اپنے اپنے حصے کا کام کرتے رہیں۔
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ عالمی تحریکات اسلامی کی دعوت کا بنیادی مقصد اقامتِ دین کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو تحریکات اسلامی کو دیگر تنظیموں سے ممتاز کرتا ہے ۔ بعض دعوتی تنظیمیں اپنی زیادہ توجہ عبادات پر دیتی ہیں ۔ چنانچہ ان کی نگاہ میں نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا صحیح طور پر ادا کرنا دین داری کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ ان تنظیموں سے وابستہ افراد اسی غرض سے دُور دراز کے سفر کرتے ہیں کہ لوگوں کو عبادات کے فضائل سمجھائیں اور بالخصوص نماز کے فرائض اور واجبات سے آگاہ کریں۔ ان کی یہ خدمات قابلِ قدر اور دین کی اقامت کی کوشش کا ایک اہم ابتدائی حصہ ہیں۔ لیکن کیا اقامت ِ دین کی جدوجہد کی ابتدا اور انتہا بس یہی ہے؟
قرآنِ پاک کی تعلیمات اور اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں اس پہلو کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ خصوصیت سے موجودہ عالمی حالات اور اسلام کے باب میں مغربی اور خود مسلم دنیا میں مغربی فکر کے زیراثر سوچنے والے دانش وروں اور نشری اداروں کے اسلام میں دین و دنیا اور مذہب و ریاست کے تعلق کے بارے میں فکری اور سیاسی یلغار کی روشنی میں کچھ عناصر اپنی سادگی میں اور کچھ دوسرے مقاصد سے دین کو مسجد، مدرسہ اور گھر کے دائرے میں محدود کرنے کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ ان کا ہدف اسلام کا وہ تصور ہے جو زندگی کی تمام وسعتوں پر حاوی ہے۔ کچھ عناصر کوشش کرتے ہیں کہ تحریکاتِ اسلامی کے تصور ’اقامتِ دین‘ کی اصطلاح کو دین کی سیاسی تعبیر قرار دے کر اس سے اپنی براء ت کا اظہار کریں۔ کچھ اخلاص سے دین کو ایک محدود دائرے میں محصور کررہے اور دوسرے پوری ہوشیاری کے ساتھ دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی ’اقامت ِ دین‘ کی اصطلاح کے استعمال پر اس لیے اصرار کرتی ہیں کہ ان کے خیال میں اسلام ایک جامع دین ہے اوردین کی جامعیت اس کے معاشرتی ، معاشی ، قانونی، ثقافتی اور سیاسی کردار کےبغیر ممکن نہیں ہو سکتی ۔
اسلام اور عیسائیت میں ایک نمایاں فرق یہی ہے کہ عیسائیت زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات و عمل سے ہے اور دوسرے کا تعلق دنیاوی شان و شوکت اور معا شی اور سیاسی معاملات سے ۔چنانچہ ایک دین دار عیسائی کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے چرچ جاتا ہواور اپنے پڑوسی کے ساتھ محبت سے پیش آئے، حضرت عیسیٰؑ کی طرح اگرممکن ہو تو تجرد کی زندگی اختیار کرے اور آخر کار آپ علیہ اسلا م کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے عقیدے کے تحفظ میں سولی پر چڑھ سکے تو یہ گویا اس کی مذہبی معراج ہوگی ۔ اسلام کا مطلوبہ معیار اس سے بالکل مختلف وہ اسوۂ حسنہؐ ہے، جس میں مکہ مکرمہ میں پیش آنے والے امتحانات ، ظلم و تشدد سے گزرنے کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرت، اسلامی معیشت، اسلامی ثقافت اور اسلامی طریق حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثال آپؐ نے اپنے عمل سے پیش فرما کر دین کی تکمیل اور تفسیر فرمائی۔ اس طرح اپنے طرزِ عمل کی شکل میں زندگی کی اکائی کو غیر منقسم اور توحیدی بناکر ایک قابلِ عمل نمونہ قیامت تک کے لیے پیش فرما دیا ۔
تحریکاتِ اسلامی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی جامع تصور اسوۂ حسنہ کو اپنے لیے دین کی مستند تعبیر اورعملی مثال قرار دیتی ہیں۔اس بنا پر ان کے کارکنان راتوں کی تنہائی میں اپنے ربّ کے حضور گڑگڑا کر مدد کی درخواست کرتے ہیں اور دن کی روشنی میں اسوۂ نبویؐ کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اقامتِ صلوٰۃ ، اقامتِ زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت او ران کے نفاذ وقیام اور انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کو دین کا لازمی عنصر سمجھتے ہیں ۔
سوال کیا جاتا ہے کہ ’اقامتِ دین کی اصطلاح کہاں سے آگئی ؟ ہم نے بچپن سے ارکانِ اسلام کے نام سے کلمۂ شہادت ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے بارے میں تو سنا ہےکہ یہ دین کے ارکان ہیں ،یہ بھی سنا ہے کہ بعض فقہا جہاد کو چھٹا رکن کہتے ہیں لیکن یہ اقامتِ دین کا تصور کہاں سے آگیا؟‘ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ اسلام تو دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے اور ظاہر ہے مذاہب عالم عمو ما ًاپنے آپ کو انسان اور انسانوں کےخدا کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہی سے تعبیر کرتے ہیں،جب کہ سیاسی اقتدار ایک مادی اور دنیاوی تصور ہے ۔ اس لیے ان کے نزدیک سیاست اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔
یہی وہ بنیادی فکری انتشار ہے جو آگے چل کر یہ بھی سمجھاتا ہے کہ نہ صرف مذہب اور سیاسی سرگرمی دو مختلف چیزیں ہیں بلکہ روحانیت اور للہیت اور معاشرتی اور سیاسی سرگرمی دو متضاد چیزیں ہیں۔ اس لیے ایسے افراد کے نزدیک سچی مذہبیت اور روحانیت یہ ہو گی کہ انسان خاندانی جھمیلوں سے بچ کر رہے اور اپنے رب سے لو لگانے کے لیے کسی خانقاہ ، کسی پہاڑی کے غار ، کسی صحرا میں گوشہ نشین ہو کر اپنے آپ کو ہر طرف سے کاٹ کر اپنے رب کا ’ولی‘ بن جائے ۔ انسانی فکر کے ان لامتناہی تصورات کا سلسلہ کسی ایک مقام پر جا کر نہیں رُکتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر حق کیا ہے ؟کیا اسلام واقعی دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے یا اس کی اپنی کوئی پہچان اور خصوصیت ہے؟
قرآن کریم کی زبان میں اسلام اپنے آپ کو مذہب کی جگہ دین قرار دیتا ہے، اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۹)۔ اس کے ساتھ ہی اپنے بارے میں ایک حرکی تصور دیتا ہے کہ یہ انسان کو تاریکی سے نکال کر نور میں لے آتا ہے ۔ اسی بنا پر ہم اسلام کو توحید کے قیام کی تحریک کہتے ہیں ۔
اقامت کا لفظ جب کسی ٹھوس چیز کے لیے بولا جائے ، اس کے معنی سیدھا کر دینے کے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں کہا گیا: يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ ط (الکہف۱۸:۷۷) ’’دیوار (ایک طرف جھک گئی تھی اور) گرا چاہتی تھی تو اسے سیدھا کر دیا‘‘، اور جب معنوی اشیا کے لیے بولا جائے تو اس کا معنی، مفہوم کاپورا کا پورا حق ادا کردینے کے لیے آتا ہے ۔
امام راغب الا صفہانی اقامتہ الشئی کے معنی ’’ کسی چیز کا پورا پورا حق ادا کرنے کے‘‘ بیان کرتے ہیں اور قرآن سے دو مثالیں وضاحت کے لیے پیش کرتے ہیں:
قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ط وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا ج فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ o (المائدہ۵:۶۸) صاف کہہ دو کہ ’’اے اہل کتاب ! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں‘‘۔ ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا، مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو۔ ﴿
وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَلَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ o وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ط مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ o (المائدہ۵:۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے) یہ اہل کتاب ایمان لے آتے اور خدا ترسی کی رَوش اختیار کرتے تو ہم ان کی برائیاں ان سے دُور کردیتے اور ان کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش! انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت سخت بد عمل ہے۔
گویا اسلام سے قبل بنی اسرائیل کو جب قیادت کی ذمہ داری دی گئی تو ان سے بھی یہی کہا گیا کہ وہ تورات کو پورا کا پورا جیسا اس کا حق ہےسمجھیں ، نافذ اور قائم کریں اور اس میں اپنے مطلب کے اجزا الگ کر کے دین کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کردیں ۔ قرآن کریم نے نہ صرف تورات کے حوالے سے بلکہ دین حق کے حوالے سے بھی جگہ جگہ یہ بات واضح کر دی ہے کہ صحیح اور سیدھا دین اگر ہے تو صرف اسلام ہی ہے۔ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ (یوسف ۱۲:۴۰) ’’یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے‘‘۔
اسی دین کی اقامت کے لیے اُمت مسلمہ کو خیر امتہ اور امت وسط قرار دیتے ہوئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے پر مامور کیا گیاہے ۔ یہ کام جہاں اجتماعیت ، نظم و ضبط اور تحریک کےبغیر عقلاً ممکن نہیں ، وہاں اولین تحریک اسلامی کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے جن تربیت یافتہ اصحاب کی ٹیم کو تیار کیا ان سب نے اجتماعی طور پر مدینہ منورہ میں وہ نظام قائم کیا جس نے عدل، توازن ، عبودیت اور حاکمیت ِالٰہی کی قرآنی تعلیمات و احکام کو اور قرآنی حدود و تعزیرات کو عملاً قائم کر کے دین کے کامل اور قابل عمل ہونے کو قیامت تک کے لیے جیتی جاگتی مثال بنا دیا ۔ سادہ الفاظ میں اقامتِ دین کا مفہوم اسلامی عبادات کے ساتھ دین کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کا زمین پر نافذکرنا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اقامتِ دین کا مطلب پورے کے پورے دین کو قائم کرنا ہے جسے اس دور میں بظاہر’ بدنام‘کرنے کے لیے مغرب میں ’سیاسی اسلام‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، تو یہ’ سیاسی اسلام‘ ان ممالک میں کیسے نافذ ہو گا جہاں لا دینی جمہوریت یا سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے؟قرآن کریم میں اقامتِ دین کے لیے اُمت مسلمہ کو ذمہ داری دیتے وقت یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ امت کی جواب دہی ہمیشہ بقدر استطاعت ہو گی۔ اگر مسلمان کسی اکثریتی ملک میں جہاں اہل ایمان کو یہ آزادی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے گھریلو ، معاشی، معاشرتی ، ثقافتی معاملات بلکہ سیاسی معاملات میں ایسے افراد کو ذمہ داری پر مامور کریں جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے پابند ہوں اور ان کے نفاذ کے لیے کوشاں ہوں، لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں تو اس دنیا میں اور آخرت میں بھی ان سےدین کی اقامت نہ کرنےپر احتساب نہ صرف عقل کا مطالبہ ہے بلکہ قرآن کے واضح احکام کی شکل میں پایا جاتا ہے ۔
اگر مسلمان کسی ایسے ملک میں ہوں جہاں وہ ’مذہبی آزادی‘کے اصول کی بنا پر دین کے ایک حصے پر عمل کر سکتے ہوں اور بغیر کسی روک ٹوک کے دین کی دعوت بھی پیش کر سکتے ہوں لیکن تبدیلیِ اقتدار ان کے اختیار میں نہ ہو، تو اقامتِ دین کے حوالے سے ان کی ذمہ داری اور آخرت میں جواب دہی اسی حد تک ہو گی جتنا انھیں عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن اس تناظر میں انھیں یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ وہ مقامی صورت حال کے پیش نظر دین کی من مانی تعبیر کرتے ہوئے اس کے سیاسی ، معاشی اور قانونی تعلیمات کے منکر ہوکر دین کو صرف انفرادی زندگی تک محدود کرکے عیسائیت کی طرح ایک روحانی مذہب بنا دیں۔یہ تو اللہ کے دین کے ساتھ مذا ق اورعملی بغاوت ہوگی۔ البتہ دین کو اس کی جامعیت کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے حالات کی روشنی میں عمل کریں اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں تو یہ صراطِ مستقیم سے قریب تر ہوگا۔ دین جیسا ہے ویسا ہی رہے گا ___ ہاں، اس کے بعض مطالبات زمان و مکان کی قید کی بناپر اس وقت تک نافذ نہیں ہوں گے جب تک ان کےنفاذ کی قوت ہاتھ میں نہ آجائے۔ اس معاملے میں قرآن کریم نے ’تکلیف‘ کے اصول کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے: لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَھَا ج (البقرہ ۲:۲۳۳) ’’مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے‘‘۔
یہ آیت ہمیں یہ اصول سمجھاتی ہے کہ انسان کس حد تک ذمہ دار اور جواب دہ ہے ۔ اس کی جواب دہی بھی انھی معاملات میں ہے جن میں اسے اختیار ہے ۔ اس لیے یہ ساری بحث کہ امریکا میں یا یورپ میں اقامتِ دین کیسے ہو گی ؟ دین کے بنیادی حقائق کو صحیح طور پر نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے ۔ دین بہت سادہ ، عملی اور عقلی ہے۔ گویا اقامتِ دین سارے کے سارے دین کی تعلیمات کی دعوت اور نفاذکا نام ہے لیکن اگر صورت حال ایسی ہو کہ بعض احکام پر مکمل عمل امکان اور اختیار سے باہر ہو تو جس حد تک عمل ہو سکتا ہے اس کا اہتمام وہی دین کا مطالبہ ہوگا ۔ مثلاًایک شخص طاقت ور مومن ہو لیکن اسے زنجیروں سے اس حد تک باندھ دیا جائے کہ وہ صرف رکوع کر سکتا ہو سجدہ نہ کرسکتا ہو تو کیا اس بنا پروہ نماز ترک کر دے گا یا رکوع کرنے کے بعد جس حد تک وہ جھک سکتا ہے ، جھکے گا اور وہی اس کا سجدہ شمار کیا جائے گا اور اس طرح ادا کی گئی نماز اور ایک آزاد فرد کی نماز کی ادائیگی میں کوئی تفریق نہیں کی جائے گی کیوں کہ رب کریم کو علم ہے کہ اس کا بندہ مجبور ہے اور اسی حد تک جسم کو جھکا سکتا ہے جتنا قید و بند میں ممکن ہے ۔
اقامتِ دین کے لیے تمام موجود ذرائع کا استعمال کرنا اور دین کی تعلیمات کو بغیر کسی کمی بیشی کے بہترین انداز میں پیش کرنا وہ اہم فریضہ ہے جس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امت مسلمہ کو پسند فرمایا ہے ۔ امت مسلمہ کے لیے اس ذمہ داری پر مقرر کیا جانا ایک ایسا اعزاز ہے ، جس کا شکر اداکرنا اس پر فرض ہے اور یہ شکر صرف اپنے تمام وسائل کو وہ مادی ہوں ، عقلی اور ذہنی ہوں یا تنظیمی ہوں، حتی المقدور استعمال کر کے ہی ادا کیا جاسکتا ہے ۔
بنی اسرائیل کو جب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب شریعت کو قائم کرنے پر مامور کیا گیا اور انھوں نے اقامتِ دین کے فریضے کی ادایگی جیسا کہ اس کا حق ہے نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ امت مسلمہ کو اپنے فضل سے یہ ذمہ داری سونپ دی ۔قرآن کریم اپنے سے پہلے کے الہامی مذاہب کا حوالہ دیتے ہوئےکئی مقامات پر وضاحت سے بیان کر تا ہےکہ تمام انبیاے کرامؑ کے آنے کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا قائم کرنایا اقامتِ دین تھا۔فرمایا گیا:
وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ط ( المائدہ۵:۶۶) کاش! انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا ۔
تورات اور انجیل کے قائم کرنے یا اقا موا کا واضح مطلب ان کتابوں کو طبع کر کے لوگوں میں تقسیم کر دینا یا ان کو خوش الحانی سے پڑھنا نہیں ہے،بلکہ ان احکامات کو نافذ کرنے کے لیے قوتِ نافذہ کا استعمال کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کے حوالے سے اس قوت نافذہ کو واضح الفاظ میں اپنے کلام عزیز میں بیان فرما دیا:
يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ط (صٓ۳۸:۲۶) اے داؤدؑ ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔
یہاں حضرت داؤد ؑسے واضح طور پر جو بات کہی گئی ہے وہ نہ صرف انھیں خلافت پر مامور کرنا ہے، بلکہ قانونی معاملات میں بااختیار حاکم اور قاضی کی حیثیت سے حق پر مبنی فیصلے کرنے کے ذریعے اقامتِ دین کرنا ہے۔اسی سورہ میں آگے چل کر حضرت سلیمانؑ کی وہ دعا بیان کی گئی ہے جس میں وہ اقامتِ دین کے لیے ایسی سلطنت کی خواہش کرتے ہیں جو بے مثال ہو:
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ (صٓ۳۸:۳۵) اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ سلطنت (مُلْکًا) دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے۔
قرآن کریم عیسائیت اور یہودیت کےاس ذہن کی تردید کرتا ہے جس میں قانون اور روحانیت کو دو خانوں میں تقسیم کرنے کے بعد قانون کو باد شاہت کے لیے اور روحانیت کو اہل اللہ کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور یہی تصور صدیاں گزرنے پر نہ صرف یہودونصاریٰ بلکہ خود مسلمانوں کے کچھ طبقات کے ذہنوں میں ، خصوصاًسامراجی غلامی کے دور میں ، جاگزیں کر دیا گیا، اور اس پر مزید ایک ظلم یہ کیا گیا کہ شریعت کے ایک بڑے حصے کو شریعت سے الگ کر کے خالص روحانیت کے نام سے تصورِ طریقت ٹھیرا کر مشہور کر دیا گیا ۔ قرآن کریم جب اقامتِ دین کا حکم دیتا ہے تو وہ عبادت، تزکیہ، حب الٰہی، اطاعت رسولؐ، ادایگی حقوق اللہ و حقوق العباد، اجتماعی اصلاح، قیام عدل و احسان میں کوئی تقسیم نہیں کرتابلکہ سب کے مجموعے کو دین القیم کانام دیتا ہے :
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ لا حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ (البینۃ۹۸:۵) اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃدیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔
اس مختصر آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دین کے جامع تصورکو توحید اور اس کے دومظاہر اقامت صلوٰۃ اور اقامت زکوٰۃکے ساتھ مربوط اور واضح فرمایا ہے،یعنی یکسو ہو کر اللہ کی بندگی کا پہلا مرحلہ اقامت صلوٰۃ ہے جو اقامتِ دین کی اولین شکل ہے۔ گویا محض نماز کا پڑھنا نہیں کہ پانچ وقت نما زادا کر لی گئی یا رات کی تنہائی میں اللہ کو یاد کر لیا، بلکہ اس نظامِ عدل کا قیام جس میں نماز فحشاء اور منکرات سے بچانے کا کام کرے۔پانچ وقت اس بات کا اعلان و اعادہ کہ اللہ کی زمین پر اگر کسی کی حکومت ہے اور ہونی چاہیےتو وہ صرف مالک وخالق کائنات ہی کی ہوسکتی ہے۔وہی اکبر ہے،وہی اعلیٰ ہے، وہی ہدایت دینے والا ہے، وہی فلاح کا ضامن ہے، وہی اپنے بندوں کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہےاور حکم واختیار صرف اور صرف اس کے لیے ہے۔
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ط وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اسی طرح ایک صاحبِ مال پر فرض کر دیا گیا کہ وہ معاشرے کے ضرورت مند افراد کو ان کا حق دے۔زکوٰۃ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے اوپر احسان کرنا ہےکہ ایک مستحق کا وہ حق جو صاحبِ مال کو بطور امانت دیا گیا تھا وہ اس نے اصل مالک کوپہنچا دیا۔ اس کے ساتھ یہ پیغام بھی دیا جارہا ہے کہ زکوٰۃ کے ذریعے ایک غریب شخص ایمان کی تکمیل اسی وقت کر سکتا ہےجب وہ زکوٰۃ میں حاصل کی ہوئی مدد کو اس طرح استعمال کرے کہ جلد ازجلد خود زکوٰۃ دینے کے قابل بن سکے۔ اس طرح زکوٰۃ معاشرے میں معاشی خوش حالی اور خودانحصاری پیدا کرنے کے لیے ایک شرعی محرک بن کر صاحبِ مال اور غریب دونوں کو معاشی جدوجہد کی دعوت دیتی ہے۔گویااقامت زکوٰۃ کا مطلب نظام زکوٰۃ کا قائم کرنا ہے۔ یہ محض چند افراد کی مالی امداد کا نام نہیں، نہ یہ کسی قسم کا ٹیکس ہے جو امیروں پر لگایا گیا ہے۔یہ ایک عبادت ہے۔ یہ فریضہ ہے، یہ شرعی محرک ہے تا کہ غربت دُور ہو اور معاشی استحکام پیدا ہو۔
نماز اور زکوٰۃ کا یہ نظام دین کی اقامت کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہے۔ اسلامی ریاست کے فرائض و واجبات میں یہ بات شامل کر دی گئی کہ وہ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کے لیے اپنی قوتِ نافذہ کو ، حکومت کے وسائل و اختیارات کو استعمال کرے گی۔ چنانچہ سورۃ الحج میں صاف طور پر فرمایا گیا کہ اگر ہم تمھیں زمین میں اختیار دیں تو اقامت صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے نظام کا قیام تمھاری سرکاری ذمہ داری ہے (الحج۲۲:۴۱)۔دین کی یہ جامعیت ہی ہے جو اسے دنیا کے تمام مذاہب سے ممتاز کرتی ہےاور جس کو نہ سمجھنے کی بنا پر مسلمان اور غیر مسلم سادہ لوحی سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ جس طرح دیگر مذاہب میں Charity کا تصور ہے ایسے ہی اسلام میں زکوٰۃ کی تعلیم ہے۔زکوٰۃ نہ Charity ہے نہ کوئی ٹیکس اور ذاتی عمل، بلکہ یہ ایک معاشرتی فریضہ ہے جو اجتماعیت کا لازمی حصہ ہے۔ قرآن نے اس انقلابی تصور کو بڑی خوب صورتی سے ان الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۵۱:۱۹) ’’اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے‘‘۔
اگر بنی اسرائیل اور نصاریٰ اس بات کو سمجھتے اور اقامتِ دین کرتے تو قرآن کریم کا فرمان ہے کہ ان پر آسمان اور زمین سے رزق کے دروازے کھل جاتے، آسمان سے رزق برستا اور زمین سے اُبلتا لیکن وہ اقامتِ دین کے فریضے سے فرار اور دین کو انفرادی اور ذاتی مذہبی عبادت سے تعبیر کر کے ایک بڑے انحراف میں پڑ گئے۔آج اس انحراف کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اس انحراف سے نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبینؐ کے ذریعے دین القیم کو اس کی اصل اور درست شکل میں دوبارہ قائم کرنے کے لیے آپؐ کو رحمۃ للعالمینؐ بنا کر مبعوث فرمایااور آپؐ کے بعد اس اقامتِ دین اور شہادت حق کی ذمہ داری کوآپ کی امت پر فرض کر دیا:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک ’اُمّتِ وَسَط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ سے مرادمحض اسلام کے بعض درخشاں پہلو اچھے انداز میں بیان کردینا نہیں ہے، بلکہ اسلام کی ایک ایسی عملی مثال قائم کرنا ہے،جسے آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد ہر دیکھنے والا اسلام کی صداقت پر شہادت دینے پر آمادہ ہو جائے۔ شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ بننے کا یہ کام صرف اللہ کی زمین پر اللہ کی ہدایت کے مطابق مکمل نظام عدل کے قیام سے ہی ممکن ہے۔
اقامتِ دین اور شہادت علی الناس کے فریضے کو قرآن کریم نے جگہ جگہ مختلف حوالوں سے سمجھانے کے لیے دعوتی اور تعلیمی اسلوب اختیار کیا ہے۔سورۃالحج میں اس اقامتِ دین کو چار اہم حکومتی فرائض کی شکل میں بیان فرمایا گیا۔ چنانچہ اہل ایمان کی تعریف (definition) یہ کی گئی کہ:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ط وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
لیکن اس سے ایک آیت قبل ان اہل ایمان کی اس ریاستی ذمہ داری کو بیان کرنے سے قبل جو بات کہی گئی تھی وہ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ط وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ o نِ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ط (الحج ۲۲: ۳۹-۴۰) اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوںکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے ہیں ہمارا ربّ اللہ( ہی) ہے۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا کسی بھی مشرکانہ اور دہریت پر مبنی نظام میں کچھ لوگ وہ چاہے کم تعداد میں ہوں یا زیادہ اگر چپکے چپکے اپنے گھر میں، اپنی مسجد میں، اپنے کلیسا یا مندر میں دن کے اوقات میں اور راتوں کی تاریکی اور تنہائی میں اپنے رب کو یاد کرتے تو اس طرح کے روحانی عمل سے اردگرد کے معاشرے میں کسی کوکیا پریشانی یا تکلیف پہنچ سکتی تھی؟ اگر مکہ مکرمہ میں مسلمان اپنے گھروں کے اندر بیٹھ کر اللہ کے نام کی تسبیح اور نمازیں ادا کرتے رہتے تو اس سے مشرکین کو کیوں پریشانی ہوتی؟ واضح بات ہے کہ مکہ میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے، اقامتِ دین کے معنی محض ادائیگی نماز کا نام نہ تھا بلکہ تمام جھوٹے خداؤں کی جگہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی حاکمیت کا قائم کرنا تھا ۔ اگر معاملہ صرف اللہ جل جلالہ پر ایمان لانے کا ہوتا تو اہل مکہ بہ آسانی اپنےبہت سے خداؤں میں ایک اللہ کا اور اضافہ کر لیتے۔
بات بڑی واضح ہے۔ اللہ کو ماننے کا مطلب ہی یہ تھا کہ وہ سارے خدا جو نسل، رنگ، لسانی، قبائلی برتری، اشرافیہ کی منزلت ، دولت کی پرستش ،جنسی آزادی، شراب نوشی اور سود خوری کی اجازت دیتےتھے صرف اللہ کو رب مانتے ہی باطل ٹھیرتے اور مادہ پرست نظامِ معیشت، معاشرت، سیاست اور قانون اور ہر شعبۂ حیات سے بے شمار خداؤں کی بےدخلی کے بعدہی توحید کا قیام ممکن تھااور یہ بات اہل مکہ کو خوب اچھی طرح معلوم تھی۔ وہ توحید کا مطلب شاید ہم سے زیادہ صحیح سمجھتے تھے۔ اسی لیے وہ اس کے شدت سے مخالف تھے۔
دین کی اقامت کا مطلب واضح طور پر توحید کی اقامت تھااور اسی بنا پر مشرکین کے لیے اہل ایمان کا وجود ناقابلِ برداشت تھا۔ یہ بات سمجھانے کے لیے سورۂ حج کی یہی آیت ایک اور اہم حقیقت سے پردہ اٹھا تی ہے کہ انسانی تاریخ میں ظالم اور شیطانی قوتوں کا ہدف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ وہ دعوت توحید کی مخالفت کریں ۔ا س لیے توحید کے ماننے والوں پر ہر دور میں ظلم کیا گیا اور انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔اسی بنا پر ان کو جنگ کی اجازت اس لیے دی جا رہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے دینی شعائر بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ بھی کر سکیں ۔
مذاہب عالم کی تاریخ اور کتب مقدسہ میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو اپنے ماننےوالوں پر یہ فریضہ عائد کر دے کہ نہ صرف اپنی مذہبی آزادی اوراپنے عبادت خانوں بلکہ دوسروں کے مقاماتِ عبادت کا بھی تحفظ کریں، تا کہ ان مذاہب کے ماننے والے اپنی عبادت گاہوںمیں جا کر اپنے مذہب کے مطابق اپنی مذہبی رسوم ادا کر سکیں ۔قرآن کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جویہ کہتی ہے کہ:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا ط (الحج ۲۲:۴۰) اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں۔
یہاں جنگ کی اجازت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ یہ اجازت اجتماعی طور پر جنگ کرنے کی ہے ۔انفرادی طور پر بغیر کسی سیاسی اقتدار کے جنگ کا تصور پوری انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ اقامتِ دین نا ممکن ہو گی اگر اسے محض زبانی اور تحریری اشاعتِ تعلیمات اسلام سے تعبیر کیا جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس طرح اسلام کا قیام اوراسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا نا ممکن رہے گا جب تک قرآن کو قائم کرتے ہوئے اس کے قوانین کو حکومت کے ذریعےنافذ نہ کر دیا جائے۔یہ تمام پہلو قرآن کریم نے بغیر کسی ابہام کے واضح کر دیے ہیں اور جو لوگ قانون اور دعوت کے درمیان لکیر کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قانون تو انگریز سامراج کا ہو اور مسجد میں عبادت اللہ کی ہو ، قرآن اس تصور کو سخت الفاظ میں چیلنج کرتاہے۔تورات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےسورۂ مائدہ میں فرمایا کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ (المائدہ۵:۴۴) ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں‘‘۔ اس بات کو اگلی آیت میں یوں کہا کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (المائدہ۵:۴۵) ’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔
یہاں اقامت تورات اور اقامتِ دین اور اقامت قرآن کریم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دوٹوک انداز میں واضح فرما دیا کہ جب تک سیاسی قوت اور قانونی قوت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکام کا نفاذ نہ کیا جائے دین کی مکمل اقامت نہیں ہو سکتی ۔یہاں یہ بات دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جن مقامات اور حالات میں مسلمان سیاسی غلبہ حاصل نہیں کر پاتے وہاں ان کی جواب دہی صرف ان کے اختیار اور قدرت کی حد تک ہے لیکن اس کے باوجودوہ دین کو مختصر نہیں کر سکتے کہ ان تعلیمات کو نظر انداز کر دیں جو دین کا لازمی حصہ ہیں ۔
اقامتِ دین کے تصور میں یہ بات فطری طور پر شامل ہے کہ نہ صرف عبادات اور معاملات بلکہ سیاسی اقتدار اور نفاذ قانون کے بغیر دین کے قیام کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا ۔ سورۂ یوسف نے اس پہلو کو نہایت واضح الفاظ میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔پہلے تو حضرت یوسف ؑ اپنے جیل کے ساتھیوں سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا بہت سے خداؤں کی بندگی اچھی ہے یا ایک مالک اور اعلیٰ ترین رب کی؟ پھر آپ ان تک وہ حق پہنچاتے ہیں جس کے لیے آپ اور تمام انبیا کرامؑ بھیجے گئے:
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ط ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ o (یوسف۱۲:۳۹-۴۰) اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سَنَد نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
قرآن کریم نے حضرت داؤد ؑ، حضرت سلیمانؑ اور حضرت یوسف ؑکے حوالے سے یہ بات وضاحت سے بیان فرمائی ہے کہ اقامتِ دین کے لیے نہ صرف ابلاغ کے ذریعےبلکہ ریاستی ذرائع کا استعمال دین کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔پس یہی وجہ ہے کہ دین زندگی کو دین، چرچ اور بادشاہت میں تقسیم کا روادار نہیں ہے۔ چنانچہ خاتم النبینؐ کی شکل میں نبوت اور ریاست دونوں کو یک جا کرنے کے بعد ہی آپؐ کے اس مجموعی داعیانہ کردار کو اسوۂ حسنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔جہاں آپؐ کا ہرہر قول و عمل ایک سنت ہے اور آپؐ کی دعوتی زندگی جو ۲۳سالوں پر پھیلی ہوئی ہے اور جو مکی اور مدنی دونوں اَدوار کی اپنی پوری جامعیت کے ساتھ امین ہے اور جس کا نقطۂ عروج آپؐ کا حجِ وداع کا خطبہ ہے، آپ کی سنت ِ کبریٰ ہے جس کا دوسرا عنوان اقامت ِ دین ہے۔
سیرت پاکؐ کی پیروی اور آپؐ کے اسوہ کا قیام اسی وقت ممکن ہے جب آپؐ کے مکی اور مدنی دور دونوں پر یکساں عمل کیا جائے اور مکہ کی تیرہ سالہ آزمایش بھری زندگی کی تکمیل کے مدنی مراحل کو الگ نہ کیا جائے ۔ اسوۂ حسنہ مکہ اور مدینہ دونوں کی یک جائی کانام ہے ۔
اسوۂ حسنہ کی پیروی نامکمل ہو گی اگر صرف چند اخلاقی اصول تو اختیار کر لیے جائیں اور آپؐ کے قانونی کردار اور ریاستی معاملات میں آپؐ کےرویے کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اقامتِ دین صرف اسی وقت صحیح طور پر ہو سکتی ہے جب یہ دونوں پہلو یک جا ہوں اور ان میں کوئی فاصلہ نہ پایا جائے۔
ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم کی انقلابی دعوت کا نقطۂ آغاز توحید ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان صرف اور صرف اپنے خالق حقیقی اور مالک کو اپنا رب مانتےہوئےاپنے آپ کو مکمل طور پر اس کی اطاعت میں دے دےاور اس کام کوشعوری طور پر احساس ذمہ داری کے ساتھ کیا جائے۔ اسی لیے اس عمل کے لیے شہادت کا لفظ استعمال کیا گیا ۔شہادت قولی ہو یا عملی، ہر دو صورتوں میں انسان پورے احساس ذمہ داری، اختیاراور جواب دہی کےاحساس کے ساتھ ہی شہادت دیتا ہے۔ ایک نابینا شخص کسی واقعے کی عینی شہادت نہیں دے سکتا لیکن کسی بات کی سماعت کی شہادت دے سکتا ہے۔ایک شخص جو سننے کے لیے کسی آلے کا استعمال کرتا ہوسمعی شہادت بھی صرف اس وقت دے سکتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ وہ آلۂ سماعت پہنے ہوئے تھا۔اس لیےقرآن کریم جب شہادت حق کی بات کرتا ہے تو اہل ایمان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے طرزعمل، طرزفکر، اپنے معاشی،سیاسی ،معاشرتی رویے سے توحید کی شہادت دیں گے۔ قرآن کریم جب کسی انسان کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو بات قولی اقرار تک نہیں رہتی فوراً اس اقرار کو ناپنے کا پیمانہ بھی پیش کر دیا جاتا ہے کہ صلوٰۃ قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ یہ دونوں عبادات اقامتِ دین کی اوّلین مظہر ہیں اور اسلامی معاشرت کی پہچان ہیں۔مدینہ منورہ پہنچنے پر سب سے پہلا کام جو کیا گیا وہ مسجد کے قیام کے ساتھ مدینہ کے اقتدار اعلیٰ کا فیصلہ تھا۔ چنانچہ میثاقِ مدینہ قلم بند کیا گیااور اس طرح اقامت صلوٰۃ اور اسلامی ریاست میں غیر مسلموں سے تعلقات کی نوعیت کا تعین نظامِ عدل کا قیام ، معاشرے سے فواحش اور منکرات کے خاتمے کی بنیادیں رکھی گئیں ۔چنانچہ فرمایا گیا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِز (المائدہ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ط (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمّت ِ وَسَط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
یہ اتنا اہم فریضہ ہے کہ اگر اسے ادا نہ کیا جائےیا اس سے رُوگردانی برتی جائےتو قرآن اس پر وعید کرتا ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ ط (البقرہ ۲:۱۴۰) اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے؟
ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ط (البقرہ ۲:۶۱) ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر گئے۔
اقامتِ دین ہی وہ واحد عمل ہے جو ذلت و محکومی سے نجات دلا تا ہے۔لیکن یہ کس طرح ہو؟ کیا محض اجتماعات میں تقاریر سے یہ کام ہو سکتا ہے،یا سال میں تین مرتبہ کسی مقام پر چند منتخب افراد کا تین چار دن کےلیے یک جا ہو کر مطالعہ قرآن و حدیث اور نوافل کا اہتمام کرنا اس کے لیے کافی ہے،یا جب تک سیاسی اقتدار حاصل نہ کر لیا جائے؟ تزکیہ و تربیت کردار کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے تبدیلیِ قیادت و نظام اور حصول اقتدار کی منظم جدوجہد کے ذریعے معاشرے کی تطہیر کی جدوجہد کا نام اقامتِ دین ہے ۔اقامتِ دین کا یہ قرآنی شعور ہر دور میں تحریکات اسلامی کے کارکنوں کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا تسلی بخش جواب فراہم کرتا ہے ۔ ایک سادہ مثال سے مزید وضاحت کی جا سکتی ہے۔ایک ڈاکٹرکے پاس جب ایک مریض آتا ہےجس کی نبض کی رفتار درست نہ ہو، قلب بھی صحت مند نہ ہو، خون کا دباؤ بھی زیادہ ہو ، سانس لینے میں بھی دقت پیش آرہی ہو، رات کو سو بھی نہیں سکتا، تو وہ اس کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ہی یہ طے کرتا ہے کہ اصلاح کا آغاز کہاں سے کیا جائے۔ چنانچہ معائنے کی روشنی میں ہی وہ دوائیں تجویز کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی مقام پر مسلمان اقلیت میں ہوں اور وہ دین کی تمام تعلیمات کی اقامت نہ کر سکتے ہوں تو اقامتِ دین کا آغاز انھی اقدامات سے ہو گا جن کے کرنے پر وہ آزاد اور مختار ہوں۔ بقیہ تعلیمات کو جوںکا توں مانتے ہوئے مناسب وقت آنے پر ان کا نفاذ کیا جائے گا ۔
اقامتِ دین کا پہلا مرحلہ شعوری طور پر اسلام لانا اور تطہیر افکار یا توحید خالص کا ذہنوں میں جا گزیں کرنا ہے۔ یہ ایک طویل مرحلہ ہے۔ یہ دو چار برس کی با ت نہیں ۔جب مکہ جیسی تربیت گاہ میں کسی اور کو نہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے منتخب کردہ خاتم النبینؐ کو ۱۳سال جدوجہد کرنی پڑی تو ہم کیسے چار پانچ سال کی مہم میں متوقع نتائج حاصل کر سکتے ہیں (وما توفیقی الا باللہ)۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نتائج سے بے پروا ہو کر پوری قوت ، حکمت اور منصوبہ بندی کے ساتھ اقامتِ دین کے پہلے نکتے پر توجہ دی جائے۔اور تطہیر ِ افکا روہ لوگ کریں جو خودنہ صرف تحریکی لٹریچر بلکہ قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ سے سے براہ راست واقفیت رکھتے ہوں اور دعوت کو آسان اور مؤثر انداز سے پیش کر سکتے ہوں، نیز ان کی سیرت ،دعوت کی دلیل پیش کرے:
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ (حم السجدہ ۴۱:۳۳) اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی، جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔
تحریکاتِ اسلامی کے لیے اصل لمحۂ فکریہ تطہیر افکار اور فہم دین کے حوالے سے یہ جائزہ ہے کہ کیا ان کا ہر کارکن اپنی عملی زندگی اور معاملات سے اپنی دعوت پیش کررہا ہے ؟یا وہ عوامی نعروں سے متاثر ہو کر تحریک میں تو آگیا، لیکن اس کی اپنی زندگی ابھی تک اسی ڈگر پر ہے، جس پر دوسروں کو دیکھتا ہے؟ کیا اس کے معاملات وہ مالی نوعیت کے ہوں یا باہمی تعلقات سے متعلق ہوں، ان اصولوں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی آسان تشریح ایک اہم تحریکی کتاب تحریک اسلامی میں کارکنوں کے باہمی تعلقات میں تحریک کے ایک خادم نے تحریر کر دی ہے، اور کیا اس نے اس تحریر کو شعوری طور پر مطالعہ کر کے جذب بھی کیا ہے؟
نتائج ہمیشہ اسباب کے تابع ہوتے ہیں۔اگر ایک دیوار کی بنیاد کمزور ہو تو عمارت کتنی بلند کیوں نہ بن جائےوہ ناپایدارہی ہو گی۔تحریک اسلامی کی کامیابی محض سیاسی کامیابی اور نشستوں کی تعداد سے نہیں ناپی جاسکتی ۔ اس کا اصل پیمانہ افراد کی اسلامی شخصیت ہے ۔ ان کا خلوص اور دین سے عملی وابستگی ہے۔ اگر یہ ٹھوس بنیاد تعمیر ہو گئی تو نتائج چاہے صدیوں میں نکلیں تحریک ایک کامیاب تحریک ہے۔ نتائج کا نکالنا تحریک کا مسئلہ نہیں،نہ وہ ان کے لیے جواب دہ ہے۔ یہ مسئلہ اس کا ہے جو اس دنیا میں اصلاح، عدل اور اپنا نظا م چاہتا ہے۔ صحیح کوشش، جدو جہد اورسعی اصل بنیاد ہے۔ کوشش اور جدوجہد ہی کا نام جہاد ہے۔ جتنی کامیابی بدر کی ہے، اتنی ہی کامیابی اُحد اور حنین کی بھی ہے۔ جو اجر بدری کو ملے گا وہی اجر احد اور حنین والے کو بھی ملے گا۔ اس لیے یہ سوال کہ اقامتِ دین کے لیے ہمیشہ اسمبلی نشستیں جیتنا کامیابی کا معیار ہے، قرآن و سنت سے مناسبت نہیں رکھتا۔لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ سیاسی جدوجہد کو نظرانداز کیا جائے یا سیاسی جدوجہد کے نتائج کو غیراہم سمجھا جائے۔تاہم، تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا اصل پیمانہ اور معیار محض اس کو نہیں بنایا جاسکتا۔
اقامتِ دین ایسےجامع طرزِعمل کا نام ہے جس میں زندگی کے تمام شعبوں میں انقلاب برپا کرنے کی کوشش اصل ہدف ہے۔ ظاہر ہے اس کا آغاز فکری انقلاب سے ہو گا ، سیرت کے انقلاب سے ہو گا جو آخر کار معاشرت ، معیشت اور قانون و سیاست پر جا کر مکمل ہو گا۔ اقامتِ دین کا آغاز تطہیرِ افکار اور تعمیرِ سیرت سے ہی ہو گا۔ جب یہ بنیادی مرحلہ شروع ہو جائے گا تو فطری طور پر اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اصلاح اقتدار کا مرحلہ بھی آئے گا۔ چوتھا مرحلہ اوّلین تین مراحل کے ساتھ فطری طور پر جڑا ہوا ہے، ان سے الگ اور آزاد نہیں ہے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اقامتِ دین کے لیے تحریک کی حکمت عملی زمینی حقائق پر مبنی ہو نی چاہیے۔ہم کسی بھی معاشرے میں بس رہے ہوں اس کا آغازجب تک گھر سے نہیں ہو گا ہم اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکیں گے۔ہمیں غیر اسلامی روایا ت اور رواج کو گھروں سے دور کرنا ہو گاتاکہ لوگ آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اسلامی گھرانہ اور اسلامی معاشرت کیسی ہوتی ہے۔ ہمیں نہ صرف تربیت کے ذریعے صالح افراد پیدا کرنے ہوں گے بلکہ معاشرے میں بہت سے موجود صالح افراد کو تلاش کرکے اپنے سے قریب لانا ہو گا۔ ان کے خدشات کو دُور کرنا اور ان سے فاصلے کو کم کرنا ہو گا اور زمینی حقائق کے پیش نظر ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔
ان صالح افراد کو بھی محض جمع کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ انھیں مزید عملی تربیت کے لیے معاشرتی کاموں میں مصروف کرنا ہو گا۔شہروں اور دیہا توں میں سڑکوں پر صفائی کی مہم ، مساجد اور مدارس میں تعاون کی پیش کش، مساجد میں حکمت کے ساتھ حلقہ ہاے قرآن کا قیام ، تعلیمِ بالغاں کے مراکز، مساجد کے قریب کسی مطالعہ گھر کا قیام جس میں قرآن و حدیث اور تحریکی لٹریچر نہ صرف کتابی شکل میں بلکہ سمعی مواد کی شکل میں بھی موجود ہو۔بستی کے یتیم و معذور افراد کی خدمت کے لیے مستقل بندوبست، مزدوروں کے مسائل سے آگاہی اور ان میں نفوذ، اساتذہ اور پیشہ ور افراد ، وکلا، تاجر برادری سے محض سیاسی مہم میں نہیں بلکہ ان سے دعوتی تعلق، ان کے مسائل میں آگے بڑھ کر ان کی رہنمائی اور حق کے لیے جدوجہد، اس اولین مر حلے کے لوازم ہیں ۔
پورے ملک میں نجی شعبے میں تعلیم گاہوں کا ایک ایسے مربوط نظام کا قیام ،جس میں وہ نصابی کتب شامل ہوں، جو کردار سازی کرتی ہیں اور طلبہ وطالبات کو ایسا ماحول میسر آئے،جس میں دین کے جامع تصور کو سمجھ سکیں ۔
یہ کام کسی بہت لمبے عرصے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ اس سارے کام کو حکمتِ عملی کے ساتھ کرنے میں اصل پیمانہ ہمہ تن کوشش، جذبۂ قربانی، اور اپنی تمام تر قوت کا اقامتِ دین کے لیے استعمال کرنا ہے۔ عزم الامور کے بعد نتائج کو اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس پر چھوڑ دینا ہی قرآن کا طریقہ ہے۔
جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے لیے بھی اقامتِ دین کے ان مراحل میں کوئی تبدیلی کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں صرف اس کے لیے مکلف ہیں جو وہ کر سکتے ہیں۔ جس نظام میں وہ رہ رہے ہیں اس میں تبدیلیِ امامت کے لیے وہ مشروط طور پر مکلف ہیں، یعنی اگر مکمل بھلائی نہیں پیدا کر سکتے تو کم ازکم کم تر برائی کے ذریعے ایک لمبےعمل کے ذریعے بھلائی کے لانے کے امکانات پیدا کر سکتے ہیں۔ ان سے سوال ان کے حالات کے مطابق اصلاح کی کوشش کے باب میں ہوگا، آخری ہدف کی میزان پر نہیں۔ بلاشبہہ ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ جن معاملات میں ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی، ان میں کیا کارنامہ کیا؟ کیا کسی نے ان کو اس سے روکا تھاکہ وہ اپنے گھر میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اجتماعی مطالعہ قرآن و سیرت کریں؟ کیا کسی نے حکم دیا تھا کہ بچوں کو لازماً عریاں اور جنسی کارٹون دکھائیں؟ کیا کسی نے پابندی لگائی تھی کہ وہ اپنے ارد گرد مسلم اور غیر مسلموں کو اپنے کردار سے متاثر کر کے دین سے متعارف کرائیں؟ کیا کسی نے یہ کہا تھا کہ وہ باہمی تعاون کے ایسے ادارے جو تجارتی کام غیر سودی شکل میں کریں قائم نہ کریں؟
اقامتِ دین کے مراحل واضح ہیں۔ ضرورت اپنے ذہن کو صاف کرنے کی ہےاور یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تحریکا تِ اسلامی نے اقامتِ دین کے جو اَبدی اصول قرآن وسنت سے اخذ کیے ہیں وہ نہ وقتی ہیں نہ جغرافیائی کہ صرف پاکستان یا مصر یا سوڈان میں قابلِ عمل ہوں اور امریکا ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں ان پر عمل نہیں ہو سکتا۔اصل مسئلہ اپنے ذہن کو مغرب کی مرعوبیت سےآزاد کر کے ان اصولوں پر عمل کر کے انھیں عملاً نافذ کرنے کا ہے۔ یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اپنا تعلق سب سے کاٹ کر صرف اورصرف اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسولؐ سے ایک ایسے عہد کے ساتھ کریں جو صرف ان کے اور ان کے رب کے علم میں ہو ۔
۲۶جون ۲۰۱۷ء عیدالفطر کے مبارک موقعے پر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی واشنگٹن میں ملاقات سے صرف دو گھنٹے پہلے، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ’حکم نامے‘ بعنوان ’Diplomacy in Action‘ (اقدامی سفارتی حکمت عملی) کے ذریعے ’حزب المجاہدین‘ کے سپریم کمانڈر جناب سیّد صلاح الدین کو ایک ’نادر تحفہ‘ دیتے ہوئے ان کا نام اس فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ جسے امریکا اپنی اصطلاح میں ’خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد‘ (Specially Designated Global Terrorist) کہتا ہے، اور جس کی تعریف خود اس حکم نامے میں یہ درج ہے:
غیر ملکی افراد جنھوں نے دہشت گردی کی ایسی کارروائیاں کی ہیں، یا جن کی طرف سے ایسی کارروائیوں کا واضح خدشہ موجود ہے، جو امریکی شہریوں یا امریکا کی قومی سلامتی ، خارجہ پالیسی یا معیشت کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
اس حکم نامے میں سیّد صلاح الدین صاحب کے جن ’جرائم‘ کا ذکر ہے، دُور و نزدیک سے ان کا کوئی تعلق امریکا، اس کی سلامتی اور امریکیوں کی زندگی سے نہیں ہے۔مجمل انداز میں کہا گیا ہے کہ:
ستمبر ۲۰۱۶ء میں صلاح الدین نے عہد کیا کہ وہ کشمیر کے تنازعے کے کسی بھی پُرامن حل کا راستہ روکے گا۔ اس نے مزید کشمیری خودکش بمبار وں کو تربیت دینے کی دھمکی دی اور عہد کیا کہ وہ وادیِ کشمیر کو بھارتی فوجیوں کے قبرستان میں بدل دے گا۔ صلاح الدین کے ’حزب المجاہدین‘ کے سینیر رہنما ہونے کی مدت کے دوران حزب المجاہدین نے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میں اپریل ۲۰۱۴ء میں ہونے والا بارودی حملہ بھی شامل ہے، جس میں ۱۷ لوگ زخمی ہوئے۔
اس ’چارج شیٹ‘ کی بنیاد پر حکم صادر ہوا ہے کہ :
صلاح الدین دہشت گردی کی کارروائیوں کا مرتکب ہوا ہے یا اس کی طرف سے ایسی کارروائیوںکے ارتکاب کا شدید خطرہ ہے، اس لیے اس کو ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دیا جاتا ہے۔
اگر اس ’حکم نامے‘ کا تجزیہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ قانون اور انصاف کے متفق علیہ اصولوں کی سراسر ضد ہے۔ وہ امریکا جو جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے باب میں اپنے کو عالمی برادری کا لیڈر قرار دیتا ہے، یہاں کس ڈھٹائی اور سفّاکی سے انصاف، قانون اور جمہوری اقدار کا خون کر رہا ہے۔ یہ کام محض بھارت سے معاشی فوائد کے حصول اور علاقائی سیاسی مفادات کی خاطر دنیا کی معتبر اور مقتدر شخصیات پر دہشت گردی کی چھاپ لگا کر کیا جا رہا ہے۔
اس ’حکم نامے‘ کا بغور مطالعہ کریں تو اس میں سیّد صلاح الدین صاحب کے مبیّنہ ’جرائم‘ کا کہیں دُور و نزدیک، کسی امریکی شہری یا خود امریکا کے کسی مفاد پر پڑنے والی ضرب، یا اس کے لیے کسی واضح یا موہوم خطرے تک کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی، ان چند تحریکوں میں سے ہے، جو صرف اور صرف اپنے علاقے تک محدود ہیں۔ اس تحریک کا ہدف صرف اہلِ کشمیر کے مادرِ وطن پر غاصب اور ناجائز طور پر قابض فوج (Occupying Force) کا مقابلہ اور اس کے تسلط سے آزادی کا حصول ہے۔
’ حزب المجاہدین‘ تو وہ تنظیم ہے، جس نے پہلے دن سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور عالمی اقوام کے وعدوں کی بنیاد پر جمہوری طریقے (عوامی استصواب) سے عمل کا مطالبہ کیا ہے۔ سیّد صلاح الدین نے اس منزل کے حصول کے لیے اصلاً معروف جمہوری راستے کو بھی اختیار کیا اور خود ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ یوں گویا الیکشن کا وہ ذریعہ بھی اختیار کرکے دیکھ لیا، جسے بھارتی سرکاری مشینری نےمحض بھارتی جمہوری ڈراما بناکر حسب ِ روایت دھاندلی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اسی طرح بعد کے مراحل میں کشمیر کی حق خود ارادیت کی تحریک میں ان اصولوں کی مکمل پاس داری کے ساتھ جدوجہد کی، جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون اور معاہدوں (conventions) کے دائرے میں آتی ہیں۔ حتیٰ کہ ’حزب المجاہدین‘ نے کبھی کوئی کارروائی ریاست جموں و کشمیر کی حدود سے باہر اس قابض قوت کے خلاف نہیں کی۔ ’حزب المجاہدین‘ نے ’حُریت کانفرنس‘ کی سیاسی جدوجہد کی ہمیشہ تائید کی ہے۔ اس کی ساری جدوجہد کا صرف ایک ہدف ہے:
جموں و کشمیر کے عوام کا یہ حق کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے، اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔ وہ حق جو ان کا پیدایشی حق ہے، جس کی ضمانت اقوامِ متحدہ کا چارٹر آرٹیکل ۱ اور ۵۵ اسے دیتے ہیں۔ جس کا وعدہ ان سے اقوامِ متحدہ نے ۲۲ سے زیادہ قراردادوں کی شکل میں کیا ہوا ہے۔جس کا وعدہ خود بھارت کی حکومت، پاکستان کی حکومت اور پوری عالمی برادری نے کیا ہے، اور جس کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے صاف الفاظ میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ جموں و کشمیر میں کوئی نام نہاد دستورساز اسمبلی یا کسی اسمبلی کے انتخابات اس استصواب اور عوامی راے شماری کا بدل نہیں ہوسکتے، جس استصواب راے کا وعدہ بھارت، پاکستان اور اقوامِ متحدہ نے ان سے کیا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم تاریخ کے سینے پر نوشتۂ دیوار کے طور پر اس ضابطۂ اخلاق کا پورا متن دے رہے ہیں، جس کا ’حزب المجاہدین‘ اپنے تمام مجاہدین کو پابند کرتی ہے۔ یہ اس تحریکِ آزادی کے لیے Standing Code of Conduct (مستقل ضابطۂ اخلاق)کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ضابطے اور آدابِ کار کے لوگوں کو دہشت گرد قرار دینا بدترین ظلم اور ناانصافی ہے:
ریاست جموں و کشمیر میں جاری تحریک جہاد سے وابستہ ہرمجاہد کو اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ:
اس صاف شفاف لائحۂ عمل اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ضابطوں کی پاس داری کے علی الرغم ’حزب المجاہدین‘ اور اس کے سربراہ کو عالمی دہشت گرد قرار دینا، دراصل اپنی جگہ پر عالمی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے، جو امریکا کی جانب داری، مفاد پرستی اور اس کے ناقابلِ اعتماد ہونے کی واضح دلیل ہے۔ بی بی سی لندن (اُردو سروس) نے اس پہلو کی یوں نشان دہی کی ہے:
’حزب المجاہدین‘ ، جس کے دیرینہ سربراہ صلاح الدین ہی ہیں، کشمیریوں کی مقامی مسلح تنظیم ہے۔ حزب نے ۲۷سال کے دوران کبھی کسی عالمی ایجنڈے کا ذکر نہیں کیا۔ یہ تنظیم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں راے شماری چاہتی رہی ہے اور اس نے اکثر اوقات القاعدہ اور دولت اسلامیہ [داعش] کی لہر سے اعلاناً فاصلہ بنائے رکھا۔
بی بی سی کے اسی نامہ نگار نے اس خطرے تک کا اظہار کیا ہے کہ:
صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کے بعد کشمیری عسکریت پسند لوکل ایجنڈے کی افادیت پر سوال اُٹھا سکتے ہیں اور کشمیر کی مسلح مزاحمت کو شام اور افغانستان میں جاری مزاحمت کے خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کشمیر کی مسلح تحریک جس کا ابھی تک کردار بھی مقامی اور ایجنڈا بھی مقامی رہا ہے، ممکن ہے کہ ایک گلوبلائزڈ جہادی نیٹ ورک کا حصہ بننے میں عافیت سمجھے۔(’’صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دیے جانے کا تحریکِ کشمیر پر کیا اثر پڑے گا؟‘‘ از ریاض مسرور، بی بی سی ڈاٹ کام، سری نگر، ۲۷جون ۲۰۱۷ء)
یہ ہیں اصل حقائق___ کیا ہم یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ امریکا اپنے ان حالیہ اقدامات سے عالمی دہشت گردی کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یا پھر اسے فروغ دینے میں دانستہ طور پر حصہ ڈال رہا ہے؟ اور جو عالمی سطح پر کسی کے لیے کوئی نہ کبھی خطرہ تھے اور نہ آج خطرہ ہیں، ان کو خطرہ بنانے کی خدمت انجام دے رہا ہے؟
امریکا اور بھارت کے اس مذموم کھیل سے ’حزب المجاہدین‘ اور تحریک ِ آزادی کشمیر کو باخبر رہنا چاہیے اور اس جال (Trap)سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی آواز کو عالمی سطح پر پہنچانے اور عالمی راے عامہ کو ساتھ لے کر چلنے کی ہرکوشش بجا، لیکن سمجھ لینا چاہیے کہ تحریک کا مقامی، محدود اور متعین کردار ہی اس کی بڑی طاقت ہے۔ اس سلسلے میں تحریکِ آزادی اور حزب المجاہدین کا پہلے دن سے اب تک جو کردار پورے تسلسل کے ساتھ رہا ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے۔
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس اقدام کے ذریعے امریکا نے ایک مسلّمہ اور جائز تحریک ِ مزاحمت کا رُخ بلاوجہ اپنی طرف موڑنے کی حماقت کی ہے یا بھارت کی چال میں آکر یہ اقدام کیا ہے اور اس کے تمام اثرات اور نتائج کا ادراک نہیں کیا ہے۔ آج تک اس تحریک کا رُخ صرف ایک قابض قوت بھارت کی طرف تھا اور ہے۔ امریکا سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ حق و انصاف، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور خود اپنے ماضی کے وعدوں کا پاس کرتے ہوئے بھارت پر اثرانداز ہوگا، اور حق و انصاف کے مطابق مسئلے کے حل کے لیے کردار ادا کرے گا۔لیکن امریکا کے اس غیرمنصفانہ اقدام نے اس کی پوزیشن کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ یوں امریکا سے جو توقعات کشمیر کے مظلوم عوام کو تھیں، وہ بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
اہلِ کشمیر نے آج تک صرف بھارت کا جھنڈا جلایا ہے اور بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔ صرف بھارت کی اس فوجی قوت کو، جو اِن پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، نشانہ بنایا ہے۔ بھارت کا شاطرانہ کھیل یہ ہے کہ اب بھارت کے ساتھ امریکا بھی کشمیری عوام کے غم و غصے کا ہدف بنے۔ نادانی اور جلدبازی میں امریکا اس دلدل میں پھنس گیا ہے، جس سے اسے جلداز جلد نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہاں پر تحریک ِ آزادی کشمیر کے ذمہ داران سے بھی ہماری اپیل ہے کہ وہ بھارت کی حکومت اور افواج ہی کو اپنا مخاطب اور ہدف رکھیں اور امریکا کو اپنے کیس کے مؤید اور اس کے حل کے لیے سہولت کار ہی کی حیثیت سے متحرک کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اگرچہ خود اس نے ہدف بننے کی جو حماقت کی ہے، اس کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی اصل جدوجہد جاری رکھیں۔
اس ’حکم نامے‘ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے شاطر اہل کاروں نے امریکا کو بڑی چابک دستی سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان الزامات کا سہارا لیا ہے، جو خود مشتبہ ہیں (اور اگر صحیح ہیں تب بھی)، ان کا تعلق صرف اور صرف بھارت سے ہے، جو اس علاقے پر قابض قوت ہے۔ ان کا کوئی تعلق امریکا، امریکی شہریوں یا امریکی مفادات سے نہیں ہے۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکا نے کیوں ان کو بہانہ بناکر بھارت کے غاصبانہ تسلط میں شریکِ کار اور اس کا محافظ بننے کی حماقت کی ہے؟ جتنی جلد ہوسکے، امریکا کا اس کھیل سے نکلنا علاقائی اور عالمی امن کے لیے بہتر ہے۔
اس حکم نامے میں ایک لفظ ایسا ہے جس کو بڑی مرکزی اہمیت حاصل ہے اور جو خود امریکا اور اقوامِ متحدہ کے اصولی موقف کا عکاس ہے۔ یہی وہ لفظ ہے، جس کی روشنی میں بھارت کے بُنے ہوئے اس جال سے نکلا جاسکتا ہے اور وہ ہے اس امر کا اعتراف کہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بلکہ ایک Indian Administrated Jammu and Kashmir (بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر) ہے۔ جس کے صاف معانی یہ ہیں کہ یہ متنازع علاقہ (Disputed Territory) ہے، اور Indian Administration (بھارتی انتظامیہ)دراصل Indian Occupation (بھارتی قبضے) کا نتیجہ ہے۔ نیز علاقے کے مستقبل کا فیصلہ یہاں کے عوام کے حق خود ارادیت کے اصول کے مطابق ہونا باقی ہے۔
یہی مسئلے کا اصل حل ہے اور یہی وہ چیز ہے، جو جموں و کشمیر کے عوام صبح و شام کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہمارا معاملہ نہ مالیات اور ملازمتوں کے حصول کا ہے اور نہ سیاسی و سماجی مفادات کا ہے، بلکہ آزادی اور حق خود ارادیت کا ہے‘‘۔ اور یہی وہ بات ہے جس پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت نے دہشت گردی کے پردئہ ابہام (smoke-screen) سے مسئلے کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے۔ کشمیری عوام سادہ الفاظ میں یک زبان ہوکر اپنی بات کہہ رہے ہیں: ’’ہم کیا چاہتے؟ ___ آزادی، آزادی!‘‘۔
تحریکِ آزادی کشمیر کا آغاز تو ۱۹۳۱ء میں ہی ہوگیا تھا، لیکن ۱۹۴۷ء سے آج ۷۰سال گزر نے تک اس منزل کے حصول کے لیے تقریباً پانچ لاکھ افراد کی قربانی، لاکھوں شہریوں کی خانماں بربادی اور دربدری، اربوں کھربوں روپوں کی مالیت کے نقصانات کے علی الرغم، نت نئے جوش و خروش کے ساتھ یہ تحریک برپا اور جاری ہے۔ خصوصیت سے ۱۹۸۹ء سے جو دور شروع ہوا ہے، وہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ یہ ایک قومی تحریکِ آزادی ہے، جس میں آبادی کا بڑا حصہ عملاً شریک ہے۔ یہ ایک عوامی اور جمہوری تحریک ہے، جسے بھارت جبر، ظلم اور ننگی قوت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن یہاں کے بے بس عوام نے بھارتی اندھی بہری قوت کے آگے سپر ڈالنے سے انکار کر دیا ہے اور بوڑھے اور جوان، مرد اور عورتیں، حتیٰ کہ اسکولوں اور کالجوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی بے خوف و خطر اس میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ع
بڑھتا ہے یہاں ذوقِ جرم ، ہر سزا کے بعد
یہاں اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ: ’’سیاسی مقاصد کے لیے ’دہشت گردی‘ عسکریت کے ایسے استعمال کو قرار دیا جاتا ہے، جس سے عام شہری نشانہ بنیں۔ ’تحریکِ آزادی‘ اس کے بالکل برعکس ایک مظلوم قوم کے حق خودارادیت کی سیاسی جدوجہد کا نام ہے، جسے بالعموم قابض قوتیں محض طاقت اور ریاستی ظلم و جبر (State Violence) کے ذریعے کچلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کش مکش میں مزاحمت کے دوران مظلوم انسانوں کو بھی جوابی طور پر مزاحمت کرنا اور ضرب لگانا پڑتی ہے۔ حق خود ارادیت اور آزادی کی یہ جدوجہد (struggle for self determination) ایک سیاسی عمل ہے۔ حتیٰ کہ اگر اس میں غاصب ریاست کی قوتوں کے خلاف عسکری قوت بھی استعمال کرنا پڑجائے، تب بھی وہ جدوجہد ایک تحریکِ مزاحمت ہی رہتی ہے، کسی صورت میں بھی اسے ’دہشت گردی‘ نہیں کہا جاسکتا اور نہیں کہا جاتا۔۔ اس جائز اور فطری حق کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر (دفعہ ۱، شق ۲ اور دفعہ ۵۵) اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں، خصوصاً قرارداد نمبر۱۵۱۴ (xv) ۱۹۶۰ء جسے Declaration on Granting Independence to Colonial Countries and People (نوآبادیات اور وہاں کے لوگوں کو آزادی عطا کرنے کا فرمان) قرار دیا ہے اور جس میں ملک ہی نہیں، ایک متعین علاقے کے عوام کو بھی نوآبادیاتی یا قابض قوتوں کے خلاف جدوجہد کا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح جنرل اسمبلی کی دوسری اہم قرارداد نمبر ۲۶۲۵ (xxv) ۱۹۷۰ء ہے جس کا عنوان ہے:
Declaration on Principles of International Law concerning Friendly Relations and Cooperation among States.
ریاستوں کے مابین دوستانہ تعلقات اور تعاون سے متعلقہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ۔
یہ دونوں قراردادیں اب بین الاقوامی قانون کا تسلیم شدہ حصہ ہیں۔ اسی طرح International Covenant on Civil and Political Rights (شہری اور سیاسی حقوق کا عالمی اقرار نامہ ) اور International Covenant on Economic, Social and Cultural Rights (معاشی ، سماجی اور ثقافتی حقوق کا عالمی عہد نامہ )۔
دفعہ ۱، شق ۱ میں کہا گیا ہے کہ:
.....all people have the right of self determination. By virture of that right they freely determine their political status and freely pursue their economic, social and cultural development.
تمام اقوام کو حق خود اختیاری حاصل ہے ۔ اپنے اس حق کی وجہ سے وہ اپنی سیاسی حیثیت کو آزادانہ طور پر متعین کرتے ہیں اور اپنی معاشی ، سماجی اور ثقافتی ترقی کے لیے آزادانہ جستجو کرتے ہیں۔
اس جدوجہد کے دوران اگر قابض قوت ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے اور اقتدار کی شکل وہ ہوجاتی ہے، جسےجارحانہ اور جنگ جویانہ قبضہ (Belligerent Occupation) کہتے ہیں، تو اس کے مقابلے کے لیے سول نافرمانی (Civil Disobedience) اور جائز قوت (Legitimate Force) کا استعمال بھی تحریکِ مزاحمت کا حق ہے اور اسے قانون کی اصطلاح میں Right to Self Defence (ذاتی تحفظ کا حق)تسلیم کیا جاتا ہے۔ تھامس جیفرسن [۱۷۴۳-۱۸۲۶ء] کی قیادت میں امریکی جنگ ِ آزادی سے لے کر آئرلینڈ، الجزائر، کینیا، جنوبی افریقا، غرض سو سے زیادہ ممالک کی آزادی کی تحریکات کا شمار اسی ذیل میں ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثالیں جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور، بوسنیا، کوسووا، فلسطین اور کشمیر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون، طاقت کے ہراستعمال کو تشدد اور ’دہشت گردی‘ قرار نہیں دیتا۔ مبنی برحق جنگ، جو دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور آزادی اور حقوق کے لیے مثبت جدوجہد بھی، ایک معروف اور معلوم حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دفاعی جنگ اور حصولِ آزادی کے لیے اجتماعی طور پر قوت کا استعمال اس کی واضح مثالیں ہیں۔ حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں، مجلسِ اقوامِ متحدہ نے ان کی تائید کی اور ان اقوام کے حصولِ آزادی کے بعد انھیں آزاد اور جائز مملکت تسلیم کیا ہے۔بین الاقوامی قانون کا ایک ماہر کرسٹوفر او کوے (Christopher O. Quaye) نے اس اصول کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:
تقریباً تمام ہی آزادی کی تحریکوں میں ایک لازمی عنصر طاقت کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں جس تسلسل سے آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کچھ کو جرأت مند قرار دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طاقت کے عنصر کو جائز قرار دیتی ہے۔ (Liberation Struggle in International Law، فلاڈلفیا، ٹمپل یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۱ء، ص ۲۸۲)
اسی مصنف نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ:
دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد ایک جیسی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ (ایضاً، ص ۱۷)
نیز یہ کہ:
اقوامِ متحدہ کے تمام ادارے جس ایک چیز پر متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ حقِ خود ارادی کی ہرجدوجہد قانونی اور جائز ہے۔ (ایضاً، ص ۲۶۱)
بین الاقوامی اُمور کے وہ ماہر جو اس پوزیشن کو اتنے واضح الفاظ میں قبول نہیں کرتے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قوت کے ہراستعمال کو دہشت گردی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔
بین الاقوامی تعلقات کی پینگوئن ڈکشنری میں اس بات کو یوں ادا کیا گیا ہے:
دہشت گردی کے مسئلے پر ممانعت کرنے والا کوئی خصوصی معاہدہ تیار نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے حوالے سے اس کی تعریف میں مسائل ہیں۔ ایک آدمی، ایک کے لیے ’دہشت گرد‘، دوسرے کے نزدیک ’آزادی کا سپاہی‘ ہے، اسی لیے بین الاقوامی قانون ابھی تک اس عمل کا احاطہ نہیں کرسکا ہے۔ (The Penguin Dictionary of International Relations، از گراہم ایونز، رچرڈ نیون ہیم، ،ص ۱۷۷)
تاہم، اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حق خود ارادیت آج ایک مسلّمہ حق ہے، جس کا تعلق ایک علاقے کے عوام کے اس حق سے ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں:
سیاسی حق خود ارادی کے اصولوں کے تحت لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا اپنے طریقے کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہ تصور ۱۷۷۶ء کے [امریکی] اعلانِ آزادی اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے اعلان حقوقِ انسانی میں مضمر ہے۔ اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر یہ کوشش کی ہے کہ اس تصور کو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرے اور اس طرح اسے محض ایک تمنا نہیں بلکہ قانونی حق اور مثبت فرض قرار دے۔ (ایضاً،ص ۴۷۷-۴۷۸)
اس بحث کی روشنی میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کا کوئی تعلق دہشت گردی سے نہیں ہے اور سیّد صلاح الدین کو ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دے کر امریکا نے بین الاقوامی قانون اور عالمی عرف کے اصولوں سے صریح انحراف کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح امریکا نے سیّد صلاح الدین کو جس قافلۂ حُریت میں شامل کر دیا ہے، وہ مختلف اقوام کی جدوجہد ِ آزادی کے حوالے سے پہلے امریکی صدر جیفرسن سے لے کر نیلسن منڈیلا، جومو کنیاٹا، موگابے، عبدالقادر الجزائری، سبھاش چندربوس اور بھگت سنگھ وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔
امریکا کے رویے کے تضادات کی ایک اور چشم کشا مثال خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں اس کا رویہ ہے، جس پر گجرات کے فسادات میں ۲ہزار معصوم مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل کی سرپرستی کے الزام کے تحت، امریکا میں اس کے داخلے پر ۲۰۰۵ء میں پابندی لگائی گئی تھی، اور جو ۲۰۱۴ء تک جاری رہی۔ ان ۹برسوں کے دوران میں باربار کوشش کے باوجود مودی صاحب کو امریکا کا ویزا ’دہشت گردی‘ کی سرپرستی کے الزام کی وجہ سے نہیں دیا گیا تھا، لیکن جب ۲۰۱۴ء میں وہ وزیراعظم منتخب ہوگئے تو دامن کے ان تمام خونیں دھبوں سمیت نہ صرف ان کو ویزا دے دیا گیا، بلکہ وہ بڑے طمطراق سے ہرسال امریکا کے دورے کر رہے ہیں۔ وائٹ ہائوس میں ان کا استقبال ہورہا ہے، امریکی پارلیمنٹ سے وہ خطاب کر رہے ہیں اور اب انھیں جون ۲۰۱۷ء میں سیّد صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کا تحفہ بھی دےدیا گیا ہے، جس پر وہ اور بھارت کی سیاسی قیادت بغلیں بجارہی ہے، اور ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہی ہے۔ البتہ، کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران بھارت کو کوئی گھاس نہیں ڈالی، بلکہ ’پیرس معاہدہ‘ اور ’ماحول کی حفاظت کے مسئلے‘ پر مودی پر الزام لگایا گیا کہ بھارت نے اس معاہدے کے تحت ایک ارب ڈالر اینٹھ لیے ہیں۔ لیکن اب بھارت جو کہ امریکا سے پچھلے پانچ برسوں میں ۱۵؍ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا ہے اور چوں کہ پھر مودی صاحب نے امریکا آنے سے پہلے دو ارب کے ۲۲؍امریکی ڈرون (گارڈین، ایم کیو ۹بی) خریدنے کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ یوں ٹرمپ اور مودی شیروشکر ہیں۔
ایک بھارتی اسکالر وجے پرشاد (Vijay Prashad)نے جو Left World Book کے چیف ایڈیٹر ہیں ، الجزیرہ ڈاٹ کام ۲۷جون ۲۰۱۷ء پر شائع شدہ اپنے مضمون Modi and Trump: When the Titans of Hate Meet (مودی اور ٹرمپ: جب نفرت کے دیوتا ملتے ہیں) میں، امریکاکی بے اصولی کا تذکرہ اس طرح کیا ہے:
نو برس تک مودی پر امریکا میں داخلے پر پابندی تھی۔ [لیکن] امریکی مفادات کی آبیاری کے لیے مودی سے راہ و رسم کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں گجرات کے خونیں فسادات کے سرپرست کے لیے مودی پر الزامات بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ گویا کہ ’عملیت پسندی‘ (Pragmatism) کا مطلب یہ ہوا کہ اخلاقیات جائے جہنّم میں۔
مودی اور ٹرمپ نہ صرف ایسی تحریکوں کی رہنمائی کر رہے ہیں جن کی بنیاد نفرت پر ہے، بلکہ وہ مادہ پرستی کی ایک قدیم فیشن کی شکل کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ لیکن مودی ٹرمپ کے لیے جو کر سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ مزید امریکی ہتھیار خرید لے۔ بھارت دنیا میں ہتھیاروں اور اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، جب کہ امریکا دنیا میں اسلحے کاسب سے بڑا فروخت کنندہ ہے۔
کشمیر کی تحریکِ آزادی کے مردِ مجاہد سیّد صلاح الدین کو آج امریکا دہشت گرد قرار دے رہا ہے اور کشمیری عوام پر بھارتی مظالم اور تشدد کے باب میں اس کی آنکھیں بند اور اس کے لب خاموش ہیں۔ ہم امریکی صدر اور امریکی عوام کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ انسانی حقوق اور ایک مظلوم قوم کے حق خود ارادیت کے سلسلے میں ماضی میں ان کا موقف کیا رہا ہے؟ آج جو کچھ کیا جا رہا ہے، ذرا اس کا مقابلہ خود ’امریکی کانگریس کی سب کمیٹی براے ایشیا اینڈ پیسفک‘ کی یکم جون ۱۹۹۳ء کی رپورٹ سے کرلیں، کہ اس تحریک ِ آزادی کے بارے میں کمیٹی کا فیصلہ کیا تھا، اور آج اسے کس رنگ میں پیش کیا جارہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج ۲۰۱۷ء کی تحریک بھی اسی تحریک کا تسلسل اور اس کا حقیقی فراز ہے: ’’تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘:
مسئلۂ کشمیر انسانی حقوق کے حوالے سے، بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کی امکانی وجہ کے طور پر خطرناک حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک [اہم] مسئلے کے طور پر بھارت اور امریکا کے تعلقات میں خلل ڈال رہا ہے۔ یہ مسئلہ گذشتہ چندبرسوں میں فوری توجہ اور کارروائی کا متقاضی ہو گیا ہے۔
بھارت کو جموں اور کشمیر میں ایک پُر زور ، بنیادی طور پر مقامی بغاوت کا سامنا ہے اور ایسی علامات کم ہی ہیں جن سے یہ اشارہ ملے کہ جموں وکشمیر کے عسکریت پسند یا بھارتی حکومت اس جدوجہد سے عاجز آ رہے ہیں۔ اس بات کا امکان بالکل نہیں ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک فریق دوسرے پر فوجی حل ٹھونس سکے، یا پھر مسلسل خوں ریزی ہی قابلِ قیاس مستقبل کا سب سے زیادہ ممکنہ منظر نامہ لگتا ہے۔
ذیلی کمیٹی نے بھارتی حکومت اور کشمیری عسکریّت پسندوں دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایک منصفانہ اور پایدار سیاسی حل کے لیے جستجو کریں، لیکن ساتھ ہی کمیٹی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ دہلی اور کشمیر یوں کے درمیان کسی حقیقی سیاسی مکالمے کے امکانات حوصلہ شکن ہیں۔ عوامی سطح پر ، دہلی کے بارے میں لگتا ہے کہ اسے یقین ہے کہ بغاوت بنیادی اور اوّلین طور پر پاکستانی دخل اندازی کا شاخسانہ ہے۔ اگرچہ شواہد اس نظریے کی تائید نہیں کرتے۔ کمیٹی ایسی کسی قابلِ فہم حکومتی حکمت عملی سے بے خبر ہے جس کا مقصد کشمیری عوام کی جائز سیاسی شکایات کا ازالہ کرنا ہو۔
اس معاملے پر ایک روز افزوں اتفاق راے سامنے آ رہا ہے کہ بھارتی مسلح افواج، کشمیرمیں باغیوں اور شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں ، سرسری سماعت کے بعد سزاے موت، قیدیوں پر تشدد ، منظم طریقے سے آتش زنی، اور طبی عملے اور انسانی حقوق پر نظر رکھنے والوں پر حملوں میں حالیہ مہینوں میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ذیلی کمیٹی نے بھارتی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ذمہ داروں کو دیوانی اور فوج داری سزائیں دے۔ اور مسلح افواج کے ان ارکان کی فہرستیں مہیا کرے جنھیں ان کے غیر قانونی اقدامات پر سزائیں دی گئی ہیں۔
ارکان اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ سینیر بھارتی سیاست دانوں کا تشدد پھیلانے میں کردار رہا ہے اور یہ کہ ایسے پولیس افسران بھی ہیںجو بلوائیوں کی کاروائیوں کے شکار معصوم لوگوں کو تحفظ دینے کے بجاے ایک طرف کھڑے رہے۔( تشدد کے شکار ) ان لوگوں کی اکثریت مسلمان تھی۔ اگر اس قسم کا تشدد جس نے دسمبر اور جنوری میں ملک ہلا ڈالا تھا جاری رہا تو بھارتی سیکولرزم کی بنیادیں تک مشکوک ہو سکتی ہیں۔ ذیلی کمیٹی کے ارکان اپنے اس عقیدے اور یقین کے اظہار میں قطعاً مبالغہ نہیں کر رہے کہ بھارت میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے مذہبی اور سیاسی رواداری قطعی طور پر ضروری ہے۔ (US Parliamentry Sub Committee on Asia and Pacific )
اصل سوال یہ ہے کہ جو کچھ کشمیر میں قابض بھارتی حکمران اور افواج کر رہی ہیں، ان کی روشنی میں دہشت گرد کون ہے؟ حکمران اور افواجِ ہند دہشت گرد ہیں یا کشمیر کے مظلوم انسان اور مزاحمت کرنے والے بڑی حد تک غیرمسلح نوجوان؟ خود بھارتی حکومت کے ذمہ دار افراد کے مطابق مسلح افراد کی تعداد آج چندسو سے زیادہ نہیں اور چند ہزار سے زیادہ کبھی بھی نہ تھی، جب کہ وہاں بھارتی فوج اور پیراملٹری جوانوں کی تعداد ۷ لاکھ اور پولیس کی تعداد ۵ لاکھ ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے فرمان میں سیّد صلاح الدین کی ۲۷سالہ جدوجہد میں متعین طور پر صرف ایک واقعے کا ذکر ہے، جس میں ۱۷؍افراد صرف زخمی ہوئے تھے۔ اس کے مقابلے میں ٹرمپ صاحب اور امریکی محکمہ خارجہ کا ان تمام مظالم اور ریاستی دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں کیا ارشاد ہے، جن کا اعتراف امریکی پارلیمنٹ کی کمیٹی کی اس رپورٹ میں کیا گیا ہے، اور جن میں گذشتہ برسوں کے دوران دسیوں گنا اضافہ ہوگیا ہے، جس کا اعتراف خود اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے تک کر رہے ہیں؟
نوجوان بُرہان مظفر وانی [۱۹۹۴ء داداسرا، ترال- ۸جولائی ۲۰۱۶ء بوم ڈورا، کوکرناگ] کی شہادت سے تحریک کے جس دور کا آغاز ہوا اور جس کے دوران تین سو سے زائد معصوم بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں، تین ہزار سے زیادہ بینائی سے محروم ہوچکے ہیں، زخمیوں کی تعداد ۱۲ہزار سے متجاوز ہے اور حراست میں لیے جانے والوں اور لاپتا ہوجانے والوں کی تعداد ۲۰ہزار سے زائد بتائی جارہی ہے۔ کئی مہینے مسلسل ہڑتال رہی ہے، ۶۰دن سے زیادہ عرصے تک کرفیو مسلط رہا ہے، لیکن ایسے ہرظلم اور تشدد کے باوجود تحریکِ آزادی شباب پر ہے۔ ہر کوئی اعتراف کر رہا ہے کہ یہ ایک عوامی تحریک ہے۔ ہرگھر اس میں شریک ہے، اسکولوں کے بچوں، بچیوں سے لے کر ہرطبقے سے متعلق افراد سبھی دل و جان سے شرکت کرر ہے ہیں۔ بھارتی اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق فوجی، پولیس افسراور سول حکمران کھلے اور چھپے اعتراف کررہے ہیں کہ پوری قوم بغاوت پر آمادہ ہے۔ اس دوران دو ضمنی انتخاب ہوئے اور ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب ۷ فی صد اور ۲ فی صد رہا۔ قابض بھارتی حکومت حیران ہے کہ لوگوں کے دلوں سے ریاستی جبر اور گولی کا خوف بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے اور لوگ جان کی بازی کھیلنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھارتی اخبار The Economic Times کے نمایندے نے۸ مئی ۲۰۱۷ء کے شمارے میں تعجب سے لکھا ہے:
جموں اور کشمیر آج عسکریت پسندی کا جو نمونہ پیش کر رہے ہیں، اس نے ۰۳-۲۰۰۲ء کے بڑے عسکری حملوں کے تقریباً ۱۵ برس کے وقفے کے بعد ریاست کو ایک پُرتشدد چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ اپنی بدلتی ہوئی حکمت عملی اور سماجی تصرف کی بدولت عسکریت پسندی، پولیس کے مشاہدے میں، نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہے، بلکہ بڑے پیمانے پر اپنی طرف توجہ بھی مبذول کروا رہی ہے۔ لوگ عسکریت پسندوں کو اپنے سیاسی نظریے کا محافظ خیال کرتے ہیں۔
اسی طرح بھارتی اخبار The Wire میں عدنان بھٹ نے، جو دہلی اور سری نگر سے رپورٹنگ کرتے ہیں ، لکھا ہے:
لڑائی سے فرار کا راستہ اختیار کرنے کے بجاے، نوجوان مرد اور لڑکے مقابلے کی جگہوں پر بھاری ہتھیاروں سے لیس مسلح افواج کا پتھروں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہجوم در ہجوم جمع ہو جاتے ہیں۔ اس سیاسی تعلق نے کشمیر میں اکیسویں صدی کی نوجوان نسل کے غصے کو اور بھی ہوا دی ہے۔
حکومت اور علیحدگی پسنددونوں سے غیر مطمئن ہو کر ، مقامی عسکریت پسند نوجوان، جن میں سے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اپنی پُرآسایش زندگیاں ترک کر کے احتجاج کنندگان کی حمایت میں نکل آئے ہیں، ان کو ایسے لوگوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو کشمیری نوجوانوں کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ لہٰذا، بھارتی فوج اور پولیس سے مقابلوں کے دوران موت کا شکار ہونے سے بچ نکلنے کے لیے وہ ان کی مدد کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران، چاہے اس میں ان کی اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جائے، واحد درست کام لگتا ہے۔
گذشتہ برس (۲۰۱۶ء)سے، عسکریت پسندی کی عوامی حمایت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کئی پولیس افسروں نے اعتراف کیا ہے۔ پولیس کے ایک سینیرعہدے دار نے دی وائر کو بتایا: میں کہوں گا گذشتہ سال سے حالات بہت زیادہ بدل گئے ہیں، خصوصاً جنوبی کشمیر میں۔ ہمیں کچھ خفیہ اطلاعات ملی ہیں کہ کچھ نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا ان نوجوانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔
وجوہ جو بھی رہی ہوں، نوجوان عسکریت پسندوں کو اپنے نصب العین کے لیے حتمی قربانی دینے کے فیصلے نے کشمیری عوام اور خصوصاً کشمیری نوجوانوں میں ان کے مداحوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔
یہ تحریکِ مزاحمت ایک فطری، قومی اور عوامی تحریک ہے۔ اسے دہشت گردی سمجھنا یا کہنا، خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ سیّد صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد کہہ کر اس تحریک کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ عوام کی آواز کو سنا جائے اور ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔
پاکستان، امریکا اور پوری عالمی برادری کا فرض ہے کہ ان مظلوم انسانوں کا ساتھ دیں، ان کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائیں، ظالموں کے ہاتھ کو روکیں اور خطے کو حقیقی امن کی طرف لانے کے لیے سیاسی عمل کو متحرک و مؤثر کریں۔ ’دہشت گرد سازی‘ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حالات کو بگاڑنے کا مجرب نسخہ ہے، اصلاحِ احوال کا نہیں۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت ہے کہ وہ کبھی ’شر‘ سے ’خیر‘برآمد کرتا ہے:
عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۱۶) ہوسکتا ہے کہ تمھیں ایک چیز ناگوار ہو اور وہی تمھارے لیے بہتر ہو، اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند ہو اور وہی تمھارے لیے بُری ہو، اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
امریکی حکومت کا یہ اقدام اور بھارتی حکومت کا اس پر فخرو اطمینان، اس امر کا پیش خیمہ ہے کہ کشمیر کے جس مسئلے کو ’شملہ معاہدے‘ (۲جولائی ۱۹۷۲ء) کا سہارا لے کر بھارت نے محض ’دو طرفہ‘ (Bilateral) قضیہ بنانے کی کوشش کی تھی، امریکا کے اس اقدام (۲۶ جون ۲۰۱۷ء) نے اسے پھر عالمی مسئلہ بنادیا ہے،جو وہ پہلے دن سے تھا۔ پنڈت نہرو نے ۸جولائی ۱۹۴۹ء کو اپنے بیان میں مسئلۂ کشمیر کو ’ایک عالمی مسئلہ‘(A World Problem) کہا تھا۔
آج اس اقدام کی روشنی میں نہ صرف اس مسئلے کو بین الاقوامی مسئلے کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے، بلکہ بھارت کے لیے دوبارہ شملہ معاہدے کا نام لے کر اسے محض دو ملکوں کا قضیہ قرار دلوانا ممکن نہیں رہے گا۔
امریکا کے اس حالیہ اقدام کی وجہ سے پاکستانی حکومت اور پاکستانی قوم کی ذمہ داری دوچند ہوگئی ہے۔ اس اقدام پر وزارتِ خارجہ کا رِدّعمل کمزور اور روایتی تھا۔ صدر آزاد کشمیر جناب مسعود خان اور چودھری نثار علی خاں صاحب نے کھل کر اور دلیل کے ساتھ بات کی ہے، لیکن جناب وزیراعظم، مشیرخارجہ اور فوج کا رِدّعمل یہ سطور لکھنے تک سامنے نہیں آیا۔ سب سے زیادہ پریشان کن خاموشی پاکستان کی کشمیر کمیٹی کی ہے، جسے اپنے فرض کی ادایگی کا کوئی احسا س ہی نظر نہیں آرہا۔
ہماری نگاہ میں یہ وقت ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ اور خصوصیت سے اس کی قومی سلامتی کمیٹی فوری طور پر تمام معاملات پر غور کرے اور پاکستان کے تاریخی موقف اور وقت کی ضرورت کی روشنی میں کشمیر پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی کو مرتب اور اس پر مؤثر انداز میں نقشۂ کار وضع کرنے اور اس نقشے کے مطابق کارکردگی کو یقینی بنانے کا اہتمام کرے۔
ہم اس موقعے پر اپنی ان معروضات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں، جو ہم مسئلۂ کشمیر کے سلسلے میں باربار قوم کے سامنے پیش کرچکے ہیں۔ لیکن بصد افسوس کہ تھوڑے بہت ارتعاش کے سوا کوئی حقیقی پیش رفت (break through ) نظر نہیں آرہی۔ بہرحال، ایک بار پھر پوری دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ قومی پالیسی کی تجدید اور سب سے بڑھ کر تنفیذ کی درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کا مقصد، پاکستان اور علاقے کے مسلمانوں کے لیے امن اور حقیقی مفادات کا حصول ہونا چاہیے___ اس سلسلے کے بنیادی حقائق یہ ہیں:
۱- مسئلۂ کشمیر، ریاست جموں و کشمیر کے سوا کروڑ سے زائد مسلمانوں کے ایمان، عزت، آزادی اور سیاسی اور تہذیبی مستقبل کا مسئلہ ہے۔ یہ تقسیم ہند [۱۹۴۷ء] کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ یہ محض دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں ہے، اس لیے ہماری سیاسی ترجیحات میں اسے اوّلیت دینا چاہیے۔
۲- مسلمانانِ جموں و کشمیر نے اپنی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے اس مسئلے کو زندہ رکھا ہے، اور اس وقت اسے اس مقام تک پہنچا دیا ہے، جہاں بھارت اور دنیا کے دوسرے ممالک یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لیکن جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ، اس مسئلے کے فریق پاکستان، بھارت اور اقوام متحدہ بھی ہیں۔ پاکستان کا فرض ہے کہ ایک فریق کی حیثیت سے مسئلے کو لے کر اُٹھے اور ہرمیدان میں اس کے حل کے لیے سرگرم ہو۔ تحریکِ آزادی کی مدد کے ذریعے بھی، اور عالمی راے عامہ کو منظم اور مسخر کر کے بھی۔
۳- پاکستان کا اصل موقف یہ ہے کہ مسئلۂ کشمیر کا حل صرف ایک ہی ہے، اور وہ ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو پوری جرأت، تسلسل اور دانش مندی سے پیش کرے۔ پاکستان یہ بات بھی واضح کردے کہ الحاق کے فیصلے کے بعد، پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر میں تعلقات کی نوعیت، نظم و نسق اور انتظام و انصرام کا نقشہ اور خود اختیاری کی شکل و نوعیت کیا ہو؟ یہ تمام اُمور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق طے ہوں گے۔
۴- پاکستان کا فرض ہے کہ تحریک ِ آزادیِ کشمیر کی بھرپور مدد کرے اور اس کے اعلان میں شرمندگی نہ محسوس کرے۔ پاکستان نے کشمیر کی خاطر گذشتہ ۷۰برسوں میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ آج جب کشمیر کے نوجوان کشمیر اور پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں، پاکستان کی ریاست اور پاکستان کے عوام کا فرض ہے کہ اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی مدد کریں اور ان کی ہرضرورت کو پورا کریں۔
۵- اسی طرح اس جدوجہد میں آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام پر بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کی طرح آزاد کشمیر کی حکومت بھی اپنے اصلی مشن کو بھول چکی ہے۔ وہ محض آزاد علاقے کی حکومت نہیں بلکہ پوری ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے، اور مقبوضہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی اس کا اوّلین مقصد ہے۔ اسی لیے اسے ’بیس کیمپ‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ اب ضرورت یہ ہے کہ گروہی سیاست سے بالاتر ہوکر آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام، تحریک میں بھرپور حصہ لیں اور اپنی ترجیحات کو یکسر بدل کر تحریکِ آزادی کو اس کے منطقی اور فطری نتیجے تک پہنچانے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔
۶- حکومت ِ پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ یہ مقصد محض سیاسی اور سفارتی جدوجہد سے حاصل نہیں ہوسکتا، مگر اس کے باوجود سیاسی اور سفارتی مہم بہت اہم ہے اور اب تک اس کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جاسکے ہیں۔ محض چند وفود باہر بھیجنے سے بات نہیں بنے گی، اس کے لیے بڑے ہمہ گیر، منظم اور مؤثر کام کی ضرورت ہے، جس کے تحت پوری دنیا میں ہرعلاقے کے حالات کے مطابق، تحریک ِ آزادیِ کشمیر کے تعارف اور اس کی تائید کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہماری وزارتِ خارجہ بالعموم اس مقصد میں ناکام رہی ہے۔
اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کشمیر کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے وزارتِ خارجہ کی تنظیمِ نو ہو اور کشمیر ڈیسک سب سے اہم ڈیسک ہو۔ ہراس ملک میں جہاں پاکستانی سفارت خانہ ہے، کشمیر سیل (Cell) قائم کیا جائے۔ علم اور صلاحیت رکھنے والے افراد کو، جو کشمیر کے لیے صحیح جذبہ رکھتے ہوں، اس کام پر لگایا جائے اور اس طرح عالمی سطح پر ایک مؤثر تحریک چلائی جائے۔
۷- پوری پاکستانی قوم کو حالات سے آگاہ رکھنا اور قومی سلامتی کے لیے جذبۂ جہاد سے سرشار کرنا بھی اس پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے۔ جب تک پوری قوم کو اس تحریک کے لیے متحرک نہیں کیا جائے گا، کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہراسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں، ہرشہر، قصبے اور دیہات میں، ہرمسجد اور مدرسے میں، ہرکارخانے اور بازار میں، جہادِ کشمیر سے لوگوں کو متعارف کرایا جائے اور اس میں شرکت کے لیے مال سے اور جان سے، ہرصورت میں آمادہ کیا جائے۔ قوم میں حقیقی جذبہ موجود ہے، لیکن اسے آج تک صحیح انداز میں متحرک و منظم نہیں کیا گیا۔
۸- حکومت پاکستان کو اپنا بجٹ بھی ان ترجیحات کی روشنی میں ازسرِنو مرتب کرنا ہوگا۔ جہادِکشمیر کی ضروریات کو اوّلیت دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوکلیر پاور کی مناسب ترقی، فوج کو چوکس رکھنا اور قوم کے نوجوانوں کو تیار کرنا ضروری ہے۔ اس بات کا خطرہ ہے کہ جب کشمیر میں حالات بھارت کی گرفت سے بالکل نکلنے لگیں گے تو وہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کرے گا۔ کشمیر پالیسی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ پاکستان جنگ کے خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو قوم جنگ سے خائف رہی ہے، وہ اپنی آزادی سے بھی محروم ہوگئی ہے اور جو قوم جنگ کے لیے تیار رہی ہے، وہی اپنے ایمان، عزت و آزادی کو محفوظ رکھ سکی ہے۔
سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن[م: اپریل ۱۹۹۴ء] نے بہت صحیح کہا تھا کہ ’’ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قوت کے استعمال سے دست برداری ، دراصل دشمن کو اپنے خلاف قوت کے استعمال کی دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘، بلکہ نکسن نے تو یہاں تک کہا ہے: ’’صرف تیار ہی نہ رہو، مخالف کو یہ پیغام بھی دے دو کہ تم ہرقوت کے استعمال کے لیے تیار ہو، یہ وہ چیز ہے جو دشمن کو تم پر دست درازی سے روکے گی‘‘۔
اسی بات کو امریکی پالیسی ساز ہنری کسنجر نے دوسرے انداز میں کہا ہے: ’’اگر امن کے معنی محض جنگ سے بچنا ہی لیے جائیں، اور یہ چیز ایک قوم یا بہت سی اقوام کے مجموعے کا بنیادی مقصد بن جائے، تو سمجھ لو عالمی سیاسی نظام سب سے زیادہ بے رحم اور سنگ دل ملک کے رحم و کرم پر ہوگا‘‘۔ اس لیے جنگ سے بچنے کا بھی سب سے مؤثر راستہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہے۔
۹- بھارت پر مؤثر دبائو ڈالنے کے لیے چار ہی اہم طریقے ہیں اور ان چاروں کو مؤثرانداز میں اور مربوط منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال ہونا چاہیے:
۱۰- اس عظیم جدوجہد کو اپنی اصل بنیادوں پر قائم رکھنے اور کامیابی سے ہم کنار کرانے کے لیے جہاں یہ امر ضروری ہے کہ بھارت اور اس کے ہم نوائوں کی سازشوں سے نہ صرف باخبر رہا جائے، بلکہ پورے اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ ان کا بھرپور مقابلہ بھی کیا جائے۔ تحریکِ آزادیِ کشمیر، الحمدللہ ، مخلص نوجوانوں اور تجربے کار مخلص قائدین کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کے درمیان بے اعتمادی پیدا کرنے، غلط فہمیوں کو ہوا دینے اور خلیج ڈالنے کی خطرناک کوششیں شروع ہوچکی ہیں، جن سے باخبر رہنا اور مکمل باہمی اعتماد کے ذریعے انھیں ناکام بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب غاصب اور جابر قوتیں، اپنے بہیمانہ جبر اور عریاں جارحیت کے ہتھیاروں سے، مزاحمت اور آزادی کی تحریکوں کو کچلنے میں ناکام ہوجاتی ہیں، تو پھر وہ لازوال قربانی کی تاریخ رکھنے والی تحریکوں کے مختلف عناصر کو ایک دوسرے کے خلاف بدگمان اور صف آرا کرنے کی مذموم کوششیں کرتی ہیں۔ ظالموں کی ان دونوں حکمت عملیوں کا پوری سمجھ داری سے مقابلہ کرنے کے لیے: اتفاق و اتحاد، تحمل و دُور اندیشی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسے کی ضرورت ہے۔ اللہ کی تائید آزادی کے لیے کوشاں تحریکوں کو ان شاء اللہ ثمرآور کرے گی۔ ضرورت ہے کہ جدوجہد کو پوری قوت، بہترین حکمت عملی اور مکمل یک جہتی کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ ان شاء اللہ کامیابی اہلِ کشمیر کے قدم چومے گی۔
۱۱- مندرجہ بالا خطوط پر مرتب کردہ کشمیر پالیسی کی کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کے نفاذ کے لیے بھی ایک مؤثر مشینری وجود میں لائی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ پالیسی اور اس کی تنفیذی مشینری، قومی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کو اس بارے میں مناسب ابتدائی اقدامات کرنے چاہییں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کا کردار بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کام کے لیے ایک قومی تحریک کی ضرورت ہے۔
جس طرح کشمیر کے نوجوانوں نے چند برسوں میں وہاں کی فضا تبدیل کر دی ہے ، اسی طرح اگر پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام اپنے فرض کی ادایگی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، تو حالات بہت کم وقت میں بدل سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ صرف تحریکِ آزادیِ کشمیر اور بالآخر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی شکل میں ہی نہیں ہوگا، بلکہ قوم کو نئی زندگی اور نیا جذبہ ملے گا، اور اس نئی زندگی اور نئے جذبے سے پاکستان کو ایک حقیقی اور مضبوط اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔ یہی تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد تھا اور یہی تحریکِ کشمیر کی بھی قوتِ محرکہ ہے۔
اپریل ۲۰۱۷ء میں پیش آنے والے دو انتہائی تکلیف دہ اور اسلامی تصور عدل اور انسانی اخلاقی اقدار کے منافی واقعات نے انتہا پسندی اور دینی مدارس سے اس کے تعلق کے حوالے سے غوروفکر کے لیے بعض نئے زاویوں کو نمایاں کر دیا ہے ۔
اب تک اخباری اطلاعات کے مطابق ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے مردان کی ولی خان یونی ورسٹی میں رُونما ہونے والے افسوس ناک واقعے میں زدوکوب کرنے اور آخر کار سفاکانہ طور پر قتل کا ارتکاب کرنے والوں میں سے کوئی ایک فرد بھی کسی مذہبی فرقے سے تعلق نہیں رکھتا تھا اور نہ مقتول کسی مسلکی گروہ کا حصہ تھا۔
اسی طرح سندھ کے میڈیکل کالج میں تعلیم پانے والی طالبہ یا اس کے بھائی یا والدین کا کوئی تعلق کسی مذہبی یا انتہا پسند گروہ سے نہیں تھا، بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق لڑکی کا گھرانا لبرل شمار کیا جاتا تھا۔ زمینی حقائق کچھ بھی ہوں، ملک کے میڈیا اور لبرل حلقوں کا وتیرا ہے کہ گذشتہ دوعشروں سے ہرتخریبی واقعہ اور خصوصیت سے ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے ہر واقعے کا رشتہ ـ ’مذہبی شدت پسندوں‘ سے جوڑا جاتا رہا ہے اور تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ ’’ناموسِ رسالتؐ کے قانون کو تبدیل کیا جائے، تعلیمی نصاب سے اسلام کو خارج کیا جائے اور ریاست اور دین کے رشتے پر نظرثانی کرکے پاکستان کو ایک سیکولر قومی ریاست بنایا جائے‘‘۔
ان حالیہ واقعات پر برقی ذرائع ابلاغ اور اخبارات میں صحافیانہ نگارشات میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا اگر ان کا تجزیہ کیا جائے، تو مختلف زاویۂ ہاے نگاہ اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔
اولاً: اس بات کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا اصل ذمہ دار ’مذہب‘ اور مسلکی فرقہ پرستی ہے۔ چنانچہ جب تک اسلام کو یورپی تجربے کی روشنی کے مطابق ایک ’ذاتی مذہب‘ قرار دے کر زندگی کے تمام شعبوں سے خارج نہیں کیا جائے گا ’ـمذہبی انتہا پسندی‘ اور’شدت پسندی‘ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ یعنی جس طر ح بھی ہو ’مذہب‘ سے نجات حاصل کی جائے۔ گویا ان دانش وروں کے خیال میں اس وقت جو معاشرتی اور ثقافتی ماحول پاکستان میں پایا جاتا ہے اس میں اسلام ہماری معیشت، معاشرت، ابلاغ عامہ ، تعلیم ، عدلیہ ہر جگہ چھایا ہوا ہے اور یہـ ’مذہبیت‘ ہی ہے جو انتہا پسندی پیدا کرتی ہے۔
تجزیہ اور تحقیق کا دوسرا بیانیہ ان صحافیانہ کالموں میں ملتا ہے، جو جملہ واقعات کو یکجا کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ انتہا پسندی ، اور شدت پسندی محض ’مذہبی طبقے‘ میں نہیں ہے ، یہ ہر جگہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم گاہوں میں ان طلبہ و طالبات کا جن کا کوئی آس پاس کا تعلق بھی’مذہب‘سے نہیں پایا جاتا، اپنے اساتذہ کے ساتھ رویہ ، اپنے والدین کے ساتھ رویہ ،آپس میں گفتگو،سوشل میڈیا پر استعمال کی جانے والی زبان ،ابلاغ عامہ پر ہر لمحہ ’ خبر توڑ‘ (بریکنگ نیوز) سر خیوں میں مسلسل اور بار بار تشدد کو دکھا یا جاتا ہے اور اس طرح انتہا پسندی ذہن اور شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ موجودہ زمانے میں ابلاغِ عامہ کے بیش تر ادارے کسی مثبت رویےکی ترویج اور صحت مندانہ سوچ کی آب یاری سے لاتعلق نظر آتے ہیں، اس لیے محض ’مذہبی‘ فکر کے افراد کو الزام دینا درست نہیں ہے ۔ ہمارا پورا معاشرہ ہی گھر سے لے کر پارلیمنٹ تک تشدد پسندی کا بدترین نمونہ فراہم کرتا ہے ۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے میں صرف عبرت ناک سزاؤں کے نفاذ سے آج تک اصلاح نہیں ہو سکی اور نہ ہو سکتی ہے۔ اسلام خصوصاً اس فکر کے برعکس جو حل پیش کرتا ہے، اس میں سزا کا بھی ایک مقام ہے، لیکن اصلاحِ احوال کے لیے جو حکمت عملی اسلام نے دی ہے، اس میں مرکزی اہمیت جرم اور اس کے اسباب کے انسداد کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اس کے لیے اولیں اہمیت فکری اصلاح کو دیتا ہے، جس کے ذریعے وہ انسان کے کردار،رویے اور طرزِ عمل کو ایک نئی شکل دیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے افراد جو کل تک بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے، اپنی خواتین کو اپنی ملکیت سمجھتے ، اور انتقام کے نام پر مخالف کی لاش تک کی بے حُرمتی کرنے پر فخر کیا کرتے تھے ، وہی لوگ اسلامی اخلاق کے زیر اثر خواتین کی عزت و عصمت کی حفاظت ، عورت اور لڑکی کے عزت و احترام اور قبائلی عصبیت کی جگہ عالمی اخوت و بھائی چارے کے پیغام بر بن گئے۔
یہاں ہمارا مقصود محض یہ نہیں ہے کہ اسلام کی حقیقی عظمت کی طرف اشارہ کیا جائے بلکہ یہ بتانا بھی ہے کہ اسلام، قانون اور سزا کے مقابلے میں تادیب اور تہذیب کے ذریعے تشدد کا انسداد کرتاہے۔یہ قانون اپنے ضوابط کو سدّراہ (deterrence) کے طور پر استعمال کرتا ہے اور بعض حالات میں سخت سزائیں بھی تجویز کرتا ہے ۔ بہرصورت محض سخت سزا دینا یا قوت کا بے مہابا استعمال مسئلے کا حل نہیں ہے۔کیا امریکا کی ان بیس سے زیادہ ریاستوں میں جہاں آج بھی قتل کی سزا پھانسی ہے اور زہریلی گیس یا برقی کرسی پر بٹھا کر موت کے گھاٹ اتارنے کی سزا قانون کا حصہ ہے ، تنہا اس قانون نے قتل کے واقعات کو ختم کردیا ؟ کیا سخت سزاؤںنے شکاگو،ڈیٹرائیٹ، نیویارک ، واشنگٹن اور لاس اینجلس جیسے شہروں میں قتل کے روزانہ بیسیوں واقعات کو روک دیا؟ جس کا مطلب یہ ہے کہ تنہاسخت سے سخت سزا بھی کسی جرم سے نہیں روک سکتی،اس کے لیے کچھ اور عوامل درکار ہیں۔
تجزیے کا تیسرا زاویہ بجا طور پر یہ بات کہتا ہے کہ: سرکاری یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طلبہ میں تشدد پسندی اور دہشت گردی کے ذمہ دار دینی مدارس کے فارغ علما یا ان کے بعض ’فتاویٰ‘نہیں ہو سکتے بلکہ دراصل یہ ہمارے درآمد کردہ نظام تعلیم کی ناکامی کی علامتیں ہیں۔ اس نظام میں تعلیم پانے والے اپنی اصل شخصیت گم کر بیٹھے ہیں۔اخلاقی اقدار سے خالی تعلیم اور بالخصوص گذشتہ تین عشروں میں لبرل ازم کی تحریک نے انھیں اپنی معاشرتی شنا خت سے محروم کردیا ہے۔ مروجہ تعلیم انھیں حصولِ روزگار کے علاوہ زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں بتاتی۔ دینی تشخص ہی نہیں وہ قومی تشخص کو بھی صوبائی عصبیتوں کی نذر کر بیٹھے ہیں ۔ وہ عملاًفضا میں معلق ہیں اور کوئی بھی پُرکشش شے انھیں اپنی طرف کھینچ سکتی ہے ۔ یہ بآسانی اپنے نفسیاتی دباؤ سے نجات کے لیے منشیات کے عادی بن سکتے ہیں۔ یہ لبرل معاشرے میں جنسی بے راہ روی اور نشے کے کاروبارمیں پھنس سکتے ہیں۔ یہ عصبیت کا جنون اور صوبائی آزادی اور قومیت کے زیر عنوان ہر سرکاری کیمپس میں طلبہ کی جماعتیں بنا سکتے ہیں۔ یہ زبان کے نام پر قومیت پرست بن سکتے ہیں۔ غرض اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اگر اپنی اخلاقی اور نظریاتی شناخت سے محروم ہوجائیں اور معاشرتی پہچان کھو بیٹھیں تو انھیں کوئی بھی، کسی قسم کا لالچ دے کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ سرکاری تعلیم انھیں اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور انھیں کسی بھی متاثر کن نعرے کے زیر اثر گھناؤنے سے گھناؤنے کام کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
اس بات میں وزن ہے لیکن ہمارے خیال میں مسئلہ محض ’ثقافتی شناخت‘کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تصورِ حیات ، مقصدِحیات ، طرزِ حیات ، طرزِ عمل اور رویے کو اخلاقی ضابطے کی روشنی میں پروان چڑھانے کا ہے ۔ ہم اس پر آگے بات کریں گے۔
ان تینوں زاویہ ہاے نظر کا جائزہ لیا جائے تو ان میں کچھ نہ کچھ حقائق کا عکس نظر آتا ہے۔ لیکن ہماری نگاہ میں جو بات واضح ہو کر سامنے آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا تعلق کسی مخصوص طبقے یا افراد سے جوڑنا نا انصافی ہے ۔ سیکولر افراد میں بھی اتنی ہی شدت پسندی پائی جاتی ہے، جتنی شدت پسندی کا دعویٰ فرقہ پرست گروہوں کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ گویا یہ ایک ملک گیر مرض ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ ایک عالم گیر متعدی مرض کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک ، سرکاری تعلیم گاہیں ہوں یا کسی خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم یا مسلم افراد، یہ مرض عالمی طور پر سرایت کر گیا ہے ۔ اس کے اسباب محض معاشی نہیں ہیں ، محض غربت نہیں ہے کیوں کہ اعلیٰ تعلیم گاہوں میں طلبہ صرف غریب خاندان سے نہیں آتے۔ اس کے باوجود ان میں بغاوت، سرکشی اور شدت پسندی یکساں طور پر نظر آتی ہے ۔
جہاں تک ناموسِ رسالتؐ کا سوال ہے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ایک باعمل مسلمان ہو یا بے عمل، اقبال جیسا فلسفی ہو، عالم دین اور قانون کا سمجھنے والا ہو، یا محض نسلی مسلمان ہو ، ہر فرد کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی ایک حقیقت ہے ۔ اقبال نے صحیح کہا تھا ع
علامہ اقبال کو جب غازی علم الدین شہید کی پھانسی کی خبر ملی تو ان کا بے ساختہ تبصرہ یہ تھا کہ ’ایک ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا اور ہم باتیں کرتے رہ گئے‘۔ جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں پارلیمنٹ اور سینیٹ نے متفقہ طور پر ایک قانون بنایا ہو ، اس قانون کو نظرانداز کرکے کوئی قانون اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اس لیے کہ قانون سے باہر کسی بھی اقدام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسلام عدل اور قانونی کی حکمرانی کا قائل ہے۔ ایک ملزم کو قانونی ضابطے ( due process of law) کے عمل سے گزار کر ہی اس کے جرم کا تعین کیا جاسکتا ہے، اور جب قانون خود تحقیق کے بعد سزا تجویز کرتا ہو، تو کسی شہری کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے طور پر بغیر تحقیق کے جس پر چاہے ہاتھ اٹھا لے ۔ اس لیے قانون کا احترام پیدا کرنا تعلیم اور نظامِ عدل کا ایک اہم مقصد ہونا چاہیے۔
اصل مسئلہ ہماری نگاہ میں نہ صرف پورے ملک بلکہ ہر طبقۂ خیال میں انتہا پسندی کا پایا جانا ہے ۔ جس کے اسباب کا تعین کرنا ہوگا اور ان اسباب کو دور کر کے مسئلے کا حل اسلام اور عدل کے دائرے میں رہتے ہوئے نکالنا ہو گا۔ اب ہم اس تناظرمیں مختصراًاس انتہا پسند ذہنیت کے عمومی محرکات و اسباب کا ایک جائزہ لینے کی کوشش کریں گے، جس کی گرفت میں آج معاشرہ آچکا ہے۔
انتہاپسندی پر ابھارنے والے عوامل یوں تو بہت ہیں، لیکن ذیل میں صرف زیادہ اہم عوامل کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جارہاہے، جو تعلیم گاہوں اور معاشرے میں اس رجحان اور رویے کے بڑھنے کے پیچھے پائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک منطقی ترتیب بھی پائی جاتی ہے۔
یہ ہے وہ اخلاقی افلاس،جس کی موجودگی میں اگر وہ بچہ یا بچی سائنسی یا سماجی مضمون میں ایک نہیں تین ڈاکٹریٹ بھی کر لے ، تب بھی اس میں اخلاق ، محبت ، عدل ، تواضع ، انکسار ، سچائی ، امانت، دیانت ، قیادت، کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہ ہوا کے ساتھ اپنا رخ بدلتا رہے گا اور مرغ باد نما بن کر سیاسی اور مادی فائدوں کا بندہ بن کر اپنے آپ کو کامیاب بندہ سمجھے گا۔ اس صورت حال میں وہ کیوں نہ دہشت گرد بنے؟ کیوں نہ ا س میں شدت پرستی آئے؟ جب اسے کوئی مثبت نمو نہ اور وہ نمونہ جسے قرآن خود ’خلق عظیم‘کہتا ہے، کبھی واقفیت ہوئی، نہ اس نے کبھی شعوری طور پر اس عظیم ترین ہستی ، جن پر میرے ماں باپ فدا ہوں،سے فکری ملاقات کی ہو، نہ ان کے عظیم طرزِ عمل سے چند پھول چنے ہوں، اسے تو لازماً دہشت گرد اور شدت پسند ہی بننا چاہیے ،پھر شکوہ کس بات کا !
اس اخلاقی خلا کا ذمہ دار کون ہے ؟والدین ، اساتذہ ، وزرات تعلیم سے وابستہ ہر ہر فرد ، اسکول کے نظام کو چلانے والا ہر بابو، ملک کا ہر وزیر اعظم ، ملک کا ہر صدر جو اپنا حلف اٹھاتے وقت اس ملک میں قرآن و سنت کے نفاذ کا عہد کرتا ہے اور ہر وہ صحافی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر کالم تو لکھتا ہے، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے حیاتِ مبار کہ کی روشنی میں کوئی حل تجویز نہیں کرتا۔
حل اگر کوئی ہے تو وہ صرف آپؐ کے اسوہ میں، آپؐ کے دامن محبت میں، آپ ؐ کے گوشۂ عافیت میں اور آپؐ کے عفو و درگزر کرنے والے کردار میں ہے۔ آپؐ کے ان دشمنوں کو جنھوں نے پتھر برسائے، پھولوں سے نوازنے میں ہے ۔ جب تک وہ اخلاق جو قرآن کریم کے مکمل ترجمے کے ساتھ مطالعے اور مطالعۂ سیرت پاکؐ کے مکمل طور پر جسم میں خون بن کر گردش کرنے کی شکل میں نہ ہو جائے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل صرف اور صرف ہدایت کے ان دو میناروں سے وابستگی میں ہے۔ جب تک ہر ہر پاکستانی بچہ اور بچی قرآن کریم کو اوّل تا آخر ترجمے کے ساتھ (وہ ترجمہ جو تمام مسالک میںمتفقہ ہے اور ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا ہے، مثلاً مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمۂ قرآن)سمجھ کر نہ پڑھ لے، اور سیر ت پاک کی کم از کم ایک مشہور کتاب (مثلاً محمد سلمان منصور پوری کی رحمتہً للعِلمین) کا مطالعہ نہ کرلے۔ اس وقت تک وہ ذہن نہیں بن سکتا، جو اپنے جذبات و تاثرات کو تحمل کے دائرے میں رکھتے ہوئے ایک پُرامن مسلمان پاکستانی شہری بن سکے۔
معاشرتی عدل کا فقدان وہ اہم سبب ہے جو معاشرے میں انتہا پسندی ااور تشدد کا رجحان پیدا کرتا ہے ۔ جو معاشرہ بھی طبقاتی تقسیم پر قائم ہو تا ہے، اس میںانتقام اور ظالم سے بدلہ لینے کی خواہش کسی نہ کسی وقت ضرور ابھرتی ہے۔ پاکستان میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ظلم، جبر اور محنت کش کے ساتھ ناانصافی کے سبب معاشرے میں محرومی ، ناامیدی اور نفرت و انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں انتہا پسندی اگر نہ ہوتوحیرت کی بات ہے۔ ایک شخص جو ہزاروں اور سیکڑوں ایکڑ زمین کا مالک ہو ، جو پجیرو یا مرسیڈیز سے کم کسی کار پر سفر کرنا اپنی بے عزتی سمجھتا ہو، اور دوسری جانب سیکڑوں مفلوک الحال افرادہوں، جو اس کے زیر تسلط بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوں، تو رد عمل کا پایا جانا فطری امر ہے۔ وہ مظلوم جس کو حق سے محروم کیا گیا ہے ، وہ کسی بھی تبدیلی لانے کے وعدے کے زیر اثر غیر قانونی اور غیر دستوری ذرائع کو اپنے لیے حلال سمجھ لے گا یا اسے سمجھا دیا جائے گا۔ جب معاشرے میں کثرت ایسے افراد کی ہو جائے تو شدت پسندی اور غیر دستوری ذرائع سے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بآسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔
جب کسی معاشرے میں انسانی جان ، مال، عزت اور نسل کا احترام باقی نہیں رہتااور کمزور اور طاقت ور کے لیے دو پیمانے بن جاتے ہیں ، حقوق انسانی کو پامال کیا جاتا ہے تو فطری طور پر ردعمل اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور مظلوم اور استحصال کا شکار فرد ظالم کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔دنیا میں جہاں کہیں بھی اس طرح کی صورت حال پائی جاتی ہے ، یکساں نتائج سامنے آتے ہیں۔ظلم اور استحصال کے شکار فرد کو جو ظلم کا شکار رہا ہو ،اپنی جان پر کھیل کر کسی بھی دہشت گردی کے کام کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔زمان و مکان کی قید سے قطع نظر ہمارے اپنے معاشرے میں معاشرتی ظلم کے شکار افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں اور نہ صرف وہ بلکہ ایسے نوجوان بھی جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، انھیں بآسانی بھاری رقوم کا لالچ دے کر دہشت گردی پر آمادہ کر لیا جاتا ہے ۔ بعض کو جزوی طور پر دینی حوالے سے اس کام پر آمادہ کر لیا جاتا ہے۔ مسئلے کا حل صرف اور صرف اسلامی تصور عدل اور فلاح کا نفاذ ہے ۔ محض قوت کے ذریعے ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔
خود پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں کے بعض فوجی اور سیاسی فرماں رواؤں نے ملک کی اصل بنیاد اور مقصد وجود کو نظر انداز کر کے، ملک میں عصبیت، فرقہ پرستی اور زبان کے نام پر تفریق کے نعرے بلند کیے اور ملکی یک جہتی کو نقصان پہنچایا۔ قرآن و سنت نے جو تصور دین دیا ہے وہ ملّی یک جہتی کا ضامن اور نفرتوں کو دُور کرنے والا ہے، جب کہ لادینیت اتحاد کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہے ۔ملک میں امن اور میانہ روی اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب دینی اقدار کو فروغ دیا جائے اور لادینیت کو ختم کیا جائے۔
ایک تجویز پاکستان کے حوالے سے بھی رینڈ کارپوریشن کی ایک رپورٹ میں پیش کی گئی تھی کہ صوفی ازم کو فروغ دیا جائے تاکہ تحریکات مزاحمت اور نام نہاد سیاسی اسلام(Political Islam ) کا مقابلہ اندر سے کیا جاسکے۔ اسی بناپر ایک سابقہ فوجی آمر کے دور میں ایک مشہور سیاسی لیڈر کی سرکردگی میں ’قومی صوفی کونسل‘ قائم کی گئی تھی اور صوفیانہ کلام اور موسیقی کے ذریعے روحِ جہاد کو ختم کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا تھا ۔ ہماری نگاہ میں مسئلے کا حل اسلام کو صوفی ازم بنا کر پیش کرنے سے نہیں ہوگا، نہ اس طرح ہو گاکہ نصابی کتب سے اقبال کے انقلابی کلام کو خارج کردیا جائے کیوں کہ جب بھی عقابی روح نوجوانوں میں بیدار ہوتی ہے وہ ارد گرد کی زنجیروں کی پروا کیے بغیر اپنے مقصد کے لیے سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو مسخ کرنے کے بجاے اس کو صحیح خدو خال کے ساتھ پیش کیا جائے تا کہ فحاشی اور نوجوانوں اور ملک کو ہندووانے کی مہم کے ردعمل کے طور پر تشدد کو پیدا ہونے سے روکا جاسکے ۔
دہشت گردی کے مسئلے کو شاید زیادہ قوت کے استعمال سے کم کیا جاسکتا ہے ا ور ممکن ہے کچھ عرصے کے لیے سطح آب پر سکون محسوس کیا جا سکے لیکن اندرونی ارتعاش اور لہریں موقع ملتے ہی اُبھر آتی ہیں۔ تحریکاتِ آزادی اس سے بہت مختلف نوعیت کی حامل ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈیڑھ سو کے قریب ممالک آزادی کی تحریکات ہی کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں اور یہ تحریکات بنیادی طورپر سیاسی تھیں مگر ان میں سے ایک بڑی تعداد کو ایک مرحلے میں ریاست کی قوت کے مقابلے میں عسکری مزاحمت بھی کرنا پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایسی تحریکاتِ مزاحمت کو کبھی دہشت گردی قرار نہیں دیا گیا۔
آج کے حالات میں اس کی بہترین مثالیں فلسطین اور کشمیر کی تحریکات آزادی ہیں جو مقامی جڑوں پر قائم ہیں ۔ یہ بیرونی سازش یا امداد کی بنا پر پیدا نہیں ہوئیں۔ فلسطین میں مزاحمتی تحریک عرب ممالک کی غیر ذمہ داری اور عدم دل چسپی کے باوجود مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ کبھی قومیت پرست سیکولر قیادت کے زیر اثر ،کبھی شیعہ ملیشا کے زیر اثر ، کبھی صرف مقامی افراد مثلاًشیخ احمد یاسین کی مزاحمتی تحریک (حماس)کی شکل میں جو مٹھی بھرافراد اور گولی کے جواب میں پتھر سے شروع ہوئی، لیکن اس تحریک نے اہل فلسطین میں ایک نئی سوچ اور اسلام سے وابستگی میں تازگی پیدا کر دی۔
یہی شکل مقبوضہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کی ہے۔ سید علی گیلانی کی قیادت میں یہ تحریک آج بغیر کسی بیرونی سہارے اسی رُخ پر چل رہی ہے ، جس رُخ پر تیونس میں انقلاب پبا ہوا۔ اس کے مقابلے میں دہشت گرد تحریکات عموماً بیرونی طاقتوں کی امداد سے اُبھرتی ہیں، جیسا کہ ہم بلو چستان میں دیکھتے ہیں،مگر ایسی تحریکات کا مستقل حل بھی محض قوت کا استعمال نہیں ہے ۔ مقامی مسائل کو مقامی افراد کو اعتماد میں لے کر حل کرنے سے ہی دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں انتہا پسندی، شدت پسندی اوردہشت گردی کے خاتمے کا آسان طریقہ تمام اہم فریقوں کو یک جا کر کے ایک قومی تعمیری اور اصلاحی منصوبے کے ذریعے کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ اس کا پہلا اور مؤثر ترین اقدام طویل المیعاد ہو گا، یعنی تعلیمی حکمت عملی کی تشکیل اور نفاذ ۔
اس حکمت عملی کی کامیابی کے لیے حکومت وقت کو متفرق نظام ہاے تعلیم کی جگہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کرنا ہوگا، جس کے لیے ایک مشترکہ قومی تعلیمی نصاب کو سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں نافذ کرنا ہو گا۔ چاہے یہ نجی اسکولوں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ مسئلہ محض وسیع البنیاد تعلیم سے حل نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کا نقطۂ آغاز ہی دینی اثرات کو زائل کرنے کے لیے جدید ترین یورپی اور امریکی نصابات کا پاکستان کے مدارس اور جامعات میں نافذ کرنا ہے۔ ہمیں ان نصابات کا جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جن یورپی ممالک اور امریکا کے لیے یہ نصاب بنائے گئے ہیں، کیا ان کی قومی ترجیحات ، مقاصد، ثقافتی، دینی اور معاشرتی ضروریات اور ہماری ثقافت، نظریۂ حیات اور اہداف میں کوئی قدرمشترک ہے؟کیا یہ نام نہاد ’وسیع بنیادوں والی تعلیم‘ نظریۂ پاکستان پر اعتماد کو بڑھائے گی یا مزید کمزور کرے گی؟کیا یہ درآمد کی ہوئی فکر پر مبنی تعلیم ہماری نسل کو اسلامی اقدار ، اسلامی کردار اور خصوصاً سیرتِ پاکؐ کے رحمت ، درگزر، امانت ، سچائی ، شہادت حق ،ظلم کے خلاف استقامت کے ساتھ جہاد کرنے ، علم کی اشاعت اور عدل کے قیام کی کوششوں کو نوجونوں کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ؟
مسئلے کا حل یہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں براہِ راست علامہ محمد اقبال ، قائد اعظم اور اُمت کے معتبر اہلِ علم کے خیالات کو قوم کے نوجوانوں کے ذہنوں میں راسخ کیا جائے، تاکہ آج سے ۱۰سال بعد جو نسل تعلیم گاہوںمیں اعلیٰ تعلیم کے لیے آئے، پاکستان کے حوالے سے اس کی نظریاتی بنیاد مضبوط ہو اور وہ کسی انتہا پسندی کا شکار نہ ہو۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ لا دینیت سے زیادہ انتہا پسند فکر آج تک وجود میں نہیں آئی۔ کیوںکہ لادینیت خود کو اعلیٰ ترین سچائی قرار دے کر صرف اپنی ہی سچائی کی ڈفلی بجاتی ہے اور نقار خانے میں کسی اورکی آواز کو سننے کی روادا ر نظر نہیں آتی ۔
تعلیمی حکمت عملی میں قرآن کریم کی اخلاقی ، معاشرتی ، معاشی ، ثقافتی اور سیاسی تعلیمات پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ سیرتِ پاکؐ کے ہر پہلو پر ذہن سازی کی جائے ۔ عالم اسلام سے نوجوانوں کی وابستگی کو بڑھایا جائے ۔ انھیں اس ملک کے عوام کی قربانیوں سے جو انھوں نے اسے حاصل کرنے کے لیے دیں، ان سے آگاہ کیا جائے۔ اور پھر پڑوسی ملک کے جارحانہ اقدامات کے جواب میں افواج پاکستان کے جوانوں نے جو قربانیاں دیں اور عوام نے اپنا سب کچھ بازی پر لگایا، اس تاریخی اثاثے سے نوجوانوں کو آگاہ کیا جائے، تاکہ وہ قومی تشخص کو نہ صرف سمجھیں بلکہ پاکستانی ہونے پر فخر کریں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اصلاح کا آغاز ہمیشہ گھر کی تربیت گاہ سے ہوتا ہے، جہاں خاندان کا ادارہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ آج خاندان برقی اوراخباری صحافت دونوں کے ذریعے تباہ کیا جارہا ہے۔ خاندان کا تحفظ اور اسلامی خاندانی اخلاقیات کو آنے والی نسل کے ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے ۔یہ کام تعلیم گاہ ، خود گھر کے افراد ، اساتذہ، سب کو مل کر کرنا ہو گا۔جتنا گھر مضبوط ہو گا اتنا ہی ملک اور قوم مضبوط ہو گی ۔ اس وقت ابلاغ عامہ اور درسی کتب نوجوانوں کوجو تعلیم دے رہے ہیں، اس میں تاخیر سے شادی کرنا ،خاندان کو مغرب کے زیر اثر صرف شوہر ، بیوی اور ایک دو بچوں تک محدود سمجھنا اور باقی سارا وقت کاروبار،گھومناپھرنا ، کھانے کا لطف اٹھانا اور لوگوں سے گپ بازی کرنا وغیرہ شامل ہے۔ہمیں زندگی کے مقصد اور معاشرتی یکسوئی اور یک جہتی کے لیے بنیادی تصورات کی اصلاح کرنی ہو گی۔ ہمیں استاد کی عزت اور مرتبے کو بلند کرنا ہو گا۔ایک اجتماعی حکمت عملی کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ایک ہمہ گیر حکمت عملی ہی مسئلے کا صحیح حل کر سکتی ہے۔
بدقسمتی سے آج ہمارے ابلاغ عامہ کا اہم کام بے حیائی کو معاشرے میں عام کرنا بن گیا ہے۔ یہ نہ صرف شدید رد عمل کو دعوت دے رہا ہے، بلکہ ہمارے قومی اخلاق کو تباہ کر نے میں مصروف ہے۔ اس لیے انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ابلاغِ عامہ کے لیے اخلاقی ضابطے کو پوری قوت سے نافذکرنا ہو گا۔ اس وقت ایک ا یسے ملک میں جہاںغیر مسلموں کی تعداد محض ۳فی صد ہے، ابلاغِ عامہ کی آزادی کے نام پر ۲۰نجی چینل صرف ہندو ازم ، عیسائیت اور قادیانیت کی تبلیغ پاکستان کے غیر تعلیم یافتہ عوام میں کر رہے ہیں۔بھارت سے فحاشی ، پاکستان دشمنی اور ’مہا بھارتی‘ تصور کو فروغ دینے والے پروگرام کثرت سے نشر ہو رہے ہیں ۔ یہ پروگرام صوبائی عصبیت اور خود مختاری کو اُجاگر کر رہے ہیں۔ہمارے ہاں کے چارمسلک پرست طبقے اپنے اپنے مسلک کے لیے برقی ابلاغ عامہ کااستعمال کر رہے ہیں ۔ صرف ایک مسلک کے آٹھ سے زائد چینل پاکستان میں دیکھے جارہے ہیں ۔ کیا اس طرح ہم ملکی امن ، رواداری ، محبت اور یک جہتی پیدا کر سکتے ہیں؟ یہ’ابلاغی آزادی‘ ملک کو کس سمت میں لے کر جا رہی ہے؟ کیا اس طرح رواداری، برداشت اور محبت پیدا ہو سکتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم ایک تصور ہے ۔ قرآن کریم نے کسی اور کو نہیں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو، انسان کامل کو،کسی اور معاملے میں نہیں عبادت کے معاملے میں، یہ ہدایت فرمائی کہ وہ عبادت میں بھی اعتدال اختیار کریں ۔ آج اگر ہم کسی اللہ کے بندے کے بارے میں یہ سنتے ہیں کہ وہ تمام رات عبادت کرتا ہے تو ہم اسے اللہ کا ولی قرار دیتے ہیں ۔ قرآن اپنے رسولؐ سے کہتا ہے آپ تمام رات قیام نہ فرمائیں بلکہ رات کا نصف حصہ یا اس سے کم یاکہیں اس سے زیادہ وقت نماز میں صرف کریں۔ قرآن کسی اور معاملے میں نہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں انفاق اور خرچ کرنے کے بارے میں فرماتا ہے کہ نہ ہاتھ گردن سے باندھو، نہ اسے بالکل کھلا چھوڑ دو۔ وہ گفتگو میں توازن کے لیے کہتا ہے کہ نہ آواز زیادہ بلند ہو نہ محض سرگوشی ہو۔ وہ کھانے پینے کے بارے میں ، لباس کے کے بارے میں ، غرض زندگی کے ہرہرعمل کے بارے میں انتہا پسندی کو شدت سے منع کرتا ہے ۔ اگراللہ کے کلام کے مفہوم اور معانی کو ایک بچہ بچپن سے اپنے دل ودماغ میں جاگزیں کر لے تو کیا وہ دہشت گرد بن سکے گا؟
قرآن جس اعتدال،توازن اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے اس کی ایک مثال اس واقعے میں ہے جس میں تین اصحابِ رسولؐ نے اُمہات المومنینؓ سے جا کر یہ پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات کیا ہیں؟انھیں بتایا گیا کہ آپؐ کس طرح زندگی گزارتے ہیںلیکن جب وہ یہ سن کر واپس لوٹے تو انھوں نے سوچا کہ آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں ، اس لیے شاید اللہ نے آپ کو رخصت دی ہے کہ تمام رات عبادت نہ کریں لیکن ہم تمام رات نماز پڑھیں گے۔ مزید یہ بھی سوچا کہ وہ کبھی نفلی روزے کا ناغہ نہیں کریں گے،اور نیکی کے حصول کے لیے شادی سے بچیں گے۔آپ ؐکو جب ان کے ان ارادوں کا علم ہوا تو انھیںطلب فرمایا اوران سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ کچھ کہا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، توآپؐ بات کا آغاز یو ں فرماتے ہیں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور ان سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اور خشیت کرتے ہیں۔ وہ عام دنوں میں کبھی روزہ رکھتے ہیںاور کبھی ناغہ بھی کرتے ہیں۔ کبھی رات کو قیام بھی کرتے ہیں اور کبھی آرام بھی کرتے ہیں اور نکاح بھی آپ کی سنت ہے اور جو اس کو ناپسند کرتا ہے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ گویا جو شخص جان کر اس لیے نکاح نہ کرے کہ یہ دنیاوی چیز اور تقویٰ کے خلاف ہے ،وہ نبیؐ کی امت میں سے نہیں ہے۔
ان واضح ارشادات کو جو بھی غور سے پڑھے گا، کیا وہ رہبانیت کا راستہ اختیار کرکے کسی خانقاہ میں بیٹھ کر، گھر بار اور معاشرت کو چھوڑ کر اللہ سے قریب ہوناچاہے گا؟___ یہ وہ متوازن ، عادلانہ اور میانہ روی کا رویہ ہے جو سیرت پاک ؐسے اُجاگر ہوتاہے ۔ اگر یہ پہلو تعلیم کے ذریعے ذہن میں جاگزیں ہوتو کیا دہشت گردی، انتہا پسندی پیدا ہو سکتی ہے ؟مسئلے کا حل سزائیں نہیں اخلاق کی تعلیم و تر بیت ہے اورسیرتِ پاکؐ کی لازمی تعلیم ہے جس کے نتیجے میں پایدار امن اور عدل کے نظام کاراستہ ہموار ہوسکتا ہے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
[تعارفی نوٹ از مدیر] : پاکستان کا قیام، برطانوی سامراج کے خلاف برعظیم کے مسلمانوں کی دو سوسالہ جدوجہد کا حاصل اور ثمرہ ہے۔ جہاں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام خاص ہے، وہیں ایک تاریخی جدوجہد اور اس میں پیش کی جانے والی بیش بہا قربانیوں کا پھل بھی ہے۔
بظاہر سات سال پر محیط تحریکِ پاکستان کے نتیجے میں جو ملکِ عزیز قائم ہوا، الحمدللہ، اس نے سارے مصائب اور خطرات، دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی کوتاہیوں اور بے وفائیوں کے باوجود اپنی آزادی کے ۷۰ سال مکمل کر لیے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ پاکستان ربِّ کائنات کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، رمضان المبارک کی ۲۷ویں شب ملنے والا یہ الٰہی تحفہ، ان شاء اللہ قائم و دائم رہے گا۔ جن مقاصد کے لیے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی تھی، وہ ضرور حاصل ہوں گے۔
اللہ کے شکر اور جو کچھ حاصل ہے، اس کی قدر کے پورے احساس کے ساتھ یہ تاریخی لمحہ اس امر کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ خلوص اور دیانت سے جائزہ لیں کہ ان ۷۰ برسوں میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا؟ تحریک پاکستان کے اصل مقاصد کیا تھے؟ اور پاکستان کا وہ تصور اور وژن کیا تھا جس کے حصول کے لیے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی، اور آج ہم اس سے کتنا قریب ہیں اور کتنا اس سے دُور ہو گئے ہیں؟ یہ جائزہ دیانت داری سے لیا جانا چاہیے کہ ہماری مثبت کامیابیاں کیا ہیں اور منفی پہلو کون کون سے ہیں اور ان سے کس طرح نجات حاصل کی جا سکتی ہے؟ نیز ایک نئے عزم کے ساتھ اصل وژن کا ادراک اور تفہیم اور اس کے حصول کے لیے صحیح لائحہ عمل کا شعور، اور اس کے لیے مؤثر اور فیصلہ کن جدوجہد کا عزم اور تیاری وقت کی ضرورت ہے۔
عالمی ترجمان القرآن کے موجودہ شمارے سے اس مقصد کے لیے ایک قلمی مذاکرے کا اہتمام کیا جا رہا ہے،جو تحلیل و تجزیے اور تفہیم و تذکیر کے ایک سلسلے کا آغاز ہے، اور یہ ان شاء اللہ آیندہ بھی جاری رہے گا۔
راقم اپنی صحت کی خرابی کے باعث اس بحث میں بھرپورشرکت کی سعادت سے محروم ہے، لیکن اس کمی کی تلافی، عصرِحاضر میں تحریک اسلامی کے داعی، ہمارے محسن اور قائد مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے ایک بصیرت افروز خطبے کو ’اشارات‘ کی شکل میں پیش کر کے کی جا رہی ہے۔ یہ تقریر مولانا محترم نے نومبر۱۹۷۰ء میں کی تھی۔ پاکستان کے پہلے انتخابات کے موقعے پر قوم کو پاکستان کے اصل تصور، تحریک پاکستان کے حقیقی مقاصد اور ان مقاصد کے حصول اور اس منزل کی طرف پیش رفت کے لیے جس لائحۂ عمل کی ضرورت ہے، مولانا مرحوم و مغفور نے تب بڑے خوب صورت اور مؤثر انداز میں اس کی نشان دہی فرمائی تھی اور قوم کو اس کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کی دعوت دی تھی۔
اس تقریر میں مولانا مودودی lنے ان چھے چیزوں کو بڑے واضح الفاظ میں پیش کر دیا ہے، جو آج بھی پاکستان کی ویسی ہی ضرورت ہیں، جیسی کہ ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۰ء میں تھیں۔ اسلام کے تصورِ دین، حکمتِ انقلاب اور زندگی کو تبدیل کرنے کے لائحہ عمل کی اس سے واضح، جامع اور مؤثر ترجمانی مشکل ہے۔ یہ تقریر مولانا کی سیاسی بصیرت کا شاہکار ہے، اور آج ۴۷سال کے بعد بھی صبحِ نو کی طرح تروتازہ ہے۔ ہم یہ تقریر درج ذیل معروضات کے ساتھ ناظرین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ پاکستان کا قیام ،تحریک پاکستان کی حتمی سات سالہ جدوجہد کا حاصل نہیں بلکہ یہ ۲۰۰ سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی اس تحریکِ آزادی کا ثمرہ ہے، جو برطانوی سامراج کے برعظیم میں قدم جمانے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی اور جس کے کم از کم تین بڑے واضح مرحلے دیکھے جا سکتے ہیں:
۱- علامہ اقبال کا ۱۹۳۰ء کا خطبۂ صدارت،
۲- ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی قراردادِ لاہور ،
۳- قائداعظم کا خطبۂ صدارت، ۷؍اپریل ۱۹۴۷ء کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان کے کنونشن کی قرار داد، حلف نامہ اور قائداعظم کی تقریر ،
۴- ۱۳مارچ ۱۹۴۹ء کو پہلی منتخب دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قراردادِ مقاصد اور اس موقعے پر وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اور تحریکِ پاکستان کے اکابر ارکانِ دستورساز اسمبلی کی تقاریر۔ (قراردادِ مقاصد تحریکِ پاکستان کی فکری جہت کا خلاصہ ہے، اور پاکستان کے دستور کی تمہید اور اس کا حصہ ہے۔)
۱- پاکستان کے تصور اور اس کی اصل منزل کا صحیح اور مکمل شعور۔ یہ وژن اور اس کے باب میں مکمل شفافیت (clarity) اور یکسوئی اوّلین ضرورت ہے۔ اسی سے ہماری منزل اور اس تک پہنچنے کے راستے کا تعین ہو سکتا ہے۔ یہ ہماری شناخت ہے اور اسی شناخت کے تحفظ اور ترقی کے لیے آزادی کی جدوجہد کی گئی اور پھر آزادی حاصل کی گئی۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف لاکھوں انسانوں کے جان و مال اور آبرو کی قربانی دی گئی، بلکہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے اسلام اور اپنے مسلمان بھائیوں کی آزادی کی خاطر اپنے کو بھارت میں ہندوئوں کے غلبے میں رہ جانے کی عظیم ترین قربانی دی۔
۲- آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے علاقے (Territory) کا حصول ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ آزاد قوم اور آزاد علاقہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ملکی حدود کی حفاظت اور دفاع قومی سلامتی کی پہلی ضرورت ہے۔ دفاعِ وطن اور دفاعِ نظریہ، شخصیت اور پہچان ساتھ ساتھ واقع ہوتے ہیں۔ اس کے لیے عسکری قوت کے ساتھ سیاسی، معاشی، مادی اور اخلاقی قوت بھی مقابلے کی قوت کی حیثیت سے ضروری ہے۔ اس میں ضُعف ، ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بنتا ہے۔ یہ سیاسی و معاشی استحکام، اندرونی امن و امان ، بیرونی خطرات سے تحفظ اور آبادی کی ترقی اور خوش حالی کے لیے وسائل کے بھرپور استعمال کا راستہ دکھاتا ہے۔
۳- تیسری ضرورت اس وژن اور قومی سلامتی اور مفادات کا تحفظ و ترقی ہے، زندگی کے تمام شعبوں کے لیے صحیح پالیسیوں کا تعین ، انتہادرجے کی شفافیت کے ساتھ پالیسی سازی اور ان پر عمل کرنے کا اہتمام۔
۴- ان مقاصد کو حاصل کرنے اور پالیسیوں کی مؤثر تنفیذکے لیے تمام ضروری اداروں کا قیام، استحکام، اصلاح اور ترقی۔ دستور اور قانون کی حکمرانی ہی کے ذریعے اداروں کی بالادستی اور حقوق وفرائض کی بجاآوری ممکن ہے۔
۵- ان مقاصد کے حصول کے لیے اساسی ضرورت ہر سطح پر اور ہرشعبے کے لیے مردانِ کار کی تیاری ہے۔ تعلیم اس کی کنجی ہے۔ پوری آبادی کی اخلاقی، علمی اور صلاحیت کار کی ترقی کے ذریعے ہی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے، پھر اپنی آزادی اور شناخت کی حفاظت اور استحکام کے ذریعے اس ترقی کو زیادہ ثمرآور بنایا جاسکتا ہے۔ ماحول، معاشرہ اور تہذیب و ثقافت ہر میدان کی صورت گری میں اس کا حصہ ہے۔
۶- آخری فیصلہ کن ضرورت ہے: صحیح قیادت کا انتخاب، مشاورت کے مؤثر نظام کا قیام، احتساب اور جواب دہی کا ہر سطح پر اہتمام۔
یہ چھے چیزیں کسی بھی ملک اور قوم کی آزادی و خودمختاری اور ترقی و استحکام کی ضامن ہیں۔ ان سب کے بارے میں غفلت، کمزوری، فکری انتشار، تضادات اور عملی کوتاہیاں ہی پاکستان کے سارے مسائل کی جڑ ہیں۔ جس حد تک ان کا پاس و لحاظ کیا جائے گا ہماری آزادی اور خودمختاری برقرار رہ سکے گی۔ بلاشبہہ ان میں سے بعض پہلوئوں پر توجہ کی گئی ہے، جس کی وجہ سے خطرات اور کمیوں، کوتاہیوں کے باوجود ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکے ہیں اور کسی حد تک ترقی بھی حاصل کر سکے ہیں۔
مولانا مودودیؒ نے اپنی حسب ذیل تقریر میں ان چھے پہلوئوں کے بارے میں ایک واضح لائحہ عمل پیش کیا ہے، جو آج بھی ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔ ہم تخلیقِ پاکستان کے ۷۰سال کی تکمیل پر آیندہ اصلاحِ احوال اور تعمیر کے عزم کی تجدید کے ساتھ، رہنمائی کے ان زریں اصولوں کو قوم کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ ہمارا خطاب پوری قوم سے ہے اور خصوصیت سے تحریک اسلامی اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں سے ہماری اپیل ہے کہ اس خطبے پر کھلے دل و دماغ سے غوروفکر کریں اور مستقبل کی تعمیر کے لیے ہر تعصب سے بالا ہو کر نئے عزم کے ساتھ سرگرم عمل ہوں۔
o
o
جماعت اسلامی، پاکستان میں اس مقصد کے لیے کام کررہی ہے کہ یہاں معاشرے اور ریاست کی تعمیر دیانت اور انصاف کے ان اصولوں پر کی جائے، جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں۔ اس کے پیشِ نظر پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے:
انھی مقاصد کے لیے جماعت عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔
oملک کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں ان کے بارے میں جماعت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ پاکستان مسلمانوں کی قربانیوں سے قائم ہوا ہے اور یہ قربانیاں انھوں نے اس غرض کے لیے دی تھیں کہ یہاں وہ اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اس لیے یہاں کسی نظریاتی کشمکش کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات ہمیشہ کے لیے طے شدہ سمجھی جانی چاہیے کہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے۔
پاکستان کا قیام اس وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ مسلمانوں نے نسل، علاقے، زبان اور طبقات کے تمام تعصبات کو دل سے نکال کر ،محض مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کے قیام کے لیے متحدہ جدوجہد کی تھی۔ اسی اتحاد کی بدولت وہ علاقے مل کر ایک ملک بن گئے جن کے درمیان نہ زبان ایک تھی، نہ رہن سہن کا طریقہ ایک تھا اور نہ کوئی جغرافی اتصال پایا جاتا تھا۔ آج بھی یہی اتحاد کامل ملک کی وحدت و سالمیت کے لیے واحد ضمانت ہے۔
ملک کی آبادی کے مختلف عناصر میں یگانگت کے احساس کو برقرار رکھنے اور نشوونما دینے کے لیے یہ قطعی ناگزیر ہے کہ اس اسلام پر عمل کیا جائے، جس کے نام پر یہ ملک وجود میں آیا ہے، اور سیاسی، معاشرتی اور معاشی حیثیت سے مکمل انصاف قائم کیا جائے، جس سے ملک کے تمام علاقے اور باشندگانِ ملک کے تمام گروہ اور طبقے اپنے حقوق کے معاملے میں پوری طرح مطمئن ہوں۔
o ملک کو جس آئینی بحران کاسامنا ہے، اس کام کو مکمل اور آسان بنانے کے لیے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی نئے سرے سے کوئی آئین بنانے کی کوشش نہ کرے، بلکہ ۱۹۵۶ء کے آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چار ضروری ترمیمات کرنے کے بعد اس کو ملک کا آئین قرار دے دے، تاکہ اقتدار جلدی عوام کے نمایندوں کو منتقل ہوجائے اور ایک جمہوری حکومت ملک میں کام کرنا شروع کر دے۔ باقی جو تغیر و تبدل بھی اس آئین میں کرنا مطلوب ہو، وہ بعد میں کیا جاسکتا ہے۔ وہ چار ترمیمیں جو ۱۹۵۶ءکے آئین میں ہم کرنا چاہتے ہیں: آبادی کی بنیاد پر نمایندگی، ون یونٹ کی تنسیخ، مغربی پاکستان کے سرحدی علاقوں کو پاکستان میں پوری طرح ضم کرلینے ،اور ملک کی سالمیت کو محفوظ رکھتے ہوئے صوبوں کو مکمل علاقائی خودمختاری دینے کے بارے میں ہیں۔{ FR 1000 }
o ہم نے ملک کے قانونی نظا م کی اصلاح کے لیے بہت سی تجاویز پیش کی ہیں، جن میں خاص طور پر چار چیزوں کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے: lایک یہ کہ اسلام کے ان تمام احکام کو قانونی حیثیت دینا، جو ایک اسلامی مملکت میں رائج ہونے چاہییں اور خاص طور پر ان اخلاقی بُرائیوں کو ممنوع قرار دینا، جنھیں اسلام ازروے قانون روکنا چاہتا ہے۔ mدوسرے، عورتوں کو شریعت کے عطا کردہ حقوق دلوانے کے لیے قانون بنانا۔ oتیسرے، شخصی آزادی اور اظہار راے کی آزادی پر ناراو پابندیوں کو ختم کرنا۔oچوتھے انصاف کو آسان اور سستا بنانا۔
ملک کے معاشی نظام کی اصلاح کے لیے ہمارا پروگرام چار بڑے بڑے عنوانات پر مشتمل ہے: زراعت، صنعت و تجارت، مزدوروں اور کم تنخواہ پانے والے ملازموں کے حقوق اور عام معاشی اصلاحات۔
پچھلی ناہمواریوں کو دُور کرنے کے بعد ہم کلیتہً شرعی قوانین پر ہی اعتماد کریں گے کہ ان کے نفاذ کی وجہ سے آیندہ کوئی زمین داری ناجائز یا مشتبہ طریقوں سے پیدا نہ ہوسکے گی۔ اسی طرح جب بٹائی اور ٹھیکے کے بارے میں شرعی احکام کی سختی کے ساتھ پابندی کرائی جائے گی اور تمام ناجائز طریقوں کو بند کر دیا جائے گا تو کوئی زمین داری ظلم کی شکل اختیار نہ کرسکے گی۔
۱۰؍ ایکڑ تک اراضی کے مالکوں کو مال گزاری سے مستثنیٰ کر دیا جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہ انصاف نہیں ہے کہ انکم ٹیکس کے معاملے میں تو ایک حد مقرر کر دی جائے اور گزارہ سے زمین کم رکھنے والوں پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔ مال گزاری کی تشخیص کے معاملے میں بھی ہم انکم ٹیکس کا یہ اصول نافذ کرنا چاہتے ہیں کہ کم آمدنی رکھنے والوں پر نسبتاً کم اور زیادہ آمدنی والوں پر نسبتاً زیادہ مالیہ عائد کیا جائے۔
اس امر کا پورا انتظام کیا جائے گا کہ کاشت کاروں کو ان کی پیدا کردہ اجناس کی معقول قیمت ملے اور ان کے حصے کا فائدہ بیچ کے لوگ نہ لے اُڑیں، خصوصاً تجارتی فصلوں کے معاملے میں ہربے جااستحصال کا سدباب کیا جائے گا۔
دیہی علاقوں میں ایسی صنعتوں کو رواج دینے کی کوشش کی جائے گی، جن سے بے روزگاری بھی دُور ہو اور زراعت پیشہ آبادی کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوسکے۔
صنعت و تجارت کا فروغ: صنعت و تجارت کے معاملے میں دولت کا جو بے تحاشا ارتکاز ہوا ہے، اس کو توڑنے اور مرتکز شدہ دولت کو پھیلانے اور آیندہ ارتکاز کو روکنے [اور] معاشی زندگی [کو] اس بیماری سے پوری طرح نجات [دلانے کے لیے] چند اہم تجاویز یہ ہیں:
O سود، سٹہ، جوا اور دولت حاصل کرنے کے تمام ان طریقوں کو قانوناً ممنوع قرار دے دیا جائے، جن کو شریعت نے حرام کیا ہے۔ بینکنگ اور انشورنس کے پورے نظام کو اسلامی اداروں کے مطابق تبدیل کیا جائے۔ ناجائز اور حرام طریقوں سے جو دولت چند ہاتھوں میں سمٹ گئی ہے، اس کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا جائے اور اسے واپس لینے کے لیے مناسب قانونی اور انتظامی تدابیر کی جائیں۔ کمپنیوں کی ملکیت میں ایک شخص یا خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ حصوں کی ایک حد مقرر کر دی جائے اور اس سے زائد حصص کو عام فروخت کے لیے کھول دیا جائے۔
O مینیجنگ ایجنسی کا طریقہ بند کر دیا جائے۔ بنکوں ، انشورنس کمپنیوں، بازار حصص اور سرکاری مالیاتی اداروں پر سے سرمایہ داروں کا تسلط ختم کر دیا جائے۔ صنعتوں، اجارہ داریوں اور کاروباری جتھہ بندیوں کو توڑا جائے۔ قرض دینے کی پالیسی تبدیل کی جائے، تاکہ چھوٹے اور نئے سرمایہ کاروں کو بھی قرض مل سکیں۔ بونس اسکیم پر نظرثانی کی جائے اور درآمدی اور برآمدی تجارت کے لیے لائسنسوں کے اجرا کا طریقہ بھی بدلا جائے اور اس امر کا انتظام کیا جائے کہ صنعت کار اور بڑے تاجر ایک معقول حد سے زیادہ منافع نہ کما سکیں۔
Oہم قومی ملکیت کے نظام کو بطورِ اصول اختیار کرنا صحیح نہیں سمجھتے، البتہ جن صنعتوں کو حکومت کے انتظام میں قائم کرنا یا چلانا فی الواقع ضروری ہو، ان کے بارے میں عوام کی نمایندہ اسمبلی اس طریقے پر عمل کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے، اور ایسا کوئی فیصلہ کرتے ہوئے یہ اطمینان کرلینا ضروری ہے کہ ان صنعتوں کا انتظام بیوروکریسی کی معروف خرابیوں کا شکار نہ ہونے پائے۔
O مزدوروں اور ملازمین کے حقوق:مزدوروں اور کم تنخواہ پانے والے ملازمین [کی حالت دیکھیں تو] ملک میں معاوضوں کا فرق اس وقت ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔ اسے گھٹاکر ہم ایک اور بیس پر، پھر بتدریج کم کرکے ایک اور دس کی نسبت پر لانا چاہتے ہیں۔ کم سے کم معاوضہ ہمارے نزدیک [اِس وقت] مصارف زندگی کے لحاظ سے ۱۵۰ اور ۲۰۰ کے درمیان ہونا چاہیے اور قیمتوں کے اُتار چڑھائو کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر وقتاً فوقتاً نظرثانی ہوتی رہنی چاہیے۔ کم تنخواہ پانے والے ملازمین کو مکان، علاج اور بچوں کی تعلیم کے لیے مناسب سہولتیں ملنی چاہییں اور مزدوروں کو نقد بونس کے علاوہ بونس شیئرز کے ذریعے سے صنعتوں کی ملکیت میں حصہ دار بھی بنایا جانا چاہیے۔ [ہم نے] یہ مقصد بنیادی طور پر پیش نظر رکھا ہے کہ ہماری معیشت میں صنعت کار اور محنت کار کے درمیان طبقاتی نزاع برپا ہونے کے امکانات باقی نہ رہیں اور اس کی جگہ انصاف کے اصولوں پر تعاون کا خوش گوار تعلق قائم ہو۔
O نظامِ زکوٰۃ کا نفاذ: ملک کی عام معاشی حالت کو درست کرنے کے لیے زکوٰۃ کی تنظیم کو ہم نے اپنے پروگرام میں سب سے مقدّم رکھا ہے۔ جس کے ذریعے سے یہ اہتمام کیا جائے گا کہ پورے ملک میں کوئی شخص اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہنے پائے۔ اس فنڈ میں نہ صرف جمع شدہ رقوم، تجارتی اَموال، زرعی پیداوار اور مویشیوں وغیرہ پر فرض زکوٰۃ وصول کی جائے گی بلکہ عام خیراتی رقوم اور فی سبیل اللہ اعانتیں بھی جمع کی جائیں گی، اور ان سے بوڑھوں، اپاہجوں، معذوروں اور یتیم و غریب بچوں کی کفالت کی جائے گی۔ بے روزگاروں کو روزگار ملنے تک وظائف دیے جائیں گے، غریبوں کا علاج کیا جائے گا۔ ضرورت مند اور مستحق لوگوں کو قرضِ حسنہ دیا جائے گا اور ایسے لوگوں کی مدد کی جائے گی، جو تھوڑے سرمایے سے اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکتے ہوں۔
اس کے علاوہ [ہم نے] یہ بھی تجویز کیا ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کو کم اور بلاواسطہ ٹیکسوں کو بڑھایا جائے گا تاکہ عوام پر سے ٹیکس کا بار کم ہوسکے۔ بیرونی قرضوں اور بیرونی سرمایے پر ملک کے انحصار کو ختم کرنے اور سابق قرضوں سے نجات پانے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ سرکاری خزانے کا مال بے جا مصارف پر صرف کرنے کا سدباب کیا جائے گا۔ اور رفاہِ عامہ کے کاموں اور ان تجارتی کاموں سے جو حکومت کے انتظام میں چل رہے ہیں ، بے جا نفع اندوزی کو روک دیا جائے گا۔
Oقومی صحت کے لیے ہمارا پروگرام آٹھ تجاویز پر مشتمل ہے، جن میں: سستی قیمت پر دوائوں کی فراہمی، علاج کے مصارف میں تخفیف، شفاخانوں اور دایہ گھروں کی توسیع، وبائی اور متعدی امراض کی روک تھام، شفاخانوں کے عملے کی اخلاقی اصلاح، غذا اور دوائوں میں آمیزش کا سدباب اور وسیع پیمانے پر حفظانِ صحت کے انتظامات شامل ہیں۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ملک میں علاج کی سہولتوں کو عام کرنے کے لیے یونانی طب اور ہومیوپیتھی کے شفاخانے سرکاری سطح پر قائم کیے جائیں۔
Oہم نے اسلامی فرقوں کو اس بات کی ضمانت دی ہے کہ انھیں حدودِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ اپنے پیرووں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا پورا حق حاصل ہوگا۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کی اپنی فقہ کے مطابق کیے جائیں گے، اور وہ اپنے خیالات کی اشاعت آزادی کے ساتھ کرسکیں گے۔
Oغیرمسلم اقلیتوں کو بھی ہم نے اسی طرح تمام شہری اور قانونی حقوق اور مذہب اور عبادت، تہذیب و ثقافت اور پرسنل لا کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔
O[اپنی] خارجہ پالیسی کے اصول و مقاصد بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے ہیں: ہم ایک مسلمان قوم ہیں۔ دنیا میں ہمارا قومی وصف نمایاں ہونا چاہیے کہ ہم راست باز اور عہدوپیمان کے پابند ہیں۔ حق وانصاف کے حامی اور ظلم و زیادتی کے مخالف ہیں۔ ہم بین الاقوامی امن چاہتے ہیں، مگر بین الاقوامی عدل کے بغیر دنیا میں امن کا قیام ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے۔ سامراجیت اور استعمار خواہ مغربی ہو یا مشرقی، ہماری نگاہ میں یکساں قابلِ مذمت ہے اور ہماری ہمدردی ہمیشہ ان مظلوم قوموں کے ساتھ ہوگی جو اس کی شکار ہوں۔ خصوصاً مسلمان جہاں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں ہم ان کی لازماً حمایت کریں گے، کیونکہ یہ ہماری انسانیت کا تقاضا بھی ہے اور ہمارے دین کا تقاضا بھی ہے۔
ہم دُنیا کی تمام قوموں کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں، مگر کسی ایسی دوستی کے قائل نہیں ہیں، جس سے ہمارے نظریۂ حیات یا ہماری آزادی پر آنچ آتی ہو۔ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہوگی۔ دنیا کی بڑی قوموں کے بلاکوں کی کش مکش سے ہم اپنے ملک کو بالکل الگ رکھیں گے۔ کشمیر اور ہندستانی مسلمانوں کے ساتھ ظلم وہ بنیادی مسائل ہیں، جنھیں انصاف کے ساتھ حل کیے بغیر ہمارے نزدیک پاکستان اور بھارت کے تعلقات درست نہیں ہوسکتے۔ مسلم ممالک کے ساتھ ہم قریب ترین برادرانہ تعلقات رکھنا اور بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہماری پوری کوشش یہ ہوگی کہ اپنے مشترک مفادات کے لیے ان کے درمیان گہرا تعاون ہو۔
Oمرکز یا صوبوں میں جہاں بھی جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی کو اکثریت حاصل ہوگی، وہ حکومت کی باگ ڈور سنبھال کر ایمان داری کے ساتھ اپنے منشور پر عمل کرنے کی کوشش کرے گی، اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو حکومت چھوڑ دے گی۔ دوسری کسی پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت وہ صرف اس صورت میں بنائے گی، جب کہ اسے یہ توقع ہو کہ اس حکومت میں اپنے اصول اور مقاصد کے مطابق کام کرنا اس کے لیے ممکن ہوگا۔ بصورتِ دیگر وہ حزبِ اختلاف کی حیثیت سے کام کرے گی۔ لیکن، جماعت اسلامی کبھی اختلاف براے اختلاف کی قائل نہیں رہی ہے۔ حکومت خواہ کسی پارٹی کی ہو، جماعت اس کے صحیح کاموں میں اس کا ساتھ دے گی اور غلط کاموں کی بہرحال مخالفت کرے گی۔
یہ ہے جماعت اسلامی کے منشور کا خلاصہ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم قومی زندگی کے ہرپہلو کی اصلاح کا ایک جامع پروگرام [پیش کر رہے] ہیں۔ کسی ایک پہلو پر ہم نے اتنا زور نہیں دیا ہے کہ دوسرے پہلوئوں کو نظرانداز کر دیا ہو ___ پاکستان پائندہ باد!
(ہفت روزہ آئین، لاہور، اشاعت ِ خاص، نومبر ۱۹۷۰ء، ص ۱۶-۱۹)
دنیا کی تمام اصلاحی تحریکیں حصولِ مقصد کے لیے ایک لائحہ عمل تجویز کرتی ہیں۔ پھر اہداف کے حصول یا ان کے حصول میں مزاحمت، مسائل اور مشکلات کے پیش نظر وقتاً فوقتاً، ہدفِ منزل کو نگاہ سے اوجھل کیے بغیر ،حکمتِ عملی میں مناسب تبدیلی کرتی ہیں۔ حکمتِ عملی کی تبدیلی نہ تو مقصد سے انحراف کی علامت ہوتی ہے اور نہ حصولِ مقصد کے عزم میں کمی یا مایوسی کا مظہر۔
مکہ مکرمہ کو دوبارہ تمام انسانیت کا قلب اور مرکز اور اہلِ ایمان کا قبلہ بنانے کا ہدف مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے کے بعد، مدینہ منورہ میں ایک اسلامی معاشرے اور ریاست قائم کرنے کے آٹھ سال بعد حاصل کیا گیا۔ اس دوران جو وقت لگا، اس کا ایک ایک لمحہ اصحابِ رسولؐ کے لیے ایک ایک دور سے کم نہ تھا۔
چنانچہ بار بار متٰی نصراللّٰہ کے الفاظ دل و زبان سے ادا ہوتے تھے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت آن پہنچی اور فتح مکہ نے تکمیل رسالت اور حصولِ مقصد کا دروازہ کھول دیا۔ لوگ جوق در جوق قافلۂ حق میں داخل ہونے لگے۔ وہ دین جسے اس کے روحانی مرکز سے قوت کے بل پر بے دخل کرنے کی طاغوتی کوشش کی گئی تھی، قیامت تک کے لیے دوبارہ مرکزِ ابراہیمی کا دستور بن گیا۔ اس آٹھ دس سال کے عرصے میں، دین متین کے پیغام بَر کے دل و دماغ میں جو تلاطم بپا رہا ہوگا، اس کا اندازہ صرف رب کریم ہی کو ہوسکتا ہے، لیکن جس استقامت اور صبر کے ساتھ ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمتِ عملی کے ہرمرحلے کی تکمیل فرمائی، وہ آیندہ ہرعہد کی تحریکاتِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے بہترین نمونہ اور اسوہ فراہم کرتی ہے۔ اس طویل اور صبر آزما حکمتِ عملی میں بدروحنین بھی ہیں، حدیبیہ جیسے نازک مراحل بھی ہیں، اُحد و اَحزاب جیسی آزمایش بھی ہے اور خیبر اور مکہ کی فتوحات بھی۔ اس تمام دورانیے میں نبی خاتم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا غیرمتزلزل عزم، مقصد و ہدف کا واضح ہونا، اور مناسب حال حکمتِ عملی کا وضع کرتے رہنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
انبیاے کرام ؑ کو یہ امتیاز اور اعزاز حاصل ہے کہ وہ جو حکمتِ عملی وضع کرتے ہیں ، اسے براہِ راست اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے، اور اگر کسی موقعے پر اس میں کسی نظرثانی یا اصلاح کی ضرورت ہو تو وحی کے ذریعے اسے استوار کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ فتحِ بدر کے بعد مفتوح کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے؟ یا حدیبیہ کے موقعے پر معاہدے کی نوعیت کیا ہو؟ یا مکہ کو فتح کرنے کے لیے کس طرح لشکر کو ترتیب دیا جائے؟ فتح کے بعد کیا شکل اختیار کی جائے؟ ان تمام معاملات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو براہِ راست وحی کے ذریعے اپنی حکمتِ عملی میں مناسب تبدیلی کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔ یہ شکل بعد کی اسلامی تحریکات میں نہیں ہوسکتی۔ انھیں تو اپنے تجربات کی روشنی میں اپنی محدود عقل کو جہاں تک وہ پہنچ سکے، استعمال کرکے ہی وقتاً فوقتاً اپنی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ لیکن لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا کی یقین دہانی تو موجود ہے، بس شرط جَاھَدُوْا فِیْنَا کی ہے،جس میں جدوجہد کا حق ادا کرنا اس کی اصل اور روح ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی حکمتِ عملی کو تین دائروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اوّلاً: اصلاحِ قلب اور روحانی حکمتِ عملی، ثانیاً:تعلیمی اور دعوتی حکمتِ عملی، اور ثالثاً: رفاہی اور اجتماعی زندگی کی تبدیلی کی حکمتِ عملی۔
تعلق باللہ کی ایک دوسری عملی شکل صیامِ رمضان میں پائی جاتی ہے۔ جس طرح نماز میں مکمل بندگی و اطاعت کا اظہار، زبان کی ہرہر جنش اور جسم کی ہر ہر حرکت سے ہوتا ہے، ایسے ہی روزے کے دوران ایک نوعمر ہو یا بوڑھا، جوان ہو یا بچہ، تنہائی میں ہو یا محفل میں، پورے ایک ماہ اللہ تعالیٰ کے ہمہ وقت موجود ہونے کے احساس کے ساتھ، دن اور رات کے ہرلمحے میں اللہ کی خوش نودی کے لیے نماز، تلاوتِ قرآن، قرآن پر غوروفکر، انفاق و صدقات میں کثرت، دوستوں اور غیروں کی ضیافت میں اضافہ، غرض عبادات ہوں یا معاملات، ہر معاملے میں اللہ کی بندگی ہی پیش نظر رہتی ہے۔ ایک ماہ کی مسلسل تربیت ِروحانی ایک مسلم مرد اور عورت کو اپنے لیل و نہار کو پابندیِ وقت کے ساتھ اپنے رب کی بندگی اور اللہ کے بندوں کی خدمت کا عادی بنا دیتی ہے اور اس تربیت کے اثرات سال کے بقیہ مہینوں تک برقرار رہتے ہیں۔ یہ تعلق ربانی تصورِ حیات میں انقلابی تبدیلی لاتا ہے اور تزکیۂ نفس کے ان آداب سے آگاہ کرتا ہے جو سنت ِمطہرہ میں پائے جاتے ہیں۔
پھر حج اس کا ایک مجرب نسخہ ہے۔ اللہ سے تعلق اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اس کے لاکھوں بندے اس کے بتائے ہوئے مہینے اور دنوں میں اپنے قومی لباس اور زبانوں کو خیرباد کہہ کر یک زبان ہوکر لبیک اللھم لبیک اور اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الٰہ الا اللّٰہ کا نغمہ بلندکرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنی آنکھوں سے حرمِ کعبہ کو دیکھ لیں۔ بات یہاں آکر نہیں رُک جاتی۔ اب تک اللہ سے قرب اور تعلق کا اظہار زبان سے اس کی تکبیرات سے ہو رہا تھا، اب نگاہ ہو یا قلب، قدم ہوں یا پیشانی اور ہاتھ، ہر ہر عضو جسم اللہ کے گھر میں اس کی عظمت و احسانات کے پیش نظر فرش گیر ہوجاتا ہے۔
اللہ سے تعلق و قربت، نہ صرف عمرہ اور حج کی شکل میں، بلکہ پیداوارِ دولت کے ذریعے بھی اختیار کی جاتی ہے۔ ایک تاجر ہو یا کسان، اس کی ہرمعاشی کوشش کا مرکزی نکتہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے مال کو حلال اور مباح طریقے سے پیدا کرے اور اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے اس کا بہترین حصہ اس کی راہ میں خرچ کر کے عاجزی سے اس کی قبولیت کی درخواست کرے۔
یہ تعلق باللہ رات کی تاریکی میں ان تنہائیوں میں بھی ہوتا ہے جب بندہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوکر اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ یہی تعلق باللہ اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ظلم و جبراور ناانصافی کے خلاف، طاغوتی نظام سے نجات اور حق کے نظام کے قیام کے لیے اپنے مال اور نفس کو اللہ کے حضور پیش کردے۔ بالکل اسی طرح معاشرے میں بڑھتی ہوئی اباحیت کو روکنے کے لیے اس کا اپنے مال اور صلاحیت اور وقت کا استعمال بھی رب کریم کے ذکر کی ایک شکل ہے۔ تعلق باللہ اور روحانی ترقی کا ایک اور مؤثر ترین ذریعہ قرآن کریم کی رفاقت ہے۔ جب قرآن کریم ایک صاحب ِ ایمان کا رفیق بن جاتا ہے تو پھر اسے کسی اور کی رفاقت کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ یہ پُراز حکمت خزینہ اس کے تمام مسائل اور مشکلات کا جامع حل بدلتے حالات میں فراہم کرتا ہے۔
روحانی حکمتِ عملی کے بغیر دیگر مراحل، منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کوئی امداد فراہم نہیں کرسکتے۔ روحانی حکمتِ عملی محض چلّوں اور مراقبوں کا نہیں، میدانِ کارزار میں جان و مال کے جہاد کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ روح و جسم اور قلب و ذہن کی دوئی کو ختم کر کے اللہ کے بندے کے مکمل وجود کو توحید کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ یہ اللہ کی مشیت اختیار کرنے کا نام ہے۔ یہ اپنی زندگی اور موت اور تمام معاملات کو صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی میں دے دینے سے حاصل ہوتی ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (انعام ۶:۱۶۲) ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
روحانی حکمتِ عملی ایک شخص کو تمام غلامیوں سے نکال کر ایک ایسا مردِ حُر بنادیتی ہے کہ وہ نہ کسی سے ڈرتا ہے نہ دبتا ہے، بلکہ مکمل طور پر اللہ کا عبد بن جاتا ہے۔ اللہ کی عبدیت کا حصول ہی اگلے دائرے کی طرف پیش قدمی کرنے والا پہلا قدم ہے جس کی طرف قرآن کریم نے یوں اشارہ کیا ہے : یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (اٰل عمرٰن۳: ۱۶۴) ’’جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
انبیاے کرام ؑاور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ایک دعوتی، تعلیمی اور تربیتی حکمتِ عملی کے ذریعے معاشرتی انقلاب تھا۔ اسلام میں روحانیت، معاشرے سے کٹ کر تجرد میں نہیں بلکہ معاشرے کی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہوئے ضبط نفس اور استقامت کے ساتھ قیامِ حق کی جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے۔ تقویٰ اور نیکی محض مشرق یا مغرب کی طرف رُخ کرلینے کا نام نہیں ہے بلکہ شعوری طور پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا رب، رسولؐ کو اپنا قائد، اللہ کی نازل کردہ شریعت کو ضابطہ حیات، اور اس کے ساتھ معاشرے کے ضرورت مند افراد کی خبرگیری اور امداد، انھیں قرضوں سے نجات دلاکر، بھوک اور افلاس سے نکال کر ایک باوقار اور باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنانے کا نام ہے۔ یہ معاشرے سے برائی کو مٹانے اور حق و صداقت کو غالب کرنے کی پیہم کوشش کا نام ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت البر اس پہلو کی وضاحت کرتی ہے:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ج وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ج وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (البقرہ۲: ۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کودل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتہ داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔ اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک لوگ وہ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔
اس نظامِ تعلیم و تربیت میں وقت کی اہمیت اور پابندی کی صفت پیدا کرنے کے لیے نظامِ صلوٰۃ کو ذریعہ بنایاگیا۔ چنانچہ ہر موسم میں دن ہو یا رات، صبح ہو یا شام، نماز کو مقرر اوقات پر قائم کرنے کے نتیجے میں تحریک کا ہرکارکن ایک آواز پر مقررہ وقت پر حاضر ہونے کا عادی بن گیا۔ اس نظامِ تعلیم میں بے غرضی، خلوص، ایثار و قربانی، اپنے مال اور جان کو اللہ کے لیے حاضر کردینے کی تمنا ہرہرکارکن کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔ اس نظامِ تربیت میں سمع و طاعت کے ساتھ ساتھ ہرمعاملے میں مشاورت کو اختیار کیا گیا اور اس طرح کارکنوں میں وابستگی کا احساس پیدا کیا گیا۔ اب وہ بکھرے ہوئے موتیوں کے مانند نہ تھے بلکہ ایک تسبیح کے دانوں اور ایک ہار کے موتیوں کی طرح ایک دوسرے سے منسلک ہوکر ایک دوسرے کے لیے قوت اور سہارا بن گئے تھے۔ ان کی گفتگو نصیحت کی گفتگو تھی کہ تمام معاملات میں دوٹوک راے کے ذریعے ایک مجموعی راے تک پہنچا جاسکے۔ جب تک مسلم معاشرے میں تعلیم و تربیت کا یہ نظام برقرار رہا، مسلم معاشرہ ترقی کرتا رہا۔ مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور عسکری قوت بڑھتی رہی لیکن جب شورائیت کی جگہ خودرائی، تنہا ایک شخص کا اپنی راے کا دوسروں پر مسلط کرنا عام ہو گیا، اور جن سے مشورہ کیا جاتا، وہ بھی یہ دیکھ کر مشورہ دینے لگے کہ کہیں مشورے سے ان پر کوئی زد نہ آئے، تو پھر معاشرے کا زوال شروع ہوگیا۔ اس تبدیلی کو خلافت سے ملوکیت اور شخصی حکمرانی کی طرف رجعتِ قہقری کے تناظر میں بھی پورے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔
تعلیمی حکمتِ عملی اس لیے ضروری ہے کہ یہ ایک خاموش اور دیرپا انقلاب لے کر آتی ہے۔ اس کی پہچان کارکنوں اور قیادت میں اسلامی شخصیت کا پایا جانا ہے۔ جس طرح ایک پھل والے بیج کی شخصیت اُس پھل کے درخت میں ظاہر ہوتی ہے، بالکل اسی طرح اسلامی تعلیمی حکمتِ عملی کے زیراثر تربیت پانے والی ہرشخصیت ایک پھل دار درخت کی طرح مستحکم و مستقیم ہوتی ہے۔تعمیرِ کردار اور تربیتِ سیرت سے وہ افرادِ کار تیار ہوتے ہیں جو سخت سے سخت آزمایش کا مقابلہ مسکراتے ہوئے اپنے رب پر اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو صلحا، شہدا اور انبیا ؑکے ساتھ اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے۔ تعلیمی حکمتِ عملی وہ مردانِ کار تیار کرتی ہے جو اقامت دین کی جدوجہد نہ صرف سیاسی میدان میں بلکہ اپنے گھر میں، محلے میں،مسجد میں، کاروبار میں، معاشرتی تعلقات میں، غرض ہرممکنہ انسانی شعبۂ حیات میں اختیار کرتے ہیں اور زبان سے زیادہ ان کا طرزِعمل دوسروں کے لیے تربیت و تعلیم کا ذریعہ بنتا ہے۔ تعلیم دعوت کا ایک حصہ ہے اور دعوت تعلیم کا ثمرہ اور مقصد و مطلوب۔ دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
تعلق باللہ، تعلیم و دعوت اور رفاہ و خدمت ہی دراصل وہ تعمیراتی اینٹیں ہیں، جن سے وہ تعمیر وجود میں آتی ہے جسے اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست کہا جاتا ہے۔ جس کا نقطۂ فراز، انقلابِ قیادت ہے، جیساکہ مدینہ کی ریاست کی شکل میں ہوا اور اس نے تاریخ کے دھارے کو تبدیل کردیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں تحریک اسلامی کے مکّی دور کے ۱۳سال اور مدنی دور کے ۱۰سال اور خلافت راشدہ کا روشن دور اسلام، اس کی دعوت، پیغام، مشن اور انقلابی تبدیلی کے لیے نمونے (model) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کا ہر حصہ دوسرے سے مربوط اور ایک وسیع تر دعوت کا حصہ ہے۔
اسلامی تحریکوں نے مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں اعلیٰ پیمانے کے شفاخانے،اور فلاحی کاموں کے ادارے قائم کر کے اس جواب دہی سے بچنے کے لیے محدود سطح پر کام تو کیا ہے، لیکن اسے تحریکی انقلابی حکمتِ عملی کے ایک بنیادی مرحلے کے طور پر اختیار کرنے کا خواب ادھورا ہے۔ پاکستان میں جس کام کا آغاز ۱۹۵۰ء کے عشرے میں کراچی میں مرحوم چودھری غلام محمد امیرجماعت اسلامی کراچی نے کیا تھا، اسے وہ وسعت نہ دی جاسکی جس کا وہ متقاضی تھا۔ اگر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے تو ترکی میں تحریکِ اسلامی کی فکر رکھنے والے افراد کا ۳۰سالہ جدوجہد کے بعد اختیار و اقتدار میں آنا جہاں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی خاص عنایت و رحمت ہے، وہاں اس میں بڑا دخل اس تیسرے مرحلے کا بھی ہے، یعنی فلاحی حکمتِ عملی۔
اگر سیلاب زدگان کے لیے مکانات تعمیر کیے جائیں، اگر بھوکے افراد کو کھانا فراہم کیا جائے اور وہ بھی کیسے؟ یعنی ایک مٹھی بھر گندم یا چاول گھر گھر سے جمع کر کے، تو نہ صرف عوامی شرکت کے ذریعے بلکہ ذاتی اور انفرادی سطح پر کارکنوں کی ایسی لگن کے ذریعے، جس میں معاشرے کی دست گیری، دُکھ درد میں شرکت اور جائز مدد کا ہر پیمانہ شامل ہو۔ اس کے نتیجے میں ایک جانب فرد کی حسنات میں اضافہ ہوگا، دوسری جانب لوگوں کے دُکھ درد کم ہوں گے، اور تیسری جانب خود تحریک کا تاثر محض ایک سیاسی یا انتخابی تحریک کی حد تک محدود نہ رہے گا۔ یہ تاثر ایک دینی، اصلاحی، فلاحی اور سیاسی تحریک کی مجسم تصویر میں ڈھل جائے گا۔
فلاحی حکمتِ عملی میں بیوائوں کے لیے امداد، یتیموں کی تعلیم و تربیت، بیماروں کی تیمارداری اور صحت کے ایسے مراکز کا قیام شامل ہے جہاں تحریک سے وابستہ ڈاکٹر انھیں مفت مشورہ اور کم قیمت پر دوائیں فراہم کرسکیں۔ محلوں اور بستیوں میں صفائی مہم، عدم تحفظ کے شکار عوام کو قانونی مشورہ فراہم کرنا یا ان کے محلے میں کمیٹی بنا کر اپنی حفاظت کے لیے چوکیدار، سڑک کے ناکے پر پوچھ گچھ کا انتظام وغیرہ، ایسے کام ہیں، جن میں کسی بھاری مالی صرفے کے بغیر انتظامی اقدامات اور افرادی قوت کو منظم کر کے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے ہرعلاقے میں تحریک کے افراد خود سوچ کر اپنے لیے ترجیحات مقرر کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے مرکز سے کسی ہدایت کی ضرورت نہیں، کہ تحریک نے روزِ اوّل سے ہدایت دے رکھی ہے۔
فلاحی حکمتِ عملی دراصل اسلامی تحریکوں کے اجتہادی ہونے کی دلیل ہے۔ یہ ان کا ایک امتیاز ہے۔ ان کا اجتہادی ہونا، یعنی مسائل سے گھبرائے بغیر، مایوسی کو پاس نہ آنے دینا اور بصیرت و بصارت کے استعمال سے نئے راستے نکالنا ان کا طرئہ امتیاز ہے۔ سید مودودیؒنے ۱۹۶۳ء میں جماعت کے اجتماع میں جو بات ایک مثال دے کر سمجھائی تھی، اس کا تعلق صرف اس وقت کی صورت حال سے نہ تھا، بلکہ وہ ایک تاریخی حقیقت اور تحریک کے لیے ابدی ہدایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج کی صورت حال میں اس کی اہمیت اور افادیت کچھ اور بھی دوبالا ہوجاتی ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ جب حیات بخش پانی کا ایک چشمہ یا دریا یہ دیکھتا ہے کہ اس کا راستہ پہاڑ نے روک لیا ہے تو وہ پہلو بچا کر نیا راستہ نکال لیتا ہے اور پہاڑ اس کا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پہاڑ سے کنارہ کرتا ہوا پانی کا ریلا اسے غیرمحسوس طور پر گھستا رہتا ہے، حتیٰ کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور پانی کا ہر نرم و نازک قطرہ شاداں و کامیاب رہتا ہے۔
آج جب ملک میں بار بار یہ بات ابلاغِ عام میں دہرائی جارہی ہے کہ حالیہ بدعنوان حکومتی جماعت کو عوام رد کرچکے ہیں اور سابقہ حکومتی جماعت کے بے اصولی پن نے اسے متبادل کے مقام سے گرا دیا ہے، اور نگاہیں کسی بڑی تبدیلی لانے والی قوت کی طرف اُٹھنے لگی ہیں خواہ وہ اس کٹھالی سے گزری ہی نہ ہو جو لوہے کو فولاد بناتی ہے۔ زمینی اور سیاسی حقائق جس طرف اشارہ کررہے ہیں، وہ تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی اللہ کا قانون اور تاریخ کا سبق ہے کہ ایسے حالات میں تبدیلی کے لیے انقلابی لہروں کا فروزاں ہونا ضروری ہے۔ہمارے لیے یہ بات سنجیدگی سے سوچنے کی ہے کہ ابلاغِ عامہ سے قطع نظر ،کیا سڑک پر چلنے والا ایک عام شہری یا گائوں کا ایک سادہ لوح انسان، جو موجودہ اور سابقہ حکمرانوں سے یکساں نالاں ہے، مستقبل کی جماعت کی حیثیت سے تحریکِ اسلامی کی طرف دیکھتا ہے؟ اگر معروضی طور پر یہ بات ہے تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنی رفتار کا ر میں سو گنا بلکہ ہزار گنا اضافہ کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ اللہ کی نصرت سے ہم تبدیلیِ قیادت کی خدمت انجام دے سکیں۔لیکن اگر ایک سرِراہ چلنے والا راہی بھی ابلاغِ عامہ کی طرح یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی تحریک اور اصلاحی قوتیں ایسی تیسری ترجیح نہیں بن سکے ہیں، تو پھر ہمیں تجزیہ کرنا ہوگا کہ اس تاثر کو کن ٹھوس، قابلِ حصول، متعین اقدامات کے ذریعے کم سے کم وقت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
ممکن ہے اس خود احتسابی کے عمل میں ہمیں کچھ وقت لگے لیکن کم از کم ایک ایسی حکمتِ عملی فوری طور پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو تعلیمی، دعوتی اور فلاحی کاموں کو بنیاد بناتے ہوئے ایک عام شہری کو یہ پیغام دے سکے کہ تحریکِ اسلامی اس کی فلاح چاہتی ہے اور ملک کو تباہی سے بچانے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اصل اور آخری ہدف، یعنی رضاے الٰہی کا حصول جو تحریک اسلامی کا ہدف ہے، اور قریب المیعاد حکمتِ عملی میں ربط اور تسلسل کا ہونا بہت ضروری ہے۔ فلاحی کاموں کو صرف اللہ کی رضا کے لیے انجام دینا اس بات سے نہیں روکتا کہ ان کے بارے میں نہ جاننے والوں کو بغیر کسی تعلّی کے معلومات فراہم کی جائیں اور وہ یہ بات سمجھ سکیں کہ اگر پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانا ہے تو اسے کون لوگ یہ مقام دلا سکتے ہیں۔ وہ جو خودغرض، جھوٹ کا کاروبار کرنے والے ہیں، یا وہ جو اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادایگی کے لیے اپنا وقت، اپنی صلاحیت، اپنا مال لگانے میں مصروف ہیں۔
’نیکی کر دریا میں ڈال‘ کی اخلاقی کیفیت اپنی جگہ لیکن رنگ و بو کی اس دنیا میں نیکی ہی نہیں، نیکوکاروں کی خدمات کا ابلاغ (projection) بھی تعلیم، دعوت، خدمت اور انقلاب کی حکمتِ عملی کا اہم حصہ ہے۔ یہ دنیا ظاہر (image) اور تصور (perception) کی دنیا ہے اور اچھے لوگوں اور نیک خدمات کا صحیح ابلاغ خودپسندی یا خودنمائی کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ دعوتی حکمتِ عملی کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔ تحریکِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو اس امر پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ان کا پیغام اور ان کی خدمات کا صحیح صحیح اِدراک ہر خاص و عام میں کس طرح پیدا کیا جاسکتا ہے۔
اس نکتے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلامی تحریکوں نے مصر ، تیونس اور مراکش میں کیا صرف منفی نعروں، یعنی سامراجی قوتوں کو ماربھگانے کے تذکرے سے یا مثبت نعروں، یعنی عوام کی فلاح، معیشت، تحفظ، صحت، تعلیم، روزگار اور حصولِ عدل کو اپنی حکمتِ عملی کے بنیادی نکات بنایا، اور پھر ایک عرصہ اس حوالے سے عوامی سطح پر کام کرکے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
ایک ایسے دور میں جب ہم اعتماد کے فقدان، خلوص کے افلاس اور اُمید سے محرومی کا شکار بنادیے گئے ہیں، ہم عوام الناس کو ان ذہنی اور روحانی امراض سے کس طرح اور کتنی جلد نجات دلا سکتے ہیں؟ نجات اور رہنمائی کے اس عمل کے لیے ہمیں اسلوبِ بیان اور تکنیک میں کس تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟ کیا آج تک اختیار کی گئی سیاسی زبان اور دعوتی اسلوب اس مقصد کے حصول کے لیے کافی ہے؟ ہمیں اس کے لیے اجتماعی طور پر غور کرنا ہوگا، تاکہ اُس برکت کے نتیجے میں جو اجتماعی مشورے کا خاصا ہے، ہم ایسی فلاحی حکمتِ عملی وضع کرسکیں جو یوم الحساب سرخروئی اور اس دنیا میں عادلانہ نظام کے قیام اور عوام الناس کو مایوسی سے نجات دلانے کا ذریعہ بن سکے۔
صدر ٹرمپ کی آمد کے ساتھ نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں بے چینی اور اضطراب کی ایک لہر دیکھی جاسکتی ہے۔ بے خدا اور نسلی تفاخر کی بنیاد پر استوار مغربی تہذیب کے ایسے کردار وقتاً فوقتاً صفحۂ ہستی پر اُبھرتے ہیں، انسانیت کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی کر کے ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ یوں سالہا سال تک اس کے نتائج یا اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا نوعِ انسانی بھگتتی رہتی ہے۔
امریکی حکومت اور اس کے عالمی کردار کے بارے میں اضطراب اور احتجاج کا سبب لوگوں اور قوموں کے مزاجوں میں کوئی رچی بسی امریکا دشمنی یا مخاصمت نہیں ہے۔ یہ وہی ملک اور لوگ ہیں، جو امریکا کی طرف اس اُمید سے دیکھتے تھے کہ یہ عصرِحاضر میں جمہوری اور دستوری دور کا آغاز کرنے والی ریاست ہے، جو بین الاقوامی سیاسی اُفق پر جمہوریت، حقوقِ انسانی اور قوموں کے حق خود ارادیت کی علَم بردار بن کر جلوہ گر ہوئی تھی۔ اور یہ ایک ایسی ریاست ہے جو کسی خاص نسل کا وطن نہیں تھی، بلکہ دنیا کی بہت سی نسلوں نے جس کی صورت گری کی تھی، اور جس کی تعمیر میں محض اس ملک ہی کے نہیں، دنیا بھر کے بہترین دماغوں نے سائنسی تحقیق سے انسانیت کو صحت مند بنایا اور اسے قوت عطا کی۔ افسوس کہ دنیا بھر کے بہترین دماغوں کی ایک لگن کے ساتھ کی جانے والی تحقیق کے ثمرات کو، امریکی مقتدر قوتوں نے دنیاپر دھونس جمانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا، اور انصاف پر مبنی عالمی نظام کی داعی بننے کے بجاے ایک استعماری قوت (Imperial Power) کا کردار ادا کرنے لگی۔ دنیا اگر آج امریکا سے خو ف زدہ ہے اور اس کے حکمرانوں اور پالیسیوں سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے تو یہ نتیجہ ہے ان پالیسیوں اور اقدامات کا، جن کی دنیا ستم زدہ ہے۔
حالات کی صحیح تفہیم کے لیے اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ آج امریکا سے بہ حیثیت ایک عالمی طاقت ایسی مایوسی اور بے زاری اور اتنی تیزی اور شدت سے اس کا ہمہ گیر اظہار نہ کوئی اتفاقی حادثہ ہے اور نہ محض کسی سازش کا شاخسانہ۔ اس کے ٹھوس اسباب اور عوامل ہیں۔ ان کا سمجھنا امریکا کی قیادت کے لیے بھی ضروری ہے اور ان اقوام کے لیے بھی، جو اضطراب، احتجاج اور مایوسی سے دوچار ہیں۔ اس تفہیم کا مقصد حالات کی اصلاح اور عالمی تصادم کے اسباب و عوامل کا تدارک ہے، تاکہ دنیا جنگ و جدل اور خون خرابے سے محفوظ رہ سکے۔
انسانوں اور قوموں میں، طاقت کا عدم توازن اور وسائل کا غیرمتناسب وجود ایک حقیقت ہے۔ محض اس کی وجہ سے اضطراب اور تصادم ایک غیرفطری عمل ہوگا۔ لیکن ایسا فرق جب ایک قوت کی دوسروں پر بالادستی،استیلا اور ان کے استحصال (exploitation) کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے، تو بے زاری، اضطراب اور تصادم کے دروازے کھلنے لگتے ہیں جو آخرکار ٹکرائو اور خون خرابے پر منتج ہوتے ہیں۔ یہی ہے وہ عمل جو امریکا اور دنیا کی دوسری اقوام کے درمیان دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ عمل ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کے ایک سوپرپاور کی حیثیت سے میدان سے نکل جانے کے بعد اور بھی تیز ہوگیا ہے۔
امریکا کے پاس مادی اور قدرتی وسائل کی اتنی بہتات رہی ہے کہ اپنے باشندوں کے لیے وہ زندگی کی تمام سہولتیں بہ افراط فراہم کرسکتا ہے، لیکن عالمی بالادستی کا خواب، دنیا کی دوسری اقوام کے وسائلِ حیات کو اپنی گرفت میں لینے کے عزائم، دنیا کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالنے اور دوسروں پر اپنی اقدار اور نظریے کو بہ زور مسلط کرنے کے منصوبے ہی دراصل تصادم اور ٹکرائو کی جڑ ہیں۔ یہ خواہشات دراصل دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکا کی عالمی حکمت عملی کے اجزا بنتی جارہی ہیں۔ سردجنگ کے دور میں امریکا نے آزاد دُنیا کے تحفظ اور اشتراکیت دشمنی کے نام پر ان اہداف کو حاصل کرنے کی سعی کی، لیکن سردجنگ کے بظاہر خاتمے کے بعد امریکا نے اس لہر کو باندازِ دگر اور بھی تیز کردیا۔
بدقسمتی سے اب اس کے نئے اہداف میں سرفہرست اسلامی دنیا، احیاے اسلام کی تحریکات اور خود اسلام بن گئے ہیں، جس کا دبے لفظوں میں اور ہیرپھیر کے ساتھ اعتراف تو گذشتہ ۳۰برسوں میں ہوتا رہا ہے، مگر اب امریکا کی نئی قیادت اور اس کے پیچھے دائیں بازو کے مفکرین، ’مراکز دانش‘ (Think Tanks) ،میڈیا اور منظم گروہ کھلے بندوں اعتراف کر رہے ہیں۔ صدرٹرمپ کے دستِ راست اور قومی سلامتی کے ایڈوائزر جنرل فلِن کو صرف تین ہفتوں میں مستعفی ہونا پڑا، تاہم صدرٹرمپ نے اس کو اپنا معتبر ترین ساتھی قرار دیا ہے۔ جنرل فلِن نے متعدد بار اسلام کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔ ۲۰۱۶ء میں اپنی کتاب The Field of Fight میں اسلام کو کینسر قرار دیتے ہوئے خبث ِ باطن کا اظہار کیا اور متعدد بار ان خیالات کا بہ تکرار اعادہ کیا۔
اکیسویں صدی کو ’امریکا کی صدی‘ اور ساری دنیا کو ’امریکا کے رنگ میں رنگنے ‘کی مہم کا نام ’عالم گیریت‘ (Globalisation) رکھا گیا ہے۔ یوں امریکا انا ولاغیری کے زعم میں مبتلا ہوگیا۔ اس خبط میں دوسروں پر اپنی طاقت کا رُعب جمانا اس کا مقصد ِوجود بن گیا۔ یہی ہے وہ دوراہا ہے جہاں دوسری اقوام میں بھی اپنی آزادی، اپنی عزت اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہونے کی اُمنگ پیدا ہوئی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج عالمی سیاست تصادم کے خطرناک راستے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
امریکا کاواحد عالمی قوت ہونا، ظاہربین نگاہوں میں ممکن ہے ایک حقیقت ہو، لیکن اس واحد سوپر پاور کا دوسروں پر غلبہ حاصل کرلینا اور ان کو اپنا تابع مہمل بنالینے کی کوشش میں مگن رہنا ایک خطرناک کھیل ہے، جس نے عالمی امن کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ غلبہ اور جہانگیری کے انھی عزائم کے حصول کے لیے خارجہ سیاست کے ساتھ فوجی حکمت عملی اور معاشی اثراندازی کا عالم گیر جال اور جاسوسی اور تخریب کاری کا ایک ہمہ پہلو نظام،امریکا نے پوری دنیا کے لیے قائم کیا ہے، اور اسے روز بروز زیادہ مؤثر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
فوجی معاہدات اور معاشی زنجیروں کا جال ہے جو ریاستی، عالمی مالیاتی اور تجارتی اداروں کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے دام میں گرفتار کیے ہوئے ہے۔ سامراجی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے غیرسرکاری اداروں (NGO's) کی ایک فوج اس عالم گیر استیلا کا ہراول دستہ ہے اور جاسوسی کا نظام ہے جو صرف سی آئی اے ہی تک محدود نہیں ہے، بلکہ متعدد بلاواسطہ اور بالواسطہ ایجنسیوں کے ذریعے کام کر رہا ہے۔ یہ تمام مظاہر امریکا کے عالمی سامراجی آکٹوپس کے مختلف پنجے ہیں۔
اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے امریکا، جہاں دنیا کے دوسرے ممالک کے مادی وسائل کو ہضم یا بھسم کر رہا ہے، وہیں اپنے شہریوں کے وسائل استعمال کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی جواز پیش کرنے کے لیے مجبور ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک زمانے میں اشتراکیت اور روس کا ہوّا تھا، اور ماضی قریب میں سرکش ریاستوں(Rogue States) کا ڈرائونا خواب دکھایا گیا تھا۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سی آئی اے کو جو مینڈیٹ سردجنگ کے زمانے میں دیا گیا تھا، وہی اختیاراس کے مقتدر طبقے کو آج چاہیے۔ اس ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے ۱۹۵۴ء میں وائٹ ہائوس کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا:
اس کھیل کے کوئی قواعد نہیں۔ ہمارے دشمن ہمارے خلاف جو طریقے استعمال کرتے ہیں، ہمیں ان سے زیادہ مؤثر، سوچے سمجھے طریقوں کو ہوشیاری سے استعمال کر کے دشمن کو سبوتاژ کرنا ، مٹانا اور تباہ کرنے کے اسباب مہیا کرنے ہیں۔(Brave New World Order، از جیک نیلسن پال میر، ص ۴۳)
امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے ہی سے پورے زوروشور سے عوامی جمہوریہ چین، شمالی کوریا اور چند مسلمان ملکوں (ایران، افغانستان، لیبیا، سوڈان) کو امریکا اور مغربی دنیا کے لیے ’اصل خطرہ‘ بنا کر پیش کرنا شروع کیا تھا، اور اب ان میں چار مزید مسلم ممالک عراق، شام، یمن، صومالیہ کا اضافہ کر دیا ہے، اور اس نام نہاد ’خطرے‘ سے مختلف سطحوں پر نبٹنے کے لیے ’جواز‘ کی فضا بنائی جارہی ہے۔
اب سے ۳۴ برس قبل امریکی صدر جمی کارٹر (۸۱- ۱۹۷۷ء) کے قومی سلامتی کے مشیر زبگینیو بریزنسکی نے اپنی کتاب The Grand Chessboard میں صاف لفظوں میں لکھا تھاکہ امریکا کی خارجہ سیاست کا اصل ہدف ہونا ہی یہ چاہیے کہ اکیسویں صدی میں امریکا دنیا کی سوپرپاور رہے اور اس کا کوئی مدمقابل اُٹھنے نہ پائے___ کم از کم پہلی ربع صدی میں تو میدان صرف امریکا ہی کے ہاتھ میں رہنا چاہیے:’’یورپ اور ایشیا دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں امریکا کی برتری برقرار رہنی چاہیے۔ یہ ناگزیر اور لازم ہے کہ یور پ اور ایشیا میں کوئی ایسی طاقت نہ اُبھر پائے جو امریکا کو چیلنج کرسکے‘‘۔
یہی وہ ذہنیت ہے جو امریکا کے پالیسی سازوں اور سیاسی قیادت میں ایک قسم کی رعونت پیدا کرتی آئی ہے۔ اس رعونت کے جواب میں بجاطور پر باقی دنیا میں مایوسی اور بے زاری کی لہریں اُٹھ رہی ہیں۔ کچھ عرصہ پیش تر ایک امریکی وزیرخارجہ نے کسی تکلف اور تردّد کے بغیر امریکا کی اس ذہنیت اور عزائم کا جو اعلان کیا، وہ کالمیرجانسن کی کتاب میں ان الفاظ میں ملتا ہے:
ہمیں طاقت استعمال کرنی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم امریکا ہیں۔ ہم نوعِ انسانی کے لیے ایک ناگزیر قوم ہیں۔ ہم سربلند ہیں اور ہم مستقبل میں دُور تک دیکھتے ہیں۔ (Blowback: The Costs and Consequences of American Empire، ص ۲۱۷)
واحد عالمی طاقت ہونے کا زَعم ہی وہ چیز ہے جس نے امریکی قیادت میں اس فرعونیت کو جنم دیا ہے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال وہ الفاظ ہیں، جن میں اپنی حیثیت کا اظہار امریکی صدر لنڈن بی جانسن (۶۹- ۱۹۶۳ء) نے قبرص کے تنازعے کے موقعے پر یونان کے سفیر سے کیا تھا۔ یونان، امریکا کا ایک دوست ملک اور امریکی قیادت میں فوجی اتحاد ناٹو میں اس کا رفیقِ کار ہے۔ جب یونان کے سفیر گیرانینوز گیگ نیٹس نے امریکا کا حکم نہ ماننے کے لیے، اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پارلیمنٹ اور اپنے دستور کے حوالے سے التجا کے لہجے میں بات کی، تو امریکی صدر جانسن طیش میں آگئے اور انھوں نے گالی دے کر یونانی سفیر سے کہا:
بھاڑ میں جائے تمھاری پارلیمنٹ اور جہنم رسید ہو تمھارا دستور___ امریکاایک ہاتھی ہے اور قبرص ایک چھوٹا سا پسّو۔ اگر یہ پسّو ہاتھی کو تنگ کرے گا تو ہاتھی کی سونڈھ اسے کچل دے گی۔ مسٹر سفیر، ہم یونان کو بہت سے امریکی ڈالر دیتے ہیں۔ اگر تمھارا وزیراعظم مجھ سے جمہوریت، پارلیمنٹ اور دستور کی بات کرتا ہے تو یاد رکھو: وہ، اس کی پارلیمنٹ اور اس کا دستور زیادہ دیر باقی نہیں رہیں گے۔ (Should Have Died، از فلپ ڈین، ۱۹۷۷ء، ص ۱۱۳-۱۱۸)
ذرا مختلف پس منظر میں، لیکن اسی ذہنیت کا مظاہرہ امریکا کے چیف آف اسٹاف جنرل کولن پاول (بعدازاں صدر بش جونیئر کے زمانے میں وزیرخارجہ) نے باربار کیا تھا۔جن دنوں امریکا نے بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پانامہ جیسے ایک آزاد ملک پر فوج کشی کی، اس کے صدر کو اغوا کیا اور سزا دی تو اعتراض کرنے والوں کے جواب میں جنرل پاول نے کہا تھا:
ہمیں کنکر کو اپنے دروازے سے یہ کہہ کر باہر پھینکنا ہے کہ یہاں سوپرپاور رہتی ہے۔(Brave New World Order، ص ۸۷)
پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اپنی برہمی کا اظہار بھی امریکا اسی ذہنیت سے کرتا آیا ہے۔ پاکستان کی سفیر سیّدہ عابدہ حسین سے جو گفتگو جنرل پاول نے کی تھی، وہ نوٹ کرنے کے لائق ہے۔ امریکا سے شائع شدہ کتاب Between Jihad and Salam میں جوائس ڈیوس نے عابدہ حسین کا انٹرویو شامل کیا ہے، جس میں انھوں نے بتایا:
جنرل پاول نے مجھ سے پوچھا: ’’امریکی اعتراضات اور مالی امداد ختم کر دینے کے باوجود پاکستان کو اپنے جوہری پروگرام پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ آپ یہ بات جانتی ہیں کہ یہ بم آپ استعمال نہیں کرسکتی ہیں تو اس کے باوجود آپ انھیں کیوں رکھنا چاہتی ہیں؟‘‘
میں نے کہا:’’ جنرل، آپ کیوں ایٹم بم رکھتے ہیں؟‘‘
جنرل پاول نے کہا:’’ ہم کم کر رہے ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا: ’’کتنے سے کتنے، جنرل؟‘‘
پاول نے جواب دیا: ’’چھے ہزار سے دو ہزار‘‘۔
میں نے کہا: ’’جنرل، آپ دو ہزار بم رکھیں گے اور چاہتے ہیں کہ ہمارے جو چند بُرے بھلے زمین میں پوشیدہ ہیں، ہم ان سے بھی فارغ ہوجائیں۔ آپ تو ہم سے خودکشی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم ایک جوہری ریاست کے پڑوس میں رہتے ہیں۔ کیا اگر کینیڈا اور میکسیکو کے پاس بم ہوں تو آپ اپنے بم ختم کردیں گے؟ کیا آپ ایسا کریں گے؟‘‘
جنرل پاول نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’دیکھیے سفیرصاحبہ، میں اخلاقیات کی بات نہیں کر رہا ہوں، میں آپ سے صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم ریاست ہاے متحدہ امریکا ہیں اور آپ پاکستان ہیں‘‘۔
میں نے کہا: جنرل، آپ کا شکریہ کہ آپ نے صاف صاف بات کی ہے‘‘۔
اپنے اقتدار اور قوت کے نشے میں بدمست ہونا، دوسروں کو خاطر میں نہ لانا، ہرکسی کو اپنے مقابلے میں حقیر سمجھنا اور خودپسندی، تکبر اور زعم میں مبتلا ہوکر دوسروں کی تضحیک کرنا، انسان اور اقوام کے وقار کو بڑھاتا نہیں، کم کرتا ہے۔
ایسی ہی ذہنیت، ان عزائم اور ایسے مطالبات کے ساتھ امریکا دنیا میں جمہوریت کا علَم بردار، حقوقِ انسانی کا محافظ، قانون کی مساوات اور پاس داری کا داعی اور انصاف کا پرچارک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے___ اور اس کی اسٹرے ٹیجی کا ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا کو امریکا کے وژن اور اقدار کو قبول کرلینا چاہیے۔ یہی دراصل سامراجیت کی روح ہے جس کی بنا پر امریکا اور باقی دنیا کے درمیان اجنبیت، فاصلہ اور تلخی پیدا ہورہی ہے۔
امریکا کی ٹفٹس یونی ورسٹی میں علمِ سیاسیات کے پروفیسر ٹونی اسمتھ نے ایتھکس اینڈ انٹرنیشنل افیئرز میں ۱۶برس پیش تر اپنے مضمون میں متنبہ کیا تھا کہ نہ امریکا کی طاقت غیرمحدود ہے اور نہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنے نظام اور اقدار کو دوسروں پر مسلط کرے، کیوں کہ یہ لبرل امپریلزم ہی کی ایک شکل ہے جس کا موجودہ زمانے میں کوئی جواز نہیں:
امریکی طرزِ حیات، اقدار اور اداروں کو دنیا کی دوسری اقوام میں رُوبہ عمل لانے کی کوشش میں ناکامی کا اندیشہ ہے۔ اس لیے نہیں کہ امریکی طاقت محدود ہے، بلکہ اس لیے کہ بڑے پیمانے پر اس کا استعمال بھی ان عقائد اور طریقوں میں اصلاح نہ کرسکے گا جو بنیادی طور پر امریکی طریقۂ کار کے مخالف ہیں۔ چین، مسلم دنیا یا روس کا امریکی مطالبوں کے آگے سپر ڈالنے کے لیے آمادہ ہونا بعید از امکان ہے۔ (Ethics & International Affairs ، ج ۱۴، ص ۶۰، مئی ۲۰۰۱ء)
بلکہ ا س سے بھی پہلے معروف امریکی مفکر والٹرلپ مین نے بڑی پتے کی بات کہی تھی:
جب ایک قوم ساری دنیا کے نظام کو یکساں شکل دینے کی ذمہ داری خود سنبھال لیتی ہے تو اس طرح دراصل وہ دوسروں کو اپنے خلاف متحد ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اس بات کا امکان ہے کہ جوہری اسلحہ وسیع پیمانے پر تشکیل پائے۔ یہ چیز کسی بھی صورت میں امریکی عوام کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خوش کُن راستہ نہیں ہوگا۔(رچرڈ بارنیٹ، Intervention and Revolution ، ۱۹۶۸ء، ص ۳۱۲)
اگرچہ امریکا اپنی موجودہ عظیم طاقت کو دنیا میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے، مگر اس کے برعکس جب تک امریکی یہ خام خیالی نہ چھوڑ دیں گے کہ دنیا بھر میں تبدیلی لانا ان کا حق اور فرض ہے، اس وقت تک خود امریکیوں کو بھی امن نصیب نہیں ہوسکے گا۔(ایضاً، ص ۳۳۲)
ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا پر بے اعتمادی اور اس کی مخالفت کا پہلا اور سب سے اہم سبب دنیا کے ممالک میں کوئی خرابی یا مرض نہیں بلکہ امریکا کا یہی زعمِ باطل ہے کہ: ’’وہ واحد سوپر پاور ہے اور ہمیشہ سوپر پاور ہی رہے گا۔ اس کا حق ہے کہ دنیا اس کے سامنے جھکے اور اس کی بالادستی قبول کرے‘‘۔
زمینی حقائق کے مطابق دنیا اسے ایک بڑی طاقت تو تسلیم کرے گی، مگر اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے کبھی تیار نہ ہوگی۔ وہ اس سے دوستی کا تعلق بخوشی رکھے گی، مگر غلامی اور چاکری کا مقام کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اگر امریکی حکومتیں تھوڑی سی حقیقت پسندی قبول کرلیں اور بالادستی اور شہنشاہی کی حکمتِ عملی کو ترک کرکے تکبر اور رعونت کے راستے کو چھوڑدیں، تو دُنیا ان کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے، اور ان کے عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔
امریکا سے دنیا کی بے زاری کے اسباب کو سمجھنے کے لیے امریکا کو خود اپنے رویے اور اپنے وعدوں اور عمل کے فرق پر غور کرنا ہوگا۔ اکیسویں صدی کے بالکل آغاز میں ایک چشم کشا کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire
۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی تھی (’بلوبیک‘ سی آئی اے کی اصطلاح ہے، جس کا مفہوم امریکی عوام کی لاعلمی میں کیے جانے والے اقدامات کا ردّعمل ہے۔ اس کا ترجمہ ’مکافات‘ بھی کیا سکتا ہے)۔ تب اس کے مصنف کالمیر جانسن، یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا، سان ڈیاگو (امریکا) کے پروفیسر تھے۔ یہ کتاب امریکا اور برطانیہ سے بہ یک وقت شائع ہوئی تھی۔ مصنف نے امریکا کو اپنے رویے پر غور کرنے کی دعوت دی تھی اور تقریباً وہی بات کہی ہے، جو باقی دُنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی زبان پر ہے:
مجھے یقین ہے کہ غیرمتعلق اسلحے کے سسٹم پر ہمارے وسائل کا غیرمعمولی ضیاع، عسکری ’حادثوں‘ کا مسلسل جاری رہنا اور امریکی سفارت خانوں اور چوکیوں پر دہشت گرد حملے، ۲۱صدی میں امریکا کی غیر رسمی سلطنت کے لیے بحران پیدا کرنے والے بنیادی عناصر ہیں۔ امریکا، ایک ایسی سلطنت جو دنیا کے ہرحصے پر فوجی طاقت کے دبائو اور اپنی شرائط، مگر دوسروں کی قیمت پر امریکی سرمایے اور منڈی کو استعمال کرکے عالمی اقتصادی اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو ضمیر کی ہرایسی خلش سے بھی آزاد کرلیا ہے، کہ ہم اس دنیا کے دوسرے لوگوں کو کتنے بُرے نظر آرہے ہیں۔ بیش تر امریکی غالباً جانتے ہی نہیں ہیں کہ واشنگٹن ، دنیا کی اقوام پر کس طرح اپنی بالادستی استعمال کرتا ہے، کیونکہ اس سرگرمی کا کافی حصہ خفیہ یا دوسرے حیلوں بہانوں کے پردے میں انجام پاتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سوں کو یہ یقین کرنے میں دقّت پیش آئے گی کہ دنیا میں ہماری حیثیت ایک عالمی سلطنت کی سی ہوگئی ہے۔ لیکن جب ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ملک خود اپنی بنائی ہوئی سلطنت کا اسیر ہوگیا ہے تو ہمارے لیے دنیا کے بہت سے واقعات کی تشریح کرنا ممکن نہیں رہتا..... سوچنا چاہیے کہ انسانی حقوق، جوہری پھیلائو، دہشت گردی اور ماحول کے بارے میں غیرملکیوں کو امریکی پالیسیاں تضاد کا شکار کیوں نظر آتی ہیں؟ (کالمیر جانسن، حوالۂ مذکورہ، ص ۷-۸)
امریکا اور امریکیت کے اس عالمی رُوپ کو سامنے رکھتے ہوئے اُمت مسلمہ اور پاکستان کو یہ اُمور مدنظر رکھنے چاہییں:
امریکا اور مغربی اقوام آج خواہ کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں، ان کی موجودہ بالادستی اور وسائل پر غلبے اور دسترس کا اِدراک کرنے کے ساتھ، اس عزم کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اپنا جداگانہ تشخص رکھتے ہیں ۔ ان کی منزل اپنی آزادی اور اپنی تہذیب کی ترقی اور فروغ ہے، جو دوسروں کی غلامی یا بالادستی کے تحت جاے پناہ پر قناعت سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اگر امریکا کا ایک بڑی مادی قوت ہونا ایک حقیقت ہے، تو مسلم اُمت کے ایک ارب ۳۰کروڑ نفوس بھی ایک حقیقت ہیں، جنھیں نہ نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور نہ محض طاقت سے غلام بنایا جاسکتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ تصادم سے پہلو بچاتے ہوئے اپنے گھر کی اصلاح، دینی و دُنیوی علم میں پختگی ، اپنے داخلی اتحاد کا حصول، اپنے وسائل کی ترقی اور اپنی قوت کا استحکام ہمارا بنیادی ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اپنے ایمان، اپنے دین اور اپنے نظریے پر مضبوطی سے قائم رہنا، وقت کے چیلنج کو سمجھنا اور اپنی بنیادوں کو استوار کرکے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری ہماری فکروسعی کا محور ہونا چاہیے۔
اس کام کو انجام دینے کے لیے ہمیں کچھ عالم گیر اصولوں کو اپنی دعوت اور حکمت عملی کی بنیاد بنانی چاہیے اور دنیا کے تمام انسانوں اور تمام اقوام کو ان کی طرف لانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہمیں نہ دوسروں کا کاسہ لیس ہونا چاہیے، اور نہ ہر ایک سے الگ تھلگ رہنے اور تعلقات توڑنے کا راستہ اختیار کرنا ہی کوئی صحیح طرزِعمل ہوسکتا ہے۔ قدرِ مشترک کی تلاش اور اس پر تعلقات استوار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دنیا کے حالات بھی اس مقام پر ہیں کہ کچھ اصولوں اور مشترک اقدار پر سب کو جمع کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ اسی میں تمام انسانوں کی بھلائی ہے۔ بجاے اس کے کہ مسلمان محض دوسروں کے اقدامات پر ردعمل تک اپنے آپ کو محدود رکھیں، ہمیں آگے بڑھ کر پوری انسانیت (بشمول مغربی اقوام) کو کچھ بنیادوں پر متفق کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں درج ذیل اصول ہماری عالمی دعوت کا محور بن سکتے ہیں:
۱- تمام اقوام کی آزادی، حاکمیت اور سلامتی کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی بنیاد، تمام انسانوں کی برابری، تمام اقوام کی آزادی اور ان کا حقِ خود ارادیت ہے۔ اسلام نے اسی اصول کو انسانیت کے سامنے پیش کیا تھا اور یہ اصول استعماریت اور امپریلزم کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔
۲- کسی ایک ملک یا تہذیب کی بالادستی پر اُستوار نظام عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سب اس اصول کو تسلیم کریں کہ ہرقوم کو اپنی تہذیب و ثقافت کی پاس داری کا حق ہے اور دنیا کی یک رنگی، فطرت کے خلاف اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ اس لیے سب کو اپنے اپنے اصول و اقدار کی روشنی میں ترقی کے مواقع حاصل ہونے چاہییں۔
۳- تمام انسانی معاملات کو دلیل اور مکالمے (Dialogue) کے ذریعے حل کیا جائے اور قوت کے استعمال کو قانون اور عالمی انصاف کے تابع کیا جائے۔ ہرقسم کے تشدد کے خلاف عالمی راے عامہ کو منظم کیا جائے اور اس میں دہشت گردی کی ہرشکل میں مخالفت شامل ہو۔ نیز دہشت گردی اور آزادی کے حصول یا ملک و ملّت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کو اس سے ممتاز و ممیز کیا جائے اور قوت کے استعمال کی حدود اور اس کا ضابطۂ کار متعین کیا جائے۔
۴- انصاف کے حصول کے لیے دنیا کے تمام انسانوں اور اقوام کو ایک منصفانہ عالمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ انصاف ہی وہ مثبت بنیاد ہے جس پر عالمی امن قائم ہوسکتا ہے اور ظلم کی دراندازیوں سے انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
۵- بین الاقوامی تعاون اور اشتراک کے ساتھ ساتھ قوموں یا ملکوں کے الحاق کی اجتماعی خودانحصاری کے اصول کا احترام کیا جائے۔ اس سے عالم گیریت کا ایک ایسا نظام وجود میں آسکتا ہے جس کے تحت اگر ایک طرف انسانوں، مالِ تجارت، مالی اور دوسرے وسائل کی نقل و حمل میں سہولت ہو، تو دوسری طرف ایسے عالمی ادارے وجود میں آسکیں جس کے نتیجے میں سب کو خوش حالی، استحکام اور باعزت زندگی حاصل ہوسکے۔
ان پانچ بنیادوں کی طرف دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت دے کر اُمت مسلمہ اور پاکستان ایک ایسے عالمی نظام کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں ، جو حقیقی امن و انصاف کا ضامن ہوسکتا ہے۔
بلاشبہہ آج کے طاقت ور اس کی راہ میں حائل ہوں گے، لیکن دنیا کے تمام دوسرے ممالک کو منظم اور متحرک کر کے اور پُرامن ذرائع سے عالمی راے عامہ کو منظم کرکے اس قدرِ مشترک کو نئے نظام کی بنیادبنایا جاسکتا ہے۔ نیز یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب دنیا کے ممالک دوسروں پر بھروسا کرنے کے بجاے اپنے اُوپر بھروسا کر کے اپنے وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنے اور منظم کرنے کی جدوجہد کریں اور تعاون اور اشتراک کی منصفانہ شکلوں کو رواج دیں۔ جس طرح دنیا کے بہت سے ممالک میں، بشمول آج کے ترقی یافتہ مغربی ممالک، اندرونِ ملک دولت کی تقسیم اور قوت کے توازن کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس میں ایک درجہ کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح عالمی سطح پر ایک متوازن اور منصفانہ نظام کا قیام ممکن ہے، بشرطیکہ اس کے لیے صحیح طریقے پر مسلسل جدوجہد ہو۔
اس ایجنڈے کو عالمی سطح پر محض پیش کرنا مطلوب نہیں۔ اس ایجنڈے پر دنیا کو لانا اسی وقت ممکن ہوگا جب مسلمان ممالک خود اپنے گھر کو درست کریں اور اس کا آغاز خود احتسابی سے کریں۔
آج جو کچھ ہو رہا ہے، اسے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ جو افراد یا ملک یہ سمجھتے تھے کہ امریکا سے دوستی کے ذریعے ان کو حفاظت، عزت اور سلامتی مل جائے گی اور جو اپنی دولت اپنے ملکوں میں رکھنے کے بجاے امریکا اور یورپ میں اسے محفوظ سمجھ رہے تھے، ان کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ انھوں نے کیسا کمزور سہارا تھاما تھا اور کس طرح خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔
اس سے یہ سبق بھی حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے کہ مانگے کا اُجالا کبھی روشنی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ خودانحصاری اور اپنی قوت کی تعمیر کے بغیر آپ اپنی آزادی، اپنے ایمان اور اپنی عزت کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ مقصد کسی سے لڑنا نہیں لیکن اپنے گھر کی تعمیر اور اپنے ممالک کی مضبوطی اور دوسروں پر محتاجی سے نجات، قومی سلامتی کے لیے ازبس ضروری ہے۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم ممالک میں خود اپنے عوام پر اعتماد کی فضا پیدا کی جائے۔ شخصی اور سیاسی آزادیاں حاصل ہوں، اختلاف کو برداشت کیا جائے ، اور معیشت اور سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے، کہ اسی میں اصحابِ اقتدار کے لیے بھی خیر ہے اور مسلم عوام کے لیے بھی۔
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے جہاں نظریہ اور قومی تشخص ضروری ہے وہیں سیاسی، معاشی اور اداراتی نظام کا ایسا آہنگ درکار ہے، جس میں سب کی شرکت ہو، عوام اور حکمرانوں کے درمیان کش مکش کے بجاے تعاون اور اشتراک کا رشتہ قائم ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے: ’’تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور جو تم سے محبت کرتے ہیں، اور بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور جو تم سے نفرت کرتے ہیں‘‘۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۵۳۶)
پھر اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آزادی اور اشتراک کے ساتھ تعلیم، زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی، روزگار کے مواقع اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو ملکی پالیسی میں مرکزیت کا مقام حاصل ہو۔ وقت کی ٹکنالوجی کو حاصل کیا جائے اور ایجاد و اختراع اور تحقیق و تفتیش کے ذریعے علم اور سائنس پر عبور حاصل کیا جائے۔ نیز معیشت اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں بھی خودانحصاری کی پالیسی اختیار کی جائے۔
عالمی طاقتوں کے دبائو سے نکلنے کے لیے خود انحصاری کی جانب گام زن ہونے کا مطلب دنیا سے الگ تھلگ ہونا نہیں ہے۔ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہمیں وسائل پر اتنی دسترس حاصل ہو کہ ہم اپنی پالیسیاں، اپنے مقاصد اور اہداف کے مطابق خود طے کرسکیں، اور دوسروں کی ایسی محتاجی نہ ہو کہ وہ ہماری پالیسی پراثرانداز ہوسکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے تعاون اور تجارت سب کے لیے اسی وقت بہتری کا باعث ہوسکتے ہیں، جب خودانحصاری کے ساتھ یہ تعاون ہو ورنہ یہی بین الاقوامی رشتے اور معاملات ظلم اور استحصال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
مسلمان ممالک کی تعمیر و ترقی میں یہ بات بھی سامنے رہے کہ یہ اُمت ، ’اُمت ِ وسط‘ ہے جس کا کام دنیا کے سامنے خدا کے پیغام کی شہادت دینا ہے اور جو انصاف کے فروغ اور نیکیوں کی ترویج اور بُرائیوں سے نجات کی داعی ہے۔ اس اُمت میں اگر تشدد کی سیاست دَر آئی ہے تو یہ اس کے مشن اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی اور یہ اس کے اصل کردار پر ایک بدنما دھبّا ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، اسلام: تشدد، زور زبردستی اور اکراہ کا مخالف ہے اور محبت، بھائی چارے، رواداری اور تعاون و اشتراک کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
جہاد کا مقصد انصاف کا قیام اور تمام انسانوں کے لیے آزادی، عزت اور عدل کی ضمانت ہے۔ جہاد اپنی تمام صورتوں میں___یعنی نفس کے ساتھ جہاد، زبان اور قلم سے جہاد، مال سے جہاد اور جان سے جہاد___ واضح اخلاقی حدود اور مقاصد کا پابند ہے۔ ہرسطح پر اس کے تصور، تعلیم اور تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ جہاد کا صحیح فہم و ادراک ہو اور اس کی نعمتوں سے مسلمان اور غیرمسلم سب فیض یاب ہوسکیں۔ یوں تو جہاد کے اس تصور کا فہم اور احترام ہر دور میں ضروری تھا مگر آج جب جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور اسے تشدد اور دہشت گردی کے مترادف قرار دیا جارہا ہے، اس وقت جہاد کی تفہیم اور جہاد کے آداب کے مکمل احترام کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ جہاد اسلام کی ابدی تعلیم اور اس کا رکن رکین ہے۔ اس کا یہ کردار سب سے پہلے خود مسلمانوں کے سامنے واضح ہونا چاہیے تاکہ غیرمسلم بھی اس کی گواہی دے سکیں۔
عصرِحاضر میں اسلامی تحریکات کی خدمات میں سے ایک نمایاں خدمت یہ ہے کہ ایک طرف اس نے جہاد اور روحِ جہاد کے احیا کا کارنامہ انجام دیا ہے، تو دوسری طرف جہاد کے مقاصد، آداب اور ضابطۂ کار کی وضاحت اور احترام کر کے اس کے اصل کردار پر توجہ مرکوز کی ہے اور مسلمانوں کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے۔
مسلم ممالک کے درمیان معاشی، سیاسی، تعلیمی، ٹکنالوجی اور میڈیا کے میدانوں میں قریب ترین تعاون بلکہ اتحاداورالحاق کی ضرورت ہے، جو نظریے اور تاریخ کے اشتراک کے ساتھ مفادات کے اشتراک اور سیاسی اور معاشی حوالوں سے باہمی تعاون اور احترام کی محکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہ ایسی ضرورت ہے، جسے مؤخر نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظام میں تنازعات کے تصفیے کا بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے، تاکہ حقیقت پسندی سے اتحاد کو مستحکم کیا جاسکے۔ عالمی سطح پر مسلم نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے میڈیا کی مؤثر ترقی و تنظیم بھی ضروری ہے۔
اسلام کے عالمی کردار کی مؤثر ادائی اسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلمان ملک اور اُمت مسلمہ ان خطوط پر اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے۔ ’اُمت ِ وسط‘ کی حیثیت سے اللہ کی بندگی اور انسانوں کے لیے انصاف اور فلاح کے نظام کی داعی کی حیثیت سے اپنے گھر کی تعمیر کرے اور دنیا کے سامنے اس کا نمونہ پیش کرے۔
وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور اہلِ پاکستان پر بھی ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارے اندرونی معاملات میں بیرونی قوتوں کی چھپی اور کھلی دراندازیاں مشکلات میں اضافے اور آزادی کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ تصادم، عدم مشاورت اور وقت گزاری کی پالیسی ترک کرکے ایک ایسی پالیسی اپنائی جائے، جس میں پاکستان، اس کے نظریے اور قوم کی سلامتی اور ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے لیے درج ذیل اُمور فوری توجہ کے طالب ہیں:
۱- اللہ سے وفاداری اور اس پر بھروسے کو سب چیزوں پر اولیت دی جائے۔ اللہ کی طرف رجوع ہو اوراپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اپنے مالک کے حضور اعتراف کرکے اس سے طاقت اور رہنمائی طلب کی جائے۔ پوری قوم اور اس کی قیادت اپنے خالق و مالک کا دامنِ رحمت تھامے اور اس سے مدد مانگے۔
۲- عوام پر اعتماد کیا جائے اور ان کو اعتمادمیں لیا جائے اور مؤثر طور پر ان کو قومی سلامتی، ترقی اور تعمیرنو کے لیے متحرک کیا جائے۔
۳- ایسی نظریاتی کش مکش اور لاحاصل بحث سے بچا جائے جس میں مغربی میڈیا اور دانش ور ہمیں مبتلا کردینا چاہتے ہیں۔ ’بنیاد پرستی‘، ’انتہاپرستی‘ اور ’فرقہ پرستی‘ ہمارے مسائل نہیں۔ جدید اور قدیم کی بحثیں بھی بہت پرانی باتیں ہیں اور ہم ان سے گزر چکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات بہت صاف اور واضح ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو بنیادی اخلاقی اقدار کی روشنی میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ سیکولرزم ایک مُردہ گھوڑا ہے ، اس پر سواری کے خواب دیکھنا ایک حماقت ہے۔ پاکستان کے دستور نے جن تین بنیادوں کو واضح طور پر پیش کر دیا ہے، یعنی: اسلام، جمہوریت اور وفاقی طرزِحکومت انھیں متفق علیہ بنیاد بناکر قومی پالیسی کی تشکیل کی جائے اور ان طے شدہ اُمور کو ازسرِنو زیربحث لانے کی جسارت نہ کی جائے۔ اسلام اعتدال کا دین ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد، دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس پر عمل کی ہے۔ ہمارا ایجنڈا، ہماری تحریک ِ آزادی اور ہماری قراردادِ مقاصد، ہمارے دستور میں طے ہے۔ اسے مضبوطی سے تھام لیجیے۔
۴- ملک کی دفاعی قوت کی حفاظت کو اولیت حاصل ہے۔ اس خطے میں امریکی فوجوں کی موجودگی پاکستان کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اسی طرح بھارت کے عزائم کا ادراک اور مقابلے کے لیے فوج اور قوم میں ہم آہنگی اور دونوں کا متحرک و فعال ہونا ضروری ہے۔
۵- پاکستان اور اسلامی دنیا میں ایسی معاشرتی ترقی کا حصول جو ملکی پیداوار اور پیداآوری صلاحیت میں ہمہ افزوں اضافے کا باعث ہو، ترقی کی رفتار میں نمایاں اضافہ کیا جائے، تاکہ ملک کی مارکیٹ وسیع تر ہو۔ جدید ٹکنالوجی کا حصول اور ترقی جس کا لازمی جزو ہو۔ معاشی انصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم جس کا مرکزی ہدف ہو اور جس کا مطلوب معاشی ترقی کے ساتھ عدلِ اجتماعی کا قیام اور خود انحصاری کا حصول ہو۔ عسکری قوت کے ساتھ معاشی قوت کا حصول بھی باعزت زندگی کے لیے لازمی شرط ہے۔
۶- جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی بہیمانہ سرگرمیوں کی مذمت کرنے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کے حقِ خود ارادیت کے بارے میں مکمل یکسوئی اور مضبوط و متحرک موقف پر عمل درآمد کی راہوں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ِ پاکستان کو کشمیر کمیٹی کی ازسرِنو تشکیل کرکے، دنیا بھر کے سامنے کشمیر کے مقدمے کو پوری قوت سے پیش کرنا چاہیے۔
۷- افغانستان میں بدامنی کی فضا کو قائم رکھنا امریکا اور بھارت کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں ان کی موجودگی کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کیا جاسکے۔ اس ضمن میں چین اور روس کے ساتھ مل کر وہاں امن قائم کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، انھیں تیز تر کیا جائے اور کابل میں محدود انتظامیہ کو افغانستان کی نمایندہ قوت تصور کرنے کے بجاے وہاں کی اصل قوت کے مراکز کو شریکِ مشورہ کیا جائے۔ دین، تاریخ اور مشترک مفادات کی بنیاد پر امن اور باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے۔
۸- فلسطین پر مغربی اقوام کی زیرسرپرستی صہیونی سلطنت کے ناجائز وجود کو ختم کیا جائے اور اعلانِ بالفور کے بعد ایک سو سال سے مسلط کردہ جبری خوں ریزی کا خاتمہ کیا جائے۔
۹- مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک سے تعلقات میں گہرائی پیدا کی جائے اور مشترکہ حکمت ِعملی کی ضرورت و اہمیت کو اُجاگر کیا جائے۔
۱۰- ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ مشترک مفادات میں باہم تعاون کو بڑھایا جائے۔
ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایک جانب یہ اُمور حکومت ِ پاکستان کے مثبت اور مؤثر کردار کا تقاضا کرتے ہیں تو دوسری جانب وطن عزیز کے اہلِ دانش اور ماہرین کو بھی حق کی گواہی اور وقت کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے پکارتے ہیں۔