اشارات


گولڈا مائیر ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی چوتھی وزیراعظم تھی۔ وہ  ۱۸۹۸ءمیں روس میں پیدا ہوئی، لڑکپن میں امریکا چلی گئی اور ۱۹۲۱ء میں فلسطین میں منتقل ہوگئی۔ فلسطین پر قبضہ کرکے بنائی جانے والی ریاست کی سفیر پھر وزیر خارجہ اور ۱۹۶۹ءسے ۱۹۷۴ء تک وزیراعظم رہی۔ کئی حوالوں سے اس کی شخصیت او ر اس کا دور بہت اہم ہے۔ حال ہی میں اس کا ایک ویڈیو انٹرویو دیکھنے کا موقع ملا، جس میں وہ ۱۹۴۸ءسے پہلے کے فلسطین کا تفصیلی احوال بیان کرتی ہے۔ وہ اعتراف کرتی ہے کہ ۱۹۲۱ء سے ۱۹۴۸ء تک وہ خود بھی فلسطینی پاسپورٹ رکھتی تھی۔ فلسطین، اس پر قائم کی جانے والی غاصبانہ ریاست اور فلسطینی عوام کے بارے میں اس کے کئی اقوال بڑی شہرت رکھتے ہیں۔  اس سے پوچھا گیا کہ آپ کی زندگی کا خوف ناک ترین دن کون سا تھا اور سب سے خوش گوار دن کون سا؟ اس نے کہا کہ خوف ناک ترین دن ۲۱؍ اگست ۱۹۶۹ء کا تھا جب مسجد اقصیٰ کے جلائے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ میں ساری رات سو نہیں سکی۔ مجھے لگتا تھا کہ کسی بھی وقت ہر طرف سے  عرب فوجیں ہم پر ٹوٹ پڑیں گی۔ اور خوش گوار دن اس سے اگلا روز تھا، جب ہمیں تسلی ہوگئی کہ  فوج کشی تو کجا کسی عرب حکومت نے اس کا سنجیدہ نوٹس بھی نہیں لیا۔ پھر وہ کہتی ہے کہ ہمیں ان عربوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، البتہ ہمیں اس دن سے ضرور ڈرنا چاہیے کہ ’’جب ان کی مسجدوں میں نماز فجر کے لیے اتنے لوگ آنا شروع ہوجائیں گے جتنے لوگ ان کی نماز جمعہ میں آتے ہیں‘‘۔
۲۸جنوری ۲۰۲۰ء کو امریکی صدر ٹرمپ اور صہیونی وزیراعظم نتن یاہو نے فلسطین کے بارے میں اپنا ایک اہم منصوبہ پیش کرتے ہوئے اسے ’صدی کا سب سے بڑا سودا‘ (Deal of the Century  )قرار دیا۔ اس دن سے فلسطین کے تمام شہروں میں ایک نئی فلسطینی قوم سامنے آرہی ہے۔ الفجر العظیم کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے فلسطینی عوام، ہزاروں کی تعداد میں نمازِ فجر مساجد میں ادا کرتے ہیں۔ کئی شہروں میں یہ تعداد نماز جمعہ ہی نہیں، عید کے اجتماعات سے بھی   بڑھ جاتی ہے اور مساجد سے باہر سڑکوں پر دور دور تک نمازی اُمڈ آتے ہیں۔ یہ اجتماعات صرف گولڈا مائیر کے طعنے ہی کا جواب نہیں، بلکہ نتن یاہو (عربی زبان میں نتن کا مطلب مردار کی بدبو ہے) کے اس اعلان کا بھی عملی جواب ہے کہ ’’اسرائیل اب ایک یہودی ریاست ہے اور پورے کا پورا بیت المقدس اس کا ابدی اور ناقابل تقسیم دار الحکومت ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے کی باز گشت گذشتہ تقریباً تین سال سے سنائی دے رہی تھی، لیکن جب تفصیل سامنے آئی تو وہ تحصیلِ حاصل بلکہ کسی ناجائز مردہ بچے کی ولادت سے زیادہ کچھ نہ نکلی۔ کوئی بھی معاہدہ یا سوداایک سے زیادہ فریقوں کے مابین ہوتا ہے، جب کہ یہاں صرف ایک ناجائز قابض اور اس کے سرپرست کے سوا کوئی دوسرا فریق تھا ہی نہیں۔ ٹرمپ، نتن یاہو منصوبے میں وہ تمام تکلفات بھی برطرف کردیے گئے ہیں، جو گذشتہ ۷۲ سال سے دنیا کو دھوکا دینے کے لیے برتے جارہے تھے۔ پہلے بیت المقدس کو متنازعہ تسلیم کرنے کا ڈھونگ رچایا جاتا تھا۔ سرزمین فلسطین پر اس کے اصل شہریوں کا حقِ وجود تسلیم کرتے ہوئے ان کے لیے ایک آزاد ریاست تشکیل دینے کا وعدہ کیا جاتا تھا۔ صہیونی نوآبادیوں کو غیر قانونی قرار دیا جاتا تھا۔ گولان کے علاقے کو اسرائیل کے زیرتسلط شامی علاقہ مانا جاتا تھا۔ اب صہیونی جارحیت کے مکروہ عریاں بدن پر باقی یہ بچی کھچی دھجیاں بھی نوچ پھینکی گئی ہیں۔ ٹرمپ فخریہ انداز سے ان اقدامات کو اپنا تاریخی کارنامہ قرار دے رہا ہے کہ اس نے امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرکے پورے بیت المقدس کو صہیونی علاقہ تسلیم کرلیا۔ اس نے گولان کو اسرائیلی علاقہ قرار دے دیا۔ اور اب وہ صدی کے اس سب سے بڑے سودے کا اعلان کرتے ہوئے، اس قدیم تنازعے کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کررہا ہے۔

البتہ فلسطین اور دنیا کو اب بھی یہ دھوکا دینے کی کوشش ضرور کی گئی ہے کہ باقی ماندہ فلسطینیوں کے لیے ایک فلسطینی ریاست بھی تشکیل دی جائے گی۔ اس سراب ریاست کی حقیقت یہ ہے کہ پہلے فلسطینی عوام کو چار سال تک یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس سمیت ۸۵ فی صد سرزمین فلسطین پر صہیونی قبضہ تسلیم کرتے ہیں۔ ساری مسلم دنیا سے بھی یہ حقیقت منوانے کے بعد بالآخر کئی ٹکڑیوں میں تقسیم کیے گئے، کٹے پھٹے فلسطینی علاقے پر ایک ایسی ریاست قائم کی جائے گی جس کے شہریوں کا باہمی رابطہ بھی زیر زمین سرنگوں یا صہیونی چیک پوسٹوں کی اجازت سے مشروط گزرگاہوں کے ذریعے ہی ممکن ہوسکے گا۔اس ریاست کی نہ اپنی فوج ہوگی، نہ وہ کوئی دفاعی اسلحہ رکھ سکے گی، نہ اس کی کوئی اپنی خارجہ پالیسی ہوگی۔ اس کا اصل ہدف اور ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ وہاں بسنے والے فلسطینی شہریوں کو صہیونی ریاست کے خلاف کسی بھی کارروائی سے باز رکھے۔ اگر یہ سب شرائط پوری کردی گئیں تو پھر پانچ سال کی مدت تک اسے ۵۰؍ ارب ڈالر کی امداد کی بتی کے پیچھے دوڑایا جاتا رہے گا تاکہ فلسطینی ریاست کے ڈرامے میں مزید رنگ آمیزی کی جاسکے۔
یہ سارا معاہدہ ایک ایسا دھوکا اور ناقابل عمل منصوبہ ہے کہ جسے خود کئی اسرائیلی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں نے بھی مسترد کردیا ہے۔ درجنوں اسرائیلی تجزیہ نگاروں نے ٹرمپ، نتن یاہو پر یہ پھبتی کسی ہے کہ انھوں نے اپنی حماقت سے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر دنیا کا موضوع سخن بنادیاہے۔ پورا منصوبہ اس کے بنانے والوں کی زمینی حقائق سے لاعلمی کی دلیل قرار دیا جارہا ہے۔ ایک اسرائیلی تجزیہ نگار یہودا شاؤول اسے ناقابلِ عمل دھوکا دہی قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے ’’جسے صدی کا بڑا سودا قراردیا جارہا ہے وہ بعینہٖ آج سے ۴۰ سال پہلے متتیاہو ڈروپلس نامی صہیونی دانش ور نے بھی پیش کیا تھا۔ وہ یہودی نوآبادیوں کی تعمیر کا ایک اہم ذمہ دار تھا، لیکن وہ ٹرمپ اور اس کے (یہودی) داماد کو چنر سے زیادہ انصاف پسند تھا۔ اس نے فلسطینیوں کے لیے مجوزہ انتظامات کو کم از کم ریاست کا نام نہیں دیا تھا‘‘۔ گویا اگر یہ قابلِ عمل ہوتا تو۴۰سال پہلے نافذ ہوجاتا۔ وہ جانتا تھا کہ اس انتظام پر فلسطینی ریاست کانام چسپاں کرنا ایک تہمت ہوگی۔
کئی اسرائیلی اور مغربی اخبارات و تجزیہ نگاروں نے اس منصوبے کا اصل مقصد ٹرمپ کی اپنی صدارتی مہم اور نتن یاہو کی اپنی انتخابی مہم کا حصہ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ ’اسرائیل‘میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت اس قابل نہیں ہوسکی کہ وہ اکیلی یا دوسروں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کرسکے۔ اب ۲مارچ کو ایک بار پھر انتخاب ہونا ہے اور نتن یاہو اس میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ اس کی بے تابی کی ایک بنیادی وجہ اس کے خلاف ثابت ہوجانے والے بڑی کرپشن کے چارمقدمات ہیں۔ اس کی کوشش ہے کہ واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسمبلی کے ذریعے ایسی قانون سازی کرسکے جو اسے سزا سے محفوظ رکھ سکے۔ اسرائیلی روزنامے ھآرٹز برطانوی اخبار دی گارڈین کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ’’صدر ٹرمپ سے یہ اعلان کروانے میں دیگر لوگوں کے علاوہ ایک بنیادی کردار شیلڈن اولسن نامی ایک امریکی جواری اور اس کی اہلیہ کا ہے۔ انھوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے ۱۰۰ ملین ڈالر کا چندہ بھی دیا ہے۔ امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کروانے میں بھی ان دونوں کا اہم کردار تھا‘‘۔
    امریکی پالیسی اور صہیونی عیاری کو دیکھیںتو گذشتہ ۱۰۰ سال سے وہ ایک جانب فلسطینی عوام کے حقوق مسلسل اور مرحلہ وار غصب کرتے چلے جارہے ہیں، اور دوسری طرف فلسطینی ذمہ داران اور دنیا کو وعدۂ فردا کے لالچ پر ٹرخاتے چلے جارہے ہیں۔ ذرا ۱۹۹۳ء میں ہونے والے معاہدہ اوسلو پر ایک نگاہ دوڑائیے۔ اس وقت بھی اس معاہدے کو تاریخ ساز معاہدہ قرار دیتے ہوئے پورے خطے میں امن کی نوید سنائی گئی تھی۔ اس معاہدے کا ایک اہم کردار حالیہ فلسطینی ’صدر‘ محمود عباس تھے۔ انھوں نے اس معاہدے کے بارے میں ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل اپنی یادداشت لکھی ہے۔ ’طریق اوسلو‘ (اوسلو کا راستہ) کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں انھوں نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک قصبے سارپسبرگ میں کئی ہفتے جاری رہنے والے خفیہ مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدے کی اندرونی کہانی بیان کی ہے۔ اپنی کتاب میں وہ صہیونی ریاست کے ساتھ درپیش آنے والے معاملات اور اس دوران حاصل ہونے والی ’اہم کامیابیوں‘ کا ذکر کرتے ہوئے صفحہ ۳۲۴پر لکھتے ہیں کہ ’’۱۹۸۸ءمیں فلسطینی قومی مجلس کا اجلاس مراکش میں منعقد ہوا۔ اس دوران امریکی صدر بش نے مراکش کے شاہ حسن الثانی کے نام خصوصی خط میں اس مجلس کے لیے ایک خصوصی ’تحفہ‘ بھجوایا۔  تحفہ یہ تھا کہ ’’امریکی انتظامیہ آج کے بعد فلسطینیوں کو صرف فلسطینی کہنے کے بجاے ’فلسطینی عوام‘ کہا کرے گی‘‘۔ گویااب سمجھو کہ بس تمھاری ریاست قائم ہونے جارہی ہے۔
محمود عباس جنھیں یاسر عرفات کو زہر دے کر مارنے کے بعد بڑی آؤ بھگت اور کئی اندرونی سازشیں کرتے ہوئے فلسطینی رہنما کا منصب دیا گیا تھا، پہلے دن سے آزادیِ فلسطین کے لیے کسی بھی طرح کی جہادی سرگرمی کے مخالف تھے۔ وہ ہمیشہ اعلان کیا کرتے تھے کہ ان کا اصل مقصد ’’إنھاءُ عَسْکَـرَۃِ الْاِنْتفَاضَۃ : تحریکِ انتفاضہ سے عسکریت کا خاتمہ‘‘ ہے۔ وہ مسلسل اپنے صہیونی دوستوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ فلسطینی عوام کو بھی ہمیشہ یہی باور کرواتے رہے کہ ہم بہت کچھ حاصل کررہے ہیں۔ اپنی اسی کتاب میں وہ اوسلو معاہدے کی شقوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’معاہدے کی شق ۷ میں فلسطینی اتھارٹی کو بجلی، پانی، ماحولیات، پٹوار خانے اور بندرگاہ کے انتظامات دیے گئے ہیں۔ ان سارے اختیارات میں اس خود مختاری کے کافی پہلو شامل ہیں، جو ہم مستقبل میں حاصل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ بیت المقدس کے مستقبل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بیت المقدس کو اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کے ایک فیصلے کے تحت اسرائیلی سرزمین کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ اب اوسلو معاہدے میں بیت المقدس کو حتمی مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کرلیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے‘‘۔
محمود عباس اپنی کتاب میں ایک طرف اس طرح کے بودے دلائل دیتے ہوئے صہیونی انتظامیہ سے ہونے والے معاہدوں کو خوش نما بنا کر پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف ان مذاکرات اور معاہدے پر دستخط ہونے کے آخری لمحے تک، صہیونی ذمہ داران کی طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی کی مثالیں پیش کررہے ہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل نے تنظیم آزادی فلسطین کو بحیثیت فریق ثانی قبول نہیں کیا تھا۔ سارے مذاکرات اسرائیل اور ’اُردنی و فلسطینی مشترک وفد‘ کے مابین ہوئے۔ معاہدہ تیار ہوگیا تو گویا اسرائیل نے تنظیم آزادی فلسطین کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرلیا۔ اس موقعے پر یاسر عرفات نے تجویز پیش کی کہ معاہدے کے آخر میں تنظیم کانام ثبت کیا جائے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں اس ساری شٹل ڈپلومیسی کی تفصیل بھی لکھی ہے، جو تنظیم آزادی فلسطین کا نام لکھنے کے لیے کی گئی۔ اس ضمن میں کی گئی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں تو یاسر عرفات نے معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شریک نہ ہونے کی دھمکی دے دی۔ اس دوران صبح ۹بجے اہم امریکی ذمہ دار جیمز بیکر عرفات کی اقامت گاہ پر آئے۔ انھوں نے پوچھا معاہدے پر دستخط کس وقت ہونا ہیں؟ عرفات نے بتایا کہ گیارہ بجے صبح۔ بیکر نے کہا اسرائیلی وفد ۵۸:۱۰ پر راضی ہوجائے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا، معاہدے سے چند لمحے قبل اسرئیل نے ترمیم قبول کرنے کا عندیہ دے دیا۔ میزیں سج گئیں،   دستخط کرنے سے قبل ہم نے مسودہ دیکھنے کا تقاضا کیا، تو اس پر حسب سابق شمعون پیریز از حکومت اسرائیل اور محمود عباس از فلسطینی وفد لکھا ہوا تھا۔ میں نے پھر واضح طور پر کہا کہ یاسر عرفات اسے کسی طور قبول نہیں کریں گے، بالآخر مزید ردوکد کے بعد کہا گیا کہ محمود عباس دستخط کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے ترمیم کرتے ہوئے ’فلسطینی وفد‘ کا لفظ کاٹ کرتنظیم آزادی فلسطین لکھنا چاہیں تو لکھ لیں‘‘۔
یہ ہے وہ کل حاصل محصول جو ان گذشتہ ۷۲ سالہ مظالم اور اس دوران امن مذاکرات اور معاہدوں کی دھوکا دہی کے ذریعے فلسطینی عوام کے ہاتھ آیا۔ ’ڈیل آف دی سنچری‘ سے پہلے بھی مذاکرات کے سیکڑوں دور ہوئے، درجنوں معاہدے ہوئے، روڈ میپ پیش کیے گئے، امن کانفرنسیں منعقد ہوئیں، لیکن عملاً ہربار صہیونی جارحیت اور غاصبانہ قبضے میں مزید توسیع ہوئی اور فلسطینی عوام مزید تباہ و برباد کیے گئے۔ یاسر عرفات اپنے سارے اخلاص کے باوجود اسی مذاکراتی گورکھ دھندے اور صہیونی عیاری کی نذر ہوگئے۔ انھیں جتنا استعمال کیا جانا تھا، کیا گیا اور پھر بالآخر فرانس کے ایک ہسپتال میں زہر دے کر ان کی جان لے لی گئی۔ محمود عباس پہلے دن سے مشکوک قرار پائے۔ اپنے قریبی فلسطینی دوستوں کا اعتماد بھی حاصل نہ کرسکے۔ اب ان کے بارے میں بھی صہیونی اخبارات لکھنا شروع ہوگئے ہیں کہ ’’محمود عباس کا اکلوتا ہدف خود کو یاسر عرفات کے انجام سے بچانا رہ گیا ہے‘‘۔
ایک جانب یہ کھلی دھوکے بازی اور فریب ہے، اور دوسری جانب آج بھی کئی مسلم حکمران اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لالچ میں اسی فریب کے جال میں گرفتار ہونے پر مصر ہیں۔ ’ڈیل آف دی سنچری‘ کا لفظ سب سے پہلے مصر کے خونی ڈکٹیٹر جنرل سیسی کی زبان سے سننے کو ملا تھا۔ اس نے ٹرمپ سے ملاقات کے دوران میں اس منصوبے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ٹرمپ، نتن یاہو کے اعلان کردہ منصوبے پر سامنے آنے والے ردعمل (بالخصوص فلسطینی عوام کی طرف سے) کی وجہ سے سیسی سمیت کوئی بھی عرب اور مسلمان حکمران اس کی حمایت کی جرأت نہ کرسکا۔ عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں بھی اسے اتفاق راے سے مسترد کرنا پڑا۔ اس کے باوجود کئی عرب حکمران اب بھی اسی صہیونی عطار سے دوا لینے پر مصر ہیں۔ سوڈان میں صدر عمر البشیر کا تختہ الٹ کر حکمران بننے والے جنرل عبدالفتاح البرھان نے اسی عرصے میں یوگنڈا کے دار الحکومت میں نتن یاہو سے خفیہ ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات اتنی خفیہ رکھی گئی کہ سوڈانی وزیر خارجہ سمیت اکثر وزرا نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ صہیونی حکومت نے اپنی دیرینہ عیاری کا ثبوت دیتے ہوئے اس ملاقات کا بھانڈا خود ہی پھوڑ دیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت وہ کئی عالمی شخصیات کے ساتھ کوئی خفیہ ڈیل کرتے ہیں اور انھیں شیشے میں اتار لینے کے بعد اسے بے نقاب کردیتے ہیں، تاکہ ایک طرف اسے بلیک میل کیا جاتا رہے اور دوسری طرف اس کے دیگر ہم جنس عناصر کو پھانسا جاسکے کہ اس ڈیل میں تم تنہا نہیں ہو۔
سوڈانی صدر کی یہ خفیہ ملاقات خفیہ نہ رہی، تو اس نے تاویل کی کہ سوڈان کو بلیک لسٹ سے نکالنے اور سوڈان پر عائد پابندیاں ختم کروانے کے لیے ملاقات کی ہے۔ اسرائیل ہماری مدد کرے گا۔ حالانکہ سوڈان کو دہشت گردی کے سرپرست ممالک کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ صدر ٹرمپ یا امریکی انتظامیہ نہیں، امریکی کانگریس ہی کرسکتی ہے۔ اسی طرح سوڈان پر ۶۰؍ارب ڈالر کے قرض اور اقتصادی پابندیوں کا معاملہ پیرس کلب اور یورپی یونین کے پاس ہے، ٹرمپ یا نتن یاہو کے پاس نہیں۔ ایسے میں اسرائیل کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانے کا کوئی ادنیٰ فائدہ بھی سوڈانی عوام کو کیسے حاصل ہوسکتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ جنرل برہان، نتن یاہو ملاقات کے چند روز بعد ہی اسرائیلی ایئرلائن نے جنوبی امریکا اور افریقا کے کئی ممالک تک پہنچنے کے لیے اپنے جہاز سوڈان کی فضائی حدود سے گزارنا شروع کردیے۔جنوبی امریکا جانے والی ان پروازوں کا سفر اس راستے سے گزرنے کی وجہ سے تقریباً تین گھنٹے کم ہوگیا جو اس کے لیے سیاسی اور نفسیاتی ہی نہیں، ایک بڑی اقتصادی کامیابی ہے۔ نتن یاہو نے اس کامیابی پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا ’’سوڈان اب تک ہمارے لیے ایک سیکورٹی خطرہ تھا، اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے اس خطرے کا سدباب بھی کیا جاسکے گا۔ اب کوئی سوڈانی صحرا سے گزرتے ہوئے غزہ کو اسلحہ سمگل کرنے کی کوشش نہیں کرسکے گا‘‘۔
یہ وہی سوڈان ہے جس کے دارالحکومت خرطوم سے ۱۹۶۷ء میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس نے تین اہم پیغام دیے تھے۔ یہ اعلان ’اللاء اتُ الثَّلاثَۃ‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ کہا گیا تھا: لا للإعتراف، لا للتفاوض، لا سلام   مع اسرائیل ’’اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے، اسرائیل سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور اسرائیل کے ساتھ کبھی امن (معاہدہ) نہیں ہوگا‘‘۔
نتن یاہو کا مزید کہنا تھا: ’’ہم اس وقت عرب اور مسلمان ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں عروج تک پہنچ چکے ہیں۔ آپ کو اس وقت صرف سطح سمندر پر برفانی تودے کا اُوپری سرا دکھائی دے رہا ہے، سمندر کی تہ تک پہنچنے والے اس تودے میں بہت سی کارروائیاں جاری ہیں جن سے پورے مشرق وسطیٰ کا چہرہ تبدیل ہوجائے گا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل عالمی اور علاقائی سطح پر ایک سپر پاور کی حیثیت سے اُبھرے گا، یہ ہماری کامیاب پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم اسرائیل کو ایک بڑی قوت بنا چکے ہیں اور یہ سارے ممالک اس بڑی قوت کے ساتھ اپنے تعلقات قائم اور معاہدات تحریر کررہے ہیں‘‘۔
اب ایک طرف کئی حکمرانوں کی یہ خیانت اور اقتدار کا لالچ ہے اور دوسری جانب تمام تر مظالم کے باوجود آزادی اقصیٰ کے لیے مسلسل قربانیاں دینے والی فلسطینی قوم۔ اپنے ان اُمتیوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہر صاحب ایمان کے لیے ایک اہم پیغام رکھتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تھا: لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی عَلَی الْحَقِ ظَاہِرِیْن، لِعَدُوِّھِمْ قَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ اِلَّا مَا أَصَابَہُمْ مِنْ لَأوَاء حَتّٰی یَأتِیَہُمْ أَمْرُ اللہِ وَ ھُمْ کَذٰلِکَ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللہِ  وَ أَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ:  بِبَیْتِ الْمَقْدِسِ وَ اَکْنَافِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ’’ میری اُمت کا ایک گروہ ایسا ہوگا جو بہرصورت حق کے ساتھ مضبوطی سے جما رہے گا۔ اپنے دشمنوں کو زیر کرتا رہے گا، ان کی مخالفت کرنے والے انھیں تکالیف کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ وہ اسی طرح (ثابت قدم) رہیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آن پہنچے گا۔ صحابہؓ نے دریافت کیا: یارسولؐ اللہ! یہ لوگ کہا ں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: یہ بیت المقدس اور اس کے گردونواح میں ہوں گے‘‘۔
 فلسطین کے ہر بچے کو یہ حدیث اَزبر ہے اور اس کی روح اسی یقین سے سرشار ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی حقانیت اس سے زیادہ کیسے واضح ہوگی کہ سو سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا، دنیا کی ساری بڑی قوتیں، تمام خائن حکمران او رسارے صہیونی وسائل سرزمین اقصیٰ کو ہڑپ کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں لگے ہیں، لیکن ان کا یہ خواب نہ پورا ہوسکا اور نہ ان شاء اللہ کبھی پورا ہوسکے گا۔ اہل فلسطین کو یقین ہے کہ فتح مبین اہل ایمان کا مقدر ہوکر رہے گی۔ غلیلوں اور پتھروں سے شروع کیا جانے والا ان کا سفر ،تمام تر صعوبتوں کے باوجود اب جدید ہتھیاروں میں بدل چکا ہے۔ (سینیٹ آف پاکستان کو اعزاز حاصل ہے کہ اس نے نام نہاد مذکورہ بالا امریکی، یہودی منصوبے کو مسترد کیا۔ اس حوالے سے سینیٹ کی منظور شدہ متفقہ قرارداد ، ص۱۰۹ پر ملاحظہ فرمائیں۔ادارہ)

برعظیم جنوب مشرقی ایشیا میں سیّد علی شاہ گیلانی (پیدایش: ۲۹ستمبر ۱۹۲۹ء، بانڈی پورہ، کشمیر) ایک قابلِ رشک مجاہد آزادی اور شان دار زعیمِ ملّت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنی ۹۰برس کی زندگی میں انھوں نے ۲۷برس قیدوبند میں گزارے ہیں اور ہرحال میں، بہار ہو کہ خزاں، کلمۂ حق بلند کیا ہے۔ قلم، تقریر، دلیل اور عمل کے ہردائرے میں جہادِ زندگانی اور تحریک ِ آزادی کا مجسم نمونہ ہیں۔ اس اعتبار سے گیلانی صاحب، ۲۰ویں اور اب ۲۱ویں صدی میں، حق و انصاف، قربانی و استقلال، ایمان و کردار، فکرو دانش اور پیہم رواں کا ایسا استعارہ ہیں کہ جن کے عہد میں ہمیں سانس لینے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے۔
محترم گیلانی صاحب نے حسب ذیل کھلے خط میں جس دل سوزی سے، جموں و کشمیر کے مظلوموں اور پاکستان کے شہریوں اور مقتدر حلقوں کو مخاطب کیا ہے، اسے ہم ۵فروری کے یومِ یک جہتی کشمیر کی مناسبت سے ترجمان القرآن کے ذریعے پیش کر رہے ہیں، اور اس عزم اور یقین کے ساتھ پیش کررہے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی یہ تاریخی جدوجہد اب ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور ان شاء اللہ کامیابی سے سرفراز ہوگی۔ البتہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ مختصراً یہ ہے:
    ۱-      بھارت سرکار کی طرف سے بدترین مخالفت اور ظلم و استبداد کے علی الرغم سرفروشانہ جدوجہد کا تسلسل اور اس میں زیادہ سے زیادہ عوامی شرکت۔
    ۲-     پاکستانی قوم اور حکومت کی پوری یکسوئی اور استقلال کے ساتھ اس جدوجہد کی مکمل تائید، عالمی دباؤ کے حصول کی بھرپور کوشش، اور بھارت کے ہرہتھکنڈے، منفی ابلاغی پروپیگنڈے اور جارحانہ اقدام سے نبٹنے کے لیے مکمل تیاری۔ اور اس میں عوامی شمولیت کا احساس بیدار کرنا۔
    ۳-     بارباراور ہرمحاذ پراس امر کو واضح کرنا کہ مسئلہ کشمیر محض دو ملکوں کے درمیان کوئی زمینی تنازع نہیں ہے، بلکہ تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کا اصل اور جوہری ایشو جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقِ خودارادیت کا حصول ہے، جسے اقوام متحدہ کی ایک درجن سے زیادہ قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے اور جس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ انسانی حقوق کی پامالی اور ایک گونہ کشمیریوں کی نسل کشی (Genocide) بھی بڑااہم پہلو ہے، لیکن اس میں اوّلین حیثیت حقِ خودارادیت کو حاصل ہے۔ حقِ خود ارادیت کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک مظلوم اور محکوم قوم کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر یہ جدوجہد بھارتی عسکریت کی وجہ سے جوابی عسکریت کی شکل اختیار کرتی ہے، تب بھی اسے دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا اوراس کی حیثیت جنگ ِ آزادی کی ہوگی۔
    ۴-    یہ مسئلہ سیاسی جدوجہد اور عالمی اداروں کے کردار کے ذریعے طے ہونا چاہیے اور صرف وہی حل مسئلے کا یقینی حل ہوگا، جسے جموں و کشمیر کےعوام اپنی آزاد مرضی سے قبول کریں۔ عالمی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ مسئلے کے حل اور علاقے کے امن کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں، اور جس طرح دنیا کے دوسرے علاقوں میں محکوم اقوام کے لیے حقِ خودارادیت کو یقینی بنایا گیا ہے، اسی طرح جموں و کشمیر کے عوام کو یہ حق فراہم کیا جائے۔ یہ مسئلہ کسی ملک یا ادارہ کی ثالثی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ کا مسئلہ ہے، جس سے بھارت صرف جبر کی قوت کے سہارے راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہے۔ سیّد علی گیلانی پاکستان اور اُمت مسلمہ اور انسانیت کو اسی طرف متوجہ کر رہےہیں۔ (مدیر)
_____________
اےلوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو توثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائےگی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال ۸:۴۵-۴۶)
 عزیز ہم وطنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
تمام تعریفیں اللہ ربّ العزت کے لیے، جس نے ہمیں غاصب بھارت کے ریاست جموں و کشمیر پر قائم ناجائز قبضے کے خلاف خندہ پیشانی سے مزاحمت کرنے کی ہمت عطا کی، اور اس مکار قابض کے تمام تر ظلم وجور اور مکروفریب کے باوجود حق پر قائم وثابت قدم رہنے کی طاقت بخشی۔  اسی کی طرف رجوع لازم ہے، جس کی نصرت فتح کی نوید ہے اور جس کی رضا ہماری منتہاے نظر ہے۔
عزیز ہم وطنو!
جن حالات سے ریاست جموں و کشمیر گزر رہی ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں اور تاریخ کے جس موڑ پرآج ہماری قوم کھڑی ہے، ایسے میں آپ سے مخاطب ہوکر آپ کے سامنے لائحہ عمل پیش کرنا میرافرضِ منصبی ہے۔ اگرچہ بھارتی حکومت نے ہرطرح کی قدغنیں نافذ کررکھی ہیں، لیکن خداے بزرگ و برتر اپنی غیبی تائید سے ہم محکوموں کی نصرت کرتا ہے۔
مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک روز ہم بھی غلامی سے نجات پائیں گے اور بھارت بالآخر ہماری مزاحمت کےآگے گھٹنے ٹیک دے گا اور اس کے آخری فوجی کے انخلا تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی،ان شاء اللہ!
۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک ہماری تحریک ِآزادی کٹھن مراحل سے گزری ہے۔ ہم نے ہر وہ راستہ اختیار کیاہے، جس سے ہم اپنے مبنی بر صداقت مطالبے کو منوا کر حقِ خود ارادیت کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ چاہے وہ جمہوری راستہ ہو یا کوئی اور طریقہ، ہم نے اپنی مزاحمت میں کوئی لچک نہیں آنے دی۔ تحریک ِ آزادی نے، ۱۹۸۷ء میں یہ ثابت کیا کہ بھارت کا جمہوری نقاب ایک ڈھکوسلا ہے اور اس نقاب کے پس پردہ ایک خونخوار درندہ ہے۔ ’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘ کے مصداق ہمارے غیور جوانوں نے میدانِ کارزارکا راستہ اختیار کیا اور تاریخ اسلام  میں مزاحمت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ بھارتی استعمار آج تک ششدرہے۔ عوامی تحاریک ۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۶ء ، ۲۰۱۹ء کے ذریعے ریاست کے طول وعرض میں عوام نے اپنے مطالبۂ آزادی کو دُہرا کر لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی۔ عوامی جذبے کی شدت سے حواس باختہ ہوکر بھارت نے اپنے آخری حربے کے طور پر ریاست جموں و کشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کا خودساختہ غیرقانونی اعلان کیا۔
ایسے حالات میں، جب کہ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح کشمیر اور کشمیریوں کےخلاف نفرت اور انتقام کی مہم جاری رکھی اور مقامی اخبارات بھی زمینی صورتِ حال پر پردہ پوشی کے مرتکب ہوئے۔ ان کے برعکس بین الاقوامی صحافتی ادارو ں نے کماحقہٗ موجودہ صورتِ حال کی عکاسی کرکے ہندستانی مظالم اورسفاکیت کی داستان دُنیا تک پہنچانے کی منصبی ذمہ داری نبھائی۔
عزیزانِ ملّت!
پچھلے ۷۰برسوں کےدوران بھارتی حکومتوں کی فریب کارانہ سیاست اور بھارتی فوجی جبرومظالم سے یہاں کے عوام کو اپنے پیدایشی حقِ خود ارادیت کے مطالبے سے دستبردار کرنے میں ناکام ہوکر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو ایک نسل پرست فسطائی بھارتی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کاغیراخلاقی، غیرانسانی اور غیرجمہوری فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی متنازعہ ریاست کی جغرافیائی وحدت کو توڑ کراسےدوحصوں میں تقسیم کردیا،حالانکہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارت کی حیثیت محض ایک قابض اور جابر کی ہے، جس کا واضح ثبوت اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اس فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے بھارتی حکومت پورے خطے میں غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو کانفاذ عمل میں لائی۔ ۱۸ہزارسے زائد لوگوں کو حراست میں لےکر پولیس تھانوں اور جیلوں میں نظربند کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں کمسن بچوں، نوجوانوں اوربزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گھروں میں گھس کر پردہ دار خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ احتجاج کرنے کی صورت میں خواتین اور لڑکیوں کی عصمت پامال کرنے کی کھلے عام دھمکیاں دی گئیں۔ لوگوں کی زمینوں اور گھروں کو ضبط کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ صوبہ جموں اور لداخ کی مسلم آبادی پہلے سے ہی بھارتی فوج کے مظالم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ہرطرح کی مواصلات اور انٹرنیٹ سروس کومعطل کیا گیا۔ پیلٹ گن کا بے تحاشا استعمال کرکے بچوں اور نوجوانوں کو بینائی سے محروم کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
ان تمام مظالم اور جبر و زیادتیوں کے باوجود جموں و کشمیر کے عوام نے بھارتی استعمار کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھی ہے، اور دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ ہم اپنی جدوجہد اور مطالبۂ آزادی سے کسی بھی صورت میں دست بردار نہیں ہوسکتے۔
عزیز ہم وطنو!
میں نے آپ کو بارہا اس حقیقت سے باخبر کیا ہے کہ بھارت صرف جموں و کشمیر پر قابض ہونے پر ہی نہیں رُکا، بلکہ وہ ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے علاوہ ہمارا عقیدہ، ہماری شناخت اورہماری تہذیب چھیننے کے درپے ہے۔ ۵؍اگست کا فیصلہ اسی فسطائی حقیقت کا ایک عملی اقدام ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت سے غیرمسلم آبادی کو لاکر یہاں جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنےکی کوشش کی جائے گی۔ لاکھوں کنال کی عوامی اراضی ، جس پر بھارتی فوج پہلے ہی قبضہ جمائے ہوئے ہے ، اس کے علاوہ مزید اراضی کو ہڑپ کر لیا جائے گا۔ ان غیرریاستی باشندوں کو بھارتی افواج کی پشت پناہی حاصل ہوگی، جو یہاں کے مسلمانوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کے لیے بھارت کے ہراول دستے کا کام انجام دیں گے۔
نام نہاد تعمیر و ترقی ، تعلیمی اور طبی اداروں کے قیام کےعلاوہ تجارت کے نام پر مزید اراضی بھارتی اداروں کے حوالے کی جائے گی۔ ہمارےقدرتی وسائل بھی ہم سے چھین لیے جائیں گے۔ میوہ جات، باغات، سدابہار جنگلات اور آبی وسائل تک سے محروم کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ہمارے مسلم اکثریتی کردار کو ہرسطح پر نشانہ بنا کر ہم سے بحیثیت مسلمان زندہ رہنے کاحق چھینا جائے گا۔
 اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہماری مساجد اور ہماری خانقاہوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو تاریخی بابری مسجد کے ساتھ عملاً کیا گیا۔ اسی طرح ہمارے دینی مدارس بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ بابری مسجد کو شہیدکرکے اسے مندر میں تبدیل کرنے کے بھارتی اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قائداعظم محمدعلی جناح، حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور وہ ہزاروں لاکھوں مسلمان، جنھوں نے تحریک ِ پاکستان کو شرمندئہ تعبیر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، نہ صرف بصیرت افروز تھے بلکہ اپنے خدشات میں قائم بالحق تھے۔
عزیز ہم وطنو!
مَیں یہاں ان ہندنواز سیاست دانوں کاذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو بھارتی فوجی قبضے کو ریاست میںدوام بخشنے کے لیے پچھلے ۷۰برسوں سے بھارت کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیںاور نام نہاد انتخابات کے ذریعے یہ باور کراتے رہے ہیں کہ وہ عوام کے نمایندے ہیں۔ حالانکہ مَیں باربار یہ بات واضح کرچکا ہوں کہ بھارتی میکاولی سیاست میں ایسے لوگوں کی وقعت فقط قابلِ استعمال    آلہ کاروں کی سی ہے۔ وہ آج تک اس زعمِ باطل میں مبتلا تھے کہ وہ قوم کی خدمت کر رہے ہیں، حالانکہ وہ بھارت کے دست ِ راست ہیں اور اس مکروفریب میں وہ بین الاقوامی سطح پر تحریک آزادی اور عوامی جذبات کے خلاف اپنی آوازیں بلند کرکے بھارتی قبضے کو سند ِ جواز بخشتے رہے ہیں۔
لیکن وقت اور تاریخ نے اس نہتی قوم کو یہ دن دکھایا کہ جس میکاولی اور فریب کارانہ سیاست کی چاپلوسی کرتے ہوئے، جس دلّی دربار کی خوش نودی کے لیے یہ ہندنواز ٹولہ اپنے ہی محکوم و مجبور عوام کو تختۂ مشق بناتارہا، اسی دلی دربار نے خود انھیں ایسا نشانۂ عبرت بنا کے چھوڑا ہے کہ وہ منہ چھپانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اب ان کے لیے ایک باغیرت اور ذی حس انسان کی طرح اپنی فاش غلطیوں اور قومی دغا بازیوں سے توبہ کرکے حق و صداقت کا علَم تھامنا ہی راہِ نجات ہے۔ ذلّت اور رُسوائی سے حاصل شدہ مال و متاع کے بجاے حق و انصاف کے حصول کا خاردار راستہ ہی سرخروئی، عزت اور وقار کی زندگی عطا کرسکتاہے۔
مَیں ایک بار پھر ان ہندنواز سیاست دانوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ تاریخ نے انھیں ایک اور موقع فراہم کیا ہے، جو شاید آخری ہو کہ عوامی جدوجہد ِ آزادی میں شامل ہوکر قومی جذبۂ حُریت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔
غیور ہم وطنو!
اس نازک مرحلے پرمَیں اپنی قوم کے مستقبل اور اپنی آنے والی نسلوں کے حوالے سے متفکر ہوں۔ میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ بھارتی عزائم کی ہرسطح پرمزاحمت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری آج کی مزاحمت، کل کی آزادی کی نوید ہوگی۔ یہاںکاہرباشندہ اپنا فرضِ منصبی سمجھ کر مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کرکے تحریک ِ آزادی میں اپنا کردار ادا کرے اور کسی بھی طرح کی غفلت، لاپروائی اور غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب برتے:
    ٭    آپ کو کسی بھی صورت میں کسی بھی قیمت پر، کسی بھی غیرریاستی باشندے کو اپنی جایداد، بشمول اراضی، املاک، مکانات و دکانات وغیرہ فروخت نہیںکرنی ہے۔ غیرریاستی باشندوں کو کرایہ دار کی حیثیت سے بھی قبول کرنے سے اجتناب برتنا ہے۔
    ٭    تاجروں کو اس بات پر متفق ہوجانا ہے کہ وہ تجارت کے نام پرکسی بھی غیرریاستی باشندے یا حکومت سے کوئی بھی ایسا معاہدہ نہیں کریں گے کہ جس کے عوض انھیں اپنی املاک کو فروخت کرنا پڑے۔
    ٭    یادرکھیے، تعلیم، تجارت، طبی ادارہ جات اور ترقی کے نام پر عوام کو ورغلانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس لیےعوام کسی نعرے کے دامِ فریب میں نہ آئیں اور ایسی کسی پالیسی کے نام پر غیرریاستی اداروں اور افراد کو اپنی املاک فروخت نہ کریں۔
    ٭    اپنی مساجد، خانقاہوں اور دینی مدارس کی حفاظت کے لیے چاک وچوبند رہیں۔
    ٭    بھارت ہم سے ہماری زبان مختلف طریقوں سے چھیننے کی کوشش کرے گا، لیکن نئی نسل اپنی زبان پہچانے اور اس کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔
    ٭    اُردو جو کہ ہمارے لیے اسلامی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے، اس پر بھی ڈاکا ڈالنے کی کوشش ہوگی۔ آپ کو اس کی بھی حفاظت کرنا ہے، تاکہ ہماری اسلامی،علمی اور تہذیبی شناخت برقرار رہے۔
    ٭    لداخ، جموں، پیرپنچال، وادیِ چناب کے مسلمانان نے ہمیشہ قلیل وسائل کےباوجود قابض قوتوں کےخلاف سینہ سپر ہوکر جذبۂ آزادی کو اپنے خون سے سینچا ہے۔ تاریخ کے اس نازک مرحلے پر مَیں انھیں ان کی استقامت و جرأت پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ وادیِ کشمیر کے عوام کو چاہیے کہ تحریک ِ مزاحمت کے ہرمرحلے پر ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں، انھیں خراجِ تحسین پیش کریں اورانھیں اپنی ہرسعی میں شاملِ حال کریں۔
    ٭    تعلیمی اداروں کے ذریعے سے تاریخ کو ہندوانےاور مسخ کرنے کا قبیح کام کیا جائے گا۔ اس لیے اپنی ملّی تاریخ کو اپنی نسل تک پہنچانے کا انتظام آپ کو خود کرنا ہے۔ گھروں میں ایسی روایات کو جاری کرنا ہے کہ ہماری نئی نسل ریاست جموں و کشمیر کی اصل تاریخ سے باخبر رہے۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی اس کوشش کے مدمقابل حقیقی تاریخ کو مرتب اور منضبط کرنا آپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
    ٭    نام نہاد انتخابات کی حقیقت آپ پرعیاں ہوچکی ہے۔ اس لیے آپ کو کسی بھی قسم کے بھارتی انتخابی ڈرامے بشمول پنچایت، میونسپل، اسمبلی اور ہندستانی پارلیمان میں کسی بھی سطح یا طریقے سے شامل نہیں ہونا ہے۔ ایسی کوئی بھی حرکت قومی غداری کے مترادف ہے۔
    ٭    تحریک ِ آزادی میں متاثرہ افراد خاص طور پر جوانوں، قیدیوں، بیواؤں، زخمیوں، جسمانی طور پر معذور افراد کی امداد آپ پر لازم ہے۔ میدانِ کارزار میں مصروف جوانوں کو ہردم اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیے اور یہ بھی اَزبر کرلیجیے کہ ہم شہدا کے امین ہیں اور اس امانت کی آپ کو حفاظت کرنی ہے۔
    ٭    جموں و کشمیر پولیس جو کہ ۱۸۷۳ء سےہی ریاستی عوام پر ظلم و جبر ،قتل اوردرندگی کے پہاڑ ڈھانے کی مرتکب ہے ،جن کے ہاتھ کشمیریوں کے قتل عام، عصمت دری، آتش و آہن اور جوانوں کی بینائی چھیننے میں ملوث ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ روزِ اوّل سے ہی جموں و کشمیر کی پولیس نے ریاست پر ہرناجائز قابض کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آج، جب کہ بھارت نے حد ِ فصیل کھینچ دی ہے ، ہمارے اور ہماری آزادی کے درمیان بھارتی فوج اورجموں و کشمیر پولیس کی بندوقیں حائل ہیں۔ مَیں جموں و کشمیر پولیس کو تاریخ کے اس فیصلہ کن مرحلے پر خبردارکرتا ہوں: اس سے پہلے کہ عوامی جذبۂ حُریت انھیں پر ِکاہ کی مانند بہا لے جائے، انھیں چاہیے کہ وہ اپنے عمل کا حساب کریں اور طے کریں، آیا کہ   وہ مظلومانِ کشمیر کے ہمراہ کھڑے ہوں گے یا بھارتی قاتلوں اورسفاکوں پر مشتمل فورسز کے شانہ بشانہ ان کے خلاف نبردآزما ہوں گے۔
عزیز ہم وطنو!
اس صبرآزما اور کٹھن مرحلے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جس جرأت، بالغ نظری اور حقیقت پسندی سے کام لے کر پوری دنیا میں ہماری جدوجہد ِ آزادی اور ہم پرروا رکھے گئے بھارتی مظالم کو پیش کیا ہے، وہ قابلِ ستایش ہے۔ ایسی توقع ایک مخلص دوست اور شفیق محسن سے ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ پاکستان ہی کی اَن تھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ۵۲سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر ایک بار پھر زیربحث آیا۔ ہم حکومت ِ پاکستان اور پاکستانی عوام کی مدد کا    تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ بھارتی استعمار اور اس کی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرکے بھارت کو ایک غاصب اور قابض کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بارہا ایسا ہواہے کہ پاکستان کی داخلی سیاست کے منفی اثرات، مسئلہ کشمیر کو جھیلنا پڑے ہیں۔ اس لیے میں پاکستانی سیاست دانوں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ یک زبان کھڑے رہیں۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اور ان کے بعد ہرپاکستانی حکومت نے اس کی تائید کی۔ اب وقت آچکا ہے یہ ثابت کرنے کا کہ یہ محض ایک نعرہ نہیں، اور اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے تمام تر وسائل بشمول جرأت اور حوصلے کو بروے کار لاکر بھارت کی حالیہ جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے کشمیر کا دفاع کرے۔
اس دوران دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم کشمیریوں نے جس طرح اپنی تحریک ِ آزادی کے حق میں اور بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کی، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری جہاں بھی ہیں وہ تحریک ِ آزادی کے سفیر ہیں۔
غیور ہم وطنو!
آج ایک بار پھر یہ عہد کریں کہ ہم بھارت کی غلامی کو کبھی بھی سند ِ جواز نہیں بخشیں گے۔ ہم اتحاد واتفاق، نظم و ضبط، صبرواستقلال ، یکسوئی و یک جہتی اور باہمی ربط و اخوت کے زریں اصولوں پر عمل کرکے اپنی جہد مسلسل کو آزادی کی سحر تک جاری رکھیں گے۔
پیرانہ سالی اور صحت کی ناسازی شاید ہی مجھے آپ سے آیندہ گفتگو کی مہلت دے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ِواسعہ سے یہ اُمید ہے کہ وہ میری لغزشوں، کوتاہیوں سے درگزرفرمائے اور مغفرت سے نوازے۔ بہرحال زندگی اور موت کے فیصلے قاضیِ حیات کے دست ِ قدرت میں ہیں۔
میری دیرینہ خواہش رہی ہے کہ میرا مدفن مزارِ بقیع میں ہوتا کہ روزِقیامت مَیں ان عظیم ہستیوں کی معیت میں اپنے ربّ سے ملوں، جن کے نقش ہاے قدم ملّت اسلامیہ کے لیے روشنی کے مینار ہیں اور جن کی پیروی کرتے ہوئے مَیں نے ملّت اسلامیہ کا دفاع اور اقامت دین کی جدوجہد حسب ِ استطاعت کی ہے۔ لیکن پچھلے ۷۰برسوں سے عموماً اور گذشتہ ۳۰،۳۵ برس کے دوران خصوصاً جس طرح اور جس بڑی تعداد میں کشمیر کے نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ظلم و جبر کے خاتمے اور آزادی اور اسلام کے غلبے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں، اس میں کشمیر کی اس سرزمین اور خاص طور پر اس کے ان حصوں کو جہاں پہ پاک نفوس دفن ہیں، ایک خاص تقدس اور احترام بخشا ہے، اس لیے انھی کے پہلو میں جگہ پانا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں۔
یاد رکھیں کہ ربِّ کائنات کی رحمت سے نااُمید ہونا مسلمان پر حرام ہے۔ پُراُمید رہیں کہ ظلم کی تاریک رات چاہے کتنی ہی طویل ہو، بالآخر اختتام کو پہنچے گی۔ تاریخ فرعون و قارون اورہامان و چنگیز کا انجام دیکھ چکی ہے___ دوام فقط حق کو ہے۔

علی گیلانی

پاکستان اپنے قیام کے ۷۲ سال بعد بھی اندرونی خلفشار اور صف بندی (Polarization)  کا شکار ہے۔ یہ صورتِ حال بےحد تشویش ناک اور ملکی سلامتی کے لیے بہت خطرناک ہے۔   آج بھارت میں مسلمانوںکے ساتھ بالخصوص اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ بالعموم جو خونیں کھیل کھیلا جارہا ہے، اس کا ایک چشم کشا پہلو اس احساس کا اُجاگر ہونا ہے کہ پاکستان کے قیام نے پاکستانی مسلمانوں کو کن خطرات اور کس عذاب سے بچالیا اور اپنی زندگی کو آزادی اور عزت کے ساتھ ترقی دینے کے کیسے مواقع فراہم کیے۔ اس احساس کا تقاضا ہے کہ ہم پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق اپنی سیاسی، معاشی، تہذیبی اور اخلاقی زندگی کی تعمیر کریں اور ملک کے دستور میں جس تصور کو واضح الفاظ میں طے کر دیا گیا ہے، اس کے مطابق ہر ادارہ، ہر قوت اور ہرفرد اپنی ذمہ داری اداکرے، تاکہ عوام اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنے عزائم کے مطابق ترقی و استحکام کی منزلیں طے کرسکے۔

 زمینی حقائق جو تصویر اس وقت پیش کر رہے ہیں، وہ پریشان کن ہے اور فوری طور پر اصلاح کی طالب۔ ہم نے چار فوجی حکومتوں اور ایک درجن سے زیادہ نام نہاد جمہوری حکومتوں کا دور دیکھا ہے جس میں: پارلیمانی، صدارتی، اور فوجی نظامِ حکومت کا تجربہ بھی کرلیا ہے۔ فوج، بیوروکریسی اور عدالتی مداخلت کا مزا بھی بار بار چکھا ہے۔ حالیہ تاریخ میں جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے ۹برسوں کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے پانچ پانچ سال بھی بھگتے ہیں اور ان سے نجات پانے کے لیے تحریک انصاف کی شکل میں تبدیلی کے لیے دروازے بھی کھولے ہیں۔ لیکن ان ۱۶مہینوں کا تجربہ بھی تلخیوں، محرومیوں اور مصائب کے سوا قوم کو کچھ نہیں دے سکا۔ اب عوام میں بے چینی، بے یقینی، اضطراب اور مایوسی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ جزوی طور پر چند مثبت پہلوؤں کے باوجود بحیثیت مجموعی عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ اور حکومت نےعوام کو مایوس کیا ہے اور مصائب میں کمی کے بجاے مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
ہم پاکستان کے مستقبل کے لیے جہاں یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دستور اور جمہوری نظام کی ہرقیمت پر حفاظت کی جائے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اپنی منزل کا صحیح صحیح تعین کرے۔ اس کے حصول کے لیے صحیح پالیسیاںپوری تحقیق، مشاورت اور عوام کو اعتماد میں لے کر مرتب اور نافذ کی جائیں۔ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں اپنا کام کرے اور اچھی حکمرانی (good governance) کی اعلیٰ مثال قائم کی جائے۔ موجودہ حکومت اس حوالے سے بُری طرح ناکام رہی ہے اور اگر حالات کی فوری اور مؤثر اصلاح کی کوشش نہیں ہوتی تو پھر واحد راستہ نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔

حکومت کی مایوس کن کارکردگی

تمام اختلافات اور ۲۰۱۸ء کے انتخابات کی ساری کمزوریوں کے باوجود، ہم نے کھلے دل سے حکومت کو موقع دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اس دوران انجام دیے گئے کاموں اور سارے دعوؤں کا جوحشر ہوا ہے، وہ ناقابلِ تصور اور ناقابلِ بیان ہے۔فکری انتشار، پالیسیوں کافقدان، دعوؤں کی بھرمار، الزامات اور اتہامات کی بوچھاڑ، اقوال واعمال میں تضادات ہرسطح پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایسے اقدامات کی روز افزونی سے ملک کی آزادی، خودمختاری، معاشی ترقی ، قانون کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی اورعوام کی خوش حالی بُری طرح مجروح ہورہی ہے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ وزیراعظم صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ آج بھی ڈی چوک والے کنٹینر سے حکومت چلارہے ہیں۔ جوزبان استعمال کی جارہی ہے، اس نے سیاسی فضا کونہ ختم ہونے والی نفرت سے آلودہ کردیا ہے۔ بلاشبہہ اپوزیشن کارویہ بھی تعمیری نہیں ہے اور اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں اپنے اپنےمفادات اور اپنی اپنی قیادت کی بداعمالیوں پر پردہ ڈالنے اور ان سے توجہ ہٹانے کو اپنی اولین ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔ ملک کے مسائل اور حالات کی اصلاح کے لیے پارلیمنٹ اور دوسرے تمام میدانوں میں کوئی کردار اداکرنے کے لیے وہ تیار نہیں دکھائی دیتیں۔ لیکن، خود حکومت بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ مسائل کے ادراک، افراد کے انتخاب، صحیح پالیسیوں کی تشکیل اور اچھی حکمرانی کے باب میں بُری طرح ناکامی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
خود تحریک انصاف کا نظام بھی اسی طرح چل رہا ہے، جس طرح دوسری بڑی جماعتوں میں قیادت، شخصی پسند و ناپسند کی بنیاد پر چلائی جارہی تھی۔نہ مرکز میں کوئی مؤثر ٹیم وجود میں آئی ہے اور نہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں مؤثر انداز سے کام کر رہی ہیں۔ اداروں سے تصادم، میڈیا میں مداخلت اور ساتھ ہی میڈیا سے رابطہ کاری، بزنس کمیونٹی کی سرزنش اور بزنس کمیونٹی سے سمجھوتا ___ ۱۶ماہ سے ایک ہی کہانی دُہرائی جارہی ہے۔ملک میں جہاں عام آدمی کو ہرروز سرکاری اداروں سے سابقہ پڑتا ہے عوام حسب سابق کرپشن، بے توجہی، لاقانونیت، جرائم کی بہتات، روزگار سے محرومی اور روزافزوں مہنگائی کا شکار ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ:
رو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رُکاب میں

اس پس منظر میں ہم تین واقعات کی طرف خصوصیت سے توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو اپنی اپنی جگہ بھی اہم ہیں، لیکن اس سے بڑھ کر ایک آئینہ ہیں جس میں اس وقت معاشرہ، حکومت اور ملک کے اہم ترین اداروں کی اصل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔

پنجاب کارڈیالوجی پر وکلا کا حملہ

پہلا واقعہ لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ۱۱دسمبر کا وہ اندوہناک تصادم ہے، جو سوسائٹی کے دو اعلیٰ طبقوں کے نمایندوں کے درمیان ہوا۔ وہ طبقے جنھیں انسانیت، تہذیب اور شائستگی کی اعلیٰ ترین مثال ہونا چاہیے،یعنی انسان کی جان بچانے والے ڈاکٹر اور معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کو یقینی بنانے والے وکلا۔
بلاشبہہ مسئلہ ۱۱دسمبر کو شروع نہیں ہوا۔ دونوں کے درمیان مختلف وجوہ سے کشیدگی ایک ماہ سے موجود تھی۔ ینگ ڈاکٹرز کے اپنے مسائل تھے اور دوسری طرف وکلا کا اپنا غروراور احساسِ برتری۔ ان اہم اداروں میں ٹریڈ یونین کے سے طریقوں کا استعمال پریشان کن ہے۔ ڈاکٹر اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے جو حربے استعمال کرتے ہیں وہ کسی خیر کی خبر نہیں دیتے۔ وکلا جس طرح خصوصاً گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں سے اپنی بالادستی اور زورزبردستی کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں، وہ بے حد تشویش ناک ہے۔ پھر جس طرح مختلف حکومتوں نے بشمول موجودہ حکومت، ان طبقات سے اصلاحِ احوال کی کوئی مؤثر کوشش نہیں کی اورہربار فقط لیپاپوتی سے کام چلایا ہے، وہ بھی بگاڑ کو اس مقام تک لانے کا ذمہ دار ہے۔۱۱دسمبر کو جو المیہ رُونما ہوا، اس میں بظاہر زیادہ جارحانہ رویہ وکلا کا تھا۔ جس طرح اعلان کرکے وہ منظم انداز میں سات کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہسپتال پر حملہ آور ہوئے اور پھر جو تباہی مچائی، اس میں چار، پانچ افراد جان کی بازی ہارگئے، کروڑوں کا قیمتی سامان برباد اور نہایت قیمتی میڈیکل مشینری کو تباہ کر دیا گیا، سیکڑوں مریض دربدر ہوگئے۔ پھر جس طرح وکیلوں کی تنظیموں نے (چند معزز وکلا کے استثنا کےساتھ) محض گروہی عصبیت کی بنیاد پر اپنے ہم پیشہ افراد کا ساتھ دیا، وہ اتنا تکلیف دہ ہے کہ پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ تین گھنٹے ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنی رہی۔ جو انتظامی اور پولیس افسران ڈیوٹی پر موجود تھے، انھوں نے اپنی ذمہ داری انجام دینے میں غفلت برتی:

حادثہ سے بڑا حادثہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

اس الم ناک واقعے کو محض ایک حادثہ سمجھنے کے بجاے جان لینا چاہیے کہ یہ معاشرے کی اخلاقی گراوٹ اور ملک کے تعلیمی نظام کے غیرمؤثر ہونے کا بھی ثبوت ہے۔ گھر، معاشرہ ،اسکول، میڈیا، حکومت اپنے اپنے میدان میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔ مسئلہ سفید کوٹوں اور کالے کوٹوں کے تصادم کا نہیں، معاشرے کی اقدار کے تہ و بالا ہوجانے کا ہے۔ ایک مہذب معاشرے کے لیے جو کم سے کم اجتماعی آداب ہیں، یہ المیہ ان سے بھی محروم ہوجانے کا پتا دیتا ہے۔ اسلام کا تو اصل ہدف انسان کو ایک بہتر انسان بنانا ہے۔ قرآن و سنت کا مطالعہ کیجیے، کس طرح ذاتی اخلاق اور اجتماعی معاملات میں خیروصلاح کی بنیاد پر تمام اُمور کو انجام دینے کی بہ تکرار ہدایت کی گئی ہے۔ محض قرابت داروں کے نہیں، ہرانسان کے حقوق کے احترام کو مسلمان کی شان قراردیا گیا ہے۔ گفتگو اور میل جول میں الفاظ اور جملوں کے برتاؤ تک کی ہدایت دی گئی ہے۔ اختلاف میں کن حدود کی پاسداری کرنا ہے، تنازعات کے حل کے لیے کیا راستہ خیر اور صلاح کا بتایا گیا ہے۔ افسوس کہ آج ہم ان سب چیزوں سے محروم ہوگئے ہیں اور ہوتے جارہےہیں۔
بات ہم مدینہ کی ریاست کی کرتے ہیں اور اعمال ہمارے اسوئہ رسولؐ اور مدینہ کے  مسلم معاشرے کی ضد ہیں۔ حکومت، میڈیا ، دانش ور اوراہلِ علم، علماے کرام اور دینی جماعتوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اتنا بڑا واقعہ بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہ ہوگا۔ ایسے معاملات میں سمجھوتاکاری اور لیپاپوتی سمِ قاتل ہیں۔ اگر بُرائی کو بروقت روکنے میں تساہل کیا جائے گا تو وہ بُرائی بڑھتی اور غالب آتی جائے گی۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہی وہ طریقہ ہے، جس سے بُرائی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ بُرائی کو اگر بُرائی سے تبدیل کیا جائے گا تو غالب بُرائی ہی رہے گی ۔ اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب بُرائی یا خرابی کو خیر اورفلاح سے تبدیل کیا جائے اورمعاشرے میں بُرائی کو گوارا نہ کیا جائے اور ظلم و زیادتی کے ذمے داران کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ سزا، تعلیم و تربیت اور معاشرے میں قبول اور رَد___ یہ سب بیک وقت اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان کا قیام انصاف اور حق پر مبنی معاشرہ اورریاست قائم کرنے کے لیے تھا، ظلم اور استحصال کے راج کے لیے نہیں۔

جنرل پرویز مشرف کو سزا

دوسرا واقعہ جس کی طرف ہم متوجہ کرنا چاہتے ہیں، وہ جنرل پرویز مشرف پر دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ۶ کی خلاف ورزی کے مقدمے کا فیصلہ ہے، جو ہسپتال کے واقعے کے ایک ہفتے کے بعد آیا ہے اور جس میں خصوصی عدالت کی اکثریتی راے (دو جج فیصلے کے حق میں اور ایک اختلاف میں) کے مطابق وہ دستورشکنی کے جرم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ اس کے لیے وہ دستور میں بیان کردہ سزا، یعنی سزاے موت کے مستحق ہیں۔ افسوس ہے کہ اس تاریخی فیصلے میں ایک معزز جج نے سزاے موت کے طریقے کے بارے میں جو راے دی ہے، محض اسے اصل موضوع بنالیاگیا اور فیصلے میں جو نہایت اہم تفصیلات اور نتائج درج ہیں، ان سب کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ ہمارا تاثر بھی یہی ہے کہ اگرپیراگراف۶۶ میں وہ ایک جملہ نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ لیکن ملک ہی نہیں عالمی سطح پر گذشتہ سیکڑوں برسوں ہی میں نہیں بیسویں صدی میں بھی اور خود مغربی ممالک میں بھی اس انداز میں سزا دی گئی ہے۔ البتہ ہمارا یہ موضوع نہیں۔ ہماری نگاہ میں اگر وہ جملہ نہ ہوتا تو فیصلے کے حقیقی (substantive ) حصے پر ہی توجہ مرکوز رہتی اور اب بھی اسی پر توجہ رہنی چاہیے۔ واضح رہے کہ وہ جملہ فیصلے کا حصہ نہیں، ایک جج کی راے ہے۔ البتہ عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ ’’جنرل مشرف دستورشکنی کے مرتکب ہوئے ہیں اورانھیں اس کی سزا ملنی چاہیے‘‘۔
ہم نے اصل فیصلے کا بغور مطالعہ کیاہے اور اس امر کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اور قانونی اور دستوری اعتبار سے بڑا جان دار اور محکم فیصلہ ہے۔ افسوس ہے کہ ایک غیرضروری جملے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اصل فیصلہ مرکز توجہ نہیں رہا بلکہ مخصوص طبقوں کی طرف سے اس پرایسے اعتراضات ہورہے ہیں جن کے جواب فیصلے میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اعتراض کہ ’’جنرل پرویز مشرف کو دفاع کا موقع نہیں ملا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے‘‘۔اور یہ کہ ’’فیصلہ آرمی کے خلاف بحیثیت ایک انسٹی ٹیوشن کے ہے‘‘ اس سے غلط الزام کوئی نہیں ہوسکتا۔
اس فیصلے میں پوری تفصیل موجود ہے کہ کس طرح چھے سال تک مقدمہ چلا ہے، ۱۰۰ سے زائد مرتبہ پرویز مشرف اور ان کے وکلا عدالت گئے اور انھوں نے محض التوا اور فیصلہ مؤخر کرنے کا کھیل کھیلا۔ اس فیصلے میں ’غداری‘ کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں ہوا۔ جو لفظ استعمال ہوا ہے، وہ وہی ہے، جو خود دستور میں استعمال ہوا ہے یعنی، high treason۔ جنرل صاحب نے ۴۰سال فوج کی خدمت کی، اس پر یہاں بحث نہیں۔ پھر جس طرح فوج میں high treason کے الزام میں کئی اعلیٰ فوجی افسران کو سزا دی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے فوج کے ادارے پر کوئی حرف نہیں آتا،ذمہ داری متعلقہ فرد پر ہی جاتی ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہے۔
جس طرح ایک وزیر، وزیراعظم، صدر، جج، اعلیٰ سول ملازم، سیاسی لیڈر کسی جرم سے صرف اس لیے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ وہ وزیر، جج یا افسر ہے، اسی طرح اگر فوج کے کسی بھی افسرنے خواہ اس کی دوسری خدمات کتنی ہی شان دار کیوں نہ ہوں، اگر اس نے ایک بھی مجرمانہ اقدام کیا ہے تو محض خدمات کی بناپر اسے جرم سے تحفظ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف اقدام (اور فیصلہ) ہے فوج کےخلاف نہیں۔ فوج کے نمایندوں نے اس سلسلے میں جس ردعمل کا اظہار کیا ہے، وہ محل نظر ہے۔
 کیا فوجی قیادت ماضی قریب کی اس فضا کو بھول گئی کہ جنرل پرویز مشرف صاحب کے زمانۂ اقتدار میں،خصوصیت سے اسلام آباد کی لال مسجد کے واقعے میں مشرف کے ظالمانہ اقدام کے باعث فوج کی ساکھ، عوام کی نگاہ میں اتنی متاثر ہوگئی تھی کہ وردی میں تنہا سفر کرنے سے انھیں سرکاری طورپر منع کردیا گیا تھا۔ حالاںکہ پاکستانی عوام اپنی فوج کے ایک ایک سپاہی سے محبت کرتے ہیں اور سپاہی ہو یا افسر اور جرنیل انھیں اپنا محسن سمجھتے ہیں۔پرویز مشرف کے چلے جانے کے بعد فوج نے اپنی ساکھ کوبحال کرانے میں اہم اقدامات کیے۔ عدالتی فیصلے میں واضح طور پر پرویز مشرف اور اس کے اقدام اور فوج بحیثیت ادارہ میں فرق کیا گیا ہے اور پوری جرأت اور وضاحت سے فیصلے میں اس امر کو ثابت کیا گیا ہے: ’’فوج، دستورکے تابع ہے اور دستور کے طے کردہ اصول کے مطابق سول نظام کے تحت کام کرتی ہے‘‘۔ سول معاملات میں مداخلت یا دستور کا تعطل، تبدیلی،  یا کُلی اور جزوی تنسیخ اس کے اختیارات سے باہرہیں اور اس جرم کی سزا دستور نےمقرر کردی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اس جرم میں اور کون کون شریک تھا؟ اس بات کو بھی اُچھالا جارہا ہے۔حالاں کہ فیصلے میں اس مسئلے کو بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ مقدمے کے دائرۂ کار سے باہر تھا۔ البتہ حکومت ان تمام افراد پر جب چاہے مقدمہ قائم کرسکتی ہے اور عدالت نے اس کا راستہ نہیں روکا۔ لیکن اس کی وجہ سےپرویز مشرف جو اصل اور کلیدی کردار ہیں، ان کو کیسے تحفظ دیا جاسکتا ہے؟  ہمارے نام نہاد دانش ور اس فیصلے پرجتنے بھی اعتراضات اُٹھا رہے ہیں، ان سب کا جواب فیصلے کے اندر تحریری طور پر موجود ہے۔ لیکن فیصلہ پڑھے بغیر یااس کے مندرجات کو نظرانداز کرکے فتوے دینے کی جو رسم ہمارے اینکروں اور تبصرہ نگاروں نے قائم کر دی ہے، وہ افسوس ناک ہے۔
فیصلے میں اختلافی نوٹ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔اس میں پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں کا جو کرداررہا ہے، اس پربھرپور گرفت کی گئی ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ فیصلہ ہماری تاریخ کا بڑا اہم اورروشن فیصلہ ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ پڑھا جانا چاہیے اور اس پر مکمل عمل ہونا چاہیے۔ہم ایک بار پھر یہ وضاحت کیے دیتے ہیں کہ پیراگراف ۶۶ کا وہ حصہ جس پر لے دے کی جارہی ہے، ایک راے ہے،فیصلے کا حصہ نہیں۔ اسے اس حد تک رکھا جائے تو بہتر ہے اور اگر ریویو میں عدالتِ عظمیٰ اسے نکال دے تو بہترہے۔

سربراہِ فوج کی مدتِ ملازمت میں توسیع

تیسرا مسئلہ جس پر ہم توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، اس کا تعلق عدالت کے اس فیصلے سے ہے، جس میں فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو قانونی جواز سے عاری قرار دیا گیا ہے اور حکومت اور پارلیمنٹ کو موقع دیا گیا ہے کہ چھے مہینے کے اندر اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کرلے۔
 اس معاملے میں حکومتی نااہلی اور اس کی قانونی ٹیم کے پھوہڑپن اورتساہل کا جو بھانڈا پھوڑا گیا ہے، وہ بڑا چشم کشا ہے۔کابینہ کی کارروائی اور اہم اُمورپر سرکاری دستاویزات جس طرح لکھی جارہی ہیں اور جن الفاظ کا استعمال قانونی تقرریوں میں کیا جارہا ہے، انھیں دیکھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہماری سول سروس کو کیا ہوگیا ہے؟ قانون، ضابطہ، طرزِبیان کے سلسلے میں جو تربیت انھیں دی جاتی تھی، وہ اب کہاں چلی گئی ہے؟ تین سرکاری دستاویزات جو پیش کی گئیں، وہ تینوں غلطیوں سے پُر ہیں۔ کیا اس کے ذمہ دار افراد کا احتساب نہیں کیا جاسکتا؟

ملک کو درپیش سنگین بحران

پاکستان کے موجودہ حالات کا گہرائی میں جاکر جو بھی جائزہ لے گا، وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہم اپنی تاریخ کے ایک سنگین بحران سے دوچار ہیں اور اس سے نکلنےکا کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔ اس کے لیےتمام سیاسی اور دینی قوتوں کے درمیان حقیقت پسندانہ مشاورت اور ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے مناسب اور مؤثر لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے عمران خان صاحب نے ایک تاریخی موقعے کو بڑی بے دردی سے ضائع کیا ہے۔ جولائی ۲۰۱۸ء کے انتخابات، منصفانہ انتخابات نہیں تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آج تک ایک بھی انتخاب دیانت اور انصاف کی بنیاد پر نہیں ہوا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخاب کے بارے میں دعویٰ تو کیا جاتا ہے کہ وہ منصفانہ تھا، لیکن جن کی نگاہ زمینی حقائق پر ہے، وہ جانتے ہیں کہ  خاص طور پر مشرقی پاکستان میں انتخابات کو بُری طرح عوامی لیگ کا یرغمال بنا دیا گیا۔ تاہم، جو سیاسی لہریں ملک کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھیں، ان کی بھی عکاسی انتخابی نتائج میں پائی جاتی تھی۔
 مختصر الفاظ میں، مختلف شکلوں میں اورمختلف طریقوں سے ہرسطح پر، ملک کے ہر انتخاب پر اثرانداز ہوا گیا ہے اور ۲۰۱۸ء کے انتخابات کے نتائج میں بھی یہ چیز موجود تھی۔ لیکن اس کے باوجود ایک دو جماعتوں کو چھوڑکر سب نے ایسے داغ دار نتائج کی بنیاد پر بھی پارلیمنٹ کو مؤثر کرنے اور حکومت سازی کی تائید کی۔ ہماری بھی سوچی سمجھی راے یہ تھی کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو کام کا موقع ملنا چاہیے اور انھیں اپنی پوری مدت ملنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ان قوتوں کا ساتھ نہیں دیا جو انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف اور اس کی قیادت نے اس تاریخی موقعے کوضائع کیا ہے اور پارلیمنٹ کو اہمیت دینے اور اپوزیشن سے تعلقاتِ کار قائم کرکے نظام کو چلانے اور مستحکم کرنے کے بجاے ٹکراؤ،کش مکش اور گہری  صف بندی (polarization )کا راستہ اختیار کیا۔ اپوزیشن میں خصوصیت سے مسلم لیگ (ن) کا رویہ بھی منفی رہا ہے اور تصادم کی سیاست کے فروغ میں اسے بری الذمہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔شروع میں پیپلزپارٹی کا رویہ زیادہ متوازن تھا لیکن اب وہ بھی تصادم کے راستے پرچل پڑی ہے۔
ہماری نگاہ میں اس غلطی کی زیادہ ذمہ داری حکومت اور اس کے نمایندوں پر ہے۔ خود وزیراعظم صاحب اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔انھیں دانش مندی سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ راستہ نہ ان کے مفاد میں ہے اور نہ ملک اور جمہوریت کے مفاد میں۔ اس صورتِ حال میں پارلیمنٹ غیرمؤثر ہوتی جارہی ہے ۔ سینیٹ کا اجلاس گذشتہ ۱۲۰ دن سے نہیں ہوا ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آرڈی ننسوں کے ذریعے سے حکومت چلائی جارہی ہے۔ یہ دستورکے الفاظ اور روح دونوں کے منافی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیاں بھی اپنا کردار ادا نہیں کررہیں۔ کونسل آف کامن انٹرسٹ جو ایک دستوری ادارہ اور وفاق کی علامت ہے اور اسے ہرتین ماہ میں ایک بار لازماً ملنا چاہیے۔ اس کا سال بھر میں صرف ایک اجلاس ہوا ہے اوروہ بھی محض صوبوں کے اصرار پر۔پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں گذشتہ ۱۶ مہینوں میں سب سے کم قانون سازی ہوئی ہے، جو بہت تشویش ناک ہے۔ بلاشبہہ موجودہ حکومت کے دور میں کابینہ کے اجلاس زیادہ باقاعدگی سے ہورہے ہیں اوراس کے لگ بھگ اجلاس حکومتی ترجمانوں کے بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر ترجمان، ابہام پیدا کرنے اور تصادم کی فضا کو پروان چڑھانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔
اس اصول کو ذہن نشین رہنا چاہیے کہ حکومتی کابینہ اسی وقت مؤثر ہوسکتی ہےجب وہ پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہو۔ ارکان کی پارلیمنٹ میں دل چسپی کا یہ حال ہے کہ جو بھولے بسرے اجلاس ہوئے ہیں، ان میں بھی کوئی اجلاس وقت پر شروع نہیں ہوا۔ ارکان کے سوالوں کے جواب بھی پورے نہیں آسکے، بلکہ کچھ اجلاس تو چند منٹ کے بعد مؤخر کرناپڑے۔ یہ پارلیمنٹ کی بڑی تاریک تصویر ہے جو موجودہ حکومت کےدور میں قوم کےسامنےآرہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن جیسے اہم ادارے کے ارکان جنھیں دستورکے مطابق ۴۵دن کے اندر مقرر ہونا چاہیے تھا، چھے مہینے سے زیادہ گزرنے کے باوجود تاحال (۳۱دسمبر ۲۰۱۹ء تک) مقرر نہیں کیے جاسکے ہیں۔اور اس وقت کوئی چیف الیکشن کمشنر بھی موجود نہیں۔ ۳۰ سے زیادہ اہم سرکاری اداروں کے سربراہ مقرر نہیںکیے جاسکے۔جہاں افسر مقرر کیےجاتے ہیں وہاں باربار تبدیلی کا یہ حال ہے کہ مرکز اورپنجاب دونوں میں چیف سیکرٹری، سیکرٹری اور پولیس افسران ناقابلِ فہم عجلت میں بدلے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ گورننس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ان حالات میںاگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مناسب ہم آہنگی اور تعلقاتِ کار قائم نہیں ہوتے تو پارلیمنٹ کا چلنا مشکل ہے۔ بلاشبہہ ہماری اولین ترجیح پارلیمنٹ کی مدت پوری کرنے کےلیے تھی، لیکن موجودہ حالات میں اگر حکومت اور اپوزیشن رویہ نہیں بدلتے ہیں تو پھر نئے انتخاب اورنئی پارلیمنٹ کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔
ہم پوری ذمہ داری سےعرض کریں گے کہ مسئلہ نئی پارلیمنٹ سے بھی حل نہیں ہوگا، کیوں کہ ہماری سیاسی پارٹیاں، جمہوری پارٹیوں کی طرح کام نہیں کررہی ہیں۔ جماعت اسلامی اور غالباً اے این پی کے سو ا کسی جماعت میں باقاعدہ اور مؤثر انتخابات نہیںہوتے۔ تاہم اے این پی میں بھی موروثی سیاست اسی طرح براجمان ہے، جس طرح پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں میں مستحکم ہے۔
پارٹیوں کے پاس کوئی واضح پروگرام اور شفاف پالیسی نہیں ہے۔ جس کا تلخ ترین تجربہ تحریک انصاف کی حکومت میں سامنے آیا ہے کہ ۲۲سال کی جدوجہد اور تبدیلی کے حسین خواب دکھانے کے باوجود، جب حکومت ملی، توان کے پاس کوئی پروگرام نہیں تھا۔ میرٹ کی بات بہت ہوتی تھی، مگر ان تقرریوں میں جس چیز کا سب سے زیادہ قتلِ عام ہوا، وہ خود میرٹ ہے۔روایتی سیاسی اثرات پوری طرح کارفرمانظر آئے ہیں۔ آدھی کابینہ جنرل مشرف، زرداری اورنوازشریف کی وزارتوں کے سابق ارکان پر مشتمل ہے یا وزیراعظم کے محض ذاتی دوستوں اور معتمدین پر۔پوری معیشت آئی ایم ایف کے اشاروں پر منحصر کردی گئی اور عالمی مالی اداروں سے متعلقہ افراد کو معیشت کی باگ ڈور سونپ دی گئی۔ حکومت کی مجموعی کارکردگی مایوس کن ہے، لیکن ’سب اچھا ہے‘ ثابت کرنے کے لیے وزیروں اور خصوصی نمایندوں کی بڑی تعدادایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے۔
احتساب کا جو حشر کیا گیا ہے، اس میں جو بدسلیقگی برتی گئی ہے، اس کے بارے جتنا کہا جائے کم ہے۔ عوام کا اعتماد اس پر سے اُٹھتا جارہا ہے۔ وہ حکمران اور سرکاری عمال جو قومی خزانے کو لوٹنے یا نقصان پہنچانے کے ذمہ دار تھے، ملزم سے مجرم ثابت ہونے کے بجاے مظلوم بنتے جارہے ہیں اور ان کی اور ان کے ساتھیوں کی سودے بازی کی حیثیت بڑھ گئی ہے۔ نیب کاکرداراحتساب سے زیادہ انتقام کا نظر آنے لگاہے اور اس کی کارکردگی بالکل غیرمؤثر رہی ہے۔ نو نو مہینے حراست میں رکھنے کے باوجود،کوئی مناسب شہادتیں فراہم کرنے میں ناکامی اس کا کھلاثبوت ہے۔دعوےنیب چیئرمین کے بھی بہت بلندبانگ، لیکن عملی اقدام کمزور اور غیرمؤثر۔ احتساب جسے عمران خان صاحب نے اپنے انتخابی نعروں میں سرفہرست رکھا تھا، وہ مذاق بنتا جارہا ہے۔

سیاست میں خوداحتسابی

ان حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو شدید خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ملک کے حالات کا گہری نظرسے مطالعہ کریں۔ مختلف شعبوں کے ماہرین کے تعاون سے مسائل کا صحیح ادراک کریںاور ان کے حل کے لیے مناسب اور مؤثر پالیسیاں تشکیل دیں۔ ان پر عوامی بحث و مباحثہ ہو اور سیاسی قیادت میں ایسے لوگوں کو لایا جائے جو دیانت و امانت کےساتھ صلاحیت اور قابلیت بھی رکھتے ہوں۔ پارلیمنٹ میں سوالات اور پارلیمانی کمیٹیاں وہ ادارے ہیں، جہاں معلومات حاصل کرکے سرکاری پالیسیوں اور ان کے نتائج پر گرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان کو متحرک کیا جائے۔
ایک مصیبت یہ ہے کہ جناب محمد خان جونیجو کے دورِ حکومت [۸۸-۱۹۸۵ء] میں پارلیمان کےارکان کو ترقیاتی فنڈ فراہم کرنے کی جس لعنت کا آغاز کیا گیا تھا، اس نے پارلیمنٹ کے فطری اور منصبی کیریکٹر ہی کو تباہ کردیا ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ کام مقامی حکومتوں (لوکل باڈیز) کا ہے اور اوّلین ترجیح لوکل باڈیز کےقیام، اور تمام ترقیاتی فنڈز کو لوکل باڈیز کے ذریعے استعمال کرنے کی ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور اس کے ارکان کا کام نہیں ہے۔ انھیں وہ کام کرنا چاہیے جو دستورنے ان کوسونپا ہے اور اس کے کرنے کی انھیں نہ کوئی فکر ہے اور نہ خواہش۔
تحریک ِ اسلامی کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنی نظریاتی اورتہذیبی شناخت کے مطابق ملک کے مسائل اور عوام کے حالات کو بہتربنانے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کرے اور ایک ایسا موقف اختیار کرے، جس میں عوام اپنے جذبات کی صداے بازگشت سن سکیں۔ ہمارے پاس الحمدللہ دیانت دار اور اپنےمقصدحیات کی خدمت زندگی بھر کرنے کا جذبہ رکھنے والے کارکن اور لیڈر ہیں ۔اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم عوام تک پہنچیں اوراپنے چار نکاتی پروگرام کی روشنی میں، ہرہرنکتے کےمطابق دعوت اورعوام کو متحرک کرنے کا کام انجام دیں۔ زندگی کے ہرہرشعبے کے سلسلےمیں جو متبادل پالیسیاں ہم لانا چاہتے ہیں، انھیں تفصیل سے پیش کریں۔
معاشی میدان میں جماعت نے ایک مفیددستاویز تیار کی ہے،اسے بڑے پیمانے پرپھیلانے اور اس کی مزید تفصیلات طے کرنے اور ان پر سیمی نار منعقد کیے جانے چاہییں۔ اسی طرح ہرہرشعبے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے منصوبۂ کارکا ایک حصہ جہاں فوری تبدیلیوں کا ہونا چاہیے، وہاں اس میں درمیانی اور طویل المدت تبدیلیوں کابھی خاکہ شامل ہونا چاہیے۔ ملک میں نجی تحقیقی اداروں اور یونی ورسٹیوں میں اس حوالے سے جو تحقیقی کام ہورہے ہیں، ضروری ہے جماعت کی قیادت اور کارکن اس کام سےواقف ہوں۔
ہمارے سامنے صرف ایک الیکشن یا کسی ایک حکومت کی بدنظمی سے نبٹنے کا چیلنج نہیں ہے، بلکہ پیش نظر ملک کے نظام میں تبدیلی ہے اوراس کا خاکہ ہمارے منشور میں ہے۔ تاہم، اس کا تفصیلی نقشۂ کار تیارکرنے اور اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اُوپر سے لے کر نیچے تک، ہماری قیادت کی گرفت ان تمام موضوعات پر ہونی چاہیے تاکہ اپنی گفتگوؤں، دعوتی ملاقاتوں، تقریروں اورمضامین میں ان کو پیش کرسکیں۔ عمومی تقاریر کا اپنا رول ہے، لیکن جو تبدیلی ہم لانا چاہتے ہیں اور جو ملک کو مطلوب ہے، اس کے لیے یہ دوسرا کام ازبس ضروری ہے۔ اس میدان میں تحریک ِ انصاف کی ناکامی سے جو خلا پیدا ہواہے، وہ جماعت اسلامی ہی کوپُر کرنا چاہیے۔ اس خلا کو پُر کیے بغیر قیامِ پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق تعمیرنو ممکن نہیں۔ یہ ہمارے ملک و قوم کے لیے زندگی اورموت کا مسئلہ ہے۔ فکری یکسوئی، منظم اجتماعی جدوجہد، راے عامہ کی تسخیر اور راے عامہ کی قوت سے سیاسی نظام کی تبدیلی کے ذریعے ہی پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی جمہوری ملک بنایا جاسکتا ہے۔

 

اگر دنیا کا ہر انسان اور دنیا کی ہر قوم، ظلم و استبداد کو ایک ہی انداز سے دیکھتی، اور اس پر ایک ہی طرح کا ردّعمل ظاہر کرتی، تو شاید انسانیت کبھی اتنی پریشان نہ ہوتی۔ ظلم سے بھی بڑھ کر انسانیت کو اُس وقت پریشانی ہوتی ہے، جب وہ تہذیب و تمدن کی دعوے دار قوموں کے اقوال و اَفعال میں شدید تضاد دیکھتی ہے، بالخصوص جب وہ انصاف کے علَم برداروں کو انصاف کا خون کرتے دیکھتی ہے۔
اگر انسانیت کو اس بات کا پوری طرح یقین ہوتا کہ انسان اب انسان نہیں رہا، بلکہ خوں خوار درندہ بن گیا ہے اور اس بنا پر اُس سے کسی خیر، بھلائی، شرافت اور انصاف کی توقع بیکار ہے تو وہ انسان سے، اُس کے مستقبل سے، اُس کے جذبۂ رحم اور انصاف سے یکسر مایوس ہوکر بیٹھ جاتی۔   مگر اسے کیا کہیے کہ مغربی قومیں؛ مسلم دُنیا اور مشرقی اقوام کو وہ سکون بھی نصیب نہیں ہونے دیتیں، جو انسان کو انتہائی مایوسی کے عالم میں ملتا ہے۔ اِن مظلوم اور مجبور اقوام کی حالت اہلِ مغرب نے اُس پیاسے کی سی بنا رکھی ہے، جو لق و دق صحرا میں پانی کی تلاش میں نکلتا ہے، مگر سواے سراب کے اُسے کوئی ایسی چیز ہاتھ نہیں آتی جو اُسے تسکین عطا کرسکے۔

سراب اور حقیقت

آپ ذرا اُس بدقسمت انسان کی حالت کا خود اندازہ لگائیں، جو پیاس سے نڈھال چلچلاتی دھوپ اور تپتی ہوئی ریت کے اندر طویل مسافت اس اُمید پر طے کرتا ہے کہ اُسے پانی کا ٹھنڈا چشمہ ملے گا، لیکن وہ سفر کی ساری دشواریاں برداشت کرنے کے بعد جب وہاں پہنچتا ہے تو اُسے یہ کرب ناک احساس ہوتا ہے کہ یہ تو محض فریب ِنظر تھا۔ کیا اس شخص کے حق میں یہ اچھا نہ تھا کہ اسے اس فریب میں مبتلا ہی نہ کیا جاتا اور وہ ایک غلط اُمید پر جینے کے بجاے سکون کے ساتھ موت کی آغوش میں چلا جاتا؟
انسان کو دو بڑی چیزیں ذہنی سکون اور قلبی اطمینان بخش سکتی ہیں: یہ اطمینان کہ وہ جس سمت بھی خلوص اور تدبر کے ساتھ قدم اُٹھا رہا ہے، اُس پر چل کر وہ گوہرِمقصود پا لے گا اور جن افراد اور اداروں پر وہ بھروسا کررہا ہے وہ اُسے کبھی دھوکا نہ دیں گے۔یا پھر یہ احساس کہ دنیا سراسر دھوکا ہے، یہاں کسی شخص یا قوم پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، عدل و انصاف یہاں کسی چیز کا نام نہیں ہے    اور آزادی و حُریت محض بے معنی الفاظ ہیں۔ اس دوسری صورت میں کم از کم یہ تو ہوگا کہ آدمی کو  کامل مایوسی ہوجائے گی، وہ اپنے عزائم اور ارادوں کے مدفن خود تیار کر کے ان کے گرد بیٹھ جائے گا اور اُمیدوں کا کوئی دیا جلاکر اپنے سکونِ خاطر کو درہم برہم کرنے کا سامان نہ کرے گا۔
مغربی اقوام نے مشرقی قوموں ، اور خصوصاً مسلمانوں پر، مختلف زمانوں میں جو گوناگوں مظالم کیے ہیں، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جب ان کی طرف سے یکسر مایوس ہونے لگتے ہیں، تو یہ ’آزادی‘ اور ’حُریت‘ کے سراب دکھا کر انھیں پھر اس فریب میں مبتلا کر دیتی ہیں کہ عدل و انصاف کی متاعِ گراں مایہ اُن کے ہاں سے ضرور حاصل ہوگی۔ وہ بے چارے پھر ان کی رکاب تھام کر  ان کے ساتھ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں اور ایک طویل سفر کی کلفتیں برداشت کرنے کے بعد جب حقائق ان کے سامنے آتے ہیں تو پھر ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔

مغربی دُنیا کا طرزِ عمل

آپ کو اگر مسلمانوں کی اس حکایت ِ تشنہ و سراب کا دردانگیز منظر دیکھنا ہو تو ذرا مغربی برقی ذرائع ابلاغ کے اس طرزِعمل کو دیکھیں، جو اس نے مسلم ممالک کے معاملے میں اختیار کررکھا ہے۔ 
یہ ذرائع ابلاغ ایک طرف آزادی ، جمہوریت، رواداری، انسانی حقوق کے احترام اور عدل و انصاف کے اصولوں کی حمایت کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ دوسری طرف ان کا حال یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان ملک میں کوئی ایسی حکومت قائم ہوجائے، جو اسلام کی براے نام بھی پاس داری کرتی نظر آتی ہو، تو اس کی ذرا ذرا سی غلطیوں کو یہ خوب اُچھالتے ہیں۔ اور یہ شور مچامچا کر زمین و آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں: ’’وہاں آزادیاں کچلی جارہی ہیں اور انصاف کا خون کیا جارہا ہے اور جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے‘‘۔
دوسری طرف جب کسی مسلمان ملک میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں اسلام کی بیخ کنی ہوتی نظر آئے اور اسلام کے لیے کام کرنے والوں پر ظلم توڑنے میں عدل و انصاف اور آزادی و جمہوریت کے سارے اصول پامال کر ڈالے جائیں ، تو یہی پریس اور جملہ ذرائع ابلاغ اپنے ان تمام دعوئوں کو قطعی فراموش کر دیتے ہیں اور اُلٹا ان لوگوں کی پیٹھ ٹھونکنے میں لگ جاتے ہیں، جو ان کی یہ منہ مانگی مراد پوری کررہے ہوں۔ اُس وقت انصاف اور انسانی حقوق کی کوئی مٹی پلید ہوتی ان کو نظر نہیں آتی، بلکہ مسلمان حکمرانوں کے اِن کارناموں پر ان کی باچھیں کھِلی پڑتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر کسی ملک میں اخلاق باختگی زور پکڑرہی ہو تو یہ لوگ ایسی حالت کو بطور ’روشن خیالی‘ بخوشی گوارا کرتے ہیں۔
یہ ہے وہ عام رجحان، جو مغرب اور مغرب کے زیراثر ذرائع ابلاغ میں نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں انسانی آزادی، قانون کی برتری ، جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے بڑے شان دار تذکرے اور فیچر ملیں گے، اور یوں محسوس ہوگا کہ پوری دنیاے مغرب ان کی محافظ اور پاسبان ہے اور ان پر جب ذرا سی آنچ بھی آئے تو وہ سخت مضطرب ہوکر فوراً اُن قوتوں کے خلاف صف آرا ہوجاتی ہے، جو انھیں پامال کرنے کا ناپاک عزم رکھتے ہوں۔ ممکن ہے اپنے دائرے میں وہ انسانی بنیادی حقوق کے متعلق اتنی ہی حساس ہو جتنی وہ اس کی نمایش کرتی ہے۔لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں اُس کی روش انتہائی جانب دارانہ، افسوس ناک بلکہ شرم ناک ہے۔

اگر اسلام کو دبانے اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے انھی میں سے کوئی سفاک آمر یا سامراج نواز رجواڑہ قدم بڑھائے اور اِس مذموم مقصد کی تکمیل میں ایسی تمام اقدار کو روند ڈالے،   جن کے یہ بظاہر پرستار ہیں، تو جمہوری اقدار کے اِن علَم برداروں کے ضمیر میں قطعاً کوئی خلش پیدا نہیں ہوتی، بلکہ مغربی مراکز ِ دانش (Think Tanks)، مغربی ذرائع ابلاغ اور مغربی ممالک اس کے مظالم پر تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرنے لگتے ہیں اور مظلوموں کے حق میں کوئی کلمۂ خیر تو درکنار، کلمۂ انصاف بھی ان کی زبان سے نہیں نکلتا۔
جب کسی مسلم ملک میں کوئی دین پسند تحریک، احیاے اسلام کا پاک اور مقدس عزم لے کر جدوجہد شروع کرے ، تو مغربی قوموں کو سخت ’خطرہ‘ لاحق ہوجاتا ہے، اور وہ ہر طرح سے اسے بدنام اور رُسوا کرنے اور اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس تحریک کے متعلق مغربی ذرائع ابلاغ طرح طرح کی بدگمانیاں پھیلاتے ہیں، اور اُن ملکوں میں برسرِاقتدار طبقوں کو اس بات پر اُکساتے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنے میں پوری قوت سے کام لیں اور اس وقت تک چین نہیں لیا جاتا جب تک کہ اس تحریک اور اس کے خادموں کی بربادی کا پوری طرح سامان نہ ہوجائے۔
اگر محض حُسنِ اتفاق سے کسی جگہ کوئی ایسا فرد یا طبقہ برسرِاقتدار آجائے، جو اسلام کا علَم بردار نہ سہی، محض اس ضمن میں اچھے جذبات ہی رکھتا ہو، تو مغربی ذرائع ابلاغ اُس کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑجاتے ہیں۔ اس کی معمولی کوتاہیوں اور لغزشوں کو بڑی شدومد کے ساتھ اُچھالتے، اُسے ذلیل و خوار کرنے کے لیے طرح طرح کی خبریں گھڑتے ہیں اور اُس وقت تک دم نہیں لیتے، جب تک کہ غیراسلامی قوتیں اُس پر پوری طرح غالب آکر اُسے برباد نہیں کردیتیں۔

عالمِ اسلام کی زبوں حالی

مغربی ذرائع ابلاغ کے اس طرزِعمل کا اندازہ کرنے کے لیے عقل کی کوئی زیادہ مقدار درکار نہیں۔ آپ صرف گذشتہ چند عشروں کے واقعات پر نظر ڈالیں تو آپ کو حقیقت ِ حال معلوم ہوجائے گی۔
ایسے تمام واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ مغربی قوموں کو جمہوریت، آزادی راے اور بنیادی انسانی حقوق کا غم بس اُسی وقت لاحق ہوتا ہے، جب دنیا میں کہیں اسلام کے لیے کوئی کام ہوتا نظر آئے۔ اسلام کی سربلندی کا ’خطرہ‘ سامنے آتے ہی ان کے پیٹ میں ’جمہوریت‘ اور ’انسانی حقوق‘ کے مروڑ اُٹھنے شروع ہوجاتے ہیں اور وہ اُن قوتوں کے خلاف مکروہ پراپیگنڈے کی ناپاک مہم شروع کردیتی ہیں، جو اس ’خطرے‘ کے پیچھے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن اسلام کا راستہ روکنے اور اس کی اقدارِحیات کو پامال کرنے کے لیے خواہ کتنے ہی مظالم کیے جائیں، کتنی ہی صریح بے انصافیوں کا ارتکاب کیا جائے، کیسے ہی غیر جمہوری اور غیراخلاقی طریقے اختیار کیے جائیں،  ان کے ضمیر پر جوں تک نہیں رینگتی، نہ ان کے دلوں میں کوئی معمولی ارتعاش تک پیدا ہوتا ہے۔

مصر اور عراق کی مثال دیکھیے

اب اگر محض چند حالیہ سال ذہن میں تازہ کر لیے جائیں، کہ مصر میں کیا کچھ ہورہا ہے؟ مغرب نے قال اور حال سے اس ظلم، دھاندلی اور وحشیانہ طرزِعمل پر آفرین و صد آفرین کی صدائیں ہی بلند کی ہیں۔ اہلِ مغرب کے ہاں کوئی آنکھ اس اندوہناک صورتِ حال پر نم نہیں ہوئی۔ کسی دل میں یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ متاعِ حیات سے محروم ہونے والے اور مصری حکام کے ہاتھوں دردناک عذاب کی سختیاں جھیلنے والے الاخوان المسلمون کے مظلوم طرف دار، انسانی برادری ہی کے معزز ارکان ہیں، اور اُن کے لیے بھی آزادی اور انصاف کے تقاضے اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنے کہ خود اِن کے لیے۔ لیکن چوں کہ الاخوان المسلمون کے ختم ہونے سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے، اس لیے مغربی قومیں جمال ناصر سے لے کر انورالسادات تک اور پھر حسنی مبارک سے لے کر غاصب جنرل سیسی کے اُن ظالمانہ اقدام پر بڑی مسرور ہیں، اور اس بات پر مطمئن ہیں کہ یہ سفاک اور غاصب حکمران ان کی ناپاک خواہشات کی تکمیل میں دانستہ یا نادانستہ طور پر ممدومعاون ثابت ہوتے رہے ہیں۔

بلاشبہہ عراق پر صدام حسین کی شکل میں ایک فوجی آمر برسرِ اقتدار تھا، جس نے اپنے ملک میں جبر کا ماحول تسلسل سے قائم کیے رکھا۔ لیکن اہلِ مغرب کے دل کبھی اس بات پر نہیں  دُکھے تھے۔ البتہ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ وہ مسلم دُنیا کی ایک ناقابلِ تسخیر فوجی قوت بن چکا ہے اور خصوصاً مقبوضہ فلسطین پر غاصب صہیونیوں کے لیے خطرہ ہے تو پھر بہانے تراشے گئے۔ جھوٹی خبریں گھڑی اور پھیلائی گئیں، اور اسی جھوٹ کے بل پر پورے عراق کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ لاکھوں بے گناہوںکو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ عملاً عراق دوتین ٹکڑوں میں  تقسیم ہوچکا ہے اور بدامنی اور تباہی اس کا مقدر بنا دی گئی ہے۔ عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ امریکی حملہ آوروں کی تائید اور عملاً جنگ میں تباہی مچانے والے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر اب یہ کہتے پھرتے ہیں: ’’ہم نے غلط معلومات کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا تھا، جس پر مَیں معذرت خواہ ہوں‘‘۔ یہ ہے وہ ’مہذب‘ مغرب کہ جو خود جھوٹ گھڑتا، اسی جھوٹ پہ کارروائی کرتا اور پھر ٹسوے بہاکر ’معذرت‘ کا ڈراما رچاتا ہے۔
’مہذب مغرب‘ کے دامن کولہو سے تر کرتی تین مثالیں یہ بھی پیش نظر رکھیے: اب سے ۲۵برس پیش تر روسی سلطنت نے جس طرح چیچنیا کے مسلمانوں کی آواز کو کچلا۔ پھر مشرقی یورپ میں بوسنیا اور کوسووا کے مسلمانوں کی نسل کشی کی اور غلامی کی بےرحم زنجیروں میں جکڑا، تو اس پر کہیں آہٹ نہ سنائی دی۔ مغرب اس کے باوجود ’مہذب‘ ہی رہا، جب کہ مسلم دنیا کی قابض مقتدرہ نے اسے تسلیم کرلیا۔

اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کی یہ روش کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے، جسے محض حادثاتی اتفاق پر محمول کرکے نظرانداز کیا جائے۔ اس کے اسلام دشمن طرزِعمل میں اتنی استواری، پایداری اور تسلسل ہے جس میں انسان یہی محسوس کرتا ہے کہ مغرب یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے اندازِ فکر، لگے بندھے منصوبے اور متعین مقاصد کی تکمیل میں کر رہا ہے۔ اس کا یہ طرزِعمل چند حکمرانوں، کچھ صحافیوں اور خبر رسانوں کے ذاتی ذوق یا رجحان کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ پوری پوری قوموں اور سلطنتوں کی پالیسی یہی ہے۔ یہ اہلِ مغرب کی مشترک بین الاقوامی پالیسی ہے، جس کے نفاذ کے لیے ذرائع ابلاغ ایک بڑے مؤثر آلۂ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کم از کم اسلام اور مسلمانوں کے معاملے میں پریس ایک خودمختار ادارہ نہیں ہے جو اپنی قوموں کی پالیسی سے ہٹ کر اپنی کوئی الگ پالیسی چلاتا ہو۔
یہ ہوسکتا ہے کہ مغربی پریس کے مختلف مکاتب ِ فکر ہوں اور مختلف مفادات کے محافظ و نگراں اور مختلف افکار و نظریات کے ترجمان کی حیثیت سے یہ پریس متعدد کیمپوں میں بٹا ہوا ہو۔ ان میں باہمی سرپھٹول اور چپقلش بھی ہوسکتی ہے، لیکن مسلمانوں کے معاملے میں اس سارے پریس کے قریب قریب یکساں طرزِعمل کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت نہایت واضح طور پر کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خواہ اس کے اپنے اندر کتنے ہی اختلافات پائے جائیں، مگر اس ایک معاملے میں اس کے اندر مکمل یک جہتی اور اتحاد ہے، کہ وہ مسلمانوں کو مسلمان نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اسلام کو سر اُٹھاتے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اسلام کے رشتے کی بنا پر مسلمانوں کو متحد ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ کسی مسلمان قوم کو طاقت پکڑتے نہیں دیکھ سکتا۔ جہاں بھی اسے اسلام کے ایک زندہ طاقت کی حیثیت سے اُبھرنے کا ’اندیشہ‘ ہوتا ہے ، یہ پورا پریس اس کا راستہ روکنے کی جاں توڑ کوشش کرتا ہے۔ کبھی کبھی مغربی پریس میں کوئی نحیف سی آواز مسلمانوں کے حق میں اُٹھتی ہے، مگر حکمرانوں اور پریس کے مجموعی طرزِعمل میں کوئی تبدیلی رُونما نہیں ہوتی۔

مغرب زدہ طبقہ کی پشت پناہی

جب تک مغربی اقوام مسلمانوں پر براہِ راست مسلط رہیں، اُس وقت تک تو وہ خود اپنے ہاتھ سے آزادی، حُریت، انسانی بنیادی حقوق اور انصاف کا خون کرتی رہیں۔ اسلام اور اسلامی تحریکات اور مسلمانوں کی تحاریک ِ آزادی کو دبانے میں ہرقسم کے ظلم سے کام لیتی رہیں۔ اتنے پاپڑ بیلنے کے باوجود انھیں پوری طرح احساس تھا کہ وہ ان ممالک پر خود زیادہ دیر تک مسلط نہیں رہ سکیں گی، اور ایک نہ ایک دن ان ممالک کو آزاد ہی کرنا پڑے گا۔ اس لیے انھوں نے شروع ہی سے اس امر کا پوری طرح اہتمام کیا کہ اگرچہ اُن کے جسم تو بامر مجبوری یہاں سے نکل جائیں، اُن کی روح یہاں سے رخصت نہ ہونے پائے، بلکہ وہ مسلمانوں کے ایک طبقے کے اندر حلول کر کے اسے مغربی قوموں کے مقاصد کی تکمیل کا ایک مؤثر ذریعہ بنا دے۔
چنانچہ ان جارح قوموں نے اپنی ’بد روح‘ کا وارث بنانے کے لیے مسلمانوں کے اندر ایک ایسے طبقے کا انتخاب کیا، جسے وطن، دین، ایمان، اخلاق، الغرض دنیا کی ہرچیز کے مقابلے میں اپنے گھٹیا مادی مفادات عزیز تر تھے۔ اس بے ضمیر طبقے کو اپنا صحیح طور پر جانشین بنانے کے لیے اس کی بڑی تربیت اور سرپرستی کی گئی اور قوم کے اندر اس کے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے مختلف چالیں چلی گئیں۔

سب سے پہلے اس مراعات یافتہ طبقے کے بلند درجاتی مقام کو تحفظ دینے کے لیے تعلیم و تربیت کے خاص انتظامات کیے گئے، تاکہ مسلم معاشرے اور اُن کے درمیان زیادہ سے زیادہ امتیاز اور بیگانگی پیدا ہو۔ وہ رنگ و نسل کے اعتبار سے مسلم معاشرے سے تعلق رکھنے کے باوجود افکار و نظریات اور احساسات و جذبات کے اعتبار سے غیرملکی ہوں، اور مغربی فرماں روائوں کے رخصت ہوجانے کے بعد وہ انھی جیسے جابرانہ طرزِفکر کے ساتھ مسلمانوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھ کر انھیں اُسی طرح ستائیں، جس طرح کہ مغربی قومیں اُنھیں دواڑھائی سو سال سے ستاتی چلی آرہی ہیں۔
تعلیم و تربیت کے ان ابتدائی مراحل سے گزارنے کے بعد اس مخصوص نسل کو مسلم عوام کی گردنوں پر اس طرح مسلط کیا گیا کہ وہ اپنے بھائی بند سے الگ تھلگ رہے اور اپنے آپ کو برتر اور اپنے بھائیوں کو کم تر مخلوق سمجھتے ہوئے اُن سے معاملہ کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم معاشرے کے بطن سے ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا، جسے مسلم قوم، اُس کے مسائل، اُس کی تہذیب و تمدن، اس کی روایات، اور اُس کی قوت کے اصل محرکات سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا۔ 

حکمرانوں اور عوام میں کش مکش

یہ طبقہ عام مسلم معاشرے کے احساسات سے یکسر بیگانہ ہی رہا۔ اس کا تعلق خاطر اپنی  ملّت سے زیادہ دوسری جارح اور حاکم قوموں سے تھا۔ اس طبقے کو بدیسی حاکموں کے مقاصد ِ حیات،  اُن کے افکار و نظریات، اور اُن کے طرزِ زندگی زیادہ عزیز تھے۔ فکرواحساس کے اس غیرفطری نشوونما نے اس طبقے کے اندر بہت سے نفسیاتی عارضے پیدا کر دیے۔ ان بیماریوں میں سب سے بڑی بیماری احساسِ کہتری ہے۔ عام مسلم سوسائٹی چوںکہ انھیں اپنے ہاں عزت و احترام کا کوئی مقام دینے پر آماد ہ نہ تھی اور غیرملکی حکمران ایسے بے ضمیر طالع آزمائوں کو اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے سوا اور کسی دوسرے مصرف کے لیے مفید نہ سمجھتے تھے، اس لیے اس طبقے کے اندر بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس پیدا ہوا کہ اُسے اگر دنیا میں عزت کے ساتھ رہنا ہے تو اس کے لیے بس ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ وہ کسی طرح مسند ِاقتدار کے ساتھ چمٹا رہے اور اقتدار کی قوت سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک طرف اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مادّی منافع حاصل کرے، اور دوسری طرف اپنی قوم کو کچلنے کے لیے ہرممکن تدابیر اختیار کرے، تاکہ پوری قوم مفلوج ہوکر  رہ جائے اور کوئی چیز بھی اس کی تکمیلِ ہوس کی راہ میں مزاحم نہ ہوسکے۔
اسی مقصد کے لیے مغربی سامراجی قومیں ان طبقوں کو ہرجائز و ناجائز طریقے سے مسلم ممالک میں مسلّط رکھنے پر مُصر تھیں اور آج بھی اسی نسل پر اعتمار کرتی ہیں۔ جہاں اِن مغربیوں کے قائم مقام حاکموں کے تسلّط پر کوئی سوال پیدا اور تنازع اُٹھ کھڑا ہوتا ہے، وہاں وہ جمہوریت، آزادیِ راے اور انسانی بنیادی حقوق کے سارے مواعظ و نصائح بھول جاتی ہیں، جو ان کے ہاں ’ایمان‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، جنھیں اپنے ہاں تسلیم کروانے کے لیے وہ خود ایک طویل اور خونیں کش مکش سے گزر چکی ہیں۔

یہ مغربی اقوام اپنے اپنے ملکوں میں اِن حقوق کی زبردست حامی ہیں، مگر مسلم ممالک میں ان کی ساری ہمدردیاں اِن حقوق کے علَم برداروں کے ساتھ نہیں بلکہ ان حقوق کو پامال کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ ان ملکوں کے لیے وہ جمہوریت کے بجاے آمرانہ راجواڑہ کریسی کو زیادہ موزوں سمجھتی ہیں۔ ان ملکوں کے معاملے میں وہ اکثریت کی حکومت کا اصول ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیوںکہ جمہور کی حکمرانی لامحالہ مسلم قوم کے عزائم، اُمنگوں اور ارادوں کی ترجمان ہوگی۔ 
اس کے برعکس مغرب زدہ اقلیت کے تسلط کے قیام کے لیے ناپاک کوششیں ہوتی ہیں۔  ذہنی غلامی اور سامراجی چاکری پر خوش رہنے والی اس اقلیت کو آزادیِ راے کا خون کرنے اور عوامی احساسات و جذبات کو کچلنے پر اُکسایا جاتا ہے۔ جو بندگانِ زر اِس کام میں زیادہ جری اور بے باک ہوں اور زیادہ سفاکی کا مظاہرہ کریں، ان کی مدح و ستایش کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ مغربی دانش، مغربی قیادت اورمغربی ذرائع ابلاغ ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ اس کے برعکس قوم کے حقیقی بہی خواہوں اور اس کی اُمنگوں کی ترجمانی کرنے والے مخلص خادموں کو دُنیا میں رُسوا اور بدنام کرنے کے لیے ہرطریقہ اور حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔

’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘

مغربی قوموں کا یہ طرزِعمل سامراج پرستوں کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ثابت ہوا ہے۔ مسلمان حکمرانوں اور عوام کے درمیان، اور پھر گاہے خود ان میں بھی باہم اتحاد کی جگہ زبردست سرپھٹول شروع ہوگئی۔ بھائی نے بھائی کے دُکھ درد میں شریک ہونے اور دست ِ تعاون بڑھانے کے بجاے اس کا گلا کاٹنا شروع کر دیا۔ اس طرح مسلم اقوام کے ذرائع و وسائل تعمیروترقی کی راہ پر صرف ہونے کے بجاے ایک دوسرے کو مٹانے اور برباد کرنے میں صرف ہونے لگے۔
مشرق سے مغرب تک اکثر و بیش تر مسلم ریاستوں کو اس باہمی نزاع نے جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ لاکھوں نہیں اربوں ڈالر، ریال، درہم، دینار، روپے، خود اپنے ہم وطنوں کو دھول چٹانے اور کچلنے میں لگ گئے ہیں اور یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
عرب دُنیا کے معاشی منصوبوں اور قدرتی معدنی وسائل کے بارے میں اتنے بلندبانگ دعوے کیے جاتے تھے،مگر آج صورت یہ ہے کہ اُس کی معیشت بالکل برباد ہوکر رہ گئی ہے۔ اُن کے میزانیے کا ایک بہت بڑا حصہ حکمران طبقوں کی برتری کا نقش دلوں پر بٹھانے اور اُن کی غلط پالیسیوں کو حق بجانب ثابت کرنے اور اُن کی شخصیتوں کو مصنوعی طور پر اُبھارنے میں صرف ہورہا ہے۔ 

اس کے علاوہ ان حکمرانوں کو اکثر اوقات خود ایسے جھگڑے کھڑے کرنے پڑتے ہیں، جن سے قوم کی توجہ اُن کے اعمال و افعال اور اُن کے غلط طرزِعمل کے خطرناک نتائج سے ہٹ کر بعض دوسرے مسائل میں اُلجھ کر رہ جائے اور حکمران بے خوفی کے ساتھ عوام کو اپنی پالیسیوں کا تختۂ مشق بناتے رہیں۔ ایسی خودشکنی پر مشتمل مہم جوئی نے ’خوب بخت‘ (Prosperous) عرب ممالک کی معیشت کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے اور انھیں مالی اور فوجی لحاظ سے اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ وہ اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کی دست درازی کی مزاحمت کرسکیں، بلکہ سات عشرے گزرنے کے بعد یہ حکمران طبقے حیلوں بہانوں سے مسلم اقوام کو مجبور کررہے ہیں کہ غاصب اور جارح اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرلیا جائے۔ تسلیم و رضاکے اس قمارخانے میں ایک سے بڑھ کر ایک بدمست لپکا چلا آرہا ہے۔ ’کیمپ ڈیوڈ‘ سے شروع ہونے والا اور ’اوسلو‘ کی طرف رواں سفر کہیں تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔     اِن حالات میں آئے دن داخلی سازشوں کے جو نت نئے افسانے گھڑے جاتےہیں اور ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ہم وطنوں پر ظلم کے جو پہاڑ توڑے جاتے ہیں، اِس کے پیچھے یہ بیمار حاکمانہ ذہنیت کام کررہی ہے،کہ روز ایک نیا ہوّا دکھا کر لوگوں کو ان تباہ کن پالیسیوں کے نتائج سے غافل کیا جائے اور قومی احساسات کے برعکس محض قوت کے بل پر لوگوں کی گردنوں پر مرتے دم تک مسلط رہا جائے۔

اُردو شاعری کے زبانِ زدعام مصرعے ’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘ کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو اسے صرف مسلم ممالک کے موجودہ حالات پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھا جاسکتا ہے۔ معلوم ہوجائے گا کہ گھر کے چراغوں سے جب متاع زندگی جلتی ہے تو وہ منظر کتنا کرب ناک اور اس کے اثرات کتنے تباہ کن ہوتے ہیں۔ مغربی سامراج نے بڑی چالاکی اور عیاری سے اس امرکا انتظام کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو برباد کرنے کے لیے خود انھیں کوئی سامان نہ کرنا پڑے، بلکہ ان کے اپنے ’چراغوں‘ سے یہ کام لیا جائے اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی گھر کو پھونک دینے کا تماشا دُنیا کو دکھائیں۔ آہ! ہم بدھو پن میں انھی چراغوں سے روشنی کی توقع رکھتے ہیں، لیکن یہ مسلمانوں کی شب ِ تاریک کو منور کرنے کی جگہ اُن کی متاعِ حیات کو ہی خاکستر کیے دے رہے ہیں۔

انتشارِ اُمت کا سبب

غور کیجیے کہ قدرتِ حق کا کون سا ایسا عطیہ ہے، جو مسلمانوں کے پاس نہیں ہے۔ قدرتی وسائل کے اعتبار سے یہ دُنیا کی قوموں میں ممیز اور ممتاز ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے یہ کسی دوسری قوم سے پیچھے نہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے سواے بنگلہ دیش، مالدیپ، ملایشیا، برونائی اور انڈونیشیا کے،   تمام کے تمام مسلم ممالک آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پھر ان کے درمیان ایک ایسا رشتۂ اخوت موجود ہے، جس کی نظیر دُنیا کی دیگر اقوام میں نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ یہ اپنا ایک شان دار اور تابناک ماضی رکھتے ہیں۔ ان کی ملّی روایات نے ان کے اندر یگانگت اور یک جہتی کے احساسات پیدا کر رکھے ہیں۔

یہ اپنے سامنے ایک ایسا اُونچا اور مقدس نصب العین رکھتے ہیں، جس کی مقناطیسی کشش نے انھیں ماضی اور حال ہر عہد میں سرگرمِ عمل کیا ہے۔ جب بھی انھوں نے اس پاکیزہ مقصد کے حصول کے لیے کوئی کوشش کی تو اس کے حیرت انگیز نتائج ظاہر ہوئے۔ انتشار کی جگہ اتحاد و اتفاق نے لے لی۔ ملّت کے مضمحل اعضا میں آناً فاناً زندگی بخشنے والا لہو دوڑنے لگا۔ قوم کی خفتہ صلاحیتیں فوراً بیدار ہوئیں اور اس ملّت نے اس مقصد کی خاطر ایسے کارہاے نمایاں سرانجام دیے، جس پر پوری دُنیا حیران رہ گئی۔ یوں معلوم ہوتا کہ اسلام نے پارس کی طرح اس مسِ خاک کو کندن بناکر رکھ دیا۔ 
سوال یہ ہے کہ آخر یہ اُمت اس انقلاب انگیز نصب العین کو کیوں نہیں اپناتی؟ اس کے متعدد اسباب ہیں، لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مغرب کی غلامی نے ہمارے اندر ایک ایسے طبقے کو بااختیار بنادیا ہے، جو پولیس، خفیہ ایجنسیوں اور ذرائع ابلاغ، عسکری مراکز کی مدد سے مسلم عوام کی راے عامہ کو اُبھرنے نہیں دیتا۔ وہ ابھی تک اُسے کسی ایسی قیادت سے محروم رکھنے میں کامیاب ہے، جو اس کی دلی تمنائوں اور آرزوئوں کی ترجمان ہو۔ اسی بنا پر ہمارے ہاں کش مکش اور اضطراب ہے، مختلف طبقوں کے درمیان منافرت اور کشیدگی ہے، اور اسی بنا پر ہماری قومی صلاحیتیں تعمیروترقی کی راہ پر لگنے کے بجاے، باہمی آویزش میں صرف ہورہی ہیں۔ یہ قوم قدرت کی طرف سے بانجھ بناکر نہیں بھیجی گئی، بلکہ اس کی اس سرپھٹول نے اسے تخلیقی قوت سے محروم کرکے رکھ دیا ہے۔
اس احساسِ زیاں کو بیدار کرنا اور اس صدمے سے نکلنے کی اُمنگ پیدا کرنا، پہلا قدم ہے۔ اگرسستی نعرے بازی کی فصل کو آگ لگا کر، مسئلے کی حقیقی جڑوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، تو بہت تیزی سے زندگی میں روح پھونکی جاسکتی ہے۔ ان کانٹوں کو پہچاننے اور جھاڑ جھنکار سے نجات پانے کے لیے قرآن و سنت قدم قدم پر ہماری دست گیری کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ قرآن و سنت کو محض مقدس علامت سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں دی جاتی، اور نہ اسلام کی مطلوب اُمت بنانے اور مطلوب شخصیت تعمیر کرنے کی فکر ہی کی جاتی ہے!

قرآن کریم اپنے بارے میں جونام استعمال کرتا ہے ان میں الکتاب کے ساتھ ، الہدیٰ، ذکریٰ ، الفرقان ،البرہان، البیان، سب ہی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جو حق و باطل کے فرق کو بین اور واضح کر دیتی ہے ۔الفرقان ظن ، گمان اوروہم سے مکمل طور پر نجات دلاکر دل و دماغ کو ایمان اوریقین سے منور کر کے عین الیقین کی کیفیت پیدا کرتا ہے، تاکہ کلام عزیز کا ہر طالب علم اس عظیم ہدایت پر مکمل اعتماد کے ساتھ ذہن کو شک و شبہہ سے پاک کرکے عمل پیرا ہو سکے۔ قرآن کریم اہل ایمان کو بار بار متوجہ کرتا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ۝۰ۭ (النساء۴:۱۳۶)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسولؐ پر نازل کی ہے، اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔
یعنی ایک مرتبہ شہادت حق دے کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانا کافی نہیں، بلکہ خود ان کو بھی جو خود کو صاحب ِایمان کہتے ہیں بار بارایمان کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
ایمان کا براہِ راست تعلق اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بندگی اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی سے ہے۔ اس لیے ہر لمحہ ایمان کو تازہ کرنے کے لیے قرآن و سنت کے بتائے ہوئے نسخے پر عمل ہی ہمیں صراط مستقیم اور ہدایت پر قائم رکھ سکتا ہے۔ ایک مرتبہ زبانی شہادت دینا کافی نہیں، بلکہ ہرلمحے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارا عمل کس بات کی شہادت دےرہا ہے اور ہماری ترجیحات میں اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول ؐکی ترتیب کیا ہے؟ ہمارے گھریلو معاملات ہوں، تلاش معاش ہو یا اقامت دین کے لیے سیاسی سرگرمی میں شرکت ہو، ان سب معاملات میں کہاں تک ان کا حوالہ صرف اور صرف اللہ کی رضا، آخرت کی کامیابی اور کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کی اطاعت اور وفاداری ہے۔
مسلمان اور مومن کے ایمان کو جانچنے کے لیے قرآن نے چار عملی صورتوں کا ذکر کیا ہے: اس کے ایمان کی شہادت اورایمان کے وجود کا ثبوت، اس کی صلوٰ ۃ ،قربانی اور مراسمِ عبودیت، نیز اس کی زندگی اور موت___ ان سب کا مقصد اگرصرف اللہ کی رضا کا حصول ہے تو ایمان محفوظ ہے۔ ایمان کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنی نماز ، اپنی قربانی ، اپنی زندگی اور اپنی موت کو صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے خالص کر دے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ (الانعام ۶:۱۶۲) کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ ربُّ العالمین کے لیے ہے۔
حق وباطل کو واضح کر دینے کے ساتھ قرآن کریم اہل ایمان اور کفار و مشرکین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو بھی وضاحت سے سمجھاتا ہے۔ شرک سے مکمل اجتناب کے ساتھ مشرکین کی کفر میں شدت کی بنا پر ان سے مایوس ہوکر انھیں ان کے حال پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ مستقل طور پر دین کی دعوت حکمت کے ساتھ دے کر انھیں عذاب سے بچانے اوراللہ کی رحمت کے سایے میں لانے کی کوشش کی جائے۔ یہ مسلسل دعوتی عمل زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر ہر حالت میں کیا جائے گا۔ دعوتِ دین دینے اور اگر حصول مقصد میں حضرت نوح علیہ السلام کی طرح نو سو سال مسلسل جدوجہد کے باوجود بھی منزل کا حصول نہ ہو سکا ہو ،جب بھی داعی کی اصل کامیابی اس کا خلوصِ نیت کے ساتھ نتائج سے بے پروا ہوکر اپنی تمام قوتِ کار کو اقامت دین کی جدوجہد میں لگا دینا ہے۔ اس کے بعد اگر اپنی خصوصی رحمت سے ارحم الراحمین دنیا میں کامیابی دے دے تو یہ صرف اس کا فضل ہے ورنہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی کا وعدہ ہے۔ سالہا سال کی جدوجہد، دعوتِ دین اور شہادتِ حق کے فریضے کی ادایگی میں کسی قسم کی مداہنت اور کفر و شرک کے ساتھ مصالحانہ رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا ۔ اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ اسلام کا بنیادی دعوتی مزاج مطالبہ کرتا ہے کہ مخالف کے طرزِ عمل سے قطع نظر اہل ایمان اپنا دعوتی فریضہ ہر حالت میں ادا کرتے رہیں ۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ انھیں کب کامیابی سے نوازتا ہے؟ یہ اس کے طے کرنے کا معاملہ ہے۔ تمام انسانی اندازے قیاس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
اقامت دین کی جدوجہد میں مشکلات ،مصائب اور رکاوٹوں سے گھبرانے یا ان سب کے نتیجے میں مایوس ہونے اور مطلوبہ نتائج میں تاخیر کی بنا پر اپنی دعوت اور طریقۂ کار پر شک و شبہہ کا کوئی امکان اسلام میں نہیں پایا جاتا۔استقامت کا مطلب ہے کہ دعوت ہر صورت حال اور ہرمرحلے میں جاری رکھی جائے۔ مکی دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام تر مخالفت اور دعوت کو رد کرنے کے باوجود ابو جہل ، عتبہ اور دیگر سردارانِ قریش کو دعوتِ دینا معطل نہیں کیا تھا اور نہ اپنے طریقۂ دعوت پر شک وشبہہ محسوس کیا، بلکہ ہر ممکن موقعے کو اپنا فرض ادا کرنے کے لیے استعمال فرمایا۔

طاغوت اور کفر کا ایک ملت ہونا 

قرآن کریم حق وباطل کے معرکے میں طاغوت اور کفر کی قوتوں کو حزبِ شیطان اور ملت ِواحدہ سے تعبیر کرتا ہے اور اس کے مقابل حق کی قوتوں کو بنیان مرصوص، یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے تعبیر کرتا ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ منکر کو مٹانے کے لیے اہل ایمان کو بھی ایک منظم جماعت کی شکل اختیار کرنی ہوگی، یعنی شہادت ِحق کے لیے تعمیر کردار کے ساتھ تنظیمِ افراد بھی مطلوب ہے۔ طاغوتی جماعت کی کثرت کے باوجود حق پر مبنی جماعت اپنی قلت تعداد کے باوجود منکر کے ساتھ اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں کرے گی۔ 
تحریک اقامت ِدین ایک اصولی اور نظریاتی تحریک ہے۔ اس کی بنیاد قرآن و سنت سے اخذ کردہ عالم گیر اصول ہیں۔ اس بنا پر یہ وقت کے ساتھ اپنی بنیادی فکر میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی۔ تاہم، دعوتِ دین کے ابلاغ واشاعت کے لیے ان تمام اسالیب اور طریقوں کو استعمال کر سکتی ہے، جو ہردور میں حاصل ہوں، البتہ وہ اس کے اصولوں سے مطابقت رکھتے ہوں،مثلاً سوشل میڈیا کا استعمال، انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے پیغام کی اشاعت ، غیر اسلامی تنظیموں یا افرادسے مکالمہ اور مذاکرہ وغیرہ۔لیکن ابلاغ کے وہ ذرائع جو شخصیت پرستی کی طرف لے جائیں، یا جو دوسروں کی نقالی کرتے ہوئے اختیار کیے جائیں، جس میں اختلاف کے باب میں اخلاقی اصولوں اور آداب کا لحاظ نہ رکھا جائے، مثلاً اسٹیج پر گانے بجانے کا استعمال یا خطابات میں تضحیک آمیز انداز میں دوسروں کا تمسخر اڑانا، انھیں بُرے القاب سے یاد کرنا وغیرہ۔ ان سب طریقوں کی تحریک اسلامی میں کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔ سورئہ حجرات نے واضح طور ان چیزوں کو ممنوع قرار دیا ہے۔قولِ لیّن (نرمی سے گفتگو) قرآن کریم کا وہ حکم ہے جسے انبیا ؑ اور ان کے ماننے والوں پر فرض کر دیا گیا ہے۔دعوتِ دین کا تقاضا ہے کہ اپنی بات دلوں میں اتارنے کے لیے نرم گفتاری اور بے لوثی کے ساتھ کام کیا جائے اور بھلائی کے کاموں میں نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم کے ساتھ بھی تعاون کا رویہ رکھا جائے۔اُدْعُ   اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ ط (اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ النحل ۱۶:۱۲۵)  ہی تحریک اسلامی کا شعار اور اس کی پہچان ہے۔

نیکی کے کام میں تعاون

قرآن کریم حکمت ِدعوت کے پیش نظر حق و باطل میں امتیاز کی وضاحت کے ساتھ ایسے معاملات میں جہاں بر، نیکی ، تقویٰ اور بھلائی کو تقویت پہنچتی ہو صرف نیکی کی حد تک غیر مسلموں سے بھی تعاون کی اجازت دیتا ہے: 
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۝۰۠ (المائدہ ۵:۲)جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو، اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ 
دعوت و اصلاح کے لیے اگر ایسا مرحلہ درپیش ہو کہ قوت نافذہ داعیان حق کے ہاتھ میں نہ ہو اور مستقبل قریب میں اتنی اکثریت حاصل کرنا کہ تحریک خود بعض اصلاحات نافذ کر سکے ممکن نظر نہیں آ رہا ہو، تو کیا جو نظام موجود ہو اس پر صرف گرفت کافی ہو گی یا خود اس نظام کے زبانی دعوؤں کو بنیاد بنا کر برسراقتدار جماعت کی نظریاتی امداد، اسلامی نقطۂ نظر سے تعلیم ، ابلاغ عامہ ، صحت، معیشت اور معاشرت میں اصلاح کا منصوبہ بنا کر فراہم کیا جانا مصلحت عامہ کا تقاضا ہو گا، تاکہ اتمامِ حجت کردیا جائے۔ گو، اس طرح کے تعاون میں دنیا میں اس کا کوئی اجر (credit) حاصل نہ ہو۔ 
تفصیلات میں جائے بغیر حضرت یوسف علیہ السلام کا اصلاحِ احوال میں اپنا کردار ادا کرنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ’حلف الفضول‘ کے حوالے سے مشرکین کے ساتھ تعاون کرنے کی خواہش کا اعلان فرماناظاہر کرتا ہے کہ اختلافات کے باوجود بعض متعین بھلائی کے کاموں میں اشتراکِ عمل کیا جا سکتا ہے ۔پاکستان کے تناظر میں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر مروجہ سیاسی نظام ایسا ہو کہ اس میں مستقبل قریب میں زمامِ کار تحریک کے ہاتھ میں آنا ممکن نظر نہ آتا ہو، تو کیا حزبِ اقتدار کے بھلے عناصر کے ساتھ تعاون کا راستہ تلاش کر کے برسرِ اقتدار گروہ کے ذریعے اصلاحات کے نفاذ کی کوشش وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى کی ایک شکل ہوگی؟ اوریہ جاننے کے باوجود کے ان اصلاحات کا تحریک کو کریڈٹ نہیں ملے گا  ، کیا ایسا کرنا دعوتی حکمت عملی ہوگی؟ اگر مکمل نظام کو تبدیل کرنے کے لیے تحریک کے پاس انسانی ، معاشی اورسیاسی وسائل موجود نہ ہوں، تو کیا برسرِاقتدار جماعت کے ذریعے حالات میں تبدیلی لانے کا عمل مصلحتِ عامہ کے اصول پر عمل ہو گا؟کیا اس طرح کا تعاون تحریک کی اصلاحی اور دعوتی تصویر کو بہتر بنائے گا اور طویل دورانیے میں تحریک کو اس کا سیاسی فائدہ ہو گا ؟
تحریک کو ان سوالات پر غور ضرور کرنا چاہیے کیونکہ تحریک کا مقصد نظامِ زندگی کی اصلاح ہے۔ اگر مکمل نظام کی تبدیلی قریب المعیاد نگاہ میں مشکل نظر آرہی ہو، تو جزوی تبدیلی سیاست شرعیہ، مصلحتِ عامہ اورکم تر خرابی پر عمل کے اصول کے پیش نظر اختیار کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔

نظام کی اصلاح کے لیے اسلوبِ دعوت

داعی کا دعوتی اسلوب خود حق وباطل ، ہدایت اور گمراہی ، شرک و توحید ، بندگیِ نفس اور بندگیِ رب میں فرق کو واضح کر دیتا ہے اور یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے ، جب اہل ایمان اپنے آپ کو دیگر انسانوں سے کاٹ کر الگ ہو کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ انھیں خیر خواہی کے ساتھ ہدایت و فلاح کی طرف بلاتے رہیں (الدین نصیحہ، رواہ مسلم، دین تو نصیحت اور خیر خواہی ہے)۔ اس کام میں شارع علیہ السلام کی قائم کی ہوئی تدریجی حکمت عملی اہمیت رکھتی ہے ۔ یعنی کلمۂ حق، دعوت خیر و فلاح و سعادت صرف اور صرف اللہ کے لیے ہو ،اللہ کے رسولؐ کے لیے ہو، اور پھر جو صاحب ِامر ہوں ان کی اور عامۃالمسلمین کی اصلاح اور مصلحت عامہ کے لیے ہو۔
دعوت اسلامی کے علَم برداروں بلکہ عام کارکنوں کی بھی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ طاغوت اور کفر و شرک کے خلاف شدت کے ساتھ اپنی آواز بلند کریں۔ بلاشبہہ ایمان اور کفر میں کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی ، لیکن اسلام کی دعوت کا مزاج مخالف کو اپنی قوت سے شکست دینے کی جگہ دلیل کی قوت اور نرمی ومحبت سے دل جیت کر دائرہ اسلام میں شامل کرنے کا ہے ۔اس لیے دعوت کی زبان میں شدت کی جگہ نرمی اسلام کا شعار ہے ۔ رب کریم نے حضرت موسٰی کو واضح ہدایت فرمائی:
اِذْہَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى۝۴۳ۚۖ  فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّہٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى۝۴۴ (طٰہٰ ۲۰:۴۳-۴۴) جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔
فن خطابت اور سیاست کاری کے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ کس طرح مخالف کو دباؤ میں لاکر گفت و شنید پر آمادہ کیا جائے ۔ قرآن کریم غور و فکر اور آیاتِ کائنات اور اپنے وجود پر غور کی دعوت دے کر ہمدردی کے ساتھ نصیحت اور تذکیر کا اسلوب اختیار کرتا ہے ۔اس لیے اسلام کا داعی اور کارکن اپنے مخالف کو تضحیک واستہزا کا نشانہ نہیں بنا سکتا۔ وہ اسے چور اچکا کہہ کر مخاطب نہیں کرسکتا ،گو زبان کے ذریعے دعوت ایک معروف طریقہ ہے لیکن قرآن کریم اس سے بھی زیادہ مؤثر طریقے کی طرف متوجہ کرتا ہے، یعنی اپنے عمل کے ذریعے دعوتِ دینا۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۳ (الصف ۶۱:۲-۳)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔
 اس آیت کی روشنی میں دعوت کا بہترین اسلوب ایک داعی کا اپنا طرز عمل ہے کہ وہ اپنی سیرت وکردار سے کیا پیغام دے رہا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے داعی کی یہ صفت بتائی ہے کہ وہ جس بات کی دعوت دیتا ہے اس پر پہلے خود عمل کر کے اس کے قابلِ عمل ہونے کو اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر تا ہے ۔
عملی شہادت ہی دعوت کا مؤثر ترین طریقہ ہے۔ اپنے آخری خطاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر تمام حاضرین سے یہ شہادت لی تھی کہ آپؐ نے اپنے عمل و کردار کے ذریعے کیا اس علمِ ہدایت اور پیغام کو پہنچا دیا جو بطور امانت آپ کے سپرد کیا گیا تھا؟

فریضۂ اقامت دین ہی تحریکات اسلامی کے وجود کا سبب ہے اور اس کی صحیح ادایگی ہی آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے ۔دین کا مذاق اڑانے والوں اور کفر وشرک کے علم برداروں کو دعوت الیٰ اللہ دینا تحریک کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تاہم، مخالفین کو کس طرح مخاطب کیا جائے؟ اس سلسلے میں قرآنی اخلاق کی اعلیٰ ترین مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہے کہ کس طرح طاغوت کے نمایندہ کے ساتھ بھی قول لیّن اختیار کیا جائے ۔ شرک ظلم عظیم ہے۔اس کاردّ پوری قوت سے کیا جائے اور منکر کو مٹانے کے لیے اپنی تمام قوت لگا دی جائے، لیکن مشرکین کے خداؤں کو ایسے ناموں سے نہیں پکارا جائے جو انھیں مشتعل کرکے نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کے بارے میں نازیبا کلمات کہنے پر اُبھار دیں۔ دین ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ہم مخالفینِ دعوت کو بھی بُرے القاب سے نہ پکاریں۔ ان ہدایات پر عمل ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔
 قرآن کریم ہمارے لیے جو لائحہ عمل تجویز کرتا ہے ، اس میں دانشمندی ، حکمتِ دعوت بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور دین مداہنت، موقع پرستی اور تجاہل عارفانہ کو ناپسند کرتا ہے کیوں کہ اس کا اصل ہدف کفر و شرک ، گمراہی اور ضلالت ہے،کسی کی ذات نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ فرد کو برائی سے نکال کر غم گساری اور نرمی کے ساتھ حقیقی کامیابی سے روشناس کرادے۔یہ کام فرد کوہدف اور نشانہ بنا کر نہیں ہو سکتا۔اس میں فرد کی جگہ نظام پر گرفت و تنقید اور متبادل نظام کا پیش کیا جانا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔قرآن کریم اپنی دعوت کا آغازباطل نظام کی نفی سے کرتا ہے اور متبادل نظامِ عبودیت کو اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ پیش کر کے برہانِ قاطع کی حیثیت سے اپنی بات کو انجام تک پہنچاتا ہے۔
اسلام کا اصل کارنامہ کوئی فلسفیانہ نظام پیش کرنا نہیں تھا بلکہ ایسی قابلِ عمل اخلاقی، معاشرتی، سیاسی ، ثقافتی تعلیمات کا پیش کرنا ہے جن کی عملی تفسیر داعی کی ذاتی زندگی ، گھر میں اہل خانہ کے ساتھ تعلق ، پڑوسی کے حقوق کا ادا کرنا ،حتیٰ کہ راستے کے حقوق پر عمل کرنا کہ راستے تک میں کوئی غلاظت اور رکاوٹ نہ ہو، جس سے راہگیر پریشان ہوں۔ تجارت میں کس طرح حلال و حرام میں تمیز، صارف کے ساتھ رویہ، غرض تجارتی، معاشرتی ،سیاسی معاملات میں کس طرح کا رویہ اختیار کیا جانا ہے۔
گویا اسلامی نظام حیات ایک جانب کفر اور شرک پر مبنی نظام پر سخت فکری تنقید کرتا ہے اور دوسری جانب عملاً ایک متبادل نظام کو خاندان اور معاشرے میں نافذ کر کےمعروف اور نیکی کی برتری کو ایک قابل محسوس شکل دے دیتا ہے۔

فرد اور نظام میں فرق

قرآن و سنت کی تنقید و احتساب کا ہدف باطل نظام ہے ۔ لیکن باطل نظام میں بھی ایسے پاک نفوس پائے جاسکتے ہیں جن کو دعوتِ حق حکمت اور محبت سے دی جائے تو دائرۂ حق اور اسلام میں داخل ہو جائیں ۔ یہ کام طنز، طعن اور تضحیک یا تحقیر سے نہیں ہو سکتا ۔ اس کے لیے اعلیٰ ظرف کے ساتھ دعوتِ حق دینے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو اور وہ تحریکِ اسلامی کے پرچم تلے آنے میں رکاوٹ محسوس نہ کریں ۔ اس کام میں شفقت ، رحمت، عفو و درگزر اور اللہ کے لیے مخالفین کے ہر ظلم کو بھلا دینا ہی دعوت کی حکمت عملی ہے۔ 
اسلام اور کفر و ظلم کے مقابلے میں دین کا مدعا کسی فریق کو شکست دے کر چت کر دینا نہیں ہے، بلکہ فریقِ مخالف کے دل کو جیتنا ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی اَنا کی بنیاد پر بہت سے معاملات میں عقل کے خلاف کام کرنے میں بھی حرج نہیں محسوس کرتا ۔داعی کا کام یہی ہے کہ وہ مخالف کی مصنوعی اَنا کو مجروح کیے بغیر، اسے نشانۂ تضحیک و تذلیل بنائے بغیر اپنی وسعت قلب کے ساتھ دائرہ حق میں ظلمات سے نور کی طرف لے آئے۔ دین اپنی تعلیم و فہم کے ذریعے دین کی دعوت کی عظمت و حقانیت سے آگاہ کرتا ہے اور ایسے افراد بھی جو صدیوں سے اپنی برادری کی عظمت اور چودہراہٹ کے شکار رہے ہوں داعی کی ہمدردی ، غمگساری اور محبت کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔ وہ اہل مکہ جو اپنی قبائلی عصبیت و برتری اور معاشی خوش حالی اور مذہبی قیادت کے سہ آتشہ نشے اوررعونت کےشکار تھے ۔ ایسے اَنا زدہ افراد بھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، نرمی، عفوودرگزر کے سامنے کھڑے نہیں رہ سکے ۔آج تحریکات اسلامی کو یہی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ قول لَیِّن ہی وہ برہان قاطع ہے ، جس سے دلوں کی دنیا فتح کی جاسکتی ہے اور جس کی تعلیم خود خالق کائنات نے اپنے انبیا ؑکو دی ۔
انبیاے کرامؑ کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ مشرکین کے بتوں کو اور مشرکین کو سخت الفاظ سے مخاطب کرتے اور انھیں چور، ڈاکو ، قاتل ، شیطان جو چاہتے کہتے اور ان کا یہ کہنا نامناسب بھی نہ ہوتا۔ –اس کے برخلاف انبیاے کرامؑ نے اور خصوصاً نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی انسانیت کو بنیاد بنا کر بار بار انھیں دعوت کی طرف متوجہ کیا ۔ قرآن کریم کی یہ دعوتی نفسیات انبیاے کرامؑ کے طریق دعوت کاحصہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کل تک جو اپنے ظلم ، جہل اور گمراہی کی بنا پر طاغوتی تھا، دین کی دعوت اور نصیحت نے اسے اللہ کا مددگار بنا دیا اور جان کے دشمن، جاں نثاروں میں تبدیل ہوگئے۔
دعوتِ قرآن نے جس شدت کے ساتھ جاہلیت ، استحصا ل ،ظلم اور کفر کو رد کیا وہیں اس سے زیادہ دلیل کی قوت کے ساتھ اسلام کے نظامِ عدل اجتماعی ،انفرادی ، مالی اور سیاسی تزکیہ کے اصول پیش کر کے ایک مکمل متبادل نظامِ حیات سامنے لا کر رکھ دیا کہ اس نور و ہدایت کی وجہ سے ظلمتِ کفر و شرک سکڑنے پر مجبور ہو جائے ۔حق آجائے اور باطل کوقطعی شکست ہو جائےکیونکہ باطل تو شکست کھانے ہی کے لیے ہے۔ چنانچہ نور حق کفر و شرک پر غالب آگیا اور ایک قابل محسوس اسلامی معاشرہ ، اسلامی خاندان ، اسلامی تجارت و معیشت و کاشتکاری ، اسلامی نظامِ عدل، اسلامی بین الاقوامی قانون کے وجود نے باطل نظام کو ایک اعلیٰ اخلاقی نظام سے تبدیل کر دیا۔

غیرمتعصبانہ رویہ اور تعمیری کردار

تحریکات اسلامی کے لیے ایک قابل غور امر یہ بھی ہے کہ طویل عرصہ حزبِ اقتدار پر تنقید و احتساب کرتے کرتے اس کا اپنا طرزِ عمل کہاں تک غیر متعصبانہ رہا ہے کہ وہ پانی کے نصف بھرے گلاس کو ہمیشہ نصف خالی قرار دے یا نصف بھرا ہوا؟دعوت کی نفسیاتی حکمت یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی معمولی سی خیر پائی جائے ، اس خیر کو بنیاد بنا کر اس کی ہمت افزائی کر کے برائی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اسی کا نام مثبت تعمیری فکر ہے جو تحریک اسلامی کا امتیاز ہے اور جو قرآن بار بار یا ایھا الناس کہہ کر ہمیں یاد دہانی کراتا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ روایتی حزب اختلاف کے طرز عمل سے ہٹ کر ہم اپنی پہچان حق گو جماعت کی حیثیت سے تسلیم کرائیں۔ اس طرح ہماری بات میں مزید وزن اور اہمیت پیدا ہو گی۔
 اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ تعمیری طرز فکر کے ساتھ تحریک اپنا منشور صرف انتخابات کے زاویے سے نہیں، بلکہ اپنی تعمیری تجاویز کو عملی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی بنیاد پر مرتب کرے۔ نیز حزبِ اقتدار کو بھی ان امور کو نافذ کرنے کی دعوت دے کیوں کہ تحریک کا مقصد اور ہدف اپنی ذاتی کامیابی کا سرٹیفکیٹ لینا نہیں ہے، بلکہ معاشرے میں اسلام اور اسلامی نظامِ عدل و انصاف کے نفاذ کی جدوجہد کرنا ہے۔ اگر یہ کام کسی اور کے ہاتھ سے ہو جائے تو یہ بھی تحریک کی کامیابی ہے۔ اگر اسلامی نظامِ معیشت ، معاشرت ، ابلاغ عامہ وغیرہ کا نفاذ حزبِ اقتدار کر دیتی ہے، تو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ تحریک اسلامی کی شکست ہو گی یا کامیابی ؟

عملی مثالیں قائم کرنے کی ضرورت

اپنے اہداف کے حصول کے لیے تحریک اسلامی کو کسی ایک لگے بندھے طریقے کا پابند نہیں ہونا چاہیے، بلکہ نفاذِ شریعت اور اسلامی نظامِ عدل کے قیام کے لیے ہر ممکنہ ذریعے کو استعمال کرنا چاہیے۔ اس عمل کے دوران جہاں کہیں اسے معمولی سا اختیار بھی حاصل ہو، اس چند میٹر رقبے پر خود اسلامی نظام کو قائم کر کے عملی مثالیں پیش کرنی چاہییں۔ مثلاً اگر کسی یونین کونسل میں تحریک کا اثر ہے اور تحریک وہاں سڑکوں کی صفائی ، صاف پانی کی فراہمی ، دکانوں پر ناپ تول کے نظام کی درستی کے لیے اقدامات ، فحاشی کے مراکز کاخاتمہ ، اسکولوں میں بچوں کی صحت اور تعلیم کے معیار کی بہتری کا اہتمام کر لیتی ہے، تو یہ نیکی کے چند قابل مشاہدہ جزیرے اسلامی نظام پر طویل اور مدلل تقاریر سے زیادہ مؤثر دعوتی پیغام پہنچا سکتے ہیں ۔دعوتی کام کا یہ طریقہ صرف ان مقامات تک محدود نہیں ہے جہاں تحریک کا کوئی اثر پایا جاتا ہو، بلکہ ان مقامات پر بھی جہاں اس کے متاثرین کی اکثریت نہ ہو۔ کراچی میں بلدیہ کے تحریکی میئر نے جس خلوص اور توجہ سے اصلاحات کیں، ان کا اعتراف تحریک کے مخالفین نے بھی کیا اور عوام کو اعتماد ملا کہ اگر وہ اپنا ووٹ صحیح افراد کو دیں تو ملک میں اصلاح ہو سکتی ہے۔
دعوت وہ نرم قوت (soft power) ہے جو سنگلاخ چٹانوں کو موم کی طرح نرم بنا سکتی ہے۔ قرآن کریم نے جہاں شقاوت قلب کا تذکرہ کیا ہے وہاں خشیت قلبی کو بھی بیان کیا ہے اور خاشعین ہی کو اپنا انسانِ مطلوب قرار دیا ہے ۔ تحریک کے کارکنوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ

وہ کس طرح ہر ممکنہ صورتِ حال (opportunity ) کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ ایسے حالات میں بھی جب صاحبِ اختیار اسلام کی تعلیمات کے نفاذ کا زبانی وعدہ کررہے ہوں۔کیا ان کی نیت پر شک کا اظہار کیا جانا ضروری ہے؟ جہاں احتساب ضروری ہے، وہیں یہ بھی مطلوب ہے کہ ایک ظاہر بات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے مقصد کے حصول کے لیے تحریک کی جانب سے ایسی تجاویز کو باقاعدہ منصوبۂ عمل کی شکل میں پیش کر دیا جائے    جس کے نفاذ سے ملک میں اسلامی نظام عدل کے قیام کا امکان بڑھ جائے۔ –تحریکات اسلامی نے اس حکمت عملی کو مصر ،سوڈان اورترکی میں جزوی طور پر اختیار کیا ۔اس پہلو سے تنقیدی جائزے کی ضرورت ہے اور پاکستان کے تناظر میں مکمل تبدیلیِ نظام کی جدوجہد کرتے ہوئے تبدیلی کے لیے متعین دائروں میں کون سی اصطلاحات کی جاسکی ہیں ان کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ بالفرض     یہ پُرخلوص کوشش کسی بناپر مطلوبہ نتائج پیدا نہ بھی کرسکے، تو تحریک عند اللہ جواب طلبی سے اپنے  آپ کو بچا سکتی ہے کہ جو اس کے اختیار میں تھا اس نے اس میں کوئی کمی نہیں کی۔
معروف کے قیام ، بر اور تقویٰ کے حصول کے لیے جو کوشش بھی رضاے الٰہی کے لیے کی جائے گی وہ ربِ کریم کےعلم میں ہوگی۔ اس کا مقصد نہ کوئی کریڈٹ لے کر سیاسی کامیابی ہوگی، نہ یہ دعوتِ اسلامی کے طریقۂ کار کی خلاف ورزی ہوگی، بلکہ حکمت دعوت کے قرآنی اصول کی تطبیق اور اتمامِ حجت کی ایک شکل ہوگی۔ اس حکمت عملی کے ذریعے مصلحت عامہ کا حصول، دعوت کی کامیابی اور اس کی اصولی فتح ہوگی کہ اقتدار سے باہر رہتے ہوئے بھی اس نے پیشہ ور حزبِ اختلاف کی جگہ قرآنی اصول پر عمل کرتے ہوئے، اپنی سیاسی تصویر (image )کی پروا کیے بغیر اللہ کے بندوں کی بھلائی اور دین کی اقامت کی غرض سے اقتدار کے وسائل کو صحیح راہ پر لانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔

معروف میں تعاون کی حکمت عملی 

قرآن کریم کے اصولوں پر مبنی اس حکمت عملی کو نہ مداہنت کہا جاسکتا ہے اور نہ اپنے اصولوں سے انحراف۔ دعوت کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ جو کل تک اس دعوت کا مذاق اڑاتا رہا  ہو وہ خود اس دعوتی ابلاغ اور دعوتی اسلوب کو اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے۔ مولانا مودودیؒ کا کارنامہ محض اسلام کی اجتماعی دعوت کو مدلل انداز میں پیش کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کے لہجے اور اسلوب کا وہ اثر ہے کہ آج وہ لوگ بھی جو اپنی عملی زندگی میں اسلامی طرزِ حیات کی مکمل پیروی نہ کرتے ہوں، اسلامی نظریۂ حیات ،مدینہ کی اسلامی ریاست اور بلاسودی بینک کاری کے تصورات کو بار بار دُہرا کر نظریۂ پاکستان سے اپنی وابستگی کا اظہار کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔دعوت اور دعوتی فکر کا یہ وہ نفوذ ہے جو دعوت کے حق ہونے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے ہاں مقبول ہونے کی ایک علامت ہے اور تحریک کے لیے اُخروی کامیابی کی ایک شکل ہے کہ ایوان اقتدار سے باہر رہتے ہوئے بھی وہ صاحب ِاقتدار افراد سے وہ کام کروانے میں کامیاب ہو گئی جو شاید ۵۰سال بعد اس کی مسلسل سیاسی جدوجہد کے بعد وہ خود اپنے ہاتھ سے کر سکتی۔
ایک چھوٹی سی مثال سے یہ بات زیادہ واضح ہو سکتی ہے۔ تحریک اسلامی خود ایک فکری ، تربیتی و دعوتی تحریک ہونے کی بنا پر تعلیم و تعمیر کردارکوتبدیلیِ نظام اور پورے ملک میں تبدیلی لانے کا بنیادی ذریعہ سمجھتی ہے۔ اس بنا پر گذشتہ ۷۲ برسوں سے مسلسل مطالبہ کررہی ہے کہ حکومت وقت اسلامی نظام تعلیم کو سرکاری سکولوں میں نافذ کرنے کا اعلان کرے لیکن اس کی یہ خواہش اور تمنا پوری نہیں ہوسکی۔ اس کے سامنے تین واضح امکانات اور عمل در آمد کی شکلیں ہیں۔اوّل: وہ اس وقت تک اس نصاب تعلیم،نصابی کتب اور تربیت یافتہ اساتذہ کو اپنے دامن میں لیے رہے جب تک اقتدار میں نہ آ جائے، اور جیسے ہی اسے اقتدار ملے وہ اپنے کیے ہوئے ہوم ورک کو نافذ کر دے۔ یہ آئیڈیل شکل ہے۔ دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ وہ حکومت پرمستقلاً گرفت ، تنقید ، احتساب کرتی رہے۔ نظامِ تعلیم کی تبدیلی کے مطالبے کے ساتھ جہاں جس حد تک اصلاح ممکن ہو اس کی راہیں تلاش کرے۔ 
ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ  کے اصول کی روشنی میں اپنے تیار کردہ تعلیمی منصوبے، نصابی کتب ،تربیت استاد کا نظام، طلبہ کی تعمیر سیرت کے لیے عملی پروگرام، غرض جو بنیادی کام (home work) اس نے کیا ہے وہ سب ایک ایسی حکومت کے سامنے رکھ دے جو بظاہر تبدیلی کی بات کر رہی ہے۔ اگر حکومت اصلاح کے پروگرام کو کُلی طور پر نہ سہی جزوی طور پر اختیار کرلیتی ہے ، تو کیا یہ تحریک کی کامیابی نہ ہوگی؟ 
ایک آخری شکل وہ بھی ہے جس پر ایک حد تک عمل ہورہا ہے، یعنی تحریک کی فکر سےمتاثر پورے ملک کے مختلف صوبوں میں جہاں جہاں بھی اسلامی فکر رکھنے والے تعلیمی ادارے ہیں، یا کم از کم وہ ادارے جن کے بانی حضرات کبھی تحریک کے کارکن یا ذمہ دار رہے ہوں وہ اپنے زیراثر تمام اداروں میں مخلوط تعلیم کو یکسر ختم کر دیں ۔ ان کے کالج اور یونی ورسٹی میں طالبات اور طلبہ کے لیے الگ الگ سرگرمیاں ہوں۔ کالج کے مباحثے مشترک نہ ہوں یا طلبہ و طالبات کے ریسرچ پراجیکٹ الگ الگ ہوں ۔ تمام طلبہ و طالبات کی اخلاقی تربیت کے لیے  ٹائم ٹیبل میں مستقل جگہ رکھی گئی ہو ۔ ان کے اساتذہ کے لیے سال میں مناسب تعداد میں تربیتی کورس رکھے جائیں ۔ان کے تمام اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اسلامی نظریۂ حیات پر مبنی معاشرتی علوم ،تطبیقی علوم، ہرشعبۂ علم قرآن و سنت کی تعلیمات کو نفسِ مضمون کے ساتھ اس طرح یک جا کر دیا جائے کہ طلبہ و طالبات کیمسٹری ہو یا طبیعات اور علم سیاست، ہر مضمون کے حوالے سے اسلامی اصول اور فکر سے مکمل طورپر آگاہ ہو سکیں ۔یہ تمام ادارے باہمی مشورے سے اپنی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اور ایک نظریاتی نظام تعلیم کو ’اعلیٰ تعلیمی کمیشن‘ (HEC) اور دیگر بورڈوں کی عمومی ہدایات کے اندر رہتے ہوئے اپنی فکر اور دعوت کوجس حد تک ممکن ہو، نافذ کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ان تینوں طریقوں پر بیک وقت بھی عمل کیا جائے۔ اگر صرف یہ کام کر لیا جائے تو ایک عام پاکستانی اپنی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے کہ تحریک کل ایوان اقتدار میں آکر نہ صرف تعلیم کو معیاری ، اخلاقی اور عالمی پیمانوں پر لے جا سکتی ہے، بلکہ معیشت اور قانون کا نفاذ بھی کر سکتی ہے ۔ 

تحریکات اسلامی کا تصور ان افراد کے ذہن میں جو اپنے آپ کو روشن خیال یا بعض اوقات سیکولر مسلمان کہتے ہیں یہی ہے کہ یہ نماز پڑھا سکتے ہیں اور عام طور پر جھوٹ نہیں بولتے، مالی معاملات میں اکثر شفاف ہیں لیکن حکومت ان کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس کا ایک سبب تحریک کا بعض مسلکی جماعتوں کے ساتھ تعاون کرنا بھی ہے۔ سیکولر یانام نہاد روشن خیال طبقہ ان جماعتوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔تحریک کا ان سے تعاون تحریک کے تصور کو ان کی نگاہ میں مجروح کرتا ہے  لیکن اگر تحریک سے وابستہ افراد کے ادارے ایک کامیاب مثال پیش کریں تو تحریک کی صلاحیت، خلوص اور معاشرتی اہمیت، ہرشہری کی نگاہ میں مستحکم ہوسکتی ہے۔
اس کے ساتھ اگر تحریک آگے بڑھ کر ایک تفصیلی دستاویز معاشی ، ابلاغی ، صحت عامہ، معاشرتی ، دفاعی پالیسی یا ملکی اور بین الاقوامی حکمت عملی مرتب کرکے پیش کرے جو عملی مسائل پر اسلامی راہنمائی فراہم کرتی ہو، تو کوئی وجہ نہیں کہ تحریک کے بارے میں موجود منفی تاثر مثبت رویے میں تبدیل نہ ہو جائے ۔ یہ کام نہ صرف محنت طلب ہے ، بلکہ اس میں صبر و استقامت بنیادی شرط ہے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر اس کام کو مسلسل کرنا ہی تحریک کی اصل کامیابی ہے ۔
تعلیم کے علاوہ معیشت کے میدان میں بھی تحریک سے وابستہ یا ہم خیال افراد کے صرف چند تجارتی ادارے اگر سود میں ملوث ہوئے بغیر کام کرکے ایک کامیاب تجارتی ماڈل پیش کریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ اقتدار میں آنے سے قبل تحریک اپنی مطلوبہ تبدیلی کی مثال پیش کر کے عوام کو اپنی دعوت کے قابلِ عمل ہونے پر قائل نہ کرسکے۔ اگر ۱۰؍اعلیٰ تعلیمی اداروں میں آیندہ ۵۰ برسوں میں صرف دو اعلیٰ تعلیمی نجی ادارے وہ ہوں جو اسلامی ماحول اور اسلامی اصولوں کو اپنے نصابات میں سموکر طلبہ وطالبات کو علمی صلاحیت اور سیرت وکردار سے مزّین کر دیں اور یہ طلبہ و طالبات اپنے تعلیمی معیار اور اخلاقی طرزِ عمل میں مثالی ہوں اور ان دو جامعات میں مخلوط تعلیم نہ ہو، تو یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔
 تحریک اسلامی کے لیے قرآنی منہج بڑا واضح ہے کہ وہ پہلے وہ کام کر دکھائے جس کی طرف دعوت دے رہی ہے۔ آغاز ان ا داروں سے ہو سکتا ہے جو اپنے آپ کو تحریکی فکر سے قریب سمجھتے ہیں ۔ پاکستان آج بھی انسانی دولت سے مالا مال ہے ۔ یہاں وہ پاک نفوس کثرت سے ہیں جنھیں ہم نے آج تک تلاش نہیں کیا۔ ہمیں اپنے محدود حلقے سے نکل کر محض ووٹ کے لیے نہیں، بلکہ  دعوتِ دین اور اقامت دین کے لیے ان پاک نفوس تک پہنچنا ہے جن تک دعوتِ حق پہنچانے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، اور جو ہمارے لیے آخرت میں کامیابی یا ناکامی کا سبب بن سکتے ہیں۔
تحریک ِ اسلامی کی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے اسلامی نظام معیشت ، نظام سیاست ، نظام معاشرت، نظام ابلاغ عامہ،نظام صحت و تحفظ حیات ، نظام ماحولیات، غرض ہرہر شعبے میں نظام عمل کا تفصیلی خاکہ تیار کر کے عوام اور حزب اقتدار کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ آج جہاں بھی کسی ادارے میں تحریکی فکر سے ہم آہنگی پائی جائے، اس ادارے کو مثالی ادارہ بنا کر اپنی دعوت کی عملی شکلی پیش کرنا آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔

مسئلہ کشمیر کسی ’زمینی تنازع‘ کا نام نہیں اور نہ یہ دوملکوں کے درمیان جوع الارض کی کسی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ یہ ایک کروڑ ۳۰لاکھ انسانوں کی آزادی اور حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جن کی ریاست کے بڑے حصے پر ایک سامراجی ملک بھارت نے محض طاقت کے بل پر، فوج کشی کے ذریعے قبضہ کرکے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل کو سبوتاژ کیا ہے۔ وہ قوت کے ذریعے آج بھی   نہ صرف اس پر قابض ہے بلکہ اس نے اپنے دستور کی دو دفعات (۳۵-الف، اور دفعہ ۳۷۰) کو تبدیل کرنے کے لیے، ترمیمی ضابطے کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور سیاسی عہدوپیمان کا خون کرکے ضم کرنے کا خطرناک کھیل کھیلا ہے۔ جس کے نتیجے میں مقبوضہ جموں و کشمیر، بدترین کرفیو اور شہری و کاروباری زندگی کی مکمل معطلی سے دوچار کیا جاچکا ہے۔ پوری ریاست کے مظلوم، نہتے اور بے نوا شہری ۹لاکھ بھارتی مسلح فوجیوں کی سنگینوں تلے ایک ہولناک اجتماعی جیل خانے (Collective Prison) کی چکّی کے دوپاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ لیکن آفرین ہے کہ  ان کی تحریک مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد نہ صرف جاری ہے بلکہ وہ ایک فیصلہ کن موڑ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
یہ غاصب ملک خود اپنے وعدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی بے مثال جدوجہد آزادی اور قربانیوں کو یکسر نظرانداز کرکے فسطائی اور سامراجی فلسفے کی بالادستی قائم کرنے پر بضد ہے۔ اقوام متحدہ بہ حیثیت ادارہ بدستور بزدلانہ لاتعلقی اور مجرمانہ روش پر قائم ہے اور لفظی لیپاپوتی سے زیادہ ایک قدم آگے بڑھنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے مبصروں کی موجودگی اور مسئلے کے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود رہنے کے باوجود، ۷۲برسوں سے اس مسئلے کے  حل کے لیے عملی کوششوں سے دست کش ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں قصۂ پارینہ ہیں اور اس عالمی تنظیم کو اپنے چارٹر کے تحت قیامِ امن اور تصفیہ طلب تنازعات کی دفعات سے بھی کوئی غرض نہیں۔ اب لے دے کے دوطرفہ مذاکرات کے وعظ اور اپیلوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں، اور ان کا بھارت کی طرف سے وہی ایک جواب ہوگا کہ ’’پہلے فضا سازگار ہو‘‘۔یعنی وہ فضا کہ جو خود بھارت کی سفاکی نے خراب کی ہے۔
بھارت کی اصل دل چسپی مسئلہ کشمیر کے حل سے نہیں، صرف اس دبائو سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہوگی، جو ۳۰ سالہ تحریک ِ جہاد نے اس پر ڈالا ہے اور جس کے نتیجے میں بھارت کی فوج اور ایک حد تک سوچنے سمجھنے والے سیاسی عناصر کسی راہِ نجات کی تلاش میں ہیں۔ بھارتی قیادت پوری عیاری کے ساتھ اصل اسباب کی طرف رجوع کرنے کے بجاے ’دہشت گردی‘، ’انتہاپسندی‘ کا راگ الاپ رہی ہے، اور امریکا اور بہت سے مغربی سیاست کار بھی اسی آواز میں آواز ملاتے   نظر آرہے ہیں۔ یہ سب نہ نیا ہے اور نہ غیرمتوقع، البتہ سب سے تشویش ناک پہلو پاکستان کے کچھ رہنمائوں کے متعدد متضاد بیانات اور صحافت کے کچھ قلم کاروں کی مغالطہ انگیز خلافِ جہاد مہم ہے، جس کا بروقت نوٹس لینا بہت ضروری ہے۔ 
امریکا، بھارت، اسرائیل اور ان کے حواریوں نے ایک عرصے سے جہاد کے خلاف ایک عالم گیر مہم چلا رکھی ہے اور اسے ’دہشت گردی‘ اور ’تشدد‘ کے ہم معنی قرار دیا جارہا ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ خود پاکستان کی انگریزی صحافت میں ’مجاہد‘ کو اب ’جہادی‘ اور ’دہشت گرد‘ بناکر پیش کیا جاتا ہے، اور دفاع پر اخراجات کو غربت اور پس ماندگی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔کبھی دینی مدارس پر پابندیوں کی باتیں کی جاتی ہیں، کبھی ان کو دہشت گردی کے مراکز بناکر پیش کیا جاتا ہے۔

اصولی موقف

اس پس منظر میں امریکی سیاسی اور فوجی قیادتوں کی مداخلت بلکہ مداخلت کرنے کی دعوت اور دبے اور کھلے الفاظ میں کشمیر کے مسئلے کے جلد حل ہوجانے کی ہوائیاں اپنے اندر خطرات رکھتی ہیں۔ اس کھیل میں شامل سابق فوجی افسران ہوں یا سفارت کار، سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی قوم کا ایک اصولی اور تاریخی موقف ہے جس سے ہٹ کر کسی فرد کو  اس قوم کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ کسی کو یہ حق اور مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ پاکستانی قوم اور مسلمانانِ جموں و کشمیر، قائداعظم سے لے کر آج تک جس موقف پر قائم ہیں اور جس کے لیے انھوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور تنگی اور غربت کے باوجود ایک عظیم الشان فوج کی تمام ضرورتیں پوری کی ہیں اور ملک کو ایک ایٹمی قوت بنایا ہے، وہ اس بارے میں کسی انحراف یا پسپائی یا سمجھوتے کا تصور بھی کرے۔ یہ قوم غریب ہے اور بٹی ہوئی بھی، لیکن جہاں تک کشمیر کے مسئلے کا تعلق ہے یہ اس کے لیے ایمان و اعتقاد اور زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ زمانے اور وقت کی قید کا بھی پابند نہیں۔ اس جدوجہد کے بارآور ہونے میں جتنی مدت بھی لگے، لیکن مسلمانانِ پاکستان اور مسلمانانِ جموں و کشمیر اس علاقے کے مستقبل کو طے کرنے کے لیے اپنے حقِ خود ارادیت سے کم کسی بات کو کبھی قبول نہیں کرسکتے۔
اسی طرح یہ کسی خاص جماعت، گروہ یا طبقے کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں قوم، قومی سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان بھی مکمل ہم آہنگی ہے۔ امریکا کو الگ سے اس عمل میں ملوث کرنے کے طرف دار چند طالع آزمائوں کے سوا کوئی پاکستانی اس بارے میں کسی سمجھوتے کو برداشت نہیں کرے گا۔ ماضی میں بھی، جس کسی نے پاکستانی قوم کے اصولی موقف سے انحراف کی کوشش کی ہے، اس کا حشر عبرت ناک ہوا ہے اور مستقبل بھی ان شاء اللہ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔
خود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں دفعہ ۲۵۷ میں یہ بات واضح طور پر تحریر ہے: ’’جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات، مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے‘‘۔
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمارے قومی دستور کی رُو سے بھی استصواب راے ہی کے ذریعے اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے اور وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی پاکستان سے ان کا رشتہ اور انتظام و انصرام کا دروبست قائم ہوگا۔ اس موقف میں کوئی تبدیلی یا اس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں کیوں کہ یہ حق و انصاف پر مبنی اور عالمی قانون اور عہدوپیمان کے مطابق ہے۔ محض غاصبانہ قبضہ، خواہ وہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، اہل جموں و کشمیر کے اس استحقاق کو متاثر نہیں کرسکتا اور پاکستان کے اس موقف کو کمزور یا غیرمتعلق نہیں بناسکتا۔ دستور کی یہ دفعہ اس امر کو واضح کردیتی ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کی قسمت کا آخری فیصلہ کرنے کا اختیار، صرف وہاں کے عوام کو حاصل ہے۔ اس طرح کشمیر کے تنازعے کے بنیادی فریق پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام ہیں۔ یہی وہ پوزیشن ہے جسے اقوام متحدہ کی ۱۸ قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے۔

کشمیر: تاریخی حقائق

بلاشبہہ پاکستان سے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کے دلائل اور اس کی تاریخی بنیادیں بھی بڑی محکم ہیں۔ جغرافیائی حیثیت سے دونوں کا ملحق ہونا ہی نہیں، سارا فطری اور تہذیبی نظام مشترک ہے۔ دریائوں کے رُخ اور سڑکوں کے تسلسل، رنگ و نسل کی یکسانی، طریق بودوباش کی وحدت، دین و ثقافت، رسوم و رواج، تہذیبی روایات، تاریخی جدوجہد، سیاسی ہم آہنگی، سب نے کشمیر اور پاکستان کو ایک ناقابلِ تقسیم وحدت بنائے رکھا ہے اور ہمیشہ رکھیں گے۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں جموں اور کشمیر کے مسلمان بھی شانہ بشانہ شریک تھے اور اصول تقسیم کی رُو سے ۱۷جولائی ۱۹۴۷ء میں کشمیر کی اسمبلی کے منتخب ارکان کی اکثریت نے الحاق پاکستان کا اعلان تک کر دیا تھا اور پونچھ اور شمالی علاقہ جات کے مسلمانوں نے باقاعدہ جنگ آزادی لڑ کر اپنے کو ڈوگرہ راج سے آزاد اور پاکستان سے وابستہ کیا تھا۔ 
ہم صرف ان حقائق کی بنیاد پر یہ بات نہیں کر رہے بلکہ اس اصول کو بنیاد بنارہے ہیں جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے، جس کی بنیاد پر خود امریکا کے لوگوں نے برطانیہ کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کی تھی اور مسلح جنگ کے ذریعے اپنے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے حقِ خود ارادی کے اصول کا اعلان، ’فلاڈلفیا کے اعلامیے‘ کی شکل میں کیا تھا۔ اس پر ریاست ہاے متحدہ امریکا کی بنیاد پڑی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن نے پہلی جنگ عظیم کے بعد ساری دنیا کی قوموں کے لیے اس کا اعلان کیا تھا۔ اسی اصول پربرعظیم کی تقسیم واقع ہوئی اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے۔
کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے ایک کروڑ ۳۰لاکھ انسانوں کی قسمت سے کھیلے۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں بھی خود یا کسی بیرونی دبائو سے ان کے مستقبل کو طے نہیں کرسکیں گی۔ ان کی اور عالمی ادارے کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ عالمی انتظام میں غیرجانب دارانہ استصواب کے ذریعے ان کو حقِ خود ارادیت کے استعمال کا موقع فراہم کردیں۔ اسی حق کی خاطر وہاں کے مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب ان کے لیے سیاسی اور پُرامن جدوجہد کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تو اسلام اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے اسی حق کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے مسلح جہاد کا آغاز کیا۔ یہی وہ جدوجہد ہے جس نے آج بھارت کو اور عالمی راے عامہ کو اسے ایک زندہ انسانی مسئلہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے۔ محض امن ، غربت سے نجات، ایٹمی جنگ کے خطرات سے بچائو اور عالمی کمیونٹی کی خواہشات کے نام پر کسی کنٹرول لائن کو (جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں) مستقل سرحد میں بدلنے یا تقسیم ریاست کے کسی منصوبے کو جموں و کشمیر کے عوام پر مسلط کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ یہ مسئلے کا حل نہیں، اسے مزید بگاڑنے اور دائمی فساد کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہوگا۔ آزادی کی قوتوں کو خاموش یا کمزور کرنے کی ہرکوشش خدا اور خلق دونوں سے غداری کے مترادف ہے۔
اس لیے مغربی یا بڑی طاقتوں کے دبائو پر کوئی مذاکرات اس وقت تک بامعنی اور نتیجہ خیز نہیں ہوسکیں گے، جب تک:
    ۱-     بھارت صاف الفاظ میں اس حقیقت کو تسلیم نہ کرے کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے وعدوں کے مطابق کریں گے۔
    ۲-    مذاکرات کا اصل مقصد ان کی راے کو معلوم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر آج کے حالات کے مطابق عمل درآمد اور اس کے لیے مناسب انتظام اور اقدامات ہوگا۔
    ۳-    استصواب کے لیے ایک ہی قانونی، سیاسی اور اخلاقی فریم ورک ہے اور وہ اقوام متحدہ کی ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء، ۵جنوری ۱۹۵۱ء اور ۲۴جنوری ۱۹۵۷ء کی قراردادیں ہیں۔ البتہ پاکستان، بھارت اور جموں و کشمیر کے عوامی نمایندوں کی ذمہ داری ہے کہ سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے ایک متفقہ لائحہ عمل حقِ خودارادیت کے استعمال کے لیے طے کریں اور جو فیصلہ بھی وہاں کے عوام کریں اسے کھلے دل سے قبول کریں۔
پاکستان کی کسی قیادت، اور کسی عالمی رہنما کو ان تاریخی حقائق اور حق و انصاف پر مبنی اس موقف سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کرنے اور جموں و کشمیر کے عوام کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ جس نے بھی اس کے برعکس کوئی راستہ اختیار کیا، یا کرے گا، اسے بالآخر منہ کی کھانا پڑے گی اور وہ حالات کو سنوارنے اور سنبھالنے کا نہیں مزید بگاڑنے کا باعث ہوگا۔ یہ تاریخ کا اٹل اصول ہے جو کسی کی خواہش یا سازش سے بدلا نہیں جاسکتا۔

کشمیر پر قراردادوں کی حیثیت

ماضی میں اقوام متحدہ کے ایک سیکرٹری جنرل کوفی عنان صاحب نے کہا تھا: ’’کشمیر کے بارے میں قراردادوں پر کافی عرصہ گزر گیا ہے۔ اس لیے اگر بھارت اور پاکستان دونوں درخواست کریں، تب ہی اقوام متحدہ کچھ کرسکتی ہے ورنہ وہ صرف دوطرفہ مذاکرات کی اپیل ہی کرسکتی ہے‘‘۔اور آج کے امریکی صدر ٹرمپ ہوں یا اقوام متحدہ کے موجودہ ذمہ دار، سبھی ’مذاکرات کی بحالی‘ پر زور دے رہے ہیں، حالاں کہ اصل مسئلہ، جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کا اور مقبوضہ کشمیر میں جبر اور ظلم کے راج اور وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی ایسی پامالی ہے، جو اَب نسل کشی (Genocide) اور آبادی کی نوعیت (demographic composition) ہی کو تبدیل کرنے کی طرف جارہی ہے۔ ’اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے‘ کی تازہ ترین رپورٹیں، اور ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کی متعدد رپورٹیں اس کا کھلا ثبوت ہیں، جب کہ ’ورلڈ جینوسایڈواچ‘ (WGW) نے تو ان مظلوم کشمیریوں کی اجتماعی قبروں کی بھی نشان دہی کی ہے۔
اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن، قوموں کے درمیان معاہدات اور بین الاقوامی یقین دہانیاں کسی زمانی تحدید (Time limitation) کے پابند ہیں؟ ہمارے علم میں ایسا کوئی بین الاقوامی قانون، اصول یا روایت نہیں اور یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ اس طرح تو قانون محض ایک کھیل بن جائے گا اور معاہدات بے معنی اور بے وقعت ہوکر رہ جائیں گے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مکائو (Macau) کے علاقے پر پرتگالیوں نے ۱۵۵۷ء میں قبضہ کیا تھا اور وہ ان کے تسلط میں ساڑھے چار سو سال تک رہا۔ مگر یکم دسمبر ۱۸۸۷ء کے ’معاہدہ بیجنگ‘ کے تحت آخرکار ۲۲دسمبر ۱۹۹۹ء کو چین نے اسے حاصل کرلیا، اور محض ایک طویل مدت تک قبضہ حقائق کو بدلنے کے لیے وجۂ جواز نہ بن سکا۔ 
کیا ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد منظور ہونے والی قراداد ۲۴۲ محض وقت گزر جانے سے ازکار رفتہ (out dated) ہوگئی؟ ۱۷۱۳ء میں یوٹرخت کا معاہدہ واقع ہوا جس کے تحت جبرالٹر کی حاکمیت اسپین سے برطانیہ کو منتقل ہوئی۔ اسپین کے دعوئوں کے باوجود کیا محض وقت کے گزرنے سے معاہدہ کالعدم ہوگیا؟ ۱۸۹۸ء میں ہانگ کانگ کا علاقہ برطانیہ نے چین سے حاصل کیا تھا، لیکن ۹۹سال گزرنے پر برطانیہ کو معاہدے کو پورا کرنا پڑا۔ تائیوان کا معاہدہ بھی اسی طرح وقت گزرنے کے باوجود ایک زندہ مسئلہ ہے۔ مسلم ریاست انڈونیشیا کے علاقے مشرقی تیمور ہی کو لے لیجیے، جس پر اقوام متحدہ کی قرارداد تو ۱۹۷۵ء میں منظور ہوئی، لیکن عمل ۲۷سال کے بعد ۲۰مئی ۲۰۰۲ء کو ہوا، اور عیسائی اکثریت پر مشتمل مشرقی تیمور ایک الگ ملک کے طور پر وجود میں آیا۔اسی طرح امریکی دھونس اور دبائو کے نتیجے میں مسلم ریاست سوڈان کو دولخت کرنے کے لیے جنوری ۲۰۱۱ء کو ریفرنڈم کرایا گیا اور ۹جولائی ۲۰۱۱ء کو جنوبی سوڈان پر مشتمل عیسائی ریاست قائم کردی گئی۔ اگر ۲۷ سال میں مشرقی تیمور کی قرارداد غیرمؤثر نہیں ہوئی، تو کشمیر کی قراردادیں کیوں غیرمتعلقہ ہوگئیں؟
پھر کشمیر کی قرارداد کا معاملہ محض ایک قرارداد کا نہیں، ایک اصول کا ہے، یعنی حقِ خود ارادیت۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے۔ دفعہ۱، اقوام متحدہ کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ اس کی شق۲ میں صاف الفاظ میں اس مستقل اصول کو بیان کیا گیا ہے، یعنی:
لوگوں کے حقِ خود ارادی اور مساوی حقوق کے حصول کے احترام میں۔
اسی طرح دفعہ ۲ (۴) تمام رکن ممالک کو پابند کرتی ہے کہ:
تمام ممبران اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی ریاست کی سیاسی آزادی یا ملکی سرحدوں کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے احتراز کریں گے، یا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کریں گےجو اقوام متحدہ کے مقاصد کے خلاف ہو۔
واضح رہے کہ حقِ خود ارادیت اقوام متحدہ کے مقاصد میں سے ایک ہے۔
کشمیر کی قرارداد کا تعلق حقِ خود ارادیت سے ہے جس پر وقت گزرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۴ء کی دو تاریخی قراردادوں میں بین الاقوامی قانون کو واضح کیا گیا ہے۔ اسے اقوام متحدہ کے تمام ممالک نے بشمول امریکا، بھارت اور پاکستان نے تسلیم کیا ہے۔ ۱۹۷۰ء کا اعلامیہ: دوستانہ تعلقات اور تعاون کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ ہے اور ۱۹۷۴ء کے اعلامیہ کا عنوان: ’جارحیت کی تعریف پر قرارداد‘ ہے۔ یہ دونوں قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئی ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے اعلامیے کی مزید اہمیت یہ ہے کہ  اقوامِ متحدہ کے ۲۵سال پورے ہونے پر جس جنرل اسمبلی نے اس کا چارٹر قبول کیا تھا، اسی نے اسے منظور کیا ہے۔
ان قراردادوں میں جن دو بنیادی اصولوں کی وضاحت ہے، وہ دراصل اقوام متحدہ کے چارٹر کی توضیح ہے۔ جس میں حقِ خود ارادیت اور طاقت کے استعمال کے اصول سرفہرست ہیں۔ اس میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ: طاقت کے استعمال کے نتیجے میں جو علاقہ حاصل ہوا ہو، اسے جائز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ نیز یہ کہ نہ جارحیت کے نتیجے میں ملنے والے کسی خصوصی فائدے کو قانونی تسلیم کیا جائے گا۔
ان اعلانات کو اقوام متحدہ ہی کے اجلاس میں آسٹریلیا کے نمایندے نے چارٹر کی دفعہ۱۳ کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کا حصہ قرار دیا تھا۔ (ملاحظہ ہو: بین الاقوامی قانون کی تدوین اور مرحلہ وار ارتقا میں ایک حصہ، نوم چومسکی کی کتاب Power and Prospects ، ۱۹۶۶ء، ص ۲۰۷)
بین الاقوامی قانون کی اس پوزیشن کی روشنی میں سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۴جنوری ۱۹۵۷ء پر نگاہ ڈال لیجیے جس میں مقبوضہ کشمیر کی اُس نام نہاد دستور ساز اسمبلی کو غیرمؤثر قرار دیا گیا ہے جس نے بھارت سے الحاق کی توثیق کی تھی، اورصاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسمبلی کی قرارداد اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اور اس کے انتظام میں استصواب راے کا بدل نہیں اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب راے کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔
اور اگر اس بارے میں کسی کو کوئی شبہہ ہو تو عالمی ماہرین قانون کے کمیشن کی اپریل ۱۹۹۴ء کی رپورٹ کا مطالعہ کرے جن میں کشمیریوں کے اس حق کا ان صاف الفاظ میں اعتراف کیا گیا ہے اور اسے وقت کی گردش سے آزاد حق مانا گیا ہے:
کشمیریوں کا حق اُس حق کی بنا پر ہے جو کسی علاقے کے غیرملکی غلبے سے آزاد ہوتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو اپنے لیے یہ انتخاب کرنے کا ہوتا ہے کہ بعد میں قائم ہونے والی (Successor) ریاستوں میں سے کس ریاست میں شامل ہوں۔ یہ حق ایک قائم شدہ آزاد ریاست سے علاحدگی کے قابلِ بحث حق سے بالکل ممتاز اور جدا ہے اور یہ ہندستان سے اس کے علاقوں میں سے کسی کی علاحدگی کے لیے مثال نہیں بنتا۔
تقسیم کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام کو جس حقِ خود ارادی کا استحقاق حاصل ہوا تھا، وہ ابھی تک استعمال نہیں ہوا اور نہ ختم ہوا ہے اور اس لیے آج بھی قابلِ استعمال ہے۔
اس لیے یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ امن عالم کو درپیش ہر خطرے کا خود نوٹس لے اور تمام ارکان کی طرف سے عملی اقدام کرے۔ دفعہ ۲۴ کے مطابق:
اقوامِ متحدہ کی جانب سے فوری اور مؤثر اقدام یقینی بنانے کے لیے اس کے ممبران عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اوّلین ذمہ داری سلامتی کونسل پر ڈالتے ہیں۔ وہ قرار دیتے ہیں کہ اس ذمہ داری کے تحت اپنے فرائض کی ادایگی کا عمل سلامتی کونسل ان کی جانب سے کرتی ہے۔
اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ہرملک کا اتفاق کرنا ضروری ہے یا اس کا اطلاق صرف باب ہفتم کی قراردادوں پر ہے۔ اس شرط کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ کبھی بھی کسی بھی جارح کے خلاف اقدام نہ ہوسکے کیونکہ وہ خود اپنے خلاف اقدام کو کیوں قبول کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ دفعہ ۲۵ میں کہا گیا ہے:
اقوامِ متحدہ کے ممبران موجودہ چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل کے فیصلوں کو قبول کرنے اور بجالانے کو تسلیم کرتے ہیں۔
پھر دفعہ ۳۳ میں ہر تنازعے کے تمام فریقوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خود، یا اقوامِ متحدہ کے ذریعے، تمام تنازعات کے پُرامن تصفیے کے لیے اقدام کریں گے۔ دفعہ ۳۶ ، اور ۳۷ کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ مناسب اقدامات اور طریقۂ کار تجویز کرے، خصوصیت سے    ان معاملات میں جہاں دفعہ۳۳ کے تحت کارروائی نہ ہوپارہی ہو۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر ان دفعات پر عمل نہ ہورہا ہو تو یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ باب ہفتم کی دفعہ ۵۱-۳۹ کے تحت کارروائی کا اہتمام کرے۔
یہ یاد دلانے کی بھی ضرورت ہے کہ اعلانِ لاہور، معاہدۂ تاشقند یا شملہ معاہدہ دو ملکوں کے درمیان معاہدے کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء اور ۵جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادیں بین الاقوامی معاہدات کی حیثیت رکھتی ہیں جن کے بارے میں ان کے چارٹر کی دفعہ ۱۰۳ یہ کہتی ہے:
اقوام متحدہ کے ممبران کے فرائض میں، جو موجودہ چارٹر کے مطابق طے ہیں، اور کسی دوسرے بین الاقوامی معاہدے کے تحت فرائض میں اگر کوئی تنازع ہو، تو موجودہ چارٹر کے تحت متعین فرائض رُوبۂ عمل آئیں گے۔
اس سب کی موجودگی میں اقوامِ متحدہ کے ذمہ داران اور دوسرے قائدین کا، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ سے مجرمانہ پہلوتہی اور محض مذاکرات کی بات اس بات کا ثبوت ہے کہ اقوامِ متحدہ صرف طاقت ور ملکوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہے۔ ان کے مفادات کے لیے تو سب دفعات حرکت میں آجاتی ہیں، خواہ معاملہ عراق کا ہو، یا مشرقی تیمور اور سوڈان کا۔ اور اگر ان کا مفاد نہ ہو تو کمزور ملکوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں، اور ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جو راستہ بھی انھیں نظر آئے خود اختیار کریں۔ چومسکی نے صحیح کہا ہے کہ یہی رویہ پورے عالمی نظام کے لیے خطرہ ہے:
ایسے لوگوں کی قسمت دائو پر لگی ہے جنھوں نے سخت تکلیفیں اُٹھائی ہیں اور اب بھی اُٹھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عالمی نظام اور بین الاقوامی قانون کی بنیادیں بھی دائو پر لگی ہیں بشمول طاقت کے استعمال اور ناقابلِ تنسیخ حقِ خود ارادی کے یو این چارٹر کے اہم اصول کے، جو تمام ریاستوں پر لازمی اور فرض ہے۔ (کتاب مذکور، ص ۲۰۴)

حقِ خود ارادیت ایک مسلّمہ قانونی حقیقت

جب عالمی طاقتوں اور خود اقوامِ متحدہ کا عملاً یہ حال ہو تو پھر کمزور ملکوں اور قوموں کے لیے کیا راستہ رہ جاتا ہے بجز اس کے کہ جو قوت بھی ان کو حاصل ہو ___ سیاسی اور عسکری___ اسے اپنے حق کے دفاع اور اپنی آزادی کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ عقل، اخلاق اور بین الاقوامی قانون مظلوم کو ظلم کرنے کے خلاف جدوجہد اور مقبوضہ علاقوں اور لوگوں کو اپنی آزادی کے لیے   قوت استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسے ان کا ایک جائز حق تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون طاقت کے ہراستعمال کو تشدد اور دہشت گردی قرار نہیں دیتا۔ مبنی برحق جنگ جو دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور آزادی اور حقوق کے لیے مثبت جدوجہد بھی، ایک معروف حقیقت ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں دفاعی جنگ اور چارٹر کے تحت اجتماعی طور پر قوت کا استعمال اس کی واضح مثالیں ہیں۔ حق خو دارادیت کے حصول کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں، اقوامِ متحدہ نے ان کی تائید کی اور آزادی کے بعد انھیں آزاد مملکت تسلیم کیا۔ گویا بین الاقوامی قانون نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ایک ماہر کرسٹوفر او کوئے (Christopher O. Quaye) نے اس اصول کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:
تقریباً تمام ہی آزادی کی تحریکوں کا ایک لازمی عنصر طاقت کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں جس تسلسل سے آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کچھ کو جرأت مندانہ قرار دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طاقت کے عنصر کو جائز قرار دیتی ہے۔ (Liberation Struggle in International Law، فلاڈلفیا، ٹمپل یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۱ء، ص ۲۸۲)
یہی مصنف صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ: ’’دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد ایک جیسی سرگرمیاں نہیں ہیں‘‘(ص۱۷)۔نیز یہ کہ: ’’اقوام متحدہ کے تمام ادارے جس ایک چیز پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ حقِ خود ارادی کی ہرجدوجہد قانونی اور جائز ہے‘‘۔ (ص ۲۶۱)
بین الاقوامی امور کے وہ ماہر جو اس پوزیشن کو اتنے واضح الفاظ میں قبول نہیں کرتے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قوت کے ہر استعمال کو دہشت گردی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ بین الاقوامی تعلقات کی پینگوئن ڈکشنری میں اس بات کو یوں ادا کیا گیا ہے:
دہشت گردی کے مسئلے پر ممانعت کرنے والا کوئی خصوصی معاہدہ تیار نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے حوالے سے اس کی تعریف میں مسائل ہیں۔ ایک کا دہشت گرد، دوسرے کا آزادی کا سپاہی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی قانون ابھی تک اس عمل کا احاطہ نہیں کرسکا ہے۔(ص ۱۷۷)
لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حقِ خود ارادیت ایک مسلّمہ حق ہے، جس کا تعلق ایک علاقے کے عوام کے اس حق سے ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں:
سیاسی حقِ خود ارادی لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا اپنے طریقے کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہ تصور ۱۷۷۶ء کے اعلانِ آزادی اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے اعلان حقوقِ انسانی میں مضمر ہے۔ اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر یہ کوشش کی ہے کہ اس تصور کو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرے اور اس طرح اسے محض ایک تمنا نہیں بلکہ قانونی حق اور مثبت فرض قرار دے۔(ص ۴۷۷-۴۷۸)
ہارورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے اپنی کتاب The Clash of Civilizations and The Remaking of World Order (نیویارک، ۱۹۹۷ء) میں دہشت گردی کے خلاف سارے غم و غصے کے باوجود یہ اعتراف کیا ہے:
تاریخی طور پر دہشت گردی کمزوروں کا ہتھیار ہے، یعنی ان لوگوںکا جو روایتی عسکری طاقت نہیں رکھتے۔ (ص۱۸۷)
اور اس خطرے سے بھی متنبہ کیا ہے کہ:
دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیار علاحدہ علاحدہ غیرمغربی کمزور قوموں کے ہتھیار ہیں۔ اگر، یا جب بھی، یہ ایک ہوئے، غیرمغربی کمزور ملک طاقت ور ہوجائیں گے۔ (ص ۱۸۸)
ہن ٹنگٹن کی بات تو ایک جملہ معترضہ تھی لیکن اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کا حقِ خود ارادیت ایک مسلّمہ قانونی حق ہے اور اگر بھارت، اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس حق سے ان کو محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، تو انھیں اپنی آزادی کے لیے ہرطرح کی جدوجہد کا، بشمول قابض دشمن کے خلاف قوت کے استعمال کا، حق حاصل ہے اور اسے کسی طرح بھی دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

عسکریت اور دہشت گردی میں فرق

بھارت کے ایک چوٹی کے وکیل کے بالاگوپال (K Balagopal) وہاں کے اہم مجلے اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی (۱۷ جون ۲۰۰۰ء) میں ’دہشت گردی‘ کے مسئلے پر TADA (بھارت کا انسداد دہشت گردی کا قانون) پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’ٹاڈا‘ کے مقاصد کے لیے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے ، وہ سیاسی عسکریت ہے۔  سیاسی اور اجتماعی عسکریت میں دہشت کا ایک عنصر، جو ضروری نہیں کہ کم ہو، شامل ہے لیکن یہ اصل بات نہیں ہے۔ اصل چیز جو اس کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرم نہیں ہے۔(ص۲۱۱۵)
بالاگوپال نے سیاسی عسکریت کو مجرمانہ دہشت گردی سے ممیزکیا ہے اور بھارتی قیادت کو متنبہ کیا ہے کہ:
اگر کوئی ایک لمحے کے لیے ہتھیاروں سے پرے دیکھ سکے تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کم از کم کشمیر اور ناگالینڈمیں عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت، دیانت داری سے یہ سمجھتی ہے کہ ’’ہم بھارتی نہیں ہیں اور ہم کو مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ اپنے آپ کو بھارتی سمجھیں‘‘ ۔ یقینا یہ بہت ہی نامناسب ہے کہ اس وسیع البنیاد عوامی احساس پر انھیں سزا دی جائے۔ (ص۲۱۲۲)
موصوف کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ’بھارت میں تشکیل کردہ اور نافذ شدہ قوانین جو ظالمانہ، استبدادی ذہنیت کے عکاس ہیں، کسی بھی جمہوری نظام کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔ وہ سیاسی عسکریت کا مداوا نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے سیاسی عمل کی ضرورت ہے‘۔
اس پس منظر میں اب یہ آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں کہ کشمیر میں عسکریت ظلم کی پیداوار ہے اور عوام کی مرضی کے خلاف ان کو محض بندوق کی گولی کی قوت پر زیردست رکھنا ممکن نہیں۔ اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں ایک مشہور صحافی گوتم ناولکھا (Gautam Navalakha) نے لکھا ہے:
یہ قابلِ ذکر ہے کہ عسکریت بھارتی [مقبوضہ] کشمیر میں شروع ہوئی۔ یہ ایک ایسے عمل کا نتیجہ تھا جو لوگوں کے ہتھیار اُٹھانے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا، اور ایسا جب ہوا تھا جب قومی مفاد اور سلامتی کے نام پر ہر جمہوری راستے کو بند کر دیا گیا۔ اختلاف کو کچلا گیا۔ مطالبات مسترد کر دیے گئے۔ حکومت کی فوجی کارروائیاں کشمیری عوام کو مغلوب کرنے میں ناکام ہوگئیں۔ فدائیوں کے حملے روکنے کے لیے سیکورٹی فورسز کچھ زیادہ نہیں کرسکتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں CRPF کے انسپکٹر جنرل نے ایک انٹرویو میں کہا : ’’مجھے صاف کہنا چاہیے کہ فدائی حملے کا سرے سے کوئی جواب نہیں ہے۔ فوج کا کم سے کم ایک حلقہ اس بارے میں واضح ہے کہ فدائی حملے جاری رہیں گے، جنگ بندی ہو یا نہ ہو اور کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ کشمیر میں فوج کی تعداد میں مسلسل اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ دبائو کے تحت فوجیوں کا اپنے ہی ساتھیوں اور افسروں کا قتل کرنا خود اپنی کہانی کہہ رہے ہیں۔
یہ احساس اب تقویت پکڑ رہا ہے کہ عوام کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ موصوف نے لکھا ہے:
جو لوگ ظلم و جبر کے تحت زندگی گزار رہے ہوں، جن کا وجود شناختی کارڈ سے ثابت ہوتا ہو، جن کی نجی زندگی کو جب چاہے برباد کیا جاسکتا ہو، جن کو احتجاج کے حق سے محروم کیا گیا ہو، ایسے لوگوں کے لیے آزادی اپنا ایک معنی رکھتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے آزادی ان کی اور ان کی تہذیب کی بقا کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ یہی واحد راستہ ہوتا ہے، جس سے وہ اپنی انسانی حیثیت کو حاصل کرسکتے ہیں۔ اس عوامی کیفیت (Mood) کی بہترین مثال [کشمیر میں]حزب المجاہدین کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ جو مکمل طور پر سب سے بڑے مقامی عسکری گروپ کی حیثیت سے متحرک نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں عوامی سوچ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ عوام کی رضامندی نہ ہو تو عسکری اقدامات نہیں کیے جاسکتے۔ وہ اس موقف پر قائم ہیں کہ اصل فیصلہ کن عامل جموں و کشمیر کے عوام ہیں۔
جموں و کشمیر کے مسلمان جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کی جرأت کا تو یہ حال ہے کہ وہ جنازوں میں شرکت کرتے وقت بھارتی فوجیوں کی بے رحمانہ فائرنگ تک کو پرِکاہ کی حیثیت نہیں دیتے۔ اسی لیے بھارت کے کچھ تجزیہ نگار اب یہ کہنے کی جرأت بھی کر رہے ہیں کہ ’سرحد پار دہشت گردی‘ کا واویلا مبنی بر کذب ہی نہیں، حماقت ہے۔ نئی دہلی کے اخبار سنڈے پاینیر نے ’سرحد پار دہشت گردی‘ کے بارے میں کہا ہے:
یہ جھوٹ ہے اور خطرناک حد تک سادہ بات ہے۔ دہشت گردی عوامی بے اطمینانی سے پرورش پاتی ہے اور عوامی بے اطمینانی غیرہمدردانہ حکمرانی سے پھیلتی ہے۔
مزید اعتراف کیا گیا ہے کہ:
تنازع کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ بھارتی فوجیں عوام کو قتل کرسکتی ہیں لیکن  جدوجہدِ آزادی کو کچل نہیں سکتیں۔ یہ معلوم کرنا بے حد آسان ہے کہ ہم کشمیر پر کب اور کیوں ہولناک غلطی کا شکار ہوئے؟ جو بات آسان نہیں ہے، وہ واپس نکلنے کا راستہ معلوم کرنا ہے۔ جنگ بندی کوئی حل نہیں ہے۔ یہ مقصد کے حصول کا صرف ایک ذریعہ ہے۔
جس مقام پر اس وقت بھارت کی قیادت اور دانش ور ہیں، وہاں سے اگلا قدم اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھیں جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کی بالادستی تسلیم کرنا ہوگی۔ پاکستان اور تحریک مزاحمت کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس نازک مرحلے کو صبروہمت اور جرأت و استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنے اور تیز تر کرنے کے لیے استعمال کرے۔ ایک قدم کی لغزش بھی حالات کو متاثر کرسکتی ہے۔
یہاں اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۴۹ء میں بھی بھارت کی حکمت عملی یہی تھی کہ ’جنگ بندی‘ تسلیم کرلو مگر استصواب اور مسئلے کے حل کی بات مؤخر کردو۔ تاہم، ہمارا ہدف مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اندرونی اور بیرونی دبائو نہ صرف جاری رہے، بلکہ بھارت کے لیے اپنے قبضے کو باقی رکھنا عسکری، سیاسی اور معاشی، ہراعتبار سے  ممکن نہ رہے۔ گوتم ناولکھا نے بھارت کے طریق واردات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، اس پر پاکستانی قیادت اور صحافت کے ان کرم فرمائوں کو غور کرنا چاہیے، جو وقت بے وقت غیرمشروط مذاکرات کے لیے بے چینی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ گوتم نے بیان کیا ہے:
ماضی کا ایک پیغام ہے۔ بھارتی حکومت نے کئی بار یہ مظاہرہ کیا ہے کہ یہ اسی وقت بات سنتی ہے جب لوگ ہتھیار اُٹھا لیں۔ مسلح گروپوں کو سر پہ بٹھاتی ہے، مگر غیرمتشدد تحریکوں کو حقیر گردانتی اور نظرانداز کرتی ہے اور یہ خواہ مخواہ کی بات نہیں ہے۔حُریت کانفرنس نے غیرمتشدد جدوجہد کو اختیار کیا ہے، مگر اسے مسلسل نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسے پُرامن مہم چلانے یا احتجاجی مظاہرے کرنے کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ اس کے بالمقابل باغیوں کو تحریک پر حملہ کرنے اور نفرت کی بنیاد پر قائم شیوسینا، سنگھ پری وار اور پَنن کشمیر جیسوں کو کھلی آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے یہ توقع کرنا کہ جنگجو مذاکرات کے لیے پیشگی شرط کے طور پر غیرمسلح ہوجائیں، عبث ہے۔ رائفلیں بھی اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گی، جب تک کوئی پُرخلوص کوشش نظر نہیں آتی۔ 
گذشتہ عشروں سے آزادی کے لیے ناگا تحریک [ناگالینڈ، شمال مشرقی ہند کی بھارتی ریاست ہے جہاں ۸۸ فی صد عیسائی، ۸ فی صد ہندو اور ڈھائی فی صد مسلمان ہیں] کے ساتھ جو برتائو کیا گیا ہے، وہ سامنے ہے۔ زیرزمین ناگا تحریک کے ساتھ کئی بار جنگ بندی ہوئی، جس کے بعد اعلیٰ ترین سطح پر مذاکرات ہوئے (کئی بھارتی وزیراعظم زیرزمین ناگالیڈروں سے مل چکے ہیں)۔ حکومت نے ایسے ہرموقعے کو ان میں تفریق ڈالنے کے لیے استعمال کیا، اور ان کے ایک حصے کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ تصفیہ کا اعلان کیا اور کہا کہ حالات معمول پر آگئے ہیں اور مسئلہ حل ہوگیا لیکن ناگا عوام ہربار پھر بغاوت کرتے نظر آئے۔ مسلح جدوجہد کو شکست نہ دی جاسکی بلکہ بی ایس ایف خصوصاً فوج پھنس کر رہ گئی۔ بھارتی فوج کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، لیکن وہ پُرعزم عوام کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہ تلخ سبق بھارتی فوج نے ناگا زیرزمین سے اپنی جنگ میں سیکھا ہے۔ اب نہ صرف غیرمشروط مذاکرات ہورہے ہیں بلکہ تین سال کی ٹال مٹول کے بعد حکومت نے تسلیم کرلیا ہے کہ مطالبے کے مطابق جنگ بندی تمام ناگاعلاقوں کے لیے ہے۔
 اسی طرح حُریت کانفرنس اور پاکستان کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات کے بغیر امن کا عمل سطحی ہوکر رہ جاتا ہے۔ جموں و کشمیر میں ایک طرف ایسے اقدامات ضروری ہیں کہ قانون کی حکمرانی بحال ہو اور دوسری طرف ایسے اشارے ہوں جس سے بھارت اور پاکستان میں امن چاہنے والوں کو تقویت ملے۔
بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی اور چال بازیوں، اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی بے حسی اور بے توجہی، تحریک مزاحمت کی قربانیاں اور خود بھارت میں ایک نئی سوچ کے آثار تقاضا کرتے ہیں کہ ثابت قدمی کے ساتھ منزل کی طرف بڑھا جائے۔ اصولی موقف پر دل جمعی اور استقا مت سے تحریک آزادی کی مکمل حمایت اور ممکنہ مددو استعانت کی جائے۔ عالمِ اسلام اور دنیا کی تمام انصاف پرور اور آزادی پسند قوتوں کو متحرک اور منظم کرنے کی جان دار مہم چلائی جائے۔

ایک ہی راستہ

کشمیر کے مسلمانوں کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے، تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ بھارتی ظلم کے خلاف ہرممکن ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر کارفرما ہوکر اہل جموں و کشمیر اپنے ایمان، اپنی آزاد ی اور اپنی ثقافت و تہذیب کی حفاظت کرسکتے ہیں اور ان کی اس جدوجہد میں مدد ہی کے ذریعے پاکستانی قوم اپنا فرض ادا کرسکتی اور خود اپنی سرحدوں کی حفاظت کرسکتی ہے۔ بلاشبہہ جہاد اور محض جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور خود قرآن نے ’حرب‘ کی اصطلاح کو ترک کرکے ’جہاد‘ کی اصطلاح کو اختیار کرکے ان کے فرق کی ہم کو تعلیم دی ہے۔
جہاد، فی سبیل اللہ کی شرط سے مشروط ہے اور ان آداب اور احکام کے فریم ورک میں اسے انجام دیا جاتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائے ہیں۔ نیز جہاد ان ہی حالات میں فرض ہوتا ہے جو شریعت نے طے کر دیے ہیں۔ ان تمام اُمور کی روشنی میں ، فلسطین ہو یا جموں و کشمیر، جو جدوجہد مسلمان کر رہے ہیں، وہ جہاد ہے۔ اس میں ان کی مدد و نصرت تمام مسلمانوں پر اور خصوصیت سے پاکستانی مسلمانوں پر لازم ہے۔

بنیادی اقدامات

ہم ۲۷ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی مؤثر اور مدلل تقریر کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اس معنویت کی تحسین  کرتے ہیں کہ انھوں نے ثالثی کی نعرے بازی کو اپنے خطاب میں کوئی جگہ نہیں دی اور پوری توجہ، حقِ خود ارادیت پر مرکوز کیے رکھی۔ یہی درست، قانونی اور اخلاقی موقف ہے۔
تاہم، بھارت اس وقت جس دلدل میں پھنسا ہے، اس سے نکلنے کے لیے حسب ِ روایت وہ جو ہتھکنڈے استعمال کرے گا ، ان کا ادراک ضروری ہے:

  •  پاکستان پر امریکا اور دوسری طاقتوں کا دبائو بڑھانے کے لیے راستے تلاش کرے گا اور اس دبائومیں کوشش ہوگی کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ کوئی نہ کوئی معاملہ طے کرے۔ اگر کسی دبائو میں آکر انحراف کا کوئی راستہ اختیار کیا گیا تو وہ پسپائی ملک کے لیے اور تحریک ِ آزادی کے لیے بہت نقصان دہ ہوگی۔ حکومت اور قوم دونوں کے لیے اس میں بڑی آزمایش ہے اور ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہ حکومت کے اخلاص، وژن اور ہمت کے امتحان کا وقت ہوگا۔
  • ہم جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے قوت کے جارحانہ استعمال کے امکانات بھی دیکھ رہے ہیں۔ کھسیانی بلی صرف کھمبا ہی نہیں نوچتی، بلکہ اپنے ہدف کا بدن بھی نوچنے پر اُتر آتی ہے، جس کے امکانات ہیں۔کشمیر کی تحریک مزاحمت کے لیے یہ سخت امتحان کا مرحلہ ہے اور اسے اس کے لیے ضروری تیاری اور پیش بندی کرنی چاہیے۔
  •  بھارت کی جانب سے تخریب کاری میں اضافے کے خطرات بھی نظر آرہے ہیں۔  اس کا بھی امکان ہے کہ اس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال میں حکومت پاکستان پر دبائو ڈالا جائے کہ خود کشمیر سے متعلق کچھ میدانوں میں پسپائی اختیار کرے، بالکل جس طرح جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں خود کشمیری مجاہدین پر پابندی لگائی یا ان کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں مقتدر حضرات کے بعض بیانات میں تضاد تشویش میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ یاد رہنا چاہیے کہ فرقہ واریت، بعض علاقوں میں قوم پرستانہ خون خرابہ یا تخریب کاری کا کوئی تعلق،کسی بھی حوالے سے مسئلہ کشمیر سے نہیں ہے۔ تاہم، جموں و کشمیر میں جاری جدوجہد کو کمزور کرنے کی ایک بھارتی سازش کا حصہ ضرور ہیں اور اس کا مقابلہ حکومت، حُریت پسند تنظیموں اور خود پاکستانی اور کشمیری عوام کو کرنا چاہیے۔
  •  ہم یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ بھارت نواز لابی پاکستان میں ایک بار پھر متحرک ہوگی۔ پاکستان میں معاشی حالات کی ابتری کا نام لے کرسارا ملبہ دفاعی اخراجات، امن و امان کے مسائل، غربت اور بے روزگاری، قرضوں کے بوجھ پر ڈال دیا جائے گا۔اور پھر معاشی مشکلات کے نام پر کشمیر کے مسئلے پر سمجھوتا اور امریکا اور بھارت کے نقشۂ کار سے ہم آہنگی کی باتیں کی جائیں گی۔ ۵؍اگست کے بھارتی اقدام نے اس لابی پر ایک ضرب لگائی ہے، لیکن یہ اس کے باوجود متحرک ہے اور سیکولر عناصر سے اس کو کمک مل رہی ہے۔ ایسی اندرونی کش مکش ملک کو کمزور کرنے اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کو سبوتاژ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے، جس کا تدارک ضروری ہے۔ درست قومی موقف پر پوری قوم کو متحرک کرکے اور افہام و تفہیم کے ساتھ اس چیلنج کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات، تنائو، تصادم اور پھر حالات کے معمول پر آنے کی کئی سطحیں ہیں۔ حکمرانوں کی تبدیلی کے ساتھ پاکستان میں موسموں کی تبدیلی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، لیکن ’برہمنی ذہنیت‘ اپنی جگہ سے سرمو نہیں ہٹتی۔ اُن کی جانب سے اگر کبھی تنائو کی تبدیلی کا کوئی اشارہ ملتا یا قدم اُٹھایا جاتا ہے، تو وہ محض وقتی طور پر، عالمی دبائو کو گھٹانے یا دھوکا دینے کے مترادف ہوگا۔ وگرنہ ہراعتبار سے پالیسی کا ایک تسلسل اور ’مَیں نہ مانوں‘ کی تکرار ہی رہتی ہے۔

اس لیے ہم واضح لفظوں میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران بھارت کی جانب سے درندگی اور غیرانسانی اقدامات کی بدترین مثالیں قائم کرنے کے نتیجے میں بھارتی حکومت، عالمی سطح پر دبائو میں آئی ہے۔ ماضی کا تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ بھارت بہت جلد، ممکن ہےدو ماہ کے اندر ’’مذاکرات شروع کرنے پر راضی‘‘ ہونے کی چمک دکھائے۔ جو درحقیقت مسلم دنیا کے ایک حصے کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور عالمی سطح پر اقوام کو فریب دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ایسا موقع جب بھی آئے گا اور جلد آئے گا، تو پاکستان کے حکمرانوں کو ہوشیار رہنا ہوگا کہ  وہ موجودہ نفرت پرور بھارتی آر ایس ایس مافیا کے اپنے ایجنڈے کے تحت مذاکراتی پیغام ہوگا۔ اس لیے پاکستانی پارلیمنٹ اور دفترخارجہ اور میڈیا کو ان امکانی چالوں کا پیشگی اندازہ ہونا چاہیے اور کشمیر کی مناسبت سے گذشتہ تمام ’’پاکستان بھارت مذاکرات‘‘ کا ایک زائچہ مرتب کرکے نگاہوں کے سامنے رکھنا چاہیے کہ مذاکرات کب اور کس شکل میں شروع ہوئے؟ ان سے بھارت نے کیا حاصل کیا؟ مذاکرات کیسے اور کن چالوں سے ختم کیے گئے؟ ان کے بعد فضا میں تنائو کو بڑھانے کے لیے کس نوعیت کی نعرے بازی کی گئی؟ اور اس ساری مشق کے دوران کشمیر کے مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے اور عتاب نازل کرنے کا موسم کس طرح گولہ بارود کی بارش کرتا رہا؟

  • مسئلہ کشمیر نہ غیرمشروط مکالمے کا تقاضا کرتا ہے اور نہ ثالثی جیسے پھندے کو چُومنے اور خوشی خوشی اپنے آپ کو باندھنے کا پیغام دیتا ہے۔

ہم بڑے واشگاف لفظوں میں یہ بیان کیے دیتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر نہ دوطرفہ مسئلہ ہے، نہ تولیت کا معاملہ ہے، اور نہ ثالثی کی کاک ٹیل پارٹی کا سامانِ ضیافت۔
اس معاملے میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس میں بنیادی فریق کشمیر کے عوام اور ان کی وہ قیادت ہے، جس نے مسلسل جدوجہد آزادی کی قیادت کی، صعوبتیں برداشت کیں اور قربانیاں دی ہیں۔ اس لیے کبھی اور کسی سطح پر اس نوعیت کی حماقت کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے، جیساکہ صدر جنرل پرویز مشرف نے بھارت کو پیش کشوں کے ذریعے   کیا تھا۔ یہ چیز قومی موقف کی نفی اور عالمی فیصلوں سے رُوگردانی تھی اور اگر آیندہ کسی نے ایسا کیا تو وہ گویا آگ سے کھیلے گا۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بھارتی حکومت کے غیرآئینی اور غیراخلاقی اقدامات کے بعد، اعلانِ تاشقند اور شملہ معاہدہ کی کھائیوں میں پھنسے مخمصے کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ بھارت نے یک طرفہ طور پر ان معاہدوں میں دوطرفہ مکالمے کے ڈھانچے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ آج ۶۰ روز کے بدترین کرفیو اور بھارتی فیصلوں سے پیدا شدہ تنائو، بھارت کے خلاف فضا کو  نام نہاد دو طرفہ مذاکرات کا موضوع نہیں بننا چاہیے۔ تمام ظلم، دھاندلی اور وعدہ خلافیوں سے لتھڑے بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے پاکستان کو’اعتماد سازی‘ جیسی نفاق پر مبنی اصطلاح کا اسیر نہیں بننا چاہیے، بلکہ مسئلہ کشمیر پر اس عالمی بیداری کو، اقوام متحدہ کے تحت حل کرانے اور حقِ خود ارادیت کے حصول کی طرف توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
اگر آج پھر اس بے معنی مذاکراتی چکّر میں پھنس گئے تو ۳۵-الف کی ترمیم چند برسوں میں مسلم آبادی کا توازن بگاڑ کر رکھ دے گی اور ممکن ہے چند تاجروں کو بھی کچھ مادی فائدہ پہنچ جائے، لیکن اس سے مسئلہ کشمیر پھر ایک طویل عرصے کے لیے مزید گہرے کنویں میں ڈبو دیا جائےگا۔
اندریں حالات دفترخارجہ کو پوری توجہ اور قوت اس جانب لگانی چاہیے کہ ہم کسی ایک بڑے یا چھوٹے ملک، مسلم یا غیرمسلم ملک کی ’ثالثی‘ کے زہر کا پیالہ نہیں پئیں گے، بلکہ ہم سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرائیںگے اور انھی کو مانیںگے۔ اس اصولی موقف سے جب بھی ایک انچ قدم پیچھے ہٹایا گیا تو یاد رکھیے یہ بدترین غداری ہوگی۔

  • بلاشبہہ مسلم ممالک کے ایک مؤثر حصے نے کشمیر اور پاکستان کے عوام کو شدید مایوس   کیا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ تمام معاملات کا جائزہ لے کر ٹھنڈے دل و دماغ سے حکمت عملی تیار کرنی چاہیے اور اُن ممالک کے اعصابی مراکز اور ذمہ داران سے مدلل طریقے سے اور مسلسل مکالمہ جاری رکھنا چاہیے۔ یہ چیز اگر فوری نتیجہ نہیں نکالتی، تو اس کے باوجود اُس افسوس ناک جھکائو میں ٹھیرائو،اور پھر مناسب تبدیلی لاسکتی ہے۔
  •   ہمارے لیے ضروری ہے کہ مناسب سفارتی آداب کے دائرے میں ربط و تعلق اور عالمی سطح پر بھارت پر سیاسی اور معاشی دبائو کو بڑھانے کی منظم کوششیں جاری رکھیں۔ یہ سب کام ہمہ وقتی جدوجہد کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس کے لیے حکومت اور قوم کو یک جان ہوکر صف آرا ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس سلسلے میں صحیح اور مؤثر حکمت عملی اختیار کرنے اور اس پر پوری قوت سے عمل کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ ۵؍اگست کے مودی اقدام نے جو آگ لگائی ہے، وہ خود اس کے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائے گی اور کشمیری عوام جو بھارت سے آزادی حاصل کرنے اور اپنے مستقبل کی دینی و نظریاتی بنیادوں پر تشکیل نو کے لیے جس جذبے اور قومی یک جہتی کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ان شاء اللہ کامیابی سے ہم کنار ہوں گے۔
  • ہم یہ بھی ضرور ی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے سلسلے کی تمام منصوبہ بندی، پالیسی سازی، مذاکرات اور سفارت کاری میں حکومت کو پوری قومی یک جہتی کے ساتھ تمام اقدام کرنے چاہییں۔ کشمیر صرف حکومت کا مسئلہ ہے اور نہ حزبِ اختلاف کا۔ یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور اس میں قومی اتحاد اور یک جہتی اوّلین ضرورت ہے۔ ریاست کے تمام اداروں، حکومت، پارلیمنٹ، فوج، انٹیلی جنس میں بھی یک جہتی اور تعاون ضروری ہے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ جموں و کشمیر کی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔پوری دنیا میں تحریک کی تقویت اور کامیابی کے لیے جو جدوجہد کی جائے، صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ قومی اتفاق راے اور پاکستان اور کشمیر کی قیادتوں کے اشتراک سے عمل میں آئے۔
  •  ملک کے اندرونی حالات کی اصلاح اور استحکام اور فوج اور قوم کا ہرخطرے کے لیے تیار رہنا بھی اس منصوبہ بندی کا اہم حصہ ہے۔ مؤثر سفارت کاری، تحریک آزادیِ کشمیر کی مدد و معاونت، عالمی راے عامہ کی بیداری (mobilization)، میڈیا اور سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال، بھارت کے اصل چہرے اور عزائم کو بے نقاب کرنا، خود بھارت میں جو لہر مودی کی پالیسیوں کے خلاف پائی جاتی ہے اسے تحریک ِ آزادیِ کشمیر کے حق میں استعمال کرنا ___تحریک آزادیِ کشمیر کے موجودہ مرحلے کا ناگزیر تقاضا ہیں۔

زنیرہ کومل، کیلے فورنیا یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نے اپنے مضمون: Untill Kashmir is Free, War It Will Be  (Milestones: Commentry on the Islamic World   ۲۱؍اگست ۲۰۱۹ء) میں ایک کشمیری نوجوان لڑکی جس کا نام احتیاطاً تبدیلی کے ساتھ عائشہ بتایا گیا ہے کہ اس کے دو بھائی یکے بعد دیگرے جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں اور وہ خود ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔ وہ اپنے جذبات، احساسات اور عزائم کا اظہار اپنے اشعار میں کرتی ہے۔ ہم اس کے چند اشعار پر اپنی گزارشات کو ختم کرتے ہیں اور اللہ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ مظلوموں کی اس جدوجہد کو جلد کامیابی سے ہم کنار فرمائے گا:
کہتے ہیں کشمیر جنّت ہے
جنّت کسی کافر کو ملی ہے، نہ ملے گی
اے کافرو! ہٹ جائو کشمیر ہمارا ہے
سارے کا سارا ہے
میں کہتی ہوں کشمیر کی آزادی تک
جنگ رہے گی، جنگ رہے گی
عائشہ کے اشعار ایک فرد کے نہیں، ایک قوم کے جذبات، احساسات اور عزائم کے آئینہ دار ہیں۔ دو بھائیوںکی قربانی دے کر اور خود زخم کھا کر پوری قوم کی آواز بن گئے ہیں۔ جس قوم کی ستم زدہ اور زخموں سے چور لڑکیوں کے یہ عزائم اور یہ اُمنگیں ہوں، ان کو گولی اور چھرّوں سے خاموش اور محکوم نہیں بنایا جاسکتا۔
 

ستمبر کے شمارے کے لیے مدیرعالمی ترجمان القرآن ، مسئلہ کشمیر پر ’اشارات‘ لکھ رہے تھے، لیکن طبیعت کی ناسازی کے باعث سردست مکمل نہیں کرسکے، ان شاء اللہ آیندہ اشاعت میں پیش کیے جائیں گے۔(ادارہ)

***

ریاست جموں و کشمیر کی موجودہ صورتِ حال سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ پوری ریاست کو ایک قید خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ساری حُریت اور سیاسی قیادت اسیر یا نظربند ہے۔ شہروں اور دیہات سے تشویش ناک اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ اس قیدخانے میں اشیاے خوردونوش کی قلّت کے باعث فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے۔ ادویات اور علاج معالجے کے تعطل سے اموات واقع ہورہی ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت نے اس ظلم،درندگی اور وحشت ناکی سے باہر کی دنیا کو بے خبر رکھنے کا پورا پورا انتظام کیا ہے۔ ریاست کے مواصلاتی نظام کو بند کرکے، یہاں ہونے والے ظلم وجبر کو چھپانے کے قاہرانہ حربوں کے ساتھ ہمارے مقامی میڈیا پر بھی غیر علانیہ سینسر عائد کی گئی ہے۔ ریاست میں کہاں کیا ہورہا ہے؟ بھارتی فوج کے ظلم وستم، ہزاروں جوانوں کی گرفتاری اور ہلاکتوں کے بارے میں کوئی بھی خبر شائع نہیں ہورہی۔بھارتی حکمران روزِ اوّل سے جھوٹ اور فریب کے ذریعے عالمی راے عامہ کو گمراہ کرنے کی بزدلانہ کوشش کرتے چلے آرہے ہیں۔ 
اقوام متحدہ نے بھارت کو ان بدنام ملکوں میں شامل کیا ہے، جہاں انسانی حقوق کی پاس داری اور تحفظ کی خاطر کام کرنے والوں کو قتل، تشدد، دھمکی اور خواتین کارکنوں کو جنسی زیادتیوں کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ ان اہل کاروں کو قدم قدم پر قانونی اور انتظامی مشکلات سے دوچار کیا جاتا ہے۔
بھارتی حکمرانوں کی تمام پابندیوں کے باوجود، اس وقت مسئلہ کشمیر کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ جس کا ایک بڑا ثبوت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کے اجلاس میں کشمیر پر بحث اور عالمی ذرائع ابلاغ پر خبروں کی اشاعت ہے۔ اسی سلسلے میں چندباتیں پیش خدمت ہیں:

O

جموں وکشمیر کے میرے عزیز ہم وطنو!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

۵؍اگست [۲۰۱۹ء]سے شروع کیے جانے والےحالیہ اقدامات سے بھارت کا مکروہ اور پُرفریب چہرہ، پہلے سے کہیں زیادہ بھیانک صورت میں دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ جس کے تحت وہ اشاروں کنایوں کے بجاے کھل کر یہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے پر اُتر آیا ہے۔ طاقت کے نشے کی بدمستی اور اکثریتی ووٹ کے غرور نے دہلی کے حکمرانوں سے انسانیت، اخلاقیات اور جمہوریت کی ساری قدریں چھین لی ہیں۔ اور وہ اپنے فوجیوں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ کرکے یہاں کی محکوم آبادی کو یرغمال بناتے ہوئے من مانے فیصلے کرنے چڑھ دوڑے ہیں۔ 
ریاست جموں و کشمیر کے حصے بخرے کرنے اور اسے دہلی کے زیرِ انتظام لانے کے اقدام سے، بھارتی دہشت گرد اور توسیع پسند حاکموں نے جموں و کشمیر کو نوآبادیاتی کالونی بنانے کے لیے اپنی نام نہاد جمہوریت کا جنازہ بھی نکال دیا ہے۔ حددرجہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ وہ اس گھناؤنے اقدام پر ماتم کرنے کے بجاے خوشیاں منا رہے ہیں۔ اس مذموم اقدام سے پہلے پوری ریاست جموں و کشمیر کو ایک پریشان کن اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا کرتے ہوئے، پکڑدھکڑ اور غیرانسانی، غیرقانونی اور غیراخلاقی پابندیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا۔ پھر ایک جنگی صورت حال پیدا کرکے، یہاں کے عوام کو اپنی مسلح افواج کے حوالے کیا۔ پھر تمام انسانی اور سماجی رابطے منقطع کردینے جیسے بزدلانہ عمل سے اپنی ’بہادری‘ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ 
بھارتی جارحیت پسندوں نے، آزادی پسند قیادت اور حُریت پسند کارکنوں کو ہی نہیں، بلکہ برسوں سے اپنے پالے ہوئے ایجنٹوں اور قومی غیرت کے سوداگروں کو بھی ان کی حیثیت یاد دلا کر  ’حفاظتی حراست‘ میں لے رکھا ہے۔ اس سے بڑھ کر حق وصداقت کی کامیابی اور کیا ہوگی کہ اب اپنے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے علاوہ ان فریب خوردہ عناصر کے پاس بھی کوئی اور موقف نہیں رہا۔ ’بھارتی سسٹم پر بھروسا‘ کرنے کا مسلسل سبق پڑھانے والوں اور ہندستان کو اپنا ملک کہتے ہوئے کبھی نہ تھکنے والوں کو بھی اس بات کا احساس ہوجانا چاہیے کہ بھارت کو یہاں کے عوام کے جینے مرنے سے کوئی غرض نہیں ہے۔ انھیں صرف اور صرف یہاں کی زمین چاہیے۔ اسی کو ہتھیانے کے لیے  انھوں نے اپنے ہی حاشیہ برداروں کو ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرکے، کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج ان سب بھارت نواز ہم وطنوں کے لیے یہ ایک آخری اور سنہری موقع ہے کہ وہ اغیار کی خاطر اپنے عوام کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کے بجاے، قوم کے شانہ بشانہ اس جدوجہد میں شامل ہوجائیں۔ ایسی جدوجہد کہ جس کا مقصد صرف اپنے بنیادی حقوق کی بازیابی اور غاصب طاقتوں سے مکمل آزادی ہے۔ اگر یہ لوگ ایسا کریں گے اور بحیثیت قوم یکسو اور یک جان ہوکر دشمن کا مقابلہ کریں گے، تو ان کے ماضی کی تمام غداریاں معاف ہوسکتی ہیں۔ 

تاریخ گواہ ہے کہ حق وصداقت اور یکسوئی و یک جہتی کے سامنے تیروتفنگ، اسلحے، گولے بارود اور فوجوں کے ٹڈی دَل نے ہمیشہ مات کھائی ہے۔ حوصلہ، صبر، نظم ونسق ایک نہتی قوم کے وہ ہتھیار ہیں، جن سے وہ بڑی بڑی فوجی طاقتوں کو زیر کرسکتی ہے۔
آپ خواتین و حضرات کو یہ دردمندانہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بھارتی عہد شکن حاکموں کے اس شب خون کے دوران ہمیں ہاتھوں پہ ہاتھ دھرکر دشمن کے لیے ترنوالہ نہیں بننا۔ اس عریاں جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑے ہونا، قوم کے ہرفرد کی ذمہ داری ہے، کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق قدمے، درمے، سخنے مزاحمت اور آزادی کے اس کاررواں میں شامل رہے۔ اس جارحیت کے خلاف ایمانی قوت، جواں مردی اور ہمت سے مزاحمت کرے کہ آزادی کے حصول کے لیے مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں باقی بچا۔ پُرامن احتجاج، جلسے اور جلوس معمول ہونا چاہیے۔ تخریب اور تشدد کے نتیجے میں، دشمن کو ہمیں جانی اور مالی نقصان پہنچانے کا بہانہ مل جاتا ہے اور اسے ایسا کوئی موقع فراہم کرنے کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔
سرکاری ملازمین، خاص کر پولیس کے اہلکاروں سے اپیل ہے کہ وہ غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کریں۔ انھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اپنے ہی لوگوں کو تہہ تیغ کرتے رہنے کے باوجود بھارت ان پر بھروسا نہیں کرتا۔ اسی لیے انھیں غیر مسلح کرکے پوری کمانڈ اپنے فوجیوں کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اگر اس ذلت سے بھی آپ کی رگِ غیرت نہیں پھڑکتی، تو اپنے ضمیر اور ایمان کا ماتم کرتے ہوئے، ہندنواز سیاست دانوں کی طرح اپنے انجام کا انتظار کرنا چاہیے۔

ریاست جموں و کشمیر سے باہر رہنے والے کشمیری بہنوں اور بھائیوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ دیارِغیر میں رہ کر اپنے وطن کی صورتِ حال سے خود کو باخبر رکھیں۔ آپ میں سے ہرفرد یہاں کی ستم رسیدہ قوم کے لیے سفیر بن کر اپنے لوگوں کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہاں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کُشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے دنیا کو آگاہ کرنا، آپ کی دینی، قومی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ آپ اپنے بھائیوں کے دُکھ درد کو محسوس کریں اور بھارتی جارحیت کے نشۂ طاقت میں کیے جانے والے ظلم اوردرندگی کے تمام حربوں کو ایک ایک دروازے پر دستک دے کر بے نقاب کریں۔ اس مقصد کے لیے تحریر، تقریر، مکالمے اور دُعا سے کام لیں۔
اسی طرح میں ہندستان کے ایک ارب تیس کروڑ بھائیوں پر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری یہ جدوجہد ہندستان یا اُس کے عوام کے خلاف نہیں ہے۔ ہم تو صرف اور صرف اپنے جائز، قانونی اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقِ خود ارادیت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حق کہ جسے برہمن حاکمیت کے پرستار بھارتی حکمرانوں نے غصب کررکھا ہے۔ ہم بھارت میں بسنے والی مظلوم اقلیتوں، دلتوں اور جبر سے دبائی گئی قوموں کے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بھارت کا ہرانصاف پسند شہری ہماری مبنی برا نصاف جدوجہد کی حمایت اور تائید کرتا ہے۔
خاص طور پر پاکستان کے عوام، ان کے حکمرانوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ اپنے نجی اور فروعی معاملات میں الجھنے کے بجاے مصیبت میں گھری اس محکوم، مظلوم اور نہتی قوم کی مدد کے لیے آگے آئیں۔ آپ اس مسئلے کے اہم اور بنیادی فریق ہیں۔ اگر آج آپ غیر سنجیدگی کا شکار ہوکر ذاتی مصلحتوں کے گرداب میں پھنس گئے، تو نہ تاریخ آپ کو معاف کرے گی اور نہ آپ کی آنے والی نسلیں محفوظ رہیں گی۔ اس لیے پورے عزم اور ہمت کے ساتھ دشمن کی فریب کاریوں اور مکاریوں کا آپ نے ہرسطح پر منہ توڑ جواب دینا ہے کہ اسی میں پوری ملت کی بقا اور کامرانی ہے۔
ریاست جموں وکشمیر کے غیور عوام سے مخلصانہ گزارش ہے کہ چاہے آپ ریاست کے کسی بھی کونے میں رہ رہے ہوں، جموں شہر یا وہاں کے پہاڑوں میں سکونت پذیر ہوں، وادی کے  سبزہ زاروں میں رہ رہے ہوں، لداخ اور کرگل کے کوہساروں یا برف زاروں میں بس رہے ہوں، چناب اور پیرپنچال کی چوٹیوں میں زندگی گزار رہے ہوں___ جان لیں کہ بھارت ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے، جسے صرف یہاں کی زمین ہڑپ کرنے سے دل چسپی ہے۔ وہ اسرائیلی غاصبوں کے نقش قدم پر چلتے اور اسی کی مدد سے راستہ بنانا چاہتا ہے۔ وہ اسرائیل کہ جس نے مقبوضہ فلسطین کے ہم وطنوں کو بے دخل کرنے جیسے گھنائونے طرزِ عمل کا ارتکاب کیا۔ اس ظالم ریاست کی مدد سے اب جموں و کشمیر کی شناخت، یہاں کی پہچان اور یہاں کے باہمی بھائی چارے کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ لیکن، ان شاء اللہ، ہم اس گھناؤنی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ بھارتی تسلط جتنا تکلیف دہ وادی کے مسلمانوں کے لیے ہے، اسی طرح جموں کی ڈوگرہ برادری اور لداخ کے بودھ بھائیوں کے لیے بھی کسی خوشی کا باعث نہیں ہے۔ اس لیے ہر ایک کو اپنی ڈیموگرافی،     اپنی آبادی، اور اپنا تشخص بچانے کے لیے اس تحریک مزاحمت کا ساتھ دینا ہوگا۔ 
ہمیں اپنی اپنی سطح پر اس تحریک ِ مزاحمت کا حصہ بن کر اس کی رفتار کو تیز کرنا اور اس کے ساتھ دوڑنا ہوگا۔ اگر دوڑنے کی سکت نہیں ہے، تو چلنا ہوگا، اور اگر چلنے کی بھی سکت نہیں تو رینگنا ہوگا، لیکن کاروا ِن مزاحمت میں شامل ہوکر اپنے حصے کی ذمہ داری ہرصورت میں نبھانی ہوگی۔یہی واحد راستہ ہے۔ 
جب قوم پورے عزم، ولولے اور نظم وضبط کے ساتھ اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑی ہوتی ہے، تو کوئی طاقت اس کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بھارتی حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ اگر ۱۰ لاکھ کے بجاے اپنی پوری فوج کو بھی یہاں لاکر ڈال دیں گے،تب بھی یہاں کے عوام اپنے حقوق سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ اللہ ہمار حامی و ناصر ہو!

جب معاشی ، سیاسی ، ثقافتی اور معاشری اشاریے (indicators) یہ پتا دے رہے ہوں کہ قوم پستی کی طرف جا رہی ہے تو اس کے اسباب کا پتا لگانا ایک معاشرتی فریضہ بن جاتا ہے۔ یہ لازم ہو جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ اخلاقی امراض، یعنی معیشت میں دھوکا اور فریب، سیاست میں آمریت وکنبہ پروری اور بے ایمانی ، معاشرت میں حقوق کی پامالی اور رشتوں کا احترام ختم کر دینے اور ثقافت میں رنگ رلیوں اور عریانیت کو ’آرٹ‘ اور’فن‘قرار دے دینے کا بنیادی سبب کیاہے؟   کیا یہ اُس دورِ غلامی کا نتیجہ ہے جس سے مسلمان مغربی سامراج کے تسلط کے دورسےگزرے ہیں، یا یہ فلاح اور کامیابی کے معیارات کوگڈ مڈ کرنے کا نتیجہ ہے، یا مقصدِ حیات کے شعور کا صحیح ادراک نہ ہونے کی بنا پر ہے؟ کیا یہ خرابی اچانک رونما ہو گئی ہے، یا مسلم ملت گذشتہ دو سوسال میں جن آزمایشوں سے گزری ہے، اس کا ایک منطقی نتیجہ ہے ؟ 
قرآن کریم نے اقوام عالم کے عروج وزوال کے اہم تاریخی نشاناتِ راہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متعدد اسباب و عوامل کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ذریعے غوروفکر کی راہیں روشن فرمائی ہیں۔ 
اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ قرآنِ پاک نے معاشی ، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی عروج و زوال کااصل سبب اخلاق کو قرار دیا ہے ۔ یہ اخلاق انفرادی،خاندانی ، معاشرتی اور معاشی و سیاسی سطح پر فیصلہ کن عنصر کی حیثیت رکھتا ہے ۔مغربی فکر میں اخلاق کے لیے عموماً دواصطلاحات، یعنی Ethics  (اخلاقیات)اورMorality (سیرت، کردار)کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اوّلین اصطلاح فکری اور نظری پہلو کو اور ثانی الذکر اصطلاح اخلاق کے عملی پہلو کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلامی روایت میں قرآن کریم اخلاق کی جامع اصطلاح میں نظری اور عملی پہلو کو یک جا کرتے ہوئے سیرت پاکؐ کو اخلاق کی کسوٹی قرار دیتا ہے۔ اس جامع اصطلاح میں عقیدے اورعمل کی بنیاد پر اخلاقی رویے کو انسانی تہذیب اور ثقافت کے عروج و زوال کا بنیادی سبب قرار دیتا ہے۔

مغرب کا ترقی کا معیار

 ہم جس مادی دور میں زندگی گزار رہے ہیں، اس میں ترقی اور عروج کا پیمانہ: بیرون ملک میں محفوظ سرمایہ ، کاروبار میں خواتین کے قائدانہ کردار، مختصر خاندان، ذاتی مکان اور کار اور مغربی تعلیم کے حصول کو قرار دیا جاتا ہے ۔چنانچہ ایک ملک یا قوم کے ترقی یافتہ ، کم ترقی یافتہ ، یا عدم ترقی یافتہ ہونے کا فیصلہ ’انسانی ترقی‘ کے انھی خودساختہ معیارات پر کیا جاتا ہے۔
ترقی اور استحکام کو ناپنے کے یہ پیمانے سامراجی اقوام اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں، جنھیں سرمایہ دارانہ فکر کے علَم برداروں نے اپنے تصورِ حیات کی روشنی میں ایجاد کیا اور خود کو غالب تہذیب قرار دیتے ہوئے تمام دنیا کے انسانوں کو جانچنے کے لیےانھی ’مقدس پیمانوں‘کو معیار قرار دیا۔ ان کی بنیاد پر اقوام عالم کی درجہ بندی کرنے کے ساتھ اقوام عالم کو یہ بات باور کروا دی کہ وہ انھی پیمانوں کی روشنی میں ترقی یافتہ یا ترقی پذیر بن سکتی ہیں۔ اسی معیار کے پیش نظر ان ممالک کی تعلیم ، معیشت، سیاست، معاشرت اور ثقافت کو قدیم، غیر ترقی یافتہ قرار دے کر انھیں اس دوڑ میں لگا دیا گیا کہ وہ خود کو مغرب کے سانچوں میں ڈھال کر اپنے مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے زعم میں مبتلا ہوسکیں۔
مغربی فکر کی نمایندگی کرتے ہوئے معروف امریکی تجزیہ کار سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے اس حقیقت کا سادہ الفاظ میں یوں اظہار کیا:

To be successful you must be like us, our way is the only way "The argument is that the religious values, moral assumptions and social structures of these (non-western)  societies are at best alien and sometimes hostile to the values and practices of industrialism"(The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order, London, 1997, p73).

کامیابی کے لیے آپ کو لازماً ہمیں پسند کرنا ہوگا۔ ہمارا راستہ ہی صرف واحد راستہ ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ان (غیرمغربی اقوام) کی مذہبی اقدار، اخلاقی تصورات اور سماجی ڈھانچے، ہمارے سماجی و معاشی اور صنعتی نظام کی اقدار و روایات (انڈسٹریل ازم) کے لیے صرف نامانوس ہی نہیں بلکہ بسااوقات دشمنی پر مبنی ہیں۔

گویا ترقی کے لیے صنعتی انقلاب کے بعد لادینی اور سرمایہ دارانہ مادیت جس کو یورپ نے اختیار کیا، ان کو اپنائے بغیر کوئی غیر یورپی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔

اسلام کا ترقی کا پیمانہ

اس کے مقابلے میں اسلام اخلاق کو ترقی کا پیمانہ قرار دیتے ہوئے یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جو اقوام اخلاقی لحاظ سے مستحکم ہوں گی، وہی مادّی ترقی اور خود انحصاری حاصل کر سکیں گی۔   جن اقوام کے اخلاق اچھے ہیں تو ان کو ترقی کی ضمانت دی گئی، اور اگر اخلاق بدتر،ناپسندیدہ اور باطل ہیں تو انھیں متوقع تباہی و بربادی سے آگاہ کرنے کے لیے ماضی سے ایسی مثالیں پیش کی گئیں جنھیں کوئی فرد بھی جو دو آنکھیں اور دماغ رکھتا ہو، رد نہیں کر سکتا ۔چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام نے جن اصولوں کو اپنایا، ان کے نتیجے میں تجارت، کاشت کاری،صنعتی ترقی، لوہے اور فولاد سے تیار کردہ ہتھیار وغیرہ اورغلے کی پیداوار میں فراوانی اور دولت میں کثرت پیدا ہوئی۔ اگر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ناپ تول میں کمی کی، وعدوں کو پورا نہیں کیا،اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے اپنے خاندانی اخلاق کو ایک ایسے عمل سے تباہ کر دیا جس کا ارتکاب اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں کیا تھا، تو اللہ کا غضب اور عذاب ان پر نازل ہوا۔ ان کے تعمیر کردہ محل،اس زمانے کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگیں اور وائٹ ہاؤس اور آزادی کے علامتی مینارزمین بوس ہوکر خاک میں مل گئے۔ ان کی ما دی عظمت ان کے کسی کام نہ آئی اور تباہی کو نہیں روک سکی۔
ترقی اور خوش حالی کے لیے اسلام نےجس چیز کو معیار اور بنیادی پیمانہ قرار دیا، وہ انسان کا اخلاق ہے، جس کے ثمرات کے طور پر ذاتی زندگی میں تزکیہ اور انسانی معاشرے میںتعاون، اخوت، عدل وانصاف اور حقیقی خوش حالی رُونما ہوتے ہیں۔ حلال و حرام کے فرق کو سمجھتے ہوئے صرف حلال روزی کو اختیار کرنا اور خصوصاً خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنا ،انفرادی سطح پر اپنے ہاتھ سے روزی پیدا کرنا___ یہ تصورِاسلامی، اسلامی ثقافت میں ایسی روایت بن گیا کہ کہ دورِ زوال کے کئی حکمران اس پر کاربند نظر آتے ہیں۔ ایسے فرماں روا مثالی اسلامی نظام حکومت سے انحراف کرچکے تھے اور خلافت کے بجاے بادشاہت جیسی حکمرانی کے مرض میں مبتلا تھے، اس کے باوجود اپنے ہاتھ سے قرآن کریم کی کتابت کر کے جو رقم ملتی، اسے اپنی ذات پر خرچ کرتے۔ گو ان کے سیاسی معاملات مکمل طور پر اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، لیکن پھر بھی ان کی زندگی دوسرے اربابِ اقتدار سے بڑی مختلف تھی۔برعظیم میں اورنگ زیب عالم گیر اور دور عثمانی کے کئی بادشاہ اس کی مثال پیش کرتے ہیں۔
دورِ حاضر کے معاشی نظام اور معاشی ترقی کا بڑا انحصار سودی لین دین پر ہے ۔وہ تجارت ہو یا صنعت و حرفت ، فرد ہو یا ادارہ اپنے کارو بار کے آغاز کے لیے کسی بنک سے قرض لینے کو ایک بنیادی ضرورت سمجھ کر کام کا آغاز کرتا ہے۔ پھر ساری عمر سود کی مقررہ شرح ادا کرنے کے لیے بھاری نفع پر اشیا فروخت کر کے ایک جانب سود کی اقساط ادا کرتا ہے ساتھ ہی صارفین کو اضافی نرخ پر اشیا فراہم کر کے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے ۔
بظاہر مادہ پرستی پر مبنی نظام پھلتا پھولتا نظر آتا ہے لیکن ۲۰۰۸ء کے عالمی معاشی بھونچال نے یہ بات ثابت کردی کہ سرمایہ دارانہ نظام کھوکھلا ہو چکا ہے اور اشتراکیت کے بعد اب اس کی مکمل تباہی کی باری ہے ۔ ۲۰۰۸ء میں دنیا کے ۱۰۰ سے اُوپر معاشی مراکز میں اس نظام کے خلاف اسی نظام کے پروردہ افراد نے مظاہرے کیے اور عالمی منڈی میں بینکوں ، تعمیراتی کمپنیوں اور معاشی اداروں نے اپنے کنگال ہونے کے کاغذات داخل کر کے اس نظام کے ناکام ہونے کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کر دیے ۔
مادیت اور ذاتی افادیت پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اسلام جو نظام تجویز کرتا ہے وہ اخلاق کے اعلیٰ اصولوں، صدق شعاری ، امانت و دیانت ، پاس داریِ عہد ،اشیا کی معیاری ضمانت  (Quality Assurance)اور عدم استحصال کو معاشی پالیسی کے ستون قرار دیتا ہے۔اس کے ساتھ ہی معاشرے میں ترقی کے لیے خاندان کی اخلاقیات کو بنیاد قرار دیتا ہے۔انفرادی اور اجتماعی ہردو سطحوں پر یہ نظام خود انحصاری کا علَم بردار ہے۔قرآن کریم انبیاے کرامؑ کے معاشی معاملات میں خود انحصاری اختیار کرنے کی مثالیں دے کر سمجھاتا ہے کہ صیحح رویہ کون سا ہے؟حضرت نوح ؑ کا  کشتی سازی (Ship Building) کی صنعت کو نقطۂ کمال تک پہنچانا اور حضرت داؤدؑ کا فولاد سے زِرَہ ، تلوار، ڈھال اور دیگر آلات کا تیار کرنا خود انحصاری کی اعلیٰ مثالیں ہیں ۔
قرآن کریم ہمیں بار بار یاد دہانی کراتا ہے کہ دنیا میں ترقی اور آخرت میں کامیابی کا اگر کوئی درست طریقہ ہے تو وہ صرف قرآنی اخلاق اور اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے۔چنانچہ ماضی کی اقوام نے جب بھی اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی کی، وہ تباہی کے گڑھے میں جاگریں۔

اخلاقی انحطاط کا سبب

آج مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان جن زمینی مسائل کا شکار ہے،ان میں سر فہرست مسئلہ اخلاقی زوال ہے۔برقی ابلاغ عامہ نے معاشرے کے اخلاقی ناسوروں کو ضرورت سے زیادہ   بے نقاب کر کے اخلاقی گراوٹ کے احساس کو اور زیادہ شدید کر دیا ہے۔ملک میں چلنے والے ہر ٹی وی چینل پر اگر کوئی خبرسرخی بنتی ہے تو وہ اخلاقی دیوالیے اور زوال ہی کی کسی شکل کو ظاہر کرتی ہے ۔ مختلف اوقات میں بچوں اور خواتین کو درندگی کا نشانہ بنانے کے واقعات کو ’نشر فحش‘کا فریضہ سمجھ کر ابلاغی ادارے سنسنی اور مبالغے کے ساتھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جیسے پاکستان اخلاقی خرابیوں میں ’سربراہی‘ کا مقام رکھتا ہو۔
 اسی طرح اگرملک میں طلاق کے رجحان کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم امریکا کو جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ طلاق زدہ ملک ہے ، کچھ عرصے میں پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ معاشی بدعنوانی، کرپشن کی خبریں دیکھی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بد معاملگی اور کرپشن میں شاید  ہم ہی سرفہرست ہیں ۔ تعلیم میں دیکھا جائے تو سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بدمعالگی عروج پر نظر آتی ہے ۔اس حقیقت سے انکار کیے بغیر کہ واقعتاً یہ مسائل معاشرے میں پائے جاتے ہیں، مگر ابلاغ عامہ جس تباہ کن انداز میں انھیں پیش کر کے قوم میں مایوسی اور خود فراری کی کیفیت پیدا کرتا ہے، اسے قومی اور ملکی مفاد کے منافی اور طاغوتی فکر کی ایک سازش سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
صبح سے شام تک بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ، خواتین کے عدم احترام، اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے اشتہارات میں خواتین کے جنسی استحصال، تعلیم میں معیار کی گراوٹ ، سیاست میں اصول فراموشی، معیشت میں حلال کی جگہ حرام کی پذیرائی اور معاشرت میں ہندووانہ اور مغربی رسموں اور رواج کو شعوری طور پر متعارف کرانے میں ایک ٹی وی چینل دوسرے سے بازی لے جانے میں لگا ہے، تو وہ سوچتا ہے کہ شاید ہم زوال کے اُس درجے پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں اور ہروقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ یہ پورا نظام دھڑام سے گرنے والا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ ذہنی اور نفسیاتی تاثر ہے جو ہمارا ابلاغ عامہ اوراس ابلاغ عامہ کی پرورش اور اسے غذا فراہم کرنے والے پس پردہ افراد اور ادارے چاہتے ہیں کہ قوم مایوس ، دل برداشتہ اور نااُمید ہو۔ اسے یہ بات سمجھائی جائے کہ مغرب میں قانون کا احترام ہے ، انسانی حقوق ہیں ، معاشی اور سیاسی اخلاقیات ہے، اس لیے اپنے ’مذہب‘ اور روایات کو چھوڑ کر ہمارے لیے راہِ نجات مغربی لادینی معاشرت و سیاست ، معیشت کو اختیار کرنے ہی میں ہےتاکہ ہم ترقی یافتہ بن سکیں۔ یہ وہ اصل ہدف ہے جو قوم میں مایوسی اور اضمحال پیدا کرنے کے نتیجے میں حاصل کرنا مقصود ہے ۔
قبل اس کے کہ ہم ان مسائل کے حل کی طرف آئیں، اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دن رات مایوسی ، دہشت گردی ،جنسی درندگی کی خبریں سن سن کر ایک احساس یہ بھی ابھرتا ہے کہ یہ قوم ہے ہی ایسی بدکردار اور بد بخت کہ اسے صرف کوئی جابرانہ اور آمرانہ نظام ہی آکر ٹھیک کر سکتا ہے ۔اس تناظر میں سابقہ آمرانہ ادوار کی طرف بھی اشارے کیے جاتے ہیں کہ جب بھی آمرانہ دور آیا معیشت میں بہتری ہوئی۔ اس لیے آج جو مسائل پائے جاتے ہیں انھیں کوئی آمر ہی ڈنڈے کے زور سے ٹھیک کر سکتا ہے۔
حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ اسی قوم کے افراد جب امریکا کے اعلیٰ ترین ہسپتالوں میں یا برطانیہ کے ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں، تو مقامی گوری نسل کے افراد سے کہیں زیادہ فنی مہارت اور ایمان داری کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس قوم کے کم تعلیم یافتہ معاشی کارکن جب متحدہ عرب امارات میں گاڑی چلاتے ہیں تو مکمل طور پر ٹریفک کے قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے انجینیر اعلیٰ معیار کی سڑکوں کا جلیبی نما جال بچھانے میں دنیا بھر میں اپنی مہارت کا لوہا منواتے ہیں ۔گویا مسئلہ نہ جین (gene)کا ہے ، نہ قوم کی فطرت کا، بلکہ اس کی تربیت اور نظام زندگی میں بنیادی خرابی کا ہے۔ مزید یہ خود اپنے بارے میں اپنی کم حیثیتی (underestimation) کا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں ہی نہیں پورے خطے میں پاکستان ایک بڑی جوہری قوت ہے۔ ملک میں بہ ظاہر بجلی کی کمی کے باوجود اس ملک میں آیندہ ۵۰۰ سال کے لیے کوئلہ کی شکل میں قوت کے ذخائر موجود ہیں۔پاکستان کا ایک بڑا سرمایہ اس کے ۷۰ فی صد کے قریب نوجوان ہیں جن کی صیحح تعلیم و تربیت نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی طور پر انسانی وسائل کے استعمال سے صنعتی ، سیاسی، ثقافتی اور اخلاقی انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ مٹی نہ صرف نم ہے بلکہ اس میں مکمل روئیدگی موجود ہے۔ صرف اسے اخلاق کے تریاق سے کامیابی تک لے جانے کی ضرورت ہے ۔

  • معاشی اخلاقیات: قرآن کریم نے تجارت کو نہ صرف حلال قرار دیا ہے اور ناپ تول کے پیمانوں کو ایمان داری سے استعمال کرنے پر زور دیا ہے، بلکہ تجارت کو خصوصاً اور کاشت کاری کو عموماً معاشی فلاح کے فروغ کی ایک بنیاد بتایا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی مثال دے کر یہ بات سمجھائی ہے کہ معاشی اخلاقیات پر عمل نہ کیا گیا تو انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایمان دار تاجر کے بارے میں پیش گوئی کی ہے کہ وہ آخرت میں انبیاؑ ، صلحا اور شہدا کی صف میں شامل ہو گا ۔اسلام نے اس دنیا میں ایسے کردار پیش کیے، جو مکہ سے آئے تو خالی ہاتھ تھے، لیکن مدینہ کے بازار میں جاکر صرف پنیر سے کاروبار کا آغاز کر کے اپنی ایمان داری کے سبب اُس دور کے کروڑ پتی افراد میں شامل ہوگئے ۔ دوسری جانب یہ کتابِ عزیز ان کرداروں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جن کی مالی کثرت ان کے خزانوں کی کنجیوں کے بوجھ سے ظاہر ہوتی تھی لیکن وہ دنیا اور آخرت میں اپنی معاشی بدمعاملگی کی بناپر تباہ و برباد کر دیے گئے ۔ ہامان اس رویے کی نمایندگی کرتا ہے۔
  • سیاسی اخلاقیات: سیاسی میدان میں خود نمائی ، مشاورت پر عمل نہ کرنا ، اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہ سمجھنا بلکہ خود کو انسانوں کا رب سمجھنا، وہ عظیم غلطی ہے جو بڑی بڑی تہذیبوں اور مضبوط اقوام کی تباہی کا سبب بنی۔فرعون اور اس جیسے سیاسی فرماں روا،یونان اور روم و ایران کے ایوانِ اقتدار پر قابض افراد،سب سیاسی شرک اور اللہ کی حاکمیت کا انکار کرنے کے سبب تباہ و برباد ہوئے ۔
  • ثقافتی اخلاقیات: جن اقوام نے اپنی تہذیب کو لھو الحدیث(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ ق ، اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دلفریب خرید کر لاتا ہے، تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے۔ لقمان ۳۱:۶) کی شکل دے دی اور قصہ گو ، رقص اور تماشے کرنے والوں کو اپنا ہیرو اور مثال بنایا اور انھیں اعلیٰ قومی اعزا ز دیے، جب کہ اہل علم و فکر وتقویٰ کے لیے زمین کو تنگ کردیا___ وہ اقوام اپنی تمام تر مادی قوت کے باوجود صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔ وہ شام اور مصر کی تہذیب ہو یا روم و کسریٰ کے تخت ہوں، کوئی قوت ان کو زوال سے نہ روک سکی۔
  • معاشرتی اخلاقیات: جن اقوام نے اپنی معاشرت کو ہواے نفس کا تابع بنا دیا اوراللہ کی جانب سے عطا کردہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو رد کرکے ان کی جگہ وہ طریقے ایجاد کیے جو غیرفطری تھے، اور اس سے پہلے انسانیت میں استعمال نہیں ہوئے تھے ( قرآن کریم صراحت سے بیان کرتا ہے کہ قومِ لوط کا عمل ان سے پہلےانسانوں میں رائج نہ تھا)، تو نتیجتاً انھیں بربادی سے کوئی نہ روک سکا۔ آج کے دور میں جنسی آزادی کے زیر عنوان ان غیر فطری اعمال کو ’بنیادی انسانی حقوق‘ بناکر پیش کیا جا رہا ہے اور مسلم معاشروں میں بھی بچوں کی تعلیم میں ان ’حقوق‘ کے ’احترام‘ کو داخل کیا جارہا ہے۔ یہ اور اس نوعیت کے دیگر طریقے جن میں مخلوط تعلیم ،ا بلاغ عامہ کا ہر موقعے پر مخلوط ماحول کو نمایاں کرنا اور معاشرت میں بد اخلاقی کے سبب طلاقوں کا بڑھ جانا، یہ وہ عوامل ہیں جو کسی تہذیب اور ملت کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتےہیں۔ نتیجتاً پورا معاشرہ یکایک اپنی عظیم الشان ظاہری شکل کے باوجود زمین بوس ہو جاتا ہے ۔

نظامِ زندگی کا مقام

اگر معروضی طور پر دیکھا جائے تو انسانوں کے رویے، طرز عمل اور معاملات ان کے  تصورِ زندگی اور مقصد ِحیات کا عکس ہوتے ہیں ۔اگرایک قوم یہ سمجھتی ہے یا اس کی تعلیم و تہذیب اسے یہ سکھاتی ہے کہ دنیا کی زندگی کا مقصد مسخرا پن (fun)، لذت اندوزی (enjoyment)، پُرسُرور مشغولیت (entertainment ) اورذاتی نفسیاتی انگیخت (self-stimulation )کا حصول ہے، تو پھر معیشت ہو یا معاشرت یا ثقافت، ہر شعبے میں اس کا عکس پایا جاتا ہے۔ معیشت کے میدان میں وہ اشیا جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں، غیر ضروری بن جاتی ہیں ۔ ساری معیشت وہ سامانِ عیش و عشرت پیدا کرنے میں لگ جاتی ہے جو خود پرستی اور مصنوعی طور پر اپنی ذات کو نمایاں کرنے میں مدد گار ہو۔ آرایشی مصنوعات (cosmetics)،  طرح طرح کے جنسی ترغیب والے عطریات اور غازے نہ صرف خواتین کے لیے بلکہ مردوں کے لیے، اور جنسی آوارگی کے بہت سے پُرتعیش سامان معیشت کے میدان پر چھا جاتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی بڑے شاپنگ سنٹر میں کثرت سے وہ دکانیں نظر آتی ہیں جہاں یہ سامان موجود ہوتا ہے۔ اس میں نشہ آور ادویات ، مشروبات ، نیم عریاں لباس ، فحش کتب ، ویڈیو اور آڈیو مواد، حتیٰ کہ موبائل پر تمام خبیث اور فحش مواد کی فراہمی معیشت کا حصہ بن جاتی ہے ۔
اگر مقصد ِحیات محض دولت کا حصول ہو تو پھر تعلیم گاہوں میں وہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں جن کی بازار میں مانگ ہو اور ہر طالب علم سرمایہ دارانہ نظام کا ایک گرگا بن کر نکلتا ہے، جو انسانوں کا خون چوس کر اپنی ہوس پوری کرنے کو اپنی معاشی فتح سمجھ کر شادیانے بجاتا ہے۔اس کے مقابلے میں اگر مقصدِ حیات ایک ذمہ دارانہ اخلاقی زندگی گزارانا ہو تو معیشت ہو یا سیاست، ثقافت ہو یا معاشرت، ان سب کی اقدار اور بنیادیں بدل جاتی ہیں اور وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جس میں مدینہ اور مکہ کی جھلک نظر آتی ہے۔لیکن ایسا کیوں نہیں ہو پاتا ؟ انسانی ذہن اس طرف کیوں نہیں جاتا؟ وہ کیوں چمک دمک میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور زندگی جیسی قیمتی شے کو مشروب کے ایک پیمانے میں ڈبو کر غرق کر دیتا ہے؟
بات کچھ ایسی مشکل بھی نہیں۔ قرآن کریم نے ان تمام امراض کے پیدا ہونے اور معاشرے میں فتنہ و فساد ، معیشت میں سودی لعنت ، معاشرت میں ظلم و استحصال ، ثقافت میں عریانیت و لذت پرستی اور سیاست میں فرعونیت کو دور کرنے کا آسان حل تجویز کیا ہے اور وہ ہے توحیدی نظام۔ یعنی زندگی سے تضادات کو ختم کر کے بہت سارے خداؤں کی جگہ صرف اور صرف اللہ سبحانہ ٗ و تعالیٰ کی بندگی میں آ جانا۔یہ کام محض انسانوں کے اللہ کی بندگی میں آجانے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے پورے نظام کو آمریت ، لادینیت اور ثنویت کے بتوں سے نجات دلا کر  اللہ وحدہٗ لا شریک کی بندگی میں لانے سے ہی ہو سکتا ہے۔

توحیدی نظامِ حیات

شرک محض اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ کی جگہ تین یا بہت سے خداؤں کے ماننے کا نام نہیں ہے، بلکہ زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دینے کا نام ہے۔ ایک خانہ حصول مال کا، ایک خانہ حصولِ اقتدار کا، ایک خانہ تفریح اور لذت کے حصول کا، اور ایک خانہ ہفتے میں ایک دن عبادت یا دن میں چند بار اللہ کو یاد کرلینے کا۔ اس کے مقابلے میں توحید کا مطالبہ ہے کہ انسان زندگی کے    تمام معاملات کو الہامی اخلاقیات کے ضابطے میں لائے ۔ اس کی معیشت حلال اور غیر استحصالی ہو۔ اس کی معاشرت باحیا ہو۔ اس کی ثقافت تعمیری ہو۔ اس کی سیاست عدل و توازن پر مبنی ہو۔ لیکن یہ سب کچھ جاننے کے باوجود پھر اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟
اس خرابی کا ذمہ دار اس کا زندگی کا تصور ہوتا ہے،یعنی وہ زندگی کو ایک اکائی تصور نہیں، بلکہ شعوری یا غیر شعوری طور پر زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتاہے۔ایک کو مذہب و اخلاق کا نام دیتا ہے اور باقی زندگی کو دنیا۔ اس طرح زندگی میں ثنویت اور دو رنگی (dualism )  اور لادینیت یا سیکولراز م کو رائج کرتا ہے ۔ کسی بھی انسانی معاشرے میں جب تک یہ تقسیم رہے گی، وہ ان تمام کمزوریوں کا شکار رہے گا جن کا تذکرہ اُوپر کیا گیا ہے۔جب تک ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بطور سیاست دان جو وعدے چاہے کر سکتا ہے تاکہ اسے ووٹ ملیں، اور وہ کسی نہ کسی طرح سربراہ مملکت بن جائے، اور ساتھ ہی وہ پابندی سے نماز بھی پڑھتا ہے، تو وہ عملاًایک سیکولر شخص ہے۔ اگرچہ وہ ہرچھے ماہ میں عمرہ کرتا ہو۔ ساتھ ہی اس کا سارا کاروبار سودی قرض پر چل رہا ہو اور وہ تجارتی معاملات میں صرف اپنے مفاد اور منافع کو اپنا ’خدا‘ مانتا ہو۔اپنی تمام ’مذہبیت‘ کے باوجود ایسا شخص صحیح معنوں میں سیکولر ہے۔
اگر ایک استاد اپنی یونی ورسٹی یا کالج یا مدرسے میں جو مضمون پڑھاتا ہے،اس مضمون کی بنیاد عوام کی حاکمیت کے تصور پر ہے یا صرف دولت اور قوت کے حصول پر ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہوکوئی حکمت عملی اختیار کر کے وہ اقتدار پر قابض ہو جائے اور معاشی وسائل پر قبضہ کر لے تو وہ سیکولر تصورِ حیات کی تدریس کر رہا ہے، چاہے وہ پنجگانہ نماز کے ساتھ تہجد بھی پڑھتا ہو، اور اس نے قرآن کریم کے اجزا بھی حفظ کر رکھے ہوں ۔ چونکہ وہ زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک رات کی تنہائی میں اللہ جل شانہٗ کے سامنے اظہارِ بندگی اور دوسرے دن کے ہر لمحے میں دولت ، اقتدار ، شہرت کے خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونا۔جب تک زندگی سے یہ دوعملی یا لا دینیت خارج نہیں ہوتی،  جس کو اسلام نے لا الٰہ الا اللہ کے جامع کلمے سے تعبیر کیا ہے ، اس وقت تک اس شخص نے توحید کو سمجھا، نہ اس کا مزہ چکھا ۔
قرآن ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے: اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج (البقرہ ۲:۸۵) ’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟‘‘ اور تمام انسانوں سے جو اللہ کی حاکمیت کے منوانے کے دعوے دار ہیں، مطالبہ کرتا ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہوجائو۔ اس لیے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنا شیطان کا راستہ ہے، رحمٰن کا نہیں۔ ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۝۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۲۰۸ (البقرہ ۲:۲۰۸) ’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
امام ابن تیمیہؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کے اس جامع تصور کو پیش کیا ہے۔ اس میں اقامت دین کا مطلب وہ کوشش ہے جو اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے ہو،اورا س جدو جہدکو کرنے کے لیے وہ افرادِ کار تیار کیے جائیں جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی شناخت ِ نو (re-branding) کی جگہ اپنی دعوت، اسلام کا مکمل نظام، اور اسلام میں پورے کا پورا داخل ہو جانے کا عزم رکھتے ہوں۔ جس میں ذاتی زندگی ، معاشی معاملات، سیاسی سرگرمی اور اہداف، ہر چیز توحید کے تحت ہے ۔اس میں خالص سیاسی اور خالص تربیتی اور  دعوتی تقسیم کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی ۔ روایتی علما نے جو دین اور دنیا کی تقسیم کے قائل تھے، جماعت اسلامی اور مولانا مودودی پر اسلام کو سیاسی رنگ دینے اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا اور بعض نے اس بنا پر جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر لی۔جماعت اسلامی کا امتیاز ہی یہ ہے کہ اس کی دعوت محض انفرادی اصلاح تک محدود نہیں، یہ کام تو صوفیہ اور بہت سے دوسرے اللہ کے بندے انجام دے رہے تھے۔ اس کی دعوت زمامِ کار کی تبدیلی کے لیے ایسے افراد کی تیاری اور تنظیم کی تھی اور ہے، جو اسلام کو اپنی زندگی میں مکمل طور پر نافذ کر چکے ہوں۔   اس کی قوت عددی یا پارلیمنٹ کی نشستوں میں نہیں تھی بلکہ افرادِ کار کے علم ، تقویٰ اور فراستِ دینی میں تھی۔ دوسرے الفاظ میں یہ دعوتی سعی و جہد، تزکیہ اور سیرت سازی کی مساعی ہے۔ اجتماعی اور سیاسی تبدیلی کے لیے جدوجہد ایک دوسرے سے مربوط اور کُلی تبدیلی کے مختلف پہلو اور ایک دوسرے کے لیے تقویت کاذریعہ ہیں۔
جب تعلیم کی بنیاد سیکولر ازم پر ہو جیسا کہ آج عملی طور پر ہو رہا ہے،تو پھر مسلم دنیا کے مدارس وہ دینی ہوں یا دنیوی، دونوں نظام دین و دنیا کی علیحدگی کے اصول کو عملاً اختیار کیے ہوئے ہیں، اور ثنویت اور دو رنگی کی وجہ سے معاشی ،سیاسی اور معاشرتی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔  وہ اسلام کے توحیدی تصور سے دورغیر شعوری طور پر قریب المیعاد سیاسی کامیابی کے حصول پر توجہ کے سبب طاغوتی جال کا شکار ہو جاتے ہیں ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سیکولر ازم کے زیر سایہ  جو نظام بھی کام کرے گاوہ آج نہیں تو کل انسانی ذہن کو الحاد کی طرف لے کر جائے گا ۔ جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ سودی کاروبار کرنے والا ایک شخص جو کل تک ایک چھوٹی دکان کا مالک تھا، آج   ایک بڑے کاروبار کا مالک ہے، تو زندگی کی تقسیم کے زیر اثر یہ سوچنے پر آمادہ ہو جاتا ہے کہ اصل زندگی تو دولت اور قوت والی ہی ہے ۔ اس طرح شیطان اپنے اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے جس کا اظہار اس نے جنت سے نکالے جانے سے قبل کیا تھا کہ وہ انسانوں کو لبھائے گا ، للچائے گا ، بہکائے گا، اور گمراہی میں مبتلا کر کے ایسے کلمات تک کہنے پر آمادہ کر دیتاہے کہ: اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ  (النزعٰت ۷۹: ۲۴) ’’میں تمھارا سب سے بڑا ربّ ہوں‘‘۔

مسائل کا حل: اسلامی نظامِ حکومت

آج جو اخلاقی زوال ، بے راہ روی، گمراہی، جنسی جرائم ، قتل و غارت ، چوری اور ذخیرہ اندوزی اور سیاسی حقوق کی پامالی کی شکل میں ہمیں نظر آ رہا ہے، اسے دُور کرنے کے لیے وہی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جو ہادی اعظمؐ اور محسن انسانیتؐ نے اُس دورِ جاہلیت میں استعمال کی جو آج کے دورِجاہلیت سے مختلف نہ تھا۔ اُس بگڑے معاشرے کی فکری تطہیر اور عمل کے تزکیے کے لیے توحید کاصحیح شعور پیش کرنا لازم کیا گیا تھا۔ بالکل اسی طرح آج الکتاب سے وابستگی اور براہِ راست اس کی ہدایات کو سمجھ کر زندگی کے تمام شعبوں میں نفوذ کا چیلنج درپیش ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے ان صالح افراد کو تلاش کرنا ہے، جو معاشرے میں اگرچہ موجود ہیں اور وہ ہدایت کو تلاش بھی کررہےہیں، لیکن ہم ابھی ان تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ آگے بڑھ کر ہمیں ان کو منظم کرنا ہو گا۔    ان کے ایسے حلقے قائم کرنے ہوں گے جہاں وہ قرآن و سنت کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ زندگی کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کا ذریعہ بن سکیں اور اس طرح عملی شکل میں اس کے نمونے بن سکیں۔ نیز اس تنظیم کے افراد کے ذریعے معروف کو قائم کرنے اور منکر، بدی اور برائی کو دُور کرنے کے لیے غیر حکومتی بنیادوں پر ایسے ماڈل نظامِ عدل و احسان کو قائم کرنا، جو قرآن و سنت کی تعلیمات و ہدایات کو ایک محدودپیمانے پر معیشت، معاشرت ، سیاست ،ثقافت اورتعلیم کے میدان میں، غرض زندگی کے تمام اہم شعبوں میں، اپنی اپنی جگہ عملی طور پر ایک چھوٹی ریاست کی شکل میں قائم کرکے دکھا دیں۔ 
دین کی یہ اقامت معاشرتی سطح پر وہ نمونہ پیش کرے گی جو تحریک اسلامی ملکی سطح پر قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس کام کی نصرت اورامداد کا وعدہ رب کریم نے خود فرمایا ہے کہ وہ ان افراد کی استعانت کرے گا جو اس کے راستے میں نکلیں گے اوراللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو اپنی ذاتی زندگی میں، گھر اور خاندان میں ، معاشرے اور معیشت میں ،ثقافت و تعلیم میں نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ان کی مدد فرشتوں سے کرے گا ۔
اس پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے تحریک اسلامی کو معاشرے کے صالح عنصر کو منظم کرنا ہوگا اور ایسا نظامِ تربیت تیار کرنا ہو گا جو فکری اور عملی لحاظ سے ہر گاؤں اور قریے میں ایسے افراد معاشرے کے سامنے پیش کر سکے ، جنھوں نے تمام حاکمیتوں کی نفی کرکے صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کو اپنی فکر ، اپنے خاندان ، اپنے کاروبار ، اپنی سیاست اور اپنی دعوتی زندگی میں رائج کر دیا ہو۔ اصل سرمایہ وہ اخلاقی رویہ ہے جو غیر نمایشی ہو ،خلوصِ نیت پر مبنی ہو، اور جسےصلے کی طلب نہ ہو۔   انبیاے کرامؑ کا کہنا صرف یہ تھا کہ وہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور ان سے کوئی اجر نہیں مانگتے۔ ربِّ کریم اس طرز عمل سے خوش ہو کر انھیں زمین میں اپنا وارث بناتا ہے اور اس طرح وہ اخلاقی انقلاب برپا ہوتا ہے جو معاشرے کو مثالی نمونہ بنا دیتا ہے ۔یہ جدوجہد بالآخر اسلامی نظامِ حکومت کے قیام پر منتج ہوکر رہتی ہے۔
معاشرے میں صالح افراد کی تیاری کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کا ایسا کام جس میں صلے کی خواہش نہ ہو، صرف ربّ کی رضا مقصود ہو ، کامیابی کی ضمانت ہے۔خدمت خلق کسی منفعت کے حصول کے لیے کرنا، تمام اُخروی اجر کو ضائع کر دینا ہے۔ یہی وہ دعوت کی کامیابی کا راز ہے    جسے ایک عام نظر نہیں دیکھ سکتی کیوں کہ ایک عام نظر قریبی فاصلوں اور منزلوں کو حقیقی سمجھتی ہے۔ ایک دُور رس تحریکی نگاہ اُخروی کامیابی کے پیش نظر فوری مفاد کو نظر انداز کر کے استقامت ،صبر اور حکمت دینی کے ساتھ نتائج سے بے پروا ہو کر اپنا تن من دھن ، فکر و صلاحیت، اپنا ہر سانس اور ہرقطرۂ خون دعوت کی آبیاری میں لگا دیتی ہے کہ اصل کامیابی آخرت کی ہے۔ دنیا میں صرف رب کریم کی عنایت و فضل سے اگر اختیار و اقتدار ملے تو وہ صرف اُس کی میراث ہے اور وہی اس میراث کو دینے والا ہے ۔اُسی کو علم ہے کہ وہ کتنے عرصے میں میراث اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ اسلامی انقلابی دعوت وقت کے پیمانوں سے آزاد ہے۔اس کا سارا تعلق اخلاص نیت اور بےلوث جدوجہد سےہے ۔ یہ اللہ کی رضا کے حصول کو اپنا ہدف قرار دیتی ہے، اور جب یہ کام استقامت سے کیا جاتا ہے تو بالآخر زمامِ کار اس کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو پورا ہوکر رہتا ہے۔

مصر کی تاریخ میں ۱۷جون۲۰۱۹ء نے ایک یادگار حیثیت حاصل کرلی ہے۔ 
۱۷جون ۲۰۱۲ء وہ روشن دن تھا، جب جدید مصر ( جس کا آغاز ۱۹۵۲ء میں شاہ فاروق کے تخت چھوڑنے سے ہوا تھا) میں پہلاآزاد جمہوری انتخاب منعقد ہوا۔ اس کے نتیجے میں ڈاکٹر محمد مرسی عیسیٰ العیاط صدرِ مملکت منتخب ہوئے۔ وہ ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ (حزب الحریۃ والعدالۃ) کے نامزد اُمیدوار تھے۔ مگر مصر میں جمہوری دور کے آغاز کا جو امکان پیدا ہوا تھا، بدقسمتی سے ایک حریصِ اقتدار جنرل عبدالفتاح السیسی نے بیرونی طاقتوں کے اشارے پر، چند روزہ ہنگاموں کا ڈراما رچایا، اور حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ اس طرح ایک سال اور تین دن بعد ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو حکومت پر ناجائز قبضہ کرکے جمہوریت کے اس چراغ کو ضوفشاں ہونے سے پہلے ہی بجھا دیا۔ یوں اکیسویں صدی میں فرعونی استبداد اور ریاستی دہشت گردی کا ایسا آغازہوا کہ جس کا نہایت گہرا زخم ۱۷جون ۲۰۱۹ء کو ٹھیک سات سال بعد منتخب صدرمحمدمرسی کی کمرئہ عدالت میں شہادت ہے۔ 
اس الم ناک واقعے نے ایک بار پھر ساری دنیا کے سوچنے سمجھنے والے افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ خصوصیت سے مصر کے عوام کو، اور دنیا کے ہرگوشے میں مسلمانوں کو آمرانہ اقتدار اور ظلم کے نظام کے خلاف نئی جدوجہد کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔ صدر ڈاکٹرمحمد مرسی کی زندگی کو، جو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ کر اس خوش فہمی میں تھے کہ ان کی زندگی کے چراغ کو گل کرکے وہ محفوظ ہوجائیں گے، ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان شاء اللہ ان کے اقتدار اور ظلم کے اس نظام کے لیے شہید مرسی اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ یہ تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے:وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝  (احزاب ۳۳:۶۲)’’اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی‘‘۔
جارج ٹائون یونی ورسٹی،واشنگٹن کے پروفیسر عبداللہ الریان نے ’الجزیرہ ویب پیج‘ میں  شائع شدہ اپنے مضمون میں بڑی سچی بات لکھی ہے، جس کے آئینے میں مستقبل کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے:

اوریوں ان کی صدارت،درحقیقت شروع ہونے سے قبل ہی ایک ناخوش گوارانجام کو پہنچ گئی۔مرسی کادورحکومت،ایک جمہوری مستقبل کی خاطر محض ایک وقتی اورموہوم سی امید کا پیکر تھا، جوبے رحم مطلق العنان حکمرانوں کے طویل دورکے بعد، ان [مرسی]  کی طرف سے صدرکے پرشکوہ منصب پرفائزہونے میں نظرآیاتھا۔
لیکن ان کے جانشین [جنرل سیسی] کوجلد ہی یہ احساس ہوجائے گاکہ اس موہوم سی اُمید [یعنی جمہوریت کے احیا]کا چراغ بجھانابہت ہی مشکل ہوگا۔اس [نام نہاد] فوجی انقلاب کے چھے برس بعد بھی بہت سے مصری شہری، موجودہ حکومت کو ایک مسلسل غیرقانونی اور ناجائز حکومت تصورکرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ السیسی حکومت جس کاطرۂ امتیاز انسانیت دشمنی ہے، اس نے سابق صدر[ محمد مرسی]کی تدفین بھی کھلے عام نہیں ہونے دی، بلکہ جلدبازی، بدحواسی اور بوکھلاہٹ میں سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی ان کی میت کو دفن کردیا،جب کہ مرسی کے خاندان کے محض [آٹھ] افراد کو تدفین میںشرکت کی اجازت دی۔(الجزیرہ،۲۴جون ۲۰۱۹ء)

مرسی کا سفرِشہادت

محمد مرسی، نیل ڈیلٹا میں واقع شمالی مصر کے ایک چھوٹے سے گائوں ’العدوہ‘ میں ۲۰؍اگست ۱۹۵۱ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک دین دار متوسط درجے کے کاشت کار تھے۔ ابتدائی تعلیم گائوں کے قریبی علاقے میں حاصل کی اور آمدورفت کی مشکلات اور اسکول دُوردراز ہونے کے باعث گدھے پر بیٹھ کر جاتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبہ میٹلرجیکل انجینئرنگ سے حاصل کی۔ بی ایس سی اور ایم ایس سی کے امتحانات امتیازی شان سے پاس کیے۔ سرکاری وظیفہ حاصل کیا اور امریکا کی یونی ورسٹی آف سائوتھ کیرولائنا سے میٹریل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی سند ِفضیلت حاصل کی۔ چندسال امریکا ہی کے تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ امریکا جانے سے پہلے فوجی تربیت بھی حاصل کی اور مصر واپس آکر زقازیق (Zagazig) یونی ورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دینے لگے۔ اعلیٰ تعلیم کے دوران مصر ہی میں اخوان المسلمون کی دعوت و تحریک سے متاثر ہوئے اور رکنیت اختیار کی۔ امریکا میں قیام کے دوران وہاں پر بھی دعوتِ دین اور خدمت ِ خلق کے کاموں میں مصروف رہے۔
مصر واپس آنے کے بعد ۲۰۰۰ء میں آزاد نمایندے کے طور پر پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور بحیثیت رکن پارلیمنٹ اچھی شہرت حاصل کی۔ سابق مصری آمر حسنی مبارک کے دور میں دوبار  جیل بھی گئے۔ اخوان کے مرکزی پالیسی ساز ادارے مکتب الارشاد کے رکن رہے۔ ۲۰۰۷ء میں  نئی سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے والی کمیٹی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جب ۲۰۱۱ء میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ قائم ہوئی، تو اس کے صدر منتخب ہوئے۔ آپ ۲۰۱۲ء کے صدارتی انتخاب میں متبادل صدارتی اُمیدوار تھے، لیکن جب الیکشن کمیشن نے ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کے صدارتی اُمیدوار محمدخیرت سعدالشاطر کو نااہل قراردے دیا، تو ڈاکٹر محمدمرسی صدارتی اُمیدوار کے طور پر سامنے آئے، جو دوسرے رائونڈ میں ۵۱ء۷۳ فی صد ووٹ لے کر حسنی مبارک کے دور میں وزیراعظم اور ایئرفورس کے سابق سربراہ احمد شقیق کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔ 
۳۰جون ۲۰۱۲ءکو صدارتی حلف لے کر ذمہ داری سنبھالی۔ ایک ہی سال بعد ۳۰جولائی ۲۰۱۳ء کو فوجی سربراہ اور وزیردفاع جنرل السیسی نے اقتدار پر قبضہ کرکے، چار ماہ تک ان کو نامعلوم مقام پر قید تنہائی میں رکھا۔ پھر ان پر متعدد مقدمات قائم کر کے مصر کی بدنام ترین ’الطرۃ جیل‘ میں بھی قیدتنہائی میں ڈال دیا۔ان بے سروپا مقدمات میں، قومی رازوں کے افشا، اہرامِ مصر کی مبینہ فروخت، اور بکریوں کی چوری تک کے مضحکہ خیز الزامات لگاکر دسیوں بار موت اور عمرقید کی سزائوں کا مطالبہ کردیا۔ صدرمرسی کو (جو شہادت کے وقت تک قانونی طور پر مصر کے صدر تھے) لوہے کے ایک پنجرے میں بند رکھا گیا، جس میں وہ دن رات ۲۴گھنٹے محبوس رہتے تھے۔ جسمانی تشدد کے علاوہ خوراک، ادویہ اور علاج کی سہولتوں سے انھیں محروم رکھا گیا۔ اس طرح  ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ایسے شخص کو، جو ذیابیطس، گردوں، اور بلڈپریشر کا مریض تھا، موت کے منہ میں دھکیلنے کی مذموم حرکت کی۔ 
الحمدللہ، ڈاکٹر محمد مرسی نے یونی ورسٹی کی تعلیم کے دوران قرآن حفظ کرلیا تھا، اور یہ نُور چالیس سے زیادہ برسوں تک ان کے سینے میں امانت رہا۔ لیکن مصر کے ظالم حکمرانوں اور جیل کے عملے کا حال یہ تھا کہ رمضان میں ڈاکٹر محمدمرسی نے قرآن پاک کا نسخہ ہاتھ میں پکڑنے، چھونے اور آنکھوں سے لگانے کے لیے مانگا تو اس سے بھی انکار کر دیا گیا۔چھے سال کی قید کے دوران میں انھیں صرف تین بار اہلِ خانہ سے (اہلیہ اور بچوں) اور دوبار وکیل سے ملنے دیا گیا، حتیٰ کہ جب وہ عدالت میں لائے جاتے تھے، تو اس وقت بھی وہ اپنے اہلِ خانہ یا وکیل سے نہیں مل سکتے تھے۔ ۱۷جون ۲۰۱۹ء کو وہ ایک پنجرے میں بند تھے اور دوسرے بڑے پنجرے میں اخوان کے دوسرے زعما بند تھے۔ جب ڈاکٹر محمد مرسی بے ہوش ہوکر گرے، تو وہ ۳۰ سے ۴۰منٹ تک زمین پر پڑے رہے۔ اخوان کے دوسرے زعما جو دوسرے پنجرے میں تھے، ان میں پانچ ڈاکٹر بھی تھے جو چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ: ’’ہمیں ڈاکٹر مرسی کو دیکھنے دیا جائے‘‘ مگر ظالم جج اور جیل عملے کے ارکان ٹس سے مَس نہ ہوئے۔ ہسپتال لے جانے اور بے ہوش ہو کر گرنے میں ۴۰منٹ کا فاصلہ ہے، جس میں وہ اللہ کو پیارے ہوگئے: اِنَّـا لِلہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
ہسپتال میں ان کی موت کے تعین کی رپورٹ تک نہیں تیار کی گئی، اور صرف یہ کہا گیا: ’’ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے‘‘۔ حالانکہ ہارٹ اٹیک کی ان کی کوئی ہسٹری نہ تھی۔ ڈاکٹر مرسی کو ذیابیطس اور گردوں کے امراض تو تھے، مگر دل کی تکلیف کبھی نہیں ہوئی تھی۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل ہدف، ان کو علاج سے محروم رکھ کر موت کی طرف دھکیلنا تھا۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر مرسی شہید کے صاحبزادے نے بجاطور پر حکومت پر ان کو ارادے سے قتل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ پھر دوسرے تمام اداروں بشمول اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے نمایندے، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ اور وکلا کے وفد نے (جو ایک سال پہلے مارچ ۲۰۱۸ء میں محمدمرسی کو دیکھنے مصر گیا تھا،اور جسے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی) تمام ضروری تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ: ’’ان کو علاج کی ضروری سہولتوں، غذا اور جسمانی راحت سے محروم رکھنے کا جو رویہ اختیار کیا گیا ہے، وہ اگر ایک طرف تشدد (torture ) کی حدود کو چھورہا ہے تو دوسری طرف ان کو موت کی طرف دھکیل رہا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ صدر طیب اردوغان اور پاکستان سینیٹ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ: ’’ان کی شہادت کے حالات کی آزاد ذرائع سے بلاتاخیر تحقیق ہونی چاہیے‘‘۔ شہید محمد مرسی کے صاحبزادے نے تو الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے، جنرل سیسی، تین ججوں، ایڈووکیٹ جنرل اور چند دوسرے افراد کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

عالمی ضمیر کی گواہی

ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں چند اداروں اور ان کے ذمہ دار حضرات کے مطالبے کو اپنی اس تحریر کا حصہ بنا لیں، جو الجزیرہ ٹی وی نے اپنی ۱۹جون سے لے کر ۲۳جون کی نشریات میں اُٹھائے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمایندے ریوپرٹ کول ولے نے ڈاکٹر مرسی کے اہلِ خانہ، وکلا اور دوسرے افراد کی طرف سے اُٹھائے گئے سوالوں اور سرکاری رویے کی روشنی میں مطالبہ کیا ہے کہ اس پورے معاملے میں آزادانہ اور غیر جانب دارانہ تحقیق ضروری ہے:

ان کی موت کے حالات اوروجوہ کاتعین کرنے کے لیے ایک ایسے عدالتی یاکسی دیگر مجازادارے سے تحقیق کرائی جائے جوحراستی مجازادارے کے اثرسے آزاد ہو، اور  اسے فوری،غیرجانب دار اورمؤثر تفتیش کرنے کااختیارحاصل ہو۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW)کی شرقِ اوسط کی ڈائرکٹر سارہ لیہہ وہیٹ سن نے کہا ہے کہ: ’مرسی کی موت ایک اندوہناک مگر مکمل طور پر قابلِ فہم واقعہ ہے، جو نتیجہ ہے حکومت کا ان کو طبی سہولتیں نہ دینے کا‘۔ ’الجزیرہ‘ کے مطابق سارہ لیہہ کا موقف ہے:

ہم گذشتہ کئی برس سے جس امر کااظہار کرتے رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ: ’وہ [مرسی] انتہائی بدترین حالات کاشکاررہے ہیں۔جب بھی وہ جج کے رُوبرو پیش ہوتے،وہ ذاتی حیثیت سے طبی نگہداشت اورعلاج کے حوالے سے درخواست کرتے‘۔

انھیں مناسب خوراک اورادویات سے محروم رکھاجاتارہا۔مصری [فوجی]حکومت کو  ان کی گرتی ہوئی صحت کے متعلق مسلسل باخبر رکھا جاتارہا۔ان کاوزن بہت زیادہ کم ہوگیاتھا اور وہ متعدددفعہ عدالت میں بھی بے ہوش ہوکر گرتے رہے۔
انھیں قیدتنہائی میں رکھاگیا،جہاں انھیں ٹیلی ویژن،ای میل یاپھرکسی دیگرذرائع ابلاغ تک رسائی حاصل نہیں تھی، کہ وہ اپنے دوستوں یاخاندان سے رابطہ کرسکتے۔ وٹسن نے اس بناپر یہ موقف پیش کیا کہ: ’مرسی کی موت کے متعلق کوئی بھی قابل اعتبار آزادانہ تفتیش نہیں ہوگی،کیونکہ ان [مصری حکومت] کاکام اورکرداریہ ہے کہ کسی بھی غلط کاری سے خودکوبری قراردے دیں‘۔ (الجزیرہ، ۱۹جون ۲۰۱۹ء)

ایک بڑی اہم گواہی برطانیہ کے ’انڈی پنڈنٹ ڈی ٹنشن ریویو پینل‘ کی ہے، جس کے سربراہ سر کرسپین بلنٹ ہیں۔ اس پینل میں برطانوی پارلیمنٹ کے تین ارکان اور دو آزاد وکلا تھے، جو    مارچ ۲۰۱۸ء میں مصر گئے تاکہ ڈاکٹر مرسی کی صحت اور طبی سہولتوں کا جائزہ لیں۔ مگر انھیں ڈاکٹر محمدمرسی سے ملنے نہیں دیا گیا۔ آزاد ذرائع سے جو معلومات اس وفد نے حاصل کیں، ان کی بنیاد پر انھوں نے اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا۔طبی سہولتوں کے فقدان، غذا اور دوسری تمام محرومیوں کی بنا پر صاف الفاظ میں ’قبل از وقت موت‘ (premature death) کے اندیشے کا اظہار کیا اور عالمی راے عامہ کو  خبردار کرنے کے لیے آواز بلند کی ۔ مرسی کی شہادت پر سر کرسپین بلنٹ نے بھی مطالبہ کیا ہے:
مصری حکومت کایہ فرض ہے کہ: ’’وہ ان کی بدقسمت موت کاسبب بتائے اورحراست کے دوران ان کے ساتھ کیے گئے سلوک کی مناسب جواب دہی ہونی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنھوںنے ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا،نہ صرف وہ قابلِ تعزیرہیں بلکہ وہ لوگ بھی سزاکے مستوجب ہیں جنھوںنے اس سازش میںحصہ لیا‘‘۔انھوںنے ایک بیان میںکہا:’’اس صورت کی تلافی کے لیے اس وقت جو قدم ضروری ہے وہ یہ کہ اس کی آزادانہ عالمی تحقیق کی جائے‘‘۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل (AI)نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے:

ہم مصری حکام سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قیدتنہائی اوربیرونی دنیاسے عدم رابطہ سمیت ان کی موت کے حالات کی ایک غیرجانب داراورشفاف تحقیق کرائی جائے ۔

لندن سے انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا:

’مصری حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیاگیاکہ مرسی کو فراہم کردہ طبی امدادکی بھی تحقیق کرائی جائے اور جو کوئی بھی ان سے بدسلوکی کا ذمہ دار پایاجائے،اسے سزادی جائے‘۔
ترکی کے صدر طیب اردوغان اور پاکستان کی سینیٹ نے بھی اپنی متفقہ قرارداد میں آزاد تحقیق اور مجرموں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔خود ڈاکٹر محمد مرسی نے اپنے انتقال سے قبل عدالت کو مخاطب کر کے اپنے ساتھ اس ظالمانہ رویے کی شکایت کی تھی، مگر عدالت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

مرسی کے آخری کلمات

جج صاحب! مجھے کچھ بولنے کی اجازت دیں۔ مجھے قتل کیا جارہا ہے، میری صحت بہت خراب ہے۔ ایک ہفتے کے دوران میں دو دفعہ بے ہوش ہوا، لیکن مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا گیا۔ میرے سینے میں راز ہیں، جنھیں اگر ظاہر کروں، میں جیل سے تو چھوٹ جائوں گا، لیکن میرے وطن میں ایک طوفان آجائے گا۔ ملک کو نقصان سے بچانے کے لیے میں ان رازوں سے پردہ نہیں ہٹا رہا۔ میرے وکیل کو مقدمے کے بارے میں کچھ پتا نہیں اور نہ مجھے پتا ہے کہ عدالت میں کیا چل رہا ہے؟
۳۵سیکنڈ کی اس گفتگو کے بعد سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑپوتے الشریف قتادہ بن ادریس کا یہ مشہور زمانہ شعر پڑھا اور بے ہوش ہوکر گرگئے:

بِلَادِی وَ اِنْ جَارَتْ عَلَیً عَزِیْزَۃٌ                    وَاَھْلِی و  اِنْ     ضَنَوا عَلَیً کِرَامُ

میرا وطن مجھے عزیز ہے، اگرچہ وہ مجھ پر ظلم کرے۔ اور میرا خاندان قابلِ احترام ہے اگرچہ وہ میرے ساتھ کنجوسی سے پیش آئے۔
مصر کی حکومت نے ڈاکٹر مرسی اور خاندان کی خواہش کے مطابق انھیں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیے جانے کی اجازت نہیں دی۔ عام جنازہ بھی نہ کرنے دیا۔ صرف ان کی اہلیہ، دوبیٹوں اور بھائیوں پر مشتمل صرف آٹھ افراد نے جیل کی مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کی اور قاہرہ کے اس قبرستان میں خاموشی سے دفن کر دیا گیا، جہاں اخوان کے دو سابقہ مرشدعام ابدی نیند سو رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد مرسی سے میرا قریبی تعلق نہیں رہا۔ ایک بار ان سے امریکا میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں ملاقات ہوئی، اور دوسری اور آخری بار مارچ ۲۰۱۳ء اسلام آباد میں، جب وہ پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائے۔ اس وقت امیرجماعت اسلامی پاکستان، برادر عزیز و محترم سیّد منورحسن کی سربراہی میں جماعت کے وفد نے ان سے ملاقات کی۔ ان کی طبیعت بڑی سادہ اور اندازِگفتگو بڑا دوستانہ اور حکیمانہ تھا۔ تحریکی مسائل پر بہت جچی تلی بات کرتے تھے اور اپنی بات دلیل سے پیش کرتے تھے۔ 
اخوان نے ۲۰۰۷ء میں اپنی نئی سیاسی حکمت عملی بنانے کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی، ڈاکٹر مرسی اس کے ایک اہم رکن تھے اور میرے علم کی حد تک ابتدائی ڈرافٹ انھی نے تیار کیا تھا۔ مجھے بھی اس مسودے کو دیکھنے کا موقع ملا اور جسے میں نے ایک بہت ہی مثبت اور وقت کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش سمجھا۔ بعد میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کا قیام اسی کمیٹی کی تجویز کا حاصل تھا۔ اسلام آباد کی نشست میں انھوں نے ہم سے بہت کھل کر بات کی اور ان سے بات کرکے حالات سمجھنے میں مدد ملی۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ اصل اختیار و اقتدار کہیں اور ہے۔ اس لیے اخوان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑرہا ہے اور وہ تصادم سے بچتے ہوئے آہستہ آہستہ اختیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
فلسطین کے بارے میں مرسی حکومت نے جو واضح موقف اختیار کیا تھا، اس پر ہم نے انھیں مبارک باد دی اور میں نے خصوصیت سے کشمیر کے مسئلے پر ان کو کردار ادا کرنے کی دعوت دی، جس پر انھوں نے کہا کہ: ’’ہم ضرور اپنا فرض ادا کریں گے‘‘ اور مجھ سے کہا کہ: ’’ایک نوٹ میرے لیے تیار کردیں، جس میں واضح ہو کہ مصر کیا کرسکتا ہے؟‘‘ میں نے دو ہفتے میں وہ نوٹ بنا کر ان کو بھیج دیا، لیکن بدقسمتی سے اس ملاقات کے تین مہینے کے اندر ہی ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔

صدر مرسی کا دورِ حکومت و خدمات

ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں نے جو کارنامہ ایک سال کے مختصر وقت میں انجام دیا،  وہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ افسوس ہے کہ اس کا ادراک پاکستان میں اور پاکستان سے باہر کی دنیا کو نہیں۔ امریکا، مغربی میڈیا، عرب میڈیا اور خصوصاً فوجی حکومت نے جو غلط فہمیاں پھیلائی ہیں، اور غلط بیانیاں کی ہیں، ان کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت حالات کو قابو نہ کرسکی۔ جن حالات میں ڈاکٹر مرسی اور ان کے ساتھیوں نے زمامِ کار سنبھالی اور جن اندرونی اور بیرونی قوتوں سے ان کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، انھیں دیکھا جائے تو میں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ ان کا ایک سال ہراعتبار سے کامیاب اور نئی منزل کی طرف لے جانے کی معتبر کوشش تھی۔
سب سے پہلی بات یہ سامنے رہنی چاہیے کہ اخوان اپنی زندگی کے ۹۱ سالوں میں سے کم از کم ۸۰سال کش مکش اور ابتلا کاشکار اور حکومت اور سامراجی قوتوں کا ہدف رہے ہیں۔ اس کش مکش کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے دوران، فلسطین میں برطانوی سامراجی چالوں اور صہیونی قوتوں کے خطرناک کھیل کی وجہ سے ہوا۔ اخوان نے نہرسویز پر برطانوی قبضے، اور فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی بستیوں کو بسانے اور اسرائیل کے قیام کی سازشوں کی مخالفت اور مزاحمت کی، اور یہیں سے برطانیہ، صہیونیت اور مصری حکومت سے اخوان کی ہمہ پہلو کش مکش کا آغاز ہوا۔ 
امام حسن البنا کو ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو شہید کیا گیا اور شاہ فاروق کی حکومت نے ان کے جنازے تک کی اجازت نہیں دی۔ بالکل وہی منظر تھا، جو ڈاکٹر مرسی کی شہادت کے موقعے پر بھی دیکھنے میں آیا۔ لیکن اخوان نے بڑے صبروتحمل سے اس آزمایش کو برداشت کیا۔ پھر جمال ناصر پر حملے کا   ڈراما رچا کر ہائی کورٹ کے سابق جج عبدالقادر عودہ اور مجاہد اعظم شیخ محمدفرغلی سمیت اخوان کے چھے قائدین کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ اخوان کے ہزاروں کارکنوں، مرد و خواتین کو جیلوں میں ایسی صعوبتوں کا نشانہ بنایا گیا، جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 
۱۹۴۹ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک اخوان پر مظالم اور پابندیوں کی المناک تاریخ ہے۔ یہ ایک کرشمۂ قدرت ہے کہ اتنی مخالفت، اتنی تعذیب، اتنے پروپیگنڈے اور سیاسی دہشت گردی کا مسلسل نشانہ بننے کے باوجود تحریک نہ صرف زندہ رہی بلکہ دعوت، تربیت، خدمت اور بالآخر سیاسی اثرورسوخ میں بھی ہر میدان میں نئی بلندیوں کی طرف سفر کرتی رہی۔ اس پورے زمانے میں فوج، پولیس، عدلیہ، انتظامی مشینری، روایتی مذہبی قیادت اور ادارے بشمول الازہریونی ورسٹی، میڈیا اور مفاد پرست اشرافیہ اخوان کے خلاف صف آرا رہے۔ 
اس پس منظر میں ڈاکٹر مرسی کا صدارتی انتخاب میں کامیاب ہونا اور پارلیمنٹ میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کی اکثریت کا حصول، جہاں ایک بہت بڑا سیاسی کارنامہ ہے، وہیں یہ مخالف قوتوں کے لیے ایک چیلنج اور اشتعال دلانے والے سرخ رومال کی حیثیت اختیار کر گیا۔ مرسی صاحب کے ۵۲فی صد کے مقابلے میں ۴۸ فی صد ووٹ لینے والی قوتوں نے اپنی شکست قبول نہیں کی تھی۔ ان کی ساری کوشش مرسی حکومت کو ناکام بنانے پر مرکوز ہوگئی۔ فوج، پولیس، عدلیہ اور انتظامیہ   سب نے مل کر اخوان کے خلاف محاذ بنالیا۔ ڈاکٹر مرسی کے صدارت کی ذمہ داری اختیار کرنے سے پہلے ہی فوجی کونسل نے صدر کے تمام اختیارات قومی کونسل کو سونپ دیے۔ عدالت نے بھی انتظامیہ کے اختیارات پر شب خون مارا۔ منتخب پارلیمنٹ کو عدالت کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ مرسی صاحب کو پارلیمنٹ میں حلف تک لینے سے روک دیا گیا۔ اس لیے انھوں نے حلف بھی تحریر اسکوائر پر لیا۔ 
جب محمد مرسی صدرمنتخب ہوئے تو اس وقت فوج کے ۷۸سالہ سربراہ جنرل محمد حسین طنطاوی ۱۵سال کی توسیع ملازمت لے چکے تھے، اور مزید کے لیے سازشیں کر رہے تھے۔ جنرل طنطاوی کو ہٹا کر صدر مرسی نے جنرل عبدالسیسی کو ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ء کو مصری فوج کا سربراہ مقرر کیا۔
صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے پہلا کام یہ کیا کہ اسلام سے وفاداری کو( جو دستور کا حصہ تھا) اور مصر کی خودانحصاری اور آزادی کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا۔ سادگی کو عملاً اختیار کیا۔ پہلے دن سے صدرمملکت اور ان کی پوری ٹیم نے سرکاری پروٹوکول کو ترک کرکے عوام کے ساتھ برابری کا رویہ اختیار کیا۔ صدرمرسی کی بہن شدید بیمار تھیں، لیکن ان کو علاج کے لیے باہر نہیں بھیجا، اور قاہرہ ہی کے ہسپتال میں زیرعلاج رہیں جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔ صدر مرسی نے مقتدر طبقات کے امتیازی اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی، جس پر انھیں قدم قدم پر مزاحمت کا سامنا کرناپڑا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مفادپرست عناصر نے ماضی میں حکمرانی کا فائدہ اُٹھانے والے، نیز لبرل اور سیکولر حلقوں کو اسلام کا ہوّا دکھا کر  مرسی حکومت کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے سارے وسائل لگادیے۔ صدافسوس کہ اس میں روایتی مذہبی عناصر، اور سلفی تحریک کی قیادت بھی شامل ہوگئی۔

مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کوششیں

صدرمرسی کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ غزہ اور مغربی فلسطین پر جو پابندیاں مصر کی حکومت نے لگائی ہوئی تھیں اور رفح کی جو سرحد بند کی ہوئی تھی، اسے فوراً کھول دیا۔ حماس پر اسرائیل نے جو زندگی تنگ کی ہوئی تھی، اس کی تلافی کے لیے مؤثر اقدام کیے اور فلسطین کے مسئلے کو مصر کی اوّلین ترجیح قرار دیا، حتیٰ کہ ستمبر ۲۰۱۲ء میں صدر مرسی نے اقوامِ متحدہ میں جو خطاب کیا اس میں سب سے پہلے اور نہایت جان دار الفاظ میں مسئلہ فلسطین کو پیش کیا۔ اس کے حل کا مطالبہ اور اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے خلاف اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ 
واضح رہے کہ تصادم سے بچنے کے لیے مرسی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اس امر کا بھی اعلان کردیا تھا کہ مصر کے ماضی میں کیے گئے تمام عالمی معاہدات کا احترام کیا جائے گا۔ حماس کی حمایت کی وجہ سے اسرائیل اور مصر نے غزہ کے عوام پر زندگی تنگ کردی تھی، صدرمرسی نے انھیں  اس عذاب سے فوری نجات دلائی اور نقل و حرکت اور تجارت کی راہیں ہموار اور کشادہ کیں۔ القدس اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور فلسطین کے حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کی کھل کر تائید و حمایت کی، جو مصر کے سابق صدر انوارالسادات اور صدر حسنی مبارک کی حکومتوں کی شرم ناک اسرائیل نواز چالوں کے برعکس ۱۰۰ فی صد معکوس تبدیلی (reversal) تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے برملا کہا کہ: ’’ہم نے مرسی حکومت سے معاملہ طے کرنے اور سابقہ مصری حکومت سے جو بندوبست کیا ہوا تھا، اس پر تعاون کے لیے ہرکوشش کی، لیکن مقبوضہ علاقوں کے بارے میں کسی انتظام پر مرسی حکومت تیار نہ ہوئی اور پھر ہماری ساری کوشش اس حکومت سے نجات پر مرکوز ہوگئی‘‘۔ یہی کوشش روس، امریکا اور یورپی ممالک کی تھی اور بدقسمتی سے یہی رویہ خود مشرق وسطیٰ کے کئی عرب ممالک نے اختیار کیا۔ حتیٰ کہ مرسی حکومت کے خلاف بغاوت کی مالی اعانت اور پشت پناہی کے لیے چندعرب ممالک نے مصر کے غاصب حکمران، جنرل سیسی کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ 
یہ تھے وہ حالات، جن میں مرسی حکومت نے ایک سال اور تین دن گزارے، اور وہ بھی اس طرح کہ ان عناصر نے نیا دستور بننے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، عدلیہ نے قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالیں، اور عسکری قوتوں نے سول حکومت کو غیرمؤثر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر نام نہاد عوامی بغاوت کے تانے بانے بُنے گئے اور وہ سب عناصر جو ماضی کی حکومتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے یا جو نظریاتی طور پر اسلامی قوتوں کے مخالف تھے، سب کو مرسی حکومت کے خلاف صف آرا کیا گیا۔ ان تمام حالات میں حکومت کا  ایک سال چلنا بھی ایک بڑی کامیابی تھی۔ مخالفت کے اس پورے طوفان اور میڈیا کی یلغار کے باوجود یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ مرسی حکومت کو عوام کی اکثریت کی تائید حاصل تھی۔ جس کا اعتراف ۱۸جون ۲۰۱۹ء کو الجزیرہ ٹی وی پہ نشر کیے جانے والے تعزیتی (obituary) پروگرام میں ان الفاظ میں کیا گیا:’’محمدمرسی کا ایوانِ صدارت میں جو وقت گزرا، اس میں ان کی شہرت اور عزت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی، اور ان کے لیے عوامی پسندیدگی کا اشاریہ ۶۰ اور ۵۵ فی صد کے درمیان رہا‘‘۔
واضح رہے کہ اس ایک سال میں دو بار فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔ البتہ ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو فوج اور نام نہاد عوامی مظاہروں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور پھر ۱۴؍اگست ۲۰۱۳ء کو صدرمرسی کی تائید اور فوجی اقتدار کے خلاف جو عظیم عوامی مظاہرہ ہو رہا تھا، اس کے شرکا کو خود کار رائفلوں کی فائرنگ سے بھون ڈالا گیا اور فوجی گاڑیوں تلے کچل دیا گیا۔ اخوان نے ۲۶۰۰ سے زائد شہدا کی فہرست جاری کی۔ ہزاروں زخمی علاج معالجے کے لیے ترستے رہے۔یوں جنرل سیسی نے اقتدار اپنی مٹھی میں لے کر ایک آمرانہ دستور ملک پر مسلط کردیا، اور اب جنرل سیسی کو ۲۰۳۰ء تک صدر رکھنے کا ڈراما رچایا گیا ہے۔

مرسی صاحب کے مخالفین کا انجام

یہ سب اپنی جگہ، مگر قدرت کے انتقام کا بھی اپنا ہی نظام ہے۔ بہت سے سیکولر اور جمہوریت پسند عناصر جو اخوان دشمنی میں فوجی سازشوں کے آلہ کار بنے اور جنھوں نے۳جولائی ۲۰۱۳ء کی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کی، وہ خود بھی بہت جلد حکومت کی دست درازیوں کا نشانہ بن گئے۔   ان کی ایک بڑی تعداد داخلِ زندان کی گئی اور اخوان کے قیدیوں کے ساتھ اب وہ بھی جنرل السیسی کے قیدی ہیں۔ نیز ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد اخوانیوں کی طرح ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی اور ان میں سے کچھ آج صدر ڈاکٹر مرسی کی شہادت پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں۔
ایمن نُور جو غیراخوانی حزبِ اختلاف کے قائدہیں، انھوں نے بیرونِ مصر سے کہا ہے: 

مرسی بلاشبہہ شہید ہوئے اور انھیں سوچ سمجھ کر مارا گیا ہے… میں اپنی اوردنیاکے تمام آزاد لوگوں کی طرف سے آزادی کے راستے کے ایک عظیم معمار (great striver)کی موت پرغم ودکھ کااظہارکرتاہوں۔(الجزیرہ، ۱۹جون ۲۰۱۹ء)

صدرمحمد مرسی کی ایک سخت ناقدمونا الطحاوی اپنے مضمون میں لکھتی ہیں:

یہ ہے وہ کچھ جوعبدالفتاح السیسی نے حاصل کیا۔جولائی۲۰۱۳ء سے (جب مرسی کی حکومت کاتختہ اُلٹاگیا،اور) جنوری۲۰۱۶ء (جب مصری پارلیمان بحال ہوئی) کے دوران ۱۶ہزار سے ۴۱ہزار کے درمیان لوگ گرفتار کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر اب کالعدم اخوان المسلمون کے حامی تھے۔ البتہ اطلاعات کے مطابق ان میں ایک تعداد ان افراد کی بھی ہے، جو لبرل اور سیکولر (اور اخوان مخالف تحریک میں) سرگرم تھے۔ اس کے بعد سے سزاے موت کے اعلانات کی تکرار ہے، جس پر عمل ہورہا ہے۔ غیرقانونی اور غیرعدالتی اغوا اور قتل اس کے علاوہ ہیں۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی کوشش کا نتیجہ ہے، جس سے معاشرے میں اختلاف راے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ ایک طرف اخوان کو صفحۂ ہستی ہی سے مٹانے کا اہتمام ہورہا ہے، دوسری طرف ہر شکل میں، ہراختلافی راے اور ہرمدمقابل قوت کو دبانے پر بھی توجہ مرکوز ہے۔(دی نیویارک ٹائمز، ۱۸جون ۲۰۱۹ء)

مگر اب اظہارِ حقیقت کرنے کا فائدہ؟  ع

صبح دَم کوئی اگر بالاسے بام آیا تو کیا

مختصر یہ کہ جو عناصر اخوان المسلمون کے خلاف میدان میں لائے گئے تھے، خود وہ بھی موجودہ فوجی استبدادی حکومت کا نشانہ بن رہے ہیں اور اب اخوان اور ان کے مخالف سیکولر عناصر، دونوںمصری عقوبت خانوں میں یا مصر سے باہر مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
واضح رہے کہ صدر محمدمرسی کے زمانے میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ ان سے پہلے صدر   حسنی مبارک کے دور میں جنھیں سیاسی بنیادوں پر قید کیا گیا تھا، صدر مرسی نے ان کے لیے بھی    جیل کے دروازے کھول دیے تھے، اس بات کا لحاظ کیے بغیر کہ ان کی سیاسی یا مذہبی وابستگی کیا ہے، اور یہ ان کے اوّلین اقدام میں سے ایک تھا۔

اخوان المسلمون کا ’جرم‘

اخوان کو جس ’جرم‘ کی سزا دی گئی ہے، وہ اسلامی اور جمہوری اقدار سے ان کی وفاداری اور ہرقیمت پر مصر کے دستور کو اسلام، جمہوریت اور اجتماعی فلاح کی بنیاد بنانے، منصفانہ سیاسی اور معاشی نظام کی تشکیل اور تمام ریاستی اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رکھنے کی کوشش ہے۔ مصر کی قومی خودمختاری اور مسئلہ فلسطین کو انصاف، تاریخی اور زمینی حقائق، اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی بنیاد پر مستقل حل، اور فلسطینی سرزمین اور الاقصیٰ کو اسرائیلی قبضے سے نکالنے کے لیے پُرعزم ہونا اور ڈٹ جانا ہے۔ عرب اور اسلامی دنیا کے مسائل کا مل جل کر اور اپنے وسائل کے صحیح استعمال کے ذریعے حل اور دنیا میں ایک مبنی برانصاف معاشی نظام کا قیام ہے جس میں دولت چند ممالک اور چند ہاتھوں میں مرکوز نہ ہو اور وسائل تمام نسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے، غربت کو ختم کرنے اور سماجی فلاح کے لیے استعمال ہوں۔اس سلسلے میں صدرمحمد مرسی کی تقاریر بہت واضح ہیں اور ان تمام نکات کا جامع اور مؤثر استحضار ان کی اس یادگار تقریر میں موجود ہے، جو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر۲۰۱۲ء میں انھوں نے کی تھی (یہ تقریر یوٹیوب پر آج بھی سنی جاسکتی ہے)۔
صدر مرسی کی حکومت نے پہلے دن سے تہذیبوں، مذاہب اور ملکوں کے درمیان تصادم کے بجاے ایک دوسرے کے احترام کی بنیاد پر مکالمے اور بقاے باہمی کا تصور پیش کیا، اور عالمی سطح پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جو فکری اور تہذیبی جنگ جاری ہے، اسے ختم کرنا اپنا ہدف قرار دیا۔  حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات اور اسلام کی تعلیمات پر جو رکیک حملے کیے جارہے ہیں، ان پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا، ناموسِ رسالت کے سلسلے میں مسلمانوں کے عالمی احتجاج کی مکمل تائید کی اور اقوامِ متحدہ میں برملا اعلان کیا کہ اگر دنیا ہمارے نبیؐ، ہمارے دین اور ہماری اقدار کا احترام نہیں کرے گی، تو ہم سے اپنی تہذیب و ثقافت کے احترام کی توقع نہ رکھے۔ سب کے لیے سلامتی اور آشتی کا راستہ ایک ہی ہے کہ ہم سب مل جل کر تمام انسانوں، تمام علاقوں اور تمام تہذیبوں کا برابری کی بنیاد پر احترام کریں۔ سب کی طرف سے اپنے اپنے موقف کی پیش کاری اور اختلاف، علمی حدود کے اندر ہو، اور کسی کو بھی نفرت کی آگ بھڑکانے اور دوسروں کی تحقیر اور انھیں مشتعل (provocation) کرنے کی کھلی چھٹی حاصل نہ ہو۔ قومی اور بین الاقوامی، ہردائرے کی کچھ اخلاقی حدود ہیں، جن کا احترام ضروری ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے عالمی امن اور تعاون پروان چڑھ سکتا ہے۔
عالمی استعماری قوتیں ہوں یا وہ قومی اور مقامی عناصر، جن کے مفادات پر مندرجہ بالا پالیسی کے خطوطِ کار سے ضرب پڑتی ہے، وہ اخوان اور دوسری اسلامی تحریکات کا راستہ روکنے میں اپنی بقا دیکھتے ہیں، اور ’سیاسی اسلام‘ ، ’اسلامی انتہاپسندی‘ اور ’اسلامی ٹیررازم‘ کے نام پر اسلام اور اسلامی تہذیب کو ہدف بنا رہے ہیں۔ یہی خطرناک کھیل ہے جو مصر میں کھیلتے ہوئے سمجھا جا رہا ہے، وہ یہ کہ محض قوت اور جبرکے ذریعے اسلام کی نظریاتی اور تہذیبی لہر کوروکا جاسکتا ہے۔ 
اخوان المسلمون محض ایک تنظیم نہیں ہے، بلکہ ایک تصور اور نظریہ، ایک پیغام اور نظامِ حیات ہے، جو ایک طرف انسان کو اپنے ربّ سے جوڑتا ہے، تو دوسری طرف ربّ کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں پوری انسانی زندگی کی تشکیل، خیروفلاح، عدل و انصاف، حقوق کی پاس داری اور تعاون اور اخوت کی بنیادوں پر کرنا چاہتا ہے۔ افراد کو قیدوبند اور قتل و غارت گری کا نشانہ تو بنایا جاسکتا ہے، لیکن افکار اور نظریات کو تیروتفنگ اور جبرواستبداد سے ختم نہیں کیاجاسکتا۔ مصر میں اخوان کو گذشتہ ۸۰سال میں جس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سارے ظلم و استبداد کے باوجود اخوان ایک قوت ہیں اوران شاء اللہ رہیں گے، اس لیے کہ:
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا ،جتنا کہ دبا دیں گے
حسن البنا، عبدالقادر عودہ، سیّد قطب اور محمد مرسی مر کر بھی زندہ ہیں اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں اور خود کو فراعنہ کے فرزند قرار دینے والوں کا نام و نشان باقی نہیں ہے۔ کوئی اسرائیل سے شکست کھا کر ندامت کی موت مرا، کوئی اپنے ہی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنا، اور کوئی جیل اور ہسپتال کے درمیان ایڑیاں رگڑتا رہا ہے: فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ (الحشر ۵۹:۲) ’’پس عبرت حاصل کرو اے دیدئہ بینا رکھنے والو!‘‘
قاہرہ میں روزنامہ لاس اینجلس ٹائمز کی نامہ نگار سلمہ اسلام،۲۴ جون ۲۰۱۹ء کو صدرمرسی کی وفات اور اخوان پر پابندی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے قاہرہ کے ماحول کی عکاسی کرتی ہیں، جس میں جبرواستبداد کی گرفت ہے، اور وہ ماحول سب کو دعوتِ فکر دے رہا ہے:

قاہرہ کی گلیوں میں لوگ عام طور پر بے چین نظر آتے ہیں۔ اگر کسی سے سیاست بالخصوص حساس یا ممنوع موضوعات، یعنی اخوان المسلمون کے بارے میں راے لینے کی کوشش کی جائے تو جواب میں صرف بے چین نظریں دکھائی دیتی ہیں۔ وسطی قاہرہ میں سیّدہ زینب کے قرب میں، جب کوئی بھی فرد مرسی کی موت کے بارے میں اپنی راے دینے پر  راضی نہ ہوا تو ایک شخص نے جو بظاہر ۴۰برس کا لگتا تھا، دوٹوک انداز میں کہا: ’’ہم اس موضوع پر بات نہیں کرسکتے کیونکہ حکومت ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی‘‘۔ 

اپوزیشن رہنما، مصر کے تیسرے صدر محمدانور السادات کے بھتیجے نے [مرسی کی شہادت پر]کہا: ’اگرچہ اخوان المسلمون، حکومت کی نظر میں یقینا ’دشمن نمبر۱‘ ہے، مگر تاریخ شاہد ہے کہ اخوان المسلمون ایک نظریہ ہے، اور نظریے کے طور پر یہ کبھی نہیں مرسکے گی‘۔
کلیرمونٹ کے اسکرپس کالج میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر سومٹ پاہاوا کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ :

مرسی کی موت کو اخوان المسلمون کی قیادت اپنے وجود کو ایک شہید کے طور پر  نئی زندگی بخشنے کے لیے استعمال کرے گی....اخوان کے رہنما یہ توقع رکھتے ہیں کہ مرسی کی موت مصری عوام کے دلوں میں زیادہ ہمدردی پیدا کرے گی۔ اس لیے بھی کہ عوام ۲۰۱۳ء کے مقابلے میں آج حکومتی دبائو کے نتیجے میں زیادہ بے حال ہیں اور روزانہ بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی کا سامنا کررہے ہیں۔ ۲۰۱۳ء میں مرسی کی گرفتاری کے وقت اتنا زیادہ اشتعال نہیں تھا کہ جس کا اب مستقبل میں امکان ہے۔ (لاس اینجلس ٹائمز، ۲۴جون ۲۰۱۹ء)

امریکا کے مشہور صحافی اور کالم نگار ڈیوڈ ہرسٹ (David Hearst) نے وہاں کے جریدے Middle East Eye ( ۲۵جون۲۰۱۹ء) میں اخوان کے ایک مخالف اور سابق صدارتی اُمیدوار ایمن نُور کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

مرسی کی موت جس طرح واقع ہوئی ہے، اس سے بڑے پیمانے پر حکومت تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ دراصل مرسی کو چھے سال مسلسل ایک عمل کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے(Killed slowly over six years)اور حکومت کو اس کی پوری ذمہ داری اُٹھانی پڑے گی اور جواب دہی کرنا ہوگی۔

مرسی حکومت پر تنقید کی حقیقت

پروفیسر عبداللہ الاریان الجزیرہ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون: ’محمد مرسی: ایک مصری المیہ‘ میں مرسی حکومت کی کمزوریوں پر گرفت کرنے کے ساتھ بڑے مؤثرانداز میں ان عوامل کی بھی نشان دہی کرتے ہیں، جن کا مرسی حکومت کو مقابلہ کرنا پڑا اور جو گمبھیر مسائل کسی بھی حکومت کے لیے ناقابلِ تسخیر تھے:
تاہم، جو چیز مرسی کے دورِ اقتدار کے ایک متزلزل سال میں ان کے سخت ترین ناقد سمجھنے میں ناکام ہوگئے، درحقیقت وہ تشکیلی ڈھانچے سے متعلق رکاوٹیں تھیں، جو مصر کے  ان انقلابیوں کی صفوں میں سے کسی بھی شخصیت کو ناکامی کی بدنصیبی سے دوچار کر دیتے۔
مرسی کے بدقسمت دورِ صدارت کے اکثر تنقیدی جائزوں میں سے اُن چند در چند  عوامل و عناصر کا ذکر غائب تھا، جو مصر کی انقلابی تحریک کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے یکسو تھے (مثال کے طور:) سابقہ [حسنی مبارک کی آمرانہ] حکومت کے طاقت ور بیوروکریٹ جنھوں نے [مرسی کی] صدارتی پالیسیوں کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا، محدود طبقے کی حکومت سے متعلقہ وہ لوگ کہ جنھوں نے عوامی بے اطمینانی کو بڑھاوا دینے کے لیے توانائی کی کمی کا مصنوعی بحران پیدا کیا، ایک ایسی سیاسی حزبِ مخالف جس نے جب دیکھا کہ وہ مرسی کو یا ان کی جماعت کو انتخابات میں شکست نہیں دے سکے، تو انھوں نے مریضانہ ذہنیت کے ساتھ تخریبی کردار ادا کرنا شروع کردیا، وہ غیرملکی حکومتیں کہ جنھوں نے جوابی [فوجی] انقلاب کی مالی مدد کی، اور بلاشبہہ مصر کی مسلح افواج۔ یہ سب، انقلابی تبدیلی کے عمل کے دوران زیادہ تر مسائل و مشکلات پیدا کرتے رہے۔
اس پس منظر میں کوئی بھی، یقینا مرسی کی قیادت کی غلطیوں کی نشان دہی کرسکتا ہے، کلیدی فیصلوں کا ان کی طرف سے مناسب طور پر لوگوں تک ابلاغ کا نہ ہونا، اور پھر  یہ عدم صلاحیت کہ وہ ایک وسیع تر انقلابی اتحاد نہ تشکیل دے سکے۔ تاہم، اس یلغار کے باوجود، اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ حزبِ مخالف کی کوئی بھی شخصیت کامیاب ہوسکتی۔
اس گفتگو سے چند باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں:

  1. صدر مرسی اور ان کی حکومت کو جن حالات سے سابقہ تھا، وہ غیرمعمولی تھے اور اندرونی اور بیرونی مخالف قوتیں اور پورا نظام ان کے خلاف صف آرا تھا۔ انھوں نے بڑی حکمت اور محنت سے راستہ نکالنے کی کوشش کی، لیکن فوج،خفیہ ایجنسیاں، انتظامیہ، عدلیہ، مفادپرست اشرافیہ اور لبرل جمہوری اور سیکولر قوتوں کے گٹھ جوڑ اور بیرونی طاقتوںخصوصیت سے اسرائیل، امریکا اور چند عرب ممالک کی مشترکہ مزاحمت اور مخالفت نے صدرمرسی کی تعمیری اور پایدار کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا ۔ اس طرح مصر کی تاریخ کے ۹۱سال میں پہلی بار ایک حقیقی جمہوری انتخابی عمل کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کا تختہ اُلٹ کر پھرفوجی آمریت کا نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا۔
  2. اخوان کے لیے ایک سالہ اقتدار بلاشبہہ ایک نیا تجربہ تھا، مگر آمریت، فوجی حکمرانی، ریاستی جبر، قیدوبند، ظلم اور زیادتی کا نشانہ بننا ان کا پہلا تجربہ نہیں۔ وہ پہلے دن سے اور خصوصیت سے گذشتہ ۸۰برسوں سے انھی حالات سے گزر رہے تھے اور الحمدللہ، ہر دور میں اور ہرحال میں، ہرآزمایش میں وہ ثابت قدم رہے۔ انھوں نے قربانیوں اور استقامت کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں اور بیسویں اور اکیسویں صدی میں دعوتِ اسلامی اور اقامت ِ دین کی ہمہ گیر جدوجہد___ علمی، تربیتی ، اصلاحی، تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی، غرض ہر میدان میں خدمات انجام دی۔ پھر ہرقسم کے حالات میں اپنے لیے راستہ بنانے کی تابناک مثالیں قائم کیں۔ ہمیں یقین ہے اور یہی اللہ کا وعدہ ہے کہ جب اس کے بندے خلوص، دیانت، حکمت اور استقامت سے اس کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اس کے فرشتے شریکِ سفر بنتے ہیں اور بند دروازے کھلنے لگتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد اور تاریخ کی شہادت ہے کہ: اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰(حم السجدہ۴۱:۳۰) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے ، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔
  3. اخوان المسلمون محض ایک سیاسی جماعت نہیں ہے، ایک دینی تحریک اور نظریاتی جماعت ہے، جو عقیدے، عبادت اور اخلاق و تزکیے سے لے کر انسان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی کے ہرپہلو کو ایمان،اخلاق، حق اور انصاف کی بنیاد پر تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ ایسی نظریاتی تحریکات کو محض قوت اور جبر سے اور محض سیاسی انتقام اور تشدد اور عقوبت سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات سیکولر نظریاتی تحریکوں کے بارے میں بھی سچ ہے، لیکن اس کی اعلیٰ ترین مثال عقیدہ، اخلاق اور دین پر مبنی تحریک اخوان المسلمون اس کی ایک روشن ترین مثال ہے۔ 

اخوان المسلمون کی جہدِ مسلسل

اخوان المسلمون کی قوت کا اصل سرچشمہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان ہے۔اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت اور طریقے کو زندگی کا شعار بنانا اس کا اصل مطلوب ہے۔ نفس کا تزکیہ اور اخلاق و کردار کی تعمیر اس کا اہم ترین ہتھیار ہے۔ خاندان اور معاشرے کی اصلاح اس کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ خدمت اور حق و انصاف اور زندگی کےسارے معاملات کی صورت گری اس کی قوت کا ذریعہ ہے۔ سیاست اجتماعی زندگی میں اسی اخلاقی انقلاب کا ذریعہ ہے۔ اصل مقصود اللہ کی رضا، آخرت کی کامیابی اور جنّت کی تمنا ہے۔ یہ تمام پہلو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
فرد، معاشرہ، ریاست، انسانیت کی تعمیر اس کا ہدف ہیں، لیکن اس کی کامیابی کا اصل راز اور اس کی جدوجہد کا اصل ہدف اللہ کی رضا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی مرضی اور قانون کو جاری و ساری کرنے کی جدوجہد ہے۔ حسناتِ دنیا اور حسناتِ آخرت دونوں مطلوب ہیں، لیکن رضاے الٰہی کے ثمرات کی حیثیت سے۔ یہ چیز آزمایشوں میں استقامت کا ذریعہ بنتی ہے اور دُنیوی نشیب و فراز سے بے نیازی اور جہد ِ مسلسل کا شعار بناتی ہے۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے میں کلیدی کردار قرآن سے تعلق اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اتباع کا رشتہ ہے۔ اس ضمن میں، مَیں نے اخوان المسلمون کو تمام اسلامی تحریکات میں سب سے بہتر اور سب سے بلند پایا ہے۔ 
گذشتہ ۷۰برس میں مجھے ہرسطح پر اخوان کے ساتھیوں سے قریبی تعلق کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اخوان کے ہرکارکن کا قرآنِ عظیم سے جو تعلق میں نے دیکھا ہے،     وہ قابلِ رشک ہے۔ مصری معاشرے میں جو دینی اور اخلاقی تبدیلی گذشتہ ۹۰برسوں میں آئی ہے، اس میں دوسری تمام دینی قوتوں کی کوششوں کے ساتھ امام حسن البنا شہید اور اخوان المسلمون کا کردار سب سے زیادہ نمایاں اور روشن ہے۔ قرآن سے تعلق اور ایک دوسرے سے محبت اور خبرگیری،   یہ دو ستون ہیں جن پر اخوان کی تحریک قائم ہے۔ اخوت کا رشتہ، محبت اور خبرگیری کا رشتہ اور   بھائی چارے کی فضا، اخوان نے گھرگھر اور محلے محلے میں قائم کی ہے۔ فہم قرآن کے حلقے اور اسرہ کا نظام اخوان کی طاقت کا منبع ہیں اور جب تک یہ تعلق اور نظام موجود ہے، ان شاء اللہ ظلم کی کوئی قوت اس تحریک کو دبا نہیں سکتی، اور بقول جگر مراد آبادی:

یہ خوں جو ہے مظلوموں کا ، ضائع تو نہ جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں ،جو صرفِ بہاراں ہوتے ہیں

استقامت اور تحریک کے نظریاتی کردار کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اتنے ظلم و زیادتی، حقوق کی پامالی، ملک کے دستور اور قانون اور اصولِ انصاف سے رُوگردانی کے باوجود تحریک نے اینٹ کا جواب پتھر، اور تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ ہرظلم و زیادتی کو برداشت کرتے ہوئے قانون، اخلاق اور خود اپنے طے کردہ طریق کار سے انحراف کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحریک اپنے طریق کار کی صحت اور اخلاقی برتری پر یقین رکھتی ہے، اور بُرائی کے جواب میں بُرائی کے راستے کو اصولی اور اخلاقی طور پر غلط سمجھتی ہے۔ اسلامی تحریک کا طریقہ محض مصلحت، بدلہ اور انتقام نہیں بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور سب سے بڑھ کر قرآن کا یہ اصول ہے کہ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ  (فصلت۴۱: ۳۴) ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہے۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو، جو بہترین ہو‘‘۔
اخوان کی عظیم کامیابی ہے کہ ۸۰سال میں آزمایش کے تین ہولناک اور صبر آزما اَدوار میں جھونک دیے جانے کے باوجود، انھوں نے اپنے تعمیری، اخلاقی، اصلاحی، جمہوری اور عدم تشدد کے طریق سے سرِموانحراف نہیں کیا۔ اس کے باوجود اگر غصّے، ردعمل اور بدلے کے جذبے سے مغلوب ہوکر کسی نوجوان نے تحریک کے معروف طریقے سے ہٹنے کی کوشش کی، تو اس کا ہاتھ   روک دیا یا اس کو تنظیم سے خارج کر دیا۔ افسوس کہ مسلم حکومتوں، مقتدر طبقات اور مخالفین نے اس پہلو پر غور نہیں کیا حالانکہ اب تو اس بات کو غیر بھی محسوس کرنے اور اس کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں۔ 
نیویارک ٹائمز  ( ۱۹جون ۲۰۱۹ء) میں اس کے اسٹاف رائٹر پیٹر ہیسلر نے ، جو مصر پر ایک کتاب The Buried: An Archeology of The Egyption Resolution  کے مصنف ہیں، اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ: ’’سامراجی حکمرانوں کے خلاف ابتدائی دور میں اخوان کے   کچھ ارکان سیاسی تشدد کے مرتکب ہوئےہیں، اور اخوان کے رہنمائوں نے بالآخر ایسی حکمت عملی کو مسترد کر دیا اور عدم تشدد کے اصول کو اختیار کیا‘‘۔اخوان پر مظالم اور ریاستی تشدد کے تازہ دور کے پس منظر میں صاحب ِ مقالہ لکھتا ہے کہ:

یہ بات اہم ہے کہ حکومتی قیادت میں ہونے والے قاہرہ کے مختلف قتل عام اور ان کے نتیجے میں بچ جانے والوں اور (ان کے) رشتہ داروں میں سے بہت ہی کم افراد نے دہشت گردانہ عمل یا تشدد سے جواب دیا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات جزیرہ نما سینائی کے دُور دراز حصوں میں ہوئے، نہ کہ بالائی مصر کے گنجان آبادی والے حصوں میں، جو کہ ابتدائی نسلوں میں انقلابی اسلام کا گہوارارہے تھے۔ مصری حکومت نے اخوان پر ایک ’دہشت گرد گروہ‘ کے طور پر پابندی لگادی ہے لیکن اس کے پاس کوئی شہادت نہیں کہ اخوان نے متشددانہ مزاحمت کوچال کے طور پر اختیار کیا ہو۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اخوان جس طرح ماضی کے ہولناک اَدوارِ ابتلا سے صبرواستقامت کے ساتھ نبردآزما ہوئے، اسی طرح اس دور کا بھی مقابلہ کریں گے اور بالآخر  کامیابی کے ساتھ اپنی اصلاحی اور تعمیری سرگرمیوں کو ایک بار پھر چار چاند لگائیں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ بیرونی حلقوں سے بھی اب ایسی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔مثال کے طور پر سی این این کی ایک تازہ رپورٹ، جو صدرمرسی کی شہادت کے اگلے روز (۱۸جون ۲۰۱۹ء) شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں مصر کے حالات کا جائزہ لے کر آخری حصے میں کہا گیا ہے:

اور ابھی تک بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور آمرانہ من مانی ہلاکتوں کے باوجود، اخوان تحریک معدوم ہونے سے کوسوں دُور ہے۔اخوان ظلم و تعذیب سہنے کے عادی ہیں اور خدمت خلق کے لیے ان کا اپنا ایک بے مثل ڈھانچا ہے۔ جیساکہ ’کارنیگی رپورٹ‘ نے کہا ہے: ’’مصر کے سیاسی مقدّر کا تعین بدستور اس تصادم سے ہی ہوتا رہے گا جو حکومت اور اسلام پسندوں کے درمیان جاری ہے‘‘۔

اُمت مسلمہ کے نام

صدر محمد مرسی کی شہادت پر مسلمان عوام، دینی اور سیاسی جماعتوں اور متعدد حکمرانوں کا جو ردعمل سامنے آیا ہے، وہ اُمت مسلمہ اور عالمی سیاسی منظرنامے کے لیے ایک آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ترکی اور اس کے صدر طیب نے سب سے بڑھ کر اور قطر، حماس، ملائیشیا اور انڈونیشیا کی حکومتوں نے کھل کر اور چند دوسرے ممالک کے حکمرانوں نے صرف تعزیت کے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی حکومت تو خاموش ہے، مگر قومی اسمبلی نے دُعاے مغفرت اور پھر سینیٹ آف پاکستان نے ایک جان دار اور مفصل قرارداد کے ذریعے، جسے قائد ایوان اور قائد حزبِ اختلاف کے تعاون سے ۳۵ سینیٹروں  کے دستخطوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے پیش کیا اور سینیٹ نے متفقہ طور پر پاس کیا، وہ پاکستانی عوام کے دل کی آواز ہے۔ 
مسجد اقصیٰ سے لے کر دنیا کے ہراس ملک میں، جہاں مسلمان آباد ہیں، ہزاروں مقامات پرغائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرکے اُمت نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن عوام اور حکمرانوں اور مفاد پرست اشرافیہ کے درمیان بالعموم جو فاصلہ اور دُوری ہے، و ہ بہت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اسی طرح امریکا اور مغربی دنیا کے حکمرانوں، اور بااثر طبقات پر موت کا سکوت طاری رہا ہے، وہ چشم کشا ہے۔ حکمران ، دانش ور، صحافی اور انسانی حقوق کے علَم بردار جو ہر چھوٹے بڑے حادثے یا معاملے پر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، ان کی خاموشی یا پشت پناہی نے    ان کے دوغلے پن اور منافقت کا پردہ بھی بُری طرح چاک کردیا ہے۔بلاشبہہ مغربی دُنیا میں چند اداروں اور کچھ اصحابِ ضمیر نے غاصب مصری حکومت کے اس اقدامِ قتل کی مذمت بھی کی ہے، یا کم از کم افسوس کے اظہار کے ساتھ معاملے کی تحقیق کا برملا مطالبہ کیا ہے۔ ہم ان افراد اور اداروں کے لیے تحسین کے جذبات رکھتے ہیں، لیکن افسوس کہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔
امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا کے وہ حکمران اور سیاسی اور انسانی حقوق کے ان نام نہاد علَم برداروں کو (جو ہرگستاخِ رسولؐ کی حمایت میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں) صدرمرسی کے اس ظالمانہ قتل پر سانپ سونگھ گیا ہے۔ مغربی حکمرانوں اور لبرل ازم اور جمہوریت کے دعوے داروں کے دوغلے پن اور نفاق کا یہی مکروہ رویہ ہے جس کی وجہ سے عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے لوگ    ان کے دعوئوں پر یقین نہیں کرتے۔ جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے بارے میں ان کی نعرے بازی (sloganeering)کو بجاطور پر محض اقتدار اور مفاد کے کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ہم اس مضمون کو رابرٹ فسک کے ایک اقتباس پر ختم کرتے ہیں، جو روزنامہ انڈی پنڈنٹ اور کاؤنٹر پنچ میں شائع ہوا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ ’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘:
اے دیوتائو، محمد مرسی کی پنجرے میں ظالمانہ موت پر ہمارا ردعمل کیا ہی عمدہ تھا! شاید افسوس، پچھتاوے اور غم، نفرت، جبر اور خوف کے تمام الفاظ کو دُہرانا ایک تھکا دینے والا عمل ہو، جو مصر کے واحد منتخب صدر کی اس ہفتے قاہرہ کے کمرئہ عدالت میں موت کی کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کے کانوں میں انڈیلے گئے۔ ڈائوننگ سٹریٹ اور وائٹ ہائوس سے لے کر، جرمن چانسلری اور ایلسی پیلس تک اور کہیں ہم برلے مونٹ کو بھول نہ جائیں۔ ہمارے مدبروں اور ہماری خواتین نے ہماری خوب خاطرداری کی۔ مرسی کی موت پر ان کی پشیمانی اور احتجاجوں پر غور کرنا تو حقیقت میں ہمیں تھکا دے گا۔
کیونکہ یہ مطلقاً موجود ہی نہیں تھا۔ خاک اور دھول، کچھ بھی نہیں۔ نہ خاموشی اور نہ کوئی بڑبڑاہٹ، نہ کسی پرندے کی چہچہاہٹ، نہ کسی پاگل صدر کا کوئی ٹویٹر پیغام، یہاں تک کہ بالکل رسمی اور سرسری سے اظہارِ افسوس کا کوئی لفظ تک بھی نہیں۔ وہ جو ہماری نمایندگی کا دعویٰ کرتے ہیں،خاموش تھے، گنگ تھے۔ ان کی صدا اسی طرح روک دی گئی تھی جس طرح مرسی (کی صدا) کمرئہ عدالت میں اپنے سائونڈ پروف پنجرے میں۔ اور یہ نمایندے اسی طرح خاموش ہیں جس طرح مرسی اب اپنی قاہرہ کی قبر میں ہے۔
لیکن وہ کوئی بُرا آدمی اور کوئی دہشت گرد نہیں تھا۔ اس نے اپنے جانشین [جنرل سیسی] کی طرح ۶۰ہزار سیاسی قیدیوں کو بند نہیں کیا ہوا تھا۔ وہ جانشین کہ جسے وائٹ ہائوس میں موجود عظیم شخص کی طرف سے عظیم شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بات نوٹ کرنا مفید و سبق آموز رہے گا کہ اس انقلابِ مرسی کے ساتھ کتنا مختلف سلوک کیا گیا ہے۔ اسے قیدتنہائی میں ڈال دیا گیا، وہ اپنے خاندان سے بھی بات نہیں  کرسکتا تھا، اس کو طبی امداد سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اب اس گھنائونے سلوک کا ذرا اس سہولت و آسایش سے مقابلہ کرکے دیکھیں، جو اس [صدر مرسی] کے پیش رو [آمرمطلق] حسنی مبارک کو اپنی معزولی کے بعد حاصل رہی۔ مسلسل ہسپتال میں علاج معالجہ، خاندان کے لوگوں کی ملاقاتیں، عوامی ہمدردی کا اظہار، حتیٰ کہ اخبارات کو انٹرویو بھی۔ 
مرسی کے آخری الفاظ، جو اس نے اپنے دفاع میں کہے کہ:’مَیں مصر کا اب بھی صدر ہوں‘ ان کو مشینی انداز میں سائونڈ پروف پنجرے میں دبا دیا گیا۔ ہماری بے حوصلہ ذلت آمیز خاموشی نہ صرف مغرب میں عوامی عہدے داروں اور انتظامیہ کی شرمناک فطرت کا ثبوت ہے بلکہ یہ مشرق وسطیٰ کے ہر[ظالم]رہنما کی قطعی اور حتمی حوصلہ افزائی [کا اجازت نامہ ]بھی ہے، کہ اس کے بُرے افعال کی اسے کبھی سزا نہیں ملے گی۔ کوئی اس بارے میں سوچے گا بھی نہیں، انصاف کبھی نکھر کر سامنے نہیں لایا جائے گا اور تاریخ کی کتابوں کو کبھی پڑھا نہیں جائے گا۔
ان حالات میں اُمت مسلمہ کے لیے ایک ہی راستہ ہے___ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونا اور اپنے ایمان، اپنی آزادی، اپنی عزت، اپنے دین، اپنی تہذیب و ثقافت، اپنے معاشی مفادات، اپنی خودمختاری اور خودانحصاری کا تحفظ اور ترقی۔ صدر محمدمرسی کی شہادت ہمیں اگر غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بنے اور ہمیں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے سرگرم ہونے کے لیے مہمیز کا کام کرے، تو ان کی زندگی بھی قابلِ رشک تھی اور ان کی موت بھی قابلِ رشک ہے۔ بلاشبہہ وہ کامیاب ہیں اور دل گواہی دیتا ہے کہ ان کا شمار ان لوگوں میں سے ہوگا جن کے بارے میں خود زمین و آسمان کے خالق اور پروردگار نے بشارت دی ہے کہ:

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۝۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۝۲۳ۙ (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہدکو سچا کر دکھایا ہے، ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

یہی اللہ کے وہ نیک اور کامیاب بندے ہیں جو حق کے علَم بردار بن کر زندگی گزارتے ہیں جو ظلم کے ہر وار کو مردانہ وار سہتے ہیں اور زندگی کے آخری لمحے تک حق و انصاف، عدل و احسان، اطاعت ِ رب اور خیروفلاح کی سربلندی کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ جو نفسِ مطمئنہ کی چلتی پھرتی تصویر ہوتے ہیں، اور جنت جن کا انتظار کر رہی ہے!
 

 ہزاروں سال گزر گئے، شیطان رجیم نے جس پھندے کا شکار اوّلیں انسان کو کیا تھا، آج تک اسی جال میں اس کی اولاد کو پھانس رہا ہے۔ اقتدار کا لالچ، ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش، حسد، نفرت، خوں ریزی، دلوں میں شکوک و شبہات، وسوسے، بے لباسی اور بے حیائی پہلے دن سے شیطانی ہتھیار ہیں۔کہنے لگا: يٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى۝۱۲۰ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۰) ’’اے آدم میں آپ کو وہ درخت بتاؤں جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے‘‘۔ فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَہُمَا مَا وٗرِيَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا  (الاعراف۷:۲۰) ’’شیطان نے وسوسہ انگیزی کرتے ہوئے انھیں بہکایا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، ان کے سامنے کھول دے‘‘۔ خود ربِّ کائنات کے بارے میں شکوک پیدا کرتے ہوئے مزید کہا: مَا نَہٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ۝۲۰ (الاعراف۷:۲۰) ’’تمھارے ربّ نے تمھیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے‘‘۔ کائنات کا سب سے پہلا اور فرشتوں سے بھی زیادہ علم و مرتبہ رکھنے والا انسان بالآخر اس کے جال میں آگیا۔ چوں کہ رب کا برگزیدہ انسان تھا، اس لیے فوراً ہی غلطی کے اقرار اور استغفار میں لگ گیا۔ خالق نے سایۂ عفو و رحمت میں جگہ دے دی، لیکن اب جنت کے بجاے زمین پر بسیرا تھا۔
مکار دشمن نے اب ان کی اولاد پر ڈورے ڈالنا شروع کردیے۔ دو بیٹے تھے، دونوں نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی۔ ایک کے دل میں کھوٹ تھا، اس کی قربانی مسترد کردی گئی: اِذْ قَرَّبَا  قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۝۰ۭ (المائدہ۵: ۲۷) ’’جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی ، اور دوسرے کی نہ کی گئی‘‘۔ بجاے اس کے کہ خود کو سدھارتا، اپنے ہی بھائی سے حسد کی آگ میں جلنے لگا۔ اس نے بہتیرا سمجھایا لیکن کچھ اثر نہ ہوا: فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِيْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۳۰ (المائدہ۵: ۳۰) ’’آخرکار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کردیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘___ یہ کائنات کا پہلا قتل تھا۔
پور ی انسانی تاریخ میں جب اور جو افراد و اقوام بھی ان شیطانی پھندوں میں پھنستے گئے، یا پھنسیں گے، تباہ ہوتے گئے اور تباہ ہوں گے۔ جو فرد یا قوم ان سے بچ گئے، عروج و خوش حالی اور کامیابی نے اس کے قدم چومے، کہ یہی اللہ کا وعدہ ہے اور اس کا وعدہ ابدی ہے۔

خلافت ِ عثمانیہ کے خلاف سازش

تقریباً چھے صدیوں پر محیط عثمانی خلافت میں جہد مسلسل، عدل و مساوات اور اخلاص و مؤاخات کے اصول غالب رہے تو سلطنت وسیع، مضبوط اور خوش حال تر ہوتی چلی گئی۔ لہوولعب، اقتدار کی خاطر اندرونی سازشوں اور اپنوں کو نیچا دکھانے کے لیے دشمنوں سے سازباز ہونے لگی تو تباہی اور ہلاکت مقدر بن گئی۔ آج سے۱۰۰ سال قبل جب ایک طرف عثمانی خلافت زوال کے دھانے پر تھی، تو دوسری طرف اُمت مسلمہ کے دل میں ’اسرائیل‘ کے نام سے ایک زہریلا خنجر اتارا جارہا تھا۔ ابلیس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالمی طاقتیں مصر و حجاز سمیت کئی علاقوں میں ترکوں سے نفرت و حسد اور عرب قومیت کا تعصب اُبھارنے میں لگی ہوئی تھیں۔
عثمانی خلافت کے خلاف اس پوری تحریک میں بہت سی عرب شخصیات اور کئی برطانوی شہ دماغ پیش پیش تھے۔ مشرق وسطیٰ میں سرگرم ان برطانوی شخصیات میں عسکری جلاد لارڈ ہربرٹ کچنر، معروف سفارت کار آرتھر ہنری مک ماہن اور خطرناک جاسوس لیفٹیننٹ تھامس ایڈورڈ لارنس  (المعروف لارنس آف عربیا) کے نام سرفہرست آتے ہیں۔ کچنر پہلے مصر اور پھر برصغیرپاک و ہند میں کمانڈر انچیف رہا۔ مصر تعیناتی کے دوران برطانوی تسلط سے نجات کے لیے مہدی سوڈانی کی قیادت میں اٹھنے والی تحریکِ آزادی کو ’دہشت گردی‘ کا نام دے کر اسی سفاک انسان نے ہزاروں مسلمان شہید کیے تھے۔ برصغیر میں قیام کے دوران بھی برطانوی سامراجی افواج کے سپہ سالار کی حیثیت سے مظالم کی داستان رقم کی۔ اسی نے مصر اور حجازکے مقامی حکمرانوں کے دل میں عثمانی خلافت کے خلاف بیج بوئے۔ بالخصوص شریف مکہ حسین بن علی اور اس کے چار بیٹوں کو لالچ دیا کہ خلافت عثمانیہ کے مقابل برطانیا کا ساتھ دو تو ہم اس پورے علاقے کا اقتدار آپ کے نام کردیں گے۔
سر ہنری مک ماہن نے اس خفیہ گٹھ جوڑ کو عمل میں بدلنے کے لیے مسلسل تجدید ِعہد کا اہتمام کیا۔ ہر مرحلے پر نئے اہداف دیے۔ لالچ کی آنچ میں مسلسل اضافہ کیا، اور خلافت عثمانی کے خلاف نفرت کی آگ کو ہوا دی۔ شریف حسین اور ماہن کی یہ تاریخی مراسلت عبرت کا بہت سامان رکھتی ہے۔ اس لیے دونوں کا ایک ایک خط نمونے کے طور پر پیش ہے۔ ۱۴ جولائی ۱۹۱۵ کو لکھے گئے ایک خط میں شریف مکہ، مک ماہن کو اپنی وفاداری کا یقین دلواتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’… میں آپ اور آپ کی حکومت کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ ہماری راے عامہ کے بارے میں کوئی فکر مندی نہ کریں۔ ہمارے عوام مشترکہ اہداف کی آب یاری کے لیے آپ کی حکومت کے ساتھ ہیں‘‘۔ پھر درخواست کرتے ہیں کہ: ’’میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مصری ذمہ داران کو اس بات کی اجازت دے دیجیے کہ سرزمین مقدس مکہ و مدینہ کے لیے اپنے تحائف بصورت گندم، جو گذشتہ سال سے روک دیے گئے تھے، دوبارہ بھیجنا شروع کردیں۔ اس سال کے ساتھ ساتھ گذشتہ سال کے تحائف بھی بھیجنا ہمارے مشترک مقاصد کی تکمیل کے لیے بہت مفید ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ میری یہ بات آپ جیسے ذہین شخص کو قائل کرنے کے لیے کافی ہوگی‘‘۔ 
پھر یاددہانی کے طور پر پانچ اہم نکات کا اعادہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’چونکہ عربوں کا مفاد اسی بات میں مضمر ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے ملک کے بجاے برطانیا سے ملنے والے تعاون کو ترجیح دیں، اس لیے تمام عرب عوام، حکومت برطانیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ: 

  1. برطانیا،جنوب میں(عدن کے سوا) بحرہند سے لے کر مغربی صحراے سینا اور بحیرۂ روم تک اور مرسین سے لے کر خلیج فارس تک عرب علاقوں کی آزادی تسلیم کرلے۔ 
  2. اس پورے علاقے میں برطانیا عرب خلیفہ مقرر کرنے کی تجویز کی تائید کرے۔
  3. ہماری حکومت اعلان کرتی ہے کہ آزاد ہونے والے عرب علاقوں کے تمام اقتصادی منصوبوں میں شرکت کے لیے برطانیا کو ترجیح دی جائے گی۔
  4. عرب علاقوں کی آزادی کی حفاظت اور خطے میں برطانوی اقتصادی منصوبوں کی حفاظت کے لیے برطانوی اور عرب حکومت کسی بھی دشمن کے مقابلے کے لیے باہم تعاون کرے گی۔ اگر فریقین میں سے کسی فریق نے کسی تیسرے فریق پر حملہ کیا تو دوسرا فریق غیر جانب دار رہے گا إلا یہ کہ وہ باہم شرائط پر متفق ہوجائیں۔
  5. مدت معاہدہ ۱۵ برس ہوگی۔ اگر کوئی فریق اس مدت میں اضافہ چاہے تو وہ ایک سال پہلے آگاہ کرے گا‘‘۔ 

خط کے آخر میں لکھا گیا کہ: ’’ہمارے درمیان یہ مراسلت معتمد علیہ خصوصی نمایندے کے ذریعے ہی ہوگی، اس لیے ہمارے نمایندے کو اپنا کارڈ دے دیجیے تاکہ اسے آپ تک پہنچنے میں آسانی رہے‘‘۔
جواب میں شریف مکہ کے نام ہنری مک ماہن کا خط بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ تعریف و ستایش اور چاپلوسی میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے لکھتے ہیں:

اعلیٰ نسب، فرزند اشراف، تاج افتخار، یکے از شاخ شجرہء محمدی و أحمدی و قرشی۔ صاحب مقام بلند، سید ابن سید، شریف ابن شریف، جناب کل، امیر قبلہ عالم مکہ مکرمہ، اہل ایمان و اطاعت کے مرکزِ اُمید، عزت مآب جناب حسین الشریف آپ کی برکات تمام انسانوں کو عطا ہوں۔ دلی اعتراف و محبت اور کسی بھی شک سے پاک مخلصانہ اور قلبی آداب کے بعد میں آپ کی جانب سے موصول ہونے والے مخلصانہ جذبات اور انگریزوں کے بارے میں نیک احساسات پر، آپ کا شکریہ ادا کرنے کا شرف حاصل کرتا ہوں۔ ہمارے لیے یہ امر بھی انتہائی باعث مسرت ہے کہ آپ اور آپ کے مردانِ کار یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ عربوں کے مفادات بھی وہی ہیں، جو انگریزوں کے ہیں۔ اس مناسبت سے ہم آپ کی خدمت میںآپ کے نمایندہ علی افندی کے ذریعے پہنچائی جانے والی عزت مآب لارڈ کچنر کی پیش کش کا دوبارہ اعادہ کرتے ہیں۔ اس پیغام میں ہماری اس خواہش کی تائید کا اظہار کیا گیا تھا کہ عرب ممالک کو (ترکوں سے) آزادی ملنا ضروری ہے۔ ہم اس پر بھی آمادہ ہیں کہ آپ کی جانب سے عرب خلافت کا اعلان کیے جانے پر ہم فوراً اس کی تائید کریں گے۔ یہاں ایک بار پھر واضح کرتا چلوں کہ عزت مآب شاہ برطانیا عظمیٰ بھی مبارک شجرہء نبویہ کے ایک عرب فرزند کے ہاتھوں خلافت کے حصول کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ رہا معاملہ [آپ کی خلافت کی] حدود کے تعین کا، تو یہ بات ذرا قبل از وقت ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب جنگ ابھی جاری ہے، (آپ کی خلافت کے لیے مجوزہ) علاقوں میں سے اکثر علاقے بدستور ترک قبضے میں ہیں۔ ایسے وقت میں عرب خلافت کی سرحدوں کے تعین پر بحث کرنا وقت کا ضیاع ہوگا۔ ہمیں اس امر پر بھی بہت دکھ اور تشویش ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والے کئی عرب ابھی تک اس سنہری موقعے کی اہمیت سے غافل رہ کر اسے نظرانداز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس سے قیمتی موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا، لیکن افسوس کہ یہ لوگ ہماری مدد کرنے کے بجاے جرمنوں کی طرف دست ِتعاون بڑھا رہے ہیں۔ وہ اس نئے چور اور ڈاکو، یعنی جرمنی کی طرف بھی تعاون کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور ظالم ’ڈکٹیٹر‘ یعنی ترکی کی طرف بھی۔ اس سب کچھ کے باوجود ہم آپ جناب عالی اور مقدس سرزمین عرب اور محترم عرب قوم کو سرزمین مصر سے ملنے والے غلہ جات اور صدقات ارسال کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ہم نے اس کے لیے تمام ضروری انتظامات کردیے ہیں، آپ کی طرف سے اشارہ ملتے ہی آپ کے مقررہ وقت و مقام پر پہنچا دیے جائیں گے۔ آپ کے نمایندگان کے ہم تک پہنچنے کے لیے بھی سب انتظامات کردیے گئے ہیں۔ ہم دل و جان سے ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔

اختتام پر پھر تعریف و توصیف کے مزید مبالغہ آمیز جملے اور آخر میں تاریخ لکھی ہے ۱۹شوال ۱۳۳۳ھ/ ۳۰ ؍اگست ۱۹۱۵ اعلیٰ حضرت بادشاہ برطانیا کا نائب، آپ کا مخلص، سر آرتھر۔
باہم مراسلت کے ان دو خطوط پر کچھ تبصرہ بعد میں کرتے ہیں، پہلے تیسرے اہم کردار کا ذکر۔ یہ صاحب تھے تھامس ایڈورڈ لارنس المعروف لارنس آف عربیا (پ: ۱۸۸۵ء- م: ۱۹مئی ۱۹۳۵ء)۔ اس کے والد کی ایک پرانے خوش حال خاندان سے تعلق رکھنے والی زبردست شخصیت کی مالک اپنی اہلیہ سے علیحدگی ہوگئی تھی۔ علیحدگی کی وجہ موصوف کی اپنی ملازمہ سے قابلِ اعتراض دوستی تھی۔ بیوی سے علیحدگی کے بعد وہ شادی کے بغیر ہی ملازمہ کے ساتھ رہنے لگا۔ اس سے اس کے پانچ بیٹے ہوئے: بوب، تھامس، ویل، فرینک اور آرنولڈ۔ یونی ورسٹی میں تعلیم کے دوران استاد نے فرانس کی عسکری تاریخ کے بارے میں تحقیق کرنے کا کہا تو اپنے مضمون سے عشق کی حد تک دل چسپی رکھنے والا تھامس موٹر سائیکل پر سیکڑوں کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے فرانس کے متعلقہ علاقوں تک پہنچا۔ اس دوران راستوں، آثارِ قدیمہ اور علاقوں کی اہمیت سے اس کی دل چسپی مزید بڑھ گئی۔ بعد ازاں عراق اور شام کے علاقوں میں سیاحت و مطالعے اور آثار قدیمہ کی تلاش کے نام پر نکلا اور پورے علاقے کا چپہ چپہ نقشوں اور ذہن میں اُتار لیا۔
جرمنی نے خلافت عثمانیہ سے تعلقات میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے لیے نئے تجارتی راستوں کی تلاش میں برلن سے بغداد تک ریل کی پٹڑی بچھانے کا منصوبہ بنایا تو لارنس کو یہ منصوبہ خطے میں برطانوی مفادات کے لیے بڑا خطرہ دکھائی دیا۔ وہ اس وقت شام کے علاقے میں تھا،   فوراً مصر پہنچا۔ لارڈ کچنر تک رسائی حاصل کی اور جرمن منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کئی تجاویز دیں۔ لارنس اس دوران میں عربی زبان پر مکمل قدرت حاصل کرچکا تھا، شامی لہجہ بھی اپنا لیا تھا۔ علاقے میں عثمانی عسکری مراکز کو اپنی ہتھیلی کی لیکروں کی طرح جانتا تھا۔لارنس کو برطانیا کے لیے اہم جاسوس کی حیثیت سے بڑی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ اسے شریف مکہ او راس کے چاروں بیٹوں: عبداللہ، فیصل، زید اور علی تک بھی پہنچا دیا گیا۔ لارنس ایک شامی مسلمان کے روپ میں خطے میں بلاروک ٹوک فعال ہو گیا۔ معلومات کی فراہمی کے علاوہ اس کے سپرد اصل کام مختلف قبائل کے سرداروں کو خریدنے، علاقے میں جاسوسی کا جال پھیلانے اور علاقائی حکمرانوں کو مٹھی میں لینا تھا۔
لارنس نے اس زمانے کی اپنی یادداشتSeven Pillars of Wisdom  (حکمت کے سات ستون) کے عنوان سے لکھی ہے۔ یہ چشم کشا ڈائری انتہائی دل چسپ اور گاہے مبالغہ آمیز تو ہے، لیکن اس دور کا پورا نقشہ سامنے لے آتی ہے۔ کئی عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوکر مسلسل شائع ہورہی ہے۔ ابلیس اور انگریزوں کے اصل ہتھیار ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی عملی داستان کے علاوہ حکمرانوں کی حماقتوں اور لالچ کی تفصیل بھی بتاتی ہے۔ لارنس علاقے میں برطانیا کے لیے اصل ایجنٹ کی تلاش میں شریف مکہ اور اس کے بیٹوں کی شخصیات کا بھی مکمل تعارف کرواتا ہے۔ خود شریف مکہ اور اس کے بڑے بیٹے عبداللہ سے قدرے مایوس ہوا، لیکن تیسرے بیٹے فیصل بن حسین میں اسے اپنا ’گوہر مطلوب‘ دکھائی دیا۔ کئی اہم مواقع پر اس کے شانہ بشانہ ہونے کے علاوہ لارنس نے پورے علاقے میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کروایا۔ کئی کارروائیوں کی قیادت خود کی۔ بالخصوص حجاز تک ریل کی پٹڑی بچھانے کے ترک خلافت ِ عثمانیہ کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اس نے اپنی نگرانی میں کئی بار پٹڑی اور درجنوں پل تباہ کرائے۔ ان کارروائیوں کی باریک تفاصیل تک اس کتاب میں درج ہیں۔
کئی اہم مواقع پر شہزادے فیصل بن حسین کا رفیق سفر ہونے کے ناتے اس کی شخصیت کے بارے میں کئی دل چسپ حقائق بھی لکھے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ لکھا ہے کہ شہزادے کو سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا، لیکن اس نے خود اپنی فوج سمیت کسی پر یہ حقیقت آشکار نہیں ہونے دی۔ مالی مشکلات کا راز فاش ہوجاتا تو خدشہ تھا کہ کئی قبائل سمیت خود فوج کے کئی عناصر ساتھ چھوڑ جاتے۔ اپنی مال داری اور شہزادگی کا بھرم رکھنے کے لیے اس نے قافلے کے کئی اونٹوں پر پتھروں سے بھرے صندوق اور بورے لدوا رکھے تھے۔ ان کی خصوصی حفاظت کی جاتی تھی۔ کہیں پڑاؤ ڈالنے پر محفوظ خیموں میں اتار کر سخت پہرا دیا جاتا تھا۔ لشکر کو یہی بتایا گیا تھا کہ اس میں شہزادے کا خصوصی خزانہ ہے، لیکن وہ جنگی حالات کے باعث انتہائی کفایت بلکہ کنجوسی سے کام لیتا ہے۔

نئی خلیجی جنگ کا خدشہ

ان بھیانک کرداروں کی بداعمالیوں اور کج فکری کا یہ مختصر ذکر آج کے حالات کو سمجھنے میں بہت مددگار ہوسکتا ہے۔ حالات میں بھی بہت مشابہت ہے اور کرداروں میں بھی۔ ۱۰۰ برس پہلے لارڈ کچنر تھا، آج امریکی صدر ٹرمپ کا یہودی داماد جیرڈ کوچنر ہے۔اس وقت بھی وسیع و عریض مسلم علاقوں کی بادشاہت عطا کرنے کا لالچ تھا، آج بھی مختلف ممالک کے سیاہ و سفید کے مالک بنادینے کا وعدہ ہے۔ سوسال قبل عالمی قوتیں برطانیا کی قیادت میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے، خطے کی بندربانٹ کے ذریعے براہِ راست اور بالواسطہ قبضہ اور سرزمین فلسطین کی جگہ ایک ناجائز صہیونی ریاست قائم کرنے کے لیے کوشاں تھی، آج سوسال بعد اس ناجائز ریاست میں توسیع اور اس کا تحفظ یقینی بنانا بنیادی ہدف ہے۔اس مقصد کے لیے خطے کے اکثر ممالک کو خانہ جنگی اور وسیع پیمانے پر فتنہ و انتشار کا شکار کیا جارہا ہے۔ ناجائز ریاست اسرائیل کو مسترد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جارہا ہے۔ خطے میں مسلم ممالک کے مابین مزید جنگوں کے بگل بجائے جارہے ہیں۔ امریکی جنگی بیڑے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کا رخ کررہے ہیں۔ تیل کی تنصیبات اور تیل سپلائی کے عالمی راستوں کو معلوم اور نامعلوم حملوں اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
شام، عراق، یمن ، لیبیا اور افغانستان کے بعد امریکا خطے کو ایک نئی خلیجی جنگ کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ کئی قرائن اور مغربی ذرائع ابلاغ ابھی اس جنگ کا ہونا یقینی نہیں دیکھ رہے، لیکن جنگی ماحول میں یقینا تیزی لائی جارہی ہے۔ اس ماحول کی آڑ میں اخراجات کی ادایگی کے تقاضوں میں  کئی گنا اضافہ کیا جاسکے گا، اور اسی ماحول کی آڑ میں خطے کے لیے نیا امریکی و صہیونی منصوبہ بھی نافذ کیا جاسکے گا۔

نیا امریکی و صہیونی منصوبہ

امریکی صدر کے یہودی داماد نے چند روز قبل اعلان کیا ہے کہ: مشرق وسطیٰ کے بارے میں تیار کردہ صدی کے سب سے بڑا منصوبے ’Deal of the Century ‘ کا اعلان جون ۲۰۱۹ء میں (یعنی ماہ رمضان کے بعد) کردیا جائے گا۔ خود مختلف صہیونی اور امریکی اخبارات کے ذریعے اس منصوبے کی کئی تفصیلات اب تک عام کی جاچکی ہیں۔ کئی پہلوؤں پر عمل درآمد شروع بھی کیا جاچکا ہے۔امریکا کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا جاچکا ہے۔ شام کے مقبوضہ علاقوں (گولان) کو اسرائیلی علاقہ قرار دیا جاچکا ہے۔ وسیع تر اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے اقدامات میں تیزی لائی جاچکی ہے۔ مقبوضہ فلسطین، اُردن، سعودی عرب اور اردن کی سرحدوں میں تبدیلی کے عندیے دیے جارہے ہیں۔ فلسطینی قیادت کو ہوش ربا دولت کا لالچ دیتے ہوئے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کے ’احکام سنائے‘ جارہے ہیں۔ اگرچہ ابھی باقاعدہ اعلان نہیں ہوا، لیکن بامعنی اشارے، بیانات اور اقدامات بہت کچھ واضح کررہے ہیں۔ 
اس پورے منصوبے پر نگاہ دوڑائیں تو یہ عالم اسلام کا جغرافیہ ہی نہیں تہذیب اور معاشرت بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دینے کا منصوبہ ہے۔ اس کے سیاسی اہداف میں سرفہرست ہدف ناجائز صہیونی ریاست کو پوری مسلم دنیا سے منوانا اور قبلۂ اول سے دست بردار کروا دینا ہے۔ اور اس کے نظریاتی و تہذیبی اہداف میں دین کا وہ مخصوص تصور رائج کروانا ہے، جو عالمی صہیونی نظام اور بے خدا تہذیب سے ہم آہنگ ہو۔
مختلف مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ پر ایسے افراد کو نمایاں کیا جارہا ہے، جو سنت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام کے بارے میں ہی نہیں، خود قرآن کریم کے بارے میں شکوک و شبہات کا زہر کاشت کردیں۔ کئی اہم عرب ریاستوں کے ذرائع ابلاغ پر پیش کیے جانے والی بعض شخصیات اس ضمن میں بہت دریدہ دہن ہیں۔ انھوں نے صحیح بخاری کو خصوصی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نئے سرے سے اور بڑی شدومد سے انکارِ سنت کی ایک نئی تحریک شروع کررکھی ہے۔ قرآن کریم، روزِآخرت اور یوم محشر کے بارے میں مضحکہ خیز اعتراضات کا چرچا کیا جارہا ہے۔ صحیح الفکر اسلامی تحریکوں اور ان کے جلیل القدر رہنماؤں پر ’دہشت گردی‘ کے لیبل چسپاں کیے جارہے ہیں۔ خود پاکستان میں بھی ایک مخصوص معذرت خواہ فکر اور گروہ کو طرح طرح سے میڈیا پر نمایاں کیا جارہا ہے۔
مصری آمر جنرل سیسی نے اپنے حالیہ دورئہ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ اس سے پہلے اس کی ایسی ہی ایک کوشش برطانیا میں ناکام ہوچکی ہے۔ خود کئی امریکی دانش ور اور قانونی تجزیہ نگار ایسے کسی اقدام کو احمقانہ قرار دے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس حماقت کا باعث مسلم حکمران ہی بن رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک اہم عرب ملک کے برقی اخبار کے پورے صفحے پر ۴۰ ’دہشت گردوں‘ کی تصاویر شائع کی گئیں۔ اخبار سے ہمدردی رکھنے والے بھی اس وقت سرپیٹ کر رہ گئے، جب انھوں نے ان تصاویر میں سرفہرست فلسطینی قوم کو نئی روح عطا کرنے والے شیخ احمد یاسین شہید اور صاحب ِ تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی سمیت اُمت کے کئی علماے کرام کی تصاویر دیکھیں۔ اخبار نے اگلے ہی روز یہ صفحہ حذف کر دیا، لیکن نامۂ اعمال کی سیاہی مستقل طور پر اپنے نام کرلی اور اپنے آقائوں کی سوچ بھی بے نقاب کردی۔
تقریباً ہرمسلمان ملک میں ایک طرف نمایاں ترین علماے کرام کا استہزا اُڑاتے ہوئے انھیںعوام میں بے وقعت بنانے کا عمل تسلسل سے جاری ہے۔ دوسری جانب ایسی ایسی ہستیوں کو ’علما و فقیہان‘ کے لبادے میں پیش کیا جارہا ہے کہ علم و عمل سے جن کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ 
ہر سطح کے نصاب تعلیم بالخصوص دینی مدارس کے نصاب سے وہ تمام آیات و احادیث اور ابوابِ سیرت و سنت حذف کروائے جارہے ہیں،جن میں اللہ، اس کے رسولؐ اور اہل ایمان کے دشمنوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ایسی آیات اور احادیث جن میں کفار و منافقین اور جھوٹے مدعیان نبوت سے خبردار کیا گیا ہے، ان کو نعوذ باللہ نفرت آمیز مواد(Hate Material  ) اور نفرت پر مبنی خطاب (Hate Speech )کا درجہ دیتے ہوئے ممنوع قرار دیا جارہا ہے۔ یہ آیات و احادیث نصاب تعلیم سے خارج کروائی جارہی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کا مقام و مرتبہ واضح کرتے ہوئے یہودیوں کی سازشوں اور ان کے عالمی منصوبوں کو بے نقاب کرنے والے اہل علم اور مفسرین قرآن کو جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ ترکی اور پاکستان سمیت جن ممالک کی جانب سے ریاست یا عوام کی سطح پر اعتراض و احتجاج کا خدشہ ہے، انھیں بدترین اقتصادی بحرانوں کے ذریعے قابو کیا جارہا ہے۔
خطرہ صرف دشمن کے اس بھیانک منصوبے اور اس کے ہمہ گیرمہلک اثرات ہی سے نہیں، خود اسلام کے نام لیوائوں سے بھی ہے۔ عین اس موقعے پر کہ جب پوری دنیا کی عیسائی برادری اپنا اہم مذہبی تہوار منا رہی تھی، چند مسلمان نوجوانوں نے سری لنکا کے چرچوں اور ہوٹلوں پر خودکش حملے کرکے سیکڑوں بے گناہوں کو قتل اور زخمی کر دیا۔ اس مجرمانہ کارروائی سے پہلے نیوزی لینڈ کی دومساجد میں دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے ۵۰نمازی شہید کردیے گئے تھے۔ اس عظیم سانحے اور نیوزی لینڈ حکومت کے مثبت اور جرأت مندانہ اقدامات کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوئی تھی۔ سری لنکا میں ہونے والی دہشت گردی نے یہ ساری ہمدردی نفرت کی نئی لہر میں بدل دی۔ مسلمان جو کشمیر اوراراکان سے لے کر افغانستان و فلسطین تک، ہرجگہ خوف ناک دہشت گردی کی بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں، ایک بار پھر قاتلوں اور مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے۔ ان واقعات کو بہانہ بناتے ہوئے اسی ماہِ رمضان المبارک میں سری لنکا کی درجنوں مسلم آبادیوں، دیہات اور مساجد کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔
اب ایک طرف یہ سارے منصوبے ، عالمی قوتیں اور ان کے علاقائی آلۂ کار ہیں، اور دوسری جانب اللہ اور اس کے رسولؐ سے حقیقی محبت رکھنے والی ایک پوری نسل ایسی ہے،جو قبلۂ اول کو اپنے نبیؐ کی امانت سمجھتی ہے۔ جو اس امانت میں کسی صورت اور کسی طرح کی خیانت کو ایمان کے منافی سمجھتی ہے۔ چند ہفتے قبل بھی غزہ میں بسنے والے ان نوجوانوںنے صہیونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ صہیونی افواج کے جدید ترین ہتھیاروں کے مقابلے میں فلسطینی تحریک مزاحمت نے اپنے بنائے ہوئے میزائل چلائے، لیکن ایسے مؤثر کہ جارح افواج کو جنگ بندی کی بھیک مانگنا پڑی۔ 
قرآن کریم بھی اپنے ابدی اور سدابہار اصول بار بار تازہ کر رہا ہے۔ سورۂ فاطر میں ہے: ’’یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے، حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کررہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے‘‘۔ (فاطر ۳۵: ۴۳)

نظریاتی تحریکات کو اکثر ایسے مواقع پیش آتے ہیں، جب دعوتی میدان میں یا بعض اوقات سیاسی محاذ پر متوقع کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور تحریک کے ہمدرد اور بہی خواہ ہی نہیں خود اس کے کارکن اور ذمہ دار افراد بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کمی کمزوری کہاں ہے؟___ ہماری اپنی دعوت میں، ہمارے طریقِ دعوت میں ،ہماری شہرت اور عوامی تصویر میں ،عوام الناس کی عقل و فہم اور تعلیم میں، یا ہمارے اسلوب دعوت اور عوامی ذہن و مسائل کے صیحح طور پر سمجھنے میں۔ 
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ انسان اپنی کامیابی کے نتیجے میں، اپنی قوت پر نازاں ہوتا ہے اور ناکامی سے اعصابی تناؤ اورمایوسی کا شکار ہوتا ہے۔تاہم، ایسے مواقع پر خود احتسابی اور رُک کر اپنا جائزہ لینا عملِ خیر ہے، جو مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

تحریک اسلامی اور خود احتسابی

پاکستان میں تحریک ِ اسلامی کی تاریخ کے دوران کئی بار ایسے مواقع آئے، جب اس نے رُک کر یہ غور کیا کہ: کیا وہ اپنے مقصد اور نصب العین پر قائم ہے یا کہیں انحراف کے کچھ پہلو رُونما تو نہیں ہورہے ہیں؟ پھر یہ سوال بھی زیربحث آیا کہ: کیا اس کا طریق کار درست خطوط پر جاری و ساری ہے یا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
جماعت اسلامی کو اس کے قیام کے تقریباً ۱۶سال بعد اس نوعیت کا ایک مرحلہ پیش آیا۔ چنانچہ ۱۹۵۷ء میں اس کے بعض ذمہ دار ارکان نے یہ محسوس کیا کہ: ملکی سیاست میں براہِ راست حصہ لینے سے شاید جماعت اپنے ہدف سے ہٹ گئی ہے۔اس صورت حال پر داعیِ  جماعت اسلامی نے کُل پاکستان اجتماعِ ارکان میں تمام شرکا کے سامنے اپنا موقف پیش کیا، اور جو ارکان اس راے سے اختلاف رکھتے تھے، انھیں بھی اپنی پوری بات تفصیل سے بیان کرنے کا پورا موقع دیا۔ اس طرح غور و فکر اور تبادلۂ خیالات کے بعد استصواب راے ہوا تو داعیِ تحریک کی پیش کردہ قرارداد کے حق میں ۹۲۰؍ ارکان نے اور اس سے اختلاف کرتے ہوئے ۱۵؍ ارکان نے راے دی۔
جولائی ۲۰۱۸ء میں قومی انتخابات کے نتائج  پر تحریکی قیادت نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے کارکنوں اور ہم خیال افراد سے اجتماعی ملاقاتیں کیں۔ مختلف مقامات پر اجتماعات میں سوال و جواب کی نشستوں کا اہتمام کیا، تو اس دوران میں یہ سوال کسی نہ کسی شکل میں سامنے آیا کہ: ’’ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا حصہ نہیں لینا چاہیے؟‘‘ مولانا مودودی نے سیاست اور غیرسیاست کا جواب ۹؍اپریل ۱۹۴۵ء کو اس طرح دیا تھا:

ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جو یہ بات کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم حکومتِ الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتِ الٰہیہ سے مراد محض ایک سیا سی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوا کچھ نہیں کہ موجودہ نظام کی جگہ وہ مخصوص سیاسی نظام قائم ہو، پھر چوں کہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لا محالہ وہی مسلمان ہوں گے، جو اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لے رہے ہوں۔ اس لیے خود بہ خود اس تصور میں سے  یہ معنی نکل آتے ہیں یا ہوشیاری کے ساتھ نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دین دارانہ وعظ شروع ہو تا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ: ’’تمھارے پیش نظر محض دنیا ہے ، حالاںکہ مسلمان کے پیش نظر دین اور آخرت ہونی چاہیے‘‘___ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچر کو کھلے دل کے ساتھ پڑھے، تو بہ آسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی___ انفرادی اور اجتماعی___ میں وہ ہمہ گیر انقلاب رُونما ہو جو اسلام رُونما کرنا چاہتا ہے۔

اگر ہم اپنی دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات پر مشتمل ہوگی:

  1. یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اورجو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
  2. یہ کہ جوشخص بھی اسلام قبول کرنے یا اس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کر ے اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
  3. یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرماں روائی میں چل رہا ہے اور معاملات دنیا کے انتظام کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور راہنمائی و امامت نظری اور  عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔

اسی بات کو ۱۹۵۷ء کے خصوصی اجتماعِ ارکان میں مولانا مودودی نے اپنی مفصل تقریر میں بیان فرمایا، اور بتایا کہ: جماعت اسلامی کی دعوت کے چار نکات: (۱) تطہیر افکار و تعمیر افکار (۲)صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت (۳)اجتماعی اور معاشرتی اصلاح کی سعی، اور (۴)نظام حکومت  کی اصلاح کے لیے جمہوری ذرائع سے منظم کوشش___ یہ نکات کسی وقتی ضرورت کی بنا پر وجود میں نہیں آئے، بلکہ قرآن و سنت رسول ؐاور خلفاے راشدینؓ کے اسوہ کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد متعین کیے گئے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل حالات میں چوتھے مقصد کے لیے نکلنے کا موقع نہ تھا، لیکن قیامِ پاکستان اور ’قراردادِ مقاصد‘ کے منظور ہونے کے بعد جب یہ موقع ملا، تو بھرپور انداز میں دینی اور ملکی ترجیحات کی روشنی میں بروے کار لایا گیا۔

ایک نظریاتی، اصلاحی اور دعوتی جماعت جو ان چار بنیادی اجزا کو بنیادی اہمیت دیتی ہو، یعنی: تطہیر افکار اورتعمیرافکار، تعمیر سیرت وکر دار ، تنظیم افراد اور تبدیلی امامت___ اسے محض ایک سیاسی جماعت نہیں کہا جاسکتا، نہ اسے محض ایک دعوتی جماعت کہا جا سکتا ہے۔ اس کی ساخت اُن تمام سیاسی جماعتوں سے مختلف ہوتی ہے، جن کے بنیادی مقاصد، اہداف میں تعمیر کردار اور تعمیر افکار کو مرکزیت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ وہاں پر جہاں مرکزیت شخصی اور گروہی مفادات کو حاصل ہوتی ہے ، نیز سیاسی جماعت کے قائد سے غیر مشروط وفاداری ہی کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد ہوتی ہے، اور ان سب کا مفاد صرف اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔
ایک اصلاحی دعوتی جماعت کی منزلِ مقصود محض سیاسی اقتدار نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کے اصل مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ جن مقامات پر قیادت کا حصول حالات کی بنا پر ممکن نظر نہ آتا ہو، وہاں بھی اقامت دین کے یہ چار عناصر اس کا تشخص برقرار رکھتے ہیں ، البتہ چوتھے عنصر کے لیے کوشش کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں تبدیلیِ قیادت کی عملی جدوجہد پروان چڑھ سکے۔اور جب اور جس حد تک حالات اس کی اجازت دیں، اس میدان میں سرگرم ہوا جاتا ہے۔ ان چاروں اجزا پر مناسب تناسب کے ساتھ بیک وقت عمل کی کوشش کی جاتی ہے، البتہ اس راہ میں توازن کا اہتمام ضروری ہے اور اگر توازن برقرار نہ رہے تو ترقی کا عمل متا ثر ہوتا ہے۔
یہ چار عناصر نہ تو زمانے کی پیداوار ہیں، اور نہ کسی ایک فرد کے ذہن کی تخلیق ہیں بلکہ جو متلاشیِ حق خلوصِ نیت کے ساتھ قرآن سے ہدایت طلب کرے گا اور سیرت پاکؐ پر غور کرے گا، وہ انھی چار عناصر تک پہنچے گا۔ یہی وجہ تھی کہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم اور حسن البنا شہید، جو کبھی زندگی میں نہ ملے اور نہ خط کتابت کی اور نہ ایک دوسرے کی تحریروں کا مطالعہ کیا، لیکن دونوں نے انھی چار عناصر کو اپنی تحریکات کا ستون قرار دیا۔

تشکیلِ نو کا پہلو

انسانی ذہن جب بھی دعوت اسلامی کی کامیابی یا ناکامی کو، عددی پیمانے یا سیاسی کامیابی سے وابستہ کر دیتا ہے تو پھر اس کا اعتماد اپنی دعوت کے حق ہونے اور طریق کار کے اسوۂ حسنہ پر مبنی ہونے میں بھی متزلزل ہوناشروع ہوجاتا ہے۔ بلاشبہہ اگر تحریک اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہوتی تو نعروں کے بدلنے سے نتائج پر فرق پڑ سکتا تھا، لیکن جب تک وہ ایک ہمہ گیر دعوتی و اصلاحی جماعت ہے، اسے ایسی کسی نئی شناخت (Branding)کی ضرورت نہیں۔البتہ ، اسے انتہائی   بے لاگ اور ناقدانہ خود احتسابی کی ہمیشہ ضرورت رہے گی اور اسی میں اس کے لیے خیر ہوگی۔
بلاشبہہ برقی ابلاغ عامہ آج عوام کی راے سازی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ پھر ایک واضح ثقافتی یلغار: این جی اوز کے تعلیمی منصوبوں اور ابلاغ عامہ کے اشتہارات، ڈراموں اور موسیقی کے پروگراموں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا کے ذریعے بے راہ روی، فکری انتشار، مذہب سے دُوری، حتیٰ کہ دہریت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور آزادیِ اظہار کے نام پر یہ سارا کام بغیر کسی روک ٹوک کے کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی اس اثر انگیزی اور کثرتِ استعمال کی بنا پر بعض تحریکی ہمدرد بھی یہ سوچنے لگے ہیں کہ اگر اپنے فکری مخالفین کا دوبدو مقابلہ نہیں کیا جاتا تو سوشل میڈیا پر مخالفین ہی کا بیانیہ چھایا رہے گا۔
یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے کہ موعظۂ حسنہ محض تلقین اور تحریر تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آج برقی ابلاغ عامہ کی سہولت ہم اپنا لیں گے تو ہماری بات لاکھوں افراد تک پہنچ جائے گی۔ یہ تمنا لازماًقابل احترام ہے، لیکن اس کے باوجود تجربہ بتاتا ہے کہ ذاتی ربط اور براہِ راست (face to face) تبادلۂ خیال کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔پھر یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ کیا دعوت کا مطلب بہت سے لوگوں تک تحریک یا لیڈر کے نام کا پہنچنا ہے یا دعوت کا مطلب تربیتِ اخلاق اور تعمیر سیرت و کردار کا نام ہے، اورکیا یہ نصب العین صرف سوشل میڈیا سے حاصل ہو سکتا ہے؟ سوشل میڈیا کا تیز رفتاری سے لاکھوں افراد تک پیغام پہنچانا اپنی جگہ اہم سہی، لیکن کیا اس کے ذریعے نفس مضمون کی وضاحت اور وہ تشریح ہو سکتی ہے جوفرد اور فرد کے براہِ راست رابطے میں پائی جاتی ہے؟
دعوت ایک ایسا ہمہ پہلو عمل ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چیز ایک فرد سے ذاتی رابطے کا بدل نہیں ہوسکتی۔ ذاتی رابطہ ہی انسان کو دوسرے انسان کی فکر اور سیرت سے متاثر کرتا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ ایک فرد کی قوت فہم، تجزیہ و تحقیق کے بجاے جلد نتائج کی عادت کو پروان چڑھاتے ہیں اور فرد میں توجہ دینے کا پیمانہ انتہائی مختصر ہو جاتا ہے ۔ 
 موجودہ ماحول میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ توجہ کے ساتھ کتب بینی کے رواج کو زندہ کیا جائے، سفری لائبریری اور مطالعہ گھر قائم کیے جائیں اور تحریکی لٹریچر کو جدید ابلاغی آلات کے ذریعے بھی سمجھایا جائے۔ مثال کے طور پر ممکن ہو تو کسی کتاب کے ایک باب یا ۲۰،۲۵صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد مطالعے کی بنیاد کو سامنے رکھ کر پانچ سے سات منٹ کا پاورپوائنٹ حاصلِ مطالعہ تیار کیا جائے۔ اگر اجتماعی مطالعے کی صورت ہے تو سامعین کو سوالات کی دعوت دی جائےاور پھر ان سوالوں کے جوابات اجتماعی طور پر تلاش کیے جائیں۔
بعض جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ: ’’دعوت اور تنظیم کو مقبول بنانے کے لیے دعوتی اور سیاسی کاموں کو دو الگ الگ شعبوں میں بانٹ دیا جائے۔ایک شعبہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار میں مصروف ہو اور دوسرا شعبہ سیاسی مہم جوئی کے لیے وہ تمام حربے استعمال کرے جو سیاسی جماعتیں استعمال کرتی ہیں، تاکہ تبدیلیِ قیادت میں کامیابی جلد ازجلد حاصل کی جاسکے‘‘۔
ایسی تحریک کہ جو دین کے جامع تصور کی علَم بردار ہو،اسے دوسری سیاسی جماعتوں پر قیاس کرنا ہی بنیادی غلطی ہوگی۔دین کے جامع تصور کے بجاے دین و سیاست کی علیحدگی اختیار کرنا  نہ صرف تحریک کی شناخت تبدیل کرنا ہوگا بلکہ اس کی بنیادی فکر سے بھی انحراف ہو گا۔البتہ، فرق اگر پیدا ہوسکتا ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ دین کے ہمہ گیر تصور کے ساتھ عصری مسائل پر دلائل و نصوص پر مبنی موقف کو پیش کیا جائے، تا کہ عوام کو دوسری سیاسی جماعتوں کے موقف اور تحریک کے موقف میں واضح فرق نظر آئے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے دعوت اور شخصی رابطہ

سوشل میڈیا کے ذریعے دعوت عام کرنا ایک مثبت تجویز ہے، لیکن دعوتِ اسلام میں ذاتی کردار اور شخصیت کا عنصر سب سے زیادہ اہم ہے۔ اسی لیے انبیا ؑ کو مجسمِ دعوت بنا کر بھیجا گیا کہ ان کا ہر عمل وہ مسکراہٹ ہو یا غصے پر قابو پانا، وہ اہل خانہ کے ساتھ نرمی و احترام ہو یا شرک اور کفر کے خلاف پوری قوت سے جہاد کرنا، وہ تجارتی معاملات میں ایمان داری اور شفافیت ہو یا عہد کی پابندی نبھانا، غرض شخصیت کا اعلیٰ معیار لوگوں کے سامنے موجود ہو۔ ان انبیاکرام ؑ کے پیروکاروں کو اسی طرح لوگوں کے سامنے دعوت کا نمونہ بننا ہے۔ یہ مقصد، برقی پیغام رسانی سے چاہے وہ کتنے دل فریب چارٹوں پر مشتمل کیوں نہ ہو کماحقہ‘ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی اس وقت سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی اکثر معلومات کا غیرمصدقہ ہونا واضح ہے۔ ان خامیوں کے باوجود اس کا محدود استعمال تو ہونا ہی چاہیے، لیکن یہ استعمال کسی بھی نظریاتی اور اصلاحی جماعت کو لٹریچر سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔ کتاب اور معلمِ کتاب دو ایسے قرآنی اصول ہیں، جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد دعوت اسلامی کے بنیادی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور جن کا تذکرہ قرآن کریم کے صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ تذکیر بالقرآن اور تذکیر بالسیرۃ النبیؐ کا اسوہ اور الکتاب کی تعلیم ہی دین ہے۔ یہی دین کی عالم گیر دعوت اور دین کی مکمل شکل ہے۔
نئی رُوپ کاری (re-branding ) ان اداروں کے لیے ضروری ہوتی ہے، جن کا وجود منڈی کی معیشت کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ عملاً خریدار یا صارف کو اپنا ’والی وارث‘ قرار دیتے ہوئے، وہی رنگ ڈھنگ اختیار کرتے ہیں، جو ان کے مَن کو بھاتا ہو۔ تاجر اور صنعت کار کے لیے صارف کی خواہش اور طلب ہی اصل ’حق‘ ہوتا ہے۔ اسی لیے بنک ہوں یا دواساز ادارے، کپڑے فروخت کرنے والے ہوں یا سامانِ آرایش بنانے والے، وہ اپنا تجارتی نشان (برانڈ) اور تعارفی نعرے ایسے رنگوں کے انتخاب سے پیش کرتے ہیں جو جاذبِ نگاہ ہو۔
جب کہ، دعوتِ قرآن و سنت ابدی اصولوںکی صورت میں ہمارے پاس اپنی مکمل ترین شکل میں آج بھی موجود ہے۔ اس میں کوئی تعلیم نہ پرانی ہوئی ہے نہ اس کی حقانیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی کشش اور اثر آج بھی ایک طالبِ حق کے لیے ویسا ہی ہے، جیسا دورِ رسالتؐ میں مکّہ اور مدینہ کے ماحول میں تھا۔ 
کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اس دعوت کو کس موقعے پر ، کس طرح ، کن الفاظ میں اور کس فرد کےسامنے رکھا جائے۔ اگر موعظہ(communication ) ہو تو وہ احسن ہو ، اور اگر جدال (Dialogue ) ہو تو وہ بھی احسن ہو ۔ اگر حکمت کا استعمال ہو تو وہ بھی اعلیٰ ترین ہو۔ بات لازماً کھری اور دل نشین ہو، کھردری نہ ہو۔ بات کرنے والا تھانے دار بن کر بات نہ کرے ، نہ اس کے اظہارِ بیان اور طرزِعمل اور طرزِمعاشرت سے برتری کا اظہار ہو۔ وہ ہرلمحے شگفتہچہرے کے ساتھ (جو اسوہ نبویؐ ہے )مختصر اور ہمدردانہ (الدین النصیحہ) بات کرے۔ دعوت اور طریق دعوت کو دل سوزی سے پیش کرنے کے باوجود اگر کوئی بات نہ مانے تو اسے چھوڑ کراس سے کٹ نہ جائے، یعنی مایوسی کا شکار ہونے کے بجاے مسلسل اپنا کام جاری رکھے، حتیٰ کہ ربِّ کریم خود ان افراد کے دلوں کو حق کے لیے کھول دے۔ایسے موقعے پر بھی اپنی بندگی اور حلم اور خاکساری کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ رب العالمین سے استغفار طلب کرتا رہے  اور اسے اپنا کارنامہ یاقیادت کا کرشمہ، حکمت عملی کی برتری ، اپنے منصوبے کی کامیابی نہ سمجھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سمجھے۔

کامیابی کا معیار

دعوت و فکر میں کامیابی کا پیمانہ ووٹ نہیں ہے بلکہ اپنی جانب سے مکمل کوششیں کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مسلسل استعانت کی طلب اور ہمہ وقت امید پر قائم رہنا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے اقتدار مل جاتا ہے، جب بھی اسے کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس راہ میں اصل کامیابی  تو آخرت کی کامیابی ہے ، سیاسی نتائج کامیابی کا حتمی معیار نہیں ہیں۔ کارکردگی کے معیارات للہیت ، تعلق باللہ ، بندگیِ رب، احتسابِ نفس، عدل و انصاف کا قیام اور اپنے دائرۂ اختیار میں بے راہ روی کو دُور کرنا ہے۔ معروف کا قائم کرنا، اور منکر کا کم سے کم ہو جانا ہے۔ یہاں بھی یہ شرط نہیں ہے کہ ۱۰۰فی صد افراد اہل حق بن جائیں ، حتیٰ کہ ریاست ِمدینہ جیسے معاشرتی عدل کے باوجود منافقین اور فاسقین کی ایک تعداد موجود رہی۔ اس لیے کامیابی کا پیمانہ محض افراد کی گنتی یا انتخابات میں ووٹ کی تعداد نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی مسلسل کوشش اور جدوجہد کا صحیح معنوں میں ایثار و قربانی ، درست سمت اور مستقل مزاجی پر مبنی ہونا ہے۔

اصولی حکمت عملی

جن اُمور پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ان میں اوّلین چیز خود اس لٹریچر کا مطالعہ ہے، جو اس تحریک کو شروع کرتے وقت لکھا گیا تھا۔ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ انقلابی اور اصولی تحریریں وقت گزرنے کے ساتھ ماضی کا قصہ بن جاتی ہیں۔ اگر آج بھی کوئی طالب علم یہ خواہش رکھے کہ وہ فقہ اسلامی میں کوئی نئی راہ نکالے تو اسے سب سے پہلے مقاصد ِ شریعت اور فقہ کے ان اصولوں کو سمجھنا ہوگا کہ جن کی بنیاد خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے رکھی، اور جن کی روشنی میں  تمام عظیم المرتبت فقہا، مجدّدین اور صلحاے اُمت نے ہر دورمیں فکری اور عملی رہنمائی کی۔ اس سلسلے میں امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام ابن حنبل، امام شافعی، امام غزالی، امام ابن تیمیہ، امام شاہ ولی اللہ وغیرہ کے قرآن و سنت پر مبنی روشن کردہ چراغ آج بھی مینارئہ نور ہیں۔
ایسے ہی تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں کیا ہیں ، اس کا مقصدِ تاسیس کیا ہے، اس کا طریق کار کیا ہونا چاہیے؟ یہ سب موضوعات سنجیدہ مطالعے اور غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں، جن سے کوئی لیڈر اور کارکن بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل اس لحاظ سے ایک انتہائی اہم دستاویز ہے، جو طے کرتی ہے کہ کس طرح ایک دعوتی و اصلاحی تحریک صبر و استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ اپنا سفر رواں دواں رکھتی ہے اور اس کا یہ سفرکس طرح ان چار اجزا کے متناسب طور پر اختیار کرنے سے طے ہوسکتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا جماعت کی دعوت میں کوئی اضافہ نہ تھا اور نہ تحریف۔ یہ خیال ایک بے بنیاد مفروضہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے تو جماعت اسلامی ایک دعوتی جماعت تھی، اسی لیے متعدد صاحبانِ علم اس میں شامل ہو گئے تھے، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب جماعت نے اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا تو وہ سیاسی جماعت بن گئی، تو اس لیے وہ احباب اس سے الگ ہو گئے۔ یہ درست بات نہیںہے۔ جماعت پہلے ہی دن سے اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک اقامت دین ہرمسلمان اور بحیثیت مجموعی پوری اُمت مسلمہ کا مقصد ِ زندگی اور مقصد ِ وجود ہے اور یہی اس کی امتیازی شان ہے۔

دعوتی اور سیاسی پہلو میں توازن

ان معروضات کا دوسرا پہلو بہت زیادہ غور طلب ہے کہ کیا دعوت کے چار اجزا پر گذشتہ عشروں میں واقعی صحیح تناسب کے ساتھ کام کیا جاتا رہا ہے، یا سب سے زیادہ سرگرمیاں چوتھے جز پر مرتکز رہیں اور تطہیر افکار اور تعمیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار کے باب میں کمی آگئی؟کیا اس ربع صدی میں جماعت کے پاس ایک مناسب تعداد ایسے افراد کی پیدا ہوئی ہے، جو اس فکری کام کو اعلیٰ سطح پر آگے بڑھا سکے ہوں؟
کیا ساٹھ اور ستّر کے عشرے کے بعد ایسے کارکن پیدا ہو سکے جو چودھری غلام محمد، نعیم صدیقی، چودھری رحمت الٰہی، پروفیسر عبدالحمید صدیقی ، سیّد سیاح الدین کاکاخیل، مولانا معین الدین، ڈاکٹر نذیر احمد شہید ،مولانا جان محمد بھٹو، مولانا گوہر رحمان، مولانا عبدالعزیز، چودھری غلام جیلانی، ڈاکٹرسیّداسعد گیلانی ، پروفیسر غلام اعظم، قاضی حسین احمد، خرم مراد وغیرہ کے خلا کو پُر کر سکتے ہوں؟  کیا جماعت سے وابستہ افراد کی معتدبہ تعداد اپنے مالی اور معاشرتی معاملات میں وہ رویہ اختیار کرسکی، جو تحریک کی پہلی اور دوسری نسل کے افراد نے برقرار رکھا تھا؟
اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت میں خرابیاں در آئی ہیں، تاہم اس جانب متوجہ کرنا مطلوب ہے کہ بڑے اجتماعات کی حاضری سے دعوتی نفوذ کو جانچنا درست پیمانہ نہیں ہے۔تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ سیرت و کردار کے حامل وہ افراد ہیں جو چاہے تعداد میں بہت کم ہوں لیکن عبادات اور سماجی زندگی کے معاملات میں سب سے افضل ہوں۔ ان میں بے لوثی، تعلق باللہ اور علمی صلاحیت سب سے زیادہ ہو۔ وہ نہ صرف قرآن و سنت اور سیرت بلکہ عالمی سیاست، معیشت اور جدید رجحانات سے براہِ راست واقف ہوں یا واقفیت حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہوں اور ایک تعداد تو اجتہادی صلاحیت رکھتی ہو۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم ماضی قریب میں ایسے افراد پیدا کر سکے جو بیسیوں افراد پر علمی اورانتظامی صلاحیتوں کے لحاظ سے غالب آسکتے ہوں؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو اصل مسئلہ لیبل، نعرے اور برانڈنگ کا نہیں ہے بلکہ ان چار اجزا پر خود احتسابی کا ہے، اور اس کے نتیجے میں مؤثر منصوبہ بندی اور مردانِ کار کی تیاری کا ہے۔
تحریک کے چوتھے جز کا حصول اسی وقت ممکن ہے، جب ہم اوّلین تین اجزا کو مطلوبہ حد تک حاصل کریں۔ تحریک سے وابستگی شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ تحریک کی دعوت کو جسم و روح کا جزو بنائے بغیر یہ خواہش کرنا کہ دعوت کا استقبال ہر طرف سے ہو، ایک خام خیالی ہے۔یہ سفر لمبا اور صبر آزما ضرور ہے ،لیکن جب تک اس طویل مرحلے سے نہ گزرا جائے، کامیابی عملی شکل اختیارنہیں کرسکتی۔
کوئی بھی فکری اور نظریاتی تحریک اسی وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کے تربیت یافتہ افراد ، تعمیر افکار اور تربیت اور مقصد سے والہانہ لگن کو اوّلیت دیتے ہیں۔ سیاسی موضوعات پر ایک عظیم تعداد میں جلسہ کر لینا، نہ دعوت کی مقبولیت کی علامت ہے نہ قیادت یا نعرے کی اثر انگیزی کا ثبوت۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ فکر نہ صرف ہم خیال کے دل و دماغ کو متاثر کرے بلکہ جو ابھی تک مخالفت کر رہا ہے، اسے غوروفکر کرنے پر مجبور کرے۔ اسی طرح آج اصل چیلنج یہ نہیں ہے کہ کسی معجزاتی انداز میں اپنی دعوت بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچادی جائے۔ آج اصل چیلنج تعمیرِ افکار کا ہے۔ مستشرقین اسلام کی نئی نئی تعبیرات گھڑتے اور خود اسلام کو تاریخ کا ایک دور قراردیتے ہوئے، Post Islamism جیسی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ غیر مسلم ہی نہیں خود مسلمان دانش وَر بھی مغربی تقلید میں اس اصطلاح کا استعمال کر رہے ہیں۔اس چیلنج کو سمجھنا تحریک ِ اسلامی کی ذمہ داری ہے۔
یہ کام ایسے افراد تیار کرنے سے ممکن ہے کہ جو اسلام کے منشا کو مکمل طور پر سمجھنے اور جذب کرنے کے بعد تحریکی فکراور قرآنی پیغام کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ مسئلہ افراد کی کثرت کا نہیں ہے بلکہ پیغام کی تاثیر کا ہے۔ آج کے معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور تعلیمی مسائل پر تحریک کے موقف کو قرآن و سنت کے نصوص اور جدید فکر کے تنقیدی جائزے کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ اس بنیادی کام کے بغیر لاکھوں افراد تک جدید برقی ذرائع سے محض اپنا نام پہنچانا تو ممکن ہے، لیکن اس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ یہ بات ایک کان سے سنی جائے اور دوسرے کان سے نکال دی جائے۔ دعوت کی اثر انگیزی اسی وقت ہو گی جب فرد کا فرد سے رابطہ ، تبادلۂ خیالات اور داعی کی شخصیت خود اپنے ہر عمل سے دعوت کا مرقع ہو۔ یہ کام آج بھی اسی طرح ہو سکتا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد تک ہوتا رہا، اور جس کے لیے بعض ادارے بھی قائم کیے گئے۔ گویا کہ مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اگر ترجیح محض سیاسی کامیابی ہو گی تو یہ کام کبھی عملی شکل اختیار نہیں کرے گا۔ اگر ترجیح دعوت کے چاروں اجزاہوں گے تو یہ کام نہ صرف آسان ہو گا بلکہ اس کے نتائج جماعت کے سیاسی اثر(Impact)کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور جماعت کی اثر انگیزی وقتی طور پر نہیں بلکہ دیرپا اور طویل المیعاد سطح پر ہو سکے گی۔

بیسویں صدی کی عالم گیر تحریک ِ احیاے اسلامی کے اصل معمار اللہ کے تین برگزیدہ بندے ہیں: ۱- علّامہ اقبال [م:۱۹۳۸ء] ۲- حسن البنا شہید [م:۱۹۴۹ء] ۳- سیّدابوالاعلیٰ مودودی [م: ۱۹۷۹ء]۔ 
اس دور کے فکری،تہذیبی اور سیاسی رجحانات کے فہم کی اصل کلید، ان شخصیات کے افکارو خیالات اور اُن کے نظریاتی، اخلاقی،سماجی اور سیاسی اثرات کا معروضی مطالعہ اور تفہیم ہے۔ آج کا تجزیہ نگار اور کل کا مؤرخ ان تاریخ ساز شخصیات اور اُن کی برپا کردہ تحریکات کے آئینے میں اُمت اسلامیہ کی اصل تصویر دیکھ سکتا ہے۔ 
تاہم، یہاں پر اسلامی مقدمۃ الجیش علّامہ اقبال کے فکری اور تہذیبی کارنامے کے بارے میں کچھ معروضات پیش ہیں:
اقبال کی علمی اور ادبی زندگی کا آغاز اُنیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہوگیا تھا لیکن قومی زندگی پر ان کے اثرات یورپ سے واپسی کے بعد مرتب ہونے شروع ہوئے۔ اسرارِ خودی کی اشاعت اور انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ان کی رُوح پرور شرکت نے نہ صرف فکرِ اقبال کے نئے دور کا آغاز کیا ، بلکہ اسی سے ان کی ملّی زندگی کے ایک نئے باب کا افتتاح بھی ہوا۔ اقبال نے اپنا پیغام، نظم و نثر اور زبان و قلم کے ذریعے پیش کیا اور بالآخر عملی سیاست میں شرکت کرکے تغیر اور تعمیر کے عمل میں مؤثر کردار ادا کیا۔ ان کی مساعی کا ثمرہ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو، ملّت کی مزاجی کیفیت کی تعمیرِ جدید، ایک غلام قوم کی آزادی اور ایک عظیم اسلامی مملکت کے قیام کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔

اقبال کا کارنامہ

ساتویں صدی ہجری میں جو کام مولانا جلال الدین رومیؒ (۱۲۰۷ء-۱۲۷۳ء) نے مثنوی کے ذریعے انجام دیا تھا، اسے دورِحاضر میں اقبال نے اوّلاً اسرارِ خودیاور رموزِ  بے خودی  اور پھر جاوید نامہ اور پس چہ   باید   کرد اے اقوام شرق کے ذریعے انجام دیا۔

  • اسرارِ خودی میں جمود اور انحطاط کے بنیادی اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یونانی اور عجمی اثرات کی وجہ سے تصوف پرجو حیات کش تصور مسلمان ذہنوں پر مسلط ہوگیا تھا، اس کی تباہ کاریوں کو بیان کیا گیا ہے اور نفی ذات اور ترکِ دُنیا کی جگہ اثباتِ خودی اور تعمیرحیات کا اسلامی تصور پیش کیا گیا ہے۔

  • اسرارِ خودی کا مرکز تصور ایمان کی یافت اور اس کی قوت سے ایک نئے انسان: مردِمومن کی تشکیل ہے۔

  • رموز بـے خودی میں اس اجتماعی، اداراتی اور تاریخی پس منظر کو بیان کیا گیا ہے،جس میں یہ انسان اپنا تعمیری کردار ادا کرتا ہے۔ فرد اور ملّت کا تعلق، اجتماعی نصب العین، خلافت ِالٰہی کی تشریح و توضیح، اجتماعی نظم اور ادارات (خاندان، قانون و شریعت وغیرہ) کی نوعیت اور خودی کی پرورش اور ملّی شخصیت کے نمو میں تاریخ کے حصے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

  • جاوید نامہ درحقیقت شاعر کے روحانی سفر کی داستان ہے، جس میں وہ عالمِ افلاک کی سیر کرتا ہے۔ دُنیا اور اس کے ماورا پر بصیرت کی نظر ڈالتا ہے اور مشرق و مغرب کی نمایندہ شخصیات کی زبان سے آج کی دنیا کے حالات، مسائل اور افکار اور مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے نقوش کو نمایاں کرتا ہے۔

  • پس چہ باید کرد اے اقوامِ  شرقمیں مغربی تہذیب کے چیلنج کا مطالعہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یورپ کی ترقی کا اصل سبب کیا ہے اور مغربی تہذیب کے روشن اور تاریک پہلو کیا ہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید کے خطرے سے قوم کو متنبہ کیا گیا ہے اور ترقی کی راہ کی نشان دہی کی گئی ہے۔

  • پیامِ مشرق اور ارمغانِ حجاز میں یہی پیغام دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے اور اس کا اظہار اُردو کلام میں بھی ہوا ہے۔ خصوصیت سے بانگِ درا کی قومی نظموں میں بالِ جبریل کے ولولہ انگیز تغزل میں اور ضربِ کلیم کے بے باک رجز میں، جسے اقبال نے خود ’دورِحاضر کے خلاف اعلانِ جنگ‘ قرار دیا ہے۔

  • اقبال کی نثر کا غالب حصہ انگریزی میں ہے۔ ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے میں اُنھوں نے ایران کی مابعد الطبیعی فکر کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ محض ایک فکری تاریخ نہیں ہے بلکہ اس کے آئینے میں اسلام پر عجمی اثرات کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اقبال نے تصوف کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے، وہ اصل مآخذ کے وسیع مطالعے پر مبنی ہے۔

  • اسلام کے تصورِ مذہب کی علمی اور فلسفیانہ تعبیر اسلامی الٰہیات کی تشکیل جدید میں پیش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں بنیادی طور پر مغرب کے فکری رجحانات کو سامنے رکھ کر انسان، کائنات اور خدا کے بارے میں اسلامی تصور کی وضاحت کی گئی ہے۔ مذہب اور سائنس کے تعلق سے بحث کی گئی ہے اور ذرائع علم کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا گیا ہے کہ دورِ جدید کے یک رُخے پن کے مقابلے میں اسلام میں کس طرح عقل، تجربے اور وجدان کی ہم آہنگی قائم کی گئی ہے۔ اس بنیادی فکر کی روشنی میں آزادی اور عبادت کے تصور کو واضح کیا گیا ہے اور اُن تصورات کی بنیاد پر قائم ہونے والے تمدن کی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے، نیز اسلامی قانون کی مثال کو لے کر یہ دکھایا گیا ہے کہ اسلامی تمدن میں ثبات اور تغیر کا حسین امتزاج کس طرح قائم ہوتا ہے اور اس کے اندر ہی سے زندگی اور حرکت کے چشمے کس طرح پھوٹتے ہیں۔

وقت کے علمی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل کے بارے میں اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار متعدد مضامین، تقاریر، بیانات، نجی گفتگوئوں اور خطوط کے ذریعے بھی کیا ہے جن کا بیش تر حصہ اب کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔
اگرچہ اقبال کی مخاطب پوری ملت اسلامیہ بلکہ پوری انسانیت ہے، لیکن خصوصیت سے اس نے مسلم اُمت کے ذہین اور بااثر تعلیم یافتہ طبقے کو خطاب کیا ہے۔ یہ مؤثر اور کارفرما طبقہ دو ذہنی اور لسانی روایات سے وابستہ تھا۔ اقبال نے اپنے افکار کے اظہار کے لیے بنیادی طور پر شعر کو ذریعہ بنایا اور غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک شکست خوردہ قوم کو حرکت اور جدوجہد پر اُبھارنے کے لیے عقلی اپیل کے ساتھ ساتھ جذباتی اپیل کی ضرورت تھی۔ وقت کی ضرورت محض عقل کو مطمئن کرنا نہ تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ جذبات میں تموج برپا کرکے اس جمود کو توڑا جائے جس میں ملّت گرفتار تھی۔
ایک مدت سے برعظیم کی ملّت ِ اسلامیہ، انتشار ذات (split personality) کے مرض میں مبتلا تھی، یعنی عقیدے اور عمل میں یکسانیت اور مطابقت باقی نہ رہی تھی۔ عقیدہ موجود تھا مگر اس میں وہ حرارت نہ تھی جو جذبے کی خنکی کو دُور کرسکے اور بے عملی اور مایوسی کی برف کو پگھلا دے۔ عقیدے کا چراغ اگر ٹمٹما بھی رہا تھا تو عشق کی روشنی باقی نہیں تھی۔ اس کیفیت نے ’روحانی فالج‘ کی سی صورت اختیار کرلی تھی، جس سے حقیقی معنوں میں دین داری کی حس مجروح ہو رہی تھی۔ اس کیفیت میں تبدیلی اور انقلاب کے لیے صرف عقل کی روشنی کافی نہیں ہوسکتی تھی، اس کے لیے جذبے کی آگ بھی درکار تھی۔ اقبال نے جذباتی کیفیت میں انقلاب برپا کرنے کے لیے شعر کا جادو جگایا (مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے اپنے ابتدائی زمانے میں اس کو انجام دینے کے لیے خطابت کا طوفانی طریقہ اختیار کیا تھا۔ ان کے اسلوب کو اس کام سے خاص مناسبت حاصل ہے جو تاریخ ان سے لے رہی تھی، مگر افسوس کہ وہ تسلسل قائم نہ رکھ سکے)۔
علّامہ محمد اقبال کے کارنامے کا مختصر الفاظ میں احاطہ ناممکن ہے، مگر ہم اس کے چند اہم پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنے کی جسارت کر رہے ہیں:

  • قدیم و جدید کی کش مکش میں راہِ اعتدال: قدیم و جدید کی کش مکش کو اقبال ’دلیل کم نظری‘ سمجھتے ہیں۔ اُنھوں نے دونوں سے پورا پورا استفادہ کیا، مگر کسی ایک کے سامنے سپر نہ ڈالی۔ ان کی نگاہ میں زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے، جس میں ثبات و تغیر دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے۔ اقبال کا اصل کارنامہ ہی یہ ہے کہ اس نے راہِ اعتدال کو نمایاں کیا۔ اس نے بتایا کہ صحت مند ارتقا اسی وقت ممکن ہے، جب تمدن کی جڑیں ماضی کی روایت میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ وہ حال کے مسائل اور مستقبل کے رجحانات سے بھی پوری طرح مربوط ہوں۔ اقبال کی نگاہ میں کورانہ تقلید، خواہ وہ ماضی کی ہو یا اپنے ہی زمانے کے چلتے ہوئے نظاموں کی، فرد اور قوم دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ صرف تعمیری اور تخلیقی تشکیل ہی کے ذریعے ترقی کی منزلیں طے کی جاسکتی ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو اقبال نے اختیار کیا۔

  • ماضی اور حال پر تنقیدی نگاہ: اقبال نے مسلمانوں کے ماضی اور حال دونوں پر تنقید ی نگاہ ڈالی۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اُنھوں نے غیراسلامی اثرات کے تحت ایک ایسے تصورِحیات کو شعوری طور پر اختیار کرلیا، جو اسلام کی ضد تھا۔ اس سے ان کی صلاحیتیں پراگندہ ہوگئیں اور وہ تاریخ کی اہم ترین تعمیری قوت ہوتے ہوئے بھی تمدنی زوال، سیاسی غلامی اور فکری انتشار کا شکار ہوگئے۔ اس سلسلے میں یونانی اور عجمی مآخذ سے حاصل کیا ہوا تصوف سب سے اہم حیات کش قوت تھی، جس نے زندگی کا غیرحرکی اور جمود زدہ تصور مسلمانوں میں رائج کردیا۔ نفی ذات کے فلسفے نے یہاں بھی گھر کرلیا اور ترکِ دنیا، ترکِ آرزو عمل اور ترکِ عمل کی بنیاد پر جمود اور انحطاط کے مہیب سایے مسلط ہوگئے اور بالآخر ’آگ اس گھر کو  لگی ایسی کہ جو تھا ، جل گیا‘۔

  • اسلام کا حرکی اور انقلابی پہلو: بگاڑ کے اسباب کی تشخیص کے بعد، اقبال نے اسلام کے تصورِ حیات اور اس کی بنیادی اقدار کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا۔ اسلام کی جو تشریح و توضیح اقبال نے کی ہے، اس کی امتیازی خصوصیت اس کا حرکی اور انقلابی پہلو ہے۔ کائنات کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عملِ تخلیق و ارتقا جاری ہے۔ کائنات محض ایک تخلیقی حادثہ نہیں ہے بلکہ اس میں کُنْ فَیَکُوْنَ  کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور ’جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی‘ اور پھر کائنات کی ’تخلیق اور اَمر‘ کی نوعیت پر غور کرکے ہی اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر خلق میں پیدایش اور وجود کی طرف اشارہ ہے، تو اَمر میں سمت اور منزل کی تعیین ہے۔ ہرچیز ایک مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور وجود کا اساسی پہلو یہی احساسِ سمت، مقصدیت، حرکیت اور مطلوب کی طرف بڑھنے کا شوقِ آرزو ہے۔ کائنات ، انسان اور تاریخ، ہر ایک میں یہی حرکی اُصول کارفرما ہے۔ جسم اگر خلقت کا مظہر ہے تو روح اَمر کی آئینہ دار ہے۔ خودی اور اس کی تعمیر، اس حرکی اصول کا تقاضا ہے۔ ترقی اور بلندی کی راہ نفیِ ذات نہیں، اثباتِ خودی ہے، جو خود ایک ارتقائی اور حرکی عمل ہے۔ روح کی معراج ذاتِ باری تعالیٰ میں فنا ہو جانا نہیں، بلکہ ربِّ حقیقی سے مطلوب تعلق استوار کرنا ہے۔ ایمان، اس کا نقطۂ آغاز ہے اور عشق اس کی ترقی کا راستہ۔ یہی اُصولِ حرکت تاریخ میں بھی کارفرما ہے۔ تاریخی احیا محض ماضی کے صحت مند رجحانات کے بقا و استحکام کا نام نہیں بلکہ اَبدی اقدار اور تمدنی نصب العین کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے میدانوں میں تخلیقی اظہار سے عبارت ہے۔ انسان اس ارتقائی عمل کا اصل کارندہ ہے۔ کائنات کی ہرشے اس اشرف المخلوقات کی مدد کے لیے فراہم کی گئی ہے۔ لیکن یہ انسانی زندگی فی الحقیقت کچھ اعلیٰ تر مقاصد کے حصول کے لیے ہے اور یہ مقصد ہے منصب ِنیابت ِ الٰہی۔ اسلام وہ طریقہ ہے جو انسان کو اس کام کے لائق بناتا ہے اور تاریخ اس حرکت کو صحیح سمت دیتی ہے۔ مردِ مومن اور ملت ِاسلامیہ کائنات کی اصلی معمار قوتیں ہیں۔ اگر وہ اپنا وظیفہ انجام نہ دیں تو بگاڑ رُونما ہوگا، خود ان کے درمیان بھی اور کائنات میں بھی۔

  • روحانی اور مادی تقسیم کی نفی:اقبال نے مذہب کی بنیاد عقل یا سائنس پر نہیں رکھی۔ اس نے عقل، تجربے، سائنس اور وجدان، ہر ایک کی اصل حقیقت کو واضح کیا اور اُن کی مجبوریوں اور دقتوں پر بھی روشنی ڈالی۔ اس نے بتایا کہ جبلت، عقل اور وجدان کے تناقض کو وحی کی روشنی اور تربیت کے ذریعے دُور کیا جاسکتا ہے اور تینوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرکے انسان کی خدمت اور رہنمائی کے صحیح مقام پر فائز کیا جاسکتا ہے۔یہ نومعتزلائی عقلیت اور مغرب کی بے جان سائنس کے مقابلے میں عقلِ سلیم کی فتح تھی۔ اس طرح نبی کا تجربہ اور مشاہدہ مذہبی فکر میں ایک اساسی حیثیت قرار پایا۔ روحانی اور مادی تقسیم کا باطل نظریہ ترک ہوا اور دونوں کے امتزاج سے متوازن اسلامی زندگی کی تعمیر کی راہ روشن ہوئی۔

  • مذہب کا انقلابی تصور:ایمان اور عمل کا باہمی تعلق واضح کرنے میں، اقبال نے غیرمعمولی ندرت کا ثبوت دیا۔ زندگی کا حرکی تصور آپ سے آپ عمل کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔ پھر مذہبی تجربے کی اساسی اہمیت بھی اسی سمت میں اشارہ کرتی ہے۔ اثباتِ خودی اور تعمیرِشخصیت ایک مسلسل عمل ہے، جس کے بغیر انسان مقامِ انسانیت کو حاصل نہیں کرسکتا۔ نیابت ِ الٰہی کے تقاضے صرف تسخیر کائنات اور اصلاح تمدن ہی کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔ خودی ایک بے لگام قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خدا پرستی اور اخلاقی تربیت سے ترقی پاتی ہے۔ عشق اس کی قوتِ محرکہ ہے اور مادّی قوت کو دین کی حفاظت اور پوری دُنیا میں نظامِ حق کے قیام کے لیے استعمال کرنا اس کی اصل منزل ہے۔ یہی خلافت ِ الٰہی ہے، یہی انسان کا مشن ہے۔ اقبال نے دینِ اسلام کا یہی  انقلابی تصور اُجاگر کیا اور پوری ملّت میں حرکت پیدا کردی۔

  • دین اور سیاست کی دُوری کا خاتمہ: اس تصورِ حیات اور اس مشن کا لازمی تقاضا ہے کہ خود ریاست، سیاست، معیشت اور قانون اسلام کے تابع ہو۔ نہ صرف یہ کہ اسلام میں دین و دُنیا کی کوئی تقسیم نہیں، بلکہ دین اور ریاست ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ اگر دین اور سیاست جدا ہوجائیں تو دین صرف رہبانیت بن جاتا ہے اور سیاست چنگیزیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کی قومیت ان کے دین ہی سے تشکیل پاتی ہے اور اُن کی ریاست، معاشرت اور معیشت دین کے مقاصد ہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام اپنے اظہار کے لیے ریاست اور تمدن کا رُوپ دھار لے۔ مسلمانوں کو ایسے خطۂ زمین کی ضرورت ہے، جہاں وہ اغیارکے اثرات سے آزاد ہوکر اپنے تمدنی وجود کا مکمل اظہار کرسکیں اور پھر اس روشنی کو باقی دُنیا میں پھیلا سکیں۔ اسی عمل کو اقبال نے ’اسلام کی مرکزیت‘ کہا ہے اور اسی کے لیے ایک آزاد زمین کا مطالبہ کیا۔ آزاد اسلامی ریاست صرف مسلمانوں کی سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ خود اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔

  • مغربی فکر پر تنقید اور احیاے اُمت: اقبال نے مغربیت اور اس کے بطن سے رُونما ہونے والی مختلف تحریکوں، خصوصیت سے لادینیت، مادیت، قومیت ، سرمایہ داریت اور اشتراکیت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں۔ نیز یہ کہ دراصل یہی تحریکیں انسان کے دُکھوں اور پریشانیوں کا سبب ہیں۔ مسلمانوں کی نجات ان کی پیروی میں نہیں بلکہ اپنی خودی کی بازیافت اور اپنے دین کے احیا میں ہے۔ اگر اُنھوں نے مغرب کی تقلید کی روش کو اختیار کیا، تو یہ ان کی خودی کے لیے زہرِ قاتل ہوگا۔ زندگی اور ترقی کا راستہ نہ ماضی کی اندھی تقلید ہے اور نہ وقت کے تقاضوں کی کورانہ پیروی، یہ راستہ اسلامی تعمیرنو کا راستہ ہے جواثباتِ خودی، احیاے ایمان، تعمیرِاخلاق، اجتماعی اصلاح اور سیاسی انقلاب کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے سیاسی غلامی سے بھی نجات ہوسکے گی، اور اس سے زیادہ خطرناک ذہنی، تمدنی اور تہذیبی غلامی سے بھی۔ پھر وہ جو زمانے کے پیرو بننے پر قناعت کر رہے ہیں، زمانے کی امامت کا فریضہ انجام دے سکیں گے اور یہی ملت اسلامیہ کے کرنے کا اصل کام ہے۔

اقبال نے ایک طرف دینی فکر کی تشکیلِ نو کی اور اسلامی قومیت کے تصور کو نکھارا تو دوسری طرف ملّی غیرت اور جذبۂ عمل کو بیدار کیا۔ مغربی افکار کے طلسم کو توڑا اور قوم کو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اسلام کی راہ پر گامزن کرنے میں رہنمائی دی۔ یہی ہے اقبال کا اصل کارنامہ، اور اسی بناپر وہ بیسویں صدی کے اسلامی تشخص کا امام اور اس میں تجدید کی روایت کا بانی ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں اس حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ اقبال محض ایک فرد کا نام نہیں، وہ ایک دور کی شناخت اور خصوصیت سے مسلمانانِ برعظیم کے جدید دور میں تحریک احیاے اسلامی کا ایک نمایاں معمار ہے۔ اس نے برعظیم کی اُمت ِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے میدانِ حیات میں اپنا تہذیبی اور سیاسی مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کی طرف پکارا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بیسویں صدی میں اسلام کے نشاتِ ثانیہ کی انقلابی تحریک کا عنوان ہے اور میرے جیسے ہزاروں متلاشیانِ حق کے افکار و جذبات کی تہذیب میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہم نے شعور کی آنکھ اقبال کے کلام کی روشنی میں کھولی اور ہمارے فکر اور جذبات کی صورت گری اس کی ضوفشانیوں کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ وہ ایک عظیم شاعر تھا مگر جس چیز نے شعرِاقبال کو ذہنی، فکری، احساساتی اور شعورِ زندگی کی تشکیلِ نو کی جدوجہد میں نئی رُوح پھونکنے کا ذریعہ بنایا، وہ اس کا پیغام ہے جس سے کلامِ اقبال کا ایک ایک حرف روشن اور تابندہ ہے  ؎


شعر را مقصود اگر آدم گری است
شاعری ہم وارثِ پیغمبری است

[اگر شعر کا مقصد شخصیت کی تعمیر ہے تو شاعری پیغمبری کی وارث ہے]