بیسویں صدی کی عالمی تاریخ میں پاکستان کا قیام، ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ ایک نیا ملک دُنیا کے جغرافیائی نقشے پرنمودار ہوا تھا، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ نیا ملک نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوا تھا اور اس کا وجود مغرب کی قوم پرستانہ فکر کے لیے ایک چیلنج تھا۔ اس ملک نے نظریاتی سیاست کا علَم بلند کیا تھا اور تنگ نظر قوم پرستی (Narrow Nationalism)کی ستم زدہ دُنیا کے سامنے ایک نئی راہ پیش کی تھی۔
تحریک ِ پاکستان کی اصل بنیاد یہ تھی کہ:
چونکہ مسلمان اپنے مذہب اور عقیدے کی وجہ سے ایک قوم اور ایک ملّت ہیں۔
اور ___
چونکہ مسلمان اپنی آئیڈیالوجی ، اپنی تہذیب، اپنی معاشرت اور اپنا نظامِ قانون رکھتے ہیں، جسے وہ اجتماعی زندگی میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اس لیے جن علاقوں میں ان کی اکثریت ہے، ان پر مشتمل ایک ریاست قائم کی جائے، تاکہ وہ اپنی جداگانہ قومیت کی بنیاد پراپنی تہذیب اور اپنی آئیڈیالوجی کو قائم کرسکیں۔
یہ وہ انقلابی اعلان تھا، جس نے ایک طرف مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی اور دوسری طرف دُنیا کے تمام باطل تصورات کو چیلنج کیا۔ مسلمانوں نے بہت بڑی قربانی دے کرسات سال تک اَن تھک جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں ان کی اپنی الگ ریاست اُبھری۔مسلمانوں کی پوری تاریخ اس بات پرشاہد ہے کہ عام مسلمانوں کو اسلام کے علاوہ کسی اور مقصد نے کبھی اپیل ہی نہیں کیا۔ ظالم بادشاہ بہت سے ہوئے، اسلام سے انحراف کرنے والے بھی بیسیوں گزرے، لیکن اُمت نے کبھی انھیں اپنی آنکھوں کا تارا نہ بنایا۔ کبھی ان کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ ان میں سے بہتوں کے طرزِ حکمرانی کی بنا پر اکثر لعنت ہی بھیجی۔ اس اُمت نے بہت مظالم برداشت کیے، بڑی مشقتیں جھیلیں، بے پناہ مصائب کوانگیز کیا، مگر اسلام کے علاوہ کسی اورمقصد کی خاطر دل و جان سے قربانی کے لیے کبھی تیار نہ ہوئی۔
ہمیشہ اس کے ہیرو،امام ابوحنیفہؒ، امام جعفر صادقؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام مالک بن انسؒ، امام شافعیؒ، ابن تیمیہؒ، صلاح الدین ایوبیؒ، مجدد الف ثانی ؒاور سیّد احمد شہیدؒ وغیرہم ہی رہے۔ کسی حسن بن صباح اور اکبر کو اس اُمت نے اپناہیرو اور آئیڈیل نہیں بنایا، اور اسلام کے علاوہ کوئی اور نصب العین اس کی وفاداریوں کا مرکز نہ بن سکا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا اپنے اورپرائے سبھی اعتراف کرتے ہیں، حتیٰ کہ بیسویں صدی کے ممتاز مستشرق ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ (۱۹۱۶ء-۲۰۰۰ء) نے اپنی تصنیف Islam in Modern History [دورِجدید میں اسلام : ۱۹۵۷ء] میں لکھا ہے: ’’ماضی میں صرف اسلام ہی ان لوگوں (یعنی مسلمانوں) کا اجتماعی ضابطہ، اصل محرک اور کارفرما قوت رہا ہے۔ اور یہ کہ مسلمانوں کے کسی گروہ نے بھی اپنے میں ایسے قومی اور وطنی جذبات پیدا نہیں کیے،جس کی وفاداری اور تعلق کا مرکز اسلام سے ہٹ کر کوئی اور شے یا مسلم ملّت کے دائرے سے باہر کی کوئی چیز ہو‘‘۔
بلاشبہہ یہ مسلمانوں کی قابلِ فخر قومی اور ملّی خصوصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظریۂ پاکستان نے مسلمانوں کو اسی بنیاد پر اپیل کیا تھا کہ یہ ان کی روح کی آواز، ان کے ایمان کی پکار، اور ان کی ملّی تمنائوں کا آئینہ دار تھا۔ اور پاکستان کے مستقبل کی تعمیر میں بھی مسلمانوں کا حقیقی تعاون اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ دیکھیں کہ یہ اسلامی نظریے کے لیے وقف ہے۔ کوئی اور محرک ایسا نہیں ہوسکتا، جو ملّت اسلامیہ پاکستان کو کسی عظیم کارنامے کی انجام دہی کے لیے تیارکرسکے۔ یہ صلاحیت اسلام اور صرف اسلام میں ہے۔
اسلامی نظریے کی بنیاد پر سیاست اور ریاست کے معاملات چلانے، اور تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے کی ضرورت محض اس لیے ہی نہیں ہے کہ مسلمانوں میں اس کے بغیر جذبۂ عمل و قربانی پیدا نہیں کیاجاسکتا، بلکہ اس لیے بھی ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کی ایک خاص انداز میں تربیت کی ہے۔ اس نے لوگوں کے ذہنوں سے دین ودُنیا اور مذہب و سیاست کی تفریق کے باطل نظریات کو کھرچ کھرچ کر نکال دیا ہے، اور ان کو یہ تعلیم دی ہے کہ دین کو زندگی کے ہرشعبے پر غالب کریں۔
اس پس منظر کی وجہ سے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایک معاملے میں دین کا تقاضا کچھ اور ہے اورمروجہ نظام کا اندازِکار کچھ اور، تو وہ اس تناقض (contradiction)کو نظرانداز نہیں کرسکتے___ ایک عیسائی کے لیے غالباً یہ ممکن ہے کہ وہ اس تناقض کو برداشت کرلے۔ ایک ہندو کے لیے شاید آسان ہو کہ وہ اس سے صرفِ نظر کرلے کہ ان کے مذاہب نے اجتماعی زندگی میں دین کو قائم کرنے کی کوئی روایت پیش نہیں کی ہے۔ لیکن اسلام کی روایت ان مذاہب سے بالکل مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس تناقض کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم میں فرمایا ہے:
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۴۴ (المائدہ ۵:۴۴) اور جو خدا کے نازل کردہ قانونِ حیات کے مطابق اپنےفیصلے نہیں کرتے وہی کافر ہیں۔
مسلمانوں کی تاریخ میں جتنی اجتماعی بے اطمینانی پیدا ہوئی ہے، اور انقلابی تحریکات اُٹھی ہیں، ان سب کا جذبۂ محرکہ اسی تناقض اور تضاد کو دُور کرنا تھا۔
اگر اس نظریے کو نظرانداز کیا گیا، تو اس سے ایک طرف ملّت میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوگی، دوسری طرف مروجہ نظام سے مایوسی___ اور یہ دونوں چیزیں ایک قوم کے لیے بہت مہلک ہیں۔ اپنی قومی صحت کی درستی اور اجتماعی زندگی کے سکون کو قائم رکھنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم جلدا ز جلد اسلامی نظریے کی بنیاد پر اپنی ریاست کو تعمیر کریں تاکہ قوم کی تمام قوتیں، تعمیرنو کے لیے استعمال ہوں اورکوئی اندرونی کش مکش رُونما نہ ہو۔
پھر خود ملک جن مشکلات اور جن معاشی، سماجی، معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی بیماریوں کا شکار ہے، ان کا حل بھی صرف اسلامی نظریے میں مضمر ہے۔ مغرب کی ہوش ربا ٹکنالوجیکل ترقی اور بے پناہ مادی تجربات کی سلسلہ وار روایت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ محض مادی ترقی سے انسان کے مسائل حل نہیں ہوتے۔
اسی طرح تیل پیدا کرنے اور اس بے اندازہ دولت کو گاڑیوں، عمارتوں کی تعمیر، بنکوں میں تجوریاں بھرنے یا لہوولعب میں اُڑانے والے بعض مسلم ممالک کے تجربات نے بھی یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں کردی ہے کہ مسلمان دین کے مقتضیات کو چھوڑ کر محض مادی ترقی بھی نہیں کرسکتے۔ ہمارے مصائب کا حل اسلامی نظامِ حیات میں ہے، جو: ایک طرف فرد میں تقویٰ، ایمان اور خدا کا خوف پیداکرتا ہے، اور دوسری طرف معاشرے کو صحت مند بنیادوں پر قائم کرتا ہے۔ تیسری جانب سیاست کو اخلاق کے تابع کرتا ہے۔ چوتھی طرف معیشت کو عادلانہ معاشی انصاف کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے۔ اور پانچویں جانب قومی پالیسی کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے اصول پر استوارکرتا ہے۔
ہمیں اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس دنیا میں صرف مادی اسباب و وسائل ہی کارفرما نہیں ہیں۔ یہ دُنیا اخلاقی قوانین کے بھی تابع ہے۔ انسان نے بارہا مادی ترقی کی بلندیوں کو حاصل کیا ہے،لیکن اخلاقی ضوابط سے بغاوت کی وجہ سے وہ اپنی مادی ترقی کو قائم نہ رکھ سکا۔
سلطنت روما اور سلطنت ِ فارس کے پاس کس چیز کی کمی تھی، لیکن وہ تباہی سے بچ نہ سکیں۔ تمام تہذیبیں جو آج تک اُبھری اور تباہ ہوئی ہیں، اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ مادی قوانین کے ساتھ ساتھ زندگی میں کچھ اخلاقی قوانین بھی کارفرما ہیں اور ان کونظرانداز کرکے کوئی قوم حقیقی ترقی حاصل نہیں کرسکتی۔ اسلامی نظریہ، ترقی کے مادی اور معاشی قوانین کے ساتھ ساتھ اخلاقی قوانین کی ترقی کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ اس طرح ایک متوازن اور مبنی بر عدل تہذیب کے فروغ کا سب سے بڑا ضامن ہے۔ دوسرے تمام نظام ہائے زندگی اس تعلق کو نظرانداز کردیتے ہیں اور اسی لیے ناکام ہیں۔ مادی اور اخلاقی زندگی کے گہرے تعلق کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے :
اس طرح پہلے خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے پہلے ہی خطبہ میں فرمایا تھا:
اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی نظریے کا قیام خود ہماری مادی اور قومی زندگی کے تحفظ کے لیے بھی ناگزیر ضرورت ہے۔ اس کے بغیر نہ ہم اپنے مسائل کو حل کرسکتے ہیں اور نہ اپنی تعمیرنو کو صحت مند بنیادوں پر استوار کرسکتے ہیں۔
آج دُنیا میں جو کش مکش برپاہے، اس سے بھی یہ سبق ملتا ہے کہ اب مقابلہ محض چند افراد، کچھ قوموں اور بعض ملکوں میں نہیںبلکہ دراصل مقابلہ ’الٰہی ہدایت‘ سے رہنمائی و طاعت اور ہدایتِ الٰہی سے بغاوت و طاغوت کی پیروی کے درمیان ہے۔ مغرب کے پاس کوئی مثبت آئیڈیالوجی نہیں ہے، اور وہ جمہوریت، سیکولرزم، لبرلزم، آزادیٔ حقوقِ انسانی اور تحفظ فرد کے نعروں سے اپنا کام نکالنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ ہمارے عہد میں مسلط عالمی سامراج، مادہ پرست تہذیب کی پیداوار ہے اور ہم مغرب کی نقالی کرکے فائدے میں نہیں خسارے میں ہیں۔ ہمارے پاس اسلام کی صورت میں ایسا عادلانہ نظریہ ہے، جس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ ہم خود سیکولر فسطائیت کا مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ باقی دنیا کو بھی ایک نئی راہ دکھا سکتے ہیں لیکن افسوس ؎
مسلمانوں پر مسلط کردہ موجودہ سیاسی و تہذیبی جنگ اور جدید مالی کش مکش پر نگاہ رکھنے والے افراد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ہم اگردُنیا کی سیاست میں کوئی تاریخی کردار ادا کرسکتے ہیں تو وہ نقالی کرکے نہیں کرسکتے بلکہ اس صورت میں کرسکتے ہیں کہ جب ہم اسلام کے عادلانہ نظریے کو بالفعل قائم کریں اور اسے دوسروں کے لیے مثال بنادیں۔ نقالی کرکے ہم شاگرد بن سکتے ہیں، بہت سے بہت شاگردِ رشید بن سکتے ہیں، لیکن کوئی تخلیقی اور قائدانہ کارنامہ اسی وقت انجام دے سکتے ہیں کہ جب تک ہم خود ایک عالمی آئیڈیالوجی کے علَم بردار نہ بنیں۔
پھر سب سے بڑھ کر دُنیاوی اور ملکی مفاد سے ہٹ کر ایک پہلو اور بھی قابلِ غور ہے۔
ہم نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے موقعے پر اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ’’اے مالک، تو ہمیں کامیابی عطا کر اور ہم تیری زمین پر تیری نازل کردہ ہدایت قائم کریں گے‘‘۔ کیا اس نظریے کو ترک یا نظرانداز کرنے کے معنی خدا کے غضب کو دعوت دینے کے نہ ہوں گے؟ ہم اپنے آپ کو خدا کی عنایت اور اِکرام کا اسی وقت مستحق بناسکتے ہیں، جب ہم اس مقصد اور اس وعدے پر قائم رہیں، جو ہم نے زمین و آسمان کے مالک و خالق سے کیا تھا۔ اگر ہم اپنے اس عہد کو توڑ دیتے ہیں تو لازماً ہم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں سے بھی محروم کرلیں گے۔ اور اس سے زیادہ بدبخت کون ہوگا جو اپنے کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محروم کرلے!
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۙ (انفال ۸:۵۳) یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو دی ہے، اس وقت تک بدلنے والا نہیں جب تک وہ خود اپنے کو نہ بدل لے [یعنی اپنے اعتقاد اور اپنے مقاصد سے منحرف نہ ہوجائے]۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ:
یَا مَعشَرَ قُرَیْشٍ ، فَاِنَّکُمْ اَھْلُ ھٰذَا الأَمْرِ، مَا لَمْ تَعْصُوا اللہَ فَاِذَا عَصَیْتُمُوْہُ بَعَثَ عَلَیْکُمْ مَن یَلْحَاکُمْ ، کَمَا یُلْحَی ھٰذَا القَضِیْبُ لِقضِیبٍ فِی یَدِہ ثُمَّ لَحَا قَضیہَ [مسنداحمد، من مسند بنی ہاشم، مسند عبداللہ بن مسعودؓ، حدیث:۴۲۳۱] اے اہلِ قریش،تم اس وقت تک لطف و کرم کے مستحق رہو گے، جب تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کروگے اور جب تم گناہ کی زندگی پراُتر آئو گے، تو وہ تم پر ان لوگوں کو بھیجے گا، جو تمھاری کھال ادھیڑ ڈالیںگے جیسے اس شاخ کی چھال چھیل دی جاتی ہے۔ آپؐ کے دست مبارک میں ایک شاخ تھی، جسے آپؐ نے چھیل کربتایا۔
اور قرآنِ پاک کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ براہِ راست ہم ہی سے خطاب ہے:
وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۲۶ (انفال ۸:۲۶) اور وہ وقت یاد کرو جب تمھاری تعداد بہت تھوڑی تھی اور تم زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے۔ تم اس وقت ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تم کو اُچک نہ لیں۔ پھر اللہ نے تمھیں ٹھکانادیا، اپنی مددگاری سے قوت بخشی، اور اچھی چیزیں دے کر رزق کا سامان مہیا کردیا تاکہ تم شکرگزاربنو۔
شکرگزاری کا راستہ، اللہ کے دین کو اختیار کرنے اوراسلامی نظریے کو قائم کرنے میں ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو سخت ناشکرے ہوں گے اور اللہ کے عذاب کو دعوت دیں گے۔ اس لیے ہمارے لیے سیدھا راستہ یہی ہے کہ ہم اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب و معاشرت اور اسلامی معاشی نظامِ عدل کو خلوص اور ایمان داری کے ساتھ اختیار کریں اوراس کے دیے ہوئے پروگرام پرعمل کریں۔
اسلامی نظریے کی تنفیذ کے سلسلے میں دو نقطہ ہائے نظر کے جائزے کی ضرورت ہے:
ایک نظریہ تو یہ ہے کہ ’’اصل چیز پروگرام ہے، نام نہیں، اس لیے اسلام کا نام لیے بغیر ہی اس کے اصلاحی پروگرام پر عمل کرناچاہیے‘‘۔
دوسرا نقطۂ نظر متجددین کاہے جو اسلام کا نام تو برقراررکھتے ہیں، لیکن ’تعبیرات‘ کے ایک نہ ختم ہونےوالے سلسلے سے ان اسلامی اصطلاحات کے معنی بدل دیتے ہیں، اوراسلام کے نام کی پرانی بوتلوں میں جدید مغربی فکروتمدن کا زہر بھر دیتے ہیں۔
ہم ان دونوں نقطۂ ہائے نظر کو غلط سمجھتے ہیں اور نظریۂ پاکستان کے منافی قرار دیتے ہیں۔
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۳۳ (حم السجدہ ۴۱:۳۳) اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ مَیں مسلمان ہوں۔
یہاں صاف ارشاد ربانی ہے کہ ’’اللہ کی طرف بلائے‘‘ اور کہے کہ ’’میں مسلمان ہوں‘‘۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے پروگرام کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کا نام بھی لیا جائے۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اصل پروگرام کو چھوڑ کر صرف’نام‘ پر انحصار کرنا غلط اور اسلام کے منشا کے خلاف ہے، اسی طرح نام کے بغیر پروگرام کو پیش کرنا بھی اس کی تعلیمات کے منافی ہے۔ ’نام‘ اور ’پروگرام‘ دونوں کو ساتھ ساتھ ہونا چاہیے اور یہی راہِ صواب ہے۔
جہاں ایک گروہ نام پر معترض ہے وہاں ایک دوسرا گروہ ہے، جو نام کو باقی رکھ کر معنی بدل دینا چاہتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ ’’جدید مغربی تہذیب نے جو بھی اقدار (values) دی ہیں اور تہذیب وتمدن کا جو بھی ڈھنگ بنایا ہے، اسے اسلام سے درست ثابت کردے‘‘۔ اسلام کی اصطلاحات کو اور اس کے الفاظ کو تو باقی رکھے، لیکن ’معنوی تحریف‘ (falsification) کے ذریعے اللہ کے دین کو مغرب کا چربہ بنادے۔ اگر مغرب میں سود جائز ہے تو یہ اسلام میں بھی سود کے لیے جواز نکال لیتے ہیں۔ اگر مغرب میں موسیقی اور مجسمہ سازی، کلچر کا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں، تو ہمارے متجددین بھی انھیں اسلامی ثقافت کی عین ’روح‘ ثابت کرتے ہیں۔ اگر مغرب ’حجاب‘ اور ’تعدداَزدواج‘ کو غلط سمجھتا ہے تو یہ ’دانش ور‘ باادب عرض کرتے ہیں کہ ’بھلا ان چیزوں کا اسلام سے کیا تعلق؟ یہ سب مُلّا کی ایجادات ہیں‘۔ اگر مغرب، اسلام پرتشدد کی پھبتی کستا ہے تو یہ جہاد کو یک سر منسوخ کردیتے ہیں۔ اگر مغرب نماز ، روزہ اور قربانی کو لغو سمجھتا ہے تو یہ بزعمِ خود اسلامی نقطۂ نظرسے بھی ان کی ’لغویت‘ بیان فرماتے ہیں۔ اور یہ سارا کارنامہ ’اجتہاد‘ کے نام پر اسلام کی ’تعبیر نو اور تشکیل نو‘ کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ اگر پہلا فساد ’نام نہ استعمال کرنا‘ تھا، تو یہ فساد ’فتنۂ تعبیر ‘ کے ذریعے ہے۔
ان حضرات نے اس بات کو تو محسوس کرلیا ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے نام کے بغیر عمل پر نہیں اُکسایا جاسکتا اور جب تک کسی چیز پر اسلام کا لیبل نہ ہو مسلمان اسے کبھی قبول نہیں کرسکتے۔ لیکن وہ اس کوبھول گئے ہیں کہ اسلام محض ایک خالی خولی نظریہ نہیں ہے کہ وہ جس طرح چاہیں، اسے مسخ کریں اور جو شکل چاہیں اسے دے دیں۔ اسلامی نظریے کو خود خدا کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کے میدان میں قائم کیا تھا اور اسلامی تہذیب ومعاشرت کے آثار گذشتہ چودہ سو برسوں سے اس سرزمین پر قائم ہیں۔ اسلامی نظامِ زندگی کی حیثیت کوئی ایک کتابی شے کی سی نہیں، ایک عملی حقیقت کے طور پر ہے۔ تواتر کے ساتھ اس پرعمل ہورہا ہے اور جن معاملات میں عمل نہیں ہورہا، وہاں بھی اسلامی اقدار موجود اور محفوظ ہیں۔ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات، علمی اورعملی دونوں طریقوں سے پہنچی ہیں۔ اسلام کوئی معما نہیں ہے۔ اسلام تو ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے اور اسے مسخ کرناآسان کام نہیں ہے۔
یورپ میں عیسائی پادریوں نے یہ کام ضرور کیا تھا کہ جب چاہا، مسیحیت کی من مانی تعبیر کردی ،اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ وہاں خدا کی اصل ہدایت محفوظ تھی، نہ وہ زبان محفوظ تھی کہ جس میں خدا کی ہدایت نازل ہوئی تھی۔ اور نہ کوئی زندہ روایت موجود تھی، جو اس ہدایت کی عملی شکل پیش کرتی ہو۔ لیکن جہاں تک اسلام کا معاملہ ہے تو ان میں سے کوئی ایک کڑی بھی ٹوٹی ہوئی نہیں ہے۔
یہاں خدا کی کتاب اور اس کےرسولؐ کی سنت پوری طرح محفوظ ہیں۔ ان میں ’سرِمُو‘ بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ قرآن اور سنت کی زبان ایک زندہ زبان ہے، جس کے الفاظ و معانی متعین ہیں اور من مانی تاویلات کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اسلامی لٹریچر کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے، جس میں ہرہردور کا فکری وعملی سرمایہ محفوظ ہے۔ ایک معاشرہ اس نظریے پر قائم ہے اور پورے تسلسل کے ساتھ گذشتہ چودہ سو سالوں سے وہ اس پر عامل ہے۔ اس تاریخی پس منظر میں’تعبیر کے فتنے‘ کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ اپنے تمام جہل، کج روی، کم علمی اورکوتاہ عملی کے باوجود آج بھی مسلمانوں کا بچہ بچہ بتاسکتا ہے کہ نماز اور روزہ فرض ہیں۔ قربانی ضروری ہے، زکوٰۃ لازم ہے، بے حیائی منع اور حجاب و ستر پوشی لازم ہے ،سود حرام ہے، مجسمہ سازی ناجائز ہے، موسیقی ناپسندیدہ ہے۔ اسلام کوئی ’کتابِ گم شدہ‘ نہیں کہ آپ اپنی پٹاری سے جو چاہیں نکال لیں اور اسلام کے نام پر پیش کردیں۔ وہ ایک کھلی ہوئی کتاب ہے اورہر تحریف کا پردہ پہلے قدم پر ہی چاک ہوجائے گا، اور ان شاء اللہ ہماری سوسائٹی میں ’فتنۂ تعبیر‘ کے کھوٹے سکّے نہ چل سکیں گے۔
پھراپنی تمام کمزوریوں کے باوجود فتنۂ تعبیرو تحریف کو ملّت اسلامیہ کے ضمیر نے کبھی قبول نہیں کیا ۔ آج سے پہلے ’معتزلہ‘ نے یہی کام کیا تھا، لیکن ملت اسلامیہ نے اس گروہ کو اس طرح فراموش کردیا کہ دنیا اس کے نام تک کو بھول گئی۔سرسید احمد خاں مرحوم کی قومی خدمات اپنی جگہ ، لیکن انھوں نے بے جا طور پر دینی اُمور اور افکار میں تحریف یا من مانی تعبیر کی کوشش کی تھی مگر ملّت میں ایک دن کے لیے بھی ان کے مذہبی نظریات جگہ نہ بناسکے۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ مسلم سوسائٹی میں بہت سی خرابیاں اور کمزوریاں رہی ہیں، اور آج بھی موجود ہیں، لیکن آج تک اس نے اپنے آئیڈیل کونہیں بدلا اور نہ کسی کو بدلنے دیاہے۔ یہی وجہ ہےکہ فتنۂ تجدد نے بارہاسر اُٹھایا لیکن ہمیشہ ناکام رہا۔ کبھی یہ ’اعتزال‘ کی شکل میں رونما ہوا، کبھی ’باطنیت‘ کے رُوپ میں،کبھی دین اکبر کی صورت میں نمودار ہوا تو کبھی نیچریت کے پیکر میں۔ کبھی پہلوی ازم بنا، کبھی کمال ازم اور انکارِ سنت و انکارِ ختم نبوت کے رُوپ میں۔ لیکن ہمیشہ ایمان، دلیل اور اجتماعی ضمیر کی قوت سے ایسے فتنوں کا سر کچل دیا گیا۔ آج بھی ملت کاضمیر ایسی کسی حرکت کو قبول نہیں کرسکتا۔
پروفیسر ولفریڈکینٹ ول اسمتھ نے اس رجحان پر ’فکرمندی‘ کااظہار کرتے ہوئے لکھا:
یہ ایک ہمہ گیر حقیقت ہے کہ گذشتہ ربع صدی میں اسلام میں لبرلزم کا رجحان بڑی نمایاں حد تک کم ہوگیا ہے بلکہ بعض علاقوں کے متعلق تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ بالکل ہی غائب ہوگیا ہے۔
جو کچھ ہم نے اُوپر عرض کیا اس کےعلاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس نوعیت کی تعبیرات اور تشریحات کبھی مسلمانوں میں جذبۂ عمل اور ذوقِ قربانی پیدا نہیں کرسکتیں۔ اگر آدمی اخلاص کے ساتھ اسلام کاہوجائے تو بڑے سے بڑاکارنامہ سرانجام دے سکتا ہے۔ اور اگر اخلاص کے ساتھ بالکل مغرب کا ہوجائے تو بھی کم از کم مغربیت کے اتباع میں تو ممکن ہے کچھ جوش دکھا سکتا ہے، لیکن آدھے تیتر اور آدھے بٹیروالی پالیسی کبھی بھی عملاً کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس کے نتیجے میں زندگی سے فرار تورُونما ہوسکتا ہے، اسلامی تہذیبی روایت سے انحراف بھی واقع ہوسکتا ہے، لیکن زندگی کی تعمیروتشکیل کا جذبہ کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اوراگر ہم خدانخواستہ کسی ایسے فتنے کا شکار ہوجاتے ہیں تو پھر یہ احمقانہ رویہ پوری قوم کوجذبۂ عمل سے محروم کر دے گا۔
اسی طرح ہمارے ہاں وقتاً فوقتاً پیدا ہونے یا پروان چڑھائے جانے والے متجددین کی ان کوششوں سے قوم میں فکری ژولیدگی پیدا ہورہی ہے۔ ایسے لوگ مسلمانوں کی اب تک کی روایات کو منہدم کررہے ہیں،جس سے ایک طرف تو ’جدید‘ اور ’قدیم‘ کی کش مکش پیدا ہورہی ہے اور دوسری طرف قوم میں ذہنی انتشار فروغ پارہا ہے اور جس قوم میں ذہنی انتشار ہو، وہ کبھی اچھادفترِ عمل پیش نہیں کرسکتی۔
ماضی سے اندھی بہری بغاوت کا رجحان خود اپنے اندر بڑے مفسدات رکھتا ہے۔ہماری ترقی اسی وقت ممکن ہے، جب ہم اپنے تاریخی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اگر ہم نے وہ سب کچھ دریابرد کرنے کی کوشش کی، جو آج تک مسلمانوں نے حاصل کیا ہے تو ہماری قوتیں ایک اندرونی کش مکش کی نذر ہوجائیں گی اورمجموعی طور پر قوم کوکچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ’ تجدد‘ کا فتنہ ملک کے لیے ایک عظیم خطرہ ہے اور اس کی ہرکوشش نظریۂ پاکستان کی بنیادوں پر ایک ضربِ کاری ہے۔
ہماری نگاہ میں مذکورہ بالا دونوں راستے گمراہی کے راستے ہیں۔ سیدھی راہ یہ ہے کہ اسلامی آئیڈیالوجی پر اس کے اصل رنگ میںعمل ہو اور آزادی کے ہرپہلو پر اس کی حکمرانی قائم ہو۔
اس کےلیے ایسا پروگرام بنانا ہوگا، جو ایک طرف فرد کی اصلاح کرے اور اس میں حقیقی ایمان پیدا کرے۔ اللہ کے خوف سے اس کے دل کو معمورکرے اورعمل صالح کی راہ پر اسے گامزن کردے اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کی اصلاح اور تشکیل نو کا کام انجام دے۔جب تک ان دونوں محاذوں پر بیک وقت کام نہ ہوگا، نظریۂ پاکستان کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی نہیں کیا جاسکے گا۔یہ کام کسی ایک فرد، ادارے، جماعت یا صرف حکومت کے کرنے کا نہیں ہے۔ یہ سب کا کام ہے اور پوری اُمت کی ذمہ داری ہے:
کُلُکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ [صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب المرأۃ، راعیۃ فی بیت زوجھا، حدیث:۴۹۰۸] تم میں سے سب کے سب نگران ہیں اور تم میں سے ہرایک سے اپنی اپنی رعیت کے بارےمیں سوال کیا جائے گا۔
یہ ذمہ داری ہرفرد کی ہے ، ہر ادارے اور جماعت کی ہے اور سب سے بڑھ کر حکومت کی ہے کہ وہ زندگی کے ہرشعبے میں اس نظریے کو قائم کرے۔ ہر ایک کو سب سے پہلے، اسے اپنے اُوپر قائم کرنا چاہیے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ اسے دوسروں پر اورپورے نظامِ زندگی پر نافذ کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے:
اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۭ (الرعد ۱۳:۱۱) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہیں بدلتی۔
اصلاح اور تعمیرِ نو کی ذمہ داری، پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ ہرفرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اس نظریے کا پرچار کرے اور جس دائرے میں بھی اسے اختیار حاصل ہے، اس میں اسے قائم کرے۔ ہرادارے اور جماعت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی علَم بردار بنے اور اپنے دائرۂ اختیار میں اسے نافذکرے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی داعی بنے اور ملک کی معاشی، معاشرتی، سیاسی، اخلاقی، قانونی اور بین الاقوامی پالیسی کو اس کی روشنی میں مرتب کرے، تاکہ یہ نظریہ زندگی کے ہرشعبے میں جلوہ گر ہو اور اس طرح پاکستان اپنی اصل منزل کی طرف گامزن ہوسکے۔
پاکستان کے نظریاتی پہلو پر زور دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روز مرہ زندگی اور ریاست میں پیدا ہونے والے سماجی و معاشی چیلنجوں کا جواب نہ دیا جائے۔ آج وطن عزیز درج ذیل حوالوں سے دہکتے انگاروں کا منظر پیش کررہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ:
۱- پاکستان عمومی طور پر شدید نوعیت کی معاشی مشکلات، تضادات اور تصادمات کی زد میں ہے۔ جس کا بنیادی سبب معاشی بدانتظامی، سودی معیشت پر اصرار اور ناپائدار معاشی پالیسیاں ہیں۔
۲- قومی بجٹ اور ریاست کی جانب سے اپنے شہریوں کے ساتھ سالانہ عہدوپیمان (بجٹ) کے بجائے، عملاً سال کے دوران چار، پانچ بجٹ لانے کی شرانگیزی ہے۔ پہلے ہریکم تاریخ کو تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا تھا اور اب ہرماہ کی یکم اور ۱۵تاریخ کو بھی قیمتوں میں رد و بدل کرکے سارے معاشی منظرنامے کو بدترین صورتِ حال سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر فرد، کارپوریشن اور ادارہ معاشی منصوبہ تیار کرنے کی صلاحیت اور اختیار کھوبیٹھا ہے۔ ایسی معاشی بدانتظامی کا یہ اثر ہے کہ افراطِ زر، مہنگائی اور حد سے بڑھتی ہوئی طبقاتی تفریق کا پہاڑ کھڑا ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے اس ریاستی اداراتی بے راہ روی کے منہ زور گھوڑے کو لگام دینے کے لیے نہ سیاسی پارٹیاں تیار ہیں اور نہ دُور دُور تک اعلیٰ تعلیمی ادارے، دانش وَر اور تجزیہ کار بند باندھنے کے لیے آمادہ کار ہیں۔
۳- اس معاشی اور طبقاتی فساد نے سماجی فاصلے گہرے کر دیے ہیں۔ شہریوں میں جسمانی بیماریاں تو ایک طرف رہیں، ذہنی بیماریوں کا نہ ختم ہونے والا جنگل بڑھتا جارہا ہے۔ ہرسال خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات، طلاق اور خلع کی تعداد میں ناقابلِ تصور اضافے کا رجحان، بات بات پر لوگوں کا توڑ پھوڑ پر آمادہ ہو جانا (جس کی ایک مثال تو وکیلوں کی جانب سے معزز ججوں پر حملے، پولیس اور ڈاکٹروں پر تشدد وغیرہ کی صورت میں بھی سامنے آتی رہتی ہے) اور اس نوعیت کے مریضانہ رویے، جنگل کے معاشرے کی یاد دلاتے ہیں۔
۴- پولیس کے نظام کی بدانتظامی اور عدالتی عمل کے غیرمؤثر ہونے کی کیفیت نے لوگوں کو عدم تحفظ، خوف اور مایوسی سے دوچار کیا ہے۔
۵- زراعت کے پیشے میں سہولیات کی فراہمی کے نظام کی بدنظمی، اور زراعت کے بارے میں ریاستی مشینری کی کم فہمی اور کسانوں کے معاملات کو سمجھنے اور ان کے بالکل جائز مسائل حل کرنے سے لاتعلقی نے زراعت و خوراک جیسی بنیادی صنعت کو شدید دھچکا پہنچایاہے۔
۶- صنعت و حرفت اور درآمد و برآمد تجارت کے معاملات میں غیر متوازن رویوں نے لوگوں کو سرمایہ کاری سے ہٹاکر، بیرونِ ملک جائدادوں کی خریداری کی طرف دھکیل دیا ہے، یا پھر دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کی راہ دکھائی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں بے روزگاری کو فروغ ملا۔ اس صورتِ حال میں جرائم میں اضافہ فطری بات ہے۔
۷- دوسری طرف کثیر قومی کمپنیوں کے لیے سرخ قالین بچھا کر استقبال کرنے کا اور انھیں من مانی کرنے کی کھلی اجازت دینے کا رویہ ظاہر کرتاہے کہ اہلِ حل وعقد (نوکرشاہی اور سیاسی قیادت) کے گٹھ جوڑ کو ملک اور ملک کے شہریوں کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں۔ ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں اور ادویات ساز کمپنیوں کی مثالیں اس معاملے کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔
۸- اور سب سے زیادہ لرزا دینے والا معاملہ تعلیم کی فروخت سے منسوب کاروبار ہے۔ بچوں کو معیاری تعلیم نہیں مل رہی، لیکن تعلیمی تاجر دونوں ہاتھوں سے، پسے ہوئے غریب شہریوں کو لُوٹ رہے ہیں۔ درس گاہیں علم کی شمع روشن کرنے کے بجائے فیشن پریڈ کے مراکز میں تبدیل ہورہی ہیں۔ روز افزوں اخلاقی بے راہ روی الگ مسئلہ ہے، اور دی جانے والی تعلیم کے معیار کو جانچنے کا سوال اس سے بھی زیادہ الم ناک کیفیت سامنے لاتا ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم کے نام پر قومی تعلیمی پالیسی میں غیرمنطقی اور متصادم تبدیلیوں کا ڈراما مضحکہ خیز منظر دکھاتا ہے۔ سرکاری تعلیمی شعبہ زبوں حالی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ سرکاری شعبۂ تعلیم کی اس بدانتظامی نے نجی شعبے کو من مانی کرنے کا کھلا لائسنس عطا کر دیا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس موضوع کو کوئی زیربحث لاتا ہی نہیں۔ نہ پارلیمنٹ، نہ میڈیا، نہ سیاست دان اور نہ اخبارات۔
۹- مختلف آئینی اداروں کا ایک دوسرے کے معاملات اور منصبی ذمہ داریوں میں بے جا مداخلت کرنا بلکہ زور زبردستی کرنا، ایسا بدنُما طرزِ عمل ہے، جس نے ریاستی انتظامی توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
۱۰- معاشرے کی تعمیر حددرجہ بنیادی فریضہ ہے۔ عصرحاضر نے معاشرتی تعمیر کا کم و بیش خاصا حصہ ذرائع ابلاغ کے سپرد کردیا ہے، جو دل، دماغ، مشاہدے اور تعلقات کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ وطن عزیز کے بیش تر ذرائع ابلاغ، اس حوالے سے مایوس کن تصویر پیش کرتے ہیں۔ مایوسی، تصادم، مبالغہ، گاہے تاریخی عوامل کی جھوٹی منظرکشی اور اخلاقی قدروں کی پامالی کی بہت سی مثالیں ہمار ےذرائع ابلاغ پیش کر رہے ہیں۔
۱۱- سب سے نازک معاملہ یہ ہے کہ مسئلۂ کشمیر پر قومی یکسوئی کو متاثر کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً ایسے شوشے چھوڑے جاتے ہیں، جن سے پوری جدوجہد کو شدیدصدمہ پہنچتا ہے۔ پھر محکمہ خار جہ اور پارلیمنٹ کی جانب سے قرار واقعی توجہ نہ دینا، مسئلۂ کشمیر کی ماہیت پر شدید منفی اثرڈالنے کا سبب بن رہا ہے۔
نظریاتی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے، اُوپر مذکورہ جن گیارہ نکات کی جانب توجہ دلائی گئی ہے، انھیں درست کرنا کسی بین الاقوامی ادارے کی نہیں خود ہمارے اہل حل وعقد کی ذمہ داری ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے بااثر لوگ یہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے اپنا حصہ ادا کرنے سے حددرجہ غافل دکھائی دیتے ہیں۔ اگر انھوں نے یوں ہی فرار کی راہ اختیار کیے رکھی تو ملک و ملّت کو شدید نقصان پہنچے گا اور آیندہ نسلیں اُنھیں معاف نہیں کریں گی۔
اگر ایک ہی شے کو ایک شخص سیاہ کہے، دوسرا سپید، تیسرا زرد اور چوتھا سرخ تو ممکن نہیں ہے کہ یہ چاروں معاً سچے ہوں۔ اگر ایک ہی فعل کو ایک بُرا کہتا ہے اور دوسرا اچھا، ایک اس سے منع کرتا ہے اور دوسرا اس کا حکم دیتا ہے تو کسی طرح ممکن نہیں کہ دونوں کی رائے صحیح ہو، دونوں برحق ہوں اور دونوں امر و نہی کا کھلا ہوا اختلاف رکھنے کے باوجود اپنے حکم میں درست ہوں۔ جو شخص ایسے متضاد اقوال کی تصدیق کرتا ہے اور ایسے متضاد احکام کو برحق قرار دیتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہوگا۔ یا تو وہ سب کو خوش کرنا چاہتا ہے، یا اس نے اس مسئلے پر سرے سے غور ہی نہیں کیا اور بے سوچے سمجھے رائے ظاہر کر دی۔ بہرحال دونوں صورتیں عقل اور صداقت کے خلاف ہیں اور کسی دانش مند اور حق پسند انسان کے لیے یہ زیبا نہیں کہ کسی وجہ سے بھی مختلف الخیال لوگوں کی تصدیق کرے۔
عموماً لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ دس مختلف خیالات رکھنے والے آدمیوں کے مختلف اور متضاد خیالات کو درست قرار دینا ’رواداری‘ ہے۔ حالانکہ یہ دراصل ’رواداری‘ نہیں، عین منافقت ہے۔ ’رواداری‘ کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں ان کو ہم برداشت کریں، ان کے جذبات کا لحاظ کرکے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو، اور انھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ اس قسم کا تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے، بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں، اور خود ایک دستور العمل کے پیرو ہوتے ہوئے دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوں سے کہیں کہ ’آپ سب حضرات برحق ہیں‘، تو اس منافقانہ اظہار رائے کو کسی طرح ’رواداری‘ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔
صحیح رواداری وہ ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو دی ہے۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ:
یہی وہ ’رواداری‘ ہے، جو ایک حق پرست، صداقت پسند اور سلیم الطبع انسان اختیار کرسکتا ہے۔ وہ جس مسلک کو صحیح سمجھتا ہے اس پر سختی کے ساتھ قائم رہے گا، اپنے عقیدے کا صاف صاف اظہار و اعلان کرے گا، دوسروں کو اس عقیدے کی طرف دعوت بھی دےگا، مگر کسی کی دل آزاری نہ کرے گا، کسی سے بدکلامی نہ کرے گا، کسی کے معتقدات پر حملہ نہ کرے گا، کسی کی عبادات اور اعمال میں مزاحمت نہ کرے گا، کسی کو زبردستی اپنے مسلک پر لانے کی کوشش نہ کرے گا۔ باقی رہا حق کو حق جانتے ہوئے حق نہ کہنا، یا باطل کو باطل سمجھتے ہوئے حق کہہ دینا، تو یہ ہرگز کسی سچے انسان کا فعل نہیں ہوسکتا۔ اور خصوصاً لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرنا تو نہایت مکروہ قسم کی خوشامد ہے۔ ایسی خوشامد نہ صرف اخلاقی حیثیت سے ذلیل ہے بلکہ اس مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہوتی جس کے لیے انسان اپنے آپ کو اس پست منزل تک گراتا ہے۔ قرآن کا صاف اور سچا فیصلہ ہے کہ:
’جھوٹی رواداری‘ کا اظہار تو خیر سیاسی اغراض کے لیے کیا جاتا ہے اور اس دَور میں یہ ’جائز‘ ہے۔ کیونکہ مغربی ارباب ریاست کی کوششوں سے مدت ہوئی کہ اخلاق اور سیاست کے درمیان مفارقت کرا دی گئی ہے۔ لیکن افسوس کے قابل ان ’محققین‘ کا حال ہے، جو عقل کو سوچنے اور فکر کو حرکت کرنے کی زحمت دیئے بغیر اپنی مذہبی تحقیقات کا یہ عجیب نظریہ ظاہر فرمایا کرتے ہیں کہ ’’تمام مذاہب برحق ہیں‘‘۔ یہ جملہ اکثر ان لوگوں کی زبان سے سنا جاتا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ’ہم کوئی بات زبان سے نہیں نکالتے اور نہ تسلیم کرتے ہیں جب تک کہ اس کو میزانِ عقل میں تول نہ لیں‘۔ لیکن میزانِ عقل کا حال یہ ہے کہ وہ ان کی اس تحقیقِ انیق کو پرِ کاہ کے برابر بھی وزن دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ جن مختلف مذاہب کو معاً برحق ہونے کی سند عطا کی جاتی ہے، ان کے اصول میں سیاہ اور سفید کا کھلا ہوا فرق موجود ہے۔ ایک کہتا ہے کہ ’خدا ایک ہے‘۔ دوسرا کہتا ہے ’دو ہیں‘۔ تیسرا کہتا ہے ’تین ہیں‘۔ چوتھا کہتا ہے ’بہت سی قوتیں خدائی میں شریک ہیں‘۔ پانچویں کی تعلیم میں سرے سے خدا کا تصور ہی موجود نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پانچوں سچے ہوں؟
ایک انسان کو خدائی کے مقام میں لے جاتا ہے۔ دوسرا خدا کو کھینچ کر انسانوں کے بیچ میں اتار لاتا ہے۔ تیسرا انسان کو عبد اور خدا کو معبود قرار دیتا ہے۔ چوتھا عبد اور معبود دونوں کے تخیل سے خالی ہے۔ کیا صداقت میں ان چاروں کے لیے اجتماع کی گنجایش نکل سکتی ہے؟ ایک نجات کو صرف عمل پر موقوف رکھتا ہے۔ دوسرا نجات کے لیے صرف ایمان کو کافی سمجھتا ہے۔ تیسرا ایمان اور عمل دونوں کو نجات کے لیے شرط قرار دیتا ہے۔ کیا یہ تینوں بیک وقت صحیح ہوسکتے ہیں؟ ایک نجات کی راہ دنیا اور اس کی زندگی سے باہر نکالتا ہے۔ دوسرے کے نزدیک نجات کا راستہ دنیا اور اس کی زندگی کے اندر سے گزرتا ہے۔ کیا یہ دونوں راستے یکساں درست ہوسکتے ہیں؟ ایسے متضاد امور کو صداقت کی سند عطا کرنے والی شے کا نام اگر عقل ہے تو پھر جمع بین الاضداد کو محال قرار دینے والی شے کا نام کچھ اور ہونا چاہیے۔
مذاہب میں جو تصورات مشترک نظر آتے ہیں، افسوس ہے کہ سطحی نظر رکھنے والے ان کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے اور محض سطح پر نگاہ ڈال کر چند غلط مقدمات کو غلط طریقے سے ترتیب دے کر غلط نتائج نکال لیتے ہیں۔ حالانکہ دراصل یہ اشتراک ایک اہم حقیقت کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ پتہ دیتا ہے کہ درحقیقت یہ تمام مذاہب ایک ہی اصل سے نکلے ہیں۔ ان تمام تصورات اور تعلیمات کا مبدأ ایک ہے۔ کوئی ایک ذریعۂ علم ہے جس نے انسان کو مختلف ممالک، مختلف اوقات اور مختلف زبانوں میں، ان مشترک صداقتوں سے روشناس کیا۔ کوئی ایک بصیرت ہے جو مشرق و مغرب کا بُعد رکھنے والے اور سیکڑوں ہزاروں برس کا فصل رکھنے والے لوگوں کو حاصل ہوئی، اور اس بصیرت سے وہ سب کے سب ایک ہی قسم کے نتائج تک پہنچے۔ لیکن مذاہب جب اپنی اصل اور اپنے مبدأ سے دُور ہوگئے تو ان میں کچھ خارجی تصورات اور اجنبی معتقدات و تعلیمات نے راہ پالی، اور چونکہ یہ بعد والی چیزیں اس مشترک مبدأ اور مشترک بصیرت سے ماخوذ نہ تھیں، بلکہ مختلف طبائع، مختلف رجحانات اور مختلف علمی و عقلی مراتب رکھنے والے انسانوں کی طبع زاد تھیں، اس لیے انھوں نے ان مشترک بنیادوں پر جو عمارتیں تعمیر کیں، وہ اپنے نقشوں اور اپنی وضع و ہیئت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔
پس، حق اور صدق کا اگر حکم لگایا جاسکتا ہے تو اس اصل مشترک پر لگایا جا سکتا ہے جو تمام مذاہب میں پائی جاتی ہے نہ کہ ان مختلف تفصیلی صورتوں اور ہئیتوں پر، جن میں موجودہ مذاہب پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ حق ایک جنس بسیط ہے، اس کے افراد میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ہم سیاہ اور سپید، سرخ اور سبز پر لفظ ’رنگ‘ کا اطلاق یکسانی کے ساتھ کرتے ہیں، اس طرح خدا ایک ہے اور خدا دو ہیں اور خدا کروڑوں ہیں کے مختلف احکام پر لفظ ’حق‘ کا اطلاق نہیں کرسکتے۔
یہ بات کہ تمام مذاہب کی اصل ایک ہے، اور ایک صداقت ہے جو مختلف قوموں پر مختلف زمانوں میں ظاہر کی گئی، قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اس کتاب میں بار بار کہا گیا ہے کہ ہر قوم میں خدا کے رسول اور پیغامبر آئے ہیں: وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا (النحل۱۶:۳۶)۔ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (فاطر۳۵:۲۴)۔یہ تمام انبیاء و رُسُل ایک سرچشمے سے صداقت کا پیغام حاصل کرتے تھے:جَآئُ وْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ الْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ (اٰل عمرٰن۳:۱۸۴)۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ ان سب کا پیغام ایک ہی تھا، اور وہ یہ تھا: اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶) ’’خدا کی بندگی کرو اور تمام باطل معبودوں کو چھوڑ دو‘‘۔سب پر خدا کی طرف سے ایک ہی وحی آئی تھی:
ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو کچھ ہم پیش کر رہے ہیں، وہ ہماری اپنی عقل و فکر کا نتیجہ ہے، بلکہ سب یہی کہتے رہے کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے:
پھر ان میں سے کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ تم ہماری بندگی کرو، بلکہ سب یہی کہتے رہے کہ خدا پرست بن جائو:
یہ تھی وہ مشترک تعلیم جو تمام قوموں کو ان کے مذہبی رہنمائوں نے دی تھی۔
قرآن مجید کا بیان ہے کہ اوّل اوّل تمام انسان ایک ہی امت تھے، یعنی ایک خالص انسانی فطری حالت (State of Nature)میں تھے اور ان کے پاس خدا کی طرف سے راہِ راست کا علم آیا ہوا تھا۔(۲) پھر ان میں اختلاف ہوا، اور اختلاف اس وجہ سے ہوا کہ ان میں سے بعض لوگوں نے اپنی حد ِجائز سے گزرنے، اپنے فطری مرتبے سے زیادہ بلند مرتبہ حاصل کرنے، اور اپنے فطری حقوق سے بڑھ کر حقوق قائم کرنے کی کوشش کی۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء آنے شروع ہوئے تاکہ لوگوں کو حق کا صحیح علم دیں، اور ان کے درمیان اجتماعی عدل (Social Justice) قائم کریں۔ تمام انبیاء کا دنیا میں یہی مشن رہا ہے۔ جن لوگوں نے اس مشن کو قبول کیا اور نبی کے دیئے ہوئے علم کی ٹھیک ٹھیک پیروی کی، اور نبی کے بتائے ہوئے قانون کا اتباع کیا، صرف وہی حق پر ہیں اور باقی سب باطل پر ___وہ بھی باطل پر جنھوں نے نبی کے اتباع سے انکار کیا، اور وہ بھی باطل پر جنھوں نے نبی کی تعلیم کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال لیا:
یہ ’قرآن کا نظریۂ تاریخ‘ یا ’اخلاقی تعبیر تاریخ‘ (Moral Interpretation of History) ہے، جو تمدنی اختلافات کے معمے کی طرح مذہبی اختلافات کے معمے کو بھی نہایت تشفی بخش طریقے سے حل کر دیتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کے پاس خدا کے نبی اسی لیے آتے رہے کہ جس فطری مسلک حیات سے وہ اپنی ’بغاوت‘ کے سبب ہٹ گئی تھیں، اسی کی طرف پھر انھیں لے جائیں اور انھیں حق اور عدل کے طریقے پر قائم کر دیں۔ مگر وہی بغاوت کا جذبہ جو ان کی گمراہی کا اصل سبب تھا، انھیں بار بار ہٹا کر پھر ٹیڑھے راستوں کی طرف لے جاتا رہا۔ پس، جو تھوڑے بہت صحیح تصورات اور اخلاق کے برحق اصول دنیا کی مختلف قوموں میں پائے جاتے ہیں، وہ سب انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کے وہ باقی ماندہ اثرات ہیں، جو اپنی ذاتی قوت کی وجہ سے قوموں کے اذہان اور ان کی زندگی میں جذب ہو کر رہ گئے۔
اس کے بعد قرآن جو دعویٰ پیش کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ جس ’’اسلام‘‘ کی طرف وہ بلا رہا ہے وہ وہی ’اصل دین‘ ہے، جس کو ابتدا سے تمام قوموں میں تمام انبیا علیہم السلام پیش کرتے رہے ہیں۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوئی نرالا پیغام لے کر نہیں آئے ہیں، جو پہلے کبھی پیش نہ کیا گیا ہو: قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ(احقاف۴۶:۹) ’’اے نبیؐ! ان سے کہہ دوکہ میں کوئی نرالا پیغامبر نہیں ہوں‘‘، بلکہ آپ کا پیغام وہی ہے جو ہر نبی نے ہر قوم تک ہر زمانے میں پہنچایا ہے: اِنَّـآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَـمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِہٖ ج (النساء۴:۱۶۳ ) ’’ہم نے تمھاری طرف وہی پیغام وحی کیا ہے جو نوحؑ اور ان کے بعد کے نبیوں ؑ پر وحی کیا تھا‘‘۔
اس پیغام سے عرب، مصر، ایران، ہندستان، چین، جاپان، امریکا، یورپ، افریقا، غرض کوئی سرزمین محروم نہیں رکھی گئی۔ سب جگہ اللہ کے رسولؑ، اللہ کی کتابیں لے کر آئے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ بدھ، کرشن، رام، کنفیوشس، زردشت، مانی، سقراط، فیثاغورث وغیرہم انھی رسولوں میں سے ہوں۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اور ان دوسرے پیشوائوں میں فرق یہ ہے کہ ان کی اصل تعلیمات تولوگوں کے اختلافات میں گم ہوگئیں، مگر آنحضرتؐ نے جو کچھ پیش فرمایا وہ اصلی شکل میں محفوظ ہے۔
پس، حقیقت یہ ہے کہ ’اسلام‘ مذاہب میں سے ایک مذہب نہیں ہے بلکہ نوع انسانی کا اصل مذہب یہی ہے، اور باقی سب مذاہب اسی کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ مذاہب میں جو کچھ ’حق‘ اور ’صدق‘ پایا جاتا ہے، وہ اسی اصل اسلام کا بچا کھچا اثر ہے جو سب کے ہاں آیا تھا اور اختلافات میں گم کر دیا گیا۔ جس مذہب میں اس باقی ماندہ حق کی مقدار جتنی زیادہ ہے، اس میں اتنا ہی زیادہ ’اسلام‘ موجود ہے۔ رہے وہ اختلافات جو اصل ’اسلام‘ کے خلاف ہیں، تو یہ سب یقیناً باطل ہیں اور ان پر ’حق‘ کا حکم لگانا صریح ظلم ہے۔
بجائے اس کے کہ ہم اس جھوٹی رواداری کا مظاہرہ کریں، ہمیں تو اپنے تمام انسانی بھائیوں سے یہ کہنا چاہیے کہ ’’دوستو، براہ کرم تعصب اور تنگ نظری کو چھوڑ دو اور حق و باطل کی آمیزشوں پر جمے رہنے کے بجائے اس چیز کو قبول کرو، جو خالص اور بے آمیز حق ہے۔ حق کسی نسل یا قوم یا ملک کی موروثی جائیداد نہیں ہے، بلکہ تمام انسانیت کی مشترک میراث ہے۔ یہ میراث خداوند عالم کی طرف سے سب ملکوں اور قوموں اور نسلوں کو بانٹی گئی تھی۔ دوسروں نے اسے اگر گم کردیا اور اس کے ساتھ مخلوقات پرستی کے، ظلم و ناانصافی کے اور بے جا امتیازات کے زہر ملا لیے تو یہ ایک بدقسمتی تھی۔ ہماری اور تمھاری سب کی بدقسمتی تھی۔ کوئی وجہ نہیں کہ تم اس بدقسمتی کے ساتھ خواہ مخواہ چمٹے رہو صرف اس وجہ سے کہ تمھارے آبا و اجداد اس غلطی کے مرتکب ہوگئے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس میراث کو پاکر جوں کا توں پہنچا دیا اور اس کے اندر کسی مخلوق پرستی کا، کسی ظالمانہ اور غیر منصفانہ رسم و رواج کا اور کسی قسم کے بے جا امتیازات کا زہر شامل نہ ہوسکا، تو یہ ایک خوش قسمتی ہے، ہماری اور تمھاری اور سب نوع انسانی کی خوش قسمتی ہے۔ اس کا شکر ادا کرو اور اس سے فائدہ اٹھانے میں صرف اس لیے تامل نہ کرو کہ خدا کی یہ نعمت ایک عرب کے ذریعے سے تمھیں مل رہی ہے۔ حق تو اسی طرح کی عالمگیر نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جس طرح ہوا، پانی اور روشنی اس کی عالم گیر نعمتیں ہیں۔ پھر اگر ہوا سے تم محض اس لیے ناک بند نہیں کرلیتے ہو کہ وہ مشرق سے آرہی ہے، پانی کو تم اپنے حلق سے اتارنے میں صرف اس بنا پر تامل نہیں کرتے ہو کہ اس کا چشمہ فلاں سرزمین میں واقع ہے، اور روشنی سے فائدہ اٹھانے میں تم کو صرف اس وجہ سے کوئی تامل نہیں ہوتا ہے کہ وہ فلاں شخص کے چراغ سے نکل رہی ہے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ خالص حق کی جو نعمت تم کو محمدؐ عربی کے ذریعے سے مل رہی ہے اس کو لینے میں تم صرف اس لیے تامل کرو کہ اس کا پیش کرنے والا تمھاری سرزمین میں پیدا نہیں ہوا ہے‘۔[جون۱۹۳۴ء]
_______________
حواشی
(۱) ہروہ فعل جو حق کے خلاف ہو جھوٹ کی تعریف میں آجاتا ہے۔ ہر وہ جگہ جہاں مشرکانہ اعمال ہوتے ہوں یا جہاں مُلحد انہ خیالات ظاہر کیے جاتے ہوں، یا جہاں فحش اوربے حیائی کا ارتکاب ہوتا ہو، یا جہاں ظلم اورفسق کیا جاتا ہو، وہاںدراصل جھوٹ کا ارتکاب ہوتا ہے۔ جہاں کسی انسان یا دوسری مخلوق کو خدا بناکر انسان اس کے آگے بندگی کرتا ہو، وہاں بھی جھوٹ کے سواکچھ نہیں ہوتا۔ یہ جھوٹ کا وسیع مفہوم ہے اوراس جھوٹ کے گواہ نہ بننے سے مراد یہ ہے کہ مومن ایسے مقامات پر قصداً نہ جائے گا کہ ان افعال کو دیکھے اور ان کا شاہد بنے۔
(۲) یہ نکتہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ آج کل کے ’نظریۂ ارتقا‘ اورفلسفۂ تاریخ کے برعکس قرآنِ مجید کا بیان یہ ہے کہ زمین پر نوعِ انسانی کا آغاز جہالت کی تاریکی میں نہیں ہوا بلکہ خداداد علم کی روشنی میں ہوا تھا۔ خدا نے سب سے پہلے انسان، یعنی آدم علیہ السلام کو پیغمبر بنایا تھا اور ان کو الہام کےذریعے سے وہ علم دےدیا تھا جو زمین پر صحیح زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری تھا۔
(۳) آیت میں قرآن نے لفظ ’بغی‘ استعمال کیا ہے، جس کے معنی اپنی جائز حدسے گزرنے اور زیادتی اورسرکشی کرنے کے ہیں۔ قرآنِ مجید تمام اعتقادی گمراہیوں اوراجتماعی ظلم (Social Injustice) کی بنااس کوقراردیتا ہےکہ بعض انسانوں میں اپنی حد سے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، مثلاً بعض انسان دوسرے انسانوں کے خدا بن بیٹھتے ہیں اور ان سے اپنی بندگی کراتے ہیں۔ بعض خودتو خدا بننے کی ہمت نہیں رکھتے مگر کسی بُت یا خیالی دیوتا یا کسی قبر کے پُجاری یا مجاور بن جاتے ہیں اور ان معبودوں کے واسطے سے لوگوں پر اپنا اقتدار جماتے ہیں۔ بعض مذہبی عہدہ دار بن کر لوگوں کی فلاح و نجات کے ٹھیکے دار بنتے ہیں اور اس طرح برہمنیت اور پاپائیت وجود میں آتی ہے۔ بعض اپنی بہتر مالی حالت سے ناجائز فائدہ اُٹھاکر معاشی لوٹ کی مختلف صورتیں اختیار کرتے ہیں ۔ غرض یہ کہ انسان کو فطری حالت سے نکال کر اعتقادی اور سماجی حیثیات سے اختلاف میں مبتلاکرنے والی چیز دراصل یہی ’بغی‘ ہے۔
(۴) ’ترازو‘ سے مراد وہ کمال درجے کا متوازن (Well Balanced) نظامِ اجتماعی ہے، جو شریعت ِ الٰہی کی صورت میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے بھیجا گیا تاکہ انسانوں کے درمیان عدل قائم کیا جائے۔
کچھ عرصہ قبل لاہور - سیالکوٹ موٹر وے پر ہونے والے شرمناک واقعے کے ردعمل کے طور پر وزارتِ قانون نے ۲۶ نومبر۲۰۲۰ء کو ایک حکم نامے کا مسودہ جاری کیا ہے، جو گیارہ نکات پر مشتمل ہے۔ ان نکات میں مروجہ قانون میں وہ اصلاحات تجویز کی گئی ہیں، جن پر عمل درآمد سے وزارتِ قانون و عدل کے ماہرین کے خیال میں اس انسانیت سوز جرم میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اَشک شوئی کے لیے ہی سہی، خلوصِ نیت اور ذمہ داری کے ساتھ جو اقدامات بھی کیے جائیں، ان سے وارداتوں میں کمی کا امکان ہو سکتا ہے۔
ہماری نگاہ میں مسئلہ محض کسی مروجہ قانون میں جزوی تبدیلی کا نہیں ہے بلکہ اس نظامِ قانون کے بنیادی تصورات کی تبدیلی اور ہمارے تصور معاشرہ ، معروف و منکر ، حلال و حرام ، جائز و ناجائز اور بنیادی اخلاقی اقدارکا ہے۔ اس لیے جب تک مسئلے کے قانونی پہلو کے ساتھ ساتھ اخلاقی، سماجی اور معاشرتی اقدار شامل کرکے ایک جامع اور قابل عمل حکمت عملی وضع نہیں کی جائے گی، صرف چند قانونی دفعات میں ردّوبدل سے حالات میں تبدیلی کی خواہش محض ایک خوش فہمی ہوگی۔
سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے جائزے یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں تیزی کے ساتھ جرائم کے ارتکاب میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف ایک صوبے کے فراہم کردہ اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو ہولناک صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ صرف نوماہ کے عرصے (جنوری ۲۰۲۰ء تا ستمبر ۲۰۲۰ء) میں پنجاب میں پولیس کے ریکارڈ کے مطابق قتل کے ۳ہزار ۶سو۳۱، اقدام قتل کے ۵ہزار ۲سو ۶۳، مجروح کرنے کے۷۴ہزار ۹ سو ۱۴، اغوا اور اغوا برائے تاوان کے ۲لاکھ ۷۷ہزار ۱۲، زنا بالجبر کے ۳ہزار ۲سو ۶۴، اور ڈاکے اور چوری کے۷۲ہزار ۸۶ مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ان میں مقدموں کی وہ بڑی تعداد شامل نہیں ہے جو پولیس تھانوں میں درج نہیں کروائی گئی اور خصوصاً زنا بالجبر کا جرم ان معاملات میں سے ہے، جس کی اطلاع عموماً بہ امر مجبوری ہی پولیس کو دی جاتی ہے۔ورنہ معاشرتی دباؤ اور پولیس پر عدم اعتماد کی بنا پر بہت سے واقعات پولیس کے علم میں آتے ہی نہیں اور نہ ابلاغ عامہ تک ان کی اطلاع پہنچتی ہے۔
جنسی استحصال کے حوالے سے اس سے قبل ۱۹۷۹ء میں حدود آرڈیننس اور ۲۰۰۶ء میں تحفظ ِخواتین بل اور اس کے ۱۰ سال بعد ۲۰۱۶ء میں جرم زنا بالجبر قانون میں ترمیم اور اب مزید تقریباً دس سال بعد حالیہ مجوزہ آرڈی ننس، جزوی تبدیلی کی ایک شکل ہے۔ چنانچہ صورت حال پر اس کا اثر بھی لمحاتی اور جزوی ہی ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلے کے بنیادی (اخلاقی اوردینی) پہلوؤں کو سمجھے بغیر اس آرڈی ننس کی حیثیت ایسی ہی ہوگی، جیسے ایک طبیب کسی مریض کو بخار میں مبتلا دیکھ کر اسپرین یا پینا ڈول تجویز کر دے ، جب کہ بخار کا اصل سبب برقرار رہے۔
اسلامی نظام حیات دراصل ایک ایسے اخلاقی ضابطے کا نام ہے، جو انسان کی تمام سرگرمیوں کو الہامی اخلاقی اصولوں کا پابند بنا دیتا ہے۔ قرآن کریم میں مختصر ترین الفاظ میں اس حقیقت کو یہ کہہ کر واضح کر دیا گیا کہ وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم۶۸:۴) ’’آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین معیار پر فائز ہیں‘‘۔چنانچہ آپؐ نے زندگی کے تمام شعبوں کے لیے الہامی اخلاقی اصول متعین کردیے۔
یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ وہ اخلاق اور قانون کو دو الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ اخلاق کے دائرے کو قانون تک وسعت دیتا ہے۔ سود چونکہ ایک غیر اخلاقی کام ہے، اس لیے حرام ہے۔ زنا بالجبر ہو یا محض زنا، ایک غیر اخلاقی کام ہے، اس لیے قابلِ سزا ہے۔ چوری ایک غیر اخلاقی کام ہے۔ اس لیے چور سزا کا مستحق ہے۔ چونکہ ان تمام معاملات میں اخلاقی خلاف ورزی سے پورا معاشرہ خطرات کا شکار ہو جاتا ہے، اس لیے یہ معاشرتی جرائم بھی ہیں اور اسلامی ریاست ان معاملات میں خاموش تماشائی نہیں بنی رہ سکتی۔ اس کے فرائض میں یہ بات داخل ہے کہ وہ تمام فواحش کو معاشرے سے ختم کرکے معروف، بِرّ ، حیا اور وفا کو معاشرے پر غالب کر دے۔ گویا اسلام میں اخلاق کا وجود نظری نہیں ہے بلکہ اطلاقی اور قانونی ہے۔
اخلاق سے مراد ایک مخصوص طرزِ عمل ہے۔ اس طرزِ عمل میں صنفی معاملات کو اوّلیت دینے کے ساتھ ان کی صحت اور مطالبات کے پیش نظر انھیں دنیاوی لذات سے وابستہ نہیں کیا بلکہ روح اور دین سے وابستہ کر دیا گیا ہے، تاکہ فرد دیگر مذاہب کی طرح کسی احساس گناہ کی جگہ حلال ، طیب اور احسن طریقے سے اپنی جنسی ضرورت کو پورا کرکے بھی دائرۂ عبودیت میں شامل ہو جائے۔
آج مغرب ’جنسی تعلیم‘ کو اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں متعارف کرانے کے بعد شرم وحیا اور حلال و حرام کی تمیز کو مٹانا چاہتا ہے۔ اسلام نے اس کے برعکس طہارت، بلوغت، رضاعت اور جنسی تعلق پر تعلیم و تربیت کے نظام کے ذریعے قرآن و حدیث اور سیرتِ پاکؐ کی مثالوں سے وہ تمام پہلو ذہن نشین کرائے ہیں جن کے بعد کوئی صاحب ِایمان زنا یا اس سےملتے ہوئے دیگر غیراخلاقی رویوں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ قرآن و سنت کا اندازتعلیمی ہے، جب کہ مغرب سے درآمد کردہ جنسی تعلیم کا مقصد ان کے اپنے الفاظ میں صرف’ محفوظ جنسی زندگی‘ (safe sex) ہے جس میں کہیں آس پاس بھی یہ احساس نہیں پایا جاتا کہ یہ حیوانات کی طرح ایک ضرورت نہیں بلکہ قرآن کریم نے حلال و حرام کے اسلامی اصولوں کی روشنی میں اسے اخلاقی قیود کا پابند کیا ہے اور حصولِ لذت کو بھی رضائے الٰہی کے تابع کر دیا ہے۔
لا دینی مغربی ذہن، اخلاق اور قانون کو دو الگ دائروں میں تقسیم کرتا ہے۔ قانون کو اجتماعی مگر اخلاق کو ہر فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیتا ہے۔اس ذہن کے ساتھ زیربحث معاملے پر جب کسی مسلم ملک میں قانون سازی کی جاتی ہے یا موجود قوانین میں ترمیم کی جاتی ہے تو بنیادی مفروضہ یعنی ’محفوظ جنسی زندگی‘ کے اخلاقی جواز اور شرعی حیثیت کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ صرف اس پہلو پر غور کیا جا تا ہے کہ کتنی عمر تک اگر یہ فعل کیا جائے تو اسے قانون کی نگاہ میں جرم کہا جائے گا اور کتنی عمر کے بعد اگر رضامندی سے یہ فعلِ بد کیا جائے، تو پھر یہ نام نہاد انفرادی انسانی حقوق اور Humanismکی بنا پر قانون کی دسترس میں نہیں آئے گا۔ یاد رہے ’ہیومنز ازم‘ مغرب کے معاشرے کو عیسائیت سے نجات دلانے کا علَم بردار ہے، اور ہر فرد کو یہ حق دینے کا نام ہے کہ کیا چیز اچھی اور اخلاقی ہےاور کیا چیز بُری اور غیر اخلاقی ہے۔ اسی تصور کو آج ہماری وزارتِ تعلیم ’اخلاقی اصلاح‘ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم بھی اسلام کو نظرانداز کرکے ذاتی پسند اور ناپسند کی بنا پر اپنا رویہ طے کریں۔
حالیہ ترامیم کے حوالے سے یہ بھی پیش نظر رہے کہ اگر مروجہ قوانین جنھیں ۱۸۶۰ء میں انگریز نے وضع کیا تھا، وہ آج تک اس گھناؤنے فعل میں کمی نہ کر سکے تو کیا اب ان قوانین میں چند تبدیلیاں یا ترامیم کرنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ ایسی پیوندکاری ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔
ماہرین نفسیات اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کے بچپن کو ان ناخوش گوار واقعات کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔ ماہرینِ سماجیات کے مطابق عموماً مجرم بعض اوقات خود کسی نہ کسی ذلت آمیز رویے کا شکار رہ چکا ہوتا ہے۔ قبلِ بلوغ یا بعد از بلوغ اس کے ساتھ کوئی اس سے ملتا جلتا واقعہ گزرا ہوتا ہے، جس میں خود اس پر زیادتی کی گئی اور پھر موقع ملنے پر بطور ایک انتقامی رویّے کے اسے ارتکابِ جرم پر اُبھارتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی تجزیاتی طور پر کہی جاتی ہے کہ بعض اوقات انسانی نفس بعض ہیجانات کا تابع ہو جاتا ہے جن کا تعلق دوسرے کو تکلیف دے کر لذت حاصل کرنے سے ہوتا ہے۔ان اندورونی محرکات کے ساتھ بعض اوقات ہیجان انگیز لباس ، خوشبو یا ایسی جسمانی حرکت جو دیکھنے والے کے جذبات کو بھڑکا کر اسے جارحانہ رویوں پر ابھار دیتی ہے۔
بلاشبہہ ان اُمور کا تعلق بھی جرم کے ارتکاب سے ہوسکتا ہے، مگر انسانی نفسیات کے ان تمام امکانات کے پیش نظر اسلام کے نظام حیا اور قانون میں ان اندرونی اور بیرونی محرکات کے اثرات سے بچنے کے لیے قرآن نے غضِ بصر کی تاکید کی ہے۔ مزیدبرآں ساتر لباس کے استعمال اور لوچ نہ پیدا کرنے کے علاوہ، خون کے رشتوں میں بھی مخالف جنس کے جسم سے مس نہ کرنے اور تنہائی میں مخالف جنسوں کے جمع نہ ہونے کا حکم دیا ہے۔ سب سے بڑھ کر اللہ کے خوف سے گناہ سے بچنے کے تصور کے ذریعے برائی کے امکانات کو کم سے کم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔چنانچہ جن مسلم معاشروں میں اسلامی اخلاقی اقدار پر عمل کیا جاتا رہا ہے، وہاں بےراہ روی کا تناسب حددرجہ کم دیکھنے میں آتا ہے۔
اس تناظر میں مجوزہ حکم نامے میں اس بُرے فعل کے عادی یا غیر عادی مجرم کو برضا یا آپریشن سے ایک ایسی صلاحیت سے محروم کرنا ہے جسے خالق کائنات نے تمام انسانوں کے خمیر میں رکھا ہے اور جسے اپنی حدود میں رکھنے اور اس کے صحت مند ، جائزاور حلال استعمال کو پسند فرمایا ہے۔کسی انسان کو اس صلاحیت سے محروم کر دینا نفسیاتی زاویے سے اس کے اندر جذبۂ انتقام کو مزید بھڑکانے کا سبب بن سکتا ہے اور شاید قانونی پیچیدگیوں کی بنا پر مزید مشکلات کا سبب بھی بن جائے۔ حکومت کے قانونی مشیر اور ان دوسرے ماہرین نے اس پہلو پر غور نہیں کیا ہے۔ ہم دوبارہ عرض کریں گے کہ چوری اور دیگر غیر انسانی افعال کا سدباب محض ایک نیا قانون بنادینے اور نظامِ قانون اور پولیس اور تفتیش کے نظام کو جوں کا توں رکھنے سے نہیں ہوسکتا۔
انسانی جسم میں اصل خفیہ کیمرہ (hidden camera )اس کا اپنا ایمان ہے ، اور احساس آخرت ہے، اور نفس انسانی یا انسانی جان کا احترام ہے جو قرآن وحدیث نے واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ ایک فرد کا قتلِ ناحق تمام انسانیت کا قتل ہے۔ اور یہ کہ ایک فرد کی عزت کو مجروح کرنا پورے معاشرے کی عزت کو مجروح کرنے کے مترداف ہے۔ یہ چیز کسی درآمد شدہ ہیومنزازم سے حل نہیں کی جاسکتی اور نہ اقوام متحدہ کے عنایت کردہ اقوامِ عالم کے لیے ’ہزارسالہ ترقیاتی اہداف‘ (M.D.G's) کی فرماں بردارانہ پیروی ہی اس کا حل ہے۔
اس مرحلے میں ہمیں خود اپنے آپ سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے گھر میں یا ابتدائی اسکول میں اپنے بچوں اور بچیوں کو شرم وحیا ، پاکیزگیِ نگاہ و زبان ، رشتوں کے احترام، اللہ کی محبت اور اس کے تقاضوں،آخرت میں جواب دہی کے احساس کے بارے میں کچھ بتایا ہے؟ اور کیا انھیں یقین دلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے اور دو فرشتے ہمہ وقت ہمارے ہرعمل کو تحریری شکل میںقلم بند کر رہے ہیں اور یوم حساب ہمارا اعمال نامہ ہمارے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ ایک بچے یا بچی کو گھر کی ابتدائی تعلیم میں اسلام کے ابدی عالمی اخلاقی اصولوں کو ذہن نشین کرا دیا جائے تو ان شاء اللہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر کوئی غلط فکر یا غلط عمل اختیار کرنے کی طرف مائل نہیں ہوگا۔
مسلمان کی زندگی ہو یا موت ، گھریلو معاملات ہوں یا معاشرتی اور معاشی سرگرمیاں، ہرچیز کی بنیاد شریعت پر ہے۔ شریعت نے بعض افعال کو سخت ناپسند کرتے ہوئے ’فحش ‘سے تعبیر کیا ہے اور غیر اخلاقی (ناجائز)جنسی تعلق کو چاہے وہ محض نگاہ کی آوارگی ہو ، یا زبان و بیان کے ذریعے دعوتِ گناہ ، یعنی ہرطرح کی بُرائی کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک نظام شرم وحیا دیا ہے، اور بچوں کو ہوش سنبھالنے کے ساتھ اس کی تعلیم دینا والدین پر فرض کر دیا ہے۔ابھی بچہ محض دس سال کا ہے اور اس کا بستر الگ کر دینا ضروری ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ جنسی فاصلے کا اہتمام کیا جائے۔ بلوغ کے بعد مزید واضح احکامات ملتے ہیں۔ تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر ایک شخص ہوائے نفس کی غلامی اختیار کرتا ہے تو پھر غیرشادی شدہ ہونے کی شکل میں (زنا کی سزا کے طور پر) اُسے سوکوڑے کھلے عام لگائے جائیں تاکہ معاشرے میں فحش کام کرنے کی کسی میں ہمت نہ ہواور اگر یہ فعل کسی شادی شدہ فرد نے کیا تو اسے پورے معاشرے کے لیے عبرت بنانے کے لیے سنگسار کرنا نہ صرف شریعتِ محمدیؐ بلکہ شریعت موسویؑ اور شریعت عیسویؑ دو نوں میں فرض کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے جب تک مسلم معاشرے میں شرعی قوانین کا نفاذ رہا یہ برائی سر نہیں اٹھا سکی۔ آج بھی اگر اس بدفعلی کو ختم کرنا ہے تو اسلام کے ابدی اور عالم گیر قوانین کا نفاذ ہی اس کا حل ہے:
اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۚ وَلْيَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۲ (النور۲۴:۲) بدکاری کرنے والی عورت اور مرد(جب ثابت ہو جائے) دونوں میں سے ہر ایک کو سودُرّے مارو۔اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو شریعت الہیٰ کے حکم میں تمھیں ان پر ہرگز ترس نہ آئے اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو ۔
فقہا اور مفسرین نے خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے والوں پر وہی حکم لگایا ہے جو حرابہ [فساد برپا کرنے] والوں پر نافذ ہوتا ہے۔ شریعت کے ہر حکم کی بنیاد وحی کی فراہم کردہ علت وحکمت پر ہے اور اگر شریعت کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے تو یہ برائی کو اس کی جڑ سے ختم کرنے کا بہترین حل پیش کرتی ہے۔
اس کے برعکس ہمارے ابلاغ عامہ کے ادارے، مساوات مرد و زن کے مغربی تصور کے اظہار کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ ہرموقعے پر ، جب تک اسکرین پر ایک نوجوان اور جدید ترین مغربی فیشن سے لیس ایک خاتون کو اُچھل کود اور حرکات کرتے ہوئے پیش نہ کریں تو ناظرین کو ان کی ’روشن خیالی‘ پر یقین نہیں آئے گا۔نیم عریا ں شکل میں ہندو ثقافت یا مغربی تہذیب کی پیروی کرتے ہوئے اشتہارات کا مسلسل نظر آنا بصری استحصال کے ساتھ احساسِ شرم و حیا کی حس کو غیرمحسوس طور پر بے حس بنانے کا ذریعہ ہے، تاکہ ناظرین غیر شعوری طور پر اس ہندوانہ اورمغربی ثقافت کی طرف راغب ہو جائیں۔
آئین پاکستان کسی پارلیمنٹ یا وزارت کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ کوئی بھی قانون اسلامی شریعت کی بنیادی تعلیمات کے منافی بنایا جا سکے۔ایسی قانون سازی آئین کی خلاف ورزی اور ریاست مدینہ کی ضد ہے۔اس لیے ایسی تجاویز کو کسی بھی صورت میں ملکی قانون کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا:
۱- مجوزہ آرڈی ننس’ خصوصی عدالتوں‘ کے قیام کا مشورہ دیتا ہے۔ اگر معروضی طور پر دیکھا جائے تو حدود آرڈی ننس کا نفاذ بھی اسی غرض سے کیا گیا تھا، تو کیا اس کے جاری ہونے سے جرائم کے روک تھام میں کمی واقع ہوئی؟
۲- ’زنا بالجبر سے حفاظت کے شعبے‘ (Anti Rape Crises Cells) کے قیام کی تجویز ہے ، جس کا سربراہ ایک کمشنر یا ڈپٹی کمشنر ہو گا۔سوال یہ ہے کہ کیابیوروکریسی ہی کے اختیارات میں اضافہ اس مسئلے کا حل ہے؟اور کیا یہ افسران اس خصوصی معاملے میں کسی خاص مہارت کی بنا پر مقرر کیے جائیں گے؟
۳- ایف آئی آر کے جلد اندراج اور کیمیاوی اور فرانزک تجزیے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ تو آج بھی موجود ہے، لیکن کیا یہ مؤثر ہے؟ہمارے موجودہ انتظامی اور سماجی نظام میں کیا ایک مجروح فرد کسی بااثر فرد کے خلاف ایف آئی آر کٹوا سکتا ہے؟
۴- متاثرہ فرد سے عدالت کے کمرے میں جرح کا حق صرف وکیل کو دیا جا رہا ہے، کیا اس طریقے سے متاثرہ فرد کو اپنی بات کہنے میں سہولت ہو جائے گی ؟
۵- کیا متاثرہ فرد کو سرکار کی جانب سے قانونی امداد ایک قابلِ عمل تجویز ہے ؟
۶- کیا مقامی پولیس افسران پر مشتمل جے آئی ٹی کے قیام سے غیر جانب دار تحقیق و تفتیش ممکن ہوسکے گی؟
۷- کیا صرف جنسی جرائم کرنے والوں کی تفصیلات یک جا کر کے اس برائی کو دُور کیا جا سکتا ہے؟
۸- کیازنا کی ایک نئی تعریف جو دور غلامی میں انگریز کی وضع کردہ تعریف سےبہت مختلف نہیں ہے ، اس کی بنیاد پر جرم کی کثرت و شدت میں کمی یا قانون کی گرفت میں اضافہ ہوسکے گا؟
۹- جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ ایک عادی مجرم کو جنسی صلاحیت سے کیمیاوی یا جراحی طریقے سے محروم کرنے کا عمل کیازنا کے (ماقبل) مختلف مراحل کو بھی روکنے کا باعث بن جائے گا؟عقل اور تجربہ اس بات کو ماننے پر آمادہ نہیں ہیں،یا ایک مجروح سانپ کی طرح ایسا مجرم مزید انتقامی جذبات میں مبتلا ہو جائے گا۔
اسلام نے تو ’توبۃ النصوح‘ کا مفہوم یہ سمجھایا ہے کہ فرد اپنے اندر سے یہ عہد کرے کہ وہ خلوصِ دل کے ساتھ دوبارہ اس غلطی کا ارتکاب نہیں کرے گا۔کیا مروجہ فرسودہ نظام میں کوئی جزوی تبدیلی مجرم میں اس احساس کو بیدار کر سکتی ہے ؟
جنسی اخلاقیات کا نظر انداز کیا جانا معاشرے کی صحت و استحکام کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔ اگر رشتوں کی حرمت و احترام کی اہمیت کو کم یا ختم کر دیا جائے تو ایک بچہ اور بچی اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔
پاکستان میں بیرونی امدادسے چلنے والی این جی اوز، جو اسی موضوع پر کام کرنے کی دعوے دار ہیں۔ ان کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مجرمانہ حملہ کرنے والے سب اجنبی نہیں تھے، ان میں رشتہ دار، پولیس والے، پڑوسی اور اجنبی کے علاوہ ڈرائیور، اور ڈاکٹر اور اساتذہ تک شامل ہیں۔ اس زمینی حقیقت کے پیش نظر ایک نام نہاد نظامِ عدل جو ۱۸۶۰ء کے برطانوی قانون میں زنا کی تعریف ( ’’زنا دراصل ایک شادی شدہ خاتون کے اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف کسی دوسرے فرد سے تعلق کا نام ہے‘‘ )کے بل پر چل رہا تھا، اور جو تعریف حدود آرڈی ننس کے آنے تک ہمارے قانون میں برقرار تھی، وہ معاشرے کو کچھ نہ دے سکی۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ اسی قانون کے دفاع میں ایک معروف این جی او کی لیڈر نے یہ بات لکھی تھی کہ ’’۱۸۶۰ءکا قانون خواتین کے لیے رحمت تھا‘‘۔ایسے اسلام کے منافی قانون میں آپ جتنے پیوند اور ایسے دیمک شدہ درخت میں جتنے قلم صحت مند شاخوں کے لگالیں نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی ہوگا۔
اسلام دینِ کامل کے طور پر فرد اور معاشرے کے مسائل کو ایک فطری اور اخلاقی زاویے سے حل کرنا چاہتا ہے اور محض نظری طور پر نہیں بلکہ عملاً ٹھوس تاریخی حقائق کے ساتھ ان مسائل کا کامیاب حل ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ جو فساد اور غیر اخلاقی رویہ آج مغرب و مشرق کی پہچان بن گیا ہے، یہی مشکل کل اسلام سے قبل دنیا کی تھی۔ وہ عرب ہو یا عجم یا روم اور افریقہ کے افراد، سب اخلاقی زوال کا شکار تھے۔
اسلام کی عالمی اخلاقی اقدار نے محض ۲۳ سال کی مدت میں وہ فرد اور معاشرہ پیدا کر دیا، جو آج بھی للہیت، اعلیٰ اخلاق کریمانہ اور عفو درگذر، اُلفت و اخوت کے ساتھ قانون کے احترام کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہے۔ جو مقدمات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جنسی معاملات میں پیش کیے گئے وہ کسی پولیس یا خفیہ ادارے کا کارنامہ نہیں تھے، بلکہ ایک فرد کا اپنا ضمیر اسے اس بات پر مجبور کرتا تھا کہ اس سے جس غلطی کا ارتکاب ہو گیا، اسے اس سے پاک و صاف کر دیا جائے۔ یہ اندر کا مفتی اسے بے چین رکھتا تھا۔ اسے کسی جابر و قاہر قاضی یا فوجی حکمران کا خوف اقرار پر نہیں اُبھارتا تھا۔
مسئلے کا حل محض بوسیدہ قانون میں پیوند کاری نہیں ہے۔ جس مقصد اور نصب العین کے لیے پاکستان وجود میں آیا، وہ قائد اعظم کے اپنے الفاظ میں اسلامی نظریۂ حیات کو اس خطے میں نافذ اور رائج کرنا تھا، اور یہ کام محض صدارتی حکم نامے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے تعلیم، ابلاغ عامہ، قانون سازی،گھر کے اندر کے ماحول، نام نہاد ثقافتی سرگرمیوں، غرض تمام معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی اور قانونی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ ایک انفرادی اور اجتماعی شخصیت کی تعمیرنو ہوگی۔ ایک نیا انسان وجود میں آئے گا، جس کی زندگی ،جس کا مرنا ،جس کی عبادت و قربانی، جس کی فکر اور عمل، جس کی معیشت، سیاست، غرض اس کی تمام سرگرمیاں اس اخلاق فاضلہ کی پابند ہوں گی جسے قرآن کریم نے تمام انسانوں کے لیے اسوۂ حسنہ اورایک قابل عمل مثالی کردار و سیرت قرار دے کر ہم پر اپنے خصوصی فضل کا اظہار فرمایا ہے۔ قرآن اور سنت کا دیا ہوا اخلاق وہ قوت فراہم کرتا ہے جو شیطان کی ہر چال اور اس کے ہر جال کو تار تار کر سکتی ہے۔ یہ خاموش انقلاب کسی تشدد کے بغیر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری انسانیت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔
ضرورت یہ ہے کہ زندگی سے دورنگی، دو عملی اور تضادات کو نکال کر، صرف اور صرف اللہ کو اپنا رب اور حاکم بنالیا جائے۔ یہ شعوری قدم قوم کی قسمت جگانے اور اسے اخلاقی زوال، فحاشی کے سیلاب اور بداعمالیوں کی دلدل سے نکالنے کے لیے کافی ہے۔ آغاز اپنے گھر سے کرنا ہوگا، اپنی تعلیم گاہ سے، اپنے کاروبار کے ادارے سے___ غرض جہاں کہیں بھی کوئی باشعور مسلمان ہے، وہ کسی بیرونی امداد کے بغیر اس مقدس کام کا آغاز کر سکتا ہے۔ یہ اجتماعی جدوجہد اس بڑے اور وسیع شیطانی سیلاب کےسامنے بند باندھ کر معاشرے کے رُخ کوتباہی کے بجائے بھلائی کی طرف موڑسکتی ہے۔ اس ابتدائی اور بنیادی کام کے بغیر محض قیادت یا چہروں کی تبدیلی سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ ہمیں توحید، معروف، عدل، صداقت اور حیا کا نظام قائم کرنا ہو گا۔اسلامی نظام ایمان، عزم اور خونِ جگر کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ صبر و استقامت کے ساتھ طویل جدوجہد کا متقاضی ہے۔
مسئلۂ کشمیر کی حیثیت،پاکستان کو درپیش بے شمار مسائل میں سے ، محض ایک مسئلے جیسی نہیں ہے۔اس کا تعلق پاکستان کے وجود، اس کی شناخت، اس کی علاقائی حیثیت، اس کے معاشی، نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی استحکام اور ترقی سے ہے۔ یہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناح نے صاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ’’کشمیر ہماری شہ رگ ہے‘‘۔
قائداعظم مرحوم نے زیارت کے قیام کے دوران اپنے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش سے کہا:
کشمیر سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی خوددار ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ اپنی شہ رگ اپنے دشمن کی تلوار کے آگے کردے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ جسےپاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے۔ لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظرانداز نہیں کرسکتا کہ کشمیر تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی ، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔ اور جب بھی اور جس زاویے سے بھی نقشے پر نظر ڈالی جائے، یہ حقیقت بھی اتنی ہی واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔ (قائداعظم کے آخری ایام، ڈاکٹر الٰہی بخش)
یہ تقسیمِ ہند کے ایجنڈے کا لازمی حصہ ہے، اور جب تک یہ پاکستان، بھارت، کشمیری عوام کی منشا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا،جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کی فضا قائم نہیں ہوسکتی۔ کشمیری عوام اپنی آزادی کے لیے اور مستقبل میں اپنے دین، اپنی تاریخ، اپنی تہذیب، اپنے جغرافیہ اور اپنے نظریاتی عزائم کی بقا کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے اور بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ پاکستانی بن کر زندہ رہنا چاہتے ہیں اور پاکستان کا حصہ بننے کے لیے جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ یہی جذبہ پاکستانی قوم کا ہے۔ جو حصہ آج آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستان کی حیثیت سے پاکستان سے منسلک ہے، وہ کشمیری عوام اور پاکستان کے مجاہدین کی عسکری جدوجہد کے نتیجے میں آزاد ہوا ہے۔ جو حصہ اس وقت بھارت کے قبضے میں ہے، اس پر بھارت اپنا تسلط مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ۱۰لاکھ فوجیوں اور جن سنگھی دہشت گردوں کی ظالمانہ کارروائیوں اور بھارت کی ہرقسم کی آمرانہ کارروائیوں کے باوجود وہ ان کے دلوں کو فتح نہیں کر پارہا۔
جموں و کشمیر کے عوام کی عظیم اکثریت سیاسی اور دفاعی ہرقوت کو استعمال کرکے بھارتی استعمار سے نجات پانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ بھارت میں بی جے پی کی فاشسٹ حکومت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد جو اقدام کیے ہیں، ان کے نتیجے میں تحریک ِ مزاحمت اور بھی وسیع اور مؤثر ہوگئی ہے۔ وہ جو بھارت سے کسی خیر کی توقع رکھتے تھے، وہ جھوٹی ثابت ہوئی اور وہ بھی مایوس اور برگشتہ ہوکر مزاحمت کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی بھارتی قیادت کو ’ڈاکو‘ (Robbers) کہہ رہے ہیں اور پاکستان کو ایک فیصلہ کن فریق کی حیثیت سے مذاکرات میں شریک کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارت کے دانش ور بھی صاف الفاظ میں یہ انتباہ کر رہے ہیں کہ جبر اور تسلط کا یہ نظام اب نہیں چل سکتا اور کشمیر کی پوری آبادی مزاحمت اور بغاوت کے راستے پر گامزن ہے۔ بھارت کے مشہور قانون دان اے جے نورانی اپنے ایک تازہ مضمون میں لکھتے ہیں:
کشمیر کے سلسلے میں ۱۹۴۸ء میں آزادانہ اور شفاف رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا، جس کو کئی باردُہرایا گیا، جس کے تحت عوام خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں، مگر بدنیتی سے اس دعوے کو بروئے کار لانے سے مسلسل انحراف کیا گیا۔ستم زدہ کشمیری اس المیے کو یاد کرتے ہیں۔ آپ دباؤ، دھونس اورجھوٹ کے بل بوتے پر تو انھیں زیرنہیں کرسکتے۔ (Written in Blood، ڈان، ۷نومبر ۲۰۲۰ء)
اصل مسئلہ بنیادی طور پر ایک اور صرف ایک ہے، اور وہ ہے: ’حق خود ارادیت‘ (Right of self determination)۔یہی اصل ایشو ہے، یہی پاکستان کا موقف ہے، یہی کشمیری عوام کا مطالبہ ہے، یہی اقوام متحدہ اور ہندستان کا معاہدہ ہے اور اس کے سوا مسئلے کا کوئی حل نہ تھا اور نہ ہوسکتا ہے۔چنانچہ بھارت، پاکستان اور اقوام متحدہ کے عہد کے مطابق، کشمیری عوام ہی کو اپنی آزادانہ مرضی سے، اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔
اُوپر ہم نے دو بنیادی باتیں عرض کی ہیں: ایک یہ کہ پاکستان کے لیے کشمیر زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور پاکستان اور کشمیری عوام حق خود ارادیت کے سوا کسی اور صورت کو کسی شکل میں قبول نہیں کرسکتے۔ اس بات کو ایک بار پھر پوری قوت سے کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گذشتہ چند ہفتوں میں حکومت کے اہم ترجمانوں نے ایسی باتیں کہی ہیں، جو سخت پریشان کن ہیں اور جن پر فی الفور گرفت ازبس ضروری ہے۔ ایک طرف گلگت اور بلتستان کو دستوری ترمیم کے ذریعے پاکستان کا حصہ بنانے کے دعوؤں اور اقدام کا بہ تکرار ذکر کیا گیا۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بھارتی غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدامات کے پس منظر میں وزیراعظم اور وزیرخارجہ کے بیانات میں کسی قسم کی صوبائی خودمختاری (State Autonomy) کی بحالی کی شکل کو مسئلۂ کشمیر کے حل کی طرف پیش قدمی قرار دیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف اور عادل نجم کا میڈیا میں پیش کردہ وہ موقف تشویش کا باعث ہے، جس میں مسئلۂ کشمیر کے ممکنہ حل کے باب میں ’استصواب اور حق خود ارادیت‘ سے ہٹ کر داخلی خوداختیاری کا شوشا چھوڑا گیا ہے۔ پھر اسی موضوع پر نومبر ہی میں اسلام آباد کے سیرینا ہوٹل میں کسی تھنک ٹینک کی طرف سے سیمی نار کا انعقاد تشویش ناک امر ہے۔
یہ تمام خطرے کی علامات ہیں اوران پر بجاطور پر کشمیری رہنماؤں اور دُنیابھر میں پھیلے کشمیری اہلِ فکر نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ہم خود ان بیانات کو خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں اور واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ محض انتظامی اختیارات کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت اور بھارت کے ظالمانہ تسلط سے مکمل آزادی کے حصول کا مسئلہ ہے۔ بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی ایک حقیقت ہے۔ پورا مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کا سب سے بڑا جیل خانہ بن گیا ہے۔وہاں رہنے والوں کے جان، مال، آبرو سب داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ لاکھوں افراد جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ کشمیر ہی کی نہیں، بھارت کی جیلیں بھی معصوم کشمیریوں سے بھری پڑی ہیں۔ ہزاروں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزّتیں پامال ہوگئی ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بھارتی فوج اور پولیس دونوں مل کر کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اصل مسئلہ وہ نظام اور غاصبانہ انتظام ہے جس کے نتیجے میں یہ صورتِ حال رُونما ہورہی ہے۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی قومی پالیسی پوری وضاحت کے ساتھ ہرسطح پر بیان کی جائے، تاکہ قومی اور بین الاقوامی ہرمیدان میں اس سلسلے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ پاکستانی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے چار نکاتی پروگرام میں یہی ہمالیائی غلطی کی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایک لابی آج پھر ایک دوسرے انداز میں ایسے فتنے اُٹھا رہی ہے۔ اس فتنے کو بروقت ختم کرنا ضروری ہے۔
کشمیر کے سلسلہ میں ہمارا قومی موقف مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ:
۱- جموں و کشمیر کی ریاست ایک وحدت ہے، اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ایک وحدت کے طور پر کیا جانا ہے۔
۲- کشمیر کے دو تہائی علاقے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ نام نہاد الحاق ایک ڈھونگ اور صریح دھوکا ہے، جسے کوئی دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی جواز حاصل نہیں۔ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
۳- ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے، جسے معلوم کرنے کے لیے بین الاقوامی انتظام میں استصواب رائے کرانا ایک طے شدہ امر ہے۔
۴- کشمیر کا مسئلہ نہ زمین کا جھگڑا ہے، نہ کسی سرحد کی نشان بندی کا معاملہ ہے ، اور نہ پاکستان اور بھارت میں کوئی تنازع ہے بلکہ اس کے تین فریق ہیں: جموں و کشمیر کے عوام، پاکستان اور بھارت___ جنھیں آخری فیصلہ کرنا ہے۔
استصواب رائے کے ذریعے کشمیری عوام یہ طے کریں گے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں یا بھارت کا۔ پاکستان نے اپنے دستور میں دفعہ ۲۵۱میں صاف الفاظ میں یہ لکھا ہے:
جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے تو پاکستان اور اس ریاست کے درمیان تعلقات، اس ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیے جائیں گے۔
اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے عوام کو پاکستان یا بھارت میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے اور پھر یہ پاکستان کا وعدہ ہے کہ پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر کے درمیان تعلق اور اس کی حدودکار کشمیری عوام کی منشا اور مرضی کے مطابق متعین ہوں گے۔ یہ اس لیے ہے کہ اگر تین آپشن دیے جائیں اور ’آزاد ریاست‘ بھی ایک آپشن ہو تو اس صورت میں خطرہ ہے کہ کشمیر کی غیرمسلم آبادی کے کردار کی وجہ سے ووٹ بٹ نہ جائیں اور مسلمانانِ کشمیر اپنے حق سے محروم نہ ہوجائیں۔ان تمام نزاکتوں کو سامنے رکھ کر پاکستان کی حکومت کو پوری یکسوئی کے ساتھ قومی کشمیر پالیسی کو واضح کر دینا چاہیے۔
گلگت بلتستان کا مسئلہ:
اسی پس منظر میں گلگت اور بلتستان کے مسئلے کو بھی سمجھنا بہت ضروری ہے۔ہم اصولی طور پر ضروری گزارشات ترجمان القرآن (اکتوبر ۲۰۲۰ء )میں پیش کرچکے ہیں، لیکن گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات کی مہم کے دوران جو وعدے ہوئے ہیں، ان کی روشنی میں ایک بار پھر یہ بات عرض کرنا چاہتے ہیں کہ:
۱- گلگت اور بلتستان، ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا اور ہے۔یہ صحیح ہے کہ انتظامی اعتبار سے مہاراجا کے دور میں بھی اسے خصوصی حیثیت حاصل تھی اور پاکستان کے دور سے بھی اسے آزادکشمیر کی ریاست سے الگ حیثیت دی گئی ہے، لیکن قانونی اور انتظامی ہردواعتبار سے وہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے اور یہی پوزیشن اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اسے حاصل ہے۔ اس لیے کوئی ایسی تجویز جو اس حیثیت کو کسی پہلو سے بھی متاثر کرے، اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔
۲- ۱۹۴۹ء میں حکومت ِ پاکستان نے آزاد جموں و کشمیر کی قیادت کے مشورے سے جو راستہ اختیار کیا، اس کے بارے میں دو رائے ہوسکتی ہیں، لیکن اس سلسلے میں کوئی ابہام نہیں۔ اس میں دونوں کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے البتہ انتظامی طور پر آزاد جموں و کشمیر کی ریاست کا نظام ایک خاص دستور کے تحت قائم کیا گیا ہے اور گلگت بلتستان بلاواسطہ حکومت ِ پاکستان کے تحت تھا اور عملاً وہ انتظام نہایت ناقص بلکہ ظالمانہ تھا کیونکہ اس پورے علاقے کو شمالی علاقہ جات کا حصہ بنادیا گیا اور دورِ استعمار کے ایف سی آر نافذ کر دیے گئے، جو ہر جمہوری اصول و روایت سے متصادم تھے۔ فطری طور پر اس کے خلاف تحریکیں اُٹھیں اور بالآخر وہاں کے لوگوں کے انسانی حقوق اور انتظامی معاملات و فیصلہ سازی کے لیے ایک نظام وجود میں آیا، جس میں اب بھی بہت سی سنجیدہ خامیاں ہیں کہ جن کی اصلاح درکار ہے۔ لیکن گلگت اور بلتستان کو ’صوبہ‘ یا ’عارضی صوبہ‘ قرار دینا ہراعتبار سے ایک بڑی غلطی ہوگا، جس سے کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کی پوزیشن مجروح ہوگی اور بھارت نے جو کچھ کیا ہے، کر رہا ہے اور جس پر ہم نے بجاطور پر تنقید کی ہے اور ہم نے ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی جس پر گرفت کی جارہی ہے، اس سے اس غلط قدم کو تائید میسر آئے گی۔ اس سے بڑا ظلم مسئلۂ کشمیر پر نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے ہم پوری قوت سے عرض کریں گے کہ جہاں گلگت اور بلتستان کے لوگوں کو ان کے حقوق اور تمام سیاسی اور انتظامی مطالبات اور اپنے معاملات کا ذمہ دار بنانا اوّلین ترجیح ہونا چاہیے، وہیں دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں جو راستہ ہم نے اختیار کیا ہے، وہ بھارت کی حکمت عملی سے بالکل مختلف ہے۔ اس سے سرموانحراف، غیردستوری، غیرسیاسی اور غیراخلاقی فعل ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اپنے ۲۰۱۹ء کے تاریخی فیصلے میں بڑی احتیاط سے اس مسئلے پر کلام کیا ہے اور کم از کم سات بار متنبہ کیا ہے کہ کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے، جس سے مسئلۂ کشمیر اور اس پر استصواب رائے کے پاکستانی موقف پر کوئی پرچھائیں پڑیں۔ کسی دستوری ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک مناسب شکل میں حکومت پاکستان کے جاری کردہ جنوری ۲۰۱۹ء کے آرڈر میں کچھ ترامیم مطلوب ہیں، جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کی جاسکتی ہیں۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان دونوں علاقوں میں مکمل خودمختاری، عوام کی ہرسطح پر حکمرانی میں شمولیت اور عوام کے حقوق کی مکمل حفاظت ہو۔ عدلیہ آزاد ہو اور عملاً ہم ایک نمونہ پیش کرسکیں، جس کے آئینے میں پاکستان سے منسلک جموں و کشمیر اور بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر کا فرق سب کے سامنے آسکے۔ لیکن اس کے لیے کسی علاقے کو پاکستان کا صوبہ بنانا ضروری نہیں۔ دونوں آزاد انتظامیہ کی حیثیت سے کام کریں اور یہی بہترین نمونہ ہے اس وقت تک کے لیے، جب تک استصواب رائے ہو اور پھر ایک مستقل نظام وضع کیا جاسکے۔
فوری اور لازمی حکمتِ کار:ہم دو باتیں مزید عرض کرنا چاہتے ہیں:
r پہلی یہ کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں کوئی ابہام کسی صورت میں بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے۔ تمام جماعتیں اپنے دوسرے اختلافات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ایک قومی پالیسی پر قائم و دائم ہوں، اسے ملک اور عالمی سطح پر دلیل کی قوت سے پیش کیا جائے۔ تعلیمی نصاب سے لے کر میڈیا اور سوشل میڈیا ، ہرسطح پر اسی پالیسی کا ابلاغ ہو۔موجودہ حکومت نے چند اقدامات کے سوا اس سلسلے میں کوئی مؤثر خدمت انجام نہیں دی ہے۔ کشمیر کمیٹی بھی ماضی کی طرح غیرفعال ہے اور اُمورِکشمیر کے وزیرصاحب کا انتخاب بھی لاجواب کہ وہ کشمیر کے علاوہ ہر موضوع پر بات کرتے ہیں اوراس باب میں بھی سوچتے کم اور بولتے زیادہ ہیں۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں مناسب انداز میں کشمیر کے معاملے کو پیش کیا مگر محض ایک تقریر سے کیا حاصل ہوسکے گا؟ اس کے لیے بڑی مؤثر اور ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ لائق سابق سفارت کاروں میں سے کسی جہاں دیدہ، زیرک اور ہمہ تن متحرک فرد کو کشمیر پر ’ایمبسڈر ایٹ لارج‘ بنایا جائے۔ وزارتِ خارجہ کشمیر کے مسئلے پر تحقیق اور ترجمانی کا مؤثر نظام بنائے۔ ہراہم سفارت خانے میں کشمیر ڈیسک قائم کیا جائے۔ کشمیر کمیٹی عالمی سطح پر لائق اور تجربہ کار افراد کو بھیجے۔ دنیا کے پانچ چھے بڑے بڑے سیاسی مراکز پر باقاعدہ کشمیر آفس قائم کیے جائیں۔ پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے تعاون سے اس مسئلے کو اُجاگر کرنے اور رائے عامہ کو متحرک کرکے ہندستان کو بے نقاب کیا جائے اور عالمی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ہمارے پاس بے پناہ وسائل اور انسانی سرمایہ ہے لیکن افسوس ہے کہ اسے منظم کرنے اور مسئلہ کشمیر کو دنیاکے سامنے مؤثرانداز میں پیش کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جارہا۔ حکومت کو اس مسئلے کو اوّلیت دینی چاہیے ۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا اس میں اصل مسئلہ بھارتی غاصبانہ قبضہ اور کشمیریوں کی آزادی اور حق خود اختیاری کے حصول کو حاصل ہونا چاہیے۔ باقی تمام اُمور اس کے گرد اور اس کے تحت آتے ہیں۔پاکستان کے دیگر تمام مسائل میں سے کوئی مسئلہ اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہی سب سے بڑا، اہم اور مرکزی نکتہ ہے۔
r دوسری بات ہم یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں اور کشمیر کے مسئلے کو ایک مستقل بالذات مسئلے کے طور پر ہماری اسٹرے ٹیجی کا مرکزی موضوع ہونا چاہیے۔ بھارت سے دوسرے مسائل اور معاملات پر بحث ضرور کی جائے، مگر اس طرح نہیں کہ کشمیر کی مرکزیت متاثر ہوجائے۔
ہمارا فرض ہے کہ بھارتی مسلمانوں اور وہاں کی اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی کریں ۔ بھارت میں ہندوفسطائیت جس طرح غلبہ پارہی ہے، اس پر تنقید بھی ضروری ہے۔ لیکن ہماری اسٹرےٹیجی میں کشمیر اور ان تمام مسائل کو الگ الگ رکھ کر حکمت عملی بنائی جائے۔ پوری تحقیق کے ساتھ دنیا کے سامنے بھارت کا اصل چہرہ پیش کیاجائے، لیکن ترجیحات کا پورا پورا لحاظ رکھ کر۔
ہماری نگاہ میں کئی عشروں کے بعد عالمی سطح پر اور خود بھارت میں ایسے حالات رُونما ہوئے ہیں کہ بھارت پر تنقید اور اس کے احتساب کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ جو پہلے خاموش تھے، اب بولنے لگے ہیں۔ جو بھارت کے خلاف بات سننے کو تیار نہیں تھے، وہ اب بھارت پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کے ادارے اور مراکزِ فکرودانش، حتیٰ کہ وہ اخبارات اور رسائل جو پہلے بھارت کے خلاف زبان نہیں کھولتے تھے اب اختلافی بات شائع کررہے ہیں۔
ہمیں اس موقعے سے پورا فائدہ اُٹھانا چاہیے اور محض پروپیگنڈے کے انداز میں نہیں بلکہ دلیل کے ساتھ، تحقیق کی بنیاد پر اور شواہد کی روشنی میں بات کرنی چاہیے۔ اس کے لیے پوری تیاری سے، مؤثر اور مناسب انداز میں ابلاغ کیا جائے۔ کوئی وجہ نہیں کہ منظم کوشش کرکے بھارت پر ہم مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیاب نہ ہوں۔ اس سلسلے میں بھارت کے معاشی بائیکاٹ کی بات بھی اُٹھائی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ دنیا اپنے اپنے مفادات کا خیال رکھتی ہے، لیکن عالمی ضمیر بھی ایک شے ہے اور مسلسل کوشش سے وہ بیدار ہوتا ہے اور اس کے اثرات پالیسی سازی پر پڑتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو ظلم کا نظام اگر ایک بار غالب آجائے تو پھر کبھی نہ ہٹے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ظلم کی بنیاد کمزور ہوتی ہے اور بالآخر انسان ظلم کے نظام کو زمین بوس کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تاریخ بڑی بڑی ایمپائرز کا قبرستان ہے۔
معلوم انسانی معاشروں میں حق و باطل ، طہارت و خباثت ، حیا اور فحاشی کا وجود اتنا ہی قدیم ہے، جتنا انسان کا وجود ۔ ابلیسیت کی پہلی فتح، اوّلین انسانی جوڑے کو لباس سے محروم کرنا تھا۔اس کا دوسرا کارنامہ پہلے انسانی خاندان میں قتل جیسے گھناؤنے فعل پر ابھارنا اور اسے تکمیل تک پہنچانا تھا۔
اس کے بعد یہی ابلیسیت ان تمام تاریخی واقعات میں کار فرما نظر آتی ہے، جو انسانی تاریخ کے عبرت ناک واقعات کہےجاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اصحاب سبت کا طرزِ عمل، جنھوں نے حیلے بہانے اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اخلاقی اور الہامی ہدایات کی خلاف ورزی کی۔ اسی معاشرے کے بعض افراد ان ہدایات کے باوجود بے تعلق رہے، ظلم و زیادتی سے صرفِ نظر کیا اور خاموش رہے حالانکہ یہ افراد نمازیں پڑھتے تھے ، تورات کی تلاوت بھی کرتے تھے اور اپنے یوم عبادت، یعنی ’سبت ‘ کی شدت سے پابندی بھی کرتے تھے، مگر ان کی تمام عبادت اورخلوص پوری آبادی کو تباہی سے نہ بچا سکا۔ اور وہ باغی افراد جو حدود کو پامال کرنے اور اپنے ربّ کی اخلاقی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے والے تھے، وہ اپنے ساتھ ان پاک باز افراد کو بھی لے ڈوبے جو مصلحت کے پیش نظر اپنی چونچیں پروں کے نیچے چھپائے رکھنے اورنام نہاد ’غیرجانب داری‘ اختیار کرنا ہی اپنا تقویٰ سمجھتے تھے۔
تاریخ کے ایسے ناقابلِ تردید واقعات کا ذکر کرنے کے بعد مستند ترین الہامی کتاب قرآنِ عظیم ان پر ایک جامع تبصرہ کرتی ہے: فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ۲ (الحشر ۵۹:۲) ___یعنی اے وہ لوگو،جو اپنے آپ کو دانش مند، تعلیم یافتہ، روشن خیال اور زمینی حقائق سے آگاہ سمجھتے ہو، ان ناقابلِ تردید تاریخی شواہد پر غور کرو اور سوچو تم کس رخ پر جارہے ہو ۔ تمھیں خبر نہیں کہ تم ایک قعرمذلت کے کنارے کھڑے ہو اور نہیں جانتے کہ تمھارے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔
ملک عزیز میں جب سے نام نہاد ’روشن خیالی‘ یا ’لبرل ازم‘ کے زیرعنوان معیشت، تعلیم، قانون ، معاشرت اورا بلاغ کو مشرف بہ ’مشرف‘ کیا گیا ہے اور آزادیِ رائے کے نام پر فحاشی اور عریانی کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ خود کو فخریہ ’لبرل‘ کہنے والے پاکستانی چینلوں پر اشتہاروں کی شکل میں اور ہندستانی اور مغربی پروگراموں کے ذریعے معاشرے کو فحاشی ، عریانی اور جنسیت کا عادی بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اخلاقی زوال کی آخری حد کو بھی پار کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ایک بہت بڑا ہوش مند اور باشعور طبقہ چیخ اُٹھا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ: ’’بےغیرتی اور بےشرمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ’پیمرا‘ کو اپنے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا اہتمام کرنا چاہیے اور اخلاقی حدوں کو پار کرنے والے عناصر کو بے نقاب کر کے ان کو سزا دینی چاہیے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہرسطح پر فحاشی برپا کرنے والوں اور قومی شاہراہ پر معصوم بچوں کے سامنے ایک شرمناک فعل اور سر عام درندگی و دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف محض ایک قرارداد ، ایک جلوس ، ایک دھواں دار تقریر یا فقط بددُعا کافی ہے؟ اور کیا کسی زندہ قوم کا ضمیر ایسے گھناؤنے واقعات کو ماضی میں دفن ہونے دے سکتا ہے؟ اور کیا صرف چند باشعور افراد کا مہذب انداز میں سنگین جرائم کی مذمت کر دینا ایسے واقعات کو روک سکتا ہے ؟
حقیقت ِحال یہ ہے کہ گھناؤنے اخلاقی جرائم کی خبریں، چاہے وہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور انھیں جنسی اذیت پسندوں کے لیے کھلونا بنا کر پیش کرنے پر مبنی ہوں یا ایسے ذلّت آمیز واقعات تصویری شکل میں ہوں، انھیں ابلاغ عامہ کے پلیٹ فارم سے اس طرح پیش کرنا جیسے یہ کوئی ’تفریحی خبر‘ ہو، بذاتِ خود ایک الم ناک رویہ ہے۔ پھر اس کی اشاعت میں سبقت لے جانے کو اپنی فنی عظمت اور کامیابی کی علامت قرار دینا ،ایک بیمار ذہن اور ایک مُردہ ضمیر کی مثال ہے ۔ برائی کو برائی کہنا، ایمان کا تقاضا ہے، لیکن برائی کی اشاعت کو اس حد تک مشتہر کرنا کہ وہ معمول کی خبروں کی طرح ایک واقعہ بن جائے، اپنی جگہ اس جرم کی سنگینی سے کم نہیں ہے۔
ایسے جرائم کے سدباب کے لیے جو قوانین موجود ہیں، انھیں پوری قوت سے شفافیت کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ ان کے نفاذ میں جو کمی ہے یا الجھاؤ ہے، اسے دُور کیا جائے ۔ تفتیش اور فراہمی انصاف کے عمل کو فعال بنایا جائے۔
شرعی سزاؤں کا نفاذ، جو جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے، ان پر بے جا معذرت خواہی کا رویہ ترک کیا جائے۔ یاد رکھا جائے کہ مغربی تہذیب کی ہمدردی مجرم سے زیادہ دکھائی دیتی ہے اور مظلوم کے لیے داد رسی کے امکانات تنگ دلی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام عدل کا راستہ اپناتا ہے۔ کسی کو بے جا سزا کا شکار ہونے نہیں دیتا اور مظلوم کی دادرسی میں کوئی مداہنت نہیں برتتا۔اسلامی شریعت نے جن سزاؤں کو عام لوگوں کے سامنے نافذ کرنے کی ہدایت دی ہے، انھیں سرعام ہی نافذ ہونا چاہیے۔
اس مناسبت سے ابدی شریعت کی ہدایات کو شعوری طور پر معاشرے میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مزید جو اقدامات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، یہاں ان کی طرف اختصار سے اشارہ کیا جارہا ہے۔
اہلِ اسلام کے اخلاقی نظام کی بنیاد حیا پر ہے ۔یعنی ایک فرد وہ مرد ہو یا عورت، وہ تمام ایسے مواقع سے اپنے آپ کو بچا کر رکھے، جن میں بے حیائی کا امکان پایا جاتا ہو ۔ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فقط نظر ی (تھیوریٹی کل)بات نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے ہر اخلاقی حکم کے ساتھ اس کی عملی شکل اور ماپنے کا پیمانہ بھی فراہم کرتا ہے، تاکہ فلسفے کی جگہ عملیت غالب آجائے۔
حیا کے ماپنے کا پہلا پیمانہ اور معیار ایک فرد کا اپنی بینائی یا بصارت کا استعمال بھی ہے۔ ایک آنکھ قدرت کے وہ بے شمار مناظر (مثلاً دریا کا پُرسکون کنارہ ، کسی آبشارکے بلندی سے گرنے کا منظر ، کسی ندی کے پانی کے پتھروں سے ٹکرا کر فضا میں ارتعاش بکھیرنےکی آواز ، پرندوں کی چہچہاہٹ ، طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب کے مسحور کن مناظر) دیکھتی ہے، تو انسان کے ذہن میں مسرت، لذت اور سکون کے جو احساسات جنم لیتے ہیں اور لطف ملتا ہے، وہ شاید بہت سے مادی لذت کے مواقع سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ا س کے مقابلے میں اگر وہی آنکھ ٹی وی کی سکرین پر ایک نیم عریاں حوا کی بیٹی کو بچوں کے لیے چاکلیٹ، بسکٹ کی پیش کش کرتی نظر آتی ہےتو وہ چاکلیٹ سے زیادہ اپنے جسم کوایک پُرکشش اور گناہ کی طرف راغب کرنے والی شے بنا کر پیش کرتی ہے، جو نہ صرف اسلام بلکہ کسی بھی مہذب اخلاقی ضابطے سے میل نہیں کھاتی۔
’ حیا‘ کے احیا کا مطلب یہ ہے کہ ہماری درسی کتب ہوں یا کلاس روم میں معلم اور معلمہ کا تدریسی کام، یا گھر میں ماں باپ اور بچوں کا لباس ہو ، حیا پیش نظررہنا چاہیے۔ ایک کم اثاثے والے فرد کا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں بھی اس کی تلقین ہے:
لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ۰ۡيَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ۰ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ۰ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۲۷۳ۧ (البقرہ۲:۲۷۳)خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسبِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دَوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم اُن کے چہروں سے اُن کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑکر کچھ مانگیں۔ اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کروگےوہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہےگا۔
گویا حیا محض جسم کے بعض اعضا کا چھپانا ہی نہیں بلکہ یہ ایک طرزِ عمل ہے۔ اظہار زینت اور جسمانی خوب صورتی کو چھپانے کی شکل میں حیا کے حکم پر عمل کرنے کو ایک عقل کا اندھا بھی محسوس کرسکتا ہے۔ انسان کا عمل ہی اجر کا پیمانہ ہے۔جب تک حیا کا احیا گھر ، مدرسے، تعلیم گاہ، معاشرے کے کاروبار اور ریاستی ایوانوں میں نہیں ہو گا،ہوس کی خوف ناکی اور ابلیسیت کی جارحیت میں کمی نہیں ہو سکتی ۔اس کے لیے اگر ریاست نااہل ہو تو پھر معاشرہ خود بہت سے اقدامات کر سکتا ہے ۔
جب کسی معاشرے میں برائی ، فحاشی ، عریانیت ، جنسیت پرستی اور خصوصاً خواتین کے جسم کو معاشی مفاد کے لیے استعمال کرنے کا عمل ( Sex-Exploitation) معمول بن جائے، تو پھر معاشرے کا اجتماعی ضمیر بھی غفلت کا شکا ر ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر اسے بروقت جھنجھوڑ کر جگا دیا جائے تو پھر وہ فحاشی اور عریانیت کے خلاف نہ صرف کمر بستہ ہوتا ہے بلکہ وہ اسے جڑ سے اُکھاڑ کر چھوڑتا ہے۔ اب یہ کام معاشرے کے افراد کا ہے ۔ اساتذہ ، تاجر، وکیل ، طبیب،انجینیر اور وہ لوگ جو معاشرے میں ایک قابلِ لحاظ مقام رکھتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھ کر برائی کے خاتمے کے لیے، اپنے سیاسی اور مسلکی اختلاف سے بلند ہو کر اپنی اولاد اور بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کے لیے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر فحاشی ، عریانی کے خلاف ایک زنجیر بن جائیں اور پوری قوت سے برائی کو پسپا کر دیں ۔اس میں ابلاغ عامہ کے شعبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ باشعور شہری اجتماعی طور پر فحاشی و عریانی کے خلاف اپنے عزم کے اظہار کے لیے ملک گیر پیمانے پر صرف تین دن کے لیے اپنے گھروں اور دفاتر میں جہاں کہیں بھی ہوں، ٹی وی اور انٹر نیٹ کے پروگراموں کو مکمل طور پر دیکھنا بند کر دیں تو تین دنوں ہی میں ابلاغ عامہ کے سوداگروں کو معلوم ہو جائے گا کہ عوام کیا چاہتے ہیں ۔ یہ کوئی نظری بات نہیں، یہ ایک قابلِ عمل چیز ہے ۔لیکن اس طرح کی ’پُرامن مزاحمت‘ صرف اس وقت ممکن ہے، جب ملک کے نوجوان کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اپنے تعمیری اثرات کا جو دعویٰ پیش کرتے ہیں، اس کا عملی ثبوت دیں۔ وہ میدان میں نکل کر، گلی گلی یہ پیغام دیں اور مساجد سے اعلان کروا کر یہ پیغام ہر فرد تک پہنچا دیں، خواہ شہروں میں رہتا ہو یا دیہات میں، اور نیکی کے سفیر بن کر بغیر کسی توڑ پھوڑ یا مطالبات کی سیاست کے، خود لوگوں تک پہنچ کر ان سے بھلائی ، نرمی ، محبت سے بات کریں، اور انھیں سمجھائیں کہ ہم ایسا کیوںکر رہے ہیں ؟
گذشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا ایک متعدی بیماری کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اچھے بھلے اور بظاہر ثقہ افراد بھی اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ طویل اور مختصر پیغامات پڑھنے اور بغیر کسی تصدیق کے انھیں انجانے افراد تک پہنچانے کا نامعقول فریضہ انجام دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے جس تیزی کے ساتھ افراد کے طرزِ حیات اور طرزِ فکر کو متاثر کیا ہے، اس کے مثبت اور تعمیری پہلو کے اعتراف کے باوجود اس کا نفسیاتی اور معاشرتی تجزیہ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس کا استعمال ایک ایسے مقصد کے لیے جس سے قوم کا مستقبل وابستہ ہے ہمارے خیال میں غور طلب ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا پر مختصر پیغامات کی صورت میں قوم کو یہ بات سمجھائی جائے کہ جب تک وہ خود نہیں جاگے گی، اس کے نام نہاد سیاسی رہنما یا حکومت کوئی پیش قدمی نہیں کرے گی۔ فحاشی اور قوم کو بے غیرت بنانے کے عمل کے خلاف جہاد میں بلاتفریق مسلک و مذہب پوری قوم کو جگانے اور ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوان اور دیگر افراد اس کام کو بخوبی کر سکتے ہیں۔ اس میں کسی بڑی مالی امداد کی ضرورت نہیں، صرف اپنی لگن اور مقصد سے وابستگی کی بنا پر کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ایک قابلِ عمل کام ہے ۔ایک دستوری حق ہے اور یہ کسی تشدد کے بغیر کیا جا سکتا ہے ۔
اس مہم میں اس بات کی شدت سے ضرورت ہے کہ قومی سطح پر ملک کے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں طلبہ و طالبات ایک دن فحاشی، عریانی اور جنسیت کے خلاف یومِ احتجاج منائیں۔ طلبہ و طالبات خود الگ الگ مختلف سرگرمیاں ترتیب دیں۔ یہ خطبات بھی ہو سکتے ہیں ، تقریری مقابلے اور پوسٹرز کے مقابلے بھی۔ غرض وہ تمام ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں، جن کے ذریعے ملک ِ عزیز میں اس احتجاج کا وزن محسوس ہو۔
نوجوان نسل نفسیاتی طور پر اس احساسِ کمتری میں مبتلا کر دی گئی ہے جس کا مظہر مغربی جنسیت زدہ طرزِ تہذیب ہے۔ اس میں لباس اتنا چست ہوتا ہے کہ اٹھنے بیٹھنے میں بھی دِقت کا باعث بنتا ہے ۔ قمیص کا چاک بڑھتے بڑھتے کمر تک پہنچنے کے بعد غائب ہوتا نظر آتا ہے یا قمیص بنیان کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ یہ سب تقلید اس وقت کی جاتی ہے جب کوئی مغربی رقاصہ یا مغرب کا کوئی پیشہ ور میراثی اور گویّا سٹیج پر اپنے مخصوص لباس میں نظر آتا ہے ۔یہ نفسیاتی اور ذہنی غلامی ہے، جسے دُور کرنے کے لیے یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کے مابین سنجیدہ مکالمے کرنے کی ضرورت ہے۔ مکالموں کے ساتھ مضامین بھی لکھے جائیں، تاکہ آیندہ نسل کو یہ احساس ہو کہ وہ کس طرح غیر شعوری طور پر بھونڈی نقالی میں مبتلا ہو کر اپنی اقدار کو ترک کررہی ہے اور جنسیت کا شکار ہو رہی ہے۔
وہ قومیں جو اپنے تشخص کو برباد کرکے دوسروں کے دیے ہوئے اہداف کو آنکھیں بند کر کے قبول کرلیتی ہیں، وہ شاہراہ ترقی پر قدم نہیں رکھ سکتیں کیوں کہ درآمد شدہ اہداف وہ ہوتے ہیں جو بیرونی اقوام اپنے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیتی ہیں ۔اس صدی کے اہداف (Millennium development goals) جن پر ہماری ہر سیاسی حکومت نے بغیر کسی تکلف اور عقل کے استعمال کے آمنا و صدقنا کہہ کر انھیں اختیار کیا ہے، اپنی جگہ وہ بھی فحاشی و عریانیت اور جنسیت کے پھیلاؤ کا ایک سبب ہیں۔
تعلیم کے اہداف ہوں یا معاشرتی صحت کے معیارات، ان میں جنسی تعلیم ، حتیٰ کہ غیرانسانی جنسی تعلق کو ایک قابلِ قبول تصور بنا کر گوناگونی یا تنوع ( Diversity )کی دھوکا دینے والی اصطلاح کے زیرعنوان حکومتی پالیسی میں شامل کیا گیا ہے ۔یہ جنسیت اور فحاشی کو ’اخلاقی‘مقام دلانے کی ایک کوشش ہے کہ انسانوں میں اس کا پایا جانا اس لیے برا نہیں ہے کہ مغرب نے اس بے راہ روی کو سینے سے لگا لیا ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو جس قرض پر ہم پلنے کے عادی ہوچکے ہیں، اس کے حصول میں دِقت ہو گی ۔
ہر اخلاقی برائی کو ’معاشرتی ضرورت‘ کہہ کر ایک اخلاقی عمل بلکہ ایک لبرل اخلاقی عمل قرار دینا، نہ عقل سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ قومی تشخص اور اقدار سے کیوں کہ ایک کافر بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ملک کی بنیاد اور اساس کلمۂ کفر پر ہے ۔ ایک عقل سے عاری شخص بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کا وجود صرف ایک کلمے کی بنیاد پر ہے، کہ یہاں اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہو گا ، نہ بیرونی قرضے اس کی قسمت طے کریں گے ، اور نہ کوئی لبرل اقدار ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی کہ جن کا بہت تذکرہ کیاجاتا ہے۔
گویا ہمارا تشخص اور ہمارا وجود صرف اور صرف نظریۂ پاکستان سے وابستگی کی بنا پر ہے۔ – صرف اورصرف کلمۂ طیبہ اور کلمے کا نظام اس ملک کی بنیاد ہے اور اس ملک میں صرف اسی ربّ کا نظام نافذ ہو گا ، جس سے قوم نے اس ملک کے قیام کے موقعے پر وعدہ کیا تھا ۔یہ ملک اللہ ربّ العزت نے بطور تحفہ اُس قوم کو عطا کیا تھا، جو اپنے تشخص کی تلاش کے لیے سرگرداں تھی ۔ پھر اس قوم نے رنگ ، نسل ، زبان ، صوبائیت کے تمام جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا الله کی بنیاد پر جدوجہد کی۔
سات سال (۱۹۴۰ءسے ۱۹۴۷ء) کے قلیل عرصے میں برصغیر کے مسلمان ایک امت اور ایک نظریاتی قوم بن کر ابھرے، جنھیں یہ خطۂ زمین عطا ہوا۔یہ خطۂ زمین اللہ ربّ العزت کی جانب سے ہمیں صرف اور صرف اس لیے عطا ہوا ہے کہ یہاں کی تہذیب ، ثقافت ، معیشت، معاشرت ،سیاست ،سب کے سب دائروں میں اللہ کے احکامات اور اس کی شریعت سے رہنمائی لی جائے، اور ابلیسی ہتھکنڈوں سے بچ کر جنسی اور معاشرتی استحصال سے پاک معاشرہ قائم کیا جائے، نیز یہاں شرم ، حیا ، عزّت ، احترام ، عدل اور انصاف کے اصولوں کی فرماں روائی ہو ۔
حیا کے کلچر اور تہذیب کا احیا قابلِ عمل ہے۔ صرف اخلاصِ نیت، شعورِ حیات ، شعورِ منزل اور اپنی ذات ، گھراور معاشرے سے کام کے آغاز کی ضرورت ہے ۔ بعد کے مراحل پر کامیابی دینا اللہ ربّ العزت کی مرضی پر منحصر ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ جلد بازی میں اور خوب سوچ بچار کے بغیر مسلط کیے گئے فیصلے قوموں اور ملکوں کی زندگی پر دُور رس منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یوں بظاہر کوئی چھوٹا سا فیصلہ ،بعض اوقات ملکوں کے مستقبل کا نقشہ بدل دیتا ہے۔جموں وکشمیر کاقضیہ، جدید بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں ایک دہکتا ہوا انگارہ ہے۔ اقوام متحدہ کی بے بسی، عالمی طاقتوں کی ظالمانہ لاتعلقی اور بھارت کی عہدوپیمان شکنی اور کشمیر کے مظلوم عوام پر بدترین فوج کشی نے دنیا کے سامنے ایسا منظر پیش کیا ہے، جس پر ہر درد مند انسان خون کے آنسو روتا ہے۔
بھارت میں برسراقتدار راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کی نسل پرست فسطائی حکومت نے اس ماحول کو حددرجہ درد ناک بنا دیا ہے۔ اسی پس منظر میں عالمی اداروں کی بے حسی سے شہ پا کربھارتی حکومت نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو ایک تباہ کن یلغار کے ذریعے پورے جموں و کشمیر کو ایک قتل گاہ اور بدترین بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔اس جارحیت پر حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی کہ پوری قوت سے مسئلے پر عالمی راے عامہ کو متحرک کرتی۔ مگر روایتی سستی اور ترجیحات کی دیرینہ خرابی آڑے آئی۔ بجائے اس کے کہ بھارتی عہد شکنی اور جموں و کشمیر کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی روش کے خلاف سراپا احتجاج بن کر دنیا کو ہم نوا بنایا جاتا، پاکستان میں ایک دوسرا ہی منظر ابھرتا دکھائی دیتا ہے، اور وہ ہے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت و بلتستان کو پاکستان کا عارضی صوبہ بنانے کا خطرناک منصوبہ۔ اس ضمن میں ہم نہایت درد مندی سے برسرِاقتدار اور فیصلہ سازی کے ذمہ دار سرگرم افراد اور اداروں کو متنبہ کرتے ہوئے ، بلاکم وکاست اپنی رائے پیش کر رہے ہیں:
تمام بین الاقوامی، سیاسی، تاریخی اور جغرافیائی شواہد کے مطابق شمالی علاقہ جات ، ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہیں۔ جموں وکشمیر ایک ایسی وحدت ہے جس میں لداخ ، جموں ،وادیِ کشمیر اور شمالی علاقہ جات شامل ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک، پاکستان کا یہی موقف ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اسی پوزیشن اور قومی اتفاق راے کی بات کی ہے، اور آزاد کشمیر اسمبلی نے تو ۲۰۱۴ء میں ایک متفق علیہ قرارداد کے ذریعے نہ صرف اس کا اعتراف و اظہار کیاہے ، بلکہ اسے پاکستان اور کشمیری عوام کی جانب سےمسئلہ کشمیر پرموقف کا لازمی حصہ قرار دیا ہے، نیز اسی موقف کو اقوام عالم اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تسلیم کر رکھا ہے۔
۱۶جنوری ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ۲۲۸ ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، تب پاکستان کے وزیرخارجہ سرظفراللہ خاں نے کہا تھا:
The population of Kashmir is distributed community as follows: in Kashmir proper, apart from Jammu, 93.5 percent are Muslims. 62 percent of the population of Jammu are Muslims. Gilgit, which is the high mountain in region is entirely Muslim. The total area of the state, which is largely composed of high mountains and barren hills, is 82000 square miles.
کشمیر کی آبادی اس طرح سے ایک منقسم آبادی ہے: جموں کے علاوہ کشمیر میں ۹۳ء۵ فی صد مسلمان ہیں۔ جموں کی ۶۲ فی صد آبادی مسلمان ہے۔ گلگت جو بلندپہاڑی خطہ ہے، مکمل طور پر مسلمان ہے۔ ریاست کا کُل رقبہ جو بڑے پیمانے پر اُونچے اوربنجرپہاڑوں پر مشتمل ہے، ۸۲ہزارمربع میل ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کے شمالی علاقہ جات ۷۲ ہزار۹سو ۷۱ مربع کلو میٹر سے زیادہ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں،جن کی آبادی ۱۸ لاکھ ہے۔ اورجب بھی جموں و کشمیر میں استصواب راے ہوا، تو یہ سبھی ووٹ ان شاء اللہ، پاکستان سے الحاق کے حق میں جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کے چوتھے دور حکومت (۲۰۰۸ء-۲۰۱۳ء) میں صدر آصف علی زرداری صاحب نے اگست ۲۰۰۹ ء کے دوران میں’ گلگت بلتستان امپاور منٹ اینڈ سیلف گورنس‘ ، کے نام سے داخلی خود مختاری ، کا حکم نامہ جاری کیا ۔ اس حکم نامے کے تحت’ شمالی علاقہ جات‘ کو ’گلگت بلتستان‘ کا نام دیتے ہوئے، گورنر اور وزیر اعلیٰ کے انتظامی عہدے تفویض کیے، جب کہ قانون سازی و مالیاتی اختیارات اس کی مجوزہ منتخب اسمبلی کو دیے گئے، اور اس کی کونسل کا چیرمین وزیر اعظم پاکستان کو قرار دیا گیا۔
ذرا پیچھے چل کر دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۲ء میں ’شملہ معاہدے‘ کے بعد بیوروکریسی نے تب صدر پاکستان جناب ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی یہ تجویز دے کر قائل کرلیا تھا کہ ’’گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنایا جائے‘‘۔ لیکن جیسے ہی انھوں نےاس تجویز پر عمل درآمد کے منفی اثرات پر جوابی دلائل سنے تو اس تجویز پر پیش رفت روک دی۔ اب انھی سے وابستگی کی دعوے دار پارٹی ایک غلطی کرنے کے بعد، اپنی غلطی کا ازالہ کرنے سے گریز کررہی ہے۔
جلدبازی میں اٹھائے گئے اس قدم پر آزاد کشمیر ، مقبوضہ جموں و کشمیر اور خود شمالی علاقہ جات کی بیش تر سیاسی و سماجی پارٹیوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا۔
حکومت پاکستان نے ، خود پاکستان کے کئی علاقوں کی طرح، ا س علاقے کے لوگوں کے بھی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ، معاشی اور صحت عامہ کے حقوق کی بجا آوری سے پہلو تہی کا رویہ اختیار کیے رکھا تھا۔ جب یہاں کے شہری معاشی تنگ دستی پر چیخ اُٹھے تو اس کا ملبہ آزاد کشمیر حکومت پر ڈال دیا، اور یہ فلسفہ تخلیق کیا گیا کہ’ پاکستان اس علاقے کو ضم کرے گا تو سماجی، عدالتی، دستوری اور معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے‘۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بے معنی اوربودا عذر تھا۔ پیپلزپارٹی حکومت کے عاجلانہ فیصلے کے گیارہ برس گزرنے کے باوجود، وہاں حالات جوں کے توںہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ آزاد کشمیر اور اس سے وابستہ شمالی علاقہ جات کی تعمیر وترقی کے لیے آزاد کشمیر کی فراخ دلانہ مدد کرتی، لیکن افسوس کہ کم و بیش ہرحکومت نے اس معاملے میں سرد مہری کا رویہ اختیار کیا، اور بجائے اس کے کہ خرابی کو دُور کیا جاتا، ایک غلط راستے پر چلنے کے حیلے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیے۔
بلاشبہہ گلگت بلتستان اور اس کے ساتھ آزاد کشمیر کے سبھی حصوں کے احساسِ محرومی کو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن خاص طور پر اس علاقے کی معاشی محرومیوں کو دُور کرنے کے نام پر اختیار کیا جانے والا یہ ایک انتہائی نامناسب راستہ ہوگا، جس سے مسئلہ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ سوال یہ ہے کہ قضیۂ کشمیر اور اس کے بارے میں پاکستان کے اور اسٹرے ٹیجک موقف کو نقصان پہنچائے بغیر یہاں کے عوام کو معاشی، سیاسی اورسماجی طورپر کیوں اُوپر نہیں اُٹھایا جاسکتا؟ اگرپس ماندہ علاقوں کی بہتری کےنام پر دستورِ پاکستان سے ہٹ کر حل تلاش کرنے کے لیے ایسی روایت اپنا لی گئی تو معاملات گرفت سے باہر نکل جائیں گے۔ جس طرح آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ وہ مسئلہ حل ہونے تک پاکستان کی زیرنگرانی ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان بھی آزاد کشمیر کا حصہ ہونے کی حیثیت سے یہی مقام رکھتا ہے، اور ان کے مستقبل کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے حل سے منسلک ہے۔
پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’ ’عالمی مالیاتی ادارے یا بڑے سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے سے گریزاں ہیں۔ ان کا اعتراض دُورکرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے‘‘۔ یہ عذر تو حددرجہ پست ہے۔ کیا کسی معاشی منصوبے کی تکمیل کے لیے ملک کے سیاسی اور تاریخی موقف کی قربانی دینا کوئی معقول راستہ ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ سرمایہ کاری کو قومی مفاد کے تابع رکھتے ہوئے قابلِ قبول بنایا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے اَن تھک سفارتی، مذاکراتی اورعلمی سطح پر تگ ودو کی ضرورت ہے،اور یہ کام ہماری اعلیٰ سول اور سیاسی قیادت کو کرنا چاہیے۔
مسئلے کی نزاکت اور غورطلب پہلو
یہ ہے وہ پس منظر، جس میں گذشتہ چند ہفتوں سے راولپنڈی میں چیف آف دی آرمی اسٹاف کی زیر صدارت پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں جموں وکشمیر کے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت بلتستان کو عبوری طور پر پاکستان کے پانچویں صوبے کی شکل دینے کی تجویز پر عملاً ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ہم یہ اُمور وضاحت سے بیان کرنا چاہتے ہیں:
یہ بات صاف لفظوں میں ہرخاص و عام پر واضح رہنی چاہیے کہ پاکستان میں کاروبارِ ریاست و حکومت انھی اصولوں کے مطابق چلا یا جائے گا، جو دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ ہیں۔ مطلب یہ کہ اس نوعیت کے امور منتخب حکومت، پارلیمنٹ اور دستور کے تابع زیر بحث آئیں گے اور تمام اداروں کو اپنے حدود کار میں ریاست اور قوم کی خدمت کی بجاآوری کرنا ہوگی۔ انتظامیہ ، مقننہ ، عدلیہ ، عسکری اداروں اور سول ملازمین کو متعین شدہ دائرے میں خدمات انجام دینا ہوں گی، اور اسی چیز کا حلف، دستور کے مطابق سبھی ذمہ داران ریاست نے اٹھایا ہے۔
چیف آف دی آرمی اسٹاف ، دفاع وطن کے حوالے سے ایک بڑے محترم اور حددرجہ حساس منصب پر فائز ہیں۔ انھیں سیاسی امور کی بحثوں میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اپنی آرا ، وزارت دفاع کی وساطت سے یا دستور میں طے شدہ سلامتی کے اعلیٰ فورم کے ذریعے حکومت کو پیش کرنی چاہییں۔ پھر ان اُمور کو طے کرتے وقت حکومت ،وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ اور وزارت قانون کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمت عملی طے کرتے وقت بجاطورپر مسلح افواج کے مشوروں اور آرا کو بھی زیر غور لائے اور کھلے عام بحث کے بعد مناسب فیصلے کیے جائیں، جن پر ان کی روح کے مطابق، مگر لازمی طور پر دستورِ پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے عمل کیا جائے۔
اس ضمن میں بعض ’دانش مندوں‘ کا یہ کہنا کہ ’’قومی مسلح اداروں نے تو اس معاملے میں محض سہولت کاری کی ہے، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن میں کھلا مکالمہ نہیں ہورہا‘‘۔ یہ بہت عجیب اور نہایت کمزور مفروضہ ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کل سپریم کورٹ اپنا کام چھوڑ کر سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مذاکرات کرکے کسی ’اتفاق راے‘ کو ڈھو نڈنے نکلے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بدقسمتی سے موجودہ حکومت ضد اور اَنا کے باعث اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرنے،سب کو سننے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے سے معذور ہے تو اس کا حل نئے قومی انتخابات ہیں نہ کہ ریاستی آئینی ڈھانچا تلپٹ کر دینا اور غیرآئینی روایات قائم کرناکوئی معقولیت ہوگی۔
ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے ’جوں کے توں‘ (stand still) منظر نامے کو تبدیل کرنا اوراس سے چھیڑ چھاڑ کرنا، بھارتی منصوبہ سازوں کی پرانی خواہشات کی تکمیل ہوگا۔ پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ ’’اقوام متحدہ کی متفقہ قرار داد وں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے‘‘۔البتہ بھارت کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ ’’پاکستان ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے سرِ مو انحراف کر کے ، جموں و کشمیر کی وحد ت کے ٹکڑے بانٹنے کی میز سجائے‘‘۔ پاکستان نے بھارت کی اس چال کو ہمیشہ ناکام بنایا اور بھارت نے ہر بار یہی کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان ،سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے متن سے باہر نکلے اورپھر بھارت یہ اعلان کرے کہ ’’پاکستان نے قرار دادوں سے دست برداری اختیار کر لی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس طرح پاکستان کے اصولی موقف کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، بلکہ موقف سرے سے ختم ہوجائے گا۔
اگرچہ پاکستان کے بعض عجلت پسند سفارت کاروں نے مختلف اوقات میں مسئلہ کشمیر پر نہایت خطرناک بیان دیے ، لیکن ان افراد کی حماقتوں پر پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف صاحب بازی لے گئے۔ انھوں نے ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ء کو عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنا چاہتا ہے ‘‘، اور پھر اسی آمر مطلق اور خود ساختہ حاکم نے پاکستان آبزرور کو انٹر ویو دیتے ہوئے انکشاف کیا:’’ میں نے بھارتی وزیرخارجہ نٹور سنگھ سے کہا ہے کہ آیئے، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے سانچے سے باہر رکھ کر ایک سال کے اندر حل کر دیتے ہیں‘‘۔ جواب میں نٹور سنگھ نے کہا:’’ہم کو اس قدر جلدی نہیں ہے‘‘۔ (روزنامہ پاکستان آبزرور،۳۱ جولائی ۲۰۰۵ء)۔ اسی احمقانہ مہم جوئی کو تب وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری صاحب نے ’آؤٹ آف باکس‘کوشش قرار دیا۔ حالانکہ پاکستان کے کسی بھی حاکم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ، کشمیر کے عوام کو نظرانداز کر کے ایسا کوئی قدم اٹھائے، کوئی عہدوپیمان کرے جو مسلّمہ موقف کے برعکس ہو۔
جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف ایسے بیانات دے کر، بلکہ جموں و کشمیر کے متنازع علاقے میں بھارت کو باڑ لگانے کی اجازت دے کر، اور عملاً بھارتی فوج کی مدد کرکے کشمیر اور پاکستان کے عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ افسوس کہ اسی نوعیت کی منصوبہ سازی اب گلگت بلتستان کی ’معاشی بہتری‘ وغیرہ کے نام سے نئے صوبے کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ جنرل مشرف کا قدم مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت پر خود کش حملہ تھا، تو اب دباؤ ڈال کر یہ فیصلہ لینا، پاکستان اور کشمیری عوام کی تاریخی جدوجہد سے غداری کی طرف لے جائے گا، جس سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔
اس منصوبے کے پیش کاروں کی طرف سے یہ ایک بالکل بے معنی عذر پیش کیا جا رہا ہے: ’’سی پیک‘‘ (چین پاک معاشی راہداری) کے لیے چین بھی یہ چاہتا ہے کہ شمالی علاقہ جات کو یک طرفہ طور پر پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین کے پالیسی ساز ایسا غیرمنطقی اور غیر آئینی مطالبہ نہیں کر سکتے کہ جس سے پاکستان کے قومی مفادات پر ضرب کاری لگے اور جموں و کشمیر کی ۷۳ سال پر پھیلی طویل، دلیرانہ جدوجہد اور مظلومانہ قربانیوں کی تاریخ دریابرد ہو جائے۔ آخر ’شاہراہ قراقرم‘ (KKH) اسی ’جوں کی توں‘ صورت حال میں جموں و کشمیر کے متنازع علاقے سے گزر رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ’شاہراہِ قراقرم‘ سے بہتر شاہراہ کی تعمیر نے کون سے اور کس طرح سے نئے تقاضے لا کھڑے کیے ہیں کہ بین الاقوامی اور قومی معاملات کوتہہ و بالا کردیا جائے؟یاد رہے ۲۰۰۹ء میں عوامی جمہوریہ چین نے کشمیر ی باشندوں کی چین آمد کے لیے اپنی ویزہ پالیسی تبدیل کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا ، ’’جموں و کشمیر کے لوگ بھارتی پاسپورٹ کے بجائے سادہ کاغذ پر حلف نامے کے ذریعے چین کا ویزا لے سکتے ہیں‘‘۔ اس پر بھارتی حکومت نے احتجاج کیا تو چین نے بڑا مختصر جواب دیا: ’’کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ، جو بھارتی یونین کا حصہ نہیں ہے‘‘(روزنامہ The Nation ، ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء)۔
اگر پاکستان کے مقتدر حلقوں نے ، گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دے کر عارضی [اورپھر مستقل] صوبہ بنانے کا فیصلہ کر لیا، تو اس طرح بین الاقوامی سرحد تبدیل ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں پوری لائن آف کنٹرول، خودبخود بین الاقوامی سرحد میں ڈھل جائے گی۔ اس صورت میں سارے علاقے سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین ہٹ جائیں گے، اور ان مبصرین کو ہٹانا بھارت کا پرانا مطالبہ ہے۔ یہ سب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۹۱ (۱۹۵۱)اور قرارداد ۱۲۲، ۱۲۶ (۱۹۵۷) کے یکسر منافی ہوگا، جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے انہدام کا سبب بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت بھی مقبوضہ جموںو کشمیر کی صورتِ حال پر عالمی عہدوپیمان کو یکسر توڑنے کا اعلان کرکے، مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنانے اور آزاد کشمیر پر دست درازی کے جواز کے لیے حکمت عملی وضع کرے گا۔ پاکستان اپنی ناقابلِ فہم عجلت پسندی سے بین الاقوامی تحفظ کے تمام وعدوں سے بھی محروم ہوجائے گا۔ یوں ایک گناہ بے لذت کے طور پر کشمیر کا مسئلہ ، بھارتی خواہشات کے مطابق، ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دفن ہو جائے گا۔
ایک مغالطہ یہ بھی پھیلایا جاتا ہے کہ ’بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس رویہ اختیار کرکے کشمیر کی انتظامی اور آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا ہے، تو جواب میں اگر پاکستان بھی آزادکشمیر کے ایک محدود علاقے میں ایسا کچھ کرلے تو کون سی قیامت آجائے گی؟‘‘ یہ مفروضہ بھی سخت شرانگیزی کا شاخسانہ ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو وہ یک طرفہ طور پر بین الاقوامی عہدوپیمان سے رُوگردانی کررہا ہے، مگراس کے ایسے منفی رویے سے قراردادیں اور عالمی فیصلے تبدیل نہیں ہوئے۔ لیکن جب دوسرا فریق بھی اسی عہدشکنی کا راستہ اختیار کرے گا تو قراردادوں کی بنیاد ڈھے جائے گی اور عالمی عہدوپیمان کی ساکھ ختم ہوجائے گی۔ مسئلہ کشمیر کی متنازع بین الاقوامی حیثیت صرف اور صرف تقسیم ہند کے اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر قائم ہے، اور بھارت یہ چاہتا ہے کہ ان بنیادوں کو ختم کر دیا جائے۔
جموں و کشمیر کی وحدت پر اس دست درازی کو زیربحث لاتے ہوئے کشمیر کی مزاحمتی قیادت، جس میں سیّدعلی شاہ گیلانی، محمد یاسین ملک، میرواعظ عمرفاروق اور دوسرے محترم قائدین شامل ہیں، ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ ’’گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کوئی بھی تجویز ناقابلِ قبول ہے۔ کیونکہ یہ قدم جموں و کشمیر کی وحدت اور بین الاقوامی پوزیشن کو تبدیل کرنے کے مترادف ہوگا‘‘۔اسی طرح آزادکشمیر کی قیادت، جس میں مسلم لیگ نون، مسلم کانفرنس، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی شامل ہیں، انھوں نے ۲۰۱۴ء میں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور کرکے اس ’پانچویں صوبے‘ کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ اگر بھارت نے دھونس جماکر ایک غلط قدم اُٹھایا ہے تو اس کی غلطی کے جواب میں پاکستان کی جانب سے غلطی کا ارتکاب کہیں زیادہ بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔
ہم ذرا ماضی میں جائیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اکتوبر ۲۰۱۵ء میں نون لیگ حکومت کی قائم شدہ ’سرتاج عزیز کمیٹی‘ نے ’گلگت بلتستان کی پاکستان میں اس طرح شمولیت کی تجویز دی تھی کہ ’’این ایف سی، ایکنک وغیرہ کے ساتھ پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی یہاںسے نمایندے لیے جائیں اور دیگر صوبوں کے مساوی حیثیت دی جائے‘‘۔ یوں پانچویں صوبے کا غلغلہ بلند ہوا، تو جموںو کشمیر کے طول و عرض میں اضطراب پھیل گیا اور کشمیری قیادت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ جواب میں وزیراعظم محمدنواز شریف نے ۱۶مارچ ۲۰۱۶ء کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کے نام خط میں وضاحت کی: ’’پاکستان، گلگت بلتستان سے وابستہ حساس اُمور سے پوری طرح واقف ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان، جموں و کشمیر کے تنازع پراپنے اصولی موقف پر کبھی سمجھوتا نہیں کرے گا، وہی موقف کہ جو سلامتی کونسل کی قراردادوں پرمبنی ہے‘‘۔ { FR 1176 }
پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں قومی پالیسی اور اس کے بنیادی اجزا کو نپے تلے الفاظ میں درج کردیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں گلگت اور بلتستان کو کسی شکل میں بھی پاکستان کا ایک صوبہ بنانا، اوروہاں سے پارلیمنٹ میں نام نہاد نمایندگی دینا، دستورِ پاکستان کی کھلی کھلی مخالفت اورقضیۂ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا ذریعہ ہوگا۔ دستور کے الفاظ ہیں: ’’جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے، تو پاکستان اور اس ریاست کے درمیان تعلقات، اُس ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیےجائیں گے‘‘۔
۱۹۷۳ء کے دستور پاکستان میں درج یہی الفاظ، ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں بھی شامل تھے۔ اس تسلسل سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع اور ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے نام نہاد الحاق کے نام پر اپنے دستور میں جموں و کشمیر کے بارے میں دفعہ ۳۷۰ رکھی، تو پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس بھارتی اندراج کو تسلیم نہیں کیا ، اور اسے متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کا مشترکہ مسئلہ قرار دیا۔
پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ اور تمام ریاستی ادارے اس امر کے پابند ہیں کہ دستور ی طور پر طے شدہ وعدے کے مطابق ، مسئلہ کشمیر اور اس سے منسلک علاقوں کے مستقبل کا فیصلہ جموں و کشمیر پر مشتمل وحد ت کی مرضی کے مطابق حل کرنے میں مدد دیں،اور اس عہدوپیمان کا احترام کریں۔ پاکستان اور بھارت دونوں مل کر یا الگ الگ ، جموں و کشمیر کے مستقبل کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں، تاآنکہ جموں و کشمیر کے مسلّمہ شہری ایک آزادانہ استصواب راے سے اپنی مرضی کا فیصلہ کریں۔
اندریں حالات، ہم پاکستان کی سیاسی و دینی جماعتوں کے ساتھ ساتھ، ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران اوردانش وروں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی اداروں کو دستور اور قانون کا پابند بننے پر مجبور کریں اور جو سیاسی پارٹیاں اپنے غیر دانش مندانہ فیصلوں کے تحت محدود سیاسی فائدے کی اسیر ہیں، انھیںاپنی نا مناسب پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا درس دیں ۔ اگر آج روایتی کاہلی اور عجلت پسندی سے معاملات کو بگاڑا گیا تو آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
امت مسلمہ تاریخ کے ایک نازک مرحلے سے گزر رہی ہے، مگر یہ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ امت کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ اسے ہر زمانے میں طرح طرح کے چیلنجوں اور بحرانوں سے واسطہ رہا ہے۔ اُمت کی امتیازی شان ہے کہ وہ بحرانوں سے نبٹتے ہوئے ہربار اپنی قوت کو بحال کرلیتی ہے کیوں کہ اُسے نشاتِ ثانیہ کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ ایک لحاظ سے اس امت کے لیے یہ ایک ناگزیر عمل ہے۔اسلام، ایک دائمی اور عالم گیر پیغام کے طور پر ، نہ تو بحران کی کیفیت سے بچ سکتا ہے اور نہ مدوجزر اور احیا و تجدید کے مراحل سے دامن چھڑا سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ معاملات میں تو تقسیم و تفریق اور پھر اتحاد و اتفاق کی بحالی کے عمل سے بھی گزرنا اس کی تاریخ کا لازمی حصہ رہا ہے۔
در حقیقت، ذات باری تعالیٰ نے انسان کو اختیار اور ارادے کی جس صلاحیت اور نعمت سے نوازا ہے، اس وہبی انتظام و انصرام کے پیش نظر تبدیلی کا یہ عمل ناگزیر ہے۔ اسلامی اسکیم کی ساخت میں کچھ عناصر ایسے ہیں، جو ناقابلِ تغیر اور مستقل حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ وہ ہردور اور ہرعہد کے نظام کے لیے بنیادی حوالے کی تشکیل کا کام کرتے ہیں۔ ان ناقابلِ تبدیل عناصر کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے عناصر بھی موجود ہیں، جو بنیادی خدائی اسکیم کے اندر رہتے ہوئے، لچک دار ہیں اور ہرزمانے کے تقاضوں کا ساتھ دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
آج کے دور کی صورت حال ،کچھ بنیادی اختلافی اُمور کے باجود، بیسویں صدی کے آغاز کے منظر نامے سے بہت حد تک ملتی جلتی ہے۔ انیسویں صدی کے اختتام پر، مسلم اُمّہ، جس نے ایک ہزار سال تک عالمی طاقت کی حیثیت سے ایک ممتاز کردار ادا کیا تھا، یورپی سامراج کی فوجوں کے حملوں سے مکمل طور پر مغلوب ہو گئی۔ طاقت کا توازن مسلم دنیا کے مفادات کے حوالے سے یکسر تبدیل ہو گیا جس کے نتیجے میں پوری مسلم تہذیب کے وسیع دائرے پر اس غلبے کے دُور رس نتائج نکلے۔ مغربی سامراجی طاقتیں، ایک الگ تہذیب اور روایت کی نمایندگی کرتی ہیں۔ جب ان کے توسیع پسندانہ فکری عزائم نے طاقت کے ذریعے معاشرتی حرکیات پر قابو پانےکی کوشش کی تو معاندانہ تہذیبی رویے کھل کر سامنے آگئے۔ محکومی کے اس دور میں مسلم اُمّہ کی معیشت برباد کر دی گئی، اس کی سیاسی طاقت کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ انجامِ کار سائنسی، دنیاوی علوم اور ٹکنالوجی پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ اس کی اخلاقی، تہذیبی، روحانی اور فکری طاقت بھی زوال پذیر ہوگئی اور آخرکار ۳مارچ ۱۹۲۴ء کو اس کی تہذیبی شان و شوکت کا جو آخری علامتی نشان خلافت عثمانیہ کی شکل میں بچا ہواتھا ، اسے بھی مٹا دیا گیا۔
یہی وہ پس منظر تھا، جس میں پوری دنیا کے متعدد مسلم رہنماؤں نے اس سوال پر انتہائی غوروفکر کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی، کہ آخر امت مسلمہ سے کہاں غلطی سرزد ہوئی ہے جو اتنی بڑی افتاد آن پڑی ہے؟ کیا آج کے دور میں خدانخواستہ اسلام کی بنیادی تعلیمات واقعی غیرمتعلقہ ہوکر رہ گئی ہیں؟ یا ان تعلیمات کے بارے میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر اور ان کے تاریخی کردار و عمل ہی میں کچھ نقائص پیدا ہوگئے ہیں؟ مراد یہ کہ مسلمان اس ہدایت الٰہی کے ساتھ جس طرح کا سلوک کررہے ہیں، کیا یہ اس نافرمانی کا نتیجہ ہے؟ اور آخر کار امت مسلمہ کو بحالی اور تعمیر نو کے راستے پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟
ان سوالات پر جمال الدین افغانیؒ [م:۱۸۹۷ء]، محمدعبدہٗ ؒ[م:۱۹۰۵ء]،امیر شکیب ارسلانؒ [م:۱۹۲۱ء]، سعید حلیم پاشا ؒ[م:۱۹۲۱ء]، رشید رضاؒ [م:۱۹۳۵ء]، محمداقبالؒ [م:۱۹۳۸ء]، حسن البناؒ شہید [م:۱۹۴۹ء]،ابوالکلام آزادؒ [م:۱۹۵۸ء]، بدیع الزمان سعید نورسیؒ [م:۱۹۶۰ء]، مالک بن نبیؒ [م:۱۹۷۳ء] ، ابوالاعلیٰ مودودیؒ [م:۱۹۷۹ء] اور کئی دیگر دانش وَروں اور اصلاح پسندوں نے غورو فکر کیا، اور اُمت مسلمہ کو زوال سے نکالنے کے لیے بعض تجاویز پیش کیں اور راہِ عمل کی نشان دہی کی۔
مفکرین اور مصلحین کی اس جگمگاتی کہکشاں میں ، مولانا مودودی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کی عمر بمشکل ۱۷ سال ہوگی، جب انھوں نے ۱۹۲۰ء میں اپنے نازک و ناتواں کندھوں پر امت مسلمہ کی تعمیر نو کے انتہائی بھاری کام کا بوجھ اُٹھانے کا تہیہ کیا۔ دس سال کی ابتدائی صحافتی زندگی کی صف اوّل میں رہنے والے مولانا مودودی نے مسلم فکر کی تشکیل نو کے لیے اور اسلام کو عالمی نظریے اور ایک منفرد طرزِزندگی کے طور پر پیش کرنے کے لیے، اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔ان کا بنیادی مقصد احیاے امت کے لیے ایک ایسا نقشۂ کار (روڈ میپ) تیار کرنا تھا، جو مجموعی طور پر پوری انسانیت کے لیے منفعت بخش ثابت ہو۔
الجہاد فی الاسلام (۱۹۲۹ء) اس سلسلے میں مولانا مودودی کی طرف سے کی گئی پہلی بھرپور کوشش تھی۔ اس وقت سے لے کر وفات (۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء ) تک،احیاے اسلام اور اصلاحِ ملّت اسلامیہ کے حوالے سے انھوں نے ۴۰ سے زائد کتب، اور سیکڑوں مضامین تحریر کیے، جو اسلامی فکر کے تقریباً ہر پہلو پر محیط ہیں۔ اس علمی سفرمیں ان کا سب سے عظیم کام کئی ہزار صفحات پر مشتمل تفہیم القرآن کی شکل میں وہ تفسیر قرآن ہے جو چھے جلدوں پر مشتمل ہے۔
اسلامی فکر کی تشکیل نو کے علاوہ مولانا مودودی نے امت مسلمہ کے زوال کے اسباب، مسلم معاشرے میں در آنے والی کمزوریوں،اور خرابیوں کی نشان دہی پر مشتمل ایک وسیع تنقیدی لٹریچر بھی تخلیق کیا، اور اس سلسلے میں خرابی کو دُور کرنے کا حل بھی بتایا۔ وہ مغربی تہذیب کے ایک طاقت ور نقاد ، اور مغرب کو اسلام پر عصری حملوں کا اصل کھلاڑی قرار دینے والے اہم مفکر کے طور پر بھی سامنے آئے۔ وہ، مادی دنیا میں، مغربی تہذیب کی کامیابیوں اور اس کے عصری نظریات سے غافل نہیں تھے لیکن وہ ان کامیابیوں کے خوشہ چیں ہونے کے بجائے، اس تہذیب کی فکری اُلجھنوں، اخلاقی پستیوں، اس کے سیاسی اور ثقافتی عدم استحکام اور اس کی معاشی نا انصافیوں اور استحصال پر اس کے سخت ناقد تھے،تاہم اگر انھوں نے مغرب میں کوئی خوبی دیکھی تو اس کا اعتراف کرنے میں تنگ دلی سے کام نہیں لیا۔مولانا مودودی کے افکار نےمسلمانوں کی تین نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ انھیں عصر حاضر میں، احیاے اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کا ایک مرکزی معمار سمجھا جاتا ہے۔
مولانا مودودی کی بنیادی تحریروں کا رواں انگریزی ترجمہ وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں، میں نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۰ء کے دوران میں کچھ کام کیا تھا ۔ بعد ازاں ۱۹۸۰ء میں میرے عزیز ترین رفیق خرم مراد [م: ۱۹۹۶ء] نے بھی اس کارخیر میں بڑا قیمتی اضافہ کیا۔ اور میرے دوسرے نہایت عزیز ساتھی ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری [م: ۲۰۱۶ء] نے بہت جم کر، مولانا مودودی کے علمی کارنامے، یعنی قرآنِ کریم کی تفسیر تفہیم القرآن کا ترجمہ کرنے میں اپنی آدھی زندگی کے بہترین اوقات صرف کر دیے۔ اللہ تعالیٰ انھیں بلند درجات عطا فرمائے۔ لیکن یہ سارا کام مجموعی طور پر، مولانا مودودی کے کام کا ۲۰ فی صد بھی نہیں تھا، جو اردو سے انگریزی میں منتقل ہوا۔اس سلسلے میں ہم نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ مولانا مودودی نے جو تحریریں بالکل مقامی یا وقتی ضرورتوں کے پیش نظر لکھی تھیں، ان کے علاوہ باقی سب تحریروں کو انگریزی کے قارئین کے لیے پیش کیا جائے، اور پھر دنیا کی دوسری اہم زبانوں میں بھی ان کے تراجم کیے جائیں۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو بیسویں صدی میں مولانا مودودی نے جو علمی خدمت انجام دی، اسے کم ازکم بیسویں صدی کی احیاے اسلام کی تحریکوں کے ایک چراغِ راہ کے طور پر ،اور اکیسویں صدی میں امت کی رہنمائی کے لیے ایک روشن مینار کے طور پر دستیاب ہونا چاہیے۔ یہ کام بدلتے ہوئے حالات اور نئے چیلنجوں کے پیش نظر، مستقبل کی نسلوں میں اسلامی تصورات اور حکمت عملی کو مزید ترقی دینے کے لیے مدد اور موقع فراہم کر سکتا ہے۔ ہر انسان خواہ وہ کتنی ہی عظیم خدمات انجام دینے والا ہو، اس کی کچھ نہ کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ان انسانی حدود کے باوجود مولانا مودودی نے ساٹھ سال کے عرصے میں جو کچھ لکھا، وہ نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے، مسلم معاشرے کی بحالی اورمسلم افکار کی تنظیم نو اور مسلم ثقافت کی تعمیر نو کےمسائل اور مشکلات سے لازوال مطابقت رکھتا ہے۔
مولانا مودودی کا کام نہ صرف فکری رہنمائی کے حوالے سے اہم ہے بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اسلامی تعلیمات کے پیغام اور مقاصد کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے درکار رہنمائی کے طور پر بھی اہم ہے۔ ان کا کام نہ صرف حقائق اور اصولوں کو جاننے میں رہنمائی کرتا ہے بلکہ ان کے اطلاق کے طریق کار میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔
اس حوالے سے مولانا مودودی کے وہ مضامین بہت اہمیت کے حامل ہیں ،جو انھوں نے سیکولرزم کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کرتے ہوئے ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کے عشرے میں مذہب اور معاشرے کی علیحدگی، خدائی ہدایت اور ریاست، سیکولر اور دینی تصورات پر بحث کرتےہوئے لکھے تھے۔ ان مضامین میں زندگی کے ان امور اور مسائل پر خاص توجہ دی گئی ہے، جن کے بارے میں اسلام اور سیکولرزم کا نقطۂ نظر باہم مختلف اورمتصادم ہے ۔اگرچہ ان تحریروں کو نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور زبان و بیان کے انداز اور بحث کے اسلوب بدل چکے ہیں، اس کے باوجود یہ مباحث آج بھی تروتازہ اور متعلقہ ہیں۔ تاہم، یہاں سوال زبان و بیان کا نہیں بلکہ اصل مواد اور نقطۂ نظر کا ہے۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ مولانا مودودی نے سیکولرزم پر بہت سخت تنقید کی ہے اور اس کے ذیلی مباحث پر بہت جامع گفتگو کی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب آپ کسی غالب طرزِ اظہار اور منہاج فکرو عمل کو چیلنج کر رہے ہوتے ہیں، تو پھر اس میں سب سے پہلے وحشی بیل کو اس کے سینگوں سے پکڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا اور یہی وہ ناگزیر عمل تھا، جو مولانا مودودی نے اپنے ابتدائی مباحث میں سرانجام دیا۔
بنیادی طور پر ان کے مخاطب، سامعین اور قارئین برطانوی مقبوضہ ہندستان کے مسلمان تھے، لیکن عمومی طور پر وہ پوری دنیا کے مسلمانوں سے خطاب کر رہے تھے۔ چونکہ دنیا کے دیگر علاقوں میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے بھی یہ مسائل اور معاملات ایک جیسے ہی ہیں اور اخلاقی اور نظریاتی میدان میں سیکولرزم اورلبرلزم کا چیلنج آج بھی اتنا ہی متعلق ہے، جتنا ۱۹۳۰ءکے عشرے میں تھا، اس لیے مولانا مودودی کی تنقیدِ مغرب پر مشتمل مقالات آج بھی نئی نسلوں کو سوچ اور فکر کے لیے ایک نئی غذا فراہم کر تے ہیں۔ ہماری اس تحریر کو مولانا مودودی کے مذکورہ مضامین پر ایک حاشیہ ہی تصور کیا جانا چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ یہ حاشیہ قارئین کو سیکولرزم او ر اس کے ذیلی مباحث، اصطلاحات اور ان کے پس منظر کو جاننے میں مدد فراہم کرے گا۔
______
’سیکولرزم‘ ایک اہم، سیاسی، تاریخی، فکری تحریک کی نمایندگی کرتا ہے ، جس نے گذشتہ تین صدیوں کے دوران یور پ اور امریکا میں تشکیل پانے والے معاشرتی اور سیاسی نظم کی اساس اور خصوصیات کو تبدیل کر دیا ہے ۔ یہ رومن سلطنت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی ایک نئی سوچ ہے، جو خدائی رہنمائی کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے، پورے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور قانونی نظام کو خالص انسانی عقل اور تجربے کی بنیاد پر چلانےکے ضمن میں تشکیل پائی ہے۔اگر یہ سوچ ،مذہب کو کچھ معمولی جگہ دینے کے لیے تیار بھی ہے تو صرف اس حد تک کہ مردوں اور خواتین کی نجی اور خانگی زندگی میں، چند رسم و رواج یا عبادات وغیرہ کی شکل میں، مذہب اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔ لیکن سیکولرزم انسانی زندگی اور معاشرے کے سیاسی و معاشرتی طول و عرض میں پالیسیوں کی بڑی جہتوں کو طے کرنے میں اورقواعد و ضوابط تشکیل دینے میں مذہب کا کوئی کردار تسلیم نہیں کرتا۔ یہ سیکولرزم کےبنیادی اصول کی اصل ہے۔ لیکن جہاں تک فروع کی بات ہے تو تفصیلات کے اندر،سیکولرزم کا کردار، زیادہ متنوع اور کثیر جہتی ہے۔کم از کم ان میں سے تین اہم جہتوں کو واضح طور پر بیان کرنا مفید ہوسکتا ہے جن میں سیکولرزم کی شراکت اوراس کا کردارزیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
پہلی جہت یہ ہے کہ ، چرچ کے اقتدار کے دور میں یورپی مذہبی تجربے کی تاریخی مطابقت جو بھی ہو، عیسائی دنیا کا نظریۂ زندگی (مسیحی ورلڈ ویو)، دنیا کو الوہی اور دنیاوی یا مقدس اورسیکولر کے خانوں میں تقسیم کرنے کےخیال میں مگن رہا۔ ’’جو خدا کا ہے خدا کو دو، اور جو قیصر کا ہے قیصر کو دو‘‘ جیسی تعلیمات اس نقطۂ نظر کی نمایندگی کرتی ہیں۔ جس میں مذہب کی غرض اور خدا اور انسان کے تعلق کا سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق سیکولر زندگی کا پورا دائرہ جو دنیاوی اُمور سے متعلق تھا، اسے دنیادار لوگوں کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی شخصیات کی طرف سے دنیاوی امور کو نظر انداز کرنا ایک حقیقت تھی۔ گویا روحانی دنیا کے ساتھ ان کا تعلق محض ایک جنون اور تقدس کی علامت بن کر رہ گیا ۔ دنیاوی زندگی سے بے رغبتی کا طرزِ عمل دنیا سے نفرت کی علامت بن گیا اور یہ نقطۂ نظر مذہبی اخلاق کا ایک خاصہ بن گیا۔ اس نقطۂ نظر کا فطری نتیجہ رہبانیت اور خانقاہیت کی شکل میں نکلا۔ دنیا وی دائرے کو مقدس دائرے کی نسبت سے اس قدر کم تر اور فروترتصور کیا گیا کہ اسے روحانی لوگوں کے لیے قابل قبول ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کی بدترین اور چشم کشا مثال مغربی مصنّفین نے یہ دی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں عیسائی راہب صرف اَزدواجی زندگی ہی سے اجتناب نہیں کرتے تھے بلکہ صفائی ستھرائی اور غسل تک کو بھی دُنیاداری سمجھتے تھے، نتیجتاً ان کے بدن اور کپڑوں سے بدبو دُور ہی سے آنا شروع ہوجاتی تھی۔
اس کے مقابلے میں بزعمِ خود’روشن خیالی‘ اور ’نشاتِ ثانیہ‘ کی تحریک نے اس نظریے کو چیلنج کیا اورزندگی کے جسمانی اور دنیاوی دائرے کےتقاضوں کو زیادہ اہمیت دی۔ جس کےنتیجے میں ساری توجہ مذہب سے ہٹ کر، دنیاوی معاملات پر مرکوز ہوگئی۔ اس لیے اب مطالعہ اورعمل جیسے شعبہ جات کا محور ’خدا‘ کے بجائے ’انسان‘ اور اُخروی زندگی کے بجائے مادی دنیا قرار پایا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سیکولر تحریک، اُخروی زندگی پر دنیاوی زندگی کے غلبے کی جدوجہد پر مبنی ایک ہمہ پہلو اورجارح تحریک ہے، جس میں فسطائی فکروعمل کے عناصر بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اس کے نتیجے میں، انسانی معاشرتی زندگی میں، روحانی دنیا کے معاملات اور اُمور سے لاتعلقی نے ایک مریضانہ رُخ اختیار کیا۔ جس سے دنیاوی ضروریات کی طرف رغبت اور مادہ پرستی و ذاتی مفاد کی پرستش کے جنون نے ایک بھونچال برپا کردیا۔
سیکولر تحریک کی دوسری جہت یہ ہے کہ یورپ میں زمانۂ وسطیٰ (Middle Ages) میں چرچ کی حکومتیں، عدم رواداری، مذہبی و فرقہ وارانہ ظلم و ستم، معمولی جرائم پر شدید سزائیں دینے، حتیٰ کہ پھانسیاں دینے کے حوالے سے مشہور تھیں۔ان کی اس پہچان اور جبر نے مذہب کو ایک ظالمانہ طاقت کے طور پر بدنام کیا۔ اس زمانے میں یورپ کے عیسائی فرقوں کے درمیان بدترین جنگیں برپا ہوئیں، جن میں لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے، اور محض مسلکی اختلاف کی بناپر خون کے دریا بہائے گئے، جو بالآخر ۲۴؍اکتوبر ۱۶۴۸ء کو ’ویسٹ فالیا معاہدے‘ (Treaty of Westphalia ) پرمنتج ہوئے، جس سے سیکولر دور کا آغاز ہوتا ہے۔
ان حکومتوں کی اس مذہبی عدم رواداری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک آبادی نے یورپ سے امریکا کی طرف نقل مکانی بھی کی۔ سیاسی نظام میں پاپائی طاقت کے غلط استعمال سے مذہب کے خلاف بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ اس تناظر میں سیکولر تحریک نے ’کثیرعقیدگی‘ اور’مذہبی تنوع‘ کے اصول کو پیش کیا اور نتیجے کے طور پر سیاست و ریاست سے مذہب کے کردار کو خارج کر دیا۔ اس طرح نہ صرف سیاست میں مذہب کا کردار ختم ہوگیا، بلکہ سیاست سے ان روحانی اور اخلاقی اقدار کا بھی خاتمہ ہوگیا جن کی بنیاد مذہب پر تھی۔یوں چرچ اور سیاست کے مابین کشیدگی اور مسابقت اپنے بدنما انجام کو پہنچی اور دونوں اپنے اپنے دائرے میں خود مختار ہو گئے۔
سیکولر تحریک کی تیسری جہت یہ ہے کہ یہ تحریک مذکورہ دو بڑی تہذیبی تبدیلیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے مزید وسعت اختیار کرتے ہوئے ایک ایسا منہاج اور ماڈل تشکیل دے دیا، جس میں تمام سیاسی اور معاشرتی امور’خدا‘ سے غیر متعلق ہو گئے۔ کائنات اور فطرت کے قوانین کی ایک نئی تعبیر و تشریح تیار کی گئی، جس میں خدا کو تمام چیزوں کےوجود کے پیچھے کارفرما اصل قوت کے طور پر نظر انداز کرتے ہوئے خارج کر دیا گیا۔ اس کی وضاحت فرانسیسی بادشاہ اور نیوٹن [م: ۱۷۲۷ء] کے مکالمے کی مثال سے بخوبی ہوتی ہے کہ جب فرانسیسی بادشاہ نے نیوٹن سے پوچھا کہ کائنات کے بارے اس کی میکانکی تشریح میں خدا کی طاقت کی کارفرمائی کا کوئی ذکر کیوں نہیں ہے؟ تو نیوٹن نے سیدھا سادا جواب دیا: جہاں پناہ! مجھے میکانکی دنیا کی وضاحت کے لیے خدا کی ضرورت نہیں ہے۔
نیوٹن کی یہ بات ، کائنات کی اس نام نہاد میکانکی وضاحت تک ہی محدود نہیں تھی، بلکہ یہ انسانی زندگی کے وسیع دائرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے مطابق یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس کرۂ ارض پر انسانوں کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے صرف انسان کی عقل اور تجربات کی رہنمائی ہی کافی ہے۔ لوگوں کو صرف اس حد تک رعایت دی گئی کہ اگر وہ اپنی انفرادی اور ذاتی زندگی میں خدا پر بھروسا رکھنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں، لیکن جہاں تک معاشرے، معیشت، عدل اور سیاست کے مسائل اور معاملات کا تعلق ہے تو وہ لوگوں کی خواہشات کی بنیاد پر حل کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں صرف انسانی عقل اور تجربے ہی سے رہنمائی لی جائے گی۔ چنانچہ انسان کی حاکمیت اور خود مختاری، ایک نئے تجربے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی اور یہ انسانی حاکمیت اور خودمختاری، ایک رہنما اصول بن گیا اور انسانی عقل اور تجربے کو ، معاشرے کے ارتقا کے لیے درکار تمام اقدار کے حتمی وسیلے اور بنیاد کے طور پر مان لیا گیا۔
فلسفے کے پروفیسر ورجیلیس فرم (م:۱۹۷۴ء) نے روشن خیالی اور سیکولرزم کے تصورات پر اپنے خیالات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
جمالیاتی اور دانش ورانہ بیداری کی لہر اور سیکولر ثقافت کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا ظہور چودھویں صدی عیسوی میں اٹلی میں ہوا___خواہ اس کو بہتر کہیں یا بدتر، مگر نشاتِ ثانیہ کے انقلاب میں اس کا کردار ضرورموجودتھا۔ اور یہ کلیدی کردار سیکولر ہیومن ازم کا تھا، جس کا تعلق انسانی غوروفکر اور دنیاوی اقدار کی پہچان پر مبنی ہے اور یہ مذہبی اور کلیسائی منظوری سے مشروط نہیں ہے (انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن، فلسفیانہ لائبریری، نیویارک، ص۶۵۶،۶۵۷)۔
روشن خیالی اس تحریک کا نام ہے، جو اٹھارھویں صدی کے عام ماحول کی خصوصیات کی حامل ہے۔ اس کے ماخذ کو ، نشاتِ ثانیہ کے دو ر میں تشکیل پانے والے اس انسانی ذہن اور روحانی فضا میں تلاش کرنا چاہیے، جو اپنے مادیت پسندی اور انفرادیت پسندانہ رجحانات کے ساتھ لوگوں کے ذہن میں منطقی اور عقلی خود مختاری کا فخر اور شعور اجاگر کر رہی تھی۔ ایک تاریخی مظہر کی حیثیت سے، روشن خیالی کی تحریک، حقیقی انسانی زندگی میں عقلی و منطقی کردار کو اپنانے اور اس کا اطلاق کرنے کی جدوجہد کی نمایندگی کرتی ہے۔(حوالہ بالا، ص ۲۵۰)
’سیکولرزم‘ خاص طور پر مختلف افادی معاشرتی نظریۂ اخلاقیات جسے برطانیہ کے معروف سیکولرسٹ جارج جیکب ہولوک نے انیسویں صدی میں تشکیل دیا جو مذہب کے حوالے کے بغیر انسانی ترقی کی بات کرتا ہے ، اور خاص طور پر انسانی عقل ، منطق، سائنس اور سماجی تنظیم کو بنیاد بناتا ہے۔
سوشل سائنس انسائی کلوپیڈیا میں سیکولرزم اور سیکولرائزیشن کے ’اصولوں‘ کی نشان دہی اس طرح کی گئی ہے:’’ سیکولرائزیشن سے مراد معاشرے کی اخلاقی زندگی سے مذہبی عقائد، رسم و رواج اور معاشرتی احساس کو تبدیل کرنا ہے ۔ سیکولر سوسائٹی میں روزمرہ زندگی کا ہر تجربہ ، مقدس دعا کے آغاز کے بغیر جاری رہتا ہے۔ تاہم، یہ ’روشن خیالی‘ کا فلسفہ تھا، جس نے مکمل سیکولرائزیشن کا بنیادی محرک فراہم کیا۔ پھر یہ تجویز پیش کی کہ معاشرے کی بنیاد ایسے اخلاقی اصولوں پر رکھی جائے، جو انسانی معاشرتی زندگی کی آفاقی نوعیت کی عقلی تحقیقات کے ذریعے وضع کی جائیں۔ یاد رہے معاشرتی تنظیم کے عقلی اصولوں کو اکثر مذہبی روایات کے خلاف عدم اعتماد کے طور پر پیش کیا جاتا تھا‘‘۔ (سیکولرائزیشن، سوشل سائنس انسائی کلو پیڈیا،ص۷۳۷)
اسی طرح جدید مسلم دنیا کے بارے میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کا انسائیکلوپیڈیا بھی تقریباً اسی موقف کو دُہراتا ہے: ’’سیکولرزم کی اصطلاح اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ مذہبی نہیں ہے۔ اس کی بنیاد لاطینی زبان کے لفظ ’سیکولم‘ میں ہے، جس کے بنیادی معنی’نسل‘،’عمر‘ یا ’زمانہ اور دور‘ کے ہیں۔ بعد میں یہ لفظ اس مادی دنیا کے معاملات سے وابستہ ہو گیا، جو جنت کے حصول کی غرض سے کیے گئے اعمال وغیرہ سے بالکل الگ ہیں۔سیکولرزم یا سیکولرائزیشن کا عمل یورپی تاریخی تجربے سے ماخوذ ہے اور اس کا مطلب یہ تھا کہ زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں اور فکر ی سوچ کو مذہبی تعلق اور کلیسائی مداخلت سے آہستہ آہستہ بالکل آزاد کر دیا جائے‘‘۔ (اوکسفرڈ انسائی کلو پیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ، مدیر: پروفیسر جان ایل اسپوزیٹو، جلد چہارم، ص۲۰)
اوپر کے اقتباسات میں ’سیکولرزم‘ کے جو تین پہلو بیان کیے گئے ہیں، ان میں پہلے دوپہلوؤں سے اسلام ان معاملات کو مختلف اور منفردطریقے سے مخاطب کرتا ہے ۔تاہم، اس کا اصل فرق معاشرے اور ریاست کے معاملات میں مذہب کے کردار سے متعلق ہے۔ اسلام ، زندگی کو روح اور مادے، مقدس اور غیر مقدس، روحانی اور دنیاوی جیسے خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ اسلام، زندگی ’بطور ایک کُل‘ پر یقین رکھتا ہے۔یعنی سیکولر دنیا بھی اسلام سے اتنی ہی متعلق ہے جتنی روحانی دنیا۔ اسلام کے اس طرزِ عمل کا خلاصہ ایک قرآنی دعا میں اس طرح پیش کیا گیا ہے :
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَّفِي الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة ۲:۲۰۱)اے ہمارےرب!ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں بہترین چیز عطا فرما۔ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
اسلام میں یہ دنیا اور اس کے بعد کی دنیا ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں،اور وہ دونوں ایک تسلسل کی نمایندگی کرتی ہیں۔اسلام زندگی کے دنیاوی امور سے بھی اسی طرح متعلق ہے، جس طرح وہ روحانی اور اخلاقی جہات سے متعلق ہے۔یہ جہتیں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ ہرایک حصہ، دوسرے پر منحصر ہے اور دونوں ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔ اسلام، کچھ مذاہب یا مذہبی شخصیات کی طرف سے دنیوی امور کو نظر انداز کرنے کے معاملے کو ، ان کی ناکامی قرار دیتا ہے۔ اسلام نے ان سب امور کو بہت اچھے طریقے سے مخاطب کیا ہے اور ان پر قابو پایا ہے۔
اسلام بنی نوع انسان کی تکریم کرتا ہے کیوںکہ انسانوں کے مابین یہ اس کے دنیاوی عمل اور عدل و انصاف کے کردار کا بڑا دائرہ ہے۔ اس طرح یہاں ان کی مطابقت کے حصول کے لیے کسی مبینہ اور مفروضہ ’روشن خیالی‘ کی ضرورت نہیں ہے۔یہاں پورے سیکولر یا دُنیوی دائرے کو روحانی شکل دی گئی ہے۔ اسلام روحانی طول و عرض میں اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دُنیوی (سیکولر) میدانوں میں بھرپور اظہار کرتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زمین کا پورا منظر نامہ ایک مسجد کی طرح ہے ۔ اس کا محض یہی مطلب نہیں کہ کوئی شخص دنیا میں کہیں بھی عبادت یا دعا کر سکتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کے دُنیاوی یا سیکولر معاملات پوری طرح روحانی معاملات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اسلام نے بھی کثیر العقیدگی ، کثیر الثقافتی آزادی اور متنوع انتخاب کی آزادی کے اصولوں کی واضح اور دلیرانہ تصدیق کی ہے۔ یہ خلافت کے تصور کی ایک فطری شکل ہے، جس کی بنیادیں انسانی آزادی اور صواب دید کے اصول پر مبنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہر انسان کو آزادی کی نعمت عطا کی ہے کہ وہ جو بھی چاہے عقیدہ منتخب کرے اور اس پر عمل پیرا ہو: لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ (البقرہ ۲:۲۵۶)’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے‘‘۔
اسی طرح ’میثاقِ مدینہ‘ انسانی تاریخ کا پہلا دستور ہے، جس میں مسلمانوں اور مدینہ کے غیرمسلم قبائل کے درمیان سیاسی، عسکری اور اجتماعی معاملات کے خطوطِ کار طے کیے گئے ہیں، اور جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اُمور میں آخری سند (authority) تسلیم کرکے مسلمانوںاور غیرمسلموں کے باہمی حقوق و فرائض کو مرتب کیا گیا ہے۔
یہ مذہبی آزادی کا ایک میثاق ہے، جو انسان کے وقار کی توثیق پر مبنی ہے اور ہر ایک کو عقیدے کے انتخاب کی آزادی کا حق حاصل ہے ۔اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ، انسانوں کی رہنمائی کے لیے ، نازل کردہ سچا مذہب ہے، لیکن اگر کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ عقائد کے کسی دوسرے نظام کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور اسلام ان کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔
چنانچہ رواداری، اسلامی طریقۂ کار کا بنیادی عنصر ہے۔ عقائد کی کثرت کو فطری رجحان کے طور پر قبول کرنا اسلامی فریم ورک کا لازمی عنصر ہے۔ مسلمان بھی انسان ہیں اور ساڑھے چودہ سو سال پر محیط طویل تاریخ میں ، اس حوالے سے ان کے طرز عمل میں ضرور کچھ غلطیاں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اسلام بطور دین ، دیگر مذاہب اور عقائد کی آزادی کے اس بنیادی اصول کے معاملے میں بہت واضح ہے اور اس حوالے سے اصل فیصلہ اُخروی زندگی میں ہونا ہے نہ کہ اس دنیاوی زندگی میں۔ اس لیے ہرشخص کو، جس طرح اپنے اپنے عقیدے کے مطابق یقین رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا حق ہے، اور اسی طرح اس انتخاب کے نتائج کا ذمہ دار بھی وہی شخص ہوگا اور آخرت میں اس کا احتساب کیا جائے گا۔اس لیے جہاں تک اس دنیا میں انسانی تقسیم کا تعلق ہے، تو مذہبی تکثیریت اور ثقافتی بقاے باہمی کےاصول ، اسلام کے سیاسی نظم کے لازمی اجزا ہیں۔
لہٰذا، پہلی دو جہتوں کے حوالے سے اسلام اور سیکولرزم کے مابین اختلاف کے باوجود کوئی بڑا تصادم سامنے نہیں آتا۔اصل فرق تیسری جہت کے حوالے سے ہے، جہاں سیکولرزم ، مذہب اور ریاست ، ایمان اور معاشرے کو الگ الگ کرتا ہے اور اسلام کے نزدیک، انسانی زندگی کی ایسی تقسیم ، خود انسان کی فطری زندگی میں ایک رکاوٹ ہے۔ اسلام کا منہاج بنیادی طور پر ’خدا مرکز‘ (God-Centred) ہے، لیکن اس میں انسان اورخدا کے تعلق، انسان اور کائنات کے تعلق ، اور انسان اور انسان کے تعلق پر بھی بہت توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ خدائی ہدایت اس دنیا اور اگلی دنیا (آخرت) میں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے رہنمائی ہے۔ افراد اور اداروں کے درمیان، عدل و انصاف، مساوات اور ہم آہنگی کی بنیاد پر منصفانہ معاشرے کا قیام اور انسانوں کے مابین تعلقات استوار کرنے کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے، جتنی روحانی اور اخلاقی معاملات میں فضیلت کی اہمیت ہے۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق، جس کی بنیاد پر اسلام کا منہاج، سیکولرزم سے بالکل الگ ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ مسلم دنیا میں، سیکولرزم ، نو آبادیاتی حکومت کے لبادے میں چھپ کر آیا ہے۔ جب یورپی سامراجی قوتوں کی سرپرستی میں چلنے والی ، عیسائی مشنری تحریک خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی تو یورپی استعماری حکمرانوں (یعنی برطانوی، ہسپانوی،ولندیزی،فرانسیسی، پرتگیزی، جرمن وغیرہ) نے سیکولرزم کو مسلط کرنے، اور پورے خطے کی سماجی اور سیاسی زندگی میں سے مذہبی اثرورسوخ کو ختم کرنے پر توجہ دی۔ چونکہ یہ بات مسلمانوں کے عقائد اور اُمنگوں کے منافی تھی، لہٰذا مسلم معاشرہ: لبرلز اور روایت پسندوں، تبدیلی پسندوں اور مزاحمت کاروں، سیکولر اور اسلام سے محبت رکھنے والوں میں بٹ گیا۔
یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ لبرلز نے بے دریغ طاقت کے ذریعے سیکولرزم کو ان لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جو اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔یوں سیکولرزم اور استبداد لازم و ملزوم ہو گئے۔ درحقیقت کچھ مغربی مفکرین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’جمہوریت اور اسلامائزیشن ایک ساتھ چل سکتے ہیں، لیکن مسلم ممالک میں سیکولرزم کو صرف آمرانہ طرز حکمرانی کے تحت ہی مسلط کیا جا سکتا ہے‘‘۔
امریکی فلسفی ڈاکٹر فلمر ایس سی نارتھروپ [م: ۱۹۹۲ء] نے ۱۹۵۳ء کے ’کلوکیم آن اسلامک کلچر‘ میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں تسلیم کیا ہے: ’’کئی دیگر وجوہ میں سے ، میں اس وجہ پر یقین رکھتا ہوں کہ سیکولر قانون کو عام طور پر آمر کے ذریعے نافذ کرنا پڑتا ہے کہ یہ ایک عوامی تحریک سے نہیں آسکتا کیوںکہ عوام پرانی روایت سے جڑے ہوتے ہیں‘‘(پرنسٹن یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹)۔
کمال اتاترک [م:۱۹۳۸ء] کے ماتحت ترکی کی سیکولرائزیشن ،اور رضا شاہ پہلوی [م:۱۹۸۰ء] کے تحت ایران کی سیکولرائزیشن، سوئیکارنو [م:۱۹۷۰ء]کے تحت انڈونیشیا اور جمال ناصر [م:۱۹۷۰ء] کے تحت مصر کی سیکولرائزیشن اسی سفاکانہ عمل کی واضح مثالیں ہیں۔
مسلم عوام میں اخلاقی قدروں کا وجود اور عمل ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نظام سیاست و ریاست چلانے کے لیے، اسلامی احیا اورجمہوری کلچر ایک ساتھ چل سکتے ہیں لیکن مسلم ملکوں میں سیکولرزم کی حمایت کرنے والا لبرل طبقہ سب سے زیادہ استبداد پسند واقع ہوا ہے۔ ان کے برعکس اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
[مدیر کے انگریزی مضمون کا ترجمہ اور تدوین۔ ادارہ]
تاریخ قوموں کا حافظہ اور ان کے نشیب و فراز کی داستان کا آئینہ ہے۔ اس میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں، جنھیں تاریخی موڑ کہا جاتاہے۔ ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء ترکی اور عالمِ اسلام کی تاریخ میں ایسا ہی ایک موڑ ہے۔
’آیا صوفیہ‘ [Hagia Sophia: مقدس دانش] جس میں یکم جون ۱۴۵۳ء کو پہلی نمازِ جمعہ کا انعقاد ہوا تھا اور جو سلسلہ ۱۹۳۱ء میں اس وقت تک جاری رہا، جب ترکی کے نئےسیکولر حاکم مصطفےٰ کمال [م: ۱۹۳۸ء] نے ریاستی جبر کے ذریعے مسجد کو مقفل کیا، اور پھر ۱۹۳۵ء میں اسے عجائب گھر (میوزیم) بنادیا۔ اس طرح ۸۸سال تک یہ مسجد اذان اور سجدوں سے محروم رہی۔ الحمدللہ، ثم الحمدللہ ، ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء کو آیا صوفیہ کی رونق ایک بار پھر اذان، خطبے اور نماز سے بحال ہوئی اور مسجد میں اور اس کے نواح میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد نے ربِ کریم کا بہ چشم تر شکر ادا کیا، جب کہ ساری دنیا کے مسلمان عوام نے ان کی آواز سے ہم آواز ہوکر شکر اور مسرت کا اظہار کیا۔
۲۹ مئی ۱۴۵۳ء فتح قسطنطنیہ کا یادگار لمحہ ہے۔ پھر جس طرح یکم جون ۱۴۵۳ء آیا صوفیہ کے ترکی دولت ِ عثمانیہ کے روحانی قلب بننے کا یادگار دن ہے، اسی طرح ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء کے روز مسجد کی بحالی، مسلم تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ یہ ہراعتبار سے ایک عظیم ظلم کی تلافی اور مسلمانوں کے ایک بنیادی دینی اور تہذیبی حق پر دست درازی کا خاتمہ ہے۔ اسے کسی مسجد اور چرچ کے تنازعے کی شکل دینا تاریخی بددیانتی ہی نہیں، سیاسی دھوکا دہی بھی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اختصار سے اس مسئلے کی اصل حقیقت کو واضح کریں تاکہ اس تاریخی تبدیلی کو اس کے اصل پس منظر میں دیکھا اور سمجھا جاسکے۔
بازنطینی (Byzantine) دورِ حکومت میں ’آیا صوفیہ‘ بلاشبہہ ایک چرچ تھا، جو تاریخی اعتبار سے بازنطینی سلطنت کے اہم مقام کی حیثیت رکھتا تھا، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ محض ایک چرچ نہیں تھا بلکہ سیاسی اقتدار کا مرکز اور فوجی اور استعماری کارروائیوں کی فیصلہ گاہ بھی تھا۔ اس طرح بازنطینی اور یونانی آرتھوڈکس چرچ کی اصل قوت و اقتدار (seat of power) کی حیثیت رکھتا تھا۔(آیا صوفیہ کے زیرعنوان مضمون (history.com) میں لکھا ہے: ’’چونکہ یونانی آرتھوڈوکس، بازنطینی سلطنت کا سرکاری مذہب تھا، آیا صوفیہ کو اس مذہب کا مرکزی چرچ(گرجاگھر) سمجھا جاتا تھا، اوراسی لیے یہ وہ جگہ طے پاگئی تھی، جہاں نئے شہنشاہ کی رسم تاج پوشی سرانجام دی جاتی تھی۔ یہ تقریبات گرجے کے درمیانی حصے یا نافِ کلیسا میں منعقد ہوتی تھیں۔ یہ دراصل رنگارنگ پتھروں پر مشتمل سنگ مرمرسے بنا ہوا مذکورہ حصہ ہے، جو فرش میں آپس میں بل کھاتے ہوئے گندھے ہوئے گول ڈیزائن کی شکل میں ہے۔ آیا صوفیہ نے اپنے وجود کے ۹۰۰برسوں کے زیادہ تر حصے میں بازنطینی ثقافت اور سیاست میں نہایت مرکزی کردار ادا کیا ہے‘‘۔)
یہی وجہ تھی کہ سلطان محمدفاتح نے جہاں عیسائیوں اور تمام مذہبی اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور ان کے مذہبی اداروں اور عبادت گاہوں کو آزادانہ کام کا پورا پورا موقع دیا، وہیں اس سیاسی اور مذہبی مرکز کو مسجد کبیر کی حیثیت سے عثمانی حکومت کا دینی مرکز قرار دیا۔ البتہ انھوں نے یہ کام غیرمعمولی احتیاط کے ساتھ کیا۔ انھوں نے یہ اقدام سیاسی تسلط کی قوت کو قائم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی اخلاقی برتری قائم کرنے اور اسلام کی اعلیٰ روایات کا احترام کرتے ہوئے تاریخی روایات کے مطابق اپنی ذاتی دولت سے اس جگہ کی قیمت ادا کرکے خریدا، اور اسے مسجد اور عبادت، تعلیم و تحقیق اور دعوت کے لیے وقف کر دیا۔
اب مسجد کی بحالی کا جو فیصلہ ہوا ہے، وہ ترکی کی اعلیٰ ترین عدالت کے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں ہوا ہے، اور جس میں مصطفےٰ کمال اور اس کی کابینہ کے ۱۹۳۵ء کے فیصلے کو غیرقانونی اور ناجائز قرار دیا گیا ہےاور ملکی قانون کے مطابق وقف کی بحالی اور وقف کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے لیے آیا صوفیہ کو مسجد کی حیثیت سے بحال کیا گیا ہے۔
جہاں تک میں اس مسئلے کا مطالعہ اور تجزیہ کرسکا ہوں، مجھے اس امرکے اظہار میں ذرا بھی تردّد نہیں کہ قانون، اخلاق، اسلامی روایات اورعالمی تعامل، ہراعتبار سے یہ اقدام صحیح اور قابلِ فخر ہے۔ چند حقائق مختصراً عرض ہیں:
اصلاً یہ عمارت ایک Pagan (پاگان: غیرعیسائی بت پرست) قوم کی عبادت گاہ تھی جس میں بتوں اور اَرواح کی پوجا ہوتی تھی۔ عیسائی حکمران جسٹینین نے اس پاگان عبادت گاہ کو ختم کرکے یہاں پر چرچ بنایا اور پرانی عبادت گاہ کے کچھ حصوں کو اس میں شامل کرلیا۔ پھر یہ عمارت مختلف اَدوار سے گزرتی ہوئی، جس میں عیسائیت کے دو بڑے فرقوں کے درمیان اور رومن ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر کے عرصۂ تسلط میں ادل بدل ہوتا رہا ہے۔ آخرکار آیاصوفیہ بازنطینی اور یونانی آرتھوڈکس چرچ کا مرکز بنی۔ بلاشبہہ یہ عمارت فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے اور مغرب اور مشرق دونوں کے نوادرات اس کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ کہنا کسی طرح بھی صحیح نہیں کہ اوّلاً یہ ایک چرچ تھا۔ درست بات یہ ہے کہ یہ جگہ اوّلاً ایک غیرعیسائی بت خانہ تھا، جسے زبردستی چرچ بنایا گیا اور جو بالآخر بازنطینی سلطنت کا سیاسی مرکز بنا، جسے سلطان محمد فاتح نے ۲۹مئی ۱۴۵۳ء کے فاتحانہ اقدام کے ذریعے اسلامی قلمرو کا حصہ بنالیا ۔
اس پس منظرمیں چرچ کی بحالی یا چرچ کے زبردستی مسجد بنانے کے دونوں دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۴۵۳ء سے تاحال کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کبھی یورپی اقوام یا چرچ کے نمایندوں نے اس چرچ کی بحالی کا کوئی دعویٰ کیا ہو، حتیٰ کہ ۲۴جولائی کو ۱۹۲۳ء کے ’معاہدہ لوزان‘ (Treaty of Lausanne) تک میں، جس کے تحت ترکی کی موجودہ حکومت وجود میں آئی اور دولت عثمانیہ کی زمینوں اور علاقوں سے ترکی کو محروم کرکے اس کے لیے نئی اور محدود سرحدیں مقرر کی گئیں، اور غیرمسلموں اور ان کے مذہبی آثارکے سلسلے میں سخت احکامات ضبط ِ تحریر میں لائے گئے۔اس میں بھی جہاں چرچوں، کنیسہ (Synagogues)، قبرستانوں، اقلیتوں، مذہبی اور ثقافتی اداروں کے تحفظ کے بارے میں جو چار دفعات (۴۶، ۴۲، ۴۰، ۴۸) ہیں ،ان میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ گویا اسے مسجد تسلیم کیا جانا ایک بدیہی امر تھا۔
واضح رہے کہ ۱۹۱۹ء میں جب استنبول پر برطانیہ، فرانس، یونان اور اتحادی اقوام کا قبضہ تھا تو یونان کی افواج نے آیا صوفیہ میں گھسنے کی کوشش کی۔ اس پر شکست خوردہ ترک فوج اور عوام اس کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے، اور سرفروشی کی لازوال مثال پیش کرتے ہوئے انھیں اس پر قبضہ نہیں کرنے دیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جذبۂ ایمانی سے سرشار ان مجاہدین نے ایک مسجد ہی کے دفاع کے لیے قربانی دی تھی۔ اس صورتِ حال میں دوسری یورپی اقوام نے بھی یونان کو اس سے روکا اور یوں آیا صوفیہ کے مسجد بنانے کی حقیقت کو تسلیم کرلیا گیا۔ان حقائق کی روشنی میں آیاصوفیہ کے مسجد ہونے کا انکار ایک تاریخی بددیانتی اور دھوکا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عیسائی مذہب میں چرچ کی ابدی حیثیت نہیں۔ چرچ ایک خاص عمل کے ذریعے عبادت گاہ بنتا ہے اور اسے ایک خاص عمل کے ذریعے اس حیثیت سے خارج بھی کیا جاسکتا ہے۔ زمانہ حال تک صدیوں سے یہ عمل جاری ہے۔ آج بھی ہزاروں چرچ ہیں، جو فروخت ہوئے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں گذشتہ ۵۰برسوں میں سیکڑوں چرچ مسلمانوں نے خرید کر ان میں مسجد، مدرسہ اور اسلامی مراکز قائم کیے ہیں۔ اس طرح بہت سے چرچ، یہودیوں نے خرید کر سینی گاگز (کنیسہ) بنائے ہیں۔ اور حد یہ ہے کہ کئی چرچ تو جواخانے (casino)، شراب خانے، تھیٹر وغیرہ بنانے کے لیے بھی فروخت کیے گئے ہیں، جب کہ مسجد کے سلسلے میں اسلامی فقہی پوزیشن یہ ہے کہ جس جگہ ایک بار جائز طور پر مسجد بن جائے اور اس مقصد کے لیے استعمال ہو، وہ ذاتی ملکیت میں نہیں آسکتی اور اس کی خریدوفروخت کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ مسجد کی ہرصورت میں حفاظت اجتماعی ذمہ داری ہے۔ معاملے کو سمجھنے کے لیے یہ پہلو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔
اسی طرح یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آیا صوفیہ کی پندرہ سو سالہ تاریخ میں اس پر جب بھی عملاً سخت وقت آئے تو وہ خود عیسائیوں ہی کے اپنے ہاتھوں آئے ہیں ۔ تین بار اس کو آگ لگائی گئی اور بادشاہ کے قانون کے تنازعے کے دوران چرچ ہوتے ہوئے اس کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ پھر سب سے زیادہ تباہی ۱۲۰۴ء میں اس موقعے پر ہوئی جب رومن ایمپائر نے کنسٹنٹن پول پر قبضہ کیا اور چوتھے کروسیڈ (Crusade 4) کے موقعے پر، عیسائیت کے ان دونوں فرقوں کی جنگ کے بعد رومیوں کا تسلط قائم ہوا۔ اس وقت آیا صوفیہ کی بے حُرمتی اور تباہی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
مؤرخ لکھتے ہیں:
یہ محض ایک حملہ نہیں تھا۔ شہر کو تین روز تک بُری طرح لوٹ مار اور تاراج کا نشانہ بنایا گیا۔ جنگجوؤں نے آیا صوفیہ میں بھی لُوٹ مار کی۔(حوالے کے لیے دیکھیے: History of Hagia Sophia پر مضمون history.com میں، اور جیفری دوویلار دوین [م: ۱۲۱۳ء] کی کتاب On the Conquest of Constantionple میںاس تباہی اور لُوٹ مار کی تفصیل دی گئی ہے۔)
عیسائی مؤرخین نے جو تفصیلات لکھی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آیا صوفیہ چرچ میں قتل و غارت گری، عمارت کو نقصان پہنچانے، پادریوں کا خون بہانے اور قیمتی چیزوں کو لوٹ لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔جو بے حُرمتی خود عیسائیوں نے اپنے چرچ کی کی، اس کی مثال نہیں ملتی۔
اس کے مقابلے میں جب سلطان محمدفاتح نے آیا صوفیہ میں قدم رکھا، تو اس نے اس جگہ سے خاک اُٹھا کر اپنے عمامے اور کپڑوں پہ ڈالی، عاجزی کے ساتھ عمارت میں داخل ہوا۔ عمارت میں جن لوگوں نے پناہ لی ہوئی تھی، انھیں عام معافی دی اور وہی الفاظ استعمال کیے جو فتح مکہ کے وقت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے، یعنی لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۰ۭ (یوسف ۱۲:۹۲)، آج کے دن تم پر بازپُرس نہیں۔ پھر آیا صوفیہ کی مذہبی نسبت سے احترام کا رشتہ قائم کیا اور اپنی جیب سے قیمت ادا کرکے اسے حاصل کیا۔ ساتھ ہی نہ صرف دوسرے چرچوں کو تحفظ دیا بلکہ شہر کے دوسرے بڑے چرچ، ’کلیسائے حواریاں‘ کو یونانی اور آرتھوڈکس فرقے کا مرکزی چرچ بنانے کا موقع دیا، جو آج تک قائم ہے۔ آج اس وقت بھی ترکی میں ۴۳۵ چرچ پوری آن بان کے ساتھ موجود ہیں حالانکہ عیسائیوں کی تعداد آبادی میں صرف ۰ء۲ فی صد ہے۔
ہمیں یہ اعتراف ہے کہ مسلمانوں سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہردور میں مسلم دنیا میں غیرمسلموں کو جو تحفظ، عزت اور انصاف حاصل رہا اس کی کوئی مثال دوسری تہذیبوں میں نہیں ملتی۔ ایڈورڈگبن [م:۱۷۹۰ء]کی کتاب The History of the Decline and Fall of the Roman Empire، ٹی ڈبلیو آرنلڈ [م:۱۹۳۰ء]کی شہرئہ آفاق کتاب The Spread of Islam in the World اور جوزف آرنلڈ ٹائن بی [م:۱۹۷۵ء]کی تحریریں اس کا ثبوت ہیں۔(اسرائیلی مؤرخ اوڈ پیری اعتراف کرتا ہے: ’’مسلمانوں کی فتح کے چارسوسال بعد یروشلم کا مضافات عیسائی اور عیسائی مذہبی عمارتوں سے بھرپور تھا‘‘۔ پھر دی واشنگٹن پوسٹ (۲۵ جولائی ۲۰۲۰ء) برملا لکھتا ہے:مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف یونانیوں کو مکمل تحفظ دیا بلکہ آرمینی عیسائیوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ استنبول میں عیسائیت کے آثار کی تعمیرنو کرسکیں۔ اسی طرح جلد ہی ہسپانیہ کے یہودیوں کو خوش آمدید کہا، جنھیں کیتھولک عیسائیوں کے مظالم کا سامنا تھا۔)
۲۴جولائی ۲۰۲۰ء میں آیا صوفیہ سے دوبارہ مسجد کبیر بننے کے عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس امر کا پورا پورا ادراک کیا جائے کہ اصل ظلم تو مصطفےٰ کمال پاشا کے ہاتھوں ہوا تھا جس نے محض مغربی اقوام کو خوش کرنے اور اپنے زعم میں ترکی کو ماڈرن بنانے کے لیے جبر اور قوت کے ذریعے ترک قوم پر سیکولرزم کو مسلط کیا اور قوم کو اس کے اسلامی ماضی سے کاٹنے کی ظالمانہ، قبیح اور تباہ کن کوشش کی، لیکن اس فسطائیت کو ترک قوم نے کبھی قبول نہ کیا اور ہرموقع ملتے ہی، اس سے نجات کی کوشش کی، اور الحمدللہ کامیاب رہی۔
مصطفےٰ کمال ایک کامیاب فوجی کمانڈر تھا اور اس کی قیادت میں ترکی نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی، جس کے باعث اسے قوم نے بجا طور پر ہیرو کا مقام دیا، مگر اس کے ساتھ یہ افسوس ناک حقیقت بھی ہے کہ مصطفےٰ کمال نے اپنی حیثیت کا غلط استعمال کرتے ہوئے، نہ صرف عثمانیہ خلافت کا خاتمہ کیا بلکہ مغرب سے دوستی کے سراب کے تعاقب میں دین اسلام کے شعائر کو بھی پامال کیا۔ عربی زبان اور رسم الخط کو نہ صرف ختم کیا بلکہ عربی زبان میں اذان تک پر پابندی لگا دی۔ مسجدوں اور مدارس کو بند کردیا، دینی تعلیم کو ختم کردیا۔ عربی میں کتب کی اشاعت پر پابندی لگا دی، لباس کو تبدیل کیا اور جبراً قوم کو مغربی لباس پہننے پر مجبور کیا۔ عورتوں کے حجاب پر پابندی لگا دی۔ علما کو جیلوں میں ڈال دیا اور پھر آیاصوفیہ جو اسلام کا سمبل تھی، اسے پہلے بند رکھا۔اس کے قیمتی قالین کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا اور ایک مینار کو بھی شہید کر دیا گیا۔ پھر اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ یہ سارا کام فوجی قوت کے ذریعے کیا گیا۔ پھر فوج ہی مصطفےٰ کمال کی قیادت میں اصل حکمران قوت بن گئی۔ نیز فوج کو بھی مکمل طور پر سیکولرزم کے رنگ میں رنگ دیااور سرکاری مداخلت کے ذریعے زندگی کے ہرشعبے سے اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کو خارج کیا گیا۔
۱۹۳۰ء کے عشرے کے وسط میں اس زعم میں کہ ’’ترک عوام اپنی دینی شناخت میں کمزور ہوکر سیکولر فکروعمل میں ڈھل گئے ہوں گے‘‘ ایک انتخاب منعقد کیا گیا، لیکن اس کے نتیجے کو بھی تسلیم نہ کیا گیا، جس کی تفصیل خود مصطفےٰ کمال کے سوانح نگار ایچ سی آرم سٹرانگ نے Grey Wolf نامی کتاب [۱۹۳۷ء] میں دی ہے۔ اس طرح فوجی آمریت کا سلسلہ ۱۹۵۰ء تک جاری رہا۔ مصطفےٰ کمال کا انتقال ۱۹۳۸ء میں ہوا، لیکن اس کی پارٹی عصمت انونو [م: ۱۹۷۳ء]کی قیادت میں اسلام دشمنی اور سیکولرزم کی جبری ترویج پر عمل پیرا رہی۔البتہ پہلے ہی آزاد انتخاب میں عوام نے برسرِ اقتدار پارٹی کو شکست دی اور اس کے بعد آج تک وہ کبھی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ عوام نے اس پہلے انتخاب میں عدنان میندرس اور اس کی پارٹی کو قیادت سونپی، جس نے ۱۸سال کے بعداذان کو عربی زبان میں جاری کیا تو ترک عوام اذان کی اس آواز پر، جہاںوہ موجود تھے سجدے میں گر گئے۔ البتہ عدنان میندرس کو ان ’جرائم‘ کی یہ سزا ضرور ملی کہ ۱۹۶۰ء کے فوجی انقلاب کے بعد ان کو سزاے موت دی گئی اور اس طرح وہ ۱۷ستمبر۱۹۶۱ء کو شہادت سے سرفراز ہوئے۔ ترک عوام بلاشبہہ آج بھی جنگ ِ آزادی میں مصطفےٰ کمال کے کردار پر نازاں ہیں، لیکن اس کے سیکولرزم کو آہستہ آہستہ ترک کر رہے ہیں اور خصوصیت سے نجم الدین اربکان [م:۲۰۱۱ء] اور طیب اردگان کی قیادت میں جو سیاسی اور نظریاتی تحریک برپا ہوئی ہے، اس کے نتیجے میں آج الحمدللہ آیا صوفیہ دوبارہ مسجد بن گئی ہے۔ اس اقدام میں طیب اردگان اور ان کی پارٹی کا کردار مثالی اور قائدانہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ترک قوم کی عظیم اکثریت کی ان کو تائید حاصل ہے۔
اکانومسٹ،لندن میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ترک عوام کے ۷۳ فی صد نے اس اقدام کی تائید کی ہے۔ ترکی کی کم از کم دو سیکولر پارٹیوں نے کھل کر اس کی تائید کی ہے۔ اسی طرح عالم اسلام میں عوامی سطح پر عظیم اکثریت اس تبدیلی کا خیرمقدم کررہی ہے۔ خاموشی یا ملفوف ناپسندیدگی کا اظہار چند عرب ممالک کی قیادتوں کی طرف سے بھی ہے، لیکن اصل مخالفت کی آوازیں مغربی دنیا سے اُٹھ رہی ہیں، جو ترکی اور خصوصیت سے طیب اردگان کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ اسی طرح عیسائی قیادتیں اسے مسجد اورچرچ کا تنازعہ بنا کر پیش کر رہی ہیں، جس میں کوئی صداقت نہیں۔ کچھ مسلمان لبرل دانش وَر بھی اپنے اضطراب کا اظہار کر رہے ہیں، اور دور از کار خدشات اور خودساختہ ’اخلاقی مصالح‘ پر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ روس، یونان اور امریکا کی سیاسی قیادت اور یونیسکو نے بھی تنقید کے تیر چلائے ہیں۔
اگر انصاف سے دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان اعتراضات میں کوئی جان نہیں۔ آیا صوفیہ کا بطور مسجد احیا قانونی، اخلاقی، سیاسی اور سماجی، ہراعتبار سے مبنی برحق ہے اور اس سلسلے میں خود ترکی کی عدالت کے فیصلے میں قانونی نکات کے ساتھ یہ واضح کر دیا گیا ہے اور اس کی عالمی حیثیت اور زائرین کے لیے کھلا ہونا ایک مسلّمہ حقیقت ہے اور رہے گی۔ کسی کے لیے دروازے بند نہیں کیے جارہے اور کسی دوسرے مذہب یا تہذیب کے آثار کو مٹایا نہیں جارہا۔ نہ ایسا ماضی میں ہوا اور نہ آج ہوگا۔ آیا صوفیہ کے مذہبی نوادرات کبھی مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ نہیں ہوئے ہیں۔ عثمانی حکمرانوں نے توان کے نقش و نگار اور تصاویر تک کو بھی برباد نہیں کیا کہ جن کا ایک مسجد میں وجود درست نہیں۔ صرف ان پر پلاسٹر لگا کر نظر سے اوجھل کر دیا ہے۔ آیا صوفیہ کی اگر کسی نے بے حُرمتی کی ہے، تو وہ خود عیسائی دور کے مقتدرافراد تھے۔
بی بی سی کے ایک مقالہ نگار نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا:
صدیوں تک رومن کیتھولک دنیا اور بازنطینی سلطنت کےدرمیان مذہب کی بنیاد پر تنازع رہا ہے۔ ۱۲۰۴ء میں جب یورپی حملہ آوروں نے شہر پر دھاوا بول دیا تو مسیحیت کے مشرقی اور مغربی گروہوں کے درمیان جنگ نے شہر کو تاراج کر دیا۔ انتہائی اہم تاریخی نوادرات اس جنگ کی وجہ سے ضائع ہوگئے، جن میں [مبینہ طور پر] حضرت عیسٰیؑ کے روضے کا پتھر، وہ نیزا جو حضرت عیسٰی ؑ کے جسم میں پیوست ہوا تھا، حضرت عیسٰیؑ کا کفن، جو اصلی صلیب تھی اس کے کچھ ٹکڑے، سینٹ تھامس کی مشتبہ انگلی، اور ہڈیاں شامل تھیں۔ آیا صوفیہ ایک کیتھولک چرچ توبہت کم عرصے کے لیے رہا، لیکن حملہ آوروں کی کارروائیوں کے نتائج دُور رس اور گہرے تھے، جو مشرق میں مسیحیت کی تباہی کے براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ (بی بی سی اُردو، آیا صوفیہ، ۱۳جولائی ۲۰۲۰ء)
صدر طیب اردگان ، عدالت کے فیصلے اور ترکی کے اسلامی اُمور کے شعبے کے ڈائرکٹر نے صاف الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ تاریخی آثار کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، ان کو محفوظ رکھا جائے گا اور آیاصوفیہ ترکی کی دوسری مساجد کی طرح دنیا کے تمام انسانوں اور تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے کھلی رہے گی۔
یونیسکو اور دوسرے اداروں نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے، وہ زیادہ تر خود ان کے اپنے دہرے معیار کے ترجمان ہیں۔ عثمانی حکمرانوں کا تاریخی کردار رواداری اور بقاے باہمی (co-existance) کا رہا ہے اور ان شاء اللہ رہے گا۔
البتہ جو ادارے اور مغربی حکمران سوالیہ نشان اُٹھا رہے ہیں، ان کے اپنے کردار پر اگر نظر ڈالی جائے تو بڑی تکلیف دہ اور ناخوش گوار صورتِ حال نظر آتی ہے۔ ان تمام ممالک میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک برتا جارہا ہے، اس کا نہ کوئی حساب دے رہا ہے اور نہ کوئی اس کا مداوا کر رہا ہے۔ مساجد پر حملے اور مساجد کے قیام میں دشواریاں بے حدوحساب ہیں۔
حد یہ ہے کہ ریاست ہاے متحدہ امریکا کی ۲۸ ریاستیں ایسی ہیں، جن میں صوبائی سطح پر یہ متعصبانہ قانون سازی کی گئی ہے کہ مسلمان اپنے معاملات میں بھی شریعت اسلامی کے مطابق معاملات طے نہیں کرسکتے۔ فرانس، ہالینڈ اور کئی یورپی ممالک میں مسلمان خواتین کے لیے نقاب کا استعمال، حتیٰ کہ کچھ مقامات پر حجاب کا استعمال بھی قانونی طور پرممنوع ہے۔ جب کہ آزادی راے کے ان دعوے داروں کا حال یہ ہے کہ پوری مغربی دنیا میں تاریخی حقائق کی بنیاد پر بھی جرمنی میں یہودیوں کے ’قتل عام‘ (ہولوکاسٹ) کا انکار، حتیٰ کہ اس میں مارے جانے والوں کی تعداد کو چیلنج کرنا بھی قانونی جرم قرار دیتی ہے اور کئی سال کی حراست کا مستحق بنا دیتی ہے۔ آج پوری مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا کے تاریک سایے ہرطرف پھیلے نظرآرہے ہیں۔
دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ بظاہر مغربی دنیا سب کی آزادی اور حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی کے خلاف جنگ کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن مسلمانوں کے ساتھ اس کا معاملہ بڑا ہی مختلف ہے۔ دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے، خواہ و ہ فلسطین ہو یا کشمیر، میانمار ہو یا سنکیانگ، بوسنیا ہو یا کوسوو، سربیا ہو یا چیچنیا۔ اسی طرح فرانس ہو یا اسرائیل، بھارت ہو یا سری لنکا، ان کی زبانیں بند رہتی ہیں۔ دوغلاپن اور ریاکاری (hypocrisy) ان کا شعار ہے۔ اتنے داغ دار دامن کے ساتھ محض ان خیالی اندیشوں پر واویلا کہ آیاصوفیہ کے مسجد بننے سے ترکی میں عیسائیوں پر آسمان ٹوٹ پڑے گا، صریح دھوکا نہیں تو کیا ہے:
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ملّتِ اسلامیہ کے احیا کی طرف پیش رفت
مسئلے کاایک اور پہلو جس کی طرف ہم متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ترک عوام نے کبھی دولت ِ عثمانیہ کے اپنے تابناک ماضی سے تعلق کو منقطع نہیں کیا۔مصطفےٰ کمال اور مغرب کے پرستار عناصر کی ہرزیادتی پر وہ اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہے ہیں، اور دین اسلام، اسلامی روایات اور اسلامی شعائر کے تحفظ میں انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تحریک ِ خلافت کی شکل میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے جس طرح دولت عثمانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ اس کا نفش ان کے دل و دماغ پر آج بھی قائم ہے۔ جو مالی اعانت برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے کی تھی اس کے لیے ممنونیت وہ آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ خلافت کے خاتمے کے بعد اس رقم سے انھوں نے ایک بنک قائم کیا جو آج تک کام کر رہا ہے۔ پاکستانی عوام کا دل سے احترام اگر کسی ملک میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے تو وہ ترکی ہے۔ مجھے خود یہ تجربہ باربار ہوا ہے کہ ہوٹل تک یہ جاننے کے بعد کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں، ہوٹل والوں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور ’مہمان مہمان‘ کہہ کر ہمارا شکریہ ادا کیا۔ آیا صوفیہ کو مسجد بنانا ان کے دل کی آرزو تھی، اور جس کا اظہار ہرسطح پر کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ضیا گوک الپ [م:۱۹۲۴ء] جو مصطفےٰ کمال کا پسندیدہ شاعر اور اس کا موید تھا آیا صوفیہ کے باب میں اپنے اضطراب کا اظہار کرتا رہا۔ اسی کے اشعار پڑھنے پر طیب اردگان کو ۱۹۹۷ء میں گرفتار کیا گیا تھا:
The Mosques are our barracks,
The Domes are our helmets,
The Minarets are our bayonets,
And the faithful are our soldiers
مسجدیں ہماری بیرکیں ہیں اور گنبد ہمارے زرئہ سَر ہیں۔
مینار ہمارے نیزے ہیں اور صاحب ِ ایمان ہمارے سپاہی ہیں۔
آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت سے بحالی مسلمانوں کی آرزو، دُعا اور کوشش تھی۔ اس کا عجائب گھر ہونا ان کے دل پر زخم کی حیثیت رکھتا تھا، جس کا اظہار ہرسطح پر کیا جاتا تھا۔بڑےواشگاف الفاظ میں مسجد کی بحالی کے موقعے پر جمعہ کے خطبے میں امام نے ا ن الفاظ میں کیا کہ ’’آج ہمارا برسوں کا دُکھ ختم ہوا، جو ہماری تذلیل ہوئی تھی اس کا خاتمہ ہوا اور اللہ کا کلمہ بلند ہوا‘‘۔ صرف طیب اردوگان ہی نہیں، ترک شعرا اور دانش وَروں نے بھی اس پورے عرصے میں اپنے دُکھ اور مسجد کی بحالی کے عزم کا اعادہ کیا اور اس کا سب سے مؤثر اظہار ایک چوٹی کے شاعر نجپ فاضل کیساکورک نے ۲۹ستمبر ۱۹۶۵ء آیاصوفیہ ہی میں ایک کانفرنس کے دوران کیا کہ سیکولرقیادت نے آیا صوفیہ کو عجائب گھر بناکر ترکی کی خودمختاری کو بدترین حد تک مجروح کیا ہے اور اپنی روح کو مغرب کی جدت پسندی کے قدموں پر ڈال دیا تھا۔ یہ ترکی قوم کی تذلیل کی انتہا تھی:
لادینی جمہوریہ نے ترکی کی خودمختاری کوبُری طرح مجروح کیاہے: جس نے اس کی روح کو مغربی جدیدیت پسندی کی خاطر فروخت کردیاہے۔آیا صوفیہ کی حیثیت کی تبدیلی اس تذلیل کی علامت ہے۔(دی نیو یارک ٹائمز، ۱۴جولائی ۲۰۲۰ء)
اس نے طنزاً کہا تھا کہ مسجد کو عجائب گھر بنانا ترکوں کی روح کو میوزیم میں نظربند کرنا تھا:
آیا صوفیہ کی عمارت کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ، ترکوں کی حقیقی روح کو ایک عجائب گھر میں قید کر دینے کے مترادف تھا۔(ایضاً)
اس نے مزید کہا کہ:
مغربی دنیا نے ہمارے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جو کچھ ظلم کیا ہے،وہ نہ صلیبی حملہ آور اور روسی کمیونسٹ کرسکے، نہ کیتھولک عیسائی اور یونانی حملہ آوروں نے وہ ظلم کیا۔(ایضاً)
اسی نے ۱۹۶۵ء میں آیا صوفیہ میں کھڑے ہوکر یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ایک دن یہ پھر مسجد بنے گی اور ہماری قیدی روح آزاد ہوگی۔
طیب اردگان نے تاریخی عمل کے مکمل ادراک کے ساتھ اس کا افتتاح ۲۴جولائی ۲۰۲۰ء کو کیا، جو ’لوزان معاہدے‘ کی ۹۷ویں سالگرہ تھی۔ یہ ہے ترک قوم کا جواب اور ملت اسلامیہ کے احیا کا ایک منظر! مغربی اقوام ،اداروں اور عیسائی دنیا کی قیادت کے اضطراب کو اس پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔
ترکی میں ہی نہیں، پوری دنیا میں اسلام اور مغرب کے سامراجی نظام کے درمیان کش مکش ہے۔ مغربی دنیا میں جس طرح اسلام کو ہدف بنایا جارہا ہے اور اسے ایک خطرہ بلکہ اصل خطرے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ کسی کے حق میں بھی نہیں۔ بلاشبہہ اسلام کا اپنا تہذیبی اور سیاسی نظام ہے اور مسلم اُمت فطری طور پر اس نظام کو قائم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ہم تہذیبوں کے تصادم کے فلسفے کو ایک شیطانی فلسفہ سمجھتے ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان صحت مند مسابقت، تعاون اور مکالمہ ہی فطری راستہ ہے۔اختلاف، تنوع کا مظہر ہے، تصادم کا پیش خیمہ نہیں۔ ترکی کا موجودہ اقدام ماضی کی ایک عظیم تاریخی غلطی اور جبری اقدام کی اصلاح ہے، کسی کے خلاف کوئی سازش اور جبری اقدام نہیں۔
ہم ان گزارشات کو صدرطیب اردگان کے ان الفاظ پر ختم کرتے ہیں جو انھوں نے آیاصوفیہ کے مسجد کے طور پر آغازِ نو کے موقعے پر کہے:
ہم آیا صوفیہ کو اس کی اصل بنیادوں کے مطابق استوار کر رہے ہیں اور اپنے بزرگوں کے ثقافتی ورثے کو مکمل طور پر محفوظ رکھیں گے۔ ہم نے آیا صوفیہ کو ایک نہایت غلط فیصلے کے تحت ایک عجائب گھر بنایا اور اب ہم اسے بجا طور پر دوبارہ مسجد بنا رہے ہیں، لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آیا صوفیہ ایک چرچ سے مسجد نہیں بنائی جارہی بلکہ ایک عجائب گھر سے مسجد بنائی جارہی ہے۔ کسی کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے پورے ثقافتی ورثے کی حفاظت کریں گے۔
امریکا میں نسل پرستی کے تناظر میں ہونے والے حالیہ واقعات ، احتجاج اور فسادات نے عالمی سطح پر بعض ایسے مباحث اور عملی مسائل کو مزید تازہ کر دیا ہے جن پر وقتی، معاشی ،معاشرتی اور صحت سے وابستہ مسائل کی بنا پر ہمارے اذہان کم توجہ دیتے ہیں۔
ان مسائل میں سب سے نمایاں مسئلہ اس نظریاتی اور اصولی تقابل کا ابھر کر آنا ہے، جو اُمت مسلمہ اور تحریکات اسلامی کی اساس ہے۔ قرآن کریم نے اسلام کو بطور دینِ حق پیش کیا ہے جس کا ہدف شہادتِ حق ، قیامِ عدل و توازن اورحقوقِ انسانی کا تحفظ ہے ۔وہ نسل پرستی، اوہام پرستی، وطن پرستی، مادیت اور مالی منفعت کے بتوں کو پاش پاش کر کےایک اعلیٰ اور جامع ا خلاقی تصورِ حیات فراہم کرتا ہے جس میں افراد کی زندگی کا محور اصول اور اقدار ہیں نہ کہ شخصیات،گروہ یا محض مادی و سماجی مفادات۔ وہ کسی شخصیت کو تذلیل کا نشانہ نہیں بناتا، حتیٰ کہ مشرکین کے بتوں کو بھی بُرے ناموں سے پکارنے کی ممانعت کرتا ہے لیکن شرک، ظلم ، طغیان، فساد ، حقوقِ انسانی کی پامالی کے خلاف اعلان جہاد کرتا ہے اور اس جدوجہد کے لیے مال اور جان کی قربانی کو عبادت قرار دیتا ہے۔ اس ضمن میں وہ ایک جانب شرک اور استحصالی نظام کی بنیادی فکر پر کاری ضرب لگاتا ہے، اور دوسری جانب مثبت اور تعمیری رویہ اختیار کرتے ہوئے انسانی فوز و فلاح اور کامیابی کے لیے عدل و توازن پر مبنی معاشرتی، معاشی، سیاسی، دفاعی، ثقافتی اور تعلیمی انقلاب کے لیے بنیادی ہدایات اور رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
اُمت مسلمہ اور اسلامی تحریکات کا اصل کام یہی ہے کہ وہ ایک تہذیبی، اصولی اور نظریاتی پس منظر میں قرآن و سنت کے موقف کو عصری زبان میں پیش کریں تاکہ اُمت مسلمہ اجتماعی طور پر زندگی کے اس متبادل نظام کو قائم کرسکے۔ یہ تحریکات اسلامی معروف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے مختلف ایک ایسے نظم کا نام ہے، جو جزوی اور وقتی مسائل کے مقابلے میں نظام کی اصلاح اور تبدیلیِ نظام کو اوّلیت دیتا ہے ۔اس کا مقصد اقتدار پر کسی نہ کسی طرح قابض ہونا نہیں بلکہ پورے معاشرے اور پورے انسان کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظام میں اخلاقی انقلاب برپا کرنا ہے، تاکہ ریاستی اعضا، ریاستی تصور کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں اور زندگی کے ہر شعبے میں توازن پیدا ہو سکے۔
اس حوالے سے اگر آج کی دنیا پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی واضح نشانیاں اور آیات آنکھوں کے سامنے آرہی ہیں، جو دین اسلام کی سچائی ،انسانوں کے لیے اس کی ضرورت، اور اسلام کے دیے ہوئے انسانی حقوق کے تصور اور تعلیمات کی صداقت میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں ۔ اب ابلاغ عامہ کے ذرائع کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی پس پردہ نسل پرستی اور منافرت کو مکمل طور پر چھپا سکیں۔ کسی کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ امریکا اور یورپ میں ہونے والے حالیہ واقعات سے صرفِ نظر کر سکے۔ امریکا میں افریقی النسل امریکیوں اور اقلیتی طبقات کے ساتھ جو تعصب معاشرے میں پایا جاتا ہے، اس کی ایک تازہ مثال ۴۶ سالہ جارج فلوئیڈکا سفیدفام امریکی پولیس افسر کے ہاتھوں سفاکانہ قتل ہے، جو پورے امریکا میں نسلی ٹکراؤ اور نسل پرستی کے خلاف ایک مہم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ واشنگٹن میں سرمایہ دارانہ نظام جس کی تعمیر میں افریقی مسلم ممالک سے لائے ہوئے مظلوم انسانوں کا کردار سفیدفام افراد سے کہیں زیادہ ہے، وہ نظام آج سیّد مودودیؒ کی پیش گوئی کے مطابق لرزہ براندام ہے۔
امریکی صدر کی شخصیت انتہائی متنازعہ بن چکی ہے اور اس پر سفید نسل کی حمایت حاصل کرنے اور ان کے ووٹ کی قوت کی بنا پر نسل پرستی اختیارکرنے کے الزامات زبان زدِ خاص و عام ہیں ۔ اس نسلی منافرت نے سفید نسل پرستی کے بت کی بنیادوں کو متزلزل کر دیا ہے اور خود سفید نسل کے افراد کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد امریکا اور یورپ کی یونی ورسٹیوں، تجارتی مراکز اور سیاسی محاذوں پر اپنے ضمیر کی آواز پر کھلم کھلا موجودہ سرمایہ دارانہ اور نسل پرستی پر مبنی نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
یورپ میں تازہ ترین واقعہ برطانیہ کی ۹۰۰سالہ پرانی یونی ورسٹی اوکسفرڈ کے احاطے میں نصب سیسل رہوڈس کے مجسمے کے خلاف مظاہرہ اور مطالبہ ہے کہ اسے یونی ورسٹی کی حدود سے اکھاڑ کر کہیں اور لے جایا جائے۔ اس سے قبل بھی بعض ایسے مجسموں کو، جو نوآبادیاتی غلامانہ نظام سے وابستہ قائدین کے تھے، عوام نے اپنی قوت استعمال کرتے ہوئے اکھاڑ کر سمندر برد کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ سیسل رہوڈس وہ شخص تھا، جس نےجنوبی افریقہ میں برطانوی سامراجیت کو نسل پرستی کی بنیاد پر قائم کیا اور جسے اس کی اس خدمت کے نتیجے میں قومی ہیرو قرار دیا گیا ۔اس کے نام سے تعلیمی وظیفہ جاری کیا گیا اور اس کے مجسمے کو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں نمایاں مقام پر نصب کیا گیا ۔اس دانش گاہ میں تعلیم پا نے والے طلبہ و طالبات دو سو سال سے اس بت کو تقدس کی نگاہ سے دیکھتے چلے آرہے تھے، لیکن آج وہ ’مقدس‘ بت، انھی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔ یونی ورسٹی کےبورڈ آف گورنرز نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسے یونی ورسٹی کی حدود سے بے دخل کر دیا جائے۔ تاہم، اس کو کون سی جگہ فراہم کی جائے، یہ ابھی تک فیصلہ نہیں ہوسکا۔ اس پر یونی ورسٹی کی اعلیٰ انتظامیہ میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض کاخیال ہے کہ یہ بت ان کی تاریخ کا حصہ ہے، اسے چھپانے سے تاریخ نہیں بدل جائے گی۔ ماضی کے تذکرۂ عبرت کے طور پر اسے نظروں سے محو نہ کیا جائے تاکہ یہ زندہ عبرت کا نمونہ بنارہے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ ایسے بت جو نسلی منافرت کی علامت ہوں، اس قابل نہیں کہ ان کے وجود تک کو برداشت کیا جائے ۔
اس تناظر میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کی وائس چانسلر کا بی بی سی کے ساتھ انٹرویو لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔ لوئیس رچرڈ سن بت کو ہٹانے کے حق میں نہیں تھیں ، ان کا کہنا تھا کہ: ’’اپنی تاریخ کو چھپانا روشن خیالی کے لیے صحیح راہ نہیں ہے‘‘۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ :’’آٹھ سو سال تک جن لوگوں نے یونی ورسٹی کو چلایا، وہ عورتوں کو تعلیم دینے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ کیا ہمیں ان لوگوں کی کھلے عام مذمت کرنی چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ وہ غلط تھے، لیکن ان کے بارے میں کوئی راے قائم کرتے ہوئے ان کے زمانے کو پیش نظررکھنا چاہیے‘‘۔
گویا یونی ورسٹی کی سربراہ کی حیثیت سے ان کی ذاتی راے یہ تھی کہ مجسمے کو ہٹانے سے فرق نہیں پڑے گا، جب تک ماضی کے حالات کے تناظر میں کیے گئے اقدامات کا تنقیدی جائزہ لے کر یہ طے نہ کیا جائے کہ رہوڈس کا سامراجیت کو قائم کرنا درست تھا یا غلط؟معروضی طور پر خاتون وائس چانسلر کی بات میں وزن ہے کہ بجائے تاریخ کے تاریک واقعات کو کتب و مصادر سے خارج کردیا جائے،ان پر تاریخی تناظر میں غور کرنے کے بعد ان کے خلاف یا حق میں فیصلہ کرنا زیادہ دانش مندانہ رویہ ہوگا۔شاید یہی سبب ہو کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو پانی میں گم کرنے کے بجائے اسے قیامت تک کے لیے ہر ظالم و جابر کے لیے نشانۂ عبرت بنا دیا۔
اُدھر امریکا کے بعض شہروں میں، جہاں سیکڑوں برس سے کولمبس کے مجسّمے نصب تھے، انھیں توڑدیایا گرا دیا گیا ہے، کیوں کہ کولمبس، افریقہ سے مظلوم حبشیوں کو پکڑ پکڑ کرلایا اور اس نے غلاموں کی تجارت کو فروغ دیا۔ اس کا کردار غیراخلاقی ، غیرانسانی اور قابلِ نفرت تھا۔
اسلامی تحریک کے لیے لائحہ عمل
بہرصورت حالیہ منافرت کے خلاف احتجاج نے مغربی تہذیب و ثقافت اور مغربی سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے اصلی چہرے کو اقوام عالم کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اُمت مسلمہ اور خصوصیت سے تحریک اسلامی اس کے مضمرات پر غور کرے اور دعوتی نقطۂ نظر سے راہِ عمل کو واضح اور مدلل انداز میں پیش کرے ۔
l پہلی بات یہ ہے کہ شاخِ نازک پر بننے والے اس سرمایہ د ارانہ نظام اور سامراجیت کی ناپایداری کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ وہ اپنے خنجر سے اپنے ہاتھوں خود کشی پر آمادہ ہوجائے!یہی وہ دعوتی مرحلہ ہے جس میں اسلامی نظامِ حیات کے خدوخال عصری زبان میں اور براہِ راست پیش کرنے کے لیے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے ۔ علمی سطح پر اعدادو شمار اور زمینی حقائق کے تجزیے کے ساتھ یہ بات نوجوانوں کے ذہنوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ امریکا ہو یا یورپ، ان کا استحصالی نظام ان کے اپنے عوام کو جن میں سفید و سیاہ، سب شامل ہیں، عدل، عزّت، وقار، تحفظ اور سکون و اطمینان فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے ۔اس نظام کےامریکی علَم برداران اپنے مفادات کے پیش نظر ’انفرادی آزادی‘ کے نعرے کا استعمال مستقل طور پر اڑھائی دوسو سال سے کر رہے ہیں کہ شہریوں کو اپنے تحفظ کے لیے ذاتی طور پر اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کے حق کو اسلحہ بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں کا بازارگرم رکھنے کے لیے برقرار رکھا جائے۔ جس کا ایک مفہوم یہ ہوگا کہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی ریاستی ذمہ داری محض کاغذ پر ہو اور لوگ ڈاکو ، چور ، قاتلوں سے بچنے کے لیے اپنا دفاع اپنے ذاتی اسلحے سے کریں۔ یہ اس لیے کہ امریکا میں اسلحہ سازی اور بندوق کلب سیاسی طور پر اتنے طاقت ور ہیں کہ قانون ساز ادارے ان کے سامنے بے بس ہیں۔
l دوسری بات یہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ انسانوں میں بعض فطری بنیادی رجحانات دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ایک متعفن معاشرے میں پیدا ہونے ،پلنے بڑھنے کے باوجود بہت سے کھلے ذہن ایسے موجود ہیں، جو کھلے ظلم کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کے لیے سڑکوں پر آنے میں تردد نہیں کرتے ۔ یہی وہ ارواح ہیں جن تک تحریک کی دعوت اگر اس حوالے سے پیش کی جائے کہ اسلام کس طرح منافرت اور نسل پرستی کے بت کو، جو چاہے پتھر کے مجسموں کی شکل میں ہر چوک پر نصب ہو ں یا جو انسانوں کے ذہن ، قلب بلکہ خون میں گردش کر رہے ہوں، انھیں چُن چُن کر پاش پاش کرتا ہے اور تمام انسانوں کو ان کے حقیقی خالق و مالک کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سامراجیت و نوآبادیت کی تاریخ اور اس کے اصل چہرے کو اس کے اپنے مآخذ کی بنیاد پر پیش کرتے ہوئے اسلام کی حیثیت وکردار کو واضح کیا جائے ۔
lتیسری بات یہ ہے کہ اگر مغرب میں ہونے والے اس ردعمل کا تجزیہ کیا جائے تو دو الفاظ کثرت سے استعمال کیے جارہے ہیں، ایک ’افریقی سیاہ نسل کے ساتھ تفریق‘ اور دوسری Diversity یا’تنوع کو خطرہ‘ ۔ ان دونوں اصطلاحات کے استعمال کے اندر خود ایسا زہر چھپا ہوا ہے، جو ان کی ظاہری معصومیت سے بالکل واضح نہیں ہوتا۔ یورپ و امریکا کے معاشرے میںتعلیم، معیشت اور مذہب کی جڑیں آج تک نسلی تعصب سے آزاد نہیں ہو سکیں ۔ مغرب کے لادینی جمہوری نظام میں افریقی النسل امریکیوں کو دستوری طور پر تو ووٹ کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنا ووٹ جسے چاہے دے سکیں، لیکن دو سو سال کی تاریخ میں کانگریس اور سینیٹ میں ہی نہیں عدلیہ اور انتظامیہ میں بھی افریقی امریکیوں کا تناسب اس اصول کے منافی نظر آتا ہے۔
اگرچہ Diversity یا تنوع بظاہر ایک معقول اصطلاح ہے، لیکن اس کے مضمرات میں یہ بات شامل ہے کہ انفرادیت پرستی کو بطور حق تسلیم کیا جائے ۔ چنانچہ ہم جنس پسندی کو ملازمت ، مذہبی قیادت ، قومی اور ریاستی معاملات میں اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔امریکی سپریم کورٹ نے حال میں تیسری جنس کے افراد کے حق میں فیصلہ دے کر اس اصول کی توثیق کی ہے۔اس Diversity کی اصطلاح کو MDG’sملینیم ڈویلپمنٹ گولزاور پایدار ترقی (Sustainable Development) کے ’سترہ سنہری‘ اصولوں میں اسی غرض سے شامل کیا گیا ہے کہ اس کی آڑ میں وہ سارے اقدامات کیے جا سکیں، جو بنیادی انسانی اخلاقیات اور خصوصاًالہامی ہدایات کے منافی ہیں اور معاشرے میں اباحیت ، فحاشی اور بد اخلاقی کو پھیلانے کا کام قانون کے تحفظ کے نام پر کیا جاسکے۔ جہاں اس گفتگو کا مقصد منافرت اور نسل پرستی کو شدت کے ساتھ ردکرنا ہے، وہیں یہ بات بھی واضح کرنا ہے کہ مغرب کی طرف سے اس کے لیے جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ دلیل اخلاق کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی اور تحریکا ت اسلامی کو ایسے تصورات سے آگاہ ہوکر اپنی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا مودودیؒ نے سرمایہ دارانہ نظام اور لادینیت کے خلاف ایمان، دلیل اور دانش سے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا، آج اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اس پروگرام اور دعوت کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ افکار ونظریات وقت گزرنے کے ساتھ فرسودہ نہیں ہو جاتے ۔ یونان کے فلاسفہ نے جس ’جمہوریت‘ کو ’حق‘ قرار دیا تھا، جو دراصل ایک محدود طبقے کی حکومت (Oligarchy) ہے اور جس کی بنا پر عالمی طور پر لادینی جمہوریت، سرمایہ دارانہ افراد کی اجارہ داری بن گئی ہے۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ افلاطون اور ارسطو کے خیالات فرسودہ ہو چکے ہیں اور اب ہمیں کسی نئی جمہوریت کی ضرورت ہے یا جو تصورِاخلاق ارسطو اور افلاطون نے پیش کیے، اسے آج تک یہ کہہ کر رد نہیں کیا گیا کہ وہ پرانا ہوگیا ہے بلکہ وہ لذت کا حصول ہو یا خوشی کا حصول یا قوت کا حصول، ان تصورات کو نئے ناموں کے ساتھ جوں کا توں مغربی فکر میں مقدس انداز میں برقرار رکھا گیا ہے۔
ضرورت ہے کہ آج کے فکری معرکے میں مولانا مودودیؒ کی پیش کردہ حکمت عملی کو پورے اعتماد کے ساتھ اجاگر کیا جائے۔ تحریکات کا وجود ہی ان کی نظری بنیادکی بنا پر ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی فکری بنیاد سے انحراف کریں یا ہٹ جائیں تو پھر وہ ’مرغ بادنما‘ بن جاتی ہیں، وقتی مسائل کی رو میں بہہ جاتی ہیں، اس طرح وہ مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے بھی غافل ہوجاتی ہیں۔
کرونا وائرس کا چیلنج اور تحریک اسلامی
کرونا وائرس کے اثرات سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اپنی جانب سے تمام تر صحت عامہ کی تدبیروں اور انتظامات کے دعوؤں کے باوجود، وقت کی بڑی بڑی حکومتیں بھی اس وبا کے سامنے بے بس اور ناکام نظر آتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آزمایش میں تحریک اسلامی کا کردارغیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے ۔ ’سماجی فاصلہ‘ رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دعوتی توسیع کو عارضی رخصت دے دی جائے، بلکہ ان حالات میں مزید جوش اور ولولے کے ساتھ روایتی دعوتی طریقوں کو حفاظتی اقدامات اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے دعوتی کام کو وسیع کرنے کا غیبی موقع حاصل ہوا ہے۔
اس وقت عالمی سطح پر اکثر جامعات آن لائن تعلیم دے رہی ہیں۔ ان حالات میں دعوت کے نئے انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ غالباً ان افراد کو جو اپنی دفتری یا تجارتی مصروفیات کے بعدوقت کا بڑا حصہ دعوتی سر گرمیوں میں دیا کرتے تھے، اب یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ کس طرح اپنے طرزِ عمل اور خیالات کے ذریعے تحریکی اور دعوتی فکر اور تعمیر سیرت کے اصولوں کو عملاً فروغ دے سکیں ؟ ان حالات میں خدمت عامہ کے دعوتی کردار کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور تحریکی کارکنوں نے جس خلوص اور قربانی کے ساتھ اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر خدمت خلق کا فریضہ انجام دیا ہے ، وہ عبادت کی ایک اعلیٰ شکل ہے۔
تحریک کو اس صورتِ حال میں نئے ذرائع سے دعوتی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ٹی جو بہر صورت جدید تہذیب کا ایک لازمی جزو ہے، اپنی بعض کمزوریوں کے باوجود انسانی روابط، دعوت کی تو سیع ،افراد کی تنظیم اور دیگر ہرطرح کے مقاصد کے لیے ایک لازمی عنصر بن چکی ہے ۔ اس صورتِ حال میں عوامی رابطہ ، تربیت کردار وفکر، اور فروغِ دین کے لیے برقی ذرائع کا استعمال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صورتِ حال وہی ہے جس کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے کہ بعض بظاہر شر، پُرخطر اور نقصان دہ چیزیں ایسی ہیں، جن میں اللہ خیر کا پہلو نکال دیتا ہے۔ اس وقت ابلاغی خیر کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ آن لائن دروس قرآن، آن لائن تربیت ، آن لائن رسائل و جرائد و کتب، غرض ہر وہ کام جو کل تک روایتی ذرائع سے ہورہے تھے، اب وہ برقی ذرائع سے ہو سکتے ہیں اورا س میں کسی تاخیر کی گنجایش نہیں ہونی چاہیے۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ عوام کی صحت اور طبی امداد کے حوالے سے جو کام جماعت اسلامی شعبہ ہائے خدمت نے انجام دیا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے اور ملک کے گوشے گوشے میں ایسے طبی امدادی مراکز قائم ہوں، جن میں مقامی افراد کو اپنی مدد آپ کے رضاکارانہ جذبے پر ابھارا جائے ،چاہے یہ افراد تحریک سے وابستہ نہ ہوں۔ کسی فرد سے اس کے مکان کا صرف وہ ایک کمرہ جس کا دروازہ باہر نکلتا ہواور گھر والوں کی ذاتی آزادی میں فرق نہ پڑتا ہو، اس کے تعاون کے طور پر لیا جائے۔ کسی ڈاکٹر سے ہفتے میں ایک دن بغیر کسی معاوضے کے مفلس افراد کی خدمت ، اللہ سے اجر کی بنیاد پر دینے کے لیے کہا جائے۔کسی فرد سے کم قیمت پر ادویات فراہم کرنے کی درخواست کرکے، انھیں عوام تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔اس کام کے لیے کسی بڑے سرمایے یا کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں بلکہ نیکی کے جذبے سے سرشار سلیم الفطرت افراد سے اچھائی اور بھلائی میں تعاون کی اپیل کرکے حکمت اور دانائی سے محض رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔
عوام کو اس کام میں شامل کرنا اور انھیں اس خیر کی وسیع مہم کا حصہ بنانا ہی توسیع دعوت ہے۔ لیکن یہ سارا کام صرف اور صرف رضاے الٰہی کے حصول اور خدمت خلق کے بے لوث جذبے کی بنیاد پر کیا جائےتو تحریک مخالف بھی خواہش کرے گا کہ وہ اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے، لیکن اگر اس کاوش میں کسی قسم کا سیاسی رنگ شامل ہوگا تو پھر اس کے نتائج مختلف ہوں گے ۔
اقامت ِ دین کے لیے ، سیاسی زمامِ کار کی تبدیلی دعوت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے لیکن دعوت کی حکمت عملی اور ترجیحات کا درست اور بروقت تعین ہی دعوت کے مقاصد کے حصول کو آسان بنا سکتے ہیں۔
اُمت مسلمہ کے اجتماعی شعور نے ظہورِ اسلام سے آج تک دو صداقتوں کو دل و جاں سے زیادہ عزیز رکھا ہے۔ اوّلاً: زمین پر توحید الٰہی کی علامت بیت اللہ کی مرکزیت اور قبلہ ہونا، اپنی سمت عبودیت، سمت معیشت ، سمت ثقافت اور اندرونی وبیرونی تعلقات کوبراہِ راست بیت اللہ کے مالک کی رضا کا پابند رکھتے ہوئے زندگی کے ہرمعاملے میں توحید خالص کو اختیار کرنا ہے۔ ثانیاً: اپنی زندگی کی تہذیب ، اسے سنوارنے اور بنانے کے لیے عملی نمونہ اور مثال کے لیے صرف اور صرف اللہ کے آخری رسولؐ اور مدینہ کی اسلامی ریاست کے سربراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور فیصلوں کو قیامت تک کے لیے حتمی اور سند سمجھنا ہے۔
یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ اجتماعی شعور کی موجودگی میں حادثاتِ زمانہ کی بناپر وقتی طور پر اُمت مسلمہ نے کسی بیرونی، فکری یا سیاسی تسلط کی بناپر یونانی فکر اور لادینی تصورات کواختیار کرلیا ہو اور ان بیرونی یا اندرونی گمراہ کن تصورات کی وجہ سے قومیت، لادینیت اور محض معاشی ترقی اس کا قومی ہدف بن جائے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی وہ ترکی ہو یا تیونس یا مصر، اُمت مسلمہ کا اجتماعی شعور وقتی انحراف سے نکلنے اوردوبارہ اپنا قبلہ درست کرنے سے غافل نہیں رہا۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کا ایک نمایاں پہلو اس کا عربوں کی قبائلی عصبیت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق اور مالی وسائل کی بنیاد پر قیادت حاصل کرنے کے تصور کاابطال اور لا الٰہ الا اللہ کے مطالبات کو عملاً نافذ کرنا تھا ۔گویا مدینہ کی ریاست کا قیام عرب و عجم اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کی ’عوامی جمہوریہ‘ کے تصورکا متبادل ایک انقلابی فکر کا نفاذ تھا کہ ریاست کی بنیاد نسلی اور قبائلی اتحاد کی جگہ نظریہ ، عقیدہ اور اقدارِ حیات کو ہونا چاہیے۔چنانچہ ریاست مدینہ کا مقصد اقامت دین اور ایک ایسی امت کا قیام تھا جو رنگ ونسل اور زبان اور زمین کی کشش سے آزاد ہو اورصرف انسانوں اور کائنات کے خالق و مالک کی بندگی پر کاربند ہو۔ مدینہ کی اسلامی ریاست عربوں میں مروجہ قبائلی نظام اور پڑوس کے ممالک میں رائج بادشاہت (ایران و روم) سے بالکل مختلف ایک نئے تصور اورنئے سیاسی نظام کی نمایندہ تھی ۔اس ریاست کا مقصد کسی فرد کی موروثی ریاست کا قیام نہ تھا، نہ کسی خاص مذہبی گروہ کی اجارہ داری قائم کرنا تھا، بلکہ اللہ کی زمین پر اس کے دین کی اقامت تھا۔ قرآن کریم نے اقامت دین کے تصور کو ہماری آسانی کے لیے خود واضح کر دیا ہےکہ یہ دین میں مکمل داخل ہونے کا نام ہے۔یہ صرف مراسم عبودیت ، نماز، روزہ، کا نام نہیں ہے کہ مسجد اور گھر میں نماز ، روزہ ہو رہا ہو، جب کہ حاکمیت سرمایہ دارانہ ملوکیت زدہ ، اخلاق باختہ نظام کی ہو۔ اللہ کی بندگی محض مسجد میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہو۔ ثقافت ہو یا فنون لطیفہ ، معیشت ہو یا معاشرت، غرض ان تمام شعبوں میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو بلا شرکت غیر اپنا رب مانتے ہوئے اس کے نازل کردہ احکامات کا نفاذ ہو۔ جس طرح اسلام مکمل نظام حیات ہے ایسے ہی اسلامی ریاست بھی دین کی مکمل اقامت اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو انفرادی اور اجتماعی معاملات میں نافذ کرنے کا نام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی حاکمیت کی بنیاد پر قائم Nation State یا قومی ریاست کا تصور جسے یورپ نے کلیسا کے پاپائیت کے نظام سے نجات کے لیے اپنایا ۔ اسلام میں اس تصور کا کوئی مقام نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اسلامی تصورِ ریاست میں کسی مسلم پاپائیت کی بھی کوئی گنجا یش نہیں۔ چنانچہ کوئی خاص فرقہ اقتدار پر قابض ہو کر دوسروں کو اپنا محکوم نہیں بنا سکتا ۔ گویا تھیا کریسی (Theocracy )یا مذہبی پاپائیت اسلام کی ضد ہے اور اسلامی ریاست کسی مسلکی فرقے کی حاکمیت کی جگہ صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کا ذریعہ ہے ۔
۱-حاکمیت الٰہی: قرآن کریم نے ریاست کی اولین ذمہ داری اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے کو قرار دیا ہے ۔ چنانچہ سورۂ یوسف میں واضح الفاظ میں ان تمام تصورات کو جن میں بادشاہ کو یا حاکم کو قانون سازی کے اختیارات دیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تابع کردیا ۔اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ (یوسف۱۲:۴۰) ’’حکومت سواے اللہ کے کسی کی نہیں ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے ‘‘۔گویا حاکمیت اعلیٰ نہ پارلیمنٹ کی ہے ، نہ عوام کی ، نہ کسی صدر ، وزیر اعظم یا بادشاہ کی، بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے فرمان کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ قانون کو جائز یا ناجائز قرار دے۔ پارلیمان صرف اس وقت تک قانون سازی کر سکتی ہے ، جب تک اس کا ہر قانون قرآن و سنت سے مطابقت رکھتا ہو۔
۲- مشاورت : ریاست ِمدینہ میں معاملات کے فیصلے شوریٰ کی بنیاد پر کیے جاتے تھے ۔قرآن کریم نے شوریٰ کے انعقاد اور شوریٰ کے نتیجے میں عزم الامور یا اجتماعی راے پر عمل کرنے کو فریضہ قرار دے کر انفرادی راے کو اجتماعی راے کا تابع کر دیا ۔شوریٰ کے دوران اختلاف کرنا اور اپنے موقف کو دلائل سے پیش کرنا ہر صاحب راے کا حق ہے لیکن شرکا ے مشورہ کے یکسو ہو جانے کے بعد کسی فرد کو چاہے وہ صاحب ِامر ہی کیوں نہ ہو اپنی راےاراکین شوریٰ پر مسلط کرنے کا حق نہیں ہے ۔اسے اپنی راے کو قربان کر کے اکثریت کی راے کی پیروی کرنی ہوگی۔ قرآن میں خود حضور اکرمؐ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ۱۵۹ (ال عمرٰن۳:۱۵۹)’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کے تمام معاملات کو انجام دینے کے لیے اس ابدی اصول کو حکم ہی نہیں، ملّت اسلامیہ کے عمل اور نمونے کے طورپر ان الفاظ میں بیان فرمایا: وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ ،یعنی ان کے تمام معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں (الشوریٰ۴۲: ۳۸)۔
۳-شریعت کی بالا دستی :ریاست کا بنیادی فریضہ قرآن و سنت کے احکامات کا نفاذ اور ان احکامات کی روشنی میں جدید قانون سازی ہے ۔پارلیمان صرف وہ قانون سازی کر سکتی ہے جو شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو۔وہ شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتی اور نہ کسی ایسے قانون کو نافذ کر سکتی ہے ۔
۴- نظام صلٰوۃ و نظامِ زکوٰۃ: ریاست نظامِ صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کو قائم کرنے اور اس کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے ۔
۵-امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ: ریاست معاشرے کی اخلاقی، معاشرتی ، ثقافتی ، تعلیمی ضروریات کے پیش نظر ہر شعبۂ حیات میں معروف اخلاقی اقدار کو نافذ کرنے اور ہربُرائی کو وہ کسی بھی درجے کی کیوں نہ ہو روکنے کی ذمہ دار ہے۔
۶- فلاح و بہبود اور بنیادی حقوق کی فراہمی:ریاست اپنی حدود میں رعایا کی فلاح کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔وہ ان کی تعلیم، صحت ،غذا، تحفظ ، عزت و ناموس کی حفاظت جیسے بنیادی حقوق کو یقینی بنائے گی۔ وہ ایک رفاہی ریاست ہے ، جس کا بیت المال رعایا کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے ہے ۔ وہ کسی فرماں روا کی ملکیت نہیں ہے۔
۷-قانون کی یکسانیت : اسلامی ریاست میں ہر شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔صدر مللکت ہو یا وزیر اعظم یا ایک یتیم بچہ، قانون ان میں کوئی تفریق نہیں کر سکتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات ہیں کہ پچھلی اقوام اسی لیے تباہ ہوئیں کہ وہ اعلیٰ طبقاتِ معاشرہ کے لیے الگ اور عام شہری کے لیے الگ قانون استعمال کرتی تھیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تمام انسان خواہ مرد ہو یا عورت، یکساں ہیں اور اگر کوئی فرق ہے تو اس کی بنیاد تقویٰ ہے: يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ(الحجرات ۴۹:۱۳) ’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔
۸- مسؤلیت: اسلامی ریاست میں ہر ذمہ دار اپنی ذمہ داری کے لیے جواب دہ ہے: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہو گا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔(بخاری، کتاب الا حکام، مسلم، کتاب الایمان )
۹- مناصب کا امانت ہونا :قرآن نے ریاست کو پابند کر دیا ہے کہ ذ مہ داری صرف ان کو دے جو اس کے اہل ہو ں، اور ایسے ہی عوام کو پابند کر دیا ہے کہ وہ صرف ان افراد کو منتخب کریں جو امانت دار اور اہل ہوں ۔ کسی قسم کی گروہی وابستگی کی بنا پر حمایت کی گنجایش نہیں ہے۔
۱۰- نظام احتساب : اسلامی ریاست نظام احتساب، یعنی حسبہ کے قائم کرنے کی ذ مہ دار ہے ۔ جس کا کام پیمانوں کا احتساب ، مال کا خالص ہونا ، قیمتوں کا مناسب ہونا ، راہ داری کا کھلا ہونا، بازاروں میںامن و عدل کا قیام ، صارف کے حقوق کا تحفظ اور ساہوکار پر نگاہ رکھنا اور ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ وہ اہم کام ہیں جو حسبہ کے تحت دور نبویؐ سے ریاست نے انجام دیا۔
۱۱- نظامِ عدل کا قیام :ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عادلانہ فیصلوں کا اہتمام کرے۔ چنانچہ عدلیہ کا قیام، قاضی کا تقرر اور اس کے فیصلوں کا نفاذ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔
۱۲- مناصب کی طلب پر گرفت : ریاست کی ذمہ د اری ہے کہ وہ کسی ایسے فرد کو منصب پر فائز نہ ہونے دے جو اس منصب کا طلب گار ہو۔امانت اور للہیت کے اصولوں کو قائم کرنا اور منصب طلبی، حصولِ اقتدار کی خواہش کرنے کو ختم کرنے کا نظام قائم کرنا ہے۔
۱۳- آزادی راے اور آزادی اختلاف:مدینہ کی اسلامی ریاست میں ہر شہری کو ریاستی معاملات میں اپنی راے دینے اور خلیفہ کا احتساب کرنے کا حق حاصل تھا ۔ ایک عام خاتون سربراہ ریاست سے پوچھ سکتی تھی کہ وہ کس بنیاد پر یکساں مہر کا نفاذ کرنا چاہتا ہے ؟اس خاتون کا استدال یہ تھا کہ قرآن مہر کی رقم کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ ایک ڈھیر سا مال بھی ہو سکتا ہے اور حضرت عمرؓ سنت رسول ؐکی پیروی کرتے ہوئے وہ مہر جو نبی کریمؐ نے امہات المومنینؓ کے لیے پسند فرمایا، اسی مہر کی رقم کو سب کے لیے مقرر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ایک صحابیہؓ کے سر عام ان کو قرآن سے دلیل دینے پر وہ بغیر کسی حجت اور بحث کے اپنی راے سے دستبردار ہو گئے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کی ان چند خصوصیات کے ساتھ اب ہم ریاست مدینہ کے ایک اور اہم پہلو پر غور کرنا چاہتے ہیں ، جس پر عموماً توجہ نہیں دی جاتی اور وہ ہے تصورِ امانت ۔
ریاست مدینہ کا سب سے نمایاں پہلو تصورِامانت ہے ۔”ا م ن “سے ماخوذ اس قرآنی اصطلاح کا معنی قابل اعتبار ، اعتماد اور وفادار کے ہیں، اور ہم عام طور پر اس سے روز مرہ کے اقتصادی مالی معاملات مراد لیتے ہیں۔ اگر ایک شخص بددیانتی یا کمی بیشی نہیں کرتا تو ہم اسے امانت دار سمجھتے ہیں ۔قرآن کریم بھی اس جانب اشارہ کرتا ہے:
فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ ۰ۭ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ ۰ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۳) اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسا کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے۔ اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ۔ جو شہادت چھپاتا ہے اُس کا دل گناہ میں آلودہ ہے۔
اسی پہلو کو دیگر مقامات پر وضاحت سے سمجھایا گیا ہے کہ:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۲۷ (الانفال۸:۲۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو جانتے بوجھتے اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو ، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو۔
امانت کے وسیع تر مفہوم کی طرف اشارہ کرتےہوئے قرآن کریم اہل ایمان کی صفات میں سے امانت کو ایک بنیادی صفت قرار دیتا ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۳۲۠ۙ (المومنون۲۳:۸)’’اپنی امانتوں اور عہد وپیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ یہی مضمون المعارج (۷۰:۳۲) میں دُہرایا گیا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو امانت کی تشریح خود قرآن کریم سورۃ النساء میں یوں کرتا ہے: اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ……اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۵۸ (النساء۴:۵۷-۵۸) ’’مسلمانوں اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو… اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ‘‘۔
دوسرے مقام پر یوں فرمایا گیا: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۵۹ۧ (النساء ۴:۵۹) ’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی ، اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب ِامر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔
یہاں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ امانت اس کے مستحق کے حوالے کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم (امر)ہے ۔اس حکم کی پیروی کے لیے ضروری ہو گاکہ اولاً امانت داری کے معیار کو متعین کر لیا جائے اور پھر اس فرد کو جو اس پیمانے پر پورا اترے، وہ امانت حوالے کی جائے۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے کائنات، زمین اور پہاڑوں کے حوالے سے فرمایا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہدایت کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں؟ تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا ۔کیوں کہ پہاڑوں اور زمین کو علم تھا کہ ان میں ارادہ و اختیار کی صلاحیت کی کمی ہے اور اس بنا پر وہ ذمہ داری کو ادا نہیں کرسکیں گے (الاحزاب ۳۳:۷۲)۔ پہاڑوں کی معذرت سے یہ اصول واضح ہو گیا کہ اگر ایک شخص کو کوئی امانت سپرد کی جارہی ہو اور اسے معلوم ہو کہ وہ اس کے بارِ امانت کو صحیح طور پر نہیں اٹھا سکے گا، تو اسے وہ امانت قبول نہیں کرنی چاہیے۔اس تناظر میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی اس حدیث کے مفہوم پر غور کیا جائے جس میں فرمایا گیا ہے:’’اس کا ایمان نہیں جوامانت دارنہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جوعہد کا پابند نہیں‘‘ (مسند امام احمد، حدیث:۱۲۳۲۴)۔
سورۃ النساء(۴:۵۶-۵۹)میں دی گئی ہدایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امانت اور عہد میں کتنا قریبی تعلق ہے اور دونوں ایمان کے مظاہر ہیں ۔ایمان کا اظہار ایک جانب دی گئی ذمہ داری کو جیساکہ اس کا حق ہے ادا کرنے سے ہوتا ہے، اور دوسری جانب جس کسی کو ذمہ دار بنایا جائے اگر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو ایمان کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے۔ یقینا اس سے بڑھ کر اور کوئی محرومی نہیں ہو سکتی کہ ایک شخص دنیا اور آخرت دونوں کو کھو بیٹھے ۔
فقہاکا اس بات پر اتفاق ہے کہ ووٹ ایک امانت ہے اور ووٹ کا حق دار کو دیا جانا ہی اس امانت کا ادا کرنا ہے۔ دوسری طرف عام مشاہدہ ہے کہ ووٹ دینے اور ووٹ طلب کرنے والا دونوں ہی اس کے دینی اور شرعی تقاضوں سے بہت کم آگاہ ہوتے ہیں ۔
منصب چھوٹا ہو یا بڑا، ایک امانت ہے۔ اس کو ایک مثال سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک تعلیمی ادارے کی سربراہی کے لیے ایک ایسےشخص کو منتخب کیا جاتا ہے جس میں انتظامی ، مالی اور تادیبی امور کو سمجھنے اور یکسوئی اور اعتماد سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے، تو نہ صرف منتخب کرنے والے بلکہ وہ فرد خود بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو گاکہ اس نےوہ ذمہ داری کیسے قبول کر لی جس کی صلاحیت اس میں نہیں پائی جاتی تھی ؟
امانت ،عہد اور عدل جن کی طرف مندرجہ بالا سورۂ نساء اور المؤمنون کی آیات نشان دہی کرتی ہیں، اپنی وسعت کے لحاظ سے حالیہ تناظر میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر کسی تنظیم میں داخلے کے لیے یہ شرط ہے کہ ایک شخص حلال و حرام کے فرق کو سمجھتا ہے اور مالی معاملات میں جس حدتک ممکن ہو منکر کا ارتکاب نہیں کرتا، تو اپنی تعداد میں اضافے کی خواہش کے باوجود صرف ان کو تحریک میں شامل کیا جانا چاہیے جو حرام سے مکمل اجتناب ہی نہ کرتے ہوں بلکہ مشتبہ اُمور سے بھی اجتناب کرتے ہوں۔ گویا ان اُمور سے بھی جو حلال و حرام کی سرحد پر ہوں جنھیں ہم عموماً گرے ایریا (Gray Area)کہتے ہیں ، ان کے قریب بھی نہ جاتے ہوں ۔ حدیث نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ یہ گرے ایریا ہی ہمیں حرام کی طرف لے جاتا ہے ۔ اس لیے نظامِ تربیت سے گزارنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بجائےتعداد بڑھانے کے تطہیرِ فکر کے ساتھ تعمیرِ سیرت پر توجہ دی جائے، تاکہ ایک تربیت یافتہ فرد کا تحریک میں اضافہ دس غیر تربیت یافتہ افراد کے اضافے سے زیادہ اہمیت اختیار کر جائے۔یہی وجہ ہے کہ تحریک ہو یا حکومت، ہر ایک کے پاس ایک جامع نظام تربیت ہونا چاہیے، جس سے گزرے بغیر کوئی ایسا فرد ذمہ داری کے مناصب پر فائز نہ ہوسکے جس کی فکر اور سیرت میں کمزوری پائی جاتی اور جو دیانت اور صلاحیت ہردو اعتبار سے معیارِ مطلوب پر پورا نہ اُترتا ہو۔
اسی طرح کسی عہدے کی طلب یا کسی عہدے پر کسی کو لانے کے لیے راے عامہ ہموار کرنا بھی اسلامی ریاست مدینہ کی روایات و ضوابط سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا ۔کسی عہدے کی خواہش کرنا اس سے بھی بڑھ کر ظلم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے :’’اللہ کی قسم! ہم اس کام کی نگرانی پر کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کرسکتے، جو اسے مانگتا ہو اور نہ کسی ایسے شخص کو مقرر کریں گے جو اس کا لالچ کرتا ہو‘‘(صحیح ابن حبان، کتاب البر ، باب الخلافہ والامارہ)۔ یہی وجہ ہے کہ دور خلافت راشدہ میں لوگ ذمہ داری قبول کرنے سے بھاگتے تھے اور کسی عہدے کی طلب نہیں کرتے تھےاور اگر ان پر کوئی ذمہ داری اس کی خواہش اور طلب کے بغیر ڈال دی جاتی، تو اس کے مطالبات کو پوراکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ۔ ان کا مقصد ذمہ داری کے حوالے سے سہولیات اور status کا حصول کبھی نہیں ہوتا تھا ۔اس احساس ذمہ داری اور احتساب و جواب دہی کی بنا پر اقربا پروری کا امکان تھا ، نہ دوست نوازی کا۔ مناصب کی طلب کی بجائے ان سے دُور رہنے کی خواہش ان میں بے لوثی پیدا کرتی تھی اور عہدے کی طلب اور ذاتی نمودونمایش کے جذبات کو قریب نہیں آنے دیتی تھی۔ امانت ، عہد اور عدل، وہ تین بنیادیں ہیں جو احساس ذمہ داری کو مستحکم کرتی ہیں۔ ان میں کمی تنظیم میں انتشار فکری اور گروہ بندی کو ہوا دیتی ہے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کے نمونے کے مطابق آج کے دور میں سوسائٹی اور ریاست کے قیام کے لیے فرد کی اصلاح، معاشرے کی اخلاقی تعمیر اور حکومت، ریاست اسلامی کے تمام اداروں اور پالیسیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب فرد ، معاشرہ اور ریاست، ہرسطح پر اسلامی تعمیرنو کو ایک تحریک کی شکل میں انجام دیا جائے۔ اس اخلاقی تعمیر کے لیے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ انابت الیٰ اللہ ہے___ اللہ کی طرف پلٹنا، رجوع کرنا ، اس سے تعلق کو مضبوط کرنا اور اس کے سامنے حاضری کی تیاری کرنا!
ایک طرف دنیا بھر میں ’کورونا وائرس‘کی تباہ کاریوں نے ہرانسان کو دہلاکر رکھ دیا ہے، لیکن دوسری جانب بھارت کی سفاک حکومت اور فوج جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی لانے کو تیار نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس موقعے کو غنیمت جان کر، جموں و کشمیر کی سماجی و سیاسی اور قومی صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے پے درپے بڑےجارحانہ اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ اس پس منظر میں دنیا بھر کے منصف مزاج لوگوں کو کشمیر کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنی چاہیے، اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے ہرممکن کوشش و کاوش کرنی چاہیے۔
پچھلے ۷۰سال سے میں تحریک آزادی کشمیر کو ہرپہلو سے دیکھ رہاہوں۔ اس کی تاریخ، اور حق خود ارادیت (self determination)کی تحریک کے اُتارچڑھاؤ پر مسلسل غور کرتا آیا ہوں اور ۶۰برس سے اس موضوع پر لکھ بھی رہا ہوں۔ میرا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ ۲۰۱۶ءکے بعد اس تحریک کا جو دور شروع ہوا ہے اور خصوصی طور پر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد جو صورتِ حال رونماہوئی ہے، اس سے یہ تحریک بڑی حدتک اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ البتہ یہ فیصلہ کن دور کتنا طویل یا مختصر ہوگا،فوری طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ آثاروشواہد یہ بتا رہے ہیں کہ ان شا ء اللہ یہ فیصلہ کن دور ہے اور اس کےلیے ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر اور مؤثر اور مربوط انداز سے طرزِفکر اور طرزِعمل اختیار کرنا ہوگا۔
اجتماعی زندگی کی جدوجہد میں ہم بہ حیثیت قوم کچھ معاملاتِ زندگی کو مؤخر کرسکتے ہیں، کچھ چیزوں کو حکمت یا مصلحت کی بنیاد پر نظرانداز بھی کرسکتے ہیں،لیکن مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے کشمیر کونہ نظرانداز کرسکتے ہیں اور نہ ثانوی حیثیت دے سکتے ہیں۔ اسے ہرحال میں مرکزی حیثیت حاصل رہنی چاہیے۔ اس معاملے پر جتنا پاکستانی قوم کو بیدار کریں گے، جتنا سیاسی جماعتوں پر اور پھر حکومت پر یاددہانی کے لیے دباؤ بڑھائیں گے، اتنا ہی اس مقصد کے لیے مفید ہوگا۔ نیز پاکستانی حکومت، عوام اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو مؤثر انداز میں اُٹھانے اور بھارت پر عالمی دباؤ ڈلوانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔ یہ مقصد محض بیانات اور ٹویٹر پیغامات سے حاصل نہیں ہوسکتا۔اس سلسلے میں بنیادی اور مؤثر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی فکر کریں گے، تو ان شاء اللہ اس کے مثبت اثرات رُونماہوں گے۔
تحریک ِ کشمیر کا موجودہ اُبھار ایک مؤثر اور فیصلہ کن مرحلے کی بنیاد ہے۔ اس کی دونوں سطحیں بہت ٹھوس اور مثبت ہیں: یعنی اس میں مقدار (quantitative) کے اعتبار سے بھی مثبت تبدیلی ہے اور معیار (qualitative) کے لحاظ سے بھی جوہری فرق واقع ہوا ہے۔ معیاری تبدیلی کی نسبت سے مقبوضہ کشمیر کے اندر قابض بھارتی فوجوں اور دہلی کے حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کا جذبہ جس درجے میں بیدار ہے اور موت کا خوف جس سطح پر ختم ہوا ہے، یہ چیز اس تحریک آزادی کی بڑی نمایاں اور نہایت قابلِ قدر خوبی ہے۔ پھر اسی دوران میں وہاں بھارت نواز مسلم لیڈرشپ جس انداز سے بے نقاب ہوئی ہے، اس نے بھارتی فریم ورک میں کشمیرکے وجود کے بے معنی استدلال کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ بلاشبہہ یہ آکاس بیل پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بنیاد فریب خوردہ لوگوں کی نظروں میں غیر مؤثر ہوئی ہے۔ اپنی جگہ یہ ایک بڑی اہم پیش رفت ہے۔
اسی طرح یہ بھی ایک اہم پیش رفت ہے کہ بھارت کے مختلف حلقوں، دانش وروں، میڈیا اور سیاسی گروہوں کی طرف سے بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اور کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی پر اظہار خیال ہورہا ہے،جو اس سے پہلے نہیں نظر آتا تھا۔ الحمدللہ، یہ ایک بڑی مثبت تبدیلی ہے۔ یہ پہلو اپنے اندر بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔
پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت کے سیاسی مقام، جغرافیائی کردار اور مختلف ممالک کے تجارتی مفادات کے باوجود، بین الاقوامی محاذ پر تنقید و احتساب کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، اگرچہ بظاہر وہ کمزور اور غیرمؤثر ہیں، لیکن بہرحال بلند ہونے لگی ہیں۔ یہ پہلو بتا رہے ہیں کہ ہم ایک فیصلہ کن دور کی طرف بڑھ رہے ہیں یا اس دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان امکانات کو کس طرح مؤثر انداز سے، مثبت رُخ کی جانب موڑ سکیں؟
سب سے اہم میدان خود مقبوضہ کشمیر کے اندر ہے۔اس وقت تک محترم سیّد علی گیلانی صاحب نے بڑی بصیرت، بڑی ہمت، بڑی قوت اور کمال درجے کی ثابت قدمی کے ساتھ اس تحریک کو درست رُخ پر فعال اور متحرک رکھا ہے۔ لیکن اِن دنوں اُن کی صحت زیادہ ہی مخدوش ہے۔ ان کے لیے خلوصِ دل سے دُعاے صحت کی جائے۔ خرابی صحت اور تمام پابندیوں کے باوجود محترم گیلانی صاحب کو جو معمولی سےمعمولی مواقع ملتے ہیں، ان کو قوم کی رہنمائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اب اس بات کی اشدضرورت ہے کہ گیلانی صاحب کی معاون قیادت اس طرح اُبھرے کہ وہ تحریکی سوچ اور صحیح فکر رکھنے والے افراد پر مشتمل ہو۔ وہ قیادت گیلانی صاحب کی طرح ایمان کی پختگی ، تاریخ کے گہرے شعور، بے پناہ جرأت اور حکمت و تدبر کی حامل ہو۔ جذباتی ردعمل سے بچ کر چلنے والی دُوراندیش قیادت ہو۔ ان حالات میں وہاں پر نچلی سطح تک ایسی تحریک کو منظم اور مؤثر ہونا چاہیے، جو عوامی ہو، جمہوری ہو، مربوط ہو اور منزل و مقصد کا صحیح فہم رکھتی ہو۔ اُن کی آواز میں آواز ملانے کے لیے، دنیابھر میں اُن کے حلیف اور ہم آواز حلقوں کو پوری تندہی سے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے کہ عالمی منظرنامے پر اُن کی تائید و تحسین اُنھیں قوت فراہم کرسکے۔
اس وقت بھارت یہ کوشش کر رہا ہے کہ مختلف سیاسی محاذوں پر مقامی طور پر ایسی قیادت کو اُبھارے کہ جو بظاہر آزادی کی حامی ہو یا خودمختاری کے گمراہ کن نعروں کو بلندکرے، حالانکہ بھارت کے حالیہ اقدام کا ہدف کشمیر پر اپنے جبری قبضے (occupation) کو مستقل انضمام (annexation) میں بدلنا، کشمیر کی شناخت (identity)کو ختم کرنا اور آبادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے، جو سامراجیت کی بدترین مثال ہے۔ ’خودمختاری‘ کی بات ایک فریب اور دوسری دفاعی لائن ہے، جس کی حقیقت کو سمجھنا اور دُنیا کو سمجھانا ضروری ہے۔ بڑی ہوش مندی سے سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اصطلاح بنیادی طور پر بھارتی مقاصد کو پورا کرنے کی ایک چال ہے۔ اس ضمن میں اگرچہ انھیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوسکی ہے، تاہم ان کی پوری کوشش ہے کہ نقب لگائی جائے۔
مسئلہ کشمیر میں انسانی حقوق کا پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کو بہت اہم مقام حاصل رہنا چاہیے کہ یہ بات لوگوں اور اداروں کی سمجھ میں آسانی سے آسکتی ہے۔ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کررہا ہے اور وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی رُو سے انسان کشی (Genocides)اور جنگی جرائم (War Crimes) کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس پہلو کو ساری دنیا میں اور خصوصیت سے بین الاقوامی اداروں بشمول اقوام متحدہ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور یورپین ہیومن رائٹس کمیشن پر اُٹھانا ازبس ضروری ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بات اوربھی زیادہ ضروری ہے کہ اصل ایشو بھارتی غاصبانہ قبضہ ہے اور عالمی سطح پر اس مسئلے کا طے شدہ ہدف صرف اور صرف حق خود ارادیت دلانے کے لیے استصواب راے (Plebiscite) ہے۔ یہی ایشو مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
بھارت چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو لوگ بھول جائیں، بھارت کے وعدوں کو بھی لوگ بھول جائیں، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برعکس کسی نام نہاد ثالثی (Arbitration) سے بٹوارا کرکے معاملے کو رفت گزشت کر دیا جائے۔لیکن نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حق خود ارادیت کے مرکزی ایشو ہی کو ہرسطح پر اُٹھایا جائے اور ہرسطح پر اس کو مرکزیت حاصل ہونی چاہیے۔ نیز ثالثی کے جال (Trap)سے بچنا ازبس ضروری ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھارت پردباؤ ڈلوانا اورمسئلے کے حل کے عمل کومتحرک اور مؤثر بنانا ضروری ہے۔کشمیر کے مستقبل کا مستقل فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی قیادت کے عہدواقرار کے مطابق ہی انجام دے سکتے ہیں۔
ہم پوری وضاحت اور نہایت واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ تھا، عالمی مسئلہ ہے اور جب تک حل نہ ہوجائے عالمی مسئلہ رہے گا۔ اسے بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے وعدہ کیا کہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق اسے طے کیا جائے گا۔ یہ کبھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں تھا۔ اس کے بنیادی فریق بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام ہیں اور اقوامِ متحدہ/ عالمی برادری بھی اس میں برابر کی شریک اور حل کروانے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس نکتے کو ہمارے عالمی اقدام (Diplomatic Offences) کا حصہ ہوناچاہیے۔ عالمی سیاست میں مفادات کے کھیل کی روشنی میں جہاں ازبس ضروری ہے کہ بھارت پر عالمی دباؤ کو مؤثر بنانا چاہیے جس کے لیے عالمی برادری کی سہولت کاری (Facilitation)، مداخلت (Intervention) اور دباؤ (Pressure) ضروری ہوگا،وہیں دوسری جانب ثالثی کے فریب میں پھنسنا مہلک ہوگا، جس سے ہرصورت میں بچنا لازمی ہے۔ حل ایک ہی ہے وہ یہ کہ کشمیر کے عوام کی راے دہی اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔
بلاشبہہ ہماری خارجی سیاست میں بھارت کے فسطائی نظام اور بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں سے جو بدسلوکی اور امتیازی رویہ (discrimination ) روز افزوں ہے، اسے ایکسپوز کرنا بھی چاہیے اور اس کے لیے الگ سے حکمت عملی اور نظامِ کار بناناضروری ہے۔ لیکن کشمیر کے مسئلے کی خصوصی نوعیت کی بناپر اس مسئلے کو اس کے اپنی حرکیات (dynamics ) کی وجہ سے الگ اور مرکزی مسئلے کے طور پر پیش کرنا ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ بھارتی مسلمانوں اور وہاں کی اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی ضروری ہے لیکن اسے مسئلہ کشمیر سے گڈمڈ کرنے سے احتراز برتنا لازم ہوگا۔
حق خود ارادیت اور مزاحمت
یہ معاملہ بھی پوری منطقی ترتیب کے ساتھ مدِنظر رہنا چاہیے کہ جہاں ناجائز قبضہ (occupation) ہوگا، وہاں مزاحمت (resistance) ہوگی۔ غاصبوں سے آزادی حاصل کرنے کا حق (right to liberation) ایک بنیادی انسانی حق ہے، جسے اقوام متحدہ کا چارٹر بھی تسلیم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ۲۰۰ ممبر ممالک میں سے ۱۵۰سے زیادہ ملک اسی حق خود ارادیت کی بناپر آزاد ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ حق اقوامِ متحدہ نے تسلیم کیا ہے کہ: حق خودارادیت جمہوری طریقے سےنہ ملے اور اس حق کو قوت سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے توآپ کو اپنے تحفظ کے لیے مزاحمت کا بنیادی حق حاصل ہے، جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حق کے استعمال کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ لیکن نائن الیون کے بعد بھارت نے کشمیری حُریت پسندوں کی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔یہ تو تازہ ترین واقعہ ہے کہ طاقت ور ملکوں کی دھونس، دھاندلی اور ظلم و جبر کو مسترد کرنے والے افغان طالبان کل تک ’دہشت گرد‘ قرار دیے جاتے تھے، لیکن آج ان سے گفتگو اور معاہدہ کرکے مسئلے کو حل کیا جارہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی ’کشمیرکمیٹی‘ گذشتہ ۱۵،۲۰ سال سے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے پہلے آٹھ مہینےمیں اس کمیٹی کا کوئی سربراہ نہ تھا، اور جب سربراہ مقرر ہوا تو ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابرہے۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کشمیرکمیٹی کا سربراہ کابینہ کی نشستوں میں شریک تو ہوا، لیکن خود کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کا کہیں کوئی وجود تک نہ تھا۔ اب پھر یہ نشست خالی ہوگئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعتی مصالح سے بالاتر ہوکر ’کشمیر کمیٹی‘ کو حقیقی معنی میں قومی کمیٹی بنایا جائے اور ایک لائق اور متحرک شخص کو اس کا سربراہ مقررکیا جائے، جو پوری یکسوئی کےساتھ کشمیر کے کاز کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پیش کرے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ سفارتی تجربہ رکھنے والے کسی شخص کو کشمیر کے سلسلہ میں اسپیشل ایڈوائزر بنانے کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ ’کشمیر کمیٹی‘ اور اس کے سربراہ کو بالکل اس جذبے سے اپنا فرض منصبی ادا کرنا اور کمیٹی کو چلانا چاہیے کہ جس طرح غزوئہ اُحدمیں خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد پہاڑ کی ایک پوزیشن پر تیرانداز ٹیم کو کھڑا کرکے فرمایا تھا کہ: ’کچھ بھی ہو آپ نے یہ پوزیشن نہیں چھوڑنی‘۔ مگر اُن کے پوزیشن چھوڑ دینے پر ریاست مدینہ کو شدید نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت کشمیرکاز کے فروغ کے لیے جموں و کشمیر اور عالمی سطح پر ایک نیا اور مؤثر کردار ادا کرے۔ اس کے لیے اسے پہل قدمی(initiative) کرکے لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔ وہاں اس وقت صدر اوروزیراعظم دونوں دردِ دل رکھنے والے سمجھ دار رہنما ہیں۔ ان سے بات کرکے آزادکشمیر میں سرکاری سطح پر کمیٹی بنائی جائے، جس میں سابقہ وزراے خارجہ اور خاص طورپرلائق سابق سفارت کاروں سے معاونت لی جائے اور ان کے اشتراک سے ایک ٹیم بنائی جائے۔
یورپ، مشرق بعید، امریکا اور عرب دنیا میں جو لوگ موجود ہیں، انھیں کردار ادا کرنے کی دعوت دی جائے۔ بھارت کے معاشی اور سیاسی بائیکاٹ کی مہم پر بھی غور ہونا چاہیے۔ جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریک میں اس چیز کا کلیدی کردار تھا۔ فلسطین کی آزادی کی موجودہ تحریک اس سلسلے میں مؤثر اقدام کر رہی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹوں، جنرل اسمبلی کی قراردادوں وغیرہ کی بنیاد پر یہ کوشش کی جائے کہ قانونی طور پر بھی کشمیر کا مقدمہ عالمی اداروں اور عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جائے۔
سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر ا نٹر نیشنل کانفرنس کی اپنی افادیت ہے لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ مختلف ملکوں کے پارلیمنٹیرینز سے براہِ راست ملاقات ہو اور پارلیمنٹس میں کشمیر پر قرارداد لانے کی کوشش ہو ۔ ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز سےرابطے ہوں، ان سے قراردادیں منظور کرانے کی کوشش ہو۔
یہاں پر ایک بار رُک کر یہ بات بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں ،اپنی پاکستانی سیاسی پارٹیوں سے سیاسی وابستگی کو ختم کرکے ایک قومی حکومت بنائیں ؟ یا الگ الگ وجود رکھنے اور اپوزیشن کے باوجود ایک چھت تلے بیٹھ کر یہ طے کریں کہ ہم صرف اور صرف کشمیر کی آزادی، اور کشمیر میں بہترین حکومت سازی اور ڈسپلن کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور پاکستانی سیاست کو آزادکشمیر کی سیاست میں نہیں لائیں گے۔ یاد رہے کہ ۱۹۷۲ء تک پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا یہی موقف تھا۔ لیکن پاکستانی سیاسی پارٹیوں کو کشمیر کی سیاست میں دھکیلنے کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کی تھی۔ تاہم،۴۸برس کے اس تجربے سے اندازہ ہوا ہے کہ پاکستانی سیاست کے آزاد کشمیر میں عمل دخل نے جدوجہد کو بُری طرح نقصان پہنچایا ہے۔اس لیے اتفاق راے سے تمام پاکستانی سیاسی پارٹیاں ۱۹۷۲ء سے پہلے کی پوزیشن اختیار کرلیں۔یہاں پر مَیں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ۱۹۷۴ء سے آزادکشمیر میں جماعت اسلامی بھی قائم ہے، لیکن جماعت اسلامی پاکستان نے کسی درجے میں اس کی پالیسیوں اور معاملات میں کبھی کوئی دخل اندازی نہیں کی، نام اگرچہ ایک ہے لیکن ہرسطح پر اور ہردرجے میں وہ الگ تنظیم ہے اور پاکستان کی جماعت کی شاخ نہیں ہے۔
ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ آزادکشمیر فوج تو نہ بنائے لیکن پیراملٹری فورس کے بارے میں ضرور اقدام کرے، تاکہ جب ڈی ملٹرائزیشن کی بات کی جائے گی اور پاکستان کی طرف سے فوج کو نکالا جائے گا تو فطری طورپر آزادکشمیر کی اپنی سیکورٹی فورس ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پولیس کے ساتھ ساتھ نیشنل ڈیفنس فورس کی طرح سے ایک پیراملٹری فورس موجود ہو۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اقوام متحدہ کمیشن کی دستاویزات میں اس کا ذکر آیا ہے ۔
اگرچہ پہلے سے متعدد ادارے موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ایک ’کشمیر ریسرچ گروپ‘ قائم کیا جائے، جو حکومت پاکستان کی کشمیر کمیٹی اور آل پارٹیز کشمیر کانفرنس کو مسئلہ کشمیر پر باخبراور تازہ دم رکھنے کے لیے مسلسل کام کرے۔ وہ کشمیر پر مثبت منفی تحریروں اور بیانات کو جمع کرے، تجزیہ کرے اور درست موقف کو پیش کرے۔ ساتھ ہی مذکورہ بالا اداروں کو متوجہ کرے۔ اس وقت خود بھارت میں بہت سی کتب اور مقالات شائع ہورہے ہیں، جن میں مسئلہ کشمیر کی حقیقی صورتِ حال کو جاننے اور اسے حل کرنے کا احساس نمایاں ہے۔ ا ن کتب میں زور دیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ایسی انسانیت کشی کیوں کر رہی ہے؟ ان چیزوں کو نمایاں طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
اس بات کی ضرور ت ہے کہ بہت ہی دوٹوک طور پر مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور تحریک پر تحقیق ہو، سوشل میڈیا پربھی ہر بڑی زبان میں معاملے کی نزاکت کو مؤثر دلائل سے بیان کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ کشمیر پر دستاویزی فلمیں بنوائی جائیں۔ محض تقریری اور سماجی کانفرنسیں نہیں بلکہ عملی اور اقدامی کانفرنسیں منعقد کی جائیں، جن میں اہداف طے ہوں اور حکمت عملی کا تعین ہو۔ پھر معاملہ فہمی (لابنگ) کا محاذ ہے۔اہم سیاسی اور میڈیا کے فورم تک پہنچ کر انھیں ہم آواز (involve) بنانا ہے، انھیں اُبھارنا اور متحرک (motivate) کرنا ہے، انھیں سہولت فراہم (facilitate) کرنی ہے۔ تحقیق اور تحقیق کے نتیجے میں مختلف سطح پر ان چیزوں کی تیاری ، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پروجیکشن کرنا اور پہنچا ناایک بڑا ہی اہم کام ہے۔ یہ کام پاکستان اور دُنیابھر میں پھیلے کشمیری بھائیوں کے کرنے کا ہے۔یہ کام مقبوضہ کشمیر کے اندر سے کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے لیے بیرونِ کشمیر سے منصوبہ بندی اور باقاعدگی (systematically) سے کام کیا جانا چاہیے۔
بھارتی حکومت کا ساتھ دینے والے کشمیری مسلمانوں نے بہت کھل کر اعتراف کیا ہے کہ ’’بھارت نے ہمیں دھوکا دیا ہے اور ہم اُس پر اعتماد کرنے کی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کو پھر جھانسہ دینے کے لیے بھارتی پالیسی ساز ادارے رابطے قائم کر رہے ہیں، تاکہ انھیں اگلی مرتبہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں۔ اس ضمن میں اگر بھارتی عناصر کامیاب ہوجاتے ہیں، تو یہ بہت نقصان دہ عمل ہوگا۔ اس پس منظر میں بھارتی جارحیت کے مدمقابل قوتوں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں ، انھیں تحفظ دیں، ساتھ چلائیں، ممکن حد تک اتفاق راے کے نکات پر اپنا ساتھی بنائیں اور اگر یہ ساتھ نہیں چلتے تو کم از کم یہ دوبارہ بھارتی سیاسی حکمت عملی کا حصہ نہ بنیں۔ یہ حکمتِ کار بھی ایک مفید عمل ہوگا۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت بھارت بڑی مکاری سے کوشش کر رہا ہے کہ ایک نئی ’بھارت نواز کشمیری قیادت‘ اُبھارے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وہ کئی افراد میدان میں لاچکا ہے لیکن ابھی تک اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس یہ کوشش کی جائے کہ جو شخص ایسی کوشش کرے اسے بے نقاب کیا جائے۔ اس کے تعلقات اور پس منظر کو نمایاں کیا جائے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان نئے لوگوں سے بھی رابطہ کاری اور مکالمے کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔
کشمیر میں املاک کی خریدوفروخت پر محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا ایک فتویٰ ترجمان القرآن (اپریل ۲۰۲۰ء) میں شائع کیا گیا ہے،اسی طرح مسلم اور عرب دنیا کے علما سے فتوے حاصل کیے جائیں ۔مراد یہ ہے کہ بھارت، کشمیر کے مسلمانوں کی زمینوںکو حاصل کرنےاور اس طرح ان کی شناخت کو ختم کرنے کے لیے جو کام کررہا ہے اور جس طرح وہ اپنے غاصبانہ قبضے کو ایک قبول عام شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کا مقابلہ سیاسی اور دینی قیادتوں کو مل کر کرنا ہے۔ اس کے لیے سیاسی میدان میں اوردینی دائرے میںبھی راےعامہ بنانا نہایت اہم کام ہے۔
حکومت پاکستان کو محض تنقید کا نشانہ بنانے کے بجاے، حکومت کو آمادہ ، تیار اور مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر فعال، مربوط اور مؤثر کام کرے۔ ان کاموں میں حکومت کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیے۔ توجہ دلانے کے لیے ملاقاتوں اور مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے اور کشمیر کے مسئلے پر پارٹی سیاست کی محدود اور گروہی سطح سے بلندہوکر کام کرنا چاہیے۔
مقبوضہ کشمیر کے لیے ایک ’عالمی کشمیر ریلیف فنڈ‘ کا قیام بھی نہایت ضروری ہے۔ خاص طور پر کورونا کی وجہ سے اور اس سے قبل دس مہینوں کے ’جبری کشمیری لاک ڈاؤن‘ میں مکمل کاروبار کی بندش کی وجہ سےکشمیر کے تاجروں اور عام شہریوں کا بے پناہ معاشی نقصان ہوا ہے، بلکہ معاشی تباہی ہوئی ہے۔ وہ چاروں طرف سے ۹لاکھ فوجیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں، علاج معالجے کی صورتِ حال حددرجہ ابتر ہے۔ ا ن کی سماجی بحالی اور زندگی و صحت کے لیے عالمی سطح پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے ممالک میں موجود اہلِ خیر کو اس خدمت کے لیے متوجہ کیا جائے۔ وسائل جمع کرکے ان تک پہنچائے جائیں۔ یہ کام بھی فوری توجہ چاہتا ہے۔
مجھے توقع ہے کہ جس مرحلے میں یہ تحریک داخل ہوئی ہے اس سے ان شاء اللہ قدم آگے بڑھیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تحریک کامیاب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دے کہ ہم اپنی آنکھوں سے اس کامیابی کو دیکھ سکیں۔
انسانی زندگی اور تاریخ آزمایشوں، مصیبتوں اور ناقابلِ تصور حوادث سے گندھی ہوئی ہے۔ اکثر اوقات یہ آزمایشیں انسانوں کے لیے ایک اچانک حادثہ قرار دی جاتی ہیں کہ ایسے بھیانک منظر کا قبل ازیں تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ پھر لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ مصائب و مشکلات بعض اوقات سرزنش اور عذاب کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ مگر عذاب کی سی اُس صورتِ حال کو ظاہربین اور الٰہی ہدایت سے بے نیاز لوگ محض ’حادثہ‘ ہی قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ حادثے سے بہت بڑی افتاد اور ہلامارنے کا لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے۔ اکثر مصائب تو خود انسانوں کے ہاتھوں پرورش پاتے اور پھر اسی انسان کو بلاخیزی سے کچل ڈالتے ہیں۔ ایسے مصائب و حوادث قدرتِ حق کی جانب سے، باغی و سرکش انسان کی بددماغی پر کھلی تنبیہہ ہوتے ہیں۔
بہرحال، گذشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران اس کرئہ ارضی پر ’’نوول کرونا وائرس‘ اس انداز سے رُونما ہوا، چاروں طرف پھیلا اور جان لیوا تباہی کا طوفان بن کر یوں مسلط ہوا ہے کہ دہشت، خوف، بے بسی اور بےچارگی نے ’انسان عظیم ہے‘ کے غبارے کو ٹکڑوں میں بکھیر کر رکھ دیا ہے۔اس چیز کو آزمایش کہیں یا عذاب قرار دیں؟ قدرتی طور پر یا خود انسان کے ہاتھوں پیدا کردہ آفات کو اللہ کا عذاب قرار دینے کا ہم کو حق نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم متعین طور پر فیصلہ نہیں دے سکتے کہ قوموں کی تباہی کے قانون کے رازدان اللہ کے پیغمبر علیہم السلام ہی تھے، لیکن چند در چند علامتوں سے نتائج ضرور اخذ کرسکتے ہیں۔
یہ امرِواقعہ ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سو برس کے دوران، ایک طرف انسان نے جہاں سائنس، میڈیکل، خلائی اسرار، فنون اور ضرب و حرب کے میدان میں ناقابلِ تصور ترقی کی۔ دوسری طرف ہزاروں برسوں پر پھیلے اخلاقیات و الٰہی ہدایات پر مبنی فکری و عملی اور تہذیبی و سماجی ڈھانچے کو برباد کرنے کا پاگل پن بھی اسی انسان کے دماغ میں جڑ پکڑنے لگا۔ اس فساد کے پھول، پھل لانے کے لیے خدا کی ہستی کا انکار ضروری قرار دیا گیا اور الٰہی ہدایت کو ایک واہمہ اور افسانہ قرار دینا عقل و دانش کی علامت سمجھا جانے لگا۔ فوجی، سیاسی، مادی، سائنسی اور مالی قوت کو حتمی سچائی قرار دے کر انسانیت کے چیتھڑے اڑانے کو ’طاقت کا قانون‘ قرار دیا گیا، جس کی بدنما مثال ’ویٹو کلب‘ اور عالمی مالیاتی و تجارتی کلب کے کرتا دھرتا ہیں۔ جو من مانے فیصلے کرکے کمزور ملکوں اورقوموں کو روند ڈالتے ہیں۔ جب جی چاہے کیمیائی، جوہری، جراثیمی ہتھیارو آلات بناکر فضائی آلودگی پھیلانے اور ماحولیاتی توازن بگاڑنے کی دھونس جماتے ہیں۔ اس طرح قوت اور اخلاقیات سے بغاوت پر مبنی ’جدیدجاہلیت‘ نے ’عصرجدید‘ کو تشکیل دیا ہے۔ اسی عصرِ جدید کے مظہر ۱۹۸ ممالک، آج ’کرونا وائرس‘ کے نہایت حقیروجود کے سامنے اپنی بے بسی اور درماندگی میں موت اور تباہی کے شکنجے کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
یہاں پر مولانا سیّدابوالاعلیٰ موددی رحمۃ اللہ علیہ (۱۹۰۳-۱۹۷۹ء) کی دو تحریروں کے کچھ حصے پیش کیے جارہے ہیں، جن کا موضوع براہِ راست موجودہ منظرنامہ تو نہیں ہے، لیکن اس طوفان و آزمایش یا تاریخ کے ناقابلِ تصور امتحان پر غور وفکر کا سامان ضرور موجود ہے: پہلا حصہ انھوں نے ستمبر۱۹۳۳ء میں تحریر فرمایا تھا اور دوسرا حصہ تفہیم القرآن کے لیے اگست ۱۹۶۱ء میں تحریر کیا تھا۔(ادارہ)
[۱]
قرآنِ مجید میں جگہ جگہ ان قوموں کا ذکر آیا ہے، جن پر گذشتہ زمانے میں اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے۔ ہرقوم پر نزولِ عذاب کی صورت مختلف رہی ہے: عاد پر کسی طرح کا عذاب اُترا، ثمود پر کسی اور طرح کا، اہلِ مدین پر کسی دوسری صورت میں، آلِ فرعون پر ایک نئے انداز میں۔ مگر عذاب کی شکلیں اور صورتیں خواہ کتنی ہی مختلف ہوں، وہ قانون جس کے تحت یہ عذاب نازل ہوا کرتا ہے ایک ہی ہے اور ہرگز بدلنے والا نہیں:
سُـنَّۃَ اللہِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۶۲(احزاب ۳۳:۶۲) یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آرہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔
نزولِ عذاب کے اس قانون کی تمام دفعات پوری تشریح کے ساتھ قرآنِ مجید میں درج ہیں۔ اس کی پہلی دفعہ یہ ہے کہ جب کسی قوم کی خوش حالی بڑھ جاتی ہے، تو وہ غلط کاری اور گمراہی کی طرف مائل ہوجاتی ہے اور خود اس کی عملی قوتوں کا رُخ صلاح سے فساد کی طرف پھر جایا کرتا ہے:
وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِكَ قَرْيَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْہَا فَفَسَقُوْا فِيْہَا فَحَـــقَّ عَلَيْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِيْرًا۱۶ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۶) اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ لوگ اس بستی میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں۔ پھر وہ بستی عذاب کے حکم کی مستحق ہوجاتی ہے ۔ پھر ہم اس کو تباہ و برباد کرڈالتے ہیں۔
دوسرا قاعدئہ کلیہ یہ ہے کہ خدا کسی قوم پر ظلم نہیں کرتا۔ بدکار قوم خود ہی اپنے اُوپر ظلم کرتی ہے۔ خدا کسی قوم کو نعمت دے کر اس سے کبھی نہیں چھینتا۔ ظالم قوم خود اپنی نعمت کے درپئے استیصال ہوجاتی ہے اور اس کے مٹانے کی کوشش کرتی ہے:
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۙ (انفال ۸:۵۳) یہ اللہ کی اُس سنت کے مطابق ہے کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو، اُس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِعمل کو نہیں بدل دیتی۔
فَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَ۷۰(التوبہ ۹:۷۰) پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا ، مگر وہ آپ ہی اپنے اُوپر ظلم کرنے والے تھے۔
پھر یہ بھی اسی قانون کی ایک دفعہ ہے کہ خدا ظلم (برنفسِ خود) پر مواخذہ کرنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور تنبیہیں کرتا رہتا ہے کہ نصیحت حاصل کریں اور سنبھل جائیں:
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِظُلْمِہِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْہَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۚ (النحل ۱۶:۶۱)اگر کہیں اللہ، لوگوں کو ان کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کرتا تو روے زمین پر کسی متنفّس کو نہ چھوڑتا۔ لیکن وہ سب کو ایک مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّہُمْ يَتَضَرَّعُوْنَ۴۲ فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُـنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۴۳ (انعام ۶:۴۲-۴۳) تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول ؑبھیجے اور ان قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا، تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔ پس ، جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انھوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر ان کے دل تو سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، خوب کر رہے ہو۔
اس ڈھیل کے زمانے میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظالم قوموں کو خوش حالی کے فتنے میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ وہ اس سے دھوکا کھا جاتی ہیں اور واقعی یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ ہم ضرور نیکوکار ہیں ورنہ ہم پر نعمتوں کی بارش کیوں ہوتی؟
اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ۵۵ۙ نُسَارِعُ لَہُمْ فِي الْخَــيْرٰتِ۰ۭ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۵۶ (المومنون ۲۳:۵۵-۵۶)کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انھیں مال اولاد سے مدد دیے جارہے ہیں، تو گویا انھیں بھلائیاں (فائدے) دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں، اصل معاملے کا انھیں شعور نہیں ہے۔
آخرکار جب وہ قوم کسی طرح کی تنبیہہ سے بھی نہیں سنبھلتی اور ظلم کیے ہی جاتی ہے، تو خدا اس کے حق میں نزولِ عذاب کا فیصلہ کردیتا ہے، اور جب اس پر عذاب کا حکم ہوجاتا ہے تو کوئی قوت اس کو نہیں بچاسکتی:
وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَہْلَكْنٰہُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَعَلْنَا لِمَہْلِكِہِمْ مَّوْعِدًا۵۹ (الکھف ۱۸:۵۹) یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمھارے سامنے موجود ہیں، انھوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔
وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَہِىَ ظَالِمَۃٌ ۰ۭ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ۱۰۲ (ھود۱۱:۱۰۲)اورتیرا ربّ جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔
وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ ۰ۚ وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ۱۱ (الرعد ۱۳:۱۱) اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے، تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔
یہ عذابِ الٰہی کا اٹل قانون جس طرح پچھلی قوموں پر جاری ہوتا رہا ہے، اسی طرح آج بھی اس کا عمل جاری ہے۔ اور اگر بصیرت ہو تو آج آپ خود اپنی آنکھوں سے اس کے نفاذ کی کیفیت ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مغرب کی وہ عظیم الشان قومیں جن کی دولت مندی و خوش حالی، طاقت و جبروت، شان و شوکت، عقل و ہنر کو دیکھ دیکھ کر نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں، اور جن پر انعامات کی پیہم بارشوں کے مشاہدے سے یہ دھوکا ہوتا ہے، کہ شاید یہ خدا کے بڑے ہی مقبول اور چہیتے بندے اور خیروصلاح کے مجسّمے ہیں، ان کی اندرونی حالت پر ایک غائر نگاہ ڈالیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ اس عذابِ الٰہی کے قانون کی گرفت میں آچکی ہیں۔اور انھوں نے اپنے آپ کو خود اپنے انتخاب و اختیار سے اس دیوِ ظلم (ظلم بر نفسِ خود) کے چنگل میں پوری طرح پھنسا دیا ہے، جو تیزی کے ساتھ انھیں تباہی و ہلاکت کی طرف لیے چلا جارہا ہے۔
وہی صنعت و حرفت کی فراوانی، وہی تجارت کی گرم بازاری، وہی وباے سیاست کی کامیابی، وہی علومِ حکمیہ و فنونِ عقلیہ کی ترقی، وہی نظامِ معاشرت کی سربفلک بلندی، جس نے ان قوموں کو دنیا پر غالب کیا ، اور روے زمین پر ان کی دھاک بٹھائی ، آج ایک ایسا خطرناک جال بن کر ان کو لپٹ گئی ہے جس کے ہزاروں پھندے ہیں اور ہرپھندے میں ہزاروں مصیبتیں ہیں۔ وہ اپنی عقلی تدبیروں سے جس پھندے کو کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کا ہرتار کٹ کر ایک نیا پھندا بن جاتا ہے، اور رہائی کی ہرتدبیر مزید گرفتاری کا سبب ہوجاتی ہے ع
از سر گرہ زند گرہِ ناکشودہ را
یہاں ان تمام معاشی اور سیاسی اور تمدنی مصائب کی تفصیل کا موقع نہیں ہے، جن میں مغربی قومیں اس وقت گرفتار ہیں۔ بیانِ مدّعا کے لیے اس تصویر کا ایک پہلو پیش کیا جاتا ہے، جس سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ قومیں کس طرح اپنے اُوپر ظلم کررہی ہیں اور کس طرح اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کیے جارہی ہیں۔
اپنے معاشی، تمدنی اور سیاسی احوال کی خرابی کے اسباب تشخیص کرنے اور ان کا علاج تجویز کرنے میں اہلِ فرنگ سے عجیب عجیب غلطیاں ہورہی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی مشکلات کا بڑا بلکہ اصل سبب آبادی کی کثرت کو سمجھنے لگے اور ان کو اس کا صحیح علاج یہ نظر آیا کہ افزایش نسل کو روکا جائے، معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ یہ خیال نہایت تیزی کے ساتھ مغربی ممالک میں پھیلنا شروع ہوا، اور دلوں میں کچھ اس طرح بیٹھا کہ لوگ اپنی نسل کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگے، یا بالفاظِ دیگر اپنی نسل کے سب سے بڑے دشمن بن گئے۔
چنانچہ، ضبط ِ ولادت کے نئے نئے طریقے جو پہلے کسی کے ذہن میں بھی نہ آتے تھے، عام طور پر رائج ہونے شروع ہوئے۔ اس تحریک کو ترقی دینے کے لیے نہایت وسیع پیمانے پر تبلیغ و اشاعت کی گئی۔ کتابیں، پمفلٹ، رسائل اور جرائد خاص اسی موضوع پر شائع ہونے لگے۔ انجمنیں اور جمعیتیں قائم ہوئیں۔ ہرعورت اور مرد کو اس کے متعلق معلومات بہم پہنچانے ، اور عملی آسانیاں فراہم کرنے کا انتظام کیا گیا۔ غرض یورپ اور امریکا کے عمرانی ’مصلحین‘ نے اپنی نسلوں کے خلاف ایک زبردست جنگ چھیڑ دی اور ’جوشِ اصلاح‘ میں ان کو یہ سوچنے کا ہوش بھی نہ آیا کہ آخر یہ جنگ کہاں جاکر رُکے گی۔
اہلِ فرنگ نے کیا اس کا اطمینان کرلیا ہے کہ کسی روز مغربی افریقہ کے مچھر، زردبخار کے جراثیم لیے ہوئے خود انھی کے ہوائی جہازوں پر بیٹھ کر یورپ نہ پہنچ جائیں گے؟ کیا انھوں نے اس کی کوئی ضمانت لے لی ہے کہ کبھی یورپ میں [یا دُنیا میں کہیں بھی] اچانک انفلوائنزا ، طاعون، ہیضہ اور ایسے ہی دوسرے وبائی امراض میں سے کوئی مرض نہ پھیل جائے گا؟ کیا وہ اس سے بے خوف ہوچکے ہیں کہ ایک دن یکایک فرنگی سیاست کے باروت خانوں میں سے کسی ایک میں ویسی ہی کوئی چنگاری نہ آپڑے گی، جیسی ۱۹۱۴ء میں سرائیوو میں گری تھی اور پھر فرنگی قومیں خود اپنے ہاتھوں سے وہ سب کچھ نہ کرگزریں گی جو کوئی وبا اور کوئی بیماری نہیں کرسکتی؟ اگر ان میں سے کوئی صورت بھی پیش آگئی اور دفعتاً یورپ کی آبادی سے چندکروڑ آدمی قتل یا ہلاک یا ناکارہ ہوگئے تو اس وقت یورپ کے باشندوں کو معلوم ہوگا کہ انھوں نے اپنے آپ کو خود کس طرح تباہ کیا:
اَفَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا بَيَاتًا وَّہُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ۹۷ۭ اَوَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا ضُـحًى وَّہُمْ يَلْعَبُوْنَ۹۸ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللہِ ۰ۚ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۹۹ (اعراف ۷:۹۷ تا۹۹)پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی، جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا، جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے، جو تباہ ہونے والی ہوتی ہے۔
ایسی ہی ایک قوم اب سے تین ہزار برس پہلے عرب کے جنوبی ساحل پر آباد تھی جس کا ذکر قرآن مجید میں سبا کے نام سے کیا گیا ہے۔اس قوم کی گھنی آبادی کا سلسلہ سواحلِ بحرہند سے سواحلِ بحراحمر تک پھیلا ہوا تھا۔ ہندستان اور یورپ کے درمیان جتنی تجارت اس زمانے میں ہوتی تھی، وہ سب اسی قوم کے ہاتھوں میں تھی۔ اس کے تجارتی قافلے جنوبی ساحل سے مال لے کر چلتے تو مغربی ساحل تک مسلسل بستیوں اور باغوں کی چھاؤں میں چلے جاتے تھے:
وَجَعَلْنَا بَيْنَہُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا قُرًى ظَاہِرَۃً وَّقَدَّرْنَا فِيْہَا السَّيْرَ ۰ۭ سِيْرُوْا فِيْہَا لَيَالِيَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيْنَ۱۸ (السبا۳۴: ۱۸) اور ہم نے ان کے اور اُن بستیوں کے درمیان، جن کو ہم نے برکت عطا کی تھی، نمایاں بستیاں بسادی تھیں اور ان میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے پر رکھ دی تھیں۔ چلو پھرو، ان راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ۔
مگر انھوں نے اللہ کی اس نعمت کو مصیبت سمجھا اور چاہا کہ ان کی یہ گھنی، متصل، مسلسل بستیاں کم ہوجائیں اور ان کا باہمی فصل بڑھ جائے:
فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ (السبا۳۴: ۱۹) انھوں نے کہا: ’’اے ہمارے ربّ، ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کردے‘‘۔ انھوں نے اپنے اُوپر ظلم کیا۔
یہاں لفظ بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا سے پتا چلتا ہے کہ تجارتی خوش حالی کی وجہ سے جب آبادی بڑھی اور بستیاں گنجان ہوگئیں تو وہاں بھی یہی سوال پیدا ہوا تھا، جو آج یورپ میں پیدا ہوا ہے۔ اور وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ سے اشارہ ملتا ہے کہ شاید انھوں نے بھی مصنوعی تدبیروں سے آبادی گھٹانے کی کوشش کی ہوگی۔ پھر ان کا حشر کیا ہوا؟
فَجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِيْثَ وَمَزَّقْنٰہُمْ كُلَّ مُمَــزَّقٍ ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ۱۹ (السبا: ۱۹) [آخرکار ہم نے انھیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں بالکل ہی تتربتر کردیا۔ یقینا، اس میں نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے ، جو بڑا صابروشاکر ہو۔]
[یعنی] خدا نے ان کو منتشر اور پارہ پارہ کرکے ایسا تباہ و برباد کیا کہ بس ان کا وجود افسانوں ہی میں رہ گیا۔ [۱۹۳۳ء]
[۲]
وَلَنُذِيْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۲۱ (السجدہ ۳۲:۲۱) اُس ’عذابِ اکبر‘ سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں۔
’عذابِ اکبر‘ سے مراد آخرت کا عذاب ہے، جو کفروفسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں ’عذاب ادنیٰ‘ کا لفظ استعمال کیا گیاہے، جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں، جو اِسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں، مثلاً افرد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات، ناکامیاں وغیرہ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان،زلزلے، سیلاب، وبائیں، قحط، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں، جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت [قرآن کریم میں] یہ بیان کی گئی ہے کہ عذابِ اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اُس طرزِفکروعمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخرکار وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اُس سےبالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کررکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے، جو اسے اپنی بے بسی اور اپنے سے بالاتر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرماںروائی کا احساس دلاتی ہیں۔یہ آفات ایک ایک شخص کو، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دلاتی ہیں، کہ اُوپر تمھاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے۔ سب کچھ تمھارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے۔ اصل طاقت اسی کارفرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے۔ اُس کی طرف سے جب کوئی آفت تمھارے اُوپر آئے، تو نہ تمھاری کوئی تدبیر اسے دفع کرسکتی ہے، اور نہ کسی جِنّ یا روح، یا دیوی اور دیوتا، یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔اس لحاظ سے یہ آفات محض آفات نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں، جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں۔ ان سے سبق لے کر دنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کرلے تو آخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَا ط (السجدہ ۳۲:۲۲) اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جسے اس کے ربّ کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے۔
’ربّ کی آیات‘ ،یعنی اُس کی نشانیوں کے الفاظ بہت جامع ہیں، جن کے اندر تمام اقسام کی نشانیاں آجاتی ہیں۔ قرآنِ مجید کے جملہ بیانات کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں حسب ذیل چھے قسموں پر مشتمل ہیں:
۱- وہ نشانیاں جو زمین سے لے کر آسمان تک ہرچیز میں اور کائنات کے مجموعی نظام میں پائی جاتی ہیں۔
۲- وہ نشانیاں جو انسان کی اپنی پیدایش اور اس کی ساخت اور اس کے وجود میں پائی جاتی ہیں۔
۳- وہ نشانیاں جو انسان کے وجدان میں، اس کے لاشعور اور تحت الشعور میں، اور اس کے اخلاقی تصورات میں پائی جاتی ہیں۔
۴- وہ نشانیاں جو انسانی تاریخ کے مسلسل تجربات میں پائی جاتی ہیں۔
۵- وہ نشانیاں جو انسان پر آفاتِ ارضی و سماوی کے نزول میں پائی جاتی ہیں۔
۶- اور ان سب کے بعد وہ آیات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے بھیجیں تاکہ معقول طریقے سے انسان کو انھی حقائق سے آگاہ کیا جائے، جن کی طرف اُوپر کی تمام نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں۔
یہ ساری نشانیاں پوری ہم آہنگی، اور بلند آہنگی کے ساتھ انسان کو یہ بتارہی ہیں کہ تو بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کا بندہ ہے، بلکہ تیرا خدا صرف ایک ہی خدا ہے جس کی عبادت و اطاعت کے سوا تیرے لیے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ہے۔ تُو اس دنیا میں آزاد و خودمختار اور غیرذمہ دار بناکر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ تجھے اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہوکر جواب دہی کرنی ہے اور اپنے عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا پانا ہے۔ پس، تیری اپنی خیر اسی میں ہے کہ تیرے خدا نے تیری رہنمائی کے لیے اپنے انبیا علیہم السلام اور اپنی کتابوں کے ذریعے سے جو ہدایت بھیجی ہے، اس کی پیروی کر اور خودمختاری کی روش سے باز آجا۔
اب یہ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اتنے مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہو، جس کی فہمایش کے لیے طرح طرح کی اتنی بے شمار نشانیاں فراہم کی گئی ہوں، اور جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے کان اور سوچنے کے لیے دل کی نعمتیں بھی دی گئی ہوں، وہ اگر ان ساری نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلیتا ہے، سمجھانے والوں کی تذکیر و نصیحت کے لیے بھی اپنے کان بند کرلیتا ہے، اور اپنے دل و دماغ سے بھی اوندھے فلسفے ہی گھڑنے کا کام لیتا ہے، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ پھر اسی کا مستحق ہے کہ دنیا میں اپنے امتحان کی مدت ختم کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو تو بغاوت کی بھرپور سزا پائے۔[اگست ۱۹۶۱ء/تفہیم القرآن، ج۴، ص ۴۷-۴۸]