اشارات


’ترقی کے تصور‘ کا بحران ایک اہم مسئلہ ہے، لیکن صرف یہی ایک پہلو نہیں ہے۔ اس بندگلی سے نکلنے کے لیے بنیادی راستہ یہ ہے کہ ترقی کے لیے روایتی مثالیے (Paradigm) کو تبدیل کیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہم مسائل بھی ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس موقعے پر ہم ان سے متعلقہ چنداُمور کی نشاندہی کریں گے:

            ۱-         حقیقی منصوبہ بندی اور دانش مندانہ اقتصادی پالیسی سازی کے لیے اگر ایک لازمی شرط مناسب تصوراتی ڈھانچے کی فراہمی اور پالیسی سازوں اور اقتصادی ماہرین کے درست ذہنی رویے (مائنڈسیٹ) ہیں۔ دوسری شرط کا تعلق قابلِ اعتماد اعداد و شمارکی فراہمی، فنی مہارت اور فیصلہ سازی کے مناسب نظام، پالیسی پرعمل درآمد، بروقت نگرانی کے بندوبست اور ناکامی، کوتاہی اور غلطی کے نتیجے میں درستی کے مؤثر عمل سے ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس سمت میں اس سب کے باوجود کوششیں ناکافی ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے ایک خودمختار اتھارٹی ہو، جسے اعلیٰ مہارت و دیانت کے حامل ماہرین چلائیں۔ یہ اتھارٹی اسمبلی کو براہِ راست جواب دہ ہو اور اس کی رپورٹیں اسمبلی میں باقاعدگی سے پیش ہوں جس طرح کہ اسٹیٹ بنک کی رپورٹیں پیش ہوتی ہیں۔

            ۲-         نئے ترقیاتی مثالیے کے لیے پلاننگ کمیشن کی تعمیرنو اور اصلاحی پروگرام ایک لازمی تقاضا ہے۔ منصوبہ بندی اور منصوبہ بندی کمیشن کا کردار واضح طور پر متعین ہونا چاہیے۔ اس کا تعلق معاشی اُمور میں ریاست کے کردار سے ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے بہت سا ابہام پایا جاتا ہے۔ ریاست کو مارکیٹ اکانومی کے متوازن بنانے میں فعال اور مثبت کردار ادا کرنا چاہیے، بلکہ مارکیٹ کی ناکامی کے بارے میں بھی محتاط رہنا چاہیے اور اس بات پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ سماجی مقاصد پوری طرح سے بروئے کار لائے جارہے ہیں یا سماجی و معاشی زندگی کو روندا جارہا ہے؟ حکومت کی مداخلت واضح طور پر طے شدہ ضابطوں کے تحت ہونی چاہیے تاکہ یہ افسرشاہی کی بے جا مداخلت، سُست روی، رشوت ستانی اور سیاسی کھیل کا آلۂ کار نہ بن سکے۔ طریقِ کار شفاف ہونا چاہیے اور احتساب کے نظام کو پوری طرح مستحکم ہونا چاہیے۔

            ۳-         نظام کی ایک اور کمزوری کا تعلق معاشی پالیسی سازی کے لیے مختلف سطح پرتحقیق کی سہولت کا موجود نہ ہونا ہے۔ اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ آزادانہ تحقیق کو فروغ دیا جائے اور اس بات کا انتظام کیا جائے کہ اس تحقیق کے نتائج حکومت اور اس کی ایجنسیوں کو، تعلیمی، تحقیقی اور کاروباری اداروں کو آسانی سے دستیاب ہوں۔ کونسل آف اکنامکس ایڈوائزرز کے وفاقی اور صوبائی سطح پر قیام کے بارے میں بھی سوچا جانا چاہیے۔ یونی ورسٹیوں اور نجی سطح پر قائم تحقیقی اداروں کو بھی تحقیقات مصلحت بینی کے بغیر شائع کرنی چاہییں۔ پالیسی سازی کے معیار کی بہتری صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب ان اُمور کو اداراتی سطح پر انجام دیا جائے۔ پھر یہ بھی اہم ہے کہ بیرونی ماہرین پر انحصار کو کم کیا جائے اور پالیسی آپشن اور قدروقیمت کا اندازہ لگانے (evaluation) کے عمل میں اضافہ کیا جائے۔

            ۴-         ایک اہم مسئلہ فیصلہ سازی اور ترقیاتی عمل میں عوام کی شمولیت ہے۔ کچھ اقتصادی ماہرین کا مشورہ ہے کہ ترقیاتی اُمور تین سیکٹر میں باہمی تعاون کے ساتھ انجام دیے جانے چاہییں___ عوامی، نجی، اور عوام اور حکومت کے مابین سول سوسائٹی کے اداروں کی شراکت داری اور انتظام کے ذریعے۔ ایثارپیشہ سیکٹر ایک بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسے ایک مناسب انداز میں ترقی، منصوبہ بندی اور انتظام و انصرام کے عمل سے مربوط کیا جاسکتا ہے۔ اس پہلو کو پوری طرح سے منظم اور مربوط کیا جائے۔

            ۵-         ایک بڑا پیچیدہ پہلو ریاست کے وفاقی کردار اور صوبائی اختیارات کے درمیان ابہام و اختلاف سے متعلق ہے۔ ترقی، منصوبہ بندی اور انتظامیہ اور ریاست کے مالیاتی ڈھانچے اور پالیسی سازی میں حد سے بڑھی مرکزیت (over- centralisation)پائی جاتی ہے۔ اس میدان میں تبدیلی کے لیے بنیادی فکر اور ڈھانچے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ یہ کام قومی ہم آہنگی کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔ اگر اس پہلو پر فوری طور پر توجہ نہ دی گئی تو اس کے ملک بالخصوص معیشت اور سیاسی اُمور پر سخت منفی اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔

            ۶-         عارضی (ایڈہاک ازم) اور قلیل مدت کے لیے منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے کلچر کا  مسلط رہنا بھی ایک چیلنج ہے۔ درمیانی مدت کی منصوبہ بندی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ملک زیادہ دیر تک اس طرزِعمل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

            ۷-         پاکستان کی ترقی کا مسئلہ شدید خسارے اور عدم توازن کے کچھ پہلوئوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرتا ہے۔ زراعت سے صنعت بشمول بھاری صنعت اور سروسز سیکٹر کی طرف ترقی کا سفر نشیب و فراز پر مبنی ہے۔ پاکستان کے سروسز سیکٹر میں توسیع نظر آتی ہے، لیکن یہ توسیع زراعت اورصنعتی سیکٹر میں متناسب توسیع اور معیار میں بہتری کے بغیر ہے۔ اشیا اور وسائل کے استعمال اور صَرف(consumption) کی اپنی حدود ہیں۔ اندرونِ ملک بچتوں (domestic savings) میں توسیع کے نتیجے میں لازماً سرمایہ کاری بڑھنی چاہیے،مگر اس میں شدید عدم توازن پایا جاتا ہے۔ پھر درآمد و برآمد میں عدم توازن کا مسئلہ بھی بُری طرح درپیش ہے۔ پائدار ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب پیداوار سیکٹر میں توسیع ہورہی ہو، پیداوار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہو، ملکی بچت اور سرمایہ کاری پر زیادہ انحصار ہو، انفراسٹرکچر میں مناسب سرمایہ کاری کی جائے اور ملکی پیداوار کو بیرونِ ملک فروخت کیا جائے۔ پاکستان کی تجارت، ادائیگی میں عدم توازن، مالیاتی خسارہ، قرض کا بڑھتا ہوا بوجھ اور افراطِ زر کا دبائو، نظام میں شدید بگاڑ اور کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔

            ۸-         سماجی شعبے کی ترقی، یعنی تعلیم، صحت، خوراک، مہارت کا فروغ اور انصاف کی فراہمی صحت مند اور پائدارترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ اسی قدر اہم ہے جیساکہ ترقی کی رفتار کی شرح اہم ہے۔ دراصل ان دونوں کے درمیان ایک باہمی تعلق پایا جاتا ہے اور یہ دونوں طرح سے کام کرتا ہے۔ معاشی ترقی، سماجی ترقی کے لیے وسائل فراہم کرتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ سماجی ترقی بھی اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑا بنیادی عنصر ہے۔ صحت، تعلیم، مہارت میں فروغ اور جدوجہد کے لیے سرگرم جذبہ ترقی کے فروغ کے لیے اہم عناصر ہیں۔ لہٰذا، نیامثالیہ جس کی سفارش کی جارہی ہے، یہ trickle-down ماڈل سے نمایاںفرق ظاہر کرتا ہے اور سماجی ترقی کو معاشی ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں کا مرکز بنا دیتا ہے۔

            ۹-         قومی خودانحصاری کا حصول اس بحث کا مرکزی پہلو ہے۔ خودانحصاری کا مطلب معاشی خودکفالت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو بیرونی قوتوں اور بیرونی اداروں اور حکومتوں پرانحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کو اپنے قومی مقاصد اور اغراض کے پیش نظر اپنی ترجیحات اور پروگراموں کا تعین کرنا چاہیے۔ دوسروں پر انحصار کرنے کے مختلف پہلو ہیں جن میں فہم و دانش، سیاسی، اقتصادی، ٹکنالوجی اور ثقافتی پہلو شامل ہیں۔ یہ تمام پہلو آپس میں مربوط ہیں۔ عالم گیریت کا مطلب لازماً خودانحصاری کا نقصان یا نظریاتی اور ثقافتی تشخص سے محرومی نہیں ہے۔ یہ مکمل خودانحصاری کے ساتھ ایک ملک کا عالم گیریت کے اثرات سے مستفیدہونا اور اس کے مضر اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔ بیرونی سرمایے پر بہت زیادہ انحصار اور بڑےپیمانے پر بیرونی قرضوں کا حصول، خودانحصاری سے مطابقت نہیں رکھتا۔

                        پاکستان کے پاس ایک بہت اہم اثاثہ (resource) ہے، جسے قومی اقتصادی ترقی کے لیے پوری طرح سے استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ اثاثہ بیرونِ ملک موجود پاکستانی ماہرین، پاکستانی ذہانت (Intellect) اور جوہرِقابل ہے۔ اسی طرح بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلات (Remittences) ایک بہت قیمتی مالیاتی سرمایہ ہیں، جو بدقسمتی سے بڑی حد تک روزمرہ مصرف کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ حالانکہ ان کا ایک قابلِ ذکر حصہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہونا چاہیے، تاکہ بیرونِ ملک کام کرنے والوں اور ان کے خاندان کے لیے ایک مستقل آمدن کا ذریعہ بن سکے، اور ملک کی معاشی ترقی میں بیرونی قرض کی جگہ اپنے لوگوں کے وسائل استعمال ہوسکیں۔ ان خداداد اور قیمتی ذرائع سے مؤثر اور مفید انداز میں استفادے کے لیے مناسب حکمت عملی کی تیاری ایک بڑا چیلنج بھی ہے اور ایک تاریخ ساز موقع بھی۔

            ۱۰-       عوام کا معاشی اور سیاسی عمل میں شرکت ایک فیصلہ کن مسئلہ ہے، جسے ترقیاتی مساعی کے ایک لازمی حصے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اقتصادی ترقی، آزادی اور جمہوریت پوری طرح باہم مربوط ہیں۔ بھارتی نوبیل انعام یافتہ ماہرمعاشیات امریتاسین (Amartaya Sen) کا بنیادی کام اس ضمن میں بہت مناسبت رکھتا ہے۔ (دیکھیے: Development as Freedom، نیویارک، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۹ء)

عوام کی شمولیت، آزادیِ اظہار ، اختلافِ رائے اور تنظیم اور پارلیمنٹ کی بالادستی ایک کامیاب ترقیاتی مثالیے کے بنیادی اجزا ہیں۔ عوام کی شرکت کا ایک اور اہم پہلو انھیں ترقیاتی عمل میں ایک حقیقی نگہدار (stakeholder) بناناہے۔ روزگار کی فراہمی، سیلف ایمپلائمنٹ کی تخلیق اور مفید روزگار کی فراہمی کے مواقع میں متواتر اضافہ، اس سکّے کا دوسرا رُخ ہے۔

پاکستان کی مستقبل کی معاشی ترقی کی حکمت عملی ان دس نکات کے تناظر میں بنائی جانی چاہیے۔ اس خواب کی تعبیر ایک نئے مثالیہ کی تشکیل اور اس کی ترویج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے نتیجے میں قوم اس قابل ہوسکے گی کہ وہ اپنے ذرائع سے پوری طرح مستفید ہوسکے اور پاکستان جس مقصد کی تکمیل کے لیے قائم کیا گیا تھا، وہ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکے۔

اقبال اور قائداعظم کا تصورِ معیشت

اس تناظر میں یہ مفید ہوگا کہ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصورات کو ایک بار پھر تازہ کیا جائے۔اقبال کہتے ہیں:

چیست قرآں، خواجہ را پیغامِ مرگ
دست گیر بندۂ بے ساز و برگ

قرآن کیا کہتا ہے؟ یہ امیروں کے لیے، وہ امیر لوگ جنھوں نے دولت کو اپنا خدا بنا لیا ہے، موت کا پروانہ ہے۔ قرآن ان لوگوں کا مددگار ہے جو وسائل زندگی نہیں رکھتے۔ اس کا مشن غریبوں کو بلند کرنا اور ان کو طاقت ور بنانا ہے۔

کس نہ باشد درجہاں محتاج کس
نکتۂ شرع مبین ، این است و بس

اسلامی شریعت کا مقصد انسان کی دوسرے انسان پرمحتاجی کو ختم کرنا ہے۔ کسی کو دوسروں کا دست نگر نہ رہنا چاہیے۔ یہ وہ مقصد ہے جس کی تکمیل شریعت کے پیش نظر ہے۔

یہی وہ مشن تھا جس کی طرف علامہ اقبال نے قائداعظم محمدعلی جناح کو اپنے انتقال سے تقریباً ایک سال قبل خط میں متوجہ کیا۔ ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کو انھوں نے اپنے اس خط میں قائداعظم کو لکھا:

ہمارے سیاسی اداروں نے عام مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہوتا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ گذشتہ دوسوسال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ عام مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا غربت کی وجہ ہندو کی سودخوری اور سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے۔ یہ احساس کہ غیرملکی حکومت بھی اس افلاس میں برابر کی حصہ دار ہے۔ ابھی پوری طرح ذہنوں میں نہیں اُبھرا، لیکن آخرکار ایسا ہو کر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کبھی مقبول نہ ہوسکےگی۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے؟ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے؟ اگر اس امر میں مسلم لیگ نے کوئی اُمید نہ دلائی تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون (شریعت) کے نفاذ سے اس مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔

اسلامی قانون کے طویل اور گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو کم از کم ہرشخص کے لیے حقِ معاش محفوظ ہوجاتا ہے۔ لیکن جب تک اس ملک میں ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں معرض وجود میں نہیں آتیں، اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور روٹی کا مسئلہ اور ہند میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ (اقبال اور قائداعظم ،مرتبہ: پروفیسر احمد سعید، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۱۰۴-۱۰۵)

قائداعظم نے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے تیسویں سالانہ اجلاس (۲۴؍اپریل ۱۹۴۳ء، دہلی) میں پاکستان کے پیش نظر اقتصادی امور کا ذکر کرتے ہوئے واضح طور پر کہا:

میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کردینا چاہتا ہوں، جو ہمارا خون چُوس کر ایسے نظام کے تحت پلے بڑھے جو اس قدر خبیث اور اس قدر فاسد ہے، جو انھیں اس درجہ خودغرض بنادیتا ہے کہ ان کے ساتھ معقول بات کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ عوام کا استحصال ان کی رگ و پے میں داخل ہوگیاہے، وہ اسلام کی بنیادی تعلیم کو فراموش کربیٹھے ہیں۔ ان لوگوں کی حرص اور خودغرضی نے دوسروں کے مفادات کو اپنے تابع کرلیا ہے، تاکہ وہ موٹے ہوتے رہیں۔ یہ درست ہے کہ آج ہم اقتدار میں نہیں ہیں۔ آپ کہیں بھی دیہات کی طرف نکل جائیں۔ میں گائوں میں گیا ہوں۔ ہمارے لوگوں میں لاکھوں ایسے ہیں، جنھیں رات کو روٹی کھانا بھی نصیب نہیں ہے۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا پاکستان کا یہ مقصد ہے؟ کیا آپ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں کا استحصال کیا گیا اور انھیں دن میں ایک بار بھی روٹی نہیں ملتی؟ اگر پاکستان کا تخیل یہ ہے تو میں ایسا پاکستان نہیں لوں گا۔ اگر ان میں عقل ہے تو انھیں خود کو زندگی کے نئے اور جدید حالات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھراللہ ہی ان کی مدد کرے تو کرے، ہم تو ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔ لہٰذا، ہمیں خود پر اعتماد ہونا چاہیے۔ ہمیں ڈگمگانا چاہیے اور نہ ہچکچانا، یہ ہماری منزل ہے، جسے ہمیں حاصل کرنا ہے۔(Speeches, Statements & Messages of The Quaid-e-Azam، جلد۲، مرتبہ: خورشیداحمد خاں یوسفی، بزمِ اقبال، لاہور)

قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے بعدایک درجن سے زائد تقاریر میں سماجی انصاف کے حصول کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وہ محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے اس قدر فکرمند تھےکہ  ۲۷ستمبر ۱۹۴۷ءکو ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے، انھوں نے صنعتی اور زرعی ترقی پر زور دیتے ہوئےواضح طور پر کہا:

اپنے ملک میں صنعت کاری کے ذریعے ہم اشیائے صرف کی فراہمی کے لیے بیرونی دنیا پر انحصار کم کرسکیں گے،لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرسکیں گے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ کرسکیں گے۔ قدرت نے ہمیں صنعت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے ملک اور عوام کے بہترین مفاد کے لیے استعمال کریں…مجھے یہ بھی اُمید ہے کہ آپ نے فیکٹری کا منصوبہ بناتے وقت کارکنوں کے لیے مناسب رہایش گاہوں اور دیگر سہولتوں کا بھی اہتمام کیا ہوگا کیونکہ مطمئن کارکنوں کے بغیر کوئی صنعت پنپ نہیں سکتی۔ (ایضاً، جلدچہارم، ص۲۶۲۲)

پاکستان کے اقتصادی مقاصد کے بارے میں ان کے وژن کا بڑا واضح اظہار، قوم سے ان کے آخری خطاب میں ہوتا ہے۔ یہی وہ موقع تھا، جب انھوں نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ انھوں نے فرمایا:

حکومت پاکستان کی حکمت ِعملی یہ ہے کہ قیمتوں کو ایسی سطح پر مستحکم کردے جو تیار کنندہ اور صارف دونوں کے لیے منصفانہ ہو۔ مجھے اُمید ہے کہ اس اہم مسئلہ کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے کے لیے آپ کی کوششیں اس پہلو کا لحاظ رکھیں گی۔

آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا، میں اس کا دلچسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے انسانوں کے لیے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچاسکے، جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دُورکرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس گذشتہ نصف صدی میں دوعالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اسی کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوجود جس بدترین ابتری کی شکارہے، وہ اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف اسلام ہی اسے بچاسکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسّرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ (The Civil & Military Gazette، ۲جولائی ۱۹۴۸ء، بحوالہ ایضاً، خورشیداحمد خاں یوسفی،بزمِ اقبال لاہور، جلدچہارم، ص ۲۷۸۵-۲۷۸۸)

دستورِ پاکستان کی دفعات

یہ اقتصادی تصورات اور تصورِ پاکستان، دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باب دوم میں درج ہیں اور پالیسی کے لیے اصول فراہم کرتے ہیں:

اسلامی طریق زندگی

دفعہ ۳۱  (۱) پاکستان کے مسلمانوںکو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآنِ پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔

(۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:

(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قراردینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا، اورقرآنِ پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔

(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور

(ج) زکوٰۃ، عشر ، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

معاشرتی انصاف کا فروغ   اور معاشرتی بُرائیوں کا خاتمہ

دفعہ ۳۷، مملکت:(الف) پسماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔

(ب) کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔

(ج) فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابلِ دسترس بنائے گی۔

(د) سستے اور سہل الحصول انصاف کو یقینی بنائے گی۔

(ہ)منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر یا جنس کے نامناسب ہوں، مقرر کرنے کے لیے، اور ملازم عورتوں کے لیے زچگی سے متعلق مراعات دینے کے لیے احکام وضع کرے گی۔

(و)مختلف علاقوں کے افراد کو تعلیم، تربیت، زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہرقسم کی قومی سرگرمیوں میں جن میں پاکستان میں ملازمت کی خدمت بھی شامل ہے، پورا پورا حصہ لے سکیں۔

عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا فروغ

دفعہ ۳۸، مملکت: (الف) عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کرکے دولت اور وسائلِ پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے اور آجرو ماجور اور زمین دار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہود کے حصول کی کوشش کرے گی۔

(ب) تمام شہریوں کے لیے ملک میں دستیاب وسائل کے اندر معقول آرام و فرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی۔

(ج) پاکستان کی ملازمت میں یا بصورتِ دیگر ملازم تمام اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔

(د) ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں، بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل ، بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلاً خوراک، لباس،رہایش، تعلیم اور طبّی امداد مہیا کرے گی۔

(د) ربا کو جتنی جلد ممکن ہو، ختم کرے گی۔

دستورِ پاکستان کے یہ واضح احکامات ہیں اور دستور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہرسال قومی اسمبلی کو بتایا جائے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے کیا پیش رفت ہوئی ہے اور کیا اقدامات اُٹھائے گئے ہیں؟ لیکن یہ وہ کام ہے جس کی حکومت کبھی فکر نہیں کرتی اور یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پارلیمنٹ اس سلسلے میں مؤثر احتساب کے باب میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔

نئے مثالیـے کی تشکیل

یہاں پیش کی گئی سفارشات کی روشنی میں ہم اس بات کا مشورہ بھی دیں گے کہ نئے مثالیے میں درج ذیل باتوں کی طرف خاص طور پر توجہ مرکوز رکھی جائے:

            ۱-         قدرت نے انسان اور اس کے ماحول کو جو وسائل فراہم کیے ہیں، ان کی بہترین نشوونما کے ساتھ اُنھیں استعمال کیا جائے۔

            ۲-         ان کی اس طرح سے منصفانہ تقسیم اور استعمال ہو کہ تمام انسانی تعلقات کا فروغ اور تنظیم عدل اور احسان کی بنا پر ہو۔

            ۳-         متوازن اور پائدار ترقی، وسائل کے ضیاع اور غلط استعمال سے اجتناب، ظلم اور انسانوں کے استحصال کا خاتمہ کیا جائے۔ مالی اور قیمتوں میں استحکام کے ذریعے افراد کے درمیان، علاقوں کے درمیان، شعبہ جات کےدرمیان اور قومی سطح پر مساوات کا حصول ممکن بنایا جائے۔

            ۴-         خودانحصاری کے اعلیٰ مقام کا حصول بشمول اُمت کی اجتماعی خود انحصاری، حقیقی تکثیریت پر مبنی ایک عالمی نظام کا وژن، جس کے نتیجے میں تمام اقوام اور ثقافتوں کا مل جل کر رہنا ممکن ہو اور وہ ایک منصفانہ عالمی نظام میں باہمی مقابلے اور تعاون کے ساتھ رہ سکیں۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے ترقیاتی حکمت عملی کو درج ذیل اوصاف پر مشتمل ہونا چاہیے:

            ۵-         ترقیاتی حکمت عملی کو اخلاقی،روحانی اور مادی پہلوئوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔

            ۶-         ترقیاتی اہداف __ پیداوار میں اضافے کے لیے جدت و ندرت کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی سے کوشش اور اس بات کو پیش نظر رکھنا کہ اس سے تمام لوگوں کی ضروریات کی فراہمی اور بہتری یقینی ہو، اور ایک مضبوط، ترقی پذیر اورنشوونما پانے والی معیشت کا قیام عمل میں آئے۔

            ۷-         دُنیا میں اچھی زندگی کا حصول، آخرت میں ایک کامیاب زندگی کا وسیلہ ہونا چاہیے۔

            ۸-         محرک ___ اخلاقی محرکات مادی جزا و سزا کے ساتھ۔ ذاتی اصلاح سماجی و اخلاقی ذمہ داری اور جواب دہی کے ساتھ۔

            ۹-         اخلاقی فلٹر اور سماجی فلٹر کا نظام جو صَرف، پیداوار اور فیصلہ سازی کے تمام مراحل پر مارکیٹ کے نظام کو درست رکھنے کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کرے۔

            ۱۰-       فرد کی مرکزیت اور فلاح و بہبود کی حامل سوچ کارفرما ہونا، پیداوار اور صَرف کو مفید اور ثمرآور بنانا چاہیے۔ اجتماعی معاملات کا نظام ماحول دوست ہونا چاہیے۔

            ۱۱-       جائیداد بطورِ ٹرسٹ ___ نجی ملکیت کا حق اور منافع کا حصول، سماجی و اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ۔یہ ایک انقلابی تصور ہے، جو سرمایہ کاری کو سرمایہ پرستی سے محفوظ رکھتا ہے۔

            ۱۲-       مالیاتی ڈھانچے کی تشکیل نو میں سود کا یقینی خاتمہ اور ارتکازِ دولت میں کمی۔

            ۱۳-انصاف کی فراہمی بشمول منصفانہ تنخواہ، آمدنی اور شراکت، رقم کی منتقلی اور مبنی بر عدل وراثت کی تقسیم۔

            ۱۴-حکومت کا مثبت اور بامقصد کردار۔

            ۱۵-معیشت اور اس سے متعلق اُمور کی اَزسرنو تشکیل، محض مالیاتی سیکٹر میں اصلاحات نہ ہوں۔

            ۱۶-       پاکستان کی خودانحصاری اور بحیثیت مجموعی اُمت کی خودانحصاری___ معاشی تعاون اور عالم گیریت کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے یک جہتی کا اظہار اور اس کے لیے مواقع کو استعمال کرنا۔

اُمید ہےکہ مندرجہ بالا اقدامات کی روشنی میں حکومت، تحقیقی اداروں اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے پاکستان کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے ایک سنجیدہ اور پائدار کوشش کی جائے گی تاکہ جس مقصدکے لیے یہ ملک قائم کیا گیا تھا، وہ پورا ہوسکے اور ہمارے عہد میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے جدوجہد کو ایک نئی مہمیز دینے کا باعث بن سکے۔

پاکستان اپنی آزادی کے ۷۴ برس مکمل کرچکا ہے۔ اس موقعے پر اس کی معاشی کارکردگی کا جامع اور صحیح جائزہ و تجزیہ اور اس کی جانچ پڑتال انتہائی ضروری ہے۔

گذشتہ سات عشروں میں جو ترقیاتی منصوبے بنائے گئے، لگتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ دھندلے معاشی مستقبل میں وقتی راستے نکالنے، اور بظاہر ہوشیاری سے راستے نکالنے کی کوششوں کے باوجود امکان نہیں ہے کہ مزید ایسی پالیساں کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ یہ اپنے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کے ساتھ پاکستانی معیشت کا مجموعی منظر نامہ ہے، جو قیامِ پاکستان کے مقاصد اور اس کے عوام کی ادھوری خواہشات کے تناظر میں تجزیے اور جائزے کا مستحق ہے۔ پے دَرپے اُلجھتے معاشی،انتظامی اور سیاسی تجربات کے نتیجے میں اُبھرنے والے ایک عظیم قومی خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دانش وروں اور آزاد تحقیقی اداروں کو چاہیے کہ ان معاشی کامیابیوں اور ناکامیوں کا غیر جانب دارانہ جائزہ لے کر درپیش چیلنج کا جواب دیں اور پاکستانی عوام کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کےلیے متبادل حکمت عملی اور پالیسی کے امکانات کو واضح کریں۔

میں پچھلے سات عشروں میں معاشی کارکردگی کے بارے میں اپنے خیالات اور خدشات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں، جو میری نظر میں چند مثبت کامیابیوں کے باوجود، لوگوں کی ضروریات، توقعات اور اُمنگوں سے بہت کم ہیں۔ سات دہائیوں کی ترقیاتی کوششوں اور بیرونی اور اندرونی بھاری قرضوں کو برداشت کرنے کے بعد، انصاف کے بغیر واضح طور پر متضاد رویوں پر کھڑے معاشی پالیسی سازی کے نظام کا خواب دیکھناایک بے کار حرکت ہے۔دولت، چندحلقوں میں مرتکز ہوگئی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد وسیع پیمانے پر غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے محرومی اور بدحالی کا شکار ہے۔ ترقی کی جو حکمت عملیاں برسوں سے اپنائی گئیں، وہ بڑے پیمانے پر بیرونی صلاح کاری اور تجاویز اور عالمی مالیاتی اداروں کی حاکمانہ ہدایات پر مشتمل تھیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ اصل حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں بلکہ جمہور عوام کی اقدار اور اُمنگوں سے بھی یکسر متصادم تھیں۔ یہ بیش تر پالیسیاں جواز (legitimacy) اور اعتبار (credibility) دونوں سے خالی تھیں، اسی لیے بے ربط اور مسخ شدہ چلی آرہی ہیں۔ اکثر اوقات یہ پالیسیاں معمولی سیاسی فائدے حاصل کرنے کےلیے اور فوری یا مقامی اور غیر ملکی مفادات کو تحفظ دینے اور ان کے تقاضے پورے کرنے کےلیےاپنائی گئی تھیں۔

اگرچہ محضر توازن یا بیلنس شیٹ (balance sheet)کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں، جنھیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اس بیلنس شیٹ کے کچھ بھیانک پہلو بھی ہیں جن پر بہ غور توجہ دیے بغیر بیلنس شیٹ متوازن نہیں رہے گی۔ اس بات پر بمشکل ہی کوئی اختلاف ہوگا کہ پاکستان کا مروج معاشی نظام اپنی حقیقی صلاحیتوں کو پورا نہیں کرسکا، جسے نرم سے نرم الفاظ میں اوسط درجے کا قرار دیا جاسکتا ہے،تاہم اس بناپر پاکستان کو ’ناکام ریاست‘ قرار دینا سخت مضحکہ خیز ہے، جیسا کہ ہمارے بعض کرم فرما اور نقاد مسلسل دُنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بہرحال، اس نظام کو مارکیٹ اکانومی کے جادوئی منتر، لبرلائزیشن، ڈی ریگولیشن، نج کاری، بڑی صنعتوں کے استحکام کے نظریے اور عالم گیریت کی برکات کی وجہ سے کامیابی کی داستان کے طور پر پیش کرنا بھی غلط ہے۔؎۱

معاشی ترقی: تاریخی تناظر

پاکستان کی معاشی کارکردگی کو اس کے تاریخی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ۲۵ فی صد آبادی ہونے کے باوجود ملکی معیشت میں حصہ بمشکل پانچ سے آٹھ فی صد تھا۔ مسلم اکثریتی صوبوں، یعنی موجودہ پاکستان کی معیشت زیادہ تر زراعت پر منحصر تھی۔ کپاس کا ایک بڑا پیداآوری ملک ہونے کے باوجود، ۱۹۴۷ء میں پورے پاکستان میں صرف دو ٹیکسٹائل ملیں تھیں۔ سنہری ریشے (پٹ سن) کی صورت حال مشرقی پاکستان میں زیادہ قابل رحم تھی۔ پاکستان سنہری ریشہ پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک تھا، حالانکہ آزادی کے موقعے پر اس میں سنہری ریشے کی کوئی ایک مِل(Mill) بھی نہیں تھی۔ ۱۹۴۷ء میں ہندستان کی صنعتی پیداوار میں اس خطے کاحصہ ناقابل یقین حد تک کم تھا، جوبمشکل ایک فی صد تھا۔ اس پس منظر میں سنگین ناکامیوں، ضائع ہونے والے مواقع، غلط ترجیحات اور منصفی کی اہم جہتوں کو ناقابل معافی حد تک نظر انداز کیے جانے کے باوجود، گذشتہ ۷۴ برسوں میں جو کچھ حاصل کیا گیا ہے، وہ اہم ہے۔ اگر مسلمان اپنا الگ وطن نہ بناتے تو جو کچھ حاصل کیا گیا ہے، یہ بھی حاصل نہ ہوتا۔ خود ہندستان نے ۱۹۴۷ءسے جو بھی معاشی ترقی کی ہے، وہ بھی ممکن نہ تھی، اگر یہ خطّہ دوبڑی قوموں کے درمیان خانہ جنگی (Civil war) کی حالت میں رہتا (اگرچہ دہلی کے حکمرانوں نے غاصبانہ طورپر مسئلہ کشمیر کھڑا کرکے اس پورے علاقے کو جنگی صورتِ حال سے دوچار کر رکھا ہے)۔

پاکستان ان چند ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے، جنھوں نے سات عشروں کے دوران اوسطاً ۵ فی صد کی شرح ترقی (growth rate)حاصل کی ہے۔ کچھ اہم معاشی ترقیاتی اشاریوں (indicators) پر نظر ڈالنے سے پیش رفت کا عمومی اندازہ ہوتا ہے۔ مجموعی ملکی پیداوار جو ۱۹۴۷ء میں صرف ۵۸ ؍ارب روپے تھی، ۲۰۲۱ء میں بڑھ کر تقریباً۴۶ہزار ۴سو ۶۴؍ ارب روپے ہو گئی ہے، یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں۔اوسط فی کس (per capita)سالانہ اضافہ ۲ فی صد سے زیادہ ہے، جس کے نتیجے میں اس مدت کے دوران فی کس اوسط میں تقریباً پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور جی ڈی پی (خالص قومی پیداوار) کے لحاظ سے اس کی ۴۴ویں بڑی معیشت ہے، جو قوتِ خرید کے برابری کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو دنیا کی ۲۸ویں بڑی معیشت بناتی ہے۔

تاہم، فی کس جی ڈی پی اور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے حوالے سےاس کی پوزیشن واضح طور پر خراب ہے (بالترتیب ۲۰۳ ممالک میں ۱۶۴ واں اور ۱۹۰ ممالک میں ۱۴۷ واں نمبر)۔ سماجی شعبے میں ناکامی، وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ بنیادی طور پر گمراہ کن پالیسیوں کی وجہ سے ہے، جس کو عوام کی عدمِ شرکت اورعمومی احتساب کی عدمِ موجودگی نے بڑھاوا دیا ہے۔مزید برآں ورلڈبنک اور عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) جیسے عالمی سرمایہ دارانہ اداروں کی ہدایات پر ضرورت سے زیادہ انحصار رہا، جنھوں نے مغرب کےلیے بنے معاشی ترقی کے طریقوں کو تیسری دنیا کے ممالک پر چسپاں کرنے کی کوشش کی۔

معیشت کی بنیادی کمزوریوں اور ناکامیوں کا پتا پالیسی کی غلطیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ غلط ترجیحات، بیرونی آمرانہ پالیسیوں، بدانتظامی اور بدعنوانی کی وجہ سے معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ اشرافیہ ہی ہے جس نے عام آدمی کا حصہ غصب کرکے اپنی حد سے زیادہ منافع کمایا ۔ غربت کی سطح میں اتار چڑھاؤ آیا ہے جو اس وقت آبادی کے ۶ فی صد سے زیادہ ہے۔ البتہ مناسب زندگی گزارنے کی کم سے کم سہولتوں سے محروم لوگوں کی تعداد ۲۰فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح دولت کی تقسیم بھی دولت مندوں کے حق میں بڑھتی چلی جارہی ہے۔ غربت کے خاتمے میں ریاست کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی بنک کی ایک تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ غربت میں کمی لانے کےلیے زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے تقریباً ۲۸ فی صد پروگرام نجی سطح پر ہورہے ہیں، جن کی سالانہ لاگت تقریباً ۷۰ سے ۱۰۰؍ ارب روپے ہیں۔

مختلف اَدوار میں فوجی اور سول دونوں حکومتوں کی کچھ حقیقی لیکن بیش تر سطحی پالیسیوں میں تبدیلیوں کے باوجود، معاشی بد حالی کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کی وجہ سنگین تصوراتی ابہامات ، معاشی حکمت عملیوں میں خامیاں، مسخ شدہ ترجیحات، سراسر نااہلی اور بدعنوانی تھی کہ معیشت ہموار نہ چل سکی اور بڑھوتری کی شرح برقرار نہ رہ سکی۔مزید برآں، معیشت کو وسائل کی بہت ہی غلط تقسیم سے زک پہنچی، جس کے نتیجے میں شدید عدم مساوات اور معاشی اور سماجی فوائد کے عدم توازن نے ملک کے مختلف خطوں کے درمیان منافرت، رقابت اور بے اعتمادی پیدا کی۔ پالیسی کی ان خامیوں اور کارکردگی میں ناکامیوں کی ذمہ داری ان تمام حکومتوں پر پوری پوری آتی ہے، جنھوں نے ان سات عشروں میں ملک پر حکمرانی کی ہے۔انصاف کو یقینی بنانے کےلیے سب کا مواخذہ ہونا چاہیے۔ بہر حال اندیشوں کے تمام اطراف کی نشان دہی ضروری ہے۔ ان اہم ترین اطراف کی جانب آنے سے قبل ضروری ہے کہ ۱۹۵۰ء کی دہائی سے جاری بحران اور الجھنوں سے متعلق سب سے بنیادی ایشو پر بات کی جائے۔ یہ ترقی کے تصور اور مطلوبہ معیشت کے وژن سے متعلق ہے۔

ترقی کا وژن: بنیادی اُمور

جن بیوروکریٹوں اور مقتدر جرنیلوں نے معاشی پالیسی کی تشکیل اور انتظام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، اور جن سیاست دانوں نےاس عمل میں حصہ لیا، ان کا زیادہ تر انحصار غیر ملکی مشوروں اور ان کے ساتھ آنے والے دباؤ پر تھا۔

 سیاست کے بانیوں کا ابتدائی وژن دھندلا گیا ، حتیٰ کہ غیر ملکی مشوروں اور عطیہ دینے والے اداروں کی ہدایات کی تعمیل میں انھیں پتا ہی نہ چلا کہ کدھر جانا ہے۔ سرمایہ دارانہ پیراڈائم (مثالیہ) پر مبنی ترقی کا ماڈل، جسے یورپ اور امریکا میں آزمایا گیا، خاص طور پر دوسری جنگِ عظیم کے بعد ان کا ’مارشل پلان‘، ان کا ارفع معیار اور سکّہ رائج الوقت بن گیا۔ ہاروڈ ڈومر(Harrod-Domar) ماڈل اور اس کے متعلقات، جنھیں چینری(Chenery)، نرکسی (Nurkse)، آرتھر لیوس (Arthur Lewis)، کوزنیٹس(Kuznets)، روستو (Rostow) اور دیگر حضرات نے منظم کیا۔؎۲   ایک اہم نظریاتی سرچشمۂ فیض (inspiration)بن گیا ، جب کہ امدادی ایجنسیوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے تیار کردہ تجاویز، خاص طور پر ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف نے ترقیاتی حکمت عملیوں اور پالیسیوں کےلیے جو معیار اور ضابطے (parameters) مقرر کیے، انھی کو گذشتہ چھے عشروں سے مختلف حکومتیں اپناتی چلی آرہی ہیں ۔ کچھ کچے پکے تغیرات کے باوجودتقریباً تمام حکومتوں نے ترقی اور معاشی تبدیلی کے لیے سرمایہ داری کا تجویز کردہ راستہ ہی اختیار کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سوشل ازم سے داغ دار نعرے بازی یا بیان بازی اور جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِحکومت میں برائے نام اسلامی اقتصادی پالیسی بھی سرمایہ داری کے کردار کے اصل جوہر کو تبدیل نہ کرسکی۔

دوسرے خطوں کی طرح یہ ماڈل یہاں بھی ناکام ہورہا ہے۔ اسی لیے 'انسانی ضروریات کے لیے فکرمندی، 'غربت میں کمی، بڑے پیمانے پر معاشی استحکام اور اس طرح کی دیگر خصوصیات کا بظاہر اضافہ کیا گیا، لیکن اس کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔زمینی حقائق بہت کچھ بتا رہے ہیں۔پائدار اور جامع ترقی ایک سراب بنی ہوئی ہے،اور جو بھی ترقی ہوئی ہے، اس کے ساتھ سماجی تناؤ، بڑھتا ہوا اقتصادی فرق اور خلیج،زیادہ غیر ملکی انحصار، سیاسی خودمختاری کا خاتمہ، ماحولیاتی تباہی اور ثقافتی بحران میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نچلی سطح تک معاشی ترقیاتی فائدے پہنچانے کے جو خواب پیش نظر تھے، وہ سراب ثابت ہوئے ہیں۔اس کے بجائے وہی ممالک کامیاب ہوئے ہیں، جنھوں نے اپنی آزادانہ راہیں اختیار کیں، اور اس ماڈل کو اپنی بنیادی ضروریات اور حالات کے مطابق ڈھال لیا اور بیرونی دباؤ اور تجاویز کو آنکھیں بند کرکے قبول نہیں کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک غیرمربوط سرمایہ داری کے راستے پر چل پڑا ہے۔ توازن کے ساتھ اس تجربے کا ایک ایمان دارانہ جائزہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ یہ ماڈل قومی خدمت اور قومی تعمیر کے امکانات روشن کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اصل ضرورت اس مثالیے(Paradigm) کو علی الاطلاق تبدیل کرنے کی ہے ، اس کے اندر محض کچھ ترامیم سےکوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔آپ کسی خونخوار عفریت کے جسم پر انسانی ہمدردی کا نقاب نہیں چڑھا سکتے، اورنہ اس بلا سے کسی اچھے انسان کی طرح برتاؤ کی توقع کرسکتےہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام : چھے مہلک خامیاں

سرمایہ دارانہ ترقی کا پیراڈائم چھے مہلک خامیوں سے دوچار ہے، جنھیں لگی لپٹی بغیر سمجھنے کی ضرورت ہے:

  • سب سے پہلی خرابی یہ ہے کہ یہ معاشیات کو اخلاقیات، اخلاقی اقدار اور سماجی اور مساوی معیارات سے مکمل طور پر الگ کرتا ہے۔ انسان کی یہ تباہی دراصل سائنس اور اثباتیت (positivism)  کے نام پر ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحیح اور غلط اور عدل اور ظلم کا تصور ترقی کی حرکیات کی زبان میں بےگانہ ہوگیا۔ 'معاشرتی ترقی کے بارے میں غور و فکر کرنا،اس کی شناخت اور اس کے بارے میں اخلاقی انتخاب (ethical choices) سے توجہ ، دوسرے تمام امور سے ہٹ کر جنون کے ساتھ مقدار اور قیمتوں(quantum and rates) کی بڑھوتری، سرمائے کی تشکیل، غیرملکی امداد اور وسائل کی تقسیم کی طرف منتقل ہوگئی۔اس کے نتیجے میں پورے عمل کو ایک قسم کی غیرانسانی شکل دے دی گئی۔جیسا کہ ڈینس گولیٹ (Denis Goulet)نے واشگاف الفاظ میں واضح کیا ہے کہ ترقی کا مطلب مطلق اقدار کو مادی بنانا اور ساختیاتی جبریت(structural determinism) کو تخلیق کرنا ہوگیا ہے۔؎۳ اس نقطۂ نظر کے کھوکھلے پن کا احساس تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ ڈینس گولیٹ اس غیراقداری اور غیراخلاقی نقطۂ نظر سے مکمل طور پر نکلنے کی ضرورت پر اصرار کرتے ہیں:

زیادہ تر ترقیاتی پروگرام ثقافتی اقدار کو آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور انھیں محض ترقی کے ذرائع کے طور پر دیکھتے ہیں، یعنی ان اقدار کو اپنے ان مقاصد کے حصول میں معاون یا رکاوٹ سمجھتے ہیں جن کا اس اخلاقی نظام اور اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ترقی کو مجموعی اقتصادی ترقی، جدید اداروں کی تخلیق، اور صارفین کی خواہشات اور پیشہ ورانہ عزائم کے پھیلاؤ کے ساتھ موافق کرتے ہیں۔تاہم، بنیادی طور پر ان میں سے کوئی بھی ترقی نہیں ہے، بلکہ سماجی تبدیلیاں ہی بہتر طور پر حقیقی ترقی کے راستے ہموار کرسکتی ہیں۔ ترقی کے ایک بالکل مختلف تصور کی ضرورت ہے، جو قوموں کے متنوع اقدار ی نظام سے اخذ کیا گیا ہو۔ان اقدار اور معانی، وفاداریوں، اور طرزِ زندگی کے ان نیٹ ورکس سے ترقی کےمقاصد اور اس کے حصول کے لیے موزوں ترین ذرائع کو اخذ کرنا چاہیے۔

روایتی اقدار اکثر پنہاںحرکیات کا سہارا لیتی ہیں۔ انھیں ایسے طریقوں سے ترقیاتی تبدیلی لانے کے لیے متحرک کیا جا سکتا ہے، جو متعلقہ آبادیوں کی شناخت اور سالمیت کو کم سے کم نقصان پہنچائیں۔ صحیح ترقی کی بنیاد روایتی اور مقامی اقدار پر ہونی چاہیے کیونکہ بالآخر معاشی اور سماجی ترقی دونوں ہی ایک وسیع تر مقصد کے مطابق، انسانی ترقی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ تاہم، انسانی ترقی کا انحصار شناخت کے محفوظ احساس اور ثقافتی سالمیت کے علاوہ معانی کے اس نظام پر بھی ہے جس سے انسان جذباتی طور پر وفادار ہو سکتا ہے۔؎۴

  • سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل کی دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ یہ ’معاشرے‘ کو ’معیشت‘ اور ’معیشت‘ کو ’مارکیٹ‘ کے ساتھ برابر کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو ’معاشی جوش و خروش‘ '( ' economism)  کی فتح قرار دیا گیا ہے اور یہ ہمارے دور کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا میں معاشی اور سماجی بحران کی جڑ ہے۔ایک ڈچ ماہر اقتصادیات ڈیس گیپر(Des Gaper) نے اس تصور کا درج ذیل خلاصہ پیش کیا ہے:

’اکانومزم‘ ان خیالات کا نام ہے جن کے مطابق زندگی کی تفہیم، قیمت اور انتظام معاشی حساب سے کی جانی چاہیے، یا یوں کہہ لیں کہ معیشت ایک جداگانہ اور بنیادی نوعیت کا دائرہ ہے جس کواس کی اپنی آفاقی اور تکنیکی ضروریات کے مطابق چلانا چاہیے جہاں شرح نمو میں بڑھوتری ہی ترقی کا اصل جوہر ہے۔؎۵

اس نقطۂ نظر کا منطقی نتیجہ مارکیٹ کا تمام فیصلوں میں حتمی ثالت بننے اور فیصلہ کن قوت کی صورت میں نکلتا ہے، بالآخر وہ لوگ جن کے پاس قوتِ خرید (purchasing power) زیادہ ہوتی ہے، ان کا سکہ چلتا ہے اور تمام وسائل ان ہی کی طرف اکٹھے ہوتے ہیں۔ اشرافیہ، دراصل استحصالی اور غیر منصفانہ سوسائٹی کا فطری نتیجہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سرمایہ داری کے حامی بھی اب پوری انسانی حالت کے اس بالکل بدلی ہوئی شکل (metamorphosis) پر سراپا احتجاج ہیں۔ جارج سوروس (George Soros) اپنی کتاب On Globalization میں کہتے ہیں: ’’مارکیٹ کے طریقۂ کار پر حد سے زیادہ انحصار کرنا بہر صورت خطرناک ہے۔مارکیٹیں اس لیے تیار کی گئی ہیں کہ لوگوں کو رضامندی سے اشیا اور خدمات کے آزادانہ تبادلے کی سہولت فراہم کی جا سکے، لیکن وہ خود اس قابل نہیں ہیں کہ امن و امان جیسی اجتماعی ضروریات کی یا خود مارکیٹ میکانزم کی دیکھ بھال کر سکیں، نہ وہ عدل اجتماعی کو یقینی بنانے کی اہل ہیں۔ یہ مشترک ملکیت والی اشیا (public goods )صرف ایک سیاسی عمل کے ذریعے فراہم کی جاسکتی ہیں،لیکن معاشرہ صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر نہیں چل سکتا۔ جائز اور ناجائز کے اجتماعی فیصلے سیاست کے سپرد کیے گئے ہیں، جب کہ سیاست کی دنیا میں ایسے اجتماعی فیصلوں کا کوئی قوی اخلاقی ضابطہ وجودہی نہیں رکھتا‘‘۔؎۶

 ایک فرانسیسی ماہر اقتصادیات اگنیسی ساش (Ignacy Sachs)، اس تخفیف پسندانہ (reductionist) نقطۂ نظر کو چیلنج کرتے ہیں اور ترقی کے لیے زیادہ جامع اور انسانیت سے متصف نقطۂ نظر کی طرف ایک طاقتور استدعاکی تحریک دیتے ہیں۔معاشی بڑھوتری کے نظریات عام طور پر سرمایہ کاری سے پیداوار میں اضافے سے متعلق تخفیف پسند میکانکی پیراڈائم کواختیار کرتے ہیں۔ جہاں تک لفظ ’ترقی‘ کا تعلق ہے، اگر اسے نیچرل سائنس کےلیے اختیار کیا جائے تو یہ اس کی نامیاتی تشریح کے لیے پُر کشش ہوسکتا ہے۔ نامیاتی نشوونما مکمل طور پر جان دار کے جینیاتی کردار اور ماحولیاتی عوامل کے باہمی تعامل سے طے ہوتی ہے۔ یہ پیداوار (growth)، پختگی (maturation)،   گلنے سڑنے (decay) اور بکھرنے (decomposition) جیسے روایتی طریقے کو اختیار کرتاہے:

اس کے برعکس، سماجی و اقتصادی ترقی ایک کھلا تاریخی عمل ہے جس کا انحصار کم از کم جزوی طور پر انسانی تخیل، منصوبوں اور فیصلوں پر ہوتا ہے جو قدرتی ماحول کی مجبوریوں اور زندہ ماضی (تاریخ) کے بوجھ سے مشروط ہوتے ہیں۔ صرف ہماری انواع (species) اپنے مستقبل کو ایجاد کرنے اور اپنے ماحول کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس میں حقیقت پسندی اور ذمہ داری کے اصول کے مطابق رَدّ وبدل ہوتا ہے۔

اس طرح ترقی کو سماجی و اقتصادی ڈھانچے کی تبدیلی اور انتظام کے ایک دانستہ اور خو د اپنی رہنمائی کرنے والے عمل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔جس کا مقصد تمام لوگوں کو باوقار ذریعۂ معاش کی فراہمی کے ذریعے مسلسل بہتری لا کر ایک مکمل اور باوقار زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا ہے، چاہے مختلف ادوار میں مختلف معاشروں کی طرف سے ان اہداف کے لیے جو بھی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہوں۔؎۷

یہ تخفیف پسندی (Reductionism)، معاشیات کے چند عظیم معماروں کے خیالات سے بھی مختلف ہے۔ الفریڈ مارشل (Alfred Marshall) معاشیات کو محض دولت کا مطالعہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ خود انسان کا مطالعہ سمجھتے ہیں۔ گالبریتھ (Galbraith) نے مارشل کا یہ اقتباس دُہرایا ہے: ’’ماہرمعاشیات کو بھی دوسروں کی طرح انسان کے حتمی مقاصد کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے‘‘۔؎۸

آر ایچ ٹانی (R.H. Tawny) نوحہ پڑھتے ہیں: ’’صنعت کار ان لوگوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جن کے لیے دولت حاصل کرنا چاہیے اور حصول دولت کے طریقوں میں ہی کھو جاتے ہیں‘‘۔؎۹

’معاشرے‘ کو ’معیشت‘ تک محدود کرنے اور معیشت کو صرف منڈی کا عمل بنانے کی یہ کوشش تمام فیصلہ سازی میں معاشی تحفظات کو فیصلہ کن عنصر بنادیتی ہے اور یہ سرمایہ دارانہ ماڈل کی سب سے مہلک خامی ہے۔

  • تیسری خامی یہ ہے کہ تبدیلی کے جعل ساز عمل (falsification) کا تعلق، ترقیاتی ماڈل کو اس کے تاریخی اور ثقافتی تناظر سے الگ کردیتا ہے۔ ترقی کو ایک تکنیکی مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو معاشی پیرامیٹرز پر منحصر ہوتا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عالم گیر اعتبار کے حامل ہیں۔ اس فریم ورک میں ترقی سرمایے کی تشکیل، بچت اور سرمایہ کاری اور وسائل کی مؤثر تقسیم کا کام بن جاتی ہے۔ جن ممالک میں سرمائے کی کمی ہے، وہ بیرونی سرمایہ کاری اور بیرونی امداد حاصل کرکے اس کمی کو پورا کرتے ہیں۔ پیداوار کا حصول ہی معاشرے کا ہدف بن جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی تبدیلی کا پورا عمل واقع ہوتا ہے۔ ترقی کا یہ عمل عالمی سرمایہ دارانہ عمل کا حصہ بن جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں مغربی طاقتیں بالا دستی حاصل کرتی ہیں۔
  • چوتھی خامی، بڑی کمزوری کا تعلق ادارہ جاتی عوامل کو تقریباً مکمل طور پر نظر انداز کرنے سے ہے، جو حقیقت میں معاشرے کی تبدیلی اور اس کے عمل کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
  • پانچویں خامی، اس نقطۂ نظر کا مجموعی نتیجہ ہے کہ اس ماڈل میں ترقی، اپنے آپ میں ایک مطلوب بن جاتی ہے اور معاشرے کے فروغ کا ایسا ذریعہ نہیں بنتی جو معاشرے کے تمام افراد، قطع نظر نسل، رنگ، مذہب یا جنس کے، تمام لوگوں کے لیے انصاف کو یقینی بنائے۔ سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل میں ’کارکردگی‘ کلیدی لفظ بن جاتاہے، ’انصاف‘ اور ’انسانی بھلائی‘ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ترقی اور فلاح کا رشتہ بلاواسطہ قائم نہیں ہوتا بلکہ بالواسطہ طور پر متوقع ہوتا ہے۔ اس طرح غربت میں کمی اور عوام کی فلاح و بہبود اوّلین مطلوب نہیں، بلکہ ضمنی نتیجہ کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، جسے اصطلاح میں Trickle down کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماڈل میں  انسانی ترقی، غربت میں کمی اور روزگار پیدا کرنے کے نام پر، اصل توجہ جی ڈی پی اور اس کی شرح پیداوار پر ہے۔ لبرلائزیشن، پرائیویٹائزیشن اور ڈی ریگولیشن صنعت کاری کی اس حکمت عملی کے اہم ستون ہیں۔
  • چھٹا، اور آخری نکتہ یہ ہے کہ یہ ماڈل کاروباری شخص، سرمایہ دار، سرمایہ کار کو کلیدی کردار تفویض کرتا ہے لیکن پھر بھی یہ اپنی فطرت میں اشرافیہ ہی رہتا ہے ۔ نجی شعبے کو اہم محرک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ریاست اور سول سوسائٹی کا کردار غیر اہم ہے۔ لوگوں کی شرکت اس نظام کے لیے اجنبی ہے۔

جمہوریت کے لیے تمام زبانی جمع خرچ کے باوجود، اس عمل میں سے عوام کا اخراج اور ان کی غیر موجودگی اس ماڈل کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔

سرمایہ دارانہ ماڈل کی یہ مہلک خامیاں تیسری دنیا کے لوگوں کو حقیقی ترقی اور فلاح و بہبود فراہم کرنے میں ناکامی کی جڑ ہیں، جو اپنی معاشی قسمت بدلنے کی لاحاصل کوششوں میں مصروف ہیں۔ مرکزی دھارے کے ماہرینِ اقتصادیات اور حکمت عملی ساز چاہے کچھ بھی بہانہ بنائیں، یہ احساس [مسلسل] بڑھتا جا رہا ہے کہ سرمایہ دارانہ پیراڈائم کا ’دیوتا ناکام ہوچکا ہے‘۔نئے پیراڈائم کی تلاش اُفق پر امید کی حقیقی کرن ہے۔

عالمی ترقیاتی ادارے کی سفاکانہ پالیسیاں

پروفیسر ولیم ایسٹرلی (William Easterly) عالمی بنک کے سابق ماہر اقتصادیات نے اپنی کتاب The Elusive Quest for Growth میں عالمی ترقیاتی ادارے کا ایک ماہرانہ سروے کیا ہے۔ اس کے نتائج سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے مستحق ہیں:

۵۰برس پہلے، دوسری جنگ عظیم کے بعد، ہم ماہرین اقتصادیات نے وہ ذرائع دریافت کرنے کےلیے اپنی جرأت مندانہ جستجو کا آغاز کیا تھا کہ جن کی مدد سے منطقہ حارہ (tropics)کے غریب ممالک بھی یورپ اور شمالی امریکا کی طرح امیرممالک بن سکیں۔ ہمیں کئی دفعہ خیال ہوا کہ ہم کامیابی کی کلید کو پاگئے ۔ ہم نے جو قیمتی چیزیں پیش کیں ان میں غیر ملکی امداد سے لے کر مشینوں میں سرمایہ کاری تک، تعلیم کو فروغ دینے سے لے کر آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے تک، اصلاحات پر مشروط قرضے دینے سے لے کر قرضوں میں ریلیف کی مشروط فراہمی تک شامل تھیں مگر ہم نے ان میں سے کوئی بھی وعدہ وفا نہیں کیا ۔ جن غریب ممالک کا ہم نے مذکورہ نسخوں سے علاج کیا، حسب توقع وہ حقیقی ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

جس خطے کی ترقی پر ہم نے سب سے زیادہ توجہ دی، وہ افریقا ہے جو مکمل طور پر ترقی کرنے میں ناکام رہا۔ لاطینی امریکا اور مشرق وسطیٰ نے کچھ عرصے کے لیے ترقی کی، لیکن پھر ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں یہ نمو تنزلی کی طرف بڑھ گئی۔ جنوبی ایشیا جو ماہرین اقتصادیات کی جانب سے گہری توجہ حاصل کر رہا ہے، بے ہنگم ترقی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے دنیا کے غریبوں کا بڑا حصہ جنوبی ایشیا میں ہے ۔ اور حال ہی میں مشرقی ایشیا کی، جس چمکتی کامیابی کا ہم نے بار بار جشن منایا، اس کی ترقی بھی گراوٹ کا شکار ہوگئی (جنوبی ایشیائی قوموں میں سے تمام تو نہیں، البتہ کچھ قومیں دوبارہ اُٹھ رہی ہیں)۔ منطقہ حارہ کا نسخہ ہم نے اس سے باہر کچھ سابق اشتراکی ممالک پر لاگو کرنے کی کوشش کی لیکن نتائج بہت مایوس کن نکلے۔؎ ۱۰

ولیم ایسٹرلی نے پچھلے چھے عشروں کے دوران اپنائی گئی ترقی کے راستوں سے بہت بنیادی انحراف تجویز کیا ہے ۔ وہ مفادِ عامہ پر مبنی نقطۂ نظر پر زور دیتا ہے۔ وہ جڑ سے حقیقی ترغیبات پر مبنی شرکت پر زور دیتا ہے، نہ کہ ڈیلیور کرنے میں ناکام ہونے پر اور پھر اُس کے اعادے پر۔

ورلڈ بنک کے ایک اور سابق سینئر ماہر اقتصادیات جان پرکنز (John Perkins) کی ایک دلچسپ اور آنکھیں کھول دینے والی کتاب آئی ہے ۔انڈونیشیا میں اپنے کچھ ساتھیوں کے کچھ واضح تبصروں پر غور کرتے ہوئے پرکنز نے Confessions of an Economic Hitman میں اعتراف کیا ہے:

امریکی خارجہ پالیسی اور اس کے کارپوریٹ مفادات کو فروغ دینے کے لیے ہم انڈونیشیا کی اکثریت کے لیے زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش کے بجائے لالچ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک لفظ ذہن میں آیا: کرپٹو کریسی، مجھے یقین نہیں تھا کہ میں نے اسے پہلے سنا تھا یا ابھی ایجاد کیا ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ بالکل نئی اشرافیہ کی حقیقت واضح کرتا ہے جس نے کرۂ ارض پر حکمرانی کی کوشش کرنے کا خیال پال رکھا ہے۔ رابرٹ میکنامارا (McNamara)، فورڈ موٹر کمپنی کے صدر کے عہدے سے صدر کینیڈی اور جانسن کے ماتحت سیکرٹری دفاع کے عہدے پر چلے گئے تھے، اور اب دنیا کے سب سے طاقتور مالیاتی ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ معیشت کی ترقی میں مدد کرنا صرف ان چند لوگوں کو اور بھی امیر بناتا ہے جو اہرام کے اوپر بیٹھے ہیں، جب کہ یہ نیچے والوں کے لیے سوائے نیچے کی طرف دھکیلنے کے کچھ نہیں کرتا۔ درحقیقت، سرمایہ داری کو فروغ دینے کا نتیجہ اکثر ایسے نظام کی صورت میں نکلتا ہے جو قرون وسطیٰ کے جاگیردارانہ معاشروں سے ملتا جلتا ہے۔؎ ۱۱

جان پرکنز نے ترقی پذیر دنیا میں میگا پراجیکٹس کی حقیقی حرکیات کو سامنے لاکر سعودی عرب میں امریکا کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:

امریکی فرموں کو زیادہ سے زیادہ ادائیگیاں کرنے سے سعودی عرب کے امریکا پر زیادہ سے زیادہ انحصار کی راہ ہموار ہو رہی ہے ۔ بہت جلد واضح ہوگیا کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ تقریباً تمام نئے منصوبوں میں پیش رفت اور ان کی دیکھ بھال کے لیے سعودیوں کو امریکا کی ضرورت ہوگی۔ یہ منصوبے اس قدر اعلیٰ تکنیکی ہیں کہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جن کمپنیوں نے انھیں تیار کیا ہے، صرف وہ ہی ان کو برقرار رکھنے اور جدید بنانے کی اہل اور ذمہ دار ہوں گی…ہر پراجیکٹ کے لیے جن دوفہرستوں کا میں نے تصور کیا: ایک ڈیزائن اور تعمیراتی معاہدوں کی، جن کی ہم توقع کرسکتے ہیں، اور دوسری طویل المدت سروس اور انتظامی معاہدوں کی فہرست۔ ان منصوبوں سے بہت سے امریکی انجینئر اور ٹھیکیدار آنے والے عشروں تک خوب فائدہ اُٹھائیں گے۔؎ ۱۲

پرکنز اس احساس جرم کی وجہ سے ہر وقت پریشان رہتا ہے۔وہ مستقبل کے بارے میں مایوسی کا شکار نہیں ہے بلکہ اس کی فکر وہ روایتی حکمت ہے جس کے ہم سب غلام بن چکے ہیں:

میں یہ بہت تفصیل سے بیان کرسکتا ہوں کہ آج ہمیں جو مسائل درپیش ہیں، وہ انھی بدخواہ اداروں کا نتیجہ نہیں ۔ نیز یہ اقتصادی ترقی کے بارے میں غلط تصورات سے وجود پذیر ہوئے ہیں۔ قصور خود اداروں میں نہیں ہے، بلکہ ان کے کام کرنے کے انداز اور ایک دوسرے کے ساتھ تعامل اور اس عمل میں ان کے منتظمین کے کردار کے بارے میں ہمارے تصورات میں ہے۔؎ ۱۳

اس کے باوجود وہ پُرامید اور پُراعتماد ہے کہ دنیا، تمام انسانوں کی مدد کر سکتی ہے مگر صرف اسی صورت میں جب ہم پیراڈائم تبدیل کریں اور اسے حقیقت میں بدلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ ایک نیا خواب ہوگا جو دُنیا کے استحکام اور سماجی طورپر مساوات کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔

نوبیل انعام یافتہ جوزف اسٹگلٹز(Joseph Stiglitz)، جو بطورچیف اکنامسٹ اور ورلڈ بنک کے نائب صدر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اپنی اہم تصنیف Globalization and Its Discontents میں اس موضوع پر عالمی مالیاتی اداروں میں پالیسی سازی کی اندرونی کہانی کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

آئی ایم ایف کی پالیسیاں، جزوی طور پر اس مضحکہ خیز مفروضے پر مبنی ہیں کہ مارکیٹیں، خود سے، مؤثر نتائج کا باعث بنتی ہیں لیکن آئی ایم ایف مارکیٹ کے اقدامات میں مطلوبہ حکومتی مداخلت کی اجازت دینے میں ناکام رہا حالانکہ یہ مداخلت اقتصادی ترقی کی رہنمائی کر سکتی تھی اور ہر ایک کو بہتر بنا سکتی تھی۔

فیصلے جس بنیاد پر کیے گئے، وہ نظریے اور خراب معاشیات کا ایک دلچسپ امتزاج نظر آتا تھا۔ یہ نظریاتی واہمہ کبھی کبھی خاص مفادات پر پردہ ڈالتا نظر آتا ہے۔ جب کسی ملک پر بحران آتا ہے، آئی ایم ایف ان ممالک کے لوگوں پر اپنی پالیسیوں کے اثرات پر غور کیے بغیر، پرانے، نامناسب [مگر بزعمِ خویش] 'معیاری حل تجویز کردیتا ہے۔ میں نے شاذ و نادر ہی اس بارے میں سنا ہے کہ پالیسیاں غربت کے لیے کیا کریں گی؟ شاذ و نادر ہی متبادل پالیسیوں کے نتائج کے بارے میں غور کیا گیا ہو یا ان پالیسیوں کا تجزیہ کیا گیا ہو۔ ہر بیماری کے لیے ایک ہی نسخہ تھا۔ کسی سے متبادل رائے نہیں مانگی گئی۔ آئیڈیالوجی گائیڈڈ پالیسی کا نسخہ تھماکر ممالک سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ بغیر بحث کے آئی ایم ایف کے رہنما اصولوں پر عمل کریں۔ ان اصولوں نے اکثر خراب نتائج پیدا کیے کیوں کہ وہ اصول جمہوریت مخالف تھے۔

آئی ایم ایف کی ساختیاتی ایڈجسٹمنٹ کی پالیسیاں، وہ پالیسیاں جو کسی ملک کو بحرانوں  سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ مزید مستقل عدم توازن کو ایڈجسٹ کرنے میں مدد کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں، اُن کی وجہ سے بہت سے ممالک میں بھوک بڑھی اور فسادات ہوئے اور اگر ایک قلیل مدت کےلیے کوئی ملک ترقی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگیا، تب بھی اکثر فوائد غیرمتناسب طور پر امیروں ہی کو ملے ۔ نچلے طبقے کو کبھی اس سے بھی زیادہ غربت کا سامنا کرنا پڑا۔؎ ۱۴

مغرب کا دہرا معیار اور خود غرضی

جوزف اسٹگلٹز کے بین الاقوامی ’معاشی کھلاڑیوں‘ پر الزامات بہت سخت ہیں، لیکن سچی بات کی ہے:

عالم گیریت کے ناقدین بجاطور پر مغربی ممالک پر منافقت کا الزام لگاتے ہیں۔ مغربی ممالک نے تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے غریب ممالک کو تو مجبور کیا ہے، لیکن اپنے ہاں رکاوٹیں برقرار رکھی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنی زرعی مصنوعات برآمد کرنے سے روکتے ہیں اور اس لیے انھیں برآمدی آمدنی کی اشد ضرورت سے محروم کردیتے ہیں۔ بلاشبہہ ریاست ہائے متحدہ امریکا اہم مجرموں میں سے ایک بڑے مجرم کے طور پر چلاآرہا ہے، اور یہ ایک ایسا گمبھیر مسئلہ تھا جس کے بارے میں مَیں شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ جب میں اقتصادی مشیروں کی کونسل کا چیئرمین تھا، تو میں نے اس منافقت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔ اس سے نہ صرف ترقی پذیر ممالک کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اس سے امریکیوں کو بھی نقصان ہوا۔ صارفین کے طور پر، انھوں نے زیادہ قیمتیں ادا کیں، اور ٹیکس دہندگان کے طور پر، بھاری سبسڈی، اربوں ڈالر کی مالی اعانت کے لیے بھی خرچ کرنا پڑا۔ میری جدوجہد اکثر ناکام رہی۔ خصوصی تجارتی اور مالی مفادات غالب رہے۔

مغرب نے گلوبلائزیشن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ وہ ترقی پذیر دنیا کی قیمت پر فوائد کا غیر متناسب حصہ حاصل کرلے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ زیادہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے ترقی پذیر ممالک کے سامان کے لیے اپنی منڈیوں کو کھولنے سے انکار کر دیا۔ مثال کے طور پر، ٹیکسٹائل سے چینی تک بہت سی اشیا پر اپنا کوٹہ برقرار رکھا، جب کہ ان ممالک نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ اپنی منڈیوں کو ترقی پذیر ممالک کے لیے کھول دیں۔ دولت مند ممالک کے سامان؛  یہ صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ ترقی پذیر ممالک نے زراعت پر ریاستی رعایت (سبسڈی) جاری رکھی، جس سے ترقی پذیر ممالک کے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا، جب کہ ترقی پذیر ممالک صنعتی سامان پر اپنی سبسڈی ختم کرنے پر اصرار کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے کچھ کو درحقیقت بدتر بنا دیا گیا۔

مغربی بنکوں کو لاطینی امریکا اور ایشیا میں کیپٹل مارکیٹ کے نظام کے ڈھیلے ہونے سے فائدہ ہوا، لیکن ان خطوں کو اس وقت نقصان اٹھانا پڑا، جب قیاس آرائی پر مبنی بڑے پیمانے پر رقم (hot money)کی آمد ہوئی (وہ رقم جو کسی ملک کے اندر اور باہر آتی ہے، اکثر راتوں رات، اکثر اس بات پر شرط لگانے سے کچھ زیادہ ہوتی ہے کہ کرنسی ہے یا نہیں)۔ یہ کثیر سرمایہ جن ممالک میں ڈالا گیا تھا اچانک پلٹ گیا۔ پیسے کے اچانک اخراج نے کرنسیوں کو تباہ کردیا اور بنکنگ نظام کو کمزور کر دیا۔ اپنے قیام کے نصف صدی بعد یہ واضح ہے کہ آئی ایم ایف اپنے مشن میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس نے وہ نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا___ معاشی بدحالی کا سامنا کرنے والے ممالک کے لیے فنڈز فراہم کرنا، ملک کو اس قابل بنانے کے لیے فنڈز کی فراہمی کہ وہ مکمل روزگار کے قریب پہنچ سکے اور اس کو مالی بحران سے نکالنا۔ لیکن ایک بار جب کوئی ملک بحران کا شکار ہوگیا تو آئی ایم ایف کے فنڈز اور پروگرام نہ صرف اس کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے، بلکہ صورتِ حال یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں حقیقت میں معاملات کو مزید خراب کردیا، خاص کر غریبوں کے لیے۔

جوزف اسٹیگلٹز کی جانب سے نج کاری کی پوری پالیسی اور اسے فروغ دینے کے لیے کی جانے والی زبردستی کی حکمت عملیوں پر کھلی تنقید بھی قابل غور ہے اور اس پر غور کیا جانا چاہیے:

بدقسمتی سے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے نج کاری کے مسئلے کو تنگ نظری سے دیکھا ہے۔ اس کی کوشش تھی کہ نج کاری کو تیزی سے آگے بڑھانا چاہیے … آئی ایم ایف نے صرف یہ سمجھا کہ مارکیٹیں ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیزی سے پیدا ہوتی ہیں، جب کہ حقیقت میں، بہت سے حکومتی سرگرمیاں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ مارکیٹیں ضروری خدمات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ نج کاری صرف صارفین کی قیمت پر نہیں بلکہ کارکنوں کی قیمت پر بھی آئی ہے… نج کاری اکثر نوکریاں پیدا کرنے کی بجائے موجود نوکریوں کو بھی تباہ کر دیتی ہے‘‘۔

اندھی نج کاری کے مزید دو پہلو قابل توجہ ہیں:

اس کے برعکس نج کاری نے معاملات کو اتنا بگاڑ دیا ہے کہ آج بہت سے ممالک میں نج کاری کو طنزیہ ’رشوت‘ کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی حکومت بدعنوان ہو تو اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ نج کاری سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آخر کار جس بدعنوان حکومت نے فرم کو بدانتظامی سے چلایا، وہی نج کاری کی باگیں بھی سنبھالے گی۔ بیش تر ممالک میں یکے بعد دیگرے سرکاری حکام نے یہ یقین کرلیا ہے کہ نج کاری کا مطلب یہ ہے کہ انھیں اب سالانہ منافع کی پستی (skimming )تک محدود رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی سرکاری ادارے کو مارکیٹ کی قیمت سے کم قیمت پر بیچ کر وہ اپنے لیے اثاثہ کی قیمت کا ایک اہم حصہ حاصل کر تے ہیں، بجائے اس کے کہ اسے بعد کے آفس ہولڈرز کے لیے چھوڑ دیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ دھاندلی زدہ نج کاری کے عمل کو اس لیے تیار کیا گیا تھا کہ اس سے حکومتی وزرا زیادہ رقم اپنے لیے مخصوص کریں، وہ رقم نہیں جو حکومت کے خزانے میں جمع ہوگی، معیشت کی مجموعی کارکردگی کی کوئی پروا کیے بغیر۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ روس کس طرح ہرصورت میں اس تباہ کن نج کاری کے نقصانات کا خصوصی مطالعہ پیش کرتا ہے‘‘۔

ڈونرز یا امداد دینے والوں نے کس طرح مغربی سخاوت حاصل کرنے والوں کے ہاتھ مروڑ دیے ہیں، اسٹیگلٹز کی جانب سے صرف دو مثالیں پیش خدمت ہیں:

شاید زیادہ تشویش کا باعث حکومتوں کا کردار رہا ہے، بشمول امریکی حکومت کے، جنھوں نے اقوام عالم کو ان معاہدوں پر عمل کرنے پر مجبور کیا، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے انتہائی غیر منصفانہ تھے ، جس پر وہاں کی بدعنوان حکومتوں نے دستخط بھی کیے ۔ ایسے غیرمنصفانہ معاہدوں کی ایک طویل تاریخ ہے، جن کو نافذ کرنے کے لیے مغربی حکومتوں نے اپنی طاقت کا استعمال کیا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف براہ راست جائز شکایات کی فہرست میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایسی سرمایہ کاری اکثر صرف حکومت کی طرف سے حاصل کردہ خصوصی استحقاق کی وجہ سے پھلتی پھولتی ہے۔ اگرچہ معیاری معاشیات ان مراعات پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جو اس طرح کے استحقاق کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ گھناؤنا پہلویہ ہے کہ اس قسم کی بیشتر مراعات سرکاری افسران کی رشوت ستانی اور بد عنوانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری صرف جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی قیمت پر آتی ہے۔ یہ خاص طور پر کان کنی، تیل اور دیگر قدرتی وسائل میں سرمایہ کاری کے لیے درست ہے، جہاں غیر ملکیوں کو کم قیمتوں پر رعایتیں حاصل کرنے کی حقیقی ترغیب حاصل ہوتی ہے۔

اس تلخ کہانی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ حالات تبھی بدل سکتے ہیں، جب بہت ہی بنیادی چیزوں میں تبدیلی لائی جائے۔ اس سلسلے میں اسٹیگلٹز کی اپنی تجاویز ایک نیا پیراڈائم (مثالیہ) بنانے سے متعلق ہیں:

یہ واضح ہے کہ اصلاحات کی ایک کثیر الجہتی حکمت عملی ہونی چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنی فلاح و بہبود کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔ وہ اپنے بجٹ کا انتظام کرسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ اپنےکم وسائل کے اندر رہ کر حفاظتی رکاوٹوں کو ختم کرکے صارفین کو زیادہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔

انھیں بین الاقوامی برادری سے صرف اتنا ہی پوچھنا چاہیے کہ ان کے حق ضرورت اور انتخاب کو قبول کریں جس میں ان کے سیاسی فیصلوں کی عکاسی ہوتی ہو۔ مثال کے طور پریہ کہ کس کو کیا رسک لینا چاہیے؟ دیوالیہ پن کے قوانین اور ریگولیٹری ڈھانچے کو اپنے حالات کے مطابق بنانے اور ترقی یافتہ ممالک کے تیار کردہ سانچوں (Templates) کو قبول نہ کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ پائیدار، منصفانہ اور جمہوری ترقی کے لیے پالیسیاں ہیں۔ یہی ترقی کا راز ہے۔ترقی کا مطلب معاشروں کو تبدیل کرنا ، غریبوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے، جس سے ہرایک کو کامیابی، صحت کی سہولت اور تعلیم تک رسائی کا موقع ملے۔

چند لوگوں کی تحکمانہ پالیسیوں کا اتباع کرنے سے مذکورہ ترقی ممکن نہیں ہے۔ جمہوری فیصلے یقینی بنانے کا مطلب یہ یقینی بنانا ہے کہ ترقی پذیر ممالک ماہرین اقتصادیات، سرکاری افسران اور دیگر ماہرین کی ایک وسیع کھیپ کو اس بحث میں شامل کیا جائے۔ نیز اس کایہ مطلب بھی ہے کہ ان لوگوں کی شرکت اس قدر وسیع ہونا چاہیے، جو ماہرین اور سیاست دانوں سے بالاتر ہو۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنے مستقبل کی ذمہ داری خود سنبھال لینی چاہیے۔ لیکن مغرب میں ہم اپنی ذمہ داریوں سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔

پاکستان میں ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے، وہ ترقی کے اس ’پیراڈائم‘ (مثالیے)کا براہِ راست نتیجہ ہیں، جس کی ملک کی مختلف قیادتوں نے اپنی من مانی سے پیروی کی ہے۔ چند مثبت پہلوئوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب ہم اٹھائے جانے والے اخراجات، پیدا ہونے والی خرابیوں، ضائع ہونے والے مواقع اور لوگوں اور معاشرے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا جائزہ لیتے ہیں، تو بگاڑ اور معاشی تباہ کاریوں کے جلو میں ان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔(جاری)

_______________

حواشی اور حوالہ جات

  1.  Pervez Hasan, Pakistan’s Economy at the Crossroads: Past Policies and Present Imperatives, Karachi, Oxford University Press, 1998.; Charles H. Kennedy and Cynthuia A. Botteron (eds), Pakistan 2005, Karachi, Oxford University Press, 2006.; Ishrat Hussain, Pakistan: The Economy of an Elitist State, Karachi, Oxford University Press, 1999. ; Shahrukh Rafi Khan (ed), 50Years of Pakistan’s Economy:Traditional Topics and Contemporary Concern, Karachi: Oxford University Press, 1999.  S. Akber Zaidi, Issues in Pakistani Economy, Second Edition, Karachi: Oxford University Press 2005.; Khalid Rahman and Abdullah Adnan, Special Issue Pakistan: Society and State The Muslim World, Hartford, Connecticut, Vol. 96, No. 2, April 2006.; Reports and Studies  of Pakistan  Institute of Development Economics, Islamabad and Social Policy and Development Centre, Karachi.

  2.  Hollis B. Chenery, Mon- tela S. Ahluwalia, C.L.G. Bell and Richard Jolly, Redistribution with Growth, London, Oxford University Press, 1974. ; Ragnar Nurkse, Problems of Capital Formation in Underdeveloped Countries, New York, Oxford University Press, 1953; W.W. Rostow, Stages of Economic Growth, Cambridge, Cambridge University Press, 1971. ; Simon Kuznets ‘Economic Growth and Income Inequality’ The American Economic Review, Vol. 45: 1 (1955)  W. Arthur Lewis, The Theory of Economic Growth, London, Unwin Press, 1955.

  3.  Denis Goulet, Development Ethics: A Guide to Theory and Practice, London, Zed Books, 1995, p 20.

4.    ibid, p. 141

  5.  Des Gasper, The Ethics of Development: From Economism to Human Development, New Delhi, Vistaar Publication, 2004, p xiii.

6.    George Soros, On Globalisation, New York, Public Affairs, 2002, p. 6-7.

 7.   Ignacy Sachs, Understanding Development: People, Markets and States in Mixed Economies, New Delhi, Oxford University Press, 2000, pp. 54-55.

  8.  John Kenneth Galbarith, The Affluent Society, Boston, Houghton Miffin Co. 1958.

  9.  R. H. Tawny, The Acquisitive Society, quoted in John Bartlett, Familiar Quotations, 15th edition, Boston, Little, Brown & Co., 1980, p 773.

  10. William Easterly, The Elusive Quest: Economists’ Adventures and Misadventures in the Tropics, Cambridge, The MIT Press, 2002 , p. 11-12.

  11. John Perkins, Confessions of an Economic Hitman, San Francisco, Barrett-Koehler Publishers, 2004, p 26.

  12. ibid.,  p 87.

  13. ibid.,  p 222.

14.    Joseph Stiglitz, Globalisation and Its Discontents, London, Allen Lane, 2002, p12. (آیندہ تمام اقتباسات اسی کتاب سے ماخوذ ہیں)

فرد ہو یا قوم، نظریے اور مقصود حیات کے بغیر اس کی ترقی اور استحکام ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے اس نکتے کو اسرار و رموز میں بڑے دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے:

زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن
زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن

مرگِ فرد از خشکیِ رودِ حیات
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات

(فرد کی زندگی جان و تن کے تعلق سے قائم ہے، اور قوم کی زندگی اپنی قدیم روایات کے تحفظ سے قائم رہتی ہے۔ فرد کی موت جوئے حیات خشک ہوجانے سے واقع ہوجاتی ہے، اور قوم کی موت مقصودِ حیات ترک کردینے سے ہے۔)

نظریۂ حیات کی اہمیت

فرد اور قوم دونوں ہی کی زندگی میں نظریہ، تصورِ حیات اورزندگی کے مقصود کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ قرآن نے انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہدایت کو قرار دیا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اس کی سب سے بنیادی دعا ہے اور ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اس دعا کا جواب ہے۔ قرآن پاک میں تخلیق آدم ؑکے واقعے کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، اس کا مرکزی نکتہ انسان کا مقصدِ وجود ہے، یعنی خلافت اور نیابتِ الٰہی اور پورا قرآن اس ہدایت کا امین ہے جو انسان کو یہ کردار ادا کرنے کے لائق بناتا ہے۔

اس سلسلے کی سب سے پہلی چیز یہ ہے جس انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا، اسے علم الاشیاء سے نوازا۔ اسے عقل، ارادے اور اختیار کی دولت سے مالا مال کیا۔ اس کے اندر خیر اور شر دونوں کا داعیہ رکھا: فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o (الشمس ۹۱:۸)، اسے حق و باطل اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت سے نوازنے کے بعد، ہدایت سے بھی نوازا اور کامیابی کی شاہراہ کو روشن کرکے اسے بتادیا کہ جو ہدایت کی پیروی کرے گا وہی کامیاب ہے اور جو اس سے رُوگردانی کرے گا وہ ناکام و نامراد ہے:

فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج  ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲: ۳۸-۳۹) پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسانی زندگی کی سب سے کارفرما قوت نظریہ اور ہدایت ہے۔ اس مثالیے (paradigm ) میں تین چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں:

       ۱-    علم الاشیاء، یعنی انسان کو اس کائنات کے وسائل اور خزانوں کا علم اور ادراک عطا کیا گیا ہے۔ اسی چیز نے انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت بخشی اور اسے نیابت و خلافت کا اہل بنایا۔

       ۲-    عقل اور انتخاب کی آزادی انسانوں کو عطا کی۔ فرشتوں نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یہ فساد کرے گا‘‘۔ گویا رد وقبول کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کوجبر میں نہیں کسا بلکہ اس کو آزادی اور انتخاب کی صلاحیت بھی دی ہے۔ یہ دونوں چیزیں تو سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں مشترک ہیں۔ البتہ اس سلسلے کی تیسری چیز (ہدایت) کے بارے میں (جو انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے) سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں بُعدالمشرقین نظر آتا ہے اور یہیں سے اختلاف کی بنیاد سامنے آتی ہے۔

       ۳-    ہدایت سے مراد اس زندگی کو گزارنے کا اسلوب ، احساس ذمہ داری کی میزان اور آخرت میں جواب دہی کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے انبیاورسل علیہم السلام کو بھیجا گیا، کتابوں اور ہدایت کی روشنی دی گئی اور خاتم الانبیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی اس ابدی ہدایت کی تکمیل کی۔

               فرمایا: اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ قف لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا۝۰ۤۡ غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ o (البقرہ ۲:۲۸۵)’’رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں ، اور اس کی کتابوں، اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں، اور ان کا قول یہ ہے کہ : ’’ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک! ہم تجھ سے خطابخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔

مرادیہ ہے کہ ہدایت وہ چیز ہے جو مقصد تک پہنچنے کی تمام تر جدوجہد کو سہارا عطا کرتی ہے، علم کو انسانیت کے لیے نافع اور سودمند بناتی ہے، اور نیابت و خلافت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے رہنمائی عطا کرتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں علم الاشیاء، آزادیِ انتخاب اور ہدایت کے تین ستونوں پر ہی نظریہ،  مقصد اور منزل کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر نہ زندگی میں انضباط پیدا ہوتا ہے، نہ اصل جوہرِ انسانیت کا اظہار ہوتا ہے، اور نہ تحریک و تحرک کو کوئی راستہ ہی ملتا ہے۔ اس لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے نظریہ ناگزیر ہے، اور یہ سبھی معاشروں اور انسانوں کے لیے ضروری ہے، جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہدایت، انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس کے لیے   یہ اصول طے کر دیا گیا:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo (الفاتحہ ۱:۵-۶)’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں‘‘۔

انسانی تہذیب کی تشکیل میں نظریہ کا کردار

انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ  جن قوموں اور انسانوں کے سامنے کوئی نظریہ اور منزل تھی، انھی نے اوراقِ تاریخ اور دامنِ تہذیب میں نام پیدا کیا۔ نظریہ غلط ہو یا درست، شر پہ مبنی ہو یا خیر کا علم بردار، دونوں ہی صورتوں میں وہ ہمیشہ زندگی کی نشوونما اور پیش رفت اور ترقی کے لیے، ایک بنیادی محرک رہا ہے۔ البتہ نظریہ اگر حق پر مبنی ہے تو اس سے انسانی زندگی اور دنیائے تہذیب میں خیر اور فلاح کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اگر وہ باطل پر مبنی ہے تو یہ جہان تگ و دو فساد کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

تاریخ کے اس فتوے کو ایک طرف تو ابن خلدون[م:۱۴۰۶ء] نے اپنے انداز میں مقصد، شریعت اور عصبیت کے فریم ورک میں پیش کیا ہے، اور دوسری جانب خود دورِ جدید کے فلاسفۂ تاریخ نے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر پی اے ساروکن [م:۱۹۶۸ء]، آرنلڈ جے ٹائن بی[م:۱۹۷۵ء] اور عصرِ حاضر کے دیگر ماہرین تاریخ نے بھی اپنے اپنے انداز میں اس موضوع پر لکھا ہے۔ ان سب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وہی قومیں انسانی تاریخ کے اسٹیج پر ابھری ہیں، جن کے سامنے ایک اعلیٰ نصب العین تھا، اور جو اس نصب العین اور نظریے کی بنیاد پر فکری، سماجی، معاشی اور نفسیاتی زندگی کے چیلنجوں کا جواب دینے کا داعیہ، صلاحیت اور جذبہ رکھتی تھیں۔ اس چیز کو گذشتہ ربع صدی کے ماہرین تہذیب و تاریخ: ’انسانی تہذیب کی تشکیل میں نظریے اور افکار کی فیصلہ کن کار فرمائی‘ کے جملے میں پیش کرتے ہیں۔ اس اصول کو ہمارے اہلِ دانش نے فکری و عملی جدوجہد سے مربوط کیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ [م:۱۷۶۲ء] نے اسے ’اجتہاد اور جہاد‘ سے تعبیر کیا ہے، اور شعرو ادب نے اسے ’قلم اور تلوار‘ کی علامات کی شکل میں پیش کیا ہے۔

یہ تاریخ انسانی کا نہایت صاف اور واضح فیصلہ ہے کہ تہذیبی تبدیلی کے لیے فیصلہ کن عامل قلم ہی ہے۔ قلم سے مراد ہے فکرو دانش اور اخلاق و اصول، جب کہ اس تبدیلی کو روبہ عمل لانے اور اس کی حفاظت کے لیے قوت، تنظیم اور تلوار کا وجود ناگزیر ہے۔ یوں قلم اور تلوار انسانی تاریخ، تہذیب اور زندگی کے لیے دست راست اور ایک دوسرے کے زبردست معاون اور پُشتی بان ہیں۔

۲۰ویں صدی ایک طرف بے خدا فلسفوں کے درمیان کش مکش اور دوسری طرف یورپی قوموں کے درمیان تجارتی و معاشی رقابت کی بنا پر خوں ریز تصادم کی صدی تھی___ اس سے ماقبل متصل ۱۹ویں صدی میں ایوان ترگینف [م:۱۸۸۳ء] نے نہل ازم ( Nihlism :’زندگی ایک   بے معنی اور محض وجودی چیز ہے‘) کے نظریے کو بڑے دعوے سے پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ گذشتہ  دو صدیوں میں جواب دہی کے تصور سے بالا انسان کی مزعومہ سوچ کا سرچشمہ اسی فکر سے پھوٹتا ہے۔ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں اشتراکیت اور پرولتاری، یعنی مزدوروں کی آمریت کا نعرہ بلند ہوا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے وسیع حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے افکار کو تہہ وبالا کر دیا، مگر اپنی غیر فطری بنیاد کے باعث ۷۰، ۸۰ سال کے بعد ہی اشتراکیت کا سورج ڈوب گیا۔اسی درمیان میں فسطائیت (Fascism) کا ڈنکا بھی بجا مگر ایک دوعشروں میں ہی، یہ انسانی تاریخ کی بدترین اصطلاح بن کر فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ انسانیت کے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ وہی مغربی تہذیب جس نے ۲۰ویں صدی میں سائنسی ترقی کا سہارا لے کر دو عظیم جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا تھا، آج مسلمانوں کو امن کا درس دے رہی ہے؟ پھر سوویت یونین کے انہدام [۲۶دسمبر۱۹۹۱ء] کے بعد فرانسس فوکویاما [پ:اکتوبر ۱۹۵۲ء] نے End of the History میں گویا نظریاتی تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا  مگر چند ہی برسوں میں یہ فکر بھی پانی کے بلبلے کی طرح تحلیل ہوگئی۔

آج دنیا میں ایک بار پھر نظریات کی بالادستی، مقاصد اور ’اقدار بطور اصل کار فرما قوت‘ کے فہم اور حصول کی پیاس بڑھ رہی ہے۔ عصر حاضر میں پیدا شدہ عالمی، تہذیبی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی بحران کا حل ایک بار پھر نظریاتی آدرشوں میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اصل بحران،  اخلاقی بحران ہے، نظریاتی شعور کی پستی کا بحران ہے، جس نے انسانی زندگی اور اس کے مستقبل کو خوف ناک چیلنج سے دو چار کر دیا ہے۔

آج اہل فکر ونظر، اقدار اور اخلاق کی کارفرمائی کو زندگی کے فیصلہ کن مظہر کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل اسی وقت روشن قرار دیا جاسکتا ہے، جب ایک ایسا عالمی نظام معرض وجود میں آئے، جو احترامِ آدمیت، اخوت، حریت اور مساوات اور بے لاگ انصاف پر استوار ہو، جو استحصال سے پاک اور انسانوں کے درمیان محبت، امداد باہمی اور مؤدت کا داعی ہو۔ پاکستان کے فکری بانی علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:

وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے، اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے، جو نسل و زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت میں سے اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کر دیا جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا، جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا، اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے، اور اخوت، حریت اورمساوات کے شان دار الفاظ شرمندۂ معنی نہ ہو پائیں گے [یکم جنوری۱۹۳۸ء کو  سالِ نو کا پیغام، آل انڈیا ریڈیو، لاہور]

اسی طرح علامہ محمد اقبال ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں:

جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے، اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں، بلکہ بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے، جو اس کے قومی اور نسلی نقطۂ نظر کو یکسر بدل کر، اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے… یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ تو قومی ہے، نہ نسلی ہے، نہ انفرادی، نہ پرائیویٹ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اس کا مقصد، باوجود تمام فطری امتیازات کے عالمِ بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔

۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا تھا:

اسلام، فرد کی زندگی کو دین اور دنیا کے الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتا۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں ہے۔ اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست ایک ہی کُل کے جزو ہیں، اور ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ انسان اس آلایشوں سے لبریز اور ناپاک دنیا کا کوئی باشندہ ہے اور وہ اسے کسی دوسری دنیا کی خاطر ترک کردے، جہاں روح رہتی ہے۔ اسلام کے نزدیک مادہ روح کا وہ روپ ہے جو قیدمکان و زمان میں گھرا ہوا ہے۔ یورپ کی عیسائی ریاستوں کی زندگی سے مذہب عیسوی تقریباً خارج ہوگیا ہے… میری خواہش ہے [اور مجھے یقین ہے کہ] شمال مغربی ہندستان کے مسلمانوں کو ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔

گویا اسلام ان نسلی اور علاقائی امتیازات سے بلند ہو کر انسان کو اس کی فطرت کی جانب بلاتا اور اسے ایک تصور جہاں (World View) کی روشنی دیتا ہے کہ جس کی بنا پر منصفانہ نظامِ جہاں (World Order) نموپذیر ہوتا ہے۔

اس وقت جو لوگ نظریے کی کار فرمائی اور اس کی اہمیت کا انکار کر رہے ہیں، وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ مقصد حیات، نظریے، اخلاقی اور سماجی اقدار سے کٹ کر، اور مفاد وعصبیت کی دلدل میں پھنس کر انسان حیوانیت کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ جتنا وہ نظریے اور اخلاق سے دُور ہوتا ہے، اتنا ہی وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے تباہی وبربادی کا سبب بنتا ہے۔نہ اس کی قوم پرستانہ جمہوریت، انسانیت کے لیے ہمدردیِ عمل کا پروگرام پیش کرتی ہے اور نہ ملوکیت یا ڈکٹیٹرشپ ہی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کر پاتی ہے۔ ان طرزِ ہائے حکومت کی طرح معاملہ قوموں اور ملکوں کا بھی ہے۔

 تحریکِ پاکستان کی قوتِ محرکہ

پاکستان میں نظریہ پاکستان کو سمجھے بغیر تحریک پاکستان اور اس تحریک کی اصل قوتِ محرکہ کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان کے وجود کو سمجھنے کی کنجی تحریک پاکستان کا نظریہ ہے۔ اس مناسبت سے سمجھنا چاہیے کہ مسلمان اور اسلام دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ اسلام ہی مسلمانوں کے تشخص کی علامت ہے اور مسلمان ہی اسلام کی پہچان ہیں۔ اس حوالے سے یہ نظریہ کہ’’ مسلمان ہونا تو ٹھیک ہے، مگر اس کا اسلامی ہونا کوئی ضروری تقاضا نہیں ہے‘‘، ایک احمقانہ اور تباہ کن تصور ہے۔ مسلمان اپنی تعریف کے اعتبار سے ایک اُمت کا حصہ ہے، ایک مشن اور مقصد کا علَم بردار ہے، جسے مسلمانیت کی پہچان نے ایک خاص ذمہ داری سونپ دی ہے۔ مسلمان گناہ گار ہو سکتا ہے، مگر وہ اسلام کے تصور جزا و سزا، اور اُخروی جواب دہی کے تصور سے اپنے آپ کو الگ کرلے یا اس کی مسلسل نفی کرے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اس لیے عقیدہ ہی اول وا ٓخر مسلمان کی پہچان ہے۔

یہ عقیدہ انسان کے ذہن میںتین بنیادی تصورات راسخ کر دیتا ہے: lغیر اللہ سے بغاوتl اللہ پر ایمان اور اس کے سامنے مکمل سپردگیlزندگی گزارنے کے لیے اللہ، رسولؐ،  قرآن اور آخرت پر ایمان اور قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق زندگی کو ڈھالنے کی جدوجہد ___ یہ تینوں تصورات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور یہی مسلم اُمت کی بنیاد ہیں، اور اسی مناسبت سے ہر مسلمان مرد اور عورت کی شناخت متعین ہوتی ہے۔

یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس چیز کو ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے یہ ہندستانی مسلمانوں کی اختراع نہیں ہے، بلکہ وہ پہلے دن سے اسلام کے ایمانی، فکری، تہذیبی تصورات اور اہداف کو قائم کرنے والا نظریہ ہے۔ سورۂ فاتحہ دو قوموں اور دوامتوں کے خدوخال واضح کرتی ہے، فرمایا:

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ o

قرآن کریم کا یہی افتتاحیہ اس دو قومی نظریے کو وجود بخشتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ سے دوراستے متعین کرکے، انسانوں کو رد و قبول کا اختیار دے دیا گیا ہے، یعنی ایک سیدھا راستہ اور دوسرا اس کے برعکس اللہ کی ہدایت سے انحراف اور انکار کا راستہ۔ ایک راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں سے تشکیل پاتا ہے، اور دوسرا راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے انکار، مخالفت یا اپنی خواہشات کی پیروی سے منسوب ہے۔ اس دو قومی نظریے میں جو بنیادی حقیقت بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسانیت دراصل انھی دو بنیادی قافلوں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں قافلوں میں فکر، صورت، ہیولا، شکل اور منزل جدا جدا ہے۔ ایک قافلہ انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا ہے اور دوسرا انحراف اور بغاوت کو اپنائے ہوئے ہے۔

اس نظریے کے تین مضمرات ہیں، جن کا سمجھنا از بس ضروری ہے:

  • پہلی بات یہ کہ افراد اور اقوام کو اس امر کی آزادی حاصل ہے کہ وہ کون سی منزل اور کس نظریے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی انتخاب کے مطابق وہ اجتماعی زندگی میں نتائج بھگتیں گے اور انفرادی طور پر آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔
  • دوسری یہ کہ ہر قوم کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے تصور اور منزل کے انتخاب کے مطابق اپنے تشخص اور تہذیبی اور معاشرتی دروبست کا انتظام و انصرام کرے، اور اس میں مسابقت و بہتری کے امکانات کو بروئے کار لائے۔
  • تیسری جہت، انسانی زندگی کے اُس پہلو سے وابستہ ہے، جس کا ذریعہ ہدایت الٰہیہ ہے۔ صرف اس ایک پہلو سے جو عقیدے پر مبنی ہے، اس میں تو لازماً یک رنگی ہے، تاہم احوال و ظروف اور زمان و مکان کی مناسبت سے، اس عقیدے کے تحت یک سو اور باہم مربوط ہوتے ہوئے، افراد اور ممالک کے لیے کثرتیت کی گنجایش پوری طرح موجود ہے۔ اسلام نے اس جزوی اختلاف اور تنوع کو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کے پیش کردہ ضابطے کے فریم ورک میں اختیار کرنے اور راستے نکالنے کی اجازت دی ہے۔

یہی چیز ہے دوقومی نظریے کی اساس اور وسیع تر بنیاد۔ اسی بنا پر ایک مسلمان کے لیے  لازم ہے کہ تصور حیات اور الہامی ہدایت کی بنیاد پر دنیا میں علم پھیلائے، رہنمائی دے اور دوسروں کے لیے قابل اتباع نمونہ پیش کرے۔ یہی حق دو قومی نظریہ دوسروں کو بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے تصورات و عقائد کے مطابق انفردی اور اجتماعی زندگی کے معاملات کو چلائیں۔ یہ نظریہ مغرب کے ’قومی ریاستوں‘ (Nation States) کے تصور سے بالکل مختلف سوچ کا حامل ہے۔ اس میں قومی ریاست کا نہیں، قوموں کی ریاست کا تصور ہے جس میں یہ اہتمام موجود ہے کہ ہر قوم کو اپنے تشخص کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، تاہم جس کو اکثریت حاصل ہے، اس کی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ اپنے اصولوں اور اقدار کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے، وہیں اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اختلاف اور تنوع کا احترام کرے اور اقلیتوں کے لیے آسودگی پیدا کرے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس فریم ورک کی مختلف اور متنوع صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں، مگر ان میں مسلمانوں کے لیے تین کو مرکزیت حاصل ہے:

۱- وہ ملک، جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے اور اس میں انھیں اقتدار بھی حاصل ہے۔

۲- وہ ملک، جس میں مسلمانوں کی اکثریت تو ہے، مگر اقتدار سے محروم ہیں۔

۳- وہ ملک، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اورانھیں اقتدار بھی حاصل نہیں ہے۔

پہلی صورت میں اسلامی نظریے کا تقاضا یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کانظام، اسلام کی روشنی میں وضع کیا جائے جس میں اکثریت نظام زندگی اور منزل کو متعین کرے اور دوسری تمام اقوام کو انفرادی، تہذیبی اور اجتماعی حقوق حاصل ہوں، تاکہ وہ اس نظریاتی ریاست میں اپنے مذہبی اور نظریاتی تشخص کے لیے مناسب جگہ (space) پا سکیں۔ اس طرح اکثریت اور اقلیت، دونوں عدل و انصاف اور افہام و تفہیم کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔

دوسری صورت میں مسلمانوں کی فطری طور پر خواہش اور کوشش ہوگی کہ وہ اپنی اکثریت کو اختیار اور اقتدار دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ ان کاجائز حق ہے۔ اگر انھیں اس میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ پہلی صورت میں آ جاتے ہیں، ورنہ جدوجہد کے مرحلے میں شامل رہتے ہیں۔

رہی تیسری صورت، تو اس میں اسلام نے یہ بات قبول کی ہے کہ جن کو اکثریت اور اقتدار حاصل ہے، انھیں اجتماعی زندگی میں انصاف اور دوسروں کے حقوق کی پاس داری کے ساتھ حکمرانی کا موقع ملنا چاہیے۔ دوسرے مذہبی اور تہذیبی تشخص کے حاملین کو قرار واقعی جگہ اور سہولت حاصل ہونی چاہیے، تاکہ وہ باوقار اور منصفانہ انداز سے زندگی گزار سکیں۔

مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں دو قومی نظریہ، انسانی تاریخ و تہذیب اور زندگی سے مطابقت رکھتا ہے، تاہم حالات کی مناسبت سے اس میں تقدیم و تاخیر ہو سکتی ہے۔ اس نظریاتی فریم ورک میں برعظیم پاک و ہند کے حالات کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ۹۰۰ سالہ دور حکمرانی میں اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ وہ بڑی حد تک شریعت کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک کار فرما قوت بنانے کا اہتمام کریں۔ انھیں اس میں کامیابیاں بھی ملیں اور ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس طرز احساس کا منہ بولتا ثبوت اس خطۂ ارضی میں تجدیدِ دین اسلام کی متعدد تحریکیں ہیں، مگر اس تمام تر احساس کے باوجود خطۂ ہند کی تاریخ یہ ثبوت پیش نہیں کرتی کہ مسلمانوں نے جبر اور قوت کے ذریعے یہاں بسنے والی اکثریت کو اپنے مذہب، اپنی زبان اور اپنے تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے پر کبھی مجبور کیا ہو، بلکہ اس کے برعکس انھیں اس چھتری کے تحت پوری آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے اور تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا موقع دیا گیا اور اجتماعی امور میں معاشرے کے تمام طبقوں کو برابر کے مواقع میسر رہے۔

مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے ہندستان کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندومت کے پیرو کاروں کو جب بھی اقتدار ملا، انھوں نے دوسرے مذہب کو نیست و نابود کیا۔ اس کے پیروکاروں کو ملک بدر کیا یا اپنے نظام میں تحلیل کرنے کے لیے ہر ناجائز کوشش کی، یا ان کی انفرادی شناخت کو ختم کرکے دم لیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی ۹۰۰سالہ حکمرانی کے زمانے کا ریکارڈ   پوری دنیا کے سامنے موجود ہے، اور ان لوگوں کے پاس بھی موجود ہے جنھیں ’ہندوسیکولرازم‘ میں ’روشن خیالی‘ کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ اس زمانے کا ریکارڈ گواہی دیتا ہے کہ مسلمانوں نے سیاسی غلبے کے باوجود، دوسرے مذاہب کی شناخت کو ختم کرنے یا ان کے پیروکاروں کو اس مناسبت سے کبھی شہری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش نہیں کی (البتہ متحارب اور جنگ میں مصروف عناصر کا معاملہ دوسرا ہے)۔ یوں سرزمین ہند پر مسلم دور حکومت میں تمام افکار و مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ، باغ کے مختلف اور رنگارنگ پھولوں کی طرح پھلتے پھولتے اور اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

بعدازاں برطانوی استعمار کے قبضے کے اولین دور میں شعوری طور پر، ہوشیاری اور  چابک دستی کے ساتھ، اس نو آبادیاتی طاقت نے کوشش کی کہ یہاں مسلمانوں کو کمزور اور غیر مؤثر بنادیں کیونکہ انھیں اصل چیلنج مسلمانوں سے تھا، جن سے انھوں نے اقتدار چھینا تھا اور اسی مناسبت سے ہندو نفسیاتی طور پر برطانوی استعمار کے حلیف تھے۔ اسی استعمار نے سیاسی، تہذیبی اور معاشی اعتبار سے اپنے ہم نوائوں کی ایک قوت تیار کی جس کے لیے عیسائی مشنری قوتوں، جدید تعلیم کی تحریک اور دوسرے تمام سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کی بالادست قوت کو ہرممکن سہولت مہیا کی۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ایک مراعات یافتہ طبقہ   پیدا کیا، جو دور غلامی میں انگریزوں کا وفادار، اور مسلمانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا رہا۔  قیامِ پاکستان کے بعد اس طبقے نے اپنے اس کردار کو پوری وفاداری سے انجام دے کر ملک کو نظریاتی کش مکش اور تہذیبی انتشار کی دلدل میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہندستان میں چونکہ مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک چوتھائی تھی اور ہندوغالب اکثریت رکھتے تھے، اس لیے بھی ہندوئوں کو اجتماعی نظام میں بالادستی دی گئی۔ اس پس منظر میں تحریک آزادی اُبھری۔

انگریزوں کے اس دور حکمرانی میں جو پہلی عوامی تحریک زبان زدِ خاص و عام ہوئی، جس کی بازگشت سمندر پار بھی سنی گئی اور جس نے اہلِ ہند میں ایک عوامی شعور بیدار کیا، وہ تحریکِ خلافت تھی۔ اس تحریک کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ تب مسلمان دو قومی نظریے کی روشنی میں اپنے سیاسی حقوق اور نظریاتی و تہذیبی تشخص کو ہندستان کے اجتماعی وجود ہی میں حاصل کرنے کی کوشش شروع کررہے تھے۔ اس ضمن میں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام، مسلم شناخت کا تحفظ، حقوق کا حصول، سیاسی جدوجہد میں نظم و ضبط کا احساس اورتقسیم اختیارات بنیادی ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔مسلم لیگ کے قیام ہی نے وفاقی اور صوبائی اختیارات کی بحث کو ایک رخ دیا۔ اس کے مقابلے میں انڈین نیشنل کانگریس اختیارات کی مرکزیت چاہتی تھی۔ سائمن کمیشن اور نہرو رپورٹ میں کانگریس کی اس سوچ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت قائم شدہ کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے مسلمانوں کا جو حشر کیا، وہ ٹھیک اسی طرز عمل کا ایک عکس تھا جسے اپنے دورِ اقتدار میں ہندوئوں نے جین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں سے روا رکھا تھا۔

یہ تھا منظر نامہ تیسری صورت کے حوالے سے جسے مسلمانوں نے دوسری صورت میں ڈھالتے ہوئے آگے بڑھنے اور پھر نمبر ایک میں تبدیل کرنے کی منزل کا انتخاب کیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد لاہور (جسے ہندوئوں نے قرارداد پاکستان کا نام دیا) دراصل اُس راستے کا سنگ میل ہے، جس راستے کی طرف کانگریس کی تنگ نظری نے مسلمانوں کو دھکیلنے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس چیزنے تہذیبی شناخت کے لیے دو قومی نظریے کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں میں اتارا اور دلوں کی دھڑکن بنادیا۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ علامہ محمد اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد (۲۹دسمبر ۱۹۳۰ء) کو غور سے دیکھا جائے۔ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے زمانے میں مسلمان مفکرین، سیاست دان،  علمائے کرام اور دانش ور ایک گہرے اضطراب کا شکار تھے۔ پھر حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ   لے کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا ہدف محض برطانوی سامراج سے آزادیِ محض کا حصول نہیں ہے، بلکہ یہ آزادی وہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی    یہ آزادی دوسرے عقائد رکھنے والوں کے لیے بھی امن و آشتی کی نوید ثابت ہوگی۔

آزادی کے اس تصور کو ایک طاقت ور جذبے کی شکل ۱۹۰۶ء سے ۱۹۳۸ء کے درمیانی عرصے کے معروضی حالات نے دی۔ یہ بات طے ہوگئی کہ ایک تنگ نظر اکثریت سے آزادی حاصل کرکے مسلم ریاست کا قیام لازم ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم ؒکے مابین جو خط کتابت ہوئی، اور ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے درمیان آل انڈیا مسلم لیگ نے جو قرار دادیں منظور کیں، اور ان میں جو مسائل نمایاں کیے گئے، اگر دیانت داری سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو صرف ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے، اور وہ یہ کہ اپنے دینی، نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی تشخص اور مستقبل کو محفوظ کرنے اور اسے ترقی دینے کے لیے مسلمانوں کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ مسلم ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔یوں احساس اور سوچ جب عمل میں تبدیل ہونا شروع ہوئی تو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

قائداعظم کا وژن

قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۸ء تک اپنے ۱۰۰ سے زیادہ بیانات میں: اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب، اسلامی قومیت، اسلامی تشخص، اسلامی قانون، اسلامی کلچر، اسلامی تاریخ اور اسلامی معاشرت کا ذکر کیا ہے۔

قائداعظم نے ہندو قوم پرست لیڈر گاندھی جی (م: ۱۹۴۸ء) کے نام اپنے ۱۰ستمبر ۱۹۴۴ء کے خط میں لکھا تھا:

قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں مذہبی، مجلسی، دیوانی، فوج داری، عسکری، تعزیری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی، غرض یہ کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امورِ حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک، زندگی میں جزا اور سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا تک___ یہ قول و فعل اور حرکت کے احکامات کا مجموعہ ہے۔

اس پس منظر میں ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا اور اس کی بنیاد پر یک سر مختلف استدلال گھڑنا، قائداعظم کے ساتھ سخت ناانصافی اور علمی اعتبار سے سراسر بددیانتی ہے۔ خود قائد اعظم نے باانداز دگر اس تقریر کی تین مرتبہ وضاحت کی۔ ہم یہاں قائداعظم کا ایک بیان اور تین تقاریر پیش کر رہے ہیں۔بیان ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء سے ڈیڑھ ماہ قبل کا ہے اورتقریریں ۱۱؍اگست کے بعد کی ہیں۔

تحریک پاکستان کے زمانے میں کانگریس کے حامی، قیام پاکستان کے مخالف، متحدہ قومیت کے طرف دار اور روشن خیال، مسلمان رہنمائوں میں ایک نمایاں نام خان عبدالغفار خاں [م:۱۹۸۸ء]  کا تھا۔ انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے اعلان تقسیم کے بعد اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے، ۲۳جون کو کہا تھا:

’جملہ پٹھانوں کے لیے ایک ’آزاد پٹھان ریاست‘ قائم کی جائے۔ اس ریاست کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف کے مطابق وضع کیا جائے۔ جملہ پٹھانوں سے اپیل ہے کہ وہ اس محبوب منزل کے حصول کے لیے متحد ہو جائیں اور کسی غیر پختون غلبے کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں۔

 اس کے جواب میں ۲۸ جون ۱۹۴۷ء کو نئی دہلی سے قائداعظم نے ایک طویل بیان جاری کیا:

اس سے قبل اس نوع کا پرفریب اور عیارانہ مطالبہ خان برادران یا کسی اور کی جانب سے پیش نہیں کیا گیا کہ سارے پختونوں کے لیے آزاد ’پٹھان ریاست‘ قائم کی جائے۔ ان کا دوسرا نعرہ دو رنگا ہے، اور اس کا مقصد بھی پٹھانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ مجوزہ ’پٹھانستان‘ کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہوگا، تو ان کا مطلب، مجلس دستور ساز پاکستان، جومسلمانوں کی عظیم اکثریت پر مشتمل ہوگی، پریہ بہتان طرازی کرنا ہے کہ وہ جمہوریت کے اسلامی تصوراتِ مساوات ومعاشرتی انصاف کو نظر انداز کر دے گی… یہ محض ایک عیارانہ حربہ ہے جس کا مقصد شمال مغربی سرحد کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے… خان عبدالغفار خاں جو سرحدی گاندھی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ان کو اسلامی تصوراتِ مساوات و معاشرتی انصاف پر اجارہ داری حاصل نہیں ہے… یہ اچانک اور نئی قلابازی خالصتاً سیاسی عیاری اور ایک حربہ ہے … خاں برادران نے اخبارات میں ایک اور زہریلا نعرہ بلند کیا ہے کہ مجلس دستور ساز پاکستان، شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین کو نظرانداز کر دے گی۔ یہ بھی بالکل نادرست بات ہے۔ ۱۳ سے زیادہ صدیاں بیت گئیں، اچھے اور بُرے موسموں کا سامنا کرنے کے باوصف، ہم مسلمان نہ صرف اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم پر فخر کرتے رہے، بلکہ ان تمام ادوار میں جملہ مبادیات کو  حرز جان بنائے رکھا… معلوم نہیں کہ خان برادران کو اچانک اسلام اور قرآنی قوانین کی علَم برداری کا دورہ کیسے پڑا ہے، اور انھیں اُس ہندومجلس دستور ساز پر اعتبار ہے جس میں ہندوئوں کی ظالمانہ اکثریت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ صوبہ سرحد کے مسلمان واضح طور پر یہ سمجھ لیں کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں پٹھان‘‘۔ [قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ترجمہ اقبال احمد صدیقی، بزم اقبال، لاہور، ص ۳۴۶-۳۴۷]

اس بیان میں قائداعظم نے خصوصاً دو چیزوں کو وضاحت سے نمایاں کیا ہے۔ ایک یہ کہ سیکولر، روشن خیال اور ’اکھنڈ بھارت‘ کے طرف دار پرلے درجے کے موقع پرست ہیں، اور دوسرا یہ کہ اسلام،نسلی اور علاقائی تفریق سے بالاتر ہے۔ اسی لیے انھوں نے کہا کہ آپ پہلے مسلمان اور پھر پٹھان ہیں۔ یہی چیز دو قومی نظریے کی جان ہے۔

۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام میلاد النبیؐ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، قائداعظم نے فرمایا:

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے،  یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی، حالانکہ آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا… اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم راہبرتھے، آپؐ ایک عظیم قانون عطاکرنے والے تھے،آپؐ ایک عظیم مدبر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے، جنھوں نے حکمرانی بھی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سراہتے… اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے، جو اس کی زندگی اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست اور اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ [ایضاً، ص ۴۰۲-۴۰۳]

اس خطاب میں قائداعظم نے برملا اعلان کیا ہے کہ جو لوگ، اسلامی نظریۂ حیات کے حوالے سے پاکستانی مسلمانوں کی یکسوئی کو ابہام و انتشار کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہ شر انگیز عناصر ہیں۔ وہ تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی اسی طرح اسلام کے قانون شریعت کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے اس پر زور دے رہے ہیں___فروری۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیو نشری پیغام میں قائداعظمؒ نے فرمایا:

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان اصولوں کا عملی زندگی پر اطلاق ویسے ہی ہو سکتا ہے، جیسے کہ ۱۳ سو برس قبل ہو سکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل و انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں، اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ [ایضاً، ص۴۲۱-۴۲۲]

امریکی عوام کے نام اس نشریے میں وہ صاف لفظوں میں بتاتے ہیں کہ ۱۳سو برس قبل جس طرح اسلام کے اصولوں کا اطلاق ہوا تھا، ویسا ہی آج بھی ہو سکتا ہے، اور ریاستِ پاکستان کے دستور میں انھی اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا___یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا:

مغربی اقدار، نظریے اور طریقے___ ایک خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کر سکیں گے، اور بنی نوع انسان تک امن کا پیغام پہنچا سکیں گے۔[ایضاً،ص۵۰۱]

اس بیان میں انھوں نے مستحکم لہجے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مغربی دانش ہمارے مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے اسلامی نظریے کی بنیاد پر ہمیں اپنا معاشی نظام بھی پیش کرنا ہوگا۔

آخر میں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ ۱۱؍اگست کی تقریرمیں قائداعظم غیر مسلموں کے شہری حقوق کی بات کررہے تھے، نہ کہ تحریک پاکستان کے بنیادی استدلال اور موقف کی نفی کر رہے تھے۔ البتہ پاکستان کے سیکولر دانش وروں اور بھارت کے مصنفین نے قائداعظم کے تمام خطبات کو نظر انداز کرکے فقط اس ایک تقریر کو بنیاد بناکر اس سے بالکل ہی دوسرامفہوم اخذ کرلیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ’روشن خیال‘ دانش وروں کو دیانت کا دامن تھامنا اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ دینا چاہیے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں ہمیں ایک نظریاتی چیلنج درپیش تھا، آج پھر اس مسئلے کو زیادہ شدت کے ساتھ ابہام کا شکار کیا جا رہا ہے۔ کل اس کے علم بردار، خود پاکستان میں چند سیکولر اور اباحیت پسند لوگ تھے، اور آج بھارت سے لے کر امریکا تک اس منفی پروپیگنڈے کے     پشتی بان حضرات کی ایک فوج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم پوری یک سوئی کے ساتھ اپنے نشانِ منزل پر نظریں جما کر اس منزل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

کہا جاتا ہے کہ اس نظریاتی بحث میں پڑنے سے بھلا کون سا مسئلہ حل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرلابی نے اسی دینی اور نظریاتی رشتے کو کمزور بنانے کے لیے وہ سارا جال بُنا جس کے نتیجے میں، پاکستان کی نظریاتی اساس سے ہاتھ دھونا کوئی بڑا خسارہ نہیں سمجھا جارہا۔ حالانکہ سیانا دشمن اسی جڑ پر تیشہ چلا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پاکستان کے دینی اور آئینی رشتے کو نشانہ بناکر توڑ پھوڑ نہیں دیا جائے گا اس وقت تک، اس مملکت ِ خدادا د کی تخریب ممکن نہیں ہوگی۔ اندریں حالات تمام اہلِ وطن کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی اس پہچان اور رشتے کو سمجھیں، اس کی حفاظت کریں اور اس کی بنیادوں پر اپنے سماجی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی مستقبل کی تعمیر کریں۔

یاد رہے کہ آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا واحد حل دو قومی نظریے کی بازیافت اور اسلامی نظریۂ حیات کے لیے مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے۔ امریکا کی یلغار ،داخلی انتشار، بلوچستان کا قضیہ، مہنگائی کا عفریت اور سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران، ان سب کا علاج اسی سے ممکن ہے۔ نیت ٹھیک نہ ہو تو اسے محض ایک نظری بات کہہ کر ٹالا جاسکتا ہے لیکن اگر نیت درست ہو تو اسلام کی یہ رہنمائی اور بانیانِ پاکستان علامہ اقبال و قائداعظم کی یہ پکار اُلجھی راہوں کو صراط مستقیم بنا دے گی۔

ایک صالح معاشرے کی پہچان، اس میں بسنے والے افراد کا وہ رویہ اور طرزِعمل ہوتا ہے، جس میں اعتدال و توازن ، انسانی ہمدردی ، انسانی حقوق کا احترام اور بالخصوص جان ، مال اور عزّت و عصمت کا تحفظ پایا جائے ۔ اخلاقی بنیادوں پر قائم ہونے والے ایک صالح معاشرے کا ترقی پذیر ہونا ایک عقلی تقاضا ہے۔ کیوں کہ جس معیشت ،معاشرت ،اور قانون و ثقافت کی بنیاد حقوق و فرائض کی ادائیگی پر ہوگی، وہ پس ماندہ ، مفلس اور اخلاقی بیماریوں دھوکا ، جھوٹ ، فریب ، چوری، بے حیائی اور فحاشی کا مرکز نہیں ہو سکتا ۔اس میں معروف ، بر، خیر ، فلاح، حیا ، نیکی، ایفائے عہد، معاشی،اخلاقی اور قانونی پیمانوںکا احترام لازمی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے باوجود صدیوں تک مسلم معاشرہ اپنی اخلاقی برتری ، ذمہ دارانہ طرزِ عمل ، حیا اور ایمان داری کے لیے مثال بنا رہا۔ اگست ۱۹۴۷ء میں سیاسی آزادی کے حصول سے قبل بازار میں اگر کبھی کسی مسلمان گاہک نے ایک ہندو ساہوکار سے کہا کہ ’’فلاں دوکان پر اس شے کی قیمت اتنی کم ہے تو اس نے جواب میں صرف ایک ہی بات کہی ، میاں آپ کہتے ہیں تو ایسا ہی ہو گا ، آپ اسی قیمت پر یہ چیز لے سکتے ہیں۔گویا مسلمان کی پہچان سچائی اور امانت سے منسلک تھی، جیسا کہ حدیثِ نبویؐ سے واضح ہے کہ ’’جس میں امانت نہیں ، اس میں ایمان نہیں‘‘۔

لیکن یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی و جغرافیائی آزادی کے حصول کے ساتھ ہی ہم نے اپنے روایتی رویوں اور طرزِ عمل سے بھی، جو ہماری پہچان تھے،آزادی حاصل کر لی اور گذشتہ دوعشروں میں اس کے زہریلے پھل ہمارے سامنے آنے لگے ۔ملک کے ہر حصے میں بچوں کے ساتھ زیادتی ، خواتین کی بے حُرمتی ، خودکشی اور نشہ آور اشیا کے کاروبار اور بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ شیطانی مافیائوں کا وجود پکار پکار کر ہمارے قومی ضمیر سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اس غیر ذمے دارانہ بلکہ مجرمانہ غفلت کا انفرادی و اجتماعی احتساب کرتے ہوئے ان اسباب کو دُور کیا جائے، جو ان شرمناک واقعات کے پیچھے کار فرما ہیں ۔

گھر اور خاندان

ان اسباب میں سب سے اوّلین چیز والدین کی غفلت اور ذمہ داری سے فرار ہے۔ معاشی دوڑ میں گرفتار شوہر اور بیوی اپنے آپ کو نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے خاندان (دادا، دادی، چچا ، تایا ، نانا، ماموں ، خالہ ودیگر رشتوں)سے پہلے ہی آزاد کر چکے ہیں۔ پھر دو تنخواہوں کی طلب میں ان کے پاس صبح سے شام تک ملازمت میں مصروفیت کے بعد اتنا وقت نہیں بچتا کہ وہ سکون کے ساتھ موقع اور محل کے لحاظ سے بچوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں یا ان کے ساتھ کچھ وقت چہل قدمی کرتے ہوئے یا انھیں کسی قریبی مسجد تک لے جاتے ہوئے یہ پوچھ سکیں کہ انھوں نے اپنے سکول یا کالج میں دن کیسے گزارا،دوستوں سے کیا بات چیت کی؟ کلاس میں ان کا درجہ اوّلین پانچ طلبہ میں ہے یا وہ سب سے آخری درجے پر ہیں؟ بچوں کی تربیت اور ان کے فکر اور اخلاق و معاملات کی اصلاح میں والدین کا کردار بڑی تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اخلاقی نصیحت تو ایک طرف، اُن معاملات پر بھی بات کا وقت نہیں ملتا کہ جن پر والدین اپنی محنت کی کمائی صرف کرکے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر رہے ہیں ۔ خاندان کا نظام سکڑکر ماں، باپ اور بچوں تک محدود ہوگیا ہے اور ان برکتوں سے محروم ہوچکا ہے، جو گھر میں دادا، دادی ، نانا ، نانی ، خالہ، پھوپھی، چچی اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے دن رات رابطے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا تھا ۔

تعلیم گاہ

جو تعلیمی نظام ہم نے ورثے میں انگریز سامراج سے پایا تھا اور جس کا مقصد ہی ہماری نئی نسلوں کو اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے کاٹ کر مغرب کی نقالی کے لیے تیار کرنا تھا، آزادی ملنے کے باوجود نہ صرف اسے جاری رکھا ہے بلکہ اسے بہت زیادہ بگاڑ بھی لیا ہے، حالانکہ اُسے درست کرکے اسلامی، تہذیبی،قومی اور عصری ضروریات کے مطابق ڈھالنا تھا۔چنانچہ یہ تعلیمی ادارے مولانا مودودی کے الفاظ میں تعلیم گاہوں سے زیادہ قتل گاہیں ثابت ہورہے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم میں محض ’دینیات‘ کا ایک پرچہ شامل کرنے سے کوئی بڑا جوہری فرق واقع نہیں ہوا، اور نہ ایسا ہوسکتا ہے۔

یہ سمجھنا ایک بڑا مغالطہ ہے کہ اگر اسکول کی بارہ سالہ تعلیم اور کالج کی چار سالہ تعلیم میں ہفتہ میں بہ مشکل ۵۰منٹ کی ایک کلاس پڑھا دی جائے، جس میں روایتی طور پر چند مختصر سورتیں اور عقیدے کی تعلیم شامل ہو، تو اس طرح طالب علم اسلام کی منشا اور مرضی کو سمجھ جائے گا اور اس میں نظریۂ پاکستان سے محبت بھی پیدا ہوجائے گی، اور ملک و قوم کی تعمیروترقی کا بے لوث جذبہ بھی اس کے دل و دماغ میں موج زن ہوجائے گا۔

نصاب میں مغرب سے مستعار لی گئیں کتب جو لادینی ذہن پیدا کرتی ہیں، ہم نے ان کی متبادل کتب تیار کرنے کی کوئی فکر نہیں کی، نہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا، نہ طلبہ و طالبات کو قرآن و سنت کے فراہم کردہ اخلاقی رویوں سے روشناس کرایا اور یہ سمجھ لیا کہ ہرپیدایشی مسلمان ایمان داری، ایفائے عہد ، شرم وحیا اور صداقت و امانت پر خود بہ خود عمل کرنے والا ہو جائے گا۔ایک غلط مفروضے پر قائم توقعات کا نتیجہ کرپشن ، دھوکا دہی ، ملکی خزانے کے ناجائز استعمال کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا؟

ابلاغ عامہ

یہی شکل ہمارے ابلاغ عامہ کی ہے، خصوصیت سے گذشتہ ۲۰برسوں میں آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے نام پر جس طرح تھوک کے بھاؤ ٹی وی چینل، کاروباری بنیادوں پر حکومت اور سرمایہ داروں کی سرپرستی میں قائم ہوئے اور انھوں نے ہر جانب سے مغربی اور ہندو تہذیب وثقافت، الحاد و دہریت اور جنسی مساوات کے نام پر جنسی اخلاقیات کی پامالی کو اپنا مقصد قرار دے کر نوجوانوں کو اپنا ہدف بنایا۔ یہ صرف تفریح کے پروگراموں ہی کا خاصہ نہیں، بلکہ دُکھ کی بات یہ ہے کہ بہت سے نام نہاد، اسلامی موضوعات پر رمضان کے دوران لڑکوں ، لڑکیوں کو زرق برق لباسوں کے ساتھ بطور رول ماڈل پیش کیا جارہا ہے اور کسی کی آنکھ نہیں کھلتی۔ کسی خبر نامے کو اس وقت تک مکمل نہیں سمجھا جاتا، جب تک اس میں ایک خاتون پوری زیبایش کے ساتھ خبریں نہ پڑھے۔ ڈراموں میں مرو وعورت کا آزادانہ اختلاط ، جسم کے خدوخال کی نمائش اور اشتہارات میں عورت کا تجارتی استحصال ہر ٹی وی چینل کی ضرورت بن گیا ہے۔

اس ماحول میں اگر ایک شخص خود کو پڑھا لکھا ، نیم پاکستانی اور معاشرے کے اعلیٰ طبقے سے وابستہ سمجھتے ہوئے، کسی ایسے ہی طبقے کی خاتون سے غیر اخلاقی تعلقات قائم کرتا ہے اور پھر اس خاتون کو اذیت ناک طریقے سے قتل کر دیتا ہے، تو جہاں وہ اس گھناؤنے جرم کا ذمہ د ار ہے، وہاں دوسری طرف ان تمام عوامل پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جو اس شخص کو اخلاقی بے راہ روی کی طرف لے جانے پر اُکساتے رہتےہیں،یعنی تعلیم ، والدین کی عدم توجہی ، ابلاغِ عامہ اور خصوصاً علما، مشائخ اور اساتذہ کی طرف سے عصری مسائل و معاملات پر خاموشی۔

قرآن کریم نے بنی اسرائیل اور نصاریٰ کی گمراہی و فحاشی میں مبتلا ہونے کا ایک سبب ان کے علما اور راہبوں کو قرار دیا، جنھوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ لوگ حرام کھا رہے ہیں ، حرام کا ارتکاب کررہے ہیں اور بے حیائی میں مبتلا ہیں ، مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی اور اس طرح عملاً  بُرے اعمال میں ان کی مدد کی ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصلاحِ احوال کیسے ہو ؟

اسلام ایک جامع ، قابلِ عمل اور اصلاحی نظام ہونے کی بنا پر ایسے تمام مسائل کا عملی اور آزمودہ حل پیش کرتا ہے۔ ہم آج جس اخلاقی زوال اور ظلمت کا شکار ہیں، بالکل یہی صورتِ حال تھی جب اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے، معاشرے کی تاریکی، گمراہی اور پس ماندگی کو بڑی حکمت کے ساتھ اور کامیابی سے ایک ایسے معاشرے میں تبدیل کر دیا، جہاں حیا، عدل ، احترام ،تحفظ ، ترقی، فلاح و سعادت معاشرے کی پہچان بن گئی ۔ اس اصلاحِ احوال میں باہمی تعاون و احساس ذمہ داری کے ساتھ معاشرے میں موجود ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں ریاست کو کلیدی کردارادا کرنا ہے۔ لیکن جتنی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اتنی ہی یہ معاشرے کے تمام کارفرما اداروں اور افراد پر بھی عائد ہوتی ہے، اور سب کا فرض ہے کہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

والدین کا کردار

والدین کو اپنے اوقاتِ کار کا ایک بڑا حصہ اپنی اولاد کے اصلاحِ احوال کے لیے قربان کرنا ہوگا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر اور انھیں اپنے ساتھ بٹھاکر قرآن وسنت کے پیغام کو ان کے دل و دماغ میں پورے اعتماد و یقین کے ساتھ جاگزیں کرنے میں صرف کرنا ہو گا ۔یہ کام یک طرفہ طور پر وعظ و نصیحت سے نہیں ہوگا، بلکہ خود اولاد سے قرآن وسنت کے کسی حصے کا مطالعہ کروا کر ایک غیر رسمی مکالمہ کی شکل میں کرنا ہوگا۔ کوشش کیجیے کہ بچے والدین کے ساتھ مل کر اجتماعی غوروفکر کی عادت کو اپنائیں اور اس طرح اپنے دماغوں کو قرآنی اخلاقیا ت اور پیغام سے منور کریں ۔

یہ سارا کام محض تعلیمی اداروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔بلاشبہہ تعلیمی اداروں کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن آج ستم یہ ہے کہ بیش تر تعلیمی اداروں نے تعلیم کو بطور تجارت اختیار کیا ہواہے ۔ ان کے سامنے سیرت و کردار کی تعمیر اور نظریۂ پاکستان سے وفاداری کا حصول بطور ہدف اور ترجیح موجود ہی نہیں ہے ۔ اس وجہ سے والدین کی ذمے داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

تعلیمی اصلاح

حکومت ِوقت جو بھی ہو، اس کو اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرنا ہو گی کہ وہ اس ملک کی آبادی کو قرآن وسنت سے آگاہ کرنے کے لیے ’یکساں نظامِ تعلیم‘ کے تحت مجموعی نصاب میں اسلامی اخلاقی تعلیمات کو درسی مضامین کا حصہ بنائے اور ہر طالب علم کو اس سے قطع نظر کہ اس کامذہب و مسلک کیا ہے ، یکساں نصاب سے گزارے ۔ دنیا کے تمام نام نہاد ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں مسلک کے اختلاف کے باوجود یکساں نظام تعلیم پر عمل کیا جاتا ہے، اوراس میں کہیں بھی کسی انسانی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔پاکستان میں خصوصاً ۳فی صد غیر مسلم آبادی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ۹۷ فی صد اکثریتی آبادی کے عقائد ، نظریات ، تہذیب سے آگاہ ہوں تاکہ کوئی ثقافتی ، تناؤ اور ٹکراؤ نہ پیدا ہو اور معاشرے میں افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہو۔ اس سلسلے میں اقلیتوں کی قیادت سے افہام و تفہیم کے ذریعے مناسب انتظام کیا جاسکتا ہے۔

یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ دیگر مذاہب کے حامل ہم وطنوں کے لیے اکثریت کے عقائد سے واقفیت حاصل کرنے کا مطلب ان پر عقائد تھونپنا ہرگز نہیں ہے۔ جہاں تک معاشرے کی اخلاقیات کا تعلق ہے، اس باب میں انسانی طرزِ عمل کی اصلاح کے لیے جوتعلیمات قرآن و سنت نے دی ہیں، وہ عالم گیر ہیں اور ان پر ایک غیر مسلم کا عمل کرنا اتنا ہی مطلوب ہے جتنا ایک مسلمان کا۔  کیا کوئی صاحب ِعقل یہ چاہے گا کہ ایک مسلمان سے تو یہ مطالبہ ہو اور اسے تدریس و تربیت کے ذریعے یہ سکھایا جائے کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گا ، چوری نہیں کرے گا ، قتل و غارت نہیں کرے گا، شرم و حیا کے ساتھ رہے گا ، ہمسایے کے حقوق ادا کرے گا ، خواتین ، معمر افراد اور بچوں کے حقوق ادا کرے گا،لیکن دوسری طرف غیر مسلم کو ان تعلیمات سے بے بہرہ رکھا جائے اور وہ پاکستان کے شہری کی حیثیت سے جو چاہے رویہ اختیار کرے؟

ابلاغ اور نقار خانے کی آواز

آج سوشل میڈیا نے جو ابلاغی مقام حاصل کر لیا ہے، اس میں روایتی صحافت بہت پیچھے رہ گئی ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میٖڈیا کو تعمیری کام کے لیے استعمال کیا جائے اور سنسنی خیز اطلاعات یا لطیفے اورا فراد پر تیشہ زنی کی جگہ گھریلو امن ، حیا ، پاکیزگی ،رشتوں کے احترام کی بحالی اور معاشرے سے فحاشی اور عریانی کو ختم کرنے کے لیے تدابیر کی جائیںاور اس سلسلے میں جہاد اور اجتہاد کے طریقوں سے کام لیا جائے۔یہ کم خرچ بالا نشین حکمت ِعملی تحریک اسلامی سے وابستہ نوجوانوں کے ذریعے ملک گیر مہم بن سکتی ہے، اور عوام و خواص کو آج اخلاقی مسائل کی اصلاح کی طرف متوجہ کر سکتی ہے۔

اصلاحِ احوال کے لیے علماو مشائخ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ مسجد وہ اہم مقام ہے، جہاں سے ہر جمعے کو اگر سنجیدہ تعمیری پیغام دیا جائے تو عام مسلمان جو بنیادی طور پر آج بھی دین کو اہمیت دیتا ہے، فحاشی و بے حیائی اور سماجی و معاشی استحصال کے خلاف جہاد میں شامل ہونے پر آمادہ ہوگا ۔

قانون اور  ریاست

قانونی ذرائع ہر معاشرے میں اہمیت رکھتے ہیں، لیکن جب تک قانون کا نفاذ جیسا اس کا حق ہے نہ کیا جائے، تو محض قانون کا بنانا ایک کاغذی عمل سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ہے۔

’اسلامی نظریاتی کونسل‘ نے قانون سازی کے سلسلے میں سال ہا سال سے جو قیمتی تجاویز دی ہیں، افسوس ہے کہ تمام حکومتوں اور ملک کی پارلیمنٹ نے انھیں نظرانداز کیا ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کی روشنی میں حکومت قانون سازی کرے، پھر قوانین کے نفاذ کے لیے قانون نافذکرنے والے تمام ادارے بشمول انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس، اپنا اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ سیاسی قیادت بھی ساتھ دے اور عوامی دبائو بھی ڈالا جائے۔

تحریک اسلامی کا کردار

دعوت و اصلاح کا بنیادی مقصد: معروف اور بھلائی کا قیام اور منکر ، فواحش، باطل اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنا ہے ۔ معاشرتی مفاسد سے نجات کے لیے مثبت حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی حکمت عملی جس کے نتیجے میں معاشرے میں خاندان کے تحفظ اور خصوصاً خواتین اور بچوں کی جان اور عزت کے تحفظ کے معاملات کو اسلامی فکر اور روح کے مطابق بہتر بنایا جا سکے ۔ ایسی دعوتی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے کی ضرورت ہے ، جن میں خاندانوں کو شریک کروایا جائے ۔ اسلامی تعلیمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورتوں اور بچوں کے لیے اجتماعی سرگرمیوں کا اہتمام بھی ضروری ہے، نیز خاندانی نظام کی مضبوطی کے لیے خصوصی جدوجہد مطلوب ہے۔ اس سلسلے میں ہرسطح پر گفتگو ، مذاکروں، تقاریر اور عمومی تعلیم کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔

 عوامی شعور کی بیداری میں مسجد کا ادارہ انتہائی کلیدی اور اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ مساجد  اور خطبا سے رابطہ کاری کا مؤثر نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے انھیں مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر معاشرے کو درپیش اہم مسائل، مثلاً خاندانی نظام کا تحفظ ، بزرگوں کااحترام ، معاشرتی رواداری ، عریانی و فحاشی کے خلاف رائے عامہ کی بیداری ، بچوں کی تربیت، گھر کے ماحول کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی ضرورت و اہمیت اور اس جیسے بیسوں اہم مسائل پر اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔

تحریکی فکر کے حامل تعلیمی اداروں کو مرکز بناتے ہوئے کئی اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ان اداروں کی معاونت سے طلبہ و طالبات کے والدین کو تعلیمی اداروں میں مدعو کیا جائے۔ ان کو خاندانی نظام کے استحکام اور معاشی مشکلات سے نجات کے لیے اسلام کے مطابق سادہ زندگی گزارنے کی ضرورت و اہمیت بتائی جائے اور بچوں کی تربیت اور نفسیاتی و خانگی مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی برکات سے آگاہ کیا جائے۔

اگر مستقل طور پر یہ عمل جاری رکھا جائے تو اس سے تحریک کی دعوت کو بھی فروغ ملے گا۔ سوشل میڈیا کے ساتھ اُردو اور انگریزی اخبارات میں مضامین ، خطوط اور کالم لکھے جائیں، اور انھیں صوبائی اور مرکزی پارلیمانوں میں پہنچایا جائے۔ ہم خیال صحافیوں ، وکلا اور اساتذہ کی طرف سے ملک گیر پیمانے پر دستخطی مہم چلائی جائے اور اس طرح جو لوگ دستخط کریں ان کے ای میل، سوشل میڈیا رابطہ ایڈریس حاصل کیے جائیں، تاکہ مہم کے نتائج سے انھیں آگاہ کیا جائے اور مستقل بنیادوں پر ان سے آیندہ بھی دعوتی رابطہ کاری ہوتی رہے ۔بڑے اجتماعات کی جگہ چھوٹے اجتماعات، جن پر خرچ بھی کم ہوگا منعقد کیے جائیں اور خصوصاً مساجد اور اسکولوں کو اس مقصد کے لیے بنیاد بنایا جائے۔

ان تمام اقدامات کے ساتھ حکومت اور میڈیا کو فساد اور انتشار کے اس چیلنج کے مقابلے اوراسلامی اقدار کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔دراصل یہ ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے اور دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی جواب دہی کی فکر کرنی چاہیے۔ ہم اپنی ان گزارشات کا اختتام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو زریں ارشادات پر کرنا چاہتے ہیں، جن کے مخاطب مساوی طور پر حکمران اور عامۃ المسلمین ہیں:

حضرت تمیم داریؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلدِّیْنُ النصیحہ اور یہ ارشاد تین بار فرمایا۔ ہم نے پوچھا: لِمَنْ، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:لِلّٰہِ وَلکِتبِہِ ولرسولہِ ولائمۃ المسلمین وعامیتھم ،یعنی دین سراپا نصیحت اور خیرخواہی ہے___ اللہ کے لیے ، اللہ کی کتاب کے لیے،اس کے رسولؐ کے لیے، مسلمانوں کی قیادت کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔

 عربی میں نصیحہ سے صرف خیرخو اہی ہی مراد نہیں بلکہ صحیح بنیادوں پر تعلق استوارکرنا اور اس کے تقاضوں کوپورا کرنا بھی اس میں شامل ہے ۔ اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ سے خیرخواہی کے معنی ان پر حقیقی ایمان، ان سے گہرا تعلق، اور اس ایمان اور تعلق کے تقاضوں کی صحیح ادائیگی ہے۔  یہ ہرفرد کے لیے لازم ہے جو اسلام کا دعوے دار ہے۔ سب سے بنیادی چیز اللہ کی ہدایت اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں خودسادہ زندگی گزارنا اور معاشرے اور زندگی کے پورے نظام کی اس کے مطابق تشکیل کو اپنی زندگی کا مقصد اورسعی و جہد کا محور بنانا ہے۔ قیادت سے خیرخواہی جہاں حق بات اُن تک پہنچانے، صحیح مشورہ دینے، معروف میں اطاعت کرنے پر مشتمل ہے،وہیں اصلاحِ احوال کے لیے ان میں غلطی اور ناروا رویے پر تنقید و احتساب بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ اور عامۃ الناس کے لیے خیرخواہی امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے عبارت ہے تاکہ معاشرہ اسلام کی برکتوں سے مالا مال ہوسکے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ارشاد، دُنیا اور آخرت میں ہرشخص کے لیے اس کی ذمہ داری کے بارے میں جواب دہی کا اصول مقرر فرماتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی نمایاں خصوصیت صحت مند احتساب، قانون کی حکمرانی، بے لاگ انصاف، خیر کی حوصلہ افزائی ور شر کی سرکوبی ہے۔ اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنے اس ارشاد میں اُمت کے لیے مشعلِ راہ بنایا ہے:

قَالَ : اَلَا کُلُّکُمْ  رَاعٍ   وَّکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ  عَنْ  رَّعِیَّتِہٖ  ،فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ  رَاعٍ   وَّھُوَ  مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ، وَالرَّجُلُ   رَاعٍ  عَلٰٓی  اَھْلِ  بَیْتِہٖ  وَھُوَ  مَسْئُوْلٌ  عَنْ  رَّعِیَّتِہٖ  وَالْمَرْأَۃُ   رَاعِیَۃٌ  عَلٰی  اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا  وَوَلَدِہٖ   وَھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ  عَنْھُمْ ، وَالْخَادِمُ  فِیْ  مَالِ  سَیِّدِہٖ  رَاعٍ   وَھُوَ  مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ     اَلَا فَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ

عَنْ رَّعِیَّتِہٖ (بخاری، کتاب الاستقراض، باب العبد، راعٍ  فی مال سیدہ، حدیث:۲۳۰۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے،اور تم میں سے ہرایک شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ وہ امام جو لوگوں پر نگران ہے، اس سے رعیت کے متعلق بازپُرس ہوگی، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگران ہے، اس (عورت) سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے تو اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ سن لو کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہرایک سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں جواب دہی کی تیاری کے لیے، اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق بخشے، آمین!

نائن الیون [۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء]کے افسوس ناک خونیں حملوں کے بعد امریکا نے عملاً پوری دُنیا اور اقوام متحدہ کو یرغمال بنا لیا۔ پھر انسانیت سے عاری جس تباہ کن مہم کا آغاز ’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام سے کیا، وہ مہم نہ منطقی تھی، نہ منصفانہ تھی، اور نہ انسانیت نواز تھی، بلکہ یہ خونیں مہم، خود اس یلغار کا حصہ بننے اور اس کی قیادت کرنے والوں کے خلاف ہی پلٹ کر ایک جنگ میں تبدیل ہوگئی۔

نائن الیون کے محرکات اور معاملات کو بڑے حُسنِ تدبیر کے ساتھ سمجھنے، ان کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے اور یوں تشدد کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے جن بنیادی اقدامات کی ضرورت تھی، ان اقدامات کے بجائے، دُنیابھر کی طاقتوں نے مجرمانہ حد تک آنکھیں بند کرکے لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے لیے امریکا کا ساتھ دیا اور افغانستان کی قانونی حکومت کو بلاجواز خوفناک حملوں کے ساتھ ختم کر دیا گیا (حالانکہ نائن الیون حملوں میں کوئی بھی افغان ملوث نہیں تھا)، اس بے صبری اور بے تدبیری کے نتیجے میں دُنیا کو جھنجھوڑنے والے المیوں نے جنم لیا:

  • آج کی دُنیا، نائن الیون سے پہلے کی دُنیا سے کہیں زیادہ غیرمحفوظ بن کر رہ گئی ہے۔
  • بھارت نے کابل کی کٹھ پتلی امریکی حکومت کے زیرسایہ پاکستان کے خلاف سازشوں اور تخریب کاری کے لیے ۶۶تربیتی مراکز قائم کیے، جہاں سے پاکستان کے خلاف مسلسل دہشت گردی ہوتی رہی۔ جس میں ایک لاکھ کے قریب پاکستان کے دفاعی جوان، افسر اور عوام جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
  • مسلم دنیا میں قیادت و سیادت کے سرچشموں پر مسلط غیرنمایندہ حکمرانوں نے، مسلم اُمہ کے بے پناہ مادی وسائل، اس قاتلانہ یلغار کے لیے یوں مختص کردیے کہ آج ان ممالک کی معیشتیں مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں گروی بن چکی ہیں۔ ریاستی بجٹ خسارے سے دوچار ہیں۔ خلیج و عرب کی سطحی خوش حالی، کاغذ کے محلات کی صورت میں زمین پر آن گری ہے۔
  • بعض عرب ممالک تو اب باقاعدہ امریکی اور نیٹو افواج کی چھائونیوں کے لیے بڑے بڑے رقبے دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لیبیا، عراق اور شام جیسے باوسائل مسلم ممالک اور ان کی دفاعی صلاحیت بتاشے کی طرح بیٹھ گئی ہے۔ خون اور بارود کی بارش اور دلدل میں دھنسنے کے بعد ان تینوں ممالک کی حکومتوں اور سرحدوں کو پہچاننا ممکن نہیں رہا۔
  • بیس برس تک افغانستان کے جن طالبان کی بالفعل حکومت کو جبر کی قوت سے ملیامیٹ کیا گیا تھا، انھوں نے دُنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کی مدد اور پشتی بانی کے بغیر (پاکستان نے بہت محدود اخلاقی مدد کی) دُنیا کی عظیم ترین جارحانہ جنگی ٹکنالوجی کا مقابلہ کیا اور آخرکار جارح امریکا ۲۰۲۰ء میں مذاکرات کی میز پر آیا اور طالبان سے معاہدہ کیا، جس کے تحت ۳۱؍اگست ۲۰۲۱ء تک افغانستان کو چھوڑ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ تاہم، سالِ رواں ۱۵؍اگست کو امریکی، بھارتی کٹھ پتلی حکومت بدحواسی میں پسپا ہوگئی اور اس طرح طالبان پندرہ روز پہلے ہی کابل میں داخلے پر مجبور ہوگئے۔
  • طالبان کی یہ کامیابی کسی ملک کے خلاف جارحیت نہیں ہے، اور کسی جائز حکومت کے خلاف بغاوت بھی نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنی حکومت کے ناجائز خاتمے کو ۲۰برس بعد مشیت الٰہی سے پلٹ دیا ہے، جس پر افغانوں کو اور اُمت مسلمہ کو خدا کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیے۔
  • طالبان حکومت کی طرف سے، اپنے ہم وطن غداروں، قاتلوں، اپنے خلاف لڑنے والے کرائے کے فوجیوں اور جاسوسوں کے لیے عام معافی کے اعلان نے، عصرحاضر کی بین الاقوامی تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش مثال قائم کی ہے۔ یہ روایت فتح مکہ کی اتباع سے وابستہ ایک عظیم الشان تہذیبی قدم ہے، جس کی پوری دُنیا کی طرف سے قدر کی جانی چاہیے تھی، مگر افسوس کہ غیرمسلم ریاستیں تو ایک طرف، خود مسلم دُنیا پر مسلط حکمرانوں نے بھی اس کی قدر نہیں کی، جو باعث ِ ندامت ہے۔
  • پاکستان اور افغانستان، اسلام اور بھائی چارے کے جن گہرے رشتوں سے باہم جڑے ہوئے ہیں، ان میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی ترجیحات اور ذمہ داریاں، دُنیا کے دوسرے کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ اہم، حددرجہ نازک اور فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہیں۔
  • حکومتِ پاکستان کی یہ دینی، تہذیبی اور بین الاقوامی ذمہ داری ہے کہ افغانستان کے عوام کی تاریخی جدوجہد کا احترام کرتے ہوئے، افغانستان میں امن و استحکام کو ترجیح اوّل قرار دے اور افغانستان کی حکومت کو فوری طور پر تسلیم کرے۔ اس ضمن میں حکومت ِ پاکستان کی تذبذب اور گومگو کی کیفیت قومی مفادات کے قطعی منافی ہے۔
  • طالبان کی حکومت بننے سے پاکستان کی مغربی سرحدیں محفوظ ہوگئی ہیں۔ مگر بھارت اور امریکا کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد یں مسلسل سلگتی رہیں، اور پاکستان بدامنی و اضطراب کے چنگل میں اُلجھا رہے۔ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھی افغانستان میں نئی حکومت کو فوری تسلیم کرنا ضروری ہے۔
  • بھارت اور امریکا نے افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرت کا جو زہر گھولا ہے، اس کا حل بھی افغانستان میں امن و آسودگی پیدا کرنے کے لیے، رفاہی کاموں میں افغان حکومت کا ہاتھ بٹانے سےممکن ہے۔
  • افغانستان کے مالی ذرائع پر امریکی پابندیوں اور عالمی سطح پر عملاً سوشل بائیکاٹ کے نتیجے میں افغانستان میں خوراک اور ادویات اور توانائی کی شدید کمی واقع ہوچکی ہے، جس نے روح فرسا انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انسانی ہمدردی اور اسلامی اخوت کی بنیادوں پر خوراک، ادویات اور توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے پاکستان سے ممکن حد تک مدد فراہم کی جانی چاہیے۔
  • پہلے اشتراکی روسی فوجوں نے اور پھر افغان تنظیموں کی خانہ جنگی نے اور اس کے بعد امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان کے بچے کھچے نظامِ زندگی اور ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔ اس کی بحالی اور تعمیرنو کے لیے عالمی فنڈ قائم کیا جائے، تاکہ مواصلات، توانائی کے ذرائع، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیرو مرمت کا کام ہوسکے۔
  • سامراجی فوجوں کی واپسی کے بعد ، افغانستان کی نئی حکومت پر مختلف النوع ذمہ داریوں کا بہت زیادہ بوجھ بڑھ گیا ہے۔ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے افغان قیادت کو اللہ پر بھروسا رکھتے اور مشاورت کی روح کو زند ہ کرتے ہوئے، اَن تھک محنت، تدبر، دُوراندیشی کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو۔
  • افغانستان اور پاکستان میں امن ان دونوں ممالک کے باہمی تعلق اور اعتماد سے ممکن ہے۔ یہ ہونہیں سکتا کہ ان میں سے ایک ملک میں بدامنی ہو تو دوسرا ملک امن سے رہ سکے۔ اس لیے جس طرح طالبان نے ملک میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے، اسی طرح حکومت ِ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو عام معافی دے کر انھیں سماجی زندگی کا حصہ بننے کی اجازت دے، جنھوں نے ان ۲۰برسوں کے دوران غیرملکی فوجوں کے افغانستان پر قبضے کے خلاف جدوجہد میں کسی بھی صورت حصہ لیا تھا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ملک میں بے چینی کا ایک سبب قائم رہے گا، جسے دشمن ممالک گمراہ کن انداز سے برت سکتے ہیں۔ پاکستان کا یہ اقدام ایسے خدشات اور امکانات کو ختم کرسکتا ہے۔
  • دُنیا بھر کے مسلمانوں اور غیرمسلموں میں جو لوگ جنگ زدگی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اور پُرامن شہری زندگی کے فروغ کے لیے دل و جان سے متحرک ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ بے لوث طریقے سے، سرزمین افغانستان کو امن و آسودگی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے مشورے، فنی سہولیات اور اموال و اشیا کے ذریعے موجودہ افغان حکومت کو مدد فراہم کریں(ہمیں اس بات پر اطمینان ہے کہ پاکستان کی ایک قابلِ قدر رفاہی تنظیم ’الخدمت فائونڈیشن‘ نے محدود وسائل کے باوجود افغانستان میں خوراک اور ادویات کی فراہمی کے لیے مقدور بھر عملی قدم اُٹھایا۔ اور ’الخدمت‘ یتیم بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے لیے افغان حکومت کا ہاتھ بٹانے کے لیے بھی کوشاں ہے)۔
  • افغانستان خشکی میں گھرا ہوا ایک ملک ہے، جس کے لیے تجارت کا سب سے بڑا اور سستا راستہ پاکستان ہے۔ پاکستان نے اپنی بدترین مخالف افغان حکومتوں کے اَدوار میں بھی اس حق کو معطل نہیں کیا، مگر افسوس کہ آج یہ افغان تجارت بند ہے اور کروڑوں روپے کے پھل افغانستان میں تباہ ہورہے ہیں۔ جس سے افغان معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس زیادتی کا ازالہ ہونا چاہیے اور تجارتی آمدورفت کو فی الفور بحال کرنا چاہیے۔
  • حالیہ دنوں میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان پی آئی اے کا کرایہ کو دو ڈھائی سو ڈالر سے بڑھا کر ڈھائی ہزار ڈالر تک کردیا گیا ہے جس نے بداعتمادی کو بڑھایا ہے۔ پھر یہ کہ طورخم بارڈر پر افغانستان سے آنے والے ٹرکوں اور ایمبولینسوں کی پندرہ پندرہ کلومیٹر طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں، جن میں مریض تڑپ رہے ہیں اور خوراک کو ترس رہے ہیں۔ معلوم نہیں قانونی طریقے سے آنے اور واپس جانے والے ان مستحق افراد کو کیوں خوار کیا جارہا ہے؟ حالانکہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں کیا گیا۔
  • اسی طرح ہم بہت دل سوزی کے ساتھ دونوں برادر ملکوں کے سیکولر ہم وطنوں سے کہیں گے: (۱) اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ طالبان کوئی ایک باقاعدہ پارٹی نہیں بلکہ یہ عام افغان عوام کے جذبۂ حُریت و آزادی اور عزمِ دین و ترقی اور اجتماعی جدوجہد کا مظہر ہیں، پھر کسان، مزدور، نوجوان،تجارت پیشہ ،دینی تعلیم سے آراستہ اور جدید تعلیم یافتہ افغانوں کی ایک عظیم اکثریت ان کے ہم قدم ہے۔(۲) یہ کہ چالیس برس سے جنگ میں جھلستے اس ملک کے داخلی حالات خراب ہیں، اگر دین دار اور مغربی سامراجیوں کے خلاف لڑنے والوں کے گھر جلیں گے تو ان سامراجیوں کو خیر کی نظروں سے دیکھنے والوں کے گھر بھی تباہی سے نہیں بچ سکیں گے۔ اس لیے لبرل یا سیکولر ہم وطنوں کو سمجھنا چاہیے کہ طالبان نے اپنے ملک پر قابض ایک ناجائز سامراجی ٹولے کی حکمرانی سے نجات حاصل کی ہے، اپنے ملک پر کوئی قبضہ نہیں کیا، بلکہ سامراجیوں سے قبضہ چھڑایا ہے، جس میں مقابلے اور مذاکرات دونوں کا کردار ہے۔ اس لیے، وہ طالبان کے خلاف گھنائونے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کو پروان چڑھانے کا بے فیض کام چھوڑ کر، معقول طریقے سے قومی تعمیروترقی میں ہاتھ بٹائیں۔
  • پاکستان کے اعلیٰ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ میڈیکل، انجینیرنگ، سائنس، ابلاغیات، انتظامیات، علومِ اسلامیہ اور سماجیات میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے افغانستان کے نوجوانوں کے لیے اسکالرشپ پر نشستیں مخصوص کریں، جنھیں میرٹ پر داخلہ اور تربیت دی جائے۔یوں مستقبل میں بھائی چارے میں اضافہ ہوگا، اور افغانستان کی ترقی میں پاکستان کے کردار سے باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوتے جائیں گے۔
  • اس کے ساتھ پاکستان کے فیصلہ سازوں پر ہم یہ امر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ سرزمینِ پاکستان یا پاکستان کی فضائی حدود، امریکا یا نیٹو افواج کو افغانستان پہ حملے کرنے کے لیے کسی صورت مہیا نہیں کی جانی چاہیے۔ امریکا کے دبائو پر افغانستان کے خلاف کسی قسم کی راہداری دینا، قوم کے لیے بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ امریکا سے ہم مثبت تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، لیکن امریکا کے اور ہمارے مفادات اس پورے خطے (Region) میں کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ ہمیں چین، روس اور ایران کے ساتھ مل کر علاقے اور اپنے ملک کے مفادات کے مطابق افغانستان کی طالبان حکومت سے مکمل تعاون کرنا چاہیے۔ افغانستان کی تقویت اور استحکام کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ مسلم ممالک اور یورپی ملکوں کو بھی امریکا کے دبائو سے نکلنے اور آزاد پالیسی بنانے پر متوجہ کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ترکی اور قطر کا کردار بڑا مثبت ہوسکتا ہے۔ انھیں بھی اس تزویراتی ربط و تعلق میں ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایک پختہ عزم اور ارادے کے ساتھ حکومت ِ پاکستان کو ان اُمور پر فوری اقدامات کرنے چاہییں۔ وقت گزرنے کے بعدکیے گئے اہم ترین اقدامات بھی اپنی قدروقیمت کھو بیٹھتے ہیں۔ امریکی دبائو اور بلیک میلنگ میں آکر افغانستان کے حوالے سے تاخیری حربوں سے کام لینا،اس خطے کے لوگوں اور تاریخ و تہذیب سے انتہا درجے کی بے وفائی ہوگی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ___ میرے نہایت ہی عزیز اور محترم بھائی سیّد علی شاہ گیلانی کا یکم ستمبر ۲۰۲۱ء کو انتقال ایک عظیم سانحہ ہے۔ موت ہرشخص کا مقدر ہے، لیکن کچھ افراد کی موت زندگی کا پیغام لے کر آتی ہے اور گیلانی صاحب کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔

سیّد علی شاہ گیلانی کی زندگی کا سب سے اہم پہلو مقصدیت اور یکسوئی ہے۔ جس چیز کو انھوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا، یعنی اسلام سے شعوری و عملی وابستگی، اس کی دعوت اور اقامت، کشمیر کی آزادی، اسلام کی تقویت کے لیے پاکستان اور کشمیر کی یک جہتی اور پھر جس یکسوئی،جس   بالغ نظری اور جس اعتماد کے ساتھ، عملی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے انھوں نے اس مقصد کے لیے کام کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پوری زندگی پر پھیلی اس طویل اور جان لیوا جدوجہد کے دوران قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، برسوں جیل اور نظربندی میں گزارے۔ علاوہ ازیں انھوں نے صحافتی، تدریسی، پارلیمانی اور سیاسی محاذ پر بھرپور خدمات انجام دیں۔

پاکستان اور کشمیر کو وہ یک جان سمجھتے تھے۔ کشمیر کا مستقبل پاکستان اور صرف پاکستان سے وابستگی میں دیکھتے تھے، لیکن اس کی بنیاد علاقائیت نہیں بلکہ اسلام اور دو قومی نظریہ تھا۔ جموں و کشمیر پر بھارتی تسلط کو جس شخص نے سب سے زیادہ ہمت اور جرأت کے ساتھ چیلنج کیا، اور پھر اس کی آواز پر کشمیر کے نوجوانوں اور عوام نے اس کا ساتھ دیا، وہ علی گیلانی ہی تھے۔ یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی میں سیّد علی گیلانی سے بڑا لیڈر کوئی نہیں ہے۔ بلاشبہہ ایک زمانے میں شیخ عبداللہ کشمیر میں مقبول قائد تھے، لیکن بالآخر انھوں نے اپنی ذات، اپنی شہرت اور مناصب اور خاندان کے دُنیوی مستقبل کی خاطر ہندستان کے آگے سپر ڈال دی۔ شیخ صاحب نے جن کم سے کم مطالبات پر ہندستان سے معاملہ فہمی کی تھی، بعد میں خود ہی ان سب کو ترک کر دیا۔ اس طرح وہ ایک ناکام شخص کی حیثیت سے دُنیا سے رخصت ہوئے۔ سیّد علی گیلانی اگرچہ اپنے خواب کی حتمی تعبیر تو نہ دیکھ سکے، لیکن اس حیثیت سے وہ ایک کامیاب انسان کی طرح سے دُنیا سے رخصت ہوئے کہ انھوں نے آخری لمحے تک جس چیز کو مقصد ِ زندگی بنایا تھا، اس کے لیے جدوجہد کی ، قربانیاں دیں اور کبھی کمزوری نہیں دکھائی اور اس مقصد سے وابستگان کی ایک مستعد اور متحرک نسل چھوڑ کر گئے ہیں۔

اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ بھی ان کے تعلق کی نسبت جرأت اور مقصدیت پر مبنی تھی۔ جب جنرل پرویز مشرف نے بھارت کے ساتھ مل کر استصواب رائے (Plebiscite) کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصول سے ہٹ کراپنے ایک منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو اس کو روکنے کے لیے سب سے جان دار آواز سیّد علی گیلانی کی بلند ہوئی تھی۔ یہ شکر کا مقام ہے کہ جنرل مشرف سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں جلد نجات دلا دی اوروہ نامراد منصوبہ خاک میں مل گیا۔ سیّد علی گیلانی نے محض اس لیے کہ وہ پاکستان کے سربرا ہ تھے، ان کے رُوبرو کلمۂ حق بلند کرنے میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔ مراد یہ کہ جس طرح انھوں نے بھارت کی حکومت و قیادت کو چیلنج کیا، اسی طرح پاکستان کی قیادت کے پایۂ ثبات میں تزلزل پر اسے بھی برملا چیلنج کیا اور کشمیری عوام کی اُمنگوں کی ترجمانی کی۔

سیّد علی گیلانی  __ ایک نظریہ، ایک تحریک

آج سیّد علی گیلانی محض ایک شخص کا نام نہیں، وہ سوا کروڑ مظلوم انسانوں کی پون صدی پر پھیلی ہوئی تاریخی جدوجہد کا عنوان اور سنہری علامت ہیں۔ انھوں نے ایک سرفروش قوم کی رہنمائی، اپنی آزادی کے حصول اور اپنے دین و ایمان اور اپنی روحانی اور تہذیبی شناخت کے تحفظ اور ترقی کے لیے ایک ایسی وحشی اور قابض قوت کے خلاف کم از کم ۷۶ برس سے پوری استقامت کے ساتھ یہ جدوجہد کی۔ ایسی قوت کہ جس نے عسکری یلغار اور سیاسی عیاری کے بل پر اہل جموں و کشمیر کو اپنا غلام بنا رکھا ہے اور دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی، اور خود اپنے عہدوپیماں کو تار تار کرکے ان پر اپنا ظالمانہ تسلط قائم کر رکھا ہے۔

اس استبداد کے نتیجے میں کشمیری صرف اپنی آزادی اور حق خود ارادیت ہی سے محروم نہیں کردیے گئے، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کے جان ، مال، آبرو، اقدارِ حیات، تہذیبی اور نظریاتی تشخص، غرض ہرشے کو تہس نہس اور برباد کیا جارہا ہے۔ وہاں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی اور بستیوں اور کھیتوں اور کھلیانوں کی تباہی روزمرہ کا معمول بن گئی ہے۔  جموں و کشمیر کی سرزمین پر مسلمانوں کے خون کی اس ارزانی کی کیفیت کو نسل کشی (Genocide) کے سوا کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر ایک طرف ظلم کی نہ ختم ہونے والی خوں چکاں داستان ہے تو الحمدللہ، دوسری طرف ظلم کے اس نظام کو چیلنج کرنے اور تاریکیوں کا سینہ چاک کرکے آزادی کا پرچم لہرانے اور سرفروشی کے چراغوں کو روشن کرنے کی تابناک اور روزافزوں جدوجہد بھی جاری ہے، جو صبحِ نو کی آمد کی نوید دے رہی ہے۔

اس تاریکی میں علم و عمل کا نُور بکھیرتے رہنا سیّد علی گیلانی کی زندگی اور عصرِحاضر کا ایک جذبہ انگیز باب ہے، جس سے واقفیت پاکر ہر دل اپنے اندر ایک اُمنگ موج زن پاتا ہے۔ اس ضمن میں گیلانی صاحب کی خودنوشت ولّر کنارے میرے نزدیک ایک ایسی سوانح حیات ہے، جس میں سیّد علی گیلانی کی مقصدیت سے بھرپور مگر ہنگامہ خیز زندگی کی داستان رقم ہے۔ اس آئینے میں پوری کشمیری قوم کی روح پرور اور ایمان افروز مگر نشیب و فراز سے بھرپور زندگی کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ انھوں نے ہمیں اپنی زندگی سے روشناس کراتے ہوئے درس دیا ہے کہ :

جو غم ہمیں ملا ، غمِ دوراں بنا دیا

سیّد علی گیلانی ۳۳کتابوں کے مصنف ہیں، لیکن ان کی خود نوشت ایک منفرد علمی اور ادبی کاوش ہے۔امرواقعہ ہے کہ خود نوشت ایک سب سے زیادہ نازک ، حساس اور مشکل صنف ہے کہ اس میں کہیں پوری داستان ’در مَدح خود می گوید‘ کی گردان بن جاتی ہے اور کہیں کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں سب کچھ ہوتا ہے، مگر شخصیت کی اصل تصویر گم ہی رہتی ہے۔ لیکن سیّد علی گیلانی کی خودنوشت میں ان کی اصل شخصیت اپنی تمام تر تابانی کے ساتھ چلتی پھرتی دیکھی جاسکتی ہے۔  صرف ان کا ظاہر ہی نہیں بلکہ باطن بھی کسی تصنع اور پردہ داری کے بغیر دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی داستان کا اصل محور ان کی اپنی ذات نہیں بلکہ وہ مقصد ِ حیات ہے جس نے ان کی زندگی کو معنویت دی ہے۔ اس داستان کی بے ساختگی، ان کی زندگی کی سادگی، ظاہر اور باطن کی یکسانی، مصائب اور مشکلات پر صبرواستقامت، ورق ورق پر ثبت ہے۔ صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے مقصد ِ حیات کی خدمت، اور زمانے کے تمام نشیب و فراز کا حکمت، دیانت، حلم اور توازن کے ساتھ سامنا ان کی شخصیت اور جدوجہد کو ایسا حُسن عطا کرتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام کہا جا سکتا ہے۔ خودپسندی، نفس کی پرستش، انتقام اور حُب ِ دُنیا کا کوئی شائبہ اس زندگی میں نظر نہیں آتا۔

ع        مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

مجھے محترم سیّد علی گیلانی سے صرف تین بار ملنے کا موقع ملا ہے۔ ایک بار کھٹمنڈو، نیپال میں ملا تھا۔ دوبار یہ سعادت حرمِ کعبہ کے زیرسایہ حاصل ہوئی، جس میں ایک مرتبہ عمرہ کے دوران اور دوسری بار حج بیت اللہ کے موقعے پر۔ ان ملاقاتوں میں گھنٹوں تفصیلی بات چیت ہوئی۔ ان گفتگوئوں میں مَیں نے انھیں ایک بندۂ مومن، سچا انسان اور ایک مخلص رہنما پایا۔ ان کی تحریروں کا خاصا حصہ میری نظر سے گزرا ہے۔ اگرچہ ان کی تحریر اور تقریر دونوں اس پہلو سے متأثّر کن رہی ہیں کہ وہ فکری صحت کے ساتھ ساتھ حُسنِ خیال اور حُسنِ بیان کا بہترین مرقع ہیں۔ درحقیقت گیلانی صاحب کی زندگی ایک شخص کی زندگی کے آئینے میں ایک عہداور ایک عہدآفریں جدوجہد کی داستان ہے۔

دعوت اور داعی کی زندہ مثال

ان کی سادہ زندگی، اہلِ خانہ سے گہری محبت، خوش کن لمحات میں تشکر اور مصیبت اور رنج و غم کے موقعوں پر صبروتحمل، وسائل کی تنگی اور مشکلات کی یلغار کی صورت میں بھی مایوسی، غصے اور فرار سے گریز، اوقاتِ کار میں ڈسپلن اور تحریکی اور سیاسی مصروفیات کے ازدحام کے باوجود نجی معاملات میں دل چسپی اور ذمہ داری اور تعلقات کو نبھانے کی مسلسل سعی ___ یہ کردار کے وہ پہلو ہیں جو مسلم معاشرے کا طرئہ امتیاز رہے ہیں اور نئی نسلوں کی طرف ان کو منتقل کرنا گیلانی صاحب کی نسل کی ذمہ داری تھی، جسے انھوں نے بڑے سلیقے سے اس طرح پورا کیا ہے کہ وہ بہت کچھ جو ’حجاب‘ تھا ’پردہ ساز‘ بن کر جلوہ گر ہے۔

گیلانی صاحب کی شخصیت کا ایک بڑا متاثر کن پہلو ذاتی تعلقات اور انسانی بنیادوں پر دوست اور دشمن سبھی سے تعلق خاطر اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا خاص اہتمام ہے۔ مخالفین کی خوبیوں کا اعتراف اور اپنوں کی کمزوریوں پر بے جا پردہ ڈالنے یا ان کے دفاع کی کوشش سے اجتناب بڑا جان دار پہلو ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بے جا تجسس، چغلی، غیبت اور دوسروں پر اپنی برتری کے اظہار سے بھی ان کا دامن پاک رہا ہے۔

شیخ عبداللہ سے سیاسی اختلاف کو انھوں نے ذاتی مراسم میں بگاڑ کا سبب نہیں بننے دیا۔ گیلانی صاحب نے سیاسی اور نظریاتی میدان میں شیخ صاحب پر بھرپور تنقید کی ہے، مگر ان کے مثبت رویوں، ان کے ہاں مشرقی اور خاندانی روایات کے اہتمام کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ اسی طرح سخت شدید مخالفین کے غم اور دُکھ درد میں شرکت سے اپنے کردار کی عظمت کا ثبوت دیا ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جس کی خود قرآن نے تلقین کی ہے، یعنی اخلاقِ نبویؐ ہے:

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۝۳۴ (حم السجدہ ۴۱:۳۴) اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔

قرآن سے گیلانی صاحب کا گہرا تعلق اور زندگی کے ہرمرحلے اور ہرموقعے پر قرآن کریم سے استشہاد کا نقش ان کی تحریر اور تقریر پر بڑا نمایاں ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے بارے میں مولانا سیّد سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ الہلال نے ہم پر یہ راز فاش کیا کہ قرآن ہمارے دور کے ہر مسئلے کے بارے میں بھی ایسی رہنمائی دیتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ ہدایت آج ہی نازل ہورہی ہے۔ گیلانی صاحب کی تحریر اور تقریر کا یہ کرشمہ ہے کہ ان میں ہرموقعے پر قرآن کی روشنی کا ہالہ نظر آتا ہے اور تفہیم القرآن کی تشریح اس کونُورٌ علٰی نُور کا رنگ دے دیتی ہے۔

فکری ترجمانی

سیّد علی گیلانی کی زندگی پر جن دو شخصیات کے اثرات سب سے زیادہ نمایاں ہیں، وہ علّامہ محمد اقبالؒ اور مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔ بجاطور پر یہ دونوں حضرات بیسویں صدی میں اسلامی احیا کے صورت گر ہیں۔ اقبالؒ نے فکر اور جذبہ دونوں کو صحیح راہ پر لانے کی تاریخ ساز کوشش کی اور سیّد مودودیؒ نے اسلام کے حقیقی وژن کو مسکت عصری دلائل کے ساتھ پیش کرکے نئی نسل کو اسلام کا صحیح شعور دیا اور اُن کو اسلام کے قیام کی جدوجہد کی انقلابی راہ بھی دکھائی۔ اس طرح نہ صرف فکری اور نظریاتی رہنمائی فراہم کی بلکہ اسلامی احیا کی جدوجہد کو برپا کرکے پوری اُمت کے لیے ایک روشن اور کشادہ شاہراہ کھول دی۔ سیّد مودودیؒ کی تحریریں زندہ اور جاوید اس لیے ہیں کہ ان کے پیچھے صرف فکر کی پختگی اور حُسنِ خیال کے ساتھ بلاغت اور اعجاز کا کمال ہی نہیں بلکہ کردار کی عظمت اور قول و فعل کی یکسانی بھی کارفرما ہے۔ ایسی تحریر اور تقریر نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ دوسروں کو زندگی دیتی ہے اور مخالفت کے طوفان بھی نہ اسے محو کرسکتے ہیں اور نہ محدود۔

ایک روشن تحریکی زندگی

گیلانی صاحب کی زندگی کا ایک اور بڑا روشن پہلو یہ ہے کہ ان کے ہاں دعوتی اور تحریکی زندگی اور اس کے تقاضوں کا بڑا حسین امتزاج ہے۔ دعوتِ حق کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرنے اور تحریک کے نظم سے رشتہ استوار کرنے کے بعد انسان میں کیا تبدیلی آنی چاہیےاور اسے کس طرح زندگی کے پورے طول وعرض میں جاری و ساری ہونا چاہیے، خواہ وہ ایک کارکن کی ذمہ داری ادا کررہا ہو یا قائد کی۔ اس کے چار پہلو سیّد علی گیلانی صاحب کی زندگی اور جدوجہد میں نمایاں ہیں:

  • حصولِ علم کی نہ ختم ہو نے والی لگن جسے ذاتی تعمیروترقی بھی کہا جاتا ہے۔
  • ابلاغ اور دعوت کا اہتمام، خواہ کہیں بھی ہو اور موقع و محل کی مناسبت سے اپنے پیغام کو حکمت اور جرأت کے ساتھ بیان کرنا اور اس کا موقع نکالنا۔
  • حصولِ علم اور ابلاغ کے ساتھ خوش خُلقی، انسانی خدمت، دوسروں کے دُکھ درد میں شرکت اور ان کو مادی اور اخلاقی ہردواعتبار سے اُوپر اُٹھانے کی جدوجہد کی فکر اور اس میں انہماک۔
  • نوجوانوں میں دعوت و تربیت پر خصوصی توجہ کہ مستقبل کی طاقت کا وہی سرچشمہ ہیں۔

یہ چارعناصر انسان کو داعی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کے پشتی بان

گیلانی صاحب نے اپنی ساری زندگی میں کشمیر کے مقدمے کو بڑے سلیقے اور محکم دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کا سیاسی اور دینی پہلو ان کے یہاں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں، جن کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

کشمیر کے مقدمے کا بہترین مرقع گیلانی صاحب کا وہ خط ہے، جو انھوں نے بھارت کے ایک وزیراعظم وی پی سنگھ کو ۳۱دسمبر ۱۹۸۹ء کو لکھا تھا۔ یہ خط سنہری حروف سے لکھنے کے لائق ہے۔ کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے سے پہلے انھوں نے اسلام کی دعوت اور پیغام کو اختصار لیکن پوری دیانت اور حکمت سے بیان کیا ہے۔ اس میں بالکل وہی طریقہ اختیار کیا، جو حضرت یوسفؑ نے جیل میں خواب کی تعبیر بیان کرنے سے پہلے ربّ کی عظمت اور بندگی کی دعوت دی تھی۔ اسی طرح کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے ’مسلم متحدہ محاذ‘ کے نمایندے کے طور پر اپنے رفقا کے ساتھ جو استعفا انھوں نے ۳۰؍اگست ۱۹۸۹ء کو دیا تھا، وہ بھی ان کے موقف کی ترجمانی کا شاہ کار ہے۔ سیاسی میدان میں گیلانی صاحب نے جس حکمت اور فراست سے نازک ترین معاملات کو نبھایا ہے، اس کے اجروثواب کے لیے دل سے بہترین دُعائیں نکلتی ہیں۔

مقصد کی لگن اور ترجیحات کا صحیح ادراک کامیاب قیادت اور سیاست کے لیے ضروری ہے۔ مخالفین سے معاملہ کرنے سے بھی زیادہ مشکل کام ان لوگوں کے ساتھ چلنا اور ان کو اپنے ساتھ چلانا ہے، جو جزوی اتفاق کے ساتھ بڑے بڑے معاملات پر اختلافی رائے رکھتے ہیں۔ اس میں گیلانی صاحب ہراچھے سیاست دان کی طرح کبھی کامیاب ہوئے اور کبھی ناکام، لیکن جس طرح انھوں نے مشترکات کی خاطر دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی ، وہ ایک قابلِ تقلید اور روشن مثال ہے۔

جمہوری عمل کی ناکامی کے بعد تحریکاتِ آزادی کا تحریک ِ مزاحمت میں تبدیل ہونا ایک بڑا نازک مسئلہ ہے۔ بنددروازوں کو توڑنے کے لیے قوت کے ناقابلِ تصور عدم تناسب کے باوجود کسی نہ کسی درجے میں متوازی قوت کا استعمال ایک حددرجہ حساس معاملہ ہے۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں کم از کم دوسوسال کی تاریخ گواہ ہے کہ مغربی سامراج کے مقابلے میں ایک خاص مرحلے پر معروف جمہوری قوتوں اور تحریکات نے بھی مجبور ہوکر جمہوری طریقوں سے ہٹ کر ایک صحیح کاز اور حصولِ آزادی کے لیے راست اقدام اُٹھائے ہیں۔ خود برعظیم میں بھگت سنگھ [م: ۱۹۳۱ء]اور سبھاس چندر بوس [م: ۱۹۴۵ء]کی مثالیں آج بھی کانگریس کی تحریک ِ آزادی کی جدوجہد کا قابلِ فخر حصہ قرار دی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سو سے زیادہ رکن ریاستیں وہ ہیں، جن کی آزادی میں عسکری جدوجہدکا بھی حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری غلبے کے خلاف عسکری جدوجہد کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ’دہشت گردی‘ (Terrorism) تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔لیکن حالیہ دور میں اور خصوصیت سے نائن الیون [۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء]کے بعد اس سلسلے میں جنگ ِ آزادی اور دہشت گردی کے درمیان تسلیم شدہ فرق کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

گیلانی صاحب نے کشمیر کی جدوجہد کے پس منظر میں اس نازک مسئلے پر بڑے اعتدال اور دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ دونوں کے جوہری فرق کو دلیل کے ساتھ واضح کیا ہے۔ جائز اور ناجائز حدود کی وضاحت کی ہے۔ ان اسباب کی نشان دہی کی ہے، جن کی وجہ سے آزادی کے متوالے دوسرا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر ان حدود کو بھی نمایاں کیا ہے جن کا احترام اس پُرخار راستے کو اختیار کرنے کے باوجود ازبس ضروری ہے۔ انھوں نے یہ سب اسلام کے تصورِجہاد اور آدابِ جہاد کے نظامِ فکر کی روشنی میں نمایاں کیا ہے، جس کا ادراک گیلانی صاحب کو نوجوانی ہی سے ہوگیا تھااور جس کا اظہار طالب ِ علمی کے دور میں ہی گاندھی جی کے عدم تشدد کے موضوع پر سری نگر میں منعقدہ ایک مباحثے میں انھوں نے کیا تھا۔

قیدوبند کی آزمایش

محترم گیلانی صاحب کو اپنی طویل تحریکی اور سیاسی جدوجہد میں مخالفت و مخاصمت، قیدوبند، تشدد اور تعذیب کے جن مراحل سے گزرنا پڑا، ان سب آزمایشوں میں اللہ کے فضل و کرم سے وہ جس صبروثبات سے اپنے موقف پر قائم رہے، حددرجہ ناسازگار حالات میں بھی دعوت کے لیے راستے تلاش کرتے رہے، وہ سیاست اور دعوت کے تمام طالب علموں کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ ان کے خلاف جسمانی تشدد سے لے کر نفسیاتی دہشت گردی تک کے تمام حربے اربابِ وقت اور سیاسی مخالفین نے آزما لیے۔ جب ظلم کے ہتھیار کارگر نہ ہوئے تو ترغیب کے حربے بھی استعمال کیے گئے اور وزارت اور ایک موقعے پر وزارتِ اعلیٰ تک کا لالچ بھی دیا گیا، مگر الحمدللہ، پوری زندگی میں ان کے پایۂ ثبات و استقلال میں کوئی ضُعف نہیں آیا۔

نئی نسل کے لیے ایک مثالی کردار

نئی نسل کے لیے گیلانی صاحب ایک رول ماڈل ہیں۔ تحریک ِ اسلامی کی نئی نسل کو دعوتِ حق کے مقاصد، مشن اور اس کے لائحۂ عمل اور مزاج سے روشناس کرانے کے لیے گیلانی صاحب کی حیات و خدمات کا مطالعہ ایک بہترین عملی ذریعہ ہے۔

ہمارے لیے زندگی گزارنے کا اصل نمونہ صرف رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک اور آپؐ کا اسوئہ مطہرہ ہے،لیکن یہ بھی اسی اسوۂ حسنہ کا کمال ہے کہ جس دور میں بھی جس نے آپؐ کے دامن سے نسبت کرلی، وہ خود بھی ایک روشن چراغ بن جاتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں کبھی کبھی بڑے نازک مقامات بھی آتے ہیں، ان میں کوئی بھی انسان سہووخطا سے پاک نہیں ہوسکتا لیکن بحیثیت مجموعی محترم گیلانی صاحب کی زندگی پوری یکسوئی اور تسلسل کے ساتھ، مقصد سے لگن اور وفاداری کے ساتھ بندھی نظر آتی ہے۔ اگر کہیں کوئی بھول چوک ہوئی ہے تو انھوں نے اسے درست کرنے کی مخلصانہ کوشش کی۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندے سیّد علی گیلانی صاحب کی مغفرت فرمائے۔ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اُس کے پُر ہونے کا کوئی سامان پیدا کرے۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ وہ جدوجہد جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی قربان کردی، وہ جدوجہد کامیاب ہو۔میں نے تاریخ کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس بنا پر میں کَہ سکتا ہوں کہ خصوصیت سے ۱۹۸۰ء کے بعد سے تحریکِ آزادیِ کشمیر جس طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے، وہ ان شاء اللہ کامیاب و کامران ہوگی اور بھارت کے تسلط سے ہمارے کشمیری بہن بھائی نجات پائیں گے اور پاکستان اور کشمیر یک جان ہوں گے۔

مرتبہ : سلیم منصور خالد

علم کے حصول اور ہدایت کی نعمت پانے کے لیے سوال کو بہت بنیادی حیثیت حاصل ہے۔  مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒنے جب قافلۂ راہِ حق کو منظم کیا، تو پھر بھرپور ساتھ دینے والے اور قافلے کو دُور سے دیکھنے والے، دونوں، مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے پاس اپنے سوال لے کر آئے۔

سوال پوچھا اسی سے جاتا ہے کہ جس پہ اعتبار ہو اور جس کی بات پر اعتماد ہو۔ جس کے علم اور جس کی دیانت پر دل کو اطمینان ہو۔ سو، کارکنان، کارزارِ زندگی میں دعوت و تنظیم کی مشکلات  برداشت کرتے ہوئے، جب بھی کوئی اُلجھن یا خلش دل میں پاتے تو مولانا محترم کی مجالس میں پہنچ جاتے یا خط کی صورت میں ذہن کی مشکلات، دل کے وسوسے اور راہوں کے کانٹے مولانا کے سامنے بلاجھجک ڈھیر کر دیتے۔مولانا مودودی کمالِ شفقت، حددرجہ محبت اور نہایت توجہ سے سوالات سنتے، بلکہ سوالات پوچھنے کی حوصلہ افزائی کرتے اور پھر نہایت نرمی سے جواب عطا فرماتے۔ یہاں ان کی مجالس میں، کارکنوں کے سوالات، مولاناؒ کے جوابات اور کچھ تقریروں کے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں، جن میں رہنمائی کے نقوش روشن ہیں۔

دسمبر ۱۹۷۰ء میں پہلے عام انتخابات میں جماعت اسلامی پاکستان کے نامزد اُمیدواروں کو ناکافی ووٹ ملے۔ اس صورتِ حال نے کارکنوں کے ذہنوں میں چند در چند اُلجھنیں پیدا کیں۔ متعدد نشستوں میں کارکنوں کی جانب سے اُٹھائے جانے والے حسب ذیل سوالات کی روشنی میں دیکھا، سمجھا اور راہِ عمل کے لیے زادِ راہ بنایا جاسکتا ہے:


  •    ۱۰ جنوری ۱۹۷۱ء کو لاہور میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے، مولانا ؒنے فرمایا:

انتخابات میں کامیابی کے لیے ہم ناجائز تدابیر کبھی اختیار نہیں کریں گے، خواہ ایک صدی تک کامیابی نہ ہو۔ ہم صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے سے ہی کام کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس قوم کی قسمت میں ایک صحیح عادلانہ نظام کا قیام ہے تو اللہ تعالیٰ اسی طریقے سے ہمیں کامیابی عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر خدانخواستہ اس کی قسمت میں دھوکے ہی کھانا لکھا ہے، تو ہم وہ لوگ نہیں بننا چاہتے، جو اس کو دھوکا دینے والے ہوں۔ ہم اس کو بچانے والے تو بننا چاہتے ہیں، لیکن اس کو ٹھوکریں کھلانے والے نہیں بن سکتے۔

اس لیے محض انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر ہم جماعت اسلامی کی ایسی توسیع کرنے،اور اسے اس طرح کی عوامی جماعت بنانے کی کوشش نہیں کرسکتے، جو ہمارے کارکن کا معیارِ اخلاق گرا دے، اوروہ عوام کی اصلاح کرنے کے بجائے صرف کسی نہ کسی طرح انھیں بہا کر اپنے ساتھ لے آنے کے قابل بن جائے۔

جماعت اسلامی صرف انتخابی جماعت نہیں ہے، نہ اس کی حیثیت اُن سیاسی پارٹیوں کی سی ہے، جو محض انتخابات کے لیے کام کرتی ہیں۔ اسے ایک پورے معاشرے کو ہرپہلو سے تیار کرنا ہے، اور یہ کام ایسا ہے، جسے سال کے بارہ مہینوں کے ۳۶۵ دن ہمہ وقت جاری رہنا ہے۔اس کے لیے بلاشبہہ ہمیں زیادہ سے زیادہ کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کارکن اس کے لیے درکار ہیں۔ مگر لازماً، وہ ایسے ہی کارکن ہونے چاہییں جو مخلص ہوں، بے لوث ہوں، اخلاقی لحاظ سے کھرے ہوں اور سیرت و کردار کی اتنی مضبوطی رکھتے ہوں کہ سخت نامساعد ماحول میں بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے مسلسل محنت کرتے چلے جائیں، خواہ دُور دُور تک انھیں کامیابی کے آثار نظر نہ آتے ہوں۔

  •     ۱۲فروری ۱۹۷۲ء کو لاہور میں مرکزی مجلس شوریٰ سے خطاب کے دوران فرمایا تھا:

جمہوریت کی بحالی ہو یا اسلامی نظام کا قیام، اس کے لیے ہم فساد کا راستہ کبھی اختیار نہیں کریں گے، کیونکہ وہ تباہی کا راستہ ہے، جس سے کچھ تعمیر نہیں ہوتی، تخریب ہوتی ہے۔ اس لیے فساد کا راستہ ہم اختیار نہیں کریں گے، بالکل آئینی اور قانونی طریقے سے، بالکل سلامت روی کے ساتھ اس ملک کے حالات کو درست کرنے کی جس حد تک کوشش کرسکتے ہیں، وہ کریں گے… جماعت اسلامی کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی شخص کو کسی سُستی اور تساہل و تغافل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ سُستی سے کام لیا تو اللہ کے ہاں پکڑے جائیں گے۔ پوچھا جائے گا کہ کیا عہد کرکے شامل ہوئے تھے، اور تمھارے سامنے پوری اُمت برباد ہورہی تھی، تم نے کیا کیا؟

 بہرحال، ہمیشہ ہنگامہ خیز پروگرام زیادہ عرصے تک نہیں چلا کرتے۔ جماعت کو جس بات کی تربیت دی جاتی رہی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ تعمیری کام کرے اور صبر کے ساتھ کرے۔ جماعت اسلامی ہنگامے برپا کرنے کے لیے نہیں قائم کی گئی تھی۔ اگر ہنگامی زندگی کا آپ لوگوں کو کوئی چسکا پڑگیا ہو تو اس کو اب دُور کیجیے۔ صبر کے ساتھ اپنی قوم کی اور اپنے ملک کی اصلاح کرنے کی فکر کیجیے۔

ہم اسلامی نظریۂ حیات پر ایمان رکھنے والی جماعت ہیں۔ یہ ایک جہانی اور عالمی جماعت ہے، یہ تمام نوعِ انسانی کی جماعت ہے۔اس نظریے کے لیے ہم کوشش کریں گے اور آخر وقت تک کوشش کریں گے۔ ہم میں سے ہر ایک آدمی اس کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ مت دیکھیے کہ میرے ساتھی کتنا کچھ اور کیا کر رہے ہیں۔ ہرایک آدمی یہ دیکھے کہ میں کیا کر رہا ہوں؟ اور میرا کیا فریضہ ہے؟ اگر کوئی دوسرا اپنا فرض انجام نہ دے رہا ہو، تب بھی آپ کو اپنا فرض انجام دینا ہے۔ کوئی دوسرا کوشش نہیں کر رہا ہے تو آپ کو کرنا ہوگا۔ اگر سارے کے سارے بیٹھ جائیں تو آپ کے اندر یہ عزم ہونا چاہیے کہ میں اکیلا ساری دُنیا کی اصلاح کے لیے لڑوں گا۔

انتخابی نتائج سے مایوسی پر

  • انتخابی نتائج کے بعد کچھ لوگ تحریک ِ اسلامی کے مستقبل سے مایوس نظر آتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جمہوریت کا ’طولانی راستہ‘ طے کرنے کے بجائے کوئی ایسا ’شارٹ کٹ‘ اختیار کیا جائے کہ ملک میں فوری طور پر اسلامی انقلاب برپا ہوجائے؟
    • ’شارٹ کٹ‘ [مختصر راستہ] اگر کوئی اختیار کرنا چاہے تو وہ جماعت اسلامی کو چھوڑ کر کوئی اور جماعت بنائے اور اپنے ’شارٹ کٹ‘ پر چل کر دیکھ لے۔جماعت اسلامی نادانی کے ساتھ ایسا کوئی کام نہیں کرسکتی۔ جس راستے پر ہم چل رہے ہیں اس میں کوئی ’شارٹ کٹ‘ نہیں ہے۔ یہ بہرحال ایک لمبا راستہ ہے، محنت طلب ہے اور جان مار کے کرنے کا کام ہے۔

خدا کا شکر ہے کہ ہم متوسّط تعلیم یافتہ طبقے کے خیالات کو بدلنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ اب ہمارے سامنے سب سے اہم مسئلہ عوام کے خیالات کی اصلاح ہے، جن کے اندر بڑے پیمانے پر جہالت پھیلی ہوئی ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اب پہلے سے زیادہ جان مار کے کوشش کرنا پڑے گی۔

  • اس موقعے پر ایک صاحب نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا کہ ’’عوام میں کام کرنے کے لیے اب جماعت اسلامی کو ’عوامی جماعت اسلامی‘ ہونا چاہیے‘‘۔
    • مولانا محترم نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

جتنی ’عوامی‘ جماعت اسلامی ہے، اتنی ہی رہے گی، اس سے زیادہ ’عوامی‘ نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ اسے عوامی جماعت اسلامی ہی بنانا چاہتے ہیں، تو پھر اسے جماعت اسلامی کا نام دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بہتر ہے کہ اسے مسلم لیگ کا نام دے دیجیے۔ یہ جماعت اسلامی کے نظم کا ہی نتیجہ ہے کہ اصلاحِ احوال کا کام ایک مؤثر طریقے سے ہورہاہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو آپ اس جماعت میں بھی وہی بھانت بھانت کی بولیاںسنتے، جو دوسری جماعتوں میں آپ سنا کرتے ہیں، اور آپ کو ایک ہی جماعت کا نام لے کر لوگ طرح طرح کے راستے پر چلتے ہوئے نظر آتے۔ آخر آپ نے مسلم لیگ کا حشر دیکھ لیا۔ اس میں سے عوامی لیگ نکلی اور پھر کئی لیگیں بن گئیں۔ اسی کے اندر سے ری پبلکن پارٹی اور نہ جانے کون سی پارٹیاں نکلیں۔ یہ سب اس کے عوامی پن ہی کا نتیجہ ہے۔

ہم جماعت اسلامی کو ہرگز اس طرح کی عوامی جماعت نہیں بنائیں گے۔ جماعت اسلامی جس مقصد کے لیے کام کر رہی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ صرف وہ لوگ اس کے اندر کام کریں، جو خوب سوچ سمجھ کر اسلام کو شعوری طور پر مانتے ہوں۔ اگر جماعت اسلامی کا دروازہ چوپٹ کھول دیا جائے گا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہرشخص مسلمان کے نام سے اس کے اندر آکھڑا ہوگا اور وہی کچھ کرے گا، جو دوسرے مسلمان دُنیا میں کر رہے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ جو شخص جماعت اسلامی میں شامل ہو، وہ شعوری مسلمان ہو۔ سوچ سمجھ کر ایمان لایا ہو اور پھر اس کے بعد وہ کسی نظم کے تحت کام کرے۔ اس جماعت میں جس شخص کو بھی کام کرنا ہے اسے Personal Ambitions [ذاتی جاہ طلبی] کو دل سے نکال دینا چاہیے۔ آدمی کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ وہ ذاتی مفاد اور اپنی شخصیت کا کبر، یہ ساری چیزیں قربان کردے، اور اپنے مقصد کے لیے ایک نظم کے تحت کام کرے۔ نظم کو خراب کرنے والی کسی قسم کی حرکت، درحقیقت اس جماعت کو خراب کرنے کا گناہ ہے۔ اگر نظم اور ضبط کے ساتھ ہم کام کریں گے، تو ان شاء اللہ، آخرکار حالات بدل جائیں گے، خواہ معاشرے میں کتنی ہی خرابیاں کیوں نہ پیدا ہوگئی ہوں۔[۲۳؍اگست ۱۹۷۲، لاہور]

امام مہدی کا انتظار؟

  • کیا ’اقامت ِ دین‘ ایک ایسا فریضہ ہے، جسے ہر زمانے اور ہرحال میں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور کیا قرآن و حدیث میں بھی کہیں یہ بات ملتی ہے کہ ظہورِ مہدی سے قبل اسلامی نظام قائم ہوسکے گا؟
    • قرآن میں تو خیر ظہورِ مہدی کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ احادیث میں اس کا ذکر ضرور آیا ہے، مگر وہ بھی بس اسی حد تک ہے کہ ’مہدی آئیں گے اور دُنیا کو، جو ظلم سے بھرچکی ہوگی، عدل سے بھر دیں گے‘۔ اس خوش خبری سے آخر یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ جب تک وہ نہ آئیں،اُس وقت تک دنیا ظلم سے بھرتی رہے اور ہم اس کا تماشا دیکھتے رہیں۔ شیاطین کے نظام قائم ہوتے رہیں اور اللہ کا دین قائم کرنے کے لیے ہم امام مہدی کی تشریف آوری کے انتظار میں بیٹھے رہیں۔

 یہ تعلیم نہ اللہ نے دی ہے، نہ اللہ کے رسولؐ نے دی ہے، اور قرآن و حدیث میں یہ بھی کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ امام مہدی کی آمدسے پہلے اللہ کا دین کبھی قائم نہ ہوسکے گا، یا اُسے قائم کرنے کی کوشش کا فریضہ مسلمانوں کے ذمّہ سے ساقط رہے گا۔ یہ بات ایک بشارت تو ضرور ہوسکتی ہے کہ آیندہ کسی زمانے میں کوئی ایسی عظیم شخصیت اُٹھے گی، جو تمام عالم میں اسلام کا جھنڈا بلند کردے گی، مگر یہ شخصیت کوئی حکمِ امتناعی نہیں ہوسکتی کہ ہم دُنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کچھ نہ کریں۔

رہا یہ سوال کہ اقامت ِ دین فرض ہے یا نہیں؟ تو کوئی ایسا شخص جو قرآن و حدیث کو جانتا ہے، اِس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سیّدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیاء علیہم السلام بھی بھیجے ہیں، اپنا دین قائم کرنے ہی کے لیے بھیجے ہیں۔ کوئی ایک نبی بھی لوگوں کو یہ سکھانے کے لیے نہیں بھیجا کہ وہ غیراللہ کا دین قائم کرنے والوں کے ماتحت بن کررہے۔ سورئہ شوریٰ دیکھیے، اس میں آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا ؑکا فرض یہ بیان کیا گیا ہے: اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۝۰ۭ  [الشورٰی ۴۲: ۱۳]، ’’اس دین کو قائم کرو او اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔

اسی طرح سورئہ توبہ، سورئہ فتح اور سورئہ صف میں دیکھیے۔ تین مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ  ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ [الفتح۴۸: ۲۸]’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ پورے دین پر اُسے غالب کردے‘‘۔ اب کون یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ کا مقصدِ وجود نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ بعثت سے مختلف بھی کچھ ہوسکتا ہے! [۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]

فوری اسلامی انقلاب؟

  • ایک طرف تو بے حیائی، غنڈہ گردی اور اسلام کے مخالف نظریات کے طوفان اُٹھ رہے ہیں، اور دوسری طرف ہم اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں، جب کہ مخالف قوتیں زیادہ قوی ہیں، تو اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟
    • یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ ’اسلامی انقلاب بہت جلد آرہا ہے‘۔ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی اور قیامِ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں مزید اضافہ بھی ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کے لیے ہمارے بس میں جو کچھ ہے وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل میں سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہوچکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اُٹھائیں۔ ہم نہیں کَہْ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی؟ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے اور دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔ لیکن ہمیں پختہ یقین ہے کہ اللہ کا دین غالب ہوکر رہے گا۔[۲۵ مئی ۱۹۷۵ء، لاہور]

سیاسی حکمت عملی کیا ہو؟

  • پاکستان کے موجودہ حالات میں عوام کے رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے تحریکِ اسلامی کی سیاسی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟
    • پاکستان کے موجودہ حالات میں عوام کے رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے ’’ہماری سیاسی پالیسی کیا ہونی چاہیے‘‘، مَیں اس کا ایک اصولی جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں، تاکہ ہمارے رفقا کسی غلط طرزِ فکر میں مبتلا نہ ہوجائیں۔

اس میں شک نہیں کہ ہم جس ملک میں، جس قوم میں، جس زمانے میں، اور جن حالات میں کام کر رہے ہیں، ہمیں کوئی پروگرام بناتے ہوئے اُن سب کو ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ لیکن ان تمام احوال میں ہماری اصولی دعوت لازماً ایک ہی رہے گی۔ ہمارا بنیادی مقصد بھی قطعاً ناقابلِ تغیر ہوگا ، اور اپنا عملی پروگرام بناتے ہوئے ہم ان چیزوں کو صرف اِس حیثیت سے ملحوظ رکھیں گے کہ اس ملک میں، اس زمانے کے حالات میں، ہم اپنی دعوت کو کس طریقے سے فروغ دیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس قوم کے اچھے رجحانات سے کس طرح فائدہ اُٹھائیں، اوراِس کے بُرے رجحانات کو کس طرح بدلیں کہ وہ ہمارے مقصد کی راہ میں کم از کم رکاوٹ تو نہ بن سکیں۔

اس نقطۂ نظر سے اِن چیزوں کو ملحوظ رکھنا تو عین تقاضائے حکمت ہے۔ لیکن اگر ہم زمان و مکان کے حالات اور لوگوں کے رجحانات کو دیکھ کر اپنی دعوت اور اپنے مقصد ہی پر نظرثانی کرنے بیٹھ جائیں، تو یہ سراسر گمراہی ہے جس کا خیال تک ہمارے ذہن میں نہ آنا چاہیے۔ طریقِ کار حالات کے لحاظ سے بدلا جاسکتا ہے۔حکمت ِعملی میں لوگوں کے اچھے یا بُرے رجحانات کے لحاظ سے تغیر کیا جاسکتا ہے۔ مگر اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور اس کی دعوت کے جو اصول مقرر کر دیے ہیں، ان میں ذرّہ برابر کوئی ردّ و بدل لوگوں کے رجحانات یا زمانے کے حالات کو دیکھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے، ہمیں ہرحال میں اُسی کو قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔یہ الگ بات ہے کہ ہم جس ملک میں کام کر رہے ہوں، اُس کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ہم اس مقصد کے لیے سعی و جہد کے ایک طریقے کو موزوں پاکر اختیار کرلیں اور دوسرے طریقے کو ناموزوں سمجھ کر ترک کر دیں۔

اِسی طرح جن چیزوں کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مٹانا چاہتے ہیں، ان کو مٹانا ہی ہماری کوششوں کا ہمیشہ مقصود رہے گا۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی استطاعت اور ملک کے حالات، اور عوام کی مزاجی کیفیات کو دیکھ کر یہ طے کریں کہ کن چیزوں کو مٹانے کی کوشش مقدّم اور کن کے مٹانے کی کوشش مؤخر رکھنی جانی چاہیے۔ نیز یہ کہ اس غرض کے لیے ہم کون سی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں اور کن تدابیر کا اختیار کرنا غیرممکن، غیرمفید، یا غیرمناسب ہے۔ [۲۰ مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]

بُرائی کی یلغار میں کام کیسے؟

  • اگر اخلاقی بدحالی اسی رفتار سے بڑھتی رہی اور زیادہ سے زیادہ لوگ بُرائیوں میں ملوث ہوگئے، تو کیا کچھ عرصے بعد لوگ اسلامی نظام سے خائف نہ ہونے لگیں گے؟
    • یہ بات میں بار بار کہتا رہا ہوں کہ ’معاشرے میں اخلاقی فساد اگر اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو وہ اسلامی نظام کے لیے غیر موزوں ہوجائے گا‘۔لیکن جو بات یہاں سمجھ لینے کی ہے، وہ یہ ہے کہ جس حد تک آپ کے بس میں ہو، آپ اصلاحِ خلق کی کوشش کرتے رہیں۔ جو چیز آپ کے بس میں نہیں ہے، آپ اس کے بارے میں جواب دہ بھی نہیں ہیں۔

اس وقت صورت یہ ہے کہ ملک کی دولت اور وسائل اور اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وہ پوری طرح بگاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ یہاں بھلائی نہ پھیلے اور بُرائی ہی پرورش پائے۔ اب ظاہر ہے کہ ہم، جن کے پاس نہ دولت ہے اور نہ وسائل و اختیارات، ان کو کیسے روک سکتے ہیں؟ جو ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم پر اس کی جواب دہی بھی نہیں ہے۔ ہم جواب دہ اس بات کے ہیں کہ جو چیز ہمارے امکان میں تھی، اس کے انجام دینے میں ہم نے کہاں تک اس کا حق ادا کیا ہے یا اس میں کمی کی ہے؟ چنانچہ، آپ اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور مسلسل اصلاحِ احوال اور اصلاحِ خلق کے لیے کام کرتے رہیں۔

یہ تو تھی اصولی بات! لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کے لیے اسلامی نظام کا گہوارہ بننا مقدر فرما دیا ہے۔ گذشتہ حالات کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہوکر رہے گا۔ ہندستان میں مسلمانوں کی ہرگز یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ پاکستان بنا سکیں۔ حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور معجزہ تھا کہ اس نے ہندستان کے ایک حصے کو پاکستان بنایا اور ایسی شکل میں بنایا، جو کسی اسکیم میں نہیں تھا۔ اسکیم تو یہ تھی کہ ملک تقسیم ہوگا اور ہندو اکثریت کے علاقے ہندستان میں اور مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے۔ نقلِ آبادی کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔اگر ایسی شکل ہی قائم رہتی تو یہاں اسلامی نظام کا نام بھی نہیں لیا جاسکتا تھا، مگر یہ اللہ کی مشیت تھی کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ہجرت کرنا پڑی اور اس طرح یہ علاقہ واضح مسلم اکثریت کا علاقہ بن گیا۔ گویا فسادات کے شر سے اللہ نے خیر کا یہ پہلو اسلامی نظام کے لیے مقدّرفرمایا اور اسلامی نظام کے امکانات واضح فرمائے۔

دوسرے یہ کہ آپ نے خود دیکھ لیا کہ یہاں جو بھی اسلامی نظام کی راہ میں مزاحم بنا ہے، وہ ذلیل و خوار ہوا ہے۔ نہ اس سے پہلے اسلامی نظام کے راستے میں رکاوٹ بننے والے زیادہ دیر تک ٹھیر سکے ہیں اور نہ ان شاء اللہ آیندہ ٹھیر سکیں گے۔ میرا دل اس پر پوری طرح مطمئن ہے اور میں یہ سوچ کر کبھی پریشان نہیں ہوتا کہ یہ لوگ جو اس قدر بگاڑ پیدا کر رہے ہیں تو شاید یہاں اسلامی نظام قائم نہ ہوسکے۔بہرحال، یہ صورتِ حال قوم کے لیے آزمایش کا درجہ رکھتی ہے خدا کرے کہ ہم اس آزمایش پر پورا اُتریں۔

پھر میرا مشاہدہ یہ ہے کہ جتنی کوششیں اس قوم کو بگاڑنے کے لیے ہورہی ہیں، ان کے تناسب سے لوگوں میں بُرائی نہیں پھیل رہی۔ اس قوم میں خیر اب بھی موجود ہے۔ اب جس حدتک خیر موجود ہے، آپ ا س سے استفادہ کریں اور اس کی حفاظت کریں۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ آج بھی جب آپ لوگوں کو خدا کے دین کی طرف بلانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو لوگ آپ کی بات سنتے ہیں۔ وہ آپ سے نفرت نہیں کرتے بلکہ غلط راستے پر چلنے والوں اور چلانے والوں کو ہی بُرا سمجھتے ہیں۔ اصل میں مسلمانوں کی قدریں نہیں بدلیں، ان کی عادتیں بگڑی ہوئی ہیں اور یہ مرض لاعلاج نہیں ہے۔[۲۷ جنوری، ۱۹۷۳ء، لاہور]

جمہوری طریقے پر ہی اصرار کیوں؟

  • موجودہ حالات میں، جب کہ جمہوریت کے نام پر تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کردی گئی ہے، ہرقسم کی آزادی سلب کرلی گئی ہے، اس میں جماعت اسلامی محض جمہوری طریقوں سے اسلامی نظام کیسے قائم کرسکے گی؟ کیا اس کے سوا اور کوئی طریقہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اختیار نہیں کیا جاسکتا؟
    • جن حالات کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، اُن کو دیکھ کر فی الواقع بکثرت لوگ اِس اُلجھن میں پڑگئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ’ایسے حالات میں غیرجمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے‘۔ یہ بجائے خود ہمارے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اِس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن ہم اس پوری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اور اُس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی، اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام،  جسے برپا کرنے کے لیے ہم اُٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہوسکتا، اوراگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جاسکے تو وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ ’غیرجمہوری طریقوں‘ کے مقابلے میں جب ’جمہوری طریقوں‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کرکے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائیدسے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔

اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنالینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہرحال میں صرف انتخابات ہی پر انحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی رائے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے تبدیلی کا آنا غیرممکن بنادیا گیا ہو، وہاں جباروں کو ہٹانے کے لیے رائے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہرشعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جباروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا، جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیرمقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیرجمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔

اس تشریح کے بعد آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونساجاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے، اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ ’انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے‘۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اورفسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔

لیکن، اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام و خواص کی ذہنیت، اندازِ فکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہوسکتے۔

یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی۔ بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کرکے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں۔ ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی Values (قدریں) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ ’جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے‘ اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا، جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔

شاید آپ میری یہ باتیں سن کرسوچنے لگیں گے کہ ’اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں‘۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں:

جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے برسوں میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہرشعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہرشعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر خیر کی دعوت قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوں کی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں۔ دوسرا کام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کرکے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔

پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے، اس سے بدرجہا زیادہ آیندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے، مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کیجیے۔ اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمت ِ خلق کی ہرممکن کوشش کیجیے۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے، اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔

رہا یہ سوال کہ ’جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کردی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیاجاسکتا ہے؟‘

اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا، جبروظلم کے مقابلے میں ہرطرح کی کڑیاں [مصائب و مشکلات کے سلسلے] جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ ’’جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں‘‘۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پا کی پیروی کررہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا، جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق،دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل،اورانسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کر رہے تھے۔ اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیزدرحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔

جب ایک معقول اور دل لگتی بات کو عمدہ اخلاق کے افراد لے کر،عام لوگوں کے سامنے کھڑے ہوں، اور سخت سے سخت ظلم و ستم سہنے کے باوجود اپنی بات ہرحالت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جائیں، تو لازمی طور پر اس کے تین نتائج رُونما ہوتے ہیں:

  •  ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس صورتِ حال میں بہت سے باہمت اور اُولوالعزم لوگ ہی اس دعوت کو علانیہ قبول کرتے ہیں اور وہ اس کے لیے ایسا قیمتی سرمایہ ثابت ہوتے ہیں، جو کسی دوسری صورت میں بہم نہیں پہنچ سکتا۔
  •  دوسرا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ ظالموں کی پیدا کردہ اِس خوفناک فضا میں بکثرت، بلکہ بے اندازہ لوگ اس دعوت کو دل میں مان لیتے ہیں، مگر آگے بڑھ کر اس میں شامل نہیں ہوتے۔ مخالف طاقت آخرکار اِس کا خود نقصان اُٹھاتی ہے۔ اسے قطعی اور حتمی شکست ہونے تک کبھی یہ پتا ہی نہیں چلنے پاتا کہ جس دعوت کو مٹادینے کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے، اس کے حامی کہاں کہاں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ اُس کی اپنی صفوں تک میں موجود ہوتے ہیں اور وہ اُن سے بے خبر رہتی ہے۔
  • تیسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اخلاقی برتری اور دعوت کی معقولیت و صداقت اپنی فطری طاقت سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کے دشمن اُس کے پیروئوں پر جتنا زیادہ ظلم کرتے ہیں، اُتنے ہی وہ ہرشریف النفس اور نیک طبع انسان کی نظر سے گرتے جاتے ہیں۔ اُس کے پیرو جتنی ہمت اور ثابت قدمی کے ساتھ ظلم برداشت کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنی حق پرستی سے بال برابر بھی نہیں ہٹتے، اُتنی ہی ان کی قدر و منزلت عام دیکھنے والوں ہی میں نہیں، بلکہ خود دشمنوں کی صفوں میں بھی بڑھتی چلی جاتی ہے، اور پھر جب فیصلہ کن مقابلوں کا وقت آتا ہے، تو قدم قدم پر اُن لوگوں کی ہمدردیاں طرح طرح سے کام آتی ہیں، جو دشمنوں کے جبر کی وجہ سے خاموش بیٹھے ہوئے تھے، مگر دل سے اِس دعوت کے حامی تھے، یہاں تک کہ آخرکار چند مٹھی بھر ہٹ دھرم دشمن ہی میدان میں رہ جاتے ہیں جن کا ساتھ دینے والا تو درکنار ان کے پیچھے رونے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔

ظلم و جَور کا ماحول جہاں بھی ہو، اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلند رکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رُونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے۔ آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔[۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]

پالیسی ساز کون؟

  • آیندہ عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی انتخابی پالیسی کیا ہونی چاہیے؟
    • اس سوال کا جواب مَیں آپ کو یہاں نہیں دے سکتا۔ اس کے متعلق اگر مجھے کچھ کہنا ہوگا تو امیرجماعت سے کہوں گا، یا جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ مجھ سے دریافت کرے گی تو اس کے سامنے بیان کروں گا، یا مجلس شوریٰ مجھ سے پوچھنا چاہے گی، تو اس کے اجلاس میں پیش کروں گا۔ میں ایک عام رُکنِ جماعت ہوں۔ نہ امیر جماعت ہوں، نہ مجلسِ عاملہ کا رُکن اور نہ مجلسِ شوریٰ کارُکن۔میرا یہ کام نہیں ہے کہ یہاں بیٹھ کر جماعت کی پالیسی طے کروں۔ پالیسی طے کرنا اُن لوگوں کا کام ہے، جو دستور کی رُو سے اس کے مجاز ہیں۔ کسی معاملے میں میری جو رائے بھی ہوگی، اُسے اُن تک پہنچا دوں گا۔ پھر یہ اُن کی صواب دید پر موقوف ہے کہ جو پالیسی چاہیں بنائیں۔
  • اس موقعے پر ایک صاحب نے کہا: ’’لیکن مولانا، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ سب کچھ ہیں‘‘۔
    • میں اِس تصور کی جڑ کاٹ دینا چاہتا ہوں۔ یہ جماعت ایک دستور اور ایک نظام پر قائم ہے۔ اس میں مجھ سمیت کوئی شخص بھی اپنی ذاتی حیثیت میں ’سب کچھ‘ نہیں ہوسکتا۔ جس روز جماعت کی تاسیس ہوئی تھی، اُسی روز میں نے یہ بات واضح کردی تھی کہ دعوت تو بلاشبہہ میں نے دی ہے، مگر یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ جو شخص داعی ہے، اُسی کو آپ سے آپ امیر جماعت بھی ہونا چاہیے۔ میرا کام آپ کو اقامت ِ دین کے لیے جمع کر دینا تھا، سو وہ میں نے کر دیا۔اب یہ طے کرنا آپ کا کام ہے کہ یہ ذمہ داری کس کے سپرد کریں۔

اُس وقت چونکہ ارکانِ جماعت نے امارت کا بار میرے اُوپر ہی رکھ دیا، اس لیے میں نے اُسے اُٹھا لیا۔ اب میری خرابی ٔ صحت نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ اِس ذمہ داری کا حق ادا کرسکوں، اس لیے میں نے ایمان داری کے ساتھ اپنے آپ کو اس سے سبک دوش کرا لیا ہے۔ اس کے بعد پھر وہی ذمہ داری میں اپنے سر کیسے لے لوں، جب کہ نظامِ جماعت کی رُو سے اب میں اس کا حامل نہیں رہا ہوں ؟ البتہ خادمِ جماعت ہونے کی حیثیت سے میرا جو فرض ہے، اُسے جب تک زندہ ہوں، ان شاء اللہ ادا کرتا رہوں گا۔[۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]

جمہوری راستہ بند ہوجائے تو پھر؟

  • [مولانا مودودی نے خود اپنے الفاظ میں سوال وضع کرتے ہوئے فرمایا:] ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’جب یہاں جمہوریت کو کبھی چلنے نہیں دیا گیا،اور جمہوری طریقوں سے صالح تغیر کا راستہ قریب قریب بند کر دیا گیا ہے، اور اگر یہاں کبھی انتخابات بھی ہوئے تو وہ انتہائی بے ایمانیوں اور بددیانیتوں کے ذریعے سے جیتے جاتے رہے ہیں، اور ایسے حالات بھی یہاں پیدا کردیے گئے ہیں کہ اگر مفروضے کے طور پر ہم انتخابات میں کبھی سو فی صدی ووٹ حاصل کربھی لیں، تو صندوقچیوں سے ووٹ ہمارے خلاف ہی برآمد ہوں گے، تو ایسی صورت میں جمہوری ذرائع سے اصلاحِ احوال کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟
    • یہ صورتِ حال فی الواقع یہاں موجود ہے، لیکن ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہمیں اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کرنی ہے۔ ہمیں اس غرض کے لیے سرتوڑ کوشش کرنی ہے کہ ہماری اَن تھک محنتوں کے نتیجے میں، انسانوں کا سیلاب اس طرح انتخابات کے مراکز پر اُمڈ آئے کہ اگر کوئی شخص بے ایمانی کرنا بھی چاہے ، تو وہ ایسا نہ کرسکے۔ انقلابی تحریکوں کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب لوگوں کے اندر ایسا عزمِ راسخ پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد پھر کوئی طاقت ان کے مطلوبہ نظام کو آنے سے نہیں روک سکتی۔ وہ ہر راستے سے آتا ہے اور ایسے ایسے راستوں سے آتا ہے، جن کو بند کرنے کا خیال بھی کسی کے دماغ میں نہیں آسکتا۔

اس لیے آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپ جس نظام کے لیے جدجہد کر رہے ہیں، وہ یہاں کیسے آئے گا؟ آپ کا اصل کام یہ ہے کہ اپنا فرض نہایت خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ ادا کرتے چلے جائیں۔ آپ کی واحد فکرمندی آپ کا وہ کام ہو، جسے آپ کو انجام دینا ہے۔ یہ کام آپ صرف اسی صورت میں انجام دے سکتے ہیں، جب کہ آپ کے اپنے اخلاق اس سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں، جو اس نظام کا تقاضا ہے۔

جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھیں گے تو لوگ دیکھیں گے کہ ہمیں یہ دعوت دینے والے خود کیسے ہیں؟ اگر آپ کے اخلاق اور سیرت و کردار میں کوئی خرابی ہوئی، یا اس کے اندر ایسے لوگ پائے گئے، جو مناصب کے خواہش مند اور ان کے لیے حریص ہوں، یا آپ کے اندر ایسے لوگ موجود ہوئے، جو کسی درجے میں بھی نظم کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں، تو اس صورت میں آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔

اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہدکرتے وقت آپ کو جن چیزوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا ہوگا، وہ یہ ہیں کہ آپ کے اخلاق نہایت بلند ہوں، آپ کی زندگی پوری طرح اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو، آپ کے اندر نظمِ جماعت کی اطاعت پائی جاتی ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ عوام الناس کے اندر پھیل کر، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہرلحظہ کوشاں ہوں۔ چاہے یہ کام آپ کو برسوں بھی کرنا پڑے، لیکن آپ لگن کے ساتھ اسے کرتے چلے جانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں، تو ان شاء اللہ کوئی طاقت اس ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی ملک بننے سے نہیں روک سکے گی۔[۳۱مارچ، ۱۹۷۴ء، لاہور]

حکومتی تشدد کے جواب میں طریق کار

  • اسلامی تحریکیں اس وقت جگہ جگہ حکومتوں کے جبروتشدد کی فضا میں سانس لے رہی ہیں۔ چنانچہ آپ کی نظر میں وہ کون سا مناسب ترین رویہ ہے، جو اسلامی تحریکوں کو ان حکومتوں کے بارے میں اختیار کرنا چاہیے؟
    • میرے نزدیک یہ طے کرنا ہر ملک کی اسلامی تحریک کے کارکنوں اور قائدین کا کام ہے کہ جس قسم کا ظلم و استبداد اُن پر مسلط ہے، اس کے مقابلے میں وہ کس طرح کام کریں؟ ہرملک میں اس کی صورتیں اور کیفیتیں اتنی مختلف ہیں کہ سب کے لیے کوئی ایک طریق عمل تجویز کرنا مشکل ہے۔

البتہ جو چیز مَیں ان کے لیے ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کو خفیہ تحریکات اور مسلح انقلاب کی کوششوں سے قطعی باز رہنا چاہیے، اور ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کرکے بھی علانیہ، پُرامن اعلائے کلمۃ الحق کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ خواہ اس کے نتیجے میں ان کو قیدوبند سے دوچار ہونا پڑے یا پھانسی کے تختے پر چڑھ جانے کی نوبت آجائے۔ [نومبر ۱۹۶۸، لندن]

مسلح مخالف عناصر کے جواب میں ردعمل

  • پاکستان کے مختلف حصوں میں بھی سوشلسٹ عناصر (اور علاقائی نسل پرست) خفیہ طریقے سے اپنے آپ کو منظم کر رہے ہیں، اور اپنے کارکنوں کو فوجی تربیت دے رہے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم بھی اسی طریقے سے اپنے آپ کو منظم کریں؟
    • ہمارا کام خفیہ تحریک چلانا نہیں بلکہ کھلم کھلا اپنے نظریے کو پھیلانا ہے۔ کمیونسٹ کھلے طریقے سے عوام میں کام نہیں کرسکتے۔ ان کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ خفیہ طریقوں سے کام کرتے ہیں، اور عوام کی مرضی کے خلاف ان پر مسلط ہوجاتے ہیں۔

کسی خفیہ تحریک کے ذریعے کوئی صالح انقلاب نہیں آسکتا، کیونکہ اس تحریک میں جو خرابیاں پرورش پاتی ہیں، ان کا کسی کو پتا نہیں چلنے پاتا، اور جب وہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے، تو یہ خرابیاں ایکا ایکی اُبھر کر پورے ملک کے لیے آزمایش کا سبب بن جاتی ہیں۔ اسی خفیہ تحریک کا نتیجہ تھا کہ اسٹالن جیسا ظالم آدمی اشتراکی روس میں برسرِ اقتدار آگیا، اور روس کے عوام نے ایک زار [یعنی پرانے روسی بادشاہ]سے چھٹکارا حاصل کیا تو دوسرے سرخ زار نےان کی گردن دبوچ لی۔

خفیہ تحریک اس طریقے سے چلتی ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ شبہہ بھی ہوجائے کہ وہ پارٹی کا وفادار نہیں ہے تو اسے بلاتکلف قتل کردیا جاتا ہے ، اور یہ قتل و غارت گری اس تحریک کا عام مزاج بن جاتا ہے۔

بہرکیف، یہ ایک بلا ہے، جو ہمارے ملک میں پرورش پارہی ہے۔ اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ ’ہم بھی ایک جوابی بلا بننے کی کوشش کریں‘۔ہمارا کام یہ ہے کہ کھلے بندوں لوگوں کو آنے والے خطرات سے آگاہ کریں۔ گائوں گائوں جاکر، ایک ایک کسان کو بتائیں کہ یہاں سوشلسٹ انقلاب آگیا تو ایک بیگھہ زمین بھی تمھارے پاس نہیں رہے گی۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسان یہ بات سمجھ جائیں تو کوئی کمیونسٹ بھی ان کے گائوں میں داخل نہیں ہونے پائے گا، اور یہ لوگ کمیونسٹوں کی وہ خبر لیں گے کہ ان کے حواس درست ہوجائیں گے۔

جہاں تک ہتھیار بند ہونے کا تعلق ہے، اگر آپ کو لائسنس کا ہتھیار مل سکتا ہو تو ضرور رکھیے، نشانہ بازی کی مشق بھی کیجیے، لیکن غیرقانونی اسلحہ نہ رکھیے۔ مدافعت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا کوئی اخلاقی، شرعی یا قانونی جرم نہیں ہے، بلکہ اس کی اجازت ہے۔ لیکن خفیہ طریقے سے کوئی مسلح انقلاب برپا کرنا، اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی خطرناک۔[۹نومبر ۱۹۶۹ء، لاہور]

پُرتشدد گروہ اور ان سے تعاون؟

  • آپ بار بار کہتے ہیں کہ اقتدار کی تبدیلی آئینی ذرائع سے ہونی چاہیے۔ لیکن گذشتہ انتخابات سے ثابت ہوگیا ہے کہ رائے عامہ کی واشگاف تائید کے باوجود پُرامن تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف تخریب پسندی اور توڑ پھوڑ میں ہلاکت ہے، تو پھر اس کا حل کیا ہے؟
    • آئینی طریقے سے حالات کی تبدیلی کا مفہوم اور ہے، اور کسی ملک کے آئین کی پابندی کرتے ہوئے حالات کو تبدیل کرنے کا مفہوم اور ہے۔ آئینی ذرائع سے نظام کی تبدیلی کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ آئینِ پاکستان (۱۹۶۲ء) کے مقرر کردہ طریقوں کے اندر رہ کر ہی کوششیں کی جائیں گی، بلکہ دُنیا بھر میں آئینی ذرائع سے جو مطلب لیا جاتا ہے، ان ذرائع کو اختیار کرکے تبدیلی کی جائے گی، اور یہ ذرائع موجودہ آئین کے مقرر کردہ طریقوں سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک توڑ پھوڑ کی کارروائیوں کا تعلق ہے، اس ملک میں ایک ایسا عنصر موجود ہے، جو ایسی کارروائیوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے اشتراکی آمریت قائم کرنا چاہتا ہے۔ تبدیلی کے لیے ان کا فلسفہ تو یہی ہے کہ ’بندوق کی نالی انقلاب کا سرچشمہ ہے‘۔ لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ توڑ پھوڑ اور تشدد کے ذریعے کوئی مستحکم اور پائے دار نظامِ حکومت قائم نہیں کیا جاسکتا۔ لاطینی امریکا اور افریقا کے اُن ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جہاں اس قسم کی کارروائیوں کے بعد انقلاب لائے گئے، اور پھر وہاں انقلاب در انقلاب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس لیے نہ ہم خود تشدد کا راستہ اختیار کریں گے، اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے۔

  • بعض عناصر ملک میں توڑ پھوڑ اور تشدد کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ کیا جمہوریت کی بحالی کے سلسلے میں ان سے کسی طرح کا اشتراکِ عمل کیا جاسکتا ہے؟
    • اس موقعے پر جو پہلی بات میں صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ پاکستان کسی سوشلزم یا مارکس ازم، برطانیہ ازم اور امریکا ازم کے لیے قائم نہیں کیا گیا تھا۔ یہ ملک صرف اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے، اس لیے یہاں صرف اسلامی نظام ہی آئے گا۔ کسی طاقت کی یہ جرأت نہیں کہ وہ یہاں اسلام کے علاوہ کوئی اور ازم نافذ کرے۔ جب تک ہم زندہ ہیں، ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔

دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس ملک میں اصلاح کے لیے اُٹھے ہیں، اسے خراب کرنے کے لیے نہیں۔ اللہ کے فضل سے تحریک ِ اسلامی ایک منظم تحریک ہے، اور وہ صرف ایسے عناصر سے مل کر کام کرے گی، جو مفسد اور غارت گر نہیں ہیں۔ تحریک ِ اسلامی نہ تو کسی تخریب کار گروہ سے تعاون کرے گی، اور نہ اسے یہاں کام کرنے دے گی۔[نومبر ۱۹۶۸ء، لندن]

آئینی ذرائع سے انقلاب کیسے ممکن؟

  • کیا موجودہ صورتِ حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہوگیا، کیونکہ جن لوگوں سے ہم کو سابقہ درپیش ہے، وہ خود غیر آئینی ذرائع استعمال کر رہے ہیں؟
    • فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں، تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے؟

بہت بُرا کیا گیا کہ غیرآئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے، اور بہت بُرا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیرآئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں:

ایک ’علانیہ‘ اور دوسری ’خفیہ‘۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں؟

علانیہ طور پر غیرآئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ بُرا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے، اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ہندستان میں تحریک ِ آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جاسکا۔

اگر خفیہ طریقے سے غیرآئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے، تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختارِ کُل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک انھی کی مرضی پرچلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہارِ بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسرِاقتدار آئیں گے، تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹاکر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں، تو خلقِ خدا کےلیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟

میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ،تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقِ کاربھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ ہم نے ہمیشہ اسی طریقے کو اپنایا ہے۔ پہلے چند سال میں ہمارے اُوپر مسلسل غیرقانونی حملے ہوتے رہے ہیں، مگر ان کے جواب میں ہم نے کبھی کوئی غیرقانونی ذریعہ اختیار نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ خود انھی کا منہ کالا ہوا کہ جنھوں نے غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی طریقے روا رکھے، مگر خدا کے فضل و کرم سے ہمارے اُوپر کوئی دھبّا ثابت نہ کرسکے۔ اِس چیز کا زبردست اخلاقی اثر مرتب ہوا۔ خود ان لوگوں کا ضمیر بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ غلط کام کر رہے ہیں۔

آپ سے میری درخواست یہ ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیرآئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔[۲۳؍اگست ۱۹۷۲ء، لاہور]


  •   ۳۱مارچ ۱۹۷۴ء کو منصورہ، لاہور میں اپنے سب سے پہلے خطاب میں مولانا  ؒ نے فرمایا:

جماعت اسلامی کا یہ موقف کیوں ہے، اور اسے اپنے اس موقف پر کیوں اصرار ہے کہ وہ جمہوری ذرائع ہی سے اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے، اور وہ غیر جمہوری ذرائع کے استعمال کی کیوں مخالف ہے؟ اس کو مَیں چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:

خدا کی قسم! اور مَیں قسم بہت کم کھایا کرتا ہوں کہ جماعت اسلامی نے یہ جو مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد اور توڑ پھوڑ کے ذریعے سے، کسی قسم کی دہشت پسندانہ تحریک کے ذریعے سے، اور کسی قسم کی خفیہ تحریک یا سازشوں کے ذریعے سے ملک میں انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ خالصتاً جمہوری ذرائع سے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے، یہ مسلک قطعاً کسی خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ ہرگز اس بناپر نہیں ہے کہ ہم کبھی کسی ابتلا کے وقت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ کَہْ سکیں کہ ’’ہم دہشت پسند نہیں ہیں، ہمارے اُوپر تشدد یا قانون شکنی کاالزام نہ لگایا جائے‘‘۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے۔

 اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیشِ نظر اسلامی انقلاب ہے، اور اسلامی انقلاب کسی خطۂ زمین میں اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ وہاں کے رہنے والے لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کر دیے جائیں۔ جب تک لوگوں کے افکار، اور ان کے اخلا ق و عادات میں تبدیلی نہ لائی جائے، اس وقت تک مضبوط بنیادوں پر کوئی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ اگر زبردستی، کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا سازشوں اور خفیہ ہتھکنڈوں کے ذریعے سے کوئی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو اس کو کبھی دوام اور ثبات نصیب نہیں ہوتا، اور بالآخر اسے کسی دوسرے انقلاب کے لیے جگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔ پھر اسی طرح اگر دھوکے بازیوں اور جھوٹ اور افترا کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت کر، یا کسی اور طریقے سے حکومت پر قبضہ کرکے کوئی سیاسی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے، تو چاہے وہ کتنی دیر تک قائم رہے، لیکن جب وہ اُکھڑتا ہے تو اس طرح اکھڑتا ہے، جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔ ہم اس طرح کے تجربے نہیں کرنا چاہتے۔

  •   ۱۰مئی ۱۹۶۳ء کو مکہ مکرمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے وصیت فرمائی:

اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے، اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔

ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اورافکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ،ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا، وہ ایسا پائے دار اور مستحکم ہوگا، جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر، مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رُونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔

  •    ۲۹؍اکتوبر ۱۹۷۳ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

جب ہم نے اس تحریک کا آغاز کیا تھا، تو ہمیں اندازہ اس سے بہت زیادہ سخت رکاوٹوں کا تھا۔ ہمیں یہ اندازہ تھا کہ ہمارا زمین پر جینا اور سانس لینا مشکل کردیا جائے گا۔ اُس وقت ہم نے اس تحریک کو شروع کیا تھا اس ارادے کے ساتھ، اور اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس ارادے کو تقویت عطا کرے، کہ جان جس کی دی ہوئی ہے، اس کی راہ میں چلی جائے تو کوئی پروا نہیں۔ ہم اپنی جگہ اس سے بہت بدتر حالات کے لیے تیار ہوکر اُٹھے، اور اللہ کا شکر ہے کہ جن بدتر حالات کا ہم نے اندازہ کیا تھا، ابھی تک وہ پیش نہیں آئے۔

اس لیے میں آپ سے صرف ایک بات کہوں گا کہ آپ یہ تدبیریں سوچنے کی فکر چھوڑ دیں کہ ان سماجی حالات میں اور ان پابندیوں میں کیسے کام کیا جائے؟ یہ فکر چھوڑ کر اپنے اس عزم کو تازہ کریں کہ اگر پہاڑ بھی ہمارے راستے میں آئے تو ہم اس کے اندر بھی سرنگ کھودیں گے۔ اس عزم کے ساتھ آپ اپنا کام کریں کہ جو طاقت بھی راستے میں حائل ہو، اس کے ہوتے ہوئے ہم اپنا کام کرکے رہیں گے۔

ضرورت باہر کے حالات سازگار ہونے کی نہیں ہے، ضرورت اندر کے عزم اور ایمان اور ارادے کے پختہ ہونے کی ہے۔ اگر وہ پختہ ہو تو باہر کے حالات خواہ کیسے ہی ہوں، آخرکار ان کے اندر سے آپ اپنا راستہ نکال ہی لیں گے۔

یہ بات اس سے پہلے بارہا کَہْ چکا ہوں، اور اب پھر کہتا ہوں کہ اسلام کا کام کرنے والوں کے لیے یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وہ بلاسوچے سمجھے، اندھادھند کام کریں۔ ان کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ حکمت کے ساتھ کام کریں، عقل سے کام لیں، اور عقل سے کام لے کر دیکھیں کہ جو رکاوٹیں ہیں وہ کس نوعیت کی ہیں؟ اس کے بعد یہ دیکھیں کہ ان رکاوٹوں کے اندر سے ہم اپنا راستہ کیسے نکال سکتے ہیں؟

  • مولانا مودودیؒ نے حالات کی سنگینی اور کارکنان کی پریشان فکری کا اندازہ لگا کر فرمایا:

اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا جو کچھ بھی کام ہے، اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ ہماری اپنی تنظیم مضبوط ہو۔ کیونکہ وہ مشینری، جس سے ہم نے کام لینا ہے، وہی اگر کمزور پڑگئی ہو، ڈھیلی ہوگئی ہو، اس کے کچھ پیچ نکل گئے ہوں یا کچھ پیچ ڈھیلے پڑگئے ہوں، تو ہم کام کس چیز سے لیں گے؟

جس قسم کے ہنگامی کام ہم کو کرنے پڑے، ان سے یہ بات صاف طور پر محسوس ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اندر سے کمزور پڑگئی ہے۔ اس لیے دوسرے تمام کاموں سے پہلے آپ کو اپنی تنظیم مضبوط کرلینی چاہیے۔ اب تک جو مشکلات آپ کو پیش آچکی ہیں، اس سے کہیں زیادہ مشکلات آگے چل کر پیش آسکتی ہیں۔ اس لیے اب آپ کو یہ کوشش کرنی ہے کہ جماعت کی تنظیم زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو، اور جو ڈھیل پیدا ہوگئی ہے، وہ رفع ہو۔ اس غرض کے لیے اگر آپ کو کچھ لوگوں کو نکال دینا پڑے تو کوئی پروا نہ کریں۔ سختی کے ساتھ نظم کی پابندی کرائیں۔ جو نظم کی پابندی نہ کرے اس کو نکال باہر کریں۔ آپ نظم کی پابندیوں پر پورا زور دیں۔ جو احکام دیے جائیں، جو ضوابط مقرر کیے جائیں، ان کی پابندی کروایئے۔ اجتماعات کے اندر لوگوں کو باقاعدگی سے آنا چاہیے۔ اگرکوئی رکن اجتماعات میں مسلسل حاضر نہیں ہوتا تو ہرایسے شخص کو بلاتامل خارج کردیں، اِلا یہ کہ وہ توبہ کرے اور آیندہ نظم کی پابندی کا وعدہ کرے۔

 


مولانا مودودیl نے بڑے واضح الفاظ میں ان ہدایات کو زور دے کر ذہن نشین کیا:

  • ہماری تمام تر جدوجہد کا محور صرف اور صرف رضائے الٰہی کا حصول ہے۔
  • ہمیں معاشرے کے اندر دینی، اخلاقی اور تہذیبی سطح پر دعوت و تربیت دینا ہے۔
  •  ہماری جدوجہد آئینی حدود میں ہوگی، اور اسی سے عوام میں بیداری پیدا کی جائے گی۔
  •  ہماری کوششوں کا دائرہ رائے عامہ کی ہمواری اور جمہوری جدوجہد سے منسوب ہوگا۔
  • ہم تشدد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے اور خفیہ یا مسلح کارروائیوں کو کسی درجے میں اپنے ہاں جگہ نہیں دیں گے۔
  • ہماری ’عوامیت‘ اخلاق، معیار اور خداترسی پر مبنی ہوگی۔
  •  ہم نظم جماعت میں کوئی ڈھیل نہیں دیں گے اور نہ غیرمعیاری تنظیم بنیں گے۔
  • بہرصورت، ہم مذکورہ بالا اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ جسے ہماری اس پالیسی سے اتفاق نہ ہو، وہ خود الگ ہوجائے، یا پھر وہ نہیں سمجھتا تو اسے الگ کر دیا جائے۔ [سوال و جواب کتاب تصریحات سے اور تقریروںکے اقتباسات، ترجمان القرآن، آئین، ایشیا، ہم قدم سے لیے گئے ہیں]

عالمِ اسلام میں ایک شدید کش مکش برپا ہے۔ مغربی تہذیب کے تین سو سالہ اثرات کے نتیجے میں دُنیا کے ہرخطّے میں ایک ایسا طبقہ رُونما ہوگیا ہے، جو ذہنی طور پر مغرب سے شکست کھاچکا ہے اور عملی طور پر اپنا اور اپنے گروہ کا مفاد مغربی طرزِ زندگی کی تقلید میں محفوظ سمجھتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ طبقہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اثرواقتدار کا مقام رکھتا ہے اور اپنے باطل تصورات کو پوری سوسائٹی پر مسلط کرنے کی جارحانہ کوشش میں مصروف ہے۔

دوسری طرف، آج اسلامی دنیا کے بعض اہم مراکز میں تحریک ِ اسلامی، ایک منظم طریقے پر دعوتِ دین اور تعمیر کردار سے منسوب خدمت انجام دے رہی ہے۔ وہ ممالک جہاں ریاستی جبروزیادتی اور پابندیاں اسے باقاعدہ نظم کے ساتھ کام کا موقع نہیں دیتیں، وہاں بھی فکری اور ثقافتی میدانوں میں اسلام کے یہ داعی: آزادی، مال، مستقبل، آبرو اور جان کی قربانی دے کر سرگرمِ عمل ہیں۔

خوش قسمتی سے پاکستان میں تحریک اسلامی، ایک تنظیم کی صورت میں کھلے بندوں کام کر رہی ہے اور زندگی کے ہر شعبے کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعمیرنو کرنے میں مصروف ہے۔یہ ایک ایسی سعادت ہے، جس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا، اور جس کا حق ادا کرنا پوری ملّت پر فرض ہے۔

تحریک اسلامی کا وجود، جہاں بہت بڑی سعادت ہے، وہیں ایک عظیم آزمایش بھی ہے۔ جن لوگوں نے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کا فیصلہ کرلیا ہے، ان سے ہمیں کچھ نہیں کہنا۔ لیکن جو اس تحریک کو حق اور خیر کا داعی سمجھتے ہیں، ان سے ہم ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ آج کے حالات میں، جب کہ زندگی کے ہر میدان میں معرکۂ حق و باطل برپا ہے، اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں؟ کیا وہ عملاً صرف خاموش تماشائی بن کر تو نہیں رہ گئے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ محض دُور ہی سے ’داد‘ دینے اور ’اتفاق‘ کا اظہار کرنے پر قانع ہوگئے ہیں، اور عالم یہ ہے کہ:

ع  دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیروشر!

آج جو کش مکش بپا ہے، اس کے نتائج بڑے دُور رس ہوں گے۔ ہمارے اپنے ملک میں، عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیت کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسانی اجتماعی زندگی  اسلام کے اصولوںاور احکامات کی روشنی میں مرتب و منظم ہو۔ آج تک جو تجربات بھی انسان نے اجتماعی زندگی کو چلانے کے لیے کیے ہیں، وہ بڑے تلخ رہے ہیں۔ ان تلخیوں کے نتیجے میں اب انسان اس مقام پر آگیا ہے کہ اگر کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوتا تو خود انسانیت کا وجود خطرے میں ہے۔

ہم تاریخ کے گہرے مطالعے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل صرف اسلام کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر آج ہم اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو کل ہماری نسلیں اور پوری انسانیت سُکھ اور چین کی زندگی گزاریں گی، اور اگر ہم کوتاہی کرتے ہیں تو خدا اور خلق دونوں کے مجرم ہوں گے۔

خود احتسابی کے احساس کے تحت، تحریک اسلامی کے ذمہ داران اور کارکنوں سے، ارکان اور حامیان سے، اور پھر ان سے بڑھ کر خود اپنی ذات سے ہم یہ سوال کرتے ہیں:

  • کیا ہم شہادتِ حق اور دعوتِ اسلامی کا حق پوری ذمہ داری سے ادا کر رہے ہیں؟
  • اس قافلۂ حق نے جو کارنمایاں ادا کیا ہے، اُس میں خود انفرادی طور پر ہمارا حصہ کتنا ہے؟
  • کیا ہم نے اپنے گھر، خاندان، برادری، گلی محلّے، گائوں اور شہر میں اس دعوتِ حق کو پھیلانے اور منظم کرنے کے لیے واقعی جان گھلائی ہے؟
  • کیا ہمیں اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ آج کا کفر، سیکولرزم کے نام پر ماضی میں کفر کی مختلف شکلوں کے برعکس کہیں زیادہ خوش نما رُوپ میں اور بے چہرہ بن کر ہماری دینی، فکری، انفرادی، اخلاقی اور عملی زندگی کے ہرموڑ پر جاہلیت کا پیغام اور پھندا لیے کھڑا ہے؟
  • کیا اس کش مکش کی وسعت، گرفت، گہرائی اور اثرپذیری کا واقعی ہمیں احساس ہے؟
  • کیا ہم نے اپنی ہمت اور صلاحیت کے مطابق پیش نظر چیلنج کا جواب دینے کے لیے علمی و فکری سطح پر، پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ تیاری کی ہے اور تیاری کر رہے ہیں؟
  • کیا ہم معاشرے کے معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور عملی مسائل و معاملات میں اسلام اور کفر و جاہلیت کے تضادات کو سمجھنے کا شعور پروان چڑھانے کے لیے کوشاں ہیں؟
  • کیا ہم دینِ اسلام کے بنیادی احکامات پر عمل کرنے میں، معاشرے میں کردار کی بلندی کی جانب گامزن، ظلم و زیادتی کے بالمقابل برملا اور ثابت قدمی سے کھڑے ہونے کے تاثر کو حقیقی اور منفرد شان دینے میں کامیاب ہیں؟
  • کیا ہماری معاشی زندگی اور منصبی ذمہ داریاں، واقعی اللہ اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احساسِ بندگی اور اجتماعی فلاح کے لیے عطا کردہ رہنمائی اور ہدایت کے تحت استوار ہیں؟
  • کیا ہمارا دل، مسلم اُمت کی تکلیفوں پر تڑپتا اور حق کے داعیوں کی تکالیف پر لرزتا ہے، یا  ہم ان اُمور سے لاتعلق ہیں؟
  • کیا تحریک کے نمایاں افراد اور متحرک کارکنان، روز مرہ زندگی میں درپیش سوالوں کا  شافی اور متوازن جواب دینے کے لیے دلیل اور علم کی قوت و صلاحیت پیدا کررہے ہیں؟
  • کیا تحریک کی صفوں میں نئی نسل کی قابلِ لحاظ تعداد شانہ بشانہ شامل ہو رہی ہے؟ اور انھیں تربیت اور ترقی کے مراحل سے منظم انداز میں گزارنے کے مواقع حاصل ہورہےہیں؟ کامیاب قیادت وہ ہے جو اپنی ذمہ داریاں مؤثر انداز میں ادا کرکے، ساتھ ہی ساتھ اپنی جگہ لینے والے تیار کرسکے، اورجو بارِ امانت ان کے ہاتھوں میں ہے، اسے نئی نسلوں کی طرف منتقل کرسکے۔ دیکھنا اور جائزہ لینا ہے کہ ہم اس ذمہ داری کا کتنا اہتمام کررہے ہیں؟

اگرواقعی ہمارا دل مطمئن ہے کہ شہادتِ حق کی ادائیگی، غلبۂ حق کی جدوجہد اور خدمت ِ انسانی کے کاموں میں اپنی قوت کی ہررمق جھونک دی ہے، تو اس کے لیے ربِّ کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر شکر بجا لانا چاہیے۔ اور اگر ہمارا ضمیر یہ چبھن محسوس کر رہا ہے کہ ہم اپنا حق ادا نہیں کر رہے ہیں تو ابھی وقت ہے۔ آیئے اور حق کے لیے اپنی جان، مال، قوت، صلاحیت اور وقت کی بازی لگا دیجیے۔ موقع سے فائدہ اُٹھایئے، قبل اس کے کہ موقعے سے محروم کر دیے جائیں:

 ع   کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صرفِ بہاراں ہوتے ہیں

ایک اچھی حکومت اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مخلص انتظامیہ، کسی قوم کے لیے قدرت کا قیمتی عطیہ ہوتی ہے۔ اچھی حکومت اسے کہتے ہیں جسے اپنے منصب اور منصبی ذمہ داریوں کا احساس ہو، جس میں قوم کو ساتھ لے کر چلنے اور قوم کے تمام طبقوں کی دست گیری کا احساس دامن گیر ہو۔یوں تو ہماری قومی زندگی بے شمار مسائل و مشکلات سے دوچار ہے، مگر یہاں ہم چندبنیادی اُمور کی طرف توجہ مبذول کرائیں گے، جن پر قرارواقعی توجہ دے کر قومی مشکلات کو کسی حد تک کم کرتے ہوئے درست سمت کی طرف سفر ممکن بنایا جاسکتا ہے:

معاشی بحران

  • سب سے پہلا مسئلہ ہماری قومی معاشی صورتِ حال کی ابتری کا ہے۔ بدقسمتی سے افراطِ زر پر قابو پانے کی اوّل تو کوئی بامعنی کوششیں دکھائی نہیں دیتیں، اگر کچھ کیا جاتا ہے تو وہ بھی پانی پر لکیر کھینچنے کی کوشش سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔

گذشتہ ماہ قومی پارلیمان میں ۲۰۲۱ء-۲۰۲۲ء کا سالانہ معاشی میزانیہ (بجٹ) پیش کیا گیا، لیکن جس انداز سے بجٹ پیش کرنے کی یہ مشق کی گئی اور خود پارلیمنٹ نے جس انداز سے بجٹ سیشن کو چلایا، واقعہ یہ ہے کہ اس نے صدمے اور شرمندگی کے احساس کو زیادہ گہرا کردیا۔ بجٹ قومی زندگی کی نہایت اہم دستاویز ہوتی ہے، جو محض حکومت کی کتاب نہیں ہوتی، بلکہ وہ پوری قوم کی زندگی کے نہایت اہم اُمور کو چلانے کا نقشۂ کار ہوتی ہے۔اسے پیش کرتے وقت اعداد و شمار میں صحت اور دیانت کو پیش نظر رکھنا حکومت کی ذمّہ داری ہے۔ قوم کو دھوکے میں رکھ کر کوئی کھیل کھیلنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

دوسری جانب حزبِ اختلاف کی ذمّہ داری ہے کہ وہ سارا سال جس انداز سے سیاسی جنگ میں حکومت کے حملے اور زیادتیاں برداشت کرتی اور ان کا جواب دیتی رہی ہے، اسے بجٹ سیشن کو اس جنگ سے الگ رکھ کر، غیرمتعلق چیزوں کے ساتھ اس سیشن کو ضائع نہیں کرنا چاہیے تھا، بلکہ نہایت دل سوزی سے حکومتی معاشی پالیسی اور معاشی احوال پر تعمیری تنقید و رہنمائی کا فریضہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ مگر گذشتہ کئی برسوں سے یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ سیشن شدید ہنگامہ آرائی اور الزام تراشی اور ذاتی حملوں کی نذر ہو جاتا ہے، اور حکومت جلد از جلد بجٹ منظور کرا لیتی ہے۔

موجودہ بجٹ کو پیش کرتے وقت حکومت کی جانب سے جس معمولی معاشی استحکام پر بڑے فخر کا اظہار کیا گیا ہے، اس کی بنیاد بہت کمزور ہے۔ اگر معاشی استحکام کے دیگر پہلو صحیح طریقے سے رُوبہ عمل نہیں آئیں گے، تو معاشی صورت حال مستحکم ہونے کے بجائے اور زیادہ خرابی کی طرف جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں تمام کوشش کے باوجود برآمدات (Exports) میں کمی اور درآمدات (Imports) میں اضافے نے بہتری کے امکانات کو مسلسل کمزور ہی رکھا ہے۔

بلاشبہہ، کورونا کے باعث دیگر ممالک کی پیداواری صلاحیت متاثر ہونے سے پاکستان کو ٹیکسٹائل کی صنعت میں خاطر خواہ سہارا ملاہے، مگر اس معاشی بہتری کی بنیاد بالکل عارضی ہے۔ چونکہ اس کے پس منظر میں مضبوط معاشی ، فلاحی، فنی اور پیداواری سہارا موجود نہیں، اس لیے یہ علامتی ترقی کسی بھی وقت انہدام سے دوچار ہوسکتی ہے۔ کپاس کی فصل میں خطرناک حد تک کمی نے کپڑے کی تجارت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود، ایک ڈیڑھ درجن سیاسی اور معاشی اجارہ داروں پر مشتمل ’شوگر مافیا‘ نے کپاس کی پیداوار کے علاقے میں گنے کی کاشت سے، ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور اس سے حاصل ہونے والے زرِمبادلہ کے امکانات کو مسدود کرکے رکھ دیا ہے۔ گویا کہ سپریم کورٹ بے اثر اور سیاسی و معاشی سیٹھ، ناجائز معاشی فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

موجودہ حکومت کا یہ رویہ ا ب ایک ضدّی بچے کی سی صورت اختیار کرچکا ہے کہ موجودہ صورتِ حال پر بات کرنے کے بجائے سارا وقت رونے دھونے پر صرف کرتا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کو تمام مسائل کا سبب اور ذمّہ دار قرار دینے کا وقت گزر چکا ہے۔ اُن حکومتوں کی بُری معاشی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے تین برس گزارنے کے بعد اب ذمّہ داری لینے اور بہتر  حکمت عملی پیش کرنے کا دور شروع ہونا چاہیے تھا۔ مگر اب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ قرضوں کے حصول میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے بلکہ ایئرپورٹ اور موٹرویز تک گروی رکھنے کی نوبت آگئی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کی مرضی اور حکم کے مطابق قومی معاشی زندگی کی ترجیحات طے کرنے کے کھیل نے ملک کی آزادی اور مستقبل کو گہرے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

ملک کی معاشی ترقی میں چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کے فروغ کے لیے مربوط اور مؤثر ٹکنالوجی کا فروغ،دیہی سطح پر زراعت کی ترقی کے لیے اقدامات، کاشت کاری میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے شعور کی بیداری ، کھادوں اور اچھے بارآور بیجوں (seeds)کی بروقت فراہمی اور سہولیات دینے سے زرعی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ عملاً صورتِ حال  یہ ہے کہ گھریلو اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں بے حد اضافے کی طرح زرعی آلات و ضروریات کی قیمتوں میں بھی سو فی صد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔

اسی طرح ایک متعین وقت مقرر کرکے کمیشن بنایا جائے، جو پاکستان میں زرعی تحقیق کے اداروں کی کارکردگی اور قومی ضروریات پر بے لاگ تحقیقات کرکے قوم کو بتائے کہ یہ ادارے قوم کو کیا دے رہے ہیں؟ یہاں یہ حوالہ شاید زراعت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مفید ہوگا کہ اسرائیل نامی چھوٹے رقبے کی ناجائز ریاست نے ریگستانی اور پتھریلی زمینوں کے باوجود زراعت، پھلوں اور پھولوں میں حیران کن تحقیق و ترقی کی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے پاس وسیع رقبے اور نہایت قیمتی آبی و پیداواری وسائل ہونے کے باوجود، آئے روز سبزیوں اور اناج کی پیداوار میں کمی کا سامنا رہتا ہے۔ اکثر خوردنی اشیا کی کمی کی شکایت پیدا ہوتی ہے، حالانکہ ہمیں یہ زرعی اشیا برآمد کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔ ان قومی، زرعی اور معدنی وسائل کا درست استعمال ہی ترقی سے ہم آہنگ مستقبل دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بے روزگاری کو کم کیا جاسکتا ہے اور خودانحصاری پر مبنی معاشی و سماجی ترقی کو استحکام بخشا جاسکتا ہے۔

ملک کی معاشی زندگی میں ایک نہایت خطرناک مرض ضمنی بجٹ پر بڑا انحصار کرنا ہے۔  اب تو بدقسمتی سے عملاً سال بھر میں دو تین بجٹ بنانے کا کلچر رواج پکڑ رہا ہے۔ یہ چیز شہریوں اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بُری طرح پامال کر رہی ہے، مگر افسوس کہ کوئی اس غیراخلاقی رویے اور چلن سے چھٹکارے کی فکر نہیں کر رہا۔

سود پر مبنی معیشت نے ریاست کو قول و فعل کے تضاد سے دوچار کررکھا ہے۔ اس ظالمانہ نظامِ معیشت سے فائدہ طاقت وَر طبقوں کو پہنچ رہا ہے اور نقصان کروڑوں ہم وطنوں کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ سود کے مسئلے پر گذشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کا رویہ بھی تذبذب اور سودی معیشت کے حق میں ہے۔ یہ پالیسی ناقابلِ برداشت ہے۔سود کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، نہ کہ عدالتوں میں معاملات اُلجھا کر اسے طول دینے کے حیلے تلاش کرنے کا رویہ اختیار کرنا۔

سیاسی انتشار

  • دوسرا بڑا ہی اہم مسئلہ سیاسی قیادت کا ہے۔ سیاسی قیادت میں حکمران جماعتیں اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں شامل ہیں، مگر افسوس کہ یہ دونوں سیاسی گروہ جس غیرذمّہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور کلام و بیان کی جس گراوٹ کا شکار ہیں،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے  تباہی کی جانب لڑھک رہا ہے۔ پارلیمنٹ، قوم کے ضمیر اور فکر کی آئینہ دار ہوتی ہے، لیکن سچ بات ہے کہ ۲۰۰۸ء سے جمہوری عمل کی بحالی کے بعد، پارلیمان اپنی بلوغت اور وقار میں ترقی کی منازل طے کرنے کے بجائے ہرسال تنزلی کے اُلٹے سفر پر بھاگتی نظر آتی ہے۔قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے اور آرڈی ننس نافذ کرنے کی دھونس عروج پر ہے۔

 قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حزبِ اقتدار کا غیردانش مندانہ بلکہ کلامی فسطائیت پر مبنی رویہ اور جواب میں اپوزیشن کے رَدِّعمل پر مشتمل طریق کار، کسی اچھے مستقبل کی نوید نہیں دیتا۔ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے ارکان ایک دوسرے کے خلاف جو غیرمعیاری بلکہ گندی زبان استعمال کرنے کے عادی (adict) ہوچکے ہیں، اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہوگا کہ یہ رَدِّعمل ختم ہونے میں نہیں آئے گا۔ دوسرے یہ کہ خود عوام میں بدقسمتی سے پارلیمنٹ کا وقار جو پہلے ہی کم ہے، بالکل ختم ہوکر رہ جائے گا۔ تیسرے یہ کہ اس سسکتے جمہوری عمل کی زندگی کے خاتمے اور غیرجمہوری قوتوں کی پیش قدمی کا سبب بنے گا جس کے ذمّہ دار بنیادی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف ہوں گے۔

اخلاقی انحطاط

  • تیسرا اہم مسئلہ معاشرتی بگاڑ ہے، جو دھوکے، فریب، ملاوٹ اور بددیانتی میں پورے معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ وہ اب بداخلاقی اور اخلاقی بے راہ روی کی گہرائیوں میں اُترتا نظر آرہا ہے۔ بچوں سے جنسی زیادتی اور بالجبر زیادتی کے گھنائونے واقعات، ملک کے تمام حصوں میں بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ حیا اور شرم کا پردہ بالکل ہی چاک ہوا چاہتا ہے۔

اس بحرانی صورتِ حال میں سب سے بنیادی رہنمائی اور مؤثر عملی منصوبہ تو قرآن کریم، حدیث پاک اور سنت ِ نبوی سے ملتا ہے۔ کاش، ہمارے حاکم اور انتظامی افسران اس پر توجہ دیں اور اپنی ذمّہ داری ادا کریں۔ دوسرے یہ کہ اس ذمّہ داری کی ادائیگی کے لیے خود سیاسی اور دینی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ کو بھی اپنی ذمّہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ ہرفرد کو سمجھناچاہیے کہ یہ آگ محض دوسرے کے گھر کو نہیں جلائے گی، بلکہ آج یا کل، یہ خود ہمارے  گھر کو بھی جلاکر راکھ کردے گی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ان تین بنیادی اُمور پر سوچ بچار کے لیے قوم کے تمام بااثر طبقوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور عملی طور پر اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

مسلم اُمہ کے مسائل اور بحران در بحران کیفیت میں ہرمسلمان اُلجھا ہوا ہے۔ اس کا بڑا سبب جہاں سامراجی قوتوں کی عالمی سیاسی و معاشی جتھہ بندی ہے، وہیں ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود مسلم ممالک میں سیاسی،فکری اور دفاعی سطح پر مقتدر اور بااختیار قیادتوں کا معاملہ سوالیہ نشان ہے۔ اس کیفیت میں مایوسی کا شکار ہونا اور حالات کے بے رحم دھارے کے سامنے سپرڈال دینا، عظیم اور ناقابلِ تلافی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔ یہ بحران جس قدر شدید ہے، اور مسائل و مشکلات کی یلغار جتنی تباہ کن ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے، اور ان آفتوں کے دبائو سے نکلنے کے لیے، کہیں زیادہ بڑھ کر عقل، دانش، فہم و فراست کی ضرورت ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ خوں ریزی ہمارے سامنے ہے، جہاں ہردوڈھائی برس کے بعد مظلوم فلسطینی بھائیوں پر خون، آگ اور بارود کی بارش ہوتی ہے۔ دوسری جانب کشمیر کے مظلوموں کو کچلنااور آزادی کی اُمنگوں کا قتل عام بھی پوری دُنیا کے سامنے ہے۔ اسرائیل اور بھارت بنیادی طور پر نسل پرست، فسطائی اور وحشی (Rogue) ریاستیں ہیں۔ ان کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اُمت کے صاحب ِ ایمان اور صاحب ِ بصیرت افرادِ کار کو بھرپور طریقے سے حق کی گواہی دینا ہوگی۔ملّی یک جہتی کو زندہ کرنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں اور معاشروں میں بیداری کی تحریکیں برپا کرنے کی ضرورت ہوگی۔

مسئلہ کشمیر پر ، بالخصوص گذشتہ دو برسوں کے دوران جس انداز سے پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً متضاد بیانات کا سلسلہ جاری ہے، اس نے بہت تکلیف دہ صورتِ حال پیدا کردی ہے۔

فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور بھارت کے فوجی کمانڈروں کی سطح پر اچانک مذاکرات کا اعلان، اور پھر اپریل میں ۲۵، ۳۰ صحافیوں سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کی بظاہر ’آف دی ریکارڈ‘ (اور عملاً آن دی ریکارڈ) ملاقات میں بیان کردہ روایتوں اور حکایتوں نے گہری تشویش کا سامان فراہم کیا ہے۔ مذکورہ ملاقات میں جنرل صاحب کی طرف سے یہ کہا جانا کہ ’ہم بیک ڈور چینل (پس پردہ) مذاکرات کر رہے ہیں‘ اور یہ کہ ’ہمیں ماضی بھلاکر آگے بڑھنا ہے‘ دھماکا خیز خبر ہے۔ جب کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کہتے ہیں کہ ’کوئی بیک ڈور مذاکرات نہیں ہورہے‘۔ گویا کہ حکومت اور مسلح افواج ایک انداز سے نہیں سوچ رہے۔ یہ متضاد اور متحارب اطلاعات اگر سول حکومت اور پارلیمان کی جگ ہنسائی کا ذریعہ ہیں تو دوسری جانب کشمیری عوام اور قوم میں اضطراب پیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔یاد رہے کہ نہ ماضی سے کٹا حال ہوتا ہے اور نہ ماضی سے کٹ کر مستقبل کی صورت گری ہوسکتی ہے۔

اسی مناسبت سے ہم چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

  • اس وقت شروع کیے جانے والے مذاکرات کا جو پہلو کھل کر سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذکورہ مذاکرات پاکستان کی طرف سے کسی پیشگی شرط اور کسی روڈمیپ کے تعین کے بغیر ہونے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی انتظامی وحدت پر سفاکانہ یلغار اور بین الاقوامی سطح پر عالمی برادری کے طے شدہ اُمور کی دھجیاں بکھیرنے والے اقدامات کی واپسی کا مطالبہ کیے بغیر، ان مذاکرات کا حصہ بناجارہا ہے۔ یاد رہے کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات میں دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے نے جموں و کشمیر میں آبادی کے توازن و تناسب کو تلپٹ کرکے دوسرا اسرائیل بنانے کا راستہ کھول دیا ہے۔ پھر مقبوضہ کشمیر میں ۸ لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کی موجودگی، دُنیا بھر میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کا بدترین نقشہ پیش کرتی ہے۔ بہت واضح ہے کہ ایسے غیرمشروط، اور وقت کی قید سے آزاد مذاکرات سے پاکستان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ بلکہ اس صورت میں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بھارتی حکومت کے تمام غیرانسانی اور غیرقانونی اقدامات کو پاکستان کی جانب سے عملاً تحفظ دیا جارہا ہے، جس کا کوئی مثبت نتیجہ قطعاً ناممکن ہے۔
  • یہ تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ بھارت نے جب بھی پاکستان سے مذاکرات کے لیے کھڑکی کھولی تو اس کا مقصد کبھی سنجیدہ، بامعنی اور اخلاص پر مبنی مذاکرات کا انعقاد نہیں تھا۔ بین الاقوامی دبائو سے نکلنے اور اندرونِ ملک مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے کاک ٹیل مذاکرات کا کھیل اس سے پہلے بھی ڈیڑھ سو مرتبہ کھیلا جاچکا ہے۔ اس لیے بے فیض نشست و برخاست سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
  • ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر بامقصد بات چیت، مذاکرات اور مکالمے کے لیے تیار رہا ہے، اور آج بھی تیار ہے۔ مگر ان مذاکرات میں بھارت کی مخلصانہ شمولیت کا اندازہ لگانے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان، مذاکراتی عمل میں (مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، بیرون پاکستان و بھارت) کشمیری نمایندگان کو ساتھ لے کرشریک ہو۔ اگر بھارت مسئلے کے اصل فریق کو مذاکرات میں شامل کرنے پر ٹال مٹول سے کام لیتا ہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت مذاکرات کو محض وقت گزاری کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اس کا مقصد کشمیریوں اور پاکستان میں غلط فہمی پیدا کرنا ہے، ساتھ ہی وہ پاکستان کے اصولی موقف میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے ایسے بے معنی مذاکرات کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔
  • اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات کا ایجنڈا، صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کو رُوبہ عمل لانے کی تفصیلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ یہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے بنائے ہوئے کمیشن ہی کا تقاضا نہیں بلکہ خود بھارت نے بھی اسے تسلیم کیا ہے اور جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ اس عہد وپیمان میں پوری دنیا شریک ہے۔نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں بھی اسی حل کو واحد حل کی حیثیت سے طے کر دیا گیا ہے اور مسئلے کے منصفانہ، پایدار اور قانونی سلجھائو کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا فریم ورک نہیں ہوسکتا۔
  • کسی برادر مسلم یا غیرمسلم دوست ملک کے دبائو میں آکر اگر ہم اپنے اصولی موقف پر سمجھوتا کرتے ہوئے اور پسپائی اختیار کرنے کی راہ پر چل پڑے،اور خدانخواستہ اگر ’آؤٹ آف باکس‘ کوئی وعدہ کربیٹھے، تو یہ چیز، جدوجہد آزادیِ کشمیر کو برباد کرنے کا ذریعہ بنے گی، اور ایسا کرنے والوں کو پاکستانی اور کشمیری کبھی معاف نہیں کریں گے۔
  • کسی دوست ملک یا کسی طاقت کے دبائو میں آکر ثالثی کے پھندے کو قبول کرنا، کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستانیوں کی قربانیوںکو دریابرد کرنے کےمترادف ہوگا۔
  • اگرچہ موجودہ برسوں میں پاکستان کی معاشی حالت گوناگوں داخلی، خارجی اور انتظامی اسباب کے باعث تسلی بخش نہیں ہے، مگر اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی اخلاقی، قانونی، سیاسی اور بین الاقوامی پوزیشن بہت مستحکم ہے۔ اس لیے معاشی دبائو میں آکر اپنی اخلاقی اور قانونی پوزیشن کو قربان کرنے، اس پر سمجھوتا کرنے، دب کر بات کرنے اور موقف کو ضُعف پہنچانے سے ہرصورت میں بچنا چاہیے۔
  • اکتوبر ۲۰۲۰ء میں گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ہدایات دینا، مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت کے لیے سخت نقصان دہ تھا۔ اسی لیے ہم نے ایسے کسی عمل سے برأت کا اعلان کرنے پر زور دیا تھا اور جموں و کشمیر کی وحدت برقرار رکھنے کا اعادہ کیا تھا۔
  • بہت واضح الفاظ میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کے سامنے ہم یہ بات رکھیں گے کہ پاک بھارت مذاکرات، ہرصورت میں پاکستان کی منتخب حکومت اور دفترخارجہ کی ذمہ داری ہے، جسے مسلح افواج کے مشورے کی ضرورت ہرقدم پر رہے گی۔ لیکن خود افواجِ پاکستان کا ایسے بین الاقوامی مذاکرات کی ذمہ داری لینا، پاکستان، پاکستان کے موقف اور قومی اداروں کی ساکھ کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔
  • یہ بات ہمیں اس لیے کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سول حکومت کی موجودگی کے باوجود ۲۰۰۸ء سے لے کر اب تک پہلے جنرل پرویز کیانی ڈاکٹرائن، پھر جنرل راحیل شریف ڈاکٹرائن اور اب جنرل باجوہ ڈاکٹرائن پیش کرنے کا عمل اور اس کی تشہیر یا ذہن سازی ہرگز مناسب قدم نہیں ہے۔ مسلح افواجِ پاکستان کی خدمات، شجاعت اور لازوال قربانیوں کی قدر ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر نقش ہے۔ ہرادارے کی حدود کار، دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ معاہدۂ عمرانی کے مطابق واشگاف ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کرنے سے جہاں نظم و ضبط، فساد سے دوچار ہوتا ہے، وہیں پر قومی ساکھ کو صدمہ پہنچتا ہے، اور اس کی قیمت پوری قوم کی آیندہ نسلوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
  • ہمارے مقتدر اداروں اور میڈیا کو ایسے نیم دلانہ مذاکرات سے توقعات وابستہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ افسوس کہ مخصوص این جی اوز اور میڈیا پر کنٹرول رکھنے والی مخصوص لابی قوم کو اس اندھیری سرنگ میں دھکیلنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ ایسے عناصر کی جانب سے کی جانے والی بے جا داد و تحسین کی حقیقت کو سمجھیں اور ایسے دام ہم رنگ میں اُلجھنے سے بچیں۔
  • پارلیمنٹ کی ’کشمیر کمیٹی‘ کی تشکیل نو کرتے ہوئے کمیٹی کی قیادت ذمہ دار، متحرک اور مسئلہ کشمیر کا درد رکھنے والے فرد کے سپرد کی جائے۔ جو متعلقہ معاملات پر پوری لگن اور تندہی سے ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، سیاسی، سفارتی اور فکری قیادت کو ساتھ لے کر چلے۔ اس پلیٹ فارم کی تساہل پسندی کے نتیجے میں جو پہلے نقصان ہوچکا ہے، اس کا مداوا کرے۔

ہمیں مسئلہ کشمیرکے باب میں حکومت، حزبِ اختلاف، مسلح افواج اور میڈیا کے متعلقین کے اخلاص کے بارے میں شک نہیں۔ لیکن مخلص فرد بھی اگر درست چیز کو نامناسب انداز سے پیش کرے تو اس سے کئی بار ایسا نقصان پہنچتا ہے، کہ وہ دشمن کے حق میں بہت بڑا نفع بن جاتا ہے، اور پھر ہاتھ مَلنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے ہم: ’نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں‘۔

انسان کے مذہبی تصورات میں عبادت کا تصور سب سے پہلا اور اہم تصور ہے، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ مذہب کا بنیادی تصور عبادت ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک نوع انسانی کے جتنے مذاہب کا پتہ چلا ہے، عام اس سے کہ وہ انتہا درجے کی وحشی اقوام کے خرافات و اوہام ہوں، یا اعلیٰ درجے کی متمدن اقوام کے پاکیزہ معتقدات، ان میں سے ایک بھی عبادت کے تصور و تخیل سے خالی نہیں۔

علم الانسان اور آثار قدیمہ کی تلاش و جستجو کے سلسلے میں پرانی سے پرانی تہذیب کی حامل قوموں کے جو حالات معلوم ہوئے ہیں، وہ اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ گو وہ قومیں عقل و شعور کے بالکل ابتدائی درجے میں تھیں لیکن اس حالت میں بھی انھوں نے اپنی بساط بھر کسی نہ کسی کو ضرور معبود بنایا ہے، اور کوئی نہ کوئی طریق عبادت ضرور اختیار کیا ہے۔[۱]  قدیم قوموں کو جانے دیجیے۔ آج بھی بہت سی انسانی جماعتیں زمین کے مختلف گوشوں میں موجود ہیں، جو عقلی و ذہنی اعتبار سے قدیم ترین قوموں کی سطح پر ہیں، یا یوں کہیے کہ نوع انسانی کے بالکل ابتدائی دَور کا نقشہ اپنی زندگی میں پیش کر رہی ہیں۔ ان میں مشکل ہی سے کوئی ایسی جماعت دیکھی گئی ہے، جو معبود اور عبادت کے تصور سے کلیتاً خالی ہو۔[۲] پس، یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ انسان قدیم ترین وحشت و بداوت سے لے کر جدید ترین تہذیب و حضارت تک جتنے مدارج سے گزرا ہے، ان میں سے ہر درجے میں عبادت کا تصور اس کے ساتھ ساتھ رہا ہے، گو اس کے مظاہر و اشکال میں بے شمار تغیرات و اختلافات رونما ہوئے ہیں۔

عبادت ایک فطری جذبہ

غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ یہ خیال سارے بنی آدم پر حاوی ہے اور تمام زمانوں میں باوجود اختلاف احوال یکساں حاوی رہا ہے؟ کیا یہ بالارادہ اختیار کیا گیا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ساری نوع پر اس کا اس طرح حاوی ہونا غیر ممکن تھا۔ کیونکہ بالارادہ اختیار کی ہوئی چیزوں میں کبھی کامل اتفاق نہیں ہوسکتا۔ انسان کی اختیار کی ہوئی چیزوں میں سے ایک بھی ایسی نہ ملے گی، جس کے اندر ہر مرتبہ اور ہر دَور کی تمام انسانی جماعتیں یکساں مشترک ہوں، اور یہ کسی طرح متصور نہیں ہے کہ ہر زمانے کے تمام آدمیوں نے ایک عالم گیر کانفرنس کرکے باہم یہ ٹھیرالیا ہو کہ وہ کسی کی عبادت ضرور کریں گے، خواہ معبود مختلف اور طریقہ ہائے عبادت بے شمار ہوں۔

پھر جب یہ چیز اختیاری نہیں ہوسکتی تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ عبادت کا جذبہ انسان کے اندر ایک فطری جذبہ ہے۔[۳]  جس طرح انسان کو بھوک فطری طور پر لگتی ہے اور اس کے فرو کرنے کے لیے وہ غذا تلاش کرتا ہے، جس طرح اسے سردی اور گرمی فطری طور پر محسوس ہوتی ہے اور اس سے بچنے کے لیے وہ سایہ اور لباس ڈھونڈتا ہے، جس طرح ادائے مافی الضمیر کی خواہش اس میں فطری طور پر پیدا ہوتی ہے، اور اسے پورا کرنے کے لیے وہ الفاظ و اشارات بہم پہنچاتا ہے، بالکل اسی طرح عبادت کا جذبہ بھی انسان میں فطرتاً پیدا ہوتا ہے اور اس کی تسکین کے لیے وہ کسی معبود کی تلاش کرتا اور اس کی بندگی کرتا ہے۔

مگر جیسا کہ ہم بھوک اور سردی و گرمی کے احساس، اور ادائے مافی الضمیر کی خواہش کے معاملے میں دیکھتے ہیں، فطرت کا اثر زیادہ تر اس مجرد داعیہ کی حد تک رہتا ہے جو انسان کو غذا، سایہ، لباس اور وسیلۂ اظہار مافی الضمیر کی تلاش پر مجبور کرتا اور جسم کے ان اعضاء کو جو ان کاموں سے متعلق ہیں، حرکت دینے پر ابھارتا ہے۔ اور اسی حد تک تمام انسانوں میں اشتراک بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے آگے فطرت کا اثر کمزور اور خود انسان کا اپنا اختیار غالب ہو جاتا ہے اور یہیں سے وہ بے شمار اختلافات شروع ہوتے ہیں، جو غذا، مکان، لباس، زبان اور اشارات و علامات کی مختلف صورتوں اور ہئیتوں کے اعتبار سے ہر زمانے کی مختلف قوموں میں پائے گئے ہیں۔

قریب قریب یہی حال عبادت کے جذبے کا بھی ہے کہ وہ انسان کو بندگی و پرستش پر اُکسا کر چھوڑ دیتا ہے، اور اس کے بعد یہ انسان کے اپنے انتخاب پر ہے کہ اس جذبے کی تسکین کے لیے وہ کس کو معبود مانتا ہے اور اس کی عبادت کا کیا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اسی اختیار کی حد پر پہنچ کر معبودوں اور عبادت کے طریقوں میں وہ اختلاف شروع ہوتا ہے، جو انسان کی اختیار کی ہوئی تمام چیزوں میں نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں بھی فطرت کی رہنمائی انسان کا ساتھ بالکل نہیں چھوڑ دیتی، جس طرح غذا اور لباس وغیرہ فطری مطلوبات کے انتخاب میں نہیں چھوڑتی ہے۔ لیکن یہ رہنمائی اتنی دھندلی اور خفی ہوتی ہے کہ اس کا ادراک کرنے کے لیے نہایت لطیف و نازک شعور کی ضرورت ہے، جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔

آئیے، اب ہم سراغ لگائیں کہ اس فطری داعیہ کا سر رشتہ کہاں سے ملتا ہے؟ اس کشش کا مرکز کہاں ہے جو انسان کو عبادت کے لیے کھینچتی ہے؟ کون سی قوتیں ہیں جو اسے معبود کی تلاش اور اس کی عبادت پر ابھارتی ہیں؟ اور وہ کیا رہنمائی ہے جو اس تلاش میں ہم کو خود فطرت سے حاصل ہوتی ہے؟

اس کے لیے ہم کو سب سے پہلے خود عبادت کی حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ اس کے بغیر ان سوالات کا حل مشکل ہے۔

عبادت کی حقیقت

عبادت کا تصور دراصل ایک جامع تصور ہے، جو دو ذیلی تصورات کے امتزاج سے مکمل ہوتا ہے: ایک بندگی، دوسرے پرستش۔ بندگی کے معنی ہیں کسی بالاتر قوت کی بڑائی تسلیم کرکے اس کی فرمانبرداری و اطاعت کرنا۔ اور پرستش کے معنی ہیں کسی بالاتر ہستی کو پاک، مقدس اور بزرگ سمجھ کر اس کے آگے سرنیاز جھکا دینا اور اسے پوجنا۔ ان میں سے پہلا تصور عبادت کا ابتدائی اور بنیادی تصور ہے، اور دوسرا تصور انتہائی اور تکمیلی۔ پہلا زمین کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرا عمارت کی۔ اس لیے ہمیں اپنی تحقیق کی ابتدا پہلے تصور سے کرنی چاہیے۔

بندگی و اطاعت

بندگی یا فرماںبرداری و اطاعت ہمیشہ اس قوت کے مقابلے میں کی جاتی ہے، جو بندگی کرنے والے پر قہر و غلبہ اور قدرت و استیلاء رکھتی ہو، اور بندے یا مطیع میں اس کے حکم سے سرتابی کا یارا نہ ہو۔ اس کی محدود شکل تو وہ ہے، جو آقا اور نوکر کے درمیان ہم عموماً دیکھتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ وسیع تصور کے لیے سب سے زیادہ واضح مثال وہ بندگی ہے، جو رعایا اپنی حکومت کی کرتی ہے۔ حکومت کوئی مادی شے نہیں ہے، نہ ایک محسوس و مشاہد چیز ہے۔ ایک نظام و ضابطے کی بندش ہے جس کا غلبہ و استیلاء لاکھوں کروڑوں آدمیوں پر حاوی ہوتا ہے۔ رعایا اس کے قانون پر طوعاً و کرہاً چلتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں، کسان اپنے کھیتوں میں اور مسافر دُور دراز جنگلوں میں، جہاں بظاہر حکومت کا زور جتانے والی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی، اس کے قوانین کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس کے حدود و اختیار میں رہ کر جو شخص اس کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے اور زیادہ شدید نافرمانی کی صورت میں اس کے تمام وہ حقوق سلب ہو جاتے ہیں، جو رعیت ہونے کی حیثیت سے اس کو حاصل تھے۔ اس لحاظ سے جس قدر لوگ کسی حکومت کے حدود میں رہتے ہیں اور اس کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں، ان کے متعلق ہم کہا کرتے ہیں کہ ’وہ فلاں حکومت کی فرماںبرداری و اطاعت کر رہے ہیں‘۔ اگر ہم ان الفاظ کی جگہ مذہبی اصطلاح استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ ’وہ اس کی بندگی و عبادت کر رہے ہیں‘۔

اب اس تصور کو اور زیادہ وسیع کیجیے۔ پوری کائنات پر نظر ڈالیے:

 آپ دیکھیں گے کہ سارا عالم اور اس کا ایک ایک ذرّہ ایک زبردست نظام میں جکڑا ہوا ہے، اور ایک قانون ہے جس پر خاک کے ایک ذرے سے لے کر آفتاب عالمتاب تک ساری کائنات طوعاً و کرہاً عمل کر رہی ہے۔ کسی شے کی یہ مجال نہیں کہ اس قانون کے خلاف چل سکے۔ جو چیز اس سے ذرّہ برابر سرتابی کرتی ہے، وہ فساد اور فنا کی شکار ہو جاتی ہے۔ یہ زبردست قانون جو انسان، حیوان، درخت، پتھر، ہوا، پانی، اجسام ارضی اور اجرامِ فلکی سب پر یکساں حاوی ہے، ہماری زبان میں ’قانون فطرت‘ یا ’قانون قدرت‘ کہلاتا ہے۔

 اس کے ماتحت جو کام جس چیز کے سپرد کر دیا گیا ہے، وہ اس کے کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ہوائیں اس کے اشارے پر چلتی ہیں۔ بارش اس کے حکم سے ہوتی ہے۔ پانی اس کے فرمان سے بہتا ہے۔ سیارے اس کے ارشاد سے حرکت کرتے ہیں۔ غرض اس تمام کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسی قانون کے ماتحت ہو رہا ہے اور ہر ذرہ اسی کام میں لگا ہوا ہے، جس پر اس قانون نے اسے لگا دیا ہے۔ جس چیز کو ہم زندگی، بقا اور کَون کہتے ہیں وہ دراصل نتیجہ ہے اس قانون کی اطاعت کا، اور جس کو ہم موت، فنا اور فساد کہتے ہیں، وہ درحقیقت نتیجہ ہے اس قانون کی خلاف ورزی کا۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر شے جو زندہ اور باقی ہے، وہ اس قانون کی اطاعت کر رہی ہے اور کائنات عالم میں کوئی شے زندہ اور باقی نہیں رہ سکتی اگر اس کی اطاعت نہ کرے۔

لیکن جس طرح حکومت کی مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ قانون کی اطاعت دراصل قانون کی اطاعت نہیں بلکہ اس حکومت کی اطاعت ہے، جس نے اپنے قہر و غلبے سے اس قانون کو نافذ کیا ہے، اور حکومت کا نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے لا محالہ ایک حاکم، ایک مرکزی فرماںروا، ایک مقتدرِ اعلیٰ ہستی کا وجود ضروری ہے، بالکل اسی طرح قانون فطرت کی اطاعت بھی دراصل اس غالب و قاہر حکومت کی اطاعت ہے، جو اس قانون کو بنانے اور زور و قوت سے اس کو چلانے والی ہے، اور یہ حکومت ایک فرمانروا کے دست قدرت میں ہے، جس کے بغیر اتنا بڑا عالمگیر نظام ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چل سکتا۔

یہاں اگر ہم قانونی لفظ ’اطاعت‘ کو مذہبی اصطلاح ’عبادت‘ سے بدل دیں اور لفظ ’حاکم‘ کی جگہ ’اللہ‘ یا ’خدا‘ کا لفظ رکھ دیں، تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساری کائنات اور اس کی ہر ہر چیز اللہ کی عبادت کر رہی ہے، اور یہ ایسی عبادت ہے، جس پر ہر شے کے وجود و بقا کا انحصار ہے۔ کائنات کی کوئی شے اور مجموعی طور پر ساری کائنات، اللہ کی عبادت سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہوسکتی، اور اگر غافل ہو جائے تو ایک لمحے کے لیے بھی باقی نہیں رہ سکتی۔

قرآن مجید میں اس ’بندگی‘ کو کہیں ’عبادت‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، کہیں تسبیح و تقدیس سے، کہیں سجود سے، اور کہیں قنوت سے۔ چنانچہ جگہ جگہ اس مضمون کی آیات آتی ہیں:

  • وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ۝۵۶ (الذاریات ۵۱:۵۶) میں نے جن اور انسان کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔
  • وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَمَنْ عِنْدَہٗ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا يَسْتَحْسِرُوْنَ۝۱۹ۚ يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ لَا يَفْتُرُوْنَ۝۲۰ (انبیاء۲۱: ۱۹-۲۰) آسمانوں اور زمین میں جس قدر مخلوقات ہیں اور جو خدا کے پاس حاضر ہیں سب اسی کے ہیں اور اس کی عبادت سے سرتابی نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں۔ رات دن اس کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں اور کبھی اس سے کاہلی نہیں کرتے۔
  •  يُسَـبِّحُ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِـيْمِ  ۝۱ (الجمعہ ۶۲:۱) آسمانوں اور زمین میں جو چیز بھی ہے اللہ ہی کی تسبیح کر رہی ہے، اُس بادشاہ کی جو پاک، غالب اور صاحب ِحکمت ہے۔
  • اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ۝۰ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِيْحَہٗ۝۰ۭ …… وَلِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ وَاِلَى اللہِ الْمَصِيْرُ۝۴۲ (النور۲۴: ۴۱-۴۲)کیا تو نہیں دیکھتا کہ جس قدر مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے، اور جو پرندے پر پھیلائے اُڑ رہے ہیں سب اللہ ہی کی تسبیح کر رہے ہیں، سب اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتے ہیں … اور زمین و آسمان کی حکومت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور سب کو اسی کی طرف جانا ہے۔
  •  تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِيْحَہُمْ۝۰ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۴۴) ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب اسی کی تسبیح کر رہے ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد کے گیت نہ گاتی ہو مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔
  •  وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ ۝۲۶  (الروم۳۰:۲۶)آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ سب اسی کے حکم کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔
  • اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ۝۵۠ وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدٰنِ۝۶ (الرحمٰن ۵۵: ۵-۶)سورج اور چاند ایک حساب سے چکر لگا رہے ہیں، اور درخت اور تارے سجدے میں ہیں۔
  • کیا لوگوں نے خدا کی مخلوق میں سے کسی چیز کی طرف بھی نظر نہیں کی جن کے سائے دائیں اور بائیں جھکتے ہیں؟ گویا اللہ کے آگے سربسجود ہیں اور اظہار عجز کر رہے ہیں۔ اور جتنے جان دار اور ملائکہ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے اور اپنے رب سے جو بالاتر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو حکم دیا جاتا ہے وہی کرتے ہیں۔ (النحل۱۶:۴۸ -۵۰)
  •  کیا تو نہیں دیکھتا کہ جو مخلوق آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے، اور چاند اور سورج اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے نیک آدمی اور بہت سے وہ بھی جو اپنی نافرمانی کی وجہ سے مستحقِ عذاب ہو چکے ہیں، سب کے سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں؟ (الحج۲۲: ۱۸)
  • زمین اور آسمان میں جس قدر چیزیں ہیں سب طوعاً و کرہاً اللہ ہی کو سجدہ کر رہی ہیں۔  (الرعد۱۳:۱۵)

یہ عبادت، یہ سجود، یہ تسبیح، یہ قنوت، تمام جان دار اور بے جان، ذی شعور اور بے شعور چیزوں پر یکساں حاوی ہے، اور انسان بھی اس پر اسی طرح مجبور ہے، جس طرح مٹی کا ایک ذرہ، پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کا ایک تنکا۔ انسان خواہ خدا کا قائل ہو یا منکر، خدا کو سجدہ کرتا ہو یا پتھر کو، خدا کی پوجا کرتا ہو یا غیر خدا کی، جب وہ قانون فطرت پر چل رہا ہے اور اس قانون کے تحت ہی زندہ ہے تو لامحالہ وہ بغیر جانے بوجھے، بلا عمد و اختیار، طوعاً و کرہاً خدا ہی کی عبادت کر رہا ہے، اسی کے سامنے سربسجود ہے اور اسی کی تسبیح میں لگا ہوا ہے۔ اس کا چلنا پھرنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سب اسی کی عبادت ہے۔ چاہے وہ اپنے اختیار سے کسی اور کی پوجا کر رہا ہو اور اپنی زبان سے کسی اور کی بندگی و اطاعت کر رہا ہو، مگر اس کا رونگٹا رونگٹا اسی خدا کی عبادت میں مشغول ہے، جس نے اسے پیدا کیا ہے۔ اس کا خون اسی کی عبادت میں چکر لگا رہا ہے، اس کا قلب اسی کی عبادت میں متحرک ہے، اس کے اعضا اسی کی عبادت میں کام کر رہے ہیں، اور اس کی وہ زبان بھی، جس سے وہ خدا کو جھٹلاتا اور غیروں کی حمد و ثنا کرتا ہے دراصل اسی کی عبادت میں چل رہی ہے۔

بندگی کا صلہ

اس عبادت کا صلہ یا اجر خدا کی طرف سے کیا ملتا ہے؟ فیضانِ وجود ، رزق اور قوت بقا۔ جتنی چیزیں خدا کے قانون پر چلتی ہیں اور اس کی بندگی کرتی ہیں، وہ زندہ اور باقی رہتی ہیں اور انھیں وہ وسیلۂ بقا عطا کیا جاتا ہے، جسے ہم اپنی زبان میں ’رزق‘ کہتے ہیں۔ اور جو چیزیں اس کے قانون سے انحراف کرتی ہیں ان پر فساد مسلط ہوجاتا ہے، ان کا رزق بند ہو جاتا ہے، اور وہ فیضانِ وجود سے محروم ہو جاتی ہیں۔ یہ معاملہ کائنات کی ہر چیز کے ساتھ ہو رہا ہے اور اس میں شجر و حجر، حیوان و انسان، کا فرو شاکر کے درمیان کوئی امتیاز نہیں:

  • وَمَامِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُہَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا۝۰ۭ  (ھود۱۱:۶)کوئی چیز زمین پر چلنے والی ایسی نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ اللہ ہرایک کے ٹھکانے سے بھی واقف ہے اور اس کے سونپے جانے کی جگہ بھی جانتا ہے۔
  • يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ۝۰ۭ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللہِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۡۖ فَاَنّٰى تُـؤْفَكُوْنَ  ۝۳ (فاطر ۳۵:۳) لوگو اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو زمین اور آسمان سے تم کو رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر تم کدھربھٹکائے جارہے ہو؟
  • ہُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِہَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ۝۰ۭ )الملک ۶۷:۱۵)وہی ہے جس نے زمین کو تمھارے لیے مطیع و مسخر بنا دیا۔ پس تم اس کی پہنائیوں پر چلو اور پھر اس کا رزق کھائو۔
  • اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝۰ۭ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۝۶۴ (النمل ۲۷: ۶۴) کون ہے جو مخلوقات کو اوّل بار پیدا کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ اور کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ اور تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔
  • اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ فَوْقَہُمْ صٰۗفّٰتٍ وَّيَقْبِضْنَ۝۰ۭؔۘ مَا يُمْسِكُـہُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ۝۰ۭ اِنَّہٗ بِكُلِّ شَيْءٍؚبَصِيْرٌ۝۱۹  اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ ہُوَجُنْدٌ لَّكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ۝۰ۭ اِنِ الْكٰفِرُوْنَ اِلَّا فِيْ غُرُوْرٍ۝۲۰ۚ  اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ يَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَہٗ۝۰ۚ بَلْ لَّجُّوْا فِيْ عُتُوٍّ وَّنُفُوْرٍ۝۲۱(الملک ۶۷: ۱۹-۲۱) کیا یہ لوگ پرندوں کو نہیں دیکھتے جو ان کے اوپر پَر پھیلاتے اور سکیڑتے ہوئے اڑ رہے ہیں؟ رحمٰن کے سوا کوئی نہیں جو ان کو سنبھالے ہوئے ہو۔ وہ ہر چیز کی دیکھ بھال کرنے والا ہے۔ اور یہ رحمٰن کے سوا اور کون ہے جو تمھارا لشکر بن کر تمھاری مدد کرتا ہے؟ مگر کافر ہیں کہ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر اللہ اپنا رزق بند کر دے تو کون ہے جو تم کو رزق دے سکتا ہے؟ مگر کافر سرکشی اور سرتابی پر جمے ہوئے ہیں۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح انسان اس بندگی میں دوسری اشیا کے ساتھ مساوی ہے، اسی طرح اس بندگی کے اجر اور معاوضے میں بھی وہ ان کے ساتھ مساوی رکھا گیا ہے۔ انعام کی صورتوں کا فرق جو کچھ بھی ہے، دراصل استعداد اور حاجتوں کے فرق پر مبنی ہے۔ لیکن صورتوں سے قطع نظر کرکے اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایک درخت، ایک جانور، ایک چڑیا، ایک گھاس کی پتی کی احتیاج و استعداد کے مطابق اللہ اس کی دیکھ بھال، خبرگیری، امداد و اعانت، اور رزق رسانی کر رہا ہے، اسی طرح انسان کی احتیاج و استعداد کے مطابق اس پر بھی انعام فرماتا ہے۔

اس بارے میں انسان کو دوسری مخلوقات کے مقابلے میں اگر کوئی فضیلت ہے تو محض وہ صورتِ انعام کے اعتبار سے ہے نہ کہ حقیقت ِانعام کے اعتبار سے اور صورتِ انعام کا حال یہ ہے کہ وہ ہر شے کی طبیعت اور حاجت کے عین مناسب ہے۔ ایک چوہے پر جو انعام فرمایا گیا ہے، انعام کی وہی صورت اس کی فطرت اور ضرورت سے مناسبت رکھتی ہے۔ دوسری کوئی صورت جس کو ہم بہتر سمجھتے ہیں، اس کے لیے انعام نہیں سزا ہو جائے گی۔ ایک بڑے سے بڑا منعم انسان جو آرام اپنی پھولوں کی سیج پر محسوس کرتا ہے، وہی آرام ایک چھوٹی سے چھوٹی چڑیا اپنے گھاس پھونس کے گھونسلے میں محسوس کرتی ہے۔ پھولوں کی سیج، تنکوں کے گھونسلے پر لاکھ فخر کرے، مگر حقیقت میں گھونسلے والے کی استعداد کے مطابق اس کی احتیاج پوری کی گئی ہے۔ اس حیثیت سے دونوں پر خدا کا انعام یکساں ہے۔ پھر یہی معاملہ کافر و شاکر، مومن و مشرک کے ساتھ بھی یکساں ہے۔

 جو لوگ خدا کے منکر ہیں اور اس کی پرستش نہیں کرتے، جو اس کے ساتھ اس کی مخلوق کو شریک کرتے ہیں، جو شجر و حجر کو اس کا مدمقابل ٹھیراتے ہیں، ان پر بھی رزق اور فیضانِ وجود اور حفاظت و خبر گیری کا انعام اسی طرح ہوتا ہے، جس طرح پکے موحدوں اور خدا پرستوں پر ہوتا ہے۔ بلکہ اگر قانون فطرت کی پیروی یا بالفاظ دیگر ’فطری عبادت‘ میں ایک کافر ایک مومن سے بڑھا ہوا ہے، تو اس کی عبادت کا صلہ بھی کافر کو مومن سے بہتر صورت میں عطا ہوتا ہے، خواہ وہ حقیقت کی نگاہ میں متاعِ غرور ہی کیوں نہ ہو۔

جذبۂ عبادت کیوں پیدا ہوتا ہـے؟

اب یہ سوال بآسانی حل ہو جاتا ہے کہ انسان میں عبادت کا جذبہ فطری طور پر کیوں پیدا ہوتا ہے اور وہ کیوں اپنے معبود کو تلاش کرتا ہے؟

 جب ساری کائنات اور اس کی ہر چیز ایک غالب و قاہر فرماںروا کی بندگی کر رہی ہے، اور جب کہ خود انسان کا اپنا بھی ایک ایک رونگٹا اس کی عبادت میں لگاہوا ہے، وہ تمام عناصر جن سے انسان کا جسم مرکب ہے اس کے آگے سربسجود ہیں، انسانی جسم میں ان عناصر کی ترکیب اس کے فرمان سے ہوئی ہے، اور انسان کا وجود ہر آن اس کی بندگی ہی پر منحصر ہے، تو آپ سے آپ بندگی و عبودیت انسان کی سرشت میں داخل ہوگئی ہے۔ گو وہ اس صاحب ِحکومت کو نہیں دیکھتا جس کا وہ بندہ ہے، نہ دنیوی حکومتوں کی طرح اس خدائی حکومت کے عامل اور نمایندے اس کے سامنے آتے ہیں، مگر چونکہ وہ بندہ ہی پیدا ہوا ہے، اور بلا ارادہ ہر وقت بندگی کر رہا ہے اور اس کے مالک کی حکومت نے ہر طرف سے ___ اندر سے بھی اور باہر سے بھی___اس کو اور اس کے گرد و پیش کی تمام چیزوں کو جکڑ رکھا ہے، اس لیے فطری طور پر اس کے اندر نیاز مندی، نیایش و گرایش، پرستش و عبودیت کا ایک گہرا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اور اس کا دل بے اختیار کسی معبود کو تلاش کرتا ہے کہ اس کی حمد و ثنا کرے، اس سے اپنی حاجتوں میں مدد مانگے، اور ہر آفت سے اس کے دامن میں پناہ ڈھونڈے۔

یہی سرشت ہے جس نے ابتدائے آفرینش سے انسان کو تلاشِ معبود پر مجبور کیا ہے۔ اسی تحریک پر اس نے ہمیشہ پرستش کی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کی ہے اور یہی وہ عنصر ہے جس سے مذہب کی پیدایش ہوئی ہے۔

تلاشِ معبود میں فطرت کی رہنمائی

لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے، فطرت نے ہر معاملے میں انسان کے اندر ایک مجرد طلب، ایک سادہ خواہش، ایک خالص کشش پیدا کرکے اس کو چھوڑ دیا ہے کہ اپنے مطلوب کو خود تلاش کرے۔ گویا یوں سمجھیے کہ فطرت، انسان سے آنکھ مچولی کھیلتی ہے۔ ایک نامعلوم چیز کی طلب پر اس کو اُکساتی ہے اور پردے کے پیچھے چھپ جاتی ہے تاکہ وہ اپنی عقل پر زور دے کر اپنے حواس سے کام لے کر معلوم کرے کہ اس کے دل میں جس چیز کی لگن لگی ہوئی ہے، اس کی فطرت جو چیز مانگ رہی ہے، وہ کیا ہے اور کہاں ہے، اور کس طرح اس کو حاصل کیا جائے؟

 یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان کو مشکلات پیش آئی ہیں اور اس نے اپنی عقلی استعداد، اپنی قوتِ فکروتمیز کی رسائی اور اپنے ذوق و وجدان کی صلاحیت کے مطابق اپنے لیے وہ مختلف راستے نکالے ہیں جو آج نوع انسانی کے تمدن و معاشرے کی گوناگونی میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس تلاش و جستجو اور اختیار و انتخاب میں فطرت نے کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ مگر جس طرح وہ ہر ہر قدم پر حیوانات کی رہنمائی کرتی ہے، اس طرح انسان کی رہنمائی نہیں کرتی۔ انسان کو وہ نہایت لطیف اشاروں میں ہدایت دیتی ہے، نہایت خفیف روشنی دکھاتی ہے جس کا ادراک معمولی عقل و بصیرت والے لوگ نہیں کرسکتے۔ اسی وجہ سے اکثر ایسا ہوا ہے کہ انسان کا اختیارِ تمیزی صحیح راستے کی تلاش میں ناکام ہوا ،اور ہوائے نفس اس کو غلط راستوں پر بھٹکا لے گئی۔

مثال کے طور پر غذا کی خواہش پیدا کرنے سے فطرت کا منشا تو یہ تھا کہ انسان ایسا مواد اپنے جسم کو مہیا کرے، جس سے وہ زندہ رہ سکے اور تحلیل شدہ اجزا کا بدل اس کو ملتا رہے۔ مگر بہت سے لوگ اس خوردن برائے زیستن کی حقیقت کو نہ سمجھے۔ تلاش غذا پر ابھارنے کے لیے جو ذائقہ کی چاشنی فطرت نے اس کے کام و دہن میں لگا دی تھی، اس کو وہ اصل مقصود سمجھ بیٹھے اور ہوائے نفس ان کو زیستن برائے خوردن کی غلط فہمی میں مبتلا کرکے فطرت کے اصل منشا سے دُور ہٹا لے گئی۔ اسی طرح لباس اور مکان کی طلب دراصل موسمی اثرات سے جسم کو محفوظ رکھنے کے لیے پیدا کی گئی تھی۔ مگر ہوائے نفس نے اس کو بھڑک اور تفاخر اور اظہارِ شان و ترفع کا ذریعہ بنا لیا، اور انسان فطرت کے منشا سے تجاوز کرکے انواع و اقسام کے نفیس لباس اور عالی شان محل بنانے لگا، جو آخر کار خود اسی کے لیے مضرت رساں ثابت ہوئے۔

یہی حال ان تمام داعیاتِ فطرت کا ہوا ہے، جنھوں نے انسان میں مختلف چیزوں کی طلب پیدا کی، اور انسان نے فطرت کے منشا کو نہ سمجھ کر، یا بسا اوقات سمجھنے کے باوجود نظر انداز کرکے، اپنے اختیار سے اس طلب کو پورا کرنے کے لیے وہ مختلف ڈھنگ اور طریقے نکال لیے، جوفطرت کے اصل مقصد سے زائد اور بہت سے معاملات میں اس کے خلاف تھے۔ پھر یہی چیزیں اگلوں سے پچھلوں تک تمدن و تہذیب، رسم و رواج اور آداب و اطوار بن کر پہنچیں، جن کی گرفت نے بعد کی انسانی نسلوں کو ایسا جکڑا کہ فطرت کی رہنمائی کو سمجھنا تو درکنار، ان کے لیے اپنے اختیارِ تمیزی کو استعمال کرنے کی آزادی بھی باقی نہ رہی، اور اسلاف کے طریقوں نے مقدس قوانین بن کر ان کو اندھی تقلید کے رستے پر ڈال دیا۔ حالانکہ فطرت جس طرح پہلے انسان کو لطیف اشارے اور خفیف ہدایتیں دے رہی تھی، اسی طرح آج بھی دے رہی ہے اور ہمیشہ دیتی رہے گی، جنھیں عقل سلیم تھوڑے یا بہت اجتہاد سے ہر وقت سمجھ سکتی ہے۔

معبود کی طرف ہادیٔ فطرت کے اشارے

تلاشِ معبود کی فطری خواہش کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا ہے۔

جب انسان نے عبادت کے جذبے سے بے چین ہو کر اپنے لیے کسی معبود کو ڈھونڈنا شروع کیا، تو فطرت اپنے اسی لطیف انداز میں اس کو معبودِ حقیقی کے اَتے پتے دینے لگی کہ ’تیرا معبود وہ ہے جس نے تجھے پیدا کیا ہے، جو تجھ سے بالاتر ہے، جس کی قوت کے سامنے تو عاجز ہے، جو ہرچیز پر غالب ہے، جو تجھے اور ہر جان دار کو روزی دیتا ہے، جو اپنے حُسن و جمال اور خوبی و رعنائی کی بنا پر ہر طرح تیری مدح و ستایش کا مستحق ہے، جس کا نور آفتاب و ماہتاب اور ستاروں کو روشنی دیتا ہے، جس کا جمال اپنے جلووں سے آب و گل کی مورتوں کو یہ جو بن اور یہ نکھار اور یہ دل فریب حُسن بخشتا ہے، جس کا جلال پانی کی موج، ہوا کے طوفان، زمین کی لرزش، پہاڑ کی سربلندی، شیر کی درندگی اور سانپ کی گزیدگی میں اپنی شوکت کا اظہار کرتا ہے، جس کی ربوبیت ماں کے سینے میں محبت و شفقت بن کر، گائے کے تھن میں دودھ بن کر، پتھر کے کلیجے میں پانی بن کر ظہور کرتی ہے‘۔

 یہ لطیف اشارے ہر زمانے میں مختلف سمجھ بوجھ کے لوگوں کو دیئے گئے، اور ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق اتوں پتوں سے اس پہیلی کو بوجھنے کی کوشش کی۔ جب انسان اپنی ابتدائی فطری حالت (State of Nature) میں تھا تو وہ ان اشاروں کو صاف سمجھتا تھا اور اس ایک ہی معبود کے آگے جھکتا تھا، جس کی طرف یہ اشارے ہورہے تھے۔ مگر جب وہ اس حالت سے آگے بڑھا اور استدلالی فکر کی راہ پر چلنے لگا تو اس کی سرگردانیوں کا آغاز ہوگیا۔

انسان کی سرگردانیاں

کسی نے ان صفات کے معبود کو زمین پر تلاش کیا اور پہاڑوں، دریائوں، درختوں اور نفع و ضرر پہنچانے والے جانوروں پر فریفتہ ہوگیا، صنفی اعضا کو پوجنے لگا، آگ کے سامنے دھونی رما بیٹھا، ہوا کے آگے سر بسجود ہوا، دھرتی ماتا کو عقیدت کا خراج دینے لگا۔ غرض اس کی نظر آس پاس ہی کے مناظر میں الجھ کر رہ گئی۔

کسی کی نظر اس سے آگے بڑھی۔ وہ ارضی معبودوں سے مطمئن نہ ہوا۔ اس نے دیکھا کہ یہ سب چیزیں تو اسی کی طرح کسی اور کی بندگی میں مبتلا ہیں، خود اپنے وجود و بقا کے لیے بھی غیر کی محتاج ہیں، ان کے پاس کیا رکھا ہے جس کے لیے ہم استعانت کا ہاتھ بڑھائیں اور عقیدت کی پیشانی جھکائیں۔ آخر اس نے زمین کو چھوڑ کر آسمان پر اپنے معبود کو تلاش کیا۔ سورج کو دیکھا، چاند پر نظر ڈالی، اجرامِ فلکیہ کی چمک دمک دیکھی اور کہا کہ ’یہ ہیں عبادت کے لائق‘۔

مگر جو اس سے زیادہ باریک بین تھا اس کو آسمان والوں کا حال بھی زمین والوں سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہ آیا۔ اس نے کہا یہ لاکھ بلند تر و برتر سہی، روشن اور روشن گر سہی۔ لیکن اپنے اختیار سے کیا کر سکتے ہیں؟ ایک مقرر قانون، ایک لگے بندھے نظام کے تحت گردش کیے جارہے ہیں۔ سورج کو بایں ہمہ عظمت و بزرگی آج تک یہ مجال نہ ہوئی کہ مشرق کے بجائے کسی روز مغرب سے نکل آتا یا اپنے مقام سے ایک ہی انچ سرک جاتا۔ چاند کبھی اس قابل نہ ہوا کہ جو دن اس کے ہلال بننے کا تھا، اس دن بدر بن کر نکلتا۔ اسی طرح کوئی اور سیارہ بھی اپنی مقرر گردش سے یک سرمُو تجاوز نہ کرسکا۔

اس بندگی، بے چارگی، کھلی ہوئی غلامی کو دیکھ کر اس جویائے معبود نے آسمان سے بھی منہ موڑ لیا، تمام مادی و جسمانی چیزوں کو ناقابل پرستش قرار دیا، اور اپنے معبود کی تلاش میں معانی مجردہ (Abstract Ideas)اور روحانیات کی طرف پیش قدمی کی۔ نور کا پروانہ بنا، دولت کی دیوی کا فریفتہ ہوا، محبت کے دیوتا پر ریجھا، حسن کی دیوی کا گرویدہ ہوا، قوت کے دیوتا کو سجدہ کیا، مدبرات عالم (World Forces )کے ہیکل تجویز کیے اور ان کی عبادت اختیار کی، ارواح اور عقول (logos) اور ملائکہ کو مسجود بنایا اور سمجھا کہ یہی عبادت کے لائق ہیں۔

اس طرح کائنات کی ہر وہ چیز جس کے اندر مختلف قابلیتوں کے لوگوں کو اپنی اپنی فکر کی رسائی اور نظر کی استعداد کے مطابق برتری، ربوبیت، نعمت بخشی، قدرتِ حُسن و جمال، قہر و جلال، اور خالقیت کی جھلک نظر آئی، اس کے آگے جھک گئے اور فطرت کے دیئے ہوئے سراغ پر جو شخص جتنی دُور جاسکا، گیا، اور ٹھیر گیا۔ مگر جو لوگ زیادہ صحیح وجدان، زیادہ لطیف ادراک اور زیادہ سلیم عقل رکھتے تھے، اور فطرت کے بتائے ہوئے نشانات پر ٹھیک ٹھیک سفر کر رہے تھے وہ ان اراضی و سماوی معبودوں اور روحانی و خیالی دیوتائوں میں سے ایک سے بھی مطمئن نہ ہوئے۔ بیچ کی منازل میں سے ایک پر بھی نہ ٹھیرے اور بڑھتے بڑھتے اس منزل پر پہنچ گئے، جہاں انھیں کائنات کی تمام مادی، روحانی، ذہنی، علوی اور سفلی قوتیں کسی اور کی گرفت میں جکڑی ہوئی، کسی اور کی بندگی میں مشغول، کسی اور کے آگے جھکی ہوئی، کسی اور کی تسبیح پڑھتی ہوئی نظر آگئیں۔ یہاں انھوں نے اپنے دل کے کانوں سے یہ آواز سنی:

  لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ  ۝۲۵   (انبیاء ۲۱:۲۵) میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم میری ہی عبادت کرو۔

یہ اسی معبود کی آواز تھی جس کی تلاش میں وہ چلے تھے۔ طالب کو قریب پاکر مطلوب خود پکار اٹھا۔ اس نے آپ ہی آگے بڑھ کر اپنا پتہ بتا دیا۔ یہاں پہنچ کر سفر ختم ہوگیا، منزل مقصود مل گئی، اور ڈھونڈنے والے مطمئن ہوگئے۔[۴]

یہ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس آخری ہدایت کو پانے کے بعد بھی کوئی مزید تلاش و جستجو کے لیے بے چین نہ ہوا۔ بے چینی، بے قراری، بے اطمینانی جو کچھ بھی تھی بیچ کی منزلوں میں تھی۔ آخری منزل پر پہنچ کر ہر دل نے گواہی دی کہ جس کو ڈھونڈ رہے تھے وہ یہی ہے۔ اب کسی تلاش و جستجو کی حاجت نہیں:

اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ۝۲۸  (الرعد ۱۳:۲۸) خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔

انسان اپنے معبود کی تلاش میں جب تک خدائے واحد تک نہ پہنچا، بے چین رہا، غیر مطمئن رہا، اس کے دل میں تلاش کی بے کلی اور جستجو کی کھٹک برابر چٹکیاں لیتی رہی، مگر جب خدائے واحد کو اس نے پالیا تو اس کا دل مطمئن ہوگیا۔ پھر کبھی اس نے تلاش معبود کی بے چینی محسوس نہ کی۔

خدائے واحد ہی حقیقی معبود ہے

اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ تلاش معبود کا یہ سفر خدا کے سوا کسی غیر پر ختم نہیں ہوا اور خدا تک پہنچ کر ایسا ختم ہوا کہ پھر کسی اور کی جستجو دل میں پیدا ہی نہ ہوئی؟

غور کرنے سے اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان کو جو فطری جذبہ پرستش پر مجبور کرتا ہے، اس کا اصل مقصد خدائے واحد ہی کی پرستش ہے۔ جب تک وہ اپنے اس معبود حقیقی کو نہیں پہنچ جاتا، مطمئن نہیں ہوتا اور نہیں ہوسکتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ عقل و فکر کی نارسائی، یا تعصب اور ہٹ دھرمی، یا آباو اجداد کی اندھی تقلید بعض افراد کو یہ بے اطمینانی محسوس نہ ہونے دے۔

جیسا کہ ہم اوپر کہہ چکے ہیں، انسان کے اندر پرستش کا فطری جذبہ پیدا ہی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کے گرد و پیش کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کی بندگی میں مشغول ہے۔ ایسی حالت میں جب ایک ظلوم و جہول انسان خدا سے ناواقف ہو کر غیر خدا کی پرستش کے لیے جھکتا ہے، تو اس کے گرد و پیش کا کوئی عنصر، حتیٰ کہ خود اس کے اپنے جسم کا بھی کوئی جز اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ وہ جن پائوں سے اپنے خود ساختہ معبود کی طرف بڑھتا ہے، وہ خدا کی عبادت میں چلتے ہیں۔ جن ہاتھوں سے اس کے آگے نذر پیش کرتا ہے، وہ خدا کی بندگی میں حرکت کرتے ہیں۔ جس پیشانی سے اس کو سجدہ کرتا ہے وہ خدا کے سجدے میں جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ جس زبان سے اس کی بڑائی بیان کرتا ہے، وہ خدا کی تقدیس و تمجید میں مشغول ہوتی ہے۔

ایسی حالت میں اس کی یہ ساری پرستش، یہ تمام نیائش و گرائش ایک جھوٹ، ایک افترا، ایک بہتان، ایک صریح جعل ہوتی ہے، جس کے بطلان پر کائنات کا ہر ذرہ گواہی دیتا ہے، اور خود انسان کی فطرت اپنی لطیف وغیر محسوس آواز میں بار بار اسے تنبیہ کرتی ہے کہ یہ تو کس دھوکے میں پڑگیا ہے؟ کیا تجھے بندے کی بندگی، پرستار کی پرستش، فرماںبردار کی فرماںبرداری کرتے شرم نہیں آتی:

 اُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ  ط  (انبیاء۲۱:۶۷) تُف ہے تم پر اور تمھارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو۔

پرستش اور بندگی کی یکجائی

’پرستش‘ دراصل ’بندگی‘ کی فرع ہے اور اپنی عین فطرت کے اقتضا سے اپنی اصل کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ جب انسان اپنے جہل اور بے خبری کی بنا پر ’فرع‘ کو ’اصل‘ سے جدا کرتا ہے ___  بندگی ایک کی کرتا ہے اور پرستش دوسرے کی ___ تو یہ تفریق سراسر فطرت کے خلاف واقع ہوتی ہے اور ایک نہایت خفی و غیر محسوس تحت الشعوری بے اطمینانی پیدا ہو جاتی ہے۔ بخلاف اس کے جب نادانی کا پردہ درمیان سے اٹھ جاتا ہے ___ انسان کو اس حقیقت کا علم ہو جاتا ہے کہ معبود وہی ہے جو مالک اور خالق اور پروردگار ہے تو بندگی اور پرستش دونوں یکجا ہو جاتی ہیں، فرع اصل سے مل جاتی ہے، بیٹی اپنی ماں کی آغوش میں پہنچ جاتی ہے، اور اس وصال سے وہ لطف، وہ مزا، وہ اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے، جو ہجر و فراق کی حالت میں مفقود تھا۔

خلافت و نیابت الٰہی

بندگی اور پرستش کی یہی مواصلت ہے، جس سے انسان کو دوسری مخلوقات پر شرف حاصل ہوتا ہے، اور وہ اس مرتبہ پر پہنچتا ہے، جسے خدا نے اپنی خلافت و نیابت قرار دیا ہے۔

عرض کر چکا ہوں کہ خدا کی بندگی تو انسان آپ سے آپ بلا عمد و اختیار، بغیر جانے بوجھے کر ہی رہا ہے، اور ٹھیک اسی طرح کر رہا ہے، جس طرح لایعقل حیوان، بے شعور درخت، بے جان پتھر کر رہے ہیں۔ اس حیثیت سے اس میں اور دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں۔ اور اس بندگی کا جو انعام ہے، یعنی فیضانِ وجود اور عطائے رزق، اس میں بھی وہ فی الحقیقت دوسری مخلوقات سے ممتاز نہیں ہے۔ فرق و امتیاز اور برتری و شرف جو کچھ ہے، اس امر میں ہے کہ دوسری موجودات کے برخلاف جو عقل و شعور، جو آزادیٔ ارادہ و اختیار، اور جو قوت علمیہ انسان کو دی گئی ہے اس سے کام لے کر وہ اُس کو پہچانے جس کا وہ بندہ ہے، اور بالاختیار بھی اسی کی عبادت اور پرستش کرے، جس کی وہ بلا اختیار بندگی کر رہا ہے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا اور اپنی عقل اور قوت علمیہ سے اپنے مالک کی معرفت حاصل نہ کی، اور اپنے اختیار کے حدود میں اس کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت اور پرستش شروع کر دی تو شرف کیسا، وہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہوگیا:

لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ۝۱۷۹  (اعراف ۷:۱۷۹) ان کے پاس دل و دماغ ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔

بجائے خود عقل اور قوت علمیہ میں کوئی شرف اور برتری نہیں ہے۔ یہ تو محض حصول شرف کے لیے ایک آلہ ہے اور اس آلے نے انسان کو یہ استعداد بہم پہنچا دی ہے کہ اس سے ٹھیک ٹھیک کام لے کر وہ بندگیٔ اضطراری کے حیوانی مقام سے ترقی کرکے عبادتِ اختیاری کے انسانی مقام پر پہنچ سکے۔ لیکن اگر انسان نے اس آلے سے غلط کام لیا، اور اس کو چھوڑ کر جس کا وہ بندہ ہے ان کی عبادت اختیار کی جن کا فی الحقیقت وہ بندہ نہیں ہے،[۵] تو وہ حیوانی مقام سے بھی نیچے اتر گیا۔ حیوان گمراہ تو نہ تھا، یہ گمراہ ہوا۔ حیوان منکر تو نہ تھا، یہ منکر ہوا۔ حیوان کافر و مشرک تو نہ تھا، یہ کافر و مشرک ہوگیا۔ حیوان جس مقام پر پیدا کیا گیا تھا، اسی مقام پر وہ رہا۔ اور حیوان ہونے کی حیثیت سے یہ بھی اسی مقام پر ہے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے جو ترقی اس کو کرنی چاہیے تھی وہ اس نے نہ کی، بلکہ اُلٹا تنزل کی طرف چلا گیا۔

ترقی کے لیے اس کو جو عقل کا آلہ دیا گیا تھا اس کو اس نے انسانی ترقی کے لیے استعمال نہ کیا بلکہ حیوانیت میں ترقی کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے دُوربین بنائی کہ حیوان جتنی دُور کی چیز دیکھ سکتا ہے اس سے زیادہ دُور کی چیز یہ دیکھ سکے۔ اس نے ریڈیو ایجاد کیا کہ حیوان جتنی دُور کی آواز سن سکتا ہے اس سے زیادہ دُور کی آواز یہ سن سکے، اس نے ریل اور موٹر بنائی کہ حیوان جس قدر قطع مسافت کرسکتا ہے اس سے زیادہ یہ کرسکے۔ اس نے ہوائی جہاز بنائے کہ اڑنے میں پرندوں سے بازی لے جائے۔ اس نے بحری جہاز بنائے کہ تیرنے میں مچھلیوں کو مات کر دے۔ اس نے آلات حرب بنائے کہ لڑنے میں درندوں پر سبقت لے جائے۔ اس نے عیش و عشرت کے سامان فراہم کیے کہ جانوروں سے زیادہ پُرلطف زندگی بسر کرے۔ مگر کیا ان ترقیات کے باوجود یہ مقام حیوانی سے کچھ بھی بلند ہوا؟ عقل و علم کے ذریعے سے عالم مادی میں جتنے تصرفات یہ کر رہا ہے، وہ سب کے سب انھی قوانین فطرت کے ماتحت توہیں جن کے تحت عقل و علم کے بغیر حیوانات ایک محدود پیمانے پر ایسے ہی تصرفات کرتے ہیں۔ پس یہ تو وہی بندگیٔ اضطراری کا مقام ہوا جس میں حیوان ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حیوان نے کمتر درجے کی بندگی کی، کم تر درجے کا رزق پایا۔ اس نے عقل و علم کی قوت سے اعلیٰ درجے کی بندگی کی، اعلیٰ درجے کے رزق کا مستحق ہوا۔ حیوان کو گھاس ملتی تھی۔ اس کو توس اور مکھن ملا۔ حیوان کو صوف اور اُون ملتا تھا۔ اس کو نفیس کپڑے ملے۔ حیوان کو گھونسلے میں جگہ دی جاتی تھی۔ اس کو بنگلوں اور کوٹھیوں میں ٹھیرایا گیا۔ حیوان کو پیدل دوڑنا پڑتا تھا اس کو موٹر دے دی گئی۔ یہ اس کی حیوانی بندگی اور اس کی اضطراری عبادت کا کافی انعام ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ ترقی کا جو آلہ اس کو دیاگیا تھا اس سے اس نے ترقی کیا کی؟

ترقی کے معنی تو یہ تھے کہ حیوان ہونے کی حیثیت سے جس کو بے اختیار سجدہ کر رہا ہے، انسان ہونے کی حیثیت سے اختیاری سجدہ بھی اسی کو کرتا۔ حیوان ہونے کی حیثیت سے جس کے حکم تکوینی (Natural Law)کی اطاعت کر رہا ہے، انسان ہونے کی حیثیت سے اسی کے حکم شرعی (Moral Law) کی اطاعت بھی کرتا۔ اگر یہ ترقی اس نے کی تو بے شک یہ حیوانات اور تمام موجودات پر شرف لے گیا، اس نے بالفعل وہ خلافت حاصل کرلی جس کی قوت و استعداد اس کو دی گئی تھی۔ اس نے تمام موجودات سے بڑھ کر اپنے خالق کی بندگی و عبادت کی، اس لیے تمام موجودات عالم سے زیادہ اجر کا مستحق ہوگیا۔ لیکن اگر یہ ترقی اس نے نہ کی اور آلۂ ترقی کے غلط استعمال سے الٹا تنزل کی پستیوں میں اُتر گیا تو بلا شائبہ شک و ریب تمام اسافل سے اسفل اور تمام اراذل سے ارذل بن گیا ___  اس نے خود اپنی حماقت سے اپنے کو عذاب کا مستحق بنا لیا۔[۶]

یہی حقیقت ہے جس کو سورۂ تین میں بیان کیا گیا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۝۴ۡ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ۝۵ۙ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ۝۶ۭ (التین ۹۵:۴-۶) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اس کو تمام ادنیٰ درجہ والوں سے بھی ادنیٰ درجے میں پھیر دیا بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے کہ ان کے لیے بے نہایت اجر ہے۔

یہ اجمال ان تفصیلات کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جو اوپر بیان ہوئی ہیں۔ ’بہترین ساخت‘ سے مراد ترقی کی وہ قوت و استعداد ہے جو انسان کو زمین کی تمام مخلوقات سے بڑھ کر دی گئی ہے۔ مگر محض بہترین ساخت پر ہونا بالفعل ترقی نہیں ہے۔

ترقی کا انحصار اس پر ہے کہ انسان اس قوت و استعداد سے کام لے کر اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے، جس کے انتہائی مرتبے کا نام ’ایمان‘ ہے، اور اس کے حکم شرعی کے تحت دنیا میں کام کرے جس کو ’عمل صالح‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس نے یہ نہ کیا وہ ادنیٰ درجے کی مخلوقات سے بھی فروتر درجے میں گر گیا۔ اور جس نے یہ ترقی کرلی وہ ’اجر غیرممنون‘ کا مستحق ہوگیا۔ یعنی ایسا اجر جو کبھی بند ہونے والا نہیں ہے، جو دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی زندگی تک بلانہایت چلتا ہے۔ بندگیٔ اضطراری کے صلے میں جو اجر ملتا ہے، وہ تو منقطع ہو جاتا ہے۔ بس ایک اجل مقرر تک ہی زندگی عطا کی جاتی ہے اور ایک حدِ خاص تک ہی رزق دیا جاتا ہے۔ مگر عبادتِ اختیاری کے صلے میں وہ عیش نصیب ہوتا ہے جو خلل سے پاک ہے، وہ رزق میسر آتا ہے جس کے بند ہونے کا کوئی خوف نہیں۔

عبادت کا پورا مفہوم

اب ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں، جہاں عبادت کا صحیح اور مکمل مفہوم واضح طور پر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کے مطالعے سے معلوم ہو چکا ہے کہ عبادت کے اجزائے معنوی دو ہیں، جن کی ترکیب سے عبادت کا مفہوم مکمل ہوتا ہے۔ ایک، بندگی، یعنی قانون فطرت کی ٹھیک ٹھیک پیروی اور اس سے منحرف نہ ہونا۔ دوسرے، پرستش جو اپنی تکمیل کے لیے دوچیزوں کی محتاج ہے:

       ۱-    اپنے حقیقی معبود، یعنی خدائے واحد کی ایسی معرفت جو بالکل خالص ہو، جس میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو، جس میں کفر و انکار اور شک و ریب کی ذرّہ برابر آمیزش نہ ہو۔ جس میں خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہو، کسی کے انعام کی طمع نہ ہو، کسی پر اعتماد و توکّل نہ ہو، کسی کی طرف الہٰیت و ربوبیت کو منسوب نہ کیا جائے، کسی کو نافع و ضار نہ سمجھا جائے، کسی سے عبدیت کا تعلق وابستہ نہ کیا جائے۔ اسی کا نام ’ایمان‘ ہے۔

       ۲-    اپنی زندگی کے اختیاری شعبے میں اس معبود کے حکم شرعی کی اسی طرح اطاعت کرنا،   جس طرح اضطراری شعبے میں اس کے حکم تکوینی کی اطاعت کی جاتی ہے، تاکہ ساری زندگی ایک ہی فرماںروا، ایک ہی حکومت اور ایک ہی قانون کی تابع فرمان ہو کر ہم رنگ وہم آہنگ ہو جائے اور اس میں کسی حیثیت سے بھی دورنگی اور ناہمواری باقی نہ رہے۔ اسی کو ’عمل صالح‘ کہتے ہیں۔

غلط کہتا ہے جو کہتا ہے کہ یہ ’عبادت صرف تسبیح و مصلّٰی اور خانقاہ تک محدود ہے‘۔

مومن صالح صرف اسی وقت اللہ کا عبادت گزار نہیں ہوتا جب وہ دن میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہے، اور بارہ مہینوں میں ایک مہینے کے روزے رکھتا ہے اور سال میں ایک وقت زکوٰۃ دیتا ہے اور عمر بھر میں ایک مرتبہ حج کرتا ہے، بلکہ درحقیقت اس کی ساری زندگی عبادت ہی عبادت ہے:

  • جب وہ کاروبار میں حرام کے فائدوں کو چھوڑ کر حلال روزی پر قناعت کرتا ہے تو کیا وہ عبادت نہیں کرتا؟
  • جب وہ معاملات میں ظلم اورجھوٹ اور دغا سے پرہیز کرکے انصاف اور راست بازی سے کام لیتا ہے تو کیا یہ عبادت نہیں ہے؟
  •  جب وہ خلق خدا کی خدمت اور حق داروں کی حق رسانی کے لیے کمر بستہ ہوتا ہے، تو کیا اس کی ہر حرکت عین عبادت نہیں ہوتی؟
  • جب وہ اپنے افعال و اقوال میں خدا کے قانون کی پیروی کرتا اور اس کی حدود کا لحاظ رکھتا ہے تو کیا اس کا ہر قول و فعل عبادت میں شمار نہ ہوگا؟

پس، حق یہ ہے کہ اللہ کے قانون کی پیروی اور اس کی شریعت کے اتباع میں انسان دین اور دنیا کا جو کام بھی کرتا ہے وہ سراسر عبادت ہے، حتیٰ کہ بازاروں میں اس کی خرید و فروخت اور اپنے اہل و عیال میں اس کی معاشرت اور اپنے خالص دنیوی اشغال میں اس کا انہماک بھی عبادت ہے۔

مگر یہ عبادت کا ادنیٰ مرتبہ ہے۔ اس عبادت کی مثال ایسی ہے، جیسے رعیت کے عام افراد اپنے بادشاہ کے قانون کی پیروی اور اس کے فرامین کی اطاعت کرتے ہیں۔

اس سے بڑا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے مالک کا نوکر بن جائے اور اس کے قوانین کی نہ صرف خود پیروی کرے بلکہ دوسروں پر بھی ان کو نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے احکام پر نہ صرف خود عامل ہو بلکہ دنیا میں ان کے اِجرا کے لیے بھی جدوجہد کرے۔ اس کی حکومت میں نہ صرف خود امن اور وفاداری اور اطاعت کیشی کے ساتھ رہے بلکہ اپنے دل و دماغ اور دست و بازو کی قوتیں امن کے قیام میں، بگڑی ہوئی رعایا کی اصلاح میں اور باغی و سرکش بندوں کی سرکوبی میں بھی صرف کرے اور اس خدمت میں اپنا تن من دھن سب کچھ نثار کردے:

  • وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ(البقرہ۲:۱۴۳)اور اس طرح ہم نے تم کو اقوام عالم کے درمیان ایک بہترین امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو[۷] ۱ور رسول تم پر گواہ ہو۔
  •  ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۰ۥۙ  مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ۝۰ۚۖ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ۝۰ۭ(الحج ۲۲:۷۸)

              اسی نے تمھارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی، تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ پس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کے رستے پر جمے رہو۔

  • اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ ( الحج ۲۲:۴۱)وہ جن کو اگر ہم زمین میں طاقت بخشیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور بدی سے روکیں گے۔

یہ ہے اس عبادت کی حقیقت جس کے متعلق لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض نماز، روزہ اور تسبیح و تہلیل کا نام ہے اور دنیا کے معاملات سے اس کو کچھ سروکار نہیں۔ حالانکہ دراصل صوم و صلوٰۃ اور حج و زکوٰۃ اور ذکر و تسبیح انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے مستعد کرنے والی تمرینات (Training Courses)ہیں، جو انسان کی زندگی کو حیوانی زندگی کے ادنیٰ مقام سے اٹھا کر انسانی زندگی کے بلند ترین مقام پر لے جاتی ہیں۔ اس کو اضطرار و اختیار دونوں میں اپنے مالک کا مطیع و فرماںبردار بندہ بنا دیتی ہیں، اور اسے بادشاۂ حقیقی کی سلطنت کا ایسا ملازم بناتی ہیں کہ اس کی خدمت وہ اپنے جسم و جان کی ساری قوتوں کے ساتھ اپنی زندگی کے ہر لمحے میں کرتا ہے۔

 جب انسان عبادت سے اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کو وہ شرف حاصل ہوتا ہے، جس میں کائنات کی کوئی مخلوق اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ ملائکہ تک اس کے مقام سے فروتر ہوتے ہیں۔ وہ دنیا میں بالفعل خدا کا خلیفہ ہوتا ہے۔ اس کو خدا کے سوا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت نہیں دی جاتی۔ اس کی گردن میں خدا کی غلامی کے سوا کسی کی غلامی کا طوق نہیں ہوتا۔ اس کے پائوں میں خدا کی زنجیر کے سوا کسی کی زنجیر نہیں ہوتی۔ اس کا سر خدا کے حکم کے سوا کسی کے حکم کے آگے نہیں جھکتا۔ وہ خدا کا غلام اور سب کا آقا ہوتا ہے۔ وہ خدا کا محکوم اور سب کا حاکم ہوتا ہے۔ اس کو خدا کی طرف سے اس کی زمین پر حکومت کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ فرعون و نمرود کی طرح باغی اور غاصب نہیں ہوتا، بلکہ شاہی فرمان سے زمین پر خدا کا نائب ہوتا ہے اور حق کے ساتھ فرماں روائی کرتا ہے:

  • وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۝۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ ۭ (النور ۲۴:۵۵) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو یقیناً زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا چکا ہے اور ضرور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے مضبوطی کے ساتھ قائم کرے گا۔ اور بالیقین ان کی حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا بس وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔

یہ تو دنیا کا انعام ہے۔ اور آخرت کا انعام کیا ہے؟ یہ کہ:

  • وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَخْشَ اللہَ وَيَتَّقْہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ ۝۵۲ (النور  ۲۴:۵۲) اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اور اللہ سے ڈرا اور اس کے غضب سے بچا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔
  •  رِجَالٌ۝۰ۙ لَّا تُلْہِيْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوۃِ۝۰۠ۙ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ۝۳۷ۤۙ  لِيَجْزِيَہُمُ اللہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَيَزِيْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۝۰ۭ(النور ۲۴:۳۷-۳۸) وہ لوگ جن کو کوئی تجارت اورکوئی خریدو فروخت اللہ کے ذکر اور اقامت نماز اور ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی، جو ڈرتے ہیں اس دن سے جب دل الٹ جائیں گے اور آنکھیں پھر جائیں گی۔ ان کو امید ہے کہ اللہ ان کے اعمال کا بہتر سے بہتر بدلہ دے گا اور اپنے فضل سے اس پر مزید اضافہ کرے گا۔

عبادت کا غلط مفہوم اور نتیجہ

افسوس کہ عبادت کے اس صحیح اور حقیقی مفہوم کو مسلمان بھول گئے۔ انھوں نے چند مخصوص اعمال کا نام عبادت رکھ لیا اور سمجھے کہ بس انھی اعمال کو انجام دینا عبادت ہے اور انھی کو انجام دے کر عبادت کا حق ادا کیا جاسکتا ہے۔

اس عظیم الشان غلط فہمی نے عوام اور خواص دونوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ عوام نے اپنے اوقات میں سے چند لمحے خدا کی عبادت کے لیے مختص کرکے باقی تمام اوقات کو اس سے آزاد کرلیا۔ قانون الٰہی کی دفعات میں سے ایک ایک دفعہ کی خلاف ورزی کی، حدود اللہ میں سے   ایک ایک حد کو توڑا، جھوٹ بولے، غیبت کی، بدعہدیاں کیں، حرام کے مال کھائے، حق داروں کے حق مارے، کمزوروں پر ظلم کیا، نفس کی بندگی میں دل، آنکھ، ہاتھ اور پائوں سب کو نافرمانی کے لیے وقف کر دیا، مگر پانچ وقت کی نماز پڑھ لی، زبان اور حلق کی حد تک قرآن کی تلاوت کرلی، سال میں مہینے بھر کے روزے رکھ لیے، اپنے مال میں سے کچھ خیرات کردی، ایک مرتبہ حج بھی کر آئے اور سمجھے کہ ہم خدا کے عبادت گزار بندے ہیں۔

  •  کیا اسی کا نام خدا کی عبادت ہے کہ اس کے سجدے سے سر اٹھاتے ہی ہر معبودِ باطل کے آگے جھک جائو، اس کے سوا ہر زندہ اور مُردہ کو حاجت روا بنائو، ہر اس بندے کو خدا بنالو جس میں تم کو نقصان پہنچانے یا نفع دینے کی ذرّہ برابر بھی قوت نظر آئے؟
  •  روٹی کے ایک ٹکڑے کے لیے کفار و مشرکین تک کے آگے ہاتھ جوڑو اور ان کے پائوں چومو، انھی کو رازق سمجھو، انھی کو عزت اور ذلت دینے والا سمجھو، انھی کے قانون کو قانون سمجھو اس لیے کہ وہ طاقت رکھتے ہیں؟ خدا کے قانون کو بے تکلف توڑ دو اس لیے کہ تمھارے زعمِ باطل میں وہ اپنے قانون کو نافذ کرنے کی قوت نہیں رکھتا۔ کیایہی تمھارا اسلام ہے؟ یہی تمھارے ایمان کی شان ہے؟ اسی پر تمھیں گمان ہے کہ تم خدا کی عبادت کرتے ہو؟
  •  اگر یہی اسلام اور ایمان ہے اور یہی اللہ کی عبادت ہے، تو پھر وہ کیا چیز ہے جس نے تم کو دنیا میں ذلیل و خوار کر رکھا ہے؟ کیا چیز ہے جو تم سے خدا کے سوا ہر در کی گدائی کرا رہی ہے؟ کس چیز نے تمھاری گردنوں میں غلامی اور ذلت کے طوق ڈال رکھے ہیں؟

خواص نے اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کیا۔ وہ تسبیح و مصلّٰی لے کر حجروں میں بیٹھ گئے۔

خدا کے بندے گمراہی میں مبتلا ہیں، دنیا میں ظلم پھیل رہا ہے۔ حق کی روشنی پر باطل کی ظلمت چھائی جارہی ہے، خدا کی زمین پر ظالموں اور باغیوں کا قبضہ ہو رہا ہے، الٰہی قوانین کے بجائے شیطانی قوانین کی بندگی خدا کے بندوں سے کرائی جارہی ہے، مگر یہ ہیں کہ نفل پر نفل پڑھ رہے ہیں، تسبیح کے دانوں کو گردش دے رہے ہیں، ہو حق کے نعرے لگا رہے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں مگر محض ثوابِ تلاوت کی خاطر، حدیث پڑھتے ہیں مگر صرف تبرکا ً، سیرت پاک اور اسوۂ صحابہ پر وعظ فرماتے ہیں، مگر قصہ گوئی کا لطف اٹھانے کے سوا کچھ مقصود نہیں، دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ کا سبق نہ ان کو قرآن میں ملتا ہے، نہ حدیث میں، نہ سیرت پاک میں، نہ اسوۂ صحابہ میں۔

 کیا یہ عبادت ہے؟ کیا یہی عبادت ہے کہ بدی کا طوفان تمھارے سامنے اُٹھ رہا ہو اور تم آنکھیں بند کیے ہوئے مراقبے میں مشغول رہو؟

کیا عبادت اسی کو کہتے ہیں کہ گمراہی کا سیلاب تمھارے حجرے کی دیواروں سے ٹکرا رہا ہو اور تم دروازہ بند کرکے نفل پر نفل پڑھے جائو؟

کیا عبادت اسی کا نام ہے کہ کفار چار دانگ عالم میں شیطانی فتوحات کے ڈنکے بجاتے پھریں، دنیا میں انھی کا علم پھیلے، انھی کی حکومت کار فرما ہو، انھی کا قانون رواج پائے، انھی کی تلوار چلے، انھی کے آگے بندگان خدا کی گردنیں جھکیں اور تم خدا کی زمین اور خدا کی مخلوق کو ان کے لیے چھوڑ کر نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے اور ذکر و شغل کرنے میں منہمک ہو جائو؟

اگر عبادت یہی ہے جو تم کررہے ہو، اور اللہ کی عبادت کا حق اسی طرح ادا ہوتا ہے تو پھر یہ کیا ہے کہ عبادت تو تم کرو اور زمین کی حکومت و فرماںروائی دوسروں کو ملے؟ کیا معاذ اللہ، خدا کا وہ وعدہ جھوٹا ہے جو اس نے قرآن میں تم سے کیا تھا کہ:

 وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ۝۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا ۝۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ (النور ۲۴:۵۵)  تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو یقیناً زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا چکا ہے اور ضرور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے مضبوطی کے ساتھ قائم کرے گا۔ اور بالیقین ان کی حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا بس وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔

اگر خدا اپنے وعدے میں سچا ہے، اور اگر یہ واقعہ ہے کہ تمھاری اس عبادت کے باوجود نہ تم کو زمین کی خلافت حاصل ہے، نہ تمھارے دین کو تمکن نصیب ہے، نہ تم کو خوف کے بدلے میں امن میسر آتا ہے، تو تم کو سمجھنا چاہیے کہ تم اور تمھاری ساری قوم عبادت گزار نہیں بلکہ تارکِ عبادت ہے اور اسی ترکِ عبادت کا وبال ہے، جس نے تم کو دنیا میں ذلیل کر رکھا ہے۔

(ماہ نامہ ترجمان القرآن ،حیدرآباد، دکن، جولائی ۱۹۳۵ء، ص ۱۳-۲۷، یکم اگست،ص ۱۱-۲۱)

  _______________

حواشی

[۱]   بلکہ علم الانسان کی تازہ ترین تحقیقات سے تو یہ عجیب حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اوّلین انسانی تہذیب کی حامل قوموں میں خالص توحید کا عقیدہ پایا جاتا ہے اور وہ شرک کے اثرات سے بالکل پاک ہیں (ملاحظہ ہو، کتاب علم الاقوام، مصنّفہ ڈاکٹر بیرن عمر رالف ایہرن فیلس[ترجمہ: ڈاکٹر سیّدعابد حسین]، شائع کردہ انجمن ترقی اُردو، دہلی، ۱۹۴۱ء، دو حصے)۔ یہ قرآن کریم کے اس بیان کی پوری پوری تصدیق ہے کہ انسان کا اوّلین مذہب توحید ہے اور شرک بعد کی پیداوار ہے۔ ان تحقیقات نے انیسویں صدی کے فلسفۂ مذہب کا نظریہ اُلٹ دیا۔(مصنف)

[۲]   ان معلومات کے لیے کتابِ مذکور [علم الاقوام]کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔

[۳]   معترض کہہ سکتا ہے کہ ایسے افراد بکثرت پائے جاتے ہیں اور ایسی جماعتیں بھی موجود ہیں اور تقریباً ہرزمانے میں موجود رہی ہیں، جن کا کوئی مذہب نہیں اور جو عملاً و اعتقاداً کسی کی عبادت نہیں کرتیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح مخنثوں کی ایک کثیرتعداد کا موجود ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ جذبۂ شہوت ایک فطری جذبہ نہیں ہے اور جس طرح مجردوں اور راہبوں کے ایک بڑے گروہ کا وجود اس بات کی دلیل نہیں کہ اَزدواج کی خواہش ایک فطری خواہش نہیں ہے، اسی طرح ایسے افراد یا جماعتوں کا موجود ہونا بھی جن کے اندر مخصوص اسباب کے تحت عبادت کا فطری جذبہ مُردہ یا بے حس ہوچکا ہے، اس دعوے کی دلیل نہیں بن سکتا کہ انسان میں عبادت کا جذبہ ایک فطری جذبہ نہیں ہے۔

[۴]   آج کل مذہب پر لکھنے والے مصنّفین کا رجحان زیادہ تر تاریخی ارتقاء کے نظریہ کی طرف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان نے ابتدا شرک کی ادنیٰ شکلوں سے کی تھی۔ جوں جوں شعور بڑھتا گیا، معبودوں کا معیار اُونچا ہوتا گیا اور ان کی تعداد گھٹتی چلی گئی، یہاں تک کہ ترقی کرکے انسان توحید تک پہنچا۔ لیکن تاریخ خود اس تاریخی نظریہ کا ابطال کرتی ہے۔ مسیح سے ڈھائی ہزار برس پہلے حضرت ابراہیم ؑ خالص توحید کے پرستار تھے اور مسیح سے دو ہزار برس بعد آج بھی نوعِ انسانی میں کروڑوں آدمی شرک کے پرستار موجود ہیں۔ کیا یہ تاریخی ارتقاء کا ثبوت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ادنیٰ ترین شرک سے لے کر بلند ترین توحید تک عبادت اور عقیدت کی تمام اقسام ہرزمانے میں پائی گئی ہیں اور آج تک پائی جاتی ہیں۔ تفاوت دراصل مختلف انسانوں کے عقلی و ذہنی مدارج میں ہے، نہ کہ تاریخی ترتیب میں۔

[۵]   ان معبودوں میں انسان کی اپنی ہوائے نفس بھی شامل ہے، جو شخص خدا کی بندگی نہیں کرتا، وہ یا تو بتوں اور مصنوعی معبودوں کی بندگی کرتا ہے، یا فرعون صفت انسانوں کی، یا پھر اپنی خواہشات کی۔

[۶]   یہ بحث نہایت غوروتامّل کی مستحق ہے۔ اس مسئلے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے۔ وہ خدا کے قانونِ طبیعی یا حکم تکوینی کی اطاعت ہی کو اصل عبادت سمجھتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ اس عبادت کا حق ادا کردے وہی عابد اور صالح اور ان تمام وعدوں کا مستحق ہے جو قرآن میں صالحین سے کیے گئے ہیں۔ حالانکہ انسان سے جو عبادت مطلوب ہے وہ محض حکم تکوینی کی اطاعت ہی نہیں بلکہ حکم شرعی کی اطاعت بھی ہے۔

[۷]   یعنی اپنی زبان سے، اخلاق سے ، کردار سے ، اپنی زندگی کے پورے رویے سے اور پھر اپنی قربانیوں سے، محنتوں سے، کوششوں سے اور جفاکشیوں سے اسلام کی صداقت پر گواہی دو۔ ایک طرف ساری دُنیا کے سامنے اپنے قول وعمل سے اسلام کا مظاہرہ بھی کرو اور دوسری طرف اسلام کی راہ میں جانفشانی کرکے یہ بھی ثابت کردو کہ تم واقعی اس دین پر ایمان لائے ہو، اور تمھارے نزدیک یہ ایسی صداقت ہے جس پر تن من دھن سب کچھ نثار کیا جاسکتا ہے۔

جموں و کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس ضمن میں جو جدوجہد ہورہی ہے، وہ صرف جموں و کشمیر کے عوام اور ان کے مستقبل کی نہیں، خود پاکستان کی بقا اور ترقی کی جنگ ہے۔ کشمیری بہنیں، بھائی، بچّے اور نوجوان اس جدوجہد میں اپنی جان، مال، مستقبل اور آبرو تک کی قربانی محض ایک خطۂ زمین کے لیے نہیں دے رہے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ جدوجہد دینی، نظریاتی، تاریخی، معاشی اور تہذیبی بنیادیں رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں اہلِ کشمیر بالکل واضح ذہن اور بڑی صاف سمت اپنے سامنے رکھتے ہیں۔اسی طرح اس معاملے میں پاکستانی قوم کا موقف پہلے روز سے بڑا واضح اور نہایت مضبوط دلائل پر استوار ہے۔ تاہم، افسوس ناک صورتِ حال دیکھنے میں آتی رہی ہے کہ بعض اوقات، بعض حکومتوں یا بعض مقتدر افراد نے کمزوری دکھائی، مگر قوم نے ایسی کسی عاقبت نااندیشی کو قبول نہیں کیا۔

اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ، اور خود پاکستان میں ایک نوعیت کی سرگرمیوں سے مسئلہ کشمیر پر جو اشارے مل رہے ہیں، وہ سخت تشویش ناک ہیں۔ ان پر بجاطور پر ہرسنجیدہ اور دُور اندیش پاکستانی پریشان ہے۔ بعض عرب ممالک، بھارت اور امریکا مل جل کر، پاکستان پر دبائو ڈال کر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر، بھارت سے تجارتی و ثقافتی راہ و رسم کے دروازے کھولے جائیں۔ اسی ضمن میں ’قومی سلامتی‘ کے نام پر اشاروں، کنایوں میں تاریخ کو دفن کرکے یا تاریخ کو بھلا کر آگے بڑھنے کا غیرمنطقی اسلوبِ بیان اور قومی موقف سے ٹکراتا طرزِتکلّم بھی ہمارے ہاں پیش کیا جارہا ہے۔ یہ طرزِعمل خطرناک صورتِ حال کی نشان دہی کرتا ہے، جس پر حکومت ِ پاکستان اور پاکستان کی پارلیمنٹ کو دوٹوک الفاظ میں اپنے تاریخی موقف کا اعادہ کرنا چاہیے اور ایسی کسی بھی مہم جوئی سے لاتعلقی کا واضح اعلان کرنا چاہیے۔ اور وہ اعلان یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ، جموں و کشمیر کے عوام کی اُمنگوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کی متفقہ قراردادوں کے مطابق حقِ خود ارادیت کے تحت حل کیا جاناہے۔ کسی قسم کی ثالثی کی باتیں بھی پوری جدوجہد کو گہرے اندھے کنویں میں دھکیل دیں گی۔ بات چیت، رائے شماری کے انعقاد کے انتظامات کی تفصیلات پر ہونی چاہیے۔

یہ کہنا کہ ’’بھارت اور چین ، سرحدی تنازعات کے باوجود اتنے سو بلین ڈالر کی تجارت کرتے ہیں‘‘، ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ اس مثال کا کوئی موازنہ، مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تعلقات سے نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف ملکوں کے سرحدی تنازعات اور کشمیر کے سوا کروڑ لوگوں کے مستقبل کے فیصلے کو ایک ترازو میں رکھنانہایت سنگ دلی اور تاریخ کے ساتھ سنگین کھیل کھیلنا ہے۔

یاد رکھیے، جس نے تاریخ سے کھیل کھیلنے کی کوشش کی، وہ عبرت کا نشان بنا ہے۔ وزارت، حکومت اور ملازمت چند برسوں کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح شخصی کروفر کی حیثیت محض پرچھائیں کے برابر ہے مگر غلط فہمی میں مبتلا لوگوں کے فیصلوں کی سزا قوم مدتوں بھگتتی ہے، اور تاریخ سے بے وفائی کے مرتکب لوگوں کو تاریخ کبھی کسی اچھے نام سے یاد نہیں کرتی۔

ہونا یہ چاہیے کہ کشمیر کے مظلوم عوام کی ہمہ جہت سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد کی جائے، ان سے ہرسطح پر تعاون کیا جائے۔ اس ضمن میں محترم سیّد علی گیلانی صاحب نے بہت بروقت انتباہ کیا ہے۔

ہم پاکستان کے سیاسی، دینی، صحافتی، حکومتی حلقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قومی اداروں کو مجبور کریں کہ وہ کسی بھی مہم جوئی اور پس پردہ نامہ و پیام (بیک ڈور ڈپلومیسی)سے پرہیز کریں۔ جو معاملہ ہو، وہ کھلاہو اور اس میں کشمیر کے عوام کا اعتماد شامل ہو، اور عالمی مسلّمہ اصولوں کے مطابق ہو۔

اسی طرح پارلیمنٹ کی کشمیرکمیٹی کی تشکیل نو کی جائے۔ اس کے غیرسنجیدہ چیئرمین کو تبدیل کیا جائے۔ ذمہ دار، فرض شناس اور کسی مردِ معقول کو کمیٹی کا سربراہ بنایا اور کمیٹی کو متحرک کیا جائے۔ عالمی سطح پر ایک مہم چلائی جائے، جس میں خاص طور پر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے مظالم اور آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کے بھارتی جرائم کو بے نقاب کیا جائے۔

اس حوالے سے حکومت ِ پاکستان، پارلیمنٹ اور پاکستان کی مسلح افواج کو تاریخی موقف پر جم کر کھڑے ہونا چاہیے۔

 یہاں پر سیّد علی گیلانی صاحب کا موقف اور انتباہ پوری تائید کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے:

حوصلہ بلند رکھیں، فتح حق کی ہوگی: سیّد علی گیلانی

’’اللہ تعالیٰ کا بے پایاں کرم ہے کہ اس نے ایک بار پھر مجھے آپ لوگوں سے مخاطب ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔

ہم سب کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ آج ہم بحیثیت ایک قوم کے، ایک انتہائی مخدوش اور صبر آزما صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ ایک طرف بھارت ظلم و جَور کے نت نئے ہتھکنڈے اپنا کر ہماری قوم کا قافیۂ حیات تنگ کرنے اور ہمیںا پنی ہی سرزمین سے بے دخل کرنے پر تُلا ہوا ہے، اور دوسری طرف عالمی برادری کے ضمیر پر کشمیر کے تعلق سے چھائی مردنی مزید گہری ہوتی جارہی ہے، اور بھارت کو کشمیر میں کچھ بھی کرگزرنے کی گویا چھوٹ سی مل گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں عالمی سیاست میں رُونما ہونے والی کچھ تبدیلیوں سے اس بات کا بھی صاف عندیہ ملتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے جس کے بارے میں کشمیری عوام کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔ اس تعلق سے ہماری حمایت اور ہم نوائی کا دم بھرنے والے ہمارے کچھ ہمدردوں کا کردار بھی شکوک و شبہات سے گھرا ہوا ہے:

  • سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال سے کسی قوم کو سابقہ پیش آئے تو اس کے افراد میں کسی قدر بددلی یا مایوسی پیدا ہو جانا اگرچہ ایک فطری چیز ہے لیکن میں آپ کو یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہم الحمدللہ ،مسلمان ہیں اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بے انتہا قدرت اور رحمت پر ایمان اور یقین ہو، ان کے لیے مایوسی کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔
  • دوسری چیز جس کی طرف مَیں آپ سب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ ہماری جدوجہد حق اور انصاف پر مبنی ہے۔ ہم کسی سے نہ تو کوئی بھیک مانگ رہے ہیں، نہ کسی سے کچھ چھیننا چاہتے ہیں، بلکہ ہم صرف اپنے ان غصب شدہ حقوق کی بازیابی چاہتے ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر نہ صرف تسلیم کیے گئے ہیں بلکہ ان کا ہم سے وعدہ بھی کیا گیا ہے۔
  • تیسری چیز جس کو نظرانداز کرنے یا بھولنے کے ہم ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے، یہ ہے کہ اپنے حقوق کی بازیابی کی اس مبنی برحق و انصاف جدوجہد میں ہم نے عظیم اور بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے لاکھوں نوجوانوں، بزرگوں، اور بچوں نے اپنا خون بہاکر اور ہماری ہزاروں مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عصمتیں لٹا کر، اس تحریک کی آبیاری کی ہے۔ یہ سبھی قربانیاں ہمارے لیے ایک مقدس قومی امانت ہیں اورہم سب اس کے امین اور اس کی حفاظت کے لیے ذمہ دار اور عہد کے پابند ہیں۔ اسی طرح ہمارے شہداکی بیوائیں، یتیم اور ہمارے محبوسین اور ان کے اہلِ خانہ بھی ہم سب کے لیے ایک اجتماعی ذمہ داری ہیں۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنا اور ہرطرح سے ان کا خیال رکھنا اور ان کی دل جوئی کرتے رہنا، ہمارا ایک قومی فریضہ ہے۔

اُتار اور چڑھائو کے مراحل ہر جدوجہد کا ایک لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ ان سے کبھی کوئی جدوجہد ختم نہیں ہوتی بلکہ اکثر ان کٹھن مراحل سے گزر کر ہی تحریکیں مزید سنورتی اور نکھرتی ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ جدوجہد کا دورانیہ جب زیادہ طویل ہوجائے، تو کچھ ایسے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جن پر اگر بروقت توجہ نہ دی جائے، تو وہ جدوجہد کا حلیہ اور سمت دونوں بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ طالع آزما اور مفاد پرست عناصر کے ایک گروہ کا ظہورہوتا ہے، جو بدقسمتی سے ہماری صفوں میں بھی نہ صرف پیدا ہوچکا ہے بلکہ انتہائی سرگرم بھی ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں موجود ان کالی بھیڑوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے، جو کسی بھی وقت اپنے حقیر مفادات کے لیے کسی بھی قسم کی سازباز کے لیے تیار ہوسکتے ہیں۔

جیساکہ مَیں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ کشمیر کے حوالے سے درپردہ کچھ سرگرمیوں کے عندیے مل رہے ہیں۔ کشمیری عوام اس مسئلے کے بنیادی فریق ہیں۔ انھیں الگ تھلگ رکھ کر کیا کچھ حاصل کرنے کی توقع کی جارہی ہے، یہ سب سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم اس بات کو واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد کا مقصد کشمیری عوام کے لیے حقِ خود ارادیت کا حصول ہے اور اس سے ہٹ کر کچھ اور کشمیری عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ قیامِ امن کی خواہش رکھنے والوں کو اس زمینی حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس خطے میں بدامنی کی وجہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نہیں بلکہ بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور تسلط ہے۔ اور جب تک اس وجہ کو دُور نہیں کیا جاتا، تب تک قیامِ امن کی کوئی بھی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوسکتی۔

پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے ہم سب سے بڑھ کر حامی ہیں کیونکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر کشمیری ہی ہوتا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ان تعلقات کی بحالی کے نام پر اگر مسئلۂ کشمیر کو سردخانے کی نذر کرنے کی بات ہو تو یہ ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر بہتر تعلقات کو استوار کرنا ایک اچھی سوچ ہے، لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تلخی پیدا کرنے والی وجہ باقی نہ رہے۔ ایک طرف کشمیری عوام ظلم کی چکّی میں پستے رہیں اور دوسری طرف ہم خطے میں امن کی بھی توقع رکھیں، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟

ہرقوم اورملک کی طرح کشمیری عوام کو بھی اپنے مفادات کے بارے میں سوچنے اور ان کا تحفظ کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہے، اور ہمارا مفاد اس کے سوا کسی اور چیز میں نہیں ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جاری اپنی جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اور یہ کام ہم سب کشمیریوں کو مل جل کر کرنا ہوگا۔

یہ تحریک جتنی مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں رہنے والوں کی ہے، اتنی ہی آزادکشمیر، گلگت بلتستان، جموں، لداخ، کشتواڑ، ڈوڈہ، غرض کشمیر کے ہرحصے میں رہنے والوں کی ہے، اور اس میں سب کا یکساں تعاون بھی ضروری ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جس طرح بھارتی مظالم کے سب سے زیادہ شکار مقبوضہ وادی کے لوگ رہے، اسی طرح اس تحریک میں سب سے زیادہ حصہ بھی مقبوضہ وادی کے لوگوں کا ہی رہا ہے۔ لیکن اس صورتِ حال کا تبدیل ہونا اب ناگزیر ہوگیا ہے۔ تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کے ہرحصے کے لوگ اس میں یکساں طورپر شامل ہوں اور بقدرِ استطاعت اپنا تعاون کرکے اس کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔

یاد رکھیں! جنگیں ہتھیاروں سے زیادہ حوصلوں اور ہمتوں سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ لہٰذا، اپنے حوصلوں کو بلند رکھیں اور مایوسی کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں۔ حق اور باطل کی لڑائی میں فتح آخرکار حق کی ہی ہوتی ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!‘‘ [۲۲مارچ ۲۰۲۱ء، سری نگر]