قرآن کریم نے اسلام کی دعوت کو انتہائی مختصر اور عام فہم انداز میں ایک مختصر سی آیت کریمہ میں سمو دیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے بنائے ہوئے تصوراتی اور مادی خداؤں اور اداروں کی غلامی سے آزاد ہو کر صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بندگی اور پناہ میں آجائے۔ فرمایا:
اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۰ۚ (النحل ۱۶:۳۶) اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔
آیتِ مبارکہ مثبت اور تعمیری پہلو پر متوجہ کرتے ہوئے یاد دہانی کراتی ہے کہ تمام بندگیوں سے نکل کر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کی جائے۔ اقتدار مکمل طور پر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے ہے۔ انسانی عقل اور قیاس نے جو معبود تراش لیے ہیں، وہ سب’طاغوت‘ کی تعریف میں آتے ہیں۔ طاغوت انسانوں پر اپنے اختیارات اور قوت کا خوف طاری کر کے اللہ کے بندوں کو صراط مستقیم سے گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ کامیاب حربہ فوری فائدے اور فوری کامیابی کا تصور ہے۔
شیطان اور اس کی ذُرِّیت بندگانِ خدا میں جلد سے جلد حصولِ اقتدار کی خواہش بیدار کرکے انھیں ایسے راستے کی طرف لے جاتی ہے، جو آخر کار معصیت اور گمراہی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ’طاغوت‘ بڑی چالاکی سے یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ تحریک اسلامی کو اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کی جدوجہد میں دو نسلیں گزر گئیں ۔ ۷۰،۸۰سال کی تگ ودوکے بعد بھی وہ عوام کی ایک محدود تعداد ہی کو اپنے ساتھ شامل کر سکی اور عوام یہ جاننے کے باوجود کہ اس تحریک کے کارکن ایمان دار، امانت دار اور بے غرض ہو کر صرف اللہ کے لیے کام کرتے ہیں، مگر انتخابات میں اُنھیں ووٹ نہیں دیتے۔ وہ ووٹ انھی افراد کو دیتے ہیں جن کے دامن کبھی صاف نہیں رہے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ افراد ان کے جائز و ناجائز روز مرہ امور میں ان کو فائدہ پہنچا سکیں گے ، لہٰذا ووٹ انھی کو دیا جائے۔ یہ صورتِ حال عموماً حق کے لیے کام کرنے والوں میں مایوسی اور ناامیدی کے ساتھ یہ احساس بھی پیدا کرتی ہے کہ کیوں نہ جن افراد کے کامیاب ہونے کا امکان ہے ، انھی کے ساتھ کوئی مفاہمت کر کے راستہ نکالا جائے۔
یہ طے کرنے کے لیے کہ مفاہمت کی گنجایش کہاں تک ہے؟ اسلامی فقہ میں ’سیاست شرعیہ‘ کا تصور پایا جاتا ہے ، جو مصلحت ِعامہ کی بنا پر چند مخصوص صورتوں میں کم تر برائی کو برداشت کرنے اور ملک میں افراتفری اور فساد پیدا ہونے کے خطرے سے بچنے کے پیش نظر وقتی طور پر ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس میں اصولوں سے انحراف نہ ہو اور شریعت کے کسی مقصد کی مخالفت بھی نہ ہوتی ہو ۔
اس جدو جہد میں بعض اوقات یہ گمان بھی ذہن میں آتا ہے کہ کب تک اس صبح کا انتظار کیا جائے گا جب اللہ کی حاکمیت اس کی زمین پر اپنی مکمل شکل میں نافذ ہوسکے؟ یہ احساس عموماً مستقبل سے نااُمیدی اور مایوسی پیدا کرتا ہے، لیکن قرآن کریم نے اس وسوسے کا جو تجزیہ اور حل پیش کیا ہے، وہ قیامت تک تحریکات اسلامی کے لیے مشعل راہ ہے۔
قرآن کریم نے اس انسانی نفسیات اور تحریک اسلامی کو پیش آنے والے ایسے مراحل کو وضاحت سے بیان کر دیا ہے، تاکہ اقا مت دین کی جدو جہد کرنے والے افراد اور قیادت کو اپنی قلتِ تعداد پر مایوسی اور دل شکستگی نہ ہو ، بلکہ اپنی دعوت پر اعتماد میں مزید اضافہ ہو اور حصولِ منزل کے الٰہی وعدوں پر یقین میں کمی نہ آنے پائے ۔فرمایا:
فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓى اِلَّا ذُرِّيَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰي خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہِمْ اَنْ يَّفْتِنَھُمْ۰ۭ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْاَرْضِ۰ۚ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِيْنَ۸۳ (یونس ۱۰:۸۳) (پھر دیکھ کہ) موسٰی کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا،فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنھیں خوف تھا کہ) فرعون اُن کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رُکتے نہیں ہیں۔
سورئہ یونس کی یہ آیت تحریک اسلامی کی موجودہ صورتِ حال میں ہمیں راہنمائی فراہم کررہی ہے۔ یہاں بات یہ کہی جا رہی ہے کہ وقت کی جابر اور ظالم قوت (وہ حاکمِ وقت ہو یا کوئی ادارہ ہو، جس کے بارے میں ہر فرد کو معلوم ہے کہ وہ جس فرد کو خطرہ سمجھے، اسے ختم کرنے ، دبانے اور خریدنے کی پوری کوشش کرتا ہے) اس لیے ایسی قوت کے خلاف آواز اٹھا نا یا میدانِ عمل میں نکل کر مخالفت کرنا خطرات کو دعوت دینا ہے۔
قرآن کریم اس بات پر شاہد ہے کہ اگر وہ چند افراد جو حق پر ایمان رکھتے ہوں استقامت، صبر اور توکل الی اللہ کے ساتھ صحیح حکمت عملی اختیار کریں تو قلت تعداد کے باوجود، آخر کار غالب وہی رہتے ہیں۔فرمایا:
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۶۵ (الانفال۸:۶۵) اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔
یہاں قرآن کریم نے چند الفاظ میں عروج و زوال کے اہم اصول کو بیان کر دیا ہے کہ اگر صرف ۲۰؍ افراد ایسے ہوں جو ایمان اور عمل میں یکساں ہوں اور ا ن پر جلد کامیابی کے نتائج کی نفسیات طاری نہ ہو، وہ صٰبِرُوْنَ ہوں ، ان میں مستقل مزاجی ہو ، وہ قلت تعداد کی بنا پر اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھیں ، اپنے ربّ پر بھروسا رکھتے ہوں اور وقت کی بہترین حکمت ِ عملیوں کے استعمال سے آگاہ ہوں، یعنی ان میں استعداد (capacity)، قابلیت (ability ) اور صلاحیت (capability) پائی جاتی ہو، تو پھر مخالفین کی کثرت تعداد بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ایسے چند نوجوان ہی تاریخ ساز اور زمانے کا رخ موڑنے کا سبب بنتے ہیں۔
قرآن حکیم کی مذکورہ بالا آیت کی تصویر خود دعوت اسلامی کے مکی اور مدنی دور میں نظر آتی ہے۔ اسلام کی دعوت کے اوّلین قبول کرنے والے مکہ کے شیوخ اور جہاں دیدہ سردارانِ قبائل نہیں تھے بلکہ علی ؓابن طالب ، جعفر ؓ طیار ، زبیر ؓ، طلحہ ؓ، سعد ؓبن ابی وقاص ، مصعب ؓ بن عمیر ، عبداللہؓ بن مسعود جیسے افراد تھے جن کی عمریں بیس سال سے کم تھیں ۔ عبدالرحمن ؓ بن عوف ، بلال ؓ، زید ؓ بن حارثہ ، عثمان ؓبن عفان، عمر ؓ فاروق وہ صحابہ تھے جو۳۰،۳۵ سال کے لگ بھگ تھے ۔ حضرت ابو بکر ؓ ۳۸سال کے لگ بھگ ، اور صرف عمار ؓ بن یاسر آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عمر تھے، جب کہ صرف عبیدہ ؓبن حارث کی عمر نبی کریم ؐسے زیادہ تھی ۔
گویا استقامت ، صبر اور توکّل کے ساتھ صلاحیت اور اہلیت میں سب سے بڑھ کر ہونا، وہ شرط ہے جو قلت تعداد کے باجود باطل قوتوں کی کثرت پر قرآنی اصول کی روشنی میں ہر دور میں غالب آئے گی ۔ تحریکات اسلامی کے لیے اصل فکر اور کرنے کا کام دعوت اور معاشرتی اصلاح کے ساتھ انسانوں کی کردار سازی ہے، نہ کہ محض عددی قوت میں اضافے کی فکر کو خود پر طاری کرنا۔ توجہ کا مرکز یہ ہونا چاہیے کہ جو تعداد میسر ہے، کیا ان میں سے ہر ایک فرد اپنے خلوص ، ایثار و قربانی اور ادایگی فرائض میں مثالی کردار رکھتا ہے؟ اور ایسا نہیں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک کی قوت کردار اور اخلاق کی بلندی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف اہل اور امانت کا حق ادا کرنے والوں کو ذمہ داری بطور ایک عطیہ اور امانت کے دیتا ہے۔ باصلاحیت اور اعلیٰ کارکردگی والے افراد کی تیاری تحریک کی ترجیح ہونی چاہیے ، محض تعداد میں اضافہ یا کثرت تحریک کی ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔
قرآنی اصطلاح صٰبِرُوْنَ سے مراد وہ لوگ نہیں جو مشکلات و آزمایش کو محض تحمل سے برداشت کر لیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو ڈٹ کر سینہ سپر ہو کر پوری اُمید (optimism) کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں ۔ مایوسی ، نااُمیدی اور مستقبل کو تاریک دیکھنا صبر و استقامت کے منافی ہے۔ حالات کا نامساعد ہونا حق کے علَم برداروں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ وہ پُرعزم طور پر کسی مفاہمت کے بغیر استقامت اور صحیح حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اوراکثر قلیل المیعاد اہداف کے پیش نظر طویل المیعاد ہدف سے غافل نہیں ہوتے۔ اگر ایک ایسی صورت حال ہو جس میں کسی ایسی قوت کے ساتھ شمولیت کرنے سے جو ماضی میں تلخ تجربات سے بھری پڑی ہے ، ہمیں فوری برتری نظر آتی تو جادۂ حق کو نہیں چھوڑتے اور طویل المیعاد ہدف کے حصول کے لیے فوری فوائد کو قربان کر دیتے ہیں اور دعوت کے نئے ذرائع کو استعمال میں لاتے ہیں ۔
جس صورت حال سے ملک عزیز گزر رہا ہے، اس میں اقامت دین کی جدو جہد کے راستوں میں کسی ایک تک اپنے آپ کو محدود کر لینا دینی حکمت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بانیٔ تحریک اسلامی نے ایسی ہی صورت حال میں جو بات ارشاد فرمائی تھی، اسے ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ دعوتی مراحل میں ایسا بھی ہوتا ہےکہ تحریک کے سامنے ایک چٹان حائل ہو جائے اور اس کے سفر کو روکنے کی کوشش کرے، لیکن تحریک کا کام حیات بخش دریا کی طرح ہونا چاہیے جو اپنے سامنے چٹان کو حائل دیکھ کر رُک نہ جائے بلکہ چٹان کے دائیں اور بائیں سے راستہ نکال کر منزل کی طرف گامزن ہو جائے ، اور چٹانیں منہ دیکھتی رہ جائیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ کی بندگی کی دعوت فرائض و واجبات کی پابندی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اللہ کے بندوں کی مشکلات کو دور کرنا اور حقوق العباد کا ادا کرنا بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن کریم ان افراد کو جو یتیم اور بے سہارا افراد کی خبر گیری سے لاپروا ہیں اور ایسے افراد کو بھی جو فرائض دین مثلاً نماز میں سستی کرتے ہیں اور دیگر کاموں کو بعض اوقات فوقیت دے دیتے ہیں، سرزنش کرتا ہے:
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۱ۭ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ۲ۙ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۳ۭ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۴ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۵ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ۶ۙ وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۷ۧ (الماعون۱۰۷: ۱-۷) تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ، اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں،جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔
آج معاشرے میں غربت ، بھوک ، بے روزگاری اور عدم تحفظ اپنی انتہا پر ہے ۔ آفاتِ سماوی کے نتیجے میں اللہ کے بے شمار بندے بے گھر ، کھلے آسمان کے نیچے پڑے کسی غیبی مدد کے منتظر ہیں۔ بعض اوقات فقر و فاقہ ایک فرد کو شرک کے قریب لے جاتا ہے۔ یہی وہ موقع ہے جس میں تحریک اسلامی کو ان مستحقین کی خدمت اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ان کی امداد کے لیے تمام ممکنہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔ اللہ کے بندوں کی امداد اور انھیں مصائب سے نکالنا تحریک اسلامی کی جدوجہد کی ایک اہم ترجیح ہونی چاہیے۔
ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ نفسا نفسی کا دور ہے۔ اس میں ہر فرد صرف اپنے مفاد کو اور اپنی ذات کو دیکھتا ہے ۔ یہ صورتِ حال صرف حکومت کے اہل کاروں سے نہیں بلکہ ہرشہری سے مطالبہ کرتی ہے کہ بے غرضی کے ساتھ خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے خلوص دل کے ساتھ استدعا کی جائے کہ وہ نہ صرف ہماری قربانیوں کو قبول کرے بلکہ لوگوں کے دلوں میں حق کی قبولیت کی صلاحیت پیدا کرے۔ بلاشبہہ اسی کی گرفت میں انسانوں کے دل و دماغ ہیں اور جب تک وہ نہ چاہے کوئی دعوت کامیاب نہیں ہو سکتی ۔
تحریک کے کرنے کے کاموں میں بنیادی چیز معاشرے کے افراد میں دعوتِ اسلامی کے بنیادی تصورات کے شعور کے ساتھ آج کے مسائل کا فہم اور انسانی مسائل کے حل کے لیے ایسے افراد کی تلاش ہے جو صاحب امانت ہوں، سچے ہوں ، وعدوں کو پورا کرنے والے ہوں ، جن کا کردار بے داغ ہو، جو خود کسی منصب کے اُمیدوار نہ ہوں اور اگر ا ن پر اعتماد کر کے انھیں ذمہ داری دی جائے تو وہ امانت کا حق ادا کرنے میں سب سے آگے ہوں۔ ان کا ہر لمحہ اللہ کی بندگی میں صرف ہو اور وہ دکھاوے اور دنیا وی فائدوں کے لیے کسی ضرورت مند کی امداد نہ کرتے ہوں ۔وہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ فکری اصلاح اور نظریاتی تربیت کو بنیادی اہمیت دیتے ہوں۔ یہی وہ صٰبِرُوْنَہیں جن کی یقینی کامیابی کا وعدہ ربِّ کریم نے فرمایا ہے اور جو سب سے زیادہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے ، وما علینا الاالبلاغ
قرآن کریم انسانوں کو سمجھانے کے لیے اکثر روز مرہ کی مثالوں کا استعمال کرتا ہے تاکہ ایک غیر تعلیم یافتہ شخص ہو یا اعلیٰ تعلیم یافتہ، وہ اس عظیم ہدایت کو نہ صرف سمجھے بلکہ اپنی نگاہوں اور عقل و فہم کا استعمال کرکے قرآن کریم کی تعلیمات کو بچشم سر خود دیکھ سکے ۔
قرآن کریم ایک بظاہر بنجر وادی کی مثال بیان فرماتا ہے، جہاں آس پاس کہیں بھی سبزہ نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہلکی سی بارش اس وادی کو سر سبز و شاداب کر دیتی ہے، اور وہ انسانی عقل جو کل تک اس وادی کے ویرانے کو حقیقت سمجھ رہی تھی، خود دیکھ سکتی ہے کہ وہاں ہر سمت سبزہ ہی سبزہ ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ہی سے کراچی تحریک اسلامی کی پہچان رہا ہے، اور جماعت اسلامی کے زیرانتظام بلدیاتی انتظامیہ کے اَدوار میں کراچی کے شہریوں نے دیکھا کہ تحریکی افراد کس طرح ایمان داری کے ساتھ عوام کی بہتری کے لیے شہر کا انتظام کر سکتے ہیں ۔ لیکن بہت سے اسباب سے خصوصاً شہرکراچی ایک دہشت گرد جماعت اور دوسری سیاسی مکر کی ماہر جماعت کے زیر اثر آجانے کے بعد سے جماعت اسلامی کے اثر اور مقبولیت میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی، اورا بلاغ عامہ نے خصوصاً اس تاثر کو گہرا کر دیا کہ ملکی سطح پر اب جماعت کا کوئی وجود نہیں ہے اور وہ جماعت جو دوحکمرانی کرنے والے ٹولوں کے بعد تیسری طاقت شمار ہوتی تھی ، اسے صحافت اور برقی ابلاغِ عامہ نے مکمل طور پر محو کر دیا۔
انھی حالات میں ربِّ کریم نے اپنے ابدی اصولوں کے پیش نظر ایک بار پھر قوم کو یہ دیکھنے کا موقع فراہم کیا کہ خلوص ، خوفِ الٰہی اور صبر و استقامت کو اختیار کیا جائے، تو جسے کل کمزور سمجھا گیا تھا اسے ربِّ کریم نے قوی کیا اور سرفراز کر دیا:
یاد کرو وہ وقت، جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا ، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا ، شائد کہ تم شکر گزار بنو۔ (الانفال۸:۲۶)
اس آیت مبارکہ کو اگر موجودہ حالات کے تناظر میں پڑھا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ ابھی ابھی نازل ہوئی ہے ۔
کراچی میں حالیہ کامیابی کے موقعے پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کل تک تحریکی کارکنوں سے گفتگو میں جو مایوسی اور نااُمیدی محسوس کی جا رہی تھی، ربِّ کریم نے انھی کارکنوں کے عزم ، ہمت ، جوش، اللہ پر توکّل او رخلوص کے ساتھ کی گئی کوششوں کو قبول فرمایا اور اپنی نصرت اور انتخابی کامیابی سے سرفراز کیا۔ کراچی میں تحریکی قیادت کو توفیق دی کہ وہ صحیح حکمت عملی وضع کرے اور کارکنوں کو حوصلہ دیا کہ وہ باد مخالف کا مقابلہ ایمانی اور عقابی روح کے ساتھ کریں اور کم تعداد اور محدود وسائل کے باوجود اپنے رب سے نصرت کے طالب رہیں ۔
سورۂ انفال میں ایک دوسرے مقام پر رب کریم فرماتے ہیں:
اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے۔(الانفال ۸:۶۴)
یہاں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اہل ایمان کی جدوجہد کو صبر و استقامت کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ ہم عموماً ’صبر‘ کا مفہوم ایک منفی زاویے سے اپنے آپ کو روکے رکھنے یا قابو میں رکھنے کا لیتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم اس اصطلاح کو وسیع معنی میں استعمال کرتا ہے ۔
یہاں پر خصوصاً ’صابرون‘سے مراد وہ مجاہدین ہیں، جو ربِّ کریم پر ایمان و اعتماد کے ساتھ اپنی جان اور مال بلکہ سارے وجود کے ساتھ نامساعد حالات سے ٹکرانے اور انھیں زیر کرنے کے لیے اپنی ساری قوت کو بروئے کار لانے والے ہوں ۔ یہاں ’صبر‘ سے مراد استقامت کے ساتھ جدوجہد کرنا اور ثابت قدمی سے جم جانا ہے اور ایک عزیمت کی مثال قائم کرنا ہے ۔ اس حوالے سے قرآن کریم ہمیں متوجہ کرتا ہے:
اےلوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو ، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اُمید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰)
یہاں تین بنیادی ہدایات انتہائی قابل غور ہیں:
کراچی کے انتخابات کے نتائج نے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے کہ جب بھی اللہ کی رضا کے لیے خلوص اور دعوتی غرض سے اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے حکمت عملی بنائی جائے گی ، کارکنوں کو مشاورت میں شامل کیا جائے گا، اور ا نھیں متحرک اور پُرامید کیا جائے گا، توربِّ کریم بھی اپنا وعدہ پورا فرمائیں گے۔غیبی نصرت ہر قدم پر مددگار ہوگی۔ لیکن یہاں پر سب سے بنیادی بات جو قرآن و سنت اور اسوئہ حسنہؐ سے معلوم ہوتی ہے ، وہ یہ ہے کہ جب کامیابی سامنے ہو تو فخر و تکبر کی جگہ عاجزی اور شکر کے ساتھ استغفار کرنا لازمی ہے۔ جدوجہد کتنے ہی خلوص سے ہو، ہدایات پر کتنی بھی شدت سے عمل کیا جائے، لیکن اس سب کے باوجود انسانی کاوش میں کہیں نہ کہیں کمی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے اور (اے نبیؐ) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ (النصر۱۱۰: ۱-۳)
کامیابی حاصل ہونے پر کامیابی دینے والے کا شکر نہ صرف واجب ہے بلکہ کامیابی کو برقرار رکھنے اور نئی حکمت عملی اختیار کرنا بھی واجب ہے ۔ اس حکمت عملی کا آغازربِّ کریم کے شکر و نفل کے اعتراف ، اس کی حمد و ذکر اور تسبیح میں اضافے کے ساتھ ، اس کے حضور عاجزی اور انکسار سے اپنی بندگی کا اظہار، اور اس کے بندوں کی خدمت میں مزید اضافے کی کوشش بھی فرض ہوجاتی ہے۔
کامیابی کے حصول کے ساتھ ضروری ہے کہ بلا تاخیر اس بات پر غور کیا جائے کہ کہاں پر تمام کوششوں کے باوجود کیا کمزوری رہ گئی، جس کی وجہ سے مکمل ہدف حاصل نہ ہوسکا۔ تجزیے اور احتسابِ نفس کی ضرورت ہے، نیز اپنا اور اپنے تمام اقدامات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ جن مسائل اور اُمور کو بنیاد بنا کر مہم چلائی گئی، ان اُمور کے ماہرین کو جمع کر کے حد سے حد ایک ماہ میں ایسا منصوبہ بنایا جائے، جو قابلِ عمل ہو اور کم سے کم وقت میں نافذ کیا جاسکے ۔ جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان کی تکمیل میں جو رکاوٹیں ہیں، ان سے عوام کو مکمل طور باخبر رکھا جائے اور ان کے مشوروں کو بھی شامل کیا جائے۔
جن حضرات نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے، ان سے فرداً فرداً رابطہ قائم کیا جائے اور انھیں مشاورت میں شامل کیا جائے۔ جن حضرات نے تحریک پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ،انھیں تحریکی لٹریچر فراہم کیا جائے اور علمی و فکری مجالس کا انتظام کیا جائے۔ہر یونین کونسل میں صاحب الرائے حضرات سے الگ الگ مل کر ان کی تجاویز کو یکجا کیا جائے اور ان تجاویز پر غور کیا جائے ۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی صفات میں عہد، عقد اور وعدے کو پورا کرنے پر بہت متوجہ فرماتے ہیں۔ عوامی مہم میں عوام سے جو وعدے کیے گئے ہیں، انھیں بہ تدریج پورا کرنے کی کوشش کی جائے اور ان کے پورے ہونے کے مدارج سے عوام کو مطلع رکھا جائے۔
اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ صوبہ سندھ میں جاگیردارانہ سوچ کی حامل برس ہا برس سے حکمران پارٹی، جوڑ توڑ یا ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے شب خون مارنے کی کوشش کرے، لیکن ایسے تمام منفی ہتھکنڈوں کا جواب صبر، حکمت اور اعتدال سے دینا ہوگا۔ معمولی سی بھی بے اعتدالی مخالف سیاسی قوت کے شرپسندانہ اقدامات کے لیے دروازے کھول دیا کرتی ہے۔
اس بات کو کون بھول سکتا ہے کہ ۱۹۸۶ء سے لے کر آج تک کراچی میں تحریک ِ اسلامی کے جوانوں اور بزرگوں نے اپنے مستقبل، اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی دے کر حق و صداقت کا پرچم بلند رکھا۔ بُرے سے بُرے حالات میں بھی اور جبروتشدد کے بدترین دور میں بھی ثابت قدمی، خیرخواہی اور اسلامی اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑا۔ ایک ایک دن میں تین تین کارکنوں کے جنازے اُٹھائے لیکن اشتعال کے بجائے، اللہ کریم ہی سے صبر،مدد اور سہارا مانگا۔ یہ تمام شہدا اور ان کے پسماندگان اس کامیابی کے وارث ہیں اور تحریک اسلامی کے کارکن ان قربانیوں کے امین ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق دے۔ اسی کی توفیق سے ایک کمزور بندہ کامیابی تک پہنچتا ہے اور اسی کےکرم اور رزاقی سے ہمیں رزق ملتا ہے، جس سے ہمارا وجود وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تحریک کو مزید کامیابیوں سے نوازے۔
پاکستان کو آج جن اند رونی خطرات کا سامنا ہے، ان میں سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی، حکومت اور عوام کے درمیان عدم اعتماد، حکومتی اداروں کے احترام کا اُٹھ جانا، حتیٰ کہ فوج کے احترام میں نمایاں کمی کے ساتھ ساتھ جرائم، خصوصاً خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے دل خراش واقعات میں اضافہ شامل ہیں۔ یہ صورتِ حال ہر باشعور فرد کے لیے سخت تشویش کا باعث ہے۔
سیاسی جماعتوں کی باہمی الزام تراشیاں اور عدلیہ کے بعض فیصلوں کی بنا پر عدلیہ کی غیرجانب داری کا مشتبہ ہوجانا بھی قومی زندگی کا نہایت تشویش ناک پہلو ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ وہ دستوری ادارے بھی، جن کی طرف اُمید سے دیکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ کم از کم وہاں سے انصاف کا حصول ممکن ہو سکے گا، اب کھلی عوامی تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں ۔
ان حالات میں ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوسی اور پڑھے لکھے، ہنرمند نوجوانوں کی ملک سے باہر نقل مکانی میں اضافہ ، اس تشویش میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ا بلاغ عامہ چاہے وہ اخبارات ہوں، ٹی وی چینل ہو ں، یا سوشل میڈیا یا اور کوئی ذریعۂ معلومات ، ہر جگہ مایوس کن تبصروں کی بھرمار ہے ۔ نتیجتاًمعاشرہ ایک شدید تقسیم در تقسیم (polarization ) اور ذہنی و فکری ہم آہنگی سے محرومی کا شکار ہو چکا ہے۔ اور نہ صرف سیاسی گروہوں کے درمیان بلکہ گھروں کے اندر بھی ایک واضح اختلافی تقسیم نظر آرہی ہے۔اگر یہ غیرصحت مندانہ تقسیم اسی طرح بڑھتی رہی تو یہ حالات کو انتہائی نقصان دہ حد تک بلکہ ٹکراؤکی طرف لے جا سکتی ہے جو ملکی یک جہتی اور اتحاد کے لیے تباہ کن ہوگا۔
مایوسی کی گھٹاؤں میں امید کی کرن کی تلاش پاکستان، خصوصاً نظریۂ پاکستان سے وفاداری کا تقاضا ہے۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر محض برطانوی سامراج سے نجات پانے والے ایک ملک کے طور پر نہیں قائم ہوا، بلکہ انسانی تاریخ میں ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں آیا ہے۔ جہاں اسلام کے عالم گیر اخلاقی، سیاسی ،معاشی، معاشرتی ،عدالتی اور انتظامی اصولوں کو نافذ کرکے دنیا کے سامنے ایک متبادل نظریۂ حیات کے طور پر پیش کیے جانے کا خواب دیکھا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ عالمی کردار روزِ اوّل سے بانیان پاکستان کے سامنے واضح تھا اور قائد اعظم محمدعلی جناح ، قائدملت لیاقت علی خاں اور علّامہ اقبال کے درمیان اس امر پر مکمل اتفاق پایا جاتا تھا۔
لیکن قیام پاکستان سے ۹سال قبل علّامہ اقبال کی رحلت اور قیام پاکستان کے ایک سال بعد قائداعظم کے انتقال کے نتیجے میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی، اس میں بعض اندرونی قوتوں نے اقبال، قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کے متفقہ تصور کو نظر انداز کرتے ہوئے جو حکمت عملی اور طرزِ عمل اختیار کیا، وہ ملکی سالمیت اور استحکام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔چنانچہ قیامِ پاکستان کے ۲۴برس بعد ملک کے ایک بڑے حصے کا جدا ہو جانا اسی انحرافی طرزِعمل کا فطری نتیجہ تھا۔ آج معاشرتی انتشار، سیاسی عدم استحکام ،معاشی زبوں حالی ،ثقافتی انتشار ،فکری پراگندگی، عدلیہ، فوج اور انتظامیہ کے عدم احترام کا پایا جا نا جس تشویش کن صورت حال کو پیش کر رہا ہے ، اس سنگین صورت حال کے پیدا ہونے میں تمام غیراخلاقی عناصر کا دخل ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان تمام مسائل کا سبب انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک اخلاقی بحران (Ethical Crisis) ہے جس کا آغاز ۱۹۵۰ءکے عشرے میں ہو گیا تھا۔یہاں ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کی اصلاح نہیں ہوتی، معاشی ،سیاسی اور دفاعی خدشات اور خطرات کو دُور نہیں کیا جاسکتا۔
آج عوام الناس کے بعض طبقوں میں دین سے دُوری اور لاعلمی اور فحاشی کا رجحان، تاجرپیشہ طبقے کی مفاد پرستی، نوکرشاہی کی فرائض سے لاپروائی اور اداروں کے باہمی عدم تعاون، حتیٰ کہ ملک کی پاسبان افواج پاکستان کے وقار میں روز بہ روز کمی سمیت دیگر ہو ش ربامسائل کی کوئی ایک بنیادی وجہ تلاش کی جائے، تو وہ صرف اور صرف اسلام کے اخلاقی اصولوں سے انحراف اور دُوری ہے۔
اقوام کی ترقی محض مادی وسائل کے پیدا کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی قوت ِاخلاق ان کے عروج یا زوال کی بنیاد بنتی ہے ۔مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرہ اور ریاست کا قیام کسی جبر اور آمرانہ طرزِحکومت یا صنعتی انقلاب کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ اس کی اخلاقی برتری ہی اس کی معاشی اور سیاسی کامیابی کی بنیاد بنی۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبت ، رحمت ، رواداری، عفو ودرگزر کے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغض و عناد سے بھرے دلوں کو رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ میں جس کامیابی کے ذریعے تبدیل کیا، وہ صرف اور صرف عمل صالح ، صدق ، امانت اور دیانت کی وہ چلتی پھرتی مثال تھی، جسے دیکھ کر پتھر دل افراد بھی موم کی طرح نرم ہو کر ایک نئے معاشرے اور ریاست کے معمار بن گئے ۔
پاکستان کےباشعور افراد اور خصوصاً تحریک اسلامی کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے کہ ایسے حالات میں جب سیاسی گروہوں میں شدید دُوری پائی جاتی ہے،ملکی معیشت اور معاشرت ، عدم استحکام کا شکار ہے ، آگے بڑھ کر جہاں کہیں اسے اختیار حاصل ہے، ایسی عملی مثالیں قائم کرے جن کو دیکھ کر ایک عام فردکو اسلام کی عملیت اور معاشرتی مسائل کی اصلاح کرنے کی صلا حیت پر مکمل یقین اور اعتماد ہو جائے ، نیز اسلام کے عملی نمونے کو دیکھ کر اس کا دل سکون اور اطمینان سے بھر جائے۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ مقامی سطح پر کونسلوں کے دائرۂ کار میں جو سماجی اور معاشرتی فلاح کے کام آتے ہیں، انھیں امانت اور دیانت کے ساتھ ہاتھ میں لے کر منتخب کردہ علاقوں ، شہروں اور دیہات پر توجہ مرکوز کی جائے اور ۲۵برس پہلے والی ترکی کی اصلاح پسند سیاسی حکمت عملی کے نقشے کو ملکی یا مقامی حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے رُوبہ عمل لایا جائے ۔ یہ کام جتنے خلوص و قربانی اور بے لوثی سے ہوگا، اتنا ہی اس کا نتیجہ مثبت اور کامیاب نکلے گا ۔
دوسرا بنیادی کام پاکستان کی نوجوان آبادی کو معاشرتی فلاح کے کاموں میں رضاکارانہ طور پر شامل کرکے ان کی بے پناہ قوت کا تعمیری استعمال ہے۔ہمارے نوجوانوں میں نہ صلاحیت کی کمی ہے اور نہ قیادت میں وہ کسی سے پیچھے ہیں۔ صرف انھیں صحیح سمت، مقصد حیات اور تنظیم کے ذریعے منتشر اعضا کی جگہ ایک صحت مند جسم میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک ِ اسلامی کے مختلف اداروں اور اس سے وابستہ لوگوں نے اس سلسلے میں جو روشن مثالیں پیش کی ہیں، انھیں وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری ترجیح طویل المیعاد نوجوان قیادت کی تیاری ہونی چاہیے، جو فلاحی کاموں میں شامل ہو کر عملی تربیت سے ہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ یہ کام محض تقریری محفلوں سے نہیں ہوسکتا۔ الخدمت کے ماڈل پر بے شمار ایسے پراجیکٹ متعارف کرائے جا سکتے ہیں، جو نوجوانوں کو صحیح سمت اور تربیت فراہم کر سکیں۔ایک چھوٹی سی مثال مقامی سطح پر صحت مند ماحول پیدا کرنے کے لیے صفائی کی مہم ہے۔چاہے شہر بڑے ہوں یاچھوٹے، ہر گلی کوچہ کوڑا کرکٹ اور غلاظت اور تعفن سے بھرا پڑا ہے۔اگر نوجوان رضاکار اپنی تحریکی پہچان کے ساتھ صرف اس ایک کام کو ایک متعین مدت میں مکمل کرانے کے لیے معاشرے ہی سے مدد لے کر کام کریں، تو ہر شہری اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا کہ کسی مالی معاونت اور کسی بڑے ادارے کو بھاری ٹھیکہ دیے بغیر کس طرح صالح نوجوان اپنی مدد آپ کے اصولوںپر عمل پیرا ہو کر گندگی اور غلاظت کو دُور کر کے ایک صاف ستھرے ماحول کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں۔ اس طرح اشیا کی آلایشوں سے صاف معاشرہ، فکری آلایشوں سے صفائی کے لیے بھی تیار ہوسکتا ہے۔ اس معاشرے کو خوب صورت گلستان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
ملکی معیشت اور سیاسی عدم استحکام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات ذہن سے نہیں اوجھل ہونی چاہیے کہ ملکی حالات میں بنیادی طور پر خاندان کا اثر سب سے گہراہوتا ہےاور آج مغرب کی اندھی پیروی سے ہمارے خاندان کو سب سے زیادہ توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب نوبت یہ آگئی ہے کہ خاندان کے بنیادی تصور کو نوجوان نسل کے سامنے صرف اور صرف حصولِ لذت کے ایک آزادانہ تصور سے تبدیل کیا جا رہا ہے کہ انسان جو اصل میں ایک اخلاقی وجود رکھتا ہے،اور اس بنا پر حیوانات سے ممتاز ہے،اس کی ایک نئی تعبیر ایسی پیش کی جا رہی ہے، جو حیوانات کی دنیا میں بھی اجنبی ہے۔
حیوانات میں بھی بعض حیوانات اپنی جنسی عادات کی بناپر مہذب معاشروں میں ایسے الفاظ سے بیان کیے جاتے ہیں جو ان کی عادات کی طرف اشارہ کرتے ہیں،اور ان کے جنسی تعلق کو براہِ راست بیان کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے ۔اُردو ادب کے اندر’ جنگل والا‘ اور بازاری کتے اور کتیا جیسے الفاظ استعاراً اس جنسی بے راہ روی کو محتاط الفاظ میں بیان کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ان حیوانات کی جنسی بے راہ روی نے انھیں یہ نام دلوائے۔آج اس طرز کے جنسی تعلق کو ’انسانی حقوق‘کے نام پر ہمارا ابلاغِ عامہ ،پارلیمنٹ، حتیٰ کہ عدالتیں بھی تسلیم کر رہی ہیں، جسے حیوانات بھی ’حیوانی حقوق‘ کہتے ہوئے شرمائیں ۔
ان حالات میں ہر شہر ، بستی اور گاؤں میں خاندانی نظام کی اہمیت، نیز اس کی تعمیر، اصلاحی اور اخلاقی پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاندانی نظام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مساجد ، بازاروں ، اسکولوں اور دیگر سماجی میل جول کے فورموں کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔بلکہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کو روکنے کے لیے محلے کی سطح پر ایسے فیملی کونسلرز کا رضاکارانہ نظام بھی وضع کیا جاسکتا ہے، جہاں اجتماعی طور پر خاندانوں میں مفاہمت اور ٹوٹتے رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کی جائے ۔
ابھی حال ہی میں ملک کی ایک یونی ورسٹی نے چار، چا رماہ کے ایک آن لائن کورس کے ذریعے، کئی سو شرکاء جن میں خواتین کی اکثریت تھی،کو تربیت دی کہ وہ کس طرح خاندان کو اکیسویں صدی میں انتشار سے نکال کر موّدت و رحمت کا مرکز بنا سکتے ہیں۔
اختلاف کرنا اور کسی معاملے میں دلائل کی بنا پر ایک رائے قائم کرنا اور اسے پیش کرنا قرآن کریم کا دیا ہوا ایک حق ہے ، اسی کا نام ’شوریٰ‘ ہے، لیکن شوریٰ اور مشاورت میں ادب اور اعتدال کا پایا جانا شرط ہے۔ یہ ملکی سیاسی معاملات ہوں یا معاشی اور دفاعی حکمت عملی، کسی بھی موقع پر دلیل کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرنا ایک دستوری حق ہے ،لیکن جس کسی کو اس رائے سے اختلاف ہو، اس کا نام بگاڑنا، اس پر استہزا کرنا ،اسے تمسخر اور عوام کی نگاہ میں کمتر انسان کے طور پر پیش کرنا نہ قرآن و سنت نے مباح کیا ہے اور نہ کسی بھی مہذب معاشرے میں اسے گوارا کیا جا سکتا ہے ۔لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آج ان حضرات میں سے بھی کچھ (جن کی طرف لوگ قرآن و سنت کے فہم کے حصول کی نیت سے دیکھتے ہیں) کا سیاسی لہجہ قرآن کے اصولوں کی ضد بن گیا ہے، اور قرآن نے سورۃ الحجرات میں جن آدابِ گفتگو کا درس دیا ہے،ہم ان سے بہت دُور چلے گئے ہیں۔
اسلام اصلاحِ معاشرہ کے لیے امید ،تعاون باہمی اور حق و انصاف کو بنیاد بنا تا ہے اور ہرمشرک کو ایک ممکنہ مومن کے طور پر مخاطب کرکے اسلام سے قریب لانے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن شرک کا شدید ترین رد ّ دلیل کی بنیاد پر کرتا ہے، لیکن مشرکوں کے خداؤں تک کو بُرے نام سے یاد کرنے سے منع کرتا ہے۔چنانچہ کسی سیاسی حریف کو ایسے القاب سے یاد کرنا جو اسے دُور لے جانے والے ہو ں ، ایک غیراسلامی اور غیراخلاقی حرکت ہے۔
تحریک اسلامی کا فرض ہے کہ وہ ایسی مثبت، سنجیدہ اور باوقار زبان استعمال کرے جو مخالف کو بھی حق کی بنا پر اپنی رائے پر غور کرنے اور حق کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دے۔ یہ رحمۃ للعالمینؐ کی شیریں بیانی تھی جس نے کفروفسق میں ڈوبے افراد کو سہارا دے کر گمراہی سے نکال کر نور حق تک پہنچنے میں مدد فراہم کی۔ اسی اخلاق اور اسی سیرت کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے جو دلوں کو جوڑ دے اور اُمت مسلمہ کو ایک بنیانِ مرصوص میں تبدیل کر دے ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا
قومی و بین الاقوامی حالات کو دیکھتے ہوئے مملکت خداداد پاکستان کے لیے ایک قومی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میںہمیں اندرورنی و بیرونی سطح پر جو مسائل درپیش ہیں ان کا مختصراً جائزہ پیش ہے:
یہ مالیاتی بحران شروع تو ستمبر ۲۰۰۷ء میں ہوا لیکن بڑھتے بڑھتے آج ۲۰۲۲ء کے اختتام پر دُور دُور تک بحالی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس مالیاتی بحران نے معیشت کے دوسرے شعبہ جات کو بھی متاثر کیا ہے اور اب یہ ایک کثیر الجہتی معاشی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ بحران جو بنیادی طور پر نجی شعبے( بنکنگ، پراپرٹی، رئیل اسٹیٹ وغیرہ ) میں پیدا ہوا تھا، رفتہ رفتہ دوسرے شعبوں تک بھی پھیل گیا اور پیداوار، تجارت، عوامی قرضوں، روزگار، اور بجٹ خسارے وغیرہ پر بھی اس کے منفی اثرات مسلط ہوچکے ہیں۔ موجودہ نظام کو بچانے کے لیے ان حالات میں حکومتوں نے سرمایہ داروں کو جو معاشی سہارے (پیکج) دیے ہیں، انھوں نے اس سرمایہ داری نظام کے اندر ریاست کے کردار پر ہی سوال اٹھا دیے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بڑھتے بڑھتے قومی سطح پر معاشی بحرانوں کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ آج اس معاشی فساد سے کوئی یورپی ملک بھی محفوظ نہیں ہے۔ بے چینی اور اضطراب بڑھتا جارہا ہے۔ دنیا کو اب احساس ہو رہا ہے کہ یہ معاشی بحران، تہذیبی بحران میں بدل کر ہماری اخلاقی، سیاسی، انتظامی، اور اداراتی کمزوریوں کو سامنے لانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
اس عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو بین الاقوامی سطح پر معاشی طاقت کا توازن بھی بدلتا جارہا ہے، جس میں ایشیائی اور لاطینی امریکی ممالک کا کردار مزید اہم ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک بھی اپنے مسائل کے باوجود اس صورتِ حال میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یعنی پہلے جو بوجھ تھے وہ اب مضبوطی اور استقامت کی مثال سمجھے جا رہے ہیں۔ چین، جاپان، برازیل، بھارت، اور ترکیہ مستقبل کے اہم کھلاڑیوں کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ تو ہوا اس صورتِ حال کا ایک پہلو۔
دوسرا پہلو جو ’بہار عرب‘ سے شروع ہوا تھا، اس نے یہ تصور اور گہرا کر دیا ہے کہ ساری دنیا تبدیلی کی بات کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں عوام اب اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے عوام ہی اس کی اصل طاقت ہوتے ہیں لیکن ماضی میں عوام کو اس حق سے محروم رکھا گیا اور اب وہ اس نظام میں تبدیلی کےخواہاں ہیں۔ خود نظریاتی میدان میں بھی اس سارے عمل کا ایک غیر متوقع نتیجہ برآمد ہوا ہے۔
اسلامی دنیا میں جب بھی کوئی حقیقی جمہوری عمل شروع ہوا ہے تو اس کے نتیجے میں مذہب خصوصاً اسلام کا رسوخ ہمیشہ بڑھا ہے۔ اس ضمن میں مجھے دو مغربی مفکرین کی رائے بڑی دانش مندانہ نظر آتی ہے، اگرچہ ان کا سیاق و سباق اور مقاصد مختلف ہیں۔ ولفریڈ کینٹ ویل سمتھ نے اپنی دو کتابوںاسلام تاریخِ جدید کے آئینے میں اور پاکستان بطور اسلامی ریاست میں کہا ہے کہ پاکستان یا دوسرے مسلم ممالک میں جب بھی جمہوری عمل مضبوط ہوگا، تو وہ اپنے ساتھ مذہبیت (اسلامائزیشن) ضرور لے کر آئے گا۔
۶۰ کے عشرے میں کی جانے والی اپنی تقریروں میں ڈاکٹر ہنری کسنجر نے بھی خوف میں لپٹے انھی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ عرب میں جمہوریت آنے سے اسلام کا سیاسی کردار مزید مضبوط ہو گا جو مغرب اور اس کے مفادات کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے خدشات کے زیر اثر اس نے عرب ریاستوں کو مزید تقسیم کرنے اور یہاں نسلی و فرقہ وارانہ تحریکوں کو مضبوط تر کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔ کسنجر کے خیال میں یہ حکمت عملی اسرائیل کے دفاع میں بھی کام آ سکتی ہے۔ کردوں، عربوں، ایرانیوں، اور ترکوں کے درمیان نسلی و فرقہ وارانہ تحریکوں کی حوصلہ افزائی اسی حکمت عملی کا ایک پہلو تھی۔ یہی کھیل اب عراق، افغانستان، پاکستان، ترکیہ اور عرب دنیا میں کھیلا جا رہا ہے۔ اپنے ملک کے لیے آیندہ کی حکمت عملی بناتے ہوئے عالمی منظر نامے کے ان پہلوؤں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
اس سلسلے میں ہمیں جو فوری چیلنج درپیش ہے وہ اگست ۲۰۲۱ء میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد کی صورتِ حال کے حوالے سے ہے۔ اس مسئلے سے پہلو بچانا ہمارے لیے ممکن نہیں ، لیکن پھر بھی حالات جس طرف بڑھ رہے ہیں وہ انتہائی غیرمتوازن راستہ ہے۔ یہی معاملہ ایران، اسرائیل اور امریکا کے تعلقات کا ہے، جن میں کوئی بھی خرابی مشرق وسطیٰ کے لیے شدید خطرات کا باعث بنے گی۔ ان حالات سے آنکھیں چرانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ عالمی سطح پر امریکا اب چین کو اپنے مدِمقابل سے بھی زیادہ تصور کر رہا ہے، اور ایک نئے اقتدار کی جنگ کی طرف جارہا ہے، جس میں امریکا،چین کی قوت کو للکارنے کی راہ پر چلے گا۔
نائن الیون کے افسوس ناک واقعے اور اس کے بعد پاکستانی قیادت کے امریکا کے سامنے غیر مشروط طور پر سرنگوں ہو جانے سے نہ صرف پاکستان اور امریکا کے تعلقات بُری طرح متاثر ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کی خودمختاری پر بھی سوال اٹھے اور ہمیں شدید جانی و مالی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے۔ پاک۔بھارت تعلقات میں بھی کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں، جو پوری کی پوری بھارت کے مفاد میں گئی ہیں۔ ہمارے بنیادی مسائل یعنی مسئلۂ کشمیر اور مسئلۂ آب نظر انداز ہوگئے۔ ان مسائل کے لیے غیر روایتی حل بھی پیش کیے گئے لیکن وہ سب فریب ثابت ہوئے۔ مختصر یہ کہ پاکستان کو سیاست، معیشت، امن و امان، قومی یکجہتی، ثقافت اور نظریاتی سطح پر غرضیکہ ہرشعبے میں نقصان اٹھانا پڑا۔
۲۰۰۸ء کے انتخابات تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہو سکتے تھے۔ آغاز میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کو امید کی راہ دکھائی تھی، لیکن رفتہ رفتہ یہ امیدیں دم توڑ گئیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس نیم جمہوری دور میں زیادہ وقت حکومت اور اپوزیشن کے باہم جنگ و جدل اور فوج کی مداخلت نے پورا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ ہی ہلا کر رکھ دیا۔ اس صورتِ حال میں جس دانش مندی، دُوراندیشی اور صلاحیت کی ضرورت تھی، افسوس کہ فوجی اور سیاسی قیادت، دونوں نے عوام کو بُری طرح مایوس کیا۔
ان دو اَدوار میں ہونے والے واقعات کا نتیجہ اس بحران کی شکل میں برآمد ہوا ہے، جس سے آج ہمارا ملک گزر رہا ہے۔ موجودہ پارلیمان کی مدت ختم ہو رہی ہے اور نئے انتخابات کا شہرہ ہے۔ اس ملکی بحران کی نوعیت اور گہرائی کیا ہے؟ اس ضمن میںکچھ باتیں عرض ہیں:
اس ضمن میں صرف اعلیٰ عدلیہ کو کچھ استثنا حاصل ہے۔ میڈیا نے کچھ مثبت کردار ادا کیا ہے لیکن اس کا دائرہ بڑا محدود اور انتشار کا شکار ہے۔ فوج کو روایتی طور پر عوامی اعتماد حاصل رہا ہے لیکن اب ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شمولیت اور سول ، سیاسی اور انتظامی اداروں میں خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے دخل اندازی کے بعد یہ ادارہ بھی بُری طرح متنازع ہو چکا ہے۔ جواز کا یہ بحران انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اگلے انتخابات جلداز جلد اور مکمل طور پر شفاف ہوں۔ لوگوں کا اعتماد رکھنے والی ایک نئی سیاسی قیادت ہی اس ملک کو کسی مثبت سمت میں لے جا سکتی ہے۔
اس معاملے میں امریکی کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کی طرح عسکری قیادت بھی امریکی اشاروں پر چلتی ہے۔ لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ ہماری کوئی بھی پالیسی خالصتاً پاکستانی مفاد میں نہیں بنائی جاتی۔ چنانچہ اس طرح دیانت کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ متذکرہ بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں خوب غور و فکر کے بعد ایک سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو سیاسی قیادت میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک نئے تصورات رکھنے والی اور پاکستانی مفاد کو مدنظر رکھ کر اپنی پالیسیاں تشکیل دینے والی ایک نئی قیادت سامنے نہیں آجاتی، ہمارا اس بحران سے نکلنا مشکل ہے۔
اس وقت سیاسی منظرنامہ پر تاریکی چھائی نظر آتی ہے لیکن کچھ پہلو اُمیدافزا بھی ہیں۔ تمام بڑے آئینی ادارے اگرچہ عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں لیکن کم از کم چل تو رہے ہیں اور ان کی بساط میدان میں موجود ہے۔
اسی طرح اعلیٰ عدلیہ کے معاملے میں بھی کچھ مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔اب اگرچہ عدلیہ آزاد ہو چکی ہے لیکن حکومت اور اس کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ بہت سے عدالتی فیصلوں پر عمل نہیں ہوپاتا۔کچھ ایسے فیصلے ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت اور عدالتوں کے درمیان کوئی رسہ کشی چل رہی ہے۔ یہ ہمارے مستقبل کے لیے نیک شگون نہیںہے۔ حکومت، قانونی تقاضے پورے کرنے اور آئین کے اندر رہتے ہوئے ڈلیور کرنے میں ناکام ہو جائے تو عدالتی فعالیت (Judicial Activism) ضروری ہو جاتی ہے۔ عدلیہ کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی نا اہلی سے پیدا ہونے والے عوامی مسائل کے حل کی کوشش بھی کرنا پڑتی ہے۔ ان معاملات میں آئینی طور پر عدلیہ کو انسانی حقوق کی پاسبانی کا منصب دیا گیا ہے اور عدالتیں اس ذمہ داری کو اداکرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ معمول کی بات نہیں ہے بلکہ ملکی صورتِ حال میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔
دوسری طرف عدالتی ضبط و تحمل (Judicial Restraint) بھی اتنا ہی اہم ہے جتنی کہ عدالتی فعالیت اور ان دونوں کے درمیان ایک توازن پیدا کرنا ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں ۱۹۷۳ء کے آئین میں دیا گیا بنیادی حقوق اور عدالت عظمیٰ کے ان کا پاسبان ہونے کا سارا تصور بڑا اہم ہے۔ اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ اگر غلط حکومتی اقدامات کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے تو ان حقوق کی پاسبان ہونے کے ناطے یہ عدالت عظمیٰ ( صرف عدالت عظمیٰ) کا فرض ہے کہ وہ آگے آئے اور اپنا کردار ادا کرے۔ اس طرح ایک سیاسی مسئلہ بھی بنیادی حقوق کا مسئلہ بن سکتا ہے، اور جب ایسا ہوتا ہے تو یہ عدالت عظمیٰ کی عملداری میں آ جاتا ہے۔ آج سپریم کورٹ بار بار اپنا یہ حق استعمال کر رہی ہے کیونکہ حکومتیں اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس عدالتی فعالیت کے اگرچہ مثبت پہلو بھی ہیں، لیکن اگر یہ سب یونہی چلتا رہا تو مستقبل میںاداروں کے درمیان توازن بگڑنے کااندیشہ ہے۔ یہاں سے بات اچھی حکومت اور اچھے انتظام پر آ جاتی ہے۔ عدالتیں حکومت یا اس کے ذیلی اداروں کاکام نہیں کر سکتیں۔ یہ صرف نظام کے اندر رہتے ہوئے ہدایات دے سکتی ہیں، اور لاقانونیت کے خلاف تحفظ مہیا کر سکتی ہیں، حکومت کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔
تیسرا مثبت پہلو صحافتی آزادی اور میڈیا کا بڑھتا ہوا کردار ہے۔ ذرائع معلومات کے علاوہ میڈیا ایک ایسے پلیٹ فارم کا کردار بھی ادا کر رہا ہے، جس پر بحث و مباحث کے ذریعے پالیسی ساز اداروں پر کوئی اثر ڈالا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عوامی و سیاسی حلقوں میںشفافیت کو فروغ دینے میں بھی میڈیا کا ایک کردار ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ شعبہ بھی مفادپرستوں، زرپرستوں اور انتشار پسندوں کی دست برد سے محفوظ نہیں اور مختلف مقامی و بین الاقوامی لابیوں ، ثقافتی گروہوں، سیاسی دھڑوں اور طاقت ور اشرافیہ نے اسے بھی اپنے مقاصد پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس ضمن میں اشتہاروں کا لالچ بھی دیا جاتا ہے۔ ان کمزوریوں ، کوتاہیوں کے باوجود ایک آزاد میڈیا ملکی مفاد میں ہے، اور اس ضمن میں جو بھی بہتری ہوئی ہے اسے مثبت ہی سمجھنا چاہیے۔
اہلیت اور دیانت اہم ہیں، لیکن صرف یہ دو خوبیاں کافی نہیں ہیں۔ اچھی گورننس کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر قیادت اور ادارے ڈلیور کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو اچھی گورننس کی امید رکھنا عبث ہے۔ اور جب صلاحیت کا یہ فقدان بدعنوانی کے ساتھ مل جائے تو بیڑا غرق سمجھیے۔ وطن عزیز میں گورننس کی ناکامی کی بہت سی وجوہ تلاش کی جا سکتی ہیں، مثلاً اہلیت، صلاحیت اور شفافیت کا فقدان، قانون کی عملداری نہ ہونا، میرٹ اور اصول و ضوابط کو نظرانداز کیا جانا، طاقت کا غلط استعمال اور دولت کی ہوس۔ کچھ قواعد و ضوابط یقیناً غلط ہو سکتے ہیں، لیکن اگر وہ قانونی طور پر موجود ہیں تو ان کا احترام بہرحال فرض ہے۔ اگر کھلے عام بار بار قانون کی خلاف ورزی کی جائے گی تو اچھی گورننس کی امید کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ یہ اسی بدعنوانی اور نااہلی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں اچھی حکمرانی کی اُمید تقریباً ختم ہو چکی ہے اور یہ معاملہ پورے ملک کا ہے۔ اگر ہم کسی حقیقی تبدیلی کے امیدوار ہیں تو اس نا اہلی اور بدعنوانی کے خلاف سختی سے کارروائی کرنی ہوگی۔
میں نا اہلی اور بدعنوانی کو جڑواں برائیاں سمجھتا ہوں کیونکہ میرے خیال میں بدعنوانی کو اہلیت کے بالکل الٹ سمجھنا چاہیے، بلکہ اسے اہلیت و صلاحیت کی تباہی کا نسخہ سمجھنا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی بدعنوانی کی ایک نہایت کریہہ شکل ہے، لیکن بدعنوانی کو صرف مالی بے ضابطگی تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے۔ طاقت کا ہر غلط اور بے جا استعمال بھی بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ بد عنوانی پورے ریاستی ڈھانچے کی تباہی کا باعث بنتی ہے اور کسی مؤثر قیادت کے ابھرنے کی ہر امید کو مسدود کردیتی ہے۔
چنانچہ اس لعنت کو اس کی جڑ (صلاحیت و دیانت کے فقدان) اور اس کے پھیلاؤ (لاقانونیت، اور بے ضابطگی) دونوں سطح پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ایک ملک گیر سخت قسم کی مہم، پہلے مرحلے میں بدعنوانی میں کمی اور پھر رفتہ رفتہ اس کے مکمل خاتمے کا باعث ہو سکتی ہے۔ آیندہ قومی حکمت عملی میں اس پہلو کو بنیادی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو جو مدنظر رہنا چاہیے وہ ہے ساکھ کا بحران۔ اہلیت یا ساکھ بنیادی طور پر ایک اخلاقی معاملہ ہے اور آدمی کے قول و عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ معاملہ ریاستی انتظام کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتا ہے کیونکہ بہرحال ریاست کا انتظام افراد کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔
درج بالا مسائل اس وقت پاکستان کے لیے اہم ترین ہیں، لیکن ہمارا تجزیہ صرف انھی تک محدود نہیں رہنا چاہیے کیونکہ کچھ اور اہم مسئلے بھی ہماری توجہ کے متقاضی ہیں:
موجودہ دور میں کئی مغربی مفکرین بھی اس بات کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ کسی بھی مسلم معاشرے کے لیے اس کا مذہب یعنی اسلام ایک جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اسلام کو نظر انداز کر کے یا بگاڑ کر، معاشرے میں اندرونی و بیرونی امن کی امید رکھنا عبث ہے۔ سیکولر لابی یا مفاد پرست طبقہ جو بھی کہے، اس حقیقت کا ادراک کرنا ضروری ہے کہ اسلام ہی ہماری شناخت کی بنیاد ہے اور اگر اس بنیاد کو متزلزل کر دیا جائے تو عوام اور حکمران کبھی ایک صفحے پر نہیں آسکیں گے۔ چنانچہ یہ سمجھا جا سکتاہے کہ ایک ایسا ملک جو اندر سے ہی بے چینی کا شکار ہو، اچھی حکمرانی کی اُمید کیونکر ہو سکتا ہے؟
معیشت کو جس طرح چلایا جا رہا ہے، اسے نا اہلی اور بد انتظامی کی بلندی کی آخری چوٹی ہی سمجھنا چاہیے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت، اندرونی و بیرونی منڈیوں میں روپے کی گرتی ہوئی قدر، پیداوار میں کمی، سرمائے کی بیرون ملک منتقلی، بڑھتے قرضے اور ان پر بڑھتا سود،اور زر مبادلہ کے خالی ہوتے ذخائر ہماری معیشت کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں جس میں ملک کے معاشی دیوالیہ ہونے کا دھڑکا ہرآن لگا رہتا ہے۔ لوگ مشکل میں ہیں اور معیشت کا ہر شعبہ رُوبہ زوال ہے۔ صرف ایک مخصوص اشرافی طبقہ ہی خوش حالی اورامارت سے لطف اندوز ہو رہا ہے، جب کہ عوام تکلیف میں ہیں۔ سرکاری ادارے معیشت پر ایک مسلسل بوجھ بن چکے ہیں۔ ملکی قرضوں کی واپسی کے لیے کوئی سبیل بھی پیدا نہیں ہورہی ہے اور ان پر سود کی ادائیگی قومی بجٹ میں اولین نمبر پر آگئی ہے۔ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشرے تک دفاعی اخراجات پر سب سے زیادہ رقم خرچ ہوتی تھی، اب قرضوں کی مد میں ادائیگیاں دفاعی اخراجات سے تقریباً دو،تین گنا ہو چکی ہیں۔
ترقیاتی اخراجات سے تقریباً تین گنا زیادہ رقم قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہو جاتی ہے۔ سماجی خدمات (Social Services) پر خرچ ہونے والی رقم اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ کسی بھی ملک کے لیے یہ انتہائی خراب صورتِ حال ہے اور اس صورتِ حال سے اسی صورت نپٹا جا سکتا ہے کہ اگر ملک کو ایک ایسی قیادت میسر آئے جو جانتی ہو کہ کیا کرنا ہے اور معیشت کو ٹھیک کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہو۔ اس وقت معیشت میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں پیداوار کو بڑھانے ، اپنے انسانی وسائل کو بہتر کرنے،بدعنوانی کے خاتمےاور اندرون ملک و بیرون ملک موجود وسائل کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ایک حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔ ان تمام تبدیلیوں کے ساتھ اچھی گورننس بھی ضروری ہے اور ہماری پالیسیوں کا رُخ بھی خود کفالت اور عوام کی طرف ہونا چاہیے کہ ان کے حق میں بہتر کیا ہے۔ ان بنیادی تبدیلیوں کے بغیر حالات کا بدلنا اور ہمارا اس بحران سے نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔
اس نظام میں بنیادی خامی یہ ہے کہ محصول اکٹھا کرنے کا سارا نظام وفاق کے پاس ہے۔ دوسری طرف اخراجات کے لیے ایک الگ نظام موجود ہےاور یہ نظام جن کے پاس ہے ان کا محصولات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ اس گورکھ دھندےکی وجہ سے معاشی نظام میں بہت سی خامیاں جنم لیتی ہیں۔ جب تک محصولات کے نظام کو بھی تقسیم نہیں کیا جاتا، معاشی ذمہ داری کے اصول کو پروان چڑھانا مشکل ہے۔ ملک کے معاشی ڈھانچے کو اَزسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک اکٹھا کرنے کا اختیار وفاق کے پاس اور خرچ کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس رہے گا، بے ضابطگی پیدا ہوتی رہے گی۔ اس لیے ایک باقاعدہ اور منظم وفاقی نظام قائم کرنے کے لیے ملکی ڈھانچے میں کئی بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔
ایک متوازن حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس کے تحت نجی شعبہ کو فعال اور سرکاری اداروں کو ذمہ داربنایا جائے۔ انفراسٹرکچر تیار کرنے،سماجی خدمات کی فراہمی اور معاشرے کے نچلے طبقوں کو معاشی نظام میں لانے کے لیے ریاست کا کرداربھی بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس کے علاوہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے دست کاروں ، کاشت کاروں، اور صنعت کاروں کو روزگار کی فراہمی بھی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔ بڑی سطح پر معاشی استحکام کے علاوہ نچلے درجے پر معاشی ترقی اور معاشرے کے ہر فرد کو معاشی عمل میں شامل کرنے کے لیے ایک نیا معاشی ماڈل ضروری ہے اور اس ماڈل کی تیاری اس وقت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر بطور دانش وَر ہم اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قومی مقاصد کی درست نشاندہی کے قابل ہو جائیں اور اپنے تصورات کو واضح انداز میں پیش کر سکیں تو شاید ہم آنے والی سیاسی قیادت کے لیے ایک لائحہ عمل متعین کر سکتے ہیں۔
بطور قوم ہم میں کسی صلاحیت کی کمی نہیں ۔ ہاں، سیاسی عزم، واضح مقصد، ایک سوچے سمجھے لائحہ عمل، اہل قیادت اور فعال اداروں کی کمی کا گلہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی قیادت کی کامیابی اسی میں مضمر ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو معاشرے کی تعمیر میں اپنا متعین کردار ادا کرنے پر آمادہ کرسکے۔ چنانچہ آئیے ہم خود کو درپیش مسائل کا جائزہ لیں اور پھر ان کے حل کے لیے کوششوں میں جت جائیں۔اگر ہم اگلے انتخابات میں نئی قیادت کو ایک قابل عمل لائحہ عمل فراہم کرسکیں تو میں سمجھوں گا کہ ہم اپنا تعمیری کردار ادا کرنےمیں کامیاب ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اب وقت آچکا ہے کہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ملک کو درپیش اہلیت، قیادت،گورننس اور صلاحیت کے بحران کو حل کرنے میں ہم اپنی قیادت کا ساتھ دیں تاکہ آیندہ دس سال پاکستان کے لیے ترقی و خوش حالی کے دس سال ثابت ہوں۔
بات ختم کرنے سے پہلے ہم چند دوسرے ضروری اُمورکی طرف بھی توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پورے ملک میں کوئی مربوط معاشی پالیسی نہیں ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ مرکزی حکومت میں شامل جماعتوں، تحریک انصاف اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مشترکہ معاشی پالیسی پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ ملک کی معیشت جن حالات سے دوچار ہے، اس میں ایک مربوط پالیسی وضع کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئے ہیں، لیکن اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک کی سیاسی قوتوں کے درمیان دُوری، سیاسی تفریق کی شدت اور تصادم کی حددرجہ افسوس ناک فضا ہے، جسے حدود میں لانا ازبس ضروری ہے۔ اسی طرح اس امر کی بھی سخت ضرورت ہے کہ صوبوں میں ضلعی سطح پر بلدیاتی نظام کو دستور کے مطابق جلداز جلد وضع کیا جائے اور دستور کے مطابق وسائل کی تقسیم کے نظام کو بھی نچلی سطح پر انصاف اور حق کے مطابق فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ جب تک یہ چیزیں نہیں ہوتیں، قومی معیشت کو زمینی سطح پر درست کرنا محال ہے۔
پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت بھانت بھانت کا مجموعہ ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف، جماعتی مفاد سے بلند ہوکر قومی معیشت کی اصلاح کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایک قومی حکمت عملی اختیار کریں۔
ہم بڑے دُکھ کے ساتھ یہ بات بھی کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی مباحثے کی سطح اتنی پست ہوگئی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی یہ اتنی پست سطح پر نہیں گری تھی۔ قومی سطح پر یہ بڑے شرم کا مقام ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے ایک فطری امر ہے، لیکن جمہوریت میں اختلاف رائے کی معروف حدود ہیں۔ ہربات کو غداری اور ملک دشمنی کے رنگ میں پیش کرنا ملک و قوم کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ اس کی اصلاح کی بھی اشد ضرورت ہے:
زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا
ملک ہر اعتبار سے ایک نازک صورتِ حال سے دوچار ہے۔ دستور کی حدود کا احترام اور تصادم کے بجائے مفاہمت کا راستہ نکالناوقت کی ضرورت ہے۔
مسٹر جارج برناڈشا نے جب مشرق کا سفر کیا تو اس کے دوران میں سنگاپور کے عربی اخبار الہدٰی کا نامہ نگار، ان سے ملا۔ اس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام، آزادی اور دستوری و ذہنی حریت کا دین ہے۔ اجتماعی نقطۂ نظر سے مسیحیت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کسی مذہب کا نظامِ اجتماعی اتنا مکمل نہیں ہے، جتنا اسلام کا نظام ہے۔ دنیائے اسلام کا تنزل اسلام سے دُور ہٹ جانے کی بدولت ہے۔ مسلمان جب صرف اسلام کی بنیادوں پر جدوجہد کریں گے تو عالم اسلامی کا خواب، بیداری سے بدل جائے گا‘‘۔
اِن خیالات کے سننے کے بعد نامہ نگار نے سوال کیا کہ ’’جب آپ اسلام کو اچھا سمجھتے ہیں تو پھر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیوں نہیں کر دیتے؟‘‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جو فطری طور پر ان بیانات کے بعد پیدا ہوتا ہے، کیونکہ ایک سلیم الطبع آدمی کے لیے کسی چیز کے اعترافِ قبح اور اس کو ترک کر دینے اور کسی چیز کے اعترافِ حسن اور اس کو قبول و تسلیم کرلینے میں کوئی حد فاصل نہیں ہوسکتی۔ لیکن مسٹر شانے جو کچھ جواب دیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قبولِ اسلام کے لیے تیار نہیں ہیں، اور ایسا نہ کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں، بلکہ صرف اس چیز کی کمی [تھی] جس کو شرح صدر کہتے ہیں۔
ایک مسٹر شا ہی پر موقوف نہیں ہے، بہت سے اہل فکر و نظرپہلے بھی گزر چکے ہیں، اور اب بھی موجود ہیں، جنھوں نے اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کیا۔ اس کے دنیوی یا دینی یا دونوں حیثیتوں سے مفید ہونے کا اقرار کیا، اس کی تہذیب، اس کے نظام اجتماعی، اس کی علمی صداقت اور اس کی عملی قوت کی برتری تسلیم کی، مگر جب ایمان لانے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانے کا سوال سامنے آیا، تو کسی چیز نے ان کو قدم آگے بڑھانے سے روک دیا، اور وہ اسلام کی سرحد پر پہنچ کر ٹھیر گئے۔
برعکس اس کے، بہت سے آدمی ایسے بھی ہو گزرے ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسلام کی مخالفت اور اس کی دشمنی میں صرف کر دیا، لیکن اسی مخالفت کے سلسلے میں اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے حقیقتِ اسلام ان پر منکشف ہوگئی، اور اس انکشاف کے بعد کوئی چیز ان کو ایمان لانے سے نہ روک سکی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہدایت و ضلالت [گمراہی] کا راز بھی ایک عجیب راز ہے۔
ایک ہی بات ہے جو ہزاروں آدمیوں کے سامنے کہی جاتی ہے، مگر کوئی اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا۔ کوئی توجہ کرتا ہے لیکن وہ اس کے پردۂ گوش پر سے اچٹ کر چلی جاتی ہے۔ کوئی اس کو سنتا اور سمجھتا ہے، مگر مانتا نہیں۔ کوئی اس کی تعریف و تحسین کرتا ہے، مگر قبول و تسلیم نہیں کرتا، اور کسی کے دل میں وہ گھر کر جاتی ہے اور وہ اس کی صداقت پر ایمان لے آتا ہے۔
ہمارا شب و روز کا مشاہدہ ہے کہ ایک شخص کو بازار میں چوٹ لگ کر گرتے ہوئے سیکڑوں آدمی دیکھتے ہیں۔ بہت سے اس کو معمولی واقعہ سمجھ کر یونہی بس دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ بہتوں کے دل میں رحم آتا ہے ،مگر وہ افسوس کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ بہت سے اس کا تماشا دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔ اور بعض اللہ کے بندے ایسے نکلتے ہیں جو بڑھ کر اسے اٹھاتے ہیں، اس سے ہمدردی کرتے ہیں اور اس کو مدد پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک مجرم کو پا بہ زنجیر جاتے ہوئے بہت سے آدمی دیکھتے ہیں۔ کوئی اس کی طرف التفات ہی نہیں کرتا، کوئی اس پر حقارت کی نظر ڈالتا ہے، کوئی اس پر ترس کھاتا ہے، کوئی اس کی ہنسی اُڑاتا ہے، کوئی اس کے انجام پر خوش ہوتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ جیسا کیا ویسا بھرا، اور کوئی اس کے انجام سے عبرت حاصل کرتا ہے اور جرم سے بچنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ تو مختلف لوگوں کی مختلف نفسی کیفیات و تاثرات ہیں، جن کا اختلاف زیادہ تعجب خیز نہیں۔ اس سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ ایک ہی شخص کے تاثر اور اس پر ایک ہی چیز کے اثر کی نوعیت مختلف اوقات میں مختلف ہوتی ہے۔ وہی ایک بات ہے جس کو ایک شخص ہزاروں مرتبہ سنتا ہے اور نہیں مانتا، مگر ایک ایسا موقع آتا ہے کہ یکایک اس کے دل کا بند کھل جاتا ہے۔ جو بات کان کے پردے میں اٹک کر رہ جاتی تھی،وہ سیدھی دل تک پہنچ جاتی ہے، اور وہ خود حیران ہوتا ہے کہ یہی بات میں پہلے بھی بارہا سن چکا ہوں، پھر آج یہ کیا ہوگیا کہ یہ خود بخود دل میں اتری چلی جارہی ہے؟
ایک ہی شخص کو بارہا آفت رسیدہ آدمیوں کے دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے، اور وہ ان کی طرف التفات بھی نہیں کرتا۔ لیکن ایک موقعے پر کسی شخص کی مصیبت دیکھ کر دفعتاً اس کا دل بھر آتا ہے، شقاوت کا پردہ چاک چاک ہو جاتا ہے، اور وہ سب سے زیادہ ہمدرد، رحیم اور نرم دل بن جاتا ہے۔ ایک شخص کو اپنی عمر میں بے شمار عبرت ناک مناظر دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے، کبھی وہ ان کو تماشا سمجھ کر دیکھتا ہے، کبھی ایک حسرت و افسوس کی نگاہ ڈالتا ہے، اور کبھی ایک معمولی نظر سے اس پر ایسا اثر پڑتا ہے کہ دل پر ایک مستقل نقش بیٹھ جاتا ہے۔
یہی حال ہدایت و ضلالت کا بھی ہے۔
وہی ایک قرآن تھا، وہی ایک اس کی تعلیم تھی، وہی ایک اس کو سنانے والی زبان تھی۔ ابوجہل اور ابولہب تمام عمر اس کو سنتے رہے، مگر کبھی وہ ان کے کانوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ خدیجۃ الکبریٰ ؓ، ابوبکرؓ، اور علی ؓابن ابی طالب نے سنا اور پہلے ہی لمحے میں اس پر ایمان لے آئے، بغیر اس کے کہ ان کے دل میں شک کا شائبہ بھی گزرتا۔ عمرؓ ابن الخطاب نے بیسیوں مرتبہ اس کو سنا اور صرف یہی نہیں کہ تسلیم نہ کیا بلکہ جوں جوں سنتے رہے مخالف اور دشمن ہوتے چلے گئے۔ لیکن ایک مرتبہ انھی کانوں نے اس چیز کو سنا تو کان اور دل کے درمیان جتنی مضبوط دیواریں چنی ہوئی تھیں، یکایک منہدم ہوگئیں، اور اس چیز نے ان کے دل میں ایسا اثر کیا کہ ان کی زندگی کی بالکل کایا پلٹ دی۔
ہر چند، نفسی نقطۂ نظر سے اس اختلافِ کیفیت اور اختلافِ اثر و تاثر کی بہت سی توجیہیں کی جاسکتی ہیں، اور وہ سب اپنی اپنی جگہ درست بھی ہیں۔ مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو چیز چشم و گوش اور دل و دماغ کے درمیان کہیں ایک مستقل حجاب بن جاتی ہے۔ کہیں ایک مدت تک حجاب بنی رہتی ہے، اور ایک نفسی موقعے پر خود بخود چاک ہو جاتی ہے۔ کہیں سرے سے حجاب بنتی ہی نہیں، کہیں کسی بات کے لیے حجاب بنتی ہے، اور کسی بات کے لیے نہیں بنتی، وہ ہرگز انسان کے ارادے و اختیار کے تابع نہیں ہے، بلکہ فطری و جبلی طور پر خود بخود انسان میں پیدا ہوتی ہے۔
یہی نکتہ ہے جس کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:
فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہٗ يَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۰ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَايُؤْمِنُوْنَ (الانعام۶:۱۲۵) اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ رکھنا چاہتا ہے، اس کے سینے کو ایسا تنگ کرتا اور ایسا بھینچتا ہے کہ گویا وہ آسمان پر چڑھا چلا جارہا ہے۔ یہ طریقہ ہے جس سے ایمان نہ لانے والوں پر اللہ کی طرف سے ناپاکی مسلط کی جاتی ہے۔
ایک اور موقعے پر اس کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ:
وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰكِنْ يُّضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (النحل۱۶:۹۳)اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک ہی اُمت بنا دیتا۔ مگر وہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔اور ضرور تم سے تمھارے اعمال کی بازپرس ہو کر رہے گی۔
پھر اس ہدایت کی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے کہ:
قُلْ اِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَـابَ ۲۷ۖۚ (الرعد۱۳:۲۷)ان سے کہو کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔
اور ضلالت کی کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ:
وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا۴۵ۙ وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِـہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۰ۭ (بنی اسرائیل ۱۷: ۴۵-۴۶) جب تم نے قرآن پڑھا تو ہم نے تمھارے اور آخرت کا یقین نہ رکھنے والوں کے درمیان ایک گاڑھا پردہ ڈال دیا اور ان کے دلوں پر غلاف چڑھا دئیے کہ قرآن نہ سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دی۔
اِن آیات میں اس فطری کیفیت کو، جو ایک حق بات سن کر اسے قبول کر لینے کے لیے اضطراری طور پر دل میں پیدا ہوتی ہے، اور جو آخر کار انسان کو ایمان کی طرف کھینچ لاتی ہے، خدائی ہدایت اور اس کے پیدا ہونے کو ’شرحِ صدر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اس ہدایت کے برعکس انسان کے دل میں حق سے انکار اور اعراض کرنے پر آمادگی کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس کو اللہ کی طرف سے مسلط کی ہوئی گمراہی قرار دیا گیا ہے، اور ’شرح صدر‘ کے مقابل جو انقباضی کیفیت دل میں پیدا ہوتی ہے، اسے ’ضیق صدر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
پھر اس ’ہدایت و ضلالت‘ اور ’شرحِ صدر‘ اور ’ضیقِ صدر‘ کے پیدا ہونے کا سبب یہ بتایا ہے کہ انسان جب ایک مرتبہ خدا کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، تو اس کو خود بخود وہ راستہ دکھائی دینے لگتا ہے، جو اسے سیدھا خدا کی جانب لے جاتا ہے، اور جو شخص سرے سے یہ احساس ہی نہیں رکھتا کہ مجھے کبھی خدا کے حضور میں حاضر ہونا اور اپنے قلب و جوارح کے افعال کا حساب دینا ہے، اس کو لاکھ کوئی شخص کلمۂ حق سنائے اور وعظ و تلقین کرے، کوئی بات اس کے دل میں نہیں اترتی اور وہ کسی طرح راہِ راست پر نہیں آتا۔
یہاں پھر دو باتیں مل گئی ہیں، جن کو الگ الگ سمجھ لینے سے قرآن مجید کے وہ مقامات بآسانی حل ہو جاتے ہیں، جن میں یہ مضمون مختلف پیرایوں سے بیان کیا گیا ہے:
ایک طرف ہدایت و شرح صدر اور ضلالت و ضیق صدر کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اس ہدایت و شرح صدر کے عطا کرنے کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ انسان خدا کی طرف رجوع اور توجہ کرے۔ اور ضلالت و ضیق صدر کے مسلط کر دینے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ گمراہ شخص خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اس کے سامنے مسئول و جواب دہ ہونے کا احساس نہیں رکھتا۔
ان دونوں چیزوں کے باہمی تعلق کو یوں سمجھیں کہ انسان کی فطرت میں خدا نے ایک ایسی قوت رکھ دی ہے، جو اس کو حق و باطل کے امتیاز اور صحیح و غلط کا فرق سمجھنے میں مدد دیتی ہے، اور اس کے ساتھ ہی اسے حق کی طرف بڑھنے اور باطل سے احتراز کرنے پر مائل کرتی ہے۔ یہی قوت وہ فطری ہدایت ہے، جسے خدا اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور جس کی طرف ارشاد خداوندی: فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط (الروم۳۰: ۳۰) [اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے] میں اشارہ کیا گیا ہے۔
اس کے خلاف ایک اور قوت بھی انسان میں کام کر رہی ہے، جو اس کو برائی کی طرف کھینچتی ہے، غلطی اور کج روی کی طرف مائل کرتی ہے اور جھوٹ اور باطل کو اس کے سامنے مزّ ین کرکے پیش کرتی ہے۔ ان دونوں کے ساتھ بہت سی خارجی اور داخلی قوتیں ایسی ہیں، جن میں سے بعض ہدایت کی قوت کو مدد پہنچانے والی ہوتی ہیں، اور بعض ضلالت کی قوت کو۔ اکتسابِ علم اور اس کے مختلف مدارجِ تربیت اور اس کی مختلف کیفیات، سوسائٹی اور اس کے مختلف احوال، وہ چیزیں ہیں جو باہر سے اس پر اثرانداز ہوتی ہیں، اور ترازو کے دونوں پلڑوں میں سے کسی ایک میں اپنا وزن ڈالتی رہتی ہیں۔ اور انسان کا اپنے اختیارِ تمیزی، اپنی فہم و فراست، اپنی عقل و بصیرت، اپنے ذرائع اکتسابِ علم سے صحیح یا غلط کام لینا، اور اپنی قوت فیصلہ کو بجا یا بے جا استعمال کرنا، یہ وہ چیز ہے جو خود اس کے ارادے کے تابع ہے، اور جس سے وہ ہدایت و ضلالت کی متضاد قوتوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ خدا کی بخشی ہوئی ہدایت اور اس کی مسلط کی ہوئی ضلالت، دونوں غیر محسوس طور پر اپنا عمل کرتی رہتی ہیں۔ ہدایت کی قوت اسے راہ راست کی طرف لطیف اشارے کیا کرتی ہے، اور ضلالت کی قوت اسے باطل کے ملمع پر رجھائے جاتی ہے۔
مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلط اثرات سے متاثر ہو کر اور خود اپنی اختیاری قوتوں کو غلط طریقے سے استعمال کرکے ضلالت کے پھندے میں گرفتار ہو جاتا ہے اور ہدایت کی پکار پر کان ہی نہیں دھرتا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ غلط راستے پر چل رہا ہوتا ہے، اور اس دوران میں کچھ بیرونی اثرات اور کچھ خود اس کی اپنی عقل و بصیرت، دونوں مل جل کر اسے گمراہی سے بے زار کر دیتے ہیں۔ اور اس وقت ہدایت کی وہی روشنی جو پہلے مدھم تھی دفعتاً تیز ہو کر اس کی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مدت تک انسان ہدایت اور ضلالت کے درمیان مذبذب رہتا ہے، کبھی اِدھر کھنچتا ہے، کبھی اُدھر۔ قوت فیصلہ اتنی قوی نہیں ہوتی کہ بالکل کسی ایک طرف کا ہو جائے۔
بعض بدقسمت اسی تذبذب کے عالم میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ بعض کا آخری فیصلہ ضلالت کے حق میں ہوتا ہے، اور بعض ایک طویل کش مکش کے بعد ہدایت الٰہی کا اشارہ پا لیتے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ خوش قسمت وہ سلیم الفطرت، صحیح القلب، اور سدید النظر لوگ ہوتے ہیں، جو خدا کی دی ہوئی عقل، اس کی عطا کی ہوئی آنکھوں، اس کے بخشے ہوئے کانوں اور اس کی ودیعت کی ہوئی قوتوں سے ٹھیک ٹھیک کام لیتے ہیں۔ مشاہدات اور تجربات سے درست نتائج اخذ کرتے ہیں۔ آیات الٰہی کو دیکھ کر ان سے صحیح سبق حاصل کرتے ہیں۔
باطل کی زینت اُن کو رجھانے میں ناکام ہوتی ہے۔ جھوٹ کا فریب ان کو اپنا گرویدہ نہیں بناسکتا۔ ضلالت کی کج راہیوں کو دیکھتے ہی وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ آدمی کے چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ پھر جونہی وہ حق کی طرف رجوع کرتے اور اس کی طلب میں آگے بڑھتے ہیں، حق ان کے استقبال کو آتا ہے۔ ہدایت کا نور ان کے سامنے چمکنے لگتا ہے اور حق کو حق سمجھ لینے اور باطل کو باطل جان لینے کے بعد پھر دنیا کی کوئی قوت ان کو راہ راست سے پھیرنے اور گمراہی کی طرف لگانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔
ایک اور بات بھی اس سلسلے میں قابلِ بیان ہے، اور ضرورت ہے کہ مسلمان اس کو ذہن نشین کرلیں۔
عام طور پر جب غیر مسلم مشاہیر کی جانب سے اسلام کے متعلق کچھ اچھے خیالات کا اظہار ہوتا ہے، تو مسلمان بڑے فخر سے ان خیالات کو شہرت دیتے ہیں، گویا ان کا اسلام کو اچھا سمجھنا اسلام کی خوبی کے لیے کوئی گراں قدر سرٹیفکیٹ ہے۔ لیکن یہ حقیقت فراموش نہ کرنی چاہیے کہ اسلام کی صداقت و حقانیت اس سے بے نیاز ہے کہ کوئی اس کا اعتراف کرے۔ جس طرح آفتاب کا روشن ہونا اس کا محتاج نہیں کہ کوئی اس کو روشن کہے اور جس طرح آگ کا گرم ہونا اور پانی کا سیال ہونا اس کا محتاج نہیں کہ کوئی اس کی گرمی اور اس کے سیلان کو تسلیم کرے، اسی طرح اسلام کا برحق ہونا اس کا حاجت مند نہیں ہے کہ کوئی اس کے برحق ہو نے کو مان لے۔ خصوصاً ایسے لوگوں کی تحسین اور مدح تو کوئی بھی وقعت نہیں رکھتی، جن کے دل ان کی زبانوں کا ساتھ نہیں دیتے، اور جو خود اپنے اعراض و انکار سے اپنی مدح و تحسین کی تکذیب کرتے ہیں۔ اگر حقیقت میں وہ اسلام کی خوبی کے معترف ہوتے تو اس پر ایمان لے آتے۔ لیکن جب انھوں نے زبانی اعتراف کے باوجود ایمان لانے سے انکار کر دیا تو اہل عقل کی نگاہ میں ان کی حیثیت بالکل اس شخص کی سی ہے، جو طبیب کی صداقت کو تسلیم کرے، اس کے تجویز کردہ نسخے کی صحت کا اعتراف کرے، مگر اپنی بیماری کا علاج کسی عطائی طبیب سے کرائے۔
مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بڑے سے بڑے غیر مسلم کا اعتراف بھی اسلام کے لیے قابلِ فخر نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک ہی فخر کافی ہے، اور وہ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن۳:۱۹) [اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے] اور رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ط (المائدہ۵:۳) [تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا] کا فخر ہے۔
مسلمان معاشرہ اور سودی نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں اور یہ دونوں بیک وقت چل نہیں سکتے۔ ایک کا وجود دوسرے کی نفی ہے، ایک کا غلبہ دوسرے کے لیے موت کا پیغام ہے۔ ان دونوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ جن افراد اور جن معاشروں پر سودی نظام کا غلبہ ہو وہ حقیقی خوش حالی سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ وہ معاشرے ھل من مزید کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور انسان انسان کا غم خوار اور دم ساز ہونے کے بجائے ایک دوسرے کا خون چُوسنے اور حق مارنے میں مشغول رہتا ہے، جب کہ قرآن ایسے افراد اور معاشرے کی مثال اس شخص سے دیتا ہے جسے شیطان نے چھوکر مخبوط الحواس کردیا ہو:كَـمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۰ۭ (البقرہ ۲: ۲۷۵)، اور جن کے خلاف خود اللہ نے اپنے اور اپنے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا ہو: فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۰ۚ (البقرہ ۲: ۲۷۹)، وہ فرد اور معاشرہ کیسے چین کی زندگی گزار سکتا ہے جو مسلسل اللہ اور اس کے رسولؐ سے برسرِ جنگ ہو؟
سود کی قباحت اور ہولناکی کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے جو اندازِ بیان اختیار فرمایا ہے، اس کے بعد کسی صاحب ِ ایمان کے لیے یہ گنجایش نہیں رہتی کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس قاتلِ ایمان و ضمیر و اخوت کو گوارا کرسکے:
اگر آج ہم بصیرت کی نظرخود اپنے اردگرد ڈالیں اور اپنے ملک کی حالت کو دیکھیں تو مخبرصادق کی پیش گوئی ہمیں سو فی صد درست نظر آتی ہے اور اہلِ ایمان کو توبہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت دیتی ہے کہ صرف یہی نجات کی راہ ہے۔
سود کے بارے میں پاکستانی قوم کے جذبات اور اس کی قیادتوں کے رویے میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی۔ قائداعظمؒ نے پاکستان کے اسٹیٹ بنک کے افتتاح (جولائی ۱۹۴۸ء) کے موقع پر جو تقریر کی تھی، اس میں سود سے پاک مالیاتی نظام کو قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ۱۹۵۶ء کے دستور سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور تک ہرایک میں سودی نظام سے نجات کی ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسلامی مشاورتی کونسل ۶۵-۱۹۶۲ء اور ۱۹۶۹ء نے بار بار اس امر کا اظہار کیا کہ سود کو اس کی ہرشکل میں ختم کیا جائےاور متبادل نظام قائم کیا جائے لیکن برسرِاقتدار طبقوں نے اس طرف کوئی پیش رفت نہیں کی۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے ۲۹ستمبر ۱۹۷۷ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کو سود سے پاک نظام مرتب کرنے کا کام سونپا اور کونسل نے ۱۵ماہرین معاشیات و بنکاری کے تعاون سے نومبر ۱۹۷۸ء میں اپنی عبوری رپورٹ اور جون ۱۹۸۰ء میں مکمل رپورٹ پیش کی۔ انھی رپورٹوں کی روشنی میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ۱۰فروری ۱۹۷۹ء (۱۲ ربیع الاوّل) کو تین مالیاتی اداروں کو سود سے پاک کرنے کا پہلا عملی اقدام کیا جس پر یکم جولائی ۱۹۷۹ء کو عمل ہوا۔ ۱۹۸۰ء سے دوسری اصلاحات کا آغاز کیا گیا جو لشتم پشتم ۱۹۸۴ء تک جاری رہیں۔
اس زمانے میں سودی نظام کے علَم بردار (ملکی اور غیرملکی دونوں) اور دوسرے مفاد پرست عناصر ان اصلاحات کا حلیہ بگاڑنے اور گاڑی کو پٹڑی سے اُتارنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے اور بالآخر ۱۹۸۵ء سے عملاً ان تمام اقدامات کو غیرمؤثر کر دیا گیا جن کا آغاز ۱۹۷۹ء سے ہوا تھا۔ اس جوابی تحریک کو ۱۹۹۰ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے برسرِاقتدار آنے پر چیلنج کیا گیا اور شریعت کی بالادستی کے مطالبے نے زور پکڑا۔ تب وزیراعظم نوازشریف صاحب نے خودانحصاری کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی اور اس نے راقم کی سربراہی میں کام کیا تھا۔ اس نے اپریل ۱۹۹۱ء میں ایک رپورٹ پیش کی اور ملکی معیشت اور بین الاقوامی معاشی تعلقات کو سود سے پاک کرنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی اور نقشۂ عمل پیش کیا۔ نیز وفاقی شرعی عدالت نے دس سال کی بے اختیاری کے بعد اختیارات بحال ہونے پر دسمبر ۱۹۹۱ء میں ایک تاریخی فیصلہ دیا جس کے تحت سود پر مبنی ۲۰قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا اور حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی کہ متبادل قانون سازی کرے، لیکن حکومت نے اس فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی اور دوسری طرف خودانحصاری رپورٹ کو طاق نسیاں کی نذر کر دیا۔
ہمارے ہاں یہ عجیب منطق ہے کہ پالیسی سازی اور متبادل راستوں کے لیے حکومت اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سارے ضابطوں کو معطل کرکے چند گھنٹے میں لائحہ عمل تجویز کرلیتی ہے۔ لیکن سود سے نجات ہی ایک ایسا معاملہ ہے جس میں حکومت یہ بہانے تراشتی ہے کہ اس کی اصل ذمہ داری حکومت کی نہیں بلکہ قوم کی ہے کہ وہ حکومت کو بنا بنایا کوئی متبادل نظام لا کر دے تاکہ وہ حرکت کے لائق ہوسکے!
دراصل بیماری کی اصل جڑ ہی یہ ہے کہ حکومت اور اختیار رکھنے والے سارے ادارے اس اہم معاملے پر اپنی ذمہ داری کو نہ صرف یہ کہ محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ بڑی چابک دستی سے ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ جس طرح ملک کو درپیش تمام مسائل اور چیلنجوں کے بارے میں یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ان کے حل کے لیے پالیسیاں بنائیں، وسائل حاصل کریں اور ضروری عملی اقدامات کریں، اسی طرح سود کے مسئلے کے بارے میں بھی اصل ذمہ داری اربابِ اقتدار ہی کی ہے اور اس بارے میں کسی راہِ فرار کی گنجایش نہیں۔
ہمیں عدالت کے اس فیصلے پر سخت حیرت ہوئی، جس میں ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کو یہ قرار دیا گیا کہ پانچ سال کی مدت میں سود کے خاتمے پر مبنی معیشت کھڑی کی جائے، یعنی فاضل جج یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ کام اس طرح کرنے جارہے ہیں جیسے کسی نئے کام کا آغاز کیا جارہا ہو اور سادہ کاغذ پر کسی نئی تحریر کا مرحلہ درپیش ہو۔ بلاشبہہ یہ کام بہت اہم ہے اور ہمہ پہلو بھی، لیکن یہ تاثر کہ کوئی متبادل موجود نہیں ہے اور اسلامی نظامِ معیشت کے قیام کا مطالبہ کسی خلا میں کیا جارہا ہے محض کم علمی ہے، یا صریح دھوکا دہی۔
آج بلاسود متبادل محض کوئی خیالی شے نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۷۰برسوں میں اس سلسلے میں اتنا کام ہوا ہے کہ اگر کوئی مخلص اور اہل قیادت نئے نظام کے قیام کا عزم اور ارادہ رکھتی ہو تو ایک دن کی تاخیر کیے بغیر مؤثر اقدام کا آغاز ہوسکتا ہے۔ بلاشبہہ نیا نظام قائم کرنے میں وقت لگے گا اور تبدیلی کا عمل تدریج اور مناسب حکمت عملی ہی سے انجام دیا جائے گا مگر آج اصل رکاوٹ فکری کام کی کمی یا متبادل نقشۂ کار کی عدم موجودگی نہیں، قیادت میں ایمان اور سیاسی عزم و ارادے کی کمی ہے۔ ہم یہ بات کسی تعصب کی بنا پر نہیں کہہ رہے (اللہ تعالیٰ ہمیں ہر تعصب اور جانب داری سے محفوظ رکھے)۔
راقم پچھلے ۶۰برسوں سے ذاتی طور پر ان کوششوں سے وابستہ رہا ہے جو اس سلسلے میں ہوئی ہیں اور اپنے ذاتی علم اور تجربے کی بناپر یہ بات کہہ رہا ہوں، کہ اصل رکاوٹ کسی متبادل ماڈل کی کمی نہیں ہے۔ راستہ صاف ہے اور اب تو دوسروں کے عملی نقوش بھی موجود ہیں۔ اصل ضرورت منزل کے شعور اور چلنے کے ارادے اور ہمت کی ہے اور ہماری قیادتوں کا اصل مرض بھی یہی ہے کہ نہ فکرونظر کے اسلامی اسلوب کو انھوں نے شعوری طور پر اپنایا ہے اور نہ ان میں وہ جرأت اورعزم ہے جس کی بنا پر انسان دُنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوکر اپنےاصل اہداف کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہوجاتا ہے۔ ایک طرف ذہنوں پر مغرب کے افکار کا غلبہ ہے تو دوسری طرف مفاد پرست عناصر اور عالمی ساہوکاری نظام کے کارپردازوں کا گھیرائو ہے جو ذہنوں کو مسموم کرنے اور کمزور ارادہ لوگوں کے قدموں کو متزلزل کرنے میں مصروف ہے اور ہمارے اربابِ اقتدار کا حال یہ ہے:
ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے
ضرورت اس امر کی ہے کہ دماغ میں جو بُت خانے آباد ہیں ان کو توڑا جائے اور دل و نگاہ کی مسلمانی کا راستہ اختیار کیا جائے۔
ایک مغالطہ جو مختلف انداز میں بار بار دیا جاتا ہے وہ سود کے تصور کے بارے میں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے سامنے بھی سرکاری وکیلوں نے اس مسئلے کو اُٹھایا اور سپریم کورٹ میں جو اپیل دائر کی اس میں بھی اس بات کو شامل کیا گیا، یعنی یہ کہ کیا بنک کا سود ربا کی تعریف میں آتا ہے؟
ہم اس بات کو بالکل دوٹوک انداز میں واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں عرب دُنیا، برعظیم اور جنوب مشرقی ایشیا میں دورِ غلامی میں جو بحثیں اُٹھائی گئی تھیں آج وہ قصۂ پارینہ ہیں۔ الحمدللہ گذشتہ ۷۰برسوں میں اس موضوع پر ایسی سیرحاصل بحث ہوئی ہے کہ براہین قاطع کی بنیاد پر یہ بحث ایک اجماع پر منتج ہوچکی ہے، اور وہ یہ ہے کہ قرض کے مالی معاملات پر اصل سرمائے پر جو بھی متعین اضافہ پہلے سے طے ہو اور شرط معاہدے کا حصہ ہو وہ سود ہے، خواہ یہ قرض صرفی ضروریات کے لیے ہو، یا پیداواری مقصد کے لیے، فرد لے رہا ہو یا ادارہ، نجی ہو یا سرکاری، مہاجن ہو یا بنک اورانشورنس کمپنیوں کے ذریعے۔
اس پر پاکستان میں بھی اورعالمِ اسلام میں بھی مکمل اتفاق رائے ہے اورعلما اور ماہرین معاشیات دونوں اس پر متفق ہیں۔ اس لیے اس بحث کو اَزسرنو شروع کرنا علم اور خلوص پر مبنی نہیں بلکہ مسئلے کو اُلجھانے، تعویق میں ڈالنے یا دھوکا دینے کے مترادف ہے اور انسان اپنے آپ کو تو دھوکا دے سکتا ہے لیکن اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتا: يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۰ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۹ۭ (البقر ہ ۲:۹) ’’وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کےساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اُنھیں اِس کا شعور نہیں ہے‘‘۔
’اسلامی مشاورتی کونسل‘ نے اپنے ۳دسمبر ۱۹۶۹ء کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ:
اسلامی مشاورتی کونسل اس امر پر متفق ہے کہ ربا اپنی ہرصورت میں حرام ہے اور شرحِ سود کی بیشی اور کمی سود کی حُرمت پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ افراد اور اداروں کے لین دین کی مندرجہ ذیل صورتوں پر مکمل غوروفکر کرنے کے بعد کونسل اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ:
(الف) موجودہ بنکاری نظام کے تحت افراد، اداروں اور حکومتوں کے درمیان کاروباری لین دین اور قرضہ جات میں اصل رقم پر جو بڑھوتری لی یادی جاتی ہے وہ داخل ربا ہے۔
(ب) خزانے کی طرف سے مقداری مدت کے قرضے پر جو چھوٹ دی جاتی ہے وہ بھی داخلِ ربا ہے۔
(ج) سیونگ سرٹیفکیٹ پر جو سود دیا جاتا ہے وہ ربا میں شامل ہے۔
(د) انعامی بانڈ پر جو انعام دیا جاتا ہے ، وہ ربا میں شامل ہے۔
(ھ) پراویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی وغیرہ میں جو سود دیا جاتا ہے وہ بھی ربا میں شامل ہے۔
(و) صوبوں، مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے جانے والے قرضوں پر بڑھوتری ربا میں شامل ہے۔ (Report on Consolidated Recommendations
on the "Islamic Economic System" Council of Islamic Ideology,
1983, pp 9-10)
بالکل یہی وہ پوزیشن ہے، جو اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کے ماہرین معاشیات اور بنکاروں نے اپنی آخری رپورٹ میں اختیار کی ہے۔ اسی طرح اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر کی صدارت میں بنکاروں کی جس کمیٹی نےکام کیا اور ۱۹۸۰ء میں اپنی رپورٹ دی اس نے بھی یہی پوزیشن اختیار کی ہے۔ اس طرح ملک کے علما اور معاشی ماہرین اور بنکار اس پر متفق ہیں۔ نیز وفاقی شرعی عدالت نے اپنے دسمبر ۱۹۹۱ء کے تاریخی فیصلے میں اس پوزیشن پر مہرتصدیق ثبت کی جو حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔
یہی پوزیشن عالمی اداروں کی ہے۔ بھارت کے ’مجمع الفقہ الاسلامی‘ نے وہاں کے چوٹی کے علما کے سیمی نار میں جس آخری متفقہ رائے کا اظہار کیا، وہ یہ ہے:
سود خواہ ذاتی مصارف کے قرضوں پر لیا جائے یا تجارتی و کاروباری قرضوں پر، شریعت اسلامیہ کی نظر میں بہرحال حرام ہے۔ قرآن و سنت، اجماع و قیاس اور اُمت محمدیہ کا عملِ متوارث سب یہی بتاتے ہیں کہ حُرمت ربا کے بارے میں اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا کہ قرض لینے کا مقصد اور محرک کیا ہے؟ سود کی حُرمت پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں پڑتا کہ شرح سود کم ہے یا زیادہ، مناسب حد تک کم ہے یا نامناسب حد تک زیادہ۔ دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں صورتیں بہرحال حرام ہیں۔ (سہ ماہی بحث و نظر، پھلواری شریف، پٹنہ، شمارہ ۸جنوری تا مارچ ۱۹۹۰ء، ص ۱۳)
سرکاری سطح پر وزرائے خارجہ کی تنظیم کی قائم کردہ ’اسلامی فقہ اکیڈمی‘ نے بھی اس مسئلے پر دسمبر ۱۹۸۵ء میں غور کیا اور وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچی۔ فقہ اکیڈمی کی قرارداد نمبر۳ میں طے کیا گیا کہ بنکوں اور نظام بنکاری میں اسلامی اصولوں کے نفاذ کے بارے میں:
۱- ان تمام قرضوں پر، جنھیں ایک مدت کے بعد ادا کیا جاتاہے، کوئی اضافہ (خواہ اس کا نام نفع ہی کیوں نہ ہو) اگر قرض دار اسے وقت پر ادا نہ کرسکے، یا کسی بھی قرض پر اضافہ یا نفع جسے قرض دینے کے وقت معاہدے کے حصے کے طور پر رکھا گیا ہو، دونوں ربا کی تعریف میں آتے ہیں اور شریعت میں حرام ہیں۔
۲- (سود کے بغیر) متبادل بنیادوں پر بنک قائم ہونے چاہییں، جو اسلامی احکام کے مطابق کام کریں اور معاشی سہولتیں فراہم کریں۔
۳- اکیڈمی تمام مسلم ممالک سے اپیل کرتی ہے کہ وہ شریعت کے اصولوں کے مطابق کام کرنے والے بنک قائم کریں تاکہ مسلمانوں کی تمام ضروریات ان کے ایمان کے مطابق پوری کی جاسکیں اور ان کے عمل اور دین میں عدم مطابقت نہ رہے۔
یہی وجہ ہے کہ خود آئی ایم ایف کے سرکاری کاغذات میں مسلمان اُمت کی جو پوزیشن اس مسئلے کے بارے میں بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے:’’مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی بنکاری نظام کے مطالعے کا آغاز اس کی بنیادی اصطلاحات کی تعریف سے کیا جائے۔ ’ربا‘ ایک شرعی اصطلاح ہے جو زر کے استعمال پر پہلے سے طے شدہ اضافے سے عبارت ہے۔ ماضی میں اس امر پر نزاع ملتا ہے کہ ’ربا‘ سے مراد سود ہے یا یوژوری (Usury)، لیکن اب مسلمان اہلِ علم کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق سود کی ہرشکل پر ہوتا ہے اور اس کا مصداق محض مناسب سے زیادہ سود (excessive interest) نہیں۔ پس آگے کے مباحث میں ’ربا‘ اور ’سود‘ بطور مترادف استعمال کیے جائیں گے اور اسلامی نظام بنکاری کے معنی وہ نظام ہوگا جس میں سود کی ادائیگی یا وصولی ممنوع ہوگی، جب کہ ایک سودی یا روایتی بنک سے مراد وہ ادارہ ہوگا جس میں مالی فنڈ کے استعمال پر سود وصول کیا جاتا ہے، یا دیا جاتا ہے‘‘۔ (International Monetary Fund
Staff Papers, Vol xxxiii, No.1, March 1986, Islamic Interest-free Banking,
a Theoretical Analysis by Mohsin S. Khan, p 4-5(
ان علمی مباحث کا بے لاگ جائزہ اس امر کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ سود کے بارے میں جو سوالات اور شبہات اُٹھائے جاتے ہیں وہ غیرحقیقی ہیں اور قرآن و سنت نے سود کو اس کی ہرشکل میں حرام قرار دیا ہے، خواہ وہ قدیم ساہوکاری کی شکل میں ہو یا جدید بنکاری کی، ضرورت مندوں کے صرفی قرضوں سے متعلق ہو یا تجارتی اور پیداآوری قرضوں سے، نجی دائرے میں ہو یا سرکاری، نیم سرکاری دائرے میں ، کم شرح پر ہو یا زیادہ شرح پر۔ یہ اتفاق رائے اُمت کا ایک عظیم سرمایہ ہے، اور اب گڑے مُردے اُکھاڑنے کے بجائے سیدھے سبھائو ساری کوششیں اس امرپر مرکوز کرنی چاہییں کہ سود سے کیسے نجات پائی جائے اور متبادل نظام کے خدوخال کیا ہیں؟
علمی اور نظری میدان میں اس کامیابی کے ساتھ دوسری بڑی کامیابی جو پچھلے ۵۰ سال میں حاصل ہوئی ہے وہ بلاسود بنکاری کے اصول و ضوابط، نظامِ کار، مالیاتی آلات (Financial Instruments) اور سرمایہ کاری کی حکمت عملیوں کی تجویز و تسوید ہے۔ اس سلسلے میں بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحقیقات کی گئی ہیں اور بڑی دِقّت نظر سے متبادل نظام کا نقشہ بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے کی ابتدائی کوششیں تو ۱۹۳۰ء اور ۴۰ کے عشروں میں ہوئی تھیں اور اس میں سب سے زیادہ راہ کشا کام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر انور اقبال قریشی اور باقرالصدر شہید نے کیا تھا۔ پھر جدید معاشیات کے ماہرین میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر محمد عزیر، ڈاکٹر محمود ابوسعود نے ابتدائی کام کیا، جسے گذشتہ ۵۰برسوں میں محققین کی ایک ٹیم نے سنوارنے اور مزید آگے بڑھانے میں قابلِ قدر حصہ لیاہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر احمدنجار، ڈاکٹر ساحی محمود، ڈاکٹر عمرچھاپرا، ڈاکٹر صدیق ضریر، ڈاکٹر معبد جرحی، ڈاکٹر ضیاء الدین احمد، ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر محمد انور، ڈاکٹر محمد فہیم خان، ڈاکٹر محمد عارف اور درجنوں اہلِ علم نے بڑی مفید خدمات انجام دیں۔ کم از کم چار درجن ایسی تحقیقی کتابیں شائع ہوئی ہیں، جن میں نئے نظام کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض کے مصنّفین کو ’اسلامی ترقیاتی بنک کا ایوارڈ‘ اور ’شاہ فیصل ایوارڈ‘ بھی مل چکا ہے۔
پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ، جو معاشیات اور بنکاری کے ماہرین کی رپورٹ پر مبنی ہے، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس رپورٹ میں جو ۱۹۸۰ء میں پیش کی گئی تھی، پاکستان ہی نہیں کسی بھی جدید ملک کی داخلی معیشت کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کا بڑا حقیقت پسندانہ ’نقشۂ کار‘ پیش کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بنک کے گورنر کی صدارت میں مرکزی بنک کی ایک کمیٹی نے بھی اسی موضوع پر ۱۹۸۱ء میں کام کیا اور اس کا دیا ہوا نقشہ بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے نقشے سے بہت قریب ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ پر مارچ ۱۹۸۱ء ہی میں ایک عالمی سیمی نار میں بحث ہوئی اور اس کی سفارشات کی بحیثیت مجموعی توثیق کی گئی، نیز مزید کچھ سفارشات کی گئیں جو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس کی طرف سے Money and Banking in Islam کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس نے ایک ورکشاپ اس موضوع پر منعقد کی کہ سرکاری لین دین سے سود کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ اس ورکشاپ کی رپورٹ (Report of the Workshop on Elimination of Interest on Govt. Transactions) شائع ہوچکی ہے۔
اس کے بعد جون ۱۹۹۲ء میں ’کمیشن فار اسلامائزیشن آف اکانومی‘ نے اپنی عبوری رپورٹ بنکاری کو سود سے پاک کرنے کے بارے میں دی جسے ابھی تک شائع نہیں کیا گیا بلکہ قانون کے مطابق سینیٹ اور اسمبلی تک میں پیش نہیں کیا گیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے ایک سیمی نار معیشت سے سود کو ختم کرنے کے بارے میں منعقد کیا، جس میں معاشیات اور بنکاری کے تقریباً ایک سو ماہرین نے شرکت کی۔ اس کی رُوداد کے بھی متعدد ایڈیشن ۱۹۹۴ء کے بعد Elimination of Riba from the Economy کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔
یہ سارا کام پاکستان کے حالات کی روشنی میں متبادل نظام کا ایک واضح خاکہ پیش کرتا ہے اور ہرشعبے کے لیے متبادل تجویز کرتا ہے۔ بیرونی قرضوں کے بارے میں بھی کام ہوا ہے۔ اس کے لیے مندرجہ بالا رپورٹ اور خودانحصاری کمیٹی کی رپورٹ میں واضح رہنمائی موجود ہے، بلکہ ’خودانحصاری کمیٹی‘ کی رپورٹ میں تو ایک طرف اس قانون کا خاکہ موجود ہے جو اس کام کو انجام دینے کے لیے درکار ہے اور دوسری طرف باقاعدہ Econometric Model کی مدد سے تین سال میں معیشت سے سود کو ختم کرنے کا پورا پروگرام بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اصل مشکل یہ ہے کہ متبادل نظام کا مطالبہ کرنے والے نہ ان چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ان پر عمل کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر ان کے ذہنوں میں ان پیش کردہ خطوط کے بارے میں کوئی اعتراضات اور خدشات ہیں تو ان پر گفتگو نہیں کرتے جس سے ان کی عدم توجہی اور غیرسنجیدگی کا پتا چلتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس تمام کام میں جو سفارشات کی گئی ہیں وہ ان کے ذوق یا خواہش کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے وہ ان باتوں کے وجود کا انکار کر دیتے ہیں اور رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ متبادل کہاں ہے؟
ہم نے اُوپر صرف اس کام کی طرف اشارہ کیا ہے جو پاکستان میں ہوا ہے، باقی مسلم ممالک میں بھی خصوصیت سے عرب دُنیا، ملایشیا، ترکیہ اور خود مغرب کی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں جو کام اس وقت ان موضوعات پر ہوچکا ہے اور جسے مغرب کی جامعات نے بھی اعلیٰ تحقیقاتی کام شمار کیا ہے، اس کی فہرست اور تعارف ایک الگ مقالے کا محتاج ہے۔
بات صرف علمی کام اور نظری طور پر متبادل نظام کی نقشہ گری تک محدود نہیں ہے، الحمدللہ، پچھلے ۶۰برسوں میں بلاسود بنکاری محض ایک نظریہ نہیں رہی ہے بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت بن چکی ہے۔ بلاشبہہ ابھی بہت سا کام کرنا ہے اور بڑے مراحل طے کرنا ہیں، مگرجو کچھ حاصل کیا جاچکا ہے وہ اسلامی اصول بنکاری کا لوہا منوانے کے لیے کافی ہے۔ بالکل نچلی اور عوامی سطح پر تو بلاسودی انداز میں بچتوں کو جمع کرنے اور وسائل کی فراہمی کا کام ہمیشہ سے ہوتارہا ہے، انفرادی سطح ہی پر نہیں اداروں کی سطح پر بھی ہوتا رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب نے حیدرآباد دکن میں پہلی جنگ عظیم کے بعد کے تجربات پر تحقیقی کام کیا تھا اور دکھایا تھا کہ کس طرح کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری اس نظام کے ذریعے ہورہی تھی۔
پچھلے ۶۰برسوں میں جو تجربات ہوئے ہیں، ذیل میں ان کی چند مثالیں پیش کرتے ہوئے، ہمیں یہ دعویٰ نہیں کہ یہ بنک ہراعتبار سے معیاری اسلامی اپروچ پر استوارہیں، لیکن یہ بات بھی ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود ان بنکوں نے دُنیا کے سامنے یہ مثال پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ بلاسودی بنکاری ممکن ہے۔ ان مثالوں میں چند کا تذکرہ یہ ہے:
lمصر کا ’مت غمر بنک‘ (Mit Ghamr Bank) ہے، جو ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۷ء تک شرعی اصولوں کے تحت اسلامی بنکاری کے ابتدائی تجربے کے طور پر کام کرتا رہا۔ دراصل صدرناصر نے سیاسی خطرات محسوس کرتے ہوئے اسے بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد ’ناصر سوشل بنک‘ (۱۹۷۱ء) کی شکل میں اس پروگرام کو نیا رُوپ دیا گیا۔ یہ ادارے نہایت کامیابی سے دس بارہ سال چلتے رہے جس پر مغرب کے محققین نے تحقیق کی اور انھیں کامیاب ابتدائی تجربات قرار دیا۔ (ملاحظہ ہو: T. Wholus Seharf: Arab of Islamic Banks: New Business Partners for Developing Countries، مطبوعہ پیرس، OECD، ۱۹۸۳ء)
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف اسلامک بنکس کے سیکرٹری جنرل کی ایک رپورٹ (نومبر ۱۹۹۶ء، The Present State of Islamic Banks) کے مطابق اس وقت خلیجی کونسل کے ممالک میں ۱۷، بقیہ مشرق وسطیٰ میں ۲۲، افریقا میں ۳۰، جنوبی ایشیا میں ۴۷ اور یورپ اور امریکا میں چار بلاسودی بنک یا مالیاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان بنکوں کا کُل سرمایہ ۶ بلین ڈالر ہے، ان میں موجود امانات (deposits) ۷۷ بلین ڈالر اور ان کے کُل اثاثے (assets ) ۱۶۶بلین ڈالر ہیں۔ سرمائے کی تقسیم کے اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ کے بنکوں کا حصہ ۵۵ فی صد، خلیجی کونسل کے ممالک کا حصہ ۲۳ فی صد اور جنوب ایشیا کا ۱۵ فی صد ہے۔ ان بنکوں کی کُل شاخیں اس وقت ۲۱ہزار ہیں اور ان میں دو لاکھ ۷۱ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں کے operations کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے وسائل کا ۳۰ فی صد اندرونی تجارت، ۱۹ فی صد صنعت، ۱۳فی صد سروس سیکٹر، ۱۲ فی صد اراضی اور املاک، اور ۸ء۵ فی صد زراعت کی مالی ضروریات پورا کرنے پر صرف ہورہا ہے۔
ایوان ٹریور (Evan Traver) نے ۱۵مارچ ۲۰۲۲ء کو لکھا: ’’اس وقت ۵۲۰ بنک اور ۱۷ہزار میوچل فنڈز، اسلامی معاشی اصولوں کے تحت کسی نہ کسی شکل میں کام کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۹ء کےدرمیان ایک اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر ان کا حجم ۲ء۸ ٹریلین ہوگیا۔ اور اندازہ ہے کہ ۲۰۲۴ء میں یہ ۳ء۷ ٹریلین تک پہنچ جائیں گے‘‘۔ (Investopedia)
کیسی ستم ظریفی ہے کہ ان تجربات کی موجودگی میں ہمارے اربابِ سیاست متبادل نقشہ طلب کر رہے ہیں۔
تینوں اہم میدان:
تفصیل میں جانے کا موقع نہیں لیکن مختصراً سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو حکمت عملی ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ اور دوسرے اسلامی معاشیات کےماہرین نے پیش کی تھی، اس پر پہلے قدم (فروری ۱۹۷۹ء) کے بعد کوئی حقیقی پیش رفت نہ ہوسکی۔ ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ اور ہم سب کی تجویز یہ تھی کہ ایک متعین تدریج کے ساتھ بنکاری ہی نہیں، پوری معیشت کو سود سے پاک کیا جائے۔ سب سے پہلے ان اداروں سے آغاز ہو جن کے نظام کوفوراً تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہم نے نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ (NIT)، آئی سی پی کا میوچل فنڈ اور ’ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن‘ (HBFC) کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے صنعت کے لیے Banker's Equityکے قیام کا منصوبہ دیا اور زرعی بنک، سمال انڈسٹریز کارپوریشن، کوآپریٹوز اور ان اداروں کو پابند کیا کہ چھوٹے کاشتکار، چھوٹے تاجر اور چھوٹی صنعت کو سرمایہ فراہم کریں، تاکہ بنیادی سطح (grass-root ) پر عام آدمی کو سب سے پہلے بلاسود سرمایہ کاری کی سہولت میسر ہوسکے، جس سے روزگار کے مواقع بھی عام آدمی کو میسر آسکیں گے اور غربت وافلاس کو دُور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
دوسرے مرحلے پر جسے ایک سال کے اندر شروع کرنے کا ہم نے منصوبہ پیش کیا تھا، اس میں سرکاری شعبے سےسود کو ختم کرنے کا لائحہ عمل دیا تھا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ہماری رائے میں اصل ساہوکار مرکزی حکومت اور ایک حد تک صوبائی حکومتیں بن گئی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے جس سیکٹر کو سود سے پاک کرنے کی ضرورت ہے وہ یہی سرکاری سیکٹر ہے۔ یہی بات اسلامی نظریاتی کونسل نے کہی تھی اور یہی موقف خودانحصاری کمیٹی کا تھا۔ لیکن اس سیکٹر کو نہ صرف یہ کہ اس پورے زمانے میں ہاتھ تک نہیں لگایا گیا بلکہ اس میں سودی کاروبار گذشتہ ۱۵سال میں دگنا اور تین گنا ہوگیا ہے۔
ہماری تجویز تھی کہ پہلے تجارتی بنکوں کی اصلاح ہو اور اس میں اصل توجہ اثاثہ جات (Bank Assets) کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنے کی ہو، تاکہ سرمائے کے استعمال کی راہیں کھلیں اور سود سے پاک ہوکر کھلیں، جب کہ ڈیپازٹس کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنا نسبتاً آسان تھا۔ حکومت نے ترتیب اُلٹ دی اور ساری توجہ ڈیپازٹس کے نظام کو بدلنے پر صرف کی اور اثاثہ جات کی اصلاح اور اس کے لیے جس قانونی ڈھانچے کی ضرورت تھی وہ نہ بنایا۔
ہماری تجویز تھی کہ کمپنی لا، ٹیکس کے نظام، کارپوریٹ لا اتھارٹی،اسٹاک ایکسچینج ان سب کو اس طرح تبدیل کیا جائے کہ نیا معاشی انفراسٹرکچر وجود میں آسکے۔ اس کے ساتھ ہی قانونی طور پر سود کو ختم کیا جائے۔ تمام تحفظات اور محرکات جو سود کو حاصل ہیں وہ نفع و نقصان پر مبنی سرمایہ کاری کو دیئے جائیں۔ بنک اور مالیاتی اداروں کے عاملین کی تربیت کے لیے مناسب ادارے قائم کیے جائیں اور مؤثر انتظامات کیے جائیں۔ نیز عوام کی تعلیم کا انتظام ہو، تاکہ حلال و حرام سے واقفیت ہو اور نئے نظام کے لیے عوامی تائید حاصل کی جاسکے۔اسی طرح وطن عزیز میں اسلامی بنکاری کے عنوان سے جو اور جتنی پیش رفت ہورہی ہے، اس کو شریعت کی روشنی میں پروان چڑھانے کے لیے لازم ہے کہ اس کے اطلاقی پہلو کو شریعت کی بنیاد پر پختگی سے استوار کیا جائے، نہ کہ رسمی طور پر تذکرہ کیا جائے۔
اسٹیٹ بنک کو اس پورے کام میں ایک مرکزی کردارادا کرنا تھا لیکن حکومت نے ان میں سے کوئی اقدام نہ کیا۔ اصل اسکیم کو گڈمڈ کرکے تجارتی بنکوں میں PLS اکائونٹ کھولے اور مارک اَپ کے نام پر سود کو نئی زندگی عطا کردی۔ نیز حکومت پاکستان خود اس زمانے میں مسلسل سودی بانڈ اور سرٹیفکیٹ جاری کرتی رہی، ملک میں بھی اور زرمبادلہ کے لیے بھی، اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، حتیٰ کہ ۱۹۹۷ء میں ’’قرض اُتارو، ملک سنوارو‘‘ اسکیم کے تحت حکومت نے جو قرضے حاصل کیے، ان کا ۹۰ فی صد بھی سودی بنیاد ہی پر تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اصل رکاوٹ اربابِ اقتدار کے فکرونظر کا بگاڑ اور ارادہ و عزم کی کمی ہے اور جب تک یہ درست نہ ہوں محض تجاویز اور متبادل صورتوں کے انبار لگانے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ سرکاری رپورٹوں، کمیشنوں اور کمیٹیوں کا تو یہ حال ہے کہ رپورٹیں موجود ہیں جن پر کوئی عمل نہیں ہوتا اور نئی کمیٹیاں قائم کر دی جاتی ہیں، اور اس بڑھیا کی طرح اپنی محنت ضائع کی جاتی ہے جو سوت کاتتی ہے اور پھراسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے: وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْكَاثًا۰ۭ (النحل ۱۶:۹۲)۔ بلاشبہہ تحقیقی کام کی بھی ضروت ہے اور عوام کی تعلیم و تربیت کی بھی، مردانِ کار کی ٹریننگ کا بھی انتظام ہونا چاہیے لیکن سب سے پہلے دل و نگاہ کی اصلاح اور مؤثر سیاسی عزم (Political Will) کی ضرورت ہے جن کے بغیر کوئی منزل سر نہیں کی جاسکتی۔
صرف عبرت کے لیے اور ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے جو متبادل کا گلا کرتے ہیں اور حقائق سے صرفِ نظر، ایک اقتباس ورلڈ بنک کے ایک برادر ادارے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کی رپورٹ سے دے دوں جو میں نے خود انحصاری کمیٹی کی رپورٹ میں بھی دیا تھا۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک اسٹیج پر یہ عالمی مالیاتی ادارے اس امر پر غور کر رہے تھے کہ اگر پاکستان سود کو ختم کر دیتا ہے اور حقیقی اسلامی بنکاری اور سرمایہ کاری سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں، تو پھر وہ کس طرح اپنے معاملات کو اس سے ہم آہنگ کریں؟ لیکن داد دیں ہماری قیادت کو کہ اس نے ان کو یقین دلا دیا کہ اسلام کی باتیں صرف دل بہلانے کے لیے ہیں، عمل کے لیے نہیں، اس لیے ان کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو IFC کی رپورٹ نمبر IFC/P-587، مؤرخہ دسمبر ۱۹۸۷ء:
A change to Islamic modes of financing has been considered by IFC but this would be contrary to the Government (of Pakistan) intentions for foreign loans. Adoption by a foreign lender of Islamic instruments could be construed as undermining Governments policy to exempt foreign lender from this requisit.
انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے اسلامی سرمایہ کاری کے طریقوں کو اپنانے کے بارے میں غور کیا، لیکن یہ بیرونی قرضوں کے بارے میں حکومت (پاکستان) کے منشا کے خلاف ہوتا۔ اگر بیرونی قرضہ دینے والے اسلامی طریقے اور ذرائع اختیار کرتے ہیں تو اسے اس سرکاری پالیسی کو غتربود کرنے کی کوشش سمجھا جائے جس کے تحت بیرونی قرض دینے والوں کو ان (اسلامی) مطالبات سے مستثنیٰ رکھا جارہا ہے۔
اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے بورڈ آف گورنرز تو پاکستان کے دستور کی اسلامی دفعات خصوصیت سے، وفاقی شرعی عدالت سے، سود کے بارے میں اختیارات کی تحدید کے ختم ہونے کے امکان کی روشنی میں اپنے رویے میں تبدیلی کے لیے فکرمند ہے، مگر ہمارے سرکاری حکام ان کو تسلی دیتے ہیں کہ کوئی خطرہ نہیں، ہم دستور کو بھی بدل دیں گے:
We have been advised by senior Government officials that steps will be taken to rectify this situation in all probability.
ہمیں سینیرسرکاری افسروں کے ذریعے مطلع کیا گیا ہے کہ پورا امکان ہے کہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔
یہ ہے ہمارے حکمرانوں کا ذہن اور کردار۔ ہمیں ہوّا دکھایا جاتا ہے کہ بیرونی مالیاتی ادارے ہمارا حقّہ پانی بند کردیں گے اور ملک تباہ ہوجائے گا اور اگر وہ اسلامی بنکاری کے اصولوں کو اختیار کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کو روک دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دستور میں بھی ترمیم کرڈالی جائے گی مگر سود کی راہ کھوٹی نہیں ہونے دیں گے، وہ شیرمادر کی طرح حلال اور رواں رہے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ ، اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو اور اس جنگ کے نتیجے میں صرف یہی تباہ نہیں ہورہے، پورا ملک اور پوری قوم عذاب میں مبتلا ہے۔
ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ پہلے خلوصِ دل سےاللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اس جنگ کو بند کرنے کااعلان کرو۔ سیزفائر کے بغیر کسی اور اقدام کا کیا سوال؟ ایک محفوظ اور مستقل راستہ تو دستور میں ترمیم ہے، مگر دستوری ترمیم تو نہ کی جاسکی، البتہ اس کے بالکل اُلٹ وفاقی شرعی عدالت کےفیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی گئی۔ طویل عرصے بعد وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ سنایا تو پھردوبارہ بنکوں کی جانب سے اپیل کرا دی گئی۔
یہ ایک بڑا ہی سفاکانہ کھیل ہے، جسے حکمران اور دولت مند طبقے کھیل رہے ہیں۔ انھیں آخرت کی جواب دہی کا خیال کرنا چاہیے اور ہم وطنوں پر معاشی ظلم و ستم کی حکمرانی کو ترک کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ غلطی اورفروگزاشت کو معاف کرنے میں بڑا غفور و رحیم ہے لیکن بغاوت اور سرکشی کے باب میں اس کی گرفت بھی بڑی سخت ہے: اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ۱۲ۭ (البروج ۸۵:۱۲)۔ آیئے، بندگی اور اطاعت کا راستہ اختیار کریں، پھر ہرمشکل آسان ہوجائے گی اورہربند دروازہ کھل جائے گا۔
اسلامی معاشیات ایک ارتقا پذیر سماجی علم ہے۔ یہ اقتصادیات کے اصولوں، اقدار، اداروں اور اسلامی تعلیمات کو یکجا کرنے اور نظامِ کار تشکیل دینے کی ایک کوشش ہے، تاکہ ایک نیا اقتصادی نظریہ فروغ پاسکے۔اس کا مقصد عصری اقتصادی سائنس میں محض ایک شاخ یا ذیلی شعبہ کا اضافہ نہیں بلکہ جوہری بنیادوں پر علم الاقتصاد کی تعمیروتشکیل ہے۔
مغرب میں آدم اسمتھ کے زمانے سے آج تک معاشی علوم کی تعمیر کے لیے نت نئی کوششیں اور تجربے کیے جارہے ہیں۔ یہ کوششیں فلاحی معاشیات (Welfare Economics)، رویوں کی معاشیات (Behavioral Economics)، ارتقائی معاشیات (Evolutionary Economics)، گھریلو معاشیات (Home Economics) ، سیاسی معاشیات (Political Economy)، مارکسی معاشیات (Marxist Economics) اور ماحولیاتی معاشیات (Environmental Economics) وغیرہ جیسے علوم کی صورت میں کی گئی ہیں۔
عصری اقتصادیات کا سارا تانا بانا سائنس کو اخلاقیات اور مذہب سے الگ کرنے کے تصور کے اردگرد بُنا گیا ہے۔ اس طرح معاشیات کو ’سماجی سائنس‘ ہونے کے باوجود ایک فطری سائنس (Natural Science) کے سانچے میں ڈھالنے کی منظم کوشش کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے نہ صرف بنیادی طور پر تجرید اور انتخاب پر انحصار کیا بلکہ رفتہ رفتہ خود کو معاشرے اور انسانیت سے بھی دُور کرلیا۔ نتیجتاً سارے ہی معاشی اُمور کے بارے میں فیصلہ سازی میں منڈی نے مرکزی حیثیت حاصل کرلی۔ پوری معاشی فکر انسان کے ایک یک جہتی (unidimensional) تصور کے گرد منڈلا رہی ہے، جس کا محرک مفاد پرستی اور منافع کا حصول بن گیا۔ اس کے نتیجے میں ایک بے رحم اورسفاکانہ صورتِ حال نے جنم لیا، کیونکہ ایک طرف مغرب نے پیداوار اور دولت کی تخلیق میں شان دار ترقی کی تودوسری طرف ایک ایسی معیشت اور معاشرہ تخلیق کیا، جہاں دولت کی وسیع پیمانے پر غیرمساویانہ تقسیم اور بڑے پیمانے پر معاشی استحصال پایا جاتا ہے۔
اس عمل نے معاشرے کو وسائل رکھنے اور وسائل پر دسترس نہ رکھنے والوں میں تقسیم کردیا اور یوں طبقاتی تقسیم پیدا ہوئی۔ اس کے نتیجے میں انسان، قومیں اور ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہوگئے، جس سے انسانیت کی بقا کو خطرہ لاحق ہوگیا۔
اقوام متحدہ کی ’غذا کے بارے میں چوٹی کی کانفرنس‘ (۲۳ستمبر ۲۰۲۱ء) کے مطابق ۲۰۲۰ء میں دنیا کے ۷۶۸ملین افراد بھوک اور افلاس کا سامنا کر رہے تھے، جن کی تعداد میں پچھلے سال اور زیادہ اضافہ ہوگیا۔ دُنیا بھر میں تقریباً ۲۷۴ملین افراد کو زندہ رہنے کے لیے کسی نہ کسی قسم کی ہنگامی امداد کی ضرورت ہے، جب کہ دُنیا کے امیرترین ایک فی صد لوگوں کے پاس دُنیا کے تقریباً ۷؍ارب لوگوں سے دوگنی زیادہ دولت ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں تین امیر ترین افراد کے پاس ۱۶۰ملین افراد کی دولت کے برابر دولت ہے۔
امریکا اس وقت دُنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ دُنیا کی ۵ فی صدآبادی کے ساتھ یہ دُنیا کی مجموعی پیداوار کے ۲۰ فی صد کا حامل ہے۔ اس کے باوجود خود ۲۰ فی صد امریکی خاندانوں کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ ۳۷ فی صد سیاہ فام امریکی خاندانوں کی صورتِ حال ابتر ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ امریکا میں ایک مڈل ایگزیکٹو اور اعلیٰ کارپوریٹ ایگزیکٹو کی تنخواہوں کے درمیان فرق ۱۹۵۰ء میں ۲۰ گنا تھا لیکن اب یہ بڑھ کر ۴۰۰ گنا ہوگیا ہے۔
عالمی وبائی مرض کورونا نے مزید تباہی مچا دی ہے۔ تقریباً ۸۹ملین امریکی ملازمتیں کھوچکے ہیں۔ کورونا وائرس سے ۴۴ء۹ ملین سے زائد افراد بیمار ہوچکے ہیں اور ۷لاکھ ۲۴ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود امریکی ارب پتی، خاص طور پر وہ لوگ جو دواسازی کی صنعت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، لالچ کے اسیر اور عام انسانوں کی مجبوری سے فائدہ اُٹھانے والے ہیں۔ عالمی تباہی کے ان دوبرسوں کے دوران ۴۵؍ارب پتیوں کی دولت میں ۲ء۱ ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ امریکی فارٹیکس فیئرنس (AFT) اور انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز پروگرام آن اِن ایکویلٹی کے تجزیہ کردہ ’فوربس‘ (Forbes) کے اعداد و شمار کے مطابق، ان کی اجتماعی دولت میں ۷۰ فی صد اضافہ ہوا۔ ۱۸مارچ ۲۰۲۰ء کو کورونا وبا کے آغاز میں ان کی دولت ۳ٹریلین ڈالر تھی، جو ۱۵؍اکتوبر ۲۰۲۱ء تک بڑھ کر ۵ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوگئی۔
حقیقت یہ ہے کہ آج عالمی معیشت کے ساتھ ساتھ معاشیات کی سائنس دونوں ہی بحران کا شکار ہیں۔ پروفیسر ابھیجیت وی بینرجی (Abhijit V. Banerjee) اور ایستھرڈ فلو (Esther Dufly) نے اپنی کتاب: Good Economics for Hard Times (۲۰۱۹ء) میں عصری معاشیات پر نہایت جامع تنقید کی ہے۔انھوں نے اچھی معاشیات اور فاسد معاشیات (Bad Economics)کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے، اس عدم اعتماد پر افسوس کا اظہار کیا ہے، جو عام آدمی معاشیات کے بارے میں رکھتا ہے۔
وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح معاشیات اور اخلاقیات کے درمیان علیحدگی ایک ایسے معاشرے کی پیدائش کا باعث بنی ہے، جس میں انصاف اور اس کے تمام ارکان کی فلاح و بہبود کا فقدان ہے۔ ان مصنّفین کے مطابق ایسا اس وجہ سے ہے کہ یہاں بڑے پیمانے پر فاسد معاشیات کا دور دورہ ہے۔
مصنّفین، مغرب میں معاشیات کے ناقص نقطۂ آغاز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے معاشیات کی ناکامی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’معاشی ماہرین کا رجحان فلاح و بہبود کے تصور کو اپنانے کی طرف ہے، جو اکثر بہت محدود ہوتا ہے، آمدنی یا مواد کی کھپت کے کچھ حصے کی حد تک۔ پھر ہم سب کو ایک مکمل زندگی گزارنے کے لیے برادری کے احترام، خاندان اور دوستوں کی راحت، وقار، خوشی اور سہل زندگی سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے۔صرف آمدنی پر توجہ ایک آسان راستہ نہیں ہے۔ یہ ایک مسخ کرنے والی عینک ہے، جس نے اکثر ذہین ماہرینِ اقتصادیات کو گمراہ کیا ہے، پالیسی سازوں کو غلط فیصلوں اور ہم میں سے اکثر پر غلط تصورات کو مسلط کیا ہے‘‘۔
جدید معاشیات کے بارے میں ان کی تنقید بہت باوزن ہے: ’’فاسدمعاشیات نے معیشت کی تمام چابیاں اور وسائل امیروں کے حوالے کر دیئے، پھر عوام کے لیے فلاحی پروگراموں کو کم کرنے پر زور دیا۔ اس تصور کو غالب کر دیا کہ ریاست کمزور اور بدعنوان ہے اور غریب سُست ہیں۔ یہ وہ حکمت عملی تھی، جس نے عدم مساوات اور عوامی سطح پر جمود اور تلخی کو جنم دیا، جس سے تصادم کی فضا رُونما ہوئی ہے۔
نظریں خیرہ کرنے والی اس معیشت نے ہمیں بتایا کہ تجارت سب کے لیے اچھی ہے اور تیز تر ترقی ہی انسانیت کی معراج ہے۔ اندھی معیشت نے پوری دُنیا میں عدم مساوات کے خوفناک دھماکے اور اس کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے سماجی مسائل، اور سر پر کھڑی ماحولیاتی تباہی کو نظرانداز کر دیا‘‘۔ (Good Economics for Hard Times، پینگوئن بُکس، برطانیہ،۲۰۱۹ء)
اچھی معاشیات کی تلاش وقت کی پکار ہے۔ اسلامی معاشیات کو ترقی دینے کی کوشش اس سمت میں ایک مثبت کردار ہے۔اس سلسلے میں جن اہل علم نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، ان میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی [۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء] اور پھر باقرالصدر [یکم مارچ ۱۹۳۵ء- ۹؍اپریل ۱۹۸۰ء] کا نام نمایاں ہے۔ مولانا مودودی نے نہ صرف علم معیشت کے تمام دائروں کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کو واضح الفاظ میں بیان کیا، اور ان کی علمی اور عملی فوقیت پر مؤثر دلائل دیے، بلکہ پورے معاشی مسئلے کو دیکھنے اور حل کرنے کے لیے جس نئے نقطۂ نظر کی ضرورت ہے، اسے بڑی گرفت کے ساتھ واضح کیا۔ اس طرح معاشیات کے علم کی تشکیلِ جدید کی تحریک، بیسویں صدی کی ایک مؤثر تحریک بن گئی۔
معاشی حوالوں سے سیّد مودودی کی تحریریں پانچ بڑے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں:
ہمارے نزدیک 'تصور اور 'تجزیےمیں پیدا کردہ تفریق ہی روایتی معاشیات کی ناکامی کی اصل وجہ ہے۔ اسی لیے سیّد مودودی نے زور دے کر یہ سمجھایا ہے کہ اسلام کے تصورِ حیات، اخلاقی ضابطے اور انفرادی و اجتماعی تنظیم کا، معاشی نظریے، معاشی زندگی اور فیصلہ سازی سے لازمی ربط ہے۔ اگر اس میں سے کوئی ایک اکائی غائب ہے یا نظرانداز ہے، تو اس کو اپنی جگہ فعال اور بحال ہونا چاہیے ۔ مراد یہ ہے کہ معاشیات کی اسلامی تشکیل کی نمایاں ترین خصوصیت معاشی تجزیے اور پالیسی سازی میں بھی اخلاقی اقدار کی کارفرمائی کا کلیدی کردار ہے۔
مولانامودودی نے معاشیات کے اس پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کیسے ایک انسان دوست معیشت، مربوط طرز فکر کے ذریعے معاشرے کے تمام افراد کے لیے اچھی زندگی کے مواقع پیدا کرسکتی ہے۔ ایک صحت مند معاشیات وہ ہوگی، جس میں معاشیات اور اخلاقیات کا ناتا ٹوٹا ہوا نہ ہو۔ مولانا نے معاشی زندگی اور اس کی انجام دہی کے مختلف پہلوؤں پر اس مربوط طرز فکر کے اثرات کو نمایاں کیا ہے۔
مولانا مودودی برملا کہتے ہیں کہ انسانی زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی کا ہرپہلو دیگر تمام پہلوؤں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بلاشبہہ تخصص کا ایک کردار موجود ہے، لیکن زندگی کو ایسے جدا جدا خانوں میں تقسیم کر دینا غیرحقیقت پسندانہ اور انتہائی نقصان دہ ہے، جن میں ہر شعبۂ علم انسانی زندگی کے کسی پہلو کو ایک الگ دنیا میں زیر مطالعہ لاتا ہو۔ گذشتہ دو صدیوں کے دوران معاشیات کو جس طرح ایک جدا اور اپنے آپ میں مکمل علم کے طور پر پروان چڑھایا گیا ہے، اس نے ایسے یک رُخے علم کی تشکیل کی ہے، جس کی ساری توجہ ذاتی مفاد، نفع اندوزی اور مال جمع کرنے کی دوڑ میں ایک نہ ختم ہونے والے مقابلے پر ہے ۔
اس مفاد پرستانہ ذوقِ شکم و زرکا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی مفاد کا حصول ہی تمام انسانی کوششوں کا مدار ٹھیرا ۔ دروغ گوئی، جعل سازی،اشتہاربازی اور ناانصافی کا بازار گرم ہوا، جو آج کے معاشی حقائق ہیں۔ معاشرے کا مفہوم مجرد معیشت سمجھ لیا گیا اور معیشت کو منڈی تک محدود کر دیا گیا ہے۔ آغاز تو مادی ضروریات کے لیے اخلاقی فلسفے کے پھیلاؤ سے ہوا تھا، لیکن اس نے محدود ہوتے ہوتے مالی فوائد و نقصانات کی حساب بندی کی شکل اختیار کر لی۔ پھر معاشیات کا تعلق مذہب اور اخلاقیات سے توڑنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اسے رفتہ رفتہ فلسفے، سیاسیات، عمرانیات، نفسیات، تاریخ سمیت دیگر شعبہ ہائے علم سے بھی جدا کر دیا گیا ۔اگر انسانی مسائل کا حل واقعی درکار ہے تو زندگی سے متعلق تمام شعبہ ہائے فکر سے معاشیات کے تعلق کو بحال کر کے مضبوط کرنا ہوگا ۔ اس نئے آغاز کے لیے مختلف شعبہ ہائے علم سے استفادہ ناگزیر ہے۔
اگرچہ منڈی (مارکیٹ)کی حرکیات، فیصلہ سازی کے لیے مناسب بنیاد ہیں، لیکن خود منڈی کو واضح طور پر طے شدہ اخلاقی، قانونی اور سماجی دائروں میں کام کرنا چاہیے۔ انسانوں کا اپنا مرکزی کردار ہے، لیکن اداروں کا بھی اپنا خاص مقام ہے، جو بعض صورتوں میں زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ عمل تخلیق میں مقابلہ آرائی تو لازم ہے، لیکن معیشت و معاشرت کی حرکیات میں باہم تعاون اور درد مندی بھی اہم تر ہے۔ ریاست خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی اور نہ اسے لاتعلق ہونا چاہیے۔ اسے تنظیم اور اصلاح کا کام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ معاشرتی اہداف کا حصول ممکن ہو۔ سیّدمودودی کہتے ہیں کہ تمام دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ریاست اور افراد معاشرہ کو بھی اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ سماجی ترقی، معاشرے کے تمام ارکان کے لیے عدل و فلاح کی ضامن ہو۔
موجودہ سرمایہ دارانہ سماج کا ایک بڑا المیہ مالی معیشت اور حقیقی معیشت میں بڑھتی ہوئی خلیج ہے۔ آج کی دنیا، حقیقی اور معنوی رقوم کے سیلاب کی لپیٹ میں ہے جس میں اضافی قدر پیدا کرنے کا ٹھوس عمل، عالمی انسانی برادری کی حقیقی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسی خود مختار فضا قائم کردی گئی ہے، جس میں دولت کو دولت کھینچتی ہے، لیکن حقیقی معیشت میں کوئی بڑھوتری نہیں ہوتی۔ اُدھار کو حقیقی دولت پیدا کرنے کے لیے صرف استعمال ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یہ خود ایک الگ معیشت بن گئی ہے۔ گھروں، کاروباری اداروں اور ریاستوں سمیت ہر سطح پر گویا سودی قرض کے پھیلائو کی ایک دھماکا خیز صورتِ حال ہے، جس سے پیدا ہونے والے بلبلے پھیل بھی رہے ہیں اور بڑھ بھی رہے ہیں، لیکن مصنوعات اور خدمات کی حقیقی فراہمی، جو انسانی ضروریات اور سہولیات کا باعث بنیں، ان میں اضافہ نہیں ہو رہا۔
مولانا مودودی اسلامی معاشیات کے چلن سے اقتصادی میدان میں حقیقی وسائل کے درمیان ربط کو بحال کرنے کی دعوت پیش کرتے ہیں۔ سابق امریکی صدر اوباما بھی ایک تقریر میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ ’’دنیا کو معاشی انجینئرنگ سے زیادہ حقیقی انجینئرنگ کی ضرورت ہے‘‘۔ دنیا کی معیشت کی موجودہ صورت حال سخت تشویش ناک ہے، جس میں بیرونی زرمبادلہ کی روزانہ خریدوفروخت اشیا و خدمات کی حقیقی بین الاقوامی تجارت سے تقریباً پچاس گنا زیادہ ہے۔
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلامی معاشیات کی بنیادی خصوصیت، حقیقی معیشت اور اثاثہ جات کی پیداوار کا باہم تعلق ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے ذمہ دار عوامل میں ربا (سود)، میسر (تخمینے کی بنا پر خرید و فروخت) اور غرر (تلون اور ابہام) شامل ہیں۔ اسلام ان سب کو حرام قرار دیتا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ایک قرطاس عمل (ایکشن پلان) میں یہ دلچسپ تبصرہ موجود ہے:’’اسلامی بنکوں کی کارکردگی کا عالمی سطح پر روایتی بنکوں سے موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں معاشی بحران کے نتیجے میں روایتی بنکوں کو جو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے پیش نظر اسلامی بنکوں کی کارکردگی بہتر رہی ہے‘‘۔
اسلامی معاشیات پر نظری اور عملی حوالوں سے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا اثر کم ازکم تین سمتوں میں واضح نظر آتا ہے:
اوّل:یہ کہ انھوں نے نہ صرف قرآن اور سنت کی معاشی تعلیمات کو پوری وضاحت اور اس مضمون پر پوری گرفت کے ساتھ بیان کیا بلکہ اسلامی معاشیات کی ایک الگ شعبۂ علم کے طور پر تشکیل کا عملی آغاز بھی کیا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے معاشیات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق میں گذشتہ پچاس برس کے دوران نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس مقصد کے لیے متعدد تحقیقی ادارے قائم ہوئے ہیں۔ درجنوں بین الاقوامی کانفرنسوں اور لاتعداد سیمی ناروں اور مباحثوں کے ذریعے اس جدید اور اُبھرتے ہوئے شعبۂ علم کو مختلف پہلوؤں سے پروان چڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مسلم دنیا میں الگ سے اور اس سے باہر ڈیڑھ سو سے زائد یونی ورسٹیوں میں اسلامی معاشیات کو ایک تدریسی شعبۂ علم کے طور پر الگ سے شامل کیا جاچکا ہے۔ اس پیش قدمی میں سیّد مودودی کا کردار نمایاں ہے۔
دوم: یہ کہ مولانا مودودی محض ایک کتابی مفکر نہ تھے۔ اسلام، تبدیلی چاہتا ہے اور مولانامودودی نے مرد و خواتین کی روحانی اور اخلاقی قلب ماہیت کے لیے اور اسلام کے طے کردہ معیارات، اقدار اور اصولوں پر مبنی ایک نئے سماجی نظام کے قیام کے لیے عالمی تحریک کی تشکیل اور تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا مودودی کا اصل مقصد اسلامی نظام کو اس کی مکمل شکل میں قائم کرنا تھا۔ گویا ان کا پیغام یہ تھا کہ اسلامی معیشت، سماجی تبدیلی کے بغیر نمو نہیں پا سکتی۔ لہٰذا، اسلامی معاشیات کے تین پہلو ایک دوسرے سے وابستہ بلکہ باہم پیوست ہیں، یعنی: اس کا اخلاقی و معیاری پہلو، ایجابی یا تجزیاتی پہلو، اور معیشت و معاشرت میں تبدیلی کے لیے اس کا تغیر اتی کردار۔
اسلامی معاشیات کو عملی شکل دینے کے لیے مولانا مودودی نے فرد اور معاشرے کے طور پر بھی اور سماج اور ریاست کی سطح پر بھی مسلمانوں کی معاشی زندگی کی تشکیل نو پر بھی مسلسل زور دیا۔ اسلامی معیشت، بنکاری اور انشورنس کے لیے عالمی تحریک کا ظہور پذیر ہونا پیش نظر رہنا چاہیے۔ دیگر حوالوں سے ہونے والی پیش رفت میں زکوٰۃ، صدقات اور انفاق سے متعلق تعلیمات کو باقاعدہ شکل دینے کے لیے تنظیموں کا قیام اہم ہے۔ یہ پیش رفت اسلام کی عصری تشکیل کے معاشی پہلو کی آئینہ دار ہے۔ تاہم، مولانا مودودی زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ ساری کوششیں ایک بڑی تبدیلی، یعنی سماجی، معاشی اور سیاسی منظرنامے کی جامع تبدیلی کے لیے محض ایک نقطۂ آغاز ہیں۔
پھرمولانا مودودی کا اثر پالیسی سازی کے میدان میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے معاشی فیصلہ سازی کے ہر مرحلے پر فرد، کاروباری اداروں،معاشرے اور ریاست کے حوالے سےپورے منظرنامے کو نئے سرے سے تشکیل دینے پر زور دیا ہے۔ ان سب کا مقصد ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ہونا چاہیے۔ مسلم ممالک کے وہ دساتیر جو مولانا مودودی کے اصل عرصۂ تصنیف و تحقیق سے قبل لکھے گئے تھے، ان کا موازنہ اسلامی احیا کی تحریکوں کے زیر اثر بننے والے دساتیر سے کیا جائے تو حیرت انگیز مشاہدات سامنے آئیں گے۔ اگر صرف تین مثالیں مقصود ہوں تو پاکستان، ایران اور سوڈان کے دساتیر میں ریاستی پالیسی کے لیے وضع کردہ رہنما اصول، اسلام کے سماجی و معاشرتی معیارات اور احکام پر مبنی اس نئی معاشی فکر کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم پاکستان کا ۷۵واں یومِ آزادی منا رہے ہیں۔ ملت ِاسلامیہ پاکستان کے لیے ۱۴؍اگست کا دن بھی اللہ کی ایک نشانی ہے۔ صرف سات سال کی بھرپور اور پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے سیاسی نقشے پر، اور وہ بھی ایک ایسے سیاسی نقشے پر جس کے سبھی نقش مغربی تہذیب، مادیت، سیکولرزم اور لبرلزم کے رنگوں سے آلودہ تھے، عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر ایک ریاست کا قیام ایک تاریخی کرشمے سے کم نہ تھا۔ تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد اور روح ہی یہ تھی کہ برعظیم ہند میں مسلمان محض دوسری اکثریت نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوم ہیں۔ ان کا مقصد صرف یورپی استعمار سے آزادی ہی نہیں، توحید اور رسالت ِ محمدیؐ کی بنیاد پر ایک نئے سیاسی اور اجتماعی نظام کا قیام ہے۔ جو بہرحال وقت کے غالب تصورات سے بغاوت اور ایک نئے نظریاتی مستقبل کی تعمیر کے عزم سے عبارت تھا۔ آزادی کا حصول اس اصل مقصد کے لیے تھا۔ ان دونوں میں لازم و ملزوم کا رشتہ تھا، جسے علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبے اور پھر قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے نام اپنے خطوط میں بہت صاف الفاظ میں بیان کردیا تھا:
انگریزوں سے آزادی اور حصولِ ملک برائے قیامِ نظامِ اسلامی‘ ہی تحریکِ پاکستان کی امتیازی خصوصیت ہے اور قائداعظم کی قیادت میں جو تاریخی کامیابی قیامِ پاکستان کی شکل میں حاصل ہوئی، اس کا سہرا اسی تصور اور اس تصور کی خاطر برعظیم کے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے سر ہے۔ ۱۴؍اگست کی اصل اہمیت ہی یہ ہے کہ یہ تاریخ ہرسال پوری قوم کو تحریکِ پاکستان کے اصل مقصد اور ہدف و منزل کی یاددہانی کراتی ہے، اور ہمیں اس امر پر سوچنے کی دعوت دیتی ہے کہ سات سال میں کیا کچھ اس قوم نے حاصل کرلیا تھا پھر آزادی کے چھے عشروں میں اس اصل مقصد سے غفلت اور بے وفائی کا راستہ اختیار کیا، تو اب ٹامک ٹوئیاں مارنے کے نتیجے میں موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اللہ کی اس نشانی سے سبق سیکھتے ہوئے راہِ راست کی طرف آنے کی کوشش اور جدوجہد نہیں کررہے۔
آزادی کی ۷۵ویں سالگرہ کے موقعے پر ہم قوم کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس عظیم موقعے کو محض چند روایتی اور نمایشی کارروائیوں کی نذر کرنا ایک سنگین مذاق اور بڑا المیہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ اس عظیم دن کی اصل نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پھر اس سبق اور پیغام کو حرزِ جاں بنایا جائے، جس کی نشانی (آیت) ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء، ۲۷رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ ہے۔
پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ اس ملک کے قیام کی جدوجہد جہاں زوال پذیر برطانوی استعمار اور اُبھرتے ہوئے ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی کی تحریک تھی، وہیں اس سے زیادہ یہ ایک نظریاتی اور تہذیبی احیا کی تحریک تھی۔ اس کا اصل مقصد برعظیم کے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، وہاں کے لوگوں کو اپنے دین، ایمان، تصورِ حیات، روایات اور ملّی عزائم کی روشنی میں آزاد فضا میں ایک روشن مستقبل کی تعمیر کا موقع فراہم کرنا تھا۔ سیاسی آزادی اور دینی و تہذیبی تشکیلِ نو کا مقصد اور عزمِ تحریکِ پاکستان کے دو اہداف تھے، جو ایک ہی تصویر کے دو رُخ کی حیثیت رکھتے ہیں___ ان دونوں کا ناقابلِ انقطاع تعلق اسلامیانِ پاکستان کی قوت کا راز ہے اور ان میں تفریق اور امتیاز بگاڑ اور خرابی کی اصل وجہ ہے۔
تحریکِ پاکستان کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے برعظیم کے مسلمانوں کو ان کی قومی شناخت دی اور اس شناخت کی بنیاد پر ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے ان کو سرگرم اور متحرک کردیا، جس کا نتیجہ تھا کہ سات سال کی مختصر مدت میں برعظیم کے دس کروڑ مسلمانوں نے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند اپنی آزادی اور دین کے تحفظ کی جنگ لڑی اور بلالحاظ اس کے کہ پاکستان کے قیام سے کس کو کیا فائدہ پہنچے گا اور کس کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی، ایک نظریاتی جنگ کے نتیجے میں ایک آزاد ملک قائم کیا۔
تحریکِ پاکستان کی بنیاد اسلام کا تصورِ قومیت ہے جس کی روشنی میں قوم کی آزادی اور آزادی کے سایے میں قوم کی اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کے لیے مملکت کا حصول عمل میں آیا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ یہ المیہ رُونما ہوا کہ وہ قوم جسے مختصر ترین وقت میں یہ مملکت ِ خداداد ملی تھی، اسی قوم کے اہلِ حل و عقد اسلامی قومیت کی بنیاد پر ملک کی تعمیر سے غافل ہوگئے۔ نظریاتی شناخت اور بنیاد سے ہٹ کر ملک کو ’ترقی یافتہ‘ بنانے کی سعی لاحاصل میں ملک کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ جس کانتیجہ ہے کہ صرف ۲۴برس بعد ۱۹۷۱ء میں ملک عزیز دولخت بھی ہوگیا اور آج جو کچھ موجود ہے، اس کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آج جس حقیقت کے اِدراک اور اقرار کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام اور پاکستان کے وجود،بقا اور ترقی کا انحصار اس نظریے پر ہے، جو تحریک کی روح اور کارفرما قوت تھی۔ قائداعظم نے ایک جملے میں اس حقیقت کو بیان کردیا تھا:
اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔
لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ قائد کے اس انتباہ کو ہم نے بحیثیت قوم نظرانداز کیا۔
۱۴؍اگست ایک عظیم یاددہانی ہے، اور یہ ایک انتباہ بھی ہے کہ اگر ملک اور نظریے کے رشتے کو نظرانداز کیا گیا تو ملک کا وجود بھی معرضِ خطر میں ہوگا (یوں تو اس وقت بھی معرضِ خطر ہی میں ہے) ۔ ہم قیامِ پاکستان کی ۷۵ویں سالگرہ کے موقعے پر اسی بنیادی نکتے پر قوم کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ملک آج جن مشکلات میں پھنسا ہوا ہے، ان سے نکلنے کے لیے اس بنیاد کی طرف لوٹ کر آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں، جو تحریکِ پاکستان کی اساس ہے، جو ہماری قوت کا اصل منبع ہے، جس کے ذریعے ہم یہ ملک حاصل کرسکے اور جس کے بغیر ہم اس کو نہ قائم رکھ سکتے ہیں اور نہ ترقی دے سکتے ہیں۔
آج سب سے بڑی ضرورت قوم اور ملک کے اس تعلق کو سمجھنے اور اس پر سختی سے قائم رہنے میں ہے کہ اللہ کی سنت یہ بھی ہے کہ اگر ایک فرد یا قوم اس کی نعمتوں پر شکر کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کے انعامات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اگر وہ کفرانِ نعمت کرتے ہیں تو پھر اس کی پکڑ بھی بہت ہی شدید ہے___ اور ناشکری کے نتیجے میں جو بگاڑ اور تباہی رُونما ہوتی ہے، اس کی ذمہ داری صرف اور صرف فرد اور قوم کے اپنے رویے اور کرتوتوں پر ہوتی ہے:
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ o (ابراہیم ۱۴:۷) اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر تم شکرگزار ہو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
اور یاد رکھو:
وَ مَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ o(القصص ۲۸:۵۹) اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجائیں۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ جس میں ہمیں آزادی کی نعمت حاصل ہونے کے ساتھ یہ موقع بھی ملا کہ آزاد فضا میں اپنے تصورات کے مطابق نئی زندگی تعمیر کریں۔ لیکن افسوس کہ ابتدائی چند برسوں کے بعد ہی جو عناصر قیادت پر قابض ہوگئے تھے، انھوں نے نہ صرف ان مقاصد کو فراموش کیا، بلکہ ملک کو انھی باطل نظریات اور مفادات کے حصول کی بھٹی میں جھونک دیا، جن سے نکلنے کے لیے تحریکِ پاکستان برپا کی گئی تھی۔ وہ یک سوئی جو تحریکِ پاکستان کا طرئہ امتیاز تھی، ختم ہوگئی اور ملک اندرونی کش مکش اور بیرونی سازشوں کی آماج گاہ بن گیا اور آج ہماری آزادی بھی معرضِ خطر میں ہے اور ملک بھی معاشی، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی، غرض ہراعتبار سے تنزل کا شکار نظر آتا ہے۔
۱۴؍اگست ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ ان اصل مقاصد کی نشان دہی کریں جو قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا محرک اور اس تحریک کی امتیازی خصوصیت تھے اور پھر اس بگاڑ کی نشان دہی کریں جس نے ہمیں تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے۔ اس تجزیے کی روشنی میں ایک بار پھر اس راستے اور منزل کی نشان دہی کریں جو اس تباہی سے بچنے اور اصل مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کا راستہ ہے۔
قیامِ پاکستان کا یہی وہ پہلو ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد پوری مسلم دنیا میں اسلامی ریاست اور اسلامی تہذیب کے احیا کی لہریں بار بار اُٹھ رہی ہیں اور سارے نشیب و فراز کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔
آیئے، قیامِ پاکستان کے ان مقاصد اور عزائم کے پس منظر میں اپنی قومی زندگی کے اس نئے سال کے آغاز پر اس امر کاجائزہ لیں کہ پاکستانی قوم اور اس کی قیادتوں نے کہاں تک ان اہداف کی طرف پیش قدمی کی اور ملک عزیز کو آج کون سے مسائل، خطرات اور چیلنج درپیش ہیں؟ نیز ان حالات میں اصل منزل کی طرف پیش رفت کے لیے صحیح حکمت عملی اور لائحہ عمل کیا ہے؟
تحریکِ پاکستان اور تاریخ ِ پاکستان کے معروضی تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان کا اصل سہرا اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص کے بعد اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ قائداعظمؒ کی فراست و قیادت اور مسلمان عوام کا جذبہ اور قربانی ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ان کی بیماری اور وفات نے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی، جس میں وہ کھوٹے سکّے، جو ان کے گرد جمع ہوگئے تھے، اقتدار پر قبضہ جماکر ریاست کی مشینری کو بالکل دوسرے ہی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔
پہلے وزیراعظم کو گولی کا نشانہ بنا کر قومی منظر سے ہٹا دیا گیا، دوسرے وزیراعظم کو برطرفی کی تلوار کے بل پر نکال باہر کیا گیا اور ان کے مخلص ساتھیوں کو سازشوں کے ذریعے غیر مؤثر بنادیاگیا، اور چند ہی برسوں میں بساط سیاست ایسی اُلٹی کہ اصل نقشہ درہم برہم کرکے یہ مخصوص ٹولہ اقتدار کے ہرمیدان پر قابض ہوگیا۔قانون اور ضابطے کا احترام ختم ہوگیا۔ منتخب دستور ساز اسمبلی کو بار بار توڑ دیا گیا۔ انتظامیہ اور پولیس کو سیاسی قیادت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، جو بالآخر انھی کے ہاتھوں اسیر ہوکر رہ گئی۔ فوج کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر فوج نے اپنے لیے سیاسی کردار حاصل کرلیا۔ عدلیہ نے کچھ مزاحمت کی، لیکن اسے بھی زیردام لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔
نوسال بعد پہلا دستور بنا، جسے دوہی سال کے بعد توڑ دیا گیا، اور دستور شکنی کی ایک ایسی ریت چل پڑی، جس کے مذموم اثرات کی گرفت میں ملک و قوم زبوں حال ہیں۔ جس احساس تشخص نے قوم کو جوڑا تھا، اس پر ہر طرف سے تیشہ چلایا گیا، لادینی نظریات، علاقائیت، لسانیت، برادری کا تعصب، قبائلیت، غرض کون سا تیشہ ہے جو اس پر نہ چلایا گیا ہو۔
آزادی کے بعد۲۳سال تک بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب نہ کرائے گئے اور پھر دسمبر ۱۹۷۰ء میں انتخابات منعقد ہوئے تو وہ دھونس، دھاندلی اور بدعنوانی کا شاہ کار رہے کہ عوامی مینڈیٹ ایک مذاق بن گیا۔ سیاسی جماعتوں میں ذاتی بادشاہت، خاندانی قیادت اور علاقائی اور لسانی تعصبات کا غلبہ رہا اور حقیقی جمہوریت کے فروغ کا ہر راستہ بند کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں علاقائی تعصبات نے سیاست کو آلودہ کیا اور قومی سیاست کی گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی۔ مغربی اور ہندو تہذیب کو رواج دینے کی دانستہ کوشش کی گئی۔
معاشی ترقی کا وہ راستہ اختیار کیا گیا جس نے ملک کو ایک طرف طبقاتی تصادم میں مبتلا کیا تو دوسری طرف مغرب کے سودی سامراج کے چنگل میں اس طرح گرفتار کردیا کہ آج ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بوجھ تلے سسک رہاہے۔
پاکستان کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ اصل اقتدار اور اختیار آج تک عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا، اور سارے وسائل پر ایک طبقہ قابض ہے جس کا تعلق سیاسی، انتظامی اور عسکری اشرافیہ سے ہے اور جو باری باری اقتدار پر براجمان ہوکر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا ہے۔ قومی دولت کا ۸۰فی صد آبادی کے اُوپر کے ۱۰ فی صد کے پاس ہے۔ ۱۰/۱۲ہزار بڑے خاندان ہیں جو زراعت، صنعت اور تجارت پر مکمل تصرف رکھتے ہیں اور یہی خاندان سیاست پر بھی چھائے ہوئے ہیں، پارٹی خواہ کوئی بھی ہو۔ سول بیوروکریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ بھی اس گٹھ جوڑ کا اہم حصہ ہیں۔
دستور موجود ہے مگر کبھی فوج کے ہاتھوں او ر کبھی سول حکمرانوں کے ہاتھوں اس کا بڑا حصہ عملاً معطل رہا ہے۔ قانون صرف کتاب قانون کی ’زینت‘ ہے، اور عملاً قانون، ضابطے اور میرٹ کا کوئی احترام نہیں۔ پولیس سیاسی قیادت کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے۔ ہرسمت کرپشن کا دور دورہ ہے ۔ عوام کے مسائل اور مشکلات کا کسی کو درد نہیں اور نہ کوئی ان کا پُرسانِ حال ہے۔ عدالت، خصوصیت سے اعلیٰ عدالت نے کچھ آزادی حاصل کی ہے مگر اس کے فیصلوں اور احکام کو بھی کھلے بندوں نظرانداز کیا جاتا ہے، یا عملاً انھیں غیرمؤثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ بجلی،گیس اور پانی کے بحران نے تباہی مچائی ہوئی ہے اور لاقانونیت اور دہشت گردی کے سبب عوام کی جان، مال اور عزت، سب معرضِ خطر میں ہیں۔
ان حالات کو اور بھی سنگین بنادینے والے چند پہلو اور بھی ہیں، جن کا اِدراک ضروری ہے۔
ملک کے معاملات میں بیرونی قوتوں اور خصوصیت سے امریکا اور مغربی اقوام کی دراندازیاں سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یہ سلسلہ توملک غلام محمد اور جنرل ایوب خان کے دور ہی سے شروع ہوگیا تھا، مگر جنرل پرویز مشرف کے اَدوار میں یہ اپنے عروج کو پہنچ گیا اور یہی اُلٹا سفر آج بھی جاری ہے۔
معاشی اعتبار سے بھی انھی قوتوں کی گرفت ہماری معیشت پر مضبوط تر ہورہی ہے اور سیاسی اعتبار سے بھی اندرونی معاملات کی باگ ڈور انھی کے ہاتھوں میں نظر آرہی ہے۔ سول اور فوجی تعلقات کے نشیب و فراز کے نتائج قوم بھگت رہی ہے۔ معاشی پالیسیوں کی صورت گری جس طرح عالمی بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے اشاروں پر کی جارہی ہے اور سیاسی اُفق پر تبدیلیوں کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس نے آزادی اور قومی خودمختاری کی حقیقت کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
اس پر مستزاد وہ نظریاتی انتشار ہے جو ملک و قوم اور خصوصیت سے نئی نسلوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ بھی آج متنازع موضوع بنایا جارہا ہے۔ قراردادِ مقاصد ہدف تنقید و ملامت ٹھیری ہے۔ تاریخ کے قتل کا ہوّا دکھا کر تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ ریاست اور مذہب کے تعلق تک کو زیربحث لایا جا رہا ہے۔
ایک فی صد سے بھی بہت کم تعداد رکھنے والا سیکولر اور لبرل طبقہ ہے جو میڈیا پر قابض ہے، اور آزادیِ فکر کے نام پر قومی زندگی کے مسلمات کو چیلنج کر رہا ہے اور ملک و قوم میں فکری انتشار اور خلفشار پیدا کرنے اور بھارت اور مغربی اقوام کے سامراجی ایجنڈے کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ان ۷۵برسوں میں جو طبقہ حکومت، معیشت اور سیکورٹی کے نظام پر قابض رہا ہے وہ یہی سیکولر گروہ ہے جو کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی سرمایہ داری کے نام پر، اور کبھی ’روشن خیال جدیدیت‘ کے نام پر حکمران رہا ہے اور سارے بگاڑ کا سبب رہا ہے۔ ملّا کو گالی دینا اور ہر خرابی کو جنرل ضیاء الحق کے سر تھوپنا تو اس کا وتیرا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلام محمد کے دور سے لے کر مشرف اور زرداری کے دور تک اقتدار اگر کسی طبقے کے ہاتھوں میں رہا ہے تو وہ یہی سیکولر مراعات یافتہ اشرافیہ ہے۔ سول دور ہو یا عسکری ، اس دوران میں یہی سیکولر طبقہ حکمران رہا ہے، اور ساری خرابیوں کی جڑ، اس کا ملک کے اجتماعی معاملات میں کردار ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں کچھ چیزیں اسلام کے احکام کے مطابق ضرور ہوئیں، لیکن بحیثیت مجموعی اس دور میں بھی اصل فکر اور اصل کارفرما ہاتھ بہت مختلف نہ تھے۔ اس لیے اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ آزادی کے سات عشروں میں اگر کوئی فکر اور کوئی طبقہ حکمران رہا ہے تو وہ یہی سیکولر فکر اور سیکولر طبقہ ہے۔ چند مغربی محققین نے بھی اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اور عرب ممالک میں خود مسلمانوں کی مغرب زدہ سیکولر قیادت ہے جو ناکام رہی ہے اور بگاڑ کی بھی بڑی حد تک ذمہ دار یہی بدعنوان اور نااہل قیادت ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ اور پروفیسر کیتھ کیلارڈ نے بہت صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ ان ممالک میں آج جو بھی حالات ہیں وہ مذہبی قوتوں کے پیدا کردہ نہیں ہیں، بلکہ ان ممالک میں مغرب نواز سیکولر قیادتیں ان کی ذمہ دار ہیں۔
انھی حالات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج صرف سیاسی اور معاشی بحران ہی کا شکار نہیں، نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی انتشارمیں بھی مبتلا ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے اس طرح کی ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے، جیسی برعظیم کے مسلمانوں کو برطانوی اور برہمن سامراج سے نجات دلانے کے لیے اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی رہنمائی میں برپا کی گئی تھی۔
اس ہمہ گیر بگاڑ کے تین بڑے تشویش ناک پہلو ہیں:
یہی حال قانون سازی کا ہے۔ قانون بناتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ ملک و ملّت کا مفاد کیا ہے یا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا ہے؟ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ امریکا اور مغرب کس بات پر خوش ہوں گے؟ اور کس پر نکتہ چیں؟ چونکہ مغرب نے آج کل فنڈامنٹلزم اور تشدد کا ہوّا کھڑا کر رکھا ہے، اس لیے ہماری قومی قیادت کی جانب سے نہ صرف قسمیں کھائی جارہی ہیں کہ ہم فنڈامنٹلسٹ نہیں ہیں بلکہ ہرقانون اور اخلاقی قدر کو پامال کر کے واشنگٹن اور اس کے گماشتوں کے آگے ناک رگڑی جارہی ہے اور انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ان بھیڑیوں اور درندوں کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ خود اقتدار میں آنے اور اقتدار میں رہنے کے لیے عوام اور پارلیمنٹ کے بجاے واشنگٹن کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
غرض سیاست، معیشت اور ثقافت و تمدن، ہر میدان میں ہم اپنی آزادی اور حاکمیت پر سمجھوتے کر رہے ہیں اور جو کچھ مسلمانانِ پاک و ہند نے اپنی جان، مال اور آبرو کی قربانی دے کر حاصل کیا تھا، اسے چند طالع آزما اپنے مفاد کی خاطر مسلسل دائو پر لگاتے چلے آرہے ہیں۔
یہ ہے وہ حالت ِزار جس میں، آزادی کے ۷۵سال کے بعد ماضی کے کچھ فوجی اورماضی اور حال کی کچھ نام نہاد جمہوری قوتوں کی حکمرانی کے طفیل پاکستان اور اہلِ پاکستان مبتلا ہیں۔ وہ ملک جو پوری ملت اسلامیہ کے لیے نئی اُمیدوں اور ایک روشن مستقبل کا پیغام لے کر سیاسی اُفق پر نمودار ہوا تھا، اسے ان اتھاہ تاریکیوں میں پہنچا دیا گیا ہے اور بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔
صورتِ حال کا بگاڑ اور تاریکی کی شدت کا انکار ، دراصل حقیقت کے انکار اور عاقبت نااندیشی کے مترادف ہوگا۔ اس کے باوجود ہماری نگاہ میں مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے بھی کہ مایوسی کفر ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ حالات کیسے ہی خراب کیوں نہ ہوں، مومن کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا (لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط)۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مخلص انسانوں کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دے گا، جن کے خون اور عصمتوں کی قربانی سے یہ ملکِ عزیز وجود میں آیا ہے۔ اس لیے بھی کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ بگاڑ کی قوتیں ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد شکست و ریخت کا نشانہ بنتی ہیں اور خیر اور صلاح کی قوتیں بالآخر غالب ہوتی ہیں۔ جس طرح زوال اور انتشار ہماری تاریخ کی ایک حقیقت ہے، اسی طرح تجدید اور احیا بھی ایک درخشاں حقیقت ہیں: ؎
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہرشب کے سحر ہوتی ہے
سوال یہ ہے کہ اصلاح کا راستہ کیا ہے؟ ہماری نگاہ میں نہ فوج کی مداخلت حالات کو درست کرسکتی ہے اور نہ تشدد کی سیاست۔ ملکی سیاست میں تصادم اور تلخی جس حد کو پہنچ گئی ہے، اس سے صرف سیاست ہی نہیں ملک کا وجود بھی خطرے میں ہے، جس کی بڑی وجہ حکومتوں کی آمرانہ روش، تنگ دلی اور تنگ نظری ہے۔ اگر ایک طرف معاشی بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے اور وسائلِ حیات کی قلت اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے تو دوسری طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جو تشدد کی سیاست کو جنم دیتے ہیں۔
اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کے وہ تمام عناصر جو حالات سے غیرمطمئن ہیں، بگاڑ کے اسباب پر متفق ہیں اور جو اصلاح کے خواہاں ہیں، وہ مل جل کر مؤثر سیاسی جدوجہد کے ذریعے نظام کو بدلنے کی جدوجہد کریں۔ بگاڑ کے ایک ایک سبب کو دُور کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک نئی قیادت اُبھرے جس کا دامن پاک ہو ، جو عوام میں سے ہو اور جو عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔
قائداعظمؒ نے اپنا مقدمہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور روایتی سیاست کاروں کے سامنے نہیں، برعظیم کے مسلم عوام کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ ان کو بیدار اور متحد کرتے ہوئے ایک ایسی عوامی اور جمہوری لہر پیدا کی تھی کہ روایتی قیادتیں اس سیلاب کے آگے بہہ گئیں۔ آج پھر اس کی ضرورت ہے کہ جمہوری ذرائع سے جمہور کو بیدار اور منظم کیا جائے اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کے لیے ان کو متحرک کیا جائے۔ ملکی اور غیرملکی سازشی عناصر کا اصل توڑ عوام کی بیداری اور ان کی منظم قوت ہے۔
خودقائداعظم نے اپنی ۱۹۳۶ء کی ایک تقریر میں قیادت کے لیے بڑے نپے تلے انداز میں مطلوبہ معیار کی نشان دہی کی تھی، جس پر آج ہمیشہ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا: ’’ملکی حالات کا بغور مطالعہ کیجیے، تجزیہ کیجیے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اس بات کو یقینی بنایئے کہ مقننہ (Legislature) میں دیانت دار، حقیقی، مخلص اور محب ِ وطن نمایندے پہنچیں‘‘۔
اس کے لیے ایک طرف امریکا کے اعلان کردہ دبائو سے ہمارانکلنا ضروری ہے، تو دوسری طرف ملکی وسائل کی بنیاد پر معاشی ترقی کا نقشۂ کار بنانا ضروری ہے۔ عسکری میدان میں بھی پہلے قدم کے طور پر اسلحے کے نظام اور خریداری میں مختلف ممالک سے رابطوں کی ضرورت ہے تو دوسری طرف جو حکمت عملی ۱۹۷۰ء میں بنیادی صنعتوں کے قیام اور فروغ کے سلسلے میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس اور اسٹیل ملز کے قیام کی صورت میں اختیار کی گئی تھی، اسے نئے حالات کی روشنی میں ایک نئے انداز میں فروغ دینا ضروری ہے۔
اس سلسلے میں بھارت سے تعلقات کے باب پر بھی جامع نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ جزوی اُمور میں اُلجھنے کے بجاے اصل بنیادی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کی جائے اور اس کے لیے فوری اور دیرپا دونوں نوعیت کی پالیسیاں بنائی جائیں۔ کشمیر اور پانی کے مسئلے کے حل ہی پر بھارت سے سیاسی اور معاشی تعلقات کا دیرپا بنیادوں پر فروغ ممکن ہے۔ ان اساسی پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض ’اعتماد سازی‘ کے اقدامات اور تجارت کا راستہ اختیار کرنا سیاسی اور معاشی ہردوپہلو سے مہلک ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک آزاد اور حقیقی معنی میں پاکستانی مفادات اور ترجیحات پر مبنی خارجہ پالیسی اختیار کی جائے اور اس کے لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستانی عوام کے حقیقی جذبات اور خطوطِ کار میں بُعدالمشرقین ہے۔ تمام عوامی سروے اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی قوم امریکا اور بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتی اور ان کی پالیسیوں کو ملک کے لیے سب سے اہم خطرہ شمار کرتی ہے، جب کہ جنرل مشرف دور سے اب تک حکومت کی پالیسی اور ترجیحات عوام کے جذبات اور خواہشات کی ضد ہیں۔
یہ وہ بنیادی نکات ہیں، جن پر عمل کر کے قوم ایک بار پھر اسلام کے حیات بخش نظام کے قیام کے لیے متحد اور سرگرمِ عمل ہوسکتی ہے اور چمن میں اس کی روٹھی ہوئی بہار واپس آسکتی ہے۔
دنیا بھر کے مسلم اہلِ علم و فضل نے یہ اہم سوال اُٹھایا ہے کہ مسلم اُمہ کے ساتھ اصل مسئلہ کیا ہوا ہے؟ کیا معاذاللہ، اسلام ہی غیر متعلق ہوگیا ہے یا کیا اسلام کو اور تاریخ میں اس کے کردار کو سمجھنے کے لیے مسلم طرزِ فکر میں کوئی خامی ہے؟ مغربی استعمار کے شکنجے سے آزادی کی جدوجہد میں اسلام کو مؤثر ترین شکل دینے کی ترکیب کیا ہو، تاکہ مسلم معاشرت کو خود اسی کی بنیادوں پر استوار کیا جاسکے ؟
غوروفکر اور بحث و مباحثے کی ان ساری کوششوں کا مقصد امت کو تجدید اور تشکیل نو کے راستے پر ڈالنا تھا۔ جمال الدین افغانی، امیر شکیب ا رسلان، حلیم پاشا، بدیع الزماں سعید نورسی، مفتی محمد عبدہٗ، ڈاکٹر محمد اقبال، رشید رضا ،حسن البنا، ابوالکلام آزاد، سیّد قطب شہید،سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، مالک بن نبی اور متعدد دیگر مفکرین ومصلحین نے انھی سوالات پر غور کیا، اور اُمہ جس دلدل میں دھنس چکی تھی، اس سے اُمت کو نکالنے کے لیے اپنے اپنے فہم کے مطابق مثبت راہیں متعین کیں۔بلاشبہہ مختلف حالات اور الگ الگ پس منظر میں، ان رجالِ کار کی بعض آرا سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے، مگر مجموعی طور پر درست سمت کے تعین کے لیے، ان سبھی نے دردِ دل سے کاوشیں کی ہیں، جن کی قدر کی جانی چاہیے، اور منزل تک پہنچنے کے لیے دینی، فکری، تحقیقی، علمی،سیاسی اور اجتماعی جدوجہد کرنی چاہیے۔
مفکرین اور مصلحین کی اس کہکشاں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ اس گھٹاٹوپ فضا میں ۱۹۲۰ء کے زمانے میں صرف ۱۷ سال کی عمر میں انھوں نے مسلم امہ کی تعمیرِنو کا بیڑا اٹھایا ۔دس سال کی صحافتی زندگی کے بعد انھوں نے خود کو مسلم فکر کی تشکیل نو کے جاں گسل کام کے لیے وقف کر دیا اور مسلم دُنیا میں سیاسی و سماجی تبدیلی کے لیے اور اُمت مسلمہ کی رہنمائی کی خاطر ایک تحریک بپا کی۔ جس کا مقصد امت کے احیا کے لیے راہیں متعین کرنا تھا، ایک ایسا راستہ جو پوری امت کے لیے ایک نعمت ثابت ہو۔
اخبار الجمعیۃ میں اسلام کا سرچشمۂ قوت کے حوالے سے سلسلۂ مضامین لکھنے کے بعد، ۱۹۲۷ء میں سیّدمودودی نے اسلام پر اعتراضات کی بوچھاڑ کا جواب دینے کے لیے ایک طویل تحقیقی سلسلۂ مضامین شروع کیا، جو کتابی شکل میں ڈھل گیا۔ ۱۹۳۰ء میں الجہاد فی الاسلام کی صورت میں ان کی یہ پہلی باقاعدہ کتاب دارالمصنّفین، اعظم گڑھ سے شائع ہوئی۔اس کے بعد ۲۲ستمبر۱۹۷۹ء کو اپنی وفات تک انھوں نے اسلام پر ۱۴۰کتب اور متعدد علمی مقالے لکھے، جن میں مذکورہ فکرمندی اور تاریخی تجربے کے تقریباً ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کی نمایاں ترین علمی خدمت چھ جلدوں پر مشتمل قرآن کی تفسیر تفہیم القرآن 'ہے جو ساڑھے چار ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
اسلامی فکر کی وضاحت اور تشکیل جدید کے ساتھ ساتھ سید مودودی نے مسلم معاشرے کا تنقیدی جائزہ لیا، اور ان اسباب و عوامل کی نشاندہی کی، جو اس کے تنزل اور انتشار و زوال کا باعث بنے۔ انھوں نے مغربی تہذیب پر اور دنیا، انسان، معاشرت و معیشت سے متعلق اس کے تصورات اور اس کی خوبیوں اور خامیوں پر بھی جامع،علمی، منصفانہ اور مبنی برحقائق تنقید کی۔ وہ نہ تو مغربی تہذیب کے روشن پہلوؤں سے بے خبر تھے اور نہ اس کی کوکھ سے جنم لینے والے کج رو نظریات اور تحریکوں سے ناواقف تھے۔ وہ اس کے فکری مغالطوں، انسان، مذہب اور معاشرے کے بارے میں اس کے ناقص تصور ،اس کے اخلاقی الجھاؤ، سیاسی و سماجی کجی اور معاشی ناانصافیوں اور استحصال کے شاکی بھی تھے۔ سیّد مودودی کے افکار نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی بلامبالغہ تین نسلوں کو متاثر کیا۔ ان کی تصانیف پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں ۔ بجا طور پرانھیں جدید اسلامی احیا کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔
سیّد مودودی بیک وقت ایک عالم دین، ایک سماجی مفکر اور سیاسی رہنما تھے۔ ان کا اوّلین اور نمایاں ترین کارنامہ اسلامی فکر کی تشکیل نو ہے، جس کا ماخذ تو دین کی اصل نصوص ہیں، تاہم ان کا انداز ہمارے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ انھوں نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہٴ حیات کے طور پر پیش کیا۔ جس کا پیغام انسان میں باطنی تبدیلی پیدا کر کے اس کی روحانی اور اخلاقی تطہیر ہے۔ ان کے پیش نظر یہ ہے کہ ان تبدیل شدہ حضرات و خواتین کو متحرک کرکے نہ صرف ان کی زندگیوں کی تعمیر کی جائے بلکہ الہامی رہنمائی اور اللہ کے رسولوں بالخصوص خاتم الانبیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں فراہم کردہ نظریۂ حیات، اقدار ، اصولوں اور خیالات کے مطابق انسانی معاشرے اور تہذیب کی بھی تشکیل نو کی جائے۔
سید مودودی نے اسلامی فکر کے تقریباً تمام ہی پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات کے طور پر انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور مسلم اُمہ ایک عالمی برادری ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے اور اسی پر اسلام کی اصل فطرت، ثقافت اور تہذیب استوار ہے ۔ بالفاظِ دیگر مسلم اُمہ ایمان کی بنیاد پر قائم ایک عالم گیر برادری ہے۔ توحید کے تصور نے انسان کو اس کائنات کی یک رنگی اور انسانیت کی یگانگت کی بنیاد پر یہ سبق دیا ہے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ اسی توحیدکے دیے ہوئے قوانین اور اقدار اپنی آفاقیت کے ساتھ ان اُمور کا احاطہ کرتے ہیں۔
پھر یہ کہ اسلام کسی خاص قوم، برادری، نسل، علاقے یا زبان تک محدود نہیں ہے۔ یہ تو انسانوں کے خالق کی طرف سے اس کے رسولوںؑ کے ذریعے بھیجی گئی رہنمائی ہے،جس کا آغاز زمین پر زندگی کی ابتدا سے ہی ہو گیا تھا،یعنی اسلام تمام انبیا علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کا دین ہے۔ اس لیے مسلمان، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا ـؑپر ایمان رکھتے ہیں۔
’ اسلام‘ کا لغوی مفہوم ’سلامتی اور تسلیم‘ کا ہے۔اسلام یہ بتاتا ہے کہ صرف اللہ ہی لائق عبادت و اطاعت ہے۔ اور یہ کہ اس کے نبی کو فکر و عمل کے لیے نمونہ اور ہدایت کا سرچشمہ تسلیم کیا جائے۔ یہ اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی اور رہنمائی کو مان کر زندگی گزاریں۔ ’شریعت‘ (لغوی معنی: راستہ) ایسے معیارات، اقدار اور قوانین کا مجموعہ ہے، جو مل کر اسلامی طرزِ زندگی تشکیل دیتے ہیں۔
اسلام انسان کے اختیار و انتخاب کی آزادی پر یقین رکھتا ہے اور ایمان و عقیدے کے حوالے سے کسی جبر کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ انسانوں کے لیے ایسی مذہبی اور ثقافتی ترتیب فراہم کرتا ہے، جو فی الحقیقت تکثیریت پر مبنی ہے۔ نظریاتی سرحدوں کو عبور کرنے کے لیے آزادانہ مرضی اور دلیل ہی واحد راستہ ہے۔ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ اسلام کا تعلق زندگی کے ہر پہلو سے ہے: ایمان اور عبادت، روح اور مادیت، شخصیت و کردار، فرد اور معاشرہ، معیشت اور معاشرت، قومی و بین الاقوامی اُمور۔
تاہم، زندگی اور کائنات سے متعلق اسلام کا اخلاقی طرز فکر سب پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہر مادی شے کو بھی روحانیت اور تقدیس کی چھتری تلے جمع کردیا گیا ہے۔ اس سے نہ تو دنیاوی پہلو خارج ہیں اور نہ اسلام زندگی کے غیرمذہبی پہلووٴں کو مذہبی مراسم سے متصادم سمجھتا ہے، بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو ایک اخلاقی و روحانی نظام کے تابع کرتا ہے ۔
اس لیے اسلام بنیادی طور پر ایمان، رنگ، عقیدے، زبان اور علاقے سے قطع نظر تمام انسانوں کے لیے ایک اخلاقی اور نظریاتی طرزِ فکر ہے۔ یہ ثقافتوں اور مذاہب کے تنوع کی حقیقت تسلیم بھی کرتا ہے اور ان کا احترام بھی کرتا ہے۔ مسلم اُمہ میں بھی تنوع موجود ہے ۔اسلام مصنوعی اتحاد، جبری اطاعت یا تضادات کے اجتماع کا حامی نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ بقائے باہمی اور باہمی تعاون کی حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔
اسلام میں ایمان و تہذیب کا ایک اہم پہلو ان اقدار کا فروغ ہے، جو قطعی اور عالم گیر ہیں۔ ان کے ساتھ وہ اس پر زور دیتا ہے کہ ایسے بنیادی اداروں کی تشکیل کی جائے، جو اس نظام کو مضبوطی اور پاے داری دیتے ہیں۔ پھر اس احساس کو بھی زندہ و توانارکھتاہے کہ زندگی کا ایک بڑا میدان ایسا ہے، جس میں موجود لچک، وقت کے بدلتے تقاضوں سے نباہ کر سکتی ہے۔ اسلامی اقدار کا ڈھانچا (Islamic System of Values) انسانی فطرت اور عالم گیر حقائق، پر استوار ہے، جس میں یہ شعور بھی موجود ہے کہ ان اقدار کے اطلاق کے لیے باریکیاں اور طریق کار بدلتے ہوئے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حالات کے مطابق اختیار کیے جاسکتے ہیں۔
اسلام ایک عمومی ضابطہ بندی ضرور کرتا ہے، لیکن یہ انسانی افعال و کردار کے لیے سخت گیر ہدایات سے احتراز برتتا ہے ۔یہ ایک فرد کو معاشرے، بلکہ تمام مخلوقات میں بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔ ہر فرد انفرادی طور پر خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح انسان کی حیثیت سماجی مشینری میں محض ایک پرزے کی نہیں ہے۔ معاشرہ، ریاست، قوم اور انسانیت سب ہی اہم ہیں اور ہر ایک کا ایک خاص کردار ہے۔ تاہم، زندگی کے اختتام پر حتمی جواب دہی فرد ہی کی ہوگی ۔اس طرح اسلامی نظام میں فرد کی مرکزیت لازم ٹھیرتی ہے۔ یوں فرد کا ربط معاشرے اور اس کے اداروں سے بھی جوڑا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک متوازن تعلق بھی قائم کیا گیا ہے۔
اسلامی اخلاقیات، زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کے تصور پر مبنی ہیں، نہ کہ زندگی کے انکار پر۔ اخلاقی ضابطے کی پاسداری کرکے انسانی افعال کے تمام پہلوؤں کو نیکی کا درجہ مل جاتا ہے۔ فرد کی سطح پر تقویٰ اور معاشرے میں اخلاقیات ایسی مطمئن زندگی تشکیل دیتے ہیں، جس میں ذاتی اوراجتماعی فلاح اور ہر ایک کی بہبود و ترقی محفوظ ہے۔ دولت کوئی مذموم شے نہیں بلکہ مال کمانے کی ترغیب دی گئی ہے بشرطیکہ اخلاقی اقدار اور معاشرتی حقائق کی پاس داری کی جائے۔ ایک اچھی زندگی انسانی کوشش کا ایک بڑا ہدف ہے ۔
اس دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بھلائی کا باہم براہ راست تعلق ہے کیونکہ یہ دونوں زندگی ہی کے دو رخ ہیں۔ زندگی کے غیر مذہبی امور کو بھی روحانیت سے استوار کرکے اور دنیاوی زندگی کی ہرشکل اور فعل کو اخلاقی نظام کا حصہ بنا کر، انسان کو یہ صلاحیت بخش دی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان کرے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسا معاشرہ بھی تشکیل دے، جس میں سب کی ضروریات پوری کرنے کا سامان ہو۔
انفرادی آزادی، ملکیت کا حق اور مالی سرگرمی کا حق، کاروبار کے ضوابط اور وسائل و مواقع کی عادلانہ تقسیم، اسلام کے معاشی نظام کے لازمی عناصر ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ، ہرسطح پر اخلاقی چھلنیاں موجود ہیں۔ فرد کی نیت، ذاتی طرزِ عمل، معاشرتی رواج اور چلن، آجر اور اجیر کا رویہ اور فرد وریاست کا تعلق، ان سب کی تہذیب معاشی ضابطوں کو ایک ایسے مجموعی نظام کا حصہ بناتی ہے، جس سے انصاف اور سماجی فلاح یقینی ہو جائے۔ اس میں ریاست کا بھی ایک مثبت کردار ہے بالخصوص نگرانی، رہنمائی اور ضروری قواعد کی تشکیل کے ذریعے۔ تاہم، اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ آزادی، معاشی مواقع کے حصول اور حق ملکیت کا تحفظ کرے۔
اسلام کے طرزِ فکر میں ضروریات کے حصول کو اہمیت حاصل ہے اور یہ ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے، جس میں تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہو، اور جس کا بنیادی ذریعہ فرد کی محنت اور کمائی کے لیے عمل اور جدوجہد ہے۔ اس نظام میں ایسا ماحول تشکیل دیا جاتا ہے جس میں نادار افراد کو بھی باعزّت زندگی گزارنے اور معاشرے کا مؤثر کردار بننے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ جیساکہ ہم نے پہلے یہ کہا ہے کہ اسلام دولت کمانے کی ہرگز نفی نہیں کرتا بلکہ اسے اللہ کا فضل قرار دے کر تلاش کرنے پر اُبھارتا ہے لیکن اس کا اصل ہدف اخلاقی بہتری اور روحانی مسرت کا حصول اور عدل و مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام ہے، جس میں تمام افراد کے لیے مواقع یکساں دستیاب ہوں۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب معاشرہ معاشی اور سماجی اعتبار سے اپنے کمزور افراد کے لیے مؤثر مدد فراہم کرے۔
اس مقصد کے لیے خاندان کے ادارے، معاشرے اور ریاست کے دیگر ستونوں کا کردار تشکیل دیا گیا ہے۔ ’علم معاشیات‘ میں اسلام کا امتیاز آزادی و فرائض میں اور استعداد و انصاف میں متوازن تعلق قائم کرنا ہے۔ انصاف، اسلام کی اقدار میں سے ایک کلیدی تصور ہے اور عدل کا قیام اللہ کی طرف سے انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد بتایا گیا ہے ۔ ہدایت کا تعلق صرف انسان کے اپنے معبود سے روحانی تعلق تک محدود نہیں ہے، بلکہ انسان کا دوسرے انسانوں اور دیگر مخلوقات سے تعلق بھی اسی طرح سنجیدگی سے لازم ہے۔
یہ اس طرزِ فکر اور انسان و معاشرت سے متعلق تصور کا مختصر بیان ہے، جس میں معیشت اور معاشیات سے متعلق سیّد مودودی کے طرزِ فکر کو سمجھا جاسکتا ہے۔ سیّد مودودی معروف معنوں میں معیشت کے میدان کے ماہر تو نہ تھے، تاہم معاشی موضوعات پر ان کی تحریروں نے معیشت کے بارے میں ایک منفرد طرزِ فکر کی بنیاد ضرور ڈالی ہے، جسے اب ’اسلامی معاشیات‘ کہا جاتا ہے۔
سیّد مودودی نے نہ صرف قرآن اور سنت میں موجود معاشی تعلیمات کو خوب تفصیل سے بیان کیا ہے بلکہ انھوں نے مجموعی تہذیبی پس منظر میں ایک فرد کی معاشی مشکلات کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ انھوں نے خاصی وضاحت سے بتایا ہے کہ ایک جامع انداز میں ان مشکلات کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے کہ معاشی زندگی کے اخلاقی تقاضوں کی پاسداری بھی ہو اور مادی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ ’اسلامی معاشیات‘ کے فلسفے کو دو ٹوک انداز میں اور پوری وضاحت سے بیان کرنا ہے۔
ممتاز برطانوی ماہر معیشت اور ڈرہم یونی ورسٹی میں مرکز برائے مشرق وسطیٰ اور اسلامی علوم کے ڈائرکٹر پروفیسر روڈنی ولسن(Rodney Wilson) کا کہنا ہے :
[سیّد مودودی کی] تحریروں اور تقریروں نے برصغیر میں ماہرین معیشت کی جدید نسل پر گہرے اثرات مرتب کیے،جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو ان خیالات و تصورات کے ساتھ ملا کر دیکھنے کی کوشش کی، جو انھوں نے اپنی تربیت کے دوران سیکھے تھے۔ اگرچہ ’اسلامی معاشیات‘ کی اصطلاح سیّدمودودی نے ایجاد کی تھی، لیکن اس شعبۂ علم نے ایک درسی مضمون کی شکل ۱۹۷۰ء میں اختیار کرنا شروع کی ۔ (مقالہ: The Development of Islamic Economics، مشمولہ: Islamic Thought in the Twentieth Century، (لندن:۲۰۰۴ء) ، ص ۱۹۶-۱۹۷)
جدہ، سعودی عرب میں اسلامی ترقیاتی بنک کے اسلامی تحقیق و تربیت کے ادارے (IRTI) کے ریسرچ ایڈوائزر ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا نے لکھا ہے:
پیشہ ور ماہر معیشت نہ ہونے کے باوجود اسلامی معاشیات کے میدان میں سیّدمودودی کی خدمات بہت نمایاں ہیں۔ انھیں تاریخ میں ایسے عظیم مفکرین میں شمار کیا جائے گا، جنھوں نے جدید دور میں اس شعبے کی تشکیل کے لیے بنیاد رکھی تھی۔ ہندوپاک میں اور دیگر مسلم ممالک میں اس میدان میں لکھی گئی تقریبا ًتمام تحریروں پر ان کی چھاپ ہے اور وہ انھی کی مرہون منت ہیں ۔(The Muslim World، (اپریل ۲۰۰۰ء) میں مقالہ Mawdudi's Contribution to Islamic Economics، ص ۱۶۳-۱۸۰)
سیّدمودودی نے ’اسلامی معاشیات‘ کے فلسفے، اس کی بنیادوں، اس کے منہج اور ایک اسلامی معاشی نظام کے اداروں کے خدوخال بیان کرکے بڑی بنیادی خدمت سرانجام دی ہے۔ انھوں نے روایتی معاشیات میں اپنے مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرنے والے فرد(Homo economicus) کے مقابلے میں ایک ایسے انسان کا تصور دیا ہے، جو اسلام کی بنیاد پر غوروفکر کرنے والا ایک ایسا ذمہ دار فرد ہے جسے اپنے افکار و خیالات اور فیصلوں کا آخرت میں جواب بھی دینا ہے۔ یہاں یہ حقیقت بیان کرنا بھی دلچسپ ہے کہ جدید معاشیات کے دو بڑے مکاتب فکر کے بانی ایڈم سمتھ [م:۱۷۹۰ء] اور کارل مارکس [م: ۱۸۸۳ء] بھی بنیادی طور پر کوئی ماہرین معاشیات نہ تھے، لیکن کلاسیکی اور اشتراکی مکاتبِ فکر کی بنیاد ان دونوں مفکرین کے تصورات اور تصانیف پر کھڑی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ۲۰۰۹ء میں پروفیسر الینور اوسٹروم (Elinor Ostrom -انڈیانا یونی ورسٹی) نے معاشیات کا ’نوبیل پرائز‘ حاصل کیا، حالانکہ یہ خاتون، معروف پیشہ ورانہ بنیادوں پر ماہر معاشیات نہیں ہیں۔
ہم متوجہ کرتے ہیں کہ ماہرین سماجیات و سیاسیات اور سماجی و سیاسی جدوجہد سے وابستہ کارکنان، مولانا مودودیؒ کی تصانیف کو غور سے پڑھیں۔ اس سے اُنھیں ایسا وژن اور بصیرت حاصل ہوگی، جس کی روشنی میں موجودہ سماجی ومعاشی فساد سے معاشرے کو پاک کرنے اور معاشی عدل کی تعمیر کے مؤثر طریقے اپنا سکیں گے۔(جاری)
کیا مسئلہ کشمیر ، یوں ہی سلگ سلگ کر، سامراجیت کی نذر ہوجائے گا؟
یہ اذیت ناک سوال جموں و کشمیر اور پاکستانی عوام کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے، اور ہرآنے والا دن اس کرب میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایک طرف بھارت میں حکومت، فوج، حزبِ اختلاف تینوں ہی یکسوئی کے ساتھ، کشمیر میں انسانیت کے قتل پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں، اور دوسری جانب پاکستان میں حکومت، حزبِ اختلاف اور فوج مسئلہ کشمیر کے حل کی جدوجہد کے لیے یکسو اور متحد دکھائی نہیں دیتے۔
اگر حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ برس فروری میں اچانک کمانڈروں کی سطح پر فائربندی کی یادداشت پر دستخطوں نے تو ہر کسی کو حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا۔ جنگی صورتِ حال سے دوچار ملکوں کے درمیان ایسے سنگین معاملات حکومتی سطح پر طے کیے جاتے ہیں، لیکن یہاں پر عسکری سطح پہ مذاکرات اور معاملہ فہمی کی گئی۔
ہم نے اسی وقت خبردار کیا تھا کہ یہ محض بھارتی چال ہے، جس سے وہ پاکستان کے اندر غلط فہمی کو ہوا دے گا اور وقت گزاری کے بعد، برابر اپنے ایجنڈے پر نہ صرف قدم آگے بڑھائے گا بلکہ جب چاہے گا کشمیر میں قتل و غارت سے دریغ نہیں کرے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ،اپریل ۲۰۲۱ء کے بعد خاص منصوبے کے تحت انسانیت کی تذلیل پر مبنی نام نہاد سول اقدامات پر عمل جاری رہا۔ حتیٰ کہ اسی سال یکم ستمبر ۲۰۲۱ء کو جموں و کشمیر کے عظیم رہنما سیّد علی گیلانی صاحب کے انتقال کے موقعے پر بھارتی حکومت کی جانب سے بدترین ظلم و زیادتی کا ارتکاب کیا گیا ۔ گیلانی صاحب کی تجہیزو تدفین توپ و تفنگ کے زیرسایہ جبری طور پر من مانے طریقے سےکی گئی، اوراہلِ خانہ تک کو شرکت سے محروم رکھا گیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان فروری ۲۰۲۱ء کی نام نہاد ’فوجی معاملہ فہمی‘ کے صرف تین ماہ بعد پاکستان کے سپہ سالار صاحب نے بھارت کے ساتھ ’ماضی کو بھلا کر‘ معاملات میں آگے بڑھنے کا نظریہ (doctrine) پیش کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سے ’ماضی کو بھلا کر؟‘ یعنی یہ ماضی کہ: بھارت نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اسے ناکام بنانے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا، اور بڑے پیمانے پر مسلسل پاکستان کی تخریب کا سامان کر رہا ہے، ۱۹۷۱ء میں پاکستان توڑا، پاکستان میں بار بار مداخلت اور تنگ نظر قوم پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں دہشت گردی کرائی، افغانستان سے پاکستان کی تباہی کا سامان مہیا کیا اور جموں و کشمیر میں مسلسل قتل و غارت اور درندگی و بہیمیت کا ارتکاب کیا ہے اور مسلسل کیے جا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب معصوم کشمیری نوجوان شہید نہ ہورہے ہوں، اور کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور اسے ہندو اکثریت کا ایک خطہ بنانے کےمذموم منصوبے پر عمل نہ ہورہا ہو۔
ہماری دانست میں بھارت سے تعلقات پر بات کرتے وقت یہی اذیت ناک ماضی سامنے آتا ہے۔ کیا یہ ماضی یک طرفہ طور پر بھلا دینا اور ان اسباب و علل کو نظرانداز کرنا کوئی واقعی سوچی سمجھی حکمت عملی اور دانش مندی ہے؟ پھر یہ کہ ریاست کے مستقبل سے منسوب معاملات کی پالیسی بنانا کیا عوام کے منتخب نمایندوں کا کام ہے یا طاقت کے کسی ایک یا دو مراکز کے پاس اس نوعیت کے ڈاکٹرائن پیش کرنے اور واپس لینے کا اختیار ہے؟ اسی طرح یہ بات واضح ہے کہ خود عمران خاں حکومت کا رویہ بھی مسئلہ کشمیر پر چند روایتی تقاریر اور بیانات تک محدود رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح ان کی ’کشمیر کمیٹی‘ بھی نہایت نچلے درجے پر محض خانہ پُری اور بے عملی کی تصویر بنی رہی۔
اب جیسے ہی اپوزیشن پارٹیوں کی صورت میں شہباز شریف حکومت برسرِاقتدار آئی تو اُس نے کشمیر کے مسئلے کو اپنی توجہ کا اس طرح موضوع بنایا ہے کہ بھارت کے تمام منفی اقدامات کو نظرانداز کرکے، اس سے تجارتی تعلقات پروان چڑھانے کے لیے کمرشل اتاشی مقرر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اگرچہ تنقید کے بعد حکومت کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تجارتی تعلقات قائم کیے جارہے ہیں‘‘۔ اگر واقعی تجارتی تعلقات قائم نہیں کیے جارہے تو کمرشل اتاشی کیا سیاحت کے لیے دہلی بھیجے جارہے ہیں؟ تاہم، یہ وضاحت اقتدارو اختیار کے سرچشموں پر فائز افراد کی جانب سے عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی ایک حرکت لگتی ہے۔ اس خدشے کی بنیاد ایک تو شریف حکمرانی میں بنیادی اُمور کو نظرانداز کرکے بھارت سے تعلقات بڑھاتے وقت بزعم خود معاشی پہلو کو مرکزیت دینا ہے اور دوسری طرف طاقت ور ادارے بھی وقتاً فوقتاً اس نوعیت کے خیالات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
چند لمحوں کے لیے یہ مان لیا جائے کہ بھارت سے تجارت کھول دی جائے، تو اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ بھارت نے پاکستانی درآمدات پر دو سو فی صد ڈیوٹی عائد کر رکھی ہے۔ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ بھارت کو پاکستانی برآمدات کا حجم، بھارت سے درآمدات کا صرف پانچواں حصہ رہا ہے، اور اس طرح ہم بھارت کی معاشی قوت کو بڑھانے کا ذریعہ بنتے رہے ہیں۔دوسرے یہ کہ اس پیش قدمی سے پاکستان کی گھریلو صنعت اور زراعت پر شدید منفی اثرات پڑیں گے، کیونکہ بھارت میں شعبہ زراعت سے متعلق طبقوں کو پانی اور بجلی کے سستے فلیٹ ریٹ پر فراہمی کے نتیجے میں پاکستان کے مقابلے میں بہت کم معاشی دبائو کا سامنا ہے۔ یہ حقائق نظرانداز کرکے بھلا ہمارے حکمت کار کس طرح دوطرفہ تجارت کے نام پہ، عملاً یک طرفہ تجارت کو پاکستان کے حق میں قرار دیتے ہیں؟ اس تمام پس منظر میں پاکستانی زرِمبادلہ کا بہائو بھارت ہی کے حق میں ہوگا، نہ کہ پاکستان کی جانب۔خیر، یہ تو جملہ معترضہ ہے، وگرنہ ہمارے نزدیک پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ ، مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ تجارت، تعلیم، ثقافت، ثانوی اُمور ہیں، جن کی بنیاد پر اصل مسئلے کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ قالین کے نیچے دھکیلا جاسکتا ہے۔
مسئلہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے، جو دو ملکوں کے درمیان زمین کا کوئی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ ڈیڑھ دو کروڑ انسانوں کی زندگی، تہذیب اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ اس طرح جموں و کشمیر کسی بھی اصول کے تحت نہ بھارت کا حصہ ہے اور نہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ۱۷ سے زیادہ قراردادیں، عالمی برادری کی فکرمندی کی گواہ ہیں، اور اس پس منظر میں دوایٹمی طاقتیں ہروقت جنگ کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ خدانخواستہ معمولی سی بے احتیاطی پوری انسانیت کے مستقبل کو بربادی کے جہنّم میں دھکیل سکتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ بڑی طاقتیں محض بھارت کی مارکیٹ میں حصہ پانے سے دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنے ایک ’پسندیدہ‘ ملک کے جرائم پر پردہ ڈال کر غیرانسانی اور غیراخلاقی جرم کا ارتکاب کررہی ہیں۔ اب رفتہ رفتہ پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے بھی کچھ ایسے ہی اشارے مل رہے ہیں، جو انتہائی تشویش ناک ہیں۔
جموں و کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ، تقسیم ہند کے طے شدہ ضابطے کے تحت، وہاں کے لوگوں کے حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جسے بار بار اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے تسلیم کرتے ہوئے ، اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری پر زور دیا ہے۔ ان تمام وعدوں اور اتفاق رائے کی بنیادوں پر یہ امر بالکل شفاف انداز سے سامنے آتاہے کہ مسئلہ کشمیر نہ تو وہاں بسنے والے لوگوں کے صرف انسانی حقوق کی پاس داری کا معاملہ ہے اور نہ داخلی سیاسی حقوق کے بندوبست کا کوئی معاملہ ہے۔ بلاشبہہ یہ تمام مسائل اپنی جگہ اہم اور حل طلب ہیں، لیکن اصل مسئلہ براہِ راست حقِ خود ارادیت کے نتیجے میں وہاں کے لوگوں کے مستقبل کا معاملہ ہے، جسے بھارتی حکومتیں بہت ڈھٹائی کے ساتھ ٹالتی چلی آرہی ہیں اور اس کے ساتھ وہاں بسنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں پر انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کررہی ہیں۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی فسطائی حکومت نے عالمی سطح پر منظور کردہ حدود پامال کرتے ہوئے ایک غیر آئینی اقدام سے اس مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس طرح بھارتی دستور کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کر کے کشمیر کی مقامی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے مذموم عمل کا آغاز کر دیا ہے۔
برطانوی سامراجی حکومت کے زمانے سے جموں و کشمیر کے مسلمان ایک وحشیانہ ریاستی جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور تھے، اور جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر وہاں سے نقل مکانی کرکے، امرتسر، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور لاہور کی جانب مہاجرت پر مجبور کردیے گئے تھے۔ پھر اگست ۱۹۴۷ء میں بھارت اور پاکستان کی شکل میں دو ریاستیں وجود میں آنے کے فوراً بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں جموں میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی کی گئی۔ پھر وقفے وقفے سے بھارتی ریاست نے جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو پے درپے انسانیت سوز مظالم، عورتوں کی بے حُرمتی، قتل و غارت اور سالہاسال تک جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید کرکے نوجوانوں کو مارڈالنے اور زندگی بھر کے لیے معذور بنادینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں گذشتہ تین عشروں کے دوران ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ جہاں پر ناجائزقبضہ ہوگا، وہاں مزاحمت ہوگی۔ سامراجی اور غاصب قوتوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے آزادی حاصل کرنا، انسانیت کا بنیادی حق ہے، جسے کوئی سلب نہیں کرسکتا۔ آج دُنیا کے نقشے پر موجود دو سو ممالک میں ۱۵۵ سے زیادہ ملکوں نے اپنے حقِ خودارادیت کی بنیاد پر آزادی حاصل کی ہے۔ کہیں مذاکرات سے، کہیں انتخاب سے اور کہیں مسلح مزاحمت سے یہ منزل حاصل کی گئی ہے۔ خود مقبوضہ برطانوی ہند نے بھی انھی ذرائع کو استعمال کرکے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی ہے، جسے کوئی فرد نہیں جھٹلا سکتا۔ اسی بنیاد پر کشمیر میں بھی مظلوموں کے ایک حصے نے قلم اور دلیل سے، دوسرے طبقے نے مکالمے اور سیاسی و سفارتی میدان میں، اور تیسرے حصے نے عملی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ تینوں راستے درست بھی ہیں اور ایک ہی منزل کی طرف بڑھنے کا سامان کرتے ہیں۔
یہ ایک ہمہ گیر اور مربوط جدوجہد ہے، جس میں عالمی ضمیر کو جگانے، ابلاغ عامہ کے اداروں کو جھنجھوڑنے اور حکمرانوں کی یادداشت کو تازہ رکھنے کے لیے پاکستانی حکومت کو مربوط کاوشیں کرنی چاہییں، نہ کہ زندگی اور موت کے اس مسئلے کو ابہام اور تضادات کے گرداب میں گم کرنے کا سامان!
یہ جملہ ’’ملک شدید بحران سے گزر رہا ہے‘‘ اتنی کثرت سے سنتے اور پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ اب یہ اپنی معنویت تقریباً کھو چکا ہے، مگر ’’شدید بحران‘‘ کا لفظ بہرحال اپنی جگہ موجود ہے۔
قومی زندگی کے صبح و شام پر نظر ڈالیں تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ قوم اور ملک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑے ہیں ، اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ حساس دل و دماغ تو زیرزمین زلزلے کی گہری زیریں لہروں کو محسوس کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ قومی قیادت اور خود قوم، قریب آتے ہوئے تباہ کن مستقبل سے بالکل بے خبر ہے۔ سطحیت ہر سطح پر حاوی ہے، جذباتیت کا دور دورہ ہے۔ اجتماعی زندگی ہیجان اور انتشار کا شکار ہے، کہ صاحبانِ اقتدار اور اپوزیشن کے بیانات سے کم علمی اورکج فہمی جھلکتی ہے۔ جاہلیت، اسلامی تہذیب کے خرمن کو جلا رہی ہے۔
تاریخ کا یہ سبق یاد رہنا چاہیے کہ ایسے طوفانوں کے نتیجے میں محض حکومتیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ ماضی کی تہذیبی قدریں اور تعلقات و معاملات کا پورا نظام اپنی جگہ سے ہل کر رہ جاتا ہے جس کے اثرات دیر تک قومی وجودکو چاٹتے رہتے ہیں۔ گویا کہ چند افراد کی نادانی کے نتیجے میں معاشرے کو بہت قربانی دے کر پھر کہیں بہت مشکل سے راستی اور درستی کا سرا ہاتھ آتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے ۷۵ویں سال، یہ منظر ایک بدقسمتی ہے۔ تاہم، اس گئی گزری صورتِ حال کے باوجود ملک و ملّت کو سنبھالنے والے دماغ موجود تو ہیں، مگر بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ حالات کو دیکھ کر رہنمائی دینے کے لیے آگے بڑھنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
پاکستان کی تعمیروترقی کے لیے فی الحقیقت سب سے بڑا ادارہ سیاسی جماعتوں کا وجود ہے، لیکن افسوس کہ یہی ادارہ سب سے زیادہ بگاڑ اور عاقبت نااندیشی کا شکار رہا ہے۔ پاکستان کے مخصوص علاقائی مسائل کے باعث، پارلیمانی جمہوریت کی صورت میں، ملک کے لیے ایک مفید راستہ تجویز کیا گیا تھا، اور اس پر کم و بیش ہر زمانے میں اتفاق رائے پایا گیا۔ تاہم حکومتوں، انتظامیہ اور مقتدر طبقوں کی جانب سے دانستہ طور پر اچھی تعلیم و تربیت سے پہلوتہی اور شرح خواندگی کی حددرجہ کمی نے ملک کی جمہوری اور پارلیمانی زندگی کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، نوابوں، برادریوں اور لسانی و علاقائی تفریقوں کی دلدل میں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ انتخابات میں تقریباً ۷۰فی صد یہی لوگ کامیاب ہوکر مسند ِ اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں۔ یوں جمہوریت بے اثر ہوکر رہ گئی ہے۔
’منتخب ہونے کے قابل ناموں‘ (electables) نے جمہور عوام کی رائے کو بے وزن بناکر، پارلیمنٹ کی قوتِ کار کو گھن لگا دیا ہے۔ لوگ پارٹیوں کو تبدیل کر کے یا اپنے شخصی رسوخ کے بل بوتے پر منتخب ہوکر پارلیمنٹ کے ایوان میں پہنچ جاتے ہیں۔ مگر نہ انھیں قانون سازی سے کچھ دلچسپی ہوتی ہے، نہ ملک کی پالیسی سازی میں کوئی کشش نظر آتی ہے اور نہ ان کے اندر کاروبارِ ریاست کا فہم حاصل کرنے کی کوئی اُمنگ ہے۔ اس طرح پارلیمان، کچھ خاندانوں، چند لوگوں اور طاقت ور افسروں کی یرغمال بلکہ غلام نظر آتی ہے۔ایسی پارلیمان کہ جسے جب چاہے کوئی میڈیا ہائوس رام کرلے یا کوئی این جی او زیردام لے آئے۔ سیاسی پارٹیوں کی موروثی قیادتیں، جمہور عوام کے ان نمایندوں کو اپنے تابعِ مہمل کارندوں سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں۔
اجتماعی اور تمدنی زندگی کی شیرازہ بندی کے لیے ایک دستوری معاہدے کے تحت جس بندوبست نے ملک کی تمام قوتوں کو متحد و متفق کیا ہے، اور جس کے تحت قومی ادارے وجود میں آئے ہیں، افسوس کہ اسی دستوری معاہدے کو تسلیم کرنے اور اس کے مطابق حکومت چلانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ یہ سب فساد، اسی انکار کے نتیجے میں قومی وجود کو ڈس رہا ہے۔ اس زہر کے تریاق، یعنی دستور کو کچھ وقعت نہیں دی جاتی۔ البتہ جب کسی طبقے، گروہ یا فرد کو اپنے مفاد کے لیے اسے محض ایک عارضی وسیلے کے طور پر برتنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ چند روز دستور کی حُرمت اور احترام کا واویلا ضرور کرتا ہے، اور پھر اسے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ سمجھ کر دُور پرے پھینک دیتا ہے۔
انتخابات کے انعقاد کے دوران، رائے عامہ کی بے توقیری سے یہ مرض شروع ہوتا ہے۔ ناجائز پیسے کی ریل پیل سے انتخابی مہمات چلتی ہیں، ووٹوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ امیدواری کے لیے دستوری پابندیوں (دفعہ ۶۲، ۶۳) کے پُرزے اُڑائے جاتے ہیں۔ کہیں انتظامیہ سے مل کر اور کہیں براہِ راست دھاندلی اور انتخابی انجینئرنگ کا ہتھیار استعمال کر کے، زہریلے دودھ سے خالص زہریلا مکھن تیار کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بنیاد یہ ہوگی تو خیروبرکت، دیانت و امانت، عدل و توازن کے پھول وطن عزیز کے آنگن میں کب اور کہاں کھِل سکیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارے چاروں طرف پھولوں کے بجائے کانٹے اُگتے اور جسد ِ قومی کو لہولہان کرتے ہیں۔
پھر معلوم نہیں کیوں اور کس اختیار کے تحت مسلح افواج کے اعلیٰ افسران نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ملکی سیاست اور کاروبارِ ریاست کی نشست و برخواست کو ’درست کرنا‘ یا انھی کی مرضی کے تحت منظم کرانا، مسلح افواج کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلح افواج کے لیے ایسی کسی ذمہ داری کی نہ گنجایش دیتا ہے اور نہ اس کا کوئی روزن ہی کھلا رکھتا ہے، تو پھر ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ یقینا بعض سیاسی قوتیں، اپنی باری پانے کی غرض سے اس غیرآئینی کھیل کے لیے راستہ بناتی اور اپنے مفاد کے لیے اس قومی ادارے کو استعمال کرنے اور اس کا آلۂ کار بننے کا غیرقانونی فعل انجام دیتی ہیں۔ جسے ملازمینِ ریاست خوشی سے انجام دینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔
سرحدوں پہ اور پھر داخلی سطح پر ملکی دفاع سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ اس میں سرحدوں کے ان مایہ ناز فرزندوں کے حلف کا تقاضا ہے کہ وہ پوری توجہ دفاعی اُمور پر مرکوز رکھیں، لیکن صدافسوس کہ بعض اعلیٰ عسکری افسران کے ہاں سیاسی مداخلت کےذوق کی تسکین کے لیے سرگرمی دکھائی جاتی ہے۔ اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ ایک وقت میں ایک سیاسی قوت برسرِعام دفاعی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے اور پھر اپنی باری آنے پر دوسری سیاسی قوت، مسلح افواج کو بحیثیت ادارہ تنقیدو دشنام کا ہدف بناتی ہے، جس کا مجموعی نتیجہ دفاعی حصار میں رخنہ اندازی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اب پیمانہ سنگین خطرات کی حدود کو چھو رہا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ ہو یا نچلی سطح کی عدالتی تنظیم___ اس کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو عدل و انصاف مہیا کرے۔ دستور کی پامالی اگر طاقت ور طبقے کریں تو ان کے ہاتھ روکے۔معاشرے کو اعتماد ہو کہ اُن کی داد رسی کے لیے عدلیہ کا ادارہ موجود ہے۔ لیکن یہ ہمارے عدالتی نظامِ کار کی بے عملی ہے کہ برسوں تک مقدمات عدالتوں کی فائلوں، اہل کاروں کی آوازوں، وکیلوں کی بے نیازیوں اور جج حضرات کی طویل طویل پیشیوں کے وقفوں میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس اذیت ناک منظرنامے کو تبدیل کرنے کی جانب عدالت، وکلا اور قانون سازادارے توجہ دینے پر آمادہ نہیں نظر آتے۔ گذشتہ ہفتوں کے دوران پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں براہِ راست تصادم کی صورتِ حال پیدا ہوئی تو عدلیہ نے ایک جانب وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے بارے میں فیصلہ دینے سے بے نیازی کا رویہ اختیار کیا، مگر دوسری جانب مداخلت کرکے ایک راستہ نکالا، جسے بعض حلقے پارلیمانی روایت سے ٹکراتا ہوا فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خود ارکانِ پارلیمان نے کس طرح اور کب، پارلیمانی روایات کی پاس داری کی ہے؟ یہ خود سیاست دان ہی ہیں، جو بعض اوقات دولت کے لالچ میں یا مقتدر قوتوں کے اشارے پر اپنی وفاداریوں کا سودا کرتے ہیں۔
برسوں سے ہماری برسرِاقتدار پارٹیوں نے پارلیمنٹ کو پتلی تماشے کی طرح چلایا ہے۔ نہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں اور نہ اس کی کارروائی سنجیدگی سے چلائی جاتی ہے۔ کوئی اہم فیصلہ اسمبلی اور سینیٹ کے فلور پر نہ زیربحث لایا جاتا ہے اور نہ ارکانِ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ کروڑوں روپے اجلاسوں کے انعقاد پر صرف ہوتے ہیں، مگر یہ اجلاس زیادہ تر سماجی میل جول، پکنک یا سرپھٹول کا سرکس بننے سے آگے نہیں بڑھتے۔ فیصلے پارٹی کے چند مرکزی لوگ یا اپنے اپنے مراکز میں طاقت ور طبقے کرتے ہیں، اور پارلیمنٹ محض ان فیصلوں کی توثیق کا ربڑسٹمپ ثابت ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے جمہوریت کہا جائے یا محض ’جمہوری تماشا؟‘۔ ایسے جعلی نظام پر جمہوریت کی حُرمت کا غلاف چڑھانا اپنی جگہ ایک بدمذاقی ہے۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ قوم ایک ہیجانی کیفیت میں تصادم کی سمت بڑھ رہی ہے۔ شعلہ بار تقریریں اور آتشیں بیانات اس آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ جذباتی طرزِ تکلم اور دشنام طرازی نے اداروں کے ڈسپلن ہی نہیں ،خود گھروں کے سکون کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیاسی اختلاف، اختلاف رائے سے بڑھ کر نفرت کے سانچے میں ڈھل رہا ہے۔ مخالف کو زیر کرنے کے لیے بہتان اور الزام، تہمت جیسے تیروتفنگ سے کام لیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کا ہتھیار بہت بُری طرح آزمایا جارہا ہے۔ دُور دُور تک کوئی مردِ دانش نہیں کہ جو اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ دکھائے۔ دشمن اس بھڑکتی آگ پر خوش ہیں اور نادان ہم وطن اس آگ کو پھیلانے میں سرگرم۔
اس فضا میں مسئلے کا واحد اور فوری حل یہ ہے کہ اگلے تین چار ماہ میں منصفانہ انتخابات منعقد کرائے جائیں، اور جو لوگ منتخب ہوں، انھیں باہم مل کر حکومت چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ اس حوالے سے ایک اصول پرسختی سے عمل کیا جائے کہ انتخابات سے پہلے یا انتخابات کے دوران کسی صورت فوج کی جانب سے مداخلت کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔انتخابات ہو جائیں تو حکومتیں بنوانے کے لیے بھی فوج کو کسی سیاسی گروہ کی سرپرستی سے سختی سے باز آناچاہیے۔
ایک طرف ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ مارکیٹ پر نہ ریاست کا کنٹرول ہے اور نہ صنعت و تجارت کے کارپردازوں کو ریاست کی قوت اور احتساب کا کوئی ڈر۔ اس صورتِ حال میں عام شہری بُری طرح پس کر رہ گیا ہے۔ بیماری، بے روزگاری، ملاوٹ اور مہنگائی قہر بن کر ہرگھر پر برس رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو نئی منتخب حکومت آنے تک ٹالے رکھنا سفاکیت ہوگی۔ معاملات کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے سول اور مالیاتی اداروں پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں۔
دوسری جانب بڑی خاموشی کے ساتھ کشمیرکے مسئلے پر ایک سرگرمی جاری ہے۔ ’ماضی کو بھلا کر‘ جیسے ناسمجھی کے ’ڈاکٹرائن‘ کی پیشوائی میں کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت سے تجارت کو بحال کرنے اور کشمیر کی وحدت کو متاثر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہم انتباہ کرتے ہیں کہ ایسی کسی کج فہمی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ بھارت نے جارحیت اور بڑے تسلسل کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو پامال کرنے کی کوششیں تیز کر رکھی ہیں۔ اس کے بالمقابل ہمارے مقتدر حلقوں کی جانب سے درست تسلسل سے جواب دینے کے بجائے، رفتہ رفتہ اسی راستے پر خود چل پڑنے کا یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔
ہم اُمید رکھتے ہیں کہ مقتدر حلقے اور سیاسی قائدین عبرت پکڑیں گے۔ اپنی ذات، گروہ یا قول کو ضد اور اَنا کو پرستش کا محور بنانے سے اجتناب کریں گے اور قوم سے زیادتی کاارتکاب نہیں کریں گے۔ انھیں تاریخ سے عبرت پکڑنی چاہیے کہ آج سے پہلے انھی کی طرح اقتدار و اختیار سے چمٹے محض چند لوگوں کی حماقت نے ملک و ملّت کو شدید نقصان پہنچایا اور ایسے کرداروں کے نام تاریخ میں ذلّت کی علامتوں کے سوا کوئی مقام نہ پاسکے: فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ !
وطنِ عزیز کے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی حالات پر نظر ڈالیں تو سخت تشویش ناک منظر سامنے آتا ہے۔
۲۳ کروڑ آبادی کا ملک بے یقینی اور بداعتمادی کا شکار ہے۔ لاکھوں انسانوں کی کتنی عظیم قربانیوں کے بعد یہ وطن حاصل ہوا؟ یوں لگتا ہے کہ اس سوال کو پاکستان کی دوسری اور تیسری نسل کے ذہنوں سے کھرچ کر مٹا دیا گیا ہے۔ عوام بظاہر بے بس ہیں لیکن وہ اتنے بے گناہ بھی نہیں۔ آخری ذمہ داری بہرحال عوام کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بگاڑ کو فروغ دینے میں ہرکسی نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اخبار، ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا اور سماجی محفلوں میں بیٹھیں تو تعمیر کی بات خال خال ہوتی ہے، اور تخریب، جنگ و جدل اور انتقام در انتقام کا تذکرہ ہرچیز پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اور ایوانِ حکومت و سیاست کسی مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا ہے۔ اہلِ اختیار نے قوم کو ایک ایسی اندھی سرنگ میں دھکیل دیا ہے، جس کے دوسرے سرے پر روشنی کی کوئی کرن بمشکل نظر آتی ہے۔
ہم نہایت اختصار کے ساتھ، قارئین کے سامنے چند معروضات پیش کر رہے ہیں:
پھر انھی سیاست دانوں نے آنے والے اَدوار میں، اقتدار اور سیاست کو اعلیٰ قومی و تہذیبی مقاصد و اہداف کے حصول کا ذریعہ بنانے کے بجائے، محض حصولِ اقتدار، جلب ِ زر اور اپنے سماجی رُتبے کی بلندی کا ذریعہ بنایا۔ قومی و عالمی حالات سے واقفیت، علم و دانش میں وسعت اور مسائل و معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت کو نچلی سطح سے بھی کم تر درجے کا مقام دیا گیا۔ اس طرح کی ناخواندہ اور اَن پڑھ سیاسی قیادت نے اپنے مقام و مرتبہ کو کچھ ملازمین کے ہاتھوں رہن رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی قیادتوں کا اپنی پارٹیوں میں آمریت مسلط کرنا، میرٹ کے بجائے اقرباپروری اور خوشامد کو اوّلیت دینا، مشاورت کی روح کچلنا اور اپنے مفادات کے لیے دن رات وفاداریاں تبدیل کرتے رہنا___ ان علّتوں نے اعتماد اور تعاون کے سرچشموں کو گدلا کر کے رکھ دیا۔
اہلِ دانش، درحقیقت کسی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ اور اس کے مستقبل اور وقار کا تاج ہوتے ہیں۔ بلاشبہہ قدرتِ حق نے ہمیں دانش سے آراستہ افراد عطا کیے۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ پاکستان کے سادہ لوح شہریوں کو، جن میں تمام علاقوں کے لوگ شامل ہیں، انھی مؤثر دانش وروں نے لڑانے، نفرت کو بڑھاوا دینے اور تعمیر و ترقی کا راستہ روکنے میں وہ رویہ اختیار کیا، جس پر سوائے افسوس کے کیا کہا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فساد کی صورتِ حال میں وہ کوئی مؤثر قومی خدمت انجام نہ دے پائے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان چھے طبقوں کے نامناسب رویوں نے وہ صورتِ حال پیدا کردی ہے، جس سے ہم دن رات گزر رہے ہیں۔ اہلِ سیاست اور صاحب ِ اختیار گروہوں اور طبقوں کی نظر میں اگر کوئی سب سے زیادہ بے وزن چیز ہے تو وہ دستورِاسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستانی عوام ہیں۔ انھیں اس چیز سے کچھ غرض نہیں کہ ان کی جنگ ِ اقتدار کے نتیجے میں ملک کا کتنا نقصان ہوتا ہے؟ انھیں کچھ فکر نہیں کہ ان کی ضد اور محض ہوس اقتدارکے نتیجے میں قوم کے مستقبل کی راہ میں کون کون سے ہمالہ کھڑے ہورہے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ تو بس یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۳کروڑ عوام محض اُن کی غلامی کے لیے ان کو ورثے میں ملے ہوئے ہیں۔ انجامِ کار بدانتظامی، معاشی بے تدبیری ، قانونی شکنی اور نفرت آمیزی نے فساد کی آگ کو بھڑکا رکھا ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں پاکستان امن و سکون اور تعمیروترقی کا گہوارہ بن سکے۔ ذرا سوچیے تو!