اگر دنیا کا ہر انسان اور دنیا کی ہر قوم، ظلم و استبداد کو ایک ہی انداز سے دیکھتی، اور اس پر ایک ہی طرح کا ردّعمل ظاہر کرتی، تو شاید انسانیت کبھی اتنی پریشان نہ ہوتی۔ ظلم سے بھی بڑھ کر انسانیت کو اُس وقت پریشانی ہوتی ہے، جب وہ تہذیب و تمدن کی دعوے دار قوموں کے اقوال و اَفعال میں شدید تضاد دیکھتی ہے، بالخصوص جب وہ انصاف کے علَم برداروں کو انصاف کا خون کرتے دیکھتی ہے۔
اگر انسانیت کو اس بات کا پوری طرح یقین ہوتا کہ انسان اب انسان نہیں رہا، بلکہ خوں خوار درندہ بن گیا ہے اور اس بنا پر اُس سے کسی خیر، بھلائی، شرافت اور انصاف کی توقع بیکار ہے تو وہ انسان سے، اُس کے مستقبل سے، اُس کے جذبۂ رحم اور انصاف سے یکسر مایوس ہوکر بیٹھ جاتی۔ مگر اسے کیا کہیے کہ مغربی قومیں؛ مسلم دُنیا اور مشرقی اقوام کو وہ سکون بھی نصیب نہیں ہونے دیتیں، جو انسان کو انتہائی مایوسی کے عالم میں ملتا ہے۔ اِن مظلوم اور مجبور اقوام کی حالت اہلِ مغرب نے اُس پیاسے کی سی بنا رکھی ہے، جو لق و دق صحرا میں پانی کی تلاش میں نکلتا ہے، مگر سواے سراب کے اُسے کوئی ایسی چیز ہاتھ نہیں آتی جو اُسے تسکین عطا کرسکے۔
آپ ذرا اُس بدقسمت انسان کی حالت کا خود اندازہ لگائیں، جو پیاس سے نڈھال چلچلاتی دھوپ اور تپتی ہوئی ریت کے اندر طویل مسافت اس اُمید پر طے کرتا ہے کہ اُسے پانی کا ٹھنڈا چشمہ ملے گا، لیکن وہ سفر کی ساری دشواریاں برداشت کرنے کے بعد جب وہاں پہنچتا ہے تو اُسے یہ کرب ناک احساس ہوتا ہے کہ یہ تو محض فریب ِنظر تھا۔ کیا اس شخص کے حق میں یہ اچھا نہ تھا کہ اسے اس فریب میں مبتلا ہی نہ کیا جاتا اور وہ ایک غلط اُمید پر جینے کے بجاے سکون کے ساتھ موت کی آغوش میں چلا جاتا؟
انسان کو دو بڑی چیزیں ذہنی سکون اور قلبی اطمینان بخش سکتی ہیں: یہ اطمینان کہ وہ جس سمت بھی خلوص اور تدبر کے ساتھ قدم اُٹھا رہا ہے، اُس پر چل کر وہ گوہرِمقصود پا لے گا اور جن افراد اور اداروں پر وہ بھروسا کررہا ہے وہ اُسے کبھی دھوکا نہ دیں گے۔یا پھر یہ احساس کہ دنیا سراسر دھوکا ہے، یہاں کسی شخص یا قوم پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، عدل و انصاف یہاں کسی چیز کا نام نہیں ہے اور آزادی و حُریت محض بے معنی الفاظ ہیں۔ اس دوسری صورت میں کم از کم یہ تو ہوگا کہ آدمی کو کامل مایوسی ہوجائے گی، وہ اپنے عزائم اور ارادوں کے مدفن خود تیار کر کے ان کے گرد بیٹھ جائے گا اور اُمیدوں کا کوئی دیا جلاکر اپنے سکونِ خاطر کو درہم برہم کرنے کا سامان نہ کرے گا۔
مغربی اقوام نے مشرقی قوموں ، اور خصوصاً مسلمانوں پر، مختلف زمانوں میں جو گوناگوں مظالم کیے ہیں، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جب ان کی طرف سے یکسر مایوس ہونے لگتے ہیں، تو یہ ’آزادی‘ اور ’حُریت‘ کے سراب دکھا کر انھیں پھر اس فریب میں مبتلا کر دیتی ہیں کہ عدل و انصاف کی متاعِ گراں مایہ اُن کے ہاں سے ضرور حاصل ہوگی۔ وہ بے چارے پھر ان کی رکاب تھام کر ان کے ساتھ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں اور ایک طویل سفر کی کلفتیں برداشت کرنے کے بعد جب حقائق ان کے سامنے آتے ہیں تو پھر ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔
آپ کو اگر مسلمانوں کی اس حکایت ِ تشنہ و سراب کا دردانگیز منظر دیکھنا ہو تو ذرا مغربی برقی ذرائع ابلاغ کے اس طرزِعمل کو دیکھیں، جو اس نے مسلم ممالک کے معاملے میں اختیار کررکھا ہے۔
یہ ذرائع ابلاغ ایک طرف آزادی ، جمہوریت، رواداری، انسانی حقوق کے احترام اور عدل و انصاف کے اصولوں کی حمایت کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ دوسری طرف ان کا حال یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان ملک میں کوئی ایسی حکومت قائم ہوجائے، جو اسلام کی براے نام بھی پاس داری کرتی نظر آتی ہو، تو اس کی ذرا ذرا سی غلطیوں کو یہ خوب اُچھالتے ہیں۔ اور یہ شور مچامچا کر زمین و آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں: ’’وہاں آزادیاں کچلی جارہی ہیں اور انصاف کا خون کیا جارہا ہے اور جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے‘‘۔
دوسری طرف جب کسی مسلمان ملک میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں اسلام کی بیخ کنی ہوتی نظر آئے اور اسلام کے لیے کام کرنے والوں پر ظلم توڑنے میں عدل و انصاف اور آزادی و جمہوریت کے سارے اصول پامال کر ڈالے جائیں ، تو یہی پریس اور جملہ ذرائع ابلاغ اپنے ان تمام دعوئوں کو قطعی فراموش کر دیتے ہیں اور اُلٹا ان لوگوں کی پیٹھ ٹھونکنے میں لگ جاتے ہیں، جو ان کی یہ منہ مانگی مراد پوری کررہے ہوں۔ اُس وقت انصاف اور انسانی حقوق کی کوئی مٹی پلید ہوتی ان کو نظر نہیں آتی، بلکہ مسلمان حکمرانوں کے اِن کارناموں پر ان کی باچھیں کھِلی پڑتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر کسی ملک میں اخلاق باختگی زور پکڑرہی ہو تو یہ لوگ ایسی حالت کو بطور ’روشن خیالی‘ بخوشی گوارا کرتے ہیں۔
یہ ہے وہ عام رجحان، جو مغرب اور مغرب کے زیراثر ذرائع ابلاغ میں نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں انسانی آزادی، قانون کی برتری ، جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے بڑے شان دار تذکرے اور فیچر ملیں گے، اور یوں محسوس ہوگا کہ پوری دنیاے مغرب ان کی محافظ اور پاسبان ہے اور ان پر جب ذرا سی آنچ بھی آئے تو وہ سخت مضطرب ہوکر فوراً اُن قوتوں کے خلاف صف آرا ہوجاتی ہے، جو انھیں پامال کرنے کا ناپاک عزم رکھتے ہوں۔ ممکن ہے اپنے دائرے میں وہ انسانی بنیادی حقوق کے متعلق اتنی ہی حساس ہو جتنی وہ اس کی نمایش کرتی ہے۔لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں اُس کی روش انتہائی جانب دارانہ، افسوس ناک بلکہ شرم ناک ہے۔
اگر اسلام کو دبانے اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے انھی میں سے کوئی سفاک آمر یا سامراج نواز رجواڑہ قدم بڑھائے اور اِس مذموم مقصد کی تکمیل میں ایسی تمام اقدار کو روند ڈالے، جن کے یہ بظاہر پرستار ہیں، تو جمہوری اقدار کے اِن علَم برداروں کے ضمیر میں قطعاً کوئی خلش پیدا نہیں ہوتی، بلکہ مغربی مراکز ِ دانش (Think Tanks)، مغربی ذرائع ابلاغ اور مغربی ممالک اس کے مظالم پر تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرنے لگتے ہیں اور مظلوموں کے حق میں کوئی کلمۂ خیر تو درکنار، کلمۂ انصاف بھی ان کی زبان سے نہیں نکلتا۔
جب کسی مسلم ملک میں کوئی دین پسند تحریک، احیاے اسلام کا پاک اور مقدس عزم لے کر جدوجہد شروع کرے ، تو مغربی قوموں کو سخت ’خطرہ‘ لاحق ہوجاتا ہے، اور وہ ہر طرح سے اسے بدنام اور رُسوا کرنے اور اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس تحریک کے متعلق مغربی ذرائع ابلاغ طرح طرح کی بدگمانیاں پھیلاتے ہیں، اور اُن ملکوں میں برسرِاقتدار طبقوں کو اس بات پر اُکساتے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنے میں پوری قوت سے کام لیں اور اس وقت تک چین نہیں لیا جاتا جب تک کہ اس تحریک اور اس کے خادموں کی بربادی کا پوری طرح سامان نہ ہوجائے۔
اگر محض حُسنِ اتفاق سے کسی جگہ کوئی ایسا فرد یا طبقہ برسرِاقتدار آجائے، جو اسلام کا علَم بردار نہ سہی، محض اس ضمن میں اچھے جذبات ہی رکھتا ہو، تو مغربی ذرائع ابلاغ اُس کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑجاتے ہیں۔ اس کی معمولی کوتاہیوں اور لغزشوں کو بڑی شدومد کے ساتھ اُچھالتے، اُسے ذلیل و خوار کرنے کے لیے طرح طرح کی خبریں گھڑتے ہیں اور اُس وقت تک دم نہیں لیتے، جب تک کہ غیراسلامی قوتیں اُس پر پوری طرح غالب آکر اُسے برباد نہیں کردیتیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے اس طرزِعمل کا اندازہ کرنے کے لیے عقل کی کوئی زیادہ مقدار درکار نہیں۔ آپ صرف گذشتہ چند عشروں کے واقعات پر نظر ڈالیں تو آپ کو حقیقت ِ حال معلوم ہوجائے گی۔
ایسے تمام واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ مغربی قوموں کو جمہوریت، آزادی راے اور بنیادی انسانی حقوق کا غم بس اُسی وقت لاحق ہوتا ہے، جب دنیا میں کہیں اسلام کے لیے کوئی کام ہوتا نظر آئے۔ اسلام کی سربلندی کا ’خطرہ‘ سامنے آتے ہی ان کے پیٹ میں ’جمہوریت‘ اور ’انسانی حقوق‘ کے مروڑ اُٹھنے شروع ہوجاتے ہیں اور وہ اُن قوتوں کے خلاف مکروہ پراپیگنڈے کی ناپاک مہم شروع کردیتی ہیں، جو اس ’خطرے‘ کے پیچھے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن اسلام کا راستہ روکنے اور اس کی اقدارِحیات کو پامال کرنے کے لیے خواہ کتنے ہی مظالم کیے جائیں، کتنی ہی صریح بے انصافیوں کا ارتکاب کیا جائے، کیسے ہی غیر جمہوری اور غیراخلاقی طریقے اختیار کیے جائیں، ان کے ضمیر پر جوں تک نہیں رینگتی، نہ ان کے دلوں میں کوئی معمولی ارتعاش تک پیدا ہوتا ہے۔
اب اگر محض چند حالیہ سال ذہن میں تازہ کر لیے جائیں، کہ مصر میں کیا کچھ ہورہا ہے؟ مغرب نے قال اور حال سے اس ظلم، دھاندلی اور وحشیانہ طرزِعمل پر آفرین و صد آفرین کی صدائیں ہی بلند کی ہیں۔ اہلِ مغرب کے ہاں کوئی آنکھ اس اندوہناک صورتِ حال پر نم نہیں ہوئی۔ کسی دل میں یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ متاعِ حیات سے محروم ہونے والے اور مصری حکام کے ہاتھوں دردناک عذاب کی سختیاں جھیلنے والے الاخوان المسلمون کے مظلوم طرف دار، انسانی برادری ہی کے معزز ارکان ہیں، اور اُن کے لیے بھی آزادی اور انصاف کے تقاضے اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنے کہ خود اِن کے لیے۔ لیکن چوں کہ الاخوان المسلمون کے ختم ہونے سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے، اس لیے مغربی قومیں جمال ناصر سے لے کر انورالسادات تک اور پھر حسنی مبارک سے لے کر غاصب جنرل سیسی کے اُن ظالمانہ اقدام پر بڑی مسرور ہیں، اور اس بات پر مطمئن ہیں کہ یہ سفاک اور غاصب حکمران ان کی ناپاک خواہشات کی تکمیل میں دانستہ یا نادانستہ طور پر ممدومعاون ثابت ہوتے رہے ہیں۔
بلاشبہہ عراق پر صدام حسین کی شکل میں ایک فوجی آمر برسرِ اقتدار تھا، جس نے اپنے ملک میں جبر کا ماحول تسلسل سے قائم کیے رکھا۔ لیکن اہلِ مغرب کے دل کبھی اس بات پر نہیں دُکھے تھے۔ البتہ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ وہ مسلم دُنیا کی ایک ناقابلِ تسخیر فوجی قوت بن چکا ہے اور خصوصاً مقبوضہ فلسطین پر غاصب صہیونیوں کے لیے خطرہ ہے تو پھر بہانے تراشے گئے۔ جھوٹی خبریں گھڑی اور پھیلائی گئیں، اور اسی جھوٹ کے بل پر پورے عراق کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ لاکھوں بے گناہوںکو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ عملاً عراق دوتین ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکا ہے اور بدامنی اور تباہی اس کا مقدر بنا دی گئی ہے۔ عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ امریکی حملہ آوروں کی تائید اور عملاً جنگ میں تباہی مچانے والے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر اب یہ کہتے پھرتے ہیں: ’’ہم نے غلط معلومات کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا تھا، جس پر مَیں معذرت خواہ ہوں‘‘۔ یہ ہے وہ ’مہذب‘ مغرب کہ جو خود جھوٹ گھڑتا، اسی جھوٹ پہ کارروائی کرتا اور پھر ٹسوے بہاکر ’معذرت‘ کا ڈراما رچاتا ہے۔
’مہذب مغرب‘ کے دامن کولہو سے تر کرتی تین مثالیں یہ بھی پیش نظر رکھیے: اب سے ۲۵برس پیش تر روسی سلطنت نے جس طرح چیچنیا کے مسلمانوں کی آواز کو کچلا۔ پھر مشرقی یورپ میں بوسنیا اور کوسووا کے مسلمانوں کی نسل کشی کی اور غلامی کی بےرحم زنجیروں میں جکڑا، تو اس پر کہیں آہٹ نہ سنائی دی۔ مغرب اس کے باوجود ’مہذب‘ ہی رہا، جب کہ مسلم دنیا کی قابض مقتدرہ نے اسے تسلیم کرلیا۔
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کی یہ روش کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے، جسے محض حادثاتی اتفاق پر محمول کرکے نظرانداز کیا جائے۔ اس کے اسلام دشمن طرزِعمل میں اتنی استواری، پایداری اور تسلسل ہے جس میں انسان یہی محسوس کرتا ہے کہ مغرب یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے اندازِ فکر، لگے بندھے منصوبے اور متعین مقاصد کی تکمیل میں کر رہا ہے۔ اس کا یہ طرزِعمل چند حکمرانوں، کچھ صحافیوں اور خبر رسانوں کے ذاتی ذوق یا رجحان کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ پوری پوری قوموں اور سلطنتوں کی پالیسی یہی ہے۔ یہ اہلِ مغرب کی مشترک بین الاقوامی پالیسی ہے، جس کے نفاذ کے لیے ذرائع ابلاغ ایک بڑے مؤثر آلۂ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کم از کم اسلام اور مسلمانوں کے معاملے میں پریس ایک خودمختار ادارہ نہیں ہے جو اپنی قوموں کی پالیسی سے ہٹ کر اپنی کوئی الگ پالیسی چلاتا ہو۔
یہ ہوسکتا ہے کہ مغربی پریس کے مختلف مکاتب ِ فکر ہوں اور مختلف مفادات کے محافظ و نگراں اور مختلف افکار و نظریات کے ترجمان کی حیثیت سے یہ پریس متعدد کیمپوں میں بٹا ہوا ہو۔ ان میں باہمی سرپھٹول اور چپقلش بھی ہوسکتی ہے، لیکن مسلمانوں کے معاملے میں اس سارے پریس کے قریب قریب یکساں طرزِعمل کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت نہایت واضح طور پر کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خواہ اس کے اپنے اندر کتنے ہی اختلافات پائے جائیں، مگر اس ایک معاملے میں اس کے اندر مکمل یک جہتی اور اتحاد ہے، کہ وہ مسلمانوں کو مسلمان نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اسلام کو سر اُٹھاتے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اسلام کے رشتے کی بنا پر مسلمانوں کو متحد ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ کسی مسلمان قوم کو طاقت پکڑتے نہیں دیکھ سکتا۔ جہاں بھی اسے اسلام کے ایک زندہ طاقت کی حیثیت سے اُبھرنے کا ’اندیشہ‘ ہوتا ہے ، یہ پورا پریس اس کا راستہ روکنے کی جاں توڑ کوشش کرتا ہے۔ کبھی کبھی مغربی پریس میں کوئی نحیف سی آواز مسلمانوں کے حق میں اُٹھتی ہے، مگر حکمرانوں اور پریس کے مجموعی طرزِعمل میں کوئی تبدیلی رُونما نہیں ہوتی۔
جب تک مغربی اقوام مسلمانوں پر براہِ راست مسلط رہیں، اُس وقت تک تو وہ خود اپنے ہاتھ سے آزادی، حُریت، انسانی بنیادی حقوق اور انصاف کا خون کرتی رہیں۔ اسلام اور اسلامی تحریکات اور مسلمانوں کی تحاریک ِ آزادی کو دبانے میں ہرقسم کے ظلم سے کام لیتی رہیں۔ اتنے پاپڑ بیلنے کے باوجود انھیں پوری طرح احساس تھا کہ وہ ان ممالک پر خود زیادہ دیر تک مسلط نہیں رہ سکیں گی، اور ایک نہ ایک دن ان ممالک کو آزاد ہی کرنا پڑے گا۔ اس لیے انھوں نے شروع ہی سے اس امر کا پوری طرح اہتمام کیا کہ اگرچہ اُن کے جسم تو بامر مجبوری یہاں سے نکل جائیں، اُن کی روح یہاں سے رخصت نہ ہونے پائے، بلکہ وہ مسلمانوں کے ایک طبقے کے اندر حلول کر کے اسے مغربی قوموں کے مقاصد کی تکمیل کا ایک مؤثر ذریعہ بنا دے۔
چنانچہ ان جارح قوموں نے اپنی ’بد روح‘ کا وارث بنانے کے لیے مسلمانوں کے اندر ایک ایسے طبقے کا انتخاب کیا، جسے وطن، دین، ایمان، اخلاق، الغرض دنیا کی ہرچیز کے مقابلے میں اپنے گھٹیا مادی مفادات عزیز تر تھے۔ اس بے ضمیر طبقے کو اپنا صحیح طور پر جانشین بنانے کے لیے اس کی بڑی تربیت اور سرپرستی کی گئی اور قوم کے اندر اس کے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے مختلف چالیں چلی گئیں۔
سب سے پہلے اس مراعات یافتہ طبقے کے بلند درجاتی مقام کو تحفظ دینے کے لیے تعلیم و تربیت کے خاص انتظامات کیے گئے، تاکہ مسلم معاشرے اور اُن کے درمیان زیادہ سے زیادہ امتیاز اور بیگانگی پیدا ہو۔ وہ رنگ و نسل کے اعتبار سے مسلم معاشرے سے تعلق رکھنے کے باوجود افکار و نظریات اور احساسات و جذبات کے اعتبار سے غیرملکی ہوں، اور مغربی فرماں روائوں کے رخصت ہوجانے کے بعد وہ انھی جیسے جابرانہ طرزِفکر کے ساتھ مسلمانوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھ کر انھیں اُسی طرح ستائیں، جس طرح کہ مغربی قومیں اُنھیں دواڑھائی سو سال سے ستاتی چلی آرہی ہیں۔
تعلیم و تربیت کے ان ابتدائی مراحل سے گزارنے کے بعد اس مخصوص نسل کو مسلم عوام کی گردنوں پر اس طرح مسلط کیا گیا کہ وہ اپنے بھائی بند سے الگ تھلگ رہے اور اپنے آپ کو برتر اور اپنے بھائیوں کو کم تر مخلوق سمجھتے ہوئے اُن سے معاملہ کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم معاشرے کے بطن سے ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا، جسے مسلم قوم، اُس کے مسائل، اُس کی تہذیب و تمدن، اس کی روایات، اور اُس کی قوت کے اصل محرکات سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا۔
حکمرانوں اور عوام میں کش مکش
یہ طبقہ عام مسلم معاشرے کے احساسات سے یکسر بیگانہ ہی رہا۔ اس کا تعلق خاطر اپنی ملّت سے زیادہ دوسری جارح اور حاکم قوموں سے تھا۔ اس طبقے کو بدیسی حاکموں کے مقاصد ِ حیات، اُن کے افکار و نظریات، اور اُن کے طرزِ زندگی زیادہ عزیز تھے۔ فکرواحساس کے اس غیرفطری نشوونما نے اس طبقے کے اندر بہت سے نفسیاتی عارضے پیدا کر دیے۔ ان بیماریوں میں سب سے بڑی بیماری احساسِ کہتری ہے۔ عام مسلم سوسائٹی چوںکہ انھیں اپنے ہاں عزت و احترام کا کوئی مقام دینے پر آماد ہ نہ تھی اور غیرملکی حکمران ایسے بے ضمیر طالع آزمائوں کو اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے سوا اور کسی دوسرے مصرف کے لیے مفید نہ سمجھتے تھے، اس لیے اس طبقے کے اندر بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس پیدا ہوا کہ اُسے اگر دنیا میں عزت کے ساتھ رہنا ہے تو اس کے لیے بس ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ وہ کسی طرح مسند ِاقتدار کے ساتھ چمٹا رہے اور اقتدار کی قوت سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک طرف اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مادّی منافع حاصل کرے، اور دوسری طرف اپنی قوم کو کچلنے کے لیے ہرممکن تدابیر اختیار کرے، تاکہ پوری قوم مفلوج ہوکر رہ جائے اور کوئی چیز بھی اس کی تکمیلِ ہوس کی راہ میں مزاحم نہ ہوسکے۔
اسی مقصد کے لیے مغربی سامراجی قومیں ان طبقوں کو ہرجائز و ناجائز طریقے سے مسلم ممالک میں مسلّط رکھنے پر مُصر تھیں اور آج بھی اسی نسل پر اعتمار کرتی ہیں۔ جہاں اِن مغربیوں کے قائم مقام حاکموں کے تسلّط پر کوئی سوال پیدا اور تنازع اُٹھ کھڑا ہوتا ہے، وہاں وہ جمہوریت، آزادیِ راے اور انسانی بنیادی حقوق کے سارے مواعظ و نصائح بھول جاتی ہیں، جو ان کے ہاں ’ایمان‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، جنھیں اپنے ہاں تسلیم کروانے کے لیے وہ خود ایک طویل اور خونیں کش مکش سے گزر چکی ہیں۔
یہ مغربی اقوام اپنے اپنے ملکوں میں اِن حقوق کی زبردست حامی ہیں، مگر مسلم ممالک میں ان کی ساری ہمدردیاں اِن حقوق کے علَم برداروں کے ساتھ نہیں بلکہ ان حقوق کو پامال کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ ان ملکوں کے لیے وہ جمہوریت کے بجاے آمرانہ راجواڑہ کریسی کو زیادہ موزوں سمجھتی ہیں۔ ان ملکوں کے معاملے میں وہ اکثریت کی حکومت کا اصول ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیوںکہ جمہور کی حکمرانی لامحالہ مسلم قوم کے عزائم، اُمنگوں اور ارادوں کی ترجمان ہوگی۔
اس کے برعکس مغرب زدہ اقلیت کے تسلط کے قیام کے لیے ناپاک کوششیں ہوتی ہیں۔ ذہنی غلامی اور سامراجی چاکری پر خوش رہنے والی اس اقلیت کو آزادیِ راے کا خون کرنے اور عوامی احساسات و جذبات کو کچلنے پر اُکسایا جاتا ہے۔ جو بندگانِ زر اِس کام میں زیادہ جری اور بے باک ہوں اور زیادہ سفاکی کا مظاہرہ کریں، ان کی مدح و ستایش کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ مغربی دانش، مغربی قیادت اورمغربی ذرائع ابلاغ ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ اس کے برعکس قوم کے حقیقی بہی خواہوں اور اس کی اُمنگوں کی ترجمانی کرنے والے مخلص خادموں کو دُنیا میں رُسوا اور بدنام کرنے کے لیے ہرطریقہ اور حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔
مغربی قوموں کا یہ طرزِعمل سامراج پرستوں کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ثابت ہوا ہے۔ مسلمان حکمرانوں اور عوام کے درمیان، اور پھر گاہے خود ان میں بھی باہم اتحاد کی جگہ زبردست سرپھٹول شروع ہوگئی۔ بھائی نے بھائی کے دُکھ درد میں شریک ہونے اور دست ِ تعاون بڑھانے کے بجاے اس کا گلا کاٹنا شروع کر دیا۔ اس طرح مسلم اقوام کے ذرائع و وسائل تعمیروترقی کی راہ پر صرف ہونے کے بجاے ایک دوسرے کو مٹانے اور برباد کرنے میں صرف ہونے لگے۔
مشرق سے مغرب تک اکثر و بیش تر مسلم ریاستوں کو اس باہمی نزاع نے جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ لاکھوں نہیں اربوں ڈالر، ریال، درہم، دینار، روپے، خود اپنے ہم وطنوں کو دھول چٹانے اور کچلنے میں لگ گئے ہیں اور یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
عرب دُنیا کے معاشی منصوبوں اور قدرتی معدنی وسائل کے بارے میں اتنے بلندبانگ دعوے کیے جاتے تھے،مگر آج صورت یہ ہے کہ اُس کی معیشت بالکل برباد ہوکر رہ گئی ہے۔ اُن کے میزانیے کا ایک بہت بڑا حصہ حکمران طبقوں کی برتری کا نقش دلوں پر بٹھانے اور اُن کی غلط پالیسیوں کو حق بجانب ثابت کرنے اور اُن کی شخصیتوں کو مصنوعی طور پر اُبھارنے میں صرف ہورہا ہے۔
اس کے علاوہ ان حکمرانوں کو اکثر اوقات خود ایسے جھگڑے کھڑے کرنے پڑتے ہیں، جن سے قوم کی توجہ اُن کے اعمال و افعال اور اُن کے غلط طرزِعمل کے خطرناک نتائج سے ہٹ کر بعض دوسرے مسائل میں اُلجھ کر رہ جائے اور حکمران بے خوفی کے ساتھ عوام کو اپنی پالیسیوں کا تختۂ مشق بناتے رہیں۔ ایسی خودشکنی پر مشتمل مہم جوئی نے ’خوب بخت‘ (Prosperous) عرب ممالک کی معیشت کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے اور انھیں مالی اور فوجی لحاظ سے اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ وہ اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کی دست درازی کی مزاحمت کرسکیں، بلکہ سات عشرے گزرنے کے بعد یہ حکمران طبقے حیلوں بہانوں سے مسلم اقوام کو مجبور کررہے ہیں کہ غاصب اور جارح اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرلیا جائے۔ تسلیم و رضاکے اس قمارخانے میں ایک سے بڑھ کر ایک بدمست لپکا چلا آرہا ہے۔ ’کیمپ ڈیوڈ‘ سے شروع ہونے والا اور ’اوسلو‘ کی طرف رواں سفر کہیں تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ اِن حالات میں آئے دن داخلی سازشوں کے جو نت نئے افسانے گھڑے جاتےہیں اور ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ہم وطنوں پر ظلم کے جو پہاڑ توڑے جاتے ہیں، اِس کے پیچھے یہ بیمار حاکمانہ ذہنیت کام کررہی ہے،کہ روز ایک نیا ہوّا دکھا کر لوگوں کو ان تباہ کن پالیسیوں کے نتائج سے غافل کیا جائے اور قومی احساسات کے برعکس محض قوت کے بل پر لوگوں کی گردنوں پر مرتے دم تک مسلط رہا جائے۔
اُردو شاعری کے زبانِ زدعام مصرعے ’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘ کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو اسے صرف مسلم ممالک کے موجودہ حالات پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھا جاسکتا ہے۔ معلوم ہوجائے گا کہ گھر کے چراغوں سے جب متاع زندگی جلتی ہے تو وہ منظر کتنا کرب ناک اور اس کے اثرات کتنے تباہ کن ہوتے ہیں۔ مغربی سامراج نے بڑی چالاکی اور عیاری سے اس امرکا انتظام کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو برباد کرنے کے لیے خود انھیں کوئی سامان نہ کرنا پڑے، بلکہ ان کے اپنے ’چراغوں‘ سے یہ کام لیا جائے اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی گھر کو پھونک دینے کا تماشا دُنیا کو دکھائیں۔ آہ! ہم بدھو پن میں انھی چراغوں سے روشنی کی توقع رکھتے ہیں، لیکن یہ مسلمانوں کی شب ِ تاریک کو منور کرنے کی جگہ اُن کی متاعِ حیات کو ہی خاکستر کیے دے رہے ہیں۔
غور کیجیے کہ قدرتِ حق کا کون سا ایسا عطیہ ہے، جو مسلمانوں کے پاس نہیں ہے۔ قدرتی وسائل کے اعتبار سے یہ دُنیا کی قوموں میں ممیز اور ممتاز ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے یہ کسی دوسری قوم سے پیچھے نہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے سواے بنگلہ دیش، مالدیپ، ملایشیا، برونائی اور انڈونیشیا کے، تمام کے تمام مسلم ممالک آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پھر ان کے درمیان ایک ایسا رشتۂ اخوت موجود ہے، جس کی نظیر دُنیا کی دیگر اقوام میں نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ یہ اپنا ایک شان دار اور تابناک ماضی رکھتے ہیں۔ ان کی ملّی روایات نے ان کے اندر یگانگت اور یک جہتی کے احساسات پیدا کر رکھے ہیں۔
یہ اپنے سامنے ایک ایسا اُونچا اور مقدس نصب العین رکھتے ہیں، جس کی مقناطیسی کشش نے انھیں ماضی اور حال ہر عہد میں سرگرمِ عمل کیا ہے۔ جب بھی انھوں نے اس پاکیزہ مقصد کے حصول کے لیے کوئی کوشش کی تو اس کے حیرت انگیز نتائج ظاہر ہوئے۔ انتشار کی جگہ اتحاد و اتفاق نے لے لی۔ ملّت کے مضمحل اعضا میں آناً فاناً زندگی بخشنے والا لہو دوڑنے لگا۔ قوم کی خفتہ صلاحیتیں فوراً بیدار ہوئیں اور اس ملّت نے اس مقصد کی خاطر ایسے کارہاے نمایاں سرانجام دیے، جس پر پوری دُنیا حیران رہ گئی۔ یوں معلوم ہوتا کہ اسلام نے پارس کی طرح اس مسِ خاک کو کندن بناکر رکھ دیا۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ اُمت اس انقلاب انگیز نصب العین کو کیوں نہیں اپناتی؟ اس کے متعدد اسباب ہیں، لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مغرب کی غلامی نے ہمارے اندر ایک ایسے طبقے کو بااختیار بنادیا ہے، جو پولیس، خفیہ ایجنسیوں اور ذرائع ابلاغ، عسکری مراکز کی مدد سے مسلم عوام کی راے عامہ کو اُبھرنے نہیں دیتا۔ وہ ابھی تک اُسے کسی ایسی قیادت سے محروم رکھنے میں کامیاب ہے، جو اس کی دلی تمنائوں اور آرزوئوں کی ترجمان ہو۔ اسی بنا پر ہمارے ہاں کش مکش اور اضطراب ہے، مختلف طبقوں کے درمیان منافرت اور کشیدگی ہے، اور اسی بنا پر ہماری قومی صلاحیتیں تعمیروترقی کی راہ پر لگنے کے بجاے، باہمی آویزش میں صرف ہورہی ہیں۔ یہ قوم قدرت کی طرف سے بانجھ بناکر نہیں بھیجی گئی، بلکہ اس کی اس سرپھٹول نے اسے تخلیقی قوت سے محروم کرکے رکھ دیا ہے۔
اس احساسِ زیاں کو بیدار کرنا اور اس صدمے سے نکلنے کی اُمنگ پیدا کرنا، پہلا قدم ہے۔ اگرسستی نعرے بازی کی فصل کو آگ لگا کر، مسئلے کی حقیقی جڑوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، تو بہت تیزی سے زندگی میں روح پھونکی جاسکتی ہے۔ ان کانٹوں کو پہچاننے اور جھاڑ جھنکار سے نجات پانے کے لیے قرآن و سنت قدم قدم پر ہماری دست گیری کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ قرآن و سنت کو محض مقدس علامت سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں دی جاتی، اور نہ اسلام کی مطلوب اُمت بنانے اور مطلوب شخصیت تعمیر کرنے کی فکر ہی کی جاتی ہے!