حسن البنا کا گھر زہد و قناعت کی ایک زندہ مثال تھا۔ اس کالباس سادگی کی مثال تھا۔ آپ اس سے، اس کے معمولی سے کمرے میں ملاقات کرتے، جس میں پرانے طرز کا قالین بچھا ہوتا اور جو کتابوں سے بھرا نظر آتا، تو آپ کووہ ایک عام آدمی سے مختلف نظر نہ آتا۔البتہ اس کی آنکھوں سے برآمد ہونے والی روشن و تابناک چمک آپ کو عام آدمی سے مختلف نظر آتی، جس کا سامنا کرنے کی سکت اکثر لوگوں کے اندر نہیں پائی جاتی تھی۔ آپ اس سے بات کرتے تو اس کی زبان سے جواب میں چند مختصر جملے سنتے اور یہ چند جملے ہی لمبے، چوڑے، گہرے اور اُلجھے مسائل کو واضح اور مبرہن کردیتے، جن کی وضاحت کے لیے کئی جلدیں درکار ہوتیں ۔ اس وسیع علم کے ساتھ ساتھ افراد کو سمجھنے پر بھی اسے قدرت حاصل تھی۔ وہ متضاد راے بیان کرکے آپ کو چونکاتا نہیں تھا، نہ ایسی بات کہتا کہ آپ صدمے سے دوچار ہوجاتے اور جو آپ کے مسلک سے ٹکراتی۔ نہیں، وہ آپ سے اسی معاملے میں رابطہ رکھتا، جس کے سلسلے میں آپ اس سے اتفاق رکھتے۔جن اُمور میں آپ کے اور اس کے درمیان اختلاف ہوتا، اس پر وہ آپ کو ملامت نہیں کرتا تھا۔
وہ انتہائی وسیع النظر تھا۔ آزاد فضا کے لیے دل و دماغ کے دریچے کھلے رکھتا تھا۔ اسی لیے نہ تو آزادیِ راے سے اسے نفرت تھی اور نہ مخالف راے سے پریشان ہوتا تھا۔اس کے اندر یہ صلاحیت بے پناہ تھی کہ عوام کےسامنے نئی راے اس طرح پیش کر سکے کہ وہ اس سے بھڑیں گے نہیں۔ یہ نئی راے ایسی ہوتی تھی کہ اگر مہارت و خوش اسلوبی سے نہ پیش کی جاتی تو لوگ اس کے خلاف کھڑے ہو جاتے اور اس کے خلاف آمادۂ جنگ ہو جاتے۔اس نے لوگوںکے دینی فہم کے رُخ کو تبدیل کیا۔ ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔انھیں واضح ہدف سے ہم کنار کیا اور ان کے دلوں کو ایمان و عمل اور حُریت و آزادی اور قوت و طاقت کے جوش سے بھر دیا۔
قائدانہ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کی وہ آواز تھی، جو جذبہ و قوت کے اظہار پر مبنی تھی۔ اس کی تقریریں عوام کے دلوں میں اُتر جاتی تھیں اور جن سے اہل دانش کا ذوق بے زار نہیں ہوتا تھا۔اس کی خوش اسلوبی، بصیرت اور مہارت وہ خوبیاں تھیں، جنھیں وہ گفتگو اور لوگوں کو قائل کرنے کے لیے بروے کار لاتا تھا۔ ان جملہ صفات کی بدولت وہ مختصر سے وقت میں، اتنی بڑی تعداد میں اعوان و انصار کو جمع کرنے میں کامیاب رہا۔ ان کا نقطۂ نظر تبدیل کیا اور کسی تصادم یا کش مکش کے بغیر ان کے اندرمثبت طرزِ فکر منتقل کیا۔
اس کے سادہ خدوخال اور چھوٹی سی داڑھی نےاسے وقار و تمکنت سے مالامال کر رکھا تھا۔ حالانکہ اس حلیے میں آپ کو علما کا سا تکلف تو نظر نہ آتا، نہ کروفر دکھائی دیتا اور نہ بے جا اور بے چارگی پر مبنی سادگی نظر آتی تھی۔حسن البنا کی شخصیت ان تمام حوالوں سے لوگوں کے لیے نئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ جو اسے دیکھتا یا اس سے ملتا، اسے اس کی شخصیت بھا جاتی۔اس کے اندر پختہ کار سیاست دانوں کی بصیرت اور بہادر لیڈروں کی سی قوت تھی۔ اس میں فاضل علما کی دلیل و حجت ، صوفیہ کا ایمان، کھلاڑیوں کی ہمت و حوصلہ، فلاسفہ کے معیارات ، خطیبوں کی خوش بیانی اور اہل
قلم کی پختگی موجود تھی۔ان پہلوئوں میں سے ہر پہلو مناسب و قت پر ایک مخصوص چھاپ کے ساتھ نمایاں ہوجاتا تھا۔
مشرق کا یہ مقدر نہیں تھا کہ ان صفات کا حامل کوئی فرد زیادہ دن زندہ رہ سکے ، حالانکہ یہ وہ صفات ہیں جن کے بارے میں آپ محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کے صحابہ و تابعین کی سیرتوں میں پڑھتے ہیں۔ ان صفات کے حامل کا لازمی انجام یہی ہونا تھا کہ وہ جلد موت سے ہم کنار ہوجائے۔ کیوں کہ ایسا شخص معاشرے کے مزاج و طبیعت کے لیے اجنبی تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ اگلے وقتوں کی باتیں ہیں یا ابھی ایسی باتوں کے سننے اور عمل کرنے کا وقت آیا ہی نہیں ہے۔
مغرب کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ ایسے شخص کے سامنے بے بسی سے کھڑا رہے، جس نے نئے انداز و اسلوب میں اسلام کا کلمہ بلند کیا تھا۔ عام انسان پر یہ واضح کر دیا تھا کہ اس کے وجود کی حقیقت کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہے؟ اس نے لوگوں کو اللہ کے ایک کلمے پر متحد کردیا تھا، جس کی دعوت سے مغرب زدگی، جنس زدگی اور قومی رجحانات کی آندھی کا زور ٹوٹ گیا، اہلِ قلم کا لہجہ و اسلوب اعتدال سے ہم کنار ہوا ،اور ان میں کے بعض لوگ ’اسلامی قافلے‘ کے ہم سفر بننے لگے۔
مشرق یا مغرب کی ایسی کوئی قدیم یا جدید دعوت، نظریہ و رجحان یا پیغام و مشن نہیں ہے جس سے دنیا واقف نہ ہو، جس پر دنیا نے تحقیق نہ کی ہو، اسے پڑھا نہ ہو یا اس کے سورمائوں کا مطالعہ نہ کیا ہو۔ ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر بحث نہ کی ہویا ان سے وہ چیزیں اخذ نہ کی ہوں جو حسن البنا کے تجربات اور مشن کے لیے مفید ہوں۔
حسن البنا ہر بات کہہ جاتا تھا، لیکن آپ کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس نے آپ کا دل دکھایا ہے یا آپ کو مجروح کیا ہے۔وہ کہانی او رمثالوں کے ذریعے تنقید پیش کیا کرتا تھا۔دل چسپ بات یہ کہ وہ صرف خطوط وضع کرتا تھا اور اس کی تفصیلات اپنے پُرعزم ساتھیوں پر چھوڑ دیتا تھا۔ اسے اس بات پر قدرت حاصل تھی کہ ہر شخص سے اس کی زبان میں، اس کے من پسند موضوع پر، اس کے اسلوب میں اور اس کے شوق و مشغلے کی حدود میں رہ کر بات کر سکے۔
وہ ازہریوں [جامعہ ازہر سے فارغ]، یونی ورسٹی کے اساتذہ و محققین ، اطبا، انجینیروں، اہل تصوف اور اہل سنت کی زبان و اسلوب سے واقف تھا۔وہ ساحلی اور صحرائی علاقوں کے لہجوں سے واقف تھا۔ بالائی مصر اور وسطی مصر کے لہجوں اور وہاں کی رسوم و رواج کا اسے علم تھا، بلکہ قصابوں اور غنڈا گردی کرنےوالوں کے لہجوں اور لفظوں کے استعمال سے بھی وہ آشنا تھا۔
قاہرہ کے ان مختلف اہل محلہ کے مخصوص لہجے بھی اسے آتے تھے، جن میں بعض نمایاں صفات پائی جاتی تھیں۔ ان سے بات کرتے وقت انھیں ایسے واقعات اور قصے سناتاتھا، جو ان کے ذوق و فہم سے مطابقت رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ اسے چوروں، ڈاکوئوں اور قاتلوں کی زبان و بیان اور نفسیات سے بھی واقفیت تھی۔ ایک بار اس نے ان کے سامنے خطاب کیا۔ اپنے خطاب کا موضوع ان مشکلات، واقعات و حالات اور اختلافات کو بنایا، جو مختلف علاقوں اور شہروں کی سیاحت کے دوران اس کے سامنے آئے تھے۔ وہ ان واقعات و حالات کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی دعوت سے مربوط کردیتا تھا اور اس کے نتیجے میں ایسی گفتگو سامنے آتی تھی، جو عقل کو حیرت زدہ کر دیتی تھی۔
وہ کسانوں سے بات کرتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ ’’ہمارے پاس دو فصلیں ہیں: ایک وہ ہے جو بہت جلد تیار ہو جاتی ہے، جیسے کھیرا، ککڑی وغیرہ۔ دوسری وہ ہے جو دیر میں تیار ہوتی ہے، جیسے کپاس کی فصل‘‘۔ اس نے کبھی محض خطابت و تقریر پراعتماد نہیں کیا، نہ کبھی عوام کو بھڑکانے کے لیے اس کا استعمال کیا اور نہ چیخ پکار کے انداز میں جذبات کو بھڑکانے کا طریقہ اختیار کیا، بلکہ اس کا اعتماد حقائق پر تھا۔ وہ عقل کو مطمئن کر کے جذبات کو ابھارتا تھا۔وہ روح کو سلگا دیتا تھا لیکن الفاظ کے ذریعے نہیں بلکہ معانی کے ذریعے، ہنگامہ خیزی کے ذریعے نہیں بلکہ نرمی کے ذریعے، اور لوگوں کو بھڑکا کر نہیں بلکہ حجت و دلیل کے ذریعے قائل کرکے!
بعض لوگوں کے نزدیک ان کا اندازِ گفتگو ان کی ایک بڑی علامت شمارکیا جاتا ہے۔ تاہم، اس کے بعض ملنے والوں سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ بھی اس کی شان دار صلاحیتوں میں سے ایک بہترین خداداد صلاحیت تھی کہ وہ لوگوں کو قائل کر لیتا تھا، افراد کو اپنا بنا لیتا تھا۔ انھیں نہ ٹوٹنے والے بندھن میں باندھ لیتا تھا۔ اس کے رفقا اسے اپنا خاص دوست سمجھتے۔ جو فرد بھی اس سے واقف ہوتا، اس کے درمیان خصوصی دوستی و رفاقت کا رشتہ قائم ہو جاتا۔ کبھی کبھی ان سے رازدارانہ گفتگو بھی کرتا۔ پھر یہ رشتہ دوستی سے آگے بڑھ کر ملازمت، کام ، گھر اور بچوں کے احوال تک سے واقفیت پہ پہنچ جاتا۔ یہ چیزیں اس کی عظمت و بلندی کے عظیم ترین مظاہر ہیں۔
وہ اگر اپنے رفقا کو ایک ساتھ اجتماعی طور پر اپنا گرویدہ نہ بنا سکتا ہو، تو انھیں فرداً فرداً اپنا گرویدہ تو بنا ہی سکتا تھا، اور ایک ایک روح کو ہدف بنا کر اس تک پہنچ سکتا تھا۔ اپنی دور اندیشی اور قوت و عظمت کی بدولت وہ یہ صلاحیت رکھتا تھا کہ انھیںان کے عقائد و افکار سے پھیر کر، اس طرح اپنے سیاسی و دینی مسلک میں لے آئے کہ وہ اپنا ماضی بھول جائیں بلکہ اس کے لیے اللہ سے مغفرت کے طالب ہوں۔ انھیں یہ لگنے لگے کہ وہ اب تک جس عقیدے اور فکر و مسلک پر قائم تھے وہ گناہ تھا، نادرست یا غلط تھا۔
اس شخص کا نمایاں ترین کام یہ ہے کہ اس نے وطن کو بت سمجھنے کے بجاے محبت کے ایک روحانی شوق میں بدل دیا تھا۔ اس نے وطن کی قدر کو بلندی عطا کی اور آزادی کی قیمت کو تقویت بخشی۔غریب اور امیر کے درمیان حق کا رشتہ قائم کیا، نہ کہ احسان کا۔ سربراہ اور ماتحت کے درمیان تعاون کا رشتہ قائم کیا، نہ کہ سربراہی اور برتری کا۔ حاکم اور عوام کے درمیان ذمہ داری کا رشتہ قائم کیا، نہ کہ تسلط او رغلبے کا۔ یہ سارے کام اس نے قرآن کی رہنمائی سے کیے، اگرچہ اس نے اس کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے، جو کہ اس سے پہلے عام طور پر واضح نہیں تھا۔
یہ مردِ قرآنی میرے علم کی حد تک کسی فتنے کے لیے کوشاں نہیں تھا، یا وہ اُچھل کود مچانے پر یقین نہیں رکھتا تھا، بلکہ وہ یہ چاہتا تھا کہ ایک صالح، مضبوط اور آزاد معاشرہ قائم کرے۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ ایک ایسی نسل کی تشکیل کرے، جس کے اندر مشرقی تہذیب کی ہر خصوصیت موجود ہو۔
بیسویں صدی میں ہندستان، مصر، سوڈان اور شمالی افریقہ کے اندر بے شمار اصلاحی تحریکات ظاہر ہوئیں اور ان تحریکات نے بلاشبہہ زلزلے پیدا کر دیے، لیکن کوئی مستقل اور مثبت نتائج برپا نہ کر سکیں۔ان تحریکات کا یہ انجام اس وجہ سے ہوا کہ بعض مصلحین حوادث کا سامنے کرتے وقت اپنے اعصاب کو قابو میں نہ رکھ سکےاور تعمیر سے پہلے ہی اس حد تک چلے گئے کہ ان کی تحریکات مجروح ہو گئیں۔ ان تحریکات کا یہ انجام اس وجہ سے بھی ہوا کہ انھوں نے عوام سے جڑنے میں عدم دل چسپی اور ایک شائستہ راے عامہ بنانے سے بے رغبتی کا مظاہرہ کیا۔
یہ تحریکات ماضی کے پردوں میں چھپ گئیں اور زبانوں پر صرف عبارتیں رہ گئیں اور الفاظ کتابوں کے صفحات میں بند ہو کر لائبریری کی الماریوں کی زینت بن کر رہ گئے۔آخرکار ان تمام سلسلوں سے ہٹ کر قدرت کا یہ فیصلہ ہوا کہ: نئے سرے سے ایک تحریک برپا کی جائے جو ان تحریکات کی تمام شرطوں اور نقوش کو پورا کرتی ہو۔جسے پختگی سے ہم کنار کرنے کے لیے پرورش و تربیت کا بھرپور موقع ملے۔ چنانچہ اس شخص نے اپنے پیش رئووں کے تجربات سے اور ان قائدین، مفکرین اور لیڈروں کی تاریخ سے استفادہ کیا،جنھوں نے دعوتِ اسلام کا پرچم اُٹھا رکھا تھا۔ اس نے محض ان جیسا بننے پر ہی قناعت نہیںکی، بلکہ وہ خود کو آخری حد تک لے گیا ۔ اس کی خواہش ابوبکر، عمر، خالد (e) سے امداد طلبی کی تھی۔ چنانچہ اس نے ابوبکر سے عالی ظرفی، عمر سے سادگی اور خالد بن ولید[e] سے نظم و ضبط اور تنظیم کی صفت حاصل کی۔
اس کی دعوت اور مشن یا اس کی زندگی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے جو بھی تدبیریں اختیار کی گئیں، ان سب کے باوجود یہ شخص زمین کے اندر ایک نیا بیج ڈالنے میں کامیاب رہا۔ یہ بیج قرآن کا بیج تھا۔ یہ وہ بیج ہے کہ اگر اس کا درخت بظاہر مرجھا بھی جائے، تب بھی یہ مردہ نہیں ہوتا۔یہ شخص بھی دنیا سے اسی وقت رخصت ہوا،جب یہ درخت فضا میں بلند ہو گیا اور اس کی جڑیں زمین میں جڑ پکڑ گئیں۔
حسن البنا نے مصحف قرآنی ہاتھ میں اٹھایا اوران جدید مفکرین کے راستے میں کھڑا ہوگیا، جو تین الفاظ کا مذاق اڑایا کرتے تھے، یعنی:’ مشرق، اسلام اور قرآن‘___ حسن البنا کا کہنا تھا: ’’اب، جب کہ خود اہلِ مغرب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مغربی افکار وہ نہیں دے پائے جو ان سے مطلوب تھا، مشرق کے لیے وقت آ گیاہے کہ مغرب کے افکار کو گلے لگانے سے پہلے ان کو عیبوں اور نقائص سے پاک کر لے‘‘۔وہ کہا کرتا تھا کہ: ’’ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مغربی اقدار کو میزان میں رکھ کر دیکھیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ اس سے کم نہیں ہے جو مغرب کے پاس ہے، یا کم از کم اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ مشرق پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دنیا کے لیے ایک نئی تہذیب وجود میں لائے۔ ایسی تہذیب جو مغربی تہذیب سے زیادہ بہتر ہو۔ اس کے اجزاے ترکیبی روح او رمادے کے امتزاج اور زمین اور آسمان کے درمیان ربط سے وجود میں آئے ہوں۔ مغربی تہذیب کا کوئی بھی معاملہ تمھارے سامنے آئے تو ضروری ہے کہ تم اس سلسلے میں مشرقی تہذیب کے اوّلین مصادر ، یا یوں کہیے کہ قرآن و سنت اور تاریخ سے رجوع کرو‘‘۔
یہ مردِ قرآنی اس بات پر ایمان رکھتا تھا کہ ’’اسلام ایک روحانی، تہذیبی اور نفسیاتی قوت ہے، جو مشرق کے دل و ضمیر میں موج زن ہے۔ اس قوت کے اندر یہ بھرپور صلاحیت ہے کہ مشرق کو ایسی قوتِ حیات فراہم کردے، جو اسے زمین پر اقتدار بخش سکتی ہے اور اسے اپنی بنیادوں کی طرف پلٹنے اور اپنے حقوق و آزادی کوواگزار کرانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے‘‘۔اس کو اس بات کا یقین تھا کہ ’’مشرق ایک قائم بالذات وحدت ہے‘‘۔
اپنی جادوئی گفتگو، جمالِ تکلم اور حُسنِ بیان سے حسن البنا نے اپنے چاہنے والوں کے ایک بڑے گروہ کے درمیان اُلفت و محبت اور ایک برادری پیدا کر دی تھی۔ یہ گروہ مختلف پارٹیوں، جماعتوںاور صوفی سلسلوں سے نکل کر ایک پرچم تلے جمع ہو گئے تھے ۔ اس پرچم پر انھیں اطمینان بھی تھا اور اعتماد بھی۔اس شان دار کامیابی نے بعض لوگوں کو حسن البنا سے حسد میں مبتلا کر دیا اور بعض اصحاب راے اس سے نفرت کی آگ میں جلنے لگے۔ یہ بے زر اور درویش صفت شخص، ان کے نزدیک اسی لائق تھا کہ اس سے کٹ کر رہیں اور اس کے لیے اپنے دل میں حسد رکھیں۔ کیوں کہ وہ انتہائی سادہ و عام وسائل کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ یہ سادہ وسائل اس کی خوش اسلوبی اور حُسنِ کلام تھا۔ وہ لوگوں کو ان مادی مرغوبات سے بلند کردیتا تھا، جن کی بنیاد پر بالعموم لوگ یک جا ہوا کرتے ہیں۔
بعض لوگوں کا اس کی شدید مخالفت کرنا اور اس کے متعلق سنسنی خیز باتیں مشہور کرنا ایک فطری امر تھا۔ اس لیے کہ ان کے دل کا کوئی کانٹا اس سے بڑا نہیں ہو سکتا تھا کہ کوئی ان سے ان کی وہ چودھراہٹ چھین لے، جو مدتو ں سے انھیں حاصل تھی۔ان کے دل پر اس سے زیادہ اثر کرنے والی کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی کہ ایک شخص عوام کے درمیان سے نکل کر آئے، قرآن کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لے،اور ان کے سامنے اس بات کا اعلان کرے کہ ’’اللہ نے حق کی بنیاد پر تمام انسانوں کے درمیان برابری رکھی ہے اور اپنے نزدیک فضیلت کے لائق صرف انھیں قرار دیا ہے، جن کے پاس عملِ صالح اور تقویٰ کی دولت ہے‘‘۔
اس شخص کی زندگی کی بساط عجیب طریقے سے لپیٹ دیے جانے کے بعد، جب اس کی زندگی پر غبار کی ایک کثیف پرت چڑھا دی گئی، تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ ایک دن حقیقت پسند تاریخ اس کی روداد سنائے گی اور انصاف پسند مؤرخ اس کا قصہ بیان کرے گا۔ لیکن اس وقت تک ایک طویل مدت گزر چکی ہوگی۔تاہم، مصر میں انتہائی سُرعت کے ساتھ تبدیلی آئی اور یہ ممکن ہو گیا کہ اخوان المسلمون کی دعوت اور مشن پر جو الزامات عائد کیے گئے تھے، وہ بعض تحقیقات کے نتیجے میں طشت از بام کر دیے جائیں اور اس شخص کا دامن ان الزامات سے پاک و بے داغ ہو جائے۔
میں اس شخص سے ۱۹۴۶ء میں قاہرہ میں ملا تھا۔پھر ۱۹۴۹ میںاس کی وفات کے بعد دوبارہ قاہرہ آیااور بعض ان حلقوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، جو اس سے واقف تھے۔ ان سے مجھے ایسی بہت سی باتیں سننے کو ملیں، جنھوں نے اس کے تعلق سے میرے سابقہ نقطۂ نظر کی تصدیق کی۔چنانچہ میں یہ بات جانتا تھا کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسے اپنی موت کا احساس ہونے لگا تھا۔ اس کے اکثر عقیدت مند اسے ہجرت کرنے یا یہاں سے فرار ہوجانے کا مشورہ دیتے تھے، یا یہ مشورہ دیتے تھے کہ چپکے سے یا خفیہ طور پر پناہ لے لے۔ لیکن جو لوگ اسے یہ کہانی سناتے، وہ ان پر مسکرا کر یہ اشعار پڑھا کرتا:
أَي يَومَيَّ مِنَ الْمَوتَ أفِر
يَومَ مَا قُدِّرَ أَم يَومَ قُدِر
يَومَ مَا قُدِّرَ لَا أرهَبُهُ
وَاِذَا قُدِّرَ المَقْدُوْرُ لَا يُنْجِی الْحَذَرَ
[میں اپنی زندگی کے دو دنوں سے موت سے فرار کیسے اختیار کروں؟ اس دن، جب کہ موت میرے مقدر میں نہ ہو یا اس دن جب موت میرا مقدر بن چکی ہو؟جس دن موت میرے مقدر میں نہیں ہے، اس دن کا مجھے کوئی ڈر نہیں، اور جب مقدر ہو گئی ہو، اس دن سے ڈرنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ حضرت علیؓ]
اپنے رفقاکی رہائی کی کوششوں سے وہ ایک لمحے کے لیے بھی بیگانہ نہیں ہوا۔ اس معاملے میں اس کا حال انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ وہ راتوں کو اٹھ کر بیٹھ جاتا اور اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر پکارنے لگتا : ’’میں ان بچوں کی آہ و بکا سن رہا ہوں، جن کے باپ جیلوں میں بند کر دیے گئے ہیں‘‘۔
’مردِ قرآنی‘ کی تاریخِ جہاد ایک طویل داستان ہے۔لیکن اس کی زندگی کے سب سے زیادہ سرسبز و شاداب ایام۱۹۳۶ء میں جیل سے رہائی کے بعد سےجنگ کے ایام ہیں۔اُس وقت، جب کہ جنگ نے پوری دنیا کو پارٹی بازیوں، سیاست اور ہر چیز سے بے گانہ کر دیا تھا، اس زمانے میں یہ شخص سوتا نہیں تھا۔ ایک ایک گائوں، محلے اور شہر کے چکر کاٹتا رہتا۔ یہاں سے وہاں دوڑتا رہتا۔ نوجوانوں کو ڈھونڈتا رہتا، بزرگوں سے گفتگو کرتا ، معززین اور علما سے صلاح مشورے کرتا۔ اس دن اس نے وزرا اور سیاست دانوں کو حیران کر دیا، جب ان میں سے بعض نے اس کے لہراتے ہوئے پرچم کے نیچے آنے اور اس کے لشکر جرار سے جڑنے کا اعلان کر دیا۔
تب انگریزوں نے اس کے سامنے بڑی بڑی مراعات رکھیں، لیکن اس نے خودداری سے ان تمام مراعات کو ٹھکرا دیا۔سیاسی پارٹیاں صلح کے انتظار میں رہیں، جن کی پروا کیے بغیر مضبوط اعصاب کا حامل یہ مردِ آہن بیس بیس گھنٹوں سے زیادہ کام کرتا تھا۔
اسے اپنی فکر اور نظریے سے جو محبت تھی، وہ بیان سے باہر ہے۔ اس کے دل میں ایسی کوئی چیز تھی ہی نہیں، جو اس دعوت کی راہ میں مزاحم ہو سکے۔ اسے اپنی فکر اور نظریے سے کسی حسینہ کی طرح عشق تھا۔ بے داری اسے تھکاتی نہیں تھی۔ سفر اسے تکان میں مبتلا نہیں کرتے تھے۔ اسے وہ عجیب عقل و دماغ ملا تھا جو معاملات کو سہل انداز میں انجام دے لیتا تھا۔ مشکلات میں سے تیزی کے ساتھ گزر جاتا تھا۔ آسانی کے ساتھ مشکلات کو حل اور ان کی پیچیدگیاں دُور کر لیا کرتا تھا۔ کسی بات کو سمجھنے کے لیے لمبی چوڑی گفتگو کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ہر معاملے کے پہلو اس پر واضح ہیں۔ ابتدائی الفاظ اس کے سامنے آتے ہی تھے کہ وہ آپ کا مدعا سمجھ لیتا تھا، بلکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ یہ تک پا لیتا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں اور جس مسئلے میں آپ اس سے مشورہ لیناچاہتے ہیں ، مشورہ دے دیتا۔وہ دوراندیش شخص تھا، ما وراے خیال بھی دیکھ لیتا تھا۔ اس معاملے میں اسرارِ الٰہی کی ایک چنگاری اس کے حصے میں آ گئی تھی۔
وہ ہر چیز اپنے اندر جذب کر لیتا تھا۔ کوئی علم، کوئی فکر، قانون، سماجیات ، سیاست و ادب کا کوئی ایسا معروف نظریہ نہیں تھا، جو اس نے پڑھا نہ ہو یا اس سے واقف نہ ہو۔اسی مردِ قرآنی سے جب میں نے مشرق کے اسلامی رنگ کے بارے میں اس کی راے جاننا چاہی تو اس نے کہا: ’’میں آپ کو ترکی کی ایک مثال دیتا ہوں۔ ترکی کی تاریخ اسلام سے وابستہ ہے اور اسلام کی طرف پلٹنے کے آثار و عوامل کا اب آغاز ہو چکا ہے‘‘۔ البنا اور میرے درمیان یہ گفتگو ۱۹۴۶ء میں ہوئی تھی اور آیندہ برسوں کے دوران میں نے نوٹ کیا کہ اس کی بات درست ثابت ہو چکی ہے۔ ۱۹۵۰ءمیں، جب کہ یہ شخص اپنے ربّ کے حضور پہنچ چکا تھا، مصطفےٰ کمال پاشا [م: ۱۰نومبر ۱۹۳۸ء]کی جماعت [ری پبلکن پیپلزپارٹی:CHP] شکست سے دوچار ہوئی اور وہ جماعت جیت گئی، جس کے بارے میں مصطفےٰ کمال یہ کہا کرتا تھا کہ ’’وہ رجعت پسند جماعت ہے‘‘۔
میں نے البنا سے تصوف اور صوفیہ کے سلسلوں پر بھی سوالات پوچھے کہ ’’کیا تصوف، اسلام کا جز ہے؟‘‘میرا یہ سوال اس تحریر کے سلسلے میں تھا کہ ’’تصوف کی اصل مغرب ہے، جو کہ ’شاذلی مسلک‘ کا پیرو ہے‘‘۔(تصوف کا وہ طریقہ جس کے بانی ابوالحسن الشاذلی [۱۱۹۶ء، مراکش- ۱۲۵۸ء، مصر]ہیں۔مترجم)
اس سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ ’’پیچیدگی سے پاک اور خالص تصوف اسلام کا ہی جز ہے۔ یہ اسلام کا وہ درجہ ہے، جس تک مردِ حق ہی پہنچ سکتا ہے، اور یہ کہ اپنے اصل مفہوم میں تصوف انسانی فطرت کے لیے جہاد اور جدوجہدکی زندگی سے محبت پیدا کرنے میں معاون ہوتا ہے‘‘۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ’’مَیں نے اپنے رفقا کے لیے یہ لازمی کر رکھا ہے کہ وہ خود کو اسلام کے اس درجے تک لے آئیں۔ اخوان المسلمون کے لیے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تصوف کے مظاہر میں پوشیدہ طاقت ور جذبے کو اخذ کرلیں اور اس مسلک کے قدیم لباس اور مظاہر کے بندھن میں قید ہوئے بغیر اسے اپنے دعوتی مشن میں اختیار کریں ، کیوں کہ اس کی ظاہری صورتیں اور قدیم طرز لباس موجودہ زمانے کی روح سے موافقت نہیں رکھتا‘‘۔
پھر جب میں نے اپنے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ’’ لوگ ایک دعوتی مشن پر کیسے جمع ہوسکیں گے، خاص طور سے، جب کہ بعض اسلامی قوتیں (المواہب الاسلامیہ) ہی اس کے راستے میں حائل ہیں؟‘‘ تو اس نے جواب دیا: ’’یہ اختلافات مسلمانوں کو جوڑنے میں خلل نہیں ڈال سکتے۔ یہ اختلافات تومختلف زمانوں، ادوار اور صدیوں کے دوران اسلام کی قدرت و صلاحیت کا مظہر رہے ہیں۔ ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دین کے فروعی معاملات میں اختلاف ہونا ایک لازمی امر اور ایک لازمی ضرورت ہے۔جب خلیفہ ابوجعفر منصور [م:۷۷۵ء]نے امام مالک بن انس [م:۷۹۵ء] کو بلا کر یہ درخواست کی کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھ دیں جس پر تمام لوگ متفق و مجتمع ہوجائیں، تو امام مالک نے خلیفہ کو جواب دیا: مختلف شہروں میں آباد صحابہ کرام کے درمیان اختلافات واقع ہوئے ہیں۔ ہر قوم کے پاس علم ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ انھیں کسی ایک راے پر مجبور کریں گے، تو اس سے فتنہ پیدا ہوگا۔علاوہ ازیں یہ کہ کسی فتوے کا نفاذ ماحول اور حالات کے اعتبار سے الگ الگ ہوتا ہے۔امام شافعی [م:۸۲۰ء]نے (ایک ہی مسئلے پر ) مصر میں اس فتوے سے مختلف فتویٰ دیا، جو عراق میں دیا تھا۔ ان دونوں صورتوں میں امام شافعی نے وہی فتویٰ دیا، جومتعلقہ (حالات کے لحاظ سے) ان پر واضح ہوا۔اسی لیے فروعی مسائل میں اجماع و اتفاق ایک ناممکن الحصول خواہش ہے،جو اسلام کے مزاج کے بھی منافی ہے۔فروعی مسائل میں ہم سے جو لوگ اختلافات رکھتے ہیں، ہم ان کا عذر تسلیم کرتے ہیں اور یہ راے رکھتے ہیں کہ یہ اختلاف دلوں کو جوڑنے اور محبت بانٹنے میں حائل نہیں ہیں، جب کہ اخوانیوں کے دل اپنے مخالفین کے مقابلے میں زیادہ کشادہ ہیں‘‘۔
اس کے بعد میں نے اسلام اور سیاست کے موضوع پر سوال کیا کہ میری راے یہ ہے کہ ’’اسلام اور سیاست کسی بھی حال میں یک جا نہیں ہو سکتے‘‘۔ اس کے جواب میں اس نے مجھ سے کہا:’’کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ اسلام سیاست کے بغیر صرف رکوع و سجود اور الفاظ کا مجموعہ بن کر رہ جائے گا؟ حالانکہ اسلام درحقیقت عقیدہ، وطن، جنس و سیاست ، تہذیب و قانون سب کچھ ہے۔ اگر اسلام سیاست سے جدا ہو جائے تو وہ خود کو ایک تنگ ومحدود دائرے میں محصور کرلے گااور مسلمانوں کے لیے اوپری چھال اور ظاہری شکلوں کے سوا کچھ نہیں بچے گا‘‘۔
بہت سی باتو ںکے ساتھ اس نے مجھ سے یہ بات بھی کہی کہ ’’مغرب کے غلبے اور کامیابی کا راز اسلام ہی ہے‘‘۔میں نے حیرت سے پوچھا : ’’وہ کیسے؟‘‘ اس نےکہا: ’’دو پہلوئوں سے: ایک یہ کہ اسلام نے اپنے قدیم ورثے کو سنبھال کر رکھا ہے اور اس میں مزید اضافہ اس وقت ہو گیا تھا، جب اسلام نے اپنا یہ ورثہ قرطبہ اور قسطنطنیہ [استنبول] کے راستے سے یورپ کے حوالے کیا تھا۔ مغرب کو غلبہ مشرق کے اصول و اخلاق کو اختیار کرنے کی وجہ سے ہی حاصل ہوا ہے۔ زیرک و ہوشیار مغرب یہ بات جان چکا تھا کہ کس طرح مشرق ان اخلاق کے ذریعے بلندی پر پہنچا تھا، ا س لیے اس نے ایک عظیم الشان سلطنت تیار کی اور مشرق کے اخلاق مستعار لیے اور جب ان اخلاق واصول کا حامل مشرق خود اُن سے غافل ہو گیا، تو مغرب کامیاب ہو گیا اور مشرق پیچھے رہ گیا‘‘۔
اس نے مزید بتایا کہ:’’آپ مشرق میں اس وقت جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ اسلام نہیں بلکہ وہ نام کے اور موروثی مسلمان ہیں۔اگر ان لوگوں نے اپنی حقیقت کو سمجھ لیا ہوتا تو بلندی پر پہنچ جاتے‘‘۔
اس مردِ قرآنی کے بعض ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ ’’ارضِ حجاز کا دورہ کرتے وقت اس کے ساتھ کیا کیا پیش آیا تھا۔ جس مکان میں اس کا قیام تھا، اس پر کس طرح انڈونیشیا، جاوا، سری لنکا، ہندستان، مڈغاسکر، بورنیو، نائجیریا، کیمرون، ایران اور افغانستان سے آنے والے وفود کا تانتا لگا ہوا تھا۔ یہ وفود اس سے تعارف حاصل کرتے تھے، اس کی مجلس میں شریک ہوتے تھے اور وہ ہرگروہ کے ساتھ انھی امور پر گفتگو کرتا تھا، جو متعلقہ گروہ کی دل چسپی کا موضوع ہوتے تھے۔ ان کے مسائل و مشکلات پر بات کرتا تھا اور ان کو اس طرح حیران کر دیتا گویا یہ لوگ اس سے ملنے نہیں آئے ہیں، بلکہ یہی شخص سیدھا ان کے ملک سے (وہاں کے حالات سے آگاہی لے کر )آرہا ہے‘‘۔
اس کے رفقا میں سے بعض لوگ اس کے پاس بھاگے ہوئے آتے اور اسے بتاتے کہ ’’بعض متشدد قسم کے لوگ کیا باتیں آپ کے بارے میں بنارہے ہیں‘‘۔ وہ ان کے جواب میں کہتا: ’’محبت کے بغیر اتحاد ممکن نہیں‘‘۔ انتہائی حیرت اس وقت ہوتی جب آپ اس کی ان باتوںکو سنتے جو وہ اپنے ساتھیوں سے کہا کرتا تھا۔ اس کی یہ باتیں خالص ایثار اور ایمان سے لبریز ہوتی تھیں:
اس مردِ قرآنی کی جس چیز نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا، وہ یہ ہے کہ اس نے ذاتی اختلافات اور نظریاتی اختلافات کے درمیان ایک حد مقرر کی۔ اس سلسلے میں اس کا کہنا تھا:’’ہمارے اور لوگوں کے درمیان ذاتی اختلاف کبھی نہیں رہا اور نہ کبھی رہےگا، بلکہ ہمارے درمیان جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ فکرو نظام کا اختلاف ہے۔یہ لوگ اس امت کے لیے وہ اجتماعی نظام چاہتے ہیں جو حکومت و سیاست، عدالت و تعلیم اور معاشیات و ثقافت میں مغرب کی تقلید سے آلودہ ہے، اور ہم اسلامی تعلیمات و ہدایات اور اسلام کی رہنمائی سے حاصل کیا ہوا صحت مند نظام چاہتے ہیں‘‘۔
چنانچہ، جب ہم اسلام کی حقیقت سے خود کو اس طرح واقف کراتے ہیں جس طرح حسن البنا نے اسے سمجھا تھا، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے اسلام کو اسی طرح سمجھا تھا جس طرح عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ)نے سمجھا تھا کہ ’’جب میں کوئی اچھا کام کروں تو میری مدد کرو اور بُرا کام کروں تو مجھے سیدھا کر دو‘‘۔
وہ اسلام کو اسی طرح سمجھتا تھا جس طرح اسے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے سمجھا تھا کہ ’’کمزور میرے نزدیک قوی ہے جب تک میں اسے اس کا حق نہ دلا دوں، اور قوی میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے (کمزور کا) حق نہ لے لوں۔ جب تک میں تمھارے معاملے میں اللہ کی اطاعت کرتا رہوں، میری بات مانو اور جب اللہ کی معصیت کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں‘‘۔
وہ یہ راے رکھتا تھا کہ مسلم حکمران شجاعت کے اس مقام پر فائز ہو کہ جب عمر (رضی اللہ عنہ)کے سامنے ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ ’’عمر! اللہ سے ڈرو‘‘۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے یہ سنا تو اس سے کہا کہ ’’کیا امیرا لمومنین کو تم ایسا کہتے ہو؟!‘‘ عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : ’’اسے یہ آزادی ہے کہ مجھےیہ نصیحت کرے‘‘۔ اگر تم یہ نصیحت نہ کرو تو تمھارے اندر کوئی خیر نہیں اور ہمارے اندر کوئی خیر نہیں اگر ہم اس نصیحت کو قبول نہ کریں‘‘۔
ایک مطلوب حکمراں کی ذمہ داری کو وہ عمر (رضی اللہ عنہ) کے اس قول کی روشنی میں دیکھتا تھا: ’’اگر فرات کے کنارے پر مجھے بھوک سے مری کوئی بکری بھی نظر آجائے، تو میں یہ سمجھوں گا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں مجھ سے سوال کرے گا‘‘۔ اس کا خیال یہ تھا کہ حاکم کے اندر نفس کے خلاف انصاف کرنے کی قدرت ہو نی چاہیے، جس طرح عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا تھا: ’’ایک عورت نے درست بات کہی اور عمر نے غلطی کی‘‘۔
قانون و عدالت کے سلسلے میں وہ عمر (رضی اللہ عنہ) کے نظام کو نافد کرنے کی یہ راے رکھتا تھا کہ: ’’لوگوں کو اپنی نظر میں برابر سمجھو۔ اللہ کے معاملے میں کوئی ملامت کرنے والا تمھیں ملامت نہ کرے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کا تمھیں والی بنایا ہے ، ان کے سلسلے میں ترجیحِ نفس اور جانب داری سے بچو‘‘۔ وہ اکثر رسول[صلی اللہ علیہ وسلم] کے اس قول کو دہراتا تھا جو آپؐ نے اسامہ (رضی اللہ عنہ) سے کہا تھا کہ: ’’کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے سلسلے میں سفارش کر رہے ہو۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد نے بھی چوری کی ہوتی تو محمد اس کا ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔ وہ یہ کہتا تھا کہ مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی پر عمر (رضی اللہ عنہ) کی اس زندہ و جاوید عبارت کو چسپاں کرلے : ’’مجھے وہ شخص پسند ہے کہ جب پر ظلم کیا جائے تو وہ اس ظلم کو قبول کرنے سے برملا انکار کردے‘‘۔ وہ شخص اسلامی تصورات کی مضبوط و مستحکم بنیادوں پر اپنی نسل کی تشکیل کر رہا تھا، اپنا لشکر تیار کر رہا تھا اور ایک ایسی ’بستی‘ تعمیر کر رہا تھا کہ اگر وہ معرضِ وجود میں آ گئی، تو مشرق میں اسلام اپنا کھویا ہوا کردار اور انسانیت کی اعلی قیادت وسرداری کا مقام حاصل کر لے گا۔ اس کے خیال میں اسلام کی اساسی بنیاد لاضرر و لا ضرار تھی، یعنی نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ کسی کو نقصان پہنچانا ہے۔
مردِ قرآنی کے بارے میں مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اسلام کو اسی اسلوب میں انتہائی واضح اور سہل انداز میں سمجھتا تھا ، جس طرح محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] نے سمجھا تھا۔ اس سے گفتگو کے دوران یہ پہلو میرے سامنے آیا۔ وہ میری نظر میں ابوحنیفہ (۱)سے قریب تھا کہ انھوں نے عہدۂ قضا قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔امام مالک سے قریب تھا کہ جنھوں نے بیعت کے سلسلے میں اپنا فتویٰ دیا تھا۔(۲)
میں حسن البنا کو اس مقام پر پاتا ہوں کہ اس نے اپنی ذات کو عظمت و ناموری کی ناقص ترغیبات و محرکات اور جلد حاصل ہونے والی کامیابی کی کشش سے آزاد کر لیا تھا۔ اس قسم کی آزادیِ نفس ’ایمرسن‘ کی نظر میں غایت درجے کا کمال ہے۔ اسی لیے اس شخص کےسلسلے میں یہ بات عجیب ہے ہی نہیں کہ اس نے اس انوکھی شکل میں زندگی گزاری۔ یہ وصف تو اس کے اندر ایک دائمی صفت کے طور پر موجود تھا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
روایتی لیڈروں کے ماحول میں لوگوں کو یہ شخص اپنی چھاپ اور مزاج کی وجہ سے انوکھا نظر آتا تھا۔ چنانچہ اس کو موت آئی تو وہ بھی نہایت انوکھی تھی اور اس کی تدفین بھی نہایت انوکھی تھی۔ مسجد میں (اس کی میت کے پاس) اس کے والد کے علاوہ کوئی نہیں پہنچ سکا۔ گھر کی خواتین نے اسے کندھا دیا اور اس کے رفقا میں سے کوئی بھی اس کے جنازے کے پیچھےنہیں چل سکا، جن سے دنیا بھری پڑی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ریاستی جبر اور دہشت نے لوگوں کو آنے ہی نہ دیا۔
رات کی تاریکی میں اس کی نعش کو اہلِ خانہ کے حوالے کیا گیا۔ اس کے گھر والوں کو اس کی وفات کا اعلان کرنے سے روک دیا گیا۔ اس کے والد نے اسے غسل دیا۔ اس رات قاہرہ کے اوپر بھیانک اور ڈرائونے خواب نے خیمے گاڑ دیے تھے۔وہ اسی راستے کا اہل و مستحق تھا، جس پر ابوحنیفہ، مالک، ابن حنبل اور ابن تیمیہ [رحمہم اللہ]ظلم کا سامنا کرتے ہوئے اور باطل سے ٹکرلیتے ہوئے چلے تھے۔
یہاں تک کہ اس کی زندگی اس انوکھے اور دل کو رلا دینے والے انداز میں تمام ہوئی کہ آپ اس کا کسی بھی پہلو سے جائزہ لے لیں، وہ آپ کو انوکھی اور حیرت میں ڈال دینے والی نظر آئے گی۔ وہ اپنی زندگی کے ہر لمحے میں لوگوں کو حیرت میں ہی ڈالتا رہا۔ اس لیے یہ تو ہونا ہی تھا کہ اس کی زندگی کے خاتمے سے بھی نسلیں حیرت میں پڑ جائیں۔ ہزاروں ہزار لوگ ان لوگوں کے ہم رکاب چل چکے ہیں جن کو مشرق نے جھوٹے ہیرو بنا دیا تھا۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ حسن البنا نے اس روایت کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کا اختتام نفاق کے سوا کسی چیز پر ہوتا ہی نہیں ہے؟
تاریخ کے ساتھ دھوکا کرنے والوں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ اخلاص برتنے والوں کے درمیان ازلی فرق پایا جاتا ہے۔اس شخص کی زندگی کا یہ انوکھا اختتام نسلوں تک اہل فکر و نظر کے دلوں میں روشنی کے چراغ جلاتا رہے گا اورجو اس کے ساتھ ایمان لے آئے تھے، ان کے اہلِ خانہ کے دلوں میں اس کا پیش کیا ہوا چشمۂ حق اُبلتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ اسے غالب کر دیں گے۔
اس کی شہادت، شہادتِ حسین (رضی اللہ عنہ) سے ملتی جلتی تھی۔ مختلف عوامل تھے جو اس لیے جمع ہو گئے تھے کہ اس زندہ وجاوید فکر کے آگے بندھ باندھ دیں، جو سیلاب کی مانند سامنے کی جانب رواں تھی۔ اور جب ’عدالت‘ عاجز اور بے بس رہ جاتی ہے تو ’قدرت‘ اپنا حکم سنا دیتی ہے۔
ایک بات جس کے متعلق میں پوچھتا رہتا ہوں، لیکن مجھے اس کا جواب نہیں ملتا کہ کیا حسن البنا اسلام کو جس طرح سمجھتا تھا اور جس کی طرف دعوت دیتا تھا، اس میں اور اس کی زندگی کے خاتمے کےدرمیان کوئی تعلق ہے؟ بہت سے لوگ اسلام کی طرف بلاتے ہیں اور اسلام کا نام لیتے ہیں، توکیا حسن البنا کی دعوت اور ان لوگوں کی دعوت کے درمیان کوئی جوہری فرق ہے؟___ مجھے کیوں کہ اس کا درست جواب معلوم نہیں ہے، اس لیے میں اس کا جواب تاریخ پر چھوڑتا ہوں۔(مکمل)
_______________
حواشی
(۱) امام ابوحنیفہ ؒ [م:۷۶۷ء]خود کو دنیوی مناصب سے دور رکھتے تھے، خاص طور سے اگر وہ مناصب حاکمِ اقتدار کی قربت سے مربوط ہوں تو ہر گز قبول نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جب والی عراق ابن ہبیرہ نے آپ کو منصبِ قضا پیش کیا تو آپ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے کوڑوں اور قید کی سزا سے ڈرایا، لیکن امام ابوحنیفہؒ اپنے فیصلے پر اٹل رہے۔ آخر کار اس نے انھیں کوڑے لگوائے اور بدن پر پڑنے والا ہر کوڑا آپ کے فیصلے کو مزیدمستحکم کرتا چلا جاتا تھا۔اس واقعے سے لوگوں کی نظروں میں آپ کا مرتبہ کم ہونے کے بجائے اور بھی بڑھ گیا۔
(۲) عباسی خلیفہ منصور کے زمانے میں امام مالکؒ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ جبری طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس پر خلیفہ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں اس فتوے کی زد اس کی بیعت پر نہ پڑے، کیوں کہ اس نے عوام سے اپنے حق میں جبراً بیعت لی تھی۔ چنانچہ اس نے اس فتوے کی پاداش میں امام مالکؒ کو ستّر کوڑے لگوائے۔ پھر انھیں جس اونٹ پر سوار کرکے وہ شہر کے اندر گھمانا چاہتا تھا، اسی اونٹ کی پشت پر کھڑے ہو کر انھوں نے کہا کہ میں مالک بن انس، فتویٰ دیتا ہوں کہ جبری طلاق درست نہیں ہے۔‘‘ (مترجم)