ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم کا سیرتِ پاکؐ پر مضمون، مطالعہ سیرت اور پھر سیرتِ مطہرہ پر غوروفکر کی راہیں دکھاتا ہے۔ بالخصوص نوجوانوں کی تربیت اور ان کی حوصلہ افزائی کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ ایک خوش آیند کوشش ہے کہ ہمارے عہد کے بڑے علما و فضلا کی تحریروں سے آپ وقتاً فوقتاً نئی نسل کو جوڑتے ہیں۔ اس طرح جہاں علم پھیلتاہے،وہیں مرحومین کے لیے دُعائیں، صدقۂ جاریہ بن کر، ان کے نامۂ اعمال کو باوزن بناتی ہیں۔
’حسن البنا، ایک مردِ قرآنی‘ (نومبر ۲۰۱۹ء ) ایسا مضمون ہے کہ جسے بار بار پڑھنے اور ساتھ ہی ساتھ، باربار اپنی ذات کا احتساب کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ہمارے ان داعیانِ کرام کی زندگی، خدمات اور محنت و جدوجہد سے تحریک ِ اسلامی کے کارکنان عملی اور گہری فکری رہنمائی لے سکتے ہیں۔ اللہ کرے، اس مضمون کا مطالعہ بڑے پیمانے پر رفقاے تحریک کی گفتگوئوں کا موضوع بنے۔
نومبر کا شمارہ اس لحاظ سے بہت جامع اور مؤثر ہے کہ کئی معلومات افزا تحریریں مطالعے کے لیے ملیں۔ خصوصاً پروفیسر خورشیداحمد صاحب، ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کے علامہ اقبال پر مضامین بہت شان دار ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے مضمون: ’اقبال، جناح اور مذہبی کارڈ‘ سے تاریخ کے ایک بڑے نازک دور میں بانیانِ پاکستان کی فکرمندی، دُوراندیشی اور مستقبل کے لیے دینی رہنمائی کا انداز قابلِ مطالعہ بھی ہے اور قابلِ توجہ بھی۔ یہ سوچ کر افسوس ہوتا ہے کہ ایسی سبق آموز اور چشم کشا تحریروں سے وطن عزیز کا بڑا حصہ محروم رہتا ہے۔ کاش! ترجمان القرآن کے دائرۂ اشاعت میں وسعت آئے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر ایک دہکتا ہوا انگارہ ہے ، جس کی تپش سے افسوس کہ مسلم اُمہ کی قیادت لاتعلق ہے۔ ترجمان میں جس تسلسل کے ساتھ، وہاں کی صورتِ حال پر مضامین شائع کیے جاتے ہیں اور ان میں بھی خاص طور پر افتخارگیلانی صاحب، جس محنت سے مظلوموں کی آواز ہم تک پہنچاتے ہیں، اس خدمت کے لیے ہم سب ان کے شکرگزار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ِ وقت کو ان نکات کی روشنی میں عملی اقدامات اُٹھانے کے لیے کشمیر پالیسی بنانے کی طرف توجہ دلائی جائے۔
ڈاکٹر محمد واسع ظفر کا مضمون: ’عہدے امانت ہیں، خیانت نہ کریں‘ (نومبر ۲۰۱۹ء) وقت کی آواز ہے۔ دینی متن اور حکمت ِ دین کی مدد سے ڈاکٹر صاحب نے متوجہ فرمایا ہے کہ عہدوں کو دھونس اور شہرت کے لیے نہیں، بلکہ آخرت کی جواب دہی اور خدمت ِ خلق کے لیے بروے کار لانا چاہیے۔ درحقیقت ہمارے قومی اور سماجی بحران کا یہ ایک بڑا سبب ہے کہ سرکاری عہدے دار، سیاسی عہدے دار، مذہبی عہدے دار اور ابلاغ و تعلیم کے مناصب پر فائز عہدے دار اپنی ذمہ داریوں کی جواب دہی سے بے خبر یا لاتعلق ہیں۔ یہ مضمون اس بھولے ہوئے سبق کی یاد تازہ کرتا ہے۔
بڑی تیزی سے ہمارے قوانین اور ضابطوں کو اسلامی شریعت اور ہماری تہذیب سے کاٹنے کا عمل جاری ہے۔ عبداللطیف گنڈاپور نے خیبرپختونخوا میں زیربحث ’گھریلو تشدد بل‘ پر نہ صرف جان دار تنقید و تبصرہ کیا ہے بلکہ اسے بہتر بنانے کے لیے تجاویز اور رہنمائی بھی دی ہے۔ افسوس کہ لوگ تنقید تو کرتے ہیں، مگر راستہ نہیں بتاتے، لیکن یہ مضمون اس ادھورے طرزِعمل کی خوش گوار نفی کرتا ہے۔