یہ ایک معمّا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مرکزی مسلم خطے سے انتہائی دُور واقع جنوبی ایشیا میں، بنگالی مسلمان کس طرح دنیا بھر میں ’دوسری سب سے بڑی نسلی آبادیـ‘ بن گئے۔ محمودالرحمان نے اپنی کتاب The Political History of Muslim Bengal(کیمبرج، برطانیہ، ۲۰۱۹ء) میں اس موضوع پر مطالعہ پیش کیا ہے۔ محمود الرحمان نے اس سوال کا جواب، سرتھامس واکر آرنلڈ [م:۱۹۳۰ء ] کے ہاں تلاش کیا ہے۔ آرنلڈ نے ۱۸۹۶ء میں تبلیغِ اسلام کے موضوع پر ایک کتاب The Preaching of Islamلکھی تھی، جس میں انھوں نے بتایا: ’’تاہم،یہ بنگال ہی ہے، جہاں ہندستان کے مسلم تبلیغی اداروںنے دعوتی اعتبار سے عظیم ترین کامیابی حاصل کیـ‘‘۔
محمود الرحمان کی یہ کتاب انتہائی باریک بین تحقیق اور بھرپور غوروفکر پر مبنی ہے۔ یہ ان لوگوں کی تاریخ ہے،جو،ملک میں بھاری اکثریت کے حامل ہونے کے باوجود، اپنی تاریخ، میراث اور شناخت کھودینے کے گمبھیر خطرے سے دوچار ہیں۔ انجینیر محمود الرحمان ایک مصنف اور اخبار کے مدیر کی حیثیت سے زیادہ وسیع تعارف رکھتے ہیں۔ انسانی حقوق اور اظہار راے کی آزادی کے علَم بردار کی حیثیت سے ان کا پختہ موقف ہے: ایک صحافی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پُرآشوب حالات میں بھی سیاسی طور پر فعال رہے۔ سچائی کا پرچم اُٹھانے کی انھوں نے بھاری قیمت ادا کی اور بنگلہ دیش کی حسینہ واجد حکومت کے زمانے میں قید اور اذیت برداشت کی۔قید کے دوران انھوں نے اپنی قوم کو کامیابی اور خوشی کے نغمے میں شریک کرنے کا فیصلہ کیا۔ مصنف کے نزدیک یہ نغمۂ جاں فزا ’اسلام کی سربلندی کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ‘ ہے۔
متعدد جدید اور قدیم حوالہ جات دیتے ہوئے، مصنّف نے یہ بات ثابت کی ہے کہ ملک کے نام،زبان اور آزادانہ شناخت کے سبھی آثار یہاں مسلم دورِ سلاطین ہی میں ملتے ہیں۔ ایک ممتاز ہندو مؤرخ، ڈاکٹر نہار رنجن راے نے اعتراف کیا ہے: ’’بنگال میں ہندو راج کے تمام عہد میں، ــ’بنگلہ‘ کا نام بھی تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اور اسے دوسرے، تیسرے درجے کی ادنیٰ زبان سمجھا جاتا تھا‘‘۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ:’’مسلم پٹھان (افغان )راج کے دنوں میں ’بنگلہ‘ کو عزت کا مقام ملا اور یہ احترام اکبر بادشاہ کے دور میں اپنے کمال کو پہنچا، جب تمام بنگال کو صوبہ بنگال کی حیثیت دی گئی‘‘۔ (دیکھیے: رنجن راے، History of Bengal:The Early Period، ۱۹۴۹ء)
جہاں تک بنگلہ زبان اورادب کاتعلق ہے،مصنف نے اظہارِ افسوس کیا ہے: ’’بدقسمتی سے بنگلہ دیشی حکومت نے بنگالی زبان کی ترقی کے لیے بنگال میں مسلمان حکمرانوںکی عظیم خدمات کو زیادہ تر نظرانداز کر دیا ہے‘‘ (ص۱۵)۔ حالاںکہ بنگالی زبان کو تو برہمن حکمران طبقے ہی نے مکمل طور پر نظرانداز کیا تھا۔ ان کے نزدیک سنسکرت قابلِ احترام تھی، جب کہ بنگالی زبان کو وہ ’کسانوں اور ماہی گیروں‘ کی زبان سمجھتے تھے اور اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے اس کو ’پکھی بھاشا‘ یا پرندوں کی زبان کہتے تھے۔ اعلیٰ طبقوں میں بنگلہ کا استعمال گناہ سمجھا جاتا تھا، جس کی سزا ’روراوا‘(Rourava) جہنم میں جلنے کی اذیت ہے (ص ۱۵)۔ محمود الرحمان نے بنگالی زبان کے ماخذ تلاش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ممتاز مؤرخین مثلاً ڈاکٹردینش چندر سین اورسکومر سین کے موقف کے مطابق: ’’مسلمانوں کی طرف سے بنگال کی فتح، دراصل بنگالی زبان کی خوش بختی اور بنگالی زبان کے ارتقا کا ایک مرکزی ذریعہ بنی‘‘۔ مصنّف ’چریاپد‘ نے متنازعہ مسئلے کا ذکر کیا ہے، لیکن مفصل طور پر یہ نہیں بتاتا کہ کس طرح بنگال میں مسلم دورِحکمرانی کو ’بنگالی ادبی سرمایے کا تاریک دور‘ قرار دے ڈالا؟
اس تمام مسلم دورِ حکومت کو ’بنگلہ کے لیے تاریک دور‘ قرار دینے کا آغاز اس وقت ہوا، جب ڈھاکا یونی ورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہرپرشاد شاستری نے افسانہ گھڑتے ہوئے کہا: ’’۱۲۰۳ءمیں پہلے مسلمان حکمران اختیارالدین محمدبختیارخلجی [م:۱۲۰۶ء]کے ہاتھوں فتح بنگال کے نتیجے میں یہاں بہت تباہی واقع ہوئی۔ یہاں تک کہ شاعر اور فنکار اپنی شاعری اور ادبی شاہکاروں کے ساتھ نیپال کی جانب فرار ہوگئے‘‘۔ شاستری صاحب نے یہ دعویٰ کردیا، اور ہندوئوں کے علاوہ ترقی پسند مسلم یا بنگلہ قوم پرستی کے حامل مسلمان اہلِ قلم نے اس دعوے کو کسی نہ کسی شکل میں مان لیا۔ تاہم، اس دعوے کی تائید میں کوئی ٹھوس ادبی ثبوت نہیں پیش کیا جاسکا۔
دراصل اڑھائی سو سالہ مسلم راج محض بنگال کے شمال مغربی علاقے تک ہی محدود رہا۔ اس عرصے میں اگر مسلم حکمرانوں نے کسی چیز کواپنی غارت گری اور مذمت کے قابل سمجھا ہوتا، تو وہ بت پرستی ہوتی،لیکن اس ضمن میں قطعی طور پر کوئی ثبوت دستیاب نہیں کہ اس دور میں کسی بھی غیرمسلم عبادت گاہ کو تباہ کیا گیا یا اس کی بے حرمتی کی گئی ہو۔اس کے برعکس اس امر کا معقول ثبوت موجود ہے کہ مسلم حکمرانوں نے غیرمسلم عبادت گاہوں کی تزئین وآرایش کے لیے بھاری سرکاری امدادی رقوم فراہم کیں۔مذہبی رسوم، تہوار اور سماجی تقریبات بلاروک ٹوک جاری رہیں۔مسلم حکمران بنگالی ادب (مختلف قسم کی تحریریں، نثر اور شاعری) کے سرپرست تھے۔ ایک ممتاز ہندو مؤرخ راکھل داس بندو پاڈے کے مطابق،علاء الدین حسین شاہ نے کبندرا پرمیشورکو ہندومذہبی کتاب، مہابھارت کا بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے کا کام سونپا تھا۔بنگالی زبان کے متعدد ابتدائی شاعر مسلمان تھے، جن میں سے الول، دولت قاضی، محمدساگر اور مگن صدیقی ٹھاکر ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ بلاشبہہ مسلم دورِ حکومت بنگلہ ادب کی ترویج و اشاعت کا بھی سنہرا دور تھا۔ تاہم، مسلم تاریخ اور مسلم دورِحکمرانی کو بدنام کرنے اور بنگالی قوم پرستی کو گہرا کرنے کے لیے پورا زور لگایا جارہا ہے کہ بنگلہ زبان کی نظموں میں استعمال شدہ ذخیرۂ الفاظ کو کھینچ تان کر مشرقی ہندستانی زبانوں، مثلاً آسامی، اُڑیا، ہندی اور مراٹھی سے مشابہ کہا جارہا ہے، جو دانستہ طور پر بنگالی زبان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی سازش ہے۔
بنگال کی ابتدائی تاریخ کے بارے محمود الرحمان نے لکھا ہے کہ کس طرح بودھ مت نے سرزمین بنگال میں بے روک ٹوک شاہی اختیارات استعمال کیے۔۷ ویںصدی میں ہندو بادشاہ ششنکاکے سوا،بدھوں کی پالاخاندانی سلطنت نے ۵۰۰ برس سے زائدعرصے تک حکومت کی اور پھر بودھ پالا بادشاہوں کے دربار میں موجود ہندو سرکاری افسران نے گیارھویں صدی میں بودھ اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ ہندوسینا بادشاہ ہوںنے برہمنیت کا شدت سے نفاذکیا اور بودھ مت کے پیروکاروں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔ اسی طرح نچلی ذات کے ہندوئوں کے خلاف وسیع پیمانے پر متعصبانہ کارروائیاں کیں،جس کے نتیجے میں ان میںسے بہت سے نیپال کی سرحد سے ملحقہ علاقوں کی طرف فرار ہوگئے۔ پھر انسانی مساوات کے علَم بردار اسلام کے پیغام کوان مظلوم بنگالیوں نے ایک خوش آیند تبدیلی کی حیثیت سے دیکھا، جس نے بختیارخلجی کی فتح کا راستہ ہموار کیا۔
اس طرح سارا عظیم تربنگال بتدریج مسلم راج کے تحت آ گیا،نتیجہ یہ کہ بے مثال امن اور خوش حالی سامنے آئی۔ اس نظریے یا دعوے کی تصدیق متعدد سفرناموں سے ہوتی ہے جو غیرملکی سیاحوں کی طرف سے تصنیف کیے گئے۔دیگر فاتحین، جنھوںنے اپنے پیچھے لُوٹ مار اور غارت گری کے آثار چھوڑے، ان کے برعکس تمام مسلم فاتحین نے بنگال کو اپنے وطن کی حیثیت سے اپنا لیا۔ مسلمان سلطانوں،بادشاہوں اور نوابوں کی خاندانی سلطنتوںنے خدمت اور انصاف کے جذبے کے تحت حکومت کی۔ مسلم راج میں بنگال عملی طور پر آزاد اور خودمختار تھا۔ بنگال میں ۲۵۰برس کے مسلم راج کا اختتام ۲۳جون۱۷۵۷ء کو اس وقت ہوا، جب نواب سراج الدولہ [م: ۲جولائی ۱۷۵۷ء]کو جنگ پلاسی میں برطانوی گورنر رابرٹ کلائیو[م: ۱۷۷۴ء] سے شکست ہوئی۔پلاسی کی شکست کے بعد جو کچھ ہوا،اس کے متعلق مصنّف نے لکھا ہے: ’’استعماری قوت کی طرف سے جبری فاقہ کشی کے ذریعے بنگالیوں کا اجتماعی قتل عام ہوا‘‘۔ جواہر لعل نہرو [م: ۱۹۶۴ء] کے بقول: ’’یہ ایک خالص لُوٹ مارتھی کہ انتہائی بھیانک قحط (Famine) نے بنگال کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘‘۔ دوانگریز مؤرخین ایڈورڈ تھامسن اورجی ٹی گیرٹ نے بھی اس امر کی تائید کی:’’یہ ایک ایسی عظیم تباہی تھی، جس کا اس پاگل پن سے بھی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا‘‘ جس نے ہسپانوی جرنیل اور نواب، پیزارو [م:۱۵۴۱ء] اور کورتیس [م: ۱۵۴۷ء] کے زمانۂ حکمرانی میں ان کے زیرانتظام علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دو سو برس کے دوران برطانوی راج کی بنیادی حکمت عملی، ہندوآبادی کی سرپرستی اور مسلم بغاوت کو کچل دینے پر مشتمل تھی‘‘۔ (ص ۳۹)
مسلمانوں کوکچلنے کے لیے انگریزوں کو ہندوئوں کی معاونت کی ضرورت تھی، جنھوں نے استعماری حکمرانوں سے مکمل تعاون کیا(ص ۴۹)۔حتیٰ کہ نہرونے بھی اعتراف کیا ہے: ’’نیا انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ،جس میں ہندو قابل ذکر ہیں، انگلینڈ کی طرف تعریفی انعام حاصل کرنے کی نظروں سے دیکھ کر اُمید کر رہا تھا کہ وہ ان کی مدد اور تعاون سے ترقی کرے گا‘‘۔ نراد سی چودھری نے اعتراف کیا ہے کہ ’’پڑھے لکھے ہندو طبقے،دانش وروں، شاعروں، مصنّفین اور فنکاروںنے بھی فعال اور دانستہ وہ راستہ اپنایا کہ مسلمانوں کوسماجی منظرنامے سے باہر دھکیل دیا جائے، حد یہ کہ ان کی بنگالی شناخت سے بھی انکار کردیا گیا۔ مراد یہ کہ نام نہاد بنگالی نشاتِ ثانیہ،ایک واضح مسلم مخالف خصوصیت کی حامل تحریک تھی‘‘۔(ص ۴۸-۵۰)
برطانوی سامراجیوں کے ساتھ بنگالی ہندوئوں کا تعاون ۱۹۰۳ء میں اس وقت یکایک بحران کا شکار ہوگیا، جب برطانویوں نے بنگالی مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کے معاندانہ اقدامات اور کارروائیوں کا بتدریج اعتراف کرنا شروع کر دیا۔ پھر اس وقت کے وائسرائے [۱۸۹۹ء- ۱۹۰۵ء] لارڈکرزن نے [۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو] انتظامی وجوہ کی بنا پر فیصلہ کیا کہ بنگال پریذیڈنسی کے غیرمعمولی بڑے صوبے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے: پہلا مسلم اکثریتی مشرقی بنگال اور آسام، ڈھاکا بطور دارالحکومت، جب کہ مغربی بنگال،چھوٹا ناگ پور،بہار اور اُڑیسہ کا دارالحکومت کلکتہ ہو۔لیکن ہندو نفسیات میں کوئی بھی مسلم اکثریتی صوبہ، نفرت انگیزشے سے کم نہیں تھا، اس لیے وہ ہندوئوں کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ اس طرح برہمن، مسلم اکثریت پر معاشی اور ثقافتی غلبے سے محروم ہوجاتے، جنھیںوہ ہمیشہ اپنے غلام سمجھتے تھے۔
مشہور بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور[م: ۱۹۴۱ء]سمیت ہر قسم کے ہندوئوںنے اس تقسیم پر شدیدر دعمل کا اظہار کیا اور اس فیصلے کے خلاف ایک مسلح جدوجہدشروع کر دی۔ دسمبر۱۹۱۱ءمیں برطانوی بادشاہ [۱۹۱۰ء- ۱۹۳۶ء] جارج پنجم ہندستان کے دور ے پر آیا۔ اس موقعے پر اس نے دہلی دربار میں بنگال کی تقسیم کی منسوخی کااعلان کیا۔وائسرائے [۱۶-۱۹۱۰ء] لارڈ چارلس ہارڈنگزنے بنگالی مسلمانوں کو پہنچنے والے معاشی و سماجی نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے [۲فروری ۱۹۱۲ء کو] ڈھاکا یونی ورسٹی کی پیش کش کی تھی۔لیکن ہندئووں نے ڈھاکا یونی ورسٹی کے قیام تک شدید مخالفت کی، حالانکہ یہ محض مسلمانوں کے لیے نہیں تھی۔ لیکن چونکہ یہ مسلم اکثریتی علاقے میں قائم ہورہی تھی، اس لیے برہمن کو قبول نہیں تھی۔ ہندوئوں کے نزدیک،مشرقی بنگال کے کسانوں کے لیے تعلیم تک رسائی کا نظریہ اشتعال انگیزتھا۔ سخت مخالفت کے بعد۱۹۲۱ءمیں بالآخر ڈھاکا یونی ورسٹی کا قیام عمل میں آگیا۔
بنگال اورہندستان میں ہندو مسلم تعلقات سمجھنے کے لیے یہ کتاب بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ ہندو رہنما ہر شعبۂ زندگی میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی میں مصروف تھے۔ ہندئووں کے اس طرزِعمل کی مزید تصدیق سابق بھارتی وزیرخارجہ [۱۹۹۸ء-۲۰۰۲ء] جسونت سنگھ نے ان الفاظ میں کی ہے: بانی ِ پاکستان محمدعلی جناح ۱۹۳۷ء تک پاکستان جیسی ایک الگ ریاست کے متعلق نہیں سوچ رہے تھے اور وہ ایسی متحدوفاقی حکومت کے حق میں تھے، جہاں اقلیتی مسلمانوں کے حقوق اور ان کا تحفظ ہو‘‘۔ تاہم،یہ کانگریسی رہنماہی تھے، جنھوں نے جناح کو مجبور کیا کہ وہ طویل عرصے سے اپنے اس مطالبے سے دست بردار ہو جائیں کہ متحدہ ہندستان ہی اس مسئلے کا حل ہے۔(ص ۶۲-۶۴)
پاکستان کی تخلیق،جس کے لیے برعظیم کے مسلمانوں کی طر ف سے غیرمعمولی اور عدیم المثال قربانی دی گئی تھی،روزاوّل ہی سے بعض گمبھیر مسائل کے باعث کمزور بنیادوں کی حامل ریاست نظرآتی تھی۔ دونوں حصوں کے درمیان طویل فاصلہ،زبان کے اختلاف،جمہوری قدروں کے فقدان اور اس سے بھی اہم ، سیاست دانوں کی ہوسِ اقتدار اور استحصال کے رجحانات مشرقی پاکستان کے سقوط کا اہم سبب بنے۔ بھارت نے پاکستان توڑنے کے لیے اس فضا کو پوری قوت سے استعمال کیا جس نے بنگال کے عوام کو خود مسلمان بھائیوں ہی سے آزادی حاصل کرنے کی خواہش سے آلودہ کردیا۔ ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کو پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے سے ایک نئی بنگلہ دیشی قوم وجود میں آئی۔ ہندوئوں کے لیے لفظ ’بنگلہ دیشی‘ ناقابلِ قبول ہے کہ یہ متحدہ بنگالی قوم پرستی سے الگ تشخص کا مظہر ہے۔اس پورے منظرنامے میں مایوسی کی بات یہ اُبھر کر سامنے آئی ہے کہ آزادی کی یہ دوبارہ خواہش بھی، خوشامد،موقع پرستی اور ذاتی مفاد کی خاطر اقتدار کے لالچ جیسی بیماریوں کا علاج نہ کرسکی۔
محمود الرحمان کی کتاب کا مطالعہ موجودہ بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے’بھارت کے حق میں خودسپردگی پر مبنی حکمت عملی‘کے پس منظر میں کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی مسلم میراث کو ختم، مسخ اور تباہ کر کے بھارت کی خوش نودی حاصل کی جارہی ہے۔ [کتاب دیکھیے: The Political History of Muslim Bengal: An Unfinished Battle of Faith کیمبرج اسکالرز پبلشرز، کیمبرج، برطانیہ، صفحات: ۳۹۲، ۲۰۱۹ء]۔(مسلم ورلڈ بک ریویو، خزاں، لسٹر، برطانیہ، ۲۰۱۹ء۔ انگریزی سے ترجمہ: ادارہ)