رات کا کوئی پہر تھا، کمرے میں گھپ اندھیرا تھا، اچانک ٹیلفون کی گھنٹی بجی۔ جمیل سمجھا کہ یہ فائر الارم کی آواز ہے، جو وہ خواب میں سن رہا ہے۔جمیل ٹیلی فون ٹٹولنے لگا کہ اسی دوران آواز بند ہوگئی۔تھوڑی دیر بعد پھر گھنٹی بجی، اب وہ بیدار ہوچکا تھا، آنکھیں ملتے ہوئے اس کی زبان پر دعا تھی، یا اللہ! خیر کر، اتنی رات گئے کون فون کررہا ہے؟ یا اللہ! میرے والدین خیریت کے ساتھ ہوں۔ یااللہ! ان کی حفاظت فرما۔
اس نے سوچا: یہ آوارہ نوجوانوں کی حرکت لگتی ہے، جو دن میں سوتے ہیں، اور رات میں جاگ کر شر پھیلاتے ہیں۔ موسم سرد تھا، اس لیے وہ پھر سونے کے لیے لیٹ گیا۔ ابھی وہ سونے کی کوشش کررہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی پھر بجنے لگی۔
اب کی بار وہ غصّے میں تیزی سے اٹھا اور ریسیور اٹھاکر سخت لہجے میں کہا: ’’کون ہے؟‘‘
ادھر سے درد بھری دھیمی سی آواز آئی: ’’مجھے ایسے شخص کی تلاش ہے جو میرا غم اور میرا درد بانٹ سکے‘‘۔
جمیل نے کہا: شاید آپ نے غلط نمبر ملادیا ہے۔
ادھر سے آواز آئی: نہیں ، نمبر درست ہے، تمھارا نام جمیل ہے؟
اپنا نام سن کر وہ حیران ہوا، اور آواز پر غور کرنے لگا، لیکن وہ آواز پہچان نہیں سکا۔
اس نے کہا: تم کون ہو؟
ادھر سے آواز آئی: میں ایک اجنبی ہوں، مجھے ایسے آدمی کی تلاش ہے، جس سے میں اپنے من کی بات کہہ سکوں اور وہ مجھ سے اپنے من کی بات کہہ سکے، تاکہ میرے غم کچھ ہلکے ہوجائیں، مجھے اس سے بات کر کے کچھ تسلی ہو۔ اسی لیے میں نے تمھیں فون کیا، اگر تمھیں ناگوار گزرا ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔ میں تمھیں بات کرنے پر مجبور نہیں کروں گا۔
جمیل نے کہا: ٹھیک ہے، آپ بات بتایئے۔
(ادھر سے درد میں ڈوبی آواز آئی): میں حوصلہ ہوں، اسلامی تحریک کے کارکنوں کا حوصلہ، داعیان اسلام کا حوصلہ، جو اَب غم واندوہ میں ڈوبا ہوا ہے۔ کیونکہ وہ اب کمزور ہوچلا ہے۔
جمیل: تو کیا تمھیں لگتا ہے کہ میرا حوصلہ کمزورہوگیا ہے؟
حوصلہ: اگر تمھارا حوصلہ کمزور ہوگیا ہوتا، تو میں تمھیں اپنے غم میں شریک نہ کرتا۔ میں نے اپنا درد بیان کرنے کے لیے صرف تمھیں منتخب کیا ہے، کیونکہ تمھارے حوصلے ابھی بھی بلند ہیں۔
جمیل: ایک سوال مجھے بھی پریشان رکھتا ہے، کہ حوصلے کمزور کیسے ہوجاتے ہیں؟
حوصلہ: اس کے کچھ اسباب ہیں۔ بعض کا تعلق داعی کی ذاتی شخصیت سے ہے، اور بعض کا تعلق اس ماحول سے ہے جہاں وہ گزر بسر کرتا ہے۔
جمیل:داعی سے متعلق اسباب کیا ہیں؟
حوصلہ: وہ بہت سے ہیں، میں کچھ بتاؤں گا:
جمیل:تمھاری باتیں درست لگتی ہیں، خاص طور سے دوسرا سبب تو میرے اندر بھی موجود ہے۔ یہ بتاؤ کہ دوسرے مشاغلِ زندگی سے تمھاری کیا مراد ہے؟ کیا یہ مطلب ہے کہ تعلیم یا نوکری حوصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے؟
حوصلہ: نہیں، بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ باہر کی صورت حال کئی طرح سے کارکنوں کے حوصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے، جیسے:
کمزوری کے یہ اسباب ہیں، اور میرے غم کی و جہ یہ ہے کہ یہ اسباب اہل دعوت کے درمیان پائے جاتے ہیں، لیکن پھر یہ سوچ کر تسلی ہوتی ہے کہ اللہ کا کام ہے تو وہ ضرور مدد بھیجے گا۔ دعوت وعزیمت کی راہ کے راہی امید کا بڑا مرکز ہیں، وہی انسانیت کا جمال ہیں۔
جمیل: تمھاری بات درست ہے، اور دل نشین بھی۔ اب میں سمجھ گیا کہ تمھارے غم کا سبب کیا ہے۔ لیکن اتنی رات مجھے فون کرنے کا مقصد ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا۔
حوصلہ: بات دراصل یہ ہے، مجھے لگا کہ تمھارے حوصلے ابھی بلند ہیں، تمھارے سر میں بڑے کاموں کا سودا سمایا ہوا ہے، تمھیں دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، تمھارے پہلو میں ایک درد مند دل ہے۔ میں نے سوچا کہ تمھارے ذریعے میری بے چینی اور فکرمندی دوسرے کارکنوں تک پہنچ سکتی ہے۔
جمیل: میں تمھارا پیغام ہر کارکن تک پہنچاؤں گا، لیکن یہ تو بتاؤ کہ کارکنوں کے دلوں میں حوصلہ کس طرح بڑھایا جاتا ہے؟
حوصلہ:اس سلسلے میں دو باتیں بہت اہم ہیں:
پہلی بات یہ کہ کارکن اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کی تخلیق کا مقصد، اور اس کے وجود کا اعلیٰ ترین ہدف یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف بلانے والا بن جائے، دل میں یہ شعور ہر وقت بیدار رہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس کا دل سوز وتپش سے تڑپ اٹھے۔ جب وہ ایک طرف بڑھتے ہوئے بگاڑ کو دیکھے، اور دوسری طرف مسلمانوں کی بدحالی اور کمزوری کو دیکھے، یہ سب دیکھ کر وہ بے چین ہو اٹھے، اور اصلاح ودعوت کے کام میں سرگرم ہوجائے۔
گویا اس کا شعور بیدا ر رہے، اور اس کا دل بے تاب رہے۔ شعور کی پختگی اور جذبے کی بے تابی کے ساتھ کارکن ہر وقت اصلاح وتعمیر کے کاموں میں سرگرم رہ سکتا ہے۔
جمیل: کارکنوں کے حوصلے ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں، یہ کیا چیز ہے؟
حوصلہ: تم نے میری دکھتی ہوئی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ تکلیف یہ دیکھ کر ہوتی ہے کہ اونچے حوصلے والے کارکن پست حوصلے والے کارکنوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس طرح وہ بھی ہمت ہار جاتے ہیں، اورپڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔
جمیل: یہ کیسے ہوجاتا ہے؟ ہمارے ہاں محاورہ مشہور ہے کہ پستی میں بھونکنے والے کتے اونچائی پر اڑنے والے بادلوں کا راستہ نہیں روک پاتے ہیں۔
حوصلہ: یہ صحیح ہے، لیکن یہاں معاملہ ذرا مختلف ہے۔ جب زمین کی پستیوں میں رینگنے والوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے، تو وہ آسمانی عزائم رکھنے والوں کو بھی متاثر کردیتے ہیں۔ اسی لیے بعض بزرگ کہا کرتے تھے: ’’کسی کند ذہن کی نشو ونما اگر اہل علم کے درمیان ہوئی ہو، تو وہ اس ذہین سے زیادہ قابل اعتماد ہے جس نے نادانوں اور جاہلوں کے بیچ رہ کے پرورش پائی ہو‘‘۔
اس سے سمجھ سکتے ہو کہ صحبت ورفاقت کا کتنا اثر ہوتا ہے۔
جمیل: کارکنانِ دعوت پر یہ بات کیسے صادق آتی ہے؟
حوصلہ: یوں سمجھو کہ دو کارکن ہیں۔ ایک کا حوصلہ آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہے، اور دوسرے کا حوصلہ زمین کی پستیوں میں قید ہے۔ یا تو آسمانی حوصلے والا اپنے دل کی تپش سے اپنے ساتھی کے حوصلوں کو بھڑکادے گا، اور وہ اس کے شانہ بہ شانہ سرگرم ہوجائے گا، یا پھر زمینی حوصلے والا اپنے دل کا جمود اپنے ساتھ والے کے دل میں منتقل کردے گا، اور اپنے دل کی طرح اس کے دل کی آگ بھی ٹھنڈی کردے گا۔
جمیل: اچھا، مجھے اعلیٰ حوصلے اور بھرپور سرگرمی کی کوئی مثال دے کر سمجھاؤ۔
حوصلہ: تم کو خود لوگوں کے لیے مثال بننا ہے، پھر بھی میں تمھیں ایک مثال دوں گا۔تصور کرو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین میں پانی کے پاس پہنچے، وہاں لوگ اپنے اپنے مویشیوں کو پانی پلارہے تھے، اور دو لڑکیاں الگ کھڑی انتظار کررہی تھیں۔ حضرت موسٰی کے پوچھنے پر انھوں نے کہا: جب تک سب لوگ پانی پلاکر ہٹ نہیں جائیںگے، ہم پانی نہیں پلاسکیں گی، اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں۔اس بارے میں سیدقطب شہیدؒ لکھتے ہیں:
’’دیکھو موسیٰ علیہ السلام کو، تھکے ماندے، لمبا سفر کر کے پہنچے ہیں، سفر بھی ایسا کہ نہ کوئی سامان اور نہ کوئی تیاری، پیچھے سے بے رحم دشمنوں کے تعاقب کا اندیشہ۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ، لیکن انسانیت ، بھلائی، ہم دردی، حق کی ادائیگی اور مدد کے جذبوں نے آواز دی تویہ سب کچھ ذرا رکاوٹ نہ بنا، اور انھوں نے آگے بڑھ کردونوں لڑکیوں کے مویشیوں کو پانی پلادیا‘‘۔
جمیل: اللہ اکبر! یہ تو بڑے حوصلے کی بات ہے، اتنا تھکا ہونے کے باوجود اللہ کی خاطر اتنی سرگرمی!! واقعی یہ بہت خوب صورت مثال ہے۔ اب ایک مثال اس زمانے کی بھی دیجیے۔
حوصلہ: میں تمھیں ایک تحریکی بزرگ شیخ محمد محمود صواف کے بارے میں بتاتا ہوں۔ وہ خود لکھتے ہیں: ’’ ایک مرتبہ میرے کم سن بیٹے مجاہد نے مجھ سے شکایت کے لہجے میں پوچھا: ابوجان، آپ ہمارے ساتھ کب کھانا کھائیں گے؟
میں اسے کیا جواب دیتا، اللہ جانتا ہے، میں تحریک کے نوجوانوں اور بزرگوں کے ساتھ کس طرح ہر وقت مشغول رہتا ہوں۔ تحریک میں اگر زیر تربیت افراد سے مسلسل ملاقاتیں، اور مسلسل رابطے نہ رکھے جائیں تو رجال سازی اور مردان کار کی تیاری کا کا م نہیں ہوسکتا‘‘۔
داعی کی یہی شان ہے۔ اسے بلند حوصلہ ہونا چاہیے، نہ غفلت کا سایہ پڑے، اور نہ رفتار سست پڑے۔ کیونکہ شیخ محمد احمد راشد کے بقول: ’’داعی کی غفلت بڑی مصیبت ہے۔ اس سے فتح ونصرت کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ دروازے جہد مسلسل سے کھلا کرتے ہیں۔ دوسری طرف اُخروی اجر وثواب سے محرومی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس کے لیے محنت ضروری ہے‘‘۔
جمیل: یہ بہت خوب صورت تصویریں ہیں۔ دین کے داعیوں اور دینی تحریک کے کارکنوں کو اسی طرح طاقت ور جذبے اور بلند حوصلے سے آراستہ ہونا چاہیے۔
حوصلہ: بلا شبہہ، اور اسی لیے شیخ عبد اللہ علوان کہتے تھے: ’’جب ایک داعی اپنے مشن، اپنے معاشرے اور مسلم امت کی اتنی ہی فکر کرنے لگے، جس قدر فکر وہ اپنی روزی، اپنے گھر اور اپنے بیوی بچوں کی کرتا ہے، تو پھر ہم کہیں گے کہ اسلامی دعوت کا مشن اس کے فہم وشعور کے مرکز میں جاگزین ہوگیا، اور اس کے وجدان کی گہرائی میں اتر گیا‘‘۔
جمیل:(فجر کی اذان سنتے ہوئے) میں تمھارا احسان مند ہوں، تم نے مجھے بہت اہم سبق یاد دلائے ہیں۔ اب مجھے نماز کی تیاری کرنا ہے ، آخری نصیحت اور کردو۔
حوصلہ: میں تمھیں ایک قصہ سناتا ہوں۔اپنے حوصلوں کی انگیٹھی دہکانے میں تمھیں اس سے مدد ملے گی۔
کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو کچھ پونجی دے کر تجارتی سفر پر روانہ کیا، مقصد یہ تھا کہ اسے آگے کے لیے تیار کرے۔
وہ سفر پر نکلا تو راستے میں دیکھا ایک لاغر سی لومڑی ایک طرف پڑی ہوئی ہے۔ اس نے سوچا کہ یہ بے چاری لومڑی کہاں سے روزی حاصل کرتی ہوگی؟ وہ رک کر سوچنے لگا۔ پھر اس نے دیکھا کہ ایک شیر اپنا شکار اٹھاکر لایا اور اسے پیٹ بھر کھایا اور باقی چھوڑ کر چل دیا، تب لومڑی نے آگے بڑھ کر اس بچے کھچے شکار میں سے کچھ حصہ کھالیا۔
نوجوان نے دل میں سوچا کہ جب اللہ نے سب بندوں کے رزق کی ذمہ داری لے رکھی ہے تو میں کیوں خود کو تھکاؤں۔ وہ واپس گھر لوٹا اور اپنے باپ کو پوری بات بتائی۔ باپ نے کہا:
’’ بیٹامیں نے سوچا تھا کہ تم ایک شیر بنو گے کہ جس کی محنت سے لومڑیاں بھی اپنا پیٹ بھرسکیں گی،نہ کہ تم لومڑی بن کر شیروں کے بچے کھچے کی راہ تکو گے‘‘۔
(حوصلے نے ایک لمحے کا توقف کیا اور پھر کہا): بلند حوصلہ کارکن خود آگے بڑھ کر سرگرمی اور جدوجہد کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتا ہے۔ وہ سرگرم کارکنوں کے قدم سے قدم ملا کر چلتا ہے۔
وہ دوسرے ساتھیوں کی سرگرمیوں پر اپنا گزارا نہیں کرتا ہے۔ وہ کم پر راضی نہیں ہوتا۔ وہ پست ہمتی کو پسند نہیں کرتا۔وہ جمود کو گوارا نہیں کرتا۔لوگ اسے دیکھ کر اپنی رفتار بڑھاتے ہیں۔ وہ اپنی رفتار طے کرنے کے لیے لوگوں کو نہیں دیکھتا۔
اس کی دعا ہوتی ہے: وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا (الفرقان ۲۵:۷۴) ’’اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔
جمیل: اللہ تم پر اپنی برکت نازل کرے، مجھے آئندہ بھی یاد کرتے رہنا۔
جمیل نے فون رکھ دیا، اورنئے جوش کے ساتھ کہا: امت کی تعمیر حوصلوں کی بلندی سے ہوگی۔
وہ نماز کے لیے نکلا، اس کے لبوں پر دعا تھی: اللّٰھُمَّ اجْعَلْنِي لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَاماً،یا اللہ! مجھے متقیوں کا امام بنادے۔ آمین!