پاکستان کے ایک سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں پاکستان کو کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے ایک متبادل راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’’کشمیریوں کو اپنے حال پر چھوڑ کر ، سفارتی محاذ پر کوششیں جاری رہنی چاہییں‘‘۔ اور ساتھ ہی انھوں نے ان کاوشوں کو بے مصرف قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’’پاکستان میں کئی حلقے اسی راستے کو اپنانے کی وکالت کرتے ہیں، تاکہ ملک کو کسی امکانی بحران سے بچایا جاسکے‘‘۔ ان کے مطابق: ’’حکومت کے اندر بھی کئی مقتدر حلقے اس پالیسی کی تائید کرتے ہیں‘‘۔
اگر یہ محض کسی کالم نویس یا کسی ’تھنک ٹینک‘ کے دانش ور کی اختراع ہوتی، تو اس بات کو نظرانداز کیا جاسکتا تھا، یا اس کو قلم کار کے ذاتی خیالات سمجھ کر بے حیثیت قرار دیا جاسکتا تھا۔ تاہم، ایک زیرک سفارت کار ، جو بھارت میں انتہائی مخدوش حالات میں پاکستان کی نمایندگی کر چکا ہو اور عالمی سفارت کاری میں بھی نام کما چکا ہو، کی طرف سے اس طرح کا مشورہ دینے سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کہ پسِ پردہ ضرور کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ جس پہ رد عمل دیکھنے کے لیے قاضی صاحب کو میدان میں لایا گیا ہے۔ سفارت کاری یا حکومتی معاملات میں جب بھی کوئی ایسا غیرمتوقع یا سخت فیصلہ لینا ہوتا ہے، تو ’باوثوق ذرائع‘ کے حوالے سے یا کسی ایسے ہی سابق سفارت کار یا فوجی افسر کے ذریعے میڈیا میں اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔ اگر رد عمل نا موافق ہوا، تو اس کو قلم کار کی ذاتی راے بتا کر حکومت کے ذمہ داران اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں۔ دوسری صورت میں اس کو پالیسی کا جز بنا لیا جاتا ہے۔
پاکستانی ہائی کمشنر ریاض حسین کھوکھر [۱۹۹۲ء-۱۹۹۷ء] کی ایک جارحانہ سفارت کاری کے بعد ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۲ء تک قاضی صاحب نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر [سفیر] کے طور پر تعینات رہے۔ نئی دہلی میں ان کی آمد بالکل ایسی تھی کہ جیسے ایک سوکلومیٹر کی رفتار سے دوڑتی گاڑی ایک دم ۲۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر آجائے۔ پاکستانی سفارت کاری میں ان کو سفارتی دستاویزات کی تدوین میں الفاظ کےبرتائو میں کمال حاصل ہے۔ ان کی دہلی آمد کے ایک سال بعد ہی اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پہلی حکومت معرض وجود میں آئی۔ جس وقت واجپائی کی پہلی حکومت ۱۳ماہ بعد پارلیمنٹ میں ایک ووٹ سے شکست سے دوچار ہوئی، تو اس وقت وہ بھارتی پارلیمنٹ میں سفارت کاروں کے لیے مخصوص گیلری میں موجود تھے۔ چونکہ سفارتی گیلری اور پریس گیلری متصل ہے، مجھے یاد ہے کہ وہ اس کے کنارے پر آکر صحافیوں سے پوچھ کر تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’کیا واقعی واجپائی حکومت گر گئی ہے؟ ‘
جہانگیر قاضی کے دور میں بھارتی وزیراعظم واجپائی کا لاہور کا دورہ، کرگل جنگ اور پھر پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف کی معزولی اور جنرل پرویز مشرف کی آمد، آگرہ مذاکرات اور بھارتی پارلیمنٹ پر ’حملے‘ جیسے اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد ان کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ انھی کے دور میں حریت کانفرنس میں لیڈروں کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے تھے، جو بعد میں اس کی تقسیم کا سبب بن گئے۔ مرحوم عبدالغنی لون ، اس کی ایک وجہ اشرف جہانگیر قاضی کو بھی قرار دیتے تھے۔
ریاض حسین کھوکھر کے برعکس حُریت کے لیڈروں سے ان کا برتاؤ ، روایتی افسرشاہی جیسا ہوتا، جو کئی مواقع پر لیڈروں کو ناگوار گزرتا تھا۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ معروف صحافی کرن تھاپر کے ذریعے انھوںنے ان دنوں طاقت ور بھارتی لیڈر نائب وزیر اعظم لال کشن ایڈوانی تک رسائی حاصل کی تھی اور کئی بار کرن تھاپر کی گاڑی میں ان کی رہایش گاہ پر خفیہ ملاقاتیںکی تھیں۔ وہ شاید ایڈوانی کے ذریعے ایک بیک چینل بنانے کی کوشش کر رہے تھے ، کہ پارلیمنٹ پر حملے نے اس کو ناکام بنادیا اور یہ بیک چینل ان کے کسی کام نہ آیا۔ سب سے پہلے ان کو ہی ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔
اشرف جہانگیر قاضی نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ ’’میری آؤٹ آف بکس تجویز پر عمل کرکے، جس طرح واجپائی نے لاہور آکر دنیا کو حیران و پریشان کردیا تھا، اسی طرح وہ بھی نئی دہلی جاکر دنیا کو ششدر کردیں اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک مشترکہ بیان جاری کریں، جس میں ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصانات سے بچانے کی خاطر ایک مشترکہ لائحہ عمل کا تعین کرنا اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے عہد و پیمان باندھنا ، کشمیر پہ کسی حل پر بات چیت ، جو فریقین کو منظور ہو، میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈا کم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تجاویز میں ’لائن آف کنٹرول پر اعتماد سازی کے اقدامات، تجارت کی بحالی ، سرمایہ کاری اور باہم کانفرنسوں وغیرہ کا احیا‘ کا بھی ذکر ہے۔
یہ معلوم نہیں کہ یہ تجاویز کسی ذریعے سے بھارت کو بھیجی گئی ہیں یا نہیں، مگر آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ پاکستان کا پورا زور مذاکرات کے سلسلے کی بحالی پر لگا ہوا ہے۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو مودی حکومت نے جس طرح ریاست جموں و کشمیر کی ’خصوصی حیثیت‘ کو نہ صرف ختم کیا، بلکہ ریاست ہی تحلیل کردی، لگتا ہے کہ اسلام آباد میں حکمران طبقے اب اس کو تقریباً ’حقیقت حال‘ تسلیم کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے ممالک نے سرکاری طورپر بہت زیادہ رد عمل نہیں دکھایا، مگر غالباً ۱۹۹۰ء کے بعد پہلی بار کشمیر کو عالمی میڈیا اور سول سوسائٹی گروپوں نے خوب کوریج دی۔
حکومتوں کو چھوڑ کر ان ممالک میں موجود سول سوسائٹی گروپوں، خواتین اراکین پارلیمان اور بچوں سے متعلق حقوق کی تنظیموں پر کام کرکے ان کو فعال کیا جاسکتا تھا۔ مغربی ممالک میں یہ بطور ایک مؤثر پریشر گروپ کے کام کرتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات کا فائدہ اٹھاکر ان ممالک کو پس پردہ ثالثی کے کردار کے لیے آمادہ کیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ جب بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو، تو بجاے اشرف جہانگیر قاضی کی متعلق اور غیرمتعلق تجاویز کے، یہ صرف اور صرف جموں و کشمیر کے تنازعے کے حتمی حل کے سلسلے میں ہی ہونے چاہییں۔
جہانگیر قاضی کا مزید کہنا ہے کہ ’’پاکستان کو اپنے اعصاب پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے، اور اسے تمام محاذوں پر اپنے کام کو صاف کرنا ہوگا۔ استحکام اور خوش حالی کے حصول کے لیے اسے سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا ، تاکہ دنیا کے سامنے ایک مثبت تاثر پیش کرسکے، جس سے اس کے نقطۂ نظر کو دنیا میں وقعت ملے، مگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہورہا‘‘۔
دوسری طرف بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ تب ہی ممکن ہے ، جب پاکستان میں موجود مطلوب دہشت گرد اس کے حوالے کیے جائیں‘‘۔ انڈین ایکسپریس اخبار کی طرف سے منعقد ایک تقریب میں خطاب کے دوران اور بعد میں فرانسیسی اخبار لی موندے کو انٹرویو دیتے ہوئے، جے شنکر نے صاف کہا کہ ’’بھارت اب بدل چکا ہے۔ اس کی ترجیحات میں کشمیر سے علیحدگی کا رجحان ختم کرنا اور دہشت گردی کا مؤثر جواب دینا ہے۔دنیا کو جان لینا چاہیے کہ نومبر ۲۰۰۸ء کے ممبئی حملوں اور اوڑی میں ہوئے حملوں کے سلسلے میں بھارت کا رد عمل مختلف تھا۔ پچھلی حکومتوں نے امن کی خاطر بھارت کے لیے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی اسٹرے ٹیجک افادیت کو نظرانداز کر دیا تھا‘‘۔ شاید دبے لفظوں میں ان کا کہنا تھا کہ ’’آزاد کشمیر پر بھارت کسی بھی وقت اب کوئی عملی قدم اٹھانے والا ہے‘‘۔ بھارتی وزیرخارجہ نے تاسف کا اظہار کیا کہ ’’ایک اُبھرتی ہوئی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی بھارت ابھی تک اپنے سرحدی تنازعات کو سلجھا نہیں پا رہا ہے‘‘۔
بھارتی حکومت میں اس وقت اقتدار کے تین ستون، یعنی مودی ، امیت شا اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کا خیا ل ہے کہ: ۷۰ برسوں بعد یہ پہلا اور آخری موقع آگیا ہے کہ کشمیری عوام اور پاکستان کو باور کرایا جائے کہ ان کا مطالبہ ناقابلِ حصول ہے ۔اس کے علاوہ ان کا تسلیم کرنا ہے کہ کشمیر یوں کو اس حقیقت سے رو شناس کرانا ضروری ہے کہ ان کی تحریک یا مطالبے کو عالمی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے اور پاکستان بھی ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے ایسے اداروں اور تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا اور حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے، جو ایسا تاثر دے رہے ہوں۔ پاکستان میں بلوچستان اور گلگت بلتستان پر ہاتھ ڈال کر، اس کو کشمیر سے باز رکھنا ہے۔ اور کسی بھی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر کشمیر پر فورسز کے ذریعے علاقائی برتری حاصل کرکے ، پاکستان اور کشمیری عوام کی سوچ تبدیل کروانا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نواز کشمیر ی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو یہ احساس دلانا ہے، کہ وہ نئی دہلی کو بلیک میل کرکے او ر سیاسی حل پیش کرکے اب مزید سیاست نہیں کرسکتیں۔
دوسری طرف کشمیر میں بھی عوام نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ ’’جس چیز کو مودی اور اس کے حواری ناقابلِ حصول بتانا اور بنانا چاہتے ہیں، وہ اس کوحاصل کرکے ہی دم لیں گے‘‘۔ نئی دہلی کے کئی حلقوں میں اس بات کا اعتراف ہے کہ پاکستان یا اس کی فوج کشمیر کی صورت حال کا اس طرح فائدہ نہیں اُٹھا رہی ہے، جس کا اندیشہ تھا۔ ورنہ حریت کو بے دست و پا کرکے، نیز پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کو بے وزن کرکے ایک انارکی کا ماحول تیار کرواکے حالات ۹۰-۱۹۸۹ء کی نہج تک پہنچ چکے ہیں۔
آخر کون امن نہیں چاہتا؟ اس کی سب سے زیادہ ضرورت تو کشمیریوں کو ہی ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ امن، قدرو منزلت ، انصاف و وقار کا دوسرا نام ہے، ورنہ امن تو قبرستان میں بھی ہوتا ہے۔ جن تجاویز پر آپ امن کے خواہاں ہیں، وہ تجاویز صرف قبرستان والا امن ہی فراہم کر سکتی ہیں۔