دسمبر ۲۰۱۹

فہرست مضامین

بابری مسجداور بھارتی عدلیہ :استدلال بنام عقیدہ

افتخار گیلانی | دسمبر ۲۰۱۹ | اخبار اُمت

۶دسمبر ۱۹۹۲ء کو جب بھارت کے ایودھیا شہر میں بابری مسجد کو مسمار کیا جا رہا تھا، میں   ان دنوں صحافتی شعبے میں کام کا آغاز کرکے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ایک زیرتربیت فرد کے طورپر ایک ابلاغی ادارے وابستہ تھا ۔مجھے یاد ہے کہ دن کے گیارہ بجے تک رپورٹر ’ویشوا ہندوپریشد‘ اور ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی طرف سے منعقدہ پروگرام کی خبریں بھیج رہے تھے۔ پھر ایک دم سے ایودھیا سے خبروں کی ترسیل کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ رات گئے تک بس کانگریسی حکومتی ذرائع سے یہی خبر آرہی تھی کہ’’ انتظامیہ مسجد کو بچانے کے لیے مستعد ہے اور خاصی تعداد میں مرکزی فورس وہاں بھیجی گئی ہے‘‘۔ اس واقعے سے دودن قبل ہی ریاست اتر پردیش کے وزیرا علیٰ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں مسجد کی حفاظت کی حلفیہ ضمانت دی تھی اور عدالت نے ایودھیا میں ہندوئوں کو تقریب کرنے کی اجازت دی تھی۔

ریڈیو سے ہم مسلسل بی بی سی کی نشریات سن رہے تھے۔ رات گئے بی بی سی نے اپنی معمول کی نشریات روک کر اعلان کیا کہ: ’’ سنڈے آبزرور کے نمایندے قربان علی ابھی ابھی ایودھیا سے فیض آباد پہنچے ہیں‘‘۔ ریڈیائی لہروں پر اگلی آواز قربان علی کی تھی۔ جن کا کہنا تھا کہ: ’’بابری مسجد کو مسمار کردیا گیا ہے۔ جس وقت میں ایودھیا سے بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلا، اس وقت مسجد کے ملبے پر ایک عارضی مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا تھا اور بھگوان رام کی مورتی کو ایک شیڈ کے نیچے اس جگہ منتقل کیا جا رہا تھا ، جہاں چند گھنٹے قبل مسجد کا مرکزی گنبد موجود تھا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے بتایا: ’’مسجد کی طرف چڑھائی کرنے سے قبل صحافیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مندر وں اور کئی مکانوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ان کے کیمرے توڑدیے گئے تھے۔ کئی صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ بھی کی گئی تھی‘‘۔ قربان علی اور بی بی سی کے شہرۂ آفاق نمایندے مارک ٹیلی کو ایک مندر کے بوسیدہ کمرے میں بند کردیا گیا تھا۔ قربان علی نے بتایا: ’’دوپہر کے بعد ہم کو ’ویشوا ہندو پریشد‘ کے لیڈر اشوک سنگھل کے دربار میں پیش کردیا گیا، جس نے ہماری رہائی کے احکامات صادر کر دیے۔ کھیتوں اور کھلیانوں سے ہوتے ہوئے ہم فیض آباد کی طرف روانہ ہوئے، کیونکہ ہندو انتہاپسندوں یا کار سیوکوں نے سڑکوں پر ناکے لگا رکھے تھے اور وہ کسی بھی صحافی کو باہر جانے نہیں دے رہے تھے‘‘۔فیض آباد پہنچ کر انھوں نے دنیا کو بتایا کہ: ’’۱۵۲۸ءمیں مغل فرماںروا ظہیر الدین بابر کے جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ تاریخی بابری مسجد مسمار کر دی گئی ہے‘‘۔ 
دہلی میں ہماری رہایش گاہ سے متصل ایک معروف کیمرہ مین سلیم شیخ رہتے تھے۔ ان کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بس نام کا رشتہ تھا ۔ اس کے علاوہ شب برأت کے موقعے پر اپنی والدہ کو یاد کرکے نماز پڑھتے تھے۔ جونہی شب برأت ختم ہوتی تو وہ بوتل نکال کر شراب پینا شروع کردیتے تھے۔ سال بھر اسی طرح گزارتے اور پھر اگلی شب برأت سے ایک روز قبل و ہ بوتل الماری میں  بند کردیتے تھے۔ عید ہو یا کوئی اور دن، ان کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔ شب برأت کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ: ’’میرے بچپن میں، میری والدہ اس رات بڑے اہتمام سے اور پوری رات عباد ت میں مصروف رہا کرتی تھیں‘‘۔ اس لیے وہ اپنی والدہ کو یاد کرنے کے لیے کچھ گھنٹوں کے لیے مسلمان بن جاتے تھے۔ خیر جونہی بابری مسجد کی شہادت کی خبر نشر ہوئی، تو ہمارے کمرے کے دروازے پر بڑے زور زور سے دستک ہوئی۔ دروازہ کھولنے پر دیکھا کہ سلیم بھائی بوتل پکڑے خاصے غصے میں بھارتی حکومت اور اس کے آئین کو گالیوں سے نواز رہے تھے۔ میری کتابوں کے شیلف سے انھوں نے بھارتی آئین کی کتاب نکال کر اس کو پھاڑا اور پھر نیچے گلی میں لے جاکر آگ کے حوالے کردیا۔ ایک تو وہ پورا علاقہ ہندوؤں کا تھا، دوسرا مجھے کتاب کے تلف ہونے پر بھی افسوس ہو رہا تھا۔ خدشہ  یہ بھی تھا کہ ان کی حرکت سے فساد پھوٹ سکتا ہے۔ خیر ہوگئی کہ رات خاصی بیت چکی تھی اور لوگوں نے بھی ان کی حرکت کو دیکھ کر یہی سمجھا کہ نشے میں دھت وہ اپنی کوئی کتاب جلا رہے ہیں۔

اس موقعے پر یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سلیم شیخ جیسے فرد کو بھی اس دن ا پنی  مسلم شناخت یاد آگئی اور مسجد کی مسماری پروہ اس قدربے چین ہوگیا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ایک سابق لیڈر مرحوم جاوید حبیب نے مجھے ایک بار کہا تھا: ’’بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کا یہ چھٹا بڑا واقعہ ہے: lپہلا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی lدوسرا یہ کہ۱۹۲۰ء میںمہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ lتیسرا یہ کہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور آزادی  lچوتھایہ کہ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا lپانچواں یہ کہ ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور lچھٹا یہ کہ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا‘‘۔ (اب اس میں ساتواں واقعہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے اس کو مرکزی انتظام والا علاقہ بنانا، اور اس کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنا ہے)۔

  • بابری مسجد پر ہندوو ٔں کے دعوے کی حقیقت: بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی عدالتی بنچ نے اب ان زخموں کو مزید کرید کر انصاف، قانون و استدلال کے بجاے عقیدے کو بنیاد بناکرمسجد کی زمین، اساطیری و افسانوی شخصیت اور ہندو دیوتا رام للاکے سپرد کرکے، وہاں پر ایک مندر بنانے کے لیے راستہ صاف کردیا۔ تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے کو پڑھتے ہوئے ، مجھے محسوس ہورہا تھا ، کہ جیسے میں کشمیری نوجوان افضل گورو [م:۹ فروری ۲۰۱۳ء ]کو دی گئی، سزاے موت کا فرمان پڑھ رہا ہوں۔ اس فیصلے میں بھی کورٹ نے استغاثہ کے دلائل کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی لکھا تھا کہ: استغاثہ، افضل گورو کے دہشت گردوں کے ساتھ روابط اور جیش محمد کے ساتھ اس کی قربت و رفاقت ثابت نہیں کر پایا ہے‘‘۔ جب لگ رہا تھا کہ شاید کورٹ اپنے ہی دلائل کی روشنی میں گورو کر بری کردے گی، کہ فیصلے کا آخری پیراگراف پڑھتے ہوئے، جج نے فرمان صادر کیا کہ:’’’ اجتماعی ضمیر‘ کو مطمئن کرنے کی خاطر، ملزم گورو کو سزاے موت دی جاتی ہے‘‘۔

بالکل اسی طرح بابری مسجد سے متعلق فیصلے میں بھی سپریم کورٹ نے ہندو فریقین کے دلائل کا پول کھول کر رکھ دیا۔ ان کی یہ دلیل بھی رد کردی کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے اور مسجد کو منہدم کرنے کے واقعات کو بھی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمی قرار دیا ۔ کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہاں بابری مسجد ایستادہ تھی، اور جبری طور پر نماز کا سلسلہ منقطع ہوجانے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہوجاتا۔عدالت نے مسجد کے نیچے کسی تعمیر کا تو اشارہ دیا ہے، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے یہ نہیں بتایا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر کی گئی تھی۔   جج صاحبان نے دراصل ہندوئوں کی آستھا، یعنی عقیدے کو اپنے فیصلے کی بنیادبنایا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ’’ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام کا جنم ’گربھ گرہ ‘، یعنی مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے، عین محراب و منبر کے پاس ہوا تھا ۔’’ایک بار اگر آستھا قائم ہوجائے تو عدالت کو معاملے سے دُور رہنا چاہیے اور عدالت کو عقیدت مندوں کی آستھا اور عقیدے کے معاملے میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہیے‘‘۔
اسی عدالت نے مقدمے کی سماعت سے قبل یہ واضح کیاتھا کہ’’ وہ اس مقدمے کا فیصلہ کسی  عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقِ ملکیت کی بنیاد پر کرے گی‘‘۔فیصلے کا دل چسپ پہلو یہ ہے، کہ عدالت نے فیصلہ ہندوئوں کے حق میں تو دیا، مگر مسمار شدہ مسجد کی زمین، ہندو فریقین کو دینے کے بجاے ، ’’بھگوان رام کے سپرد کرنے کے احکامات‘‘ صادر کر دیے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ ’’چونکہ رام للا، نابالغ ہے، اس لیے اس کی سرپرستی کے لیے حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانے کے لیے تین ماہ کا وقفہ دیا جارہا ہے‘‘۔ فریقین پر قانون و نظم کو برقرار رکھنے کی بھی ذمہ داری ڈالی گئی۔کورٹ نے بتایا:’’چونکہ رام للا کی مورتی بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کیے گئے عارضی مندر میں براجمان ہے، اس لیے وہ جگہ  ان کی ملکیت ہے‘‘۔ کورٹ نے رام للا کو یعنی معنوی و اعتباری لحاظ سے ایسی شخصیت قرار دیا ہے، جس پر قانون کے سبھی حقوق و فرائض کا اطلاق ہوتا ہے۔ 
ہندو فریقین ، کورٹ کے اس رخ سے خود بھی حیران ہیں، کہ رام مندر کی تعمیر میں اب وہ وزیر اعظم مودی کے دست نگر ہوں گے۔ٹرسٹ کے ممبران اور رام مندر کے نگرانوں کا تعین مودی کی مرضی سے ہوگا۔ نرموہی اکھاڑہ ، رام جنم بھومی نیاس ، ہندو مہاسبھا ا ور ویشوا ہندو پریشد سے تعلق رکھنے والے سادھو سنتوں اور پجاریوں کی نیند یں اُڑی ہوئی ہیں، جن کی عظیم الشان رام مندر کے کنٹرول اور وہاں زائرین کے چڑھاووں پر حق جمانے کی آس میں رال ٹپک رہی تھی۔

  • عدالتی فیصلہ، قانونی جائزہ:بھارتی سپریم کورٹ ایک آزاد اور خود اختیار اتھارٹی ہی سہی، مگر جب اس طرح کامعاملہ یہاں پہنچتا ہے تو انصاف کی دیوی حقیقت میں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ ۱۹۸۴ء کے آغاز میں معروف وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس وائی پی چندرا چوڑ کی عدالت میں زور دار بحث کرکے دلیل دی تھی کہ: ’’جموں و کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ کے بانی مقبول بٹ کی، سزاے موت [۱۱فروری ۱۹۸۴ء] پر عمل درآمدنہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے سزاکی توثیق نہیں کی ہے‘‘۔ اس سلسلے میں انھوں نے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی دستخط و مہر شدہ سند بھی پیش کی،مگر اٹارنی جنرل کے وکلا نے دلائل کا جواب دیے بغیر بس ایک سادہ ٹائپ شدہ کاغذ  چیف جسٹس کے حوالے کیا ، جس پر کسی کے دستخط نہیں تھے، اور دعویٰ کیا کہ یہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا توثیق نامہ ہے۔ چیف جسٹس نے اپیل مسترد کی اور بلیک وارنٹ کو مؤخر کرنے سے انکار کردیا۔

سپریم کورٹ کے سبک دوش جج جسٹس گنگولی نے بی بی سی ہندی سروس کو بتایا کہ: ’’ان کے لیے اس فیصلے کو تسلیم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مَیں مانتا ہوں کہ یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ بھارتی آئین کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا موجود تھا۔اگر اس کو عدالتی بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے ، تو بہت سے مندروں، مساجد اور دیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا۔ ہم افسانوی حقائق کی بنیاد پر عدالتی فیصلے نہیں کرسکتے۔‘‘ بھارت کے طول و عرض میں لاتعداد مندر تو بودھ مت اور جین مت کی عبادت گاہوں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔ آٹھویں صدی میں آدی شنکر آچاریہ [م: ۸۲۰ء] نے جب ہندو مت کے احیا کی خاطر ملک کے طول و عرض کا دورہ کرکے بودھ بھکشووںکے ساتھ مکالمہ کیا، تو بودھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا۔ اشوکا [زمانہ:۱۴۴-۱۲۰ءق م ]اور کنشکا [زمانہ: ۲۶۸-۲۳۲ ق م ]کے عہد حکومت میں تو بھارت کی کثیر آبادی بودھ مت اختیار کرچکی تھی، تو اس وقت بھارت میں بود ھ آبادی محض ۸۵لاکھ، یعنی کُل آبادی کا صفر اعشاریہ سات فی صد ہی کیوں ہے؟
جسٹس گنگولی نے کہا: ’’اقلیتوں نے نسلوں سے دیکھا ہے کہ وہاں ایک مسجد تھی۔ مسجد کو  توڑ دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وہاں ایک مندر تعمیر ہوگا۔ اس فیصلے نے میرے ذہن میں بہت سے شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ آئین کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے اس فیصلے کو قبول کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے‘‘۔ آئین کی دفعات کی روشنی میں تاریخی مسجد کی حفاظت کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک خطرناک نظیر پیش کر دی ہے کہ مسلم دور کی کسی بھی عمارت کو لے کر تنازع کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ پھر محکمہ آثار قدیمہ سے کھدائی کرا کے اس کے نیچے کوئی ہندو عمارتی ڈھانچا بتایا جاسکتا ہے۔

فیصلہ سنائے جانے سے چند روز پہلے جس طرح بڑی تعداد میں مسلمانوں سے امن وامان برقراررکھنے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بسر و چشم قبول کرنے کی اپیلیں کی جارہی تھیں اور انھیں جس طرح صبر وتحمل سے کام لینے کے لیے کہا جارہا تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ عدالت یقینا کوئی ایسا فیصلہ صادر کرنے والی ہے، جس پر مسلمانوں کو صرف اور صرف صبر ہی کرنا ہوگا۔ بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت دوول سے لے کر راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نفرت بھرے وہ لیڈر تک، جو مسلمانوں کو منہ تک نہیں لگاتے ہیں۔ وہ بھی مسلم لیڈروں ،دانش وروں اور اردوصحافیوں کو کہیں چائے پر اور کہیں کھانے پر بلا کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے چون وچرا قبول کرنا چاہیے‘‘۔

’آل انڈیا ملّی کونسل‘ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم کا کہنا ہے: ’’فیصلہ لکھنے کے دوران جج حضرات نے حقائق کو سامنے نہیں رکھا ہے اور خاص طور پر ٹائٹل سوٹ (ملکیت کے مقدمے) کو انھوں نے بنیاد نہیں بنایاہے۔جہاں تک کورٹ کی طرف سے مسلمانوں کو معاوضے کے طور پر ایودھیا میں مسجد تعمیر کرنے کے لیے پانچ ایکڑ زمین دینے کا تعلق ہے، کئی مسلم گروپ اس کو پہلے ہی یہ کہہ کر مسترد کرچکے ہیں کہ خیرات کی زمین پر مسجد نہیں بنائی جاتی۔

عدالت کے فیصلے کا سب سے اہم پہلو وہ ہے جس میں اس نے بابری مسجد کے انہدام کو ایک مجرمانہ فعل قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ’’سیکولرزم، ہندستان کے آئین کی بنیادی روح ہے‘‘۔بابری مسجد انہدام سازش مقدمے کی تحقیقات کرنے والے جسٹس من موہن سنگھ لبراہن نے بھی اپنی رپورٹ میں ’’بابری مسجد انہدام کو ایک منصوبہ بند سازش‘‘ قرار دیا تھا۔  قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت شروع ہونے والی تھی، تو جسٹس لبراہن نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ’’سپریم کورٹ کو حق ملکیت کا مقدمہ فیصل کرنے سے پہلے بابری مسجد انہدام سازش کیس کی سماعت کرنی چاہیے،کیونکہ یہ مقدمہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے‘‘۔اب،جب کہ سپریم کورٹ نے از خود ’’بابری مسجد کے انہدام کو ایک مجرمانہ سرگرمی‘‘ قرار دے دیا ہے، تو اسے ان لوگوں کے خلاف عدالت میں جاری مقدمے پر بھی غور کرنا چاہیے، جنھوں نے بابری مسجد شہید کی تھی۔

با بری مسجد انہدام کا مقدمہ کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے، جس میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی ،اوما بھارتی ،کلیان سنگھ اور ونئے کٹیار سمیت سنگھ پریوار کے۳۲ لیڈروں کے خلاف فردِ جرم عائد کی جاچکی ہے۔مسلمان با بری مسجد تو کھو چکے ہیں، لیکن وہ ان لوگوںکے خلاف کارروائی ضرور چاہتے ہیں، جنھوں نے قانون ،دستور اور عدلیہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بابری مسجد کو دن کے اُجالے میں شہید کیا تھا۔ 
ہندی کے ایک معروف صحافی اور سماجی کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی ایک حالیہ تصنیف ایودھیا - رام جنم بھومی بابری مسجد وواد  کا سچ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح تین عشرے قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق کیا تھا۔ ویشوا ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولے پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو ان کو خوب پھٹکار لگائی گئی۔ دیورس کا کہنا تھا ’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی فکر (یعنی رام مندر کی تعمیر) چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندو وٗں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے۔‘‘ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سرد پڑ جائے گی اور اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔

  • انصاف کی نفی اور ہندو ذہنیت: بابری مسجد کا معاملہ سب سے پہلے۱۸۵۳ء میں فیض آباد کی عدالت کے سامنے آیا، جب ایک ہندو مہنت نے دعویٰ کیا کہ ’’مسجد کے گنبداور محراب کے پاس کئی لاکھ سال قبل بھگوا ن رام پیدا ہوئے تھے‘‘۔ برطانوی جج نے کئی سماعتوں کے بعد اس دعوے کو خارج کر دیا۔ اس کے بعد ۱۹۴۹ء میں مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے کورٹ میں فریاد کی ، کہ ’’رات کے اندھیرے میں چند افراد نے دیوار پھلانگ کر محراب کے پاس ایک مورتی رکھ دی ہے، لیکن مقامی انتظامیہ نے مورتی کو ہٹانے کے بجاے خود مسجد ہی پر تالہ لگاکر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی لگادی ہے۔ کورٹ سے درخواست ہے کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے‘‘۔ ضلعی عدالت میں کئی برسوں تک اس قضیے پر جب کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو اس کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سپردکر دیا گیا۔ جس نے ۲۰۱۰ء میں ایک ایسا عجیب و غریب فیصلہ سنایا کہ جس نے کسی بھی فریق کو مطمئن نہیں کیا۔ فریقین نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔

بابری مسجدکی شہادت میں عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا ۔ اعتبار کی رہی سہی کسر ۳۰ دسمبر ۲۰۱۰ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے اس وقت پوری کر دی، جب برسوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد قانون اور شواہد کو بالاے طاق رکھ کر ایک فریق کے عقیدے اور یقین کو بنیاد بناتے ہوئے بابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوئوں کے حق میں سنا دیا۔ ایک جج نے زمین کے بٹوارے کی تجویز دی۔ بنچ نے ان نکات پر بھی فیصلہ دیا، جو شاملِ بحث ہی نہ تھے۔ یہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔ ۱۹۴۹ء کو جب مسجد کے منبر پر مورتی رکھی گئی اور مقامی انتظامیہ نے تالہ لگا کر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی لگائی، تو مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے اس کے خلاف کورٹ میں فریاد کی کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے۔ جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیر کہا کہ ’’ Law of Limitations کا اطلاق ہندو دیوی دیوتائوں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ان جگہوں ہی پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتاسکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔

اس فیصلے کا اعتبار اُس وقت اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتا ہے جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کرلیا کہ ’’بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا تھا جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا‘‘ اور یہ بھی کہا کہ ’’ان کے مطابق رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے‘‘۔ دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ’’جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثارابھی تک نہیں ملے ہیں‘‘۔ ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلے میں مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی ایک لمبا چوڑا تبصرہ کیا اور ان کے ہاتھوں ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلے کا جواز بنایا۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہندو حکمرانوں کے ذریعے لاتعداد بودھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے؟ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لیے جنوبی کشمیر کے مندروں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی تو ان کو تہہ تیغ کر دیا۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا کیونکہ ہر قوم نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی۔ تاہم، اب آباواجداد کے گناہوںکی سزا ان کی اولادوں کو تو نہیں دی جا سکتی۔

  • بابری مسجد اور مسجد شہید گنج کی مثال:   بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج مقدمے کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ مقدمہ اور اس پر پاکستانی مسلمان معاشرے کا رویہ ہندستان کے سیکولرزم او ر اس کے لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچا ہے۔ ۱۷۶۲ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرا ڈالا اور پھر اس کوگوردوارہ کے   طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ مسلمان ۱۸۵۰ء سے ۱۸۸۰ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ ۱۹۳۵ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی تھی کہ سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ مسلم لیگ کے اراکین نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی۔ معروف قانون دان اے جی نورانی [پ:۱۹۳۰ء] کے بقول: ’’قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے رد کر دیا‘‘، اور پھر جناح صاحب نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عمل داری کا پاس کیا۔ پاکستان بننے کے ۷۲ سال بعد بھی یہ گوردوارہ لنڈا بازار میں آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے،حالانکہ کوئی سِکھ اب اسے عبادت کے لیے استعمال بھی نہیں کرتا۔ ۱۹۴۷ء کے بعدامکان تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاست دان یا مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ 

اس کے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ’ہندوتوا‘ کو مذہبی علامت کے بجاے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریۂ زندگی بتایا۔ انھوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ہیڈگیوار [م: ۱۹۴۰ء] ، ساورکر [م:۱۹۶۶ء] یا گولوالکر [م:۱۹۷۳ء]کی تصنیفات کے بجاے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔ ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریقۂ کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجاے کار سیوکوں (مسجد کو مسمار کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی حکومت نے انھیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا۔

اے جی نورانی نے اپنی کتابDestruction of Babri Masjid: A National Dishonour میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ویشوا ہندو پریشد کے ساتھ ایک سودے بازی ہوئی تھی۔اگرچہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت [۱۹۸۴ء] کے بعد اپنی تحریک روک دی، مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیا۔ ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔ راجیو گاندھی کو مشورہ دیا گیا تھا کہ اس قضیے کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، مگر وہ مسلمانوںکو بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ سودے بازی کو آگے بڑھایا جاسکے اور یہی ہوا۔کانگریس کے علاوہ دیگر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، ان کا رویہ بھی افسوس ناک رہا۔ ان دونوں پارٹیوں نے جو پچھلے ۲۰برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی تھیں ، بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ۴۰روز تک مسلسل اس معاملے کی سماعت کی، جس کے دوران عدالت میں ۱۱ہزار۵ سو دستاویزات پیش کی گئیں۔ان میں کئی دستاویزات سنسکرت اور فارسی میں تھیں۔ اتر پردیش کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جب اپیل کو سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کیا، تو الٰہ آباد سے ۱۵ بڑے ٹرنکوں میں دستاویزات دہلی پہنچا دی گئیں۔ ہائی کورٹ کا ٖفیصلہ ۸ہزار ایک سو ۷۰ صفحات پر مشتمل تھا اور اس کے ساتھ ۱۴ہزار ۳سو ۸۵ صفحات بطور ضمیمہ منسلک تھے۔ مسلم فریق کے وکلا نے باربار یہ دلیل دی کہ بابری مسجد کا معاملہ  ایک سیدھا سادہ ملکیتی معاملہ ہے۔ وہاں پر مندر یا مسجد طے کرنے کا معاملہ شاملِ بحث ہی نہیں ہے۔

میجر جنرل الیگزندر کنیگہم کے مطابق ۱۵۰۰ قبل مسیح میں اس شہر کو تباہ و برباد کردیا گیا تھااور پھر ۱۳۰۰برسوں تک یہ غیر آباد رہا۔تب تک نہ عیسائی اور نہ مسلمان ہی جنوبی ایشیا میں آئے تھے۔ اس دورا ن دریاے سورو نے بھی کئی رخ بدلے ہوں گے۔ آخر اب یہ کیسے طے ہوسکے گا کہ  بھگوان رام کئی لاکھ برس قبل اسی مسجد کے محراب کے پاس پیدا ہو گئے تھے؟ مسلم فریقین کے وکیل راجیو دھون نے کورٹ کو بتایا کہ صرف پچھلے ۵۰۰برسوں میں ہی دریا نے کئی رخ بدلے ہیں۔ بینچ کے ایک رکن جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ہندو فریقین سے کہا کہ ’’دنیا کا ایک دستور ہے کہ تہذیبیں دریا کے کناروں پر بستی چلی آ ئی ہیں، اور برباد ہوئی ہیں۔اب آپ کیسے یہ ثابت کریں گے کہ مسجد کے نیچے کے کھنڈرات کسی عبادت گاہ کے ہی تھے اور وہ بھگوان رام کی رہایش گاہ بھی تھی‘‘۔ جب جج نے ہندو فریق نرموہی اکھاڑہ کو زمین کی دستاویزات فراہم کرنے کو کہا، تو ان کا جواب تھا: ’’یہ نزول زمین ہے، مگر ٹیکس ریکارڈ میں یہ اکھاڑہ کی جایداد ہے‘‘۔ جب جج نے ٹیکس ریکارڈ مانگا تو جواب ملا:’’ ۱۹۸۲ء میں ایک ڈکیتی کی واردات میں وہ ضائع ہو گیاہے‘‘۔

  • مصالحت کی کوششیں: سپریم کورٹ نے سماعت سے قبل معاملے کو ایک تین رکنی ثالثی کمیٹی کے حوالے کرکے عدالت کے باہر فریقین کو کسی تصفیے تک پہنچنے کی ہدایت کی۔سابق جج جسٹس خلیفۃ اللہ کی قیادت میں ہندو گورو سری روی شنکر اور ایڈووکیٹ سری رام پنچو پر مشتمل اس کمیٹی نے فریقین کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی، جو بے سود رہیں۔ اس کمیٹی کی کارروائی خفیہ رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی اور میڈیا کو بھی اسے کور کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔ تاہم، جو خبریں اب چھن چھن کر آرہی ہیں، ان کے مطابق ایک مسلم فریق ’سنی وقف بورڈ‘ نے بابری مسجد کے معاملے سے دست برداری کی پیش کش کی تھی اگر حکومت اور ہندو فریقین چند شرائط تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں ایودھیا کی کچھ مسجدوں کی مرمت کے علاوہ محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام مسجدوں میں عبادت کی منظوری اور تمام مذہبی مقامات پر ۱۹۴۷ءسے پہلے والی صورت حال برقرار رکھنے کے قانون کے نفاذ کی شرط بھی شامل تھی۔ جس کو ۱۹۹۱ء میں وزیراعظم نرسمہا رائو حکومت نے تسلیم اور منظور کیا تھا۔ 

معروف صحافی معصوم مراد آبادی کے بقول: ’’ان میں آثارقدیمہ کے زیر انتظام سیکڑوں تاریخی مسجدوں میں نماز کی آزادی دینے کی شرط سب سے اہم تھی۔ دہلی سمیت ملک کے مختلف شہروںمیں موجود مسلم دورحکومت کی تعمیرشدہ یہ مساجد زبانِ حال سے اپنی بے کسی کا نوحہ بیان کررہی ہیں، جہاں سیاحوں کو جوتوں سمیت گھومنے کی تو آزادی ہے، لیکن مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔اس کے علاوہ وشوا ہندو پریشد نے تین ہزار مسجدوں کی فہرست بنارکھی ہے، جو اس کے خیال میں مندروںکو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ بابری مسجد کے بعد وہ ان مسجدوں کے معاملے کو اٹھا کر عوامی جذبات بھڑکا نے کے لیے پوزیشن بنائے بیٹھے ہیں۔ اکھاڑہ پریشد نے تو پہلے ہی دھمکی دی ہے کہ رام مندر کے بعد اب کاشی اور متھرا کے لیے بھی تحریک تیز کی جائے گی‘‘۔

بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ کمیٹی کے سامنے ایک اور تجویز یہ آئی تھی کہ ’’اگر حکومت آئین کی  دفعہ ۳۴۱ میں ترمیم کرکے عیسائیت یا اسلام اختیار کرنے والے دلتوںکے لیےکوٹہ برقرار رکھتی ہے، تو اس صورت میں بھی مسلمان مسجد سے دست بردار ہو سکتے ہیں‘‘۔ اس شق کی رُو سے ’’اگر کوئی دلت [شودر]، اسلا م یا عیسائیت اختیار کرتا ہے، تو وہ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں ریزرویشن [کوٹا]کا حق کھو دیتا ہے‘‘۔ یہ شق ہندو مذہب کے پس ماندہ طبقات اور نچلی ذاتوں کو تبدیلی مذہب سے روکنے کے لیے آئین میں رکھی گئی ہے۔ اس شرط کو ہندو فریقین نے خارج کردیا۔ ان کو خدشہ پیدا ہوا کہ اگرآئین کی اس شق میں ترمیم کی جاتی ہے، تو دلت اور دیگر نچلی ذاتوں کے ہندو عیسائیت یا اسلام کی طرف جوق در جوق رجوع کرسکتے ہیں۔ تاہم، معصوم مراد آبادی کے مطابق ’’اگر کسی بھی نوعیت کی وقتی شرطوں پر بابری مسجد طشتری میں سجا کرہندوؤں کو پیش کردی گئی، تو بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی‘‘۔

بابری مسجد کے مقدمے میں مسلمانوں کی پیروی ایک ہندو وکیل راجیو دھون نے کی اور اس خدمت پر کوئی پیسہ وصول نہیں کیا ۔سپریم کورٹ میںسماعت کے آخری دن ایک ہندو فریق نے رام مندر کا ایک فرضی نقشہ پیش کر کے عدالت کو گمراہ کرنا چاہا تو راجیو دھون نے بھری عدالت میں اس نقشے کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور کہا: ’’بابری مسجد پر عدالت کا فیصلہ یہ طے کرے گا کہ کیا اصولِ حکمرانی میں عقیدے کو استدلال پر فوقیت حاصل ہے؟ استدلال کو عقیدے پر فوقیت دی جانی چاہیے‘‘۔ اپنی بحث سمیٹتے ہوئے راجیو دھون نے عدالت کے سامنے علامہ اقبال کے یہ شعر بھی پڑھے:

وطن کی فکر کر نا داں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں