سلیم منصور خالد | دسمبر ۲۰۱۹ | اخبار اُمت
پاکستان اور عالم اسلام ،عوامی جمہوریہ چین کے بارے میں دوستانہ رجحان اور خوش گوار سوچ رکھتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کے بارے میں یہ تصور موجود ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے سیاسی معاملات میں عدم مداخلت اور توسیع پسندانہ طریقوں سے اپنے آپ کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی معروف ہے کہ چین دوسرے ملکوں کے تعلقات میں ان کی قومی عزت نفس اور وقار کا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر پاکستان سے چین کے اور چین سے پاکستان کے تعلقات کی ایک قابلِ قدر تاریخ ہے۔ ان تمام امور کی بنیاد پر ہم عوامی جمہوریہ چین کی تعمیر ، امن اور یک جہتی کو دوستی کا مرکزی نکتہ تصور کرتے ہیں۔
اسی طرح ہم یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ چین کی دور اندیش قیادت واقعات اور حوادث کو مدنظر رکھتے اور اپنی پالیسیاں تشکیل دیتے وقت چند پہلوئوں پر نظرثانی کرے۔ بلاشبہہ عمومی طور پر انھیں مذہب اور مذہبی جذبات سے کچھ نسبت نہیں، لیکن بہرحال، وہ انسانی تہذیب اورانسانی معاشرے میں مذہب کے گہرے اثرات سے واقف ہیں۔
اسی طرح باریک بین چینی حاکموں کو اس چیز کا بھی علم ہے کہ ستاون ،اٹھاون مسلمان حاکم، مسلم اُمت کے جذبات سے جتنے بھی دُور اور سامراجیوں کے قریب تر ہوں، وہ ایک الگ اکائی ہیں۔ حاکموں کے بر عکس مسلم امت کے دل ایک وجود کی حیثیت سے دھڑکتے ہیں۔ رنگ ونسل اور علاقے یا زبان کی تقسیم کو نظر انداز کرتے ہوئے، وہ ایک تہذیب ہیں۔ یہ بات بھی چین کے دُوراندیش حاکم جانتے ہیں اور پھر زمینی حقائق بھی یہ ہیں:چینی ترکستان ،وسطی ایشیا ، ترکی، جنوبی ایشیا، انڈونیشیا سے بوسنیا اور مراکش تک ایک جغرافیائی وحدت ،مسلم اُمہ کے نام سے منسوب ہے۔ یہ وحدت نہ امریکا کی ہمسایہ ہے اور نہ یورپ سے منسلک، بلکہ اس کی بڑی آبادیاں چین ہی سے متصل اور قریب تر ہیں (جیسے مسلمانوں کے تینوں بڑی آبادیوں کے ممالک ،انڈونیشیا ،پاکستان، بنگلہ دیش)۔ اس لیے ،ایک تو اس فطری ہمسائیگی کا تقاضا ہے کہ ہمسایے کے جذبات کا پاس ولحاظ رکھا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے مسلمان حاکموں کے بجاے کھیتوں، قصبوں، کہساروں،میدانوں اور صحرائوں میں بسنے والے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو سمجھنے کے لیے، جغرافیائی سرحدوں سے بالا تر ہوکر ، غور وفکر کی کوشش کریں۔
جیسا کہ اُوپر ذکر ہوا ہے، ہم چین کی جغرافیائی وحدت کا احترام کرتے ہیں۔اس کی ترقی پر خوشی محسوس کرتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی ہم کہنا چاہتے ہیں کہ: چینی حکومت ،چین سے منسلک سنکیانگ اور وہاں بسنے والے اویغور مسلمانوں کے ساتھ شفقت، احترام اور ان کی اقدار کے پاس ولحاظ کی راہ پر چلے، تو یہ قدم نہ صرف چین کے داخلی استحکام ،بلکہ خود مسلم امت سے چین کے خوش گوار تعلقات کے فروغ کا ذریعہ بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی بعض مغربی ممالک کے اس پراپیگنڈے کا سدِّباب بھی ہوسکے گا جو وہ جدید چینی سلطنت میں پیدا ہونے والے تضاد کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں ۴۰۳ صفحات پر مشتمل خود چین کے جو خفیہ سرکاری کاغذات The Xinjiang Papers کے نام سے دنیا کے سامنے آئے ہیں ۔ ہم ان کی تفصیلات اور جزئیات پر بحث سے قطع نظر، یہاں پر پاکستان کے مؤقر روز نامہ Dawn کا اداریہ پیش کر رہے ہیں، تاکہ معاملے کی گمبھیرصورتِ حال کا اندازہ ہو سکے:
’’یہ ۳۰۴ صفحات، بہت واضح الفاظ میں ایک ایسا ہوش ربا اور منجمد کر دینے والا منظر پیش کرتے ہیں، جس سے یہ نظر آتا ہے کہ چینی مسلمانو ں پر مشتمل اقلیت کی شناخت کو مٹادینے کا پروگرام پیش نظر ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بدقسمتی کی بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ انھیں نکال پھینکنے کی یہ حکمت عملی چینی حکومت کی پالیسی کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی ان خفیہ دستاویزات کو ایک گم نام ذریعے نے نیویارک ٹائمز [۱۶نومبر ۲۰۱۹ء] کے ذریعے بے نقاب کیا ہے ، اور یوں اس سوچ اور اس عمل پر روشنی ڈالی ہے، جس کے تحت چینی مسلمانوں اور خاص طور پر اویغور مسلمانوں کو ’دوبارہ سبق سکھانے‘ [یا پڑھانے] کی غرض سے بڑے پیمانے پر نظر بند کیا گیا ہے اور انھیں وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کاغذات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ چین، پُرامن باشعور مسلمانوں اور انتہا پسندوں سے متصادم ہے، جسے مذہبی حوالے سے جبر کی خالص ترین شکل کہا جا سکتا ہے۔ خفیہ صفحات میں ان تقاریر کے متن بھی شامل ہیں، جن میں مبینہ طور پر صدر ژی چن پنگ نے سنکیانگ میں انتہا پسندی کے خلاف قومی سلامتی کے اداروں کے ذریعے کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح کی ایک تقریر میں ’انتہا پسندی ‘ سے ’متاثر‘ افراد کی امداد کے لیے ’تکلیف دہ علاج معالجے ‘ کی حمایت کی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے ’ہرگز رحم نہیں کرنا ‘۔ منظر عام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق سرکاری اہل کاروں کی رہنمائی کے لیے ایک گائڈ کا کردار سامنے آتا ہے کہ جب پریشان حال اور دکھی اویغور [مسلمان]اپنے خاندان کے لوگوں کی ’گم شدگی ‘ کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، تو وہ [گائڈ] بتاتا ہے کہ ’’سرکاری حکام کی ہدایت ہے کہ وہ لوگ اسلام پسندانہ وائرس اور ’انقلابیت‘ سے ’متاثر‘ ہو چکے تھے، اس لیے ان کی صحت کی درستی اور انھیں ٹھیک کرنے کے لیے ’قرنطینہ ‘[متعدی امراض سے بچائو کے مرکز ] میں رکھنے کی ضرورت تھی‘‘۔ مزید برآں ، نہ چاہنے کے باوجود اویغور افراد خانہ کے پاس، سرکاری اہل کاروں کے ان بیانات کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ زیادہ پریشانی واضطراب کا مظاہرہ کریں گے تو ان کے عزیزواقارب کی نظر بندی کا زمانہ زیادہ لمبا ہو سکتا ہے ۔
’’کچھ عرصے سے مغربی ذرائع ابلاغ پر یہ بات بڑے تسلسل سے سامنے آ رہی ہے کہ ’نظربندی‘ یا حراستی کیمپوں میں ۱۰ لاکھ اویغور قیدوبند سے دو چار ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت [چین ] سے اعلیٰ معاشی مفادات وابستہ رکھنے والے ممالک ، ان اطلاعات کو عام طور پر پراپیگنڈا کہانیاں کہہ کر نظر انداز کرتے ہیں ، اور انھیں مسترد کر دیتے ہیں ۔ خود چین نے ان پیپرز کو ’بے نقاب‘ کرنے والے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ انتہا پسندی کے خلاف ہماری جدوجہد کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، جسے سنکیانگ میں ہی بڑی کامیابی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے‘‘۔ جو دراصل رحم کی قدر سے مکمل طو ر پر خالی ہے۔ تاہم، اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ [چین نے ] ان دستاویزات کو متنازعہ کہنے سے گریز کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے چینی مسلمانو ں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بے خبری ظاہر کرنے کو ایک مشکل کام بنا دیا ہے۔ دوسرے بہت سے ملکوں کی طرح اگرچہ خود پاکستان میں بھی انسانی حقوق کا باب داغ دار ہے، لیکن اس کے باوجود جب وہ کشمیریوں اور روہنگیا [مسلمانوں ] کے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بات کر سکتا ہے، تو کیا وہ اویغور وں کے بارے میں خاموش رہ سکتا ہے ؟‘‘ (اداریہ روز نامہ Dawn، کراچی،۲۰ نومبر ۲۰۱۹ء )
’چینی دستاویزات‘ اور اس اداریے کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ چینی مسلمانوں اور اویغور مسلم آبادی ، دونوں ہی کے حوالے سے یہ دستاویزات، مخصوص ریاستی رجحان کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان دستاویزات میں ’سخت تادیبی کارروائی‘ اور ’دماغ درست‘ کرنے کا اسلوبِ بیان واضح ہے۔ تیسرا یہ کہ لفظ ’انتہا پسندی‘ کو مسلمانوں کے قائم مقام کے طور پر برتنے کا مغربی رجحان یہاں پر بھی موجود ہے۔چوتھا یہ کہ دنیا کے ممالک اپنے مادی مفادات کو عزیز تر رکھتے اور انسانی مسئلے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ پانچواں یہ کہ دنیا اور پاکستان کو اس معاملے میں تادیب اور تعذیب سے بچانے کے لیے ہمدردانہ کوششیں کرنی چاہییں۔ چھٹا یہ کہ چین نے ان دستاویزات کی مذمت تو کی ہے لیکن متنازعہ نہیں کہا۔
دنیا کے حالات اور خصوصاً ہمارے اس علاقے کے حالات جس رخ پر جا رہے ہیں ، ان کا تقاضا ہے کہ نہ صرف چین میں بقاے باہم کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جائے، بلکہ اویغور مسلمانوں کے داخلی وتہذیبی تشخص کا اعتراف واحترام کیا جائے۔ مبینہ طور پر اویغور مسلمانوں کی نسلی تطہیر اور غالب ’ہان چینی نسل‘ کی سنکیانگ میں آبادکاری، ممکن ہے کہ چند برسوں میں ممکن بناکر مقامی آبادی کا توازن تبدیل کردیا جائے، لیکن اس کاوش کے منفی اثرات بہت دُور رس ہوں گے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ اویغور آبادی کو ہمدردی سے اپنے مذہبی، ثقافتی اور معاشی معاملات چلانے کے لیے شریک ِ سفر بنایا جائے ، جس طرح کہ چین کی جرأت مند حکومت نے ’ایک ملک، اور دو نظام ‘ کا تجربہ کر کے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اسی طرح ضرورت یہ ہے کہ ’ایک ملک اور باہم احترام‘ کے راستے پر بھی چلاجائے۔ اس طرح چین زیادہ مضبوط ہو گا اور ان تضادات کو گہرا کرنے کی مغربی سازشوں کو ناکام بھی بنا یا جاسکے گا اور مسلم اُمت میں تشویش کو ختم کیا جاسکے گا۔
_______________