مضامین کی فہرست


مارچ ۲۰۲۲

’ترقی کے تصور‘ کا بحران ایک اہم مسئلہ ہے، لیکن صرف یہی ایک پہلو نہیں ہے۔ اس بندگلی سے نکلنے کے لیے بنیادی راستہ یہ ہے کہ ترقی کے لیے روایتی مثالیے (Paradigm) کو تبدیل کیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہم مسائل بھی ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس موقعے پر ہم ان سے متعلقہ چنداُمور کی نشاندہی کریں گے:

            ۱-         حقیقی منصوبہ بندی اور دانش مندانہ اقتصادی پالیسی سازی کے لیے اگر ایک لازمی شرط مناسب تصوراتی ڈھانچے کی فراہمی اور پالیسی سازوں اور اقتصادی ماہرین کے درست ذہنی رویے (مائنڈسیٹ) ہیں۔ دوسری شرط کا تعلق قابلِ اعتماد اعداد و شمارکی فراہمی، فنی مہارت اور فیصلہ سازی کے مناسب نظام، پالیسی پرعمل درآمد، بروقت نگرانی کے بندوبست اور ناکامی، کوتاہی اور غلطی کے نتیجے میں درستی کے مؤثر عمل سے ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس سمت میں اس سب کے باوجود کوششیں ناکافی ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے ایک خودمختار اتھارٹی ہو، جسے اعلیٰ مہارت و دیانت کے حامل ماہرین چلائیں۔ یہ اتھارٹی اسمبلی کو براہِ راست جواب دہ ہو اور اس کی رپورٹیں اسمبلی میں باقاعدگی سے پیش ہوں جس طرح کہ اسٹیٹ بنک کی رپورٹیں پیش ہوتی ہیں۔

            ۲-         نئے ترقیاتی مثالیے کے لیے پلاننگ کمیشن کی تعمیرنو اور اصلاحی پروگرام ایک لازمی تقاضا ہے۔ منصوبہ بندی اور منصوبہ بندی کمیشن کا کردار واضح طور پر متعین ہونا چاہیے۔ اس کا تعلق معاشی اُمور میں ریاست کے کردار سے ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے بہت سا ابہام پایا جاتا ہے۔ ریاست کو مارکیٹ اکانومی کے متوازن بنانے میں فعال اور مثبت کردار ادا کرنا چاہیے، بلکہ مارکیٹ کی ناکامی کے بارے میں بھی محتاط رہنا چاہیے اور اس بات پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ سماجی مقاصد پوری طرح سے بروئے کار لائے جارہے ہیں یا سماجی و معاشی زندگی کو روندا جارہا ہے؟ حکومت کی مداخلت واضح طور پر طے شدہ ضابطوں کے تحت ہونی چاہیے تاکہ یہ افسرشاہی کی بے جا مداخلت، سُست روی، رشوت ستانی اور سیاسی کھیل کا آلۂ کار نہ بن سکے۔ طریقِ کار شفاف ہونا چاہیے اور احتساب کے نظام کو پوری طرح مستحکم ہونا چاہیے۔

            ۳-         نظام کی ایک اور کمزوری کا تعلق معاشی پالیسی سازی کے لیے مختلف سطح پرتحقیق کی سہولت کا موجود نہ ہونا ہے۔ اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ آزادانہ تحقیق کو فروغ دیا جائے اور اس بات کا انتظام کیا جائے کہ اس تحقیق کے نتائج حکومت اور اس کی ایجنسیوں کو، تعلیمی، تحقیقی اور کاروباری اداروں کو آسانی سے دستیاب ہوں۔ کونسل آف اکنامکس ایڈوائزرز کے وفاقی اور صوبائی سطح پر قیام کے بارے میں بھی سوچا جانا چاہیے۔ یونی ورسٹیوں اور نجی سطح پر قائم تحقیقی اداروں کو بھی تحقیقات مصلحت بینی کے بغیر شائع کرنی چاہییں۔ پالیسی سازی کے معیار کی بہتری صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب ان اُمور کو اداراتی سطح پر انجام دیا جائے۔ پھر یہ بھی اہم ہے کہ بیرونی ماہرین پر انحصار کو کم کیا جائے اور پالیسی آپشن اور قدروقیمت کا اندازہ لگانے (evaluation) کے عمل میں اضافہ کیا جائے۔

            ۴-         ایک اہم مسئلہ فیصلہ سازی اور ترقیاتی عمل میں عوام کی شمولیت ہے۔ کچھ اقتصادی ماہرین کا مشورہ ہے کہ ترقیاتی اُمور تین سیکٹر میں باہمی تعاون کے ساتھ انجام دیے جانے چاہییں___ عوامی، نجی، اور عوام اور حکومت کے مابین سول سوسائٹی کے اداروں کی شراکت داری اور انتظام کے ذریعے۔ ایثارپیشہ سیکٹر ایک بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسے ایک مناسب انداز میں ترقی، منصوبہ بندی اور انتظام و انصرام کے عمل سے مربوط کیا جاسکتا ہے۔ اس پہلو کو پوری طرح سے منظم اور مربوط کیا جائے۔

            ۵-         ایک بڑا پیچیدہ پہلو ریاست کے وفاقی کردار اور صوبائی اختیارات کے درمیان ابہام و اختلاف سے متعلق ہے۔ ترقی، منصوبہ بندی اور انتظامیہ اور ریاست کے مالیاتی ڈھانچے اور پالیسی سازی میں حد سے بڑھی مرکزیت (over- centralisation)پائی جاتی ہے۔ اس میدان میں تبدیلی کے لیے بنیادی فکر اور ڈھانچے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ یہ کام قومی ہم آہنگی کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔ اگر اس پہلو پر فوری طور پر توجہ نہ دی گئی تو اس کے ملک بالخصوص معیشت اور سیاسی اُمور پر سخت منفی اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔

            ۶-         عارضی (ایڈہاک ازم) اور قلیل مدت کے لیے منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے کلچر کا  مسلط رہنا بھی ایک چیلنج ہے۔ درمیانی مدت کی منصوبہ بندی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ملک زیادہ دیر تک اس طرزِعمل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

            ۷-         پاکستان کی ترقی کا مسئلہ شدید خسارے اور عدم توازن کے کچھ پہلوئوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرتا ہے۔ زراعت سے صنعت بشمول بھاری صنعت اور سروسز سیکٹر کی طرف ترقی کا سفر نشیب و فراز پر مبنی ہے۔ پاکستان کے سروسز سیکٹر میں توسیع نظر آتی ہے، لیکن یہ توسیع زراعت اورصنعتی سیکٹر میں متناسب توسیع اور معیار میں بہتری کے بغیر ہے۔ اشیا اور وسائل کے استعمال اور صَرف(consumption) کی اپنی حدود ہیں۔ اندرونِ ملک بچتوں (domestic savings) میں توسیع کے نتیجے میں لازماً سرمایہ کاری بڑھنی چاہیے،مگر اس میں شدید عدم توازن پایا جاتا ہے۔ پھر درآمد و برآمد میں عدم توازن کا مسئلہ بھی بُری طرح درپیش ہے۔ پائدار ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب پیداوار سیکٹر میں توسیع ہورہی ہو، پیداوار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہو، ملکی بچت اور سرمایہ کاری پر زیادہ انحصار ہو، انفراسٹرکچر میں مناسب سرمایہ کاری کی جائے اور ملکی پیداوار کو بیرونِ ملک فروخت کیا جائے۔ پاکستان کی تجارت، ادائیگی میں عدم توازن، مالیاتی خسارہ، قرض کا بڑھتا ہوا بوجھ اور افراطِ زر کا دبائو، نظام میں شدید بگاڑ اور کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔

            ۸-         سماجی شعبے کی ترقی، یعنی تعلیم، صحت، خوراک، مہارت کا فروغ اور انصاف کی فراہمی صحت مند اور پائدارترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ اسی قدر اہم ہے جیساکہ ترقی کی رفتار کی شرح اہم ہے۔ دراصل ان دونوں کے درمیان ایک باہمی تعلق پایا جاتا ہے اور یہ دونوں طرح سے کام کرتا ہے۔ معاشی ترقی، سماجی ترقی کے لیے وسائل فراہم کرتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ سماجی ترقی بھی اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑا بنیادی عنصر ہے۔ صحت، تعلیم، مہارت میں فروغ اور جدوجہد کے لیے سرگرم جذبہ ترقی کے فروغ کے لیے اہم عناصر ہیں۔ لہٰذا، نیامثالیہ جس کی سفارش کی جارہی ہے، یہ trickle-down ماڈل سے نمایاںفرق ظاہر کرتا ہے اور سماجی ترقی کو معاشی ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں کا مرکز بنا دیتا ہے۔

            ۹-         قومی خودانحصاری کا حصول اس بحث کا مرکزی پہلو ہے۔ خودانحصاری کا مطلب معاشی خودکفالت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو بیرونی قوتوں اور بیرونی اداروں اور حکومتوں پرانحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کو اپنے قومی مقاصد اور اغراض کے پیش نظر اپنی ترجیحات اور پروگراموں کا تعین کرنا چاہیے۔ دوسروں پر انحصار کرنے کے مختلف پہلو ہیں جن میں فہم و دانش، سیاسی، اقتصادی، ٹکنالوجی اور ثقافتی پہلو شامل ہیں۔ یہ تمام پہلو آپس میں مربوط ہیں۔ عالم گیریت کا مطلب لازماً خودانحصاری کا نقصان یا نظریاتی اور ثقافتی تشخص سے محرومی نہیں ہے۔ یہ مکمل خودانحصاری کے ساتھ ایک ملک کا عالم گیریت کے اثرات سے مستفیدہونا اور اس کے مضر اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔ بیرونی سرمایے پر بہت زیادہ انحصار اور بڑےپیمانے پر بیرونی قرضوں کا حصول، خودانحصاری سے مطابقت نہیں رکھتا۔

                        پاکستان کے پاس ایک بہت اہم اثاثہ (resource) ہے، جسے قومی اقتصادی ترقی کے لیے پوری طرح سے استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ اثاثہ بیرونِ ملک موجود پاکستانی ماہرین، پاکستانی ذہانت (Intellect) اور جوہرِقابل ہے۔ اسی طرح بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلات (Remittences) ایک بہت قیمتی مالیاتی سرمایہ ہیں، جو بدقسمتی سے بڑی حد تک روزمرہ مصرف کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ حالانکہ ان کا ایک قابلِ ذکر حصہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہونا چاہیے، تاکہ بیرونِ ملک کام کرنے والوں اور ان کے خاندان کے لیے ایک مستقل آمدن کا ذریعہ بن سکے، اور ملک کی معاشی ترقی میں بیرونی قرض کی جگہ اپنے لوگوں کے وسائل استعمال ہوسکیں۔ ان خداداد اور قیمتی ذرائع سے مؤثر اور مفید انداز میں استفادے کے لیے مناسب حکمت عملی کی تیاری ایک بڑا چیلنج بھی ہے اور ایک تاریخ ساز موقع بھی۔

            ۱۰-       عوام کا معاشی اور سیاسی عمل میں شرکت ایک فیصلہ کن مسئلہ ہے، جسے ترقیاتی مساعی کے ایک لازمی حصے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اقتصادی ترقی، آزادی اور جمہوریت پوری طرح باہم مربوط ہیں۔ بھارتی نوبیل انعام یافتہ ماہرمعاشیات امریتاسین (Amartaya Sen) کا بنیادی کام اس ضمن میں بہت مناسبت رکھتا ہے۔ (دیکھیے: Development as Freedom، نیویارک، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۹ء)

عوام کی شمولیت، آزادیِ اظہار ، اختلافِ رائے اور تنظیم اور پارلیمنٹ کی بالادستی ایک کامیاب ترقیاتی مثالیے کے بنیادی اجزا ہیں۔ عوام کی شرکت کا ایک اور اہم پہلو انھیں ترقیاتی عمل میں ایک حقیقی نگہدار (stakeholder) بناناہے۔ روزگار کی فراہمی، سیلف ایمپلائمنٹ کی تخلیق اور مفید روزگار کی فراہمی کے مواقع میں متواتر اضافہ، اس سکّے کا دوسرا رُخ ہے۔

پاکستان کی مستقبل کی معاشی ترقی کی حکمت عملی ان دس نکات کے تناظر میں بنائی جانی چاہیے۔ اس خواب کی تعبیر ایک نئے مثالیہ کی تشکیل اور اس کی ترویج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے نتیجے میں قوم اس قابل ہوسکے گی کہ وہ اپنے ذرائع سے پوری طرح مستفید ہوسکے اور پاکستان جس مقصد کی تکمیل کے لیے قائم کیا گیا تھا، وہ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکے۔

اقبال اور قائداعظم کا تصورِ معیشت

اس تناظر میں یہ مفید ہوگا کہ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصورات کو ایک بار پھر تازہ کیا جائے۔اقبال کہتے ہیں:

چیست قرآں، خواجہ را پیغامِ مرگ
دست گیر بندۂ بے ساز و برگ

قرآن کیا کہتا ہے؟ یہ امیروں کے لیے، وہ امیر لوگ جنھوں نے دولت کو اپنا خدا بنا لیا ہے، موت کا پروانہ ہے۔ قرآن ان لوگوں کا مددگار ہے جو وسائل زندگی نہیں رکھتے۔ اس کا مشن غریبوں کو بلند کرنا اور ان کو طاقت ور بنانا ہے۔

کس نہ باشد درجہاں محتاج کس
نکتۂ شرع مبین ، این است و بس

اسلامی شریعت کا مقصد انسان کی دوسرے انسان پرمحتاجی کو ختم کرنا ہے۔ کسی کو دوسروں کا دست نگر نہ رہنا چاہیے۔ یہ وہ مقصد ہے جس کی تکمیل شریعت کے پیش نظر ہے۔

یہی وہ مشن تھا جس کی طرف علامہ اقبال نے قائداعظم محمدعلی جناح کو اپنے انتقال سے تقریباً ایک سال قبل خط میں متوجہ کیا۔ ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کو انھوں نے اپنے اس خط میں قائداعظم کو لکھا:

ہمارے سیاسی اداروں نے عام مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہوتا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ گذشتہ دوسوسال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ عام مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا غربت کی وجہ ہندو کی سودخوری اور سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے۔ یہ احساس کہ غیرملکی حکومت بھی اس افلاس میں برابر کی حصہ دار ہے۔ ابھی پوری طرح ذہنوں میں نہیں اُبھرا، لیکن آخرکار ایسا ہو کر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کبھی مقبول نہ ہوسکےگی۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے؟ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے؟ اگر اس امر میں مسلم لیگ نے کوئی اُمید نہ دلائی تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون (شریعت) کے نفاذ سے اس مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔

اسلامی قانون کے طویل اور گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو کم از کم ہرشخص کے لیے حقِ معاش محفوظ ہوجاتا ہے۔ لیکن جب تک اس ملک میں ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں معرض وجود میں نہیں آتیں، اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور روٹی کا مسئلہ اور ہند میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ (اقبال اور قائداعظم ،مرتبہ: پروفیسر احمد سعید، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۱۰۴-۱۰۵)

قائداعظم نے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے تیسویں سالانہ اجلاس (۲۴؍اپریل ۱۹۴۳ء، دہلی) میں پاکستان کے پیش نظر اقتصادی امور کا ذکر کرتے ہوئے واضح طور پر کہا:

میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کردینا چاہتا ہوں، جو ہمارا خون چُوس کر ایسے نظام کے تحت پلے بڑھے جو اس قدر خبیث اور اس قدر فاسد ہے، جو انھیں اس درجہ خودغرض بنادیتا ہے کہ ان کے ساتھ معقول بات کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ عوام کا استحصال ان کی رگ و پے میں داخل ہوگیاہے، وہ اسلام کی بنیادی تعلیم کو فراموش کربیٹھے ہیں۔ ان لوگوں کی حرص اور خودغرضی نے دوسروں کے مفادات کو اپنے تابع کرلیا ہے، تاکہ وہ موٹے ہوتے رہیں۔ یہ درست ہے کہ آج ہم اقتدار میں نہیں ہیں۔ آپ کہیں بھی دیہات کی طرف نکل جائیں۔ میں گائوں میں گیا ہوں۔ ہمارے لوگوں میں لاکھوں ایسے ہیں، جنھیں رات کو روٹی کھانا بھی نصیب نہیں ہے۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا پاکستان کا یہ مقصد ہے؟ کیا آپ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں کا استحصال کیا گیا اور انھیں دن میں ایک بار بھی روٹی نہیں ملتی؟ اگر پاکستان کا تخیل یہ ہے تو میں ایسا پاکستان نہیں لوں گا۔ اگر ان میں عقل ہے تو انھیں خود کو زندگی کے نئے اور جدید حالات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھراللہ ہی ان کی مدد کرے تو کرے، ہم تو ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔ لہٰذا، ہمیں خود پر اعتماد ہونا چاہیے۔ ہمیں ڈگمگانا چاہیے اور نہ ہچکچانا، یہ ہماری منزل ہے، جسے ہمیں حاصل کرنا ہے۔(Speeches, Statements & Messages of The Quaid-e-Azam، جلد۲، مرتبہ: خورشیداحمد خاں یوسفی، بزمِ اقبال، لاہور)

قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے بعدایک درجن سے زائد تقاریر میں سماجی انصاف کے حصول کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وہ محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے اس قدر فکرمند تھےکہ  ۲۷ستمبر ۱۹۴۷ءکو ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے، انھوں نے صنعتی اور زرعی ترقی پر زور دیتے ہوئےواضح طور پر کہا:

اپنے ملک میں صنعت کاری کے ذریعے ہم اشیائے صرف کی فراہمی کے لیے بیرونی دنیا پر انحصار کم کرسکیں گے،لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرسکیں گے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ کرسکیں گے۔ قدرت نے ہمیں صنعت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے ملک اور عوام کے بہترین مفاد کے لیے استعمال کریں…مجھے یہ بھی اُمید ہے کہ آپ نے فیکٹری کا منصوبہ بناتے وقت کارکنوں کے لیے مناسب رہایش گاہوں اور دیگر سہولتوں کا بھی اہتمام کیا ہوگا کیونکہ مطمئن کارکنوں کے بغیر کوئی صنعت پنپ نہیں سکتی۔ (ایضاً، جلدچہارم، ص۲۶۲۲)

پاکستان کے اقتصادی مقاصد کے بارے میں ان کے وژن کا بڑا واضح اظہار، قوم سے ان کے آخری خطاب میں ہوتا ہے۔ یہی وہ موقع تھا، جب انھوں نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ انھوں نے فرمایا:

حکومت پاکستان کی حکمت ِعملی یہ ہے کہ قیمتوں کو ایسی سطح پر مستحکم کردے جو تیار کنندہ اور صارف دونوں کے لیے منصفانہ ہو۔ مجھے اُمید ہے کہ اس اہم مسئلہ کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے کے لیے آپ کی کوششیں اس پہلو کا لحاظ رکھیں گی۔

آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا، میں اس کا دلچسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے انسانوں کے لیے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچاسکے، جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دُورکرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس گذشتہ نصف صدی میں دوعالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اسی کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوجود جس بدترین ابتری کی شکارہے، وہ اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف اسلام ہی اسے بچاسکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسّرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ (The Civil & Military Gazette، ۲جولائی ۱۹۴۸ء، بحوالہ ایضاً، خورشیداحمد خاں یوسفی،بزمِ اقبال لاہور، جلدچہارم، ص ۲۷۸۵-۲۷۸۸)

دستورِ پاکستان کی دفعات

یہ اقتصادی تصورات اور تصورِ پاکستان، دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باب دوم میں درج ہیں اور پالیسی کے لیے اصول فراہم کرتے ہیں:

اسلامی طریق زندگی

دفعہ ۳۱  (۱) پاکستان کے مسلمانوںکو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآنِ پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔

(۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:

(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قراردینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا، اورقرآنِ پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔

(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور

(ج) زکوٰۃ، عشر ، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

معاشرتی انصاف کا فروغ   اور معاشرتی بُرائیوں کا خاتمہ

دفعہ ۳۷، مملکت:(الف) پسماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔

(ب) کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔

(ج) فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابلِ دسترس بنائے گی۔

(د) سستے اور سہل الحصول انصاف کو یقینی بنائے گی۔

(ہ)منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر یا جنس کے نامناسب ہوں، مقرر کرنے کے لیے، اور ملازم عورتوں کے لیے زچگی سے متعلق مراعات دینے کے لیے احکام وضع کرے گی۔

(و)مختلف علاقوں کے افراد کو تعلیم، تربیت، زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہرقسم کی قومی سرگرمیوں میں جن میں پاکستان میں ملازمت کی خدمت بھی شامل ہے، پورا پورا حصہ لے سکیں۔

عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا فروغ

دفعہ ۳۸، مملکت: (الف) عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کرکے دولت اور وسائلِ پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے اور آجرو ماجور اور زمین دار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہود کے حصول کی کوشش کرے گی۔

(ب) تمام شہریوں کے لیے ملک میں دستیاب وسائل کے اندر معقول آرام و فرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی۔

(ج) پاکستان کی ملازمت میں یا بصورتِ دیگر ملازم تمام اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔

(د) ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں، بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل ، بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلاً خوراک، لباس،رہایش، تعلیم اور طبّی امداد مہیا کرے گی۔

(د) ربا کو جتنی جلد ممکن ہو، ختم کرے گی۔

دستورِ پاکستان کے یہ واضح احکامات ہیں اور دستور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہرسال قومی اسمبلی کو بتایا جائے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے کیا پیش رفت ہوئی ہے اور کیا اقدامات اُٹھائے گئے ہیں؟ لیکن یہ وہ کام ہے جس کی حکومت کبھی فکر نہیں کرتی اور یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پارلیمنٹ اس سلسلے میں مؤثر احتساب کے باب میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔

نئے مثالیـے کی تشکیل

یہاں پیش کی گئی سفارشات کی روشنی میں ہم اس بات کا مشورہ بھی دیں گے کہ نئے مثالیے میں درج ذیل باتوں کی طرف خاص طور پر توجہ مرکوز رکھی جائے:

            ۱-         قدرت نے انسان اور اس کے ماحول کو جو وسائل فراہم کیے ہیں، ان کی بہترین نشوونما کے ساتھ اُنھیں استعمال کیا جائے۔

            ۲-         ان کی اس طرح سے منصفانہ تقسیم اور استعمال ہو کہ تمام انسانی تعلقات کا فروغ اور تنظیم عدل اور احسان کی بنا پر ہو۔

            ۳-         متوازن اور پائدار ترقی، وسائل کے ضیاع اور غلط استعمال سے اجتناب، ظلم اور انسانوں کے استحصال کا خاتمہ کیا جائے۔ مالی اور قیمتوں میں استحکام کے ذریعے افراد کے درمیان، علاقوں کے درمیان، شعبہ جات کےدرمیان اور قومی سطح پر مساوات کا حصول ممکن بنایا جائے۔

            ۴-         خودانحصاری کے اعلیٰ مقام کا حصول بشمول اُمت کی اجتماعی خود انحصاری، حقیقی تکثیریت پر مبنی ایک عالمی نظام کا وژن، جس کے نتیجے میں تمام اقوام اور ثقافتوں کا مل جل کر رہنا ممکن ہو اور وہ ایک منصفانہ عالمی نظام میں باہمی مقابلے اور تعاون کے ساتھ رہ سکیں۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے ترقیاتی حکمت عملی کو درج ذیل اوصاف پر مشتمل ہونا چاہیے:

            ۵-         ترقیاتی حکمت عملی کو اخلاقی،روحانی اور مادی پہلوئوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔

            ۶-         ترقیاتی اہداف __ پیداوار میں اضافے کے لیے جدت و ندرت کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی سے کوشش اور اس بات کو پیش نظر رکھنا کہ اس سے تمام لوگوں کی ضروریات کی فراہمی اور بہتری یقینی ہو، اور ایک مضبوط، ترقی پذیر اورنشوونما پانے والی معیشت کا قیام عمل میں آئے۔

            ۷-         دُنیا میں اچھی زندگی کا حصول، آخرت میں ایک کامیاب زندگی کا وسیلہ ہونا چاہیے۔

            ۸-         محرک ___ اخلاقی محرکات مادی جزا و سزا کے ساتھ۔ ذاتی اصلاح سماجی و اخلاقی ذمہ داری اور جواب دہی کے ساتھ۔

            ۹-         اخلاقی فلٹر اور سماجی فلٹر کا نظام جو صَرف، پیداوار اور فیصلہ سازی کے تمام مراحل پر مارکیٹ کے نظام کو درست رکھنے کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کرے۔

            ۱۰-       فرد کی مرکزیت اور فلاح و بہبود کی حامل سوچ کارفرما ہونا، پیداوار اور صَرف کو مفید اور ثمرآور بنانا چاہیے۔ اجتماعی معاملات کا نظام ماحول دوست ہونا چاہیے۔

            ۱۱-       جائیداد بطورِ ٹرسٹ ___ نجی ملکیت کا حق اور منافع کا حصول، سماجی و اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ۔یہ ایک انقلابی تصور ہے، جو سرمایہ کاری کو سرمایہ پرستی سے محفوظ رکھتا ہے۔

            ۱۲-       مالیاتی ڈھانچے کی تشکیل نو میں سود کا یقینی خاتمہ اور ارتکازِ دولت میں کمی۔

            ۱۳-انصاف کی فراہمی بشمول منصفانہ تنخواہ، آمدنی اور شراکت، رقم کی منتقلی اور مبنی بر عدل وراثت کی تقسیم۔

            ۱۴-حکومت کا مثبت اور بامقصد کردار۔

            ۱۵-معیشت اور اس سے متعلق اُمور کی اَزسرنو تشکیل، محض مالیاتی سیکٹر میں اصلاحات نہ ہوں۔

            ۱۶-       پاکستان کی خودانحصاری اور بحیثیت مجموعی اُمت کی خودانحصاری___ معاشی تعاون اور عالم گیریت کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے یک جہتی کا اظہار اور اس کے لیے مواقع کو استعمال کرنا۔

اُمید ہےکہ مندرجہ بالا اقدامات کی روشنی میں حکومت، تحقیقی اداروں اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے پاکستان کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے ایک سنجیدہ اور پائدار کوشش کی جائے گی تاکہ جس مقصدکے لیے یہ ملک قائم کیا گیا تھا، وہ پورا ہوسکے اور ہمارے عہد میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے جدوجہد کو ایک نئی مہمیز دینے کا باعث بن سکے۔

وہ اسلامی معاشرہ، جو مدینہ منورہ میں پہلی مرتبہ وجود میں آرہا تھا، اس کے لیے کئی اجتماعی احکام سورۃ البقرہ میں بیان ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ فرض عبادات کا ذکر ہے۔ دونوں قسم کے احکام، سورت میں ایک مجموعے کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور دونوں ’تقویٰ اور خشیت الٰہی ‘ سے مربوط ہیں۔ اجتماعی احکام ہوں یا عبادات کی تفصیلات، دونوں کے ذکر کے بعد تقویٰ کا ذکر یکساں طور پر اور مسلسل آیا ہے۔ نیز یہ دونوں قسم کے احکام آیت ’بر‘ کے بعد، جو ایمانی فکرکے بنیادی اصولوں اور عملی رویے کے بنیادی احکام پر مشتمل ہے، بیان ہوئے ہیں۔

اسی سلسلے کی آیات ۱۷۸ تا ۱۸۸ ہیں۔ ان میں مقتولین کے قصاص اور اس کے سلسلے کے احکام کا تذکرہ ہے۔ ان میں موت کے وقت وصیت کرنے کا بیان ہے، پھر فریضۂ صوم اور دُعا اوراعتکاف جیسی عبادات کا ذکر ہے، اور آخر میں مالی مقدمات کے سلسلے کے احکام ہیں۔

ان اُمور کا مسلسل ذکر اس دین کی جس حقیقت کی طرف ہمارے ذہن کو متوجہ کرتا ہے، وہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دین ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ اس کے اجتماعی احکام، اس کےتشریعی اصول اور اس کی عبادات، سب کے سب اسلام کے عقیدے ہی سے پھوٹتے ہیں۔ سب اس کُلی فکر سے، جو اس عقیدے سے پیدا ہوتی ہے، نکلتے ہیں۔ اور سب اللہ سے تعلق کی ایک رسّی سے بندھے ہوئے ہیں۔ ان سب کی غایت ایک ہے اور وہ ہے واحد اللہ کی عبادت، جس نے پیدا کیا، جو رزق دیتا ہے، اور جس نے انسانوں کو اپنی اس مملکت ’زمین‘ میں اپنا ’خلیفہ‘ بنایا اور ’خلافت‘ کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا کہ وہ اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان لائیں، اس کی عبادت بجا لاکر اسی کی طرف متوجہ ہوں، اور اپنی فکر، اپنےاجتماعی احکام اور اپنے قوانین، سب اسی سے حاصل کریں۔

تقویٰ وہ مضبوط رسّی ہے، جو انسانی نفوس کو ظلم و زیادتی سے روکے رکھتی ہے۔ ظلم و زیادتی قتل کے اقدام کی صورت میں ہو، ظلم یا قتل کا بدلہ لینے کی صورت میں۔ یہ تقویٰ کیا ہے؟ دلوں کا احساسِ ذمہ داری، اللہ کے غضب سے بچنے کی فکر اور اس کی رضا اور خوشی کی طلب ہے۔

تقویٰ کے بغیر نہ شریعت قائم ہوسکتی، نہ کوئی قانون کامیابی سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔ پھر اجتماعی قوانین اور ادارے، جو احساسِ ذمہ داری اور خوف اور اجر کے جذبات سے عاری ہوں، فرد کی قوت سے زیادہ قوت کے حامل نہیں ہوسکتے۔

روزے کا مقام اور مقصد

یہ ایک فطری بات ہے کہ جس اُمت پر اللہ کے نظام کو دُنیا میں قائم کرنے، اور اس کے ذریعے نوعِ انسانی کی قیادت کرنے اور انسانوں کے سامنے حق کی گواہی دینے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ فرض کیا جائے، اس پر روزہ فرض ہو۔ روزے ہی سے انسان میں محکم ارادے اور پختہ عزم کا نشوونما ہوتا ہے۔ روزہ ہی وہ ذریعہ ہے، جہاں بندہ اپنے ربّ سے اطاعت و اختیار کے ساتھ مربوط ہوتا ہے۔ پھر روزہ ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان تمام جسمانی تقاضوں کی طلب پر قابو پاتا اور تمام دشواریوں اور زحمتوں کو اس لیے اُٹھاتا ہے، برداشت کرنے کی قوت حاصل کرتا ہے کہ اس کا خدا اس سے راضی ہو اور خدا کے یہاں سے اجر حاصل ہو۔

حقیقت میں یہ راہ جو گھاٹیوں اور کانٹوں سے بھری ہوئی ہے، جس کے چاروں جانب مرغوبات و لذائذ بکھرے پڑے ہیں، اور جس پر چلنے والوں کو بہکانے والی ہزارہا صدائیں مسلسل اُٹھتی رہتی ہیں ___ان سے منہ موڑنے اور فطری تقاضوں میں نظم و ضبط پیدا کرنے اور نفوسِ انسانی کی تیاری کے مقصد کے لیے یہ عناصر لازمی و ناگزیر ہیں۔

روزے کے وہ فوائد اس کے علاوہ ہیں، جو تجربے اور مشاہدے سے جسمانی وظائف میں منکشف ہوتے ہیں۔ میرا ذاتی میلان یہ ہے کہ عبادت کے سلسلے میں خدائی ہدایات کو حسی و مادی فوائد سے وابستہ نہ کیا جائے۔ کیونکہ ان ہدایات میں خدا کی اصل حکمت یہ ہے کہ انسانی وجود کو زمین میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیارکیا جائے، اور اُخروی زندگی میں اس کے لیے جو کمال مقدر ہے، اس کے لیے اس کی تربیت کی جائے۔

اس کے باوجود میں اسے پسند نہیں کرتا کہ ان فرائض اور ان خدائی تعلیمات کے جو فوائد مشاہدے میں آئے ہیں ، یا جن کا انکشاف علمِ انسانی سے ہوا ہے ، ان کا انکار کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کے لیے جو فرائض متعین کرتا ہے اور جن اُمور کی وہ ہدایت دیتا ہے، ان سب میں اس انسانی وجود کے لیے خدائی تدبیر کی بہت سی مصلحتیں ہیں، اور ان میں یہ فوائد بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہم خدائی احکام کی حکمت کو انسانی علم کے ان انکشافات سے وابستہ نہیں کرسکتے۔ اس انسانی علم کا دائرہ بہرحال محدود ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ، جس کے تحت خالق انسانی وجود کی تربیت کر رہا ہے یا جس کے تحت اس کائنات کو پروان چڑھا رہا ہے ___احاطہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ روزے کے احکام کی ابتدا ’’اے ایمان والو!‘‘ کی اس ندا سے کرتا ہے جو اہلِ ایمان کو محبوب ہے۔ اس ندا سے وہ انھیں ان کی اصل حقیقت یاد دلاتا اور انھیں بتاتا ہے کہ روزہ ایک قدیمی فریضہ ہے جو ہرخدائی شریعت میں اہلِ ایمان پر فرض رہا ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ اُمید ہے کہ تم خداترس بنو گے۔

اس آیت سے روزے کی عظیم غرض و غایت سامنے آتی ہے۔ یہ تقویٰ ہے! تقویٰ دل میں زندہ و بیدار ہو تو مومن روزہ کے فریضے کو اللہ کی فرماں برداری کے جذبے کے تحت، اس کی رضاجوئی کے لیے ادا کرتا ہے۔ تقویٰ ہی دلوں کا نگہبان ہے۔ وہی معصیت سے روزے کو خراب کرنے سے انسان کو بچاتا ہے، خواہ یہ دل میں گزرنے والا خیال ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن کے اوّلین مخاطب جانتے تھے کہ اللہ کے یہاں تقویٰ کا کیا مقام ہے اور اس کی میزان میں تقویٰ کا کیا وزن۔ یہی ان کی منزلِ مقصود تھی، جس کی طرف ان کی روحیں لپکتی تھیں۔ روزہ اس کے حصول کا ذریعہ اور اس تک پہنچانے کا راستہ ہے۔ قرآن اس تقویٰ کو منزلِ مقصود کی حیثیت سے ان کے سامنے رکھتا ہے تاکہ روزے کے ذریعے سے وہ اس منزل کا رُخ کرسکیں: لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔

قرآن، اس کے بعد، نفسِ انسانی کو روزہ سے مانوس کرنے کے لیے، واضح کرتا ہے کہ روزے ہمیشہ کے لیے اور عمربھر نہیں رکھنے ہیں، صرف چند دن کے روزے ہیں۔ اس کے ساتھ بیماروں کو___جب تک وہ صحت یاب نہ ہوجائیں اور مسافروں کو جب تک وہ مقیم نہ ہوجائیں روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے، تاکہ وہ دشواری میں نہ پڑیں۔

پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ سفر اور مرض کے علاوہ ہرحال میں روزہ رکھیں، خواہ انھیں تکلیف اور مشقت سے دوچار ہونا پڑے:

وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۴ (البقرہ ۲:۱۸۴) تم روزہ رکھو، یہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم علم (وفہم) رکھتے ہو۔

روزہ ہر حالت میں سرتاسر خیر ہے۔ روزہ کے سلسلے میں جو بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ روزہ ارادے کی تربیت، قوتِ برداشت کی تقویت اور راحت و آرام کے مقابلے میں اللہ کی عبادت کو ترجیح دینے کے لیے ہے، اوریہ سب اُمور اسلامی تربیت میں مطلوب ہیں۔ غیرمریض کے لیے روزے میں صحت کے پہلو سے جو فوائد ہیں، وہ مزیدبرآں ہیں۔ اس لیے خواہ روزہ دار کو تکلیف اور مشقت محسوس ہو، روزہ ہی اس کے لیے بہتر ہے۔

رمضان کی اہمیت

اللہ تعالیٰ تندرست اور مقیم کے لیے اس فریضے کی ادائیگی کو ایک اور پہلو سے بھی مرغوب و محبوب بناتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ رمضان کے روزے ہیں۔ اس مہینے کے روزے جس میں قرآن نازل ہوا۔ وہ قرآن جو اس اُمت کی دائمی و ابدی کتابِ ہدایت ہے، جو اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائی۔ جس نے اسے یہ وجود عطا کیا، جس نے اس کے خوف و ہراس کو امن و امان سے بدل دیا۔ جس نے اسے زمین میں غلبہ و اقتدار بخشا اور جس نے اسے وہ تمام بنیادی عناصر عطا کیے، جن سے وہ ایک اُمت بنی۔ قرآن سے پہلے وہ کچھ بھی نہ تھی اور ان بنیادی عناصر کے بغیر وہ ایک اُمت نہیں رہتی۔ نہ زمین میں اس کا کوئی مقام رہتا اور نہ آسمان میں اس کا کوئی ذکر۔ قرآن کی اس نعمت کا کم سے کم شُکر یہ ہے کہ ہم اس مہینے کے روزے رکھیں جس میں قرآن نازل ہو:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ انسانوں کے لیے سرتاسر ہدایت۔ جس میں راہِ راست کے واضح دلائل اور (حق و باطل کے درمیان) فرق و امتیاز کرنے والی تعلیمات ہیں۔ تو تم میں سے جو کوئی یہ مہینہ پائے وہ اس (مہینے) کے روزے رکھے۔

دین آسان ہـے!

قرآن اس فریضہ کی ادائیگی کا شوق دلاتے ہوئے اس حکم کے دینے اور رخصتیں عطا کرنے، میں اللہ کی یہ رحمت بیان کرتا ہے:

يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۝۰ۡ(البقرہ ۲:۱۸۵) اللہ تمھارے لیےسہولت چاہتا ہے، تمھیں دشواری میں ڈالنا نہیں چاہتا۔

اس عقیدے اور اس دین کے تمام احکام کے سلسلے کا یہ ایک عظیم قاعدہ ہے کہ یہ سب احکام آسان ہیں، ان میں کوئی دشواری نہیں۔ ہر باذوق دل یہ بخوبی محسوس کرتا ہے کہ پوری زندگی میں یہ احکام سہولت اور نرمی کے حامل ہیں۔ یہی نہیں، یہ احکام مسلمان فرد پر سہولت اور فراخی کی چھاپ لگادیتے ہیں، جس میں کوئی تکلف اور پیچیدگی نہیں ہوتی۔ نرمی اور فراخی کی اس خصوصیت کے ساتھ تمام ذمہ داریاں، تمام فرائض اورسنجیدہ زندگی کی تمام سرگرمیاں حُسن و خوبی کے ساتھ اس طرح ادا ہوتی ہیں گویا کہ پانی اپنی گزرگاہ میں آسانی کے ساتھ بہہ رہا ہے، یا ایک درخت ہے جو اُوپر کی جانب بڑھتا اور نشوونما پاتا چلا جارہا ہے۔ اور یہ سب کچھ طمانیت ، اعتماد اور اللہ کی رضا و خوشنودی کی فضا میں ہوتا ہے۔ اس میں بندے کو اللہ کی رحمت کا مسلسل شعور رہتا ہے کہ اللہ اپنے مومن بندوں کے لیے سہولت پیدا کرتا ہے، انھیں دشواری میں ڈالنا نہیں چاہتا۔

روزہ پر شُکر

روزہ درحقیقت ایک ایسی نعمت بھی ہے جس پر خدا کی بڑائی کرنا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے:

وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۸۵   (البقرہ ۲:۱۸۵) اور تم اللہ کی کبریائی کا اعتراف کرو اس بات پر کہ اس نے تمھیں ہدایت سے نوازا۔ اور اُمید ہے کہ تم (اس کا) شکر ادا کرو گے۔

اس لیے کہ روزہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ اہلِ ایمان اس ہدایت کی قدروقیمت کا احساس کریں، جو اللہ نے انھیں عطا کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ روزے کے زمانے میں اہلِ ایمان، ہرزمانے سے زیادہ اس ہدایت کی قدر و قیمت کو اپنے نفوس میں محسوس کرتے ہیں۔ روزے کی حالت میں  ان کے دل خدا کی نافرمانی سے اور ان کے اعضاء و جوارح گناہ کے ارتکاب سے رُکے ہوتے ہیں۔ انھیں خدا کی ہدایت کا اس طرح زندہ احساس ہوتا ہے گویا کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے   چھو رہے ہوں۔ اور یہ سب اس لیے کہ وہ اس ہدایت پر اللہ کی کبریائی کا اعتراف اور اس عظیم نعمت کی عطا پر اس کا شکر ادا کریں، اور روزے کےذریعے ان کے دل خدا کی طرف رجوع ہوں۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ روزہ، جو بظاہر جسم اور نفسِ انسانی پر شاق ہے، اللہ کی عظیم نعمت ہے، اور اس کی غرض اور مقصد مومن کی تربیت ہے، اور اُمت مسلمہ کو اس رول کے ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہے، جسے ادا کرنے کے لیے وہ برپا کی گئی ہے۔ اس رول کی ادائیگی کی حفاظت تقویٰ، اللہ کے نگران و نگہبان ہونے کے شعور اور ضمیر کے احساسِ ذمہ داری سے ہوتی ہے۔

روزے کا عظیم اجر ___ قربِ الٰہی

قبل اس کے کہ روزے کے اوقات، اور روزے میں مختلف چیزوں سے متمتع ہونے اور ان سے باز رہنے کے تفصیلی احکام بیان ہوں، ہم درمیان میں ایک بڑی منفرد آیت پاتے ہیں۔ یہ آیت دل کی گہرائیوں میں اُترتی چلی جاتی ہے۔ اس آیت میں ہم روزے کی مشقت کا پورا اور اللہ کی دعوت پر لبیک کہنے کا پورا اجر پاتے ہیں۔ یہ جزا کیا ہے؟ اللہ کا قرب، اور اس کا ہماری دُعائوں کو قبول فرمانا۔ اس حقیقت کی تصویرکشی ایسے صاف شفاف اور چمکتے الفاظ سے کی گئی ہے:

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶  (البقرہ ۲:۱۸۶)جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں پوچھیں تو میں قریب ہی ہوں۔ میں پکارنے والے   کی پکار کا، جب وہ مجھے پکارتا ہے، جواب دیتا ہوں۔ تو انھیں چاہیے کہ وہ میری پکار پر لبیک کہیں اور مجھ پر یقین رکھیں۔ اُمید ہے وہ راہِ راست اختیار کرسکیں گے۔

’’میں قریب ہی ہوں! میں پکارنے والے کی پکار کا، جب وہ مجھے پکارتا ہے، جواب دیتا ہوں‘‘ ___کتنی نرمی، کتنی شفقت، کتنی محبت، کتنا انس اور کتنا نُور ہے، ان الفاظ میں۔ اس محبت، اس شفقت اور اس قرب کے مقابلے میں روزے کی مشقت کی کیا حیثیت ہے؟ آیت کے ایک ایک لفظ سے یہ محبوب طراوت اور ٹھنڈک ٹپکی پڑتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بندوں کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے۔ میرے بندے نے کہا اور سوال کا جواب براہِ راست خود دیا۔ یہ نہیں فرمایا: ’’ان سے کہو، میں قریب ہوں‘‘۔ اس کے بجائے اللہ کی ذات گرامی نے سوال کرنے پر اپنے بندوں کو خود ہی جواب عطا فرمایا کہ ’’میں قریب ہوں‘‘۔ اسی طرح یہ نہیں فرمایا کہ ’’میں دُعا کو سنتا ہوں‘‘۔ اس کے بجائے قبولیت ِ ِ دُعا کا اعلان کیا کہ ’’میں دُعا کرنے والے کی دُعا کو، جب وہ مجھ سے دُعا کرتا ہے، قبول کرتا ہوں‘‘۔

یہ عظیم الشان آیت مومن کے قلب میں شیریں طراوت، انس و محبت، رضا و طمانیت اور اعتماد و یقین کو انڈیل دیتی ہے، اور اس کے نتیجے میں مومن کی زندگی اطمینان و سکون اور محبت و قربت سے لبریز ہوتی اور مومن کو ایک پُرامن جائے پناہ اور پُرسکون جائے قرار نصیب کرتی ہے۔

اس محبت، اس پُرخلوص قرب اور خدا کی طرف سے قبولیت ِ ِ دُعا کی اس بشارت کے سائے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو متوجہ فرماتا ہے کہ وہ اس کی دعوت پر لبیک کہیںاور اس پر یقین رکھیں۔ اُمید ہے کہ یہ روش ان کی ہدایت و رُشد اور خیروصلاح کا ذریعہ بنے گی۔

اللہ کی دعوت پر لبیک کہنے اور اس پر ایمان و یقین رکھنے کا آخری ثمرہ بندوں ہی کے لیے ہے۔ یہ ثمرہ ہے رُشد و ہدایت اور خیروصلاح کا۔ ورنہ اللہ تو اہلِ جہاں اور ان کی عبادت و اطاعت سے بے نیاز ہے۔

اللہ پر ایمان و یقین اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے سے جو رُشد پیدا ہوتی ہے ، رُشد بس وہی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے نوعِ انسانی کے لیے جو خدائی نظام پسند کیا ہے وہ واحدصحیح، راست اور معتدل نظام ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ جاہلیت و حماقت ہے، جسے نہ کوئی سمجھ دار اور راست رو انسان پسند کرسکتا ہے اور نہ وہ رُشد و ہدایت کی طرف لے جانے والا ہے۔ اور اللہ کے یہاں سے بندوں کی دُعائوں کی قبولیت کی اُمیداسی وقت کی جاسکتی ہے، جب کہ بندے اس کی دعوت پر لبیک کہیں، اور راہِ راست پر گامزن ہوں۔ بندوں کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ سے دُعا کریں، اور اس کی قبولیت کے سلسلے میں جلدبازی نہ کریں کیونکہ دُعا اپنے وقت پر ہی قبول ہوگی، جسے اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت متعین فرماتا ہے۔

دُعا کی قبولیت

ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت سلمانؓ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ کو اس بات سے شرم آتی ہے کہ بندہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے آگے پھیلائے، اور اس سے کسی بھلی چیز کا سوال کرے، اور وہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔

ترمذی اور مسند احمد میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

زمین کی پشت پر رہنے والا جو مسلمان بھی اللہ عزوجل سے کوئی دُعا مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مانگی ہوئی چیز دے دیتا ہے، یا اس جیسی کسی مصیبت کو آنے سے روک دیتا ہے، جب تک کہ وہ گناہ یا قطع رحم کی دُعا نہ کرے۔

صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بندے کی دُعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ گناہ یا قطع رحمی کی دُعا نہ کرے، جب تک وہ جلدبازی نہ کرے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! جلدبازی کیا ہے؟ فرمایا: دُعا کرنے والا کہے کہ میں نے دُعا کی، اور پھر کی، لیکن مجھے نظر نہیں آرہا کہ میری دُعا قبول ہوگی۔ پھر وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے اور دُعا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

اور روزہ دار کی دُعا سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے، جیساکہ امام ابوداؤد طیالسیؒ نے اپنی مسند میں اسناد کے ساتھ روایت کیا:

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ انھوں نے فرمایا: روزہ دار کے افطار کے وقت اس کی دُعا قبول ہوتی ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمرؓ جب روزہ افطار کرتے تو اپنے اہل و عیال کوبلاتے اور دُعا کرتے۔

اور ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

روزے دار کی دُعا ، جو وہ افطار کے وقت کرے، رَد نہیں ہوتی۔

اور احمد ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تین اشخاص ہیں، جن کی دُعا رد نہیں ہوتی۔ عادل فرماں روا، روزہ دار، جب کہ وہ افطار کرے، اور مظلوم کی دُعا جسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بادلوں سے اُوپر اُٹھائے گا۔ اس کی دُعا کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’میری عزّت و جلال کی قسم! میں تیری ضرورمدد کروں گا، خواہ کچھ مدت بعد ہو‘‘۔

اسی لیے روزے کے بیان کے درمیان میں دُعا کا ذکر آیا ہے۔

حرام و ناحق مال کھانـے کی ممانعت

روزہ رکھنے اور روزے کے دوران کھانے پینے سے باز رہنے کے حکم کے زیرسایہ ایک اور قسم کے کھانے کی ممانعت آتی ہے۔ اور وہ ہے’’لوگوں کے مالِ ناحق طور پر کھانا‘‘۔ اس کی شکل یہ ہے کہ عدالت میں مقدمہ دائر کیا جائے، اور قرائن و حالات اور دستاویزوں کے سلسلے میں حاکم کو مغالطہ میں مبتلا کیا جائے، پھر چرب زبانی اور حجت بازی سے اسے دھوکا دیا جائے، تاکہ وہ ان حالات کے مطابق فیصلہ کردے جو اس کے سامنے آئے ہیں، حالانکہ حقیقت واقعی اس کے خلاف ہے۔ یہ ممانعت حدود اللہ کے ذکر اور اللہ سے تقویٰ کی دعوت کے بعد کی گئی، تاکہ خشیت ِ الٰہی کا، جو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کے ارتکاب سے انسان کو روکتی ہے، سایہ اور اثر برقرار رہے:

وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۸ۧ (البقرہ ۲:۱۸۸) اور تم لوگ آپس میں اپنے مال ناحق طور پر نہ کھائو، نہ انھیں حکام کے پاس لے جائو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ حق تلفی کرکے ہڑپ کرلو، جانتے بوجھتے۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ یہ آیت ایک ایسے شخص کے سلسلے میں ہے جس کے پاس کسی کا مال ہو مگر اس ضمن میں کوئی ثبوت موجود نہ ہو، پھروہ انکار کردے کہ اس کے پاس کسی کا مال ہے۔ اور وہ حکام کے پاس جاکر مقدمہ بازی کرے، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اس پر دوسرے کا حق ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ دوسرے کی حق تلفی کررہا ہے، اور حرام کھارہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ایک انسان ہوں۔ میرے پاس کوئی شخص مقدمہ لے کر آتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ تم میں سے وہ شخص دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ تیز ہو اور میں (اس کے دلائل سے متاثر ہوکر) اس کے حق میں فیصلہ کردوں۔ تو اگر میں (غلطی سے) کسی مسلمان کا حق دوسرے شخص کو دے دوں، تو یہ اس کے لیے دوزخ کی آگ کا ایک ٹکڑا ہے، خواہ وہ اسے اُٹھا کرلے جائے یا اسے چھوڑ دے‘‘۔

اس طرح وہ انھیں ان کے اس علم کے حوالے کردیتا ہے، جو وہ اپنے دعوے کی حقیقت و اصلیت کے بارے میں رکھتے ہیں، کیونکہ حاکم کے فیصلے سے نہ حرام حلال ہوتا ہے اور نہ حلال حرام۔ حاکم کے لیے تو لازم ہے کہ وہ ظاہر کے مطابق فیصلہ کرے، اور گناہ اس شخص پر ہوگا جو حیلے بہانے کرکے غلط فیصلہ کرالے۔

اس طرح مقدمہ اور مال و دولت کا معاملہ بھی اللہ کے تقویٰ سے متعلق ہوجاتا ہے، جیساکہ قصاص، وصیت اور روزہ بھی تقویٰ سے متعلق و مربوط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اُمور کامل خدائی نظام کے جسم کے مختلف مربوط اعضاء و اجزاء ہیں اور یہ سب ایک ہی رشتے ’تقویٰ‘ سے مربوط ہیں۔ اس طرح خدائی نظام ایک وحدت کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جس کے اجزاء کو متفرق اور ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے کسی ایک جزو کو ترک کر دینا اور دوسرے جزو پر عمل کرنا، کتابِ الٰہی کے ایک حصے پر ایمان اور دوسرے حصے کے انکار کے مترادف ہے اور انجام کے لحاظ سے یہ کفر ہی ہے۔

عورت معاشرے کانصف حصہ ہے۔ تعمیر معاشرہ کے لیے عورت ومرد کے تعلقات میں احترام اور توازن ناگزیر ہے۔ آج کا دور مسائل ومصائب کادورہے۔ اس میں قدم قدم پر عورت کی اختیاریت، مختلف سرگرمیوں اور معاشرتی معاملات میں شرکت کی بحثیں ہیں، اورسماجی مصلحین کے تبصرے۔ان حالات میں بذاتِ خود عورت اپنی کم علمی کے سبب تذبذب کا شکار ہے کہ آیااس کی حدود کیاہیں؟ایک صحت مندمعاشرے کے لیے اس کی خدمات کیا ہوسکتی ہیں؟

چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے،اس لیے اسلامی شریعت میں فرد اورمعاشرہ دونوں کے لیے قوانین ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واعمال میں مسلم عورت کی شخصیت کا ہرپہلو موجود ہے۔عہدنبویؐ کے تحقیقی مطالعے سے عورت کی آزادی اوراس کے حقوق کااسلامی تصور سامنے آتاہے اوراس کے دائرۂ کار کی مکمل وضاحت ہوجاتی ہے۔غوروفکرکووہ صحیح سمت میسر آتی ہے، جس کی دورِجدید میں سخت ضرورت ہے۔اسی تناظر میں عورت کے تمام حقوق، جس کا تعلق عبادت، معاشرت، سیاست ،تجارت،امانت،تعلیم وتعلّم اوردیگر امورجو کہ عہدِ نبویؐ کی مسلم خواتین کو حاصل رہے ہیں، ان کامستند جائزہ لیاجارہاہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ عورت کے حدود اور اختیارات کاتعیین براہِ راست کلامِ نبوتؐ سے کیاجائے ،کیونکہ وہی قول سب کے لیے قولِ فیصل اوروہی حرفِ آخرہے۔

نبویؐ معاشرہ میں ہم خواتین کوعبادات سے معاملات تک کے مختلف میدانوں میں مردوں کے ساتھ شریک پاتے ہیں۔ اسی تناظر میں خواتین کی مختلف میدانوں میں شرکت سے متعلق مستند احادیث پیش کی جارہی ہیں، جس سے نبویؐ معاشرے کی صحیح تصویر اُبھرکرسامنے آجائے گی۔

اجتماعی عبادات میں خواتین کی شرکت

  • عورتوں کا نمازِ عشاء مسجد میں ادا کرنا : ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سے تمھاری عورتیں رات کومسجد میں جانے کی اجازت مانگیں تو اجازت دے دیاکرو۔(صحیح بخاری،باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس، حدیث: ۸۴۱)
  • عورتوں  کی نماز جمعہ کی مسجد میں ادائیگی: اُمِ ہشام بنت حارث نے کہاکہ میں نے سورئہ ق ٓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سن کر ہی یاد کی ہے کہ آپؐ ہرجمعہ کو خطبہ میں منبر پرپڑھاکرتے تھے۔(صحیح مسلم،کتاب الجمعہ، باب تخفیف الصلوٰۃ والجمعۃ، حدیث: ۱۴۸۷)
  • ماں کی مشقت کا خیال :عبداللہ بن ابوقتادہ انصاریؓ اپنے والد ابوقتادہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز کے لیے کھڑاہوتاہوں اورجی چاہتا ہے کہ طویل کروں، مگربچوں کے رونے کی آواز سن کرہلکی کردیتا ہوں۔ اس کونامناسب خیال کرتے ہوئے کہ اس کی ماں کومشقت میں ڈالوں۔(صحیح بخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس، حدیث: ۸۴۴)
  • عورتوں کو عیدین میں شرکت کا حکم :اُمّ عطیہ ؓ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ہم عیدالفطر اورعیدقرباں میں کنواری جوان لڑکیوں کواورحیض والیوں کو اور پردہ والیوں کولے جائیں۔ سو،حیض والیاں نماز کی جگہ سے جدارہیں اوراس کارِنیک اور مسلمانوں کی دعامیں حاضر ہوں۔ (صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ العیدین، باب ذکر اباحۃ خروج النساء فی العیدین، حدیث: ۱۵۲۰، صحیح ابن حبان)
  • گھر والوں کی امامت : اُمِّ ورقہؓ بنت عبداللہ بن حارث سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ملاقات کے لیے ان کے گھرتشریف لے جاتے اوران کے لیے ایک مؤذن مقررکردیاتھا جواذان کہاکرتا اوروہ امامت کرتی تھیں اپنے گھروالوں کی رسول ؐاللہ کے حکم سے۔ عبدالرحمٰن نے کہا میں نے ان کے مؤذن کودیکھا بہت بوڑھے تھے۔(سنن ابوداؤد، باب امامۃ النساء، حدیث:۵۰۵)
  • بوڑھے والدین کی طرف سے حج کی ادائیگی : ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ فضل رسولؐ اللہ کے ہمراہ سوارتھے۔بنی خثعم کی ایک عورت آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ میرے باپ پرحج فرض ہے، لیکن وہ (ضعف کے باعث)سواری پرنہیں بیٹھ سکتا۔کیامیں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟فرمایا: ہاں! یہ واقعہ حجۃ الوداع کاہے۔(صحیح بخاری،ابواب العمرۃ،باب حج المرأۃ عن الرجل، حدیث: ۱۷۶۵)
  • حائضہ اور ارکانِ حج  کی ادائیگی : حضرت عائشہؓ نے فرمایاکہ ہم آپؐ کے ساتھ حج کے لیے نکلے۔ سفر میں میں حائضہ ہوگئی اوررونے لگی۔ حضورؐ نے پوچھا کہ کیا تم کو حیض ہواہے؟میں نے کہا،ہاں! آپ ؐ نے فرمایا:یہ توآدمؑ کی بیٹیوں کے لیے اللہ نے لکھ دیاہے۔ سو،اب تم حج کے کام کرو سوائے طواف کے کہ وہ غسل کے بعدکرنا۔ اورآپؐ نے اپنی بیبیوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔(صحیح مسلم،کتاب الحج،باب بیان وجوہ الاحرام، حدیث: ۲۱۹۰)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیض اورنفاس والی عورت جب میقات پرآئیں توغسل کریں اوراحرام باندھ لیں اورسب ارکان اداکریں سوائے طواف کے۔(سنن ابوداؤد، باب الحائض تھلّ بالحج، حدیث: ۱۴۹۵)

  • حاملہ اور دودھ پلانے والی کو روزہ ترک کرنے کی اجازت :حضرت انس بن مالکؓ بنی عبدالاسہل کے ایک شخص نے علی بن محمدسے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے ہم پر چڑھائی کی، میں حضورؐ کی خدمت میں آیا۔ آپؐ صبح کاکھاناکھارہے تھے، آپ ؐنے فرمایا: قریب آجائو اورکھائو۔ میں نے عرض کیامیں روزے سے ہوں ۔آپؐ نے فرمایا:بیٹھ جائو تم سے روزے کے احکام بیان کرتا ہوں۔ اللہ نے مسافر کوآدھی نماز معاف فرمادی ہے اوراسی طرح مسافر، حاملہ اور دودھ پلانے والی سے روزہ ۔(سنن ابن ماجہ،ابواب الصیام،باب ماجاء فی الافطار للحامل والمرضع، حدیث: ۱۶۶۳)
  • ذبح کرنے کا حق :حضرت ابن کعبؓ نے فرمایا: ایک عورت نے بکری کوپتھر سے ذبح کیا۔نبیؐ سے اس کاذکر کیاگیاتوآپؐ نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا۔(سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی،باب ذبیحۃ المرأۃ، حدیث: ۳۱۸۰)

سماجی سرگرمیوں میں عورت کے مختلف میدان ہیں۔عہدِ رسالت ؐ میں عورت کی شرکت ہمیں جابجا نظرآتی ہے۔ ذیل میں ان کاجائزہ لیاجارہاہے:

جہاد میں شرکت

  • امان دہی کا حق :حضرت اُمّ ہانیؓ بنت ابی طالب نے ایک مشرک کوامان دی اور  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امان کوبرقراررکھتے ہوئے فرمایا:اے امّ ہانی! جس کوتم نے امان دی، اس کوہم نے امان دی۔(سنن ابوداؤد،باب فی امان المرأۃ، حدیث: ۲۳۹۷)
  • جہاد میں شرکت کا حق اور زخمیوں کی مرہم پٹی : حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اُمّ سلیم کوجہاد میں لے جاتے تھے اور انصار کی کئی اورعورتوں کوبھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔جب صحابہؓ جہادکرتے تویہ عورتیں ان کوپانی پلاتیں اورزخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں۔(سنن ابوداؤد،کتاب الجہاد، باب فی النساء یغزون، حدیث: ۲۱۸۲)
  • طبّی امداد میں مشغولیت اور عسکری کاموں میں معاونت: حضرت خالد بن ذکوان کابیان ہے کہ حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریکِ جہاد تھے، چنانچہ مسلمانوں کوپانی پلانا،ان کی خدمت کرنانیز شہیدوں اورزخمیوں کومدینہ منورہ پہنچاتے تھے۔(صحیح بخاری،کتاب الطب،باب ھل یداوی  الرجل المرأۃ اوالمرأۃ الرجل، حدیث: ۵۳۶۳)
  • حضرت اُمّ عطیہؓ ان چندخواتین میں تھیں، جنھیں حضوؐر غزوات میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ آپؓ مجاہدین کے کجاووں کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہتیں،کھانا پکاتیں،زخمیوں کاعلاج کرتیں اور مصیبت زدوں کی نگہداشت کرتیں۔ (صحیح مسلم،کتاب الجہاد والسیر،باب النساء الغازیات،  حدیث: ۳۴۶۸)

حق مشاورت

 حضرت اُمّ سلمہؓ صلح حدیبیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔صلح کے بعد آنحضرتؐ نے حکم دیاکہ لوگ حدیبیہ میں قربانی کریں۔ لیکن سب اس قدردل شکستہ تھے کہ ایک شخص بھی نہ اُٹھا۔تین مرتبہ باربارکہنے پربھی کوئی آمادہ نہ ہوا (چونکہ معاہدہ کی تمام شرطیں بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں) اس لیے تمام لوگ رنجیدہ اورغصہ میں تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیمے میں تشریف لے گئے اورحضرت امّ سلمہؓ سے لوگوں کے رویہّ کاذکر کیا۔تب اُمّ سلمہؓ نے کہا: ’’آپ کسی سے کچھ نہ فرمائیں،بلکہ باہرنکل کرخودقربانی کریں اور احرام اُتارنے کے لیے بال منڈوائیں‘‘۔ آپؐ نے باہر آکر قربانی کی اور بال منڈوائے۔اب جب لوگوں کویقین ہوگیاکہ اس فیصلے میں تبدیلی نہیں ہوسکتی توسب نے قربانیاں کیں اوراحرام اُتارا۔ہجوم کایہ حال تھا کہ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے اور عجلت اس قدرتھی کہ ہرشخص حجامت بنانے کی خدمت انجام دے رہا تھا۔ (صحیح بخاری، کتاب الشروط،باب الشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اہل العرب،حدیث: ۲۶۰۱)

  • رائـے دہی کا حق :عہدِ نبویؐ میں خواتین محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتی تھیں۔قرآن کریم میںا س کا تذکرہ ہے: ’’اے پیغمبرؐ! جب مسلمان عورتیں آپ ؐ سے ان باتوں پربیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ کریں گی،چوری نہ کریں گی،زناکاری نہ کریں گی،اپنی اولاد کونہ مارڈالیں گی اورکوئی ایسابہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑلیں اورکسی نیک کام میں تیری نافرمانی نہ کریں گی، توآپؐ ان سے بیعت کرلیا کریں اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے اورمعاف کرنے والاہے‘‘۔( الممتحنہ۶۰:۱۲)
  • عائلی معاملات میں ’ظہار‘ کا حق :عہدِ رسالتؐ میں عائلی معاملات میں خواتین نے سنجیدگی سے حصہ لیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث کی۔حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہؓ کے خاوند حضرت اوس بن صامتؓ نے ان سے ’ظہار‘ کرلیاتھا۔حضرت خولہؓ سخت پریشان ہوئیں۔ اس وقت تک اس کی بابت کوئی حکم نازل نہیں ہواتھا، اس لیے وہ نبیؐ کے پاس آئیں توآپؐ نے بھی کچھ توقف کیا، جس پرسورئہ مجادلہ کی آیات نازل ہوئیں جن میں ’ظہار‘ کی تفصیلات ہیں۔

معاشی حقوق

  • بیوی کے حقوق : حضرت حکیم بن معاویہ القشیری ؓ سے مروی ہے کہ میں نے کہا: یارسولؐ اللہ! ہمارے اوپر بیوی کاحق کیاہے؟آپؐ نے فرمایا جب توکھانا کھائے تواس کو کھلا اور جب توکپڑاپہنے تواس کوپہنا اوراس کے منہ پرمت مار اوربرامت کہہ اورسوائے گھر کے اس سے جدامت رہ۔(سنن ابوداؤد،کتاب النکاح، باب فی حق المرآۃ علی زوجھا، حدیث: ۱۸۴۳)
  • مہر کا  حق : حضرت سہل ابن سعدؓ نے فرمایاکہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی۔ آپؐ نے فرمایا:اس سے کون نکاح کرتاہے؟ ایک شخص نے عرض کیاکہ میں۔آپؐ نے فرمایا: اسے کچھ دوچاہے لوہے کی انگوٹھی کیوں نہ ہو۔ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے پاس کچھ نہیں۔ آپؐ نے فرمایا تیرے پاس جوقرآن کریم ہے، میں اس کے بدلے تیرانکاح کرتا ہوں۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب النکاح،باب صداق النساء، حدیث: ۱۸۸۵)
  • ترکہ میں حق : حضرت اسود بن یزیدؓ سے مروی ہے کہ معاذ بن جبلؓ نے بہن اور بیٹی میں اس طرح ترکہ تقسیم کیاکہ آدھا مال بیٹی کودلایا اورآدھا بہن کو(کیونکہ بہن بیٹی کے ساتھ عصبہ ہوجاتی ہے)۔ اس وقت حضرت معاذؓ یمن میں تھے اور نبیؐ حیات تھے۔(سنن ابوداؤد، کتاب الفرائض،باب ماجاء فی میراث الصلب، حدیث: ۲۵۲۱)
  • تجارت کا حق : حضرت قیلہ اُمِ بنی أنمارؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مروہ آئے تاکہ عمرہ مکمل کرکے حالتِ احرام سے باہرنکلیں۔ میں آپؐ کے پاس عصاسے ٹیک لگائے ہوئے پہنچی، پھر میں نے کہا یارسولؐ اللہ! میں ایسی عورت ہوں، جوبیع وشرا،یعنی تجارت میں مشغول رہتی ہوں۔(الطبقات الکبریٰ،ابن سعد، دارصادر، بیروت، ۱۹۶۸ء، ج:۸، ص:۳۱۱)
  • شوہر کی کمائی سے بخوشی خرچ کرنا : حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:عورت اگرشوہر کے مال میں سے کچھ خرچ کرے بغیر بدنیتی کے، تواسے خرچ کرنے کاثواب دیاجائے گا اورشوہر کوبھی اتناہی اجرہوگا اورخزانچی کو بھی اورکسی کے اجرمیں کمی نہ ہوگی۔(سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات، باب ماللمرأۃ من مال زوجھا، حدیث: ۲۲۹۱)
  • بخیل شوہر کے مال سے بغیر اجازت تصرف کا حق :حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایاکہ ہندہ عرض گزارہوئیں یارسولؐ اللہ! بے شک (میراخاوند) ابوسفیان ایک بخیل آدمی ہے ، پس کیامیرے اوپرگناہ ہوگااگرمیں ان کے مال سے اتنا لے لیاکروں، جومیرے اورمیری اولاد کے لیے کافی ہو؟فرمایا کہ دستور کے مطابق لے سکتی ہو۔(صحیح بخاری،کتاب النفقات، باب وعلی الوارث مثل ذٰلک وھل علی المرأۃ منہ شیٔ، حدیث: ۵۰۶۱)
  • مالی اُمور میں دخل دینے کا حق : حضرت عمران بن حذیفہؓ سے مروی ہے کہ اُم المومنین میمونہؓ قرض لیاکرتی تھیں۔ان کے بعض رشتہ داروں نے انھیں روکا، لیکن انھوں نے ان کی بات نہیں مانی اورفرمایا: میں نے اپنے محبوب نبی کریم ؐسے سنا ہے کہ جوشخص قرض لے اوراللہ جانتاہے کہ وہ اداکرنے کی نیت سے لے رہاہے، تو اللہ تعالیٰ اس کاقرض دنیاہی میں ادافرمادے گا۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب الصدقات،باب من اوّان دینا وھوینوی قضاء ہ، حدیث: ۲۴۰۵)

تمدنی حقوق

  • شوہر دیدہ کی رضامندی نکاح میں ضروری: حضرت خنساء بنت خزام انصاریہؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کانکاح کردیا، جب کہ یہ شوہر دیدہ تھیں اوراس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں۔ پس یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوگئیں۔آپؐ نے فرمایا کہ وہ نکاح نہیں ہوا۔(صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب اذا زوّج ابنتہ وھی کارھۃ  فنکاحہ مردود ، حدیث: ۴۸۴۷)
  • بیٹیوں کے نکاح میں ماں کو ترجیح :حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشورہ لوعورتوں سے ان کی بیٹیوں کے نکاح میں۔(سنن ابودائود،کتاب النکاح،باب فی الاستمار، حدیث: ۱۸۰۶)
  • ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف : حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس کی دوبیویاں ہوں اوروہ ایک کی طرف مائل ہوتووہ قیامت کے دن جب آئے گا تواس کا آدھا دھڑگراہوا[یعنی فالج زدہ] ہوگا۔(سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب القسمۃ بین النساء، حدیث: ۱۹۶۵)
  • مال کے عوض خلع کا حق : حضرت حبیبہ بنت سہل الانصاریہؓ سے روایت ہے کہ وہ ثابت بن قیسؓ بن شماس کے نکاح میں تھیں۔ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کونکلے، دیکھاتوحبیبہ بنت سہلؓ آپؐ کے دروازے پرکھڑی ہیں اوراندھیرے میںآپؐ نے فرمایا: کون ہے؟ وہ بولی: میں حبیبہ بنت سہلؓ ہوں۔آپؐ نے فرمایا:کیوں کیاحال ہے تیرا؟بولی: یامیں نہیں یاثابت بن قیس نہیں(کیوں کہ ثابت بن قیس نے حبیبہ کوماراتھا)۔ جب ثابت ؓبن قیس آئے تو حبیبہؓ نے کہا: یارسولؐ اللہ! ثابت نے جومجھ کودیا ہے وہ میرے پاس موجود ہے۔ رسولؐ اللہ نے ثابتؓ بن قیس سے فرمایا:اچھا اس سے تم لے لوجوکچھ تم نے دیاہے۔ثابتؓ بن قیس نے وہ لے لیا۔ پھرحبیبہؓ اپنے لوگوں میںبیٹھ رہیں۔(سنن ابوداؤد،کتاب النکاح،باب فی الخلع، حدیث: ۱۹۱۳)
  • مطلقہ کا بیٹے پر حق : حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورعرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ میرابیٹا ہے ،میراپیٹ اس کا غلاف تھااورمیری چھاتی اس کے پینے کابرتن تھی اورمیری گوداس کا گھر تھا۔ اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اورچاہتاہے کہ لڑکا مجھ سے چھین لے۔ آپؐ نے فرمایا : انت احق بہ مالم تنکحی، تواس کی حق دار ہے جب تک کسی سے نکاح نہ کرے۔(سنن ابوداؤد،کتاب الطلاق، باب من احق بالولد، حدیث: ۱۹۵۱)
  • بیوی  کی معاونت :حضرت اسودبن یزید ؓ نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیاکہ نبیؐ کااپنے گھر میں کیامعمول ہوتا تھا؟ انھوں نے جواب دیاکہ آپؐ اپنی زوجۂ مطہرہ جن کے پاس ہوتے کام کرتے اور جب اذان کی آواز سنتے توتشریف لے جاتے۔(صحیح بخاری، کتاب النفقات ،باب خدمۃ الرجل فی اھلہ، حدیث: ۵۰۵۴)
  • بیوہ کا حق : حضرت صفوان بن سلیم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :بیوہ اورمسکین کے لیے سعی اور کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے یادن کوروزہ رکھنے اوررات کونماز میں کھڑے رہنے والے کی مانند ہے۔(سنن ترمذی،ابواب البر،  والصلۃ عن رسول اللہ، باب ماجاء فی السعی علی الارملۃ والمسکین، حدیث: ۱۹۴۱)
  • حائضہ عورت کے ساتھ انس و محبت: حضرت انسؓ نے فرمایا کہ یہودی حائضہ کے ساتھ نہ توگھرمیں بیٹھتے ،نہ کھاتے ،نہ پیتے۔ حضوؐر سے اس کا ذکر کیاتواللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’اورتم سے پوچھتے ہیں حیض کاحکم توفرمائو وہ ناپاکی ہے‘‘۔آپ ؐ نے فرمایا:ان سے سوائے جماع کے ہرکام کرسکتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ وستھا، باب ماجاء فی مواکلۃ الحائض وسؤرھا، حدیث: ۶۴۱)
  • حائضہ کے ساتھ خوش دلی کا برتاؤ :حضرت عائشہؓ نے فرمایاکہ میں حالتِ حیض میں ہڈی چوساکرتی تھی، پھراسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے لیتے اور اپنامنہ وہیں رکھتے جہاں میں نے رکھاتھا۔میں پانی پیتی توآپؐ برتن میرے ہاتھ سے لے کر اپنا منہ وہیں رکھتے جہاں میں نے رکھاتھا۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الطہارۃ وستھا، باب ماجاء فی مواکلۃ الحائض وسؤرھا، حدیث: ۶۴۰)
  • عورت حُسنِ سلوک کی مستحق : حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بہتروہ ہے جواپنی بیوی کے لیے بہترہو اورمیں اپنی بیوی کے لیے بہتر ہوں۔(سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب حسن المعاشرۃ النساء، حدیث: ۱۹۷۳)

معاشرتی حقوق

  • تفریح کا حق : حضرت سیدہ عائشہؓ روایت کرتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے حجرے کے دروازے پردیکھااور حبشی مسجد میں کھیل رہے تھے۔ آپ ؐ نے مجھے بھی اپنی چادرکی اوٹ میں کھڑاکرکے کھیل دکھایا۔(صحیح بخاری،کتاب الصلوٰۃ، باب اصحاب الحراب فی المسجد، حدیث: ۴۴۵)
  • تعزیت کے لیے عورت کا گھر سے نکلنا : حضرت عبداللہ بن عمربن عباسؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک میت کو دفنایا۔جب وہاں سے فارغ ہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اورہم بھی آپؐ کے ساتھ لوٹے یہاں تک کہ ہم میت کے مکان تک پہنچے۔ وہاں آپؐ ٹھیرگئے دیکھاتو ایک عورت سامنے سے چلی آتی ہے ۔راوی نے کہا کہ میں سمجھتاہوں کہ آنحضرتؐ نے اس عورت کو پہچان لیا۔جب وہ عورت چلی گئی تومعلوم ہواکہ سیّدۃ النساء فاطمہ زہراؓ تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ: تم کس واسطے نکلیں؟ توانھوں نے کہا:یارسول ؐاللہ! میں اس گھر میں آئی تھی، جہاں میت ہوگئی تھی تاکہ اس کے لوگوں کو تسکین دوں اورتعزیت کروں۔(سنن ابوداؤد،کتاب الجنائز ،باب التغزیہ ، حدیث: ۲۷۳۲)
  • قانونی دعویٰ کا حق :حضرت سعد بن اطول ؓ نے فرمایا کہ میرے بھائی کاانتقال ہوگیا۔ انھوں نے تین سودرہم اوراپنے بچے چھوڑے ،میراخیال ہواکہ ان درہموں کوان بچوں پر صرف کردوں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :تمھارابھائی مقروض ہے، تمھیں چاہیے کہ اس کاقرضہ ادا کرو۔سعد نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں نے ان کا تمام قرضہ ادا کردیالیکن دودینار باقی ہیں، جن کا دعویٰ ایک عورت نے کیاتھا۔ وہ میں نے نہیں دیئے کیونکہ اس کے پاس گواہ نہ تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے بھی دے دوکیونکہ وہ عورت سچی ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب ادآء الدین عن ا لمیت، حدیث: ۲۴۳۰)
  • ضرورت کے وقت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اُمّ المؤمنین حضرت سودہ بنت رفعہ ؓ رات کے وقت باہر نکلیں توانھیں حضرت عمرؓ نے دیکھ لیا اورکہا: اے حضرت سودہؓ !آپ ہم سے پوشیدہ نہیں۔ پس جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس لوٹیں توآپؐ سے اس بات کاذکرکیا اورحضورؐ اس وقت میرے حجرے میں شام کا کھانا تناول فرمارہے تھے اورایک ہڈی آپ کے دستِ مبارک میں تھی کہ وحی کانزول شروع ہوگیا۔ جب وحی نازل ہوچکی توآپؐ فرمانے لگے:تمھیں ضروری حاجت کے تحت باہرنکلنے کی اجازت مل گئی ہے۔(صحیح بخاری ،کتاب النکاح،باب خروج النساء لحوائجھن، حدیث:۴۹۴۳)
  • حائضہ کا مہندی لگانا : حضرت معاذہؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیاکہ کیا حائضہ مہندی لگاسکتی ہے؟انھوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ اقدس میں مہندی لگاتے تھے ،آپؐ نے ہمیں اس کی ممانعت نہیں فرمائی۔(سنن ابن ماجہ، ابواب الطہارہ،باب الحائض تختضبُ،حدیث: ۶۵۴)
  • لباس میں عورت کے ذوق کا  احترام: حضرت عبداللہ زُرَیرالغافقی سے مروی ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں دستِ اقدس میں ریشم اور دائیں دستِ اقدس میں سونالے کرفرمایا: میری امت کے مردوں پر حرام ہے اور عورتوں پر حلال ہے۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب اللباس،باب لبس الحریر والذھب للنساء، حدیث: ۳۵۹۳)
  • عورتوں کو مسجد کی صفائی کا بھی حق : حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک حبشی عورت مسجد میں جھاڑو دیاکرتی تھی،وہ نظرنہ آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیاوہ تومرگئی ،فرمایا: تم نے مجھے کیوں نہ بتایا! مجھے اس کی قبربتائو۔ چنانچہ لوگوں نے اس کی قبر کی نشان دہی کی ،پھرآپؐ نے اس پر نماز پڑھی۔(سنن ابن ماجہ ، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الصلوٰۃعلی القبر، حدیث: ۱۵۲۲)
  • عورت کا سفر کرنا : حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عورت تین دن کاسفر نہ کرے، مگریہ کہ کوئی محرم رشتہ دار اس کے ساتھ ہو۔ (صحیح بخاری،کتاب الجمعۃ، ابواب تقصیر الصلوٰۃ ،باب فی کم یقصرالصلوٰۃ، حدیث: ۱۰۵۰)
  • مطلقہ ضرورت کے لیے باہر نکل سکتی ہـے : حضرت جابربن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہوئی اورانھوں نے چاہاکہ اپنے باغ کی کھجوریں توڑیں، سو ایک شخص نے ان کو باہر نکلنے پر جھڑکا۔ وہ نبیؐ کے پاس حاضر ہوئیں اورآپؐ نے فرمایا: نہیں، تم جائو اوراپنے باغ کی کھجوریں توڑو ،اس لیے کہ شایدتم اس میں سے صدقہ دو(تواوروں کاہو) اورکوئی نیکی کرو(کہ تمھاراہو)۔(صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب جواز خروج المعتدہ البائن، حدیث: ۲۸۰۵)
  • عورتوں کو مال میں سے خیرات کرنے کی تلقین : حضرت اسماء ؓ روایت کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں توآپؐ نے فرمایا :روپیہ پیسہ تھیلیوں میں بند کرکے مت رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی بند کرکے رکھے گا، جہاں تک ممکن ہوخیرات کرتی رہو۔ (صحیح بخاری،کتاب الزکوٰۃ،باب الزکوٰۃ علی الزّوج والایتام فی الحجر، حدیث: ۱۴۰۹)
  • عورتوں کو زندہ رکھنے کا حق : جس شخص کی لڑکی ہووہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اورنہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اورنہ اس پراپنے لڑکے کوترجیح دے، تواللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔(ابوداؤد،باب فضل من عال یتامی)
  • امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق : حضرت یحییٰ بن کثیر سے روایت ہے کہ ان سے محمدبن ابراہیم نے حضرت ابوسلمہؓ کایہ قول نقل کیا کہ ان کے اورکچھ لوگوں کے درمیان زمین کی بنیاد پرجھگڑا تھا۔اس کاتذکرہ انھوں نے حضرت عائشہؓ سے کیا،توانھوں نے فرمایا: اے ابوسلمہؓ! زمین چھوڑدو،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:جس نے ایک بالشت بھرزمین پرظالمانہ قبضہ کیااللہ اس کوسات زمینوں کاطوق پہنائیں گے۔(صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب اثم من ظلم شیئًا من الارض، حدیث: ۲۳۴۱)

تعلیمی حقوق

  • عورتوں کی تعلیم کا  خصوصی اہتمام : حضرت عبدالرحمٰن بن عبداللہ صہبائی نے کہا میں نے ابوصالح ذکوان سے سنا، اور وہ ابوسعید خدریؓ سے روایت کرتے تھے کہ عورتوں نے آنحضرتؐ سے عرض کیا :مرد آپ کے پاس آتے ہیں اور ہم پرغالب ہوتے ہیں، تو آپؐ اپنی طرف سے (خاص) ہمارے لیے ایک دن مقرر کردیجیے۔آپؐ نے ان سے ایک دن ملنے کا وعدہ فرمایا۔ اس دن ان کو نصیحت کی اورشرع کے حکم بتلائے۔ ان باتوں میں جوآپؐ نے فرمائیں یہ بھی تھا کہ تم میں سے جوعورت اپنے تین بچے آگے بھیجے (ان کاانتقال ہوجائے) تو آخرت میں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گے۔ ایک عورت نے عرض کیا کہ اگردوبچے تو آپ نے فرمایا اور دوبھی۔(صحیح بخاری،کتاب العلم،باب ھل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم؟، حدیث:۱۰۱)
  • لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ : حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اوران کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے، اُس کے لیے جنّت ہے۔(سنن ترمذی، ابواب البّر والصلۃوالآداب، باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات والاخوان، حدیث:۱۸۸۸)

علمی، معاشرتی ،سیاسی اورمختلف سرگرمیوں میں عورت کے حقوق کا جو تصور اسلام نے ہمیں دیا ہے وہ عہدِ رسالت میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ دیگر معاملات و مسائل کی طرح دورِ حاضر کے معاشرتی و دیگرمسائل میں ہمیں مذکورہ احادیث سے استنباط کرناچاہیے۔

۱۹۵۳ء میں قادیانی مسئلہ  نامی پمفلٹ لکھنے کے ’جرم‘ میں لاہور کی ایک فوجی عدالت نے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو سزائے موت سنائی، جو اندرون اور بیرونِ ملک شدید عوامی احتجاج پر عمرقید بامشقت میں تبدیل کرکے سیّدمودودیؒ کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان منتقل کردیا گیا، جہاں سے تقریباً پچیس ماہ بعد رہائی ہوئی۔اُس وقت ڈسٹرکٹ جیل ملتان کے سپرنٹنڈنٹ دینی رجحان کے حامل تھے۔

اُن دنوں کالجوں میں اسٹوڈنٹس یونین کے زیراہتمام طلبہ تقریبات منعقد ہوا کرتی تھیں۔ جن میں مختلف کالجوں کی ٹیموں کے درمیان مشاعروں اور مباحثوں کے مقابلے ہوتے تھے۔ مباحثوں میں مقررین کسی متعین موضوع کے حق اور مخالفت میں اظہارِ خیال کرتے تھے اور پھر سامعین کی رائے سے موضوع کے منظور یا مسترد ہونے کا فیصلہ ہوتا تھا۔

مولانا مودودیؒ کی مذکورہ جیل میں قید کے دوران نشتر میڈیکل کالج، ملتان کا ہفتۂ طلبہ منایا جارہا تھا، جس میں ایک مباحثے کا عنوان تھا: ’’اس ایوان کی رائے میں پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟‘‘

ملتان ویمن کالج سے جیل سپرنٹنڈنٹ کی بیٹی بھی اس مباحثے میں حصہ لینے کی خواہش مند تھیں اور چاہتی تھیں کہ دلائل سے ثابت کریں کہ ’’پردہ ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے‘‘، لیکن مدلل تقریر تیار کرنا بس میں نہ تھا۔انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے والدصاحب سے کیا، جنھوں نے بیٹی کو تسلی دی کہ’’ پردہ  کتاب کے مصنف ہماری جیل میں بطور ’قیدی‘ موجود ہیں، ان سے مشورہ کرتا ہوں‘‘۔ اگلے روز افسر موصوف نے مولانا محترم کے سامنے یہ مسئلہ رکھا اور کچھ دیربعد مولانا مودودی نےتقریر لکھ کر دے دی۔

طالبہ نے تقریر اَزبر کرلی اور بڑے اعتماد کے ساتھ موضوع کی مخالفت میں خطاب کیا۔ تمام تقاریر ہوگئیں تو حاضرین و سامعین نے رائے شماری پر بھاری اکثریت کے ساتھ موضوع کو مسترد کرکے پردے کے حق میں رائے دی۔

 مباحثے کے اگلے دن اخبارات میں نمایاں طور پر یہ خبر شائع ہوئی، اور طالبہ کے دلائل کی داد و تحسین کی گئی، اور ملتان کے ایک اخبار نے مکمل تقریر شائع کردی۔ سیّد نصیراحمد مرحوم جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما نے اُس روز اپنے دوستوں کے سامنے تقریر کی چند سطریں پڑھ کر برملا کہا کہ ’’یہ تقریر اس بچی کی نہیں ہوسکتی، اس کے پیچھے کوئی بڑا دماغ کام کر رہا ہے‘‘۔

چند روز بعد مولانا مودودی سے جیل میں ہفتہ وار ملاقات میں جماعت کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن سیّد نصیراحمد شاہ بھی گئے۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے: ’’جیل میں مَیں نے مولانا سے پوچھا کہ کیا پردے کے موضوع پر کالج کے مباحثے میں ایک لڑکی کی تقریر آپ کی نظر سے گزری ہے؟‘‘ مولانا مسکراکر فرمانے لگے: ’’جی ہاں، نہ صرف نظر سے گزری ہے بلکہ لکھی بھی ہے اور سنی بھی ہے‘‘۔ (تذکرۂ سیّد مودودیؒ، اوّل، ص ۵۹۴-۵۹۵)

تفصیل یہ معلوم ہوئی کہ تقریر مولانا نے لکھ کر دی تھی اور سپرنٹنڈنٹ جیل کے دفتر میں ان کی بیٹی پروین رضوی کو خطاب کے لیے رہنمائی بھی دی تھی۔ والد نے بیٹی کی تقریر کو جلسے میں ریکارڈ بھی کرایا اور بعدازاں مولانا کو ریکارڈنگ سنوائی بھی۔

یہ تقریر جماعت اسلامی کے رہنما مولانا خان محمد ربانی نے پمفلٹ کی صورت میں شائع کی۔ اس پمفلٹ کا عنوان ’کیا پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟‘ تھا۔

پردہ ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہے یا نہیں؟ اس سوال کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ پردہ ہے کیا چیز؟ کیوں کہ اس کے بغیر ہم اس کی غرض، اس کے فائدے اور اس کے نقصانات کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس کے بعد ہمیں یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ ترقی کیا ہے، جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیوں کہ اسے طے کیے بغیر ہم یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ پردہ اس میں حائل ہے یا نہیں؟

’پردہ‘ عربی زبان کے لفظ '’حجاب‘ کا لفظی ترجمہ ہے۔ جس چیز کو عربی میں ’حجاب‘ کہتے ہیں، اسی کو فارسی اور اردو میں ’پردہ‘ کہتے ہیں ۔ ’حجاب‘ کا لفظ قرآن مجید کی اس آیت میں آیا ہے، جس میں الله تعالی نے لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بے تکلف آنے جانے سے منع فرمایا تھا، اور حکم دیا تھا کہ اگر گھر کی خواتین سے کوئی چیز مانگنی ہو تو حجاب (پردے) کی اوٹ سے مانگا کرو۔ اسی حکم سے پردے کے احکام کی ابتدا ہوئی۔ پھر جتنے احکام اس سلسلے میں آئے، ان سب کے مجموعے کو ’احکامِ حجاب‘ (پردے کے احکام) کہا جانے لگا۔

پردے کے احکام قرآن مجید کی چوبیسویں اورتینتیسویں سورت میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ _ ان میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنےگھروں میں وقار کے ساتھ رہیں۔ اپنے حسن اور اپنی آرائش کی نمائش نہ کرتی پھریں جس طرح زمانۂ جاہلیت کی عورتیں کرتی تھیں ۔ گھروں سے باہرنکلنا ہو تو اپنے اوپر ایک چادر ڈال کر نکلیں اور بجنے والے زیور پہن کر نہ نکلیں۔ گھروں کے اندر بھی محرم مردوں اور غیرمحرم مردوں کے درمیان امتیاز کریں ۔ محرم مردوں اور گھر کے خادموں اور میل جول کی عورتوں کے سوا کسی کے سامنے زینت کے ساتھ نہ آئیں (زینت کے معنیٰ وہی ہیں، جو ہماری زبان میں آرائش و زیبائش اور بناؤ سنگار کے ہیں۔ اسی میں خوش نما لباس، زیور اور میک اَپ تینوں چیزیں شامل ہیں)۔ پھر محرم مردوں کے سامنے بھی عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈال کر رکھیں اور اپنا ستر چھپائیں۔ گھر کے مردوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ماں بہنوں کے پاس بھی آئیں تو اجازت لے کر آئیں ، تاکہ اچانک ان کی نگاہ ایسی حالت میں نہ پڑے، جب کہ وہ جسم کا کوئی حصہ کھولے ہوئے ہوں۔

یہ احکام ہیں جو قرآن حکیم میں دیے گئے ہیں اور انھی کا نام ’حجاب‘ (پردہ) ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح فرماتے ہوئے بتایا کہ عورت کاستر چہرے ، کلائی کے جوڑ تک ہاتھ اور ٹخنے تک پاؤں کے سوا اس کا پورا جسم ہے ، جسے باپ اور بھائی تک سے چھپا کر رکھنا چاہیے، اور ایسے بار یک اور چست کپڑے نہ پہننے چاہییں، جن کے اندر سے جسم نمایاں ہو۔ نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم مردوں کے سوا کسی اور مرد کے ساتھ تنہا رہنے سے عورتوں کو منع فرمایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس بات سے بھی منع فرمایا کہ وہ گھر سے باہر خوش بُو لگا کر نکلیں ۔ مسجد کے اندر نماز باجماعت میں آپؐ نے عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ جگہ مقرر فرما دی تھی، اور اس بات کی اجازت نہ تھی کہ عورت مرد سب مل کر ایک صف میں نماز پڑھیں۔ نماز سے فارغ ہوکر آپؐ اور سب مرد اس وقت تک بیٹھے رہتے تھے ،جب تک عورتیں نہ چلی جاتیں۔

یہ احکام ، جس کا جی چاہے، قرآن مجید کی سورۂ نور اور سورۂ احزاب میں اور حدیث کی مستند کتابوں میں دیکھ سکتا ہے۔ آج جس چیز کو ہم ’پردہ‘ کہتے ہیں، اس میں چاہے عملی طور پر افراط وتفریط ہوگئی ہو ، لیکن اصول اور قاعدے سب وہی ہیں، جو الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پاک کی مسلم سوسائٹی میں جاری کیے تھے ۔ اگرچہ میں خدا اور رسولؐ کا نام لے کر کسی کا منہ  بند کرنا نہیں چاہتی ، مگر یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتی کہ آج ہمارے اندر یہ آواز اٹھنا کہ ’’پردہ ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے‘‘ ہماری دو رُخی ذہنیت کی کھلی علامت ہے ۔ یہ آواز خدا اور رسولؐ اللہ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہے، اور اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ ’خدا اور رسولؐ نے ہماری ترقی کے راستے میں روڑے اَٹکا دیے ہیں‘۔ اگر واقعی ہم ایسا سمجھتے ہیں تو آخر ہم کیوں خواہ مخواہ مسلمان بنے ہوئے ہیں؟ اور کیوں اس خدا اور رسول ؐ کو ماننے سے انکار نہیں کر دیتے، جنھوں نے ہم پر ایسا ظلم کیا ہے؟ اس سوال سے یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا کہ خدا اور رسولؐ نے پردہ کا حکم ہی نہیں دیا ہے۔ میں ابھی عرض کر چکی ہوں کہ پردہ کس چیز کا نام ہے؟ اور اس کے تفصیلی احکام، جس کا جی چاہے، قرآن مجید اور احادیث کی مستند کتب میں نکال کر دیکھ سکتا ہے۔ _ حدیث کی صحت سے کسی کو انکار بھی ہو تو قرآن کے کھلے کھلے احکام کو آخر وہ کہاں چھپائے گا؟

  • حجاب کے مقاصد: ’حجاب‘ (پردے) کے احکام ، جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں ، ان پر تھوڑا سا بھی غور کیجیے تو سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ان کے تین بڑے مقصد ہیں :
    • اوّل یہ کہ عورتوں اور مردوں کے اخلاق کی حفاظت کی جائے، اور ان خرابیوں کا دروازہ بند کیا جائے، جو مخلوط سوسائٹی میں عورتوں اور مردوں کے آزادانہ میل جول سے پیدا ہوتی ہیں۔
    • دوسرے یہ کہ عورتوں اور مردوں کا دائرہ عمل الگ کیا جائے، تاکہ فطرت نے جو فرائض عورت کے سپرد کیے ہیں انھیں وہ سکون کے ساتھ انجام دے سکے، اور جو خدمات مرد کے سپرد ہیں انھیں وہ اطمینان کے ساتھ بجالا سکے ۔
    • تیسرے یہ کہ گھر اور خاندان کے نظام کو مضبوط اور محفوظ کیا جائے ، جس کی اہمیت زندگی کے دوسرے نظاموں سے کم نہیں، بلکہ کچھ بڑھ کر ہی ہے ۔

پردے کے بغیر جن لوگوں نے گھر اور خاندان کے نظام کو محفوظ کیا ہے، انھوں نے عورت کو غلام بنا کر تمام حقوق سے محروم کرکے رکھ دیا ہے، اور جنھوںنے عورت کو اس کے حقوق دینے کے ساتھ پردے کی پابندیاں بھی نہیں رکھی ہیں، ان کے ہاں گھر اور خاندان کا نظام بکھر گیا ہے، اور روز بروز بکھرتا چلا جارہا ہے ۔ اسلام، عورت کو پورے حقوق بھی دیتا ہے اور اس کے ساتھ گھر کے اور خاندان کے نظام کو بھی محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ پردے کے احکام اس کی حفاظت کے لیے موجود نہ ہوں۔

خواتین و حضرات! میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ ٹھنڈے دل سے ان مقاصد پرغور کریں۔ اخلاق کا مسئلہ کسی کی نگاہ میں اہمیت نہ رکھتا ہو تو اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں، مگر جس کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت ہو، اسے سوچنا چاہیے کہ مخلوط سوسائٹی میں ، جہاں بن سنور کر عورتیں آزادانہ پھریں اور زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ کام کریں ، وہاں اخلاق بگڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں اور کب تک بچے رہ سکتے ہیں؟ ہمارے اپنے ملک میں یہ صورت حال جتنی بڑھتی جارہی ہے ، جنسی جرائم بڑھتے جارہے ہیں اور ان کی خبریں آپ آئے دن اخبارات میں پڑھ رہے ہیں ۔

 یہ کہنا کہ ’ان خرابیوں کا اصل سبب پردہ ہے ، جب پردہ نہ رہے گا تو لوگوں کا دل عورتوں سے بھر جائے گا ‘، بالکل غلط ہے۔ جہاں پوری بے پردگی تھی، وہاں لوگوں کے دل نہ بھرے اور ان کی خواہشات کے تقاضوں نے عریانی تک نوبت پہنچائی ۔ پھر عریانی سے دل نہ بھرے اور کھلی کھلی جنسی آوارگی تک نوبت پہنچائی اور اب اس کے کھلے لائسنس سے بھی دل نہیں بھر رہے ہیں، اور آج بھی کثرت سے جنسی جرائم ہورہے ہیں ، جن کی رپورٹیں امریکا و انگلستان اور دوسرے ممالک کے اخبارات میں آتی رہتی ہیں ۔ کیا یہ کوئی قابل اطمینان حالت ہے؟ یہ صرف اخلاق ہی کا تو سوال نہیں ہے ، ہماری پوری تہذیب کا سوال ہے۔ _ مخلوط سوسائٹی جتنی بڑھ رہی ہے، عورتوں کے لباس اور بناؤسنگار کے اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس کے لیے جائز آمدنیاں ناکافی ثابت ہورہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرف رشوت، غبن اور دوسری حرام خوریاں بڑھتی جارہی ہیں ۔ حرام خوریوں نے ہماری ریاست کے پورے نظام کو گھن لگا دیا ہے اور کوئی قانون ٹھیک طرح سے نافذ ہونے ہی نہیں پاتا ۔ پھر بھی یہ سوچنے کی بات ہے کہ جن کو اپنی خواہشات کے معاملے میں ڈسپلن کی عادت نہ ہو، وہ دوسرے کس معاملے میں ڈسپلن کے پابند ہو سکتے ہیں؟ جوشخص اپنے گھر کی زندگی میں وفادار نہ ہو، اس سے اپنی قوم اور ملک کے معاملے میں وفاداری کی توقع کہاں تک کی جاسکتی ہے؟

عورت اور مرد کا دائرۂ عمل الگ کرنا خود فطرت کا تقاضا ہے۔ فطرت نے ماں بننے کی خدمت عورت کے سپرد کرکے آپ ہی بتادیا ہے کہ اس کے کام کی اصل جگہ کہاں ہے؟ اور باپ بننے کا فرض مرد کے ذمے ڈال کر خود اشارہ کردیا ہے کہ اسے کن کاموں کے لیے مادریت کے بھاری بوجھ سے سبک دوش کیا گیا ہے۔ دونوں قسم کی خدمات کے لیے عورت اور مرد کو الگ الگ جسم دیے گئے ہیں ، الگ الگ قوتیں دی گئی ہیں، الگ الگ صفات دی گئی ہیں، الگ الگ نفسیات دیئے گئے ہیں۔ فطرت نے جسے ماں بننے کے لیے پیدا کیا ہے اسے صبر و تحمّل بخشا ہے، اس کے مزاج میں نرمی پیدا کی ہے، اسے وہ چیز دی ہے، جسے '’مامتا‘ کہتے ہیں ۔ وہ ایسی نہ ہوتی تو ہم اور آپ پَل کر بخیریت جوان نہ ہو سکتے تھے ۔ یہ کام جس کے ذمّے ڈالا گیا ہے، اس کے لیے وہ کام موزوں نہیں ہیں، جن کے لیے سختی اور سخت مزاجی کی ضرورت ہے۔ _ وہ کام اسی کے لیے موزوں ہیں، جسے ماں بننے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے اور جسے ان بھاری ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے جو ماں بننے کا لازمہ ہیں۔ آپ اس تقسیم کو مٹانا چاہتے ہیں تو پھر فیصلہ کر لیجیے کہ اب دنیا کو ماؤں کی ضرورت نہیں ہے۔ تھوڑی ہی مدت نہ گزرے گی کہ انسان ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کے بغیر ہی ختم ہو جائے گا۔ _ لیکن اگر یہ فیصلہ بھی آپ نہیں کرتے اور اس تقسیم کو بھی مٹانا چاہتے ہیں، تو یہ عورت کے ساتھ بڑی بے انصافی ہے کہ وہ اس پورے بوجھ کو بھی اٹھائے جو فطرت نے ماں بننے کے سلسلے میں اس پر ڈالا ہے، اور جس میں مرد ایک رتی برابر بھی اس کے ساتھ کوئی حصہ نہیں لے سکتا ، اور پھر وہ مردوں کے ساتھ آکر سیاست اور تجارت، صنعت وحرفت اور لڑائی دنگے کے کاموں میں بھی برابر کا حصہ لے ۔ خدا کے لیے ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو، انسانیت کی خدمت میں آدھا حصہ تو وہ ہے جسے پورے کا پورا عورت سنبھالتی ہے ۔ کوئی مرد اس میں ذرہ برابر بھی اس کا بوجھ نہیں بٹا سکتا۔ باقی آدھے میں سے آپ کہتے ہیں کہ آدھا بار اس کا بھی عورت اٹھائے ۔ گویا تین چوتھائی عورت کے ذمے پڑا اور مرد کے ذمے ایک چوتھائی ۔ کیا یہ انصاف ہے؟

عورت بے چاری اس ظلم کو خوشی خوشی برداشت کرنے ، بلکہ لڑ جھگڑ کر اپنے اوپر لینے کے لیے اس وجہ سے مجبور ہوئی کہ آپ نے عورت ہوتے ہوئے اور عورت کی جگہ کام کرتے ہوئے اسے عزت دینے سے انکار کر دیا۔ آپ نے بچوں والی کا مذاق اڑایا ۔ آپ نے گھر گرہستی کو ذلیل قرار دیا۔ آپ نے ان ساری خدمات کو گھٹیا درجہ دیا جو وہ خاندان میں انجام دیتی تھی اور جن کی انجام دہی آپ کی سیاست ، معیشت اور جنگ سے کچھ کم ضروری یا مفید نہ تھی ۔ مجبوراً وہ غریب عزّت اور قدر و منزلت کی تلاش میں ان کاموں کے لیے آمادہ ہوگئی، جو مرد کے کرنے کے تھے ۔ کیوں کہ مرد بنے بغیر اور مردانہ خدمات انجام دیے بغیر آپ اسے عزّت دینے کو تیار نہ تھے۔ اسلام نے اس پر یہ مہربانی کی تھی کہ عورت رہتے ہوئے اور زنانہ خدمات ہی انجام دیتے ہوئے اس نے اسے پوری عزت مرد کے برابر ، بلکہ ماں ہونے کی حیثیت سے مرد سے کچھ بڑھ کر ہی دی تھی۔

اب آپ کہتے ہیں کہ یہ چیز’ترقی‘ میں حائل ہے ۔ آپ کو اصرار ہے کہ عورت ماں بھی بنے اور مجسٹریٹ بھی اور پھر ناچ گا کر مردوں کا دل بہلانے کے لیے بھی وقت نکالے۔ آپ اس پر اتنا بوجھ ڈالتے ہیں کہ وہ کسی خدمت کو بھی بہ کُلّی اور بخوبی انجام نہیں دے سکتی۔ آپ اسے وہ کام دیتے ہیں جن کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی ۔ آپ اسے اس میدان میں کھینچ لاتے ہیں، جہاں وہ مردکا مقابلہ نہیں کرسکتی ، جہاں مرد اس سے آگے رہے گا۔ جہاں عورت کو اگر داد ملے گی تو نسوانیت کی رعایت سے ملے گی ، یا پھر کمال کی نہیں، جمال کی ملے گی ۔ یہ آپ کے نزدیک ’ترقی‘ کے لیے ضروری ہے۔

گھر اور خاندان ، جن کی اہمیت کو آپ ’ترقی‘ کے جوش میں بھول گئے ہیں ، دراصل یہ وہ کارخانے ہیں جہاں انسان تیار ہوتے ہیں۔ یہ کارخانے جوتے اور پستول بنانے کی نسبت کچھ کم ضروری تو نہیں ہیں ۔ ان کارخانوں کے لیے جن صفات ، نفسیات اور قابلیتوں کی ضرورت ہے، وہ فطرت نے سب سے بڑھ کر عورت کو دی ہیں۔ ان کو چلانے کے لیے جن خدمات اور محنتوں اور مشقتوں کی ضرورت ہے، ان کا زیادہ سے زیادہ بوجھ فطرت نے عورت ہی پر ڈالا ہے، اور ان کارخانوں میں کرنے کے کام بہت ہیں۔ کوئی فرض شناسی کے ساتھ ان کاموں کو کرنا چاہے، جیساکہ ان کا حق ہے، تو اسے سر کھجانے کی مہلت نہ ملے، اور پھر ان کو جتنی زیادہ قابلیت ، سلیقے اور دانش مندی کے ساتھ چلایا جائے، اتنے ہی زیادہ اعلیٰ درجے کے انسان تیار ہو سکتے ہیں ۔ اس کے لیے عورت کو زیادہ سے زیادہ عمدہ تعلیم وتربیت دینے کی ضرورت ہے۔ ان کارخانوں کو سکون و اطمینان اور اعتماد کے ساتھ چلانے کے لیے اسلام نے پردے کا ڈسپلن قائم کیا تھا ، تاکہ عورت یہاں پوری دل جمعی کے ساتھ اپنا کام کر سکے، اور اس کی توجہ غلط سمتوں میں نہ بٹے، اور مرد بھی پوری طرح مطمئن ہوکر زندگی کے اس شعبے کو اس کے ہاتھوں میں چھوڑ دیں۔ اب آپ ’ترقی‘ کی خاطر اس ڈسپلن کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ اس کے ختم ہو جانے کے بعد، دوکاموں میں سے ایک کام آپ کو بہرحال کرنا ہوگا۔ یا عورت کو ہندو تہذیب اور پرانی عیسائی اور یہودی تہذیب کی پیروی کرکے غلام بنا دیجیے، تاکہ خاندانی نظام بکھرنے نہ پائے ، یا پھر اس کے لیے تیار ہوجائیے کہ انسان بنانے کے کارخانے تباہ و برباد ہوکر جوتے اور پستول بنانے کے کارخانے آباد ہوں۔

میں آپ سے صاف کہتی ہوں کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اسلام جو مکمل قانونی اور معاشی حقوق عورت کو دیتا ہے، ان کو برقرار رکھتے ہوئے آپ اسلام کے قائم کردہ ڈسپلن کو توڑ دیں اور آپ کا خاندانی نظام برباد ہونے سے بچارہ جائے ۔ لہٰذا ،’ترقی‘ کا جو معیار بھی آپ کے سامنے ہو اسے نگاہ میں رکھ کر سوچ لیجیے کہ آپ کیا کھونا چاہتے ہیں اور کیا پانا چاہتے ہیں؟

’ترقی‘ بہت وسیع لفظ ہے ۔ اس کا کوئی ایک ہی مقرر مفہوم نہیں ہے ۔ مسلمان ایک زمانے میں خلیجِ بنگال سے لے کر بحراٹلانٹک تک حکمراں رہے ہیں۔ سائنس اور فلسفہ میں وہ دنیا کے استاد تھے۔ تہذیب وتمدن میں کوئی دوسری قوم ان کے ہم سر نہ تھی۔ معلوم نہیں اس چیز کا نام کسی لغت میں ترقی ہے یا نہیں؟ اگر یہ ترقی تھی تو میں عرض کروں گی کہ یہ ترقی اس معاشرے نے کی تھی، جس میں پردے کا رواج تھا۔

اسلامی تاریخ بڑے بڑے اولیا، مدبرین، علما ، حکما ، مصنّفین اور فاتحین کے ناموں سے بھری پڑی ہے۔ یہ عظیم الشان لوگ جاہل ماؤں کی گودوں میں پل کر تو نہیں نکلے تھے۔ خود عورتوں میں بڑی بڑی عالم و فاضل خواتین کے نام ہم کو اسلامی تاریخ میں ملتے ہیں۔ وہ علوم وفنون اور ادب میں کمال رکھتی تھیں۔ پردے نے اس ترقی سے مسلمانوں کو نہیں روکا تھا۔ آج بھی اسی طرز کی 'ترقی ہم کرنا چاہیں تو پردہ ہمیں اس سے نہیں روکتا ۔ البتہ اگر کسی کے نزدیک ’ترقی‘ بس وہی ہو، جو اہل مغرب نے کی ہے تو بلاشبہ اس میں پردہ بری طرح حائل ہے۔ پردے کے ساتھ وہ ’ترقی‘ یقیناً ہمیں حاصل نہیں ہوسکتی ۔ مگر یہ بات نہ بھول جایئے کہ مغرب نے یہ ترقی اخلاق اور خاندانی نظام خطرے میں ڈال کر کی ہے ۔ وہ عورت کو اس کے دائرۂ عمل سے نکال کر مرد کے دائرۂ عمل میں لے آیا ہے۔ اسی طرح اس نے اپنے دفتر اور کارخانے چلانے کے لیے دگنے ہاتھ تو حاصل کر لیے اور بظاہر بڑی ترقی کرلی ، مگر گھر اور خاندان کا سکون کھودیا۔ آج بھی وہاں اگر گھر آباد ہیں تو صرف گھر گرہستن عورتوں کی بدولت ہی آباد ہیں ۔ مردوں کے ساتھ کمانے والی عورتیں کہیں بھی گھر کا نظام نہیں چلارہی ہیں اور نہ چلاسکتی ہیں۔ ان کے نکاح آج طلاقوں پرختم ہورہے ہیں ، ان کے بچے تباہ ہورہے ہیں ۔ ان کے لیے ٹھکانا اگر ہے تو کلب میں ہے یا ہوٹل میں ۔ گھر ان کے لیے سکون کی جنت نہیں رہے اور اپنی جگہ لینے کے لیے بہتر انسان تیار کرنے کا کام انھوں نے چھوڑ دیا ہے ۔ اس ’ترقی‘ پر اگر کوئی ریجھتا ہے تو ریجھے ۔

’’میں دوبارہ کہتا ہوں کہ اگر ہم اپنے جذبے اور ولولوں کے لیے رہنمائی قرآنِ مجید سے حاصل کریں گے تو کامیابی اور فتح یقینا ہماری ہی ہوگی۔ آپ کی تخلیق ایک جوہرِ آب دار سے ہوئی ہے، اورآپ کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔آپ کو اپنے اندر صرف مجاہدانہ جذبے کو پروان چڑھانا ہے۔ آپ ایسی قوم ہیں، جس کی تاریخ، قابل اور صلاحیت کے حامل، باکردار اور بلندحوصلہ افراد سے بھری ہوئی ہے۔ آپ اپنی ان روایات پر قائم رہیے اور ان میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کردیجیے۔ میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچادیجیے کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دُنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے ضرورت کے وقت اپنا سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ ہوگا۔ اپنا حوصلہ بلند رکھیے، موت سے نہ ڈریے۔ ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ موت کے استقبال کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں پاکستان اور اسلام کے وقار کا تحفظ کرنے کے لیے اس کا مردانہ وار سامنا کرنا چاہیے۔ ایک اعلیٰ اور صحیح مقصد کے حصول کی خاطر جدوجہد میں ایک مسلمان کے لیے جامِ شہادت نوش کرنے سے بہتر اور کوئی راہِ نجات نہیں ہے۔

یاد رکھیے، قانون کا نفاذ اور امن کی بحالی، ترقی کے لوازمات میں سے ہیں۔ اسلامی اصولوں کی روشنی میں ہرمسلمان پر یہ ذمہ داری فرضِ عین کا درجہ رکھتی ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کی حفاظت کرے اور بلالحاظ ذات پات اورعقیدہ، اقلیتوں کو تحفظ دے۔ ہندستان میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے، اس کے باوجود ہمیں اس بات کو اپنی عزّت اور وقار سمجھنا چاہیے کہ ہم اپنی اقلیتوں کی جانوں کی حفاظت کریں، اور ان میں احساسِ تحفظ پیدا کریں۔ میں یہ بات ہرمسلمان کے ذہن نشین کرادینا چاہتا ہوں، جو دل سے پاکستان کی فلاح اور بہبود اور اس کی خوش حالی کی خواہش رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے تو دُنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہ کرسکے گی۔ یہ قائم رہنے کے لیے معرضِ وجود میں آیا ہے۱۔   (محمدعلی جناح، خطاب بمقام یونی ورسٹی اسٹیڈیم، لاہور، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء)

۲۳مارچ ۱۹۴۰ء ہم عصر مسلم تاریخ کا ایک تاریخ ساز دن تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلمانوں کا یہ مطالبہ پیش کیا کہ ان کے لیے ایک آزاد، خودمختار اسلامی ریاست تشکیل دی جائے۔ برصغیر کے شمال مغربی اور شمال مشرقی چھے صوبوں میں مسلمان واضح اکثریت میں تھے۔ وہ لگ بھگ دس کروڑ مرد و زن تھے اور قومیت کی ہرتعریف کے اعتبار سے ایک علیحدہ قوم تھے۔ جیساکہ بعد میں مسلم لیگ کے رہنما محمدعلی جناح نے اپنے مدِمقابل ہندوئوں کے لیڈر موہن داس گاندھی (م:۱۹۴۸ء) کو سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا:

ہم ایک قوم ہیں، اور ہمارا جداگانہ تمدن اور تہذیب ہے۔ زبان اور ادب، فنونِ لطیفہ اور فن تعمیرات، نام اورنام رکھنے کا طریقہ، شعورِ اقدار اور تناسب، قوانین اور اخلاقی ضابطے، رسوم اور کیلنڈر، تاریخ اور روایات، رجحانات اور اُمنگیں، مختصر یہ کہ ہمارا زندگی پر اور زندگی کے بارے میں خصوصی نقطۂ نظر ہے۲۔

 اسلام مسلم قومیت کی وجۂ جواز ہے اورمسلم قومیت پاکستان کے قیام کے لیے وجۂ جواز ہے۔ بصورتِ دیگر دوسرا متبادل مسلمانوں کے لیے صرف یہ ہے کہ وہ بادل نخواستہ دائمی طور پر اس جمہوری نظام حکومت میں (ایک مستقل بالذات اکثریت کی) غلامی پررضامند ہوجائیں۔ یہ بات محض نظری اور خیالی اندیشوں پر مبنی نہیں ہے۔

مسلمانوں کو اس (ہندوراج) کا تلخ تجربہ ہوچکا تھا، جب ۳۹-۱۹۳۷ء کے درمیان کانگرس کی وزارتوں کو چھے ہندو اکثریت کے صوبوں میں محدود خودمختاری ملی تھی اور اس نے ہمیں اُس معرکہ آرائی اور آویزش کی یاد دلا دی تھی، جو یورپ بالخصوص جرمنی میں اسکولوں کے نظم و نسق اور تدریس کے حوالے سے چرچ اور حکومت کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔ جب یہ وزارتیں ختم ہوئی تھیں تو مسلمانانِ ہند نے یومِ نجات منایا تھا۔

اگست ۱۹۴۷ء سے آزادی کے بعد کا ہندستان جو دستوری طور پر تو سیکولر، لیکن عملی طور پر ہندوراج کی شکل ہے، وہاں مسلمانوں اور نچلے طبقات کے وہ ہندو بھی جو برہمن زاد نہیں ہیں، مشکلات و مصائب کا شکار ہیں۔ ان حقائق نے بلاخوف و تردید یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ قائداعظم بلاشبہہ ایک عظیم لیڈر تھے، جن کی دانش وفراست نے مستقبل کا درست اندازہ کرلیا تھا۔

محمدعلی جناح نے ۱۹۳۴ء میں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تھی اور یہ وہ وقت تھا، جب ہندستان کے مسلمان شدید انتشار اور بدنظمی کا شکار تھے۔ پانچ برس سے کم عرصے میں انھوں نے مسلم لیگ کو ایک ایسی منظم قوت بنادیا، جس کو نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ ہندو اکثریت کی حامل انڈین نیشنل کانگریس اور برطانوی حکومت دونوں کے لیے اس کی حیثیت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہ رہا۔ جسے ہم ’قرارداد پاکستان‘ کہتے ہیں، وہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور کی گئی تھی اور پاکستان دُنیا کے نقشے پر ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو تشکیل پاسکا تھا، جو ۲۷رمضان ۱۳۶۶ھ کی لیلۃ القدر بھی تھی۔

پاکستان دوسری جنگ ِ عظیم [۴۵- ۱۹۳۹ء]کے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں محض ایک اور ملک نہ تھا۔ یہ ایک تصور،آدرش اوروژن تھا، جس کا تعلق جغرافیائی بنیاد پر قائم قومیت یا قوم پرستی سے ہرگز نہیں تھا، بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ اور کوشش تھی، جس کا مقصد اُمت اسلامی کے اس آفاقی اور اَبدی تصور کا احیا تھا، جسے نوآبادیاتی یلغار نے بُری طرح مجروح کر دیا تھا۔ اس تصور کو انھوں نے ہی نہیں بلکہ دوسرے باشعور لوگوں نے بھی سمجھنے میں دیر نہیں کی تھی۔

قراردادِ پاکستان کی منظوری کے اگلے دن برطانیہ میں وزیرہند لارڈ لارنس ڈنڈاس زیٹ لینڈ [م: ۱۹۶۱ء] نے برطانوی وائسرائے ہند لارڈ لین لنتھگو [م: ۱۹۵۲ء] کو دہلی میں خبردار کرتے ہوئے یہ لکھا کہ:

اگر پاکستان ایک حقیقت بن جاتا ہے تو یہ اسلام کی جانب دعوت کا ایک ذریعہ ہوگا جس کی کوئی حدود نہیں.... مصطفےٰ کمال پاشا [م:۱۹۳۸ء]کے خلافت کے ختم کردینے سے اسلام کی قوت قدرے کمزور ہوگئی ہے مگر اس کی قابلِ ذکر اپیل اب بھی موجود ہے جس کا ثبوت جناح کا یہ اصرار ہے کہ اس بات کا اطمینان اور یقین دلایا جائے کہ ہندستان کے سپاہیوں کو کسی بھی مسلمان کے خلاف جنگ میں استعمال نہیں کیا جائے گا اور ساتھ ہی جناح کا فلسطین کے عربوں کے لیے ہمدردی اور تعاون کا اظہار بھی اسی بات کی جانب اشارہ کرتا ہے۳۔

لارڈ ڈنڈاس زیٹ لینڈ اپنے حاشیہ خیال میں یہ لائے بغیر بھی نہ رہ سکا کہ اگر مسلم لیگ کے ارادوں کے مطابق ہندستان میں ایک مستقل علیحدہ مسلم ریاست کا قیام ممکن ہوجاتا ہے، تو وہ بالآخر ایک اسلامی دولت مشترکہ میں شمولیت سے باز نہ رہ سکیں گے۔

نوآبادیاتی نظام کا یہ نمایندہ غیرمعقولیت کی حد تک پاکستان کے تصور سے اندیشوں میں مبتلا تھا، لیکن وہ اپنے خیال کی حد تک غلط بھی نہ تھا۔ بہرصورت، یہ سب کچھ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ نہ صرف ہندو نیشنل کانگریس، بلکہ برطانیہ بھی ایک علیحدہ مسلم ریاست کے خلاف تھا۔ یہاں تک آخری انڈین وائسرائے لارڈمائونٹ بیٹن [م: ۱۹۷۹ء] نے یہ مطالبہ طوعاً و کرہاً منظورکرلیا، تو اس میں اس حددرجہ زہرآلود، ناانصافی کا عنصر بھی شامل کرکے رکھ کر اپنے تئیں یہ اطمینان کرلیا کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد زیادہ عرصہ تک ریاستی وجود برقرار نہ رکھ سکے۔ لیکن بہرصورت پاکستان صرف آزادیِ وطن ہی نہیں ایک منزل اور مقصد کا نام بھی تھا۔ ایک نام نہاد مقدس سامراجیت اور نسل پرست استبداد سے آزادی فطری طور پر مسلمان قوم کی تقدیر سے وابستہ منزل ہے۔ جیساکہ علامہ اقبال [م: ۱۹۳۸ء] نے بڑی خوب صورتی سے کہا تھا:’’اسلام بذاتِ خود تقدیر ہے اور یہ تقدیر کا شکار نہیں ہوگا‘‘۴۔

اس قومی آدرش کے بارے میں قائداعظم کو کبھی کوئی ابہام یا شک نہیں رہا۔ یہی وہ بات ہے، جسے قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد بھی بارہا دُہرایا تھا۔ انھوں نے یہ بات بڑے واشگاف الفاظ میں اور بغیر کسی جھجک اور معذرت خواہانہ انداز کے اس وقت کہی تھی، جب مائونٹ بیٹن نے قائداعظم کو مغل شہنشاہ اکبر [م:۱۶۰۳ء] کی مثال دے کر سمجھانا چاہا تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا تھا:

غیرمسلموں کے لیے جس رواداری اور حُسنِ سلوک کا مظاہرہ اس شہنشاہ اکبر نے کیا تھا، وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ۱۳ سوسال قبل ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور عمل سے اس وقت اس کا مظاہرہ کیا تھا، جب انھوں نے زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے مسیحیوں اور یہودیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ ان کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد اور اعمال کے لیے مکمل احترام کیا تھا۔ مسلمان جہاں کہیں بھی حکمران رہے، اسی طرح رہے۔ ان کی پوری تاریخ اسی نوعیت کی انسانیت نواز مثالوں اور ان عظیم اصولوں سے منور ہے، جن پرعمل کیا جانا ضروری ہے‘‘ ۵۔

پاکستان محض ایک اور مسلم ریاست کا نام نہیں بلکہ جیساکہ جناح نے اپنی ریڈیائی نشری تقریر میں فروری ۱۹۴۸ء میں کہا تھا:’’پاکستان سب سے بڑی اسلامی ریاست ہے اور دُنیاکی پانچویں بڑی ریاست بھی ہے‘‘۔ ان کا یہ خطاب بالخصوص ریاست ہائے امریکا کے لوگوں کی جانب تھا۔ اس میں انھوں نے مزیدفرمایا تھا کہ :

پاکستان کو اپنی زندگی کے گذشتہ پانچ مہینوں میں ہولناک آزمایشوں اور مصائب اور ایسے سانحوں سے گزرنا پڑا ہے، جن کی بنی نوع انسانی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تاہم، دُنیا کی تمام قوموں کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی ہماری حکمت عملی ہے۔ ہم کسی ملک اور قوم کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔ ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں دیانت داری اور انصاف کے قائل ہیں، اور اقوامِ عالم میں امن اور خوش حالی کو فروغ دینےکے لیے اپنی پوری کوشش صَرف کردینے کے لیے پُرعزم ہیں۔ پاکستان دُنیا کی مقہور اور مجبور قوموں کی مادی اور اخلاقی اعانت اور اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں کو اپنانے میں کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہے گا ۶۔

یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک تزویراتی اور غیرمبہم بیان بھی تھا، اور پاکستان نے کم از کم اپنے قیام کے ابتدائی چند برسوں اس پر عملی کام بھی کیا تھا۔ پاکستان نے آزادی کے حصول اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے لیے ممکن حد تک ہرقسم کی اخلاقی اور مادّی امداد جاری رکھی اور یہ سلسلہ الجیریا، تیونس، لیبیا، سوڈان سے لے کر صومالیہ اور انڈونیشیا تک جاری رہا۔

ایک ایسی خارجہ حکمت عملی جو مسلم دُنیا کی آزادی پر مرکوز ہو، ایک مضبوط عسکری طاقت کے وجود کا تقاضا کرتی ہے۔ آزادی سے صرف گیارہ روز قبل جناح نے ہندستان کے ان فوجی افسران سے ایک غیررسمی ملاقات کی، جنھوں نے پاکستان میں اپنی خدمات پیش کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا۔ ان افسران کے لیے ان کا پیغام مختصر، مگر نہایت واضح تھا: ’’اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ پاکستان کو دُنیا کی عظیم ترین مسلم ریاست بنائیں‘‘ ۷۔

اس ملاقات میں جہاں انھوں نے پاکستان کی مسلح افواج کا ہدف واضح کیا، وہاں ہندستان کی تینوں افواج کے برطانوی سربراہوں کے علاوہ مستقبل کی بھارتی افواج کے تمام سربراہ بھی موجود تھے۔ غالباً اسی لیے انھوں نے ضروری سمجھا کہ پاکستان کا دفاعی عسکری مطمح نظر واضح کر دیا جائے، تاکہ ہرشخص اس حقیقت کو سمجھ بھی لے اور یاد بھی رکھے۔

قائد کا یہ نظریہ کوئی قیاسی اور خفیہ تصور نہیں تھا، اور نہ یہ کوئی نیا نوآبادیاتی خاکہ تھا کہ جس کا ہدف دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی کرنا ہو۔ پاکستان کے کسی بھی دوسرے ملک کے حدودِ ارضی پر کوئی دعوے نہیں تھے۔ علاقائی حوالے سے پاکستان کی تشویش صرف ہندستان کا عسکری طاقت کے زور پر ریاست جموں و کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے سے متعلق تھا۔ جو اس نے اپنے ہی کیے ہوئے اس اعلان سے مُکرجانے پر کیا تھا کہ کشمیر کے لوگوں کو ہندستان یا پاکستان سے الحاق کا مکمل اختیار ہوگا، لیکن یہ سیاسی ذرائع اور بین الاقوامی ضابطوں کی روشنی میں طے کیا جائے گا۔

دوسری طرف قیامِ پاکستان تاریخ کی متعین کی ہوئی راہوں کی روشنی میں ہوا تھا۔ لارڈ زیٹ لینڈ نےٹھیک کہا تھا کہ ’’تحریک پاکستان کو روکنا تقریباً ناممکن ہے‘‘۔ لیکن اس کا پاکستان کی تخلیق کو ایک منفی اور نئی نوآبادیاتی سوچ کی آبیاری قرار دینا ایک بڑی غلطی تھی۔ اس کے اندیشوں کے برعکس ایک اسلامی دولت مشترکہ عالمی استحکام اور امن کے قیام میں ایک جزولاینفک کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم، ایک واحد عالمی طاقت امریکا کے زیراثر جب سے دُنیا آگئی ہے، اور جس میں سابقہ برطانیہ عظمیٰ بھی ایک ثانوی درجے کی حیثیت کو پہنچ گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں عالمی بحران اور آویزش نمایاں ہوگئی ہے۔ یہ صورتِ حال خوں آشام بھی ہوسکتی ہے اور یہ طاقت ور اور طاقت سے محروم ملکوں اور قوموں کے لیے عدم تحفظ، انتشار کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ لیکن بہرصورت یہ ایک عارضی مرحلے کی حالت ہے۔ اس لیے کہ جن کو استعماری سلطنت نے اپنے مقاصد کے لیے زندہ رکھا تھا، اپنے مقاصد پورے ہونے کے بعد ان کو اسی سلطنت نے فنا کے گھاٹ بھی اُتار دیا ہے۔

’’پاکستان کا تصور بہرصورت ایک تیسرے بلاک کے درمیانی راہ والے ملک کی حیثیت میں دیکھا جانا چاہیے جو نہ اشتراکیت کو اختیار کرے گا اور نہ سرمایہ دارانہ نظام کو اپنائے گا بلکہ اس کی بنیاد خلیفۂ ثانی سیدنا عمرؓ کے بتائے ہوئے طرزِ حکمرانی پر ہوگی‘‘ ۸۔

یہ بات محمدعلی جناح نے ایک نوجوان مسلم لیگی سیاست دان شوکت حیات خاں [م:۱۹۹۸ء] سے مارچ ۱۹۴۳ء میں کہی تھی۔ جناح نے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کیا کہا تھا، سنیے: ’’پاکستان وہ جگہ ہوگی، جہاں مسلم دانش وَر، ماہرین تعلیم، ماہرین معاشیات، سائنس دان، اطباء، انجینیرز اور فنکار اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے مل کر کام کریں گے‘‘۔۹

یہی وہ اعلان تھا جس کی دیانت دارانہ اِتباع اور وفاداری نبھاتے ہوئے پاکستان کی دستورساز اسمبلی نے ۱۲مارچ ۱۹۴۸ء کو ’قرارداد ِ مقاصد‘ منظور کی، جس میں قائداعظم کے مشن اور نظریے کو سمو دیا گیا تھا۔ اس قرارداد میں پاکستان کے عوام کے اس نقطۂ نظر اور آدرش کو سمو دیا گیا تھا، جس میں تمام دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ جمہوریت، آزادی، مساوات اور معاشرتی عدل کے اصولوں پر مبنی ایسا نظام تشکیل دینے اور نافذ کرنے کا اعلان تھا ،جو اسلام نے بڑی تفصیل سے واضح کیا ہے۔

یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وہ بنیادی آدرش اور مقصد تھا، جس کے لیے لاکھوں مردوں اور خواتین اور بچوں نے خون کے دریا اور قدم قدم پر موت کی وادیاں عبور کی تھیں، تاکہ وہ اپنے خوابوں کی سرزمین تک پہنچ سکیں۔ انھیں ان کے آبائواجداد کی سرزمین سے بے دخل کرکے تباہ کردیا گیا تھا۔ لیکن وہ نہ اس بربادی سے خوف زدہ ہوئے اور نہ منزل کی جانب سفر سے باز آئے۔ انھوں نے اَزسرنو اپنی زندگی اور اپنی نئی ریاست کی تعمیرنو کا آغاز کردیا۔ چند غیرمرتب ایسے دفاتر میں بیٹھ کرکام شروع ہوگیا، جن میں کرسیاں، میزیں، کاغذ اور لکھنے پڑھنے کا سامان بھی ناکافی تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود ان کی زبان پر نہ شکوہ تھا، نہ گلےاورشکایتیں، بس یہ اطمینان تھا کہ انھوں نے منزل کو پالیا ہے۔

پھر کیا ہوا___ آہستہ آہستہ پاکستان کے نظام پر موقع پرستوں،زرپرستوں اور بِکے ہوئے نمایندوں نے قبضہ کرلیا۔

حواشی

۱-         روزنامہ The Civil & Military Gazette ،لاہور، ۳۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء

۲-         قائداعظم کا خط بنام گاندھی جی، مؤرخہ ۱۷ستمبر ۱۹۴۴ء

۳-         M EUR، دستاویز نمبر ۶۰۹، جلد۱۱، انڈیا آفس لائبریری، حوالہ تقریریں اور بیانات۔

۴-         خطبۂ صدارت محمد اقبال ، ۲۱ویں سالانہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ ، الٰہ آباد، ۲۹دسمبر ۱۹۳۰ء

۵-         روزنامہThe Star of India، ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء بحوالہ Speeches, Statements & Messages of The Quaid-e-Azam ، ج۴، مرتبہ: خورشید احمد خاں یوسفی، بزمِ اقبال لاہور، ص ۲۶۱۰

۶-         Speeches..... ،ایضاً، ص ۲۶۹۳

۷-         قائداعظم کی مسلمان عسکری قیادت سے ملاقات، دہلی،اگست ۱۹۴۹ء، بحوالہ میجر جنرل سیّد شاہد حامد [م: ۱۹۹۳ء] Early Years of Pakistan، فیروز سنز،لاہور، ۱۹۹۳ء۔ اس وقت شاہد حمید بطور لیفٹیننٹ کرنل، فیلڈمارشل سر کلاڈ جان آیر آکینلک [م: ۱۹۸۱ء] کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے اور اس شام کے استقبالیہ کی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

۸-         جب یروشلم نے رضاکارانہ طور پر خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ کے آگے سرتسلیم خم کر دیا، تو حضرت عمرؓ نے ایک عہدنامہ پر دستخط کیے جس کے مطابق ایلا (Aelia) کے تمام باشندوں کو جن میں کمزور، بیمار اور صحت مند سب شامل تھے، مکمل تحفظ فراہم کیا گیا۔ ان کے جان و مال، عبادت گاہیں اور صلیبوں اور دیگر مذہبی شعائر کو نقصان نہ پہنچنے کی ضمانت دی گئی۔ ان کو مکمل مذہبی آزادی بھی دی گئی اور یہ ضمانت بھی دی گئی کہ مذہبی عقائد کے حوالے سے کسی کو کوئی گزند نہ پہنچنے دی جائے گی۔

            ان کے مذہبی پیشوا کی معیت میں سیّدنا عمرؓ جب ان کے مرکزی کلیسا پہنچے تو عبادت کا وقت تھا۔ عیسائیوں کے مذہبی پیشوا نے چرچ میں ان کو نماز ادا کرنے کی پیش کش کی، لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے یہ کہتے ہوئے معذرت کرلی کہ اگر ’’میں نے ایسا کیا تومبادا میرے پیروکار بعد میں اس کو مسجد نہ بنالیں‘‘۔ اس کے بعد اپنے آخری ہدایت نامے میں حضرت عمرؓ خلافت کے عظیم منصب کی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی اپنے جانشینوں کو تاکید کرتے ہیں کہ وہ ذمیوں کو، جو دوسرے عقائد کے حامل حفاظت میں لیے گئے شہری ہیں، پورا تحفظ فراہم کریں اور ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالیں، جن کو وہ اُٹھا نہ سکتے ہوں۔ بحوالہ تھامس والکر آرنلڈ [م: ۱۹۳۰ء] : The Preaching of Islam، طبع اوّل، ۱۸۹۶ء

۹-         جمیل الدین احمد، Quaid-i-Azam as Seen by His Contemporaries، پبلشرز یونائیٹڈ، لاہور، ۱۹۹۶ء

نو مسلم دانشور محمد اسد (لیوپولڈ وئیس؛۱۹۰۰ء- ۱۹۹۲ء)  کے تصور و فہم اسلام میں دین اور سیاست و حکومت کی یکجائی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ محمد اسد کی نظر میں اسلامی نظریہ ٔ حیات کو کامل طور سے مسلمانوں کی زندگی میں جاری و ساری کرنے کے لیے ریاست و حکومت کا قیام ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔ چنانچہ ترجمۂ تفسیر قرآن، شرح بخاری شریف کے علاوہ معاشرے کی اسلامی تشکیل اور ایک حقیقی اسلامی ریاست کے خدوخال، اور اس کے دستور کی توضیح وتشریح، ان کی تالیفات کے اہم عنوان رہے ہیں۔ محمد اسد ایک جدید جمہوری فلاحی اسلامی ریاست کے قیام کے شدید آرزو مند تھے۔ انھوں نے اپنی مختلف تحریروں میں جدید مسلم دُنیا میں مغرب کی نقالی کی دوڑ میں سیکولر قومی ریاستوں کے قیام (ترکی ، افغانستاان ، اور ایران)، کے علاوہ موروثی بادشاہت اور ملوکیت (سعودی عرب میں سعودی بادشاہت ) کو سخت تنقید کا ہدف بنایا ۔ اسلامی ریاست کے تصور سے اپنی اس گہری وابستگی کے پیش نظر محمد اسد کو تحریک پاکستان کے نصب العین، یعنی اسلامیان ہند کے لیے ایک جداگانہ اسلامی مملکت کے قیام سے گہری دل چسپی تھی۔ تحریک پاکستان کے فیصلہ کن مرحلے میں (۱۹۴۶ء-۱۹۴۷ء) اور خصوصاً قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں کے دوران میں انھوں نے اپنے آپ کو دو قومی نظریے کی توضیح و تشریح اور جدید اسلامی مملکت کے دستوری اصول کی تعبیر و تشریح کے لیے وقف کر دیا ۔

 تحریک پاکستان کا حقیقی نصب العین کیا تھا؟ ،بانیا ن پاکستان، خصوصاً علامہ ڈاکٹر محمداقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کس طرح کا پاکستان قائم کرنا چاہتے تھے؟ محمد اسد نے ان موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کے بارے میںمحمد اسد کی آرا و خیالات ، سیکولر قومی ریاست کے قیام کے علَم برداروں کی طرف سے مملکتِ پاکستان کی نظریاتی جہت کے بارے میں پیدا کردہ شکوک و شہہات کے ازالے کے ضمن میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ذیل میں محمد اسد کے تصور و نظریۂ پاکستان پر بحث کی گئی ہے:

علّامہ محمد اسد کو اسلامی قومیت کے نظریے کی اساس پر مطالبہ و تحریک پاکستان کی صورت میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق اپنے دیرینہ خواب و آرزو کی تعبیر کے واضح طور پر امکانات دکھائی دیے۔چنانچہ وہ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر برطانوی قید سے رہائی پانے کے ساتھ ہی بڑے جوش و جذبے کے ساتھ اس تحریک کے ایک سرگرم داعی و ترجمان بن گئے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں مطالبہ و تحریک پاکستان کی نظریاتی اساس، اس کے حقیقی مقصد و غایت اور نصب العین کی وضاحت اور تشہیر کی اور پاکستان کو ایک نظریاتی اسلامی ریاست بنانے کا مُقدّمہ پوری قوت اور طاقت سے پیش کیا۔ اسی طرح انھوں نے بطور خاص دینی و شرعی اور سیاسی و ملّی نقطۂ نگاہ سے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی ضرورت و اہمیت واضح کی۔

محمد اسد نے برِّعظیم میں اپنے پندرہ سولہ سالہ قیام (۱۹۳۲ء-۱۹۴۷ء) کے دوران میں ہندو مسلم سیاست کا قریبی مشاہدہ کیا۔ وہ اس ملک کی ہندواکثریت اور اس کی نمایندہ سیاسی جماعت کانگریس کے سیاسی عزائم اور بالخصوص اس کے متحدہ وطنی قومیت کے نظریے اور اس کے مضمرات سے بخوبی واقف و آگاہ تھے۔ کانگریسی دورِ وزارت (۱۹۳۷-۱۹۳۹ء) کی مذہبی اور تعلیمی و ثقافتی پالیسیوں، مزید برآں اس دور میں ہندو آبادی کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنائے جانے سے بھی وہ باخبر تھے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ان کی نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے تھے۔

دریں حالات وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس خطّے میں مسلمانوں کے تحفظ و بقا اور احیائے اسلام کی غرض سے ایک آزاد و خود مختار اسلامی مملکت ’پاکستان‘ کا قیام ایک انتہائی ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان ایسی مسلم مملکت کے قیام کی صورت ہی میں اسلام کو اسلامیانِ ہند کی زندگی کے جملہ شعبوں میں جاری و نافذ کیا جاسکتا تھا اور ان کی اخلاقی و روحانی زندگی میں انقلاب برپا کیا جاسکتا تھا۔ اسد نے مئی ۱۹۴۷ء کو مجلہ  Arafat (عرفات ) میں What Do We Mean by Pakistan?? (ہم پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟/ ہم کیسا پاکستان چاہتے ہیں؟) کے عنوان سے اپنا ایک مقالہ شائع کیا، جس میں انھوں نے اپنے تصوّر و نظریۂ پاکستان کو وضاحت سے پیش کیا۔ اس مقالہ میں انھوں نے لکھا:

"I do believe (and have believed it for about fourteen years) that there is no future for Islam in India unless Pakistan becomes a reality; and that, if it becomes a reality here, it might bring about a spiritual revolution in the whole Muslim World by proving that it is possible to establish an ideological Islamic polity in our times no less than thirteen hundred years ago".

میرا عقیدہ ہے اور گذشتہ چودہ سال [۱۹۳۲ء کے وسط میں برِّعظیم میں اپنی آمد کے دنوں] سے میں اس عقیدے پر قائم ہوں کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں ماسوائے اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کر قائم ہوجائے۔ اگر پاکستان و اقعتاً قائم ہوجاتا ہے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی اسلامی نظام حکومت (Ideological Islamic Polity) قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے۔

محمد اسد نے مسلمانانِ ہند کے لیے ایک جداگانہ مملکت کا مطالبہ قومیت کے مغربی نظریے کی اساس پر نہیں بلکہ اسلامی نظریہ قومیت کی بنیاد پر کیا ہے،کہ جس کے تحت ہر نسلی، لسانی اور جغرافیائی قومیت کو سیاسی اعتبار سے حق خود ارادیت حاصل ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک اسلامیانِ ہند کے لیے ایک آزاد و خودمختار مملکت کے مطالبہ کی حقیقی و تاریخی عِلّت اور وجۂ جواز صرف اور صرف یہ نہ تھی کہ وہ اس ملک کے دوسرے باشندوں (خصوصاً ہندوؤں) سے مختلف لباس پہنتے اور مختلف زبان بولتے یا پھر مختلف انداز میں علیک سلیک کرتے تھے، یا یہ کہ انھیں آزاد و جداگانہ مملکت میں زیادہ معاشی مواقع کی خواہش اور توقع تھی اور انھیں زیادہ وسیع وکشادہ جگہ کی طلب تھی۔ بلکہ اس کا جواز صرف یہ تھا کہ وہ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں غیر مسلموں کی اکثریت تھی اور انھیں سیاسی غلبہ بھی حاصل تھا، مسلمانوں کے لیے حقیقی اسلامی زندگی بسر کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ ایک ایسی مملکت کا قیام ضروری تھا جس میں مسلمان اپنے دین و عقیدے کے مطابق آزادانہ طور پر اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کی تعمیروتشکیل کرسکتے ہوں۔ اسد کے الفاظ میں:

The Pakistan movement, …that the real, historic justification of this movement… is to be found only in the Muslims' desire to establish a truly Islamic polity: in other words, to translate the tenets of Islam into terms of practical life.

مطالبہ پاکستان کا اگر کوئی جواز ہے تو صرف یہ کہ ایک ایسی حقیقی اسلامی مملکت قائم کی جائے کہ جہاں عملی زندگی میں اسلامی احکام و شعار رائج کیے جائیں۔

اسد کے نزدیک تحریک پاکستان کی جڑیں اسلامیان بّرعظیم کے اس جبلّی احساس و شعور میں پیوست ہیں کہ وہ ایک نظریاتی قوم ہیں اور ان کا جداگانہ تشخص صرف اور صرف اسلامی نظریۂ حیات سے وابستگی کی اساس پر قرار پاتا ہے۔ چنانچہ نہ صرف یہ کہ وہ خود مختار سیاسی وجود کے حق دار ہیں بلکہ ان پر لازم آجاتا ہے کہ وہ اپنے جداگانہ تشخّص کے تحفظ و بقا کی خاطر ایسا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کریں، جس میں اسلامی نظریۂ حیات ان کی اجتماعی زندگی کے ہر ہر پہلو اور ہر ہر مظہر میں دکھائی دے۔ ان کی نظر میں یہی تحریک پاکستان کا حقیقی و تاریخی نصب العین ہے۔ اسد کے الفاظ میں:

As far the Muslim masses are concerned, the Pakistan movement is rooted in their instinctive feeling that they are an ideological community, and have has such every right to an autonomous, political existence … They feel and know that their communal existence is not, as in other communities,based on racial affinities or on the consciousness of cultural traditions held in common, but only, exclusively, on the fact of their common adherence to the ideology of Islam: and that, therefore, they must justify their communal existence by erecting a socio-political structure in which that ideology, the shari'ah, would become the visible expression of their nationhood.... This is the real, historic purpose of Pakistan movement the movement's intrinsic objective, the establishment of an Islamic polity in which our ideology could come to practical fruition.

جہاں تک مسلمانانِ ہند کا تعلق ہے، تحریک ِ پاکستان کی جڑیں ان کے اس جبلّی احساس میں پیوست ہیں کہ وہ ’ایک نظریاتی قوم‘ ہیں اور اسی لیے وہ ایک خودمختار، جداگانہ سیاسی وجود کے حق دار ہیں۔بالفاظِ دیگر وہ محسوس کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کا جداگانہ تشخص دوسری اقوام کی طرح مشترکہ نسلی مشابہتوں [اشتراکات] اورقرابتوں یا مشترکہ  ثقافتی اقدار و روایات کے شعور کی بنیاد برقرار نہیں پاتا، بلکہ اسلامی نظریہ و اعتقاد سے مشترکہ وابستگی کی اساس برقرار پاتا ہے۔ پس، ان پر لازم آجاتا ہے کہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کے جواز کی خاطر ایسا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کریں، جس میں اسلامی نظریہ  اور اعتقاد (یعنی شریعت)، ان کی قومیت کے ہرپہلو اور ہرمظہر میں سب کو دکھائی دے… یہ ہے تحریکِ پاکستان کا حقیقی و تاریخی نصب العین۔ تحریک ِ پاکستان کا اصلی نصب العین کیا ہے؟ ایک اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام، جس میں ہمارا نظریۂ [حیات] حقیقت کا رنگ رُوپ اختیار کرسکے۔

محمد اسد نے علامہ محمد اقبال اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی طرح قومیت کے مغربی تصور کی پر زور طریقے سے نفی و تردید کی اور اسے اسلامی نظریۂ حیات سے متصادم قرار دیا جب کہ اس کے مقابلے میں اسلامی قومیت کے تصور کو نکھار کر پیش کیا۔ ان (اسد) کے نظریۂ اسلامی قومیت کے مطابق مسلمان ایک نظریاتی ملت ہیں نہ کہ نسلی، لسانی اور جغرافیائی وحدت۔ ان کی قومیت کی بنا صرف اسلام ہے۔ وہ دنیا کی دیگر قوموں کی طرح مشترکہ نسلی و لسانی مشابہتوں اور قرابتوں یا مشترکہ ثقافتی اقداروروایات کے شعور کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلامی نظریۂ و اعتقاد سے وابستگی کی بنیاد پر ایک ملت ہیں۔ وہ محض مسلمان ہونے کی بناء پر، خواہ وہ جغرافیائی اعتبار سے کسی بھی خطے میں آباد ہوں، ایک ملت ہیں۔ اسد کی رائے میں اسلام مسلمانوں کے جداگانہ تشخّص و وجود کے چند عوامل و خصائص میں سے صرف ایک عامل نہیں بلکہ وہ تو ان کے وجود کی تاریخی علّت اور ان کی قومیت کی حقیقی و اصلی اساس ہے۔  وہ واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں:

’’لفظ ’قوم‘ کے رواجی مفہوم سے ہمیں کوئی نسبت نہیں ہے۔ ہم ایک قوم ہیں لیکن محض اس لیے نہیں کہ ہماری عادات، ہمارے رسوم و رواج، ہمارے ثقافتی مظاہر اس ملک میں بسنے والی دوسری قوموں سے مختلف ہیں بلکہ اس مفہوم میں ایک قوم (ملت) ہیں کہ ہم اپنے ایک خاص نصب العین (عقیدے اور نظریۂ حیات) کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنا چاہتے ہیں‘‘۔

’’اسلام سے وابستہ ہونا ہی ہمارے جداگانہ تشخص کا واحد جواز ہے۔ ہم کوئی نسلی وحدت نہیں، ہم لسانی وحدت بھی نہیں، ہر چند کہ ’اُردو‘ نے مسلم ہندستان کی زبان کے طور پر کافی ترقی کرلی ہے۔ ہم انگریزوں اور چینیوں کی طرح قوم نہیں ہیں اور نہ اس مفہوم میں قوم بن سکتے ہیں۔  …ہمارا سیاسی نصب العین ترکوں، مصریوں، افغانیوں، شامیوں یا ایرانیوں کے موجودہ نصب العین سے بالکل مختلف ہے۔ تمام مسلم اقوام میں ہم اور صرف ہم مسلمانانِ ہند ہیں، جو گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف ہٹاکر اُمت ِواحدہ کے اس تصور کی تلاش و جستجو میں نکل کھڑے ہوئے ہیں، جس کی طرف رہنمائی و ہدایت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لیے کردی ہے‘‘۔

محمد اسد اسلام کو تحریک پاکستان کا پہلا و آخری حوالہ گردانتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں جدید دنیائے اسلام میں یہی ایک ایسی تحریک ہے جس کی اساس اور قوت محرّکہ اسلام ہے اور جس کا واضح نصب العین محض ایک قومی وطن کا حصول نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جہاں اسلامی نظام کا نفاذ ہو۔ ان کے نزدیک مطالبہ پاکستان کی غایت اور اس کا حتمی و آخری نصب العین محض مادی خوش حالی اور سیاسی اقتدار کا حصول نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جس میں اسلام کامل طور پر برگ و بار لائے۔محض معاشی مفادات کے تحفظ یا صرف ایک قومی وطن کے حصول کی آرزو کو وہ تحریک پاکستان کا منفی اور انتہائی پست و کمزور نصب العین قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک تحریک پاکستان اپنی ماہیت میں سیکولر نہیں بلکہ سرتاسر ایک نظریاتی تحریک تھی اور اس کی کامیابی مسلم دنیا میں اسلام کے احیاء کا محرک بن سکتی تھی۔

غرض یہ کہ محمد اسد کی نگاہ میں تحریک پاکستان کا نصب العین ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جہاں مسلم عوام کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں شریعت کی فرماںروائی قائم ہو۔ اسد کے الفاظ میں ’’ہم پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ اسلام کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں ایک زندہ حقیقت بنادیں۔ ہم پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص سچی اسلامی زندگی گزار سکے۔ کسی فرد کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی بسرکرنا ممکن نہیں تاوقتیکہ پورا کا پورا معاشرہ شعوری طور پر اسلام کو ملک کا قانون و دستور نہ بنائے اور کتاب و سنت کے احکام پر صدق دل سے عمل نہ کرے۔ لیکن اس قسم کا اصلی و حقیقی پاکستان کبھی حقیقت کا جامہ نہ پہن سکے گا تاوقتیکہ ہم اسلامی قانون کو اپنے مستقبل کے لیے اصل اصول نہ بنائیں اور اسلام کے احکام کو اپنے شخصی و اجتماعی طرز عمل کی اساس نہ بنائیں‘‘۔

تحریک پاکستان کے تقاضے

دنیا کی کسی بھی سیاسی تحریک کی آئیڈیالوجی، اس کا نصب العین اور معاشرہ و ریاست کی تنظیم و تشکیل سے متعلق اس کا پروگرام خواہ کتنا ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہو اس کے کچھ نہ کچھ تقاضے اور ابتدائی لوازمات و شرائط ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو پورا کیے بغیر وہ پروگرام عملی طور پر متشکل نہیں ہوسکتا اور حقیقت نہیں بن سکتا۔ اسی طرح کوئی بھی سیاسی و اقتصادی نظام کسی معاشرے میں یکایک وجود میں نہیں آجاتا اور نہ مناسب تیاری کے بغیر اسے کسی معاشرے میں مصنوعی طور پر جمایا جاسکتا ہے۔

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے بقول:’’اس کی پیدائش تو ایک سوسائٹی کے اندر اخلاقی،نفسیاتی، تمدنی اور تاریخی اسباب کے تعامل سے طبعی طور پر ہوتی ہے اور اس کے لیے کچھ ابتدائی لوازم (pre-requisites)، کچھ اجتماعی محرکات، کچھ فطری مقتضیات ہوتے ہیں جن کے فراہم ہونے اور زور کرنے سے وہ وجود میں آتی ہے۔ ایک [سیاسی نظام اور طرز] حکومت صرف ان حالات کے اقتضاء کا نتیجہ ہوتی ہے جو کسی سوسائٹی میں فراہم ہوگئے ہوں۔ پھر حکومت کی نوعیت کا تعین بھی بالکلیہ ان حالات کی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے، جو اس کی پیدائش کے مقتضی ہوتے ہیں‘‘۔

چنانچہ جب معاملہ جدید دور میں ایک اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام کا ہو، کہ جسے تحریک پاکستان کے دوران میں اسلامیانِ برِّعظیم نے اپنا مطمح نظر اور نصب العین ٹھہرایا تھا، تو یہ اصول اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔سید ابوالاعلیٰ مودودی کی رائے میں تحریک پاکستان کے اس نصب العین کا تقاضا تھاکہ مسلم عوام کو اسلامی ریاست کے قیام کا حقیقی فہم و شعور حاصل ہوتا، انھیں اپنے نظریۂ حیات اور مقصد زندگی پر غیر متزلزل یقین ہوتا نیز ان کے مطالبات سے آگاہ ہوتے۔ ان کی سیاسی قیادت اس معیار اخلاق اور سیرت و کردار کی حامل ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے۔ پھر وہ (سیاسی قیادت) اپنی جدوجہد سے معاشرے میں اسلامی طرزِ فکر اور اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کرتی، عوام کے طرز فکرو عمل کو ہر ممکن حد تک اسلام کی روح و مزاج سے ہم آہنگ بناتی۔ مزید برآں وہ مستقبل کی اسلامی ریاست کے اجتماعی نظام کے خدو خال واضح کرتی۔ عوام کو ذہنی طور پر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایثار و قربانی کا درس دیا جاتا۔ یہی اسلامی ریاست کے قیام کا ایک فطری طریقہ ہوسکتا تھا۔

تاہم، واقعی صورت حال یہ تھی کہ اجتماعی حیثیت سے اس وقت مسلمان بہت سی کمزوریوں میں مبتلا تھے۔ جو ان کی ملی طاقت کو گھن کی طرح کھاگئی تھیں۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ ان کا سوادِ اعظم اسلام کی تعلیمات اور اس کی تہذیب و معاشرت سے ناواقف تھا۔ ان میں ان حدود کا شعور تک باقی نہ رہا تھا جو اسلام کو غیر اسلام سے ممیز کرتی ہیں۔ اسلامی تربیت کے صدیوں سے فقدان کے سبب ان کے اندر کوئی اخلاقی قوت باقی نہ رہی تھی۔ غرض اسلام سے ان کا تعلق محض رسمی اورپیدائشی و موروثی تھا۔ دوسری بڑی کمزوری جس میں وہ مبتلا تھے وہ قومی انتشار اور بدنظمی تھی۔ ان میں وہ اخلاقی اوصاف ناپید تھے، جو ذاتی مفاد کو ملی مفاد پر قربان کرنے پر اکساتے ہیں۔ مسلم قوم، نفس پرستی میں مبتلا تھی۔ افلاس، جہالت اور غلامی نے ان کو ملی و اسلامی حمیّت و غیرت سے بڑی حد تک محروم کردیا تھا۔ مزید برآں مسلم قوم دو عملی کا شکار تھی۔ وہ زبانی کلامی اسلام کا دم بھرتی تھی، جب کہ اس کا عمل اسلام سے بہت دور ہٹا ہوا تھا۔ رہی سہی کسر جدید مغربی تعلیم نے پوری کردی تھی۔ اس تعلیم کے سبب سے جدید نسل کا اپنے آبائی دین سے اعتماد اٹھ گیا تھا۔ جدید تعلیم سے بہرہ ور مسلمانوں کی نئی نسل اسلامی شریعت اور قانون کو فرسودہ و دور ازکار رفتہ، جب کہ مغرب کے تہذیب و تمدن اور اس کے طرز حیات کے ساتھ ساتھ اس کے سیاسی و تعلیمی نظام کی تقلید میں ہی مسلمانوں کی نجات خیال کرتی تھی۔

محمد اسد کی نگاہ میں مسلم عوام کی اجتماعی اسلامی و اخلاقی حالت اور اس کی سیاسی قیادت کا طرز فکروعمل تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد اور ان کے مطالبات اور تقاضوں سے میل نہ کھاتا تھا۔ دریں حالات وہ تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ‘‘ کے تقاضوں اور مطالبات کی وضاحت اور انھیں سیاسی قیادت کے ذہن نشین کرانے کے لیے کوشاں رہے۔ انھوں نے برملا طور پر سیاسی قائدین سے دین اسلام کو دل و جان سے اختیار کرنے اور اس کے بارے میں نیم دلانہ رویہ ترک کرنے کا تقاضا کیا۔ مزیدبرآں انھوں نے سیاسی قیادت پر مسلم عوام کی اخلاقی تربیت اور ان کے طرز فکرو عمل کو دین اسلام کے اصول و تعلیمات سے ہم آہنگ بنانے کی ضرورت و اہمیت بھی واضح کی۔ اسد نے مجوزہ اسلامی مملکت کے سیاسی و قانونی اور تعلیمی و اقتصادی نظام کے دستور العمل کی اسلام کے اصول و احکام کی روشنی میں تدوین کی ضرورت و اہمیت بھی واضح کی۔ انھوں نے خاص طور سے اس ضمن میں برتی جانے والی کوتاہی و غفلت اور تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد اور نصب العین سے برگشتگی و انحراف کے مستقبل میں ظاہر ہونے والے منفی  نتائج و عواقب سے خبردار بھی کیا۔ اسد تحریک پاکستان کے تقاضوں کے بارے میں کہتے ہیں:

...."that the foremost slogan of the Pakistan movement  is La ilaha ill' Allah; that they are imbued with the desire to establish political forms in which the Muslim world-view, Muslim ethics and Muslim social concepts could find their full expression: and you will  ask me,  in a somewhat aggrieved voice, whatever I  count all this for nothing from the Islamic point of view?   As a matter of fact, I do not " count all this for nothing:"I count it for very much  indeed. I do believe (and have believed it for about fourteen years) that there is no future for Islam in India unless Pakistan becomes a  reality; and thatٍ if it becomes a reality hereٍ it might bring about a spiritual revolution in the whole Muslim world by proving that it is possible to establish an ideological, Islamic polity in our times no less thirteen hunderd years ago. But ask yourselves: Are all leaders of the Pakistan movementٍ and the intelligentsia  which forms its spearhead, quite serious in their avowals that Islamٍ and nothing but Islamٍ provides the ultimate inspiration of their struggle? Are they really aware of what it implies when they say",The object of Pakistan is La ilaha ill'Allah?" Do we all mean the same when we talk and dream of Pakistan"?

 [آپ کہیں گے] کہ تحریک پاکستان کا پہلا نعرہ ہی ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ مقرر ہو ا ہے، یہ کہ انھوں [اسلامیانِ ہند] نے ایسی سیاست حاکمہ قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس میں مسلم تصورِ کائنات، مسلم اخلاقیات اور مسلم معاشرتی افکار [ تصورات ونظریات] مکمل اظہار کی راہ پاسکیں۔ اور شاید آپ کسی قدر رنجیدگی سے مجھ سے دریافت کریں گے کہ کیا میں ان سب باتوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے بے وقعت اور غیر اہم خیال کرتا ہوں؟ بات یہ ہے کہ میں ہرگز ہرگز ان کو بے وقعت اور غیر اہم خیال نہیں کرتا۔ میری نظر میں یہ بہت وقیع اور اہم ہیں۔ میرا عقیدہ ہے(اور گذشتہ چودہ سال سے میں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ پاکستان ایک حقیقت بن کر قائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے، تو پورے عالم اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی اسلامی ہیئتِ حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے۔ لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا: کیا تحریک پاکستان کے تمام قائدین اور اہل دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعووں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام، اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اولیں محرک ہے؟ جب وہ کہتے ہیں کہ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے یا مختلف و متفرق؟‘‘

 اسد کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اگر ہمارے پیش نظر ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے تو ضروری ہے کہ ہم قوم کو اس مقصد کے حصول کے لیے اخلاقی حیثیت سے بھی تیار کریں۔ صرف سیاسی جدوجہد اس کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے علمی و فکری، اخلاقی و تہذیبی اور سیاسی، غرض ہر میدان میںکام کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر حقیقی مقصد کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگا۔اسد سیاسی قیادت سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ خود اپنے اور عامّۃ النّاس کے طرز فکر و عمل کو اسلامی نظریۂ حیات سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ بنانے کا اہتمام کریں گے تاکہ وہ کل کو اسلامی مملکت کی تشکیل و تعمیر کے سلسلہ میں گراں بار ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اسد کو اس حقیقت کا گہرا ادراک و شعور تھا کہ گو مسلم عوام (اسلامیانِ ہند) اسلام سے جذباتی وابستگی تو ضرور رکھتے ہیں، لیکن نہ تو اسلامی ریاست کے بارے میں کوئی واضح تصوّر ان کے سامنے ہے اور نہ صحیح معنوں ہی میں وہ اس تصوّر کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔ یہ اس لیے کہ صدیوں سے ان کا رشتہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کٹا ہوا ہے اور صدیوں سے وہ ضعیف الاعتقادی اور سیاسی نکبت و ادبار کے عمیق کنوئیں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

 مسلم قوم کی اجتماعی حالت کی اصلاح کی ضرورت سے متعلق اسد کا کہنا یہ تھا کہ ہمارا موجودہ اخلاقی قدوقامت اس معیار سے بہت پست ہے جس کا تقاضا اسلام ہم مسلمانوں سے کرتا ہے۔ تہذیب کی روح کا ہم میں فقدان ہے۔ ذاتی مفاد کی خاطر جھوٹ بولنے اور وعدے وعید توڑنے سے ہمیں عار نہیں۔ بدعنوانی، خود غرضی، دھوکا بازی، فریب کاری، خود غرضی اور اقربا پروری ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ مختصر یہ کہ ہم اپنے وجود کے سرچشمے یعنی اسلامی تعلیمات سے بہت دور جاپڑے ہیں۔ اگر ہم موجودہ اخلاقی پستی سے اوپر اٹھنے کی ذرا بھی کوشش نہ کریں تو ایسے حالات میں ہم کیوں کر اسلامی مملکت پاکستان کے شایانِ شان شہری بن سکتے ہیں؟ ایسے حالات میں ہم کیوں کر حقیقی اسلامی مملکت قائم کرسکتے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے موجودہ طور طریق اور اپنے اخلاقی معیار فوری طور پر تبدیل نہیں کریں گے اور ہر قدم پر شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کی روش ترک نہیں کریں گے تو نظریۂ پاکستان میں سے اس کی روح غائب ہوجائے گی اور یوں پاکستان کو اسلام کی جدید تاریخ میں جو منفرد حیثیت حاصل ہونے والی ہے وہ حاصل نہ ہوسکے گی۔

محمد اسد تحریک پاکستان کے دنوں میں مسلم عوام کی اخلاقی و روحانی اصلاح اور صحیح اسلامی تربیت (دینی و فکری و عملی) کی غرض سے سیاسی قیادت کے دوش بدوش روحانی و نظریاتی قیادت کی موجودگی کو بھی بے حد ضروری خیال کرتے تھے۔ ایسی قیادت جو مسلم عوام کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ کرسکے، فکری و نظری اور عملی میدان میں ان کی رہنمائی کرسکے اور ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے سلسلہ میں انھیں ایثار اور قربانی پر آمادہ و مستعد کرسکے، جو ان میں اسلام کی روح کو سمودے اور انھیں اخلاقی اصولوں کی علَم بردار ایک نظریاتی جماعت بنادے۔

اسد کو بخوبی احساس تھا کہ مسلم لیگی قیادت نے مسلم عوام کی صحیح رخ پر تربیت کے معاملہ میں کسی بصیرت اور دُور اندیشی سے کام نہیں لیا بلکہ اس ضمن میں اس نے غفلت اور اغماض و چشم پوشی کا مظاہرہ کیا۔ وہ زبانی کلامی اسلام سے وابستگی کا دم تو بھرتی رہی، لیکن اس نے نہ تو اپنے اخلاق کو اسلامی تقاضوں اور مطالبات کے مطابق ڈھالا اور نہ مسلم عوام ہی کے طرز فکر وعمل کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اسد نے اس غفلت و کوتاہی پر مسلم لیگی قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا:

How many of our leaders, and of our intelligentsia in general, have an Islamic polity in view when they appeal to the Muslims to close their ranks and to sacrifice their all, if necessary, for the achievement of Pakistan.? But what I blame some of our leaders for, is their apparent inability to rise to the spiritual greatness displayed by the Muslim masses in this decisive hour of their destiny, and deliberately to guide those masses towards the ideal which is fundamentally responsible for their present upheaval. To put it into simple words: our leaders do not seem to make a serious attempt to show that Islam is the paramount objective of their struggle. If the meaning of our struggle for Pakistan is truly to be found in the words la ilaha ill' Allah, our present behaviour must be a testimony of our coming nearer and nearer to this ideal, that is, of becomming better Muslims not only in our words but in our actions as well. It should be our leaders' duty to tell their followers that they must become better Muslims today in order to be worthy of Pakistan tomorrow.

 جب ہمارے قائدین اور ہمارے اربابِ دانش، حصول پاکستان کی خاطر مسلمانوں سے اتحاد، اخوت، ایثار اور ضرورت پڑنے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کی اپیلیں کرتے ہیں، تو ان [میںسے کتنے ہیں، جن ]کے ذہن میں ’’ اسلامی ہیئتِ حاکمہ‘‘ کا نقشہ کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے منفی پہلو سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ یہ منفی پہلو نا ممکنات سے ہے، کہ غیر مسلم غلبے کے تحت مسلمانوں کا آزادانہ زندگی گزارنا۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ اکثر و پیشتر تعلیم یافتہ مسلمانوں اور ہمارے اکثر سیاسی لیڈروں کے نزدیک اسلام محض غیر مسلموں سے فرقہ وارانہ جدوجہد میں ایک جنگی تدبیر ہے، بجائے اس کے کہ اسلام مقصود بالذات ہوتا۔ گویا اسلام ہماری منزلِ مقصود نہیں ، ایک منطقی استدلال ہے، ایک امنگ نہیں، ایک نعرہ ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہمارے اکثر رہنما نام نہاد مسلم قوم کے لیے زیادہ سیاسی قوت اور زیادہ معاشی مراعات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، بجائے اس کے کہ وہ نام نہاد مسلم قوم کو ایک سچی اسلام قوم بنانے کی کوشش کرتے؟

اسد کا کہنا یہ تھا کہ اگر قائدین تحریک پاکستان و اقعتاً اسلام چاہتے ہیں، اگر وہ واقعی اپنے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں تحریک پاکستان کے دنوں ہی میں اپنے طرز فکر و عمل کو تبدیل کرنا ہوگا، اس کو اسلامی تعلیمات کے تابع بنانا ہوگا اور اسلام کے بارے میں نیم دلانہ رویہ ترک کرنا ہوگا۔ انھیں اپنے معاشرتی رویے سے یہ ظاہر و ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پوری سنجیدگی سے اسلام کو ایک سچا اصول و نظریہ تسلیم کرتے ہیں اور محض اسے ایک سیاسی نعرہ نہیں سمجھتے۔اسد اپنے رہنماؤں سے یہ توقع رکھتے تھے کہ ان کا طرز عمل اس نظریے کے عین مطابق ہو جس کے تحفظ کا وہ اپنی زبان سے دعویٰ کرتے ہیں۔

اسد تحریکِ پاکستان کے دنوں میں ہی مستقبل کی اسلامی مملکت کے سیاسی و معاشی ، تعلیمی و معاشرتی اور قانونی و عدالتی نظام کی اسلامی اصول و تعلیمات کی اساس پر تعمیروتشکیل کے لیے ان شعبوں سے متعلق ایک مفصل دستور العمل کی ترتیب و تدوین کو از حد ضروری خیال کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے سیاسی قیادت کو اس سلسلہ میں مسلمان ماہرین قانون اور علما و دانش وروں پر مشتمل ایک بااختیار مجلس کے قیام کا مشورہ دیا۔ اسد کا کہنا تھا کہ اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی نصب العین اور اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پر عملاً اثر انداز ہوناہے تو اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس مقرر کرنی چاہیے جو ان اصولوں کی توضیح و تشریح کا فریضہ انجام دے جس پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔ مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیسا ہوگا؟ کس قسم کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا اور قومی مقاصد کیا ہوں گے؟ کیا ہماری ریاست معاصر مسلم ریاستوں کی طرز کی ایک سیکولر قومی ریاست ہوگی یا پھر جدید تاریخ میں اس شاہراہ پر پہلا قدم ہوگا جو انسانِ کامل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟

قیام پاکستان اور اسلامی نظریاتی ریاست کے تصوّر کی ترجمانی

محمد اسد نے قیام پاکستان کے بعد اس ملک میں اسلامی نظریاتی ریاست کی تشکیل کا مُقدّمہ بڑی قوت و طاقت سے پیش کیا۔ انھوں نے بڑی درد مندی اور اخلاص سے اس وقت کی سیاسی قیادت اور مسلم عوام کو تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد اور نصب العین ذہن نشین کرانے کی کوشش کی۔ انھوں نے خاص طور پر سیاسی قیادت کو تحریک پاکستان کے دوران مسلم عوام سے اس نوزائیدہ مملکت کے سیاسی و دستوری، عدالتی و قانونی، معاشرتی اور تعلیمی و اقتصادی نظام کو قرآن حکیم اور تعلیمات نبویؐ پر استوار کرنے کے سلسلے میں کیے گئے وعدوں کے ایفاء کی تذکیرویاد دہانی کرائی۔ انھوں [اسد] نے ستمبر ۱۹۴۷ء میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی اپنی ایک تقریر میں کہا:

Our struggle for Pakistan and our ultimate achievement of independence drew its force from the fundamental desire on the part of Muslims to translate their own world-view and their own way of life into terms of political reality.When we demanded a state in which the Muslim nation could freely develop its own traditions, we demanded no more than our just share of God's earth; we asked for no more than to be allowed to live in peace, to build a commonwealth in which the genius of Islam could freely unfold, conferring light and happiness not only on Muslims but also on all the people of other communities who would choose to share our living space with us.

تحریک پاکستان کے لیے ہماری جدوجہد اور بالآخر ہمارا آزادی حاصل کرلینا، اس سب کی قوت محرّکہ دراصل اسلامیانِ ہند کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے مذہب و عقیدے اور تصوّرِ حیات و کائنات کے مطابق ایک ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ایک ایسی ریاست کا مطالبہ کیا تھا کہ جس میں ملت اسلامیہ آزادانہ طور سے اپنی تہذیبی و معاشرتی اقداروروایات کو پروان چڑھاسکے۔ ہم نے ایک ایسی مملکت کا تقاضا کیا تھا جس میں اسلام کی عبقریت اور قوت و صلاحیت کامل طور پر آشکار ہوسکے۔

محمد اسد اپنی ایک دوسری تقریر میں فرماتے ہیں:

Our struggle for Pakistan was from its very beginning inspired by our faith in Islam. There is no denying the fact that the Muslims of this sub-continent had a definite ideological goal before themselves when they started on their trek towards an Islamic State. We did not desire a "national" state in the usual sense of the word...

جب ہم پاکستان کا مطالبہ کررہے تھے تو ہماری نگاہوں کے سامنے ایک بڑا واضح اور معین نصب العین تھا کہ ہم اسلامیانِ برّعظیم پاک وہند اپنے لیے ایک ایسا ملک حاصل کریں کہ جس میں ہم اپنے تصور کائنات اور اپنے اخلاقی تصورات و معیارات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ہم نے واضح و متعین طور پر ایک اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ اس کے سوا ہمارا کوئی اور مطمح نظر اور غایت نہ تھی۔

محمد اسد نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے تصوّر پاکستان کے بارے میں بعض ذہنوں میں موجود ابہام اور الجھاؤ کو دور کرنے پر بھی توجہ دی۔ انھوں نے سیکولر و مغرب زدہ افراد کے اس نقطۂ نظر کی تردید و مخالفت کی ہے کہ اقبال اور قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر قومی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ محمد اسد کی رائے میں ان دونوں بانیانِ پاکستان نے اسلامیانِ ہند کے لیے آزاد مملکت کا مطالبہ اسلامی قومیت کی بنیاد پر کیا تھا۔ دونوں ایک ایسی مسلم ریاست کے قیام کے متمنی اور آرزومند تھے کہ جہاں قانونِ اسلامی یعنی شریعت کی فرمانروائی ہو، مسلمان اپنے دین و عقیدے اور تہذیبی و معاشرتی اقداروروایات کے مطابق اپنے اجتماعی ادارے تشکیل دے سکیں۔ وہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جہاں اسلامی نظریۂ حیات کا بول بالا ہو، اور زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا کامل طور سے اظہار ہو۔ دونوں ہی ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے متمنی تھے۔محمد اسد لکھتے ہیں:

Whenever Iqbal spoke of God's Kingdom on earth, and whenever the Quaid-i-Azam demanded a political structure in which the Muslim nation could freely develop its own institutions and live in accordance with the genius of the shari'ah, both meant essentially the same. The goal before them was the achievement of a state in which the ideology common to all of us, the ideology of Islam, would fully come into its own: a polity in which the Message of Muhammad (peace and blessings upon him)would be the foundation of our social life and the inspiring goal of all our future endeavours. The Poet-philosopher put greater stress on the spiritual aspect of our struggle, while the Quaid-i-Azam was mainly concerned with outlining its political aspect: but both were one in their intense desire to assure to the Muslims of India a future on Islamic lines.{ FR 740 }

جب بھی اقبال نے زمین پر خدائی مملکت کی بات کی، یا جب کبھی قائداعظم نے ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کا مطالبہ کیا، جس میں مسلم قوم آزادی سے اپنے ادارے قائم کرسکے، اور شرعی تصورات کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دے سکے، تو ان دونوں کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔ ان کے سامنے ہدف ایک ایسی ریاست کا حصول تھا، جس میں وہ نظریہ جو ہم سب کے درمیان مشترک ہے، اسلام کا نظریہ، مکمل طور پر رُوبہ عمل آسکے: ایک ایسا سیاسی نظام جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہماری معاشرتی زندگی کی بنیاد ہے اور ہم اپنے مستقبل کے اقدامات کے لیے اسی سے جذبہ حاصل کرسکیں۔ فلسفی شاعر [اقبال] نے ہماری جدوجہد کے روحانی پہلو پر بہت زیادہ زور دیا، جب کہ قائداعظم کی زیادہ تر توجہ اس کی سیاسی جہت کی خاکہ سازی کی طرف رہی۔ مگر دونوں ہندی مسلمانوں کے لیے اسلامی خطوط پر مبنی مستقبل کا حصول یقینی بنانے کے معاملے میں ایک تھے۔

محمد اسد کا یہ بیان علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کے تصور پاکستان کے بارے میں دانستہ طور پر پیدا کیے جانے والے ابہام کو دور کردیتا ہے۔ وہ(اسد) اگر علامہ محمد اقبال کے مزاج شناس تھے، تو قائداعظم محمد علی جناح کے افکاروخیالات اور ان کے تقاریر و بیانات سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ ان کے خیال میں قائداعظم پاکستان کو بہرحال ایک اسلامی ریاست ہی بنانا چاہتے تھے:

ایک ایسی ریاست جو ہمارے نظریۂ حیات (اسلام) سے ہم آہنگ ہو، جس کا دستور اور نظام حکومت (Polity) اسلام کے اصول و تعلیمات پر استوار کیا گیا ہو، جو اجتماعی زندگی کی تعمیروتشکیل میں قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کرتی ہو۔

محمد اسد کو اس امر کا بھی بخوبی احساس ہے کہ عصر جدید میں ایک اسلامی نظریاتی ریاست کا قیام کوئی آسان کام نہیں۔ اس دور میں، جب کہ چہار سُو نسلی و لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر وطنیت و قومیت کا تصور سکۂ رائج الوقت کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ سیکولر قومی ریاستوں کا مشرق و مغرب میں دور دورہ ہے۔ بہت سے لوگوں خصوصاً مغرب کے افکاروخیالات، اس کی تہذیب و معاشرت اور سیاسی نظام سے حد درجہ مرعوب و متاثر جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اسلامی نظریاتی ریاست کا تصوّر بڑا عجیب و غریب سا لگتا ہے۔ وہ اسے عصر جدید کے تقاضوں اور اس کے میلانات و رجحانات کے بڑا ہی ناموافق خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس نظریے کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔

بایں ہمہ، اسد اسلامی ریاست کے قیام کے عزم پر مضبوطی سے قائم دکھائی دیتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ موجودہ زمانے میں نظریاتی اسلامی ریاست کا نظریہ کچھ بہت مقبول نہیں، بڑے یقین سے یہ دعوت پیش کرتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کی یہ شان نہیں کہ باقی دنیا کی طرح فتنہ و فساد اور سیکولر قومی ریاست کے قیام کے راستے پر چلے۔ ان کے نزدیک ہم مسلمان ایک نظریاتی ملت ہیں، ایک ایسی ملت جو زندگی کے ایک قطعی نصب العین اور اخلاقی قدروں کے ایک قطعی پیمانے پر متفق ہو۔ لہٰذا، ہمارا کام یہ ہے کہ اسلام کی ازلی و ابدی تعلیمات پر لبّیک کہتے ہوئے ایک نظریاتی ریاست کی تأسیس کا بیڑا اٹھائیں۔

 محمد اسد نے پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کے مقدّمے کو پیش کرتے ہوئے اس کے جواز کے سلسلے میں تین امور کو اپنے استدلال کی بنیاد بنایا ہے:

            ۱-         اسلامی ریاست کا قیام سراسر ایک دینی و شرعی ضرورت ہے جس کو پورا کیے بغیر مسلمان سچی اسلامی زندگی نہیں گزار سکتے۔ بدیں وجہ اسلامیانِ پاکستان کا یہ شرعی فریضہ ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے قیام و تشکیل کا بیڑا اٹھائیں۔ محمداسد نے مجلہ عرفات کے شمارہ بابت مارچ ۱۹۴۸ء میں لکھا تھا:

Our Struggle for the attainment of Pakistan has been fought on an ideological platform. We have maintained, and we do maintain today, that we Muslims are a not nation by virtue of our adherence to Islam. To us, religion is not merely a set of beliefs and moral rules, but a code of practical behaviour as well. Contrary to almost all other religions. Islam does not context itself with influencing the life of the spirit alone, but aims also ate shaping all the physical aspects of our life in accordance with the Islamic World-view. In the grand scheme propounded to us in the Qur'an and in the Life-example of the Holy Prophet, all the various aspects of human existence - moral and physical, spiritual and intellectual, individual and communal - have been taken into consideration as parts of the indivisible whole which we call "human life".It follows, therefore, that we cannot live a truly Islamic life by merely holding Islamic beliefs, We must do far more than that. If Islam is not to remain an empty word, we must also co-ordiante our outward behaviour, individually and socially, with the beliefs we profess to hold.{ FR 784 }

ہم نے قیام پاکستان کے لیے جو جدوجہد کی تھی وہ اسلامی مطمح نظر کے ماتحت کی۔  ہم نے کہا تھا اور آج بھی کہتے ہیں کہ مسلمان ایک ایسی ملت ہیں جس کا دین اسلام ہے۔ ہمارے نزدیک مذہب کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ محض ایک مجموعۂ عقائد اور ضابطۂ اخلاق ہے۔ وہ محض اس بات پر راضی نہیںہوجاتا کہ اپنا تعلق صرف عالم روحانیات سے رکھے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہماری زندگی کے مادی پہلو بھی اس کے نظریۂ حیات کے مطابق ڈھل جائیں۔قرآن حکیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں زندگی کا جو زبردست نظام ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے وہ انسانی زندگی کے جملہ مظاہر اخلاقی اور مادی، روحانی و ذہنی اور انفرادی و اجتماعی کا جامع ہے۔ ہم (مسلمان) محض اسلامی عقائد کے اقرار سے اسلامی زندگی نہیں بسر کرسکتے بلکہ ہمیں اپنے اخلاق وکردار اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو ہر لحاظ سے اسلام کے نظام حیات سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔ اسلام کا یہی وہ خاص پہلو ہے جس کی بنیاد پر ہم نے ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا مطالبہ کیا، کیونکہ صرف ایک آزاد ریاست ہی میں ہم حکومت و سیاست، قانون اور اجتماعی نظم و نسق کے سارے سازوسامان کے ساتھ اس نظام کی عملاً تعمیل کرسکتے ہیں، جو اسلام نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ ہے وہ نصب العین جس کی خاطر ہم نے ایک آزاد مملکت کے حصول کی جدوجہد کی۔

            ۲-         محمداسد کی رائے یہ تھی کہ پاکستان میں اسلامی نظریاتی ریاست کا قیام احیائے اسلام کے نقطۂ نگاہ سے بھی بے حد ضروری ہے۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پرجب کہ بہت سے مسلم ممالک مغرب کی نو آبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے، اور کچھ آزاد بھی ہورہے تھے اور انھیں معاشرہ و ریاست کی تشکیل و تعمیر نو کا کڑا چیلنج درپیش تھا۔ محمد اسد اس خیال کے محرک و داعی بن کر سامنے آئے کہ پاکستان میں حقیقی اسلامی ریاست کا قیام ان ممالک میں اسلامی ریاستوں کے قیام کے لیے ایک زبردست جذبۂ محرکہ کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ وہ اسلامی ملکوں میں احیائے اسلام کی تحریک کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اسد کی رائے میں پاکستان کی حقیقی اسلامی ریاست مسلم ممالک کے مابین اتحاد و یک جہتی کا بھی ایک بڑا مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے اور اتحاد عالم اسلامی کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔

 اسد کا خیال تھا کہ’’ اگر ہم پاکستان کے لوگ اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں کہ ہماری ریاست سرتا سر اسلامی ہو اور اگر ہم اس مایوس اور نااُمید دنیا کو سچ مچ بتاسکیں کہ بنی نوع انسان کے تمام سیاسی و اجتماعی امراض کا مداوا، اسلام اور صرف اسلام کے پاس ہے تو ساری دنیا کے مسلمان مجبور ہوجائیں گے کہ جلد یا بہ دیر ہمارے نقش قدم پر چلیں‘‘۔

 اسد گویا ’’روشن خیال دانش وروں‘‘ کے اس نقطۂ نظر کو معقول خیال نہیں کرتے کہ ’’دین اسلام کی بنیاد پر کسی ریاست کے لیے مطالبہ، اسلام کے بین الاقوامی اور عالمگیریت کے پہلو سے بآسانی اور پوری طرح سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا‘‘۔

            ۳-         جناب اسد نے پرزور انداز میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا کہ پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام خود اس ملک کے تحفظ و بقا اور اس کی سالمیت و یکجہتی کے لیے بھی از حد ضروری ہے، کیونکہ پاکستان کی مسلم آبادی مختلف نسلی و لسانی قومیتوں کا مجموعہ ہے، جنھیں صرف اسلام سے شعوری اور غیر متزلزل وابستگی ہی یکجا و متحد رکھ سکتی ہے۔ صرف اور صرف اسلام ہی ان کے مابین اتحاد ویگانگت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

            ۴-         پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی جن گوناں گوں اقتصادی و مالی مشکلات کا سامنا تھا اور عوام کی بھاری اکثریت جس تنگدستی و افلاس سے دوچار تھی، وہ سب حالات ایسے تھے کہ اس نوزائیدہ ملک کے کمیونزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب میں بہہ جانے کے قوی خدشات و خطرات موجود تھے۔ دریں صورت محمد اسد پاکستان میں اسلامی نظریۂ حیات کی ترویج و استحکام اور اسلام کے نظام سیاست و حکومت اور اقتصادی و سماجی عدل کے قیام کو ان مزعومہ خطرات کے سدّباب کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں کمیونزم، کہ جس نے ایک بڑے طاقت ور نظریۂ حیات (آئیڈیالوجی) کا روپ اختیار کرلیا تھا، کا مقابلہ ایک زیادہ پُر کشش و جاندار نظریۂ حیات، یعنی اسلام ہی کرسکتا تھا۔  (جاری)

؍اگست ۲۰۲۱ء کی شام کو امریکی سرپرستی میں قائم افغان آرمی نے کا بل کو خالی کردیا تھا۔ صدر اشرف غنی سمیت بیش تر حکومتی لوگ ملک چھوڑ گئے اور تحریک طالبان افغانستان کے رضاکاروں نے آگے بڑھ کر دارالحکومت کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ ۱۵ فروری ۲۰۲۲ء کو ان کے اقتدار کو قائم ہو ئے چھے ماہ ہو چکے ہیں، جب کہ باقاعدہ حکومت کا قیام اور عبوری کا بینہ کا اعلان۲۸ ستمبر کو کیا گیا۔

تحریک طالبان افغانستان کاآغاز ۱۹۹۰ء کے عشرے میں ہوا۔جب ۱۹۹۲ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی ماسکونواز حکومت کاخاتمہ ہوا اورافغانستان میں مجاہدین کے دھڑوں کی باہم لڑتی بھڑتی حکومت قائم ہوئی۔ باہم اختلافات، خانہ جنگی اور لاقانونیت کی وجہ سے صوبوں کی سطح پرمقامی کمانڈروں نے اپنی عمل داری قائم کرلی اور ملکی سطح پرمضبوط حکومتی کنٹرول قائم نہ ہوسکا۔ نتیجہ یہ کہ ملک میں بدامنی کاراج تھا۔عوام میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس عام تھا۔ اس دور میں قندھار سے ملاعمراخوند کی قیادت میں تحریک طالبان کاظہورہوا۔ جس نے کچھ ہی عرصے میں ملک گیر مقبولیت حاصل کرلی۔۱۹۹۶ء میں تحریک طالبان نے کابل پر قبضہ کرکے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرلی اور امارت اسلامی افغانستان کے نام سے ملک کوایک اسلامی شناخت دی۔یہ حکومت ۲۰۰۱ء تک قائم رہی۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء میں امریکا میں تخریب کاری کا ایک بڑاواقعہ پیش آیا تو امریکا نے اس کی ذمہ داری القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پر عائد کی، جو اس وقت افغانستان میں مقیم تھے۔ امریکا نے ملا عمرسے مطالبہ کیاکہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کیا جائے، لیکن انھوں نے انکار کیاچنانچہ امریکی اور ناٹو افواج نے افغانستان پرحملہ کرد یا۔ اور شمالی اتحاد کی مدد سے کابل پرقبضہ کرکے حامدکرزئی کی قیادت میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کردی۔دسمبر۲۰۰۱ء سے لے کر فروری۲۰۲۰ء تک تحریک طالبان مسلسل غیرملکی افواج سے حالت ِ جنگ میں رہی اور بالآخر ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تحریک طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جس کی بنیاد پر افغانستان سے غیرملکی افواج کاانخلا عمل میں آنا تھا۔

 امریکی فو ج کا انخلا

جون۲۰۲۱ء میں امریکی صدر جوبائیڈن نے اچانک۳۱ ؍اگست ۲۰۲۱ء تک افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کرکے جہاںدنیاکوحیران کردیا، وہاں مزاحمتی تحریک طالبان کو بھرپور اعتماد سے پیش قدمی کاموقع بھی فراہم ہوگیا۔ امریکی سرپرستی میں تشکیل کردہ افغان فوج ریت کا ڈھیر ثابت ہو ئی،افغان صدراور ان کی کابینہ ملک سے فرار ہو گئے اور ۱۵؍اگست کو طالبان کابل میں داخل ہوگئے۔۱۶ ؍ اگست سے ۳۱ ؍اگست کے دن تک کابل ائیرپورٹ پر انتہائی افسوس ناک واقعات ہوئے، جب کہ اس کا انتظام۵ ہزار سے زائدامریکی فوج کے پاس رہا۔ اس دوران ایک لاکھ ۲۰ہزار سے زائد غیر ملکی اور ان کاساتھ دینے والے مقامی افراد کا انخلا عمل میں آیا۔ انھی دنوں دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ نے خودکش حملہ بھی کیا، جس میں ۱۳؍ امریکی فوجیوںسمیت ۲۰۰؍افغان مارے گئے۔ امریکی فوج نے جانے سے پہلے کابل ائیر پورٹ پر کھڑے تمام جنگی جہاز،ہیلی کاپٹر، گاڑیاں اور دیگر املاک تباہ و برباد کرکے ایک بدترین مثال قائم کی۔

طالبان تحریک نے دارالحکومت کابل پرقبضہ کے بعد صوبہ پنج شیر کے علاوہ پورے ملک کا کنٹرول حاصل لیا۔احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور نائب صدر امراللہ صالح نے واد یِ پنج شیر میں چند روز مزاحمت کے بعد راہ فرار اختیار کی۔

 ۱۷؍ اگست کے فوراً بعد طالبان نے حکومت سازی کے لیے مشاورت کا آغاز کیا۔قندھار میں تحریک طالبان کے امیر مُلّا ہیبت اللہ کی زیر صدارت رہبری شوریٰ کا تین روزہ اجلاس ہوا۔ پہلے مرحلے میں مختلف محکموں،کابل انتظامیہ اور مرکزی بنک کے صدر کے طور پر ۱۲ شخصیات کا اعلان کیا گیا۔اس دوران کابل میں سابق صدرحامدکرزئی،ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور انجینیر گلبدین حکمت یار سے مشاورت کی گئی، جس سے یہ خیال پیدا ہو ا کہ ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ اس دوران طالبان کے ترجمان سہیل شاہین، ذبیح اللہ مجاہد، اور دیگر زعماء نے میڈیا پر بہترین ترجمانی کی۔عام معافی کا اعلان ،تعلیمی اداروں میں تعلیم کا آغاز اور بازاروں اور بنکوں میں لین دین کا آغاز ہوا۔ محرم الحرام میں اہل تشیع کے جلوس اور خواتین کے مظاہروں کی اجازت دی گئی۔البتہ جس عبوری کابینہ کا اعلان کیا گیا، اس میں صرف طالبان رہنما ئوں کو شامل کیا گیا ہے۔

مُلّامحمد حسن اخوند کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے، جب کہ ملاعبدالغنی برادر اور ملا عبدالسلام حنفی کو نائب وزیر اعظم کے عہدے سونپے گئے ہیں۔ دیگر اہم شخصیات میں ملاعمر کے صاحبزادے ملایعقوب کو وزیر دفاع،سراج الدین حقانی کو وزیرداخلہ، ملاامیر خان متقی وزیر خارجہ اور ملافصیح الدین بدخشانی کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا ہے۔ اب تک ۶۷؍افراد کو وزارتیں و دیگر اہم مناصب دیئے جاچکے ہیں۔ یہ اعلان کیاگیا تھا کہ ۱۱ستمبر کو تقریب حلف برداری ہوگی۔لیکن پھر اس کو ملتوی کردیا گیا۔ مرکز کے علاوہ افغانستان کے ۳۴صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں بھی تمام مناصب پر تعیناتی کی جا چکی ہے اور ملک کے طول و عرض پر امارت اسلامی کا کنٹرول قائم ہو چکا ہے۔

طالبان حکومت کے لیے چیلنج

اس سب کے باوجود افغانستان میں طالبان حکومت کو سخت چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ہے:

  • بین الاقوامی سطح پرامریکی اور یورپی اقوام اور پڑوسی ممالک کا رسمی طور پر اس حکومت کو تسلیم نہ کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان نے بھی اب تک طالبان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا۔جس کی وجہ سے امارت اسلامی کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامناہے۔
  • اقتصادی صورتحال کو کنٹرول کرنا ،پابندیوں اور عدم تعاون سے عہدہ برآ ہونا۔ گذشتہ حکومت کے خاتمے سے شہروں میںبڑے پیمانے پربے روزگاری پیدا ہوئی ہے۔ سامان خوراک کی طلب میں اضافہ اور گرانی اور مہنگائی میں اضافے کا مسئلہ فوری طور پر حل طلب ہے۔
  •  بچیوں کی تعلیم اور خواتین کے تعلیمی اداروں کی بندش بھی ایک قابل توجہ مسئلہ ہے۔
  • تجربہ کار،تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کا ملک چھوڑنا بھی تشویش ناک عمل ہے۔
  • حکومت سازی میںطالبان کے علاوہ دیگر اہم شخصیات کو اقتدارمیںشامل نہ کرنابھی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے،اورمختلف عناصر کو دوبارہ منظم کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔

 طالبان حکومت کے اقدامات

گذشتہ چھے ماہ میں امارت اسلامی افغانستان کی قیادت نے کئی ایسے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کیے ہیں جس سے موجودہ حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے اور افغان عوام کے مسائل حل کرنے میں واضح پیش رفت نظر آرہی ہے۔ ان میں سے چند اقدامات درج ذیل ہیں :

  • باقاعدہ افغان فوج کا قیام: گذشتہ دور میں بننے والی افغان فوج اور پولیس تو طالبان حکومت کے قائم ہو تے ہی تحلیل ہوگئی تھی،لیکن اسلحہ اور گولہ بارود کی بڑی مقدار طالبان کے ہاتھ آئی۔ طالبان حکومت نے نہ صرف مال غنیمت میں ملنے والے تمام فوجی ساز و سامان کی حفاظت کی بلکہ فوجی چھاؤنیوں ،ہوائی اڈوں اور اسلحہ خانوں کی فہرستیں مرتب کرکے ان کو منظم کیا ۔ پورے ملک کے طول وعرض میں قائم عسکری اڈوں اور تنصیبات کے لیے ذمہ دار مقرر کیے گئے اور کہیں بھی افراتفری، ہڑبونگ کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔فوجی تنصیبات کے ساتھ اضلاع کی سطح پر پولیس کے محکمے کو بھی اسی طرح فعال رکھا گیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک لاکھ ۷۰ ہزار افراد پر مشتمل باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی ہے۔ اسی طرح سرحدی علاقوں کی حفاظت کے لیے بھی علیحدہ فورس قائم کی گئی ہے۔ جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں پر مشتمل فضائی فوج بھی تشکیل دی گئی ہے۔ البتہ پائلٹوں کی کمی، پرزہ جات اور ناکارہ جہازوں کو کارآمد بنانے کا مسئلہ درپیش ہے۔
  • تعلیم  اورصحت کے  شعبہ جات میں اقدامات: عوامی خدمات فراہم کرنے والے اداروں میں ’محکمۂ تعلیم‘ اور ’محکمۂ صحت‘ بہت اہمیت کے حامل ہیں، جس کو جاری رکھنا حکومت کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ طالبان حکومت کے لیے اول روز سے یہ کام ایک چیلنج کے طور پر سامنے آیا۔طالبان کے گذشتہ دور میں بھی ان پر زیادہ تنقید اس حوالے سے ہورہی تھی۔ اس لیے اس بار انھوں نے کوشش کی ہے کہ یہ ادارے بند نہ ہو نے پائیں۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ اور دیگر عملہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کا تھا۔ ابتدائی چند ماہ میں ان کو جزوی ادائیگی ہو تی رہی، جب کہ اب اقوام متحدہ کے ادارے ’یونیسیف‘ اور دیگر عالمی امدادی اداروں کے تعاون سے واجبات کی ادائیگی باقاعدگی سے جاری ہے۔ سردی سے متاثرہ علاقوں کے علاوہ پورے ملک میں تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے فعال ہیں ۔نجی تعلیمی اداروں کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ اندازاً ۴۰ فی صد طلبہ کم ہو گئے ہیں ۔جس کی بڑی وجہ معاشی مسائل ہیں۔

ہسپتالوں اور طبی مراکز کو بھی پوری طرح فعال کر دیا گیا اور ان کے عملے کی تنخواہیں بھی عالمی ادارے IRCRC  (عالمی ادارہ صحت) وغیرہ دے رہے ہیں ۔البتہ ڈاکٹروں اور طبّی عملے کی کمی اور ادویات کی نایابی کا مسئلہ کئی جگہ موجود ہے۔مریضوں کے علاج معالجے کے لیے پشاور،ایران اور بھارت جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

  • خواتین کی تعلیم: طالبان کو خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ طالبان کا موقف یہ ہے کہ طالبات کی تعلیم کے خلاف نہیں لیکن مخلوط تعلیم برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔اس وقت پرائمری سے یونی ورسٹی کی سطح پر علیحدہ کلاسوں کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ہر تعلیمی ادارے میں صبح کے وقت لڑکوں کی کلاسیں ہو تی ہیں، جب کہ دوپہر کے وقت طالبات پڑھتی ہیں اور پردہ کی پابندی کرتی ہیں۔ خاتون اساتذہ کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔ طالبان نے خواتین ملازمین کے بارے میں بھی پہلے کے مقابلے میں نرم رویہ اختیار کیا ہے، اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی ہے ۔
  • اقتصادی چیلنج کا سامنا : امارت اسلامی افغانستان کو سب سے بڑا چیلنج اقتصادی میدان میں درپیش ہے۔گذشتہ ۲۰سال میں امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک نے افغانستان پر کھربوں ڈالر خرچ کیے اور صرف امریکا نے دو کھرب ڈالر خرچ کرڈالے۔ افغانستان میں ایک طرح سے یہ بہت بڑی سرمایہ کاری ہوئی ۔صرف فوج اور پولیس کے شعبوں میں چار لاکھ کے لگ بھگ افغانی بھرتی ہو ئے اور ان کو ڈالروں میں تنخواہیں ملتی تھیں ۔اسی طرح حکومت کے تمام شعبوں میں ملازمین کو تنخواہیں غیر ملکی فنڈز سے ادا کی جاتی تھیں۔ روسی تسلط کے زمانے میں یہی کام ماسکو حکومت کرتی تھی۔ امریکی انخلا کے بعد امریکی تنخواہیں نہ ملنے سے لاکھوں افغانی بے روزگار ہوگئے،معاشی سر گرمیاں ختم ہوگئیں اور کئی بنک اور کاروباری ادارے دیوالیہ ہو گئے۔

طالبان کی قیادت نے کمال حکمت و فراست کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ملکی معیشت کو ایک حد سے گرنے نہیں دیا ۔ملک میں امن و امان قائم کرنے اور مواصلاتی نظام کو بر قرار رکھنے کے ساتھ ساتھ بنک کاری کے نظام کو بھی سہارا دیا ۔ افغان مرکزی بنک کا سربراہ حاجی محمد ادریس کو پہلے ہی مرحلے میں مقرر کیا گیا اور انھوں نے بنک کا انتظام سنبھالتے ہی تمام بنکوں کو روزانہ کم از کم سرمایہ فراہم کرنا شروع کردیا، البتہ یہ پابندی لگائی کہ ہر فرد اپنے کھاتے سے ہفتے میں دو سو ڈالر یا اس کے برابر افغان کرنسی نکال سکتا ہے،اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ انھوں نے تمام نجی بنکوں کے سربراہوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ملازمین کو فارغ نہیں کریں گے اور کم از کم نصف تنخواہ کی ادائیگی جاری رکھیں گے ۔اس کے علاوہ کاروباری حضرات کو مزید سہولتیں بھی دی گئیں اور سرکاری ملازمین کو پہلے چند ماہ نصف تنخواہ اور اب مکمل تنخواہیں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ اس طرح لاکھوں افراد بے روزگار ہونے سے بچ گئےاور اندرون ملک کاروباری ماحول بحال ہو چکا ہے ۔ بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام، خصوصاً شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کچھ حد تک بحال ہو چکی ہے اور سرکاری ٹھیکے بھی جاری ہو گئے ہیں ۔البتہ مکمل طور پر اقتصادی ترقی بحال نہیں ہو ئی اور ملک میں مجموعی طور پر غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ بنکوں میں ATM کی سہولت ابھی تک بحال نہیں کی جاسکی ہے۔

  • بیرونِ ملک تجارت: بین الاقوامی سطح پر پابندیوں اور بنکاری کی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے جہاں اندرونِ ملک اقتصادی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں، وہاں بیرونِ ملک تجارت بھی بُری طرح متاثر ہوئی۔افغانستان کو چونکہ سمندر تک رسائی حاصل نہیں ہے،اس لیے اس کا انحصار پاکستان اور ایران کی بندرگاہوں پر ہے اور پوری دنیا سے درآمدات و برآمدات کے لیے وہ کراچی اور بندر عباس اور چاہ بہار کو استعمال کرتا ہے۔ علاوہ ازیں پڑوسی ممالک تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان کے ساتھ زمینی تجارت بھی ہوتی ہے۔ یاد رہے ابتدائی کچھ عرصے میں باہمی تجارت بندرہی۔ اب ملک میں اشیائے خورد و نوش، غذائی اجناس،تعمیراتی اور دیگر ساز و سامان کی فراہمی جاری ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے ساتھ افغانستان کی تجارت تقریباً بحال ہو چکی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں ٹرک طورخم ، چمن و دیگر سرحدی گزرگاہوں سے سامان لے جارہے ہیں۔

 بیرونی تجارت میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ بنک کاری کی سہولتوں کی کمی ہے۔ جس سے تاجروں کو بیرونی کرنسی کے کاروباری معاملات میں مشکل درپیش ہے۔سب سے بڑا مسئلہ افغان مرکزی بنک کے بیرونی اثاثہ جات ہیں، جو ۹ ؍ارب ڈالر سے زیادہ ہیں اور جو امریکی بنکوں میں منجمد کردیئے گئے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں اس رقم کو اپنے استعمال میں لانے کا عندیہ دیا ہے ۔اور اس میں سے یک طرفہ اور جبری طور پر نصف رقم ۲۰۰۱ء میں امریکا میں دہشت گردی کے واقعے میںہلاک ہو نے والے امریکی شہریوں کے لواحقین کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی نا انصافی اور سنگین جرم ہے جس کا امریکی حکومت ارتکاب کرنے جارہی ہے۔ اس اعلان سے قبل اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اناتیونیو گیوٹریس نے کئی بار امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یہ پابندی ختم کر دے اور افغان قوم کی یہ امانت اسے واپس دے ۔

  • ہوائی اڈوں اورملکی و غیر ملکی پروازوں کی بحالی:  افغانستان میں موجود دو درجن کے لگ بھگ ائرپورٹوں پر امریکی انخلا کے بعد پروازوں کی آمدورفت رک گئی تھی۔ ان ہوائی اڈوں کا انتظام اور پروازوں کی رہنمائی میں مدد دینے والا تکنیکی عملہ بھی غائب ہو گیا تھا، لیکن طالبان نے بڑے شہروں پر قبضے کے بعد سب سے پہلے ہوا ئی اڈوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور پوری کو شش کی گئی ہے کہ وہاں موجود جہازوں ، ورکشاپوں ،مشینری و دیگر تنصیبات کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچنے پائے۔ اس مقصد میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہو ئے ۔اس طرح دو ماہ کے عرصے میں انھوں نے ملکی سطح پر تمام ہوائی اڈوں اور پروازوں کو بحال کر لیا اور اس وقت افغان قومی ائیرلائن اور نجی کمپنیوں کی پروازوں کا سلسلہ جاری ہے ۔بیرون ملک پروازوں کا سلسلہ بھی کافی حد تک بحال ہو چکا ہے ۔پاکستان، متحدہ عرب امارات ،ایران ،ترکی، قطر و دیگر ممالک سے جہازوں کی آمدورفت شروع ہو چکی ہے ۔اسی طرح اقوام متحدہ کے اداروں اور انٹرنیشنل ریڈ کراس کے جہازوں کی آمد و رفت بھی جاری ہے ۔امدادی سامان بھی ہوائی جہازوں کے ذریعے سے آرہا ہے۔ پاکستان سے پی آئی اے کی کمرشل پروازیں بھی بحال ہوچکی ہیں۔
  • بین الاقوامی سفارتکاری اور پابندیاں : عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک قابل شخصیت ہیں اور گذشتہ طالبان دور میں بھی اہم حکومتی مناصب پر رہے ہیں۔ انھوں نے وزارت خارجہ کا چارج سنبھالتے ہی بیرونی رابطوں کے لیے بھر پور سرگرمی دکھائی۔ ان سے پہلے نائب صدر مُلّا عبدالغنی برادر اور نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزئی نے بھی دوحہ مذاکرات کے دوران اور اس کے بعد عالمی سطح پر بہترین سفارت کاری کا مظاہرہ کیا تھا ۔امریکا کے علاوہ دوسری عالمی طاقتوں چین اور روس سے بھی بڑے پیمانے پر مذاکرات کیے اور کئی اہم کانفرنسوں میں تحریک طالبان افغانستان کی ترجمانی کی ۔اس وقت بھی وزیر خارجہ امیر خان متقی اور ان کی ٹیم تمام اہم بیرونی طاقتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں،اور افغانستان کے مسائل کے حل اور اقتصادی معاملات میں تعاون کے حصول میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ انھوں نے مسلم ممالک کی نمایندہ تنظیم اسلامی کانفرنس کے حالیہ اجلاس منعقدہ اسلام آباد میں شرکت کی اور ناروے میں یورپی ممالک کی تنظیم یورپی یونین کے ساتھ بھی مذاکرات کیے ہیں ۔اس وقت اقوام متحدہ کے تمام ذیلی اداروں UNICEF ،  WHO اور ICRC  وغیرہ کے دفاتر کابل میں فعال ہیں اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان عوام کے لیے ریلیف سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہیں،جب کہ یورپی یونین،روس، چین، ترکی،پاکستان ،ایران و دیگر کئی ممالک کے سفارتخانے کابل میں کام کر رہے ہیں ۔
  • امارت اسلامی کو رسمی طور پر تسلیم نہ کرنا : ابھی تک کسی بھی ملک نے ’امارت اسلامی افغانستان‘ کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی افغانستان کی نمایندگی طالبان کو نہیں ملی ہے۔ گذشتہ دور میں پاکستان،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس کو تسلیم کیا تھا۔ لیکن اب تک ان ممالک نے بھی رسمی طور پر امارت اسلامی افغانستان کو سفارتی درجہ نہیں دیا ہے ۔ اسی طرح دیگر پڑوسی ممالک ،تاجکستان ،ازبکستان،ترکمانستان اور ایران نے باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ پھر روس اور چین نے مذاکرات کے باوجود تسلیم نہیں کیا ہے۔ ترکی، قطر،آذربائیجان اور ملائیشیا سمیت کسی بھی مسلم ملک نے خیر سگالی کے جذبات کے اظہار کے باوجود اس کو تسلیم نہیں کیا۔۲۹ فروری ۲۰۲۰ء کو امریکی حکومت نے طالبان کی قیادت کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد صلح اور امن کا معاہدہ کیا اور اسی معاہدے کی بنیاد پر امریکی ونیٹو افواج کا افغانستان سے پُرامن انخلا وقوع پذیر ہوا۔ اس کے باوجود امریکا اور اس کے زیر اثر اہم ممالک برطانیہ، جرمنی، جاپان و دیگر یورپی ممالک، امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم نہیں کررہے ہیں۔

بھارت نے گذشتہ بیس سال میں صدر اشرف غنی اورحامد کرزئی کی حکومتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے اور افغانستان میں اپنے مخصوص مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر تعمیراتی اور رفاہی کام کیے، جس کے نتیجے میں افغان عوام میں بالعموم بھارت کے لیے مثبت جذبات پائے جاتے ہیں، جو اس کی سفارتی حکمت عملی کی کامیابی ہے ۔ بھارت نے سفارتی سطح پر رابطوں کے باوجود اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیںکیا ۔ یہ بڑی عجیب و غریب صورتِ حال ہے کہ ایک ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا، جس نے گذشتہ چار عشروں سے ایک شورش زدہ ملک میں مکمل امن و امان اور مرکزی حکومت کی رٹ قائم کردی ہے، جو اس سے پہلے ظاہر شاہ کی بادشاہت کے بعدکبھی بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ درحقیقت حکومت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور خوبیوں کے باوجود صرف اس لیے تسلیم نہیں کیا جا رہا کہ وہ اسلامی نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر قائم ہے۔

  • پاک افغان تعلقات: افغانستان کی پاکستان کے ساتھ ۲۶۰۰ کلو میٹر طویل سرحد ہے، جب کہ دونوں ممالک کے گہرے دینی، تہذیبی اور جغرافیائی رشتے ہیں ۔ پاکستان کے لیے افغانستان میں یہ تبدیلی بہت اہم ہے۔ایک طویل عرصے سے افغانستان کی سرزمین پاکستان مخالف تحریکوں اور تخریب کاری کے لیے استعمال ہو تی رہی ہے۔ بھارت نے بھی وہاں پر پاکستان دشمن عناصر کو منظم کیا تھا اور تربیتی اڈے قائم کیے۔ ’تحریک طالبان پاکستان‘ اور ’داعش‘ نے بھی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا ہے۔اب ممکن ہے کہ ان تمام عناصر کے ساتھ سرحدی تخریب کاری کا قلع قمع کیاجاسکے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ افغانستان کی رائے عامہ میں پاکستان مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ جن پاکستانی اخبار نویسوں نے حال ہی میں افغانستان کادورہ کیا ہے، انھوں نے بھی اس کو محسوس کیا ہے۔ بھارتی سرپرستی میں قائم افغان ٹی وی چینل اور اٖفغان قوم پرست حلقے اور کمیونسٹ عناصر بھی اس میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاکستانی حکومت کے علاوہ تمام سیاسی و دینی جماعتوں ،خدمت خلق کی تنظیموں ،سماجی اداروں اور کاروباری تنظیموں اور شخصیات کو اس نازک موقع پر افغانستان کے عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ افغان عوام ایک عرصے سے پاکستان میں مہاجرین کی حیثیت سے رہتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے اب کئی خاندانوں کا دوسرا گھر پاکستان ہی ہے۔ اس طرح ہزاروں پاکستانی بھی افغانستان میں ملازمت یا کاروبار کرتے ہیں ۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان صدیوںسے ثقافتی ،مذہبی،قبائلی اور تجارتی روابط ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ان روابط کو مزید مستحکم کیا جائے۔ اس کی ایک بہترین مثال حال ہی میں خیبر میڈیکل یونی ورسٹی، پشاور کا اقدام ہے کہ اس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء الحق نے افغان حکومت کے محکمۂ تعلیم کے وفد کی آمد کے موقعے پر اعلان کیا کہ وہ کابل میں افغان طلبہ و طالبات کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے میڈیکل اور نرسنگ کالجز پر مشتمل کیمپس قائم کریں گے ۔اس کے علاوہ پاکستان میں میڈیکل اداروں میں زیر تعلیم افغان طلبہ و طالبات کو فیسوں میں رعایت دینے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔لازماً یہ اقدام اُٹھانے چاہییں کہ پاکستان کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں افغان طلبہ و طالبات کو تعلیمی وظائف پر داخلے دیئے جائیں۔ اسی طرح عسکری اور دیگر تربیتی اداروں میں بھی افغانو ں کو آنے کا موقع دیا جائے۔تجارتی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر بحال کی جائیں، اور ہر ممکن طریقے سے پاکستانی اور افغان تاجروں کو آسانیاں فراہم کی جائیں تاکہ افغانستان میں معاشی استحکام پیدا ہوسکے۔ وزارتِ خزانہ کا یہ فیصلہ قابل قدر ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت میں غیر ملکی کرنسی کے بجائے ملکی کرنسی استعمال کی جائے گی ۔

 گذشتہ دنوں پاک افغان سرحد پر باڑھ لگانے کے معاملے پر دو مقامات پر افغان طالبان کی جانب سے مزاحمت کے واقعات سامنے آئے، جس سے تنائو کی کیفیت پیدا ہوئی۔ لیکن طالبان کی مر کزی قیادت نے فراست سے ان واقعات کا بر وقت نوٹس لیتے ہو ئے ذمہ دار افراد کو سزا دی۔ پاک افغان تعلقات میں ایک اور اہم مسئلہ ’تحریک طالبان پاکستان‘ (ٹی ٹی پی)کی جانب سے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات ہیں، جس میں خاص طور پر پاکستانی فوج اور پولیس کے جواانوں کو نشانہ بنایا جار ہا ہے۔ ان واقعات میں اضافہ قابلِ تشویش ہے، جس کی روک تھام کے لیے ’امارت اسلامی افغانستان‘ کے قائدین بالخصوص وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ انھی کے ایما پر حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ بھی چلتا رہا اور ایک موقعے پر سیز فائر کا اعلان بھی ہوا ۔لیکن اب تک صلح کی شرائط پر عدم اتفاق کی وجہ سے کو ئی باقاعدہ معاہدہ وجود میں نہیں آسکا ہے۔

  • موسم سرما کی شدت: افغانستان میں ہر سال موسم سرما بڑی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ ایک وسیع علاقے میں دارالحکومت کابل سمیت برف باری کا سلسلہ ماہ دسمبر سے شروع ہوجاتا ہے اور برف باری کی وجہ سے راستے بند ہو جاتے ہیں اور کئی صوبوں میں قحط سالی کی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے۔اس لیے اس موسم میں امداد اور سامان خوراک کی ضرورت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یقینا امارت اسلامی کی قیادت اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی اس انسانی المیہ کو اجا گر کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے ذریعے افغانستان کے دور دراز علاقوں کو غذائی اشیا کی فراہمی جاری ہے۔پاکستان نے پہلے مرحلے میں پچاس ہزار ٹن گندم افغانستان روانہ کی ہے ۔ بھارت نے بھی پانچ لاکھ ٹن گندم کا اعلان کیا تھا۔ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات ،ترکی ،قطر و دیگر کئی ممالک نے بھی امداد فراہم کی ہے ۔

 پاکستان کے کئی فلاحی اداروں اور مخیر حضرات نے افغانستان کے عوام کی مدد کی ہے، جن  میں ’الخدمت فائونڈیشن پاکستان‘ نمایاں ہے، اور اب تک ۲۱کروڑ مالیت کا سامان، جس میں غذائی اجناس ،گرم ملبو سات اور ادویات ٹرکوں کے ذریعے افغانستان بھیجا جا چکا ہے، جب کہ کابل میں یتیموں کی دیکھ بھال کے لیے آغوش مرکز کے قیام کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) کے تین رکنی وفدنے گذشتہ ماہ کابل کا تفصیلی دورہ کیا اور امارت اسلامی کے وزرا سے ملاقاتیں کیں۔الخدمت نے امدادی سامان کی ایک کھیپ افغانستان روانہ کی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے،مزیدامداداورتعاون درکار ہے۔

  •  داعش کا مسئلہ اور تخریب کاری : شام اور عراق سے نمودار ہو نے والی بین الاقوامی تنظیم داعش (ISIS) نے افغانستان میں بھی اپنی شاخ قائم کردی تھی۔ افغانستان کے صوبے ننگرہار، پغمان اور کابل میں داعش کی موجودگی گذشتہ حکومت کے دور میں بھی منظر عام پر آچکی تھی ۔ اس کی جانب سے بڑے پیمانے پر خودکش حملے اور بم دھماکوں کا سلسلہ جاری تھا ۔انھوں نے خاص طور پر افغانستان کی شیعہ ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا تھا ۔۱۷ ؍اگست ۲۰۲۱ء کو کابل ائیرپورٹ پر داعش کی جانب سے حملہ ہوا تھا۔ اس کے بعد کابل، قندھار ،اور قندوز میں خود کش حملے کیے گئے لیکن اب یہ سلسلہ کچھ تھم گیا ہے۔گذشتہ سال طالبان کی آمد کے موقعے پر افغانستان کی پل چرخی جیل سے عام قیدیوں کی رہا ئی کے موقعے پر داعش کے ایک رہنما کو ہلاک کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے طالبان اور داعش کے درمیان کش مکش پید اہو ئی۔ موجودہ حکومت نے داعش کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں، جس کا نتیجہ سامنے آرہا ہے ۔
  • افغان میڈیا کا کردار: طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد ایک اہم شعبہ جو متاثر ہوا ہے، وہ نشریاتی شعبہ ہے۔ آج کے دور میں یہ ایک طاقتور عنصر ہے، جو عوام اور ریاستوں کو متاثر کرتا ہے۔دینی قوتوں کے لیے آزاد میڈیا سے معاملہ کرنا ایک نازک مسئلہ ہے۔ الیکٹرانک میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا کی مقبولیت نے طالبان حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ ٹی وی پر خواتین کی موجودگی اور موسیقی کا استعمال قابلِ اعتراض پہلو ہیں ۔گذشتہ دور میں ۶۰سے زائد ٹی وی چینلز معرض وجود میں آئے جن کو زیادہ تر بھارتی نشریاتی ادارے، دور درشن نے سٹیلائٹ سہولت فراہم کی اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے بھرپور انداز سے استعمال بھی کیا۔ طالبان نے میڈیا پر پابندی تو نہیں لگائی، لیکن ان کے لیے ضابطۂ اخلاق جاری کیا ہے۔

 اشتہارات کی کمی اور دیگر معاشی مسائل کی وجہ سے نشریات بھی متاثر ہو ئی ہیں ۔نائب وزیر نشریات ذبیح اللہ مجاہد اور ان کے ساتھیوں نے بڑی خوبصورتی سے ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں سے معاملات کیے ہیں۔ غیر ملکی خواتین صحافی بھی افغانستان میں موجود ہیں اور بین الاقوامی نشریاتی ادارے براہ راست افغانستان کے شہروں اور دیہات سے رپورٹیں نشر کر رہے ہیں ۔پاکستانی صحافی بھی بڑی تعداد میں افغانستان جارہے ہیں، اور عوامی جذبات کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

 مستقبل کے امکانات

 افغانستان ایک خوب صورت ملک ہے۔ اس میںسیاحت کے فروغ کے لیے اچھے مواقع ہیں، لیکن بدقسمتی سے امریکی پابندیوں،بین الاقوامی پروازوں کی بندش اور بنکاری کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے حالات معمول پرنہیں آ رہے ۔ افغانستان، پاکستان ،ایران اور وسطی ایشیائی ممالک مل کر ایک وسیع و عریض خطۂ ارضی ہے، جو مستقبل میں بڑے انسانی، مالی اور جغرافیائی وسائل کی بنیاد پر دنیا میں ایک اہم سیاسی و نظریاتی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

 افغانستان میں معاشی بحالی اور امن و امان کا قیام طالبان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ طالبان کی قیادت راسخ العقیدہ علما پر مشتمل ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں ،عالمی سیاست کی پیچیدگیوں اور اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں سے عہدہ برآ ہو ناان کے لیے ایک مشکل اور صبرآزما جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔

یہ ۲۰۱۸ء کی بات ہے، جب بھارت کے جنوبی صوبہ کرناٹک، میں اسمبلی انتخابات کی مہم جاری تھی، تو یہاں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک مقتدر لیڈر، اننت کمار (مرکزی وزیر) پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کی حکمت عملی پر گفتگو کر رہے تھے۔ جب اننت کمار سے پوچھا گیا کہ ’’بی جے پی کیا ایجنڈا لے کر میدان میں اتر رہی ہے؟‘‘ تو انھوں نے صاف اعتراف کیا کہ ’’پولرائزشن ہی ہمارا ہتھیار ہے۔ تعمیر و ترقی کے نام پر کہاں عوام ہمیں ووٹ دیتے ہیں‘‘۔ اُن دنوں شیر میسور ٹیپو سلطان، ہندو نسل پرستوں کی زد میں تھے۔ تب کانگریس کے ایک لیڈر کے۔ رحمان خان ٹیپو سلطان یونی ورسٹی بنانا چاہتے تھے اور کانگریسی وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے ٹیپو سلطان کی برسی منانے کا اعلان کیاہوا تھا۔ اننت کما ر کا کہنا تھا کہ ’’یہ ایشوہماری انتخابی مہم کے لیے غذا ہے اور اس کا بھرپور استعمال کیا جائے گا‘‘۔ پولرائزیشن کے اس ہتھیار نے اسمبلی میں بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد ۴۰ سے بڑھا کر ۱۰۴کردی۔

۲۰۰۴ء میں جب کانگریس کے زیر قیادت اتحاد نے انتخابات میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو شکست دی، اس وقت بی جے پی کے سربرا ہ اور ملک کے موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’’یہ انتخاب ان کی پارٹی نے تعمیری ایشوز یعنی ’شائینگ انڈیا‘ کے نعرے پر لڑا تھا ۔ مگر اس شکست نے ان میں احساس پیدا کر دیا ہے کہ عوام کو جذباتی ایشوز پر ہی لبھایا جاسکتا ہے‘‘۔ تب سے بی جے پی نے اقتدار کی کرسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کے لیے تین آزمودہ ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے ، اور وہ ہیں:’’ گائے، مسلمان اور پاکستان‘‘۔

۲۰۱۴ء سے ابھی تک ’گائے کی حفاظت‘ کے نام پر ہجومی تشدد کے ۸۰ واقعات میں ۵۰؍افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ لیکن اب گائے کا ایشو کچھ ٹھنڈا پڑچکا ہے۔ ’پاکستان‘ کے ایشو کو آیندہ کے لیے اُٹھا رکھا گیا ہے، جس طرح پلوامہ کے المیے کے بعد ۲۰۱۹ء میں اس کا استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم، آج اس وقت ہندو شدت پسند اور ان کی سیاسی تنظیم بی جے پی ، مسلمان کارڈ کا بھرپور استعمال کر رہی ہے۔خود وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے انتخابی حلقہ ورانسی میں تاریخی شخصیات اورنگ زیب عالم گیر اور صوفی بزرگ سید سالار مسعود غازی کو مطعون کرکے الیکشن کو ہندو بنام مسلمان بناکر مخالفین کو شکست دی۔

  لکھنؤ شہر کے ایک معروف صحافی حسام صدیقی کے مطابق: ’’ہندو شدت پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) مسلمانوں کے خلاف اکثر طرح طرح کے تجربے کرتی رہتی ہے، تاکہ عام ہندوؤں کو بھڑکا کر بی جے پی کی حمایت میں پولرائز کیا جاسکے‘‘۔ اس وقت حجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کا آغاز کرناٹک کے اڈپی قصبے سے ہوا، جہاں گورنمنٹ پری یونی ورسٹی کالج فار گرلز میں نصف درجن مسلم لڑکیوں کودسمبر میں کلاس میں جانے سے روکا گیا، کیونکہ انھوں نے حجاب پہن رکھا تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے صوبہ کی بی جے پی حکومت نے ۵فروری کو حکم نامہ جاری کرکے تمام اسکول اور کالجوں میں حجاب پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا۔

سوال یہ ہے کہ حجاب سے کس طرح نظم و نسق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہو رہی تھی؟جو لوگ حجاب کی مخالفت کر رہے ہیں، اب ان سے کوئی پوچھے کہ ہندو خواتین جو گھونگھٹ میں رہتی ہیں، تو ان کے گھونگھٹ بھی اتار کر پھینک دو۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ تو دُور کی کوڑی لاتے ہوئے سب سے آگے نکل گئے۔ انھوں نے کہا:’’حجاب کے ذریعے کچھ لوگ ملک میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ نفرت کی خلیج کو گہرا کرنے کے لیے بی جے پی کی زیر قیادت دیگر صوبائی حکومتیں بھی حجاب پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ ہندو شدت پسند تنظیمیں بڑی تعداد میں حجاب کے خلاف بطورِ احتجاج طلبہ کو بھگوا مفلر تقسیم کر رہی ہیں۔ اسے چھوٹے چھوٹے بچوں تک میں نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ہندو نسل پرست ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ’ لوّ جہاد‘ سے شروع کی جانے والی لہر،  شہریت قانون، تبدیلیِ مذہب پر پابندی کا قانون، گائے کے نام پر ہجومی تشدد اور ایسے اَن گنت اقدامات کے تسلسل میں اب حجاب کے سوال پر جھگڑا کھڑا کیا گیاہے۔ اس طرح سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ان کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے اور اگر رہنا ہے تو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے رہنا ہوگا۔۲۰۱۷ء میں خاتون رپورٹر شوئیٹا ڈیسائی نے اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی مہنت آدتیہ ناتھ کے حلقہ انتخاب گورکھپور اور خوشی نگر کا دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’’اس علاقے میں مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کردیے جانے کی سیکڑوں وارداتیں پولیس اسٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے اکثر لڑکیوں کا ’شدھی کرن ‘کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرادی جاتی ہیں۔بنگالی پٹی بنجاریہ گائوں کی ۱۷سالہ عاصمہ نے بتایا، کہ اغوا کرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ مگر وہ کسی طرح ان کی گرفت سے بھاگ نکلی‘‘۔ خاتون رپورٹر نے  بتایا کہ ’’ صر ف اس ایک گاؤں میں نو ایسے خاندان ہیں، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرنےکے بعد ان کی زبردستی کی شادیاں کردی گئی ہیں‘‘۔

چوپیہ رام پور گاؤں میں زبیدہ اب امیشا ٹھاکر کے نام سے ایک ہندو خاندان میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس کا شوہر اروند گاؤں کے مکھیا ٹھاکر کا بیٹا ہے۔ ماتھے پر بندی سجائے اور ہندووانہ لباس میں ملبوس امیشا نے رپورٹر کو بتایا، کہ ’’جب وہ ۱۳سال کی تھی، تو ٹھاکروں نے اس کو گھر سے اٹھا کر اغوا کیا‘‘۔ مشرقی اتر پردیش کا یہ علاقہ کافی پسماندہ اور بدحالی کا شکار ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۶ء میں حبیب انصاری نے اپنی بیٹی نوری کے اغوا میں ملوث چار ہندو لڑکوں کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی درخواست عدالت میں دائر کی۔ دو سا ل قبل نوری کو گوری سری رام گاؤں سے اغوا کرکے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ نوری نے مجسٹریٹ کے سامنے ہندو واھنی سے وابستہ چارافراد کی شناخت بھی کی، جن میں ایک نابالغ لڑکا بھی تھا۔ بتایا جاتا ہے، کہ ادتیہ ناتھ کے کارکنوں نے انصاری پر مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا، جس کے بعد ہی اس کو گاؤں میں دوبارہ رہنے اور کھیتی باڑی کرنے کی اجازت ملی‘‘۔

پانچ سا ل پہلے کی بات ہے کہ جب میں اتر پردیش کے انتخابات کی رپورٹنگ کر رہا تھا۔ کالج کے ایک پروفیسر، جو سماج وادی پارٹی کے سربراہ کے قریبی رشتہ دار تھے، انھوں نے بتایا کہ ’’میں مودی کے بدترین مخالفین میں سے ہوں، مگر ایک کام اس نے بہت اچھا کیا اور وہ یہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کی عقل ٹھکانے لگائی ہے اور انھیں ٹھیک کنٹرول میں رکھا ہے‘‘۔ بھارت میں بے بنیاد طور پر یہ تاثر پھیلایا گیا ہے کہ ’’مسلمانوں نے یا تو ملکی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے یا ان کے ادا کیے گئے ٹیکسوں پر ہی وہ زندہ ہیں‘‘۔یہ مذہبی منافرت کا دوسرا مرحلہ ہے، جو فسطائیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح کا پراپیگنڈا یورپ میں دوسری عالمی جنگ سے قبل یہودیوں کے خلاف عام تھا۔

بھارت میں مذہبی منافرت اُبھارنے کا یہ کام نہایت منظم انداز میں ہو ا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ چھے ہزار سے زائد سکول سرکاری امداد پر چلتے ہیں۔ ان میں زیرتعلیم بچوں کے معصوم ذہنوں کو مذہبی نفرت سے مسموم کیا گیا ۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں شیشو مندر ہیں‘ جہاں نوجوان نسل کی برین واشنگ کی گئی۔ یہاں سے فارغ ہونے والے تعلیم یافتہ افراد ہی آگے چل کر مختلف میدانوں میں مختلف حوالوں سے مذہبی تعصب پھیلاتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک صاف طور پر بھارتی میڈیا میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ 

۲۰۱۴ء کے دوران کشمیر میں انتخابات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے میں نے دیکھا، کہ جموں کے مسلم اکثریتی علاقے ’چناب ویلی‘ میں دشوار گزار اور انتہائی دور دراز علاقوں میں آر ایس ایس کے پُرجوش کارکنوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کارپوریٹ اور دیگر سیکٹروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز یہ اراکین راجستھان، مدھیہ پردیش، کرناٹک حتیٰ کہ کیرالا سے عیش وآرام کی زندگی چھوڑ کر ایک سال کی چھٹی لے کر دیہات میں رات دن ’ہندوتوا‘ کا پاٹھ پڑھارہے تھے۔

شہید بابری مسجد کی جگہ پر عالی شان رام مندر کی تعمیر کے بعد مسلمانوں کو مزید کنارے لگانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے آر ایس ایس کا نشانہ اب۱۹۹۱ء کا عبادت گاہوں کا قانون ہے، جس کی رُو سے بابری مسجد کو چھوڑ کر بقیہ تمام عبادت گاہوں کی۱۹۴۷ء والی حیثیت کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس قانون کو کالعدم کرانے کے مطالبے میں تیزی آنے کا اندیشہ ہے۔ اسی لیے بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کے عید گاہ کے قضیے کو ہوا دی جار ہی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر نے سترھویں صدی میں تعمیر کرایا تھا، لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ بعض مخطوطوں کے مطابق مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی ۔ یہ جامع مسجد شہر کے قلب میں دریائے گنگا کے کنارے للتا گھاٹ کے قریب واقع ہے۔ متھرا کی شاہی عیدگاہ اور مسجد کے بارے میں اب بتایا جاتا ہے کہ یہ بھگوان کرشن کے جنم استھان کا حصہ ہے ۔ یہ دونوں ہی قدیم مساجد ہیں، جہاں مسلمان برسہا برس سے نمازیں پڑھتے آئے ہیں۔

بنارس کی اس مسجد کے بارے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ آسام پر فوج کشی سے واپسی کے بعد جب اورنگ زیب کی فوجوں نے اس شہر میں پڑاو ڈالا، تو اس کے راجپوت کمانڈروں کی بیویاں مندر میں پوجا کرنے کے لیے گئیں۔ رات تک جب گجرات کے کچھ علاقہ کے مہارانا گیان سنگھ کی رانی اور اس کی دو داسیاں واپس نہیں لوٹیں ، تو اگلی صبح مندر کے تہہ خانے کی تلاشی کے دوران گیان سنگھ نے دیوار سے لگے بھگوان گنیش کے بت کو جھنجھوڑ ڈالا، تو اس کے نیچے تہہ خانے کو جاتی سیڑھیاں  نظر آئیں۔ نیچے جا کر پتاچلا کہ کچھ کی مہارانی ادھ موئی پڑی تھی اور اس کے کپڑے تار تار تھے۔ اورنگ زیب نے یہ مقدمہ کچھ کے راجا کے حوالے کر دیا، جس نے مندر کے برہمن پجاریوں کو احاطہ کے اندر ہی موجود کنوئیں میں پھینکوا کر، اوپر سے کنواں بند کرا دیا اور اس کے اوپر مندر کو اَزسر نو تعمیر کرادیا۔ مغل بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے اس مندر کی دیوار سے متصل ایک مسجد بھی تعمیر کرائی۔مگر کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس نے مسجد کی مرمت کروائی، کیونکہ یہ پہلے سے ہی موجود تھی۔ یہ بھارت میں واحد مسجد ہے جو اپنے سنسکرت نام یعنی گیان واپی( علم کا کنواں) کے نام سے موسوم ہے۔ 

بھارت کے مشہور دانش وَر سعید نقوی نے اپنی کتاب Being the Other  میں لکھا تھا کہ ’’میں اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتا ہوں‘‘۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔اتر پردیش میں صوبائی انتخابی مہم دیکھنے والے صحافیوں کا بھی کہنا ہے کہ ’’مسلمانوں میں اپنی تعلیم و ترقی کے بجائے اپنے تحفظ کا احساس زیادہ گھر کر گیا ہے‘‘۔

سعید نقوی کے مطابق: ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت کا مسلمان اپنے خول میں سمٹتا جا رہا ہے۔ غیر فرقہ پرست ہندو بھی بھونچکا رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں ممکن ہوتا ہے وہ ’’سیکولر ‘‘ کی اصطلاح سے اجتناب کرتے ہیں ، کیونکہ بھارت میں اس لفظ سے وابستہ حُرمت کو بہت زیادہ پامال کیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی ہے، جس پر ہندو قوم پرستی کا عالی شان مندر تعمیر اور ترشول بلند کیا جارہا ہے۔یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں کہ ہزاروں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے اور اکثریتی قوم کو ان بے گناہوں سے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔ گویا فرض کرلیا گیا ہے کہ خواہ ان کے خلاف کوئی شہادت نہ ہو تب بھی وہ مجرم ہیں۔ پس ماندہ مسلم بستیوں میں رہنے والوں کے اندر سلگتی ہوئی شکایتوں سے ذہنوں کے اندر خلیج تقویت پاتی ہے۔ نقوی صاحب کا مزید کہنا ہے کہ ’’مجھ پر ایک اور حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ جہاں کوئی مسلمان اعلیٰ عہدہ تک پہنچتا ہے، وہ اپنی کمیونٹی کے افراد کی مدد کرنے سے منہ موڑتا ہے، مبادا اس پر ’فرقہ پرست‘ ہونے کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔حال یہ ہے کہ پچھلے چاربرسوں میں دہلی میں اورنگ زیب روڑ کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ گورکھپور کا اردو بازار، ہندی بازار ہوگیاہے، ہمایوں نگراب ہنومان نگر ہوگیا، اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر تاریخی مغل سرائے شہر دین دیال اپدھائے نگر ہوگیا اور مغل بادشاہ اکبر کا بسایا ہوا الٰہ آباد اب پریاگ راج ہوگیا ہے، فیض آباد ایودھیا ہو گیا ہے۔ ہریانہ کا مصطفےٰ آباد اب سرسوتی نگر ہوگیا ہے‘‘۔

 احمد آباد کو اب کرناوتی نگر اور فیروز آباد کو چندرا نگر بنانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ مٹائی نہیں جاسکتی، مگر یہاں تو تاریخ مسخ ہورہی ہے۔ یہ مٹتے ہوئے نام ، مسخ ہوتی تاریخ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے خود اعتمادی چھین کر احساس کمتری میں دھکیل دے گی۔ کیونکہ یہ صرف نام نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کی جھلک تھی ، جو ثابت کرتی تھی کہ مسلمان اس ملک میں کرائے دار نہیں بلکہ حصہ دار اور اس کی تاریخ کا حصہ تھے۔ لیکن شاید غیرمحسوس طریقے سے ۱۵ویں صدی کے اواخر کے اسپین کے واقعات دہرائے جا رہے ہیں۔

مسلمانوںکی سیاسی حالت حددرجہ ناگفتہ بہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا۔ اس لیے اسے ان کی کوئی پروا نہیں۔ اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔ وقت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈر اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا ۲۰کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ بھارت کو ایک آسودہ حال ملک بنا سکیںگے؟

اخوان المسلمون کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع خصوصی عدالت میں بیان دے رہے تھے:  ’’میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارا پُرامن رویہ تمھاری گولی سے زیادہ طاقت ور ہے ۔کیا میری امن پسندی ہی میرے خلاف دلیل بنادی جائے گی؟جب سے اخوان المسلمون قائم ہوئی ہے، ہماری جدوجہد پرامن ہے اور ان شاء اللہ ہم پر توڑے جانے والے ظلم کے خلاف اللہ کی نصرت ہمیں ضرور حاصل ہوکر رہے گی۔جج صاحبان ! حقائق کو توڑا مروڑا جارہا ہے ۔جو کٹہرے میں کھڑے کیے گئے ہیں اور جو جیلوں میں ناحق بنداورقید کاٹ رہے ہیں، ظلم انھی پر توڑا گیا ہے۔ ان شاء اللہ اخوان المسلمون فتحیاب لوٹے گی اور پہلے سے بڑھ کر طاقت ور: وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۝۲۲۷‘‘

ڈاکٹر محمد بدیع [پ: ۷؍اگست ۱۹۴۳ء] ۱۶جنوری ۲۰۱۰ء کو اخوان المسلمون کے آٹھویں مرشد عام منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب ایک صائب الرائے اور صاحب ِعزیمت رہنما ہیں ۔ اخوان المسلمون کے سابق مرشد عام [۲۰۰۴ء- ۲۰۱۰ء] محمدمھدی عاکف [۱۹۲۸ء-۲۰۱۷ء] کے قریبی ساتھی ہیں ۔دونوں سید قطب شہید [شہادت: ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء]کے شاگرد رہے اور سید صاحب کے ساتھ ہی ۱۹۶۵ء کی قید و بند اور ابتلا و آزمایش میں مبتلا رہے اور کندن بن کر نکلے۔ مصر کے ریاستی اطلاعاتی ادارے نے ۱۹۹۹ء میں انھیں ’۱۰۰   بہترین عرب سائنس دانوں‘ میں شمار کیا تھا ۔

اس وقت کے مصری فوجی حکمران ، جمال عبد الناصر کی فوجی عدالت نے ڈاکٹر محمد بدیع کو ناکردہ جرم کی پاداش میں ۱۵ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ وہ ۹سال جیل میں قید رہ کر رہا ہوئے۔ ۱۹۹۸ء میں ۷۵ دن کے لیے پھر قید کردئیے گئے ۔۱۹۹۹ء میں تیسری بار گرفتار کیے گئے اور پانچ سال قید کی سزا پائی اور ۲۰۰۳ء میں رہا ہوئے۔

۲۰۱۳ء میں صدر مرسی کی منتخب حکومت کے خلاف چند دولت مند ملکوں کی پشت پناہی میں جنرل سیسی کی باغی حکومت نے فوجی انقلاب میں ایک بار پھر گرفتار کرلیا۔ فوجی جنتا نے اس بار ان پر قتل اور تشدد پر اُبھارنے کا الزام عائد کیا۔اس وقت مصر کے آٹھ اضلاع میں ان کے خلاف ۴۸مقدمات درج ہیں ۔

حالیہ فروری ۲۰۲۲ء میں ایک جعلی مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مرشدعام کی عمرقید کو برقرار رکھاگیاہے۔۳۰دن کے اندر اندر انھیں سنائی جانے والی یہ دوسری عمرقید کی سزا ہے۔ اس طرح مختلف مقدمات میں اب تک مجموعی طور پر انھیں ۲۰۰ برس کی عمرقید سنائی جاچکی ہے۔ مزید ۸۰ برس قید کی سزائوں والے مقدمات کی سماعت ابھی باقی ہے۔

 ۷۸برس کے مرشدعام کو آٹھ برس سے مسلسل قیدتنہائی میں رکھا گیا ہے۔ ان کی بیٹی ضحی بدیع کہتی ہیں کہ میرے والد محترم علیل ہیں۔ پانچ برس سے انھیں اہلِ خانہ سے ملنے نہیں دیا گیا۔ کھانے پینے کا سامان اور باہر سے دوا تک نہیں پہنچنے دی جارہی۔ انھیں طبّی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے اور قید کی تعذیب اور مشقت اس پر سوا ہے۔ ’’وہ سخت جسمانی کمزوری کا شکار ہیں ، ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ہماری التجا سننے والا کوئی نہیں، سوائے اللہ کے‘‘۔

عرب حکومتوں کے پالیسی سازوں کے خیال میں ’عرب بہار‘ کی کامیابی کے پیچھے در اصل اخوان المسلمون کے نظریاتی ،سرتاپا قربانی دینے والے، منظم کارکنان تھے ۔لہٰذا، جب تک انھیں اور ان کی قیادت کا صفایا نہ کردیا جائے دنیا بھر کی طاغوتی قوتوں کی پشت پناہی کے باوجود، ہمارے لیے کامیابی کا کوئی امکان نہیں ۔اسی لیے اخوان المسلمون اور خصوصاً ان کی قیادت ان کا اہم ہدف ہے۔

۲۰۱۳ء میں مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کی گرفتاری کے بعد جناب محمود عزت قائم مقام مرشدعام مقرر ہوئے۔ حکومتی جبرو استبداد کو دیکھتے ہوئے بار بار ساتھیوں نے انھیں ملک سے باہر چلے جانے کا مشورہ دیا ۔لیکن قائم مقام مرشد عام نے دار و گیر میں مبتلااپنے ساتھیوں کو تنہا چھوڑنا پسند نہ کیا اور ملک ہی میں اپنے کارکنوں کے درمیان رہے ۔۲۰۱۵ٌ میں اخوان المسلمون کے دیگر ۹۲کارکنان کے ہمراہ انھیں بھی ان کی عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جسے بعد میں عمر قید میں بدل دیا گیا۔ ۸؍ اپریل ۲۰۲۱ء کو محمود عزت بھی گرفتار کرلیے گئے ۔

نائب مرشد عام محمود عزت کے ساتھ کام کرنے والی اعلیٰ انتظامی کمیٹی کے اولین کنوینیر ڈاکٹر محمد کمال کوابتدا میں ہی شہید کردیا گیا تھا اور دوسرے ذمہ دار ڈاکٹر محمد عبد الرحمٰن مرسی کو قید کرلیا گیا۔

اخوان کے رہنما ڈاکٹر عصام عریان ۲۱؍ اگست ۲۰۲۱ءکو سیسی آمریت کے ہاتھوں قید کے دوران تشدد سے جیل ہی میں انتقال کرگئے ۔ ان کی تشدد زدہ میّت، گھر والوں کے حوالے کرنے کے بجائے انتظامیہ نے خود سپرد خاک کردی تھی۔ تدفین کے وقت گھروالوں کو قبرستان آنے تو دیا گیا،لیکن موبائل فون لانے کی اجازت نہیں دی، تاکہ مجرم نظام اپنا جرم چھپاسکے۔

امام ابن تیمیہؒ نے قید کی دھمکی کے جواب میں فرمایا تھا:’’ہمارے دشمن ہمارے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں ؟ قید ہمارے لیے خلوت اور تنہائی میں عبادت کا موقع ہے ۔جلاوطنی ہمارے لیے سیاحت ہے اور قتل ہمارے لیے شہادت‘‘ ۔امام ؒ کے اس مقولے کو زندگی کا وظیفہ بناتے ہوئے اس وقت اخوان المسلمو ن کی چوٹی کی قیادت اورمکتب ارشاد کے تمام ممبران قید میں ہیں۔ اخوان کے ۶۰ہزار کارکن جیلوں میں بند ہیں ۔(جیلوں میں جگہ کم پڑچکی ہے اور حال ہی میں جنرل سیسی حکومت نے نئے جیل خانے تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔)

صدر مرسی کی زندگی میں مرشد عام محمد مھدی عاکف سے حکومت نے مذاکرات کرنا چاہے تو انھوں نے فرمایا: ’’جس نے مذاکرات کرنے ہوں وہ مصر کے حقیقی منتخب صدر ( مرسی ) سے کرے‘‘۔ نائب مرشد عام خیرت الشاطر کا کہنا تھا: ’’جو بات چیت چاہتا ہے ،وہ صدر مصر (مرسی)سے کرے‘‘۔

صدر مرسی شہید کی دوران قید جیل میں وفات [۱۷جون ۲۰۱۹ء] کے بعد اخوان کا دو ٹوک موقف اب یہ ہے کہ ’’ان کی شہادت کے بعد مذاکرات کا حق اب صرف اور صرف مصری قوم کو ہے۔ اس لیے کہ جنگ اب اخوان اور غدار فوجی جنتا کے مابین نہیں بلکہ بغاوت کے مرتکب فوجیوں اور اس قوم کے درمیان ہے، جس کا مینڈیٹ چُرالیا گیا ہے۔جس کی آواز کو دبا دیاگیا ہے ،اورجس کی عزت پامال کی گئی ہے ۔ تیران و صنافیر کے جزیرے بیچ ڈالے گئے، اور مصر کو امریکا واسرائیل کا بے دام غلام بنادیا گیا ۔

لندن میں قائم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (IA) انسانی حقوق کی کوئی واحد عالمی انجمن نہیں ہے کہ جس نے اسرائیل کو ’نسل پرست ریاست‘ قرار دیا ہو۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت سے دوسرے گروپ بھی صہیونی ریاست کے خلاف ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشل اپنی تازہ رپورٹ کے بعد انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ سمیت دو اسرائیلی انجمنوں (بتسلیم اور یش دین) کی ہم نوا بن گئی ہے، جو ماضی میں اسرائیل کے نسل پرست اقدامات کا پردہ چاک کر چکی ہیں۔

ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیل اپنے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں قوانین، پالیسیوں اور ضابطوں کے ذریعے نسل پرستی کی ایک ایسی مربوط پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں برابری کے حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ اسی طرح فلسطینی شہریوں کو دبانا اور ان پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔سرکاری طور پر تمام اسرائیلی شہریوں کو مذہب ونسل کے امتیاز کے بغیر برابر کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ ’کم تر غیر نسل‘ کے طور پر برتاؤ کرتا ہے۔

اسرائیل کے دفتر خارجہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ’جھوٹ، تضادات کا مجموعہ‘ قرار دیتے ہوئے رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بے بنیاد الزامات کے ذریعے ادارے کی اسرائیل سے نفرت واضح ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’یہ رپورٹ اسرائیلی ریاست کے قیام کے حق کو تسلیم نہیں کرتی اور اس رپورٹ میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس کا مقصد اسرائیل کو بدنام کرنا اور یہود مخالف جذبات کو اُبھارنا ہے۔

نسل پرست صہیونی ریاست کے کئی امریکی اور یورپی حامیوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے ’بیانیے کی جنگ‘ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ’بیانیے کی جنگ‘ جیسی اصطلاحات کا انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے خلاف سچائی جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسرائیل کی نسل پرستی کو بے نقاب کرنے والی لاتعداد رپورٹوں کو تل ابیب اور اس کے حواری ’پروپیگنڈا کی جنگ‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ طرزِعمل ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے ہی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ظالمانہ نسل پرست نظام کی خامیوں سے پہلوتہی برت رہا ہے۔

اسرائیل میں نسل پرستی کے مظاہر تو پہلے دن سے ہی ملنا شروع ہو گئے تھے۔ اسرائیل کی تاریخ اور صہیونی نظریے سے آگاہ نقاد بخوبی جانتے تھے کہ فلسطین کے اصل باشندوں کو بے دخل کرکے ان کی جگہ یورپی یہودیوں کے لیے وطن قائم کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ۲۰ ویں صدی کے آغاز پر وہاں کے ۹۵ فی صد مقامی باسیوں کے حقوق کی بُری طرح پامالی کی صورت میں سامنے آئے گا۔  اس نظام کو نسل پرستی اور ظالمانہ پالیسیوں کے ذریعے ہی قائم رکھا جا سکتا تھا۔اسرائیل کے چند نرم خو ناقدین نے صہیونی منصوبے پر واضح اور دو ٹوک رائے دینے سے اس لیے گریز کیا کہ شاید مستقبل بعید میں کوئی نہ کوئی، کسی دن تل ابیب کی حکومت کو ’نسل پرستی‘ کے راستے پر چلنے سے روک سکے۔

برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن کا تعلق ایسے مکتبہ فکر سے ہے، جو حقائق کے بجائے عقیدے کو بنیاد مانتے ہیں۔ وزیر خارجہ کے طور پر انھوں نے ۲۰۱۷ء میں اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ ’تل ابیب کو نسل پرستی یا دو ریاستی حل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔‘ جانسن کے اس بیان کے بعد قابض ریاست کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کا موازنہ جنوبی افریقہ پر حکمرانی کرنے والی سفید فام اقلیت سے کیا جانے لگا۔پھر فلسطینیوں کے حق خود اختیاری سے متعلق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شاطرانہ بیان کا جواب دیتے ہوئے بورس جانسن کا کہنا تھا کہ آپ کو دو ریاستی حل پر عمل کرنا پڑے گا، یا پھر آپ کا  شمار نسل پرستانہ نظام کے پیروکاروں میں کیا جائے گا‘۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسرائیلیوں اور صہیونیت کے بانیوں کی بڑی تعداد تو فلسطینیوں کو انسان ہی نہیں سمجھتی، ایسے میں ان کے استصواب رائے کے حق کی بات چہ معنی دارد؟

سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں امریکی وزارت خارجہ کا قلمدان رکھنے والے جان کیری بھی اسرائیل کے مستقبل سے متعلق واضح نظریات رکھتے تھے۔ واشنگٹن میں ۲۰۱۴ء کے دوران ایک بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کے دوران جان کیری نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں، تو اسرائیل کے نسل پرست ریاست بننے کے خطرات دوچند ہو جائیں گے‘۔ فرانسیسی وزیر خارجہ جین یوزلی ڈریان بھی کم وبیش ایسے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ڈریان کے بقول: ’نسل پرستی کا خطرہ بہت زیادہ ہے، اور اس سنگین صورتِ حال کے جوں کا توں برقرار رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے‘۔

یہ دونوں رہنما بڑی آسانی سے یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ ’سٹیٹس کو‘ اسرائیل میں مستقل حقیقت ہے اور اسرائیلی نسل پرست جمہوریت سے متعلق ان کے خیالات ایسے مستقبل سے وابستہ ہیں، جس کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔

اقوام متحدہ کے سابق جنرل سکیرٹری بان کی مون کا اسرائیلی جمہوریت سے متعلق اعتبار بھی کچے دھاگے سے بندھا تھا۔ گذشتہ برس ایک بیان میں بان کی مون کا کہنا تھا، ’فلسطینی علاقوں میں غیر انسانی اور جارحانہ اسرائیلی اقدامات سے عبارت صہیونی ریاست کے انداز حکمرانی کا منطقی نتیجہ نسل پرستی کے سوا اور کچھ نہیں‘۔ بان کی مون کا تبصرہ اسرائیل کے نسل پرست ریاست ہونے سے متعلق اقوام متحدہ کے خیالات سے آگاہی کا نقیب ثابت ہوا۔ اگرچہ عالمی ادارے کے موجودہ جنرل سیکرٹری انتونیو گوتیریش نے اسرائیل کو نسل پرست قرار دیے جانے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی ۲۰۱۷ء میں جاری کردہ رپورٹ ختم کرانے کی بھر پور کوشش کی۔ یہ اقدام یہود مخالف الزامات کے بعد سامنے آنے والے شدید دباؤ کے بعد کیا گیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا جائزہ اور ان دنوں غزہ پر حملے کی تحقیقات کے لیے مستقل کمیشن تشکیل دے دیا۔

اب اسرائیلی رہنما اس بات پر متفکر ہیں کہ مبادا یو این کمیشن کی حتمی رپورٹ کی اشاعت میں صہیونی ریاست کو نسل پرست اقدامات کا قصور وار نہ ٹھیرا دیا جائے۔ صہیونی قیادت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اسرائیل کے جمہوری چہرے کو بھی ظاہری طور پر سجایا گیا ہے۔ پانچ برس قبل سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک ایک انٹرویو میں اسی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے موجودہ حالات ’اب تک نسل پرستانہ نہیں‘، تاہم صہیونی ریاست ’پھسلتی ڈھلوان‘ پر اسی سمت سفر کر رہی ہے۔اسی طرح سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ بھی خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اسرائیل کو جنوبی افریقہ طرز کی جدوجہد‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فلسطینی ریاست قائم نہ ہونے کی صورت میں تل ابیب یہ جنگ ہار بھی سکتا ہے‘۔

بزرگ اسرائیلی رہنما کے بقول ’جس دن دو ریاستی حل ناکامی سے دوچار ہوا، اور ہمیں جنوبی افریقہ کی طرز پر مساوی ووٹ کی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا تو اسرائیل کا خاتمہ نوشتۂ دیوار ہوگا‘۔

دوسرے اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ نسل پرستی مستقبل کا خطرہ نہیں بلکہ زمانہ حال کی زندۂ جاوید حقیقت ہے۔ سابق اسرائیلی وزیر تعلیم شولامیت علونی کہتے ہیں کہ’ اسرائیل مقامی فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد نسل پرستی کا ارتکاب کر رہا ہے‘۔ سابق اسرائیلی اٹارنی جنرل مائیکل بنیائر کی رائے میں ’اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں نسل پرستی قائم کر رکھی ہے۔‘

اسرائیل بڑی مدت سے امریکی یونی ورسٹیوں میں اسرائیل کی حمایت کے لیے ’ہاسبارہ‘ تنظیم کے ذریعے کوشاں ہے۔ اس ضمن میں اطلاعاتی پروپیگنڈے سے اپنا ’روشن چہرہ‘ مغرب کے سامنے پیش کرتا چلا آیا ہے، مگر سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ’ہسبارہ تکنیک‘ کو اپنی کتاب کے ذریعے نقصان پہنچایا ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ اس کا نقطۂ عروج بننے جا رہی ہے۔ ’فلسطین: نسل پرستی نہیں، امن‘ کے عنوان سے ۲۰۰۶ء میں سامنے آنے والی جمی کارٹر کی کتاب اسرائیل کی نسل پرستانہ روش کے بارے میں بحث کا نقطۂ آغاز بنی۔

کارٹر کے ناقدین نے روایت کے مطابق انھیں یہود مخالف خیالات کا پرچارک قرار دیا، تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مغربی دنیا کو جمہوریت کے لبادے میں لپٹا اسرائیل کا وہ مکروہ چہرہ دکھائی دینے لگا، جو دراصل نسل پرستی کی گرد سے اَٹا ہوا تھا۔

دو عشرے گزرنے کے بعد کئی امریکی ادارے، اسرائیل کے بارے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے یہ کہتے سنائی دیں گے کہ ’اسرائیل ناجائز قبضے کے بوجھ تلے دبی اپنی جمہوریت کو دنیا کے سامنے مہنگے داموں مزید نہیں بیچ سکتا‘۔

ایمنسٹی کی حالیہ رپورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ تل ابیب اس وقت تک نسل پرست ریاست ہی قرار پائے گا، جب تک وہ فلسطینیوں کو یہودیوں کے مساوی حقوق دینے پر تیار نہیں ہوتا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل موجودہ رپورٹ جاری کرنے کے بعد ان اداروں کی فہرست میں شامل ہو گئی جو اسرائیل کے متعصبانہ رویہ کی کھلے عام مذمت کرتے ہیں اور اقوام عالم کو یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ’’بہت ہوگیا، اسرائیل کی جواب دہی اب نہیں تو کب؟ ‘‘

۲۷۸ صفحات پر مشتمل یہ مدلّل رپورٹ امریکی سینیٹ ممبران کی تنقید کی زد میں آئی ہے ۔ امریکی قانون سازوں کی اسرائیل نوازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف فلسطینی نژاد امریکی بزرگ اسدعمر کی اسرائیلی فوج کے تشدد کے نتیجے میں موت واقع ہوجاتی ہے تو یہ سب خاموش ۔ دوسری جانب جب انسانی حقوق کے ادارے اسرائیل پر انگلی اٹھانے کی جسارت کرتے ہیں تو اُلٹا ان اداروں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ پر برہم مقتدر لوگوں میں سر فہرست نام امریکی امور خارجہ کی سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین رابرٹ مینی ڈیز کے بارے میں شنید ہے کہ اسرائیل گذشتہ ۱۶ برس سے  ان کی انتخابی مہم کے لیے ہزاروں ڈالر فنڈنگ کر رہا ہے ۔ جیسے ہی یہ رپورٹ سامنے آئی، تو رابرٹ مینی ڈیز نے فی الفور اس تنظیم کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا اور واضح طور پر اس رپورٹ کو غلط فہمی اور گمراہ کن حقائق پر مبنی قرار دیا۔

بلاشبہہ اسد عمر نامی بزرگ شہری کی موت کی ذمہ دار ان کی بےجا حراست تھی۔ اسرائیلی فوجیوں نے ان کو مغربی کنارے کے ایک قصبے سے شبہہ کی بنیاد پر گرفتار کیا، جب وہ اپنی کار پر جا رہے تھے۔ تشدد کی وجہ سے اسی روز ان کی موت واقع ہوگئی۔ روزنامہ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی فوجی سربراہ نے اس حادثے پر اظہار افسوس کیا مگر معافی مانگنے سے گریز کیا ۔

اس سارے معاملے کو دیکھا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ مذکورہ رپورٹ واقعی اسرائیل کے متعصبانہ رویے، غاصبانہ نظام حکومت اور انسانیت کے خلاف جرائم پر ایک مؤثر اور چشم کشا دستاویز ہے۔ تاہم، اس پر امریکی اربابِ اختیار کی خاموشی لمحۂ فکریہ ہے ۔

احرامِ ثنا (نعتیہ دیوان)، مقصود علی شاہ۔ناشر: نعت آشنا پبلی کیشنز، پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۹۱۸۷۵۷۵-۰۳۰۰۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔

زیرنظر کتاب، ایک نعتیہ دیوان ہے۔’ ’دیوان‘‘ عام نعتیہ مجموعوں سے اس لحاظ سے مختلف ہوتا ہے کہ اس میں شامل نگارشات کی ردیفوں کے آخری حروف کو حروفِ تہجی کے لحاظ سے مرتب کیا جاتا ہے۔ یعنی ’الف‘ سے ’ی‘ تک کےحروف پر ختم ہونے والی نعتوں کو ترتیب وارشاملِ مجموعہ کیا جاتاہے‘‘(پروفیسر ریاض مجید)۔ اس دیوان میں ’ڑ‘، ’ڑھ‘، ’ژ‘ جیسے حروف پر ختم ہونےوالی ردیفیں بھی شامل ہیں۔

 مقصود علی شاہ کی فنی مہارت، ان کی تخلیقی صلاحیت، اور جودتِ طبع کا ایک اور پہلو ان کی تراکیب سازی ہے، اور ان کی تراکیب میں بہت تنوع اور جدّت ہے، مثلاً دو لفظی تراکیب: نوید ِ مدام، اِحلالِ مجلّٰی، محیطِ تقویم، مہرِوہاج__ پھر سہ لفظی تراکیب: فیضِ نسبتِ عترت، اِمکان گَہِ صعود مدارِ بہجت ِ طالعی، تعلیقِ اوجِ میم__  پھر اسی طرح چار لفظی تراکیب: حصارِ مدحت خیرالوریٰ،  آلودۂ نگارش غیرثنا، بہرِ نوید موجۂ دیدار، جمالِ مقطعِ بعدِ ابد__  چار سے زائد لفظوں کی تراکیب بھی ہیں، جیسے: نعت الہام مجلّٰی بہ حرائے وطن، پیش دہلیز ِ شہِ اقلیمِ ملکِ کبریا__  بلاشبہہ یہ تراکیب شاعر کے فنی کمال کا ثبوت ہیں۔ صبیح رحمانی اور جلیل عالی نے مجموعے کی تحسین کی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


قومی ترانہ :فارسی یا اردو، عابد علی بیگ ۔ناشر:abidalibaig@gmail.com ملنے کا پتا: ادارہ نورحق، ۵۰۳ قائدین کالونی، کراچی۔فون:  ۳۴۹۴۰۶۰۶-۰۲۱۔ صفحات ۲۹۲۔قیمت :۹۰۰روپے /۱۰برطانوی پونڈ/۱۵ امریکی ڈالر

 عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اکثر کتابیں ،’کتاب برائے کتاب‘ کی تصویر پیش کرتی ہیں، اور بہت کم کتب ایسی ہوتی ہیں کہ جو واقعی کسی علمی ،سماجی، تاریخی یا تہذیبی ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔تاہم، اس فضا میں ’’قومی ترانہ :فارسی یا اردو‘‘ کی شکل میں ایسی کتاب سامنے آئی ہے، جو واقعی ایک کمی کو بخوبی پورا کرتی ہے۔

کتاب کے مصنف نے راست جذبے، قومی لگن اور تحقیقی ذوق کی مثال قائم کرتے ہوئے ایک مغالطے کی جڑ کاٹ کے رکھ دی ہے۔ جب سے برقی ذرائع ابلاغ اوربرق رفتار سماجی ابلاغیات کا طوفان اٹھا ہے تو جہالت بھی حد درجہ بے لگام ہو کر قدم قدم پر اور لمحہ بہ لمحہ مغالطہ انگیزی پھیلانے میں سرگرم ہے۔ گذشتہ بیس برسوں کے دوران میں ایک مخصوص ذہن پاکستان کے ’قومی ترانے ‘کو ہدف بنانے کے لیے طرح طرح کی شرانگیزی کرتا چلا آیا ہے۔ پہلے کہا گیا کہ ’’قائد اعظم نے  جگن ناتھ آزاد کو قومی ترانہ لکھنے کو کہا تھا‘‘۔ جب اس بے بنیاد دعوے کو ملیامیٹ کیا گیا تو دوسرا حملہ ہوا: ’’قومی ترانہ پاکستان کی کسی زبان میں نہیں ہے، یہ تو فارسی میں لکھا گیا ہے اور اس میں صرف ایک لفظ ’کا‘ اردو سے لیا گیا ہے۔‘‘دراصل یہ افسانہ طرازیاں پاکستان سے وابستہ قابلِ احترام علامتوں کو مشکوک قرار دینے یا استہزا کا نشانہ بنانے کی ایک مربوط مہم کا حصہ ہیں۔

جناب عابد علی بیگ نے کمال درجہ محنت سے قومی ترانے کے ایک ایک لفظ پر تحقیق وجستجو کرکے اور مدلّل نظائر کے ساتھ،ان دعوئوں کو دھول بنا کر ہوا میں اڑا دیا ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ الفاظ عربی، فارسی ،سنسکرت سے پیدائشی تعلق رکھنے کے باوجود فی الحقیقت آج اردو ہی کے الفاظ ہیں اور ہمارے روز مرہ کے الفاظ ہیں، جنھیں عمومی سطح پر سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مطالعے کے نتیجے میں نہ صرف قومی ترانے سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ قاری علم وادب کے ان جواہرات تک رسائی پاتا ہے، جن تک پہنچنا عام طور پر ممکن نہیں ہوتا ۔ قومی ترانے کے خالق جناب حفیظ جالندھری کا یہ قول واقعی بہت اہم ہے کہ ’’اس سے مشکل کام میں نے زندگی بھر نہیں کیا ‘‘۔کتاب بڑی محبت اور حسنِ پیش کش کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ (س م خ )


قائد اعظمؒ محمد علی جناح،ابو جنید عنایت علی۔ ناشر:مکتبہ فروغ فکر اقبال ،۹۷۰ نظام بلاک، اقبال ٹائون لاہور ۔رابطہ: ۷۶۵۵۵۰۹-۰۳۳۲۔ صفحات :۲۷۹۔قیمت :۶۵۰ روپے۔

قائد اعظمؒ کی زندگی پر یہ ایک عمومی نوعیّت کی عمدہ کتاب ہے، بقولِ مصنف : ’’اس میں حیاتِ قائد کے ایسے پہلوئوں (اسلام، پیغمبرؐ اسلام سے محبت، دیانت ،اصول پسندی، عالی ظرفی، وقت کی پابندی، خواتین کا احترام ،نوجوانوں سے محبت ،علما اور ہم عصر مشاہیر سے تعلقات وغیرہ) کو اُجاگر کیا گیا ہے‘‘۔

کتاب ۴۸ اُردو اور انگریزی کتابوں کی مدد سے تیار کی گئی ہے، جو قائداعظم اور ان کے متعلقات موضوع وار اقتباسات مع حوالہ باب کے آخر میں موجود ہے۔ بعض ابواب تو پورے کے پورے ایک ہی کتاب سے اخذ کیے گئے ہیں۔ کتاب کو جامع بنانے کے لیے مؤلّف نے موضوع کے متعلقات (قومی پرچم ،قومی ترانہ ،جناح کیپ ،کرنسی، اثاثہ جات کی تقسیم، بائونڈری کمیشن اور تقسیم ہند میں دھاندلی وغیرہ)کا مختصر سا تعارف بھی دیا ہے۔

کتاب سے تحریک پاکستان ،مطالعۂ پاکستان ،قیام پاکستان اور قائد اعظم کے ذہن میں تصویر پاکستان واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔  (رفیع الدین ہاشمی

’مشرک‘ کہنے میں احتیاط!

یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ عقیدے،اور خصوصاً عقیدۂ توحید کا معاملہ بڑا ہی نازک ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر کفروایمان اور فلاح و خسران کا مدار ہے۔ اس معاملے میں یہ طرزِعمل صحیح نہیں ہے کہ مختلف احتمالات رکھنے والی آیات اور احادیث میں سے ایک مطلب نچوڑ کر کوئی عقیدہ بنالیا جائے اور اسے داخل ایمانیات کردیا جائے۔ عقیدہ تو صاف اور صریح محکمات سے ماخوذ ہونا چاہیے، جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایک بات ماننے کی دعوت دی ہو، اور یہ ثابت ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی تبلیغ فرماتے تھے، اور صحابہ کرام ؓ و تابعینؒ و تبع تابعین ؒاور ائمہ مجتہدینؒ اُس پر اعتقاد رکھتے تھے۔کیا کوئی شخص بتا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب والشہادۃ ہونے یا جمیع ماکان وما یکون کے عالم ہونے کا عقیدہ یہ نوعیت رکھتا ہے؟

یہ عقیدہ اگر واقعی اسلامی عقائد میں شامل ہوتاتو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اس کی تصریح فرماتا کہ میرے رسول ؐ کو حاضرو ناظر تسلیم کرو۔ حضورؐ خود یہ دعویٰ فرماتے اور اسے ماننے کی دعوت دیتے کہ میں ہرجگہ موجود ہوں، اور قیامت تک حاضرو ناظر رہوں گا۔ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ میں یہ عقیدہ عام طور پر شائع ہوتا اور عقائد اسلام کی کتابوں میں اسے ثبت کیا جاتا۔

میں ان مسائل میں [ایسے] خیالات کو تاویل کی غلطی سمجھتا ہوں، اور اسے غلط کہنے میں تامل نہیں کرتا۔مگر مجھے اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ انھیں ’مشرک‘ کہا جائے اور مشرکینِ عرب سے تشبیہہ دی جائے۔ میں ان کے بارے میں یہ گمان نہیں رکھتا کہ وہ شرک کو شرک جانتے ہوئے اس کے قائل ہوسکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ توحید ہی کو اصل دین مانتے ہیں اور اسی پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس لیے انھیں ’مشرک‘ کہنا زیادتی ہے۔البتہ انھوں نے بعض آیات اور احادیث کی تاویل کرنے میں سخت غلطی کی ہے اور میں یہی اُمیدرکھتا ہوں کہ اگر ضد دلانے والی باتیں نہ کی جائیں بلکہ معقول طریقے سے دلیل کے ساتھ سمجھایا جائےتو وہ جان بوجھ کر کسی گمراہی پر اصرار نہ کریں گے۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۶۲ء، ج۵۷، عدد۶، ص ۵۸-۶۰)