وطنِ عزیز کے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی حالات پر نظر ڈالیں تو سخت تشویش ناک منظر سامنے آتا ہے۔
۲۳ کروڑ آبادی کا ملک بے یقینی اور بداعتمادی کا شکار ہے۔ لاکھوں انسانوں کی کتنی عظیم قربانیوں کے بعد یہ وطن حاصل ہوا؟ یوں لگتا ہے کہ اس سوال کو پاکستان کی دوسری اور تیسری نسل کے ذہنوں سے کھرچ کر مٹا دیا گیا ہے۔ عوام بظاہر بے بس ہیں لیکن وہ اتنے بے گناہ بھی نہیں۔ آخری ذمہ داری بہرحال عوام کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بگاڑ کو فروغ دینے میں ہرکسی نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اخبار، ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا اور سماجی محفلوں میں بیٹھیں تو تعمیر کی بات خال خال ہوتی ہے، اور تخریب، جنگ و جدل اور انتقام در انتقام کا تذکرہ ہرچیز پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اور ایوانِ حکومت و سیاست کسی مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا ہے۔ اہلِ اختیار نے قوم کو ایک ایسی اندھی سرنگ میں دھکیل دیا ہے، جس کے دوسرے سرے پر روشنی کی کوئی کرن بمشکل نظر آتی ہے۔
ہم نہایت اختصار کے ساتھ، قارئین کے سامنے چند معروضات پیش کر رہے ہیں:
پھر انھی سیاست دانوں نے آنے والے اَدوار میں، اقتدار اور سیاست کو اعلیٰ قومی و تہذیبی مقاصد و اہداف کے حصول کا ذریعہ بنانے کے بجائے، محض حصولِ اقتدار، جلب ِ زر اور اپنے سماجی رُتبے کی بلندی کا ذریعہ بنایا۔ قومی و عالمی حالات سے واقفیت، علم و دانش میں وسعت اور مسائل و معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت کو نچلی سطح سے بھی کم تر درجے کا مقام دیا گیا۔ اس طرح کی ناخواندہ اور اَن پڑھ سیاسی قیادت نے اپنے مقام و مرتبہ کو کچھ ملازمین کے ہاتھوں رہن رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی قیادتوں کا اپنی پارٹیوں میں آمریت مسلط کرنا، میرٹ کے بجائے اقرباپروری اور خوشامد کو اوّلیت دینا، مشاورت کی روح کچلنا اور اپنے مفادات کے لیے دن رات وفاداریاں تبدیل کرتے رہنا___ ان علّتوں نے اعتماد اور تعاون کے سرچشموں کو گدلا کر کے رکھ دیا۔
اہلِ دانش، درحقیقت کسی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ اور اس کے مستقبل اور وقار کا تاج ہوتے ہیں۔ بلاشبہہ قدرتِ حق نے ہمیں دانش سے آراستہ افراد عطا کیے۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ پاکستان کے سادہ لوح شہریوں کو، جن میں تمام علاقوں کے لوگ شامل ہیں، انھی مؤثر دانش وروں نے لڑانے، نفرت کو بڑھاوا دینے اور تعمیر و ترقی کا راستہ روکنے میں وہ رویہ اختیار کیا، جس پر سوائے افسوس کے کیا کہا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فساد کی صورتِ حال میں وہ کوئی مؤثر قومی خدمت انجام نہ دے پائے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان چھے طبقوں کے نامناسب رویوں نے وہ صورتِ حال پیدا کردی ہے، جس سے ہم دن رات گزر رہے ہیں۔ اہلِ سیاست اور صاحب ِ اختیار گروہوں اور طبقوں کی نظر میں اگر کوئی سب سے زیادہ بے وزن چیز ہے تو وہ دستورِاسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستانی عوام ہیں۔ انھیں اس چیز سے کچھ غرض نہیں کہ ان کی جنگ ِ اقتدار کے نتیجے میں ملک کا کتنا نقصان ہوتا ہے؟ انھیں کچھ فکر نہیں کہ ان کی ضد اور محض ہوس اقتدارکے نتیجے میں قوم کے مستقبل کی راہ میں کون کون سے ہمالہ کھڑے ہورہے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ تو بس یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۳کروڑ عوام محض اُن کی غلامی کے لیے ان کو ورثے میں ملے ہوئے ہیں۔ انجامِ کار بدانتظامی، معاشی بے تدبیری ، قانونی شکنی اور نفرت آمیزی نے فساد کی آگ کو بھڑکا رکھا ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں پاکستان امن و سکون اور تعمیروترقی کا گہوارہ بن سکے۔ ذرا سوچیے تو!
قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۸۵) [رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے]۔
یہی ارشادِ خداوندی ہے جس کی تعمیل میں آپ نے ماہِ رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھا اور اس اطاعت ِ الٰہی کی توفیق پانے کی خوشی میں آج بحیثیت ِ قوم خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدئہ شکر بجا لانے کے لیے یہاں جمع ہوئے۔
بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو یہ کہ وہ طاعت ِ حق، یعنی عبدیت کے فرائض کی بجاآوری میں پورا نکلے۔ اور قومیں بھی خوشی کے تہوار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے، جو خدائے پاک کی فرماں برداری میں پورا اُترنے کی عید مناتی ہو۔
مؤرخین کے بیان کے مطابق ۲ ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ صدقۂ عیدالفطر کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سال جاری فرمایا۔ حضوؐر نے پہلے ایک خطبہ دیا جس میں اس صدقہ کے فضائل بیان فرمائے پھر صدقہ کا حکم دیا۔ عیدالفطر کی نمازباجماعت عیدگاہ میں اسی سال ادا فرمائی۔ ۲ ہجری سے پہلے عید کی نماز نہیں ہوتی تھی۔
اسلام کے ارکان، یعنی توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج جب نبی اُمّی ؐ کی زبان سے خالقِ اکبر نے بندوں کی اصلاح و فلاح کے لیے ہدایت فرمائے تو مقصود یہ تھا کہ ان کی پابندی سے مسلم بحیثیت فرد وہ انسان بن سکے جسے وحیٔ خداوندی احسن التقویم کے نام سے تعبیر کرتی ہے اور ملّت ِاسلامیہ وہ ملّت بن جائے جو قرآنِ پاک کے الفاظ کے مطابق دُنیا کی بہترین اُمت ہو اور اپنے تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کے اصول کو ہمیشہ سامنے رکھنے والی ہو۔ اسلام کا ہررکن انسانی زندگی کے صحیح نشوونما کے لیے اپنے اندر ہزارہا ظاہری اور باطنی مصلحتیں رکھتا ہے۔ مجھے اس وقت صرف اسی رکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو ایک باتیں کہنا ہیں جسے ’صوم‘ کہتے ہیں اور جس کی پابندی کے شکرانہ میں آج آپ عید منارہے ہیں۔
وہ فائدے جو ایک ’فرد‘ کو روزہ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں، اس صورت میں بھی ہوسکتے تھے کہ روزے بجائے مسلسل ایک مہینہ رکھنے کے کبھی کبھی رکھ لیے جاتے یا بجائے رمضان میں رکھنے کے سال کے اور مہینوں میں رکھ لیے جاتے۔ اگر محض فرد کی اصلاح اور اس کی روحانی نشوونما پیش نظر ہوتی تو بے شک یہ ٹھیک تھا لیکن ’فرد‘ کے علاوہ تمام ملّت کے اقتصادی اور معاشرتی تزکیہ کی غرض بھی شارع برحق کے سامنے تھی۔
اصل بات قوم کی اقتصادی اور تمدنی زندگی کی مجموعی اصلاح کے متعلق تھی۔ قرآن میں جہاں مسائل ’صیام‘ کے ذکر کے بعد یہ فرمایا کہ تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۱۸۷ (البقرہ ۲:۱۸۷) [یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے]۔ وہاں ساتھ ہی ملحق بطور ان تمام باتوں کے نتیجے کے یہ حکم بھی دیا: وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۸۸ۧ (البقرہ ۲:۱۸۸) [اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے اُن کو اِس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے]۔
آج کے دن سے تمھارا عہد ہونا چاہیے کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآنِ حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے اس کو تم ہمیشہ مدنظر رکھو گے۔
کس انتباہ کے ساتھ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پکار کر کہا تھا کہ اِیَّـاکُمْ وَالْدِّیْنَ فَاِنَّہٗ ھَمٌّ بِاللَّیْلِ وَمذَلَّۃٌ بِالنَّھَارِ[البیہقی فی شعب الایمان، فصل التشدید فی الدین، حدیث:۵۲۹۴] دیکھو قرض سے بچنا، قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔
اس خطبے میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے صرف اقتصادی پہلو ہی پر نظر ڈالی گئی ہے۔ شاید عیدالاضحی کے موقعے پر اسی قسم کے ایک خطبے میں اسلامی زندگی کے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ فی الحال میں حضور سرورِ کائناتؐ کی ایک حدیث پر اس خطبے کو ختم کرتا ہوں جو ایک نہایت لطیف پیرایہ میں رُشد و ہدایت کی تمام شاہراہوں کو انسان پر کھول دیتی ہے:
أَمَرَنِیْ رَبِّیْ بِتِسْعٍ الْاِخْلَاصِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃُ ، وَالْعَدْلِ فِی الْغَضَّبِ وَالرِّضَا وَالْقَصْدِ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی ، وَ أَنْ اُعْفُوَ عَنْ مَنْ ظَلَمَتَی ، ووأَصِلُ منْ قَطَعَنِی ، وَأُعْطِیَ مَنْ حَرَمَنِیْ ، وَأَنْ یَکُوْنَ نُطْقِیِ ذِکْرًا وَصَمَتِی فِکْرًا وَنَظَرِیْ عِبْرَۃِ [الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، جلد۷، ص۳۴۶، دارعالم الکتب،الریاض، ۲۰۰۳ء] مجھے میرے ربّ نے نو باتوں کا حکم دیا ہے: ظاہر و باطن میں اخلاص پر کاربند رہنا، غضب و رضا دونوں حالتوں میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانےدینا، فقروتونگری میں میانہ روی، جو شخص مجھ پر زیادتی کرے، اس کو معاف کردوں، جو مجھ سےقطع رحمی کرے، میں اس سے صلۂ رحمی کروں، جو مجھے محروم کرے، میں اس کو اپنے پاس سے دوں، میرا بولنا ذکرالٰہی کے لیے ہو۔ میری خاموشی غوروفکر کے لیے، اور میرا دیکھنا عبرت حاصل کرنے کے لیے ہو۔(ماہ نامہ رسالہ صوفی، مارچ ۱۹۳۲ء، مقالاتِ اقبال، مرتبہ: سیّد عبدالواحد معینی، محمد عبداللہ قرشی، آئینہ ادب، ۱۹۸۸ء،ص ۲۸۲-۲۸۸)
{علّامہ محمد اقبال ؒنے یہ خطبہ عیدالفطر۱۳۵۰ھ/۱۹۳۲ء کو دیا، جسے ’انجمن اسلامیہ پنجاب‘ لاہور نے شائع کیا۔}
دُعائوں کی صورت میں، عربی زبان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤثر نثری نمونے ہیں، جو سچے انسانی تاثرات، پاکیزہ و بلندپایہ قلبی احساسات اور بلیغ ترین اسلوب و طرز ادا پر مشتمل ہیں۔ آپؐ کی حیاتِ مبارک سراپا تقویٰ تھی اور سچے انسانی احساسات سے آراستہ تھی۔ آپؐ عربوں کے فصیح ترین قبیلے قریش میں پیدا ہوئے اور فصیح ترین ہی قبیلے بنوسعد میں آپؐ کی پرورش ہوئی۔ پھر آپؐ نے وحی الٰہی کے سایہ اور الہامِ سماوی کی آغوش میں تربیت پائی۔ پھر خوان قرآنی سے کسبِ فیض فرمایا۔ بھلا آپؐ سے زیادہ پاکیزہ گفتار، شیریں کلام، راست گو اور بلیغ و مؤثر تعبیرات والا کون ہوسکتا تھا؟ صلی اللہ علیہ وسلم__ اللہ کی طرف سے آپؐ پر بے شمار درود و سلام ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ادب پارے سب کے سب نثری ہیں، کیونکہ خود آپؐ نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا۔ اس کی شہادت خود کتابِ الٰہی د ے رہی ہے:
وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہٗ۰ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ۶۹ۙ (یٰس ۳۶:۶۹) ہم نے اس [نبیؐ] کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے۔ یہ تو ایک نصیحت ہے، اور صاف پڑھی جانے والی کتاب ۔
کلامِ نبویؐ بیک وقت سادہ بھی ہے اور پرکار بھی۔ اس میں بے تکلفی بھی ہے اور شیرینی بھی۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں گویا معانی کی ایک دُنیا آباد ہے۔ محل اگر اختصار کا متقاضی ہے تو کلام مختصر ہے اور اگر ضرورت دراز نفسی کی طالب ہے تو کلام طویل ہے۔ آپؐ کی گفتگو تکلف و تصنع سے پاک اور رواں دواں ہوتی تھی۔ آپؐ نامانوس اور اجنبی کلمات سے دُور اور سوقیانہ، عامی الفاظ سے نفور تھے۔ آپؐ کا کلام، ادب کی مختلف عمدہ اصناف پرمشتمل ہے، مثلاً: تمثیلاتِ فائقہ، اقوالِ حکیمانہ و عالیہ، امثالِ نفیسہ، وصایائے مفیدہ، رُشد و ہدایت، شریعت و تربیت اور مناجات و دُعا وغیرہ۔
پھر ان تمام اصناف میں سب سے زیادہ پُرتاثیر، اپنے ربّ کے حضور آپؐ کی دُعائیں ہیں۔ یہ دُعائیں اس قدر طاقت ور، جامع اور پُراثر ہیں کہ ان سے عربی ادب میں نہ صرف یہ کہ ایک نئی صنف کا آغاز ہوا بلکہ اس نے ادب کی طاقت ور ترین صنف کا درجہ حاصل کرلیا۔ اسلوب کے لحاظ سے یہ دُعائیں متین ہیں اور معنویت سے لبریز بھی۔نیز دُعا کرنے والے کے اندرونی احساسات، اس کے اُبلتے ہوئے جذبات اور اپنے ربّ کے حضور اس کی لجاجت و انکسار کی بلیغانہ تصویرکشی کرتی ہیں۔
اس کی ایک مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دُعا ہے، جو آپؐ نے طائف میں فرمائی تھی۔ جہاں آپؐ ایک اجنبی اور غریب الوطن کی حیثیت رکھتے تھے اور کسی حامی و مددگار کی تلاش میں تشریف لے گئے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب آپؐ کے چچا ابوطالب وفات پاچکے تھے، جو قوم کی ایذائوں سے آپؐ کو بچاتے تھے اور آپؐ کی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہؓ بھی وفات پاچکی تھیں، جو آپؐ کی معاون و غمگسار تھیں۔ لیکن طائف جو مکہ جیسا ہی شہر تھا، وہاں کے باشندوں کے درمیان آپؐ کو اہلِ مکہ سے بھی زیادہ سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں کے سرداروں نے آپؐ کو سختی کے ساتھ جھڑک دیا اور وہاں کے شرارت پسند آپؐ کے پیچھے لگ گئے۔ پھر انھوں نے آپؐ پر اس قدر پتھر برسائے کہ آپؐ کے دونوں پائے مبارک لہولہان ہوگئے۔ اس وقت آپؐ کا دل شدتِ الم سے چُور چُور تھا۔ ظالموں نے مکہ سے طائف تک کے طویل سفر کے بعد آپؐ کو دم لینے کی مہلت بھی نہ دی تھی۔ اس لیے آپؐ طائف کی آبادی سے باہر نکل کر ایک کھلی جگہ میں بیٹھ گئے، جہاں شاید بجز آپؐ کے خادم و غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ کے نہ کوئی مونس تھا، نہ غم گسار۔ آپؐ نے اس حال میں یہ دُعا فرمائی، جو آپؐ کی زخموں سے چُور لیکن حلیم شخصیت کی راست ادبی تصویر ہے:
اس دُعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار غالب و قادر و مہربان کے سامنے اپنی ناتوانی کا بیان فرما رہے ہیں، جو اس وقت عملاً سامنے آئی اور وہ یہ کہ رُؤسائے ثقیف کے سامنے آپؐ کی ایسی بےوقعتی ہوئی جو آپؐ جیسے قریشی کے لیے بالکل نئی چیز تھی۔ کیونکہ قبیلۂ ثقیف کے قریش کےساتھ قریبی برادرانہ روابط تھے۔ پھراپنے پروردگار سے مہربانیوں کی طلب کرتے ہوئے اور اس کی جناب میں الحاح و زاری کرتے ہوئےعرض کرتے ہیں: رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ ، (اے کمزور سمجھ لیے جانے والوں کے پالنہار)، پھر اللہ سے رحمت کی خواستگاری کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں: اِلٰی مَنْ تَکِلُنِی؟ إِلٰی عَدُوٍّ یَتَجَھَّمُنِی أَمْ إِلٰی قَرِیبٍ مَلَّکْتَہُ أَمْرِی؟ (آپ مجھے کس کے حوالے کررہے ہیں؟ کیا اس دُور دراز شخص کے جو مجھ سے برہمی کے ساتھ پیش آئے؟ یا آپ نے میری زمامِ کار کسی دشمن کو سونپ دی ہے؟)۔ پھر آپؐ کو تنبیہ ہوتی ہے اور آپؐ تاسف و اضطراب کی کیفیت پر قابو پالیتے ہیں۔ یہ حقیقت پیش نظر آجاتی ہے کہ آپؐ کا ربّ ان سب باتوں کو جانتا ہے۔ آپؐ کا کوئی معاملہ اس سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور نہ وہ آپؐ سے غافل ہے۔ اسی نے تو آپؐ کو منتخب فرمایا اور منصب ِ رسالتؐ پرفائز کیا ہے، نیز تبلیغ رسالت کی ذمہ داری عائد کی ہے، تو کیا وہ آپؐ کو یوں ہی بے یارومددگار چھوڑ دے گا؟ لیکن آخر یہ سب کچھ ہوا کیوں کر؟ کیا آپؐ کا پروردگار آپؐ سے ناراض ہے؟ اس لیے عرض کرتے ہیں:
اِنْ لَمْ تَکُنْ غَضْبَانَ عَلَیَّ فَلَا أُبَالِیْ غَیْرَ أَنَّ عَافِیَتَکَ أَوْسَعُ لِیْ ، اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں تو یہ جو کچھ ہوا مجھے اس کی پروا نہیں ہے، مگر پھر بھی آپ کا سایۂ عافیت میرے لیے زیادہ گنجایش رکھتا ہے۔
پھر آپؐ اللہ تعالیٰ سے پناہ کی درخواست ، اس کی عظمت و رحمت کا تذکرہ اور ہمیشہ کی رضا کا سوال کرتے ہیں، کیونکہ اس کی مدد کے بغیر نہ طاقت کا وجود ہے اور نہ قوت کا۔
دُعا و مناجات کلامِ انسانی کی جولاں گاہ ہے، جہاں صاحب ِ دُعا کے باطنی احساسات صاف نظر آتے ہیں۔ جہاں اس کے بے چین و غم زدہ دل کی تصویرسامنے آجاتی ہے، اور جہاں جذبات مجسم ہوجاتے ہیں اور الفاظ کا ایسا جامہ پہن لیتے ہیں کہ ان میں اثرانگیزی کی صفت پیدا ہوجاتی ہے،اور وہ سننے والے کے دل میں اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔ پھر اگر صاحب ِ دُعا کا یہ رُتبہ ہو کہ زبان و بیان پر اس کی اعلیٰ درجے میں گرفت ہو اوراس کا کلامِ بلاغت کا درجہ رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں قاری و سامع، صاحب ِ دُعا کے الفاظ میں اس کی روح کو چھو کر محسوس کرسکتا۔
چنانچہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعائوں کی یہی شان ہے۔ ان میں آپؐ کی معجزانہ بلاغت پوری طرح جلوہ گر ہے اور یہ ایسی خصوصیات و امتیازات سے مزین ہیں، جن کا سرچشمہ قرآنِ پاک کی مؤثر تعلیمات ہیں، کیونکہ اگلے انبیا و رُسل علیہم السلام کی دُعائوں کے مؤثر قرآنی نمونے آپؐ پر نازل ہوئے اور آپؐ نے انھی کی آغوشِ رحمت میںتربیت پائی۔ یہ دیکھنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ آپؐ نے اپنے باطنی احساسات کی تصویرکشی اور ترجمانی کس طرح فرمائی ہے؟ اس کی ایک مثال تو وہ دُعا تھی جس کا ذکر طائف کے سلسلے میں گزر چکا۔
دوسری مثال دُعائے بدر ہے۔ اس دن بھی آپؐ پر بے چینی اور اضطراب کی اثرانگیز کیفیت طاری تھی۔ اس دن مسلمان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں پہلی بار دشمنانِ کفّار کے مقابل صف آرا ہوئے تھے۔ یہ اسلام کے حق میں ایک فیصلہ کن دن تھا۔ وہ اسلام جس کی تبلیغ اور استحکام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام صلاحیتیں اور قوتیں لگا دی تھیں۔ اس کے بچائو کی تدبیریں کی تھیں اور اس کی راہ میں آپؐ نے اور آپؐ کے نیکوکار صحابہ نے ہر طرح کی اذیتیں جھیلی تھیں۔ یقینا یہ ایک عظیم الشان فیصلہ کن دن تھا۔ اس دن کفّارِ مکّہ چاہتے تھے کہ اپنی تمام تر طاقت، قوت اور شان و شوکت کا مظاہرہ کریں اور اسلام کے خلاف جو کچھ کرسکتے ہیں ، کرگزریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حریف کے مقابل اپنے لشکر کو صف آرا کیا، اور مقدور بھر تیاری اور سازوسامان کی فراہمی کی، اور پھر تنہائی میں ایک چھپر تلے اپنے ربّ کے حضور مصروفِ دُعا و مناجات ہوگئے۔ وہاں بجز حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اور کوئی نہ تھا۔ رسول ؐ اللہ کی یہ کیفیت تھی کہ آپؐ اپنے ربّ سے اس مدد کی طلب فرما رہے تھے، جس کا اللہ کی طرف سے وعدہ تھا۔ دُعا کے درمیان خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری تھے:
پھر آپؐ کی مناجات اور الحاح و زاری اس قدر بڑھ گئی کہ آپؐ کے رفیق حضرت ابوبکرصدیقؓ بے چین ہوکر کہہ اُٹھے:’’اے اللہ کے نبیؐ! اب بس کیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپؐ سے کیے ہوئے وعدے کو ضرور پورا فرمائے گا‘‘۔
دُعائے بدر کے سلسلے میں راویوں سے یہی چھوٹا سا جملہ منقول ہے، جسے آپؐ کے الحاح و اضطراب کی ایک علامت اور سُلگتے ہوئے احساسات کی ترجمانی کہہ سکتے ہیں ۔ اگر دُعا کی پوری عبارت منقول ہوتی،جس کا یہ جملہ ایک جزو ہے، تو وہ شدتِ تاثیر اور خوبی ٔ ادا کی ایک اور شان دار مثال سامنے آتی۔ اس کا کسی قدر اندازہ ہم آپؐ کی ایک دوسری دُعا، ’دُعائے عرفات‘ سے لگا سکتے ہیں۔ یہ دُعا بھی آپؐ کے احساساتِ قلب کی تصویر اور ربّ العالمین کے حضور عبودیت ِ خالصہ کی تعبیر ہے۔ اس دُعا کے الفاظ میں ایک خاص طرح کی متانت اوراسلوب میں نرمی و لطافت ہے۔ عرض کرتے ہیں:
اس کلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جلیل و کریم ربّ کے حضور اپنی ناتوانی کا اعتراف فرما رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اپنے ربّ کے حضور، بندے کی حالت و کیفیت دوسرے تمام احوال و کیفیات سے غایت درجہ مختلف ہوتی ہے۔ اسے نہ کسی بادشاہ اور اس کی کسی رعایا کی وضع و کیفیت کے مشابہ کہہ سکتے ہیں، اور نہ کسی آقا اور اس کے کسی غلام کی صورتِ حال کے مماثل قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں تو یہ کیفیت ہے کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں اس کا ایک بندہ حاضر ہے، جسے اپنے ربّ کی کامل و ہمہ جہت ربوبیت پر پورا ایمان اور اس قدرتِ کاملہ پر کُلی اعتماد ہے۔ آپؐ نے اس دُعا میں ربِّ عظیم کے سامنے اپنی حالت ِ زار پیش کی ہے اور چنانچہ عرض کرتے ہیں:
أَنَـا الْبَائِسُ الْفَقِیْرُ، اَلْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ [المعجم الکبیر للطبرانی، مکتبۃ ابن تیمیۃ، ج۲، ۱۹۹۴ء، ج۱۱، ص ۱۷۴] میں ہوں بے چارہ، مصیبت زدہ، محتاج ، فریادی، پناہ جُو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ذریعے ، اس اشارئہ ربانی کی موافقت فرمائی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَالضُّحٰى۱ۙ وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى۲ۙ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى۳ۭ وَلَلْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى۴ۭ وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى۵ۭ اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى۶۠ وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَہَدٰى۷۠ وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى۸ۭ (الضحٰی۹۳: ۱-۸) قسم ہے روزِ روشن کی اور رات کی، جب کہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے، (اے نبیؐ) تمھارے ربّ نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔ اور یقینا تمھارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے، اور عنقریب تمھارا ربّ تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجائو گے۔ کیا اُس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ اور تمھیں ناواقف ِ راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ اور تمھیں نادار پایا اور پھر مال دار کر دیا۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے وقت ِ چاشت اور وقت ِ صبح کو اس بات کا گواہ بنایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کا معاملہ خصوصی توجہ اور رحمت ِ خاص کا ہے، اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کے لیے حالت ِ احتیاج و ناتوانی میں وسائل زندگی فراہم کیے۔ کیونکہ وراثت میں آپؐ کو نہ مال ملا، نہ دولت۔ پھر آپؐ کا کوئی کفیل بھی نہ تھاکیونکہ آپؐ کی پیدائش سے پہلے ہی والدماجد وفات پاچکے تھے اور ابھی عہدِ طفولیت ہی تھا کہ والدہ محترمہ بھی چل بسیں، پھر کم سنی ہی میں مکرم و معظم دادا کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس طرح جب آپؐ نے رواں دواں زندگی کے حدود میں قدم رکھا تو آپؐ بےسروسامانی میں تھے لیکن ربّ رؤوف نے آپؐ کی دست گیری فرمائی اور آپؐ کے لیے اسبابِ غنٰی فراہم کر دیئے۔ تلاوتِ قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا ہی، اس لیے آپؐ اپنی دُعا میں ان تمام اُمور کو ملحوظ رکھ کر عرض کرتے ہیں:
پھرجب آپؐ کی نگاہ تبلیغِ رسالت کی اس عظیم ذمہ داری کی جانب ملتفت ہوئی، جو آپؐ کے کندھوں پر ڈال دی گئی تھی، اور جس کے بوجھ تلے پشت ِ مبارک گویا ٹوٹی جارہی تھی۔ جب آپؐ نے راہِ تبلیغ میں اپنی کوششوں کا جائزہ لیا اور انھیں درجۂ مطلوب سے کم سمجھا تو آپؐ پر خشیت طاری ہوگئی اور اعترافِ خطا کا اعلان فرماتے ہوئے مصروفِ دُعا ہوگئے:
اَلْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفْ بِذَنْبِہٖ [میں ہی ہوں اپنی خطائوں کا معترف اور مقر]۔
پھر آپؐ نے احساسِ ناتوانی کی اس فضا میں کامل درجہ الحاح و زاری کے ساتھ عرض فرمایا:
أَسْئَلُکَ مَسْألَۃَ الْمِسْکِینِ، وأَبْتَھِلُ اِلَیْکَ اِبْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیلِ، وأدْعُوْکَ دُعاءَ الْخَائفِ الضَّرِیْرِ، مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقَبَتُہ، وَفَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہ، وذَلَّ لَکَ جِسْمُہ، وَرَغِمَ لَکَ أَنْفُہ [معجم الشیوخ لابن جمیع الصیداوی، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، طبع:۱، ۱۹۸۵ء، ص:۲۱۳]میں ایک بڑے بے کس کی طرح آپ سے سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی طرح گڑگڑاتا اور آہ و زاری کرتا ہوں جو خطاکار بھی ہو اور بے عزّت بھی ہو، اور خوف زدہ و آفت رسیدہ شخص کی طرح آپ کو پکارتا ہوں، جس کی گردن آپ کے آگے جھکی ہوئی ہو اور جس کا بدن احساسِ ذلّت سے دبا جارہا ہو اور جو کہ احساسِ ندامت سے ناک رگڑ رہا ہو۔
اس حالت سے بڑھ کر فروتنی اور لجاجت کی اور کون سی حالت ہوگی، جس میں ناتوانی ، بے کسی اور تحیر کی تمام کیفیات جمع ہوگئی ہیں۔ اور جس کی ترجمانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربِ قادر و جلیل کی ربوبیت کے سامنے عبدیت ِ کاملہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمائی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ذریعے اپنے ربّ کو پکارا ہے۔ اس سے سرفرازی، رحمت، حفاظت اور مہربانی کی درخواست کی ہے۔
اب یہ دعا مکمل اور مسلسل صورت میں پیش کی جاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کی عبارت میں ایک خاص طرح کی ہم آہنگی اور مسحورکُن حُسن ہے۔ پھر ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی جانب منتقل ہونے کا عمل بھی فطری محسوس ہوتا ہے۔ آپؐ عرض کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کو ’مغز عبادت‘ بتلایا ہے۔ فی الواقع یہ دُعا کی بہت عمدہ تعریف ہے۔ اس لیے کہ دُعا ایک ایسا عمل ہے، جس کےتمام گوشے اور زاویے روحِ عبودیت سے معمور ہوتے ہیں۔ اسی طرح دُعا، صاحب ِ دُعا کے ذہن و دماغ کو اپنے خالق و پروردگار سے حددرجہ قریب کر دیتی ہے۔ چنانچہ، دُعا خواں جب اخلاص و طمانیت کے ساتھ اپنے ربّ سے محوِ مناجات ہوتا ہے، تو ایسا لگتا ہے گویا وہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکا ہوا ہے اور بار بار اسے دیکھے جارہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کی تعبیر کلمۂ ’احسان‘ سے فرمائی ہے۔
چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں: ’احسان‘ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو۔ یہ کیفیت حاصل نہ ہوسکے تو یہ تو حقیقت ہی ہے کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی یہی کیفیت تھی۔ رہ گئیں آپؐ کی دُعائیں اور مناجاتیں، تو وہاں یہ کیفیت قوی ترین شکل میں ظاہر ہوتی تھی۔ چنانچہ آپؐ جب مصروفِ دُعا ہوتے تھے تو ایسا لگتا تھا گویا اس جانی پہچانی دُنیا سے نکل کر کسی اور دُنیا میں تشریف فرما ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دُعائیں جو اسلوب کے لحاظ سے اُن قرآنی دُعائوں سے بہت قریب ہیں، جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آپؐ کی تعلیم کے لیے فرمایا ہے، یا انبیائے سابقینؑ کی دُعائوں کے سیا ق میں کیا ہے۔آپؐ کی دُعائوں کا جائزہ لیا جائے تو انسانی قلب ان کی قدروقیمت کے احسا س سے معمور اور ان کے زیراثر پیدا شدہ فضا کی بلند پائیگی سے مسحور ہوجاتا ہے۔ ان دُعائوں کا اسلوبِ بیان کمال درجے کا سادہ ہے: کبھی چشمۂ صافی کی طرح سبک خرام اور کبھی چٹانوں کے درمیان سے گزرنے والے پر شور دریا کی مانند تیزگام۔
اب ہم آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعائوں کے چند مسلسل اور مربوط نمونے پیش کرتے ہیں، جو آپؐ نے مختلف اوقات میں اپنے ربّ کے حضور کی ہیں۔ یہ دُعائیں کسی شرح اور ترجمانی سے بے نیاز ہیں:
اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، وَإِلَیْکَ الْمُشْتَکَی، وَبِکَ الْمُسْتَغَاثُ، وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ [الدعوات الکبیر للبیہقی، غراس للنشر والتوزیع، کویت، طہ۱، ۲۰۰۹ء، ج۱، ص ۳۵۴] اے اللہ! حمد کا استحقاق آپ ہی کو ہے، تکلیف و مصیبت کا عرض معروض آپ ہی سے کیا جاتا ہے۔ فریاد رس آپ ہی کی ذات ہے۔ مدد آپ ہی سے طلب کی جاسکتی ہے۔ طاقت و قوت آپ کے سوا کسی اور کے پاس نہیں۔
اللَّھُمَّ إِنَّـا نَعُوذُ بِکَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْ نَضِلَّ أَوْ نَظْلِمَ أَوْ نُظْلَمَ أَوْ نَجْھَلَ أَوْ یُجھَلَ عَلَیْنَا [سنن الترمذی، کتاب الذبائح، أبواب الدعوات عن رسولؐ ، حدیث: ۳۴۳۲] اے اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں، مچل جانے سے، یا کسی کو مچلانے سے، یا کسی کو گمراہ کرنے سے، یا کسی پر ظلم کرنے سے، یا خود نشانۂ ظلم بننے سے، یا جہالت کرنے سے، یا کسی کی جہالت کا شکار بننے سے یا گمراہ ہونے سے، یا گمراہ کیے جانے سے۔
اے اللہ! ہمارے دلوں میں باہم اُلفت پیدا کر دیجیے۔ ہمارے باہمی تعلقات درست فرما دیجیے، ہمیں سلامتی کی راہیں دکھلایئے، ہمیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف پہنچا دیجیے۔ ہمیں ظاہری و باطنی بے حیائیوں سے دُور رکھیے۔ برکت عطا فرمایئے، ہماری شنوائیوں میں، ہماری بینائیوں میں، ہمارے قلوب میں،ہماری ازواج میں اور ہماری اولاد میں۔ ہماری توبہ قبول فرمایئےکہ آپ ہی ہیں بار بار توبہ قبول فرمانے والے اور نہایت مہربان۔ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکرگزار، ثناخواں اور ان کا اہل بنایئے اور ہم پر اپنی نعمتیں پوری پوری اُتاردیجیے۔
دُعا ہائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے انھی چند شہ پاروں پر اکتفا کرتا ہوں، جو ہیں تو بہت زیادہ لیکن یہاں تھوڑی مقدار میں پیش کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ ہمیں اپنی فرماں برداری اور اپنے رسولؐ کی اطاعت کی توفیق نصیب فرمایئے اور اسوئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنانے کی، صحیح ایمان اور جذبے سے دُعا کرنے کی کوششوں میں کامیاب کیجیے،کیونکہ ارشاد باری ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۲۱ۭ (احزاب ۳۳:۲۱) [درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔]
گناہوں سے بچنے کی قوت، اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر تصور نہیں کی جاسکتی۔
شاعر مشرق علّامہ محمد اقبال کے کلام میں دُعا اور حمدو مناجات کے بڑے جان دار اور دل کش نمونے موجود ہیں۔ ان میں ان کی مشہور نظم ’شکوہ‘ ایک طویل مناجات ہے، اور اس کو کلامِ اقبال میں، دردِ دل، طاقت ور اسلوب، دل کش اندازِ بیان اور تاثیر کی وجہ سے نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اس میں وہ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہیں۔ پھر ان کے یہاں جواب آں غزل کے طور پر ’جوابِ شکوہ‘ بھی موجود ہے۔ ’شکوہ‘ میں انھوں نے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتے ہوئے جن بنیادی سوالوں کو چھیڑا ہے، اور خارِ ندگی کی جس چبھن کا شکوہ کیا ہے، اس کا مداوا ’جوابِ شکوہ‘ میں اس خوب صورتی سے پیش کردیا گیا ہے کہ زندگی کو رواں دواں اور جاوداں بنانے کی تحریک ہوتی ہے اور جمود اور سکون، حرکت و عمل میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
اقبال اپنے کلام میں جب انسانوں سے مخاطب ہوتے ہیں، تب بھی اکثر ان کا روئے سخن، خدائے واحد کی طرف ہوتا ہے۔ اقبال کے خلاف، فرشتوں نے بارگاہِ الٰہی میں جو شکایت کی ہے، وہ بھی مناجات ہی کا ایک رنگ ہے:
کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمّازی
گُستاخ ہے ، کرتا ہے فطرت کی حنابندی
خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی
رومی ہے نہ شامی ہے ، کاشی نہ سمرقندی
سِکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے
آدم کو سکھاتا ہے آدابِ خداوندی
[بالِ جبریل]
پھر جب اقبال نے ’شکوہ‘ میں اسرارِ خودی اور رُموزِ بے خودی کے جوہر دکھلائے تو زمین پر اگرچہ اس درازنفسی سے چشمک نے گل کھلائے، شکایت نے دَہن کھولے مگر فلک کے فرشتے بھی اس پر خاموش نہ رہ سکے:
پیر گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوئی
بولے سیّارے، سرِعرشِ بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا، نہیں! اہلِ زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی ، پوشیدہ یہیں ہے کوئی
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنّت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
[بانگِ درا]
جنّت سے نکالا ہوا یہ انسان اپنے چمن کی یادوں کو بھلا نہ سکا اور اقبال بھی شکوہ اور ’جوابِ شکوہ‘ کی حدود سے باہر نکلے، تب بھی انھوں نے بے بسی کے ساتھ انسان کے اس ترکِ وطن پر خدا سے گفتگو جاری رکھی:
کیا کہوں اپنے چمن سے مَیں جدا کیونکر ہوا
اور اسیرِحلقۂ دام ہُوا، کیونکر ہوا
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبرآزما کیونکر ہوا
پُرسشِ اعمال سے مقصد تھا رُسوائی مری
ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ، کیا ہوا ،کیونکر ہوا
[بانگِ درا]
اقبال کے یہاں دُعا و مناجات کی مستقل اصناف اگرچہ بار بار مختلف صورتوں میں پائی جاتی ہیں، مگر بارگاہِ الٰہی میں سرگوشی اور ہم کلامی کا یہ رنگ ان کی غزلوں اور نظموں میں بھی شوق و سرمستی کی بہاریں دکھلاتا ہے۔ وہ رُوپ بدل بدل کر اپنے خالق و مالک اور داتا کے دربار میں آتے ہیں، کبھی اپنے دل کا سوز بچوں کی زبان سے ادا کرتے ہیں:
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
[بانگِ درا]
یہ پوری ’دُعا‘ اپنی روانی، دل کشی اور تاثیر میں اپنی مثال آپ ہے۔ اقبال مسلمانوں کی زبانِ حال سے مناجات پیش کرتے ہیں تو ان کی دُعا میں مرد مسلمان کا امتیازی کردار جھلکنے لگتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے یہاں مسلمان کسی خاص نسلی گروہ کا نام نہیں ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان، ایمان و کردار سے آراستہ اس فرد یا جماعت کی علامت ہے، جس کے اندر چند درچند خوبیاںدرکار ہیں،جن کی یافت یا دریافت کی تمنا دُنیا کے ہرایک انسان کے دل میں ہونی چاہیے:
یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے
پھر وادیِ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے ، پھر ذوقِ تقاضا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خُوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
[بانگِ درا]
اس دُعا میں وہ محبت سے لبریز،خودداری اور حُریت، بے لوث محبت، بے باک صداقت، بصیرت، شفاف دل، آثارِ مصیبت کا احساس اور اِمروز کی شورش میں اندیشۂ فردا کی طلب کرتے ہیں :
میں بلبلِ نالاں ہوں اِک اُجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو داتا دے
اقبال اپنی ایک اور دُعا ’آرزو‘ میں ربّ کریم کو مخاطب کرکے یہ کہتے ہیں کہ میں دُنیا کی محفل سے اُکتا گیا ہوں، دل بجھا ہوا ہے، لطفِ محفل معدوم ہے، دل شورش سے بھاگ کر ایسا سکوت چاہتا ہے کہ جس پر زباں آوری بھی نچھاور ہو۔ آرزو ہے کہ دامنِ کوہ کے معمولی جھونپڑے میں غمِ دُنیا کا کانٹا دل سے نکال کر خموشی میں اپنی فکر کو آزاد کردوں۔ چشمے کی شورش سے پیدا ہونے والے ساز اور چڑیوں کے سرور کی لذت میں اپنے ساغر جہاں نُما کو جو دل کہلاتا ہے محوِ تماشا کردوں۔ گُل کی کلی کھِلے تو اس کا پیام ساغرِ دل میں بھر جائے، سبزے کا بچھونا ہو اور ہاتھ کا سرہانا، خلوت میں وہ ادا ہو، جس پر جلوت شرمسار ہو، ہرے بوٹے صف بستہ ہوں ایسے کہ شفاف پانی ان کی تصویریں لے رہا ہو، کہسار کا نظارہ ایسا دل فریب ہو کہ پانی بھی موج بن کر اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو، غرض فطرت کے یہ اور ایسے دوسرے مناظر سامنے ہوں اور اس وقت:
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو، نالہ مری دُعا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر درد مند دل کو رونا مرا رُلا دے
بیہوش جو پڑے ہیں شاید انھیں جگا دے
[بانگِ درا]
اقبال کا یہی ذوقِ مناجات اندلس (اسپین)کی سرزمین میں ’طارق کی دُعا‘ بن کر سامنے آیا، جہاں طارق کی زبان اور کلامِ اقبال کی راہ سے ہمارے آپ کے ساز دل کا یہ ترانہ گونجتا ہے:
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
کیا تُو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں ، نظر میں ، اذانِ سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انھی کے جگر میں
کشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کردے
وہ بجلی کہ تھی نعرئہ لاتذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کردے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کردے
[بالِ جبریل]
اقبال قرطبہ گئے تو سرزمین اندلس کا شاندار ماضی اور اس کے گذشتہ شوکت و جمال انھوں نے مسجد ِ قرطبہ کے آئینہ میں دیکھے۔ گُل اپنے کشاد کے لیے دست ِ صبا کا محتاج ہوتا ہے، مگر اقبال کا جوشِ جنوں ہی ان کی قبائے فکروخیال کو کھول دینے کے لیے کافی تھا۔ وہ ایسی جگہ تھے جہاں جوشِ جنوں نے کئی صدیوں کے پردے اُٹھا دیئے تھے۔ وہ شعورِ ذات کی منزل میں آئے اور یوں گویا ہوئے:
ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو
میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو
راہِ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو
[بالِ جبریل]
میرا نشیمن نہیں درگہِ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تو ، شاخِ نشیمن بھی تو
تجھ سے گریباں مرا مطلعِ صبحِ نشور
تجھ سے مرے سینہ میں آتشِ ’اللہ ہُو‘
تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ
تو ہی مری آرزو، تو ہی مری جستجو
پاس اگر تو نہیں، شہر ہے ویراں تمام
تُو ہے تو آباد ہیں اُجڑے ہوئے کاخ و کُو
[بالِ جبریل]
اور اب اقبال حقیقت ِ ازلی کی بارگاہ میں، عرفانِ حق کی منزل میں پہنچتے ہیں، جہاں ان کے احساسات بے حجاب ہوجاتے ہیں:
پھر وہ شرابِ کُہن مجھ کو عطا کر کہ میں
ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سُبو
چشم کرم ساقیا! دیر سے ہیں منتظر
جلوتیوں کے سُبو، خلوتیوں کے کدو
[بالِ جبریل]
مناجات کے ان لمحات میں اقبال مقامِ قرب پر پہنچتے ہیں تو ان کے شوق اور نازوادا کے پَر کھل جاتے ہیں، مگر گومگو کی کیفیت میں کچھ کہا اور بہت کچھ کہنے سے رہ گیا۔ وہ بارگاہِ عظمت اور پھر فلسفہ و شعر کی محدود سرزمین، اور زمان و مکان کے پابند انسان کی کوتاہ اور محدود قوتِ گویائی:
تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے لامکاں، میرے لیے چارسُو
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرفِ تمنا ، جسے کہہ نہ سکیں رُوبرو
اقبال نے فارسی میں مناجات اور حمدودُعا کا ایک گلزار پیدا کردیا ہے۔ اس میں بھی غزلوں کے علاوہ نظم کے مختلف اصناف میں ان کے ذوقِ تکلّم نے مختلف رُوپ پیدا کیے۔ تاہم یہاں ان کے دید کی شنید کا، یا ان کے شنید کو دُہرانے کا موقع نہیں۔ البتہ یہاں بطورِ نمونہ چند مثالیں پیش ہیں۔ پہلے یہ دُعا:
یارب درونِ سینہ دلِ باخبر بدہ
دربادہ نشّہ را نگرم، آں نظر بدہ
ایں بندہ را کہ بانَفسِ دیراں نزیست
یک آہِ خانہ زاد مثالِ سحر بدہ
سلیم، مرا بجوئے تنک مایۂ مپیچ!
جولانگہے بوادی و کوہ و کمر بدہ
سازی اگر حریفِ یمِ بیکراں مرا
بااضطرابِ موج ، سکونِ گہر بدہ
شاہینِ من بصیدِ پلنگاں گذاشتی
ہمتِ بلند و چنگُل ازیں تیز تربدہ
رفتم کہ طائرانِ حرم را کنم شکار
تیرے کہ نافگندہ فتد کارگر بدہ
خاکم بہ نُور نغمۂ داؤد بر فروز
ہر ذرئہ مرا پر وبالِ شرر بدہ
[زبورِ عجم]
[lاے ربّ! مجھے دلِ باخبر عطا فرما۔ مجھے ایسی نظر دے کہ شراب میں نشہ دیکھ لوں۔ lتیرا یہ بندہ، جس نے کسی سے زندگی مستعار لینا قبول نہیں کیا۔ اسے سحر کی مانند آہِ خانہ زاد (اور یجنل)عطاکر۔lمیں سیلاب ہوں، مجھے کسی چھوٹی ندی کے حوالے نہ کر۔ مجھے ایسی وسعت دے کہ پہاڑوں، وادیوں اور میدانوں کو اپنی آغوش میں لے سکوں۔ lاگر آپ نے مجھے بیکراں سمندربنایا ہے تو پھر اضطرابِ موج کے ساتھ سکونِ گہر بھی عطا فرمایئے! (جس کے اُوپر موجوں کی سی کش مکش ہو، لیکن اندر دل ایسے پُرسکون ہو جیسے صدف کے اندر موتی)۔ lآپ نے میرے شاہین کو چیتوں کے شکار پرچھوڑا ہے تو اسے بلند ہمت دیجیے اور اس کے پنجے کو اور تیز کر دیجیے۔ lمیں اس لیے نکلا ہوں کہ طائرانِ حرم کو شکار کروں۔ مجھے ایسا تیر عطا فرمایئے جو چلائے بغیر ہی کارگر ہوجائے۔ lمیری خاک کو نغمۂ داؤد ؑ سے چمکا دیجیے، اور میرے بدن کے ہر ذرّہ کو شرر بنادیجیے کہ وہ اُڑتا پھرے]۔
وہ ایک مناجات میں اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ وجودِ عالم میں ، خدا کی ہستی ہی جلوہ فرما ہے، میری اپنی ذات میں بھی اسی کا پرتو ہے، مگر بدنصیبی یہ ہے کہ پھر بھی وہ ہستی مجھ سے دُور ہے۔ اے خدا! زندگی کے ساز کا ہرنغمہ تیرافیض ہے اور تیری راہ میں جاں سپاری، رشک ِ زندگی ہے۔ دلِ ناشاد کی تسکین کا تو ہی ذریعہ بن جا، سینوں میں تیرا ہی دوبارہ بسیرا ہو، ہمارا وجود تیرے ہی نام اور عظمت کا ثناخواں ہو۔ تیری محبت اورعشق کے دام بہت بلند ہیں اور یہ دولت ہمارے درمیان نایاب ہے، اسے عطا فرما:
اے جاں اندر وجود عالمی
جانِ ما باشی و از ما می رمی
نغمہ از فیضِ تو درعودِ حیات
موت در راہ تو محسودِ حیات
باز تسکینِ دلِ ناشاد شود
باز اندر سینہ ہا آباد شو
از مقدر شکوہ ہا داریم ما
نرخِ تو بالا ؤ ناداریم ما
[اسرارِ خودی]
[lآپ کائنات میں بمنزلہ جان ہیں اور ہماری جان ہوتے ہوئے ہم سے گریز کرتے ہیں۔ lزندگی کا ساز آپ کے فیض سے نغمہ زن ہے اور آپ کی راہ میں جو موت آئے اس پر زندگی بھی رشک کرتی ہے۔ lہمارے سینوں میں پھر سے آباد ہوکر ناخوش دلوں کی تسکین کا باعث بنیے۔ lہم سے پھر ننگ و نام کی قربانی طلب کیجیے اور اس طرح ہم جیسے ناپختہ عاشقوں کو پختہ تر بنا دیجیے۔ lہمیں اپنے مقدر سے یہ شکوہ ہے کہ آپ کی قیمت بہت بالا ہے اور ہم مفلس ہیں]۔
اقبال فرمائش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے خداوند! میری فریاد کی تاب و تپش سے عشق الٰہی کا سرمایہ چُن دے۔ میرے جسم کے بے آب ریگستان کی خاک کو بے باکی اور جرأت کا شعلہ بنادے اور ایمان و کردار میں ایسی بجلی بھردے جو حق کے نُور سے روشن ہو اور باطل کے خاشاک اور جذبات کو نابود کردے۔ میں فنا کے خمیر سے بنا ہوں، لیکن جب موت آئے تو میرے عشق کی پونجی اور میری زندگی کے غبار سے چراغِ لالہ پیدا فرما دے۔ میرے داغِ محبت کو زندگی ٔ نو عطا کر۔ میری تشنگی کی آگ کو ہرطرف بھڑکا دے، پھیلا دے:
اے کہ از خُم خانۂ فطرت بجا مم ریختی
ز آتشِ صہبائے من بگداز مینائے مرا
عشق را سرمایہ ساز از گرمئی فریاد مِن
شعلۂ بے باک گرداں خاکِ سینائے مرا
چوں بمیرم از غبارِ من چراغِ لالہ ساز
تازہ کن داغِ مرا، سوزاں بصحرائے مرا
[پیامِ مشرق]
[lاے وہ ذات! جس نے خم خانۂ فطرت سے میرے جام میں (وافر شراب) انڈیل دی، میری شراب کی آگ سے میری مینا (قلب) کو پگھلا دے۔ lمیری فریاد کی گرمی کو عشق کا سرمایہ بنا، میری خاکِ سینا کو شعلۂ بے باک میں تبدیل کر دے (موسٰی نے صحرائے سینا میں جلوئہ نُور دیکھا تھا)۔ lجب میں مرجائوں تو میرے غبار گُلِ لالہ کا چراغ بنا، (یوں) میرے داغ کو (موت کے بعد) تازہ کرکے مجھے صحرامیں سوزاں رکھ]۔
اقبال کا فن، شعروادب کی مختلف صنفوں میں ، آپ بیتی کے ساتھ جگ بیتی سنانے چلا تو انھوں نے اپنے تخیل کی مدد سے وہ بھی سن لیا، جو کوئی کہہ نہیں سکتا۔ اقبال نے لینن کے معقول تخیلات میں افکارِکج کی پیچ دار نمایش دیکھی تو وہ لینن کو اپنے تخیل کی مدد سے وہاں لے گئے، جہاں يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَۃَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ O (المومن۴۰:۱۹) (وہ خدا آنکھ کے اشاروں اور سینہ کے بھیدوں سے آگاہ ہے) کی عکس ریزیاں اور مالکِ کون ومکان کی جلوہ طرازیاں تھیں۔ کمیونزم نے بیسویں صدی کے نویں عشرے میں پہنچ کر اب جو دیکھا ہے، وہ اقبال نے اشتراکی روس کے بانی لینن کی زبان سے خدا کے حضور میں پہلے ہی بیان کردیا تھا۔ مادّیت اور نفس کے سحر میں گرفتار دُنیا سے، لینن کی فطرت آزاد ہوئی تو اس پر سب بڑی حقیقت کا انکشاف ہو اور وہ بول اُٹھا:
اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
محرم نہیں فطرت کے سرودِازلی سے
بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت
میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات
ہم بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
تو خالقِ اعصار و نگارندئہ آنات
[بالِ جبریل]
مادّی دُنیا کے پیچ و خم کو درست کرنے کے لیے لینن نے جو کارگزاری دکھائی، اس سے انسانی مسائل میں گرہ پر گرہ پڑتی گئی۔ ان گرہوں کے کھولنے کے جو اہل تھے وہ رُوبہ زوال تھے اور جو نااہل تھے وہی میدانِ عمل کے شہ سوار تھے، ان کی شہ پاکر ابلیس کے لَمس نے نظامِ زندگی کو غیرمتوازن بنا دیا تھا۔ لینن نے مغرب کے علم و ہُنر کی ان کمزوریوں کو واشگاف کردیا ہے:
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری و عریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی برق و بخارات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
لینن کو مغرب کے زوال کے آثار بھی نظر آئے، وہ کہتا ہے:
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیرانِ خرابات
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سرِشام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
کامریڈ لینن، گزارشِ احوال واقعی کے بعد انسانیت کے درد کے درماں کے لیے بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتا ہے:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دُنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات
جاہلیت اور مادّیت کےطوفان میں کشتی کو ساحلِ مراد تک لانے کا کام ان لوگوںکا تھا جو عالمانِ دین ہیں، مگر ان کی صفوں میں مُلّائے قیل و قال کی دراندازی نے بحث و جدال کا ماحول پیدا کردیا اور اصل حقیقت نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ اقبال نے اپنی ایک نظم میں اس کی بھی شکایت کی، اِسے مناجات کہیں یا مناجات کا سا طرزِسخن، بہرحال بارگاہِ الٰہی میں اقبال کا یہ شکوہ بھی:
میں بھی حاضر تھا وہاں ، ضبطِ سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرتِ مُلّا کو ملا حکمِ بہشت
عرض کی میں نے، الٰہی! مری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حُور و شراب و لبِ کشت
نہیں فردوس مقامِ جدل و قال و اقول
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرِشت
ہے بدآموزیِ اقوام و مِلل کام اس کا
اور جنّت میں نہ مسجد ، نہ کلیسا، نہ کُنشِت
[بالِ جبریل]
اقبال نے قیل و قال میں اُلجھے مُلّا کو اگرچہ، حضرتِ حق سے حکم بہشت دلوا دیا ہے، شاید اس کے خلوص اور دین خداوندی سے اس کی گہری وابستگی کی بناپر،اس کی زاہدانہ زندگی اور مذہبی غیرت کی وجہ سے ، مگر اس کی تیز حِس جو بات بات پر بھڑک اُٹھتی ہے اور اس کی ملّی حمیت جو رونقِ اسلام کے لیے کفر و شرک کی ذرا سی آہٹ پاکر چوکنا ہوجاتی اور بحث و تکرار کا موقع تلاش کرلیتی ہے اور جو اقوام و مِلَل کے ساتھ خوش گواری اور حُسنِ معاملہ کی اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کردیتی ہے، اقبال کو اِس ادا پر اعتراض ہے اور وہ اسے حُسنِ اخلاق سے اور بحث و تکرار کو سازِ دل کے پُرسوز نغموں سے بدلنا چاہتے ہیں۔
اقبال اپنی مناجات، حمدوشکوہ اور دُعا کے علاوہ اپنی غزلوں ، نظموں، رباعیات اور قطعات میں جب شوخی اور سرمستی کا کیف پاتے ہیں تو ان کے مقام نازونیاز کی رفعتیں دیدنی ہوتی ہیں۔ اس میں ان کے اسلوب کا تنوع، ان کے مچلتے جذبات کی دھوپ چھائوں،رحمت ِ حق کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے انداز و طور یہ پتہ دیتے ہیں کہ ان کی بلندحوصلہ طبیعت کے شانہ بشانہ ان کی مناجات کو بامِ بلند تک پہنچاتے ہیں ؎
جزء لالہ نمی دانم، گویند غزل خوانم
ایں چیست کہ چوں شبنم برسینۂ من ریزی
[زبورِ عجم]
[lمیں تو نالہ و فریاد کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں غزل خواں ہوں۔ lیہ شبنم کی طرح کی چیز کیا ہے، جو آپ میرے سینے پر نازل فرما رہے ہیں؟ (سکینت کو شبنم کہا ہے]۔
ایک غزل میں ان کا اندازِ تخاطب کچھ اس طرح ہے:
اِک دانش نورانی، اِک دانش بُرہانی
ہے دانش بُرہانی ، حیرت کی فراوانی
اس پیکرِ خاکی میں اِک شے ہے ، سو وہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اُس شے کی نگہبانی
اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک
تُو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی
ہو نقش اگر باطل، تکرار سے کیا حاصل
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟
[بالِ جبریل]
اقبال کو بارگاہِ الٰہی سے جو خودی اور سرشاری عطا ہوئی ہے ، اور ان کے لیے جس جوہرِادراک کو ارزاں کردیا گیا ہے، وہ اسے تمام انسانوں کا مشترک سرمایہ بنانا چاہتے ہیں، ’ساقی نامہ‘ کی ابتدا تو اس طرح ہوتی ہے:
شراب کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لاساقیا
مجھے عشق کے پَر لگا کر اُڑا
مری خاک جگنو بنا کر اُڑا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
[بالِ جبریل]
مگر اسی نظم میں ان کی نظر میں جب اس عنایتِ ربّانی پر پڑتی ہے، جو مسلسل ان پر ہوتی رہی تو وہ درخواست کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ عام انسانوں کو بھی عطا ہو:
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق ، میری نظر بخش دے
مرے دیدئہ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالۂ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
اُمنگیں مری، آرزوئیں مری
اُمیدیں مری ، جستجوئیں مری
مری فطرت آئینۂ روزگار
غزالانِ افکار کا مرغزار
مرا دل ، مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر ، یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں مَیں امیر
مرے قافلے میں لُٹا دے اُسے
لُٹا دے ، ٹھکانے لگا دے اُسے
[بالِ جبریل]
اقبال کی غزلوں میں حمد کا ایک رنگ تو یہ ہے:
چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں، سورج میں، تارے میں
[بانگِ درا]
اور کہیں شوقِ دید میں اس طرح محوِ کلام ہیں:
کبھی اے حقیقتِ منتظَر! نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
[بانگِ درا]
اور اس دَریا رتبہ تک رسائی کے بعد ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ گنہگار اور پریشان انسانیت کے لیے یہی جائے امان ہے۔ کون و مکان کا خالق اور ربّ، ستم رسیدہ ، بے چین اور شرمسار انسانوں کی سب سے بڑی اور آخری پناہ گاہ ہے:
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی توکہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
[بانگِ درا]
اقبال کو بخوبی احساس ہے کہ ان کا نالہ رَسا ہے، ان کی غزل ہنگامہ آفریں ہے، ان کے الفاظ اگرچہ دیر و حرم کی اصطلاحوں سے ترجمانی کا سلیقہ حاصل کرتے ہیں، مگر ان لفظوں کے ذریعے جو وہ نغمہ پیدا کر رہے ہیں، اس سے فرش اور عرش دونوں کے مکیں یکساں طور پر متاثر اور مخمور ہوتے ہیں:
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدئہ صفات میں
حُور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں
گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند
میری فغاں سے رست خیز کعبہ و سومنات میں
[بالِ جبریل]
وہ اپنے بارے میں کسی خود فریبی کا شکار نہیں ہیں، اپنی بلندی و پستی دونوں کا شعور رکھتے ہیں:
گاہ مری نگاہِ تیز، چیر گئی دلِ وجود
گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہّمات میں
اقبال کی مناجات میں حمد اور حمد کے اشعار میں مناجات، جب تغزل کی لَے اور غزل کے ترنّم سے دوآتشہ ہوجاتے ہیں تو اس بادہ کی تندی، پڑھنےوالوں کو بھی سرشار اور بے خود کر دیتی ہے اور وہ بھی شریکِ مناجات ہوکر، اقبال کے اشعار گنگنانے لگتے ہیں:
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر
عشق بھی ہو حجاب میں، حُسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بے کراں، میں ہوں ذرا سی آبجُو
یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزَف تو تُو مجھے گوہرِ شاہوار کر
نغمۂ نوبہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دَمِ نیم سوز کو طائرکِ بہار کر
[بالِ جبریل]
اقبال اس حقیقت سے بھی باخبر ہیں کہ انسان کو خدا کی نظر میں، ساری کائنات کے مقابلے میں جو کرامت حاصل ہے، اس کی وجہ سے یہ بشر گوہر تخلیق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے خالق کی نظر میں یہ انسان ہی محبوب ترین ہے، اسی لیے یہ ’مورِناتواں‘ اپنے پَروں کو دیکھ کر نازاں ہوجاتا ہے اور جب قدموں پر نظر جاتی ہے تو شرمساری کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مذکورہ غزل کے دو آخری شعر، اس منظر کی عکاسی کرتے ہیں:
باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں؟
کارِجہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرم سار ہو، مجھ کو بھی شرم سار کر
رُباعیاتِ اقبال میں دانشِ اقبال نے اپنے فکروفن کے اظہار کے لیے مختصر پیمانہ اپنے ہاتھوں میں لیا ہے، مگر اس ذرا سی آبِ جو میں، محیط ِ اقبال اسی طرح موجیں مار رہا ہے، جس طرح وہ دوسرے پیمانوں (اصنافِ سخن) میں چھلکتا اور موجیں مارتا ہے۔ یہاں حُسنِ طلب نے جمال اور عظمت کی صورت بھی اختیار کی ہے اور اپنے درد و کرب اور بے بسی کا اظہار بھی کیا ہے اور پھر وہ اعترافِ حق کے طور پر اپنی آہِ سحر اور نُورِ بصیرت کے موتیوں کو بھی مناجات کی لڑی میں پرو کر بالِ جبریل میں پیش کر دیتے ہیں:
ترے شیشے میں مَے باقی نہیں ہے
بتا ، کیا تُو مرا ساقی نہیں ہے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزّاقی نہیں ہے
__________
دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
حریمِ کبریا سے آشنا کر
جسے نانِ جَویں بخشی ہے تُو نے
اُسے بازوئے حیدرؓ بھی عطا کر
__________
عطا اسلاف کا جذبِ دروں کر
شریکِ زمرئہ لَا یَحْزَنُوْں کر
خِرد کی گتھیاں سلجھا چکا مَیں
مرے مولا! مجھے صاحبِ جنوں کر
__________
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پَر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نُورِ بصیرت عام کر دے
اقبال کی ادبِ مناجات کے اس جائزے کا اختتام ایک فارسی رُباعی پر موزوں معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے بارگاہِ الٰہی میں جس خوب صورتی سے، ذاتِ رسولؐ کا ذکر کیا ہے، اس میں حمدونعت کا ایک دل کش تخیل، ایسا دے گئے ہیں، جو قلب کو گرمادے اور روح کو تڑپا دے:
بہ پایاں چوں رسد ایں عالَم پیر
شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکن رسوا حضورِ خواجہؐ ما را
حسابِ من ز چشمِ او نہاں گیر
[ارمغانِ حجاز]
یہ سن رسیدہ جہانِ آب و گل ،جب ختم ہواور تقدیر کے تمام بھید بے پردہ ہوجائیں تو اس وقت خواجہ یثرب (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حضور میں،اے خداوند! مجھے رُسوا نہ کیجیے گا ، ان کی نظروں سے بچا کر ہی میری حساب فہمی کرلیجیے گا۔
علامہ اقبال کی ایک اور رُباعی بھی باندازِ دگر، اسی تخیل کی ترجمانی کرتی ہے اور وہ یہ ہے:
تو غنی ازہر دوعالم من فقیر
روزِ محشر عُذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفیٰ پنہاں بگیر
[ارمغانِ حجاز]
قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد جب محمد اسد نے یہ دیکھا کہ معاشرے اور ریاست کی تعمیروتشکیل میں قرآن حکیم اور تعلیماتِ نبویؐ کو رہنما بنانے سے متعلق قائدین تحریک ِ پاکستان کی طرف سے کیے گئے اعلانات کے باوجود، نہ صرف یہ کہ عملاً اس راہ پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہاہے بلکہ حکومت ایک غیر اعلان شدہ پالیسی کے تحت سیکولرازم کی راہ پر چل نکلی ہے، اور نوآبادیاتی نظام کی محافظ و وارث بنتی چلی جارہی ہے ،تو اس منظرنامے پر وہ تڑپ اُٹھے جس پر اپنے تحفظات و خدشات کا انھوں نے اظہار یوں کیا:
In spite of the many pronouncements made on the highest levels to the effect that Pakistan will be run in accordance with the spirit of the Qur'an, it is widely felt that nothing concrete has been done so far to implement this promise, and that on the contrary there is evidence enough to show that the government is drifting towards a more or less pronounced "Secularism" on the model of Western world.
مملکت ِ پاکستان کے سیاسی و حکومتی نظام کو قرآنِ حکیم کی روح کے مطابق چلانے سے متعلق ہمارے صف ِ اوّل کے قائدین کے اَن گنت اعلانات کے باوجود، عام طور پریہ محسوس کیا جارہا ہے کہ تاحال اس عہد کو پورا کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا گیا ہے، بلکہ اس کے برعکس اس امر کے بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ حکومت علانیہ طور پر مغربی طرز کی لادینیت (سیکولرازم) کی راہ پر گامزن ہوچلی ہے۔
.... Today the government is estranged from the innermost longing of our people.They are looking upon it as an heir of the old British bureaucracy, and their original hope is gradually dying out. They wanted leadership in the ideological sense but they did not find it.
آج حکومت ہمارے عوام کی اُمنگوں سے بیگانہ اور لاتعلق ہوچکی ہے ، چنانچہ وہ اسے برطانوی افسرشاہی کی جانشین اور وارث کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اور ان کی حقیقی اُمنگیں دم توڑ رہی ہیں۔ وہ تو ایک نظریاتی قیادت کے خواہاں تھے لیکن اس نوع کی قیادت انھیں میسر نہ ہوسکی۔
محمد اسد نے نظریۂ پاکستان سے انحراف و برگشتگی کی روش اور سیکولرقومی ریاست کے تصور کی طرف مقتدر طبقوں کے میلان کو سخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ دراصل وہ اس طرز فکر و عمل کو امت مسلمہ کے دین و عقیدے کے منافی تو گردانتے ہی تھے، ان کی رائے میں سیکولر قومی ریاست کے تصور پر اصرار پاکستان کی بنیادوں پرتیشہ چلانے کے مترادف بھی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اسلامی ریاست کے نظریے، جو ان کی نگاہ میں تحریک پاکستان کا اساسی نصب العین، اس کی حقیقی غایت اور پاکستان کی اصل نظریاتی بنیاد تھا، سے انحراف و برگشتگی کے منفی نتائج و عواقب سے خبردار بھی کیا۔ انھوں نے اس بات پر بطور خاص زور دیا کہ پاکستان کا وجود ایک نظریے اور نصب العین کا رہین منت ہے اور یہ ملک اس نظریے اور نصب العین سے پختہ اور غیر متزلزل وابستگی کے سبب ہی سے قائم رہ سکتا ہے۔ اس نظریے سے انحراف اور اس کے بارے میں فکری ابہام کا مطلب پاکستان کو انتشار و افتراق اور خلفشار سے دوچار کرناہے۔
محمد اسد کے نزدیک قوموں کی زندگی میں ایک اعلیٰ و ارفع نصب العین اور مثالیت پسندی (Idealism) کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ چیز کسی بھی قوم کی ترقی و عروج کے لیے جذبۂ محرکہ کا کردار ادا کرتی ہے اور اس کے افراد میں اتحاد و یگانگت کا مؤثر ترین ذریعہ ہوتی ہے، جب کہ کسی اعلیٰ نصب العین کی عدم موجودگی میں وہ قوم بے مقصدیت کا شکار ہوجاتی ہے۔ بنا برایں ان کے خیال میں پاکستان کی بقا اور اس کے استحکام کا راز تحریک پاکستان کے نظریاتی نصب العین سے غیر متزلزل وابستگی اور اس کو عملاً حقیقت میں بدلنے ہی میں مضمر ہے۔{ FR 794 } اسد کسی عارضی مصلحت یا سیاسی تدبیر کے نام پر بھی تحریک پاکستان کے نصب العین سے انحراف کو مناسب نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک:
".... an evasive postponement of our "long-term", Islamic objectives in favour of what some people regard (quite worngly) as momentarily "expedient" or "politic", must have a determental effect on our community's moral tenor and can only result in our greater estrangement from the ways of true Islam.
اصل اسلامی مقاصد سے وقتی مصلحت کے طور پر گریز پائی ایک ایسی ناعاقبت اندیشی ہے جس سے ہم مسلمانوں کے اخلاق و مزاج پر نقصان دہ اثرات پڑتے ہیں، جس کا نتیجہ حقیقی اسلام کے اصولوں سے انحراف ہوگا۔
محمد اسد کی نگاہ میں پاکستان کے استحکام اور اس کے تحفظ و بقا کے لیے اسلامی قومیت کے نظریے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کی نگاہ میں اسلامیانِ پاکستان ایک نظریاتی ملت ہیں، ان کی قومیت کی بنا اسلام ہے۔ اسلام سے جذباتی و شعوری وابستگی کے احساس و جذبے نے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو سیاسی طور پر متحد و یکجا کیا اور یہی امر مطالبہ و قیامِ پاکستان کا محرک بنا۔ پاکستان عالم اسلام کی دیگر عرب و غیر عرب ریاستوں کے برعکس ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، چنانچہ یہ صرف اسی نظریے سے وابستگی کی بنا پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔ اسلام کو اگر معاشرہ اور ریاست کی تعمیروتشکیل میں فیصلہ کن حیثیت نہ دی جائے تو پاکستانی ملت کے مختلف عناصر کو باہم پیوست اور یکجا کرنے والی کوئی قوت باقی نہیں رہ جاتی۔
اسلام سے غیر متزلزل وابستگی اور اسلامی قومیت کے تصور کے احیاء سے ہی ملت اسلامیہ پاکستان کے مختلف نسلی و لسانی گروہوں پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچی، بنگالی اور پھر مہاجرین اور مقامی آبادی کے درمیان اتحادویگانگت پیدا ہوسکتا ہے۔ جب کہ اسلام کے بعد ان گروہوں کو باہم متحد کرنے والی کوئی حقیقی بنیاد ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ چنانچہ ان کو آپس میں متحد و یکجا اور باہم پیوست کرنے والی بنا کے ڈھ جانے سے یہ گروہ مختلف نسلی و لسانی اور علاقائی عصبیتوں کے نرغے میں آجائیں گے اور پاکستان کی بقا و استحکام اور اس کی سالمیت و یکجہتی خطرے میں پڑجائے گی۔ اسلامی نظریے سے انحراف کی صورت میں یہ ملک افتراق و انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ جب کہ اس کے برعکس اسلامی نظریۂ قومیت کو جس قدرعوام کے ذہنوں میں راسخ کیا جائے گا پاکستان اسی قدر مضبوط ومستحکم اور طاقت ور ہوگا۔ غرضیکہ محمد اسد کے نزدیک اسلام اور اسلامی قومیت کے نظریے کے علاوہ دوسری کوئی اور چیز، قومیت کا کوئی اور نظریہ اور حُب الوطنی کی کوئی دوسری تدبیر ان مختلف و متنوّع عناصر کو یکجا نہیں رکھ سکتی۔
پاکستان کے استحکام، اس کی علاقائی سالمیت و یکجہتی اور تحفظ و بقا کے بارے میں اسد کا یہ نقطۂ نظر اور تجزیہ، جس کا اظہار انھوں نے قیام پاکستان کے ساتھ کیا تھا، بڑا درست اور مبنی بر حقیقت ثابت ہوا۔ پاکستان میں کسی واضح اور متعین نصب العین کی عدم موجودگی (اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام کے مقصد سے دور ہٹ جانے کے بعد) کے سبب فکری ابہام و انتشار نے جنم لیا۔ اسی طرح اس وقت کی سیاسی قیادت کی طرف سے اسلامی قومیت کے تصور کے بجائے پاکستانی قومیت کے تصور پر زور کے نتیجے میں لسانی و نسلی عصبیّتوں کے طوفان نے سراٹھایا۔
صوبائی عصبیت کے اس فتنے کا نتیجہ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا اور باقی ماندہ پاکستان میں پہلے پختون اور بلوچ قوم پرست تحریکوں نے سراٹھایا، پھر مہاجر اور سندھی کش مکش برپا ہوئی۔ قدیم مقامی باشندوں کے مفادات میں ٹکراؤ کی اس صورتِ حال نے ملک کو تباہی سے دوچار کیا۔پاکستان کے جن دانش وروں نے اس ملک کو درپیش حقیقی مسائل و مشکلات کا جائزہ لیا ہے اور داخلی افتراق و انتشار، صوبائیت و علاقائیت اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب و محرکات پر بحث کی ہے، وہ کم و بیش انھی نتائج پر پہنچے ہیں، جن سے محمد اسد بہت سال پہلے خبردار کرچکے تھے-
قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی لامحالہ طور پر اس نوزائیدہ مسلم ریاست کے نظام سیاست و حکومت کے بارے میں بحث مباحثہ میں تیزی آگئی۔ جدید تعلیم یافتہ افراد، جن میں بعض مسلم لیگی رہنما بھی شامل تھے، ان کی طرف سے اسلامی ریاست کے تصور کی شدید مخالفت، اور سیکولر قومی ریاست کے قیام کی پُر جوش وکالت کی گئی۔ اس طبقے کی طرف سے پاکستان کو ایک اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کے مطالبے پر جو اعتراضات کیے گئے، یا پھر اس تصور کے جدید دور میں قابلِ عمل ہونے کے بارے میں جو شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے وہ اس طرح کے تھے:
۱- اسلام مملکت و حکومت کے بارے میں کوئی خاص نظام اور اصول تجویز نہیں کرتا۔ قرآن و سنت میں دستور اور سیاست و حکومت کے بارے میں کوئی ضابطے اور اصول ذکر نہیں کیے گئے ہیں بلکہ یہ معاملات انسانی عقل و فہم کے حوالے کیے گئے ہیں۔ تاریخ میں کبھی اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی، لہٰذا یہ تصور محض ایک تصور ہے۔
۲- اسلامی قانون جامد و غیر متحرک ہے۔ صدیوں پرانی فقہ و قانونی سرمایہ دور جدید کی ضروریات اور تقاضوں سے میل نہیں کھاتا، لہٰذا اسے ریاست کا قانون بنانا قطعاً کوئی دانش مندانہ فعل نہیں۔ اسلامی قانون کو جدید دور میں مملکت کا قانون بنانے کا مطلب اسے ترقی سے محروم اور پس ماندہ رکھنا ہے۔ چنانچہ مسئلہ کا بہترین حل یہی ہے کہ آئین و دستور اور نظامِ قانون کو سیکولر بنیادوں پر استوار کیا جائے۔
۳- اسلامی ریاست کے نام پر مملکت میں بدترین تھیاکریسی (مُلاؤں کی حکومت) قائم ہوجائے گی۔
۴- پاکستان میں غیر مسلم ہندو اقلیت کی موجودگی میں اسلامی ریاست کا قیام مناسب نہیں۔
۵- جدید دور میں، جب کہ اطراف عالم میں سیکولر حکومتیں قائم ہیں پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام سے دنیا کی رائے عامہ کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔
محمد اسد، اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام کی بابت مختلف ذہنوں میں پیدا ہونے والے ان اعتراضات اور شکوک و شبہات سے بخوبی آگاہ تھے، بطور خاص جدید تعلیم یافتہ طبقے کی سیکولرزم پسندی کا انھیں گہرا ادراک تھا۔ چنانچہ مجلہ عرفات (بابت مارچ ۱۹۴۸ء) میں اسلامی دستور کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے لکھا:
With the attainment of Pakistan's independence, however, we of the present generation have such a possibility before us: and it is for us to covert this possibility into a certainty - if we so wish - or alternatively, to allow it to recede again into the realm of academic speculations..... There is no gainsaying that countless Muslims in this country passionately desive the first of these two alternatives; but there is also, no doubt that very strong forces are at worth to deflect the community from its Islamic goal and to make Pakistan a "secular" state in slavish deference to what almost all non-Muslim, today regard as desirable. For, the majority of people in other countries - including many Muslim countries - have grown accustomed to look upon institutional religion as something antiquated, and therefore not quite "respectable" from the intellectual point of view: as something out of tune with the so-called "progressive" endeavour to free man from all moral obligations, not devised by himself:..... and for this reason, a suggestion to build a state, on religious foundations is usually described in such circles as reactionary or, at the best - as impractical idealism". Apparently, many educated Muslims think today on these lines; and in this, as in so many other aspects of our contemporary life, the influence of Western thought is un-mistakable.
جب سے پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت وجود میں آئی ہے یہ امکان بھی پیدا ہوگیا ہے کہ ریاست کی تأسیس اسلامی اصولوں پر کی جائے۔ بایں ہمہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہمارا سوادِاعظم اگرچہ اس بات کا آرزومند ہے کہ پاکستان میں ایک اسلامی ریاست قائم ہو کچھ قوتیں ایسی بھی ہیں جو چاہتی ہیں کہ مسلمان اپنی منزل مقصود سے ہٹ جائیں۔ ان کا تقاضا ہے کہ ہم بھی غیر اسلامی دنیا کی اندھا دھند تقلید میں ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھیں جو اصطلاحاً غیر مذہبی و لادینی (سیکولر) سے تعبیر کی جاتی ہے۔ بات یہ ہے کہ آج کل اسلامی ممالک میں بھی اس خیال کا غلبہ ہے۔ مذہب (اسلام) کے بارے میں یہ تصور کہ وہ بجائے خود ایک نظام حیات ہے، جدید تعلیم یافتہ افراد کے نزدیک پرانا ہوچکا ہے اور ان کے ہاں از روئے علم و حکمت بھی کچھ ایسا وقیع نہیں ہے۔ لہٰذا قدرتی بات ہے کہ جب کبھی ریاست کے لیے کوئی دینی اساس تجویز کی جائے تو یہ لوگ اسے رجعت پسندی سے تعبیر کریں یا پھر محض ناقابل عمل عینیت پسندی (Impractical Idealism) ٹھیرائیں۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے اکثر تو یہی رویہ اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح یہاں بھی ان کا دل و دماغ مغربی اثرات سے مغلوب ہوچکا ہے۔
اسلامی ریاست کے تصور کے بارے میں جدید الخیال مغرب زدہ افراد کے شکوک و شبہات کے ازالے کے طور پر محمد اسد نے تین امور کو صراحت و وضاحت سے بیان کیا:
۱- اسلامی ریاست کا مطلب ہرگز تھیاکریسی (پاپائیت) نہیں۔ اسلام میں قرون وسطیٰ کی ’مسیحی پاپائیت‘ جیسے کسی ادارے کا قطعاً کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ اسلامی ریاست میں قانونی و تشریعی معاملات اور دین کی تعبیروتشریح کے معاملے میں کسی خاص مذہبی گروہ کی اجارہ داری کی کوئی گنجائش نہیں۔
اسد لکھتے ہیں: ’’اسلام میں پادریوں کی تنظیم جیسا کوئی نظام موجود نہیں اور نہ کوئی ایسا ادارہ پایاجاتاہے،جسے مسیحی کلیسا کے مترادف سمجھا جائے۔ اسلام میں ہر بالغ مسلمان کو حق حاصل ہے کہ وہ ہرمذہبی وظیفہ انجام دے۔ اسلام میں کوئی فرد یا گروہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسے مذہبی وظائف کی بجاآوری میں کوئی خاص تقدس اور اجارہ داری حاصل ہے، لہٰذا،اسلامی ماحول میں تھیاکریسی (پاپائیت) کی اصطلاح سراسر بے معنی ہے۔ البتہ اسلامی ریاست میں تمام قوانین کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے‘‘۔
۲- اسلامی قانون جامدوفرسودہ (out dated) ہرگز نہیں ہے، بلکہ حرکی اور ہر لمحہ ارتقا پذیر ہے۔ وہ ثبات و تغیّر کی خصوصیات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے اور ہر دور کے انسانی معاشرے کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شریعت کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اجتہاد کو بروئے کار لاکر ہر دور کی ضروریات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے قانون سازی کی جاسکتی ہے۔
۳- اسلام ایک خودکفیل ضابطۂ حیات ہے۔ یہ روحانیات و اخلاقیات ہی میں نہیں بلکہ انسانی زندگی کے جملہ مادی و دنیوی معاملات، معاشرے کی تنظیم اور ریاست کی تعمیروتشکیل کے باب میں بھی رہنمائی و ہدایات فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اس خودکفیل نظامِ حیات کی موجودگی میں معاشرہ اور ریاست کی تنظیم و تشکیل کے سلسلہ میں مسلمانوں کو مغرب کے سیاسی و اقتصادی نظاموں کو اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ قرآن و سنت کے نصوص نے ریاست کی تعمیروتشکیل کے بارے میں جو بنیادی اور رہنما اصول متعین کیے ہیں ان کی موجودگی میں مغرب کی غیراسلامی تہذیب کے ساختہ و پرداختہ سیاسی و معاشرتی تصورات کی تقلید کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ مغرب کے لادینی سیاسی اصول و تصورات کی تقلید کا صاف صاف مطلب اسلام کے اس دعویٰ کو جھٹلانا ہے کہ وہ ایک دین کامل ہے۔
۴- سیکولر ریاست کا تصور خود نظریۂ پاکستان کے بھی سراسر منافی و متصادم ہے۔ اس کی تقلید و نقالی سے پاکستان کے قیام کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ ایک ایسی ریاست، جس کا قیام اسلامی نظریے کی اساس پر عمل میں آیا ہے، اس کی تعمیروتشکیل میں مغرب کے غیر اسلامی سیاسی تصورات کی تقلید و نقالی کی روش اختیار کرنا گویا اس ریاست کی بنیادوں کو مسمار کرنا ہے۔ اسد رقم طراز ہیں:
The Islamic scheme of the State precludes, of course, an imitation of political concepts evolved in non-Islamic (Western) civilizations... The Prophet's Message visualises a polity. Those who blindly subscribe to non-Islamic political concepts, not only deny, by implication, Islam's claim to completeness in the ideological sense, but also militate against the idea of Pakistan as such: for, if Islam is not to be the guiding principle of the State, why have a "Muslim" state at all?? But this is just what many of our intelligentsia seem unable to grasp. They do not realise that a state devised in the name and for the sake of a religious community must be, in the very nature of things, an ideological state: otherwise the innermost purpose of our creating a state is defeated.
اسلامی ریاست کا تصور بلاشبہہ غیراسلامی (مغربی) تہذیبوں کے سیاسی تصورات کی تقلید کو خارج از امکان قرار دیتا ہے…رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام (تعلیمات) میں ایک ایسی ریاست و حکومت کا تصور موجود ہے، جو اپنی ماہیت میں تخلیقی نوعیت کی ہے [اس میں حالات وزمانہ کے تقاضوں کی رعایت موجود ہے] وہ لوگ جو اندھا دھند غیراسلامی سیاسی تصورات و نظریات کے مقلد محض ہوگئے ہیں، محض اس زعم میں کہ وہ اس کو ’جدید‘ خیال کیے بیٹھے ہیں، [اس طرح] وہ نہ صرف یہ کہ اسلام کے جامع و کامل دین ہونے کا انکار کر بیٹھتے ہیں بلکہ ان کا یہ طرزِ فکروعمل پاکستان کے اس تصور و نظریہ کے بھی صریح طور پر متصادم و منافی ہے۔[سچی بات تو یہ ہے کہ] اگر اسلام کو ریاست و حکومت کا رہنما اصول نہیں مانا جاتا ہے تو پھر ایک [نام نہاد] مسلمان ’ریاست‘ کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ یہ وہ حقیقت ہے جو ہمارے دانش وروں کے فہم سے بالاترہے۔ وہ اس بات کا ادراک نہیں کرپا رہے کہ وہ ریاست جو مذہب کے نام پر اور ایک مذہبی قومیت کے لیے بنائی گئی ہے، کو لازماً فطری طور پر ایک نظریاتی ریاست ہونا چاہیے۔ بصورتِ دیگر ایک ریاست کےقیام کا ہمارا بنیادی مقصد شکست و ریخت سے دوچار ہوجائے گا۔
۵- سیکولر ریاست، انسان کو حقیقی مسرت و شادمانی سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔ سیکولر ریاست کے مقابلے میں اسلامی ریاست کا قیام نہ صرف زیادہ آسان اور قابل عمل ہے بلکہ وہ ملت اسلامیہ کے سماجی و اقتصادی اور تہذیبی و معاشرتی مسائل کے حل کی ضمانت بھی فراہم کرتی ہے۔ اسلامی ریاست حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بن سکتی ہے اور ان کو حقیقی مسرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتی ہے۔ اگر ملت اسلامیہ نے مغرب کے تہذیبی اور سیاسی واقتصادی نظام کی تقلید کی، تو انجامِ کار وہ ان خرابیوں سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہ سکے گی، جن میں اس وقت مغربی دنیا مبتلا ہے۔ مغرب کے سیاسی و اقتصادی اور سماجی تصورات کی تقلید میں مسلمانوں کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے۔ مسلمانوں کی نجات اور فلاح کا راز اس حقیقت میں مضمر ہے کہ وہ اسلام کے اخلاقی و روحانی اصولوں کے مطابق اپنی ریاست قائم کریں۔
پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے تصور پر ملک کی ہندو اقلیت معترض ہی نہیں بلکہ اس کی شدید مخالف تھی۔ اس غیر مسلم اقلیت کو دراصل اسلامی ریاست کی تشکیل کی صورت میں اپنے سیاسی و قانونی، شہری اور مذہبی و ثقافتی حقوق کے تحفظ سے متعلق طرح طرح کے اندیشے لاحق تھے۔ چنانچہ غیر مسلم اقلیت (ہندوؤں) کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ ایک سیکولر پاکستان میں ان کے حقوق و مفادات کا زیادہ بہتر طور پر تحفظ ہوسکتا ہے۔ غیر مسلموں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے علمبردار بعض مسلم رہنما بھی ملک میں ہندو اقلیت کی موجودگی میں اسلامی ریاست کے قیام کو نامناسب خیال کرتے تھے۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اسلامی ریاست کے قیام سے غیر مسلم اقلیتوں میں تشویش پیدا ہوگی اور ملک عدم استحکام سے دو چار ہوجائے گا۔{ FR 808 }
محمد اسد کو غیر مسلموں کی اس تشویش یا بطورِ ہتھیار پیدا کردہ تشویش کا بخوبی احساس تھا۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں ہی انھوں نے اپنی اس رائے کا برملا طور پر اظہار کیا تھا کہ ’پاکستان میں ہندو اکثریتی علاقوں کی شمولیت کی صورت میں اسلامی ریاست کے تصور کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہوجائے گا‘۔ چنانچہ انھوں نے عام مسلم سیاسی قائدین اور رائے عامہ کے برعکس بنگال اور پنجاب کی دو دو حصوں میں تقسیم، یعنی ان صوبوں کے ہندو اکثریتی علاقوں کی بھارت کے ساتھ، جب کہ مسلم اکثریتی علاقوں کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی اسکیم کا پرجوش خیر مقدم کیا تھا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ بنگال اور پنجاب کے ان علاقوں کی، جہاں ہندو آبادی اکثریت میں ہے، پاکستان میں شمولیت اس ملک میں مسلم اور ہندوآبادی کے توازن پر اثر انداز ہوگی اور اس نوزائیدہ ملک میں ایک مؤثر و طاقت ور ہندو اقلیت کی موجودگی میں اسلامی ریاست کا قیام مشکل ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ پنجاب اور بنگال کے صوبوں کی تقسیم کو پاکستان کے لیے خوش آیند خیال کرتے تھے۔
بہرحال، پاکستان میں ایک قابل لحاظ غیر مسلم ہندو اقلیت کا شامل و موجود رہ جانا ناگزیر تھا۔ دریں صورت محمد اسد نے تحریک پاکستان کے آخری مرحلے میں، جب کہ تقسیم ہند کے منصوبے کو حتمی شکل دی جارہی تھی، پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق غیر مسلموں کی تشویش اور ان کے تحفظات و خدشات کے ازالہ کی کوششوں کو ضروری قرار دیا۔ البتہ انھوں نے غیر مسلموں کی تشویش کے ازالے اور ان کی دلجوئی کی خاطر اسلامی ریاست کے تصور سے دست بردار ہونے اور اسے پسِ پُشت ڈالنے کے خیال کی شدت سے مخالفت کی۔
محمد اسد نے یہ خیال پیش کیا کہ اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق غیر مسلم اقلیتوں کی تشویش اور ان کے ذہنوں میں موجود خدشات کے ازالے کی بہترین صورت یہی ہے کہ انھیں باور کرایا جائے کہ ہم مسلمانوں کا مقصد ملک کے سب شہریوں کے لیے، بلاتفریق مذہب و ملت، عدل و انصاف کا قیام ہے۔ اسلامی ریاست میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا۔ ہم مسلمانوں کے مفاد کی خاطر غیر مسلموں کا استحصال نہیں کرنا چاہتے بلکہ انسانی اخلاق کے بنیادی اصولوں کی بالادستی قائم کرنے کے متمنی ہیں۔ ہم ہر حال میں عدل و انصاف کی بالا دستی اور بے انصافی کے انسداد کے لیے جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔ اسد کی رائے میں یہ سمجھنا تو انتہائی حماقت ہے کہ اگر ہم اپنے اسلامی مقاصد پر زور نہیں دیں گے تو اس طرح سے غیر مسلم اقلیتوں کی تشویش دور ہوجائے گی، بلکہ ان کی تشویش دور یا کم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم صاف دلی اور پوری وضاحت کے ساتھ بتادیں کہ ہمارے ملی و اخلاقی مقاصد کیا ہیں اور پھر روزمرہ کی زندگی میں انھیں یہ مشاہدہ بھی کرادیں کہ ہمارے اسلامی و اخلاقی مقاصد اور ہمارے اعمال و افعال میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
محمد اسد نے خود بھی قیام پاکستان سے پہلے اور پھر بعد میں اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق غیر مسلموں کے خدشات و اعتراضات کے ازالے کی غرض سے ان پر یہ واضح کیا کہ ایک سیکولر مسلم ریاست کے بجائے ایک حقیقی اسلامی ریاست میں ہی زیادہ بہتر طور پر ان کی مذہبی و ثقافتی آزادی اور ان کے سیاسی و قانونی حقوق کا تحفظ ہوسکتا ہے۔ اسد نے قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں اپنی نشری تقریروں میںکہا:
When we demanded a state in which the Muslim nation could freely develop its own traditions, in which the genius of Islam could freely unfold, conferring light and happiness not only on Muslims but also on all the people of other communities who could choose to share our living-space with us. The establishment of the Muslim State of Pakistan could not and did not mean oppression of non-Muslims, and that, on the contrary, every one of our citizens, whether Muslim or non-Muslim, could always count on the protection which a civilized state is bound to accord to its loyal citizens, and which, in particular, Islam has enjoined on us with unmistakable insistence.
جب ہم نے ایک آزادمملکت کا مطالبہ کیا تھا کہ جس میں مسلمان [اسلامیانِ ہند] آزادانہ طور پر اپنی روایات کو پروان چڑھا سکیں تو ہمارا اس کے سوا مطالبہ کیا تھا کہ ہم امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔ ایک ایسی دولت مشترکہ کی تعمیر کرسکیں، جس میں اسلام کی عبقریت آزادانہ طور پر آشکارا ہوسکے، جو نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ ان دیگر طبقات و اقوام کو بھی ، جو ہم مسلمانوں کے ساتھ قدم بقدم اس ملک کو اپنے وطن کے طور پر منتخب کرلیں، روشنی (ظلمت سے نکال کرروشنی) اور مسرت سے سرفراز کرسکے۔ [بے شمار مواقع پر ہمارے رہنما جن میں قائداعظم سرفہرست ہیں، اس امر کی صراحت کرچکے ہیں اوردُنیا کے سامنے اس بات کو صاف طورپر کہہ چکے ہیں کہ] مملکت پاکستان کے قیام کا مطلب [اس ملک میں] ہرگز طور پر غیرمسلموں کو محکوم و مجبور بنا کر رکھنا نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس، اس مملکت کے ہر شہری کو بلاامتیاز مذہب و ملّت [جان و مال کا] وہ تحفظ حاصل ہوگا، جو ایک مہذب ریاست اپنے وفادار شہریوں کو عطا کرنے کی پابند ہوتی ہے، اور جس کا بطورِ خاص اسلام نے ہمیں تاکیداً پابند ٹھیرایا ہے ۔
جناب محمد اسد واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں:
The establishment of such a state [Islamic State] does not presuppose and cannot presuppose, an oppressive treatment of non-Muslim minorities: … In an Islamic State no non-Muslim should be afraid of being discriminated against or exploited for the benefit of the Muslim majority. Nor does Islam want us to exert any pressure on non-Muslims with a view to inducing them to embrace Islam. No, the only thing that, an Islamic state demands of every citizen, be he Muslim or non-Muslim, is a loyal co-operation towards common welfare on the basis of the social and economic laws which the Qur'an and the life example of our blessed Prophet have laid down for us.
اس طرح کی ریاست [اسلامی ریاست] کے قیام کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس کے غیرمسلم شہریوں [اقلیتوں] کے ساتھ ظالمانہ و غیرمنصفانہ برتائو کیا جائے۔ اسلامی ریاست میں کسی غیرمسلم کو اس بارے میں کوئی خوف لاحق نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ مسلمانوں کے مفاد کی خاطر امتیازی سلوک کیا جائے گا یا اس کا استحصال کیا جائے گا۔ اسلام ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نہ غیرمسلموں کے ساتھ ظلم و زیادتی روا رکھی جائے، اور نہ انھیں ڈرا دھمکا کر حلقہ بگوش اسلام بنایا جائے۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہاں، وہ واحد چیز جس کا اسلامی ریاست اپنے ہرشہری سے تقاضا کرتی ہے [خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم] کہ وہ اجتماعی بہبود و مفاد کے لیے ریاست کے ساتھ وفادارانہ و خیرخواہانہ تعاون ہے۔ اس اجتماعی بہبود کی بنیاد ایسے سماجی و اقتصادی قوانین پر استوار ہے، جن کی صراحت ہمارے لیے قرآنِ حکیم اور اسوئہ رسالتؐ میں ملتی ہے۔
محمد اسد اسلامی ریاست کے تصور کے مخالفین کی اس رائے کو ہرگز درخور اعتناء نہیں سمجھتے کہ اسلامی ریاست کے قیام سے دنیا کی رائے عامہ کے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ ان کے نزدیک عظیم اقوام کے مقدر کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ ان کی معاصر اقوام اصولاً ان کے اغراض و مقاصد سے اتفاق یا اختلاف کرتی ہیں بلکہ ان کے مقدر کا انحصار ان کے اغراض و مقاصد کی روحانی طاقت یا کمزوری پر ہوتا ہے۔ اسد کے خیال میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام اور اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے سچی کوشش، مذکورہ خدشات کے برعکس، دنیا بھر میں تجدیدو احیائے اسلام کا دروازہ کھول دے گی ’’اگر ہم حیران و سرگرداں انسانیت کو یہ ثابت کردکھائیں کہ اسلام یقینی طور پر انسانیت کے سماجی اور سیاسی امراض کا حل پیش کرتا ہے تو جلد یا بدیر تمام مسلم اقوام لازمی طور پر ہمارے پیچھے چلیں گی‘‘۔ (جاری)
انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ ماہ و سال کا سفر اسے آخرت کا سبق بھی بھلا دیتا ہے، لیکن نہایت قریبی ساتھیوں، اور خاص طور پر لڑکپن کے زمانے سے ہمدرد اور ہمہ دم دوستوں کی رحلت، بڑی شدت سے آخرت کی حقیقت یاد دلاتی ہے۔ برادرم محمدحاشرفاروقی کی جدائی (۱۱جنوری ۲۰۲۲ء) کے صدمے سے ابھی نہیں نکلا تھا کہ بھائی حسین خان کے انتقال کی خبر نے نڈھال کر دیا__ انا لِلّٰہِ وانا الیہ رٰجعون
میری یادداشت کے سامنے وہ منظر تازہ ہوگیا کہ ۱۹۵۱ءمیں خالق دینا ہال میں مولانا مودودیؒ کی تقریر سننے کے بعد روشن چہرے اور پُرعزم جذبوں سے سرشار ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی، جو دل و جان سے جمعیت کے ساتھ وابستگی رکھنے اور دعوت کو سمجھنے کے لیے جوش و ولولہ لیے ہوئے تھا۔ اس نوجوان کا نام حسین خان تھا، جو حیدرآباد دکن سے ہجرت کرکے پچھلے ہی سال کراچی آئے تھے۔
چند ہی ملاقاتوں کے بعد میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ نوجوان تعلیم میں بھی اچھے ہیں، مطالعے کا بھی بہترین ذوق رکھتے ہیں اور طلبہ سیاسیات کے رموز کو بھی بہت خوبی سے جانتے پہچانتے اور بصیرت کے ساتھ آگے بڑھ کر کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ عبداللہ جعفر صدیقی بھائی نے ان کی تربیت پر حسب ِ ذوق خصوصی توجہ دی، یوں بہت جلد جمعیت کے رکن بنے اور کراچی جمعیت کےاہل الرائے رفقا میں شمار ہونے لگے۔
جب ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۵ء کے دوران میں ارکانِ جمعیت نے مجھے نظامت اعلیٰ کی ذمہ داری سونپی، تو میں نے حسین خان بھائی کو جمعیت کا مرکزی سیکرٹری (معتمدعمومی) مقرر کیا۔ انھوں نے بڑی دل جمعی کے ساتھ جمعیت کی تنظیم کو مضبوط بنانے اور مقامات سے رابطہ رکھنے اور اُمیدوارانِ رکنیت کی تربیت کانظام وضع کرنے کے لیے دن رات ایک کرکے اپنی بہترین صلاحیتیں لگادیں۔ اس طرح انھوں نے نظامت کی ذمہ داری میں شراکت کا حق ادا کیا۔
پھر میرے بعد اکتوبر ۱۹۵۵ء میں حسین خان اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے، اور اگلے سیشن کے لیے بھی ۱۹۵۶ء میں انھی کا انتخاب ہوا۔ لیکن انھوں نے جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے مرکزی شوریٰ کے سامنے یہ عرض داشت رکھی کہ مجھے نظامت ِاعلیٰ کی ذمہ داری سے فارغ کر دیا جائے، میں مشرقی پاکستان میں جاکر جمعیت کی دعوت و تنظیم کا کام کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل انھوں نے ۱۹۵۶ء میں مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران یہ دیکھا کہ تنگ نظر بنگلہ قوم پرستی اور سوشلسٹ تحریک کے بالمقابل، مختلف تعلیمی اداروں میں اُن کی تقاریر نے وہاں کے طلبہ پر اچھا نقش چھوڑا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے گھربار کا آرام ترک کرنے اور تعلیم چھوڑ کر مشرقی پاکستان منتقلی کا فیصلہ کرکے شوریٰ کو اپنی رائے کی تائید پر قائل کرلیا۔ یوں مرکزی مجلس شوریٰ نے ان کی جگہ برادرم ابصار عالم کو ناظم اعلیٰ منتخب کرلیا اور یہ ڈھاکا چلے گئے۔
ڈھاکا پہنچ کر انھوںنے وہاں کے مقامی رفقا محمدعلی کو ناظم مشرقی پاکستان اور قربان علی کو معتمد صوبہ مقرر کرکے، ان کے ایک معاون کے طور پر کام شروع کر دیا، اور ترجیحی طور پر بنگلہ زبان سیکھنےپر توجہ دی۔ انھی کی تجویز پر ڈھاکا میں مستحق اور نادار طلبہ کے لیے ایک ہاسٹل قائم کیا گیا، جہاں سے جمعیت کو بڑے ہونہار کارکن ملے، جنھوں نے تحریک کے لیے شان دار خدمات انجام دیں۔
حسین خان کی ان روز و شب کی سرگرمیوں سے مشرقی پاکستان جمعیت کی جڑیں مضبوط ہوگئیں۔ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو ارکان نے لاہور میں سالانہ اجتماع کے دوران نظامت ِاعلیٰ کا انتخاب بھی عجیب صورت میں کیا۔ ۸؍اکتوبر کو پاکستان میں تو مارشل لا لگ گیا، مگر اپنے پروگرام کے مطابق ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳؍اکتوبر کے گیارھویں سالانہ اجتماع کے لیے کچھ ارکان لاہور پہنچ گئے۔ حالات کی سنگینی دیکھ کر، جمعیت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے حسین خان بھائی کو ناظم اعلیٰ منتخب کرلیا۔ ساتھ میں مارشل لا نے جمعیت پر پابندی عائد کردی، اور یہ پابندی کا دور جون ۱۹۶۲ء کو مارشل لا کے اختتام پر ختم ہوا، تب اکتوبر ۱۹۶۲ء کو شیخ محبوب علی جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ یوں حسین خان نے ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۲ء تک پابندی کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے بڑے کٹھن حالات میں یہ ذمہ داری ادا کی۔
عملی زندگی میں قدم رکھا تو انھوں نے چٹاگانگ کو اپنا مستقر بنایا۔ حسین خان بھائی کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کمیونسٹوں اور قوم پرستوں سے گریز کے بجائے، ان سے مکالمہ رکھنے، تعلقات بنانے، اپنی بات ان تک پہنچانے اور ان کی حکمت ِعملی کو سمجھ کر تحریک کے لیے راہیں کشادہ کرنے کی دُھن میں رہتے۔ اس لیے بلاشبہہ مشرقی پاکستان میں سب سے پہلے خواجہ محبوب الٰہی بھائی نے جمعیت کے کام کو آگے بڑھایا، لیکن اس کو مضبوط بنیادوں پر تناور درخت حسین بھائی نے بنایا۔
چٹاگانگ میں کاروں کی کمپنی کی ملازمت کے دوران بہت سے تحریکی رفقا کو ملازمتیں دلائیں اور چٹاگانگ میں تحریک کے کام پر اپنا گہرا نقش مرتسم کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈھاکا میں خرم بھائی کی توجہ سے تحریک کے کارکنوں پر تربیت کا رنگ نمایاں تھا اور چٹاگانگ میں حسین بھائی کے ہاتھوں سیاسی اور اجتماعی اُمور میں آگے بڑھنے کا ذوق گہرا تھا۔ چٹاگانگ میں جماعت اسلامی کے فیصلے اور حسین خان بھائی کے ذوق کے مطابق انھیں مزدوروں میں کام کی ذمہ داری سونپی گئی، جہاں انھوں نے چٹاگانگ ریلوے میں کمیونسٹ مزدور یونین کو ۲۰برس بعد شکست سےدوچار کیا۔ بہرحال، ۱۹۶۵ء میں ٹوکیو یونی ورسٹی میں اکنامکس میں داخلہ لیا، اور پھر تادمِ آخر جاپان ہی کے ہوکر رہ گئے۔
جاپان میں ان سے قبل عبدالرحمٰن صدیقی صاحب اور عراق کے ڈاکٹر صالح مہدی سامرائی دعوتِ دین کی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ یاد رہے صالح مہدی، زرعی کالج فیصل آباد میں زیرتعلیم تھے، اور یہیں سے میرے رابطے میں آئے،جنھیں مَیں عربی اور انگریزی میں مولانا محترم کی کتب بھیجتا رہا اور جب ’مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن، جاپان‘ کی دعوت پر حسین بھائی ٹوکیو پہنچے، تو اب یہ قافلۂ راہِ حق تین ساتھیوں پر مشتمل ہوگیا۔
یہاں جاپان کے نومسلم حاجی عمرمیتا نے رسالہ دینیات کا جاپانی میں ترجمہ کیا، جو آج تک ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوچکا ہے۔ قبل ازیں قرآن کریم کے جاپانی زبان میں پانچ چھے غیرمستند ترجمے شائع ہورہے تھے۔حسین خان بھائی نے جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے صدر عبدالکریم سائتو اور حاجی عمرمیتا کے ساتھ مشورہ کیا کہ درست ترجمۂ قرآن شائع کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ہرہفتے اکٹھے ہوکر حسین بھائی، حاجی عمر مرحوم کو تفہیم القرآن سے جاپانی میں ترجمۂ قرآن کے لیے معاونت دیتے۔ یوں پانچ سال کی مسلسل کوشش کے بعد، فی الحقیقت مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآن کو جاپانی میں رواں اور مستند ترجمۂ قرآن کا رُوپ دینے کا کارنامہ انجام دیا۔
گذشتہ کئی برسوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ تفہیم القرآن کا جاپانی میں ترجمہ مکمل کرلیں۔ اس مقصد کے لیے جتنی پیش رفت ہوتی، اسے وہ شائع کر دیتے، مگر یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔
عزیزم سلیم منصور نے مجھے بتایا ہے کہ تین ماہ پہلے دسمبر میں حسین خان بھائی نے انھیں فون پر تاکید سے کہا کہ ’’پاکستان میں بی ایس، ایم اے، ایم ایس سی، ایم فل، پی ایچ ڈی اور ہائرایجوکیشن کے طلبہ و طالبات تک تفہیم القرآن پہنچانے کا بجٹ بتائیں اور ان تک پہنچانے کی اسکیم بنا کر بھیجیں‘‘۔ میں نے بتایا کہ یہ تعداد چار لاکھ نفوس تک ہے، اور اس مقصد کے لیے ڈھائی ارب روپے سے زیادہ اخراجات ہوں گے تو وہ کہنے لگے: ٹھیک ہے، مجھے متعلقہ پریس کی تفصیل بھیجیں کہ کہاں رقم بھجوائوں اور اس بجٹ میں جو رائلٹی بنتی ہے، سب سے پہلے وہ مولانا محترم کے بچوں کو دوں گا‘‘۔ انھیں کہا کہ ’’چین، ترکی یا بیروت سے کام ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان میں نہ تو کوئی پریس اتنا بڑا کام کرسکتا ہے اور نہ جلدبندی اور کاغذ کی فراہمی آسانی سے ممکن ہوگی‘‘ تو کہنے لگے: ’’میرے لیےان تینوں ملکوں میں معاملہ کرنا زیادہ آسان ہوگا‘‘۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ کام بڑا بھاری تھا، اور اس کے لیے نقشۂ کار اس سے بھی زیادہ کٹھن تھا۔ نتیجہ یہ کہ میں کچھ نہ کرسکا‘‘___ اس واقعے سے آپ ان کی لگن اور قرآن سےمحبت کا پیمانہ دیکھ سکتے ہیں۔
حسین خان، جاپان میں پاکستان کے عوامی سفیر تھے اور دعوتِ دین کے رہبر اور مسلم اُمہ کے مسائل و مشکلات کو پیش کرنے والے دلِ بے تاب۔ دسمبر ۱۹۶۸ء میں جب مَیں نے ماہ نامہ چراغِ راہ کراچی سوشلزم نمبر شائع کیا تو اُس میں انھوں نے ایک علمی مقالہ ’سوشلزم اور معاشی ترقی‘ تحریر کیا۔ جسے مولانا مودودیؒ نے بہت مفید تحریر قرار دیا۔ وہ علمی کتب خریدنے، پڑھنے اور ان سے قیمتی نکات کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ آج اپنے مرحوم بھائی کو یاد کر رہا ہوں تو ۷۰برس کا سفر آنکھوں کے سامنے آگیا ہے۔ وہ ۲فروری ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے اور ۱۹مارچ ۲۰۲۲ء کو زندگی کا سفر مکمل کرکے اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خطائوں کو معاف فرمائے اور صدقاتِ جاریہ میں برکت عطا فرمائے، آمین!
عرب ممالک، خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے کاروباری روابط روز بہ روز گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ انھوں نے بھارت کے ساتھ صرف معاشی، دفاعی اور خفیہ کاری کے میدان میں ہی تعلقات کو غیرمعمولی وسعت نہیں دی ہے، بلکہ کئی ایک ’مطلوب‘ افراد کو بھارت کے حوالے کیاگیاہے، جنھیں بھارتی حکام مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد میں سرگرم گروہوں سے وابستہ قراردیتے تھے۔
جنوری ۲۰۰۶ء کے آخری ہفتے میں سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ نے بھارت کا دورہ کیا، اور دونوں ممالک نے اگلے برسوں میں تیزی سے دوطرفہ تعلقات کو استوار کرنا شروع کیا۔ بعدازاں دفاعی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے اور ’اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کونسل‘ تشکیل دی گئی۔ چنانچہ دونوں ممالک میں ’انسداد دہشت گردی‘ کے نام پر سیکورٹی تعاون میں مسلسل اضافہ ہوا۔
سعود ی عرب اور متحدہ عرب امارات، عالمی اور علاقائی معاملات میں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور باہمی مشاورت سے ہر میدان میں ہم قدم ہوکر پیش رفت بھی کرتے ہیں۔بھارت کے حوالے سے دونوں ممالک لگ بھگ یکساں پالیسی پر کاربند ہیں۔
فروری ۲۰۲۲ء میں سعودی فوجی سربراہ نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا۔ یہ دونوں ممالک دفاعی میدان میں تعاون کے دائرہ کار کو تیزی سے وسعت دے رہے ہیں۔ ۲۰۱۸ء سے بھارت اور سعودی عرب کی مسلح افواج کے مابین اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے جاری ہیں۔ بھارت کے دفاعی تربیتی اداروں میں شاہی سعودی افواج کے افسران کی تربیت پر اتفاق ہوچکا ہے۔ پھر سعودی عرب اور بھارت کی بحریہ کے درمیان تعاون کا سلسلہ کافی گہرا ہوچکا ہے۔ اگلے مرحلے پر سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بھارت کے مابین مشترکہ فوجی مشقیں، عسکری عہدے داروں کے تبادلے اور مشترکہ طور پر اسلحہ سازی کے شعبوںمیں تعاون کا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔
سالِ رواں فروری میں متحدہ عرب امارات اور بھارت کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے میں طے پایا ہے کہ ’’دونوں ممالک اپنے موجودہ تجارتی حجم جو۶۰؍ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے، اسے بڑھا کراگلے پانچ برسوں میں سو ارب ڈالر تک لے جائیں گے‘‘۔ اسی دوران متحدہ عرب امارات نے مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ شارجہ سے سری نگر کے لیے شہری ہوابازی کی پروازیں بھی شروع کی جاچکی ہیں۔ حکومت پاکستان نے اس پیش رفت پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، تاکہ عرب امارات کے ساتھ کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو۔
بھارت کی جانب خلیجی ریاستوں کے موجودہ رجحانی پس منظر میں کئی محرکات کارفرما ہیں۔ مثال کے طور پر دونوں ممالک کی قیادت کو احساس ہے کہ تیل پر دنیا کے انحصار کی مدت تھوڑی رہ گئی ہے۔ وہ تیل کے متبادل معیشت کھڑی کرنے کے لیے سرپٹ دوڑ رہے ہیں ۔ تیل پر دنیا کا انحصار ختم ہونے سے قبل وہ اپنے ملکوں کو عصر حاضر کی کاروباری صنعتوں، یعنی آئی ٹی، سیاحت اور دیگر ذرائع سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔اس پس منظر میں وہ بھارت میں کاروبار کے خاصے مواقع دیکھتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات آبادی اور رقبے میں چھوٹا ملک ہونے کے باوجود کاروبار، تجارت اور سیاحت کے شعبوں میں سعودی عرب سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ سعودی عرب کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ کاروباری تعلقات کے فروغ کے نتیجے میں اسٹرے ٹیجک اہداف حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، اور وہ بھی عرب امارات کی طرح تیل کے بجائے دیگر ذرائع آمدن پیدا کرسکتاہے۔ چنانچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھارت میں انفراسٹرکچر اور تیل کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔
بھارتی حکومت نے اپنی جگہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی معاشی ترجیحات اور ہنرمند کارکنان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ کر خود کو ان ممالک کے لیے اسٹرے ٹیجک اور اقتصادی لحاظ سے مفید بنایا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مل کر بھارتی ہنرمندوں کی اپنے ممالک میں آمد کو آسان بنانے کے لیے ملکی قوانین میں بھی نمایاں تبدیلی کررہے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ بھارتیوں کی آمد ممکن ہو۔
امریکا انسانی حقوق اور جمہوریت کا دَم بھرنے کے باوجود خلیجی ریاستوں میں بادشاہوں کو مفید حلیف تصور کرتا ہے کہ مالی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ ان ممالک کو شیر وشکر کرادیا ہے۔اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے استوار ہونے کے ساتھ ہی بھارت کے لیے مشرق وسطیٰ کے دروازے چوپٹ کھل گئے۔ عرب ممالک کے اسرائیل کے تئیں بدلتے رویوں اور پالیسی سے بھی پاکستان اور ان ممالک کے تعلقات بالواسطہ طور پر متاثر ہو ئے ہیں۔ پاکستانی حکام نے تمام دباؤ کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا۔ اس کے برعکس بھارت اور اسرائیل کے درمیان تعلقات دفاع اور انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی منتقلی جیسے حساس شعبوں میں دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔
عرب ممالک اور بھارت میں ایک اور قدر مشترک امریکا کے ساتھ گہرے دوستانہ اور کاروباری روابط ہیں۔ دنیا میں جو نئی سرد جنگ شروع ہوچکی ہے، اس میں امریکی حکام، پاکستان سے محدود تعلقات رکھنے تک رہنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی چین کے ساتھ شراکت بھی امریکیوں کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان عشروں سے پائی جانے والی خلیج اب کشیدگی اور تناؤ کے قالب میں ڈھل چکی ہے۔علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ کے ممالک کے نزدیک پاکستان کی سوچ اور خارجہ حکمت عملی ایران، امریکا اور اسرائیل کے حوالے سے ان ممالک کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی۔
یمن اور سعودی عرب کی جنگ کے دوران ۹مارچ ۲۰۱۵ء کو پاکستان کے وزیرخارجہ نے سعودی خواہش پر وہاں پاکستانی فوج بھیجنے سے انکار کیا، اور۱۰؍اپریل کو پاکستانی پارلیمنٹ نے اس فیصلے کی توثیق کی۔ یہ فیصلہ سعودی عرب اورعرب امارات کو بہت ناگوار گزرا۔ اس دوران بھارت کو مزید موقع ملا کہ وہ ان ممالک میں اپنا اثرورسوخ تیزی سے بڑھائے اور پاکستان کے روایتی اثر و نفوذ کو کم کرے،حتیٰ کہ ان ممالک کا پاکستان کے دفاعی اداروں پر انحصار کم کرائے۔
پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کا ایک سبب مسئلہ کشمیر بھی ہے۔ گذشتہ ایک عرصے سے یہ ممالک مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کے لیے نہ آواز اٹھا تے ہیں اور نہ کسی فورم پر پاکستانی نقطۂ نظر کی طاقت ور حمایت کرتے ہیں۔ اسی لیے گذشتہ برس اگست میں پاکستانی وزیرخارجہ نے اس معاملے پر سعودی قیادت اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کو آڑے ہاتھوں لیا جس پر سعودی عرب نے ناراضی کا اظہار کیا تھا اور پاکستان کو دی گئی اُدھار رقم بھی واپس مانگ لی گئی تھی۔
عالم یہ ہے کہ مارچ ۲۰۱۹ء میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ابوظہبی میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔حالانکہ محض ایک ماہ قبل بھارت اور پاکستان کی فضائی جھڑپوں میں کم از کم ایک بھارتی جنگی طیارہ مار گرایا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ان ممالک کو پاکستان کی مختلف امور میں حساسیت کی کوئی پروا نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک خاص طور پر متحدہ عرب امارات کی قیادت، عالمی کھلاڑی کی شناخت چاہتی ہے، نہ کہ ایک علاقائی ملک کا درجہ۔ اس کے سیاسی عزائم کی بلندی کو مالی وسائل، دُنیابھر کے سیاحوں کے لیے مخصوص ماحول کی فراہمی اور کامیاب سفارت کاری کے آدرش مضبوط سہارا دیتے ہیں، جب کہ پاکستان اس کھیل میںانھیں موزوں نہیں لگتا۔
۲۵ لاکھ پاکستانی ہنر مند سعودی عرب میںاگرچہ ابھی تک مقیم ہیں، لیکن اب سعودی عرب کو بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان، نیپال، فلپائن اور دنیا کے دیگر علاقوں سے سستی اور نرم شرائط پر لیبر دستیاب ہوجاتی ہے۔دوطرفہ تجارت کی صورتِ حال بھی گراوٹ کا شکار ہے۔ ہمارا موجودہ تجارتی حجم ۶ء۳ ؍ ارب ڈالر ہے اور اس میں درآمدی حصہ ۲ء۳ ؍ ارب ڈالر ہے۔ بیشتر حکومتوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی شراکت داری کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس سعودی عرب اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم ۳۳؍ ارب ڈالرسے تجاوز کرچکا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے دوطرفہ تعلقات کا ماضی قریب میں زیادہ تر دارومدار دفاعی یا اسٹرے ٹیجک نوعیت کارہا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی اداروں کے درمیان تعلقات، ساٹھ کے عشرے سے بہت گہرے اور دوستانہ رہے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب کے ہزاروں فوجیوں کو عسکری تربیت فراہم کرتاہے اور اس کی فوج بھی سعودی عرب میں تعینات ہے۔ ان دوطرفہ تعلقات میں ناہمواری دُور کرنے میں پاکستان اور سعودی عرب کی عسکری قیادت کا بنیادی کردار رہاہے۔
روایتی طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج پر پاکستان کاگہرا اثرونفوذ رہاہے،جس کی وجہ سے وہ بھارت سے دُور رہے۔ایک زمانہ وہ تھا کہ متحدہ عرب امارات کے پہلے پانچ ایئر چیف پاک فضائیہ کے افسر رہے ہیں۔ پاکستان ۱۹۶۷ء سے مسلسل سعودی عرب کی فوج اور فضائیہ کے لیے تربیت کار مہیا کرتا آیا ہے۔ پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب میں تعینا ت ہیں، حتیٰ کہ پاکستانی کمانڈوز، دارالحکومت ریاض میں شاہی خاندان کی حفاظت پر بھی مامور ہیں۔
مگر اب بھارت، پاکستان کو ایسے میدانوں سے بھی بے دخل کررہاہے، جہاں پہلے پاکستان کی بالادستی تھی۔ بھار ت کے ان ممالک کے دفاعی اداروں کے ساتھ تعلقات میں نمایاں اور مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ چھے برسوں میں آٹھ دفعہ عرب ممالک کا دورہ کیا، جن میں تین بار متحدہ عرب امارات اور دو بار سعودی عرب کا۔ مسٹرمودی کو متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اکتوبر ۲۰۲۱ء میںسعودی عرب کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین اسٹرےٹیجک پارٹنرشپ کونسل کا قیام عمل میں آیا ۔ اس طرح بھارت، برطانیہ، فرانس اور چین کے بعد دنیا کا چوتھا ملک بن گیا، جس کے ساتھ سعودی عرب نے اسٹرے ٹیجک شراکت داری قائم کی ۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن کے مطابق بھارت کو سعودی عرب کے آٹھ اسٹرے ٹیجک شراکت داروں چین، برطانیہ، امریکا، فرانس، جرمنی، جنوبی کوریا اور جاپان میں سے ایک قراردیاگیا ہے۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۸ء میں بھارت نے سعودی عرب سے ۲۱ء۲؍ ارب ڈالر کا خام تیل درآمد کیا، پاکستان نے ۹ء۱ ؍ارب ڈالر کا درآمد کیا۔ سعودی کمپنیاں نہ صرف بھارت کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات سے فائدہ اٹھانے کی خواہاں ہیں، بلکہ انھوں نے زراعت اور ٹیلی کمیونی کیشن سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے دروازے کھول دیئے ہیں۔
پاکستان کے خلاف بھارت اور مغربی ملکوں کے منفی پراپیگنڈے کے نتیجے میں اب یہ عرب ممالک، پاکستان کی لیبرفورس سے بھی گریز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی بن فیصل نے ایک بار پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے بارے میں کہا تھا کہ ’’دنیا میں شاید ہی کوئی دو ممالک ایسے ہیں جن کے تعلقات پاکستان اور سعودی عرب کی طرح بغیر کسی معاہدے کے دوستانہ اور برادرانہ ہوں‘‘۔ پاکستانی حکام کو یہ تلخ حقیقت بھی یاد رکھنا ہوگی کہ سعودی یا اماراتی معاشی امداد اب اپنی قیمت بھی مانگتی ہے۔اگر پاکستان ان ممالک کے اشارے پر چلنے پر آمادہ نہیں اور متوازن یاآزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنا چاہتاہے تو اسے سعودی عرب کے آگے معاشی امداد کے لیے باربار درخواست کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ اب ان ممالک کی معاشی امداد یا قرض غیر مشروط نہیں رہیں گے۔ علاوہ ازیں سعودی عرب کے اعلیٰ عہدوں پر فائز بے شمار پاکستان نواز رہنما اب منظر نامہ پر نہیں رہے۔
پاکستان کو کئی عشروں کے بعد احساس ہوا ہے کہ کمزور معیشت والے ملک کو اس کی مضبوط فوج زیادہ دیر تک سہارہ نہیں دے سکتی ۔ پاکستان کے سول اور فوجی پالیسی سازوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان اب کسی علاقائی یا عالمی تنازعے میں نہیں اُلجھے گا۔ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کا علَم بردار بننا چاہتاہے۔ جغرافیائی محل وقوع کو معاشی اورتجارتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہوئے ترقی او ر خوش حالی حاصل کرے گا۔ اسی پس منظر میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے فروری ۲۰۲۱ء میں بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعلان بھی کیا تھا۔ لیکن بھارت کی طرف سے مطلوبہ جواب نہ ملنے کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری میں کوئی تبدیلی نہ آسکی۔
سعودی عرب، مسلم دنیا میں اپنی قیادت اور اسلامی ساکھ برقراررکھنے میں ابھی تک دلچسپی رکھتاہے، اور او آئی سی کے ذریعے مسلم دنیا کی سربراہی بھی اپنے پاس رکھنا چاہتاہے۔ اس لیے وہ پاکستان کو ترکی ، ایران اور ملائیشیا کی طرف کلی طور پر دھکیلنا نہیں چاہتا۔ اس منظرنامے میں خود پاکستان کے لیے لازم ہے کہ سعودی عرب کو اپنے قریب رکھنے کے حوالے سے طویل المیعاد منصوبہ بندی کرے۔
پاکستان کو عرب ممالک میں موجود تارکین وطن کو ہنر مند اور مفید شہری بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے ان ممالک کے تعمیراتی اور معاشی منصوبوں: سعودی ویژن ۲۰۳۰ء، کویت ویژن ۲۰۳۵ء اور عمان کا ویژن ۲۰۴۰ء کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ بیرون ملک ملازمت میں دلچسپی رکھنے والے کارکنوں کو ان منصوبوں کے لیے موزوں ہنر کی تربیت دی جائے، جس کے نتیجے میں وہ عرب ممالک کی لیبر مارکیٹ میں پائی جانے والی مسابقت میں حصہ لینے کے قابل ہوسکیں۔
پاک فوج کے سعودی افواج اور اداروں کے ساتھ گہرے تاریخی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک مشترکہ مشقوں اور تربیتی مشنوں سمیت کئی میدانوں میں دفاعی تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اس طرح کی سرگرمیوں کو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اسٹرے ٹیجک تعاون کے دائرے میں لانے اور مسلسل وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
سعودی اور اماراتی حکام اور شہریوں کے اندر پاکستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات کو برقرار رکھنا اور اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر ان ممالک کے ساتھ ہم آہنگی کا ہونا، پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ علاوہ ازیں ایسے اقدامات بھی کیے جانے ضروری ہیں، جن سے پاکستان، عرب ممالک کے لیے سرمایہ کاری کی ایک پرکشش منزل بن سکے۔
پاکستان کو اپنے معاشی اور اداراتی ڈھانچے کو جدید اور فعال خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، جو عہد حاضر کے تقاضوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔ سعودی عرب ۲۰۱۹ء میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتاتھا، لیکن حکومت پاکستان اپنے روایتی سُست رو طرزِعمل، بوجھل بیورو کریٹک زنجیروں اور فرسودہ قوانین کی وجہ سے ضروری اصلاحات نہیں کرسکی ۔تاہم، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ دیگر وجوہ کے علاوہ بڑے تجارتی لین دین میں پاکستان کی تکنیکی صلاحیت محدود ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان، سعودی سرمایہ کاری سے محروم ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کو ہر سطح پر کمزور کیا۔ ہر حکومت کو دھڑکا لگا رہتاہے کہ وہ آج گئی کہ کل گئی۔ الیکشن کی شفافیت کو تسلیم نہیں کیاجاتا۔ امرواقعہ ہے کہ مضبوط معیشت ہی ممالک کے درمیان پائے دار تعلقات کا جامع فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ ملکوں اور قوموں کے تعلقات میں محض مذہبی، تاریخی اور سماجی رشتوں پر انحصارعصر ی حالات میں کافی نہیں ہوتا۔ دوسروں کو بے وفائی کا طعنہ دینے کے بجائے پاکستان کو اپنے حصے کا کردار دل جمعی سے ادا کرنا ہوگا، اور ان کمزوریوں کی اصلاح کرنا ہوگی، جن کے نتیجے میں پاکستان کو بے وزن کیا گیا ہے۔
’ویانا ڈیکلیریشن‘ اور ’ورلڈ کانفرنس برائے انسانی حقوق‘ کے ایکشن پروگرام نے خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کا ناقابل تنسیخ، اٹوٹ اور ناقابل تقسیم حصہ قرار دیا ہے۔ بیجنگ ڈیکلیریشن اور ’پلیٹ فارم آف ایکشن‘ دونوں بین الاقوامی برادری کی دو عشروں سے زائد عرصے میں کی گئی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
اکیسویں صدی میں دُنیا نے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حالات میں خواتین کے لیے بڑی تبدیلیاں لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ خواتین پر تشدد ان کی ترقی اور پیش رفت میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔ مگر اس کے باوجود جنگ زدہ علاقوں میں خواتین کے حقوق کی پامالی بیسویں صدی کا ایک بڑا مسئلہ ہے جو انسانیت کی تذلیل کی علامت ہے۔
متعدد این جی اوز اور انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹ کے مطابق روانڈا، بوسنیا، کوسوو، میانمار، کشمیر اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں مسلح افواج کے ہاتھوں لاکھوں خواتین عصمت دری اور جنسی تشدد کا نشانہ بنیں۔ ان این جی اوز نے نوجوان لڑکیوں اور بزرگ خواتین کے ساتھ یکساں اجتماعی عصمت دری کے واقعات کی دستاویز بھی تیار کی ہیں۔ جن کے مطابق بعض اوقات خاندان کے مردوں کی موجودگی میں جنسی زیادتی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مسلح افواج کی جانب سے یہ عصمت دری درحقیقت بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کونسل سمیت تمام متعلقہ اداروں کو چاہیے جنگ اور خانہ جنگی کے دوران خواتین کی جنسی بے حُرمتی کی روک تھام کا بندوبست کریں تاکہ ہر صورت میں خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی ہو۔
'خواتین کے خلاف تشدد پر خصوصی نامہ نگار رپورٹ Special Rapporteur on Violence Against Women میں بتایا گیا ہے کہ عصمت دری دراصل طاقت، غصے اور جنسی بے راہ روی کا تباہ کن امتزاج ہے جو خواتین کے خلاف اس وحشیانہ تشدد کو ہوا دیتا ہے۔ عصمت دری سے متاثر خواتین 'ریپ ٹراما سنڈروم جیسے نفسیاتی عوارض میں مبتلا رہتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی زندگی اس خوفناک المیے کی قیدی بن کر رہ جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (UNHCR) نے ۸ جولائی ۲۰۱۹ء کو اپنی ’’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر رپورٹ‘‘ جاری کی، جو جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تصویری دستاویزات پر مشتمل ہے۔ یہ رپورٹ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی سنگین زیادتیوں کو بین الاقوامی سطح پر پیش کرنے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے، اور انسانیت کے خلاف بھارت کے گھنائونے جرائم سے پردہ اٹھاتی ہے۔
۴۹ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ایسے مخصوص واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق بھارتی حکومت کشمیری عوام کے خلاف انسانی شرافت اور جمہوری آزادی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ اس خونیں قبضے کے نتیجے میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ پھر بھیانک طریقوں سے مسلم خواتین کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے۔
۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ نے انڈیا کےمشن پر ’خواتین کے خلاف تشدد پر خصوصی نامہ نگار رپورٹ‘ تیار کی تھی، جس میں اس تشدد کے اسباب اور نتائج پر بتایا گیاکہ: ’’فوجی علاقوں میں رہنے والی خواتین، جیسے جموں اور کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں، مسلسل محاصرے اور نگرانی کی حالت میں رہتی ہیں، چاہے وہ اپنے گھروں میں ہوں یا باہر۔ تحریری اور زبانی دونوں شہادتوں کے ذریعے معلومات کے مطابق بھارتی سیکورٹی فورسز مبینہ طور پر خواتین کی اجتماعی عصمت دری کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگی، قتل اور تشدد اور ناروا سلوک کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ انسانی حقوق کی یہ سنگین خلاف ورزیاں وہاں کے لوگوں کو ڈرانے، دھمکانے اور سیاسی برتری حاصل کرنے کےلیے بہ طور ہتھیار استعمال کی گئیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ،’’ ایک اہم کیس جو ریاست کی ناکامی اور کشمیر میں جنسی جرائم کے مرتکب مجرموں کو سزا سے بریت دلوانے کو آشکار کرتا ہے، وہ کنن پوش پورہ میں تین عشرے قبل پیش آنے والا اجتماعی عصمت دری کا واقعہ ہے۔ ریاست اس واقعے میں ملوث ملزموں کی تحقیقات اور ان پر مقدمہ چلانا تو دُور کی بات، سرکاری حکام نے مختلف سطحوں پر انصاف کےحصول کےلیےبرسوں سے کی گئی کوششوں کو ناکام بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ایک زندہ بچ جانے والے مقامی اہلکار کے مطابق ۲۳ فروری ۱۹۹۱ء کی رات بھارتی۴ راجپوتانہ رائفلز رجمنٹ کے سپاہیوں نے ضلع کپواڑہ کے کنن پوش پورہ گاؤں کی ۲۳ خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’’زندہ بچ جانے والوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے کئی برس سے اس کیس کی آزادانہ تحقیقات کے لیے مہم چلائی ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اس مقدمے کی دوبارہ تحقیقات کرے اور اس سینئر اہلکار کے خلاف مقدمہ چلائے، جس نے جان بوجھ کر تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ ۱۸ جولائی ۲۰۱۳ء کو، کپواڑہ کی ضلعی عدالت نے ریاستی پولیس کو حکم دیا کہ وہ تین ماہ کے اندر اس کیس کی تحقیقات کرے۔ جب ان احکامات کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو پانچ لواحقین نے اکتوبر۲۰۱۳ء کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ خبروں کے مطابق جولائی ۲۰۱۴ء کو ہائی کورٹ نے کہا کہ سفارشات ثبوتوں کے مطابق ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ اور فزیشنز فار ہیومن رائٹس کی مشترکہ رپورٹ کے صفحہ ۷ پر کہا گیا ہے کہ ’’۲۳ فروری ۱۹۹۱ءکو کنن پوش پورہ گاؤں کی خواتین کے ساتھ ۴ راجپوتانہ رائفلز رجمنٹ کے فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں کی گئی عصمت دری کی رپورٹ امرواقعہ ہے، اور [بھارتی] مسلح افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے اور مجرموں کو سزا دینے میں حکومت غیر سنجیدہ اور ناکام ہے‘‘۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’یہ رپورٹ دوسری سیریز ہے، جسے ایشیا واچ اور پی ایچ آر مشترکہ شائع کر رہے ہیں۔ یہ ادارے اس رپورٹ کو شائع کرتے ہوئے پُراُمید ہیں کہ اس سے بین الاقوامی رائے عامہ کی توجہ کشمیر میں عصمت دری کو بہ طور جنگی ہتھیار استعمال کرنے اور ان حکومتی پالیسیوں کی طرف مبذول ہوجائے گی ، جن کی وجہ سے سیکورٹی فورسز بے خوفی سے یہ جرائم کر گزرتی ہیں۔ اس رپورٹ میں شامل مقدمات خود اپنی صداقت کی دلیل ہیں، جب کہ عصمت دری کے واقعات اس سے کہیں زیادہ ہوئے ہیں، جتنے یہاں درج کیے گئے ہیں‘‘۔
عام طور پر بھارت کی فوجی عدالتیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مقدمات کو نمٹانے میں نااہل ثابت ہوئی ہیں۔ انصاف کو یقینی بنانے کے بجائے وہ الٹا ثبوتوں کو چھپانے اور ملوث افسران کو تحفظ دیتی آرہی ہیں۔ اس رپورٹ میں (ایشیا واچ اور پی ایچ آر) میں تجویز دی گئی ہے کہ تمام فوجی یا نیم فوجی مشتبہ افراد کے خلاف عصمت دری کے مقدمات سویلین عدالتوں میں چلائے جائیں۔
پانچ بہادر کشمیر خواتین اسکالرز دستایزی ثبوت کے ساتھ پہلے صفحے پر لکھتی ہیں: ’’یہ کتاب کشمیر کے دو گاؤں میں ایک رات کے متعلق ہے۔ ایک ایسی رات کہ جو ۲۴ برس بعد بھی ناقابلِ انکار حقیقت ہے، ایسی خوفناک رات جس میں ایک طرف ظلم، درندگی، ناانصافی اور جھوٹ ہے اور دوسری طرف جرأت، بہادری اور سچائی کی المناک داستان ہے۔ یہ کتاب کنن پوش پورہ کے بارے میں ہے‘‘۔
وہ کتاب کے صفحہ ۲۵ پر اس رات کی ہولناکیاں ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں: ’’کوئی اس تاریک کمرے کو کیسے روشن کرسکتا، کوئی مایوسی کو امید سے کیسے بدل سکتا ہے، کیسے کوئی گھٹاٹوپ ماحول میں انصاف کی اُمید کرسکتا ہے؟‘‘کنن پوش پورہ کی کہانی کی تفصیلات بتانے سے پہلے ان پانچ مصنّفین کے حالات کو دیکھیے ، ہر ایک اپنی اپنی کہانی بتاتی ہے، اس کا سماجی اور معاشی پس منظر، کہ کس طرح اس کے خاندان نے اسے ماحول کی تباہ کاریوں سے بچانے کی کوشش کی، جو بڑے پیمانے پر تشدد کے نشانات سے خوف زدہ تھے، کہ کس طرح عصمت دری جیسے الفاظ کے استعمال سے اور بعض سوالات اٹھانے سے منع کیا گیا تھا، انھوں نےکیسے خوف اور عدم تحفظ کا مقابلہ کیا؟ ان میں سےہر ایک نے کیسے ڈراؤنے خواب دیکھے کہ اس کی بھی عصمت دری ہوسکتی ہے۔
کس طرح ایک اور خاتون نے اس خوفناک حادثے کا ذکر کیا جب عمر بڑھنے کے ساتھ اس کو پتا چلا کہ کئی برس پہلے، جب اس کی عمر بمشکل تین برس تھی، اس کے والد کو وردی میں ملبوس افراد نے اٹھالیا اور اسے نہایت بے دردی کے ساتھ زد و کوب کیا، جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی۔
ہر ایک نے اپنی ’بیداری‘ کے لمحات قلم بند کیے ہیں کہ ان سب دلیر خواتین نے کس طرح مشکل حالات سے گزر کر سچائی کو دریافت کیا؟ چاہے ان میں سے کسی کو دفن کیا گیا ہو یا بھلا دیا گیا ہو۔ اس طرح ان پانچ دلیر مصنفین نے جھوٹ کے جال کو چھان پھٹک کر تحقیقات سے سچائی کو واضح طور پر پیش کردیا۔
ڈاکٹر نذیر گیلانی نے ہیومن رائٹس کمیشن کے ۵۸ویں اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو جمع کرائے گئے تحریری بیان میں کہا: ۱۹۹۱ء میں کنن پوش پورہ میں کشمیری خواتین کی عصمت دری کے واقعے کے بعد اس نوعیت کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں۔ اور ’آدھی بیواؤں‘ کا مسئلہ (وہ عورتیں جن کے شوہر لاپتہ ہیں اور دوبارہ شادی نہیں کر سکتی ہیں) مظلوم کشمیری معاشرت کا رستا ہوا ناسور ہے۔ ہندستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خواتین بے بسی کی گہری کھائی میں ہیں۔
ان خواتین کی آبرو زیزی کے خلاف آواز اٹھانے کے دوران مزید کتنوں کے بے آبرو ہونے کا انتظار ہے؟ ایک بنیادی سوال ہے جو لاکھوں کشمیری خواتین کے ذہنوں میں ہے۔ یاد رکھیںکہ یہ خواتین نو لاکھ قابض بھارتی فوج کی عملاً حراست میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ویانا ڈیکلیریشن کے مطابق:’’خواتین کے حقوق عالمی انسانی حقوق کا ناقابل تنسیخ، اٹوٹ اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہیں‘‘۔ وہ عالمی برادری کے اس گونگے اندھے تماشائی طرزِعمل پر حیران ہیں کہ ابھی تک خواتین کے خلاف ریاستی سرپرستی میں ہونے والے انسانیت سوز تشدد پر کیا کارروائی کی گئی ہے؟
ایسے وحشیانہ تشدد کی شکار کشمیری خواتین پوچھتی ہیں: انسانی حقوق کے عالمی ڈکلریشن اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے ڈیکلیریشن کی رِٹ کو نافذ کرنے کے لیے ابھی تک کیا کارروائی کی گئی ہے؟
کشمیر میں مسلسل ظلم و جبر کی اس فضا نے وہاں کے باشندوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے پوری طرزِ زندگی کو تبدیل کردیا ہے ۔ وادی میں بچپن کا پورا تصور ایک بڑی بنیادی تبدیلی سے گزرا ہے۔ بچے نہ تو کنڈرگارٹن میں جاتے ہیں اور نہ کھلونوں سے کھیلتے ہیں، جس طرح عام طور پر بچے کرتے ہیں۔ وہ آزاد ماحول میں اپنے والدین کی نگہداشت میں پرورش نہیں پاسکتے کہ ان کے بچپن کی یادیں دہشت کی فضا، بے اطمینانی، اضطراب ، بدامنی، عدم تحفظ اور بے یقینی پر مشتمل ہوتی ہیں۔
کیا یہ رپورٹیں عالمی طاقتوں اور انسانی حقوق کونسل کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں؟ انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ریاست ، بھارت نہ صرف انسانی حقوق کی کونسل بلکہ سلامتی کونسل میں بھی بیٹھنے کی جرأت رکھتی ہے۔ عالمی برادری بھارت کی مذمت کیوں نہیں کرتی؟
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ کشمیری عوام کی حالت زار پر عالمی برادری کا ردعمل بنیادی طور پر کمزور اور ناقابل اعتبار رہا ہے۔ اس کے ساتھ اتنا ہی بڑا سچ یہ ہے کہ انسانی حقوق کی اس قدر بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کا نظامِ کار مؤثر نہیں ہے۔ مسلح تصادم اور خانہ جنگی کے حالات میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصادم کی بنیاد سے احسن طریق پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس تنازعے کی بنیادی وجہ حق خود ارادیت سے انکار ہے جس کا وعدہ اقوام متحدہ نے جموں و کشمیر کے عوام سے کیا تھا۔اقوام متحدہ کی اس بے عملی نے دُنیا کو بہت مایوس کیا ہے۔
ان جنگ زدہ علاقوں میں شکار بننے والی خواتین اور بچوں کی بحالی کے لیے خصوصی پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس گئی گزری صورتِ حال کے باوجود کشمیری، اقوام متحدہ سے انصاف اور دست گیری کی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن امید کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اس المناک صورتِ حال پر عالمی برادری کے نیم دلانہ ردعمل کی وجہ سے ہم اکثر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی بے حسی، بے عملی، اور خاموشی نے بلاشبہہ غیر ارادی طور پر کشمیر میں قابض انتظامیہ کو وحشت ناک ہونے کا راستہ دکھلایا ہے۔
یہ ۱۹۴۷ءکا پُر آشوب دور تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کے جموں خطے میں خود ڈوگرہ حکومت کے ایما پر مسلم کُش فسادات کی آگ انسانیت کو شرمسار کر رہی تھی۔ اکھنور کے علاقے میں ہندوسکھ فسادیوں کے ایک گروپ نے ایک مسلم خاندان کے مرد وں کو ہلاک کرکے، خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد انھیں مردوں کا گوشت پکانے اور پھر زبردستی کھانے پر مجبور کروایا۔ چند سال قبل جب کشمیر کے ایک سابق اعلیٰ سول افسر خالد بشیر کی تحقیق پر مبنی رپورٹ کو روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کے کالم نگار سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے جیسے ہی جموں کے ان خونریز فسادات کو اپنے کالم کا موضوع بنایا، تو تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔ جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی موٹی تہہ جم چکی ہے، کہ کوئی یقین ہی نہیں کر رہا ہے۔
اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ جمو ں میں ۶۹فی صد مسلم آبادی تھی، جس کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ روزنامہ دی ٹائمز، لندن کی ۱۰؍اگست ۱۹۴۸ء کی ایک رپورٹ کے مطابق: ’’ان فسادات میں چند ماہ کے اندر ۲ لاکھ۳۷ہزار افراد ہلاک ہوئے‘‘۔ جموں کی ایک سیاسی شخصیت رشی کمار کوشل نے مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ خود مسلمانوں پر گولیاں چلارہے تھے۔ اودھم پور کے رام نگر میں تحصیل دار اودھے سنگھ اور مہاراجا کے اے ڈی سی کے فرزند بریگیڈیئر فقیر سنگھ اس قتل عام کی خود نگرانی کررہے تھے۔
دوسری طرف انھی دنوں اس درندگی کے بالکل برعکس، وادیِ کشمیر میں کس طرح عام کشمیر ی مسلمان پنڈتوں، یعنی ہندوؤں کو بچانے کے لیے ایک ڈھال بنے ہوئے تھے۔ معروف صحافی و سیاسی کارکن پنڈت پران ناتھ جلالی اس کا ایک چشم دید واقعہ سناتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ شیخ محمد عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمامِ کار سنبھالی تو جلالی کو کشمیری پنڈتوں کی آباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاؤں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانے سے سپاہیوں کی کمک لے کر وہ اس گاؤں میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاؤں کے سرکردہ افراد کو بلا کر تفتیش کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی ، حتیٰ کہ ان کی خواتین و بچوں تک کو بھی نہیں بخشا۔ سبھی گائوں والے عذا ب تو سہتے رہے اور بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔
خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ایک پنڈت کے خالی مکان میں انھوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈال لیا۔ ایک رات، ایک سپاہی نے ان کو بتایا کہ رات گئے گاؤں میں لوگوں کی کچھ غیرمعمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے۔ اگلی رات پران ناتھ جلالی اور سپاہیوں نے ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ میل بھر چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ ’’نالے کے دوسری طرف ایک محفوظ اور تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گائوں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے‘‘۔ جلالی صاحب کہتے تھے کہ ’’ندامت سے میرے پائوں زمین میں گڑ گئے۔ گذشتہ کئی روز سے ہم نے ان گائوں والوں پر جس طرح ٹارچر کیا تھا، اس پہ پشیمان تھے۔ دراصل گائوں والے سمجھتے تھے کہ پولیس کے بھیس میں وہ لوگ پنڈتوں کو مارنے اور لوٹنے کی غرض سے آئے ہیں۔ اِن اَن پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت تو کیا، مگرکیا بچے کیا خواتین، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا راز افشا نہ کیا‘‘۔
اب حال ہی میں جس طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کٹر حامی وویک اگنہوتری کی لکھی اور ڈائریکٹ کی ہوئی ہندی فلم ’دی کشمیر فائلز‘ ۱۱مارچ کو نمایش کے لیے پیش کی گئی ہے۔ فلم میں ۱۹۹۰ء میں وادیِ کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ایسی کہانی کہ جو نہ صرف یکطرفہ ہے، بلکہ اس سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر پورے بھارت میں ان کا جینا دوبھر کیا جا رہا ہے۔ ایسا ہیجان برپا کر دیا گیا ہے کہ ایک ویڈیو میں ایک شخص فلم ختم ہونے کے بعد چیختے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ہندو بھائیوں سے میری اپیل ہے کہ ان (مسلمانوں) سے ہوشیار رہیں، یہ کسی بھی وقت ہم پر حملہ کرسکتے ہیں‘‘۔ اس فلم کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایئے کہ ’را‘ کے سابق چیف اے ایس دولت نے اعتراف کیا ہے: ’’یہ ایک پروپیگنڈا فلم ہے، جس میں پیش کی گئی تفصیلات کا حقائق کی دُنیا سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔(اخبار مسلم مرر، ۲۲مارچ ۲۰۲۲ء)
دہلی میں ایک سینیر صحافی فراز احمد پریس کلب میں اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’کشمیر کا مسئلہ دراصل کشمیری پنڈتوں کا داخلی جھگڑا ہے، جس نے جنوبی ایشیا کے امن و امان کو نشانہ بنایا ہوا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’علامہ اقبال، جنھوں نے پاکستان کا تصور دیا، بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرو ، جنھوں نے مسئلہ کشمیر کو پیچیدہ بنایا، اور پھر شیخ محمد عبداللہ ، جنھوں نے اس کو مزید اُلجھانے میں معاونت کی، تینوں کشمیری پنڈتوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے‘‘۔ کشمیری پنڈت کی اصطلاح دراصل زوال پذیر مغل بادشاہ محمد شاہ نے اپنے ایک درباری جے رام بھان کے مشورے پر ایک فرمان کے ذریعے شروع کروائی تھی۔ کشمیری پنڈتوں کا مغل دربار میں اچھا خاصا اثر و رسوخ تھا، اس لیے وہ اپنے آپ کو دیگر برہمنوں سے اعلیٰ اور برتر نسل تصور کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے رسم و رواج دیگر برہمنوں سے جدا ہیں‘‘۔ وہ دیوالی و ہولی نہیں مناتے ہیں۔ انھوں نے کشمیر میں ایک متوازی گنگا کا ایک سنگم تیرتھ بھی اختراع کیا ہوا ہے اور کھیربھوانی اور شاریکا دیوی ان کے دیوی دیوتا ہیں۔
ویسے کشمیر میں ہندو اور مسلمان میں تفریق کرنا مشکل تھا۔ الگ الگ بستیوں کے بجائے دیہات و قصبات میں دونوں ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ ، شیخ نورالدین ولی اور سرینگر شہر کے قلب میں کوہ ماراں پر شیخ حمزمخدوم کی درگاہوں پر کشمیری پنڈتوں کا بھی جم غفیر نظر آتا تھا۔ کشمیر کی معروف شاعرہ لل دید ، تو دونوں مذاہب کے ماننے والوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ ابھی تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ ہندو تھی یا مسلمان۔ تاہم، اس کا پورا کلام ہی اللہ کی وحدانیت پر مشتمل ہے۔
کشمیر میں اسلام کی آمد ۱۴ویں صدی میں اس وقت ہوئی،جب بدھ مت اور برہمنوں کے درمیان زبردست معرکہ آرائی جاری تھی۔ اس دوران جب بلبل شاہ اور بعد میںمیر سید علی ہمدانی نے اسلام کی تبلیغ کی، تو عوام کی ایک بڑی اکثریت نے اس پر لبیک کہا۔ یہ شاید واحد خطہ ہوگا، جہاں ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتوں نے بھی جوق در جوق دائرہ اسلام میں پناہ لی۔ لیکن برہمنوں کا ایک طبقہ بدستور اپنے دھرم پر ڈٹا رہا۔ اسی صدی میں جب شہمیری خاندان کے سلطان سکندر کےدورِحکومت میں ایک کشمیری برہمن سہہ بٹ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام سیف الدین رکھا، تو اس نے کشمیری برہمنوں کے اقتدار کو نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے اکثر پنڈتوں نے ہجرت کی۔ مگر سلطان سکندر کے فرزند زین العابدین جنھیں بڈشاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نے تخت نشینی کے فوراً بعد ہی اس پالیسی کو ختم کرواکے، ان کشمیری پنڈتوں کو واپس لینے کے لیے وفود بھیجے اور ان کو دربار میں مراعات اور عہدے بخشے۔
شیخ عبداللہ اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کے اقلیتی احساس اور عصبیت کو اُبھارنے میں مغل بادشاہوں نے کلیدی کردار ادا کیا، کہ وہ مسلمان امرا سے خائف رہتے تھے۔معروف مؤرخ جادو ناتھ سرکار لکھتے ہیں، کہ مغل دور میں بہت کم کشمیر ی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر نظر آتے ہیں۔ امور سلطنت میں مغل حکمران ، کشمیری پنڈتوں پر زیادہ اعتبار کرتے تھے۔ ملکہ نو ر جہاں کے ذاتی محافظ دستے کا سربراہ میرو پنڈت بھی ایک کشمیری برہمن تھا۔ پنڈتوں کی بالادستی اورنگ زیب کے دور میں بھی جاری رہی۔ افغانوں کا دو ر حکومت تو کشمیر میں ظلم و ستم کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے، مگر ان کے دربار میں بھی کشمیری پنڈت ہی حاوی تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ افغان دور میں تو قبائلی علاقوں میں کشمیر ی پنڈت نند رام نکوکے نام پرسکّے ڈھالے گئے تھے، جو غالباً ۱۸۱۰ءتک جاری رہے۔ مؤرخ جیالال کلم کا کہنا ہے کہ افغان دور میں کشمیری پنڈت حکومت پر چھائے رہے۔
افغانوں کے زوال کے بعد پنڈت بیربل در نے سکھوں کو کشمیر پر قبضہ کرنے کی ترغیب دی۔ پھر جب سکھ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا ، تو ڈوگرہ حکمران مہاراجا گلاب سنگھ نے بیربل کاک کے بیٹے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنا کر بھیجا۔جس نے شال بافی صنعت پر ٹیکس لگا کر ، مسلمان کشمیری کاریگروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ انگریز سرویر جنرل والٹر لارنس، اُن دنوں کشمیر میں تعینات تھے، انھوں نے لکھا تھا کہ:’’کشمیر کی ساری سیاسی قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں ہے، جب کہ مسلمان کاشت کار یا مزدور ہے اور اس کو برہمنوں کے آرام و آسائش کے لیے بیگار پر مجبور کیا جاتا ہے‘‘۔ اسی دور میں کشمیری پنڈتوں کو انگریزی جاننے والے ہندو افسران سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑا، تو انھوں نے نعرہ بلند کیا کہ صرف ریاستی باشندوں کے نوکری کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ چونکہ مسلمان ان دنوں اَن پڑھ تھے، اس لیے ان کے ساتھ کسی مسابقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مگر بعد میں جب مسلمانوں نے پڑھنا لکھنا شروع کیا، تو ان ہی پنڈتوں نے اسی اسٹیٹ سبجکٹ قانون کے خلاف زمین و آسمان ایک کر دیئے۔
شیخ محمد عبداللہ کے مطابق جب ۱۹۳۱ء میں کشمیر میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا، تو راجا ہری سنگھ نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر انھیں پروپیگنڈا کرنے کی شہہ دی کہ ’’یہ تحریک ہندو مہاراجا کے خلاف بغاوت ہے اور کشمیری پنڈت خطرے میں ہیں‘‘ کا شور برپا کر ڈالا۔ گلانسی کمیشن کی سفارشات اور اس تحریک کی بدولت جب چند نوکریاں مسلمانوں کو ملنے لگیں، تو کشمیر میں پنڈت لیڈروں نے اس کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔ مگر ان کی ہی برادری کے چند افراد پریم ناتھ بزاز، کشپ بندھو اور جیالال کلم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا، تو یہ اقلیتی طبقہ (پنڈت) احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ اسی نفسیات کے تحت آج بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
شیخ عبداللہ کے مطابق: ان میں اکثر پنڈتوں کو حکمرانوں کی خدمت اور اپنے ہم وطنوں کی جاسوسی کرنے میں ہی سکون ملتا رہا ہے۔ مہاتما جی گاندھی کہتے تھے، کہ ’’کشمیر کی مثال ایسی ہے جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتا ہوا انگارہ ڈال دیا گیا ہو۔ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سار ا برصغیر اس کی آگ کے شعلوں میں لپٹ جائے گا‘‘۔ اور گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تنبیہہ کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کے نام کی صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے کھیل رچایا جاتا ہے۔کشمیری پنڈت لیڈران سے اپیل ہے کہ اپنے اثر و رسوخ کا مثبت استعمال کرکے، نسلی نفرت کی آگ بجھانے اور مسئلۂ کشمیر پاٹنے کا کا م کریں، بلکہ سیاسی لیڈروں کو مسئلے کے سیاسی حل کی طرف بھی گامزن کروائیں، تاکہ خطے میں ایک حقیقی اور پائیدار امن کی راہ ہموار ہوسکے۔
جنوبی بھارت کی ریاست کرناٹکا میں حجاب کے تنازعے میں آخرکار بات ہائی کورٹ تک جاپہنچی، کیونکہ کئی درخواست گزاروں نے ہائی کورٹ میں رٹ درخواستیں دائر کردی تھیں۔ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ عدالت میں لے جانے کے بجائے سیاسی طور پر دباؤ بڑھا کر مسئلہ حل کرنا ہی مناسب تھا۔ لیکن میری راے یہ ہے کہ عدالت میں جانے سے بھارت کے آئین کے تحت دیے گئے سیکولر بندوبست کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی جسے بھارت کے بہت سارے مسلمان اپنے دینی شعائر اور تصورات کی حفاظت کےلیے کافی سمجھتے تھے۔
کرناٹکا ہائی کورٹ کے ۱۵ مارچ ۲۰۲۲ء کے زیرنظر فیصلے نے واضح کردیا کہ ’سیکولرزم‘ کا مطلب مذہبی رواداری نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ’مذہب کو غیر مذہبی تصورات اور اقدار کے ماتحت رکھ کر مذہب کو محدود کردینا ہے‘۔ اس فیصلے نے یہ حقیقت بھی آشکارا کردی ہے کہ سیکولرزم کسی مذہب کو صرف اسی حد تک برداشت کرسکتا ہے، جس حد تک وہ غیر مذہبی اقدار کی بالادستی کےلیے خطرہ نہ بنے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولرزم اپنے فلٹر میں سے گزار کر ہی مذہب کو قابلِ برداشت مان سکتا ہے، اور مذہب کا جو حصہ اس فلٹر میں سے نہ گزر سکے، اسے ریاستی جبر کے ذریعے کچل دینا، سیکولر ریاستی بندوبست میں ضروری ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مذہب کی وہی تعبیر سیکولر بندوبست کے تحت قابلِ قبول ہوسکتی ہے جو سیکولر بندوبست کے ساتھ متصادم نہ ہو۔ چنانچہ اس لحاظ سے یہ فیصلہ نہایت خوش آیند ہے کہ اس نے سیکولرزم اور مذہب کے تعلق کی حقیقت واضح کردی ہے۔
اس مضمون میں زیربحث فیصلے کے اہم نکات پر مختصر تبصرہ کیا جائے گا، لیکن اس سے قبل اس مقدمے کے متعلق چند بنیادی حقائق پر نظر ڈالنا ضروری ہے:
اس مقدمے میں سات مختلف رٹ درخواستیں دائر کی گئی تھیں:
ایک درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ’’عدالت، اسکول اور دیگر حکام کو حکم جاری کردے کہ وہ درخواست گزار خواتین کو کلاس روم میں حجاب پہننے سے نہ روکے، کیونکہ حجاب ان کے مذہب (اسلام) کا لازمی حصہ ہے ،جس کی حفاظت کی ضمانت بھارت کے آئین میں دی گئی ہے‘‘۔
دوسری درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ’’اسکول انتظامیہ، ان افراد کے خلاف انکوائری کروائے جن کی وجہ سے حجاب کا تنازعہ پیدا ہوا‘‘۔
تین درخواستوں میں حکومت کے اس حکم نامے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی، جس کی بنا پر حجاب کا تنازعہ اٹھا، جب کہ دو درخواستیں ’عوامی مفاد کا مقدمہ‘ (public interest litigation) کی نوعیت کی تھیں، جن میں ایک میں استدعا کی گئی تھی کہ ’’عدالت قرار دے کہ مسلمان خواتین کو حجاب پہننے کی اجازت ہے بہ شرطے کہ وہ یونیفارم بھی پہنیں‘‘، جب کہ دوسری درخواست میں ’’بعض ’بنیاد پرست‘ مسلمان تنظیموں اور جماعتِ اسلامی کے خلاف تحقیقات کی استدعا‘‘ (ص۳۲) کی گئی تھی۔
کرناٹکا ہائی کورٹ میں پہلے ایک جج (جسٹس کرشنا ڈکشٹ) نے درخواستیں سنیں، لیکن معاملے کی اہمیت کے پیشِ نظر انھوں نے اسے چیف جسٹس (جسٹس ریتو راج اوستھی) کے سامنے رکھا کہ ’’اس کے متعلق بڑا بنچ تشکیل دینے کے بارے میں فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے تین رکنی بنچ تشکیل دیا، جس کی سربراہی خود انھوں نے کی اور جسٹس کرشنا ڈکشٹ کے علاوہ مسٹر جسٹس جے ایم قاضی کو بنچ میں شامل کیا۔ درخواستوں کی سماعت کے بعد فیصلہ چیف جسٹس نے لکھا، جس سے دیگر دو ججز نے اتفاق کیا۔
فیصلے کا آغاز چیف جسٹس صاحب نے ایک مضمون کے اقتباس (ص۱۶)سے کیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس مضمون کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ حجاب کی بنیاد پر خواتین کے خلاف امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے، اسی مضمون سے وہ اقتباس لیا جارہا ہے، جہاں یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ ’’حجاب نہ تو اسلام کا کوئی لازمی حکم ہے، نہ اس کا ضمیر کی آزادی یا اظہار کی آزادی کے حقوق سے کوئی تعلق ہے!‘‘ بہرحال اقتباس اہم ہے، اس لیے اسے یہاں نقل کیے دیتے ہیں:
The hijab’s history, is a complex one, influenced by the intersection of religion and culture over time. While some women no doubt veil themselves because pressure put on them by society, others do so by choice for many reasons. The veil appears on the surface to be a simple thing. That simplicity is deceiving, as the hijab represents the beliefs and practices of those who wear it or choose not to, and the understandings and misunderstandings of those who observe it being worn. Its complexity lies behind the veil.(Sara Slininger, "Veiled Women: Hijab, Religion and Cultural Practice", Historia, 2014, pp 67-68.
اس اقتباس میں جو موقف دیا گیا ہے، فیصلے میں اس کے بالکل برعکس موقف اختیار کیا گیا ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ چیف جسٹس صاحب نے یہ اقتباس تنقید کےلیے نقل کیا ہے، بلکہ اس کے برعکس وہ اس مضمون کی ان الفاظ میں تحسین فرماتے ہیں:’ well-researched article‘۔ آگے چل کر انھوں نے اس مضمون کا ایک اور اقتباس نقل کیا ہے اور وہاں بھی اس کے برعکس نتیجہ اخذ کرنے کےلیے کیا ہے۔ پہلے وہ اقتباس (ص ۶۹)دیکھ لیجیے:
Islam was not the first culture to practice veiling their women. Veiling practices started long before the Islamic Prophet Muhammad was born. Societies like the Byzantines, Sassanids, and other cultures in Near and Middle East practiced veiling. There is even some evidence that indicates that two clans in southwestern Arabia practiced veiling in pre-Islamic times, the Banū Ismāʿīl and Banū Qaḥṭān. Veiling was a sign of a women’s social status within those societies. In Mesopotamia, the veil was a sign of a woman’s high status and respectability. Women wore the veil to distinguish themselves from slaves and unchaste women. In some ancient legal traditions, such as in Assyrian law, unchaste or unclean women, such as harlots and slaves, were prohibited from veiling themselves. If they were caught illegally veiling, they were liable to severe penalties. The practice of veiling spread throughout the ancient world the same way that many other ideas traveled from place to place during this time: invasion. (حوالہ بالا)
یہاں مصنفہ یہ بتانا چاہتی ہیں کہ حجاب اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب اور ثقافتوں کا بھی حصہ رہا ہے۔ لیکن فاضل چیف جسٹس صاحب اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ’’حجاب، اسلام کا کوئی لازمی جزو نہیں ہے!‘‘ یہ منطقی مغالطہ اتنا واضح ہے کہ اس پر گفتگو کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
حجاب کے حق میں درخواستیں مسترد کرنے کےلیے عدالت نے اس مقدمے میں جو استدلال اختیار کیا ہے، اس کے بنیادی نکات یہ ہیں:
یہاں اس طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ فیصلے کے آخر میں عدالت نے بھارتی آئین کے مسودے کے لکھنے والوں میں اہم ترین شخصیت ڈاکٹر بی آر امبیڈکر [م:۱۹۵۶ء]کا جو اقتباس نقل کیا ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق عموماً اور حجاب کے متعلق خصوصاً ،عدالت بھی ڈاکٹر امبیڈ کر کی طرح کتنی متعصب تھی! اقتباس ڈاکٹر امبیڈ کر کی اس کتاب سے ہے ،جو ۱۹۴۵ء میں (یعنی تقسیمِ ہند سے قبل، جب تقسیم کے آثار نمودار ہوچلے تھے) شائع ہوئی، اور اس کتاب کا عنوان ہے: Pakistan or the Partition of India۔ کتاب کے دسویں مضمون کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں اور دیکھیں کہ حجاب کا مسئلہ کیسے تقسیمِ ہند کے ساتھ جڑا ہوا ہے:
A woman (Muslim) is allowed to see only her son, brothers, father, uncles, and husband, or any other near relation who may be admitted to a position of trust. She cannot even go to the Mosque to pray, and must wear burka (veil) whenever she has to go out. These burka woman walking in the streets is one of the most hideous sights one can witness in India…The Muslims have all the social evils of the Hindus and something more. That something more is the compulsory system of purdah for Muslim women… Such seclusion cannot have its deteriorating effect upon the physical constitution of Muslim women… Being completely secluded from the outer world, they engage their minds in petty family quarrels with the result that they become narrow and restrictive in their outlook… They cannot take part in any outdoor activity and are weighed down by a slavish mentality and an inferiority complex…Purdah women in particular become helpless, timid…Considering the large number of purdah women amongst Muslims in India, one can easily understand the vastness and seriousness of the problem of purdah…As a consequence of the purdah system, a segregation of Muslim women is brought about.
عدالت یہ اقتباس نقل نہ بھی کرتی تو فیصلہ مکمل تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس اقتباس کو نقل نہ کیا جاتا تو تعصب کا اظہار ادھورا رہ جاتا: قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاۗءُ مِنْ اَفْوَاہِھِمْ۰ۚۖ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُھُمْ اَكْبَرُ۰ۭ (آل عمران۳:۱۱۸) ’’ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے، اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں، وہ اس سے شدید تر ہے‘‘۔
اب ذرا اس حکم نامے پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے، جس سے اس تنازعے نے جنم لیا۔ ۵فروری ۲۰۲۲ء کو حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے حکم نامے میں قرار دیا گیا کہ ’’صوبے میں تمام اسکولوں میں یونیفارم کی پابندی ضروری ہے‘‘۔ یونیفارم کے تعین کےلیے چار طریقے بیان کیے گئے:
۱- سرکاری سکولوں کےلیے یونیفارم مقرر کرنے کا اختیار سرکار کے پاس ہے؛
۲- پرائیویٹ سکولوں میں سکول انتظامیہ یہ اختیار رکھتی ہے؛
۳- ماقبل یونی ورسٹی کالجز میں متعلقہ کالج کی بہتری یا نگرانی کےلیے قائم کی گئی کمیٹی کے پاس یہ اختیار ہوگا؛ اور
۴- جہاں یونیفارم مقرر نہیں ہے، وہاں ایسا ’ڈریس کوڈ‘ (dress code) مقرر کیا جائے گا، جو ’مساوات اور یگانگت‘ (equality and integrity) کو یقینی بنائے اور جس سے ’امن عامہ‘ (public order) کو نقصان نہ ہو۔
درخواست گزار مسلمان لڑکیوں کی جانب سے بنیادی اعتراض یہ تھا کہ ’’حکومت یا سکول انتظامیہ کوئی ایسا یونیفارم ان پر جبری طور پر نافذ نہیں کرسکتی جس میں حجاب کی گنجایش نہ ہو‘‘۔ انھیں خصوصاً اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ ’’ماقبل یونی ورسٹی کالجز میں یونیفارم مقرر کرنے کا اختیار جس کمیٹی کو دیا گیا ہے اس میں مقامی سیاست دان بھی شامل ہیں، جو اس معاملے کو سیاسی رنگ دے کر اپنےلیے ووٹ کھرے کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اسی طرح انھیں یہ بھی اعتراض تھا کہ ’’یونیفارم کے مسئلے کو امن عامہ کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے سے حکومت کے سیاسی عزائم آشکارا ہوتے ہیں کیونکہ وہ بجائے اس کے کہ لڑکیوں کو تنگ کرنے والے عناصر کو لگام ڈالے، الٹا لڑکیوں کو مجبور کررہی ہے کہ وہ اپنا لباس تبدیل کرلیں‘‘۔
پھر کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ عدالت نے اپنا سارا زور اس پہلو پر لگایا کہ ’’حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے اور ہو بھی تو اس کا تحفظ ثانوی حیثیت رکھتا ہے‘‘، لیکن حکومت کے سیاسی عزائم اور اسے امن عامہ کا مسئلہ بنانے کے سوالات کو یکسر غیر ضروری اور غیر اہم قرار دے کر ان کو نہایت مختصر انداز میں کیسے نمٹایا؟ اگر پہلے سوال کے بجائے بحث ان دو سوالات پر ہوتی، تو پہلے سوال پر آنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی اور اس حکم نامے کو بہ آسانی کالعدم قرار دیا جاسکتا تھا۔ لیکن بہت ہی مہارت سے مقدمے کو الٹنے کی کوشش کی گئی اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ ’ہندوتوا‘ کے خطرناک عزائم کو سیکولرزم کا لبادہ اوڑھا کر چھپالیا گیا اور مظلوموں کو ہی مسائل کا سبب قرار دے کر انھی پر ذمہ داری عائد کی گئی! ذرا اس پیرا پر ایک نظر ڈال لیجیے:
The words used in Government Orders have to be construed in the generality of their text and with common sense and with a measure of grace to their linguistic pitfalls. The text & context of the Act under which such orders are issued also figure in the mind. The impugned order could have been well drafted, is true.
اس کے باوجود آسکر وائلڈ [م: ۱۹۰۰ء ] اور اولیور وینڈل ہومز [م: ۱۹۳۵ء] کے غیرمتعلق اقتباسات دے کر اس کمزوری کو ہلکا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر فرمایا گیا:
the Government Order gives a loose impression that there is some nexus between wearing of hijab and the 'law & order' situation.
تنہا یہی بات اس حکم نامے کو کالعدم کرنے کےلیے کافی تھی کہ حجاب اور امن و امان کا باہمی تعلق ہے، اور یہ حکم نامے کا ایک کمزور پہلو ہے۔لیکن عدالت نے اس کو ایک غیر ضروری اور غیر اہم اعتراض بنا کر اس کو نظر انداز کردیا۔
جائزہ طلب امور
عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ کرنے کےلیے درج ذیل سوالات قائم کیے:
ان سوالات سے ہی معلوم ہوا کہ عدالت نے مقدمے کا کیا رُخ متعین کیا ہے؟ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ فتویٰ کا انحصار استفتا پر ہوتا ہے۔ سوال جس طرح مقرر کیا جائے، جواب اسی کے مطابق دیا جاتا ہے۔ حجاب لینے کے قانونی جواز کےلیے درخواست گزاروں کا استدلال بنیادی طور پر یہ تھا کہ حجاب لینا درخواست گزاروں کے مذہبی تصور کے مطابق ان کے مذہب کا لازمی حصہ ہے اور اس وجہ سے انھیں اسے ترک کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ایسا کرنا مذہبی آزادی کے اس حق کی خلاف ورزی ہوگی جس کی ضمانت بھارت کے آئین میں دی گئی ہے۔اس بات کو اس طرح پیش کیا گیا کہ ’’چونکہ درخواست گزاروں کا تصورِ مذہب ایک معروضی امر نہیں بلکہ موضوعی (subjective) امر ہے، اس لیے ان کے تصور سے قطعِ نظر، عدالت اس بات کا تعین کرے گی کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ ہے بھی یا نہیں؟ ‘‘
پھر چونکہ عدالت نے درخواست گزاروں کے تصورِ مذہب کو یکسر نظرانداز کردیا، اس لیے اس نے مذہبی آزادی کے حق کو اظہار کے حق کے ساتھ متعارض قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’درخواست گزاروں کے دلائل باہم متناقض (contradictions) ہیں، حالانکہ درخواست گزاروں کا موقف یہ تھا کہ ’’ہم حجاب کو اپنا مذہبی شعار سمجھنے کی بنا پر اسے ضروری سمجھتے ہیں اور لباس انسان کی ذاتی پسند و ناپسند کا معاملہ ہے اور کسی کو ایسا لباس پہننے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جو وہ نہ پہننا چاہتا ہو، نہ اسے ایسا لباس ترک کرنے پر مجبور کیا جاسکتا جسے وہ ترک نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ ایسا کرنے سے اظہار کی آزادی کے اس حق کی پامالی ہوتی ہے، جس کی ضمانت بھارت کے آئین نے دی ہوئی ہے‘‘۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو ان دلائل میں کوئی تضاد نہیں تھا، لیکن عدالت نے کمال بے نیازی سے اس لیے انھیں متناقض قرار دیا کہ اس نے خود بخود درخواست گزاروں کے مذہبی تصور کو یکسر ناقابلِ اعتنا قرار دیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ عدالت نے درخواست گزاروں کے مذہبی تصور کو ناقابلِ اعتنا قرار دینے کےلیے دلیل یہ دی کہ ’’عدالت کے سامنے کوئی ایسی شہادت نہیں لائی گئی، جس سے معلوم ہوتا ہو کہ کب سے انھوں نے حجاب پہننا شروع کیا ہے، یا کب سے انھوں نے اسے ضروری سمجھا ہے؟‘‘ یہ امر حیران کن اس لیے ہے کہ جب اس امر کو اظہار کے حق اور پرائیویسی کے حق کے طور پر پیش کیا گیا، تو اس کے بعد اس سوال کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی کہ کسی نے کسی مخصوص لباس کے متعلق کب اپنی رائے بنائی یا تبدیل کرلی؟
پھر اگر عدالت نے یہی بہتر سمجھا کہ درخواست گزاروں کے تصورِ مذہب کو نظرانداز کرکے معروضی طور پر متعین کیا جائے کہ حجاب کی اسلام میں کیا حیثیت ہے، تو سوال یہ ہے کہ اس امر کے تعین کےلیے عدالت نے کیا طریقِ کار اختیار کیا؟ کیا اس مقصد کےلیے صرف عبد اللہ یوسف علی [م:۱۰دسمبر ۱۹۵۳ء]کے ترجمۂ قرآن اور حواشی پر انحصار کافی تھا؟ کیا اس انحصار کےلیے یہ دلیل کافی تھی کہ عبد اللہ یوسف علی کے ترجمے اور حواشی کو سپریم کورٹ نے کئی مقدمات میں استعمال کیا ہے؟ اس سے بھی آگے بڑھ کر کیا یہ کوئی دلیل ہے کہ صحیح بخاری کے انگریزی ترجمے کو اس لیے مسترد کیا جائے کہ اس کے مترجم ڈاکٹر محمد محسن خان [۱۹۲۷ء-۱۴جولائی ۲۰۲۱ء] ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں؟ تو کیا ان کے برعکس ڈی ایف ملا [دینشا فردنجی ملا: ۱۸۶۸ء-۱۹۳۴ء] اور مسٹر آصف علی اصغر فیضی [م:۱۹۸۱ء]کی کتب سے ہی اسلامی قانون سمجھا جاسکتا ہے؟پھر عدالت کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسلامی قانون کے مآخذ میں حدیث کی کیا حیثیت ہے اور قرآن و حدیث کے تعلق کے بارے میں مسلمانوں کی پوزیشن کیا ہے؟
اوّل تو عدالت کو یہ ذمہ داری اٹھانی ہی نہیں چاہیے تھی کہ وہ متعین کرے کہ ’’حجاب کا اسلام میں کیا حکم ہے؟‘‘ پھر اگر اس نے یہ ذمہ داری اٹھانی ضروری ہی سمجھی تھی تو اس کے بعد چاہیے یہ تھا کہ اس معاملے میں صرف ایک کتاب پر انحصار کرنے کے بجائے کئی دیگر مصنّفین اور محققین کے کام کا تجزیہ کرتے ہوئے اس شعبے کے ماہرین سے مدد لیتی۔ اس کے بجائے اس نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ عدالت کے سامنے درخواست گزاروں کی جو درخواستیں آئیں ان کے ساتھ کسی ’مولانا‘ کا بیانِ حلفی جمع نہیں کرایا گیا، جس میں درخواست گزاروں کی جانب سے پیش کی گئی آیات سے استدلال کیا گیا ہو! ‘‘
اس فیصلے کا سب سے افسوسناک پہلو یہی ہے کہ جس سوال پر بحث ضروری ہی نہیں تھی، عدالت نے اسی کو بنیادی سوال بنا دیا اور پھر اس سوال کے جواب کےلیے انتہائی ناقص طریقِ کار اختیار کیا۔ یوں مقدمے کے دیگر پہلو اور اصل سوالات پس منظر میں چلے گئے۔ بہرحال، عدالت کا مقصد پورا ہوگیا ہے، کیونکہ فیصلے کے بعد بھی عام طور پر بحث اسی سوال پر ہورہی ہے اور زیادہ اہم سوالات اب بھی بحث کا حصہ نہیں ہیں۔ اب ہم انھی سوالات پر بات کرتے ہیں:
آیئے، ان بنیادوں پر بات کریں، جن پر عدالتی فیصلہ کھڑا ہے اور جن پر بحث ضروری ہے، لیکن ان کے بجائے بحث اس بات پر ہورہی ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ ہے یا نہیں؟
عدالت نے اس ضمن میں امریکی آئین کے تحت مذہبی آزادی کے حق اور بھارتی آئین کے تحت مذہبی آزادی کے حق کے درمیان موازنہ کرکے یہ دکھایا ہے کہ امریکی آئین کے تحت ریاست پر پابندی ہے کہ وہ کسی مذہب کی ترویج نہیں کرے گی، لیکن افراد کےلیے مذہبی آزادی کا حق، دیگر حقوق کی طرح، غیر محدود ہے اور اس حق پر عائد قیود و حدود کو استثنا کی حیثیت حاصل ہے۔ مگر اس کے برعکس بھارتی آئین میں مذہبی آزادی کا حق ثانوی حیثیت رکھتا ہے اور اس پر حدود و قیود کو اصل کی حیثیت حاصل ہے۔
تاہم، امریکی آئین کے متعلق بھی یہ بات مکمل سچائی پر مبنی نہیں ہے اور وہاں بھی مذہب کو تبھی قابلِ برداشت مانا جاسکتا ہے، جب وہ جمہوریت کے ماتحت رہنے پر آمادہ ہو۔ بہرحال، یہ بات اہم ہے کہ عدالت نے بھارتی آئین کے تحت دیے گئے حقوق کو ’ریاست کی مرضی کے تابع‘ قرار دیا ہے۔ یہ دراصل امریکی قانون دان جیریمی بینتھم [م: ۱۸۳۲ء] اور دیگر قانونی وضعیت پسند وں (legal positivists) کے فلسفے کا اثر ہے کہ ’’بھارت میں فرد کے حقوق کا ماخذ ریاست کو سمجھا جاتا ہے، اور ریاست جب چاہے ان حقوق کو معطل یا ختم کرسکتی ہے اور جو قیود مناسب سمجھے ان پر عائد کرسکتی ہے۔ امریکا میں بینتھم کے برعکس جان لاک [م:۱۷۰۴ء] کا فلسفہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے، جس کی رُو سے ’’انسانوں کو حقوق قانونِ فطرت (Law of Nature) نے دیے ہوئے ہیں اور لوگوں کو یہ حقوق اس وقت بھی میسر تھے جب ریاست کا وجود نہیں تھا، بلکہ ریاست تو اسی لیے وجود میں لائی گئی ہے کہ ان حقوق کا تحفظ کرے‘‘۔
پاکستان میں بھی بھارت کی طرح بینتھم کا نظریہ کارفرما ہے، لیکن اس نظریے کی شدت میں کمی اس بنا پر آئی ہے کہ پاکستان میں اسلامی شریعت کی بالادستی آئینی طور پر تسلیم کی گئی ہے اور اس وجہ سے کسی بھی ریاستی اقدام کے جواز یا عدم جواز کےلیے اسلامی احکام ایک اہم معیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ ۱۹۷۲ء میں جب مارشل لا نافذ تھا اور آئین معطل تھا، تب بھی پاکستان کی سپریم کورٹ نے عاصمہ جیلانی کیس میں قرار دیا تھا کہ ’’قراردادِ مقاصد کی رو سے، جو ہمارے آئینی نظام کی بنیاد ہے، حاکمیتِ اعلیٰ (Sovereignty)، اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور پاکستانی قوم کے پاس وہی اختیارات ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسے تفویض کیے گئے ہیں، جنھیں وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر ہی استعمال کرسکتی ہے‘‘۔ پھر چونکہ اس ’قراردادِ مقاصد‘ میں یہ بھی تصریح کی گئی تھی کہ حکومت لوگوں کی مرضی سے منتخب کی جائے گی، تو سپریم کورٹ نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ مارشل لا غیر آئینی اور ناجائز ہے۔ پاکستان میں سیکولرزم کے گن گانے والے اور اسلامی قوانین پر اندھی تنقید کرنے والے اس حقیقت کو اچھی طرح نوٹ کرلیں کہ یہاں مارشل لا کے عدم جواز کی بنیاد ’قراردادِ مقاصد‘ بنی، جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا اقرار اور ریاستی اختیارات کے محدود ہونے اور حکومت کےلیے لوگوں کے حقِ انتخاب کی واشگاف وضاحت کی گئی ہے۔
We have no quarrel with the petitioners’ essential proposition that what one desires to wear is a facet of one’s autonomy and that one’s attire is one’s expression. But all that is subject to reasonable regulation.
Petitioners’ contention that ‘a class room should be a place for recognition and reflection of diversity of society, a mirror image of the society (socially & ethically)’ in its deeper analysis is only a hollow rhetoric, ‘unity in diversity’ being the oft quoted platitude since the days of IN RE KERALA EDUCATION BILL, supra, wherein paragraph 51 reads: ‘…the genius of India has been able to find unity in diversity by assimilating the best of all creeds and cultures'.
آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے مذہب کا جو بھی تقاضا ہو، آپ نے بھارتی قوم کی حیثیت کو بالاتر رکھنا ہے اور اس مزعومہ وحدت کے حصول کےلیے آپ کو اپنے مذہب کے الگ الگ رنگوں سے دست بردار ہونا پڑے گا۔
یہ ہیں وہ چار بنیادی امور، جن پر یہ عدالتی فیصلہ مبنی ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر بحث ہی نہیں ہورہی ہے۔
اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ کرناٹکا ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ سیکولر بندوبست کے لازمی تقاضے ہیں۔ بحث کے اس تناظر کو مزید واضح کرنے کےلیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں مشہور امریکی قانون دان رونالڈ ڈوورکن کے ایک مختصر لیکن نہایت اہم مضمون پر کچھ بات کی جائے، جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کے مسئلے کے پس منظر میں لکھا تھا۔ ڈوو رکن کا دو صفحات کا یہ مضمون The Right to Ridicule (تضحیک کا حق) کے عنوان سے روزنامہ نیویارک ٹائمز (۲۳ جون ۲۰۰۶ء) میں شائع ہوا تھا۔
اس مضمون میں دیگر امور کے علاوہ ڈوورکن نے یہ اہم سوال اٹھایا ہے کہ ’’خواہ عملی نتائج کے اعتبار سے کارٹونوں کی عدم اشاعت کا فیصلہ حکیمانہ نظر آتا ہو ، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اظہاررائے کی آزادی کے حق پر بالخصوص ’کثیر الثقافتی معاشرے‘ کے تناظر میں قدغن لگائی جاسکتی ہے؟ کیا کسی مذہب کےلیے جو بات توہین آمیز یا مضحکہ خیز ہو ، اسے جرم قرار دیا جانا چاہیے؟ اس مضمون میں مرکزی قانونی سوال یہی ہے۔ ڈوورکن نے صراحت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’اظہار رائے کی آزادی‘ مغربی ثقافت کی کوئی امتیازی خصوصیت نہیں ہے کہ جسے دوسری ثقافتوں کی خاطر، جو اسے نہیں مانتیں، محدود کیا جاسکے، بالکل اسی طرح جیسے مسیحی شعائر کے ساتھ مسلمانوں کےلیے ہلال یا مینارے کےلیے گنجایش پیدا کی جائے۔ اس کے برعکس اس کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی حکومت کے جواز کی شرط ہے۔کوئی قانون اور کوئی پالیسی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسے جمہوری طریقے سے نہ بنایا جائے اور جب کسی کو کسی قانون یا پالیسی کے متعلق اپنی راے کے اظہار سے روکا جائےتو جمہوریت بے معنی ہوجاتی ہے‘‘۔
وہ مزید کہتا ہے کہ ’’تضحیک، اظہار کا ایک خاص پیرایہ ہے اور اگر اس کی نوک پلک درست کرنے یا اصلاح کی کوشش کی جائے تو وہ پیرایہ غیرمؤثر ہوجاتا ہےاور اسی وجہ سے صدیوں سے اچھے یا برے ہر طرح کے مقاصد کےلیے کارٹون اور تضحیک کے ہتھیار استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس بنیاد پر ڈوورکن یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ ’’جمہوریت میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے، خواہ وہ کتنا ہی طاقت ور یا کتنا ہی کمزور ہو، کہ اس کی توہین یا تضحیک نہیں کی جائے گی‘‘۔ یہاں ڈوورکن اس بات کی وضاحت کےلیے ، کہ کیوں جمہوریت میں اظہار رائے کے حق پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی؟ کہتا ہے کہ اگر کمزور اور غیرمقبول اقلیتیں یہ چاہتی ہیں کہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو اور اکثریت محض اپنی اکثریت کی وجہ سے ان کے حقوق سلب نہ کرسکے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اظہار رائے کے حق پر کوئی قدغن نہ مانیں، خواہ اس کے نتیجے میں خود انھیں بھی تضحیک کا سامنا کرنا پڑے ،کیونکہ اقلیت میں ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود اظہار رائے کے حق کے ذریعے وہ کسی بھی قانون یا پالیسی کے خلاف کھل کر بات کرسکیں گے۔ اسی استدلال پر وہ مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اظہار رائے پر قدغن سے ان کو نقصان ہوگا ‘‘۔
اس ضمن میں ڈوورکن اس بات پر بھی بحث کرتا ہے جس کی طرف مسلمان عام طور پر توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ کئی یورپی ممالک میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام سے انکار کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے اور اظہار رائے پر اس قدغن کو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلمان بالعموم اسے دوغلی پالیسی اور منافقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ڈوورکن کہتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اعتراض بالکل درست ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اظہار رائے پر ایک اور قدغن بھی مان لیں۔ اس کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ مذکور قدغن بھی دور کردی جائے ۔
ڈوورکن مزید یہ کہتا ہے کہ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ایسے قوانین اور پالیسیاں ختم کی جائیں، جو مسلمانوں کی پروفائلنگ کو جواز دیں یا جن کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے سے دکھائی دینے والے لوگوں کی نگرانی کی جائے کیونکہ ان پر دہشت گردی کا شبہہ ہوتا ہے ، تو پھر مسلمانوں کو اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی راے کو بھی برداشت کرنا پڑے گا جو انھیں دہشت گردی سے منسلک کرتے ہیں اور کارٹونوں کے ذریعے ان کی تضحیک کرتے ہیں، خواہ ان لوگوں کی یہ بات کتنی ہی بے بنیاد اور بذات خود مضحکہ خیز ہو !
آخر میں وہ ساری بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتا ہے :
Religion must observe the principles of democracy, not the other way around. No religion can be permitted to legislate for everyone about what can or cannot be drawn any more than it can legislate about what may or may not be eaten. No one’s religious convictions can be thought to trump the freedom that makes democracy possible.
مذہب پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں کی پابندی کرے ، نہ کہ الٹا جمہوریت کو مذہب کا پابند بنایا جائے۔ کسی مذہب کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سب کےلیےیہ قانون بناسکے کہ وہ کیسا خاکہ بناسکتے ہیں اور کیسا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ ہر کسی کےلیے یہ قانون نہیں بناسکتے کہ وہ کیا کھاسکتے ہیں اور کیا نہیں ۔ کسی کے مذہبی اعتقادات کے متعلق یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ وہ اس آزادی کو فتح کرلیں گے جو جمہوریت نے ممکن بنادی ہے ۔
ڈوورکن کے اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مذہب کو جمہوریت کے اصولوں کی پابندی اختیار کرنی چاہیے یا جمہوریت کو مذہبی قیود کی پابندی تسلیم کرنی چاہیے؟ جب تک اس بنیادی مسئلے پر بحث نہیں کی جائے گی، ضمنی سوالات پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی سوال پر بحث سے ناروے یا دیگر مغربی ممالک (اور اسی طرح بھارت) میں مقیم مسلمانوں کی مجبوریاں بھی سمجھ میں آجاتی ہیں اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کیوں وہ صبر و تحمل اور اعراض کا رویہ اپنانے کی تلقین کرتے ہیں؟
حقیقتِ امر یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو ایک دفعہ پھر معرکۂ روح و بدن پیش ہے اور یہ فیصلہ بھارت کے مسلمانوں نے ہی کرنا ہے کہ اس کے ہاتھوں میں دل ہے یا شکم؟
دنیا کی تمام مساجد تمام لوگوں کے لیے کھلی ہوئی ہیں۔ مسلمان کسی قوم، نسل، طبقے یا رنگ کے اختلاف سے قطع نظر ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا ملا کر نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ اسلامی مساوات کی ہی تاثیر ہے کہ انڈیا کے دلتوں سے لے کر امریکا و یورپ میں سفیدفام اور افریقی النسل اس دین میں داخل ہو رہے ہیں۔
تاہم، اس غالب حقیقت کو بعض اوقات اسلامی اقدار سے متصادم کچھ انفرادی رویوں کو بنیاد بنا کر متاثر کیا جاتا ہے۔کچھ مسلمان شیطان کی چال میں آجاتے ہیں اور نسلی کمتری وبرتری کا گمراہ کن کھیل کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تمام انسان یکساں ہیں اور ایک ہی مرد اور عورت کی اولاد ہیں (الحجرات ۴۹:۱۳) ،کچھ لوگ خود کو ماڈرن اور دوسروں کو دقیانوسی تصور کرتے ہیں اور ان کے خلاف تعصب کوہوا دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم خود کو اس جال میں پھنسنے سے کیسے بچائیں؟ ہم نسل پرستی اور قوم پرستی کی ہلاکت خیزیوں سےمحفوظ رہنے میں ایک دوسرے کی مدد کیسے کریں؟ ہم ایک بہتر انسان بننے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟اس سلسلے میں یہاں چند نکات پیش کیے گئےہیں، جن کے مطابق ہم اس مرض کے خلاف جدوجہد شروع کر سکتے ہیں ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے،تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتاہو، تو پھر اپنی زبان سے بدل دے۔ اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتاہو، تو پھر اسے اپنے دل میں برا جانے، اوریہ ایمان کا کم تر ین درجہ ہے‘‘ [صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان، حدیث:۹۵]۔
غیبت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کسی کی غیر موجودگی میں اس کے تعلق سے ایسی بات کہنا جو اگر اس کی موجودگی میں کہی جاتی تو اسے ناگوارگزرتی، غیبت ہے‘‘۔ اس پر ایک صحابی نے سوال کیا ، یا رسولؐ اللہ ! جو بات بیان کی جا رہی ہو، وہ اگر واقعی اس شخص کے اندر موجود ہو تو؟ اس پر آپ ؐ نے جواب دیا: ’’اگر وہ بات اس کے اندر موجود ہے تبھی تو یہ غیبت ہے، اور اگر موجود نہ ہو تو کہنے والا بہتان کا مرتکب ہوگا ‘‘ (جو غیبت سے بھی بدتر ہے)۔ [صحیح مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب تحریم الغیبۃ، حدیث: ۴۷۹۶]
ذرا غور کریں کہ بہتان طرازی کس قدر سنگین گناہ ہے۔ اس پر زور دینے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ زنا سے بھی بدترگناہ ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص زنا کرنے کے بعد توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے، لیکن بہتان لگانے والے کو اس وقت تک معاف نہیں کیا جائے گا جب تک کہ خود وہ شخص اسے معاف نہ کر دے،جس پر بہتان لگایا گیا ہے‘‘۔ [بیہقی، شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان، حدیث: ۶۴۴۷]۔
قرآن کی اس آیت پر غور کریں: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ کوئی گروہ (مرد) دوسرےگروہ (مردوں) کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۱) ۔
اس طرح کا تکلیف دہ اور نادانی پر مبنی مذاق واضح طور پر ان آداب کے خلاف ہے، جس کی اللہ اور اس کے رسولؐ ہمیں ہدایت کرتے ہیں۔ اسلام میں کسی بھی مخلوق کا تمسخر اڑانا، یا اسے تضحیک کا موضوع بنانا گناہ ہے، اوریہ گناہ شدید تر ہو جاتا ہے، جب کسی طبقے کے خلاف اس کا ارتکاب کیا جائے۔
الحمد للہ، اکثر مسلمان تحقیر آمیز الفاظ کا استعمال نہیں کرتے۔ لیکن کبھی کبھار ہم ایسے نام سنتے ہیں، جنھیں ہمیں چیلنج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ افراد افریقی نژاد لوگوں کے لیے لفظ ’کالا‘ استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کا لفظی مطلب ہے’سیاہ‘، لیکن اکثر اس کا استعمال تضحیک و توہین کے لیے کیا جاتا ہے۔ کاکیشین کے لیے اردو میں ’گورا‘ اسی زمرے میں آتا ہے ۔ اگرچہ اس کا مطلب محض ایک سفید فام شخص ہے، لیکن یہ اصطلاح سفید نوآبادکاروں یا حملہ آوروں کے تاریخی عدم اعتماد اورفریب کاریوں سے منسوب ہے۔ دوسری طرف زیادہ تر جنوبی ایشیائی لوگوں کو ’شوربے کی بُو والے‘ پاکستانیوں کو ’پاکی‘ کہہ کر پکارا اور یاد کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ اصطلاح ایک نسل کے لوگ اپنی نسل کی برتری کے زعم میں دوسری نسل کے افراد سے متعلق حقارت سے استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح بعض عرب سیاہ فام لوگوں کے لیے’ عبد‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصطلاح کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ کچھ عرب پاکستانیوں کے لیے ’رفیق‘ (ساتھی) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ پھر لفظ ’ابن الخنزیر‘ (سور کا بچہ) عربوں میں خصوصاً یہودیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ القاب پیغمبرؐ اسلام کےماننے والوں کے شایان شان نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک دوسرے کے والدین کی توہین نہ کرنے کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ [صحیح بخاری و صحیح مسلم]
اسلامی اصطلاح ’کافر‘ کا استعمال بھی بہت احتیاط کے ساتھ کرنا چاہیے۔ یہ قرآنی اصطلاح نفرت کے اظہارکی اصطلاح نہیں بننی چاہیے۔
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اہلِ ایمان کے فرائض میں سے ہے۔ آئیے حکمت اور صبر کے ساتھ اس فرض کو پوراکریں۔ شائستگی کادامن نہ چھوڑیں اور اس راستے پر ثابت قدم رہیں۔
اس حدیث پر غور کیجیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ اَخِیْہِ ، رَدّاللہُ عَنْ وَجْھِہٖ النَّارَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ’’جس نے کسی کو کسی مسلمان بھائی کی غِیبت سے روکا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس کے منہ سے دوزخ کی آگ دُور کردے گا‘‘۔ [ترمذی، کتاب الذبائح، ابواب البّر، باب ماجاء فی الذّبّ عن عرض المسلم، حدیث: ۱۹۰۳]
اگر آپ کسی کے سامنے ایسی زبان بولتے ہیں، جو اسے سمجھ میں نہیںآتی تو اس سے بدگمانی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ایسے موقعوں پر وہ مشترکہ زبان استعمال کریں جو سب کے لیے قابل فہم ہو۔مثلاً اگر آپ اور اکبر دونوں پشتو بولتے ہیں، لیکن علیم پشتو نہیں جانتا تو آپ پشتو میں بات کرنے کی بجائے اُردو میں بات کریں،تاکہ علیم خود کو الگ تھلگ محسوس نہ کرے۔ اگر کسی محفل میں آپ اس رویے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انھیں بتائیں کہ یہ غیر منصفانہ عمل ہے۔ اگراس ناانصافی کے مرتکب خود آپ ہیں، تو یہ کہہ کر اپنے رویے کادفاع نہ کریں کہ ’’آپ کو ہماری زبان سیکھ لینی چاہیے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’جب تین افراد اکٹھے ہوں توان میں سے دو کوئی خفیہ بات نہ کریں،اور تیسرے کو اکیلا نہ چھوڑ دیں، یہاں تک کہ بہت سارے لوگوں کے ساتھ مل جائیں۔ کیونکہ یہ اس کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے‘۔ [صحیح مسلم، کتاب السلام، باب تحریم مناجاۃ الاثنین دون الثالث بغیر رضاہ، حدیث: ۴۱۴۸]
میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو مسلمانوں کی مہمان نوازی کی وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں۔ کھانا لوگوں کو اکٹھا کرنے اور دوسروں کو جاننے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ کھانا ساجھاکریں۔بلا شبہہ غذا میں ایک سماجی توانائی بھی ہے ، اس کا استعمال کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’تمھارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے‘ [ترمذی، ابواب البّر والصلۃ عن رسول اللہ، باب ماجاء فی صنائع المعروف، حدیث: ۱۹۲۸]۔ لیکن صرف اپنے لوگوں کے لیے نہیں۔اپنی مسکراہٹ کو اتنا وسیع کریں کہ اس میں سب شامل ہو جائیں کہ مسکراہٹ بند دلوں کو کھول دیتی ہے۔
اس حدیث پر غور کریں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کےقریب ترین وہ لوگ ہیں جو سلام کرنےمیں پہل کرتے ہیں [ابوداؤد کتاب الادب، ابواب النوم، باب فی فضل من بدأ السلام، حدیث: ۴۵۴۳]۔
سلام کرنا مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے،خواہ مخاطب کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو گے جب تک تم ایمان نہ لاؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں ایک ایسی چیز کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہو، جو باہم محبت کرنے کاذریعہ ہے: سلام کے پیغام (السلام علیکم) کو عام کرو‘۔[صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان أنّہ لا یدخُلُ الجنّۃ اِلَّا المؤمنون، حدیث: ۱۰۶]
اللہ تعالیٰ ایک مظلوم شخص کو ظلم کا اسی مقدار میں بدلہ لینے کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس کی نظر میں معاف کردینا بہتر ہے: ’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے، اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (الشوریٰ ۴۲:۴۰)۔
ارشاد ربانی ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائےہو ، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی پٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘(النساء ۴:۱۳۵)۔
المختصر،آج مسلمانوں کی شبیہ میڈیا اور سیاسی رہنمائوں کے ذریعے دن رات مسخ کی جا رہی ہے۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایک بہتر انسان کے طور پر ابھریں، بجائے اس کے کہ اپنی صفائی دینے کے چکر میںاس شیطانی کھیل کا حصہ بن جائیں۔جو دوسروں کو حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگتا ہے، وہ پہلے خوداپنی انسانیت کا قتل کرتا ہے۔ تعصب، نسل پرستی اور قوم پرستی ایک ہی طرح کی بیماریاں ہیں۔ سبھی کے پاس یہ اختیار ہے کہ یا تو وہ اپنی مذہبی تعلیمات کو استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ انسانی اقدار کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا قوم پرستی کی دلدل میں غرق ہو جائیں۔
نسل پرستی اور قوم پرستی دوہری برائیاں ہیں۔ آئیے نسل پرستی کے خلاف ذاتی سطح پر جدوجہد شروع کریں۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔
درود [کے] الفاظ میں چند اہم نکات ہیں، جنھیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے:
اوّلاً، ان سب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ ’مجھ پر درود بھیجنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دُعا کرو کہ اے خدا، تو محمدؐ پر درود بھیج‘۔ نادان لوگ جنھیں معنی کا شعور نہیں ہے، اس پر فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی، اللہ تعالیٰ تو ہم سے فرمارہا ہے کہ تم میرے نبیؐ پر درود بھیجو، مگر ہم اُلٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ تُو درود بھیج۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایاہے کہ تم مجھ پر ’صلوٰۃ‘ کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کرسکتے۔ اس لیے اللہ ہی سے دُعا کرو کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے۔ ظاہر بات ہے کہ ہم حضورؐ کے مراتب بلند نہیں کرسکتے،اللہ ہی بلند کرسکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے، اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے رفعِ ذکر کے لیے اور آپ کے دین کو فروغ دینے کے لیےخواہ کتنی ہی کوشش کریں، اللہ کے فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اُس میں کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی، حتیٰ کہ حضوؐر کی محبت و عقیدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہوسکتی ہے۔ ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپؐ سے منحرف کرسکتا ہے، اعاذنا اللہ من ذٰلک۔لہٰذا ،حضورؐ پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ اللہ سے آپؐ پر صلوٰۃ کی دُعا کی جائے۔ جو شخص اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد کہتا ہے، وہ گویا اللہ کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ خدایا، تیرے نبیؐ پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا میرے بس میں نہیں ہے، تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے۔
ثانیاً، حضوؐر کی شانِ کرم نے یہ گوارا نہ فرمایا کہ تنہا اپنی ہی ذات کو اس دُعا کے لیے مخصوص فرما لیں، بلکہ اپنے ساتھ اپنی آل اور اَزواج اور ذُریت کو بھی آپؐ نے شامل کرلیا۔ اَزواج اور ذُریت کے معنی تو ظاہر ہیں۔ رہا ’آل‘ کا لفظ، تو وہ محض حضوؐر کے خاندان والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں وہ سب لوگ آجاتے ہیں جو آپؐ کے پیرو ہوں اور آپؐ کے طریقے پرچلیں۔
عربی لُغت کی رُو سے ’آل‘ اور ’اہل‘ میں فرق یہ ہے کہ کسی شخص کی ’آل‘ وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں، جو اس کے ساتھی، مددگار اور متّبع ہوں، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں، اور کسی شخص کے ’اہل‘ وہ سب لوگ کہے جاتے ہیں، جو اس کے رشتہ دار ہوں، خواہ وہ اس کے ساتھی اور متبّع ہوں یا نہ ہوں۔قرآنِ مجید میں ۱۴ مقامات پر ’آلِ فرعون‘ کا لفظ استعمال ہواہے اور ان میں سے کسی جگہ بھی ’آل‘ سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں، بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو حضرت موسٰی کے مقابلے میں اس کے ساتھی تھے۔پس،آلِ محمدؐ سے ہروہ شخص خارج ہے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہ ہو، خواہ وہ خاندانِ رسالتؐ ہی کا ایک فرد ہو، اوراس میں ہروہ شخص داخل ہےجو حضورؐ کے نقش قدم پر چلتا ہو، خواہ وہ حضوؐر سے کوئی دُور کا بھی نسبی تعلق نہ رکھتا ہو۔ البتہ خاندانِ رسالت کے وہ افراد بدرجۂ اولیٰ آلِ محمدؐ ہیں جو آپؐ سے نسبی تعلق بھی رکھتے ہیں اور آپؐ کے پیروبھی ہیں۔
ثالثاً، ہر درود جو حضوؐ ر نے سکھایا ہے، اس میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ ’آپؐ پر ویسی ہی مہربانی فرمائی جائے، جیسی ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیمؑ پرفرمائی گئی ہے‘۔ اس مضمون کو سمجھنے میں لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی ہے۔ میرے نزدیک صحیح تاویل یہ ہے (والعلم عنداللہ) کہ اللہ تعالیٰ نےحضرت ابراہیمؑ پر ایک خاص کرم فرمایا ہے جو آج تک کسی پر نہیں فرمایا، اور وہ یہ ہے کہ تمام وہ انسان جو نبوت اور وحی اور کتاب کو ماخذ ِ ہدایت مانتے ہیں، وہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیشوائی پر متفق ہیں، خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی۔ لہٰذا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاؑ کے پیرووں کا مرجع بنایا ہے، اسی طرح مجھے بھی بنادے۔
یہ امر کہ حضوؐر پر درود بھیجنا سنت ِ اسلام ہے، جب آپؐ کا نام آئے اس کا پڑھنا مستحب ہے، اور خصوصاً نماز میں اس کا پڑھنا مسنون ہے، اس پر تمام اہلِ علم کا اتفاق ہے۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ عمر میں ایک مرتبہ حضوؐر پر درود بھیجنا فرض ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اس کا حکم دیا ہے۔ (تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۱، اپریل ۱۹۶۲ء، ص ۲۴-۲۵)