فروری ۲۰۲۰

فہرست مضامین

جنازے کے آداب

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | فروری ۲۰۲۰ | درس حدیث

حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنازے کو اٹھانے میں جلدی کرو کیونکہ اگر مرنے والا صالح تھا، تو اس کا جنازہ اٹھانے میں جلدی کرنا ایک بھلائی ہے، جو تم اس کے ساتھ کرو گے۔ اگرمرنے والا اور قسم کا آدمی تھا تو وہ ایک برائی ہے، جسے تم جتنی جلدی کندھوں سے اتار دو ، اتنا ہی بہتر ہے۔[متفق علیہ، مشکوۃ:۱۵۵۶]
لیکن ہمارے ہاں جنازے کو دیر تک گھر میں ڈالے رکھنے کا طریقہ عام ہو چکا ہے ۔ تاخیر کا یہ طریقہ غلط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جتنی جلدی ممکن ہو جنازے کو اٹھا لیاجائے‘‘۔ اس کے اندر ایک مصلحت تو یہ ہے کہ کہ لاش سڑنے یا گلنے نہ پائے اور اس میں بو نہ پیدا ہو ۔ اور یہ بھی کہ مرنے والے کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے، وہ اس کی روح سے ہوتی ہے ۔ روح کے نکلنے کے بعد یہ جسم محض مٹی ہے، اس مٹی کو گھر میں ڈالے رکھنا محبت نہیں ہے۔ اور یہ بات خود مرنے والے کے لیے بھی اچھی نہیں ہے۔ اگر نیک ہے تو جتنی جلدی منزل پر پہنچا دو اتنا ہی بہتر ہے، اور اگر بد ہے تو جتنی جلدی اس بار کو اپنے اوپر سے ہٹا دیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔
 حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جب جنازہ لا کر رکھا جاتا ہے ، (یعنی گھر سے نکال کر ) پھر لوگ اپنے کندھوں پر اٹھا کر اسے لے کر چلتے ہیں، تو اگر مرنے والا نیک انسان ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ’’مجھے جلدی لے چلو‘‘۔ اگر مرنے والا صالح نہیں ہوتا، تو اٹھا کر لے جانے والوں سے کہتا ہے: ’’ہائے میری کم بختی !کہاں لے جا رہے ہیں یہ میرا جنازہ ‘‘۔اس کی آواز ہر چیز سنتی ہے مگر انسان نہیں سنتا۔ اگر انسان اس آواز کو سن لے تو بے ہوش ہو جائے ۔[بخاری، مشکوٰۃ: ۱۵۵۷]
اس سے مراد یہ نہیں کہ خود مردہ بولتا ہے بلکہ روح یہ سمجھتی ہے کہ اب میری شامت آگئی___  اگر نیک انسان ہو تو اسے اللہ کے دربار میںجانے کی خوشی ہوتی ہے۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے کسی انسان کو باد شاہ یا حکمران کے دربار میں حاضری کا موقع ملے تو اسے مسرت ہوتی ہے، لیکن اگر وہ مجرم کی حیثیت سے وہاں جائے تو معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے ۔ اگر مرنے والا غیر صالح ہو تو اسے قدم قدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ میں مجرم ہوں، اور مجھے حوالات میں بند کرنے کے لیے لے جارہے ہیں___ یہ احساس ، یہ سوچ اور چیخنا چلّانا مردہ جسم کا نہیں ہوتا بلکہ یہ روح کہہ رہی ہوتی ہے ___مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ روح کس شکل میں ہوتی ہے ، اورکس زبان میں بولتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ علم ہوتا ہے کہ نیک کو جلدی ہوتی ہے اور بد کو اپنی شامت نظر آتی ہے ___ یہ جو فرمایا کہ ’’اس آواز کو کوئی انسان نہیں سنتا ، باقی ہر چیز سنتی ہے، تو یہ اس لیے ہے کہ انسان سے عالم آخرت کی ہر چیز کو مخفی رکھا گیا ہے۔ اسے تو رسول ؐ کے واسطے سے جو معلومات ملتی ہیں، انھی پر ایمان بالغیب لانا ہوتا ہے۔ اگر انسان کو معلوم ہو جائے کہ مرنے کے بعد کیا کیا ہوتا ہے؟ اور وہ ان سب چیزوں کو آنکھوں سے دیکھ لے، تو پھر کون شخص ہے جو ایمان نہ لائے گا؟ اس عالم کے سارے معاملات کو انسان سے مخفی رکھنے کی غرض اس کا امتحان ہی ہے ۔
حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔ پھر جو جنازے کے ساتھ جائے تو اسے چاہیے کہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے ۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ:۱۵۵۸]
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں:ایک تو یہ کہ جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہو جاؤ۔ اب اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا لازم ہے یا ایسا کرنا اچھا ہے ؟ اگر کھڑا ہو تو بہتر ہے ، اور نہ ہو تو کیا گناہ گار ہوگا؟ اس کے بعد جو احادیث آگے آرہی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واجب نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ کھڑا نہ ہو تو گنہگار ہوگا۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ جب جنازہ گزر رہا ہو تو انسان کھڑا ہو جائے اور اس وقت تک کھڑا رہے، جب تک کہ گزر نہ جائے۔ یہ ایک ادب واخلاق کی بات ہے، بجاے خود شرعی حکم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ ’’جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے ، بیٹھو نہیں‘‘۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک قبر میں نہ رکھ دیا جائے ، اس وقت تک نہیں بیٹھنا چاہیے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رکھنے کا مطلب کندھوں سے اتار کر زمین پر رکھنے کا ہے، جاتے ہی بیٹھ جانا درست نہیں ۔
حضرت جابر ؓ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جنازہ گزر رہا تھا ، اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے ۔ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ ہم نے عرض کیا : یہ تو ایک یہودی عورت کا جنازہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’ یہ موت خوف ناک چیز ہے۔ جب جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو‘‘۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ:۱۵۵۹]
یعنی کھڑا ہونا اس وجہ سے ہے کہ جو وقت اس پر آیا ہے، وہ کل ہم سب پر بھی آنے والا ہے۔ یہ گویا اشارہ ہے اس بات کا، کہ دراصل موت کا خوف ہر آدمی کو ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اگر قبرستانوں، مُردوں اور جنازوں کو دیکھ کر بھی کسی انسان کو یہ یاد نہ آئے کہ اسے بھی مرنا ہے اور حساب دینا ہے، تو اس آدمی کی غفلت کی کوئی حد ہی نہیں۔ جنازہ دیکھ کر یہ حقائق سوچنے اور ان احساسات کو اپنے اُوپر طاری ہونے دینے کا ایک بہت بڑا اخلاقی فائدہ یہ ہوتا ہے، کہ انسان عبرت محسوس کرتا ہے ۔ اگر قبرستانوں ، اور جنازوں کو دیکھ کر بھی کوئی شخص اس غلط فہمی میں رہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں گا، تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو اصل بات بار بار یاد دلانے کا انتظام کر رکھا ہے۔
حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنازے کے لیے کھڑے ہوتے، تو ہم بھی کھڑے ہوتے۔ جب آپ بیٹھتے، تو ہم بھی بیٹھ جاتے ___  دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے کھڑے ہوتے تھے ، بعد میں بیٹھنے لگے ۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ: ۱۵۶۰]
اس سے معلوم ہوا کہ کھڑا ہونا لازم نہیں۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر کام قانون کا ماخذ بننا تھا، اس لیے اگر آپؐ کوئی حکم فرماتے ہیں تو یہ فرض بن جاتا___ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طریقہ تو یہ تھا کہ کھڑے ہو جاتے، مگر کبھی کبھی بیٹھے رہتے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ فرض نہیں ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ اپنے ایمان اور احتساب (اللہ کی خوش نودی) کی بنا پر رہتا ہے ، یہاں تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے دفن سے فارغ ہو جائیں، تو وہ دہرا اجر لے کر پلٹتا ہے، جس کا ایک ایک حصہ اُحد [پہاڑ] کے برابر ہے ۔اور جو شخص نماز پڑھ کر واپس آ جاتا ہے، قبل اس کے کہ میت کو دفن کیا جائے، تو وہ ایک حصہ اجر لے کر آتا ہے۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ: ۱۵۶۱]
یعنی جو صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آ جائے، وہ ایک حصہ اور جو شخص دفن کے بعد لوٹے وہ دو حصے اجر لے کر آتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ کوئی معمولی نیکی نہیں ہے، بلکہ بہت بڑی نیکی ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ایک ایک حصہ اُحد کے برابر ہے، مگر شرط یہ عائد کی گئی ہے کہ یہ کام ایک تو ایمان کے جذبے سے کیا جائے اور دوسرے مقصود یہ ہو کہ اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔ اگر اس سے کسی دوست کو راضی کرنا پیش نظر ہو تو لیجیے وہ راضی ہو گیا، مگر ربّ کے ہاں سے تو اجر تب ہی ملے گا، جب اس کی خوشنودی اور رضا کے لیے کام کیا جائے۔ اللہ کے ہاں اجر پانے کا یہی اصول ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کو اپنی محبت کی بنا پر روٹی کھلاتے ہیں، تو آپ کا دل خوش ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس خیال سے کھلاتے ہیں کہ ’’یہ بچہ اللہ کا عطا کیا ہوا ہے اور اس کی پرورش اللہ کی طرف سے مجھ پر فرض ہے‘‘۔ اور اس صورت میں جب آپ روٹی اپنے بچے کو کھلائیں گے، تو اس پر اجر اللہ کی طرف سے ملے گا۔کسی بھی کام میں اللہ کی رضا کو نظر انداز کر کے دنیوی مقاصد کے لیے کیا جائے، تو اس پر اجر کیوں کر مل سکتا ہے؟
پھر حدیث نبویؐ میں جنازے کے ساتھ جانے کی جو ہدایت کی گئی ہے، غور کیا جائے تو ایک معاشرے میں اس کی بڑی بنیادی اہمیت ہے۔ ایک مسلم معاشرے میں ایک دوسرے سے جذبۂ محبت ، رفاقت ، ہمدردی اور غم خواری کا پیدا ہونا ہی وہ اصل چیز ہے، جو اسے باہم مربوط معاشرہ اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اگر معاشرہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہو کہ ان میں سے کسی کو کسی کے ساتھ ہمدردی نہ ہو، وہ ایک دوسرے سے بغض وحسد رکھتے ہوں، ایک دوسرے کو ذلیل کرنے ، گرانے اور ایک دوسرے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی فکر میں لگے رہتے ہوں، تو وہ  مل کر کوئی متحد ہ طاقت بنانے کے قابل نہیں ہو سکتے ۔ اس لیے ہر وہ چیز جو مسلم معاشرے کو باہم پیوستہ کرنے والی ہو، باہمی اخوت پروان چڑھانے اور برادری کا جذبہ پیدا کرنے والی ہو،ایک دوسرے سے جوڑنے اور وابستہ کرنے والی ہو، اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے اجر کا مستحق قرار دیا ہے۔ درحقیقت معاشرہ، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جی رہا ہو، تو اس کی ہر حرکت اجر کی مستحق ہو گی۔
غور کیجیے کہ ایک آدمی کے ہاں موت واقع ہو جائے اور اس کے گرد وپیش کوئی حرکت نہ پیدا ہو، تو اس پر کیا بیتے گی۔ ایسا معلوم ہو گا کہ اس معاشرے میں انسان نہیں حیوانات رہتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست بمبئی میں رہتے تھے۔ ایک زمانے میں وہ ملحدانہ خیالات رکھتے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے رہایش بھی بمبئی کے اس محلے میں رکھی جس میں فرنگی رہتے تھے___  اس دوران ان کی بیوی بیمار ہوئی اور رات کے وقت فوت ہو گئی۔ گھر میں ان کے علاوہ ایک بچی تھی ، جو ماں کی موت پر رونے لگی۔ بچی کے رونے کی آوازیں سن کر آس پڑوس والے جاگ گئے اور آ کر کہا کہ ’’ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’میری بیوی مر گئی ہے اور بچی رو رہی ہے‘‘ ۔ وہ کہنے لگے ’’یہ تو ٹھیک ہے مگر ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہو؟‘‘ صبح محلے بھر میں جنازہ اٹھانے والا تو کجا، ہمدردی کے دو بول کہنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ وہ وہاں سے دور مسلمانوں کے محلے میں گئے۔ وہاں سے لوگ آئے اور جنازہ اٹھا ۔ اس واقعے نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور یہی واقعہ ان کے لیے کفر سے اسلام کی طرف پلٹنے کا سبب بنا۔ گویا کہ اس طرح کے معاشرے میں یہ ہوتا ہے کہ اگر موت واقع ہو جائے تو کمپنی کو اطلاع دے دی جاتی ہے اور وہ بزنس کے طور پر لاش کو گاڑی میں  رکھ کر لے جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انسانیت نہیں ہے ۔ انسانیت، اخوت اور معاشرتی ہمدردی یہ ہے کہ پورا محلہ جمع ہو، تعزیت کرے، مرنے والے کے رشتہ داروں سے سچے دل سے ہمدردی کرے۔ ان کے ہاں کھانا نہ پک سکے، تو کھانا مہیا کرے۔ اللہ کی رضا کے لیے یہ سارے کام کیے جائیں، تو یقینا یہ ساری چیزیں ایک دوسرے سے پیوستہ کرنے والی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؐ میں لوگوں کو نجاشی کے مرنے کی خبر دی، اس روز کہ جس روز وہ مرا اور لوگوں کو لے کر مصلے (وہ کھلا مقام جو نمازِ عید کے لیے مقرر کیا گیا تھا ) کی طرف نکلے۔ انھیں صف بستہ کیا اور چار مرتبہ جنازے میں تکبیریں پڑھیں۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ: ۱۵۶۲]
اس حدیث میںپہلی بات تو یہ ہے کہ نجاشی جو حبشہ کا باد شاہ تھا، جب حبشہ میں وفات پا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف فرما تھے۔ اسی روز آپ نے مدینہ میں لوگوں کو خبر دی کہ تمھارا بھائی نجاشی مر گیا ہے۔ اس زمانے میں کوئی ٹیلی گراف نہ تھا، نہ ریڈیو۔لیکن رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے خبر دے دی گئی۔ دوسرے یہ کہ نجاشی وہی ہے جس کے پاس صحابہ ؓ ہجرت کر کے گئے تھے اور حضرت جعفر طیار ؓ کی تبلیغ سے اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ نجاشی نے ہی ام حبیبہ ؓ کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھایا (جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام حبشہ پہنچا )اور اپنی طرف سے مہر دیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، لوگوں کو نجاشی مرحوم کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے مصلے کی طرف گئے ۔ اس سے دو مسئلے پیدا ہوتے ہیں :  lنماز جنازہ غائبانہ  l نماز جنازہ مسجد نبویؐ میں نہیں بلکہ باہر عید گاہ میں پڑھی گئی ۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین اشخاص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی: ایک نجاشی کی، دوسرے حضرت جعفر ؓ طیار کی، تیسرے ایک اور صحابیؓ کی۔ حنفی مسلک میں ان تین واقعات کی بنا پر غائبانہ نماز جنازہ مسنون نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بکثرت صحابہ ؓ کا مدینہ سے باہر انتقال ہوا،جن کی وفات کی خبریں مدینہ میں پہنچتی رہیں، مگر ان کی غائبانہ نماز جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھی ۔ اگر   اس طریقے کو رائج کرنا مقصود ہوتا تو یہ حکم دیا جاتا کہ جو کوئی وفات پائے، تو جہاں جہاں خبر پہنچے وہاں کے لوگ غائبانہ نماز جنازہ پڑھیں۔ اس طرح خلفاے راشدین کی نماز جنازہ تمام دنیاے اسلام میں پڑھی جاتی مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ گویا یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر نہیں کیا ۔ مثال کے طور پر ان واقعات میں غائبانہ نماز جنازہ کا کوئی نہ کوئی سبب موجود تھا۔
نجاشی حبش میں اکیلے مسلمان تھے۔ یہ بھی بعید نہیں کہ عیسائیوں نے انھیں اپنے طریقے کے مطابق دفن کیا ہو۔ حضرت جعفر ؓ طیار کفا ر کے ملک میں شہید ہوئے، وہاں جنازے کا سوال ہی نہ تھا۔ اس طرح کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے نماز جنازہ غائبانہ پڑھی جاتی ہے ۔ یعنی اس کا پڑھنا ناجائز یا حرام بھی نہیں ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر مسجد نبوی میں دی، مگر نماز کے لیے باہر تشریف لے گئے۔یہاں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ نماز جنازہ مسجد میں ہوسکتی ہے، مگر حنفی اور مالکی اس بات کے قائل ہیں کہ مسجد میں نہیں باہر پڑھی جانی چاہیے۔ چنانچہ وہ ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ آںحضور ؐ نے ، جیسا کہ متعدد دوسری احادیث سے ثابت ہے، مسجد نبویؐ سے باہر ایک جگہ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے مقرر کی تھی۔ پہلے گروہ والے اس واقعے سے استدلال کرتے ہیں جس کے مطابق سہیل بن بیضاء کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس زمانے میں آپ ؐ مسجد نبوی میں اعتکاف میں بیٹھے تھے۔
حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد آپ ؐ نے لوگوں کو صف بستہ کیا اور چار تکبیریں پڑھیں۔ تکبیروں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ احادیث میں تعداد تین سے آٹھ تک ہے۔ مختلف زمانوں میں آپ ؐ نے مختلف طرح سے مختلف تعداد میں تکبیریں پڑھیں۔ صحابہ ؓ نے اس تحقیق کی کوشش کی ہے کہ آخری عمل کیا ہے ؟ معلوم ہوا کہ آخری زمانے میں چار تکبیریں ہی پڑھیں۔ چنانچہ عام طور پر وہی طریقہ رائج ہے، مگر زائد تکبیریں پڑھنا ناجائز بھی نہیں ہے۔
سوالات وجوابات

س:کیا آپ ٹیپ ریکارڈر کو ایک فرشتہ تصور کرتے ہیں ؟
ج: (مسکراتے ہوئے ) میرا خیال ہے کہ کسی بات کو سنتے ہوئے ، سوچنے کا کام کانوں کے بجاے دماغ سے لینا چاہیے ۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فرشتے ہماری تمام باتوں کا ریکارڈ رکھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ریکارڈ ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے رکھا جا رہا ہے یا فرشتے کاپی پنسل لے کر ہرچیز لکھ رہے ہیں۔ درحقیقت ریکارڈ رکھنے کی بے شمار شکلیں ہیں جو ہمارے علم سے بالاترہیں۔ جب خود انسان ٹیپ ریکارڈر بنانے پر قادر ہو گیا ہے، جس کے ذریعے انسانی آواز اور لہجہ تک محفوظ ہوجاتا ہے، تو اللہ کے فرشتے نامعلوم کس کس طرح ہماری باتوں کو ریکارڈ کر رہے ہیں ۔

س: کیا انسان کے مرنے کے فوراً بعد جزاو سزا کا عمل شروع ہو جاتا ہے ؟
ج : اصل میں قیامت کا روز تو وہ ہو گا جب اللہ کی عدالت قائم ہو گی، اور اس عدالت سے فیصلہ ہو گا کہ کون سزا کا مستحق ہے اور کون جزا کا؟ مگر مرنے کے وقت سے یہ فیصلہ تو ہو جاتا ہے کہ یہ آدمی دنیا میں نیکوکار کی حیثیت سے رہا یا مجرم کی حیثیت سے ___ اور اسی سے یہ بات معلوم ہو جاتی کہ آنے والا معزز مہمان ہے یا ’حوالاتی‘ ہے، یعنی اسے مہمان خانے میں اُتارا جائے یا حوالات میں رکھا جائے؟ فرشتوں کا ریکارڈ تو عدالت کے موقعے پر کام آئے گا ۔ مگر ذاتِ باری تعالیٰ کا براہِ راست علم (جسے معلوم ہے کہ کون ہے جو نیک ہے اور کون ہے جو بد ہے ) اس کا م آتا ہے کہ مرنے کے فوراً بعد اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ یہی ثواب وعذابِ برزخ کی حقیقت ہے ۔

س: میرے دل ودماغ میں برے کاموں کی طرف رغبت ہوتی ہے ، نیکی کے بجاے شیطانی کاموں کی طرف زیادہ توجہ رہتی ہے۔ اس سے نجات کا کوئی طریقہ بتائیے؟
ج: اپنے دل میں اللہ کا خوف پیدا کریں ۔اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کو پیدا کرنے اور اسے تازہ رکھنے کی کوشش کریں ۔ اس کے سوا اور کوئی ذریعہ شیطان کے پھندے سے نکلنے کا نہیں ہے۔ اگر اس کے باوجود شیطان کے پھندے میں پھنس جائیں تو مایوس نہ ہوں، کبھی ہمت نہ ہاریں، شیطان کی ترغیبات کو برابرresist کرتے رہیں، مسلسل جدوجہد اور کش مکش کرتے رہیں۔ ایک پہلو ان کی طرح اپنے اس دشمن سے برابر لڑتے رہیں، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔

س: مجھے نیکی کی بات یاد نہیں رہتی مگر بُری بات پانچ سال گزرنے پر بھی یاد رہتی ہے۔ اس کا کیا علاج ہے؟
ج: اس کے لیے باہر سے کوئی ترکیب نہیں بتائی جاسکتی۔ آپ کو اپنے اندر سے مسلسل کش مکش جاری رکھنی چاہیے۔ آپ کا اس بارے میں دریافت کرنا بھی یہ بتاتا ہے کہ آپ اس مصیبت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اور بُرے خیالات سےبچنے اور اچھے خیالات کو اپنانے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ اس صورت میں آپ مسلسل کوشش کرتے رہیں اور مایوس نہ ہوں۔

س: یہ سنا ہے کہ مسجد میں نمازِ جنازہ نہیں ہوتی؟
ج: درست سنا ہے، مگر کہنا یہ چاہیے کہ ’مسجد میں نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے‘۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اس بات کا خطرہ نہ ہو کہ مُردے کے جسم سے کوئی رطوبت وغیرہ ٹپک کر مسجد کو گندا نہ کردے گی، تو نمازِ جنازہ پڑھ لینی چاہیے۔ مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کو حرام کوئی نہیں کہتا۔

س: کیا اس کی ایک صورت یہ نہیں ہوسکتی کہ مسجد کے محراب میں ایک کھڑکی ہو، جنازہ اس کھڑکی کے باہر رکھا جائے، اور نمازِ جنازہ پڑھنے والے مسجد کے اندر نمازِ جنازہ پڑھیں؟
ج: (مسکراتے ہوئے فرمایا:) آخر اتنے تکلّف کی ضرورت کیا ہے کہ محراب میں سے کھڑکی نکالی جائے اور یہ سارے تکلفات کیے جائیں۔ خدا کی زمین اتنی تنگ تو نہیں ہے کہ نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے جگہ نہ مل سکے۔

س: کیا عورتیں نمازِ جنازہ میں شریک ہوسکتی ہیں؟
ج: نمازِ جنازہ میں عورتوں کی شرکت حرام یا ممنوع نہیں ہے، مگر عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے سعد ابی وقاصؓ کا جنازہ مسجد ِ نبوی میں منگوایا کہ وہ بھی شریک ہوسکیں۔ان معاملات میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ بہتر کیا ہے۔