فروری ۲۰۲۰

فہرست مضامین

یکساں نصاب کےنام پر!

پروفیسر ملک محمد حسین | فروری ۲۰۲۰ | تعلیم و تعلّم

Responsive image Responsive image

وفاقی حکومت نے پورے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نصابِ تعلیم کے نفاذ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس ضمن میں مرکزی وزارتِ تعلیم نے پرائمری جماعتوں کے مجوزہ نصاب کا مسودہ جاری کیا ہے، جس کے مطابق :
-  پہلی اور دوسری جماعت میں انگریزی ، اردو ، ریاضی اورمعلومات عامہ (جنرل نالج) کے مضامین تجویز کیے گئے ہیں۔ جنرل نالج میں معاشرتی علوم، سائنس اور اسلامیات کی معلومات دی گئی ہیں۔
-  تیسری جماعت میں انگریزی، اردو، ریاضی، معلومات عامہ اور اسلامیات کے مضامین تجویز کیے گئے ہیں۔
-  چوتھی اور پانچویں جماعت میں انگریزی، اردو، ریاضی ، سائنس، اسلامیات، معاشرتی علوم کے مضامین تجویز کیے گئے ہیں۔
 نصابی تجاویز میں ’اقداری تعلیم‘ (Value Education)کے نام سے ایک علیحدہ نصابی کتابچہ فراہم کیا گیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ مجوزہ قدریں (Values) سارے نصاب اور سارے مضامین میں اساسی فکر کے طور پر نصابی وجود میں پھیلی ہوں گی اور یہی قدریں طلبہ و طالبات کی شخصیت کا حصہ بنائی جائیں گی۔

’اقداری تعلیم‘ کے لیے سفارشات

نصاب کے باقی حصوں پرتبصرہ بعد میں کیا جائے گا پہلے ’اقداری تعلیم‘ (ویلیو ایجوکیشن) کو دیکھتے ہیں کیونکہ اس کی تفصیلات پہلی سے بارھویں جماعت تک دی گئی ہیں۔ حقیقتاً ’ویلیو ایجوکیشن‘ کا یہ کتابچہ حکومت کی نصابی پالیسی کی بنیاد ہے۔
اقداری تعلیم، معلوماتِ عامہ، معاشرتی علوم وغیرہ کی تفصیلات دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ نصاب کی تشکیل ہیومنزم (Humanism)کے فلسفے کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ اقداری تعلیم میں جن اقدارکو طلبہ کی شخصیت اور ان کے فکر وخیال میں راسخ کرنے کا عزم کیا گیاہے وہ اساسی اقدار حسب ذیل ہیں: ۱- ہمدردی اورنگہداشت یادیکھ بھال ۲- راست بازی اور امانت داری ۳- ذمہ دارانہ شہریت۔
ذیلی اقدار میں جن قدروں کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہیں:
’’اپنی ذات کے لیے ہمدردی، اپنوں اور دوسروں کی دیکھ بھال؍نگہداشت،ماحول کے لیے ہمدردانہ دیکھ بھال، حفاظت اور سلامتی، سچائی، اعتباریت، انصاف، محنت، بہترین کی تلاش، بدعنوانی سے اجتناب، معاشرے کی تنظیم کا فہم، قانون ، قواعد و ضوابط کا احترام، باہمی اشتراک، اختلاف راے کا احترام،برداشت، امن اور سماجی ربط، جمہوری اقدار، انسانی حقوق، مقامی اور عالمی شہریت،حفظان صحت کی تعلیم، جنسی مساوات، شہری برابری، وابستہ بہ شمار (ڈیجٹیل) شہری، سائیبر رہبری وغیرہ کا فہم‘‘۔
بیان کیا گیا ہے کہ یہ اقدار نظامِ عقائد (Belief System)کی وضاحت کرتی ہیں کہ ایسا نظامِ عقائد جو ہمارے رویوں، فکر وتدبر اور اعمال کی تشکیل کرتا ہے ۔یہ اقدار ہمیں اس قابل بناتی ہیں کہ ہم منصفانہ اور غیر منصفانہ میں تمیز کرسکیںاور درست اور غلط میں فرق سمجھ سکیں۔
نصابی دستاویز میں جابجا کہا گیا ہے کہ مذکورہ اقدار پورے نصاب میں ایک راسخ اور مضبوط دھارے کے طور پر پھیلا دی جائیں گی۔ جب ہم معلوماتِ عامہ، معاشرتی علوم، حتیٰ کہ اسلامیات کے مجوزہ نصاب پر نظر ڈالتے ہیں تو ’اقداری تعلیم‘ کے یہ تصورات ہرطرف نظر آتے ہیں۔
یہ بات علمی حلقوں میں واضح ہے کہ ہیومنزم (Humanism)باقاعدہ ایک فلسفہ ہے، جس کا ایک اپنا تصورِ جہاں اورتصورِ کائنات ہے اور یہ کسی خدائی نظام کو نہیں مانتا ۔ یہی آج کے دور میں مغرب کا نظامِ حیات ہے۔ ہیومنزم اپنے عملی اقدامات میں انسانوں کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے: پہلی قسم ہے انسان (Humans)، دوسری قسم ہے تابع انسان( Sub-Humans ) اور تیسری قسم ہے منفی انسان(Non-Humans) ۔
مغربی لوگ اپنے آپ کو ’انسان‘ کہتے ہیں۔ ایشیائی لوگ ان کے نزدیک ’تابع انسان‘ ہیں اور غیر ترقی یافتہ معاشرے، مثلاً افریقی ’منفی انسان‘ ہیں۔ دنیا میں اس وقت جو جنگ وجدل ، قتل وغارت اور ظلم وستم نظر آرہا ہے، وہ ہیومنزم کے انھی تصورات کی وجہ سے ہے۔
ہمارے مقتدرحلقے ہیومنزم کے فلسفۂ حیات کو اور ہیومنزم کی اقدار کو ہماری تعلیم کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں، جب کہ اس کے مقابلے میں: ہمارا نظامِ حیات، ہمارا تصورِ جہاں اور ہمارا آئین اور معاشرتی نظام، جس فلسفۂ حیات پر مبنی نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کو تشکیل دینا چاہتے ہیں وہ اسلام ہے۔ نظریۂ پاکستان ، قائد اعظم کے تصورات، قرار دادِ مقاصد، دستوراسلامی جمہوریہ پاکستان کا آرٹیکل۳۱  تقاضا کرتا ہے کہ ہمارا قومی نظامِ تعلیم اور ہمارا قومی نصاب اسلام کے نظامِ حیات پر مبنی ہوگا، جس کی اساسی اقدار توحید ،رسالت ، آخرت اور عبادت ہیں۔ ان اقدار کے مطابق انسان بنیادی طور پر اللہ کا بندہ ہے اور اس کا مقصد ِزندگی اللہ کی عبادت، یعنی بندگی اور اطاعت ہے۔ جن کی ذیلی اقدار میں حلال، حرام، عدل، ظلم، گناہ ، ثواب ، خیر ، شر، دیانت، امانت، صدق، تعاون، اعتدال وغیرہ ہیں۔ یہی وہ اقدار ہیں جو پورے نصاب کے تانے بانے میں پھیلانا ہوں گی اور تعلیم کا مقصد انھی اقدار کو نئی نسل کے رویوں اور فکروعمل میں جاری وساری کرنا ہے۔
تاہم، یہاں بالکل مختلف ذہن اس نصابی کام پر حاوی ہے جو ہماری آیندہ نسلوں کو اپنے دین، اپنے کلچر، اپنی روایات اور اپنے تصورِ کائنات سے دور لے جانا چاہتا ہے۔اگر ہم پچھلے چندبرسوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ مغربی وسائل پر پلنے اوران کے ایجنڈے کو لے کر چلنے والی این جی اوز اور خاص طور پر ’یوایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم‘یعنی ’امریکی کمیشن براے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘ نے ہماری تعلیمی پالیسیوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ مذکورہ امریکی کمیشن نے ۲۰۱۵ء میں ہماری نصابی اور درسی کتب پر جو تحقیقات کروائیں، ان کے مطابق تقریباً ۷۰ موضوعات کو قابلِ اعتراض گردانا گیا۔ یہ سب کے سب موضوعات دینی موضوعات ہیں۔ اس کے بالمقابل جن اقدار کو ہمارے نصاب اور درسی کتب میں نافذ کرنے کی سفارش کی گئی، وہ تمام وہی ہیں جو ہم نے ان کی ’اقداری تعلیم‘ کے تحت گنوائی ہیں۔ مذکورہ امریکی کمیشن کی رپورٹوں میں جہاد کو خصوصی نشانہ بنایا گیا، نیز قادیانیت کے متعلق اعتراض اٹھائے گئے۔ مذکورہ کمیشن کی ۲۰۱۹ء کی رپورٹ میں پاکستان کے اس قانونی اقدام کی سخت مخالفت کی گئی ہے جس کے مطابق ناظرہ قرآن اور     ترجمۂ قرآن اسکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔ صدافسوس کہ ہمارے ہاں نصابی خاکے میں پوری اطاعت گزاری کے ساتھ امریکی سفارشات پر عمل کیا گیا ہے۔

مجوزہ نصابات پر ایک نظر

- اسلامیات کا نصاب : اسلامیات کا نصاب پہلے بھی ہمارے ہاں اپنے حجم اور تنوع کے لحاظ سے بہت مختصر ہوتا ہے، جس سے طالب علم کے ذہن میں نہ اسلامی عقائد راسخ ہوتے ہیں اور نہ اسلامی نظام حیات کا کوئی واضح اور مربوط تصور پیدا ہوتا ہے۔ زیر غور نصاب میں پہلی سے پانچویں تک ناظرہ قرآن شامل کیا گیا ہے جو فی الحقیقت ۱۹۶۰ء سے لازمی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے لیے اسکولوں میں زیرو پیریڈ ہوا کرتا تھا، جس میں ناظرہ قرآن پڑھایا جاتا تھا۔ عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا رہا۔ اب حکومت نے تدریس القرآن کے متعلق بل پاس کیا ہے، جس سے توقع پیدا ہوئی ہے کہ پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن اور اعلیٰ ثانوی درجے تک ترجمۂ قرآن کی تکمیل ہوگی۔ زیر غور نصاب میں اچھا ہوتا اگر تدریس القرآن کو علیحدہ حیثیت دی جاتی، نیز اسلامیات کے نصاب میں بنیادی تصورات زیادہ وسعت اور گہرائی کے ساتھ دیے جاتے۔
نصاب کو ایمانیات ، عبادات، سیرت طیبہ، ہدایت کے سرچشمے، مشاہیر اسلام، اسلامی تہذیب اور عصر حاضر کے عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے ۔ عنوانات تو بلاشبہہ جامعیت ظاہر کرتے ہیں، لیکن مواد جو ان عنوانات کے تحت تجویز کیا گیا ہے، وہ بہت ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ مشاہیر اسلام میں چار پیغمبر اور چار خلفاے راشدین دیے گئے ہیں ۔ بہتر ہوتا اگر حضرت آدم علیہ السلام کے ذکر سے پیغمبروں کا سلسلہ شروع ہوتا۔ درجہ بدرجہ جماعتوں میں بچوں کو تصور یہ دیا جانا چاہیے کہ حضرت آدمؑ سے لے کر نبی آخر الزماں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ کی طرف سے دین اسلام ہی بھیجا جاتارہا ہے۔ نصاب میں سے غزوات کو بالکل نکال دیا گیا ہے اور جہاد کا تصور بھی مکمل طور پر مفقود ہے۔ حق کے لیے اللہ کی راہ میں جدوجہد جب تک بچوں کے اذہان میں جاگزیں نہ ہو،  اُن میں حریت اور حق وصداقت کے لیے کھڑا ہونے کا جذبہ کیسے پیدا ہوگا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’اقداری تعلیم‘ جوفی الحقیقت امریکی اور مغربی دباؤ اور ہدایت کے تحت بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کی گئی ہے، اُس نے اسلامیات کے نصاب کو محدود کردیا ہے۔ نصاب میں قدریں تو اسلام کی پھیلائی جانی چاہیے تھیں، لیکن ہیومنزم کی ’خوش نما اقدار‘ نصاب پر چھا گئی ہیں۔ اسلامیات کا نصاب تجویز کرنا ایک قومی مجبوری تھی۔ اس لیے بے دلی سے بکھرے بکھرے انداز میں کچھ سمویا گیا ہے۔
- دیگر نصابات :اس کے بعد اردو کے نصاب پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اردو دانی کے لحاظ سے تنوع ہے۔ اردو بعض بچوں کی مادری زبان ہے۔ بعض گھروں میں اگرچہ اردو مادری زبان نہیں ہے لیکن گھر میں والدین بچوں کے ساتھ اردو میں بات کرتے ہیں۔ اس طرح اسکول میں آنے والے بچوں کا اردو زبان کے لحاظ سے پسِ منظر مختلف ہے۔ لہٰذا نصاب میں اس کا مناسب طور پر خیال رکھا جانا چاہیے، لیکن پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے، اور اب، جب کہ ’یکساں نصاب‘ کی بات ہورہی ہے، تو اردوکے نصاب میں بچوں کے مختلف پسِ منظر کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ذخیرۂ الفاظ کے لحاظ سے نصاب میں طے کیا گیا ہے، کہ’’ تیسری جماعت کے بچے اڑھائی ہزار الفاظ کو جانتے، سمجھتے اور استعمال کرتے ہوں گے، جب کہ پانچویں جماعت کے بچے پانچ ہزار الفاظ کو بولنے لکھنے پڑھنے میں استعمال کرسکیں گے۔ اب یہ اڑھائی ہزار یا پانچ ہزار الفاظ کون سے ہوں گے؟ اس ذخیرۂ الفاظ کی فہرست موجود نہیں ہے۔ یہ تحقیق کا کام ہے اور مختلف پس منظر کے بچوں کے لیے اس طرح کے ذخیرۂ الفاظ کی فہرستیں تیار کرنا بڑی مہارت اور جاں فشانی کا کام ہے۔ انگریزی کا نصاب اگر دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی لسانی پالیسی نہیں ہے۔ نیز ذہنی سطح کے لحاظ سے شاید ان بچوں کو سامنے رکھا گیا ہے، جن کے گھرو ںمیں ماں باپ زیادہ تر انگریزی الفاظ اپنی بول چال میں برتتے ہیں اور ان کے گھر میں انگریزی میڈیا کے پروگرام دیکھے سُنے جاتے ہیں۔ المختصر یہ کہ انگریزی کا نصاب بچوں کی ضروریات اور ذہنی سطح کے مطابق نہیں ہے، بلکہ کسی انگلش بولنے والے ملک کے لیے ہے۔
انگریزی ، اردو، اسلامیات ، معاشرتی علوم اور معلوماتِ عامہ کے نصابات کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں اُفقی اور عمودی ربط غائب نظر آتا ہے۔ سارے مضامین اور سارا نصاب تو ایک ہی بچے نے پڑھنا ہوتا ہے، لہٰذا یہ ربط اشد ضروری ہے۔ معلومات میں خلا یا تکرار نہیں ہونی چاہیے۔
معاشرتی علوم کا نصاب مکمل طور پر گنجلک نظر آتا ہے ۔ ’اقداری تعلیم‘ میں دی گئی قدروں کو بچوں کے ذہنوں پر ٹھونسنے کی وجہ سے زبان وبیان میں پیچیدگی بڑھ گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب باتیں بچوں کے ذہنوں کے اوپر اوپر سے ہی گزر جائیں گی۔
معاشرتی علوم، معلوماتِ عامہ اور انگریزی کے نصاب میں کمپیوٹر کی مدد سے مختلف جگہوں پر نقل کرتے ہوئے چسپاں کا کمال زیادہ ہے۔ بعض امریکی ریاستوں ، اسکولوں اور اسکول سسٹمز کے نصابی خاکے اٹھا کر ڈال دیے گئے ہیں۔ ویب سائٹس اور حوالے جو بطور رہنمائی دیے گئے ہیں، ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امریکی اسکولوں کے نصاب کو پاکستانی بنائے بغیر بڑے پھوہڑپن سے شامل کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں پہلے جو نصابات بنائے جاتے تھے، ان کے عمومی مقاصد اور خصوصی مقاصد اس طرح بیان کیے جاتے تھے کہ انھیں بچوں کو منتقل کرنے کے لیے بہت توضیح وتشریح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن زیر نظر نصابی دستاویز میں سٹینڈرڈ اور سٹوڈنٹس لرنگ آؤٹ کم(SLOs)کے نام سے طلبہ کے تعلیمی مقاصد دیے گئے ہیں، جو پریشان کن ہیں اور ان سے یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ کون سا لوازمہ درسی کتب کا حصہ بنے گا!
سائنس اور ریاضی کے نصاب کے متعلق مختصر تبصرہ یہ ہے کہ ان میں عمودی ربط کا فقدان ہے۔ اسی طرح بعض تصورات غیر ضروری اور ماحول سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اصل میں مسئلہ وہی ہے کہ امریکی اسکولوں کا نصاب اٹھا کر شامل کر دیا گیا ہے، جس سے مقامی ماحول سے ان کی نامناسبت کھل کر سامنے آگئی ہے۔
مثالیں
یہاں کچھ مثالیں پیش ہیں، جن سے ہماری تحریر کو منطقی بنیاد مہیا ہوگی:
    ۱-     ڈیماکریسی ، ہیومن رائٹس اور رول آف لا (جمہوریت، انسانی حقوق، قانون کی عمل داری) کے تحت پہلی سے تیسری جماعت کے دوران، بچوں سے جو اُن کی ذہنی سطح سے بلند ہے غیرمنطقی توقع کی جارہی ہے۔ اس کی مثال حسب ذیل ہے: ’’اس امر کا فہم کہ انصاف کیا ہے اور کمرۂ جماعت کے علاوہ ان کے والدین،بھائی بہنوں، دوستوں،رشتہ داروں اورہمسایوں کے ساتھ انصاف پرور ہونے کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس امر کا فہم کہ بنیادی انسانی ضروریات اور بنیادی انسانی حقوق کیا ہیں؟‘‘
    ۲-  چوتھی اور پانچویں جماعت سے Diversity (تنوع) اور Tolerance (تحمل، بُردباری) کے حوالے سے مندرجہ ذیل توقع کی جارہی ہے: ’’اختلاف و تنوع کی اصطلاح کو بیان کریں اور معاشروں میں اختلاف راے کے حامل دھڑوں کی اہم خصوصیات کی نشان دہی کریں‘‘۔
    ۳-     معلومات عامہ کے نصاب کے تحت پہلی جماعت کے بچے سے ٹریفک قوانین کے متعلق جو توقع کی جارہی ہے وہ یہ ہے: ’’ان حفاظتی قوانین کی نشان دہی کریں، جن کی پیروی سڑک پر چلتے ،سڑک عبور کرتے اور بس کے ذریعے سفر کرتے ہوئےکرنی چاہیے‘‘۔
    ۴-    معاشرتی علوم میں چوتھی پانچویں جماعت کے طلبہ سے جو توقع کی جارہی ہے وہ یہ ہے: ’’تمام طلبہ آئین پاکستان کی اہم خصوصیات اور روح کی نشان دہی کریںگے اور مقامی ، قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر شہریوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھیں گے‘‘۔
    ۵-  پانچویں کی اسی سطح کے بچوں سے جوتوقع کی جارہی ہے اس کا بیان اس طرح ہے:’ابتدائی بچپن کی تعلیم‘ (ارلی چائلڈ ہڈ ایجوکیشن)کے نصاب میں تین چار سال کی عمر کے بچے کے لیے انفرادی اور سماجی تعمیروترقی کے عنوان کے تحت متوقع نتیجے کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ: ’’تمام طلبہ بیان کریں گے کہ مصنوعات اور پیداواری خدمات کی تقسیم،استعمال کے متعلق وسائل اور خدمات، ایک فرد اور معاشرے کی بہبودی پر اثراندازہوتے ہیں‘‘۔
    ۶-  انگلش کا نصاب بڑی ’محنت‘ سے کسی انگریزی پس منظر کے حامل ملک کے نصابی خاکے سے نقل کیا گیا ہے۔ ہم یہاں نصابی رپورٹ میں سٹینڈرڈ اور سٹوڈنٹس لرنگ آؤٹ کم (SLOs) کا ذکر کریں گے، مثلاً صلاحیت (Competency) یعنی لکھنے کی مہارت (Writing skills)  کے تحت سٹینڈرڈ نمبر۱ کا بیان یوں ہے:’’مسائل اور ان کے بہترین حل کی نشان دہی کے ذریعے مسائل حل کرنے کی مہارت پیدا کریں‘‘۔
    ۷-    ’’طالب علموں کو چاہیے کہ وہ ایک ایسی تعلیمی،معاملہ فہمی اور تخلیقی تحریر لکھنے میں مہارت حاصل کریں جو رواں،درست،مرتکز اور بامقصدہو اور تحریری عمل میں آپ کی بصیرت کو ظاہر کرتی ہو‘‘۔
    ۸-    درج بالا معیار کے تحت چوتھی جماعت کے لیے ایک سٹوڈنٹ لرننگ آؤٹ کم کی مثال اس طرح ہے: ’’کسی بھی عبارت کے پس منظر کے ابلاغی مقصد کے لیے درکار مناسب لب ولہجہ(بشمول ذخیرۂ الفاظ) استعمال کرتے ہوئے بولنے کے ابتدائی طریقوں اور مزاحیہ خاکوںکے ٹکڑوں میں مختصر عبارتیں استعمال کریں‘‘۔
اوّل تو ہمارے اساتذہ کے لیے یہ باتیں سمجھنا ممکن نہیں ہے، اور اگر وہ بالفرض سمجھ بھی جائیں، تو طالب علموں سے یہ سب کچھ کروانا ممکن نہیں ہے۔ نصابی کمیٹی نے کسی انگلش سپیکنگ ملک کا نصاب اٹھا کر دے دیا ہے، یہ سوچے بغیر کہ اسے پاکستان میں پڑھانا ہے جہاں ابھی تک ’مارننگ واک‘ کا مضمون رٹا لگوا کر یاد کرایا جاتا ہے ۔ نصاب اچھا اور معیاری ہونا چاہیے لیکن اسے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے قابل نفاذ بھی ہونا چاہیے۔

حاصل مطالعہ

پہلی سے پانچویں تک کے نصابی کتابچوں کو اور خاص طور پر ’اقداری تعلیم‘ کے حصے کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ:  lیہ نصاب مغربی تہذیب اور کلچر کے فروغ کے لیے بنایا گیا ہے۔ lنظامِ اقدار جس پر یہ مبنی ہے وہ ہیومنزم کی اقدار ہیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ lنصابی خاکہ میں جو تصورات اور لوازمہ تجویز کیا گیا ہے، وہ بچوں کی ضروریات، معاشرے کی ضروریات اور بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق نہیں ہیں۔ lمغربی اسکولوں کے نصابات کی بھونڈی نقل ہے، جو ہمارے نظامِ تعلیم میں جگہ نہیں پاسکے گا۔ lنصاب میں اُفقی اور عمودی ربط کا خیال نہیں رکھا گیا۔ l’یوایس کمیشن آن ریلیجس فریڈم‘ کی سفارشات بلکہ ڈکٹیشن پر عمل کیا گیا ہے ۔ اسلامی اقدار اور اسلامی فکر کے تصور کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ lاردو اور انگریزی کا نصاب بچوں میں مطلوبہ لسانی صلاحیتیں پیدا نہیں کرسکے گا۔ خصوصاً متوسط اور نچلے متوسط گھرانوں کے بچے، دیہاتی اسکولوں کے بچے اور اساتذہ اس نصاب کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکیں گے۔
کیا کیا جائے؟
    ۱-     اس نصاب کو قبول کرنے کے بجاے حکومتی زعما کو احساس دلایا جائے کہ یکساں نظامِ تعلیم کا مستحسن فیصلہ، اس نصاب کے ہوتے ہوئے نافذ نہیں ہوپائے گا۔
    ۲-    چونکہ اس نصاب کی پشت پر امریکی/ مغربی دباؤ ہے اور اندرون ملک سیکولر لابی اس نصاب کی تائید میں ہوگی، اس لیے ملک کی دینی اور محب وطن قوتوں کو میڈیا کے ذریعے سیمی ناروں اور کانفرنسوں کے ذریعے، اخباری مضامین کے ذریعے اور خصوصاً سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال سے اس احمقانہ نصاب کے حوالے سے ایک بیداری پیدا کرنا چاہیے۔
    ۳-     اٹھارھویں ترمیم کے بعد پاکستان کے سب صوبے اپنا اپنا نصابِ تعلیم بنانے میں قانوناً آزاد ہیں۔ اس سلسلے میں پنجاب کے محکمۂ تعلیم نے جو نصاب بنارکھا ہے، وہ وفاقی حکومت کے اس زیرغور نصابی مسودے سے بہتر ہے ۔ اس حوالے سے صوبائی سطح پر بھی لابنگ ہونی چاہیے، تاکہ وفاق درست رویہ اختیار کرے۔ نیز دینی مدارس کے وفاقوں کو بھی متحرک کرنا چاہیےکیونکہ یہی نصاب انھیں بھی اپنے قائم کردہ اسکولوں میں پڑھاناہوگا۔   نیز ضروری ہے کہ اگر کوئی یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نصابِ تعلیم نافذ ہونا ہے تو وہ سب کی شراکت، مشاورت اور رضامندی سے نافذ ہو۔