جولائی ۲۰۲۰

فہرست مضامین

ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کا وبال

پروفیسر عرفان شاہد | جولائی ۲۰۲۰ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے خوف کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے ضرورت سے بہت زیادہ چیزیں بازار سے خرید کر رکھ لی ہیں۔اس کی وجہ سے بہت سے لوگ ضرورت کی چیزیں خریدنے سے محروم رہ گئے۔ کچھ کاروباری حضرات نے اپنی دکانوں پر اشیاء کی قیمتوں کو بڑھا دیا ہے۔ اس مصیبت کے وقت اس طرح کی حرکت کرنے والوں میں رحم کا کوئی مادہ نہیں ہے۔ اسلام اس رویے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ مسلم تاجروں کو اس قبیح عمل سے بچنا چاہیے۔ یاد رہے ایمان دار تاجر کا اسلام میں بڑا مقام ہے۔ افسو س کہ ہمارے مسلم معاشرے میں اس بے ضابطگی کو ایک فطری عمل تصور کیا جارہا ہے اور اسے انجام دینے میں کوئی شرمندگی یا گناہ کا احساس نہیں پایا جارہا، بلکہ ایسا کام کرنے والے لوگوں کو اسمارٹ اور ذہین تصور کیا جاتا ہے۔

بعض اوقات یہ صاف نظر آتا ہے کہ کچھ نیم مسلمان حضرات صرف سور کے گوشت اورشراب ہی کو حرام سمجھتے ہیں،بقیہ ساری چیزیں ان کے لیے حلال ہیں۔ اور اس امید پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں کہ رمضان میں افطاری کرانے سے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ اس لیے کہ اس نیت سے گنا ہ کر نا کہ اللہ معاف کردےگا دوگنا گناہ ہے۔ اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی اور کثرت نفع خوری سے منع فرمایا ہے۔ اس کے متعلق بہت سی احادیث مبارکہ ہیں،جو احتکار اور نفع خوری سے منع کرتی ہیں:

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنِ احْتَکَرَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ  طَعَامَھُمْ ضَرَبَہُ اللہُ  بِالْجُذَامَ وَالْاِفْلَاسِ (سنن ابن ماجہ، باب التجارات باب الحكرۃ  والجلب:۲۱۵۵)

  حضرت عمر بن خطاب ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوکوئی مسلمانوں کے درمیان ذخیرہ اندوزی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے برص کی بیماری اور غربت میں مبتلا کردےگا۔

اس حدیث کو امام ابن حجر عسقلانی نے حسن قرار دیا ہے، یعنی اس حدیث سے احکامی مسئلہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح سے ایک اور حدیث کاتذکرہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں کیا ہے:  جو لوگ گرانی اور مہنگائی کی غرض سے غلہ اور دیگر اشیاء کو روکتے ہیں وہ گنہگار ہیں۔ اﷲ کی نظر میں ذخیرہ اندوزی کرنے والا بدترین شخص ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذخیراندوزی کرنے والے تاجر کی نفسیات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

بِئْسَ الْعَبْدُ  اِنْ  سَمِعَ  بِرُخْصٍ  سَاءَہُ وَ  اِذَا  سَمِعَ  بِغَلَاء  فَرِحَ (مجمع الزوائد: ۱۰۴/۴)
بہت بُرا ہے وہ شخص جو خود ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔جب قیمت گرنے لگتی ہے تو بہت برا محسوس کرتا ہے اور جب قیمت بڑھتی ہے تو بہت خوش ہوتا ہے۔

حالانکہ ایک مسلم تاجر کا معاملہ ایسا ہونا چاہیے کہ جب نقصان ہونے لگے تو صبر کرے اور جب فائدہ ہونے لگے تو اللہ کا شکر ادا کرے۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الْجَالِبُ مرزوقٌ وَالمحتَكِرُ ملعونٌ (سنن ابن ماجہ: ۳۴۸/۱) بازار میں مال لانے والے کو رزق دیا جاتا ہےاور ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ذخیرہ اندوزی اور کثرت نفع خوری کا چلن تھا۔ آپؐ اس کو روکنے کے لیے بازار بھی جاتے تھے اور متعدد مرتبہ بازار میںخردبرد اور دھوکادہی کے معاملے میں تاجروں کی گرفت بھی کرتے تھے۔

اسلام اشیا ء کی قیمت میں اُتارچڑھاؤ کے فطری عمل سے منع نہیں کرتاہے، لیکن جان بوجھ کر چیزوں کی قیمت بڑھانے پر سخت وعید سناتا ہے۔ ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے آپؐ سے چیزوں کی قیمت متعین کرنے کے لیے کہا توآپؐ نے جواب میں فرمایا:

 اللہ ہی ہے جو قیمت کا تعین کرنے والا ہے ، وہی چیزوں کو سستا اور مہنگا کرتا ہے،وہی روزی دینے والا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کروں کہ کوئی شخص تم میں سے مجھ سے خون میں اور مال میں ظلم و ناانصافی کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔(غایۃ المرام : ۳۲۳)

اسلام نے تاجروں کو ایک اہم مقام دیا ہے۔ یقینا کسی ملک کی ترقی میں اس کے تاجروں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے اسلام نے ایمان دار تاجروں کی پذیرائی کی ہے اور یہ بشارت دی ہے کہ ایمان دار اور امانت دار تاجر قیامت کے دن شہدا، صدیقین اور انبیاء کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ یہ مسلم تاجروں کے لیے بہت بڑے شرف کی بات ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ مَعَ النَّبِیّٖنَ  وَالصِّدیْقِیْنَ وَالشُہَدَآءِ (ترمذی) ایمان دار کاروباری لوگ قیامت کے دن نبیوں، صدیقین اور شہدا کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔

مسلم تاجر حضرات اس ذمہ داری سے آنکھ نہ چُرائیں، ورنہ اس کا انجام قیامت کے روز بڑا دردناک ہوگا۔قرآن مجید میں تقریباً ایک درجن سےز ائد آیات ہیں، جو تجارتی معاملات سے بحث کرتی ہیں۔ اس موقعے پر ان آیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوگوں کو ترغیب دی جانی چاہیے۔

ایک مرتبہ جب جاپان میں سونامی آیا تو ساحل سمندر سے متصل ایک صوبے میں کافی لوگ متاثر ہوئے۔ اس علاقے میں ایک بڑھیا الیکٹرانک کی اشیاء کو بہت ہی کم قیمت پر فروخت کررہی تھی۔ایک خریدار نے پوچھا: آپ کیسے اتنے سستے دام پر اپنی چیزوں کی فروخت کررہی ہیں؟ بڑھیا نے جواب دیا: میں یہ سامان بازار سے ہول سیل قیمت پر خریدتی ہوں، جو سستا پڑتا ہے اور بغیر منافع کے ان اشیاء کو فروخت کرتی ہوں۔ اس کے اس جواب پر خریدار نے سوال کیا: ’’اس طرح کے کاروبار سے آپ کو کیا فائدہ؟آپ کو تو کوئی نفع نہیں ملے گا‘‘۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ مَیں فائدے کے لیے یہ اشیاء نہیں فروخت کررہی ،بلکہ اس طرح سے اپنی قوم کے لوگوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔

اگر مصیبت کے ان دنوں میں ہم اس بڑھیا کی طرح نہیں بن سکتے تو کم سے کم معقول قیمت پر چیزوں کو فروخت کریں۔ یقین مانیے بہت جلدی میں کمایا ہوا پیسہ بہت زیادہ دیر تک انسان کی جیب میں نہیں رہتا اور اس میں کوئی برکت نہیں ہوتی ہے۔ہم جن کے لیے ناجائز طور پر کماتے ہیں وہ ہمارے مرنے کے کچھ برسوں بعد ہمارا نام بھی صحیح طور پر یاد نہیں رکھ سکتے۔