مئی ۲۰۲۰

فہرست مضامین

روزہ اور طبّی مسائل

پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق | مئی ۲۰۲۰ | طب

Responsive image Responsive image

اسلام دین فطرت ہے۔ اس پر عمل کرنے اور اس کے حدود و قیود کی پابندی کرنے سے انسان ترقی کر کے اس منزل کو پا سکتا ہے، جو فرشتوں کے مقام و مرتبہ سے بھی بلند و بالا ہے۔ انسانیت کی معراج کا حصول محبت و اطاعت الٰہی اور اتباع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ہے۔

فرائض و عبادات میں رمضان المبارک کی اہمیت ایک خاص شان رکھتی ہے۔ مسلمانوں کا معاشرہ اس مہینے میں ایک روحانی موسم لیے ہوتا ہے۔ ہر مریض اور توانا اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ اس ماہِ مبارک کی برکتوں سے پوری طرح فیض یاب ہو سکے۔رمضان سے متعلق تمام احکامات اصلاً تو ایسے لوگوں کے لیے ہیں جو صحت مند ہوں،کیونکہ مریضوں کو ایک حد تک رخصت دی گئی ہے۔ تاہم، مرض کی نوعیت اور روزے کی وجہ سے مرض اور اس کے جسم پر مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات وہ بنیادی عوامل ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے مریض اور ڈاکٹر باہمی مشورے سے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ البتہ اگر صورتِ حال ایسی ہو کہ تکلیف سے جسم کے کسی عضو کو شدید نقصان پہنچنے یا موت واقع ہو جانے کا اندیشہ ہو، تو ایسی ناگزیر ضرورت میں نہ صرف مریض کے لیے لازم ہے کہ روزہ نہ رکھے بلکہ ڈاکٹر کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ مریض کو صورت حال سے مکمل طور پر آگاہ کر کے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے۔

اس ضمن میں روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے لیے درج ذیل صورتوں کو پیش نظر رکھا جانا چاہیے:

    l    ایسی معمولی بیماری کی صورت میں، جس سے مریض کو کوئی خطرہ لاحق ہو، نہ اس کو بہت زیادہ تکلیف ہو ،اسے روزہ رکھنا چاہیے۔

    l    ایسی بیماری جس میں روزہ رکھنے سے جسم کے کسی ایسےعضوکےخراب یا ضائع ہونے کا اندیشہ ہو، جو بقاے حیات (Vital organ) کے لیے ضروری ہو، مثلاً گردہ، دل، دماغ یا پھیپھڑے وغیرہ، تو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

    l    اگر مریض کسی عارضی بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو بعد میں قضاروزے ضرور رکھے۔ بعض اوقات دائمی بیماریوں سے بھی مریض صحت یاب ہو جاتا ہے، ایسی صورت میں بھی قضا روزے رکھ لینا ضروری ہیں، اگرچہ فدیہ بھی دے چکا ہو۔

    l    اگر مرض ایسا ہے جس میں دوالینے کے اوقات تبدیل کرکے، دوا صبح و شام (سحری اور افطاری کے وقت) دی جاسکتی ہو اور اس سے مریض پر برے اثرات بھی مرتب نہ ہوتے ہوں تو ایسی صورت میں روزہ رکھا جاسکتا ہے۔

    l    وہ بیمار جو رُوبصحت ہوں لیکن اگر وہ روزہ رکھیں تو صحت دوبارہ خراب ہونے کا قوی امکان ہو تو ایسے بیمار روزہ نہ رکھیں اور مکمل صحت یاب ہونے کے بعد قضا روزے رکھیں۔

    l    بیماری یا سفر کی وجہ سے کوئی شخص اگر روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو اس کے لیے رمضان کے تقدس کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔ اسے چاہیے کہ کھلے عام کھانے پینے سے اجتناب کرے۔

    l    درد کی شدّت میں بھی روزہ چھوڑاجاسکتاہے،لیکن اس شدت کی برداشت کاتعین مریض خودکرے گا۔

روزہ داروں کے چند عمومی مسائل اور طبی فقہی رہنمائی

کورونا کی وبا اور موجودہ حالات کے پیش نظر سب سے پہلے اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس وقت تک دنیا میں کورونا کی وبا سےتقریباً ۲۵ لاکھ افراد متاثرہوچکے ہیں اور اموات کی تعداد بھی دولاکھ تک پہنچ چکی ہے۔کورونا کا کوئی تیر بہدف علاج نہیں ہے اور بیماری سے بچاؤہی وہ واحد ذریعہ ہے، جس سے ہم اللہ کے فضل اورکرم سے اس بیماری پر قابو پا سکتے ہیں۔ شوگر کے بیمار، عمررسیدہ افراد، دل کی بیماریوں اور قوت مدافعت کی کمی والے دوسرے بیماروں کو بیماری لگنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ مسلسل جسمانی تھکاوٹ اور ذہنی دباؤبھی قوت مدافعت میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔

کورونا وبا کے دوران رمضان میں مریضوں کے لیے شریعت مطہرہ کے پس منظر میں عمومی ہدایات کا خلاصہ ذیل میں دیا جاتا ہے:

    ۱-  جن افراد کی قوت مدافعت کم ہواور اپنے گھروں میں رہیں تو وہ پچھلے برسوں کی طرح روزہ رکھ سکتے ہیں ۔ البتہ اگر ان کو کسی اور وجہ سے کورونا وائرس سے بیماری کا خطرہ ہو تو وہ روزہ  نہ رکھیں ، اپنی قوت مدافعت بڑھانے پر توجہ دیں اور بعد میں قضا روزے رکھ لیں۔

    ۲-  اگر ڈاکٹر کی راے یہ ہو کہ کسی مریض کو کسی مخصوص وجہ سے کورونا بیماری لگنے کا غالب امکان ہے اور روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے تو مریض کو ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔

    ۳-  جن افراد کو سخت کھانسی اوربخار ہو تو وہ اپنی حالت کی شدّت کے مطابق روزہ چھوڑ سکتے ہیں اور بعد میں قضا کر لیں۔ البتہ جن لوگوں کو یہ علامات کورونا بیماری کی وجہ سے ہوں (یعنی ٹیسٹ مثبت ہو) تو ایسے مریض کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔

    ۴-  رمضان میں باجماعت تراویح پڑھنا ایک نہایت مستحسن امر اور اسلامی عبادات کا اہم حصّہ ہے لیکن فرض نہیں ہے۔وبا کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر تراویح گھروں میں پڑھی جائے۔

عید کے موقعے پر لوگوں سے ملنا ایک مباح عمل اور اسلامی ثقافت کا حصّہ ہے، لیکن وبا کی موجودگی میں رشتہ داروں اوردوستوں کے گھروں میں جانے ، ملاقاتوں، ہاتھ ملانے اور اور گلے ملنے سے اجتناب کیا جائے۔

m  روزہ دار کا آنکھ، ناک یا کان میں دوا ڈالنا:آنکھ میں دوا ڈالنے کے بارے میں فقہاکی عمومی راے یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ناک میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کان کے اندرونی پردے (Tympanic membrane) کے صحیح اور سالم ہونے کا سوفی صد یقین ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔البتہ شک کی صورت میں بہتر یہی ہے کہ ماہرڈاکٹر سے تصدیق کر لی جائے۔ پردہ پھٹا ہو یا اس میں سوراخ ہو تو دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائےگا۔

m روزے دار کا دانت نکلوانا:دانت نکلوانے کے لیے عام طور پہ (Local Anesthesia) کا استعمال کیاجاتا ہے، اس دوران پانی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اس بات کا قوی امکان موجود ہوتا ہے کہ پانی، دوا، خون اور مسوڑھوں کے گوشت کے اجزا وغیرہ میں سے کوئی چیز حلق سے نیچے اتر جائے اور اس طرح روزہ ٹوٹ جائے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ صرف اشد ضرورت میں ہی افطار سے پہلے دانت نکلوایا جائے اور اگر ممکن ہو تو افطار کے بعد دانت نکلوایا جائے۔ دانت کی filling اور Scaling میں بھی اس کا خیال رکھا جائے۔

m انجکشن اور روزہ :انجکشن چاہے جِلد، گوشت یا رگ میں لگایا جائے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ روزہ ٹوٹنے کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ کوئی چیز بدن میں معتاد (Natural Orifices) راستے سے بدن میں داخل ہو۔ مثلاً منہ، ناک یا مقعد کے ذریعے۔ غیر معتاد راستے سے کسی چیز کے بدن میں داخل ہونے سے اصولاً روزہ نہیں ٹوٹتا ۔

یہاںاس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ انجکشن کی نوعیت اور مقصد کا تعین انتہائی اہم ہے کہ انجکشن کا استعمال طاقت کے لیے ہے ( مثلاً وٹامن کے انجکشن یا ڈرپ وغیرہ )یا بخاراور درد وغیرہ کے لیے؟ اگر کوئی مریض پیاس بجھانے کے لیے یا بھوک مٹانے کے لیے روزے میں انجکشن (ڈرپ) کا استعمال کرتا ہے تو یہ روزے کی روح کے خلاف ہے اور اس مقصد یا اس نیت سے انجکشن کا استعمال انتہائی نامناسب حرکت ہے۔ لیکن اگر یہ درد یا بخار کا زور توڑنے کے لیے استعمال کیا جائے، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کسی خصوصی صورت حال مثلاً درد وغیرہ میں انجکشن کا استعمال کرنا یا نہ کرنا مریض کے اپنے تقویٰ پر بھی موقوف ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ درد کو افطاری تک برداشت کرسکتا ہے اور اجازت کے باوجود انجکشن نہیں لگواتا اور تکلیف برداشت کرتا ہے تو اجر پائے گا۔

m آپریشن(Surgery) اور روزہ :آپریشن دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جن کو فوری طور پر(Emergency)کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے آپریشن روزے کے دوران فوری طور پر کر لیے جائیں مثلاً Appendicitis یاحادثے کی صورت میں ہڈی کا ٹوٹ جانا وغیرہ۔ دوسرے وہ جو کسی بھی مناسب وقت پر طے کر کے کیے جائیں۔ ان کوElective Surgery / Cold Operation بھی کہتے ہیں۔ یعنی ایسے آپریشن جن کو جلدی میں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔اس صورت میں مریض کو سمجھا دیا جائے کہ آپریشن کو رمضان کے بعد تک بہ آسانی موخر کیا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے سے اسے کوئی خطرہ بھی نہیں ہوگا۔ اس طرح اسے رمضان کے بابرکت مہینے کے روزے رکھنے کی سعادت بھی حاصل ہو جائے گی۔

ایسے آپریشنز جن میں(Local Anesthesia) کا استعمال ہوتا ہو، مثلاً آنکھ کے آپریشن یا جسم پر معمولی زخم یا پھوڑے وغیرہ کا آپریشن ، یہ روزے کے دوران بھی کیے جاسکتے ہیں اور اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔یہاں یہ بات بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ اگر کوئی مریض یا ڈاکٹر آپریشن کو رمضان تک صرف اس لیے موخر کرتے ہیں کہ اس طرح روزوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی تو یہ انتہائی نامناسب ہے کیونکہ یہ روزے جیسی اہم عبادت کے بارے میں ایک بہت غیر محتاط اور ناروا رویہ ہوگا۔

m حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین: اگر حاملہ عورت روزہ رکھنے سے تکلیف کی شدت محسوس کرتی ہو یا وہ خود تو حمل کی وجہ سے اپنی کسی موجودہ بیماری سے واقف نہ ہو یا روزہ کی وجہ سے دوران حمل پیدا ہونے والے متوقع مضراثرات سے لا علم ہو، لیکن ڈاکٹر کو یہ علم ہو کہ اس وقت حمل اور روزے کے جمع ہونے کی وجہ سے حاملہ عورت ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہوسکتی ہے کہ اگر وہ روزہ رکھتی ہے، تو آیندہ اسے کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے، جو خود اسے یا اس کے ہونے والے بچے کے لیے باعث تکلیف ہوگی، تو ڈاکٹر اسے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ عورت خود اپنے تجربے کی بنیاد پر بھی روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

اسی طرح بچے کو اپنا دودھ پلانے والی عورت اگر تجربے کی بنیاد پر قوی امکان محسوس کرے کہ روزہ رکھنے سے اسے خود یا بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے یا معالج ڈاکٹر محسوس کرے کہ اگر یہ عورت روزہ رکھ کر بچے کو دودھ پلاتی رہے تو اسے یا اس کے بچے کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے، تو وہ روزہ نہ رکھنے کا فیصلہ کرسکتی ہے اور ڈاکٹر بھی اسے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ان دونوں صورتوں میں جتنے روزے نہیں رکھے گئے، بعد میں قضا روزے رکھ کر تعداد پوری کرنا فرض ہوگا۔

m دمہ (Asthma) :دمہ کے ایسے مریض جنھیں سانس کی تکلیف کبھی کبھار ہوتی ہو، جو وقتی طور پر دوا کے استعمال سے ٹھیک ہو جاتے ہوں اور پھر کئی کئی دن یا ہفتے دوائی کی ضرورت پیش نہیں آتی، انھیں روزہ رکھنا چاہیے۔ البتہ دمہ کے وہ مریض روزہ نہ رکھیں، جنھیں روزانہ دوائی کی ضرورت ہوتی ہے اور گولیاں اور Inhalers دونوں استعمال کرنا ضروری ہوتا ہو۔ ایسے مریض رمضان کے بعد جب دن چھوٹے ہوں یا ان کی بیماری میں کمی ہو جائے تو روزے پورے کرلیں۔ اگر بیماری کے بہتر ہونے کا امکان کم ہو کہ وہ روزے رکھ سکیں تو بہتر ہے کہ بروقت فدیہ ادا کردیں۔ ایسے مریض جنھیں سینے کی تکلیف اتنی زیادہ ہو کہ سانس مسلسل خراب رہتا ہو اور دواؤں کے بغیر گزارہ نہ ہوتا ہو ، ان کے لیے روزے نہ رکھنا بہتر ہے۔

انہیلر (Inhaler) کے ذریعے بالعموم دوا کا زیادہ حصہ سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتا ہے، لیکن کچھ دوا حلق میں بھی چلی جاتی ہے، جو معدے میں پہنچ جاتی ہے۔ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی صورتِ حال Spacer یا Nebulizer  (جو انہیلر کے نعم البدل کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے) کے ذریعے دوا کے استعمال کی بھی ہے۔ ان سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔البتہ بعض علما کی راے روزہ نہ ٹوٹنے کی بھی ہے۔اگر مرض اتنا شدید ہو کہ روزے کے دوران بھی انہیلر کا استعمال ناگزیر ہو تو بہتر یہی ہے روزہ نہ رکھے اور بعد میں قضا روزے مکمل کر لے یا دائمی صورت میں فدیہ ادا کردے۔

m گردے کی پتھری (Kidney stones) : رمضان میں پانی کے کم استعمال سے گردے کی پتھری کے مریضوں کو درد شروع ہو سکتا ہے، خاص کر گرمیوں کے روزوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ کچھ مریضوں میں روزوں کے باوجود درد کی شکایت نہیں ہوتی۔ اگر مریض کو یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ روزہ رکھنے سے اسے شدید درد شروع ہو جاتا ہے تو ایسے مریضوں کو سال کے دوسرے مہینوں میں جب موسم سرد ہو اور دن چھوٹے ہوں ، قضا روزے رکھنے چاہییں۔

m یرقان (Hepatitis): یرقان/ہپاٹائٹس اے ، بی، سی ، ای یا دوائیوں کے مضر اثرات (Side effects)، دونوں صورتوں میں شروع کے چند دن یا ہفتے روزہ نہ رکھنے کی گنجایش موجود ہوگی، کیونکہ عام طور پر ان دنوں میں مریضوں کو کھانے میں میٹھی چیزوں (گلوکوز وغیرہ) کا استعمال زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مریض اگر زیادہ دیر تک کھانے کا استعمال نہ کریں تو خون میں شوگر کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔

دائمی یرقان یعنی ہپاٹائٹس بی اور سی کے وہ مریض کہ جن کو کوئی پیچیدگی درپیش نہ ہو، روزہ رکھ سکتے ہیں۔ یرقان کے ایسے مریض جن کا وزن زیادہ ہو توانھیں روزے سے فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ مریضوں کو یہ بات بھی بتا دینی چاہیے کہ اگر ان کا علاج رمضان کے بعد تک مؤخر کیا جائے توان کی بیماری بڑھنے کا کوئی امکان نہیں اور چونکہ اللہ نے ان کو رمضان کے روزے رکھنے کا موقع دیا ہے، اس لیے ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

البتہ یرقان کے وہ مریض، جنھیں کسی پیچیدگی کا سامنا نہ ہو، مثلاً پیٹ میں پانی کا جمع ہوجانا (Ascites) یا جگر کی بیماری کی وجہ سے نیم بے ہوشی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہو  (Hepatic Encephalopathy) تو ان کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور فدیہ دینا ہی زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ بعد میں بھی روزے رکھنے سے تکلیف کے بڑھنے کا احتمال ہوتا ہے اور مکمل صحت یا بی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

m شوگر کی بیماری: شوگر کے کنٹرول کے لیے کچھ مریضوں کو انسولین کے انجکشن مسلسل استعمال کرنے پڑتے ہیں اور اس کے بغیر شوگر بہتر طریقے سے کنٹرول نہیں ہو سکتی۔ ان مریضوں میں بعض اوقات انجکشن کے استعمال سے خون میں شوگر کی مقدار میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور یہ امکان ان مریضوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو شوگر کے لیے گولیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے وہ مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے عمومی طور پر روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہوتا ہے اور ان کو فدیہ دینا چاہیے۔ کیونکہ اس بات کا امکان کم ہوتا ہے کہ مریض اتنا ٹھیک ہو جائے کہ اس کو انسولین کی ضرورت بھی نہ رہے اور روزہ رکھنے کے قابل بھی ہو جائے۔البتہ وہ مریض جن کی شوگر افطاری میں ایک انجکشن لگانے سے کنٹرول ہو سکتی ہو تو ایسے مریض اپنے تجربے کی بنیاد پر روزہ رکھ سکتے ہیں، البتہ ان کو شوگر کی کمی کی علامات پوری طرح معلوم ہونی چاہییں ۔

شوگر کے وہ مریض جو گولیوں کا استعمال کرتے ہیں، ان میںگولیاں عمومی طور پر دو گروپس کی ہوتی ہیں۔ ایک گروپ(Biguanides) کہلاتا ہے، جو بازار میں Glucophage اور دوسرے ناموں سے دستیاب ہیں۔ اگر مریض صرف ان کا استعمال کررہا ہے تو یہ مریض عام طور پر روزے رکھ سکتا ہے۔ دوسرا گروپSulphonylurea کہلاتا ہے اور بازار میں یہ Daonil اور دوسرے ناموں سے دستیاب ہے۔ یہ مریض بھی روزے رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان میں شوگر کے کم ہونے کی پرانی تاریخ موجود ہے تو ڈاکٹر کو چاہیے کہ اس صورت میں مریض کو مکمل طور پر دوا کے اثرات سے بھی آگاہ کرے اور باہمی تبادلہ خیال کے بعد روزے رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کریں۔

عام طور پر دوا کا استعمال صبح اور شام کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات دوا کی مقدارمیں ضروری تبدیلی کرکے سحری میں کم اور شام میں زیادہ کرسکتے ہیں، تاکہ دن میں روزے کے دوران خون میں شوگر کی کمی کا امکان کم سے کم ہو جائے۔

m شوگر کی علامات:  دل کی دھڑکن کا تیز ہو جانا، ہلکے ٹھنڈے پسینے آنا، زیادہ بھوک لگنا اور میٹھی چیز کھانے کی فوری خواہش پیدا ہونا، ذہنی حالت کا متغیر ہونا(Disorientation) یا بے ہوشی طاری ہونا۔ آخرالذکر دو علامات مریض خود نہیں بلکہ دوسرے لوگ ہی دیکھ کر بتاسکتے ہیں اور اس صورت میں آس پاس موجود لوگ اس مریض کو روزے کی حالت میں ہی کوئی میٹھی چیز فوراً کھلا کر نزدیکی ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال لے جائیں۔ یہ روزہ بعد میں قضارکھا جا سکتا ہے۔

شوگر کے تمام مریضوں کو عموماً اور رمضان کے دوران خصوصاً اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی میٹھی چیز، مثلاً چینی، ٹافیاں وغیرہ ضرور رکھنی چاہییں، تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ان کا استعمال کیا جاسکے۔ نیز شوگر کے مریض ہمیشہ اپنے ساتھ ایک کارڈ رکھیں، جس میں نشاندہی کی گئی ہو کہ وہ شوگر کا مریض ہے، تاکہ بے ہوشی کی صورت میں اسے ابتدائی طبی امداد مہیا کی جاسکے۔

یاد رکھیے، شوگر کے نیم بیہوش مریض کے خون میں شوگر کم یا زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن اصول یہ ہے کہ اگر کمی یا زیادتی کا فیصلہ کرنے میں شک ہو، تو انتظار کیے بغیر مریض کو روزے کی حالت میں ہی فوری طور پر چینی دی جائے، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے مریض کو زیادہ خطرہ ہوگا اور اگر مریض کی شوگر کم ہے تو یہ مریض کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اگر مریض کی شوگر زیادہ ہے اور آپ اس کو کچھ مزید بھی دے دیں، تو وقتی طور پر شوگر کی زیادتی زندگی کے لیے خطرے کا سبب نہ بنے گی۔

m معدے کی بیماریاں (السر یا زخم معدہ) اور تیزابیت :معدے کی تیزابیت کم کرنے اور السر کے علاج کے لیے اس وقت بہت سی ادویات دستیاب ہیں اور ان کا اثر چند گھنٹوں سے لے کر ایک یا دودن (۲۴ سے ۴۸ گھنٹے) تک ہوتا ہے۔ اس لیے دوا کے استعمال کے بعد اب اس بات کا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ مریض کو کوئی خطرہ مثلاً تیزابیت کے بڑھنے یا Perforationکا خطرہ لا حق ہو۔ اگر مریض سحری میں زیادہ اثر والی اور زیادہ دیر تک اثر رکھنے والی(Long Acting) دوا استعمال کریں، تو بغیر کسی تکلیف کے روزہ رکھ سکتے ہیں۔ بہت کم مریض ایسے ہوتے ہیں جو دوا کے کم استعمال کی وجہ سے تکلیف میں ہو سکتے ہیں، انھیں روزہ نہ رکھنے کی رعایت دی جاسکتی ہے۔

کچھ خصوصی حالات جن میں معدے کی تیزابیت اور زخم بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ مثلاً (Zolinger Ellison Syndrome)تو ان میں روزہ رکھنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ معدے کی کئی دوسری بیماریاں مثلاً بدہضمی(Dyspepsia) وغیرہ روزے میں بہتر ہو جاتی ہیں بشرطیکہ سحری اور افطاری میں احتیاط برتی جائے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ رمضان میں افطاری کے بعد چٹ پٹے اور چٹخارے دار پکوانوں سے اجتناب کرنے سے نظام ہضم ٹھیک رہتا ہے۔

m دل کی بیماریاں:خون کے انجماد (کلاٹ)کی بنا پر دل کا دورہ ایک ایسی بیماری ہے ،جس میں دل اپنی پوری قوت سے خون کو پمپ نہیں کرسکتا اور دل کا سائز بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں مریض کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور سانس جلد پھول جاتی ہے ساتھ ہی ساتھ پاؤں میں سوجن بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ بیماری کم ہوتی ہے اور صبح شام دوائی استعمال کرنے سے مریض ٹھیک رہتا ہے اور اس کو سانس کی تکلیف یا پاؤں کی سوجن وغیرہ نہیں ہوتی، ایسے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ محسوس کریں کہ سانس کی تکلیف ہے تو پھر روزہ رکھنے سے اجتنا ب کرنا چاہیے۔ یہ بیماری جب زیادہ ہو جائے تو نہ صرف یہ کہ معمولی کام کرنے سے بلکہ بعض اوقات تو بیٹھے بیٹھے یا لیٹنے سے بھی سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔ ایسے مریضوں کو دوسری دواؤں کے ساتھ ساتھ اکثر پیشاب آور دوائیں بھی استعمال کرنا پڑتی ہیں، جس کی وجہ سے پیاس بھی زیادہ لگتی ہے۔ ایسے مریض جن کو بیماری زیادہ ہو، ان کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے، اور بعد میں جب حالت بہتر ہوجائے تو قضا روزے رکھے جاسکتے ہیں۔

چند صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں مکمل صحت یا بی کا امکان نسبتاً کم ہوتا ہے مثلاً Cardiomyopathy  وغیرہ کے مریضوں کو فدیہ دینا ہی بہتر ہے۔

دل کی ایک اور بیماری جسے انجائنا (Angina) کہتے ہیں۔ اس میں مریض کو سینے یا ہاتھ میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ درد اگر صبح شام دوا کے استعمال سے کنٹرول ہو سکے تو روزہ رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر درد کنٹرول کرنے کے لیے دن میں بھی دوا استعمال کرنی پڑرہی ہو تو روزہ نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ درد زیادہ وقت رہے تو دل کی تکلیف خطرناک صورت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ ایسے مریضوں کو اکثر اوقات دواؤں کے استعمال سے افاقہ ہو جاتا ہے اور یہ بعد میں قضاروزے رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ بصورت دیگر فدیہ ادا کرسکتے ہیں۔

m  گھبراہٹ / اداسی کی بیماری (Depression/ Anxiety)   :ان بیماریوں کے شدید دور کے گزر جانے کے بعد مریض، ڈاکٹر کے مشورے سے، ہر۲۴گھنٹے میں Antidepressants Benzodiazepines کی بالعموم ایک یا دو خوراکوں کے استعمال سے اپنی صحت کو برقرار رکھتے ہوئے روزے رکھ سکتا ہے۔ یہ خوراک حسب ہدایت افطارکے بعد یا سحری کے وقت لی جاسکتی ہے۔

m مرگی (Epilepsy):اس بیماری میں استعمال ہونے والی وہ دوائیں جو دو وقت دی جاتی ہیں، وہ بہ آسانی سحر و افطار میں دی جاسکتی ہیں، تاہم کچھ دوائیں دن میں تین مرتبہ بھی تجویز کی جاتی ہیں جنھیں سحر و افطار اور بعد از تراویح لیا جا سکتا ہے۔ کچھ صورتوں میں دوائی کی مقدار بڑھاکر اسے دو وقت (سحر و افطار) بھی دیا جاسکتا ہے۔یہاں یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کی کمی اور نیند کی بے قاعدگی سے دورے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر مریض اپنے تجربے سے یہ بات جانتا ہے کہ روزہ رکھنے سے اسے دورہ پڑتا ہے تو روزہ نہ رکھے۔

 مریضوں کو یہ مشورہ دیا جانا چاہیے کہ سحری میں اچھی خوراک لیں اور افطاری میں دیر نہ کریں۔ جہاں تک نیند کی بے قاعدگی کا تعلق ہے، مریضوں کو رمضان میں سونے کے لیے نئے معمول پر چلنے کی ہدایت کی جاسکتی ہے، جیسے تراویح کے فوراً بعد سوجانا اور سحری کے بعد نہ سونا، اس ہدایت پر عمل کرنے سے عبادت کے لیے بھی اچھا خاصا وقت مل سکتا ہے۔

ان بیماریوں میں مبتلا اکثر مریض بغیر کسی مسئلے کے روزہ رکھنے کے قابل ہوتے ہیں، تاہم دوائیوں کی مقدار اور دوائی لینے کے اوقات کا خیال رکھنا اور اگر ضرورت پڑے تو اَزسر نو انھیں متعین کرنا ضروری ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ کچھ مریض اپنی بیماری یا علاج کی ضرورت کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہیں ہوتے۔ البتہ جہاں تک ممکن ہو، روزہ رکھنے کی خواہش کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ روزہ انھیں اپنے روزمرہ معمولات پر دسترس اور اپنے دینی فرائض کی ادایگی کے قابل ہونے کی وجہ سے ایک عظیم مسلم امہّ کا حصہ ہونے کا احساس دلائے گا، جو ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوگا، ان شاءاللہ۔