اخوان سے میرا ربط اور امام حسن البناؒ سے میری ملاقات بڑا دل چسپ واقعہ ہے۔ اس ملاقات کی ابتدا کو سن کر ہی آپ انتہا تک کی تفصیل سمجھ سکتے ہیں۔میں نے جب وکالت کا پیشہ اختیار کیا تو شبین القناطر میں اپنا دفتر کھول لیا۔ میری رہایش تلمسانی فارم سے ۱۱کلومیٹر دُور تھی۔ میں گھر سے دفتر آنے اور واپس جانے کے لیے بس اور ریل گاڑی میں سفر کیا کرتا تھا۔ گھر پر میرا مشغلہ مرغ بانی تھا۔ اس فارم میں، مَیں نے جو مرغی خانہ کھول رکھا تھا، اس میں ساتھ ہی ساتھ انواع و اقسام کے کبوتر اور خرگوش بھی پال رکھے تھے۔ اسی فارم میں میری رہایش گاہ اور ایک پھلواری بھی تھی۔
۱۹۳۳ء کے اوائل کی بات ہے کہ یہ جمعۃ المبارک تھا۔ مَیں اس وقت پھولوں کے باغیچے میں بیٹھا ہوا تھا کہ فارم کے چوکیدار نے آکر بتایا: ’’دو اَپ ٹو ڈیٹ قسم کے افراد ملنے آئے ہیں‘‘۔ میں نے اپنے اہل و عیال کو زنان خانے میں جانے کا اشارہ کیا اور چوکیدار سے کہا کہ مہمانوں کو اندر لے آئے۔ دونوں جوان اندر آئے اور تعارف کرایا۔ ایک تو عزت محمد حسن تھے اور دوسرے محمد عبدالعال۔ اول الذکر شبین القناطر کے مذبح خانے میں ملازم تھے اور آخر الذکر ڈیلٹا ریلوے اسٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر۔ مہمانوں کے استقبال اور مدارات میں کچھ وقت گزرا۔ قہوہ پی چکے تو عزت محمد حسن نے خاموشی توڑتے ہوئے پوچھا: ’’آپ یہاں کیا کرتے ہیں؟‘‘ یہ سوال مجھے عجیب سا لگا۔ میں نے اسے دخل در معقولات سمجھا، مگر لطیف انداز میں جواب دیا: ’’میں یہاں چوزے پالتا ہوں‘‘۔
میرے مزاحیہ جواب سے مہمانوں کے اعصاب پر کوئی غیرمعمولی اثر نہ ہوا، بلکہ اس جواب کو سن کر عزت محمد حسن نے کہا: ’’آپ جیسے نوجوانوں کے لیے چوزے پالنے سے زیادہ اہم کام منتظر ہیں‘‘۔ میں ابھی تک گفتگو کو سنجیدگی کے بجاے مزاح ہی کے موڈ میں لے رہا تھا۔ سو،مَیں نے اسی انداز میں سوال جڑ دیا: ’’وہ کیا چیز ہے جو چوزوں سے زیادہ میری توجہ کی مستحق ہے؟‘‘ مہمان کا سنجیدگی میں ڈوبا ہوا جواب تھا: ’’آپ کی توجہ کے مستحق مسلمان ہیں، جو اپنے دین سے دُور چلے گئے ہیں ۔ اس غفلت نے انھیں اتنا بے وقعت کر دیا ہے کہ ان کے اپنے وطن میں بھی ان کا کوئی وزن اور ذرہ بھر عزت نہیں رہی اور اقوامِ عالم کے درمیان توان کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے‘‘۔
مہمانوں نے بتایا کہ: ’’آپ اس میدان میں تنہا نہیں ہیں بلکہ آپ جیسے نوجوانوں کی ایک تنظیم بن چکی ہے اور ایک عظیم شخصیت حسن البنا تنظیم کے رہنما اور مرشدعام ہیں‘‘۔ کچھ دنوں کے بعد وہ نوجوان میرے دفتر میں تشریف لائے اور مجھے بتایا کہ حسن البنا سے میری ملاقات کا پروگرام بن چکا ہے۔ مرشدعام قاہرہ میں شارع الیکنیہ پرخیامیہ کے علاقے میں عبداللہ بک محلے میں رہتے تھے۔
ٹھیک وقت ِ مقررہ پر مَیں مرشدعام کے دروازے پر پہنچ گیا۔ میں نے چرخی دار کنڈلی گھمائی اور بڑا دروازہ کھل گیا۔ پھر میں نے دستک دی اور جواب میں ایک آواز سنی: ’’کون؟‘‘ میں نے کہا: ’’عمرتلمسانی ایڈووکیٹ از شبین القناطر‘‘۔ پس وہ شخص اُوپر کے کمرے سے نیچے اُترا اور میرا استقبال کیا۔ پھر بیرونی دروازے سے داخل ہوتے ہوئے جو دائیں جانب کا کمرہ تھا، اس کا دروازہ کھولا۔ میں میزبان کے پیچھے اس کمرے میں داخل ہوا۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ مجھے بالکل پتا نہ چلا کہ کمرے کے اندر کیا ہے۔ میزبان نے کمرے کی اکلوتی کھڑکی کھولی تو اندر روشنی آئی اور میں نے دیکھا کہ وہ کمرہ نہایت سادہ اور چھوٹا سا دفتر تھا، جس میں چند کرسیاں پڑی تھیں جو روایتی انداز میں خشک تیلیوں سے بنائی گئی تھیں۔ ان کرسیوں پر کچھ گردوغبار تھا۔ میزبان ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور مجھے دوسری کرسی بیٹھنے کے لیے پیش کی۔ قیمتی سوٹ کےساتھ اس کرسی پر بیٹھنا مجھے کچھ ناگوار سا گزرا، مگر میں نے جیب سے رومال نکالا اور کرسی پر ڈال کر بیٹھ گیا۔میزبان مجھے غور سے دیکھ رہا تھا او ر اس کے لبوں پر پیار بھرا تبسم رقصاں تھا۔
میں نے خیال کیا کہ مرشدعام میری اس حرکت پر شاید متعجب تھے۔ یہاں دو مختلف راستے تھے۔ بھلا وہ شخص جو اپنی فیشن پرستی اور خوش لباسی کا اتنا اہتمام کرتا تھا، دعوتِ حق کے کٹھن راستوں پر چل سکے گا؟کہاں ظاہری ٹیپ ٹاپ اور کہاں جہاد فی سبیل اللہ کے تقاضے؟ دعوتِ حق کا فریضہ تو زندگی میں مشکلات اور ابتلا لے کر آتا ہے۔اس میں تو عیش و عشرت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں، سختیاں جھیلنا پڑتی ہیں اور تنہائی کے دُکھ سہنے پڑتے ہیں۔
میری ظاہری پُرشکوہ ہیئت کے باوجود مرشدعام کے چہرے پر کوئی مرعوبیت نہ تھی۔ عام لوگ ہوتے تو مجھےدیکھتے ہی دعوتِ حق کے فریضے کے لیے فوراً غیرموزوں قرار دے دیتے ، مگر مرشدعام نے بڑے انہماک سے میرے سامنے اپنا پیغام اور پروگرام پیش کرنا شروع کیا۔ ان کا پیغام کیا تھا، اوّل و آخر یہی تھا کہ: ’’شریعت حقہ کا مکمل نفاذ اور اس مقصد کے لیے عوام الناس کی شعوری تیاری، لوگوں کے سامنے اس حقیقت کو واشگاف کردینا کہ کوئی خیر اور بھلائی سواے اس کے حاصل نہیں ہوسکتی کہ شریعت ربّانی کو مکمل طور پر اپنے انفرادی اور اجتماعی اُمور میں لاگو کیا جائے‘‘۔
حسن البنا نے مختصر سے وقت میں بڑے مؤثر انداز سے دعوت پیش کی اور اس سارے کلام کو میں نے پورے غور سے سنا۔ ان کی گفتگو کے دوران ایک بار بھی میں نے قطع کلامی نہ کی۔ جب وہ اپنی پوری بات بیان کرچکے تو مجھ سے پوچھا :’’کیا آپ کا اطمینان ہوگیا؟‘‘ قبل اس کے کہ میں زبان کھولتا، فرمانے لگے: ’’دیکھیے، ابھی جواب نہ دیجیے۔ آپ کے پاس پورے ایک ہفتے کی مہلت ہے۔ غوروفکر کریں، اپنے دل کو ٹٹولیں اور اس کی راے لے لیں۔ میں آپ کو پکنک کی اور سیرسپاٹے کی دعوت نہیں دے رہا۔ جس بات کی طرف بلا رہا ہوں، وہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ اگر آپ کا دل مطمئن ہوجائے اور اللہ تعالیٰ آپ کو شرحِ صدر عطا فرما دے تو بسم اللہ! اگلے ہفتے بیعت کے لیے آجایئے۔ اور اگر آپ اس کے لیے اپنے آپ کو تیار نہ پائیں تو بھی کوئی فکر کی بات نہیں۔ میرے لیے اتنا ہی کافی اور اطمینان بخش ہے کہ آپ اخوان المسلمون کے خیرخواہ اور دوست بن جائیں‘‘۔
جس ایمان افروز مجلس میں بیٹھنے اور جس بے نظیر گفتگو سے مستفید ہونے کی سعادت مجھے ملی تھی، اس کے بعد بھلا کون بیعت کرنے میں لمحہ بھر کے لیے بھی تاخیر کرتا!مگر چوں کہ مرشد کا حکم تھا، اس لیے میں چلا گیا اور حسب ہدایت ایک ہفتے بعد وقت ِ مقررہ پر واپس آیا۔ اللہ پر توکّل کیا اور حسن البنا کے ہاتھ بیعت کرلی۔ یہ بیعت میری زندگی کی سب سے بڑی سعادت ہے۔ مجھے اخوان المسلمون کے ساتھ نصف صدی سے زیادہ کام کرنے کا اعزازحاصل ہوا ہے۔ اس بیعت کے بعد جب سے میں نے راہِ حق میں قدم اُٹھائے تو امتحان و آزمایش کی چکّیوں سے مجھے گزرنا پڑا۔ یہ سب مرحلے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس امتحان و آزمایش سے میرا واحد مقصود اپنے ربّ کے ہاں اجر پانے کی اُمید ہے۔ میری دُعا ہے کہ یہ سب کچھ خالصتاً لوجہ اللہ شمار ہو اور وہی انعام دے۔
میری دلی تمنا ہے کہ آج کا نوجوان مسلم اس بوڑھے (تلمسانی) سے، جو اپنی زندگی کی ۸۰بہاریں پوری کرنے کو ہے، یہ سبق سیکھ لے کہ اللہ نے امتحان و ابتلا میں سے جو مقدر کیا ہے اسے صبر، وقار اور بُردباری سے برداشت کیا جائے اور خالق کی رضا پر ہرحال میں راضی رہا جائے۔
اللہ کے کسی فیصلے اور قضا و قدر پر ذرہ برابر بھی شکوہ اور ناراضی ظاہر نہ ہو۔ میری یہ بھی آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ میرے شاملِ حال رہے اور جب مَیں دنیا سے رخت ِ سفر باندھوں تو اللہ کے سپاہی کی حیثیت سے جائوں۔ میری یہ آرزو ہے کہ میری اُمید صرف اللہ سے وابستہ رہے، اور اس کے سچے وعدوں کا مجھے ایسا یقینِ کامل حاصل ہو، جو میرے روئیں روئیں میں موجزن ہوجائے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ مقام نصیب ہوجائے کہ میں اپنے مولا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں یا اپنے ہاتھوں سے چھو سکوں۔ بے شک کامیابی و عافیت کا مستحق اللہ تعالیٰ نے اہلِ تقویٰ ہی کو بنایا ہے۔ میں اللہ سے دُعا مانگتا ہوں کہ مجھے اور سارے اخوان المسلمون کو تقویٰ کی زینت بخشے اور ہمیں اپنی نصرت اور مدد کا اہل اور مستحق بنائے‘‘۔
امام حسن البنا کے ساتھ میں نے اپنی پہلی ملاقات کی تفصیل بیان کی ہے۔ ہم میں سے ہرایک، جو امام سے ملا اس بات سےواقف ہے کہ شہید نے ہم سے پہلی ملاقات میں سارے حقائق کھول کر بیان کردیے۔ انھوں نے ہمیں سبز باغ نہیں دکھائے تھے۔ اُنھوں نے کبھی ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ اس راستے پر قدم رکھتے ہی دُنیا ہمارے استقبال کو دوڑے گی یا لوگ ہمیں پھولوں کے ہار پہنائیں گے یا زندگی کی نعمتیں اور آسایشیں ہماری منتظر ہوں گی؟ نہیں، بلکہ اُنھوں نے ہمیں متنبہ کر دیا تھا کہ: ’’دعوت حق کا راستہ کانٹوں بھرا راستہ ہے۔ یہ کٹھن وادیوں کا سفر ہے۔ یہ دارورَسن کی راہ ہے۔ جو اس دعوت کو قبول کرے، اسے خوب سمجھ لینا چاہیے اور علیٰ وجہ البصیرت قدم اُٹھانا چاہیے۔ پھر جب آزمایش کی چکّی گھومنے لگے تو کسی کو ملامت نہ کرنی چاہیے بلکہ صبر کا دامن تھام کر ڈٹ جانا ہوگا‘‘۔ مرشدعام نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا بلکہ اُس کو راہ کے تقاضوں سے اوّل روز ہی سے خبردار کرتے رہے۔
پھر جب اس قافلے کے ساتھی کمرہمت باندھ کر چلنے لگے، تو اللہ نے ان کے دلوں میں باہمی محبت پیدا کردی۔ ان کا قلبی تعلق ایک دوسرے سے اتنا گہرا ہے کہ لوگ اس پر حیران ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی کہنے والے نے یہ بھی کہا: ’’اگر کوئی اخوانی اسکندریہ میں چھینک مارے تو اسوان کے اخوان اسے سن لیتے ہیں‘‘۔ اور مَیں کہتا ہوں کہ ہمارا باہمی تعلق ایسا مضبوط ہے کہ یورپ میں رہنے والا کوئی اخوانی کسی چیز کی تمنا کرے اور کینیڈا میں رہنے والے اخوانی کو پتا چلے کہ وہ اسے پورا کرسکتا ہے، تو بے مانگے وہ اس کی تمنا پوری کردے۔ اس میں شرط صرف ایک ہی ہے کہ ایسی تمنا اللہ کی اطاعت کے دائرے میں ہو، اس سے باہر نہ ہو‘‘۔
۲- اسلام میں شراب، خنزیر، مُردار، خون ، اور مَا اُھِلَّ بِہٖ لِغیراللہ کو اسی طرح قطعاً حرام کیا گیا ہے، جس طرح زنا ، چوری، ڈاکے اور قتل کو حرام کیا گیا ہے۔ لیکن اضطرار کی حالت پیدا ہوجائے تو جان بچانے کے لیے پہلی قسم کی حرمتوں میں شریعت رخصت کا دروازہ کھول دیتی ہے، کیوں کہ ان حُرمتوں کی قیمت جان سے کم ہے۔ مگر خواہ آدمی کے گلے پر چھری ہی کیوں نہ رکھ دی جائے، شریعت اس بات کی اجازت کبھی نہیں دیتی کہ آدمی کسی عورت کی عصمت پر ہاتھ ڈالے، یا کسی بے قصور انسان کو قتل کردے۔ اسی طرح خواہ کیسی ہی اضطرار کی حالت طاری ہوجائے، شریعت دوسروں کے مال چرانے اور رہزنی و ڈاکا زنی کرکے پیٹ بھرنے کی رخصت نہیں دیتی۔ کیوں کہ یہ بُرائیاں اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے کی بُرائی سے شدید تر ہیں۔
۳- راست بازی و صداقت شعاری اسلام کے اہم ترین اصولوںمیں سے ہے اور جھوٹ اس کی نگاہ میں ایک بدترین بُرائی ہے، لیکن عملی زندگی کی بعض ضرورتوں اور بعض حالات میں اس کے وجوب [لازم ہونے] تک کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ صلح بین الناس اور اَزدواجی تعلقات کی درستی کے لیے اگر صرف صداقت کو چھپانے سے کام نہ چل سکتا ہو تو ضرورت کی حد تک جھوٹ سے بھی کام لینے کی شریعت نے صاف اجازت دی ہے۔ جنگ کی ضروریات کے لیے تو جھوٹ کی صرف اجازت ہی نہیں ہے بلکہ اگر کوئی سپاہی دشمن کے ہاتھ گرفتار ہوجائے اور دشمن اس سے اسلامی فوج کے راز معلوم کرنا چاہے، تو ان کا بتانا گناہ اور دشمن کو جھوٹی اطلاع دے کر اپنی فوج کو بچانا واجب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ظالم کسی بے گناہ کے قتل کے درپے ہو، اوروہ غریب کہیں چھپاہوا ہو، تو سچ بول کر اس کے چھپنے کی جگہ بتا دینا گناہ اور جھوٹ بول کر اس کی جان بچا لینا واجب ہے۔(رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہنامہ ترجمان القرآن ، شعبان ۱۳۷۷ھ/مئی ۱۹۵۸ء، جلد۵۰،عدد۲، ص ۱۱۷- ۱۱۸)