ماہِ رمضان گزارنے والوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے: ایک وہ جس کے لیے اس مہینے اور سال کے دوسرے مہینوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہ ناکام ونامراد شخص ہے۔ دوسرا وہ جو عابد ہے، صرف عبادت کرتا ہے۔ اس کو رمضان کا ثواب تو ملتا ہے، لیکن رمضان کا مہینہ گزرتے ہی اس کا جوش و خروش ختم ہو جاتا ہے اور وہ اپنی پہلی والی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے۔ تیسرا وہ جو حضورِ قلب کے ساتھ عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اس مہینے کو غنیمت جان کر اس دوران زیادہ سے زیادہ اللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے، اور اس کی پچھلی اور بعد والی زندگی میں نمایاں فرق پیدا ہوتاہے۔ تیسری قسم کے یہی لوگ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی صحابہ کرامؓ تھے۔ رمضان کے دوران انھی بزرگ ہستیوں کے معمولات کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
صحابہ کرامؓ کا یہ معمول تھا کہ اس مہینے کی آمد سے پہلے ہی اپنے معمولات کو ترتیب دینے کے لیے اپنے اوقاتِ کار مرتب کرتے تھے اور اپنا وقت ضائع ہونے نہیں دیتے تھے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’جب تم روزہ رکھو تو جتنا ہو سکے لایعنی باتوں سے محفوظ رہو‘‘۔ اس روایت کے راوی طلیق جب روزے سے ہوتے تو اپنے گھر سے صرف نماز کے لیے نکلتے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ:۸۹۷۰)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’جب تم روزہ رکھو تو تمھارے کان، تمھاری آنکھیں اور تمھاری زبان جھوٹ اور گناہوں سے روزہ رکھیں۔ خادم کو تکلیف دینے سے باز رہو، اور تمھارے روزے کے دن تم پر وقار اور سیکنت ہو۔تم اپنے روزے اور اپنے افطار کے دن کو یکساں مت بنائو‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۸۹۷۳)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’روزہ صرف کھانے پینے سے نہیں ہے، بلکہ روزہ جھوٹ ، باطل اور لغو قسم کھانے سے بھی ہے‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹۸۷۵)۔ اسی طرح کی بات حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (ایضاً: ۸۹۷۷)
ابن ابی شیبہ نے ابو المتوکل سے روایت کیا ہے کہ: ’’حضرت ابو ہریرہؓ اور آپ کے ساتھی جب روزہ رکھتے تو مسجد میں بیٹھتے‘‘ (النہایۃ فی غریب الحدیث : دیکھا جائے ، مادہ:ذرب ) ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد ماہِ رمضان میں اعتکاف کیا کرتی تھی، خصوصاً آخری عشرے میں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اصحابِ صفہ کو کھانا پیش کرتے تھے۔ یہ مسلمانوں میں سے معاشی لحاظ سے کمزور لوگ تھے جو مسجد نبوی میں بسیرا کرتے تھے۔ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’جب رمضان آیا تو ہم صفہ میں تھے۔ ہم نے روزہ رکھا، جب ہم افطار کرتے تو ہم میں سے ایک شخص کے پاس ایک آدمی آتا اور اپنے ساتھ لے جا کر رات کا کھانا کھلاتا ‘‘ ۔ (حلیۃ الاولیاء ۳/۲۲، دلائل النبوۃ للبیہقی ۶/۱۲۹، تاریخ دمشق : ۱۶/ ۴۵۷)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، وفود اور مہمانوں کے لیے کھانا پکایا کرتے تھے۔ علقمہ بن سفیان بن عبداللہ ثقفی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ’’ہم وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ آپؐ نے ہمارے لیے مغیرہ بن شعبہ کے گھر کے پاس دو خیمے لگوائے تھے۔ بلال ہمارے پاس افطار لے کر آتے تو ہم پوچھتے : ’’بلال، کیا رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے افطار کیا ؟‘‘وہ کہتے :’’ہاں، میں تمھارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں افطار کرنے کے بعد ہی آیا ہوں اور ہم بھی کھاتے ، اور بلال ہمارے پاس سحری بھی لے کر آتے تھے‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، ۶۴۰۰)
عبداللہ بن رباح روایت کرتے ہیں: ’’چند وفود حضرت معاویہؓ کے پاس آئے۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ ہم میں سے بعض لوگ تھوڑا کھانا بناتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ کثرت سے ہمیں اپنے کجاوے میں بلاتے تھے۔ پھر میری ملاقات حضرت ابوہریرہ ؓ کے ساتھ عشاء کے وقت ہوئی۔ میں نے کہا: آج رات میرے پاس دعوت ہے۔ انھوں نے کہا: آپ مجھ پر سبقت لے گئے۔ میں نے کہا : جی ہاں، پھر میں نے لوگوں کو دعوت دی‘‘۔(مسلم :۳/ ۱۴۰۵، حدیث: ۱۷۸۰)
طاؤسؒ سے یہ روایت نقل ہے کہ: ’’میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: ’’عمر رضی اللہ عنہ نے سحری میں مجھے اپنے پاس کھانے کے لیے بلایا ، تو اسی دوران لوگوں کا شورغل سن کر دریافت کیا: یہ کیا ہو رہا ہے ؟ میں نے کہا: لوگ مسجد سے نکل رہے ہیں‘‘ (مختصر قیام اللیل، ۹۷) ۔دراصل لوگ اجتماعی سحری کے بعد نکل رہے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ کبھی آپ کے شاگرد سحری کھایا کرتے تھے، چاہے تھوڑا بہت کچھ بھی پاس ہوتا، اور وہ سحری تاخیر سے کیا کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے عامر بن مطر سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کہا: ’’میں عبداللہ کے پاس ان کے گھر آیا، تو انھوں نے اپنی سحری میں سے بچا ہوا کھانا نکالا ، تو ہم نے آپ کے ساتھ سحری کھائی۔ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو ہم نکلے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی ‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹۰۲۴)
صِلہ بن زُفر کہتے ہیں: ’’میں نے حذیفہ کے ساتھ سحری کھائی ، پھر ہم مسجد چلے گئے، دورکعت فجر کی سنت پڑھی، پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو ہم نے نماز پڑھی‘‘۔ (نسائی: ۲۱۵۳،۲۱۵۴)
ابو جمرہ نصر بن عمران ضبعی سے روایت ہے کہ ’’ہم رمضان میں ابن عباسؒ کے ساتھ افطار کیا کرتے تھے۔ جب شام ہوتی تو اپنے ایک ربیب کو گھر کی چھت پر چڑھنے کا کہتے۔ جب سورج غروب ہوتا تو وہ اذان دیتا۔ آپ بھی کھاتے اور ہم کو بھی کھلاتے۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوتے تو نماز کے لیے اقامت کہی جاتی ، تو ہم بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹۰۳۶)
ابن الاثیر نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کی ہے: جب رمضان کا مہینہ آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ رات کا کھانا ایک دن حسنؓ کے پاس، ایک دن حسینؓ کے پاس اور ایک دن عبداللہ بن جعفرؓ کے پاس کرنے لگے(اسد الغابہ ۳/۶۱۵)۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خاندان کا بڑا اپنے گھر والوں کا اکرام کرے، اپنی محبت کا اظہار کرے اور ان سے ملاقات کو جائے۔
صحابہ کرامؓ رمضان میں قرآن کی تلاوت کثرت سے کرتے، بلکہ بعض صحابہؓ تو اس کے لیے فارغ ہی ہورہتے ،اور اسی کو اپنا مشغلہ بنا دیتے۔
مروزی نے قاسم سے روایت کیا ہے: ’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ پورا قرآن ایک جمعے سے دوسرے جمعے تک ختم کرتے تھے، اور رمضان میں ہر تین دن میں ایک ختم کرتے، اور دن میں بہت ہی کم قرآن ختم کرنے پر مدد لیتے تھے‘‘۔ ( مختصر قیام اللیل، والسنن الکبری للبیہقی ۲/۳۹۶، المعجم الکبیر:۸۷۰۶، ص ۹/۱۴۲، حلیۃ الاولیاء :۷ /۱۶۶)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ معمول تھا کہ وہ رمضان میں دن کے شروع حصے میں قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھیں، جب سورج طلوع ہوتا تو سو جاتیں ۔ (لطائف المعارف، ص۱۷۱ )
رمضان میں تلاوت قرآن کے سلسلے میںسلف کے طریقے کی مناسبت سے ایک اقتباس پیش ہے: ’’ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ نے رمضان میں تلاوتِ قرآن سے سلف کے شدید تعلق کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے: بعض سلف رمضان کے قیام اللیل میں ہر تین رات میں ایک ختم کرتے تھے، اور بعض سات راتوں میں ایک۔ ان میں سے قتادہ بھی ہیں، اور بعض دس راتوں میں ایک ، جن میں سے ابو رجا ء عُطاردی ہیں‘‘۔
سلف رمضان کے مہینے میں نماز میں اور نماز کے علاوہ بھی قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ نخعی اہتمام کے ساتھ مہینے میں تین راتوں میں ایک بار ختم کرتے تھے۔ قتادہ ہمیشہ سات دنوں میں ایک بار ختم کرتے تھے، اور رمضان کی ہر تین راتوں میں ایک بار تلاوتِ قرآن ختم کرتے۔ قتادہ رمضان میں کثرت سے قرآن پڑھتے تھے۔ زہری کا یہ معمول تھا کہ جب رمضان آتا تو کہتے: یہ تلاوتِ قرآن اورکھانا کھلانے کا مہینہ ہے۔
ابن الحکم کہتے ہیں: جب رمضان آتا تومالک بن انس ذخیرئہ حدیث پر غوروفکر اور اہل علم کے ساتھ بیٹھنے کے بجاے پوری طرح قرآن کریم کی تلاوت کی طرف متوجہ ہو جاتے۔
سفیان کہتے ہیں: زید یامی کا یہ معمول تھا کہ جب رمضان آتا تو مصاحف کو لاتے اور اپنے ساتھیوں کو اپنے پاس جمع کرتے۔ تین سے کم دنوں میں تلاوتِ قرآن مکمل کرنے سے جو منع کیا گیا ہے، اس کاتعلق پابندی سے ہے، البتہ افضل اوقات میں، مثلاً رمضان کے مہینے میں اور خصوصاً ان راتوں میں جن میں شبِ قدر کی تلاش کی جاتی ہے، یا افضل مقامات پر، مثال کے طور پر مکہ مکرمہ تو ان اوقات اور جگہوں کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ قرآن کی تلاوت مستحب ہے۔ یہ احمد، اسحاق وغیرہ ائمہ کا قول ہے۔ (لطائف المعارف،ص ۱۷۱-۱۷۲)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عام دنوں میں تہجد کی پابندی کیا کرتے تھے اور رات کا ایک حصہ اللہ کی عبادت میں گزارتے تھے، البتہ رمضان میں تقریباً پوری رات عبادت میں صرف کرتے تھے، اپنے قیام میں طویل تلاوت کیا کرتے تھے۔ ایک تہائی ، نصف یا رات کا اکثر حصہ تلاوت ِ قرآن ، نماز، اور ذکر واذکار واستغفار میں لگاتے تھے۔
عبداللہ بن ابو بکر بن محمد بن عمروبن حزم سے روایت ہے کہ: میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: ’’ہم رمضان میں قیام اللیل سے واپس ہوتے تو خادموں کو کھانا لانے میں جلدی کا کہتے کہ کہیں طلوعِ فجر نہ ہو جائے‘‘۔ (موطا امام مالک: ۱/۱۱۶، فضائل الاوقات للبیہقی : ۱۲۹، ص۲۸۰)
روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی رات کو چار حصوں میں تقسیم کرتے تھے۔ عام طور پر آدھی رات نماز میں جاگتے تھے، اور ہر چار رکعت کے درمیان وضو کی مقدار تک آرام کرتے۔ مروزی نے حسن بصریؒ سے روایت کیا ہے: ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت اُبی رضی اللہ عنہ کو رمضان میں لوگوں کی امامت کا حکم دیا تو انھوں نے امامت کی۔ وہ ایک چوتھائی رات سوتے اور دو چوتھائی رات نماز پڑھتے ، اور ایک تہائی رات باقی رہنے پر اپنی سحری اور ضرورتوں کے لیے واپس چلے جاتے …‘‘۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی ،ص ۹۶)
حسن بصریؒ کہتے ہیں: ’’لوگ عمر بن خطابؓ اور عثمان بن عفانؓ کے زمانے میں رمضان میں عشاء کی نماز رات کے ابتدائی ایک چوتھائی حصے میں پڑھتے، دوسرے ایک تہائی میں قیام کرتے، پھر ایک چوتھائی میں سوتے، اور اس کے بعد پھر نماز پڑھتے‘‘۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی، ص ۹۷)
بیہقی وغیرہ نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے: ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ رمضان کے مہینے میں بیس رکعت نماز پڑھتے تھے، اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں طویل قیام کی وجہ سے اپنے عصا پر ٹیک لگاتے تھے ‘‘۔ (السنن الکبری للبیہقی ، ۲/۴۹۶، مختصر قیام اللیل ، ۹۶)
عبدالرحمٰن بن عراک بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ’’میں نے رمضان میں لوگوں کو پایا کہ وہ طویل قیام کی وجہ سے اپنے لیے رسیاں باندھتے تھے، تا کہ اس سے سہارا لیں‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۷۷۶۰، ص۵/۲۲۲)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ قراء ت طویل کرتے تھے اور بیس رکعت پڑھتے تھے۔ مروزی نے زید بن وہب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے : ’’عبداللہ بن مسعودؓ ہم کو رمضان کے مہینے میں نماز پڑھاتے ہوئے اس وقت واپس جاتے، جب کہ ابھی رات باقی رہتی ‘‘۔ اعمش کہتے ہیں: ’’وہ ۲۰رکعت پڑھتے تھے اور تین رکعت وتر‘‘۔ عطا کہتے ہیں: ’’میں نے ان (صحابہ ) کو رمضان میں ۲۰رکعت اور تین رکعت وتر پڑھتے ہوئے پایا ‘‘۔ (مختصر قیام اللیل، ص ۹۵ )
آخری عشرے میں عبادت میں صحابہ کرامؓ کی جدوجہد بے انتہا بڑھ جاتی تھی۔ خود بھی عبادت میں مصروف ہوتے اور اپنے گھر والوں کو بھی رات کو جگاتے ۔ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ آخری عشرے میں اپنے گھر والوں کو جگایا کرتے تھے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ مجاہد سے ہے: ’’عمر آخری عشرے میںاپنے گھر والوں کو جگاتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹۶۳۸، ص۶/ ۲۷۴)
ترمذی نے عینیہ بن عبدالرحمٰن سے روایت کیا ہے کہ، مجھے میرے والد نے بتایا: ابوبکرہ کے پاس شبِ قدر کا تذکرہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں اس کو آخری عشرے میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کی وجہ سے تلاش کروں گا، کیوں کہ میں نے آپؐ کوفرماتے ہوئے سنا ہے: ’’اس کو باقی نو دنوں میں، یا سات دنوں میں، یا پانچ دنوں میں یا تین آخری راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ ابو بکرہ ۲۰رمضان تک تو سال کے دوسرے دنوں کی طرح نماز پڑھتے، لیکن جب آخری عشرہ آتا تو جد وجہد کرتے ‘‘۔ (ترمذی ، ۷۹۴،ص۲/ ۱۵۱، مصنف ابن ابی شیبۃ، ۹۶۴۰، ص۶/ ۲۷۴۔ ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے۔)
ابو عثمانؒ سے روایت ہے: ’’میں ابو ہریرہؓ کے پاس سات دن مہمان رہا۔ وہ ، بیوی اور ان کا خادم رات کو ایک ایک تہائی باری باری جاگتے تھے۔ ایک نماز پڑھتا پھر دوسرے کو جگادیتا‘‘۔ (بخاری، ۵۱۲۵، ص۵/۲۰۷۳ )
سحری میں صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ تاخیر سے کرتے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سحری ختم کرنے اور فجر کی اذان میں ۵۰سے ۶۰ آیتوں کا فصل رہتا۔ اگر کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو گھونٹ پانی ضرور پیتے، کیوں کہ سحری اس امت کی خصوصیت ہے۔
افطار میں صحابہؓ کا معمول یہ تھا کہ مغرب کی اذان ہوتے ہی کھجور کھا لیتے ، کھجور نہ ملتی تو پانی سے افطار کرتے ، یا جو بھی میسر آتا اس سے پہلی فرصت میں افطار کرتے ، اور افطار کے وقت مسنون دعائوں کا اہتمام کرتے ۔
اس مبارک مہینے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سخاوت عروج پر ہوتی۔ عام معمول یہ ہوتا کہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ خود بھوکے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کی اس صفت کی تعریف قرآن مجید میں کی ہے ، خصوصاًجب عید کا دن ہوتا تو صدقہ فطر کے علاوہ بھی فقرا میں اپنا مال تقسیم کرتے تا کہ کوئی بھی اس دن کی خوشی سے محروم نہ رہے۔