مدیر ترجمان القرآن نے ’پاکستان کو درپیش چیلنج اور قومی لائحہ عمل‘ (اپریل ۲۰۱۸ء) میں نہ صرف دانش ورانہ گہرائی سے مسائل کی تشخیص کی ہے اور مسائل کا حل بتایا ہے، بلکہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور انتظامیہ کی فطرت میں چھپی خرابیوں کی بھی نشان دہی کی ہے۔ خاص طور پر مقتدر سیاست دانوں، عدلیہ اور فوج کو بڑے متوازن انداز میں اصلاحِ احوال کا پیغام دیا ہے۔ کاش! ہمارے اہلِ قلم اسی دیانت اور سچائی سے قوم کی رہنمائی کریں۔
’علّامہ اقبال کے ہاں ایک شام‘ (اپریل ۲۰۱۸ء) واقعی پروفیسر حمید احمد مرحوم کا ایک تحفہ ہے۔ اسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اصحابِ علم کس انداز سے بڑی بڑی اُلجھی گتھیوں کو کس پیارے انداز سے کھولتے اور سائل کی تشفی و تسلی کرتے ہیں۔ اس وسعت ِ نظر اور وسعت ِ پیش کش پر ترجمان القرآن مبارک باد کا مستحق ہے۔
محترمہ زبیدہ عزیز کا مضمون : ’شعبان: فضیلت، عبادات، رسومات ‘ (اپریل ۲۰۱۸ء) میں قرآن و سنت کے تحت بدعات اور غلط روایات سے بچنے کا سامان فراہم ہوا ہے۔ تاہم ’’بہت سی روایات تو موضوع یعنی من گھڑت ہیں‘‘ (ص ۳۳) جیسے غیرمحتاط جملے کے بجاے یہ لکھنا کافی تھا: ’’بعض روایات ’موضوع‘ ہیں‘‘۔ حدیث کے معاملے میں کمزور بات یا جملے سے فساد کا دروازہ کھلتا ہے، اجتناب ضروری ہے۔
ڈاکٹر رخسانہ جبیں کا مضمون: ’بچے اُمت کا سرمایہ، مگر کیسے؟‘(اپریل ۲۰۱۸ء) میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک بہترین پروگرام دیا گیا ہے۔ جس میں بچوں کی تربیت کے نہ صرف اہم نکات سمجھائے گئے ہیں بلکہ والدین کی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔اسی طرح پروفیسر عبدالقدیر سلیم کا مطالعہ کتاب: ’ناموسِ رسالتؐ، اعلیٰ عدالتی فیصلہ‘ ، کا کتابی صورت میں مرتب ہونا بہت بڑا احسان ہے۔
پروفیسر حمید احمد خان کا مضمون ’علّامہ اقبال کے ہاں ایک شام‘ پڑھا تو شدت سے د ل میں ایک آرزو جاگی کہ کاش مجھے بھی کسی شام علّامہ اقبال کی کسی محفل میں بیٹھنا نصیب ہوا ہوتا۔ کتنے خوش قسمت تھے وہ لوگ، جو علّامہ اقبال کے ہاں جاتے اور حکمت و دانش سے جھولیاں بھر کر اُٹھتے۔ اس محفل میں علّامہ کے کہے یہ جملے قارئین تازہ کرلیں: l’’ہندو شاعری کے تمام دفتر دیکھ ڈالیے، کہیں گرمی نہیں ملے گی‘‘۔ l’’حقیقت یہ ہے کہ اسلامی موسیقی کا کوئی وجود ہے ہی نہیں…‘‘۔ l’’صحابہؓ کے ’حال‘ اور تمھارے ’حال‘ میں یہ فرق ہے کہ انھیں میدانِ جنگ میں حال آتا تھا اور تمھیں رحیم بخش کی کوٹھڑی میں‘‘۔ l’’مسجد (مسجد قوۃ الاسلام) کی قوت و جلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل (نماز ادا کرنے کی خواہش) ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں‘‘۔
ترجمان القرآن (اپریل ۲۰۱۸ء) ’رسائل و مسائل‘ میں لکھا ہے کہ آج کل ڈاکٹر حضرات کھانا کھانے کے ساتھ پانی پینے کو مضر گردانتے ہیں۔ مَیں ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی فزیالوجی یا میڈیسن کی کتاب میں یہ بات لکھی ہوئی نہیں ہے۔
شام کے المیے پر عبدالغفار عزیز اور محسن عثمانی صاحبان کے مضامین خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ ایس احمد پیرزادہ نے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں حالات کو موقعے کے گواہ کی حیثیت سے بیان کرکے دُکھ اور درد کی ٹیسیں منتقل کی ہیں، جب کہ ڈاکٹر محمد محب الحق نے بھارتی فسطائی چہرے سے نقاب اُلٹ دیا ۔
بھارت ’برہمنی فسطائیت‘ کا دہکتا ہوا الائو ہے۔ اس الائو کے چند شعلوں کو ڈاکٹر محمد محب الحق نے بڑے دلیرانہ اور مدلل انداز سے بیان کیا ہے۔ اس مضمون کی دونوں قسطوں کو یک جا شائع کرکے پھیلانا اور عربی میں ترجمہ کر کے ان عربوں تک پہنچانا چاہیے، جو فاشسٹ مودی کی نازبرداری میں بچھے جارہے ہیں۔
پروفیسر خورشیداحمد کا تحقیقی اور تجزیاتی مقالۂ خصوصی : ’استعماری حکمت عملی اور راہِ انقلاب‘ (مارچ ۲۰۱۸ء) یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کتنی بدنصیبی کی بات ہے کہ سو پچاس سال پہلے کی تاریخ سے بھی ہماری نئی نسل بے خبر بلکہ لاتعلق ہے۔ پروفیسر صاحب نے بڑے ہی مختصر الفاظ میں دو سو سالہ تاریخ کا اس انداز سے احاطہ کیا ہے کہ مقصد ِ تحریر نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا، اور مقصد ِ تحریر بھی کیا ہے؟ سچ کی گواہی۔
چودھری صفدر علی مرحوم کے بارے میں مضمون (مارچ ۲۰۱۸ء) نے اس حسرت کو کئی درجے بڑھا دیا کہ ہم ایسے قیمتی افراد کی صحبتوں سے محروم رہتے ہیں، اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو اُداس کر جاتے ہیں۔