آخرت کی جواب دہی کے احساس سے سرشار ہرمسلمان مرد اور خاتون، بڑا اور چھوٹا یہ چاہتا ہے کہ میں اس فانی دُنیا میں اس طرح زندگی گزاروں کہ آنے والے کل میں، اللہ کے پسندیدہ فرد کی حیثیت سے نامۂ اعمال پیش کرسکوں۔ اس مقصد کے لیے ایک مفتی سے لے کر ایک عام مسلمان تک یہ چاہتا ہے کہ وہ اسلامی شریعت کی منشا جانے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے روشنی لے۔ یہ کوشش دینی سوال و جواب اور فتاویٰ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
زیرنظر انسائی کلوپیڈیائی کتاب ۲۰ویں صدی کے دوران عرب اور غیرعرب دُنیا میں رہنمائی کا بڑے پیمانے پر فریضہ انجام دے چکی ہے، جسے پڑھنا اور اپنے پاس رکھنا ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ سیّدسابق جیسے معروف فقیہہ اور مدبّر (جنوری ۱۹۱۵ء- ۲۷فروری ۲۰۰۰ء) الازہر یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ دورِ طالب علمی ہی سے الاخوان المسلمون کے جاں نثاروں کے ہم قدم بن گئے۔ اخوان کے ہزاروں پروانوں کی فقہی تربیت کے لیے السیّد سابق نے اس عظیم کتاب کی ترتیب و تدوین کی ذمہ داری سنبھالی اور بڑی خوبی و کامیابی سے اسے مدون کیا۔
سیّد سابق نے اس ذخیرئہ رہنمائی میں مختلف فقہی مکاتب ِ فکر کے علمی افادات کو ہرذہنی تحفظ سے بالاتر رہ کر پڑھا اور کتاب و سنّت کی روشنی میں پرکھا۔ پھراس مطالعہ و تحقیق اور دینِ اسلام کی حکمت کو بڑی آسانی اور عام فہم زبان میں ڈھال دیا۔
زیرنظر کتاب کا یہ بھی اعزاز ہے کہ ۲۰ویں صدی میں علمِ حدیث کے ماہر ناصرالدین البانی ؒ نے اس کتاب پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے بہترین کتاب بھی قرار دیا۔ ڈاکٹر حافظ عبدالکبیرمحسن نے بڑی محنت سے اس کا رواں اور شُستہ اُردو ترجمہ کیا ہے، اور محمد سرورعاصم مدیر مکتبہ اسلامیہ لاہور نے بڑی محبت اور خوب صورتی سے اسے زیورِطباعت سے آراستہ کیا ہے۔
یقینی بات ہے کہ ہر صاحب ِ ذوق اس کتا ب کا استقبال کرے گا۔ یہ کتاب اَب تک انگریزی، فارسی، ترکی، ازبکی، روسی، بوسنیائی، تھائی، ملیالم زبانوں کے علاوہ اُردو میں بھی دو تین مختلف مترجمین کی توجہ اور ترجمانی کا مرکز بن چکی ہے۔(س م خ)
یہ کتاب پاکستان کے سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کی یادداشتوں پر مشتمل دستاویز ہے۔ ایسی دستاویز کہ جو بے ساختگی اور سادہ بیانی کا نمونہ ہے، جو اپنے آپ کو پڑھواتی اور قاری کو ساتھ چھوڑنے نہیں دیتی۔ اس کا تصویری حصہ خود تاریخ ہے۔ یہ ٹھیرا کتاب کا ایک پہلو۔
اس کتاب کا دوسرا پہلو عبرت ناک،سبق آموز اور صدمہ انگیز ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں ہیرو تو کوئی نہیں، البتہ دو’ولن‘ موجود ہیں: پہلے ’ولن‘ محمد نواز شریف وغیرہ ہیں، جنھیں وعدہ خلافی، طوطا چشمی، کینہ پروری اور ضدی پن کا مجسم نمونے کے طور پر مصنف نے ایک چشم دید گواہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ دوسرے ’ولن‘ خود صاحب ِ تصنیف ہیں۔ یہی دکھائی دیتا ہے کہ سیاسی میدان میں مصروف چودھری برادران (شجاعت حسین اور پرویز الٰہی) محض پیغام رسانی کا بوجھ اُٹھانے اور بار بار صدمے برداشت کرنے، مگر غالباً جم کر کھڑا نہ ہونے والی شخصیات رہی ہیں (تاہم، چودھری پرویز الٰہی کا صوبۂ پنجاب میں دورِ حکومت (۲۰۰۳ء-۲۰۰۷ء)، رفاہِ عامہ کے متعدد کاموں کے حوالے سے یادگار رہے گا)۔
پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ۲۲کروڑ عوام کا انتہائی نازک دوراہے پر کھڑا ملک ِپاکستان، آمریت اور ’جمہوریت‘ کے دونوں اَدوار میں کسی صورت جمہور عوام کے نمایندوں کی منشا و مرضی کے مطابق نہیں چلتا آرہا، بلکہ دو،تین یا محض چار افراد اس قوم کی قسمت اور بدقسمتی کا فیصلہ کرتے اور کاروبارِ ریاست کو من موجی انداز سے چلاتے ہیں، جب کہ حکومت کے نام سے منسوب ٹولے میں باقی سبھی افراد قوال کے ہم نوا سازندے یا پھر ہم آواز صدا کار ہوتے ہیں، اور عوام بے بسی و بے چارگی کی تصویر۔ صد افسوس! (س م خ)