اسی طرح انسان اپنی طرف سے اچھے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے،لیکن کبھی کبھی اس کے یہ کام ضائع ہو جاتے ہیں اور بارآور ثابت نہیں ہوتے۔لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اس ضیاع کو پہچاننے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کو بچا کر رکھنے کی بھی کوشش کرے۔
قرآنِ مجید میں اعمال کے ضائع ہونے کے لیے ’حبط ِ عمل‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس کا لغوی مفہوم ہے: برباد ہونا، اکارت جانا،بیکار جانا،باطل ہونا، ایک قسم کی نباتات کھانے سے پیٹ پھول جانا۔ قرآن مجید میں حبطِ عمل کی ترکیب ان ۱۶آیات میں استعمال ہوئی ہے: بقرہ:۲۱۷، آل عمران:۲۲، مائدہ: ۵ و ۵۳، انعام: ۸۸، اعراف: ۱۴۷، توبہ: ۶۹، ھود:۱۶، کہف:۱۰۵، احزاب:۱۹، الزمر: ۶۵، محمد:۹ و ۲۸و ۳۲، الحجرات:۲۔
یٰٓـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی لا كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ط فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا ط لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا ط وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ ز (البقرہ ۲:۲۶۴)اے ایمان لانے والو ! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ، نہ آخرت پر۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک چٹان تھی جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کامینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اورصاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں ، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا ، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔
یہاں چٹان کے اوپر کی مٹی کی مثال دی گئی ہے،جوبخلاف زرخیز مٹی کے ناکارہ ہوتی ہے۔اور بجاے کھیتی اگانے کے خود ہی بہہ جاتی ہے۔ اس مثال میں نیکی ضائع ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ نیکی کی نیت غلط تھی۔
اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَهٗ جَنَّةٌ مِّنْ نّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۙ لَهٗ فِيْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ وَاَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهٗ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاۗءُ ښ فَاَصَابَهَآ اِعْصَارٌ فِيْهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ O (البقرہ ۲:۲۶۴) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ہرا بھرا باغ ہو ، نہروں سے سیراب ، کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا ، اور وہ عین اس وقت ایک تیز بگولے کی زد میں آ کر جھلس جائے، جب کہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟ اس طرح اللہ اپنی باتیں تمھارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غور و فکر کرو۔
اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰي تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰي شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ (البقرہ ۲:۲۶۶)پھر تمھارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جاگری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا ۔
اس بظاہر بہت بڑی نیکی (مسجد کی تعمیر)کے ضائع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ، اس کوکرنےکی نیت ہی فاسد تھی۔
اس دنیا میں نیکی اور بدی کا بدلہ مل سکتاہے ، لیکن یہ ضروری نہیں ہے اور اگر ملے تو یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ پورا ہو ۔ آخرت میں بدلے کا عمومی ضابطہ یہ ہے کہ جیسا عمل ،ویسی جزا۔ ایک برائی کا بدلہ ایک برائی اور ایک نیکی کا بدلہ دس اچھائیاں۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ دوسرے اصول بھی ہیں:
ضائع ہو جانے والے اعمال
یہ پانچ طرح کے اعمال ہیں:
۱- دنیا کے کارنامے جو صرف دنیا کے لیے ہی کیے گئے ہوں۔
۲- بظاہر نیکیاں___ اگر ان کا محرک اللہ کی رضا اور آخرت کا اجر نہ ہواور ان کو کرنے والا کھلےکفر، شرک یا نفاق میں مبتلا ہو۔
۳- بظاہر نیکیاں ،جن کے کرنے والے کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے،۔لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے یا اس نیت میں ملاوٹ ہوتی ہے۔
۴- ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہ کیا گیا ہو۔
۵- نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ وہ ضائع ہوجائیں۔
ان سب ضائع ہونے والے اعمال اور ان کی وجوہات کو تفصیل سے دیکھ لیتے ہیں۔
دنیا کے کارنامےجو صرف دنیا کے لیے ہی کیے گئے ہوں ۔تہذ یبی مظاہر،تمدن کی ترقیاں، تعمیرات، محلات، ایجادات،صنعتیں،کارخانے، سلطنتیں، عالی شان تعلیمی و مالی ادارے، جامعات و تجربہ گاہیں، علوم کے ذخیرے (بشمول ڈگریاں،نظریات ،فلسفے)، فنون،عجائب گھر۔
ان کارناموں کے ضائع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب صرف دنیا ہی کے لیے کیا گیا تھا،خواہ غیر مسلم نے کیا ہو یا نام نہاد مسلم نے ( ایک مسلم خلافت فی الارض کی ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے اللہ وآخرت کومدنظر رکھتے ہوئے یہی کام کرے گا تو یہی کام ثمر آور درخت ہیں)۔
مندرجہ ذیل آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام صرف دنیا کے لیے کیے گئے کیونکہ ان کو کرنے والے درج ذیل صفات کے حامل تھے: آیات کا کفر،تکذیب اور مذاق اڑانا، آخرت کا کفر و تکذیب، رسول کا مذاق اڑانا۔
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبَطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۡ (ھود۱۱:۱۵-۱۶) جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔(وہاں معلوم ہو جائے گا کہ )جو کچھ انھوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا O اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا O اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا O ذٰلِكَ جَزَاۗؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ هُزُوًا O (الکہف۱۸:۱۰۳-۱۰۶) اے نبیؐ ! ان سے کہو ، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا(ملاقاتِ رب کا انکار کیا)۔ اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے ، قیامت کے روز ہم انھیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ان کی جزا جہنم ہے اُس کفر کے بدلے جو انھوں نے کیا اور اُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے۔
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ۭ هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (اعراف۷:۱۴۷) ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا اِنکار کیا اُس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے ۔ کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ ’’جیسا کریں ویسا بھریں؟‘‘
اس کے متعلق درج ذیل آیات و احادیث پڑھنے سے پہلے ، ہرمسلمان کو اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کفر، شرک ، نفاق اور فسق ایک کلمہ گو میں بھی دَر آتا ہے۔قرآن میں کافروں،مشرکین ،منافقین اور فاسقین کی صفات تفصیل سے بتائی ہیں ۔ان کا بڑا مقصد یہ ہے کہ مومن اور مسلم ان صفات سے بچیں۔ ہمارا روزمرہ زندگی کا مشاہدہ بھی ہے کہ یہ صفات مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس لیے کفر، شرک ،نفاق اور فسق کی صفات کو پہچانیں اور ان سے بچیں۔ کیوںکہ ان سے حبطِ عمل ہوسکتاہے۔
مندرجہ ذیل آیات میں کافر/ مشرک/ منافق/ فاسق کا ذکر کر کےاورکہیں ان کی صفات کے ذکر کے بعد حبطِ عمل بتایا گیا ہے۔وہ صفات یہ ہیں: اللہ کی نازل کردہ تعلیم سے کراہت /اللہ کے راستے سے کراہت/اللہ کی ناراضگی والے راستے کی پیروی،استکبار،سرکشی میں حد سے گزرنا، صد عن سبیل اللہ، یعنی دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکنا۔ نفاق(برائی کا حکم،بھلائی سے روکنا، خیر سے روکنا، اللہ کو بھولنا، دنیا کے مزے لوٹ کر، بحثیں کرنا۔)انبیاکاقتل اور ان سے جھگڑا کرنا، مصلحین سے دشمنی رکھنا۔
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ (محمد۴۷:۸) رہے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے تو اُن کے لیے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے ۔
سورئہ نور (۳۹-۴۰) میں بھی سراب کی طرح عمل بے معنی رہنے کی وجہ کفر بتائی ہے۔
سورئہ ابراہیم(۱۴:۱۸) میں اعمال راکھ کی طرح اڑنے ،کی وجہ رب سے کفر بتائی گئی ہے:
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ O (الزمر۳۹:۶۵) یہ بات تمھیں ان سے صاف کہہ دینی چاہیے کیوںکہ تمھاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیا کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمھارا عمل ضائع ہو جائے ،گا اور تم خسارے میں رہو گے۔
ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَرِھُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَھُمْ (محمد ۴۷:۹) کیوں کہ انھوں نے اُس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے، لہٰذا اللہ نے اُن کے اعمال ضائع کر دیے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۙ وَّيَقْتُلُوْنَ الَّذِيْنَ يَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ O اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۡ وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ O (اٰل عمرٰن۳: ۲۱-۲۲) جو لوگ اللہ کے احکام و ہدایات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں جو خلق خدا میں سے عدل و راستی کا حکم دینے کے لیے اُٹھیں ، ان کو درد ناک سزا کی خوش خبری سنا دو۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے ، اور اُن کا مددگار کوئی نہیں ہے۔
كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّاَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا ۭ فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِيْ خَاضُوْا ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ O (التوبہ۹:۶۹)تم لوگوں کے رنگ ڈھنگ وہی ہیں جو تمھارے پیش روؤں کے تھے ۔ وہ تم سے زیادہ زور آور اور تم سے بڑھ کر مال اور اولاد والے تھے ۔ پھر انھوں نے دنیا میں اپنے حصہ کے مزے لوٹ لیے اور تم نے بھی اپنے حصے کے مزے اُسی طرح لُوٹے جیسے انھوں نے لُوٹے تھے ، اور ویسی ہی بحثوں میں تم بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ پڑے تھے ، سو ان کا انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میں ان کا سب کیا دھرا ضائع ہوگیا اور وہی خسارے میں ہیں۔
سورئہ فرقان (۲۱ تا ۲۳) میں اعمال غبار کی طرح اڑنے کی وجہ آخرت کا انکار، استکبار، سرکشی میں حد سے گزر جانا،بتایا ہے۔
سورئہ آل عمران (۱۱۷) میں پالے والی ہواکے کھیتی پر چلنے کی طرح، اعمال کے ضائع ہونے کی وجہ ،ظلم بتائی ہے۔
سورئہ توبہ (آیت ۱۰۹) میں اوپر درج کی گئی قرآنی امثال میں، کھوکھلی بے ثبات کگر پر بننے والی عمارت گرنے کی مثال، مسجد ضرار کے لیے دی گئی ہے جو کہ منافقین نے مدینہ میں بنائی تھی۔ نفاق کے ساتھ ،مسجد کی تعمیر جیسا مقدس کام بھی مقدس نہیں رہتا اور رائیگاں چلا جاتا ہے۔
عدیؓ بن حاتم طائی سے روایت ہے کہ میں نے رسول ؐاللہ سے پوچھامیرے والد صلہ رحمی کرتے تھے اور بھی بہت اچھے اچھے کام کرتے تھے،انھیں کچھ ملے گا،یعنی اجر؟آپؐ نے جواب دیاکہ تمھارے والد کی جو نیت تھی وہ انھیں حاصل ہوگئی۔(احمد)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہےکہ انھوں نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ !ابن جدعان بڑی مہمان نوازی اور بڑی صلہ رحمی کرتاتھااور بھی بہت اچھے اچھے کام کرتاتھا۔ ان کاموں کااسے فائدہ ہوگا؟فرمایا، نہیں۔اس نے کسی دن یہ نہیں کہامیرے پروردگار! قیامت میں میری خطاؤں سے درگزر کرنا۔(مسلم،حاکم)
وہ کام جن کے کرنے والے کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔
انفاق ضائع ہوجاتا ہے(ابطال)،اگر اس کے بعد احسان جتایا جائے یا تکلیف دی جائے یا دکھاوے کے لیے کیا جائے۔اور اس کے لیے چٹان پر سے مٹی ہٹنے کی مثال دی گئی ہے، اور کسب کی مقدرت نہ ہونا کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔(البقرۃ۲:۲۶۴ )
اعمال دنیا ہی کی نیت سے کیے جائیں تو بڑھاپے میں باغ یا آمدنی کا واحد ذریعہ ختم ہو جانے کی مثال دی گئی ہے۔(البقرۃ۲:۲۶۶ )
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ O (التوبہ۹:۱۷) مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درآنحالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ اور جہنم میں انھیں ہمیشہ رہنا ہے۔
اس آیت میں اصل میں تو کافر و مشرک کا ذکر ہے لیکن مسلم کو بھی ہوشیار رہنا چاہیے کہ‘ مسجد حرام کی دیکھ بھال’ جیسی نیکی بھی ضائع ہو سکتی ہے۔اور اس کے بعد والی آیت کے مطابق ’حاجیوں کو پانی پلانا‘ بھی ۔
حدیثِ نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید، عالم اور سخی کو جہنم میں ڈال گیا کیوںکہ یہ دکھاوے کے لیے عمل کرتے تھے۔ اس طرح جان کی قربانی، حصولِ علم، صدقہ کیا ہوا مال ضائع ہوسکتے ہیں۔(نسائی، عن ابی ہریرہ)
ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کیا گیا ہو ، قبول نہ ہوں گی،خواہ ظاہری طریقے میں نقص ہو یا دل کی کیفیت میں کمی ہو۔ ظاہری طریقے میں نقص کی ایک مثال یہ ہے کہ بنیادی شرائط پوری نہ کی گئی ہوں، مثلاً طہارت کے بغیر نماز ادا کی جائے،یا روزہ،حج اور دیگر عبادات جن کے ارکان و شرائط علما نے الگ سے جمع بھی کردیے ہیں،وہ ان کا خیال رکھے بغیر کیے جائیں۔یہ علم کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں ،جو ایک مومن کے لیے صحیح نہیں۔علم کی کمی میں معذور ہونے کو شاید اللہ تعالیٰ معاف کردے لیکن بلاعذر علم ہی نہ ہونا،مومن سے مناسبت نہیں رکھتا۔
وضو کے بغیر نماز اور غلول سے صدقہ قبول نہیں۔(ابوداؤد)
دل کی کیفیت میں کمی کی صورت یہ ہے کہ نیکیوں کوکسلمندی سے کیا جائے ،یا زبردستی سمجھ کر کیا جائے،یا نیکیوں کے دوران کوئی کیفیت موجود ہی نہ ہو۔
سورئہ ماعون میں بے نمازیوں کے لیے نہیں،بلکہ نمازیوں کے لیے ہی تباہی کی وعید ہے۔ سورئہ نساء (آیت ۱۴۲) نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اور دکھانے کے لیے اٹھنے کا تذکرہ ہے۔
اس نماز کی جزا نہیں جس میں آدمی رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی نہ کرے۔(سنن ابن ماجہ، ابو مسعود)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہےمگر اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔پوچھا گیا وہ کیسے ؟۔انھوں نے کہا: کیوںکہ نہ وہ رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود، نہ قیام پورا کرتا ہے اور نہ اس کی نماز میں خشوع ہوتا ہے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا: ایک شخص اسلام میں بوڑھا ہو گیا اور ایک رکعت بھی اس نے اللہ کے لیے مکمل نہیں پڑھی۔پوچھا گیا کیسے یا امیر المومنین؟فرمایا: اس نے اپنا رکوع پورا کیا اور نہ سجود۔
امام احمد بن حنبل نے فرمایا:انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے لیکن وہ نماز نہیں ہوگی۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ لاحاصل رہ کرصرف بھوک اور قیامِ لیل بے معنی ہو کر صرف جاگنا بن سکتا ہے۔(ابن ماجہ، ابو ہریرہ)
زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھنے کا ذکر ہے۔(التوبہ۹:۹۸)
جنید بغدادی کا ایک واقعہ کتب میں لکھا ہے،جس میں وہ ایک واپس آنے والے حاجی سے مناسکِ حج کے ساتھ کچھ کیفیات کے متعلق پوچھتے ہیں۔ جب وہ نفی میں جواب دیتا ہے ،تو وہ اسے حج دوبارہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
کپڑے پہن کر ننگی رہنے والیوں کے لیے وعید ہے۔ اسی طرح خواتین کے ایسے عبایے جو ظاہری چمک و رنگ اور چستی سے مزید کشش کا باعث ہوں ، بے مقصد اور لایعنی پہناوا ہیں۔ مہمان نوازی کرکے ،مہمان کے جانے کے بعد اس پر تنقید و مذاق ،مہمان کی تکریم کی نفی ہے۔
نبی اکرمؐ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: اللھم انی اسئلک علما نافعا و رزقا طیبا و عملا متقبلا،اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں نفع بخش علم،پاکیزہ روزی اور قبول ہونے والے عمل کا(ابن ماجہ، اُمِ سلمہؓ)۔ حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دُعا کی تھی: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا،اے ہمارے رب ،ہم سے قبول فرمالے۔(البقرہ۲:۱۲۷)
علما نے کچھ دعاؤں میں سعی مشکور مانگی ہے،یعنی ایسی کوشش جس کی قدردانی کی گئی ہو۔
۵-نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں ،لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ وہ ضائع ہوجائیں۔ ان کی مثال دنیوی امتحانوں کی negative marking سے دی جاسکتی ہے۔ جن میں غلط جوابات کے نمبر ،صفر نہیں بلکہ منفی ہوتے ہیں ،جو صحیح جوابات کے نمبر بھی کاٹ لیتے ہیں۔ یہ برائیاں جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتی ہیں ،وہ یہ ہیں:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ O (الحجرات۴۹:۲ ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی آوازنبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہو اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔
فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ۭ فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ O وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۭ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَO (المائدہ ۵:۵۲-۵۳) تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنھی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمھیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ۔ اور اُس وقت اہلِ ایمان کہیں گے: ’’ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں؟‘‘۔ ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے اور آخر کار یہ ناکام و نامراد ہو کر رہے۔
'یعنی جو کچھ انھوں نے اسلام کی پیروی میں کیا،نمازیں پڑھیں،روزے رکھے،زکوٰۃ دی، جہاد میں شریک ہوئے، قوانینِ اسلام کی اطاعت کی،یہ سب کچھ اس بناء پر ضائع ہوگیا کہ ان کے دلوں میں اسلام کے لیے خلوص نہ تھا اور وہ سب سے کٹ کر صرف ایک خدا کے ہوکر نہ رہ گئے تھے بلکہ اپنی دنیا کی خاطر انھوں نے اپنے آپ کو خدا اور اس کے باغیوں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ رکھا تھا۔( تفہیم القرآن،سورئہ مائدہ۵:۵۳)
باطل دوئی پسند ہے ،حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ (محمد۴۷:۳۳ )اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔
اس آیت کے پسِ منظر کے لحاظ سے بھی، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کش مکش میں جان مال نہ لگاکر،محنت نہ کرکے اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔
حضرت کعب بن مالک کےواقعہ سے سبق ملتا ہےکہ وہ کسی بدنیتی کے بغیر صرف دنیوی مصروفیات کی وجہ سےحق و باطل کی کش مکش میں حق کا ساتھ نہ دے سکے تو ان کی پچھلی ساری عبادت گزاریا ں اور قربانیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔
بنی اسرائیل کے علماء نے فاسقوں کو منع کرنے کے بجاے ان کے ساتھ کھانا،پینا اور بیٹھنا شروع کردیا تو ان پر بھی لعنت کی گئی۔(ابوداؤد، ترمذی،عبداللہ بن مسعود)
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ يُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ ۭ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ (التوبہ ۹:۵۳) ان سے کہو ’’ تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت ، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے ۔ کیوں کہ تم فاسق لوگ ہو۔‘‘
کبیرہ گناہ ڈھٹائی سے کرنے سے،کبھی کبھار کی گئی، یا چھوٹی نیکیوں کی قبولیت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
مسلم کی روایت کے مطابق،حرام مال کھانے اور پہننے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی اگرچہ وہ لمبا سفر کرکے ،غبار آلود بالوں میں ،آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگے ۔اسی طرح حرام کمائی سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے ،تو وہ قبول نہیں ہوتا۔
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بندہ جب ایک لقمۂ حرام کا اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کا عمل قبول نہیں کرتا۔
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:میں اپنی امت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت والے دن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی، تو اللہ عز وجل ان نیکیوں کو غبار بنا دے گا۔حضرت ثوبان نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !ہمیں ان لوگوں کی نشانیاں بتائیے،ہمارے لیے ان لوگوں کا حال بیان فرمائیے،تاکہ ایسا نہ ہوکہ ہم انھیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوجائیں۔
رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:وہ تم لوگوں کے بھائی ہوں گے اور تم ان لوگوں کی جلد میں سے ہوں گے، اور رات کی عبادات میں سے اسی طرح لیں گےجس طرح تم لوگ لیتے ہو۔لیکن ان لوگوں کا معاملہ یہ ہوگاکہ جب وہ لوگ اللہ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو انھیں استعمال کریں گے۔(ابن ماجہ)
حضرت بُریدہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے عصر کی نماز چھوڑی ،اس کے عمل اکارت ہوئے(فقد حبط عملہ)۔(بخاری)
عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے شراب پی، اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نمازیں قبول نہیں کرتا۔(لم یقبل اللہ) ۔ (ترمذی)
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں ایک غزوہ کیا۔ لوگوں نے (جلدبازی میں دوسروں کے اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کردی اور آمد و رفت کے راستے بندکردیے۔(جب آپؐ کو خبر ملی تو آپؐ نے ایک منادی بھیجاکہ وہ لوگوں میں اعلان کرے کہ جو اترنے کی جگہوں میں تنگی پیدا کرے گا یا راستے بند کرے گا،اس کا جہاد اکارت۔(ابوداؤد)
حضرت ابوالدرداءؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: جس نے جزیہ کی زمین خریدی،اس نے اپنی ہجرت کا عمل اکارت کردیا اور جس نے کسی کافر کی گردن سے ذلت کا طوق نکال کر اپنے گلے میں ڈال لیا ،اس نے اسلام کی طرف اپنی پشت کردی۔ (ابوداؤد)
حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں اٹھتی۔ایک وہ امام جس کو لوگ پسند نہیں کرتے۔ دوسرے وہ عورت جس نے شب اس طرح گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔ اور تیسرے دو بھائی جو آپس میں قطع تعلق کرلیں۔(ابنِ ماجہ)
حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی پاکباز عورت پر تہمت لگانے سے سو سال کے عمل برباد ہوجاتے ہیں۔
قرض واپس نہ کرنے سے شہید کا بھی جنت میں داخلہ رُک جاتا ہے۔(نسائی،محمد بن جحشؓ)
حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔(ابن ماجہ)
مندرجہ بالا احادیث میں کلمہ گو مسلمانوں کا ہی ذکر ہے اور ضائع ہونے والی چیز ان کی نیکیاں ہی ہیں۔
مندرجہ بالا احادیث کو دیکھتے ہوئےعلما نے تشریح کی ہے کہ کوئی گناہ ایسا ہےکہ اس سے کوئی مخصوص عمل ہی ضائع ہوتا ہے یا کسی مخصوص مدت کے لیے قبول نہیں ہوتا ۔اور کوئی گناہ ایسا ہے کہ اس کی شدت کے لحاظ سے نیکیاں بھی ضائع ہو سکتی ہیں۔لیکن ان کا کوئی ضابطہ ہم طے نہیں کرسکتے۔ (ترجمان السنۃ،جلد دوم،مولانا بدر عالم میرٹھی) البتہ یہ کہ گناہ کی شدت کے اضافے کے لحاظ سے احتیاط بھی اتنی ہی زیادہ ہونا چاہیے۔ ان سب پہلوؤں سے ایک مومن کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔
وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ (البقرہ ۲:۲۱۷)
تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔
وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (المائدہ ۵:۵) اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ اُن کے مہر ادا کرکے نکاح میں اُن کے محافظ بنو ، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو ۔اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامۂ زندگی ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔
اہلِ کتاب خواتین سے نکاح کے بعد ارتداد یا ایمان کے منافی روش کا خطرہ ہے۔
تفسیر:اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد یہ فقرہ اس لیے تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائےوہ اپنے ایمان و اخلاق کی طرف سے ہوشیار رہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عشق میں مبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو۔( تفہیم القرآن)
مندرجہ بالا حبط شدہ اعمال کی پانچ اقسام میں سے تین کا مقصود ،اللہ اور آخرت نہ ہونا واضح ہے۔گویا دنیوی کام اور اخلاقی امور صرف دنیا کے لیے کرنا یا نیت میں ملاوٹ ہونا۔قسم چار اور پانچ میں بھی اصل یہ ہوتی ہے کہ اس انسان کی نیت اور کمٹمنٹ میں ہی فتور ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وہ عمل ناقص رہتا ہے۔قسم ۴میں علم کی کمی ،کیفیت کی کمی یا دوسرے اعمال کے ذریعے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے۔قسم ۵ پانچ،یعنی دوسری برائیوں کی وجہ سےاچھائیوں کے نمبر منفی اس لیے ہوجاتے ہیں کہ وہ درحقیقت عمل صالح تھے ہی نہیں۔ ابلیس کی پچھلی تمام ریاضتیں اسی لیے ضائع ہو گئیں۔ حدیث میں بھی ایسے انسان کا ذکر ہے جو تمام عمر اچھے کام کرکے آخر میں ایسے عمل شروع کردیتا ہے جو اسے دوزخ میں لے جائیں۔(بخاری،عبداللہ بن مسعود)
نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ ان نیکیوں کو بچا کر رکھنے کی بھی فکر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ آخرت میں پہنچ کر معلوم ہو کہ ہرا بھرا باغ جل چکا ہے اور کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں بچا ہے (البقرہ۲:۲۶۶) ،اور جو بہت اچھا سمجھ کر کیا تھا ، وہ سب بیکار تھا۔ (الکہف۱۸:۱۰۵)
یارب میرے سجدوں کو لٹنے سے بچا لے چل
(نعیم صدیقی)