علم حدیث کے مختلف پہلوئوں پر فاضل مصنف کے ۱۲ خطبات کا یہ مجموعہ: حدیث‘ علومِ حدیث‘ اس کی تدوین و تاریخ اور محدثین کی ناقابلِ فراموش خدمات کی تفصیل پیش کرتا ہے۔ ان خطبات کا اہتمام اکتوبر ۲۰۰۳ء میں ادارہ الہدیٰ‘ اسلام آباد نے کیا تھا جس میں خواتین کی کثیرتعداد شریک تھی۔ خیال رہے کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی اس سے پہلے علومِ قرآن اور قرآن حکیم کی تاریخ و تفسیر سے متعلق مختلف موضوعات پر اسی طرح ۱۲ خطبات کا مجموعہ پیش کرچکے ہیں۔
جیساکہ محترم غازی صاحب نے دیباچے میں بتایا ہے‘ زیرنظر خطبات کی اصل مخاطب وہ خواتین اہلِ علم ہیں جو قرآن مجید کے درس و تدریس میں مصروف ہیں۔ چنانچہ فہمِ قرآن‘ درسِ قرآن اور تفسیرقرآن کے سلسلے میں ان خطبات یا مضامین کی حیثیت ایک نہایت مفید علمی و عالمانہ معاون کی ہے۔
خطبات کے عنوانات سے ان کی جامعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پہلا خطبہ حدیث کے تعارف پر ہے۔ مابعد خطبوں میں حدیث کی ضرورت و اہمیت‘ حدیث اور سنت بطور ماخذِ شریعت‘ روایتِ حدیث اور اقسامِ حدیث‘ علمِ اسناد و رجال‘ جرح و تعدیل‘ تدوین حدیث اور کتب و شرح حدیث پر نہایت فاضلانہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخری دو خطبات میں برعظیم پاک و ہند میں علمِ حدیث کے ارتقا‘ معروف محدثین کی خدمات اور پھر دورِ جدید میں علومِ حدیث کا تذکرہ ہے۔ بظاہر یہ ۱۲ لیکچر یا خطبے یا تقاریر ہیں جو غازی صاحب نے مختصر نوٹس کی مدد سے زبانی دیے تھے لیکن حدیث سے متعلق شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہوگا جس کا ذکر ان خطبات میں نہ آیا ہو۔ ایک باب میں ’رحلہ‘ (سفر کرنا) کا ذکر ہے۔ یہاں علمِ حدیث کے لیے صحابہ‘ تابعین اور تبع تابعین کے اسفار کا ذکر ہے‘ ان کے فوائد پر بحث ہے‘ پھر سفر کے طریقوں‘ سفرکے آداب اور رحلہ کے ضمن میں محدثین کی قربانیوں کی روداد ہے۔ آخری باب میں‘ علومِ حدیث کے ضمن میں دورِجدید میں مستشرقین کی خدمات کا ذکر ہے ‘ مثلاً: معروف فرانسیسی مصنف ڈاکٹر مورس بکائی‘ جنھوں نے اپنی تحقیق The Bible, Quran and Scienceکے نام سے پیش کی ہے۔ انھوں نے حدیث پر اپنے اعتراضات ‘ایک لمبی تحقیق کے بعد واپس لے لیے۔ غرض ہر لیکچر کے ذیل میں اس موضوع سے متعلق دل چسپ تفصیل بیان کی گئی ہے۔ گویا یہ فقط محاضرات نہیں ہیں‘ ان کی حیثیت حدیث پر ایک چھوٹے سے دائرہ معارف (انسائی کلوپیڈیا) کی ہے۔
ان خطبات کو صوتی تسجیل (ٹیپ ریکارڈنگ) سے صفحۂ قرطاس پر اتارا گیا۔ غازی صاحب کا حافظہ قوی اور تقریر کا انداز و اسلوب نہایت دل چسپ اور دل نشین ہے۔ ہرخطبے کے آخر میں شامل سوالات و جوابات نے محاضرات کو اور زیادہ بامعنی اور دل کش بنادیاہے۔ کتاب اچھے طباعتی معیار پر شائع کی گئی ہے۔ حدیث اور متعلقاتِ حدیث پرایسی جامع معلومات اُردو زبان میں شاید ہی کہیں اور میسر آسکیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
مسلمانوں کو اس وقت جس صورت حال کا سامنا ہے اس میں جناب اقبال حسین کی یہ کتاب مسلمان اُمت کے لیے ایک آئینے کی مانند ہے۔
مصنف نے بجاطور پر لکھا ہے کہ زوال کا عمل مسلسل جاری ہے مگر آنکھیں چرانے اور حقیقت کا سامنا نہ کرنے کا رویہ بھی قائم ہے۔ عقیدے اور عمل میں فرق کے باعث ہی مسلمانوں کی سلطنتیں روبہ زوال ہوئیں اور اب بھی اسی فرق نے موجودہ کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ آج کے (بیش تر) مسلمان نہ تو غوروفکر کرتے ہیںاور نہ اپنے پاس دستیاب وسائلِ پیداوار ہی کو مفید مقاصد کے لیے استعمال میں لاتے ہیں‘ نہ قرآن اور تاریخ سے ہی سبق لینے کو تیار ہیں۔ مصنف کے مطابق: جدیدیت (modernism) پر مغرب کا استحقاق نہیں‘ اُمت کو بھی اسے اپنانا ہوگا۔
اس کتاب میں ۲۵ عنوانات کے تحت تقریباً تمام اہم موضوعات زیربحث لائے گئے ہیں۔ اسلامی سوچ کا جدیدیت سے کوئی ٹکرائو نہیں ہے بشرطیکہ یہ جدیدیت مذہب مخالف نہ ہو (ص۶۸-۶۹)۔ ایک تصویر میں‘ ایک صحرا میں اُونٹوں کے قافلے رواں دواں ہیں اور نیچے درج ہے: ’’دورِ جدید کے چیلنجز کا مقابلہ اس طرح کے نہایت پرانے ذرائع رسل و رسائل سے کیا جا سکتا ہے؟‘‘ مصنف لکھتا ہے کہ تیرھویں سے انیسویں صدی کے دوران (۱۲۶۶ئ-۱۸۵۰ئ) تعلیمی‘ اقتصادی‘ سماجی اور اخلاقی حوالوں سے مسلمان روبہ زوال تھے۔ ان کی تین عظیم سلطنتیں (عثمانی‘ صفوی اور مغل) ۱۵۵۰ء تا ۱۷۰۷ء کافی پھلی پھولیں (ص ۱۴۸)‘ تاہم مجموعی طور پر تنزل ہوتا رہا۔ بعدازاں مسلمان اصلاح پسندوں کی کاوشیں شروع ہوئیں جن میں جمال الدین افغانی سرفہرست ہیں۔ سرسیداحمد خان اور علامہ اقبال بھی ایسے ہی مقاصد کے لیے سرگرم عمل ہوئے۔
’قرآن کی طرف رجوع‘، ’فلسفۂ زندگی‘، مسلمان ماتحت‘ ، ’دورِ جدید میں جہاد‘، ’جدیدیت کا مسلم نمونہ‘، ’اسلام، سائنس اور فلسفہ‘ ،’تاریخ سے سبق‘، ’مسلم سلطنتوں کا زوال‘، ’مسلم دنیا کی خامیاں‘، ’دنیا کا زوال‘، ’مرد مومن‘، ’اسلام انسانیت کا مذہب‘،’مسلمانوں کا مغرب سے واسطہ‘ کے عنوانات کے تحت ان ابواب میں مفیدمعلومات کے ساتھ ساتھ اچھا تجزیہ موجود ہے۔
حوالوں اور اشاریے سے مزین یہ کتاب تاریخ اور اُمت کے امور سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک مفید چیز ہے۔ انگریزی زبان نسبتاً ادبی نوعیت کی استعمال کی گئی ہے۔ مجلد‘ خوب صورت سرورق اور اعلیٰ طباعتی معیار۔ (محمد الیاس انصاری)
تفسیر کے عام انداز سے مختلف اس کتاب میں قرآن کے مطالب تک رسائی کے ساتھ ساتھ قرآن سے عملی تعلق اور پوری زندگی کو دین کے رنگ میں رنگنے کی فکر کی گئی ہے۔ ایک پیراگراف کا ترجمہ دے کر‘ ہر آیت کی تشریح مع گرامر دی گئی ہے اور اس میں دیگر مروجہ تفاسیر سے حسب موقع اقتباسات دیے گئے ہیں اور حکمت و بصیرت کے عنوان سے اس کے ضروری نکات درج کیے گئے ہیں۔ توجہ سے اجتماعی مطالعہ کیا جائے تو مطالب اور منشا خوب ذہن نشین بلکہ قلب نشین ہوسکتے ہیں۔ ص ۵۱۰ پر والناس کی حکمت و بصیرت کے نکات کے بعد‘ مزید ۱۲۲ صفحات میں ۲۳ مختلف عنوانات (مثلاً قرآن کے فنی محاسن‘ اسماء القرآن‘ امثال القرآن‘قرآنی محاسن) پر معروف علماے قرآن کی چیدہ چیدہ تحریریں دی گئی ہیں۔کتاب مصنف کی غیرمعمولی محنت و نظر‘ قرآن سے والہانہ تعلق اور پڑھنے والوں کی فوز و فلاح کے لیے ان کے درد دل کی آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں توفیقِ مزید دے۔ یہ کتاب شیخ عمر فاروق کی سابقہ کاوشوں کی طرح (فون پر رابطہ کرکے طریق کار معلوم کر کے) بطور ہدیہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ (مسلم سجاد)
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی زندگی کا آخری دور‘ تاریخ اسلام کا وہ دورِ ابتلا ہے جس میں ایک طرف اقتدار پرستوں اور ہوس کے پجاریوں نے ظلم وستم میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی‘ اور دوسری طرف توحید کے علَم برداروں اور شمع رسالتؐ کے سچے پروانوں نے ایثار و قربانی کی داستان رقم کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اس دورِ ابتلا میں فِسق وفجور اور دین حق کے خلاف سازشوں کی وہ آندھی چلی کہ ایک کے بعد ایک عظیم اور روشن چراغ گل ہوتا چلا گیا‘ اپنوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خون سے زمین مسلسل سرخ ہوتی رہی اور دین حق کے دشمنوں نے جی بھرکر دشمنی کے جوہر دکھائے۔ حضرت عثمان‘ حضرت علی‘ حضرت امام حسن‘ حضرت امام حسین‘ حضرت مصعب بن زبیر اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ کی شہادتوں کے دل دوز واقعات‘ اور جنگِ جمل‘ کوفیوں کی مسلسل بے وفائیاں‘ سانحہ کربلا‘ مکہ معظمہ پر یزیدی فوج کی یلغار‘ واقعہ حَرَّہ‘ مدینہ منورہ میں مسلم بن عقبہ کے ہاتھوں تین دن تک مسلمانوں کا قتلِ عام‘ فتنۂ خوارج‘ مختارثقفی کا عروج اور اس کا انجام‘ اور پھر حجاج کے ہاتھوں مکہ معظمہ پر حملہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت‘ وہ اندوہناک سانحات ہیں جنھوں نے تاریخ اسلام کا رخ موڑ کر رکھ دیا اور اُمت مسلمہ کو وہ نقصانات پہنچائے کہ جن کی تلافی کبھی ممکن نہ ہوسکی۔
سیرت عبداللّٰہ بن زبیرؓ ، جناب طالب الہاشمی کی اسی دور سے متعلق ایک گراں قدر تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے دورِخلافت کے بعد پہلی صدی ہجری کی پانچویں‘ چھٹی اور ساتویں دہائی میں مسلمانوں پر گزرنے والے خونیں حادثات کی بالعموم اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی داستانِ شجاعت اور بالآخر ۷۳ ہجری میں حجاج بن یوسف کے ہاتھوں ان کی شہادت‘ اس سفاک کے ہاتھوں ان کی لاش کی بے حُرمتی اور اس دردناک منظر کو دیکھ کر ان کی عظیم ماں حضرت اسمائؓ کے بے مثال صبر‘ جذبۂ ایمانی اور قوتِ استقلال کی کہانی کو بالخصوص اختصار لیکن بڑے جامع انداز میں بیان کردیا ہے۔ انھوں نے اس عظیم صحابی رسولؐ کی سیرت و شجاعت کو جس طرح رقم کیا ہے‘ اس سے ان کی پوری زندگی اور عظیم قربانی کا پورا نقشہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے قاری کو اچھی طرح احساس ہونے لگتا ہے کہ دین حق کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھنے کے لیے نبی کریمؐ کے گھرانے اور صحابہ کرامؓ نے جو قربانیاں دیں ان کی مثال نہیں ملتی ‘اور واقعی ہر کربلا کے بعد اسلام کو ایک نئی زندگی نصیب ہوتی ہے اور کفر ہمیشہ کے لیے ذلیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ کتابیات نے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ (سعید اکرم)
زیرنظر کتاب میں محترم قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی پاکستان کی دینی و سیاسی خدمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ جائزہ قاضی صاحب کی شخصیت‘ سیاسی جدوجہد و حکمت عملی‘ ملکی و بین الاقوامی سیاست کے مختلف مراحل میں کردار‘ کشمیر‘ افغانستان‘ خلیج اور عراق پر موقف اور عملی جدوجہد‘ عالمی اسلامی تحریک کے احوال اور ’قاضی حسین احمد کے نظریات‘ جیسے عنوانات پر مشتمل ہے۔ قاضی صاحب کے بارے میں ہرمطبوعہ چیز اور ان کی ہر تحریر و بیان کو جمع کردیا گیا ہے۔ اگرچہ اس طرح ان کی شخصیت‘ افکار اور جدوجہد کے بارے میں ایک تصویر اُبھر کر سامنے آجاتی ہے‘ تاہم موضوع کا حق ادا کرنے کے لیے ان سب کا مطالعہ کرکے مقالہ لکھنے کی ضرورت قائم ہے۔ (م - س )
زیرنظر کتاب اسلام کے قدیم علمی ورثے سے اسلام کے نظامِ احتساب پر آٹھویں صدی ہجری (تیرھویں صدی عیسوی) کے سربرآوردہ صوفی عالم امیرکبیر سید علی ہمدانی‘ المعروف شاہِ ہمدان کی تصنیف: ذخیرۃ الملکوک کے ایک باب کا ترجمہ ہے۔چند موضوعات: امربالمعروف ونہی عن المنکر‘ محتسب‘ احتساب کے سات درجات‘ محتسب علیہ (جن کا احتساب کیا جائے)‘ محتسب فیہ (قابلِ احتساب کام)‘ شرائط وغیرہ۔ قرآن و حدیث اور تاریخ و سیرت کے بہت سے اہم حوالے اور عمدہ استدلال ہے۔ ایک اہم نکتہ: احتساب کی شرط عصمت نہیں‘ یہ تعصبات عامہ ہے۔ لہٰذا فاسق کو چاہیے کہ دوسرے فاسق کو فسق سے منع کرے (ص ۲۲)۔ منکراتِ عامہ کے خاتمے کے لیے عملی تجاویز بھی دی گئی ہیں‘ مثلاً عوام کو دین کے تقاضوں سے روشناس کرانے کے لیے ایک معلم وفقیہہ کا ہر بستی کی سطح پر تقرر‘ ہرفرد اپنے دائرے میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔کتاب کے مطالعے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یورپ کے محدود احتسابی عمل کو شخصی آزادیوں اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اسلام کے ہمہ گیر و ہمہ جہت عملِ احتساب سے کوئی نسبت نہیں۔ اسلاف کے علمی ورثے کو نئی نسل تک منتقلی کی ایک اچھی کاوش ہے۔ (امجد عباسی)
دنیا میں انسان کے پاس سب سے قیمتی متاع‘ زندگی ہے مگر زندگی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ منزل کا تعین ہو اور صحیح راستے پر سفر ہو۔ سلیم خان نیازی کے موضوعات‘ زندگی سے قریب تر ہیں اور اس کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ مختصر لکھنے کے لیے زیادہ محنت اور کاوش درکار ہوتی ہے۔ یہ مضامین مختصر ہیں لیکن اس اختصار کے پیچھے برسوں کی ریاضت اور غوروفکر موجود ہے۔ تحریر میں شگفتگی کا عنصر نمایاں ہے جسے پڑھتے ہوئے لطف و مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ بایں ہمہ جگہ جگہ دانش کے موتی بھی نظر آتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں: ۱- دکان یا دفتر میں قرآن کی تلاوت کرنا باعثِ برکت و ثواب ہے لیکن یہ مقامات تلاوت کے لیے نہیں بلکہ قرآن پر عمل کرنے کے لیے ہیں۔ ۲- گاڑی تیل سے چلتی ہے اور انسان تھپکی سے‘ اچھے کام پر شاباش نہ دینا پرلے درجے کی کنجوسی ہے۔ ۳- یورپ برہنہ ٹانگیں دیکھ کر مطمئن ہوتا ہے‘ جب کہ اسکارف دیکھ کر ہراساں ہوجاتا ہے۔ ہم مرد کو اِن ڈور گیم‘ جب کہ عورت کو اوپن ایئر تھیٹر بنانا چاہتے ہیں۔
زنبیلکی تحریروں میں فکر اور معانی کی کئی پرتیں موجود ہیں۔ زندگی کیا ہے؟ اس کا حاصل کیا ہے؟ کامیابی اور ناکامی کے اصل معانی کیا ہیں؟ وطن عزیز میں مستقل اور دیرپا پالیسیاں کیوں وضع نہیں ہوتیں؟ مصنف نے ایسے ہی بہت سے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ زنبیل کے سامنے نہ صرف پاکستانی معاشرہ ہے بلکہ اُمت مسلمہ کے لیے بھی درد و تڑپ موجود ہے۔(محمد ایوب للّٰہ)
مسلم کمرشل بنک کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ۱۹۹۶ء سے عرفان الحق صاحب نے جہلم میں ہرجمعرات کو محفل درس کا آغاز کیا جس کے ذریعے مخلوق خدا کو اپنے خالق سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسلام کی تعلیمات کو زندگی سے متعلق کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ یہی ریکارڈ شدہ گفتگو خوب صورت مجلد کتابوں کی شکل میں اعلیٰ معیار پر پیش کی گئی ہے۔ اللّٰہ الصمد میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے۔ وہ شمع اُجالا جس نے کیا سیرت رسولؐ کے مختلف گوشوں اور آپؐ کی اخلاقی تعلیمات پر مبنی ہے۔ منشور حق خطبہ حجۃ الوداع کے مختلف پہلوئوں کو ۲۲ موضوعات کے تحت مفصل بیان کیا گیا ہے۔ ان کے مطالعے سے تذکیر ہوتی ہے اور دین کی تعلیمات صحیح تناظر میں سامنے آتی ہیں۔ (م - س )