’پاکستان کی خارجہ پالیسی‘ ، ’سنت رسولؐ کی توہین‘ ، ’ڈور سے قتل‘ اور ’افغانستان: امریکی سرپرستی میں بھارتی نفوذ‘ (اپریل ۲۰۰۶ئ) وہ مضامین ہیں جنھیں پڑھنے کے بعد خون کھول اُٹھتا ہے۔لکھنے والوں نے تو قوم کی رہنمائی اور حکمرانوں کی آنکھوں پر بندھی پٹی اُتارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب تمام دینی قوتوں‘ محب وطن حلقوں پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ آنے والے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی اجتماعی طور پر کوشش کریں۔
’پاکستان کی خارجہ پالیسی (اپریل ۲۰۰۶ئ) میں موجودہ قیادت کو اپنی ہزیمت اور بدنامی سے صحیح سبق سیکھنے کا جو صدق دلانہ مشورہ دیا گیا ہے اسے حُسنِ ظن میں ہی شمار کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ موجودہ قیادت (اُوپرسے نیچے تک) ایک غلط کار نظام کی تابع فرمان ہے‘ اُس سے کسی کارِخیر کی توقع عبث ہے۔
’سائنس اور انجینیرنگ میں عورتوں کی کم نمایندگی‘ (فروری ۲۰۰۶ئ) اور اس پر سٹیو سیلر کا تبصرہ کہ تحریکِ آزادیِ نسواں کا ایجنڈا (فیمی نسٹ ایجنڈا) واضح ہے‘ اور وہ ہے حد سے بڑھا ہوا‘ مرد مخالف معاشرہ تشکیل دینا‘ بڑا چشم کشا ہے۔اسی پس منظر میں فیمی نسٹ تحریک کے ہراول ملک فرانس کے بارے میں یاسمینہ صالحہ کامضمون: ’فرانس: خواتین میں گھروں کی طرف واپسی کا رجحان‘ (مارچ ۲۰۰۶ئ) بڑا بروقت اور معنی خیز ہے۔ گویا آخرالذکر کا جواب ہے مشرقی اٹلانٹک کی طرف سے مغربی اٹلانٹک کو کہ اب عورتیں یہ مانگتی ہیں اور ان کا انجینیرنگ اور سائنس میں کم نمایندگی پانا کوئی غیرمتوقع امر نہیں ہے۔ یہ صنف نازک کا فطری رجحان ہے۔
’دارالکفرکی پارلیمنٹ کی رکنیت‘ (مارچ ۲۰۰۶ئ)کے بارے میں ڈاکٹر انیس احمد کے جواب اور ’فقہ الاقلیات ‘(فقہ اسلامی کا ایک نیا باب) از محی الدین غازی میں اس نوعیّت کے دیگر پیچیدہ مسائل کے لیے رہنمائی ملتی ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد کے دلائل وزنی اور قابلِ غور ہیں۔
’شیطانی کارٹون: تہذیبی کروسیڈ‘ اور ’فیصلہ کن مسئلہ نبوت محمدیؐ، (مارچ ۲۰۰۶ئ) دونوں مضامین میں اُمت مسلمہ کی تبلیغی ذمہ داریوں پر زور دیا گیا ہے۔ آپ نے سچ کہا کہ ’اصل سہارا اللہ کا ہے‘ مگر اللہ کے سہارے پر کھویا ہوا اعتمادکیسے بحال ہو؟ حبِّ دنیا کے مرض کا کیا علاج کیا جائے؟ فرانس کی خواتین کے متعلق یاسمینہ صالحہ کے مضمون سے دل مزید پریشان ہوگیا کہ غیرمسلم خواتین کو تو منزل کا نشان مل رہا ہے لیکن مسلمان خواتین اپنی اقدار سے دُور ہوتی جارہی ہیں‘ اور اظہارذات ان کا فلسفۂ حیات بنتا جارہا ہے۔
’فقہ الاقلیات‘ (مارچ ۲۰۰۶ئ) میں مسلم اقلیتوں کے مسائل کے پیش نظر ایک نئی فقہ کی تشکیل پر زور دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب اسلام دشمنی میں ملّت واحدہ کی مانند متحد ہے اور مغرب کے موجودہ اقدامات کی وجہ سے مسلمان حراساں ہیں‘ اور وقت گزرنے کے ساتھ مشکلات بڑھتی چلی جارہی ہیں اور راہیں مسدود ہو رہی ہیں۔ عملاً مسلمان مغلوب اور زیردست ہیں۔ مغرب سے صرف تعلیم‘ٹکنالوجی لیں‘ تجارت کریں اور دعوت کا فریضہ انجام دیں نہ کہ مستقل سکونت اختیار کر کے نظامِ باطل کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں‘ اور اپنی آیندہ نسلوں کو مغربی تہذیب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔
ترجمان میں عالمی موضوعات زیادہ ہوتے جا رہے ہیں‘ قومی موضوعات پر توجہ کی ضرورت ہے۔
ترجمان القرآن میں ’سنابل العلم‘ اور ’خیرخواہ‘ کے نام سے جو کچھ پیش کیا جاتا ہے وہ بلاشبہہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مشعلِ راہ ہے۔ اگر ان کو کتابی شکل دی جائے تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔
گذشتہ دنوں ایک ایسی صاحبِ خیر شخصیت سے ملاقات کا موقع ملا جو معروف دنیاوی لحاظ سے نہایت کامیاب زندگی گزار رہے ہیں‘ یعنی بہترین بنگلہ ‘ کاریں‘ خدام وغیرہ۔ انھوں نے بتایا کہ میرے والد مجھے نصیحت کیا کرتے تھے کہ کاروبار میں بنکوں کا سود ترک کردو۔ میں کہتا تھا: ابا جان اس کے بغیر کاروبار کیسے ہوسکتا ہے؟ انتقال سے چند روز پہلے انھوں نے مجھ سے کہا کہ اب تک میں نصیحت کرتا تھا‘ اب وصیت کرتا ہوں کہ بنکوں سے سودی کاروبار چھوڑ دو۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ان شاء اللہ اس پر عمل کروں گا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس پر عمل کیا اور آپ یقین کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلے ہی سال میں اتنا دیا جتنا میں نے گذشتہ ۲۰سال میں کمایا تھا۔ قرآن نے سود کے بارے میں جو کچھ کہا ہے‘ میں اس کے حرف حرف پر یقین رکھتا ہوں۔ کاش! سب لوگ خصوصاً وہ لوگ جو معیشت چلانے کے ذمہ دار ہیں سود ترک کرنے کا حقیقی فیصلہ کریں‘ اور پھر اس کی برکات سے سارے معاشرے اور عام شہریوں کے بہرہ مند ہونے کا نظارہ کریں۔