سوال: الحمدللہ صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہے۔ اکثر وزرا معیّن سرکاری اوقات سے زیادہ وقت سرکاری اور عوامی امور کی انجام دہی میں گزارتے ہیں‘ یعنی سرکاری اوقات کار تو صبح ۸بجے سے ۳۰:۲ بجے دوپہر تک ہیں لیکن وزرا اور ان کا ماتحت عملہ بالعموم مغرب اور رات گئے تک دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہتا ہے۔ وزرا کے ساتھ کام کرنے والے ماتحت عملے کو سرکاری اوقات کے بعد اضافی اوقات میں کام کرنے کا کوئی اضافی معاوضہ یا مشاہرہ نہیں ملتا۔ وزرا کا ماتحت عملہ اس اضافی ڈیوٹی کے لیے عموماً وزرا کے دورہ جات کا ٹی اے‘ ڈی اے وصول کرتا ہے‘ یعنی اگر کوئی وزیرپشاور سے باہر کے کسی شہر یا علاقے کا دورہ کرتا ہے تو اس دورے کا ٹی اے‘ ڈی اے‘ وزیر کے دفتر کا ماتحت تمام عملہ یہ ظاہرکرکے وصول کرتا ہے کہ متعلقہ اہل کار بھی اس دورے میں متعلقہ وزیر کے ہمراہ تھا‘ حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ماتحت عملہ اُس دورے کا ٹی اے‘ ڈی اے بالعموم وصول کرتا ہے جو دورہ وزیر نے کیا ہوتا ہے‘ یعنی غیرحقیقی یا جھوٹے کلیم بالعموم نہیں کیے جاتے۔ راقم کو اس حوالے سے مکمل اطمینان نہیں ہے۔ ایک عملی دشواری یہ بھی ہے کہ اگر مذکورہ بالا ٹی اے‘ ڈی اے اضافی اوقات میں کام کرنے والے کا نعم البدل نہیں ہوسکتا تو اس کی بندش سے عین ممکن ہے کہ اکثر ماتحت عملہ اضافی اوقات کے کام سے ہاتھ کھینچ لے جس سے یقینا ایک بڑی بدانتظامی پیدا ہوسکتی ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں آپ سے شریعت کی رو سے وضاحت مطلوب ہے کہ کیا ہم اس ٹی اے‘ ڈی اے کے حق دار ہیں یا نہیں ہیں؟
جواب: آپ نے جو صورت حال بیان کی ہے اس کے مطابق وزرا کا ماتحت عملہ جو اُن کے ساتھ اضافی وقت دیتا ہے‘ سرکاری اوقات کے بعد اضافی اوقات میں بلامعاوضہ کام کرتا ہے‘وہ اس کی تلافی اس شکل میں کرتا ہے کہ متعلقہ وزیر کے ساتھ دورے پر نہ ہونے کے باوجود‘ ظاہر کرتا ہے کہ وہ وزیر کے ساتھ دورے پر تھااور دورے پر اپنے آپ کو ظاہر کرکے ٹی اے‘ ڈی اے حاصل کرتا ہے۔ زائد وقت کا بدل مذکورہ صورت میں حاصل کرتا ہے مگر عملاً صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اس طرح جھوٹ بولنے اور جھوٹا بدل لینے کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ شریعت میں جھوٹ کی اجازت نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ پہلو بھی ہے کہ اپنا جائز حق وصول کرنے میں کمزوری کا مظاہرہ جُبن، یعنی بزدلی دکھانا ہے۔
آدمی اپنے حق پرقدرت پانے کے بعد اسے چھوڑ دے تو یہ کمال اخلاق کا ہے لیکن اگر آدمی اپنے حق کے حاصل کرنے پر قدرت ہی نہ حاصل کرسکے تو یہ ایک عیب ہے اور اس کی وجہ سے آدمی کی حیثیت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس لیے وزرا کے ماتحت عملے کو چاہیے کہ زائد وقت کے معاوضے کا مطالبہ کرے اور جس قدر معاوضہ بنتا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کو ادا کرے___ خصوصاً‘ جب کہ سرحد کی صوبائی حکومت اپنے صوبے کو ماڈل اسلامی صوبہ بنانے کی دعوے دار ہے۔ حکومت کے لیے بھی یہ نادر موقع ہے کہ اگر اس سلسلے میں قانون موجود ہے تو اس پر عمل درآمد کرے‘ اور اگر قانون موجود نہیں تو قانون سازی کرے تاکہ لوگوں کو ان کا قانونی حق حاصل کرنے میں سہولت ہو۔
ٹی اے‘ ڈی اے حاصل کرنے کی موجودہ شکل میں تو جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور اصل حقیقت کو چھپایا جاتا ہے۔ گناہ اسی کو کہا جاتا ہے کہ آدمی اسے چھپاکر کرے یعنی لوگوں کے سامنے اس کو علانیہ طور پر نہ کرسکے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کی نشانی پوچھی گئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’نیکی حسنِ اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جس سے تیرے ضمیر میں خلجان پیدا ہو اور آپ لوگوں کے سامنے اس کے اظہار کو ناپسند کریں‘‘ (مشکٰوۃ)۔ لہٰذا موجودہ شکل کو فوری طور پر ترک کرکے جائز اور معقول طریقے کو اپنایا جائے اور اپنے حق کے لیے پوری قوت سے آواز بلندکرکے اسے قانونی طور پر حاصل کیا جائے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س: ایک حدیث میں قربِ قیامت کی تقریباً ۷۰ نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ قیامت کے قریب قرآنی آیات کو گا کر‘ یا لَے (tone) میں‘ یعنی غنائیہ طرز پر پڑھا جائے گا‘ گویا اس کی مخصوص تلاوت یا قرأت سے ہٹ کر۔ میرے پاس ایک کیسٹ ہے جس میں بچوں کے لیے بہت اچھی تربیتی نظمیں ہیں جو دف کے ساتھ گائی گئی ہیں۔ ایک نظم میں ’بسم اللہ ‘اورسورئہ فاتحہ کی پہلی آیت کو لَے سے پڑھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور نظم میں تکبیر کو سبحان اللہ‘ والحمدللہ‘ واللہ اکبر‘ اور پہلے کلمے کو بھی لَے سے پڑھا گیا ہے۔ کیا ان تمام نظموں کا سننایا یاد کروانا صحیح ہے یا ان سے گریز کرنا چاہیے؟
ج: قرآن پاک کو تجوید اور خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا چاہیے کہ یہ سنت ہے۔ گانے کی طرز پر پڑھنا اور گانے کی لَے میں تلاوت کرنا‘ یعنی غنائیہ طرز پر‘ یہ قرآن پاک کی شان کے منافی ہے۔ قرآن پاک کا اپنا لہجہ ہے‘ حجازی‘ مصری‘ پانی پتی اوردوسرے مروجہ لہجے‘ انھی کے مطابق قرآن پاک کو پڑھنا چاہیے۔ اس طرح دوسرے اذکار اور تسبیحات کو بھی وقار اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ قرآن پاک کی تلاوت اس احساس اور تصور کے ساتھ کی جائے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو میری زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ یہ ایسا تصور ہے جو حقیقت کے عین مطابق ہے اور اس تصور کے وقت آدمی تمام مصنوعی چیزوں کو بھول جاتا ہے۔ گانا ہو یاکوئی دوسری بناوٹ‘ وہ ایک مومن کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتی۔ اس پر خشوع وخضوع طاری ہوتا ہے اور وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جو رب تعالیٰ کے مشاہدے یا مراقبے کے تصور سے طاری ہونی چاہیے۔ گانے کی طرز کے ساتھ تلاوت کرنا یا تسبیحات پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے بھی کہ یہ قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت کے قریب گناہوںکی کثرت ہوگی۔ گناہ کائنات کی بیماری ہیں جس طرح موت سے پہلے انسان بیماریوں کی زد میں آتا ہے اور بیماری انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور آدمی لاعلاج ہوجاتا ہے تو موت آجاتی ہے۔ اسی طرح قیامت اس وقت برپا ہوگی جب شرک‘ کفر‘ فسق و فجور‘ ناجائز اور غلط کاموں کی انتہا ہوجائے گی۔
حدیث میں آتا ہے کہ ’’قیامت کے قریب ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی جس سے ایمان والے سب کے سب فوت ہوجائیں گے‘ اس کے بعد بدترین لوگ زمین پر رہ جائیں گے۔ تب ان بدترین لوگوں پر قیامت برپا ہوگی‘‘۔ جو لوگ نیکی اور تقویٰ سے سرشار اور اس کے داعی ہیں وہ اس کائنات کی زندگی ہیں‘ اور جو فاسق و فاجر اوربدکردار ہیں‘ ظالم و جابر ہیں وہ کائنات کی موت ہیں۔ (ع - م)
س: اسماے حسنیٰ مبارک الفاظ ہیں جن کی فضیلت بھی ہے اور برکت بھی لیکن ایک خاص اسم کو پابندی کے ساتھ پڑھنا غلو کہلاتاہے۔ آج کل مختلف جرائد‘ اخبارات اور کتب میں مختلف مسائل کے حل کے لیے بتایا جاتا ہے کہ کوئی خاص اسم الٰہی اتنی بار اتنے وقت کے لیے پڑھیں تو آپ کا فلاں مسئلہ حل ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ طریقہ جائز ہے یا غلو میں شامل ہے‘ جب کہ احادیث میں بیماری کے لیے سورۃ الفاتحہ کا دم کرنا ثابت ہے؟
ج: اللہ کے اسماے حسنیٰ کا ذکر ایمان کی نشوونما اور ترقی کے لیے ہونا چاہیے اور اس لیے بھی کہ آخرت میں اس کا اجر ملے۔ اس کے ساتھ ان اسماے الٰہیہ‘آیاتِ قرآنیہ اور احادیث میں منقول کلمات اور آثار کا دم کرنا بھی جائز ہے جو احادیث سے ثابت ہوں اور تجربے سے معلوم ہو کہ اس دم سے فلاں بیماری سے شفا ہوتی ہے۔ جو دم حدیث سے ثابت نہ ہو‘ تجربہ اس کی پشت پر نہ ہو‘ اس کا دم کرنا توکّل کے منافی ہے۔ حدیث میں ان لوگوں کی تعریف بیان ہوئی ہے جو اللہ پر توکل کرتے ہیں اور موہوم قسم کے دموں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس طرح کا غلو نہیں کرنا چاہیے کہ دموں کی دکان ڈال کرکے بیٹھا جائے۔ ہر چھوٹی بڑی بات میں دم کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ اس کے بجاے دعا کو وظیفہ بنانا چاہیے جس کی قرآن و حدیث میں بار بار تاکید آئی ہے‘ واللّٰہ اعلم۔ (ع - م)
س: الیکٹرانک ڈیٹا (disk / cd / dvd) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر جیسی ہے؟ وہ سی ڈی جس میںقرآن پاک کی تلاوت محفوظ ہو یا قرآن لکھا ہوا محفوظ ہو‘ بے وضو یا ناپاکی کی حالت میں اس کا چھونا کیسا ہے؟ کمپیوٹر کی اسکرین پر قرآن کو دیکھ کر تلاوت کرنا یا تفاسیر کا مطالعہ کرنا‘ جب کہ وضو یا غسل کی حاجت ہو‘ جائز ہے؟
ج: آپ کا دینی جذبہ قابل قدر ہے‘ بالخصوص روز مرہ معاملات میں شریعت سے رہنمائی کی فکر دامن گیر ہونا۔ آپ کے سوالات کے جواب درج ذیل ہیں:
سی ڈی جس میں قرآن پاک کی تلاوت محفوظ ہو یا قرآن پاک لکھا ہوا محفوظ ہو‘ چونکہ وہ محسوس نہیں ہوتا‘ حروف نظر نہیں آتے‘ ان کے اوپر کور بھی چڑھا ہوا ہوتا ہے‘ اس لیے اسے وضو اور غسل کے بغیر بھی ہاتھ لگاسکتے ہیں خصوصاً ایسی صورت میں جب کور چڑھا ہوا ہو۔
کمپیوٹر پر قرآن پاک کو دیکھ کر پڑھنا جائز ہے‘ جب کہ آدمی باوضو یا بے وضو ہو لیکن جنابت کی حالت میں کمپیوٹر پر قرآن پاک کی تفسیر کا مطالعہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن تلاوت نہیں کی جاسکتی‘ واللّٰہ اعلم! اللہ تعالیٰ ہمیں علم نافع اور عملِ صالح کی توفیق سے نوازے‘ آمین!(ع - م)
س : آج کل نقلی زیورات کا بہت رواج ہوگیا ہے۔ بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر اصلی کا گمان ہوتا ہے۔ کیا ان زیورات کا استعمال شریعت کی رو سے جائز ہے؟ کیا اسے دھوکادہی کے زمرے میں نہیں لیا جائے گاکہ آپ دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں کہ آپ نے اصلی زیور پہن رکھا ہے‘ جب کہ فی الواقع وہ اصل نہیں ہیں؟
ج: جہاں تک نقلی زیورات کا تعلق ہے ان کا استعمال بھی زینت ہی کی تعریف میں آئے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اصل زیور پہن رکھا ہے تو یہ اس کی نظر کا معاملہ ہے۔ اس میں آپ پر کوئی جواب دہی نہیں ہے۔ اگر کوئی پوچھ بیٹھے تو بتا دیں کہ یہ مصنوعی ہے۔ اس بات سے اس کی قدروقیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور نہ ایسا کرنا دھوکا دہی میں شمار ہوگا۔واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)
______________