مئی۲۰۰۶

فہرست مضامین

تہذیبوں کا تصادم ___حقیقت یا واہمہ؟

پروفیسر خورشید احمد | مئی۲۰۰۶ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

’تہذیبی تصادم: حقیقت یا واہمہ؟ آج کی عالمی سیاست کا ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ اس پر نظری بحث اور سیاسی بساط پر عملی صف بندی‘ دونوں کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تہذیبی تصادم اب ایک واہمہ نہیں‘ بلکہ ایک حقیقت کا روپ دھارتا جا رہاہے۔البتہ اس میں ذرا بھی کلام نہیں کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو غیر فطری‘ غیر ضروری‘ نامطلوب اور تباہ کن ہے‘  لیکن اب اس سے مفر ممکن نہیں۔ اس لیے جہاں اصل چیلنج یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا مقابلہ کیسے کیا جائے‘ اور اس کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے‘ وہاں یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ تکلیف دہ اور ناخوش گوار حقیقت موجود ہے اور محض آنکھیں بند کرلینے سے زمینی حقائق پادر ہوا نہیں ہوسکتے۔

تہذیب اور تہذیبی تصادم کا مفہوم کیا ہے؟ انسان کی مدنی زندگی اور اجتماعی زندگی کے حوالے سے تہذیب ایک فطری اور بنیادی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں ایک بچہ دو انسانوں کے درمیان ایک تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ ماں کی گود کے بغیر وہ پروان نہیں چڑھ سکتا‘ اس کی نشوونما کے لیے خاندان ‘ معاشرہ اور مدرسہ‘ سب کی ضرورت ہے۔ مدنیت انسان کی ضرورت ہے اور تہذیب اس کی اساس ہے۔ سویلائزیشن (تہذیب) کو آپ لفظی اعتبار سے دیکھیں یا تاریخ کے حوالے سے اس کا مطالعہ کریں‘ اس کا  تعلق اجتماعی زندگی سے ہے۔ عربی میں اس کے لیے مدنیت‘ حضارۃ اورثقافت جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔

انگریزی زبان میں بھی civil‘city‘ civicیہ سب civilization کے مصدر ہیں۔ یہ ایسا گہوارہ ہے جس میں انسانیت پروان چڑھتی ہے‘ انسان کا تشخص بھی قائم ہوتا ہے اور ااس کے لیے ترقی کی راہیں بھی استوار ہوتی ہیں۔ انسانوں کے درمیان خیالات‘ اقدار‘ ادارے‘ تعلقات‘ نظام‘ یہ سب اس کا نتیجہ ہیں۔ ثقافت (کلچر) اور تہذیب (سویلائزیشن) کی ا صطلاحات عمرانیات (سوشیالوجی) تاریخ اور فلسفے کے مباحث میں استعمال ہوتی ہیں۔ البتہ ان کی تکنیکی تعریف میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ نیز ان دونوں کو ایک دوسرے کے مترادف کے طورپر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ عقیدے‘ اقدار اور اصول کی بنیادی قدریں جو کسی انسانی گروہ کی مشترک اساس ہوں اور جن کی بنیاد پر کسی قوم یا معاشرے کو ایک اجتماعی تشخص حاصل ہو‘ وہ کلچرہے۔ لیکن کلچر‘ عقیدہ‘ فکر‘ عادات اور اخلاق کے ساتھ ساتھ سیاسی‘ اجتماعی‘ معاشرتی اداروںحتیٰ کہ بین الاقوامی میدانوں میں بھی اپنا اظہار کرتا ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر مختلف فنون وجود پذیر ہوتے ہیں۔ آرٹ کی متنوع صورتیں سامنے آتی ہیں۔فنِ تعمیر رونما ہوتا ہے۔ معاشی ادارے تشکیل پاتے اور سیاسی نظام بنتے ہیں۔ اس مجموعی تشخص کو تہذیب (سویلائزیشن) کہا جاتا ہے۔ ایک کو علوم عمرانی کی اصطلاح میں ذہنی تشکیل (mentafacts)کہا جاتا ہے اور دوسرے کو مادی اور سماجی مظاہر (artefacts)‘ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔

ستم یہ ہے کہ آج تہذیبوں کے تصادم کو دنیا کا مقدر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اصل تصادم تہذیب اور وحشت‘ خیر اورشر‘ نیکی اور بدی اور ظلم و ناانصافی کے درمیان ہے۔ تہذیبوں کے درمیان تو تصادم ہی ضروری نہیں ہے۔ تہذیبوں میں تنوع‘ فکرونظر کا اختلاف‘ مختلف علاقوں میں اور مختلف زمانوں کے دوران ایک سے زیادہ تہذیبوں ا ور تمدنوں کا وجود فطری اور ایک تاریخی حقیقت ہے۔ نیز ان کے درمیان ربط و ارتباط‘ مکالمہ اور اتصال‘ تعاون اور مسابقت بھی ایک فطری امر ہے۔ کچھ حالات میں یہ مقابلہ اور تصادم کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے اور تاریخ میں کرتا رہا ہے لیکن محض تہذیبوں کے اختلاف کو لازماً تصادم پر منتج ہونے کے تصور کو ایک ناگزیر تاریخی حقیقت بنانا استعماری ذہنیت کا غماز ہے۔ ہر تہذیبی اختلاف کو تصادم بنانا اور اختلاف کے نتیجے میں تصادم کو انسانیت کا مقدر ٹھیرانا خود تہذیب کے تصور کی نفی ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گو حق و باطل کی کش مکش تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور حق کا غلبہ فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ضرورت ہے‘ لیکن یہ تصور صحیح نہیں کہ حق کا یہ غلبہ صرف جنگ اور خونی تصادم کے ذریعے بروے کار آسکتا ہے۔ حق انسان کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہے اور حق کی قبولیت کا اصل محل انسان کا دل‘ اس کا ارادہ اور ایمان ہے اور ایمان جبر سے نہیں اختیار اور دل کی گہرائیوں سے قبولیت کا دوسرا نام ہے۔ وہ اپنی صداقت کو دلیل کی قوت‘ فطرت سے مطابقت‘ اور انسانی زندگی کو عدل و انصاف اور توازن و ہم آہنگی سے مالامال کرنے کی صلاحیت سے منواتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے لَا ٓ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْ تَّـبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْـغَیِّ (البقرہ ۲:۲۵۶)‘کے قرآنی اصول میں بیان کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ جب حق کو انسانوں تک پہنچنے سے روکا جائے اور ظلم اور عُدوان کی دیواریں حق اور انسانیت کے درمیان کھڑی کر دی جائیں تو پھر ان موانع کو رفع کرنے کے لیے قوت کا استعمال بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔اس وقت مغربی تہذیب کے علَم بردار اور خصوصیت سے امریکا کی حکمران قیادت تہذیبوں کے تصادم کے نام پر انسانیت پر ایک مخصوص تہذیب و تمدن کو مسلط کرنے کی جنگ کر رہی ہے اور دوسری تہذیبوں کے خلاف خاک و خون کی ہولی کھیل کھیلتے ہوئے ٹیکنولوجیکل بالادستی کا فائدہ اُٹھا کر انھیں صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے یا یہ کہ وہ کم از کم وہ مغرب کی غلام بن کر رہیں۔یہ ہے اصل نقشۂ جنگ جس کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے اس کی حقیقی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب اپنا خلیفہ بنایا تو فرشتوں نے اپنے اضطراب کا اظہار اس بنیاد پر کیا کہ یہ فساد پھیلائے گا اور خون خرابا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ، (جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔) دراصل خلافت کے معنی ہی آزادی‘ اختیار اور انتخاب کے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ خیر اور شر تمھارے سامنے آئے گا‘ کچھ خیر کو قبول کریں گے‘ کچھ شر کو۔ عقیدے اور عمل کا یہ اختلاف انسانی زندگی کی ایک حقیقت کے طور پر باقی رہے گا اور اپنے اس انتخاب اور عمل کے بارے میں سارے انسان بالآخر آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔ دنیا میں بھی اس کے کچھ نتائج ضرور رونما ہوں گے۔ سورۂ فاتحہ میں انسانیت کے دو دھاروں کاذکر ہے۔ ایک وہ جن پر اللہ کا انعام ہے‘ اور دوسرا وہ جو مغضوب اور غلط کار ہے۔ گویا وہ سب ایک جیسے نہیں ہوں گے۔ لہٰذا یہ تنوع اور یہ اختلاف کائنات کی بنیادی حقیقت ہے اور پوری تاریخ انسانی اس سے بھری پڑی ہے۔ یونانی فکر میں یہ تصور موجود ہے کہ ہم مہذب ہیں اور باقی سب وحشی۔ یہی چیز رومی سلطنت میں رہی۔ عیسائیت نے الہامی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس خون آشام یونانی اور رومی تصور کو قرونِ وسطیٰ میں عملاً قبول کرلیا جس کے نتیجے میں نہ ختم ہونے والی جنگیں اور مذہبی انتہاپسندی وجود میں آئی۔

آج کی جدید مغربی تہذیب بھی اسی مریضانہ سوچ کی وارث ہے اور اس کا اظہار امریکا اور برطانیہ کی سیاسی قیادت اور فکری رہنمائی کرنے والوں کے ان بیانات سے کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے جن کا اس کے سوا کوئی مدعا نہیں ہوسکتا کہ صرف مغرب کی اقوام ہی مہذب اور تہذیب کی علم بردار ہیں اور دوسرے سب گویا تہذیب ہی کے دشمن ہیں۔ حالانکہ یورپ کے تاریخی کردار اور آج کے مغرب کے اس سامراجی تہذیبی ذہن کے مقابلے میں دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مصر ‘ شام ‘ چین ‘ ہندستان یا افریقہ کے ممالک‘ ہر جگہ تہذیبی تنوع اور اختلاف ایک حقیقت رہی ہے۔ مگر اختلاف کے نتیجے میں تہذیبی تصادم یا ٹکرائو لازماً انسانیت کا مقدر نہیں ہوا اور نہ یہ صورت رونما ہوئی کہ ایک دوسرے کو لازماً محکوم بنانے اور نیست و نابود کرنے کے لیے قوت آزمائی کی جائے۔ مسلمان مفکرین نے پوری دنیا کو دارالدعوۃ قرار دیا اور دارالسلام اور دارالحرب کے ساتھ دارالامن اور دارالعھد کے تصور سے بین الاقوامی قانون کو روشناس کیا‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے بین الاقوامی قانون کی بنیاد ہی مسلمانوں نے رکھی جس میں صلح‘ امن اور جنگ سب کے اصول اور ضوابط کو مرتب کیا اور بقاے باہمی اور انصاف اور اصول کی بنیاد پر قوموں کے درمیان معاملہ کرنے کی بنیاد رکھی۔

تاریخی پس منظر

مہذب دنیا میں عدمِ برداشت (intolerance) بھی خالص مغربی تصور ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا‘ بلکہ مغربی تہذیب پر ٹائن بی‘ وِل ڈوراند حتیٰ کہ برٹرینڈ رسل کی تحریریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ عدمِ برداشت یورپ کا خاصّا رہا ہے۔ وہ آزادی کے سارے دعووں کے باوجود‘ بنیادی امور کے سلسلے میں اختلاف کو گوارا کرنے اور اسے معتبر (authentic) ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ پھر یہی چیز سیاسی اور تہذیبی میدان میں رونما ہوئی ہے‘ جس کا پہلا بڑا مظہر اندھی بہری استعماریت (امپیریلزم) کی شکل میں چودھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے نصف تک دنیا کے سامنے آیا‘ خود یورپ کے اندر فاشزم کا فروغ اور غلبہ بھی اسی ذہن کاثمرہ تھا اور پھر اس کا حالیہ اظہار گذشتہ تقریباً ۲۰‘ ۲۵ سال سے سامنے آرہا ہے اور اکیسویں صدی میں مغربی تہذیب بھی اسی تصور کی بنا پر دنیا کو تباہی اور خون آشامی کی آماجگاہ بنانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔

فلسفہ تاریخ کے اہم مباحث میں انسانی تاریخ میں پائی جانے والی تہذیبوں کے متعدد مطالعے سامنے آئے ہیں‘ ان میں آرنلڈ ٹائن بی نے ۲۶ تہذیبوں کا اور پروفیسر سوروکن نے ۳۶تہذیبوں کا تقابلی مطالعہ کیاہے۔ ان کے مشاہدے کے مطابق بھی ہرتہذیب کا بنیادی تصور کسی نہ کسی حیثیت سے خالق کائنات سے کسی نہ کسی نوعیت کے تعلق کی بنیاد پر تشکیل پاتا تھا۔ خواہ وہ توحید کی بنیاد پر ہو یا شرک کی بنیاد پر‘ البتہ آفاقیت‘ مابعد الطبیعیاتی قوت سے رشتہ اور تعلق‘ کائنات کی روحانی حقیقت کا اعتراف کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب میں موجود تھا۔ نیز خالق سے تعلق اور اس کائنات کا ایک اخلاقی وجود اور اس دنیا پر علاقائی نہیں بلکہ کائناتی اور پھر اخروی زندگی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب میں موجود رہا ہے۔ انسانی تاریخ اور تہذیب میں بگاڑ ضرور ہوا ہے‘ لیکن اسے تخت یا تختے کی بنیاد نہیں بنایاگیا۔ یہ صرف جدید مغربی تہذیب ہے‘ جس نے خالق سے اس تعلق کو کاٹ دیا ہے۔ الہامی روایت اور مذہب کی رہنمائی کو ناکارہ اور غیرضروری قرار دیا ہے۔ اس کی جگہ مختلف عقلی تصورات اور مفادات کو جوڑتوڑ کر ایک نظامِ فکر کی شکل میں ڈھال دیا ہے‘ جس میں تین تصورات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں یعنی:عقل پرستی (rationalism)‘ فردیت (indiviualism) اور انسان پرستی (humanism )۔ انھی کے مظاہر نیشنلزم‘ جمہوریت‘ سیکولرازم اور کمیونزم کے طور پر وجود میں آئے۔

یہ وہ تہذیب ہے جس نے رہنما اصول کی حیثیت سے دنیا پرستی‘ مادیت اور انسانی    عقل و تجربے کو مرکزی حیثیت دی۔ پھر اس پر ظلم یہ کیا کہ اسی کا نام تہذیب رکھا گویا کہ باقی    سب غیرمہذب تھے اور ہیں۔ امپیریلزم کی اس پوری تاریخ میں خواہ وہ فرانسیسی ہو یا برطانوی‘  جرمن سامراج ہویا ولندیزی‘ یا پھر ہسپانوی سامراج‘ یا اس کی تازہ ترین شکل امریکی استعمار‘    اس میں دوبڑے کلیدی تصورات دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تہذیب سکھانے کا مشن (civilizing mission) اور دوسرا گوری نسل کا بوجھ (white man's burden)۔ گویا روے زمین پر صرف یہی تہذیب ہے‘ باقی ساری دنیا جہالت اور تاریکی میں ہے۔ اسی تہذیب کا غلبہ اور اسی کے نقشِ قدم پر سب کا چلنا تہذیب کی نشانی ہے‘ اور اس کو فروغ دینے کے لیے سامراجی طاقت اور فوجی قوت کا استعمال ناگزیر ہے‘ بلکہ غلبے کا اصل ذریعہ۔ ساڑھے تین چار سو سال انسانیت نے ظلمت کا جو دور دیکھا ہے‘ وہ اسی ذہنیت کی پیداوار تھا۔

بیسیویں صدی میں سامراجی قوتوں کا زوال ہوا۔ حالانکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے اقتدار کا  سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔ لیکن‘ فوجی قوت کے باوجود دوعالمی جنگوں اور اندرونی خلفشار‘ عدم مساوات‘ ناانصافی‘ ظلم اور اداروں کے انتشار کی وجہ سے ان کا زوال شروع ہوا۔ ۱۹۴۵ء اور ۱۹۸۰ء کے درمیان تقریباً ۱۵۰ آزاد ملک دنیا کے سیاسی نقشے پر اُ بھرے۔ جن میں مسلم ممالک کی تعداد ۵۷ہے۔ یہ تعداد اقوام متحدہ کے ارکان کی کل تعداد ۱۹۲ کے ایک تہائی سے کچھ ہی کم ہے۔

برطانیہ کبھی دنیا کے ایک چوتھائی حصے پر حکمران تھا‘ لیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف اپنے آپ کو برطانیہ عظمیٰ کہتا تھا بلکہ یہ دعویٰ بھی کرتا تھا کہ دنیا کے سارے سمندر اس کے زیراقتدار ہیں۔آج اس کے جغرافیے پر نگاہ ڈالیں تو وہ زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو چند جزیروں پر مشتمل ہے۔ وہ سورج جو کبھی اس پر غروب نہیں ہوتا تھا‘ نہ صرف غروب ہوا بلکہ آج عالم یہ ہے کہ جسے اب برطانیہ عظمیٰ کہا جاتا ہے‘ وہاں ہفتوں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا۔ برطانیہ اب سکڑ کر ایک چھوٹا سا ملک بن کے رہ گیا ہے۔ گو غرورو تکبر اب بھی اس کا شعار ہے۔ رسّی جل گئی مگر بل نہ گیا۔

اس کے بعد دو سوپر طاقتوں امریکا اور روس کی کش مکش شروع ہوئی۔ یہ کش مکش بالآخر ۱۹۸۹ء میں روس کے انتشار و انہدام اور امریکا کی واحد سوپرپاور رہ جانے کی شکل میں منتج ہوئی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے استعماریت کا نیا دور شرو ع ہوتا ہے۔ یہی وہ دور ہے جس کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔ اس دور کو تہذیبوں کے تصادم کا دور کہا جا رہا ہے۔ اس میں جن لوگوں نے بہت کام کیا ہے‘ ان میں سے تین‘چار اہم شخصیات کا ذکر کروں گا۔

ابھی افغانستان میں جہاد جاری تھا اور روس کا زوال نہیں ہواتھا کہ ۱۹۸۵ء میں امریکا کے مشہور رسالے فارن افیرز میں امریکا کے سابق صدر رچرڈنکسن نے ایک مضمون میں یہ بات کہی کہ امریکا اور روس افغانستان کے اندر لڑ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہو گا‘ میں نہیں کہہ سکتا‘ لیکن مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ امریکا اور روس کا مفاد آپس میں لڑنے میں نہیں ہے۔ اصل خطرہ کچھ اور ہے‘ اس کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے اسلامی بنیاد پرستی کا خطرہ۔

اس وقت تک صرف تین چار چیزیں ہوئی تھیں‘ جن میں ایک ۵۷ مسلم ممالک کا آزاد  ہونا تھا مگر وہاں بھی حکمرانی انھی قوتوں کے ہاتھوں میں تھی جو کسی نہ کسی شکل میں خود امریکا اور روس کی تابع تھیں۔ مسلم ممالک کی معیشت پر امریکا‘ یورپ اور کثیرالقومی اداروں کا قبضہ تھا۔ دوسرا یہ کہ ۱۹۶۹ء میں مسجد الاقصیٰ کو آگ لگانے کے نتیجے میں مسلمانوں نے اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) قائم کی جو خواہ کتنی ہی لولی لنگڑی ہو لیکن اتحاد اسلامی کی علامت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی طرح ۱۹۷۳ء میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اپنی تیل کی قوت کو ایک سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ پھر فروری ۱۹۷۹ء میں امام خمینی کی قیادت میں ایران کے انقلاب نے ’اسلامی خطرے‘ کو ایک عالمی ہوّا بنادیا۔

دراصل دوسری جنگ کے بعد امریکا اور مغرب کی استعماری طاقتوں کی حکمت عملی ہی یہ تھی کہ آزادی کے باوجود مسلمان اور عرب ممالک کو عالمی‘ سیاسی اور معاشی اداروں کے ساتھ شاہِ ایران اور اسرائیل جیسے عناصر کے ذریعے قابو میں رکھیں۔ ایران کے انقلاب اور افغانستان میں جہادی قوت کی کامیابی نے نقشہ بدل دیا۔ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں رمضان کی جنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ مسلمان اور عربوں کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اسرائیل کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت امریکا اگر بلیک میل ہو کر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر ملٹری امداد فراہم نہ کرتا تو اسرائیل نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہم ایٹم بم استعمال کریں گے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس کی بنا پر مغرب کے یہ مفکر اور حکمت کار (strategists) ایک نئے دشمن کی تلاش میں تھے کہ جس کا ہوّا دکھا کر اور اپنے شہریوں کو خوف زدہ کر کے وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں۔ اور وہ دشمن انھیں اسلام اور مسلم دنیا کی شکل میں نظرآیا۔ اسی لیے امریکا کے سابق صدر اور سیاسی دانش ور نکسن نے ۱۹۸۵ء میں روس کو‘ اس کی زیرقبضہ مسلم آبادی کے بارے میں خبردار ضرور کر دیا تھا کہ سارا وسطی ایشیا‘ افغانستان اور مسلم دنیا‘  یہ تمھارے لیے خطرہ ہیں‘ امریکا کے لیے نہیں‘ اس لیے آئو! ہم تم مل کر کوئی راستہ نکالیں۔

بہرحال کوئی مشترکہ راستہ تو نہیں نکلا‘ لیکن جب ۱۹۸۸ء میں روسی حکمران میخایل گورباچوف نے ذہنی اور سیاسی شکست تسلیم کرلی اور یہ کہا کہ دوسال کے اندر ہم افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلالیں گے تو یہ وہ زمانہ ہے جب امریکا اور یورپی ممالک نے اپنی اصل حکمت عملی بروے کار لانا شروع کی۔ وہ حکمتِ عملی کیا تھی؟ یہ کہ اسلام اور مسلمان ہمارے اصل دشمن ہیں ۔ سب سے پہلے ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے یہ بات کہی تھی کہ سرخ خطرہ ٹل گیا ہے‘ لیکن سبز خطرہ  رونما ہوگیا ہے۔ اس کے بعد ایک بڑے اہم یہودی مفکر برنارڈ لیوس نے‘ جو لندن یونی ورسٹی میں  پروفیسر رہا اور پھر ۱۹۸۰ء میں امریکا منتقل ہوگیا‘ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مشیر اور امریکا کے پالیسی ساز اور پوری اسرائیلی لابی کے دماغ کی حیثیت سے کام کرتا ہے‘ اس نے ۱۹۹۰ء میں‘ جب روسی فوجیں افغانستان سے واپس ہوئیں‘ امریکا کے اہم رسالے اٹلانٹک منتھلی (Atlantic Monthly) میں اپنے مضمون میں پہلی بار clash of civilizations کے الفاظ استعمال کیے۔ وہ اس مضمون میں کہتا ہے:

اب یہ بات واضح ہوجانا چاہیے کہ ہم مسائل‘ پالیسیوں اور ان کو لے کر چلنے والی حکومتوں کی سطح بلند ہونے کی کیفیت اور تحریک کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ تہذیبوں کے تصادم سے کم بات نہیں ہے۔ غالباً یہ ہمارے یہود مسیحی ماضی‘ ہمارے سیکولر حال اور  ان دونوں کی عالم گیر توسیع کے خلاف ایک قدیم دشمن کا شاید غیرعقلی لیکن یقینا   تاریخی ردعمل ہے۔ (جیفرسن لیکچر ۱۹۹۰ئ‘ برنارڈ لیوس The Rage of Islam ، اٹلانٹک منتھلی‘ ستمبر ۱۹۹۰ئ)

اسی مضمون میں جو پہلے جیفرسن لیکچر کی شکل میں دیا گیا اور پھر اٹلانٹک میں شائع ہوا اور پھر کتابی شکل میں بھی آگیا‘ برنارڈ لیوس نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ:

اسپین میں مسلمانوںکی پہلی آمد سے لے کر ویانا میں دوسرے ترک محاصرے تک ایک ہزار سال کے دوران یورپ مسلسل اسلام کے خطرے کی زد میں رہا ہے۔

مقابلے کی جن دو قوتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ نام نہاد اسلامی بنیاد پرستی (islamic fundamentalism) ایک طرف اور سیکولر‘ سرمایہ دارانہ جمہوریت دوسری طرف ہیں اور موخرالذکر کو جدیدیت کی علَم بردار اور یہود مسیحی (Judo-Christian) تہذیب کی وارث کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ تھا دراصل وہ پہلا پتھر جو پھینکا گیا۔ پھر اس نکتے کو سیموئیل ہن ٹنگٹن نے آگے بڑھایا۔ یہ ایک اور یہودی ہے جو ہارورڈ یونی ورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کا پروفیسر ہے۔ اس نے ۱۹۹۳ء میں مشہور رسالے فارن افیرز میں ایک مضمون لکھا: The Clash of Civilizations۔  اس پر بحث کا آغاز ہوا‘ درجنوں مضامین لکھے گئے اور کتابوں کا بھی ایک طوفان آگیا۔ اپنی    پوری بحث کو ہن ٹنگٹن نے پوری شرح و بسط کے ساتھ ۱۹۹۶ء میں اپنی کتاب Clash of Civilizations and Remaking of New World Order کی شکل میں پیش کر دیا ہے۔ اس وقت سے اب تک یہ کتاب تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کی دانش ورانہ بائبل بن  گئی ہے۔ اس کے بعد بیسیوں نہیں‘ سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں‘ تقاریر‘ اسٹرے ٹیجک پیپرز اور  دانش وروں اور ماہرین (تھنک ٹینکس) کی رپورٹیں اس موضوع پرآئی ہیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں اور مسلما ن دانش وروں کو اندازہ تک نہیں کہ ان ۲۵ سالوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کتنا کام ہوا ہے اور کس طرح ذہنوں کو علمی مباحث ‘میڈیا اور سیاسی چالوں کے ذریعے ایک عالمی تصادم کے لیے  تیار کیا گیا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں ناین الیون رونما ہوا اور اس کے بعد جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے بلکہ وہ اس پورے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔

اس وقت جو نقشۂ جنگ ہے اس میں ایک طرف مسلم دنیا ہے جو ذہنی طورپر انتشار کا شکار ہے‘ سیاسی طور پر منقسم ہے‘ معاشی طور پر خود اپنے وسائل پر قدرت نہیں رکھتی‘ عسکری طور پر نہایت کمزور ہے۔ دوسری طرف چونکہ اسلام ایک تہذیبی اصول‘ ایک تحریک اور ایک متبادل قوت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے اور اپنے اندر یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ ایک عالمی تہذیب کی بنیاد بن سکے‘ اس لیے اسے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے الفاظ میں To nip the evil in the bud،  یعنی اس کو حقیقی خطرہ بننے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔

ھن ٹنگٹن کا تجزیہ اور استدلال

میں یہ چاہوں گا کہ سیموئیل ہن ٹنگٹن کا تجزیہ اور اس کا استدلال آپ کے سامنے رکھوں۔ اس نے اسلام اور مسلمانوں کو ہّوا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے وہ تاریخ سے بھی مثالیں لایا ہے اور حالیہ رجحانات کو بھی بحث میں کھینچ لایا ہے۔ اس کے لیے سروے کی تکنیک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے‘۳۵ہزار افراد کی راے کو اس شکل میں پیش کیا ہے کہ      دو چیزیں ہیں جو امریکیوں کی نظر میں آج سب سے بڑا خطرہ ہیں: ایک ایٹمی اسلحے کا پھیلائو ہے‘ اور دوسرا ’دہشت گردی‘۔ یہ سروے ناین الیون سے سات سال پہلے ۱۹۹۴ء کا ہے۔ پھر اس نے بتایا ہے کہ ان دونوں میں باہم کیا تعلق ہے؟ بھارت ۱۹۷۴ء میں ایٹمی تجربہ کرچکا تھا‘ اور اسرائیل ۱۹۷۰ء میں ایٹم بم بنا چکا تھا۔ ابھی پاکستان نے ایٹمی تجربہ بھی نہیں کیا تھا لیکن اس نے کہا کہ   ایٹمی اسلحے کے پھیلائو کا اصل خطرہ ہمیں اسلام اوراسلامی تحریکوں سے ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان دونوں کا منبع مسلمان ہیں۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: 60 % of American people regard Islamic revival a threat to US interests in the Middle East. (۶۰ فی صد امریکی عوام شرق اوسط میں اسلامی احیا کو امریکی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں)۔

وہ مزید کہتا ہے کہ مسلمان آج تو کمزور ہیں لیکن اگر ان کو قابو نہ کیا گیاتو معاشی اعتبار سے یہ اپنے وسائل کو اپنے قبضے میں لے آئیں گے اور ایک بڑی معاشی طاقت بن جائیں گے۔ پھر آبادی کے اعتبار سے ان کی عالمی پوزیشن بدل رہی ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ۱۹۹۰ء میں دنیا کے عیسائیوں کی آبادی ۲۵ فی صد اور مسلمانوں کی ۲۰‘ ۲۱ فی صد تھی لیکن اب عیسائیوں کی آبادی کم ہورہی ہے اور مسلمانوں کی بڑھ رہی ہے۔ اس کے اندازے کے مطابق ۲۰۲۵ء تک مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا ۳۰ فی صد ہوجائے گی اور عیسائیوں کی آبادی سے بھی بڑھ جائے گی۔ اس دوران اگر مسلمانوں نے اپنی فوج اور اپنی ایٹمی قوت کو ترقی دی تو پھر وہ مغرب کی بالادستی (superamacy ) کو چیلنج کردیں گے۔ یہ ہے مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ۔

اس کے تجزیے کا دوسرا پہلو بڑا اہم ہے۔ وہ کہتا ہے‘ اور اس کا ایک ایک فقرہ غور طلب ہے:

مغرب کے لیے اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں بلکہ اسلام ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے‘ اور جس کو ماننے والے اپنی ثقافت کی برتری پر یقین رکھتے ہیں اور اقتدار میں اپنے کم تر حصے پر پریشان ہیں۔(The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order، نیویارک‘ Simon Schuster ‘ ۱۹۹۶ئ‘ ص ۲۱۷-۲۱۸)

دوسرے الفاظ میں اس کا دعویٰ یہ ہے کہ مسلمان اپنا تشخص رکھتے ہیں اور انھیں یہ یقین ہے کہ ان کی تہذیب‘ ان کی اقدار برتر ہیں‘ لیکن ساتھ ساتھ الفاظ استعمال کرتا ہے upset with the inferiority of their power ‘تو یہ ان کی بے چارگی ہے جس کی وجہ سے ان کا غصہ‘ مقابلے کی قوت پیدا کرنے کا محرک ثابت ہوگا جو دہشت گردی کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘ اور جو بڑھتے بڑھتے ہمہ گیر تصادم کا روپ دھار سکتا ہے۔ ہن ٹنگٹن نے اسی کتاب میں ایک بڑی اہم بات یہ کہی ہے کہ: Terrorism is the weapon of the weak against the strong. (دہشت گردی کمزور کا طاقت ور کے خلاف ہتھیار ہے)۔ اس طرح اسلام اور دہشت گردی کا رشتہ جوڑنے کا شاطرانہ کھیل کھیلا گیا ہے۔ آگے چل کر وہ مزید کہتا ہے:

اسلام کے لیے مسئلہ سی آئی اے یا امریکا کا محکمہ دفاع نہیں ہے‘ بلکہ خود مغرب ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ زوال پذیر ہو‘ ان پر یہ فریضہ عائد کرتی ہے کہ پوری دنیا کو اپنی ثقافت کے سانچے میں ڈھال دیں۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے کا ایندھن فراہم کرتے ہیں۔(ایضاً)

اس کی نگاہ میں مرکزی ایشو ثقافت اور قوت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب تک کہ ثقافت قوت نہ حاصل کر ے‘ اس وقت تک وہ اپنا صحیح کردار ادا نہیں کرسکتی:

دنیا میں ثقافتوں کی تقسیم‘ قوت و اقتدار کی تقسیم کا عکس ہوتی ہے۔ تجارت طاقت کے تابع ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ تاریخ میں کسی تہذیب کی طاقت کی توسیع اس کی ثقافت کی نشوونما کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے‘ اور ہمیشہ اس طاقت کو دوسرے معاشروں میں اپنی اقدار‘ روایات اور اداروں تک پہنچانے میں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک آفاقی تہذیب‘ آفاقی طاقت کا تقاضا کرتی ہے۔

اسلام اور مغرب دو جداگانہ تہذیبیں ہیں۔ صرف اسلام اور مغرب ہی نہیں‘ اور بھی تہذیبیں ہیں مگر ان میں اختلاف کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ تصادم لازم ہو۔ ان تہذیبوں میں تعاون بھی ہوسکتا ہے‘ مسابقت بھی اور بقاے باہمی (co-existance) بھی ہوسکتی ہے۔ اختلاف کا لازمی نتیجہ تصادم نہیں۔ انسانی تاریخ میں تہذیبوں کی ترقی کا راستہ تہذیبوں کے درمیان اتفاق‘ مکالمے‘ تعاون اور مسابقت کا راستہ ہے۔ محض اپنے تصورات‘ اقدار اور طور طریقوں کو دوسروں پر قوت کے ذریعے مسلط کرنے اور اسے تہذیبی تصادم قرار دینے کا راستہ تو تباہی کا راستہ ہے۔ بلاشبہہ جنگیں سیاسی اور معاشی وجوہ سے برپا ہوئیں اور وہ تاریخ کا حصہ بنیں۔ محض تہذیبوں کے تنوع‘ اقدار کے اختلاف اور اصولوں اور اجتماعی نظاموں کے باہم مختلف ہونے کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ یہ مغرب کا استعماری تصور ہے جو اس سے کہلوا رہا ہے کہ:

[اہلِ مغرب] اپنی ثقافت کی آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ زوال پذیر ہو‘ ان پر یہ فریضہ عائد کرتی ہے کہ پوری دنیا کو اپنی ثقافت کے سانچے میں ڈھال دیں۔

گویا قوت کے ذریعے سے ایک کلچر ‘ اس کے تصورات‘ اس کی اقدار‘ اس کے اصولوں‘ اس کے اداروں اور اس کے نظام کو دوسروں کے اوپر مسلط کرنا۔ یہ امپیریلزم ہے‘ تہذیبوں کا تصادم نہیں‘ اور اگر اس نوعیت کا تصادم کہیں پیدا ہوتا ہے تو وہ امپیریلزم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

اسلام کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انسان کو اختلاف کا حق دیا ہے۔ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دلیل سے بات کرے۔ تبادلۂ خیال‘ اظہار راے کی آزادی اور دعوت اسی چیز کا نام ہے۔ لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے عقائد اور تصورات کو دوسروں کے اوپر قوت سے نافذ کرے کہ یہی لااکراہ فی الدینہے۔ لہٰذا تہذیبوں کے لیے اگر کوئی راستہ ہے تو وہ مکالمہ‘ مسابقت اور تعاون ہے‘ جب کہ تصادم ایک دوسرے کو ختم کرنا یا نیست و نابود (eleminate) کرنا تہذیب کا نہیں وحشت اور استعماریت کا راستہ ہے۔ آج جس چیز کو تہذیبوں کا تصادم کہا جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی استعماری ذہن ہے۔ اس کی اصل جڑ یہ زعم ہے کہ ہم دوسروں سے زیادہ طاقت ورہیں اور محض قوت کی بنا پر یہ ہمارا حق ہے کہ ساری دنیا میں ہم اپنی تہذیب‘ اپنی معیشت‘ اور اپنے اداروں کو قائم کریں۔ یہ ہے خرابی کی اصل جڑ۔

تہذیبی غلبے کے لیے جس حکمت عملی پر اس وقت عمل ہو رہا ہے اس نظریے کو دنیا میں چیلنج کرنے والے بھی موجود ہیں۔ ایک امریکی خاتون مفکر ڈاکٹر شیریں ہننگر نے جو واشنگٹن کے ایک اہم تھنک ٹینک سنٹر فار اسٹرے ٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی پروفیسر ہیں کہا ہے:

مسلم معاشروں کا مکمل طور پر سیکولر ہوجانا اور مغربی تہذیب کے اہم پہلوئوں کو اختیار کرلینا بھی مغربی اور مسلم ممالک کے درمیان مستقل مفاہمت کی ضمانت نہیں دے سکتا‘ جب تک کہ مغربی اور مسلم ممالک کے درمیان باہمی نزاع کے اسباب باقی رہتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم ممالک کی یہ خواہش کہ مغرب کے مقابلے میں طاقت کے عدمِ توازن کو دُور کیا جائے۔

ہمیں اس کے تجزیے سے اتفاق ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کو دھوکے سے عنوان بنایا گیا ہے۔ اصل مسئلہ قوت کے توازن اور مسلم دنیا پر سیاسی‘ معاشی اور عسکری غلبہ اور تسلط ہے۔ بلاشبہہ سیکولرزم کا فروغ اس حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن اصل مقصد دنیا پر غلبہ اور اسے اپنے زیرتسلط لانا ہے اور اس میں اسلام‘ مسلمان اُمت اور ان کا تصورِجہاد اصل رکاوٹ سمجھے جارہے ہیں۔

ہن ٹنگٹن نے جو حکمت عملی تجویز کی ہے اس میں پہلی چیز ہے امریکا کی عالمی بالادستی۔ اس کا کہنا ہے کہ: سیاسی‘ معاشی‘ فنی اور عسکری کنٹرول کا حصول ہی ہمارا اصل ہدف ہے۔  اس کے لیے ہمیں یہ یقینی بنانا پڑے گا کہ دوسری چیلنج کرنے والی کوئی طاقت وجود میں نہ آئے۔ یہی نقطۂ نظر برزنسکی کی کتاب The Chessboard of Nationsمیںجو کئی سال پہلے آئی تھی پیش کیا گیا ہے۔برزنسکی‘ صدر کارٹر کے دور میں نیشنل سیکورٹی کا مشیر رہا ہے اور یونی ورسٹی کا پروفیسر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس وقت امریکا واحد سوپرپاور ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آیندہ بھی یہی واحد سوپرپاور رہے۔ اس لیے امریکا کو اسے یقینی بنانا چاہیے کہ کم از کم آیندہ ۲۵سالوں میں کوئی اسے چیلنج کرنے والا میدان میں نہ آسکے‘ اور خاص طور پر یورپ ‘ چین اور مسلم دنیا کو نظر میں رکھا جائے۔

دوسری چیز دنیا کے دوسرے ممالک میں مداخلت کی حکمت عملی ہے(right of intervention)۔ اس کے مطابق جہاں کہیں کوئی خطرہ دیکھو‘ یا خطرے کی بو سُونگھو‘ قبل اس کے کہ وہ تمھارے لیے کوئی خطرہ بن سکے‘ مداخلت کرکے اسے نیست و نابود کردو۔ یہی پالیسی ہے جس پر بش انتظامیہ چل رہی ہے۔ اور اب انھوں نے اپنے اسٹرے ٹیجک ڈاکٹرائن میں کھل کر یہ بات کہی ہے کہ ’روکنا یا مداخلت کرنا‘ ان کا حق ہے‘ اقوام متحدہ کی مدد کے ساتھ یا اس کے بغیر۔ اسی خطرے کو وہ ’عدم برداشت‘ اور ’انتہا پسندی‘ کا نام دیتا ہے۔ اور اگر مسلم دنیا کے کچھ حکمران ان لفظوںکا بے محابا استعمال کرکے اپنے ہم وطنوں کو دھمکاتے ہیں تو درحقیقت وہ اپنے مشاہدے یا اپنے ذہن سے کام نہیں لیتے بلکہ ہن ٹنگٹن کے افکار کی جگالی کر رہے ہوتے ہیں۔

تیسری بات جسے وہ استحصال کی حکمت عملی کہتا ہے‘ یہ ہے کہ معاشی وسائل کو اپنی گرفت میں رکھو۔ اس لیے کہ تیل‘ توانائی‘ معدنی وسائل اور رسل و رسائل کے ذرائع اور راستے اسٹرے ٹیجک اثاثے ہیں اور ان پر ہمارا قبضہ ہونا چاہیے۔

چوتھی چیز میڈیا کی قوت کا استعمال ہے۔ ہرنوع کے ذرائع ابلاغ اس کا حصہ ہیں۔ یہ افکار اور اذہان پر کنٹرول‘ ان کی تشکیل یا انھیں مخصوص تہذیبی سانچے میں ڈھالنے کا عمل ہے۔

پانچویں چیز وہ یہ کہتا ہے کہ امریکا شاید ایک عرصے تک یہ کام اکیلے نہ کرسکے‘ اس لیے امریکا کو یورپ کے ساتھ سیاسی‘ معاشی اور فوجی اتحاد کرنا چاہیے۔ جس میں اب اسرائیل اور روس کے ساتھ بھارت کا اضافہ بھی کرلیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک مقابلے میں اصل قوت مسلم دنیا اور عوامی جمہوریہ چین ہے۔ اس کے الفاظ میں: اسلامی اور چینی ممالک کی روایتی اور غیر روایتی عسکری طاقت میں اضافے کو روکنا۔

آخری چیز یہ بیان کرتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں مسلمان تارکین وطن خود ہمارے اندر ایک خطرے کی چیز بن گئے ہیں۔ وہ کہتا ہے:

مغربی کلچر کو مغربی معاشروں کے اندر موجود گروپوں سے چیلنج درپیش ہے۔ اب ایک چیلنج ان تارکین وطن کی طرف سے ہے جو [ہمارے معاشرے میں] جذب ہونے کو مسترد کرتے ہیں اور اپنے ممالک کے کلچر‘ رسوم و رواج اور اقدار کو پھیلانے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ موجودگی سب سے زیادہ یورپ اور امریکا میں ہے۔

ان پانچ نکات کی روشنی میں امریکا اور مغربی اقوام کے تیار کردہ نقشۂ جنگ کے اہم خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ تہذیبی تنوع کا نتیجہ تہذیبوں کا تصادم نہیںہے‘ نہ یہ ضروری ہے اور نہ مطلوب۔ لیکن جب ایک تہذیبی قوت جسے معاشی‘ سیاسی‘ عسکری بالادستی بھی حاصل ہو‘ یہ چاہے کہ وہ اپنے نظام کو ساری دنیا کے اوپر قوت کے ذریعے مسلط کرے‘ دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگے اور ان کی معیشت‘ ان کی سیاست اور ان کی معاشرت کو اپنی زنجیروں میں جکڑ لے___ تب تصادم پیدا ہوتا ہے۔ اِس وقت اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے تصادم کی فضا پیدا کرنے کے لیے مغرب نے یہی راستہ اور طریقہ اختیار کیا ہے۔

مقابلے کی حکمت عملی

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اس کا مقابلہ کرنے کی کیا صورت ہے؟ کسی جذباتی‘ جوشیلے یا محض منفی ردعمل سے اس جنگ کو نہیں جیتا جاسکتا۔ کچھ مہم جُو حضرات ایسے اقدام کر سکتے ہیں جن سے وقتی طور پر کچھ تسلی ہو‘ اور یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے دشمن کو زک پہنچا دی ہے‘ لیکن یہ راستہ اختیار کرنا بڑی کوتاہ نظری (short sighted) کی حکمت عملی ہوگی۔ اُمت مسلمہ ایک پیغام اور دعوت کی علم بردار اُمت ہے۔ ہماری تہذیبی جدوجہد محض قوت‘ محض وسائل‘ محض مادی منفعتوں اور دولت کے حصول کے لیے نہیں ہے۔ ہماری تہذیب کا بنیادی اصول اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں اور انسانی معاشرے کی تعمیر عدل و احسان کی بنیادوں پر کرنا ہے تاکہ دنیا میں عزت اور امن اور آخرت میں اصل کامیابی حاصل کی جاسکے۔

اسلامی تہذیب کی شناخت کے تین حوالے ہیں: سب سے پہلی چیز توحید‘ یعنی اللہ سے رشتہ جوڑناہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے آپ کو  خودکفیل اور دنیا سے بالکل بے نیاز نہ سمجھنا‘ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہ سمجھناا ور صرف اللہ کو محض خالق کی حیثیت سے ہی نہیں ماننا بلکہ رب‘ حی وقیوم‘ صاحب امر‘ ہدایت کا منبع‘ قوت کا سرچشمہ تسلیم کرنا۔ توحید کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ پوری انسانیت کو اللہ کی بندگی کے راستے کی طرف لانے کی جدوجہد کی جائے۔ یہ ہماری پہلی بنیاد ہے۔

دوسری بنیاد یہ ہے کہ اسلام صرف ایک عقیدہ نہیں ہے۔ بلاشبہہ یہ عقیدہ ضرور ہے اس لیے کہ عقیدہ ہی نقطۂ آغاز ہے‘ لیکن اسلام ایک مکمل دین ہے۔ وہ اس عقیدے کی بنیاد پر ایک اجتماعی زندگی ہے‘ جس کا مظہر وہ تمام انسانی رشتے اور انسانی ادارے ہیں‘ خاندان‘ معاشرہ ‘معیشت اور سیاست ہے جو ایک مربوط اور مکمل نظام کی صورت میں عقیدے کے بیج سے ایک تناور درخت کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔ اسے ہم ایک لفظ میں شریعت کہہ سکتے ہیں‘ یعنی اللہ کا دیا ہوا قانون۔ عیسائیت میں اگر بنیادی چیز تھیالوجی ہے تو اسلام میںبنیادی چیز شریعت ہے ‘یعنی اللہ کو مانو‘ اس کے دامن کو تھامو‘ اس سے رہنمائی حاصل کرو اور زندگی کے نظام کو اللہ کی بندگی اور اطاعت کے اصول پر قائم کرو جو آزادی اور انصاف کا ضامن ہے۔

تیسری بنیاد امت کا تصور ہے جو رنگ ‘ نسل ‘ جغرافیے‘ مفاد اور تاریخ سے بالاتر ہے۔ یورپ اور امریکا کے وہ لوگ جن کی تاریخ‘ تہذیب اور روایات ہم سے مختلف ہیں‘ وہ جس وقت لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کہتے ہیں اسی وقت ہمارا حصہ بن جاتے ہیں۔ کوئی بھی زبان بولنے والا‘ خواہ کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو‘ دنیا کے کسی بھی مقام پر رہتا ہو‘ وہ یہ کلمہ پڑھ کر اُمت مسلمہ کا حصہ بن سکتا ہے۔

یہ تین بنیادی چیزیں ہیں اور ان کا لازمی تقاضا ہے کہ ایک طرف ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان اصولوں پر قائم کریں‘ تمام وسائل کو اس مقصدکے لیے استعمال کریں اور مزید ترقی دیں۔ اجتماعی طاقت کا حصول بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ نیز دنیا کے سامنے صحیح نمونہ پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ البتہ دین کا فروغ اور اسلامی تہذیب کی ترویج ہم قوت کے ذریعے سے نہیں‘ دلیل کے ذریعے کرنے کے پابند ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنا پیغام عام کریں اور دلیل سے کریں تاکہ قَدْ تَّـبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْـغَیِّ  کا مقصد پورا ہو‘ یعنی ہمارا طریقہ یہ ہے کہ رشد‘ دلیل اور حکمت کے ذریعے سے پیغام کو دنیا تک پہنچانا ۔ دوسری طرف قوت سے حق کا اور اپنے نظام کا دفاع کرنا اور ظلم و جبرکے خلاف مزاحمت کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ جہاد دراصل انھی دو پہلوئوں سے عبارت ہے۔ ایک پہلو یہ کہ اللہ کی بندگی کے طریقے کو قبول کرنا‘اور دوسری طرف ظلم اور جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد ہمیشہ سے دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کی مخالف قوتوں نے جن کے استعماری عزائم کی راہ میں مسلمانوں کا جذبۂ جہاد حائل ہے ہمیشہ تصورِ جہاد ہی کو ہدف بنایا ہے۔ خصوصیت سے پچھلے ۴۰۰سال کی تاریخ پڑھ لیجیے۔ مغربی استعمار کا جہاں بھی مقابلہ ہوا ہے‘ مسلمانوں ہی نے کیا ہے اور جہاد کی بنیاد ہی پر کیا ہے۔ مغرب کے مفکرین خواہ مستشرق ہوں یا مشنری یا حکمران‘ سب نے جہاد کو ہدف بنایا ہے۔

آج مسلم دنیا پر قابض حکمران طبقے جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی جو بحثیں چھیڑ رہے ہیں‘ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ انیسویں صدی کا لٹریچر پڑ ھ لیجیے‘ مغربی مفکرین‘ ان کے مستشرق اور خود ہندستان میں سامراجی حکمرانوں کے ہم نوا یہی بات کہتے تھے‘ حتیٰ کہ جہاد کو منسوخ کرنے کے لیے جھوٹا نبی تک بنایا گیا‘ مختصر یہ کہ کوئی نئی چیز نہیں۔

اسلامی تہذیب محض قوت کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ قوت کی اگر ضرورت ہے تو اس کو مستحکم کرنے کے لیے ہے۔ اس کی اپنی صحیح شکل میں اس پر عمل کرنے کے لیے ہے اور اس کے دفاع کے لیے ہے۔ مسلمانوں نے قوت کے ذریعے سے کبھی بھی اپنی اقدار کو دوسروں پر نہیں ٹھونسا۔ کیوں کہ یہ طریقہ اللہ کی حکمت بالغہ کے خلاف ہے۔ ایمان‘ دل کی رضامندی سے‘      دل ودماغ کی یکسوئی سے اور انسانی اختیار کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایک اخلاقی عمل ہے اور کوئی اخلاقی عمل جبر کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اخلاقی عمل تو آزادی و اختیار کی فضا میں اور رضامندی کے ساتھ فروغ پاتا ہے۔

اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلی ضرورت ہے کہ ہم اللہ سے اپنا رشتہ جوڑیں اور اسے مستحکم کریں۔ جس طرح توحید اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے‘ اسی طرح اسلام کی دفاعی حکمت عملی کا پہلا اصول اللہ سے تعلق‘ اللہ سے رشتے کو گہرا کرنا‘ اللہ سے استعانت طلب کرنا اور اللہ کے بھروسے پر اس سارے کام کو انجام دینا ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی کمزوری ہے تو باقی جتنے بھی وسائل ہوں گے‘ وہ ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ لہٰذا پہلی چیز ایمان ہے اور ایمان کا تقاضا ہے: کردار‘ تقویٰ اور للٰہیت۔ ایک ایک فرد اس کے اندر اہم ہے۔ جس طرح زنجیر میں ایک ایک کڑی اہم ہوتی ہے کیوں کہ اگر ایک کڑی بھی کمزور ہوتو زنجیر ٹوٹ جاتی ہے۔ اسی طرح عمارت کی اینٹیں اور بنیادیں ہیں۔ اگر وہ کمزور ہوں گی تو دیوار نہیں ٹھیرسکے گی۔ اس لیے فرد‘ اس کا کردار‘ اس کی للٰہیت اور تقویٰ خود ہماری دفاعی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ ہے۔

دوسری چیز مسلمانوں کا اتحاد اور ان کی اجتماعیت ہے۔ اگر مسلمان متحد نہ ہوں‘ اور وہ فرقوں میں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہوں‘ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوں تو ان کی قوت منتشر ہوکر کمزور پڑ جائے گی۔ اس لیے اجتماعیت اور اتحاد ہماری حکمت عملی کا دوسرا بنیادی نکتہ ہے۔

تیسری چیز دعوت ہے۔ ہم جامد نہیں ہوسکتے۔ ہم ایک دعوت کے علم بردار ہیں اور ہماری طاقت اللہ کی تائید کے بعد‘ انسانوں کی قوت سے ہے۔ اس لیے تعلیم‘ تبلیغ‘ دعوت اور انسانوں کو اپنے اندر جذب کرنا‘ ان کی تربیت کرنا‘ یہ ہمارا مستقل پروگرام ہے۔

اخلاقی قوت اس راستے کی اصل معاون ہے۔ اسی کے نتیجے میں انسانوں کے دل فتح کیے جاسکتے ہیں۔ ان انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ مادی قوت بھی ضروری ہے۔ اگر ہم نے مادی قوت کو نظرانداز کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے لیے جو قانون بنایا ہے‘ ہم اس سے انحراف کریں گے۔ یہاں آگ جلاتی ہے‘ برف ٹھنڈک دیتی ہے‘ اور سورج روشنی دیتا ہے۔ یہ اس دنیا میں اللہ کا قانون ہے۔ اگر آپ پیاسے ہوں اور پانی کا گلاس آپ کے سامنے ہو تو آپ محض پانی پانی کہتے رہیں تو آپ کی پیاس نہیں بجھے گی۔ قدرت نے جو قوانین بنائے ہیں‘ ان کے ذریعے سے وسائل کو حاصل کرنا استخلاف کے معنی ہیں۔ آپ دنیا کے سارے وسائل کے امین بنائے گئے ہیں۔ استخلاف ایک حرکی تصور ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اندر جو وسائل ودیعت کیے ہیں‘ ان کو دریافت کرنا‘ ان کو ترقی دینا اور ان کو صحیح مقاصد کی خدمت کے لیے استعمال کرنا۔ اس لیے قرآن نے سورۂ انفال میں صاف کہا ہے کہ اپنے گھوڑوں کو تیار رکھو۔ قوت تمھیں حاصل ہونی چاہیے اور قوت بھی ایسی کہ تمھارا دشمن اور اللہ کادشمن اس سے خوف محسوس کرے۔ قوت ایمان اور اخلاق سے‘ اور ٹکنالوجی‘ معیشت اور عسکری طاقت سے حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا ایمان و عمل کے ساتھ ترقی بھی اشد ضروری ہے۔ اگر اسے آپ نظرانداز کریں گے تو اِس تہذیبی یلغار کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔

ایٹمی طاقت آج کی دنیا میں ایک بہت ہی اہم ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان ملک کو تھوڑی سی ایٹمی صلاحیت حاصل ہوئی ہے تو اس پر دنیا بھر میں کتنا واویلا ہوا ہے۔ کہا گیا کہ  یہ صلاحیت بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے حاصل کی گئی ہے‘ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ امریکا سے   لے کر بھارت تک جس نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے وہ بلیک مارکیٹ سے‘ پھیلائو (proliferation ) سے اور دوسروں کے کیے ہوئے کام سے فائدہ اٹھا کر ہی کی ہے اور جائز ناجائز‘ ہر طریقے سے کی ہے۔ کیا امریکا نے جرمن سائنس دان کو اغوا کرکے اس کی صلاحیت کو استعمال نہیں کیا؟ کیا بھارت نے امریکا اور کینیڈا سے نیوکلیئر پلانٹ حاصل کیے بغیر یہ صلاحیت حاصل کر لی؟ اسرائیل نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی ہے؟ ایران ہی پر آخر کیوں یہ دبائو ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی صلاحیت ہی طاقت کے عدم توازن کا توڑ ہے۔

ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ٹکنالوجی بھی ایک بہت اہم میدان ہے۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ اس سلسلے میں اچھی صلاحیت سے ایک نہایت ہی ترقی یافتہ ملک کے اعلیٰ اور فنی نظام کو غیر موثر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک ۱۶ سال کا امریکی لڑکا پینٹاگون کی خفیہ معلومات کو دریافت کر کے اس کے کمپیوٹر کو جام کر سکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے ذریعے کسی بھی ملک کے نظام کو تہ وبالا کیاجاسکے۔ اب دنیا سائبری جنگ (cyber warfare)کی طرف جارہی ہے اور ہم اس میں پیچھے نہیں رہ سکتے۔

آج کی دنیا میںطاقت کے عدم توازن کے معنی بدل گئے ہیں۔ اس لیے سدِّجارہیت (deterrance) ایک فنّی اصطلاح نہیں ہے بلکہ ایک حرکی تصور ہے جس کے معنی برابری نہیں اتنی قوت ہے کہ آپ مدمقابل کی قوت کو غیرموثر بناسکیں اور اسے جارحیت سے روک سکیں۔ آپ کو قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کو برابری حاصل ہو لیکن آپ کے پاس اس درجے کی قوت ہونی چاہیے کہ آپ نہ صرف اپنا دفاع کرسکیں‘ بلکہ دشمن پر کاری ضرب لگاسکیں۔اسے یہ احساس ہو کہ اس عمل اور ردعمل سے اسے کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ قرآن پاک میں مقابلے کی قوت کا جو مقام بیان کیا گیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ تمھارے دشمن اور اللہ کے دشمن اس سے خائف ہوں اور یہ لازماً ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ قابلِ حصول ہے‘ اس کے لیے مساوات ضروری نہیں۔ اس کے لیے صرف صحیح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

یہ کام استقامت اور حکمت کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ استقامت نام ہے اپنے مسلک پر ایقان اور اعتماد کے ساتھ ڈٹ جانے کا‘ اپنے مقصد اور اپنی منزل کے صحیح شعور اور ادراک کا۔ یہ نام ہے اللہ کے بھروسے‘ اُمت کی تائید اور تعاون کا۔ استقامت صحیح منصوبہ بندی ‘ وسائل کی ترقی اور وسائل کے مؤثر استعمال اور حکمت اور اس خوف کا صحیح صحیح استعمال کا نام ہے۔ یہ بھی صبرواستقامت ہے کہ نفع عاجلہ سے بچنا اور ایسے اقدام سے بچنا جن سے جذبات کی تسکین تو ہوجائے لیکن پوری امت کو دیرپا نقصانات ہوں۔

تہذیبوں میں مکالمہ‘ تعاون‘ مسابقت حتیٰ کہ مثبت مقابلہ‘ سب درست لیکن تہذیبوں میں تصادم‘ جنگ و جدال‘ خون خرابا اور ایک دوسرے کو مغلوب اور محکوم بنانے کے لیے قوت کا استعمال انسانیت کے شرف اور ترقی کا راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبوں کا تصادم ہمارا لائحہ عمل نہیں‘ یہ مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے۔ یہ تباہی کا پیغام ہے لیکن اگر ایک سوپر پاور طاقت کے زعم میں اندھی ہو گئی ہے اور دنیا کو اپنی گرفت میں لینے اور اس پر بہ جبر بالادستی قائم کرنے کے لیے قوت کا استعمال کر رہی ہے تو اس کے آگے ہتھیار ڈالنے ‘ اور اپنے دفاع سے دست بردار ہوجانے سے بڑا جرم کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری لڑائی نہ امریکا کے عام انسانوں سے ہے‘ نہ یورپ کے نہ روس کے اور نہ ہندستان کے۔ ہماری قوت اور پہچان اسلام ہے‘ اور اسلام ساری انسانیت کے لیے پیغام رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ہمارا اللہ‘ رب العالمین ہے اور ہمارا رسولؐ، رحمۃ للعالمین۔ ہم انسانوں کے لیے تباہی کا پیغام نہیں بن سکتے۔ اللہ کے تمام نبی انسانوں کو تباہی سے بچانے کے لیے آئے اور قوموں کو سیدھا راستہ دکھانے اور خیر کو قبول کرنے کی دعوت دینے کے لیے آئے‘ فوج دار بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ ہمارے لیے امریکا کے عام انسان بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے پاکستان کے‘ یا مکے اور مدینے کے۔ لیکن اگر امریکی اور مادی تہذیب کی قیادت مادی قوت اور عسکری قوت کے زعم میں یہ سمجھتی ہے کہ وہ پوری دنیا کو دھوکا دے سکتی ہے اور ان کو اپنا محکوم بناسکتی ہے تو یہ ممکن نہیں‘ اور نہ یہ جائز ہے کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے۔

مسلمان ہی نہیں ‘ساری دنیا کے اچھے انسان اس صورت حال پر کرب محسوس کرتے ہیں اور اس مصیبت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے گوشے گوشے میں لاکھوں افراد نے عراق میں جنگ کے خلاف احتجاج کیا ہے اور کر رہے ہیں‘ امریکا میں بھی کر رہے ہیں۔ آج جو تازہ ترین جائزے آئے ہیں اس میں بش کی مقبولیت ۳۱ فی صد ہے‘ اور ۶۹ فی صد سمجھتے ہیں کہ اس نے انسانیت کو ایک غلط جنگ میں جھونک دیا ہے۔ وہ ۲۳۰۰امریکی فوجی جو عراق میں مارے گئے ہیں‘ ان کے خاندان احتجاج کررہے ہیں‘ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ بش کی قیام گاہ کے باہر احتجاجی ہڑتالیں ہورہی ہیں۔ امریکا کی ان پالیسیوں اور دست درازیوں کے خلاف مسلم دنیا کی ۹۰سے ۹۸ فی صد آبادی احتجاج کر رہی ہے۔ یورپ میں ۷۰ سے ۸۰ فی صد اور افریقہ میں ۷۰سے ۹۰ فی صد لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ غرض دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں بش کی انسانیت کش پالیسیوں کے خلاف نفرت نہ پائی جاتی ہو۔

میں تہذیبوں کے تصادم کو اس فریم ورک میں نہیں لینا چاہتا جس میں ہمارے دشمن اسے ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ میری نگاہ میں یہ تصادم تہذیب اور جاہلیت‘ تہذیب اور وحشی پن میں اور امن اور جنگ کے پجاریوں میں ہے۔ ہمیں اخلاقی اقدار‘ قانون کی حکمرانی‘ انصاف‘ انسان کا شرف اور عزت اور تمام انسانوں کے لیے اللہ کی زمین کو رہنے کے لائق بنانا اور رکھنا ہے۔ بلاشبہہ اس جنگ میں ہمارا ان سے مقابلہ ہے جو تباہی مچانے والے‘ امن کو پارہ پارہ کرنے والے اور ساری دنیا کو دہشت زدہ کرنے والے ہیں۔ ان کے مقابلے کے لیے ہمیں حلیفوں کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ہمیں تن تنہا نہیں لڑنا چاہیے۔ بلاشبہہ ہم اس کا پہلا نشانہ ہیں لیکن دوسرے بھی نشانے پر ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اچھی سیاست خارجہ کے ذریعے سے حلیف پیدا کریں اور مل کے اس کا مقابلہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ حلیف صرف چین ہی میں نہیں ‘ یورپ اور امریکا میں بھی ملیں گے۔ اور یہی دراصل ایک داعی کا ذہن اور کردار ہونا چاہیے۔ ہم اصحاب دعوت ہیں‘ ہم نفرتوں کے پجاری نہیں ہیں‘ اس لیے ہمیں بتانا چاہیے کہ اصل جنگ تہذیب اور وحشت کے درمیان ہے۔

آئیے! تہذیب کا تحفظ کریں اور وحشت کا مل جل کر مقابلہ کریں۔