مولاناآزاد قلم کے شہسوار‘ اُردو کے بلندپایہ ادیب اور فن خطابت کے ساحر ہونے کی وجہ سے آغاز شباب ہی میں ۱۰ کروڑ دلوں پر حکومت کرچکے ہیں۔ مگر ’کانگریسی سیاست‘ میں اپنی پوری شخصیت دے دینے کے بعد ’احیاے دین کا کام تو چھوٹا ہی تھا، ’مسلمان قوم‘ بھی ان سے بگڑگئی۔ اس ٹریجڈی کے پس منظر میں بزمی صاحب نے مولانا کی بلندپایہ شخصیت پر یہ مقالہ لکھا ہے۔ اس مقالے کو انھوں نے لکھنا تو تنقید و تبصرے کی نیت سے چاہا تھا‘ مگرکرگئے قصیدہ گوئی‘ اور قصیدے کے خطوط پر جو سیرت نگاری ہو وہ لٹریچر میں کسی مفید چیز کا اضافہ نہیں کرتی۔ ان کے مقالے کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بزمی صاحب کبھی تو مسلمانوںسے یہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ: (۱) موصوف کی قابلیتوں کی وجہ سے قوم ان پر اعتماد کرے اور ان کے پیچھے چلے۔ کبھی یہ کہ (۲) وہ مولانا پر ترس کھائے اور ان کی لغزشوں کو نظرانداز کردے ‘اور کبھی یہ کہ (۳) ان کی سیاست کو ناپسند بھی کرتی ہو تو ان کی تذلیل نہ کرے۔ شاید وہ یہ تینوں باتیں ہی کہنا چاہتے ہیں مگر اپیل کے پہلے جز سے عقل عام کبھی اتفاق نہیں کرسکتی۔ لیڈرشپ کے لیے محض ذہنی بلندی اور کردار کی مضبوطی ہی دیکھنے کی چیز نہیں ہے‘ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ذہن اور کردار کس نصب العین کی خدمت میں مصروف ہیں‘ اور یہ ظاہر ہے کہ مولانا نہ تو مسلم قوم کے موجودہ نصب العین کا ساتھ دے رہے ہیں‘ نہ اسلام کے مقصد اعلیٰ ہی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس حال میں ’نہ مسلم قوم پرست‘ ان کی قیادت سے راضی ہوسکتے‘ نہ خداپرست مسلمان مطمئن! اپیل کا دوسرا جز بھی بے معنی ہے۔ اجتماعی تحریکوں کے معاملے میں یہ چاہنا کہ لوگ کسی بڑے آدمی کا لحاظ کرکے اس کی غلطیوں پر ترس کھائیں‘ ایک مضحکہ انگیز مطالبہ ہے۔ البتہ تیسرے جز کے ساتھ ہم پورے زورسے متفق ہیں اور مولانا کی توہین و تذلیل کرنے والوںکا رویہ ہرگز پسند نہیں کرتے۔ جس کی قیادت بھی ناپسندیدہ ہو اُس کی پورے زور سے تردید کیجیے اور اس کے اصولوں کے خلاف معقول طریقوں سے شدید جنگ لڑیئے‘ مگر اس اصولی جنگ کے لیے گالی اور خفیف الحرکتی کے اسلحے کا استعمال کسی طرح روا نہیں ہے۔[مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا ابوسعید بزمی پر تبصرہ]۔(’مطبوعات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۲۸، عدد۶، جمادی الثانی ۱۳۶۵ھ، مئی ۱۹۴۶ئ، ص ۶۴)