ختمِ نبوت، ایک مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے، اور اس کا انکار یا اس میں کسی نوعیت کی ملاوٹ یا شک، ایمان کی بنیاد ڈھا دیتی ہے۔ ۱۹ویں صدی کے آخری عشروں میں قادیانیت نے بال و پَر نکالے اور ۲۰ویں صدی کے آغاز میں مرزا غلام احمد نے اپنی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا۔ یہ ’نبوت‘ بنیادی طور پر برطانوی سامراج کی مرضی کے مطابق دینِ اسلام کی نئی تعبیرو تشریح کے بوئے جانے والے جھاڑ جھنکار پر مشتمل تھی۔ مرزا نے اپنی نبوت کے نہ ماننے والوں کو ’کافر‘ ہی نہیں قرار دیا، بلکہ انھیں نہایت غلیظ ناموں سے بھی نوازا۔
اس ضمن میں اُمت مسلمہ کے ضمیر نے یکسو ہوکر مذکورہ فتنے کی نفی کی۔ علامہ اقبال نے تو ایک جملے میں واضح کر دیا کہ: ’’قادیانی اسلام اور ہندستان دونوں کے غدار ہیں‘‘۔ اور یہ بات انھوں نے قادیانیت کے وکیلِ صفائی پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک خط میں لکھی۔
علماے کرام کے ہاں تو اس بارے میں کوئی شک نہ تھا: حنفی [بریلوی، دیوبندی]، سلفی، شیعہ علما، قادیانیت کے کفر پر متفق تھے، مگر پاکستان یا ہندستان کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنی کم علمی کی بناپر اسے ’مولویوں کی لڑائی اور کفرسازی کا شاخسانہ‘ تصور کرتا تھا۔ ۲۹مئی ۱۹۷۴ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان میں زیرتعلیم اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں اور حامیوں پر، ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانی نوجوانوں نے حملہ کیا، جس نے اس مسئلے کو شعلۂ جوالہ بنادیا۔ قریہ قریہ تحریکِ ختم نبوتؐ شروع ہوئی۔ تب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس مسئلے کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کیا، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران نے بطور ’عدالت‘ مسئلے کے تمام فریقوں کو سنا، ان پر جرح کی اور آخرکار ۷ستمبر۱۹۷۴ء کو فیصلہ سنایا کہ:’’ قادیانیت کے دونوں گروہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں‘‘۔
زیرنظر کتاب پاکستان کے بزرگ اور باخبر صحافی جناب سعود ساحر نے مرتب کی ہے۔ اس کتاب کا سب سے دل چسپ اور آنکھیں کھول دینے والا حصہ اس بحث پر مشتمل ہے، جو پاکستان کی پارلیمانی عدالت میں سوال و جواب کی صورت میں ہوئی۔ دراصل یہی بحث قادیانیت کی حقیقت کو پاکستان کے دستور سازوں کے سامنے بے نقاب کرنے کا ذریعہ بنی ہے۔
یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ ۱۹۷۴ء سے اب تک اس بحث کو سرکاری طور پر شائع نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل اس بحث کے متعلقہ مکالمات کو مولانا اللہ وسایا صاحب نے تحریک ختمِ نبوت ۱۹۷۴ء (جلد دوم،صفحات: ۴۴۲)کے عنوان سے شائع کیا تھا، جس پر ترجمان القرآن (اپریل ۱۹۹۵ء) میں تبصرہ کیا گیا تھا۔ زیرتبصرہ کتاب کے مرتب نے بھی انھی متذکرہ مکالمات کو اپنے ذرائع سے حاصل کرکے زیرنظر کتاب مرتب کی ہے، لیکن انھوں نے محض مکالمات نہیں بلکہ بحث کی کیفیات، اُتار چڑھائو، تلخی تُرشی کو بھی قلم بند کیا ہے۔ اس سے اس مسئلے کی جزئیات واضح ہوکر سامنے آتی ہیں۔ جناب سعود ساحر کی یہ خدمت قابلِ تحسین ہے، تاہم ہمارا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ اس پوری کارروائی کو سرکاری طور پر اسپیکرآفس کی طرف سے شائع کیا جانا چاہیے۔ جو حیثیت و اہمیت اُس دستاویز کو حاصل ہوگی، وہ کسی دوسرے ذریعے سے حاصل کردہ معلومات کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہہ سعود صاحب یا اللہ وسایا صاحب کی کتب میں شائع کردہ مکالمات درست ہیں، مگر ان کی حیثیت پرائیویٹ دستاویز کی ہے۔
گذشتہ دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ۱۰؍اپریل ۲۰۱۱ء کو اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس کارروائی کو ’خفیہ دستاویزات‘ کے سردخانے سے نکال کر شائع کریں گی، اور انھوں نے یہ کارروائی چھپوا بھی لی تھی، مگر وہ اسے عوام الناس کے لیے شائع نہ کرسکیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ صورتِ حال پاکستان کے عوام کی حق تلفی، قادیانیت کی طرف داری اور دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی روح سے متصادم رویے کی غماز ہے۔ (سلیم منصور خالد)
علامہ اقبال کا شمار ان اکابر میں ہوتا ہے جنھوں نے مسلمانانِ برعظیم کو غلامی کی گہری نیند سے بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں:شاعر،مفکر،فلسفی ، سیاست دان، قانون دان وغیرہ ۔ اس سلسلے میں سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں اوریہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اکادمی ادبیاتِ پاکستان نے ۱۹۹۰ء میں ’پاکستانی ادب کے معمار‘ کے عنوان سے ممتاز تخلیق کاروں پر ایک ایک کتاب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس بارے میں اکادمی ادبیات کے صدرنشین افتخار عارف لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب نام وَر اقبال شناس، ممتاز تنقیدنگار اور محقق پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اکادمی ادبیات پاکستان کے لیے تحریر کی ہے۔ ہم ان کے تہ ِ دل سے شکرگزار ہیں۔ انھوں نے علامہ محمد اقبال کے حوالے سے تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کا امتیازی اختصاص کے ساتھ بے حد وقیع کام کیا ہے‘‘۔
زیرنظر کتاب بقول مصنف: ’’اقبال کے عام قاری کے لیے ہے___ جو اقبال کے بارے میںکچھ زیادہ نہیں جانتا‘‘۔فی الحقیقت یہ کتاب اقبال کا تعارف ایک منفرد انداز میں کراتی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے اقبال اپنی خوبیوں اور کمزوریوں، یعنی پوری شخصیت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ یہ کتاب قاری کو سوانح اقبال کے بہت سے گوشوں سے شناسا کراتی ہے۔اس میں اقبال کے آباواجداد،اساتذہ، عملی زندگی، سیاسی سرگرمیوں، ملکی اور غیرملکی دوروں اور آخری زمانے کی طویل علالت کے دنوں کے اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے، نیز اس میں اقبال کی فکریات سمجھنے کے لیے ان کے ملفوظات اور افکار و تصورات کا تذکرہ بھی آگیا ہے۔
مصنف کا اسلوب سادہ ، رواں اور دل کش ہے۔ (فیاض احمد ساجد)
علامہ یوسف القرضاوی کا شمار موجودہ زمانے کے چوٹی کے علما میں ہوتا ہے۔ عالمی حالات، اُمتِ مسلمہ کے مسائل اور جدید موضوعات پر ان کی گہری نظر ہے۔ اس طرح وہ فکری اور عملی دونوں میدانوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ علّامہ القرضاوی کو مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی [۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء] سے بہت محبت اور عقیدت ہے (یاد رہے، مولانا مودودی کی نمازِ جنازہ انھی نے پڑھائی تھی)۔
کچھ عرصہ قبل القرضاوی نے ایک مختصر مگر جامع کتاب نظرات فی فکر الامام المودودی شائع فرمائی۔زیرنظر کتاب اسی مجموعے کا اُردو ترجمہ ہے۔ علامہ قرضاوی نے اس کتاب میں مولانا مودودی کی فکری خصوصیات اور خدمات کا مختصر مگر جامع انداز میں بھرپور جائزہ لیا ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں مولانا مودودی پر مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی اور مصری دانش ور ڈاکٹر محمد عمارہ کی تنقید کا عمدہ تجزیہ کیا گیا ہے۔
علامہ قرضاوی، مولانا مودودی کے قدردان ہیں۔ انھوں نے مولانا مودودی کی فکرو بصیرت کو خوب صورت پیرایے میں پیش کیا ہے مگر بعض جزئیات میں ان سے اختلاف بھی کیا ہے، اور مختلف فیہ موضوعات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
کتاب کے آغاز میں مولانا ڈاکٹر محمد عنایت اللہ سبحانی کا مبسوط مقدمہ شامل ہے۔ جس میں انھوں نے، علّامہ قرضاوی کے تنقیدی اشارات کا مختصر جواب دیا ہے۔ کتاب کا ترجمہ ابوالاعلیٰ سیّد سبحانی نے کیا ہے، جو نہایت شُستہ اور رواں ہے۔ اس خدمت پر وہ اُردو خواں حلقے کی جانب سے شکریے کے مستحق ہیں۔ (محمد رضی الاسلام ندوی)
زیرنظر سفرنامے میں مصنفہ نے سیاحتی رُوداد کے ساتھ ایران کی تاریخ کے مختلف اَدوار کا عبرت انگیز منظرنامہ بھی پیش کیا ہے۔ جس میں تاریخی اور علمی شخصیتوں کا تذکرہ بھی شامل ہے جس سے مصنفہ کی (جو تاریخِ اسلامی کی پروفیسر ہیں) تاریخ پر نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے ایران کی سرزمین، وہاں کے باشندوں کے طورطریقوں اور ان کی عمومی بودوباش کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کرکے اپنا نقطۂ نظر بھی بیان کیا ہے۔ انھوں نے ایران کے تمام مقامات اور شخصیات کو تاریخ کے تناظر میں دیکھا ہے۔
سفرنامے کا اسلوب ایسا شگفتہ اور سلیس ہے کہ قاری ایک ہی نشست میں پورے سفرنامے کا مطالعہ کرلیتا ہے۔ تسامح کئی ایک ہیں، صرف ایک کا ذکر۔ مصنفہ نے لکھا ہے: ’’سعدی، شیخ عبدالقادر جیلانی کے ہاتھ پر بیعت بھی تھے اور آپ ہی کے ہم رکاب ہوکر حج بیت اللہ بھی کیا تھا‘‘ (ص ۶۶)۔ حالاںکہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی وفات (۱۴فروری ۱۱۶۶ء) کے ۴۴برس بعد شیخ سعدی ۱۲۱۰ء میں پیدا ہوئے تھے۔(ظفرحجازی)
o 1-Guidance of The Holy Quran, 2-Studies of the Quran،
پروفیسر اشرف الزماں خاں۔ ملنے کا پتا: اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۵۰۱-۰۴۲۔ صفحات، مجلد(علی الترتیب): ۷۲، ۱۹۲۔ قیمت:۱۲۰ روپے، ۳۰۰ روپے۔[انگریزی زبان میں اسلام اور قرآن سے ابتدائی تعارف کے لیے نہایت مناسب مختصر کتابیں ہیں۔ پہلی کتاب میں زندگی کے تمام اہم پہلوئوں کے بارے میں بنیادی ہدایات منتخب قرآنی آیات کی صورت میں ترجمے اور مختصر تشریح کے ساتھ دی گئی ہیں۔ عقائد اور تزکیے کے ساتھ ساتھ اچھے معاشرتی تعلقات، نیک عمل، گناہ کے کام، حلال و حرام کے بعد پردہ، دعوتِ اسلامی اور جہاد کے بارے میں مختصر ابواب میں، ۶۶ صفحات کی کتاب میں سب ہی کچھ آگیا ہے۔ دوسری کتاب میں قرآن سے تعارف اور سورئہ فاتحہ کے بعد آخری پارہ عم کی سورتوں (۷۸-۱۱۴) کی مختصر تشریح اور پس منظر کے ساتھ انگریزی ترجمہ دیا گیا ہے۔ ]
oاصطلاحاتِ حدیث، مرتب: عتیق الرحمٰن۔ ناشر: پیما پبلی کیشنز، پیما ہائوس۔ بی/۵۱۶، بلاک K، جوہر ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۶۱۳۰۶۰۳-۰۴۲۔صفحات: ۶۴۔ قیمت: ۴۰ روپے۔[اس مختصر کتاب میں حدیث سے متعلق اصطلاحات کی واضح تعریف دی گئی ہے۔ اسی طرح قاری اس کتاب کے ذریعے علمِ حدیث سے متعلق بنیادی معلومات سے روشناس ہوجاتا ہے۔ پیما (پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن) اپنے ممبران کی دینی تربیت کا انتظام بھی کرتی ہے۔یہ معلوماتی کتاب اسی کے پیش نظر شائع کی گئی ہے۔]
o رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی ،مرتب: ڈاکٹر نصیر خان، ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۲۵۲۵۰۱-۰۴۲۔صفحات: ۱۱۳۱۔ قیمت: ۱۵۰۰ روپے۔[مولانا مودودی کی شہرئہ آفاق کتاب رسائل و مسائل جو پانچ حصوں میں دستیاب تھی، اسے ایک جِلد میں موضوعاتی بنیادوں پر اکٹھا کر کے یہ ضخیم مجموعہ مرتب کیا گیا ہے۔ پانچوں جلدوں میں ذیلی عنوانات کے تحت جو سوال و جواب موجود تھے، انھیں اس کتاب میں متعلقہ فصل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اگرچہ یہ بھی کتاب سازی کا ایک انداز ہے، لیکن اگر ترتیب ِ نو کے ساتھ اسے دو حصوں میں تقسیم اور متن کی چوڑائی کو قدرے کم کیا جاتا تو یہ عمل قاری کے لیے زیادہ سہولت بخش ہوتا۔ پھر جہاں جہاں مسئلے کی تاریخ اشاعت دی گئی ہے، اس کے ساتھ بنیادی جِلد (جسے ختم کیا گیا ہے) کا شمار اوّل؍ دوم؍ سوم وغیرہ کی نشان دہی کے ساتھ درج کیا جانا ضروری تھا۔ سواے حصہ پنجم کے، باقی جِلدیں مولاناموددویؒ ہی کی مرتب کردہ تھیں۔ اس لیے ان کی مستقل پہچان کو معدوم کرنا مناسب نہیں۔حصہ دوم کا تعارف مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے لکھا تھا، وہ بھی ریکارڈ پر رہنا چاہیے تھا۔ ]