اکتوبر ۲۰۱۶

فہرست مضامین

غلامی یا پچھتاوا

ایس احمد پیرزادہ | اکتوبر ۲۰۱۶ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

۱۹۹۷ء میں جون، جولائی کے گرم ترین دن تھے۔ جھلساتی دھوپ اور گرم ہواؤں کے تھپیڑے انسان کو حواس باختہ کررہے تھے۔ اس پر ستم یہ کہ صبح سات بجے ہی کالج کے لیے نکلنا پڑتا تھا۔دن کا کھانا تو دور کی بات ،چائے ناشتہ بھی ہمیں کم ہی نصیب ہوتا تھا۔گرم ہوا کے تھپیڑے تو پھر بھی قابل برداشت تھے، لیکن گرم حالات کے تذلیل آمیز تھپیڑے دن میں ہزار مرتبہ زندہ درگور کردیتے تھے۔ میں بی ایس سی فسٹ ائیرکا طالب علم تھا۔ ہمارے قریب ہندواڑہ اور کپواڑہ میں کالج تھے، لیکن اُن میں سائنس نہیں پڑھائی جاتی تھی۔ اس لیے سائنس کے شوقین ضلع بھر کے تمام طلبہ و طالبات کو سوپور، بارہمولہ یا پھر سرینگر کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔

اکثر طلبہ و طالبات سوپور جانا ہی پسند کرتے تھے، کیونکہ سرِشام واپس گھر پہنچ جاتے تھے اور کرایے کے کمروں کا خرچ بچ جانے کے علاوہ نامساعد حالات میں والدین بھی اپنے نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں کو ہر روز اپنے سامنے ہی دیکھنے کے خواہاں ہوتے تھے۔حالات ایسے تھے کہ روزانہ ہی کالج کے راستے میں کہیں نہ کہیں فائرنگ ہوجاتی،گولیاں برستیں اور بے گناہوں کی لاشیں گرتی تھیں۔ کریک ڈائون تو روز کا معمول ہوتے تھے۔

ہم طالب علم اپنے فاتح ہونے کا جھنڈا اُس وقت گاڑ دیتے تھے، جب ہم کریک ڈائون کے دوران بھارتی فوج کے وردی پوشوں کے بڑے صاحب کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے تھے کہ’’ آج ہمارا پریکٹیکل کا امتحان ہے، اس لیے کالج جانا لازمی ہے‘‘ اور وہ ہماری ہتھیلیوں پر  سیاہ رنگ کے ’مار کر‘ سے دستخط کرکے ہمیں جانے کی اجازت دیتا تھا۔ سیاہی کی اُن ٹیڑھی میڑی لکیروں میں ہماری ’رہائی‘ کا پروانہ ہوتا تھا، کہ بڑے صاحب کے یہ دستخط راستے میں کھڑے وردی پوشوں کو دکھا کرہم نکل جانے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ پھر دن بھر اپنی اس ہوشیاری کا چرچا رہتا تھا لیکن کبھی کبھی چال اُلٹی بھی پڑجاتی تھی۔ جس دن اُن کا موڈ آف ہوتا تھا توایسی کوئی چالاکی نہیں چلتی تھی اور نہ ہم ایسی کوئی چالاکی دکھانے کی جرأت کرتے تھے بلکہ جتنی بھی تسبیح اور کلمات یاد ہوتے، اُن کا ورد کرتے اور اللہ سے اپنی حفاظت کی دعائیں کرتے ۔پھر بھی ہفتے میں دو ایک بار تھپڑوں، گھونسوں ، لاٹھیوں اور لاتوں سے ہماری خاطر داری ہوہی جاتی تھی۔

نوجوانی اور کالج جانے والے لڑکوں کا منچلا پن ہمارے اُس احساس اور سوچ کو سراُبھارنے ہی نہیں دیتاتھا، جو کبھی کبھی خودآگہی کے ذریعے سے ہمیں یاد دلاتا تھا کہ تمھاری اپنی ہی سرزمین پر دن میں ہزار بار دیارِ غیر سے آنے والے یہ وردی پوش تمھاری تذلیل کرتے ہیں، تمھارا مذاق اُڑاتے ہیں، تمھاری عزت ِ نفس کا جامہ تارتار کرتے ہیں اور تم ایسے ہو کہ اپنی بے بسی پر سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے‘‘۔ہم اکثر اپنی اس بے بسی اور بے کسی کے ان تلخ واقعات سے دل بہلانے کے عادی بن چکے تھے۔حالانکہ حالات میں کچھ اور انداز کی تبدیلی آگئی ہے۔ ڈیڑھ عشرہ گزرجانے کے بعد آج کے نوجوان سینہ ٹھونک کر ظلم و زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، بندوق کا مقابلہ سنگ باری سے کرتے ہیں اور ہزارہا مسلح فوجیوں کے سامنے، اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعلان کرتے ہیں کہ: ’’ہندستان کی طاقت کے سامنے یہ قوم کبھی جھکنے والی نہیں ہے‘‘۔

ہم گھر سے سوپور تک دو گاڑیاں تبدیل کرتے تھے۔ ہندواڑہ تک پہنچ جانے کے لیے ایک بس میں سوار ہونا پڑتا تھا اور پھر ہندواڑہ سے سوپور تک دوسری بس میں سوار ہوجاتے تھے۔   صبح سات بجے گھر سے نکلتے تھے۔ پہلے والی گاڑی میں سوار ہوکر ہماراساڑھے دس بجے کی کلاس پکڑنے کا ہدف ہوتا تھا، لیکن مجھے سال بھرکا وہ دن یاد ہی نہیں کہ جب ہم نے انگریزی کی وہ   پہلی کلاس پڑھی ہو۔تلواری، ماگام، ودی پورہ، براری پورہ، وٹائین، زالورہ، سیلو کے مقامات پر گاڑیوں کی تلاشیاں اور ہمارے شناختی کارڈ کی چیکنگ ، سوال و جواب اور شناخت پریڈمیں گھنٹوں ضائع ہوجاتے تھے۔ کبھی کبھار تو ان مقامات کے علاوہ بھی راستے میں کوئی ناکہ یا کوئی چیک پوسٹ ہوتی یا پھر راستے میں ڈیوٹی پر مامور وردی پوش (سپاہی) محض وقت ضائع کرنے کے لیے بس کو روک کر اپنی طاقت اور فرعونیت کا مظاہرہ کرتے تھے۔صبح سات بجے سے آٹھ بجے کے درمیان اور شام کو چار بجے سے ساڑھے چار بجے کے درمیان چلنے والی بسوں میں اکثر طالب علم ہی سوار ہوتے تھے ۔ ہمارے مابین کالج اور کلاس کی جان پہچان کے بجاے اصل تعارف بس میں سوار ہونے کے گروپ سے ہوتا۔ کون کس اسٹاپ سے بس میں چڑھا،اور کس اسٹاپ پر اُترا ، یا آگے کے اسٹاپ سے کس کو چڑھنا ہے یا آنے والے اسٹاپ پر کس کو اُترنا ہے، یہ معاملہ قریب قریب ہرایک کو معلوم ہوتا تھا۔

ہمارے ساتھ لڑکیاں بھی پڑھتی تھیں۔ اس طرح ہمارے ساتھ مختلف علاقوں کی درجنوں لڑکیاں سوار ہوتی تھیں۔ہندواڑہ سے نکلتے ہی پانچ منٹ کی مسافت طے کرنے پر روزانہ ایک لڑکی بس میں سوار ہوتی تھی۔درجنوں طالبات میں اُس کی شخصیت اُسے منفرد او رممتاز بناتی تھی۔ اُس میں حیا تھی ، شرم تھی۔ ہماری کلاس میں پڑھتی تھی اور جب بھی وہ اپنے اسٹاپ سے بس میں سوار ہوتی تھی سواریوں سے بھری بس میں لڑکے اُس کے لیے سیٹ خالی کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے تھے۔ حالانکہ وہ کسی سے بات نہیں کرتی تھی،اُسے شاید کسی لڑکے کا نام تک بھی معلوم نہیں تھا۔ وہ بارھویں جماعت میں ۷۵ فی صد نمبر حاصل کرنے کے باوجود اپنی ذہانت اور قابلیت کا رُعب جمانے کی کوشش نہیں کرتی تھی۔گم سم، خاموش ، الگ تھلگ اور اپنے ہی کام سے کام رکھنے والی اُس لڑکی کو بس میں نشست دینے والا ہر لڑکا اسے اپنی بہن کہنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔

جون اور جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی میں بھی اُس کا چہرہ کیا، ہاتھ تک دستانوں میں چھپے رہتے تھے۔ اُس کی آنکھیں بھی بس اُتنی ہی کھلی ہوتی تھیں، جس میں سے وہ اپنا راستہ دیکھ سکتی تھی۔ کالج کی وہ واحد لڑکی تھی جس کے بارے میںسب کو معلوم تھا کہ وہ دن کے اوقات میں انگریزی پڑھانے والی میڈم کے کمرے میں جاکر نماز ادا کرتی تھی۔اُس کی دین داری، پاک دامنی اور شرم و حیا کا پیکر ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اُس کی عزت کرتا تھا۔ اسلام اور دین کے سانچے میں ڈھلی اُس عزت مآب بہن کی مثال کالج کے پروفیسر صاحبان بھی دیا کرتے تھے۔اُسے دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ اُسے بچپن ہی سے تربیت دینے والے ماں باپ نے بتا دیا تھا کہ شرم و حیا لڑکیوں کا زیور ہوتا ہے۔ مخلوط تعلیمی کلچر میں ہوکر بھی وہ مخالف جنس کو احساس تک نہیں ہونے دیتی تھی کہ  اُس کے ساتھ یا اس کے سامنے کوئی لڑکی ہے۔ وہ پاک باز اور پاک جان معصوم کلی تھی۔ اُس کی معصومیت اور حیاداری کی سب سے بڑی مثال یہ تھی کہ کالج کا کوئی لڑکا اس کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں جانتا تھا کہ کالے برقعے میں لپٹی حوا کی یہ بیٹی ہمارے کالج میں پڑھتی ہے۔

ایک دن حسب معمول اپنے اسٹاپ سے بس میں سوار ہوئی۔ اُس کا وہی پاکیزہ انداز کہ ہرلڑکے کی آنکھیں خود بخود جھک گئیں۔ گاڑی میں سوار کئی لڑکوں نے اس کے لیے سیٹ خالی کردی۔ وہ راستہ بناتی ہوئی دوسری لڑکی کے برابر میں بیٹھ گئی۔ گاڑی اپنی منزل کی جانب چل پڑی۔ ایک پاکستانی گلوکار کا گانا ’تم تو ٹھیرے پردیسی ‘ بج رہا تھا۔گاڑی میں سوار کچھ لڑکے گانے کے بول کے ساتھ سُر ملارہے تھے تو کچھ گپ شپ میں محو تھے۔ عام سواریاں اپنے اپنے خیالات میں گم تھیں۔ گانا ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ یکایک ڈرائیور نے بریک لگائی اور تمام مرد سواریوں کو گاڑی سے اُترنے کے احکامات سنائے۔

ہم وٹائین پہنچ چکے تھے۔ یہاں تمام مردوں کو گاڑی سے اُتار کر تقریباً آدھا کلومیٹر پیدل چلنے کے لیے کہاجاتا تھا ۔ گاڑی میں صرف عورتوں کو بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ اُس کے بعد گاڑی آگے چل کر مردوں کو اُٹھاتی ہے۔ اسی جگہ ہماری گاڑی سے ہماری یہ بہن بھی اُترتی تھی۔ وہی ہماری کلاس فیلو پردہ پوش بہن گاڑی میں بیٹھنے کے بجاے مردوں کے ساتھ اُترنے کو ترجیح دیتی تھی اور ہم سب مردوں کے پیچھے آہستہ آہستہ چلتی، گاڑی میں دوبارہ سوار ہونے کی جگہ تک پہنچتی۔ وردی پوش گاڑی میں سوار ہوکر تلاشی لیتے تھے۔ شاید اسے وردی پوشوں کی گھورتی نظریں برداشت نہیں ہوتی تھی۔ شاید اُس کی غیرت اُسے اجازت نہیں دیتی کہ وہ وردی پوشوں کے سوال وجواب میں      اُلجھ جائے جیسا کہ گاڑی میں اکثر خواتین اور طالبات کے ساتھ یہ وردی پوش مختلف بہانوں کی آڑمیں باتیں کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ ایک معمول بن چکا تھااور ہم سب اس بے غیرتی اور بے عزتی کے عادی ہوچکے تھے۔روز کی ذلت و رسوائی اب ہمیں اپنامقدر لگتا تھا۔لیکن حوا کی یہ بیٹی اپنے حصے کا حق ادا کرتی تھی۔ روز گاڑی سے اُتر کرہندستانی فوجیوں کے فقروں کو سننے کے بجاے مردوں کے شانہ بشانہ پیدل اگلے اسٹاپ تک چل پڑتی تھی۔

اس روز بھی حسب معمول ہماری یہ بہن گاڑی سے اُتر گئی، لیکن آج وردی پوشوں کا غصہ آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ ہم اُتر نے والوں میں سے وہ کسی کو شناختی کارڈ کے بہانے تھپڑ مارتے تھے تو کسی کو مرغا بننے کاکہتے تھے۔ ایسا اکثر تب ہوتا تھا جب کسی جگہ فائرنگ ہوجاتی تھی، لیکن آج تو ہمیں کوئی ایسی اطلاع نہیں ملی کہ رات کے دوران اس علاقے میں کہیں کوئی فائرنگ ہوئی ہو۔ پھر وردی پوشوں کی یہ غضب ناکی کس وجہ سے ہے؟ مجھے سوپور میں کسی پرائیویٹ اسکول میںزیر تعلیم وہ ننھا لڑکا یاد ہے جس کے نازک اور کمزورکندھے پر ڈنڈے سے اس قدرشدیدضرب ماری گئی کہ اُس کابازو ہی ٹوٹ گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے اُس بزرگ سرکاری ملازم کا چہرہ آج بھی گھومتا ہے، جس کی ٹوپی اُتار کر اِس قدر تذلیل کی گئی کہ وہ زار و قطار رونے لگا۔

مجھے اپنی ٹانگوں اور پیٹ پر ڈنڈوں کی وہ کاری ضربیں آج بھی یاد ہیں کہ جن کے نشان ایک ہفتے تک موجود رہے اور میں کئی روز تک ٹھیک طرح سے چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ آخر آج ان ’بھارتی سورمائوں‘ کو کیا ہوگیاہے کہ یہ اپنی ’وحشت‘ کا مظاہرہ کرنے پر تلے بلکہ بپھرے دکھائی دے رہے ہیں۔ تمام مردوں کی ’خاطر مدارت‘ کرنے کے بعد سبھوں کو ایک جگہ جمع ہونے کے لیے کہا گیا۔ حکم کی تعمیل کی گئی اور کالج کے طلبہ کو الگ کر لیا گیا۔ ہم طالب علموں کو فحش گالیاں دے کر کہا جارہا تھا:’’آپ سب لوگوں کا انکاونٹر کیا جائے گا‘‘۔ لیکن ہم میں سے کسی میں جرأت ہی نہیں ہوئی کہ وہ پوچھ لیتا کہ:’’ آخر کس جرم میں ہماری یہ دُرگت بنائی جارہی ہے ؟‘‘

جس دوران ہماری پٹائی ہورہی تھی، ہماری وہ باپردہ بہن سڑک کے درمیان کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی بے حس و حرکت۔ وہ معصوم لڑکی دہشت زدہ تھی۔ بے چاری کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ آگے بڑھے یا پیچھے ہٹے۔ آگے بڑھتی تو وہاں ہر جانب دُور دُور تک وردی پوش ہی وردی پوش تھے ، گاڑی میں واپس چڑھ جاتی جہاں خواتین اور طالبات تو موجود تھیں، لیکن وہاںخونخوار آنکھوں والے بندوق بردار فوجی جوان گاڑی کے دونوں دروازوں پر کھڑے تھے۔   شرم و حیا کی پیکر، ملّت کی یہ بیٹی وہیں کھڑی رہی اور وردی پوش ہماری مارپیٹ کے دوران میں اس کی جانب دیکھ دیکھ کر اُسے اپنی طاقت کا احساس دلاتے رہے۔

قریباً آدھے گھنٹے کے بعد جب لاتوں، گھونسوں اور ڈنڈوں سے ہماری خوب مرمت کرلی گئی، تب پہاڑی کے ساتھ بینکر (پختہ مورچے)سے میجر صاحب بڑے ہی کروفر کے ساتھ نکلے اور ہمارے سامنے نمودار ہو کر تقریر کرنے لگے:’’ تم لاتوں کے بھوت، باتوں سے کہاں ماننے والے ہو‘‘۔ پھر وہ ہم سے مخاطب ہوئے: ’’کیا ہم نے تمھیں کبھی بلاوجہ مارا پیٹا ہے؟‘‘ سامنے ایک بزرگ جن کی تھوڑی دیر پہلے مار پیٹ ہوئی تھی، انھوں نے جان کے خوف سے تھرتھر کانپتے ہوئے کہا: ’’نہیں سر‘‘۔ میجر صاحب غرائے:’’ کیا ہم تمھاری’ ناریوں‘ [عورتوں]کی عزت نہیں کرتے ہیں؟ کیا ہم نے اُنھیں کبھی گاڑیوں سے نیچے اُتارا ہے؟‘‘ اِسی بزرگ نے پھر جواب دیا:’’بالکل نہیں سر‘‘۔

اب ایک دم سے میجر آگ بگولا ہوگیا اور غضب ناک ہوکر ملّت کی اس بیٹی کی جانب مخاطب ہوکر چلّایا… ’’تو پھر یہ لڑکی روز کیوں گاڑی سے اُتر جاتی ہے۔ یہ ہمارا ’اپمان‘ [توہین]کررہی ہے، یہ ہماری’شرافت‘ کا مذاق اُڑا رہی ہے‘‘… میجر کے ان جملوں سے ہم سب کی سمجھ میں آگیا کہ ماجرا کیا ہے۔ اتنا کہنا تھا کہ اس میجر نے گرج کر اُس بہن سے کہا: ’اِدھر آجاؤ‘۔ وہ بے چاری اپنی جگہ سے ہل ہی نہیں پائی۔تب میجر نے اِسی بزرگ سے کہا:’’ اس لڑکی سے کہو کہ یہ چہرے سے نقاب ہٹائے۔ ہمیں شک ہے کہ اس نقاب کے پیچھے کہیں کوئی’آتنک وادی‘ [دہشت گرد] چھپا ہوا ہے‘‘۔ آس پاس کھڑے درجنوں بندوق بردار وردی پوش جھپٹنے والی پوزیشن میں اشارے کے منتظر تھے کہ کب حکم ملے اور وہ مسلمانوں کی عزت کے چہرے سے نقاب اُتار دیں؟  کب وہ محمد بن قاسم کی قوم کی بیٹی کی سر راہ تذلیل کریں؟ کب وہ طارق بن زیاد کی بہن کو احساس دلائیں کہ اُس کا بھائی مرچکا ہے؟ کب وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی روح کو پیغام دیں کہ اب تو تیری ملت میں جرأت اور ہمت کہاں کہ وہ تم جیسا کردار دکھا سکیں؟

وہ بزرگ ہانپتا کانپتا اُٹھا اور اس انداز سے ہماری اُس بہن سے مخاطب ہوا کہ جیسا سارے فساد کی جڑ اور ہمارے گناہوں کی قصوروار بھی وہی ہے۔بزرگ نے اسے نقاب ہٹانے کے لیے کہا۔ وہ باپ جیسا بزرگ اپنی جان کے خوف سے اپنی بیٹی کو عریاں ہونے کے لیے کہہ رہا تھا، حالاںکہ اُس کے ماتھے پر نمازوں سے سیاہ گٹّا بھی دکھائی دے رہا تھا۔ وہ باریش بھی تھا، شکل و صورت سے باعمل مسلمان بھی لگ رہا تھا۔مگر وہ صرف مار پیٹ کے خوف سے، امّاں عائشہ صدیقہؓ کی اُس لاڈلی کو مجبور کررہا تھا۔اپنے اردگرد فوجیوں کا گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر،  میجر کا چیخنا چلّانا،بزرگ کی دُہائیاں اور جو لڑکے اُسے بہن کہتے تھے، اب اس کو موت کے چنگل میں   خاموش اور بے بسی میں گھرا ِدیکھ رہے تھے۔ اس خاموشی اور خوف ناک سناٹے میں، اس معصوم لڑکی نے ہمیں تشدد سے بچانے اور بزرگ کی بے رُخی پر مبنی التجا سے مجبور ہوکر ہتھیار ڈال دیے۔ پوری طاقت سے اپنے چہرے سے نقاب کھینچ دیا۔

وہ نورانی چہرہ جسے اُس بے چاری نے کبھی آئینے کے سامنے بھی پوری طرح سے نہ کھولا ہوگا ، کھلے آسمان تلے بے نقاب ہوگیا۔اُس کی بے بس اور باحیاآنکھوں سے موتیوں جیسے موٹے موٹے آنسوؤں کا دریا ہماری بزدلی کا مذاق اُڑا رہا تھا: وردی پوشوں کے چہرو ں پر وہ زہریلی مسکراہٹ ، ہمارا بھیگی بلی کی طرح سر نیچے کرنا اور سامنے ہماری بہن کی بے بسی نے اُس وقت ضرور ہمارے اسلاف کی روح کو تڑپایا ہوگا۔قوم اور ملّت کی بیٹی کا دوپٹہ اور نقاب اُتروانے کے بعد  وردی پوشوں نے ہماری گاڑی کو جانے کی اجازت دے دی۔

اگلے دن اُس اسٹاپ پر ہماری بس رُکی، جہاں سے وہ بہن سوا ر ہوا کرتی تھی۔ لڑکے سیٹ خالی کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کو تیار تھے، مگر آج وہاں سے کوئی برقعہ پوش طالبہ سوار نہیں ہوئی اور پھر وہ کبھی سوار نہیں ہوئی۔ اُس نے اپنی تعلیم ہی کو خیر باد کہہ دیا۔اُس نے اپنی عزت، عصمت اور دین کی خاطر اپنی دنیا کو قربان کردیا۔ اُس نے اپنی تذلیل کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا بلکہ ایمانی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرکے گھر کی چار دیواری کو ہی اپنے لیے محفوظ تصور کیا ۔

میں اُس بہن کا نام تک نہیں جانتا او رنہ مجھے معلوم ہے کہ اُس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا؟لیکن ۱۷سال گزرجانے، اور کوشش کے باوجود میں اُس کو اپنے ذہن سے نہیں نکال پایا۔میں جب بھی اپنے آبائی گاؤں روانہ ہوتا ہوں ، وٹائین پہنچ کر میرے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔مجھے اپنی بے غیرتی پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ میرا ضمیر مجھ سے پوچھتا ہے کہ جس بہن کی دین داری پر تمھیں فخر ہوا کرتا تھا، اُس کی تذلیل دیکھ کر تمھاری غیرت کہاں تھی؟مجھے گاڑی میں دوبارہ سوار ہونے والی عام سواریوں کی وہ کاٹ کھانے والی باتیں زخمی کر رہی تھیں، جن میں وہ الزام ہماری اُس بہن ہی پر عائد کررہے تھے کہ: ’’اتنی سواریوں کی مارپیٹ کروانے کی قصور وار یہی لڑکی ہے‘‘۔ سواریوں کی اُن کڑوی کسیلی باتوں کو سن کر آج بھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ اُس گاڑی میں کوئی ایمان کے تیسرے درجے والا بھی نہ تھا۔ ظلم و زیادتی کو ہاتھ سے روکنا تو ہمارے بس میں نہیں تھا ، مگر زبان تک سے بھی ہم نے احتجاج نہیںکیا اور دل میں وردی پوشوں کی اس گھناؤنی اور اسلام دشمن حرکت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجاے ہم نے اپنی اُس بہن ہی کو موردِ الزام ٹھیرایا۔

میں آج بھی اُس بہن کے چہرے کو یاد کرکے اپنی نظریں جھکا لیتا ہوںاور میرے ضمیر کی آوازمیرے قلب و روح سے چین و سکون ہی چھین لیتی ہے۔میں الطاف راجا کے’تم تو ٹھیرے پردیسی…‘ کے اُس گانے کو یاد کرکے سوچنے لگتا ہوں کہ واقعی ہم اپنی اُس بہن کے لیے ’پردیسی ہی ٹھیرے‘ تھے۔ اُس کی دنیا: دین داری، شرافت اور غیرتِ مسلم تھی اور ہماری دنیا: بزدلی، جان کی امان اور دین سے دور مادہ پرستانہ زندگی تھی۔ دونوں کے درمیان موت اور حیات جیسا فیصلہ قائم تھا۔ ہم بھلے ہی اُسے بہن کہنے میں فخرمحسوس کرتے تھے، لیکن حقیقی معنوں میں وہ ہماری دنیا کی باسی نہیں تھی بلکہ ہمارے دیس میں بھی پردیسی اور اجنبی تھی۔وہ چند منٹ آج بھی مجھے کسی قیامت سے کم نہیں لگتے، جن میں اُس دین دار باحیا قوم کی بیٹی نے اپنے چہرے سے نقاب نوچ کر ہماری گونگی غیرت اور بزدل حمیت اور ایمان و مسلمان ہونے کے دعوے پر تازیانے برسائے تھے۔  میرا جی چاہتا ہے کہ میں دنیا کی ان گہما گہمیوں میں حوا کی اُس بیٹی کو تلاش کروں اور اُس کے سامنے اپنا دامن پھیلاکر معافی مانگوں۔ اللہ کے سامنے گڑگڑا کر اور زار وقطار رو کر اپنی بزدلی کے لیے معافی مانگوں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اُس سانحے کی یادیں اپنی دل و دماغ سے کرید کر نکال باہر کروں مگر میرا ضمیر مجھ سے بار بار مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ: کیا تمھارے معافی مانگنے سے اور اُس بہن اور    اللہ کے معاف کرنے سے اُس بے چاری کے دل و دماغ سے دینی غیرت و حمیت کے چھن جانے کی تلخ یادیں ختم ہوجائیں گی؟کیا تمھاری یہ ندامت اُس کی اُس تذلیل اور ذلت کا نعم البدل ہوسکتی ہے؟

ضمیر کا یہ بوجھ جو لحد تک میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ اب یہ اذیت ناک پچھتاوا میرے قلب و جگر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پچھتاوا ہی رہے گا!