’زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے ‘___ یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے باربار سنا اور سوچا، مگر اس امر کے اعتراف سے بھی چارہ نہیں کہ ہر صدمے کے موقعے پر ایک عالمِ استعجاب (shock) میں اسے ایک نئی بات ہی محسوس کیا جاتا ہے۔ افسوس ہماری غفلت کا یہ عالم ہے کہ موت جو ہرلمحے ہمارے تعاقب میں ہے، ہم اسے بھولے رہتے ہیں۔ خود اپنی غفلت کا یہ حال ہے کہ کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلم کو بھی ’مسلم مرحوم‘ کہنا اور لکھنا پڑے گا۔ جنوری ۱۹۵۰ء میں خرم بھائی کے پیرالٰہی بخش کالونی والے گھر میں مسلم کے ہاتھوں پانی پینے سے تعلقات کا جو باب شروع ہوا تھا، وہ محسوسات کی دنیا کی حد تک ۲۸؍اگست ۲۰۱۶ء کو عزیزی سلیم منصور خالد کے دل و دماغ کو شل کر دینے والے پیغام کے ذریعے کہ ’’مسلم بھائی بھی ہم سے رخصت ہوگئے ہیں‘‘ بند ہوگیا___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
اللہ کا حکم ہر چیز پر غالب ہے اور اپنی حکمتوں کو وہ ہی خوب سمجھتا ہے، لیکن میرے لیے یہ صدمہ بہت بڑی آزمایش ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ گویا میرا ہاتھ ہی ٹوٹ گیا ہو ؎
مصائب اور تھے، پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس غم کو برداشت کرنے کی توفیق دے، اور مسلم بھائی کو مغفرت، ابدی راحت اور جنّت کے اعلیٰ درجات سے نوازے، آمین۔
مسلم، تحریکِ اسلامی کا ایک بڑا قیمتی سرمایہ تھے اور خصوصیت سے گذشتہ ۲۲برسوں میں ترجمان القرآن کے نائب مدیر اور خرم بھائی اور میرے دست ِ راست کی حیثیت سے جو گراں قدر خدمات انھوں نے انجام دی ہیں، وہ علمی، دعوتی اور تحریکی ہر اعتبار سے بڑی قابلِ تحسین اور ناقابلِ فراموش ہیں۔ لیکن میرے ساتھ ان کا تعلق اس سے بہت پرانا اور گہرا ہے۔ میرے لیے وہ سگے چھوٹے بھائی کے مانند تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انیس [ڈاکٹر انیس احمد]کے بعد وہ مجھ سے سب سے زیادہ قریب رہے۔ مقامِ شکرہے کہ پوری زندگی ہم ایک ہی خاندان کے افراد کی طرح ایک دوسرے سے رشتہ نبھاتے رہے اور کبھی ہمارے درمیان کوئی دراڑ نہیں پڑی، بلکہ خفگی اور بدمزگی کی کیفیت بھی کبھی رُونما نہیں ہوئی۔ الحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔
یہ تو تعلق کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ چھوٹے بھائی کے ساتھ ایک نہایت ہونہار، ذہین اور شوخ و شریر شاگرد، بڑے مخلص، روشن دماغ اور صاحب الراے تحریکی ساتھی اور رفیق کار اور ادب و احترام کے رشتے کا پاس کرتے ہوئے بے باک ناقد اور نہ بخشنے والے محتسب بھی تھے۔
مسلم کی شخصیت اور خود میرے ساتھ ۶۶برسوں پر پھیلے ہوئے تعلقات کی نوعیت ان چار رنگوں کی ایک قوسِ قزح کے مانند ہے، اور مَیں ہی نہیں شاید اپنے اپنے انداز میں بہت سے افراد نے ان کی شخصیت سے ان متنوع پہلوئوں کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہوگا۔
مسلم سے تعلقِ خاطر کا آغاز خرم بھائی سے تعلق کا پرتو تھا۔ میں اسلامی جمعیت طلبہ سے اپنے بڑے بھائی احمد ضمیر مرحوم، جو خرم بھائی کے کلاس فیلو اور دوست تھے اور خود خرم اور ظفراسحاق انصاری کے ذریعے روشناس ہوا، اور ان دونوں کی محبت اور رفاقت اور مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کی دل و دماغ کو مسخر کرنے کی لازوال قوت کے سیلاب میں بہتا ہوا چند ہی مہینے میں جمعیت کا رکن بن گیا۔
رکن بننے کے چند مہینے کے بعد ہی مجھے کراچی جمعیت کا ناظم منتخب کرلیا گیا اور اس طرح جنوری ۱۹۵۰ء سے جون ۱۹۵۶ء تک جمعیت کا رکن اور مختلف ذمہ داریوں کا امین رہا۔ پہلے دو ڈھائی برس ہم گھروں ہی میں کام کرتے رہے۔ کوئی باقاعدہ دفتر نہیں تھا۔ پہلا اور شاید سب سے متحرک اور مصروف دفتر ۲۳-اسٹریچن روڈ ۱۹۵۲ء میں حاصل کیا گیا۔ یہ جگہ حاصل تو کی گئی تھی مجلّہ Student's Voice اور اسٹوڈنٹس سوشل سروس کے دفتر کے طور پر، لیکن پھر وہ جمعیت ہی کا دفتر بن گیا۔ اس سے پہلے ہمارے تین گھر بطور دفتر، اجتماع گاہ اور تحریکی دسترخوان کے طور پر استعمال ہوتے تھے، یعنی ہمارا فریر روڈ کا فلیٹ، خرم بھائی کا پیرالٰہی بخش کالونی کا کمرہ، اور ظفراسحاق انصاری کا بندر روڈ پر سعیدمنزل کے سامنے والا فلیٹ۔
خرم بھائی کا کمرہ ان کی کراچی کی نظامت اور مرکزی نظامتِ اعلیٰ کے زمانے میں بہت زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ جہاں چائے اور پانی کی فراہمی کی خدمت ان کے چھوٹے بھائی حسن قاسم اور مسلم سجاد انجام دیتے تھے۔ ہمارے تعلقات کا آغاز اس مہمان داری کے دل نواز ربط سے ہوا۔ پھر پہلے حسن قاسم اور پھر مسلم سجاد فکری، تحریکی اور تنظیمی اعتبار سے قریب آتے گئے۔ قاسم میری نظامتِ اعلیٰ کے دوران میرے ہمراہ بطور معاون خصوصی رہے اور برادرم ڈاکٹر اسرار احمد کے ساتھ جو قلمی معرکے ہوئے، ان میں میری معاونت کرتے رہے۔
خرم کے تینوں چھوٹے بھائی جمعیت میں سرگرم رہے اور مجھے ذاتی طور پر قاسم اور مسلم سے زیادہ قربت رہی۔ پھر قاسم، راجا بھائی (ظفراسحاق انصاری) سے زیادہ قریب رہے۔ اس طرح قاسم کے تمام تر نظریاتی نشیب و فراز کے باوجود رفاقت اور دوستی کی گرم جوشی آخری وقت تک برقرار رہی۔ مسلم کا زیادہ تعلق خرم سے اور مجھ سے رہا اور الحمدللہ مکمل طور پر نظریاتی استقلال اور وفاداری کے ساتھ یہ رشتہ قائم رہا۔ جیسا میں نے عرض کیا، شروع میں تو مسلم سے صرف مہمان داری والا تعارف تھا۔ پھر اسکولوں کے طلبہ کے لیے جمعیت کا ’حلقہ مدارس‘ منظم ہوا اور اس کی قیادت اور مرکزی شخصیت ہمارے بڑےعزیز ساتھی عبداللہ جعفر صدیقی تھے، جن کی حکمت اور محبت سے بھرپور قیادت میں کراچی جمعیت کے حلقہ مدارس نے غیرمعمولی ترقی کی، اور واقعہ یہ ہے کہ جمعیت کے دامن میں بہت سے ہیرے جمع کرنے کا وسیلہ بنا۔
۵۲-۱۹۵۱ء میں اس حلقے کے ذہین ترین طلبہ کے اسٹڈی سرکل کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوئی۔ مسلم سجاد، ظفرآفاق انصاری، انیس احمد، محبوب علی، محمود علی، تنظیم واسطی، سیّد محمود، یہ سب اسی سرکل کے گل ہاے سرسبد تھے۔ میں نے تین مراحل پر مبنی اسٹڈی سرکل کئی سال چلایا، اور یہی وہ دور تھا جس میں مسلم مجھ سے بے حد قریب ہوگئے۔ ان کا سب سے پہلا ادبی کارنامہ میرے ساتھ جمعیت کے دفتر پر ایک وال پیپر کی شکل میں ایک رسالے کا اجرا تھا، جسے ہم ہرہفتے تبدیل کرتے تھے اور جس میں دعوتی نکات کے علاوہ کچھ ہلکی پھلکی چیزیں بھی ہوتی تھیں۔ تاہم، اسٹوڈنٹس وائس میں مسلم کوئی کردار ادا نہیںکرسکے۔ اس رسالے میں راجا بھائی اور مَیں مرکزی کردار ادا کرتے تھے اور زبیرفاروقی، جمیل احمد خان، منظور احمد، انصار اعظمی اور جمیل احمد ہمارے قابلِ قدر معاونین تھے۔ حسین خاں اور محبوب الٰہی نے بھی کچھ عرصے کردار ادا کیا۔
مسلم کی فکری، اخلاقی اور تحریکی تربیت میں سب سے زیادہ حصہ ان کی والدہ ماجدہ کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خرم بھائی کی والدہ ایک مثالی والدہ تھیں۔ جماعت کی اوّلین ارکان میں سے تھیں اور انھوں نے اپنے سبھی بیٹے، بیٹیوں کی تربیت گہرے دینی شعور، بڑے شوق اور سلیقے سے کی۔ اس کے ساتھ گھر کی زندگی اور تحریکی زندگی میں بڑا حسین توازن قائم کیا۔ مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ مجھے اپنی اولاد ہی طرح سمجھتی تھیں۔ مشورے اور نصیحت میں کوئی فرق نہ کرتی تھیں اور زبانی ہی نہیں خطوں کے ذریعے بھی میری رہنمائی فرماتیں۔ اس زمانے میں میرا کردار صرف ان اسٹڈی سرکلز ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ ان تمام نوجوان ساتھیوں کے ساتھ علمی اورتحریکی دونوں ہی دائروں میں بڑا گہرا inter-action رہا۔ ہمارے درمیان ’استاد‘ اور ’شاگرد‘ کے رشتے کے ساتھ ساتھ رفاقت اور دوستی کا تعلق بھی پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں باہم افہام و تفہیم زیادہ کھلے طور پر ہوتی تھی۔ اس ضمن میں سوال، اعتراض، تنقید اور احتساب سبھی کا کچھ نہ کچھ کردار تھا، مگر تعلقات کا حُسن یہ تھا کہ ان میں برادرانہ محبت، پدرانہ شفقت، احترامِ استاد کے ساتھ دوستانہ رفاقت اور تحریکی نقدواحتساب کا ایک صحت مند امتزاج نہ صرف موجود تھا، بلکہ محسوس کیا جاسکتا تھا___ اور یہ الحمدللہ، تحریک اسلامی کی نعمتوں میں سے ایک بیش قیمت نعمت ہے۔
مسلم کے ساتھ جو رشتہ اور تعلق اسٹڈی سرکل سے شروع ہوا تھا، وہ ماہ نامہ چراغِ راہ میں ان کے ادارتی تعاون سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا۔ ۱۹۵۸ء میں یہ سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۰سال چراغِ راہ کے دور میں اور پھر ۲۰سال ترجمان القرآن کے زیرسایہ یہ تعلق مستحکم تر ہوتا گیا۔ مَیں بے حد خوش نصیب ہوں کہ زندگی کے ہر دور میں مجھے بڑے لائق، مخلص اور تعاون کرنے والے ساتھی ملے۔ Student's Voice، New Era اور Voice of Islam کے دور میں ظفراسحاق انصاری کا بھرپور تعاون ملا، اور یہ تعلق باقی زندگی میں بھی دسیوں شکلوں میں جاری و ساری رہا۔ چراغِ راہ میں محمود فاروقی، مسلم سجاد، ممتاز احمد، نثاراحمد کا تعاون، ماہ نامہ The Criterion میں سیّدمنور حسن اور کوکب صدیق کا تعاون، اور ترجمان القرآن میں مسلم سجاد، سلیم منصور خالد، رفیع الدین ہاشمی اور عبدالغفار عزیز کی رفاقت۔ ان تمام ساتھیوں کی مخلصانہ اور اَن تھک کوششوں کے بغیر وہ خدمت انجام نہیں دی جاسکتی تھی، جو اللہ تعالیٰ نے ان اداروں سے لی۔ اس پر ہرلمحے اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے۔
مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ترجمان القرآن کی ادارتی ذمہ داریوں کا بڑا بوجھ مسلم ہی پر تھا۔ خرم بھائی کی طبیعت جب زیادہ خراب ہوئی اور دسمبر ۱۹۹۵ء کے بعد انھیں خاصا وقت انگلستان میں گزارنا پڑا، تو ہم دونوں کی نگاہ مسلم ہی پر پڑی کہ ان کو وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر لاہور منتقل ہونے اور پرچے کی روزمرہ کی ذمہ داری سنبھالنے کی ترغیب دیں اور مسلم نے کسی تامل کے بغیر یہ ذمہ داری قبول کرلی۔خرم بھائی نے پانچ سال ترجمان کی ادارت کی ذمہ داری ادا کی ہے، یعنی ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک۔ ان کے آخری سال ادارتی امور کی عملاً ذمہ داری مسلم ہی پر تھی اور اس زمانے میں ہمیں یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ کس خوش اسلوبی سے یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
خرم بھائی دسمبر۱۹۹۶ء میں ہم سے رخصت ہوئے اور جنوری ۱۹۹۷ء میں یہ ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ اس پورے عرصے میں مضامین کا حصول، ان کی ترتیب و تدوین، اہلِ قلم سے ربط و تعلق، انتظامی عملے سے رابطہ، یہ سب کام مسلم ہی بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ بلاشبہہ اہم اُمور پر وہ مجھ سے مشورہ کرتے تھے، کہیں شک یا اضطراب ہوتا تو معاملہ میری طرف بڑھا دیتے، لیکن عملاً سارا کام وہی انجام دیتے رہے۔ بلاشبہہ اس میں عزیزی سلیم منصور خالد، برادرم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مولانا عبدالمالک، عزیزی عبدالغفار عزیز ، حافظ محمد ادریس، برادرم ظفرحجازی، امجدعباسی اور دیگر مجلس ادارت کے ارکان کا تعاون بھی شامل ہے، لیکن شدید بیماری کے چند مہینوں کو چھوڑ کر بنیادی ذمہ داری مسلم ہی نے انجام دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی گراں قدر خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اپنی بیش بہا نعمتیں اور انعامات ان پر نچھاور فرمائے۔
اداراتی اُمور میں اتنے انہماک اور کارکردگی کے ساتھ وہ پرچے کی اشاعت میں اضافے کے لیے بھی ہرلمحہ سرگرم رہتے تھے۔ جس وقت خرم بھائی نے یہ ذمہ داری قبول کی تھی ترجمان القرآن کی اشاعت چھے ہزار تھی۔ خرم بھائی اور مسلم کی ہمہ جہتی کوششوں سے یہ ۱۹۹۶ء تک ۲۲ہزار پر پہنچ گئی، جو الحمدللہ اِس وقت ۳۴ہزار سے زیادہ ہے۔ لیکن ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۹ءکے درمیان یہ اشاعت ۳۸ سے ۵۰ہزار تک بھی رہ چکی ہے۔ اشاعت کے فروغ میں تحریکی ساتھیوں اور حلقوں کا تعاون تو اصل چیز ہے اور اس کی منصوبہ بندی اور اس کے لیے مسلسل کوششوں میں مسلم بھائی کا بڑا حصہ ہے۔
مسلم کے علمی ذوق اور ادبی صلاحیتوں کا ادراک تومجھے اسٹڈی سرکل کے زمانے سے تھا، لیکن ان کی تنظیمی صلاحیتوں کی دریافت کراچی میں ’سمع و بصر‘ کے ادارے کے قیام کے زمانے میں ہوئی۔ اس میں برادرم شاہد شمسی کا بھی حصہ تھا لیکن ان میدانوں میں کام اور نئے نئے تجربات کے سلسلے میں جس ندرت اور creativity [خلّاقیت]کا مظاہرہ مسلم نے کیا، وہ ان کی شخصیت کے اس پوشیدہ پہلو کو آشکارا کرنے کا ذریعہ بنا۔ اسی زمانے میں ان کا ایک منفرد کارنامہ تفہیم القرآن کو صفحۂ قرطاس کے ساتھ ویڈیو اور دوسرے برقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے حق کے متلاشیوں تک پہنچانے کے پراجیکٹ کو سوچنے اور عمل میں ڈھالنے کی کاوش ہے۔ جس کے لیے پوری تفہیم القرآن برادرم عبدالقدیر سلیم، سیّد سفیرحسن اور عظیم سرور نے دل کش آواز میں ریکارڈ کرائی۔ اسی طرح انھوں نے خود ترجمان القرآن کے تمام شماروں کو ۱۹۳۲ء سے آج تک الیکٹرانک ریکارڈ کی شکل میں فراہم کرنے کی خدمت انجام دی جو ’محفوظات‘ کے نام سے دستیاب ہے۔ اس کے ساتھ ’منشورات‘ کی شکل میں ایک کامیاب طباعتی ادارہ قائم کیا اور بڑے اچھے معیار پر، اچھی کتابوں اور دعوتی کتابچوں کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ مسلم نے ادارتی اور تنظیمی دونوں صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے ہم سب کو بے حد متاثر کیا اور ان کی کوشش ہمیشہ رہی کہ خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھیں۔
اس سلسلے میں وہ دوسروں کی لاپروائی اور بے اعتنائی کا شکوہ بھی کرتے رہتے تھے اور کبھی کبھی اس تنقید و احتساب میں اپنے کھرے پن کو کھردرے پن تک لے جاتے تھے۔ لیکن ان کی تنقید کا مقصد دوسروں کی تحقیر نہیں بلکہ اصلاح کا جذبہ اور معیار کے معاملے میں دوسروں کی سہل انگاری پر گرفت ہوتا تھا۔ میں نے اس ۶۶سالہ تعلق کے دوران ان کی تنقید میں دوسروں کی تحقیر کا پہلو نہیں دیکھا، اگرچہ اپنی افتادِ طبع کے مطابق وہ حسبِ توفیق آزادی (Liberty) لینے میں تکلف نہیں برتتے تھے(بعض اصحاب اس ’آزادی‘ کو پسند نہیں کرتے تھے)۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے بھی مسلم کا تعلق تعاون اور خیرخواہی کا تھا۔ تعلیم کے میدان میں ان کی کئی علمی کاوشیں آئی پی ایس کے زیراہتمام شائع ہوئیں۔ مجلّہ تعلیم کے بھی کئی شمارے انھوں نے اور برادرم سلیم منصور خالد نے مرتب کیے۔
ان کی علمی اور تحریکی خدمات میں خرم بھائی کی چیزوںکی تلاش، حفاظت اور طباعت سرفہرست ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ خرم بھائی کی اُردو میں جو چیزیں آج موجود ہیں، ان کا نصف سے زیادہ اثاثہ مسلم کی محنت اور خرم بھائی سے وفاداری کا تحفہ ہے، جزاھم اللہ خیر الجزاء۔
مسلم کا قرآن سے تعلق بچپن ہی سے گہرا رہا ہے۔ نماز اور نمازِ باجماعت کے باب میں بھی انھوں نے غیرمعمولی شوق اور اہتمام کی مثال قائم کی ہے۔ افراد اور خصوصیت سے اپنے قریبی ساتھیوں کے مسائل میں دل چسپی اور خاموشی سے ان کی مدد اور تعاون بھی ان کی شخصیت کا بڑا دل آویز پہلو تھا۔ بارہا مجھ سے بڑے دُکھ اور کرب کے ساتھ اپنے کسی ساتھی کی مشکل کے علم میں آنے کا ذکر کیا، اور اس مشکل میں ان کا بوجھ کم کرنے کے لیے مَیں نے حسبِ توفیق کردار ادا کیا، اور یہ سب بڑی خاموشی اور حقیقی انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ کیا۔
نام و نمود اور ظاہرداری سے مسلم کی زندگی بالکل پاک تھی۔ سادگی، قناعت اور خیرخواہی ان کا شعار تھا۔ بس زبان کے معاملے میں تھوڑے سے بے باک تھے۔ خرابی اور بُرائی جہاں نظر آتی اور جہاں تضاد اور رخصت کی فراوانی نظر آتی، اس پر تنقید اور احتساب سے وہ اپنے کو روکنے پر قادر نہیں پاتے تھے اور اس سلسلے میں زبان اور قلم دونوں ہی کا سہارا لیتے تھے۔ لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ یہ تنقید و احتساب: نہ خودپسندی اور خودپرستی کی پیداوار تھے اور نہ دوسروں کی تحقیر یا ان کو اذیت دینے کے جذبے اور محرک کا نتیجہ تھے۔ یہ ان کے خلوص اور اصول پرستی اور تحریک کے سلسلے میں معیارِ مطلوب کے شوق اور لگن کی پیداوار تھے۔ گو الفاظ کے انتخاب میں کبھی کبھار ان کی شوخی اپنی حدود سے بڑھ جاتی تھی اور دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بھی ہوجاتی تھی، لیکن میں نے ان کی بات میں malice (بدخواہی یا عناد)کا کوئی شائبہ نہیں دیکھا۔ کئی بار دوسروں کے ردعمل پر انھوں نے اپنے اضطراب کا اظہار بھی کیا اور تلافیِ مافات کی بات بھی کی، جس سے ان کے خلوص اور دیانت کی خوشبو آتی ہے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے مسلم کی پہلی کتاب مخلوط تعلیم پر تھی، جو اسلامی جمعیت طلبہ نے شائع کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کتاب کی تحریک مَیں نے ہی کی تھی اور اس کی تیاری، تحقیق اور تسوید میں میرا تعاون اور حوصلہ افزائی کا بھی ایک حصہ تھا۔ لیکن اس کتاب نے ان میں اعتماد پیدا کیا اور اس طرح یہ کتاب ان کی علمی، تحقیقی، تجزیاتی اور ادبی زندگی کا ایک نیا باب کھولنے کا ذریعہ بنی۔
مسلم کو دمے کی بیماری لڑکپن ہی سے تھی اور پھر یہ ان کی جیون ساتھی بن گئی۔ گذشتہ چند برسوں سے ذیابیطس اور دل کی بیماری نے بھی ڈیرے ڈال لیے تھے۔ دو تین بار ہسپتال میں کچھ دن گزارنے کی نوبت بھی آئی۔ گذشتہ برس طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوگئی تھی، جس کے بعد کراچی چلے گئے اور چار مہینے وہاں گزارے۔ لاہور اور کراچی میں مسلم بھائی کی تیمارداری اور علاج معالجے کے لیے، جس محبت، توجہ اور مثالی انداز سے ان کے بیٹے عزیزم انس حماد نے خدمت کی، اس پر اللہ تعالیٰ اجرعظیم سے نوازے___لاہور واپسی پر مسلم خوش تھے اور باربار مجھے یقین دلایا کہ اب میں بہت بہتر ہوں۔ ۲۷؍اگست کو پائوں پھسل گیا تھا، جس سے کچھ چوٹ آئی۔ میں نے ان کے بڑے بیٹے انس سے اصرار کیا کہ ایکسرے کرائیں، جو ۲۸کو کرایا اور مجھے فون پر اطلاع دی کہ: ’’کوئی فریکچر نہیں ہے اور مَیں بالکل ٹھیک ہوں‘‘۔ یہ پاکستانی وقت کے مطابق چار ساڑھے چار بجے سہ پہر ان سے میری آخری بات تھی۔ مگر اس کے چار گھنٹے کے بعد یہ اَلم ناک اطلاع آئی کہ مسلم بھائی، اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ مسلم نے اللہ سے وفاداری کا جو عہدکیا تھا، اسے مقدور بھر پورا کرنے میں پوری زندگی کوشش کی اور اسی کوشش کے دوران جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اپنی رحمت اور جنّت کے اعلیٰ مقامات سے ان کو نوازے!
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰) اے نفسِ مطمئن! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنّت میں۔