اکتوبر ۲۰۱۶

فہرست مضامین

زم زم کا تذکرہ

ڈاکٹر فضیلت بانو | اکتوبر ۲۰۱۶ | تاریخ و سیر

Responsive image Responsive image

بی بی ہاجرہ ؑ جب مکہ کی اس تنگ وادی میں جو چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھری ہوئی تھی مشیت ایزدی اور غیبی اشارے سے ٹھیرگئیں، پانی ختم ہونے پر ماں بیٹے نے شدید پیاس محسوس کی۔ لگتا تھا کہ پیاس کی شدت سے دونوں جان گنوا دیں گے۔ اس ریت کے صحرا میں دُور دُور تک پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حضرت ہاجرہ ؑ نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر دُور حدِ نگاہ تک نظر دوڑائی مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔ پریشانی کے عالم میں کبھی ایک ٹیلے پر جاتیں، کبھی دوسرے پر۔  اس طرح انھوں نے سات چکر کاٹ لیے۔ ساتویں چکر کے بعد ذرا دم لینے بیٹھیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں اسماعیل ؑ لیٹے ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں اللہ کے حکم سے ایک چشمہ جاری ہوگیا تھا اور پانی تیزی سے اُبل رہا تھا۔ پانی کو روکنے کے لیے بی بی ہاجرہ ؑ نے اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر کہا: زم زم، ٹھیرٹھیر۔ اسی دن سے اس چشمے اور پانی کا نام زم زم ہوگیا۔

حضرت اسماعیل ؑ نے جوان ہوکر قبیلہ جرہم کی ایک خاتون سے شادی کی۔ ان کے ۱۲بیٹے تھے۔ حضرت اسماعیلؑ کے بعد ان کے بڑے بیٹے نبایوط زم زم کے متولی بن گئے۔ ایک طویل عرصے تک مضاض کی اولاد زم زم کی نگہبانی کے منصب پر فائز رہی۔ یہاں تک کہ عرب کے قبیلہ بنوخزاعہ نے زم زم کو بنی جرہم سے چھین لیا۔ جرہم کے سردار عمر بن حارث نے جب متاع زم زم چھنتی دیکھی تو زم زم کو بند کر کے اس کا نام و نشان مٹا دیا۔

پانچویں صدی عیسوی میں آلِ اسماعیل کو سردار قصی بن کلاب کی ہمت اور بہادری کے باعث بیت اللہ کی نگہبانی کا منصب پھر حاصل ہوا۔ قصی کی چوتھی پشت میں عبدالمطلب آتے ہیں جواپنی دانش مندی اور معاملہ فہمی کی وجہ سے قبیلے میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ احمد بن عبدالجبار نے یونس بن بکیر کی وساطت سے ابن اسحاق کی یہ روایت نقل کی ہے کہ عبدالمطلب بن ہاشم   بن عبدمناف ایک دن کعبہ کے پاس مقامِ حجر میں سو رہے تھے کہ حالت ِ خواب میں کسی آنے والے نے انھیں زم زم کھودنے کا حکم دیا۔ کیوںکہ چاہِ زم زم بنی اسماعیل ، اکبر اور جرہم کے اقتدار کے بعد سے اٹ کر گم ہوگیا تھا اور اس کی جگہ اور مقام کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ اب عبدالمطلب کو اس کے برآمد کرنے کا حکم دیا گیا۔

خواب میں غیبی اشارہ ملنے کے بعد عبدالمطلب قریش کے پاس آئے اور کہا: اے معشرِقریش!  مجھے زم زم کھودنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ کو بتایا گیا ہے کہ زم زم کہاں ہے؟ تو آپ نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر قریش نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ دوبارہ اپنی اسی خواب گاہ میں جائیں۔ اگر آپ کا خواب حقیقتاً اللہ کی طرف سے ہوا اور سچا ہوا تو اس کی مزید وضاحت ہوجائے گی اور اگر یہ شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ ہوا تو شیطان پھر لوٹ کر نہیں آئے گا۔

عبدالمطلب نے ایسا ہی کیا۔ وہ واپس آئے اور اپنی خواب گاہ مقامِ حجر میں آکر سو گئے۔ اُن کے خواب میں پھر کوئی آیا اور آنے والے نے کہا: ’’برہ کو کھودو‘‘۔ عبدالمطلب نے پوچھا: ’برہ‘ کیا چیز ہے؟ یہ سنتے ہی اشارہ کرنے والا غائب ہوگیا۔ اگلے دن عبدالمطلب اپنی اسی خواب گاہ میں سو رہے تھے۔ وہ اشارہ کرنے والا پھر ظاہر ہوا اور کہا:’’مضنونہ کو کھودو‘‘۔ عبدالمطلب نے پوچھا کہ ’مضنونہ ‘کیا چیز ہے؟ اس پر اشارہ کرنے والا چلا گیا۔

تیسرے دن عبدالمطلب اپنی اسی خواب گاہ مقامِ حجر کے قریب سو رہے تھے کہ وہ اشارہ کرنے والا پھر آیا اور عبدالمطلب سے کہا کہ ’’طیبہ کو کھودو‘‘۔ آپ نے پوچھا کہ ’طیبہ‘ کیا ہے؟ اس پر وہ پھر چلا گیا۔ چوتھے روز پھر ایسا ہی ہوا۔ عبدالمطلب اپنی آرام گاہ میں سو رہے تھے کہ اشارہ کرنے والا پھر خواب میں دکھائی دیا اور اس نے کہا کہ ’زم زم‘ کی کھدائی کرو۔ آپ نے پوچھا کہ  ’زم زم‘ کیا ہے تو اس نے کہا: وہ کبھی خشک نہ ہوگا اور نہ اس کے پانی ہی میں کمی ہوگی۔ بتانے والے نے خواب میں ’زم زم‘ کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے اس کے محلِ وقوع کے بارے میں نشان دہی بھی کردی اور کہا کہ اگر تُو نے اسے برآمد کرلیا تو نادم نہ ہوگا۔ یہ تیرے جدِاعلیٰ کی میراث ہے۔ یہ چشمہ کبھی خشک نہ ہوگا اور نہ اس کے پانی ہی میں کبھی کمی واقع ہوگی۔ یہ حجاج کی ایک کثیرتعداد کو بھی سیراب کرتا رہے گا۔ جو گروہوں کی شکل میں آتے رہیں گے اور جوق در جوق جاتے رہیں گے۔ نذر ماننے والے اس کے پاس آکر حاجت مندوں کے لیے اپنی اپنی نذریں گزاریں گے۔ یہ تیری میراث ہے اور یہ تیرے حق میں اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ اُن دوسرے چشموں کے مانند نہیں ہے جنھیں تو جانتا ہے، بلکہ یہ گوبر اور خون کے درمیان میں سے نکلنے والے خالص دودھ کی طرح پینے والوں کے لیے نہایت خوش گوار ہوگا۔

یہ سن کر عبدالمطلب نے پوچھا: وہ کہاں ہے؟ جواباً کہا گیا کہ چیونٹیوں کے بِلوں کے پاس جہاں کو ّا کل چونچ مارے گا۔ اگلے دن صبح کے وقت عبدالمطلب اپنے بیٹے حارث کو ساتھ لے کر نکلے۔ اس وقت حارث کے سوا ان کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ دونوں نے چیونٹیوں کا بِل دریافت کیا اور دیکھا کہ اس کے پاس ہی کوّا چونچ مار رہا تھا اور یہ جگہ اساف اور نائلہ بتوں کے درمیان تھی جہاں پر قریش جانور ذبح کیا کرتے تھے۔

ابن اسحاق کی روایت کے مطابق: پھر عبدالمطلب کدال لے کر آگئے اور کھدائی کرنے کے لیے اُٹھے۔ جب قریش نے دیکھا کہ وہ ٹلنے والے نہیں تو انھوں نے عبدالمطلب سے کہا: بخدا ہم آپ کو ان دونوں بتوں کے درمیان سے کھودنے کی اجازت نہیں دیں گے جن کے پاس ہم جانور ذبح کرتے ہیں۔ عبدالمطلب نے اپنے بیٹے حارث سے کہا: مجھے کھدائی کرنے دو، خدا کی قسم! مجھے جو حکم دیا گیا ہے مَیں اس کی تعمیل ضرور کروں گا۔ جب قریش نے دیکھا کہ عبدالمطلب کا فیصلہ اٹل ہے تو انھوں نے کھدائی میں مزاحمت ترک کر دی اور چلے گئے۔زیادہ وقت نہ گزرا کہ پختہ کنواں اور ہتھیار اور سامان کا گٹھا برآمد ہوا۔ عبدالمطلب نے نعرئہ تکبیر بلند کیا۔ قریش کے لوگوں کو معلوم ہوگیا اور وہ سمجھ گئے کہ عبدالمطلب نے سچ کہا تھا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ چنانچہ قریش کے سب لوگ اکٹھے ہوگئے اور عبدالمطلب سے کہنے لگے کہ یہ ہمارے باپ اسماعیل کا کنواں ہے۔ اس لیے اس پر ہمارا بھی حق ہے۔ ہمیں بھی اس میں اپنے ساتھ شریک کرو۔ عبدالمطلب نے جواب دیا: میںا یسا نہیں کروں گا۔ یہ خاص طور پر مجھے دیا گیا ہے اور تم میں سے کسی کو نہیں دیا گیا، مگر سب نے مل کر کہا کہ ہمیں بھی حصہ دار بنائو ورنہ ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے، خواہ اس معاملے میں ہمیں آپ سے جھگڑا کرنا پڑے۔

عبدالمطلب نے کہا: اچھا تو اس کے لیے ایک حَکم مقرر کرلیا جائے جو اس معاملے کو نمٹادے۔ اس پر قریش کے لوگ متفق ہوگئے اور انھوں نے بنی سعد بن ندیم کی ایک عورت کاہنہ کا نام تجویز کیا جو شام کے بالائی علاقے میں رہتی تھی۔

عبدالمطلب اپنی برادری کے ایک گروہ کی معیت میں عازمِ سفر ہوئے اور قریش کے دیگر قبیلوں میں سے ایک جماعت بھی فریق ثانی کی حیثیت سے ساتھ روانہ ہوئی۔ اس زمانے میں  شام اور حجاز کے درمیان بے آب و گیاہ جنگل و صحرا تھے۔ جب یہ قافلہ شام و حجاز کے درمیان بیابانوں میں سے کسی ویران جگہ پہنچا تو عبدالمطلب اور ان کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کے پاس پانی ختم ہوگیا اور انھیں یقین ہوگیا کہ وہ پیاس سے ہلاک ہوجائیں گے۔ انھوں نے فریق ثانی سے پانی مانگا تو انھوں نے پانی دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمیں بھی تمھاری طرح ہلاکت کا خوف ہے۔

ان حالات میں عبدالمطلب نے اپنے ساتھیوں سے ان کی راے دریافت کی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری راے آپ کی راے کے تابع ہے۔ آپ جو بھی حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ عبدالمطلب نے کہا کہ میری راے تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہرکوئی اپنی طاقت کے مطابق   ایک ایک گڑھا کھودے تاکہ ہم میں سے جب کوئی ہلاک ہوجائے تو اس کا ساتھی اسے اس گڑھے میں ڈال دے اور چھپا دے۔ عبدالمطلب کے ساتھیوں نے ایک ایک گڑھا کھودا اور موت کا انتظار کرنے لگے۔ پھر عبدالمطلب نے کہا: خدا کی قسم! ہمارا اس طرح اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈال دینا اور اِدھر اُدھر پانی کی تلاش میں جدوجہد نہ کرنا ہماری کمزوری کی علامت ہے۔ چلو یہاں سے کوچ کریں شاید اللہ تعالیٰ ہمیں سیراب کردے۔ یہ سن کر سب اُٹھ کھڑے ہوئے۔

عبدالمطلب بھی اُونٹنی کی طرف بڑھے اور اس پر سوار ہوگئے۔ جب عبدالمطلب کی اُونٹنی اُٹھی تو اس کے پائوں کے نیچے سے میٹھے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا۔ سب نے اپنی اُونٹنیوں کو بٹھا دیا اور اپنی سواریوں کو روک لیا۔ عبدالمطلب نے بھی اپنی اُونٹنی کو بٹھا دیا۔ پھر سب نے پانی پیا اور سفر کے لیے بھی ذخیرہ کرلیا اور جانوروں کو بھی پلایا۔ پھر اپنے دوسرے قریشی ساتھیوں کو بھی بلایا کہ آئو دیکھو ہمیں اللہ تعالیٰ نے پانی عنایت فرمایا ہے۔ وہ سب آئے، انھوں نے بھی پانی پیا اور بھر بھی لیا۔ اس کے بعد قریشی ساتھیوں نے کہا: اے عبدالمطلب خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ نے آپ کے حق میں فیصلہ صادر فرما دیا ہے۔ وہ ذات جس نے بیابان میں آپ کو سیراب کیا ہے اسی نے آپ کو زم زم بھی  عطا کیا ہے۔ چلو واپس چلیں زم زم آ پ ہی کا ہے۔ ہم اس معاملے میں آپ سے جھگڑا نہیں کریں گے۔

ایک روایت کے مطابق قریش واپس چلے گئے۔ واپس آکر عبدالمطلب نے پھر کھدائی شروع کر دی۔ انھوں نے زیادہ کھدائی کی تو سونے کے دو ہرن دستیاب ہوئے۔ یہ وہ ہرن تھے جو جرہم نے مکہ سے نکلتے وقت دفن کیے تھے۔

ابن اسحاق ہی کی روایت ہے کہ زم زم کی کھدائی کے دوران جنابِ عبدالمطلب کو دو ہرنوں کے علاوہ تلواریں بھی ملیں۔ قریش نے کہا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ان برآمد شدہ چیزوں کے حق دار ہیں اس لیے ہمیں بھی ان میں شریک کیا جائے۔

عبدالمطلب نے جواب دیا: ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہاں، یہ ہوسکتا ہے کہ تم میرے ساتھ اس معاملے کا فیصلہ منصفانہ طریقے پر کرلو اور قرعہ اندازی پر رضامند ہوجائو۔

قریش نے پوچھا: آپ کیا طریقہ اختیار کریں گے؟

عبدالمطلب نے کہا: کعبہ کے لیے دو تیر، تمھارے لیے دو تیر، اور اپنے لیے دو تیر مقرر کروں گا اور جس کے لیے جو چیز نکلے گی وہ اسی کو ملے گی۔ قریش نے کہا: آپ نے انصاف کی بات کی ہم اس طریقے پر رضامند ہیں۔ چنانچہ دو زرد تیر کعبہ کے لیے، دو سیاہ تیر عبدالمطلب کے لیے، اور دوسفید تیر قریش کے لیے مقرر کر دیے گئے۔ پھر یہ قرعہ انداز کے سپرد کر دیے گئے۔ عبدالمطلب دُعا کے لیے کھڑے ہوگئے اور انھوں نے یہ اشعار پڑھے:

اے اللہ! تو ستودہ صفات بادشاہ ہے اور تُو ہی میرا پروردگار ہے جس کے قبضۂ قدرت میں زندگی اور موت ہے۔ تُو بلند و بالااور مضبوط سلسلہ ہاے کوہ کو تھامے ہوئے ہے اور جدید سازوسامان اور قدیم موروثی مال و متاع کا عطا کرنے والا تُو ہی ہے۔ اگر تُو چاہے تو الہام کردے کہ یہ زیورات اور لوہے کے اوزار کہاں رکھے جائیں؟ اے احکام کے صادر فرمانے والے! مَیں تیرے فیصلے کا پابند ہوں۔ پس تُو آج اپنے ارادے کو بالوضاحت ظاہر فرما دے۔ اے پروردگار! اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ میں اس سے رُوگردانی نہیں کروں گا۔

تیرانداز نے تیر ڈالے تو دونوں زرد تیر دونوں ہرنوں پر کعبۃ اللہ کے لیے نکلے۔ عبدالمطلب نے دونوں ہرن کعبہ کے دروازے پر نصب کر دیے۔ یہ پہلا سونا تھا جس سے کعبۃ اللہ کو آراستہ کیا گیا۔ دونوں سیاہ تیر عبدالمطلب کے حق میں تلواروں اور زرہوں پر نکلے۔

اللہ عزوجل نے زم زم کی کھدائی کے بارے میں عبدالمطلب کی رہنمائی فرمائی اور انھیں خاص طور پر اس اعزاز کے لیے منتخب کیا۔ جب عبدالمطلب نے زم زم برآمد کرلیا تو اللہ عزوجل نے قوم کی نظروں میں ان کی بزرگی اور قدر و منزلت میں اضافہ کر دیا۔ لوگ زم زم کی برکت و فضیلت کی وجہ سے اسی کی طرف رجوع کرنے لگے کیوںکہ یہ مسجد ِ حرام میں تھا اور اسی سے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کو سیراب کیا تھا۔ یہ حضرت اسماعیل ؑ بن ابراہیم ؑ کا چشمہ تھا۔ جب حضرت اسماعیل ؑ کو صغرسنی میں پیاس محسوس ہوئی تھی تو اللہ نے ان کو اس چشمے سے ہی پانی پلایا تھا اور وہ سیراب ہوئے تھے۔

عبداللہ بن ابی نجیح نے مجاہد کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ مجاہد نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کہ جب حضرت اسماعیل ؑ کو پیاس لگی تو جبریل ؑ نے اپنی ایڑی سے کھدائی کرکے زم زم کا چشمہ جاری کر دیا۔

 حضرت ابوذرغفاریؓ سے روایت ہے کہ جب وہ آغازِ اسلام کے زمانے میں آنحضرتؐ کی خبر سن کر مکہ آئے تو ان کو پورے ایک مہینے تک بارگاہِ نبوت میں حاضری کا موقع نہ مل سکا۔ اُن کے پاس کوئی زادِ راہ بھی موجود نہ تھا صرف زم زم کا پانی پی کر مدت بسر کی اور مَیں بھوک کے ضعف کا کوئی اثر محسوس نہیں کرتا تھا۔(مسلم)

حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ زم زم کا پانی بھوک کے وقت غذا اور بیماری کی حالت میں شافی دوا کا کام کرتا ہے۔

زم زم کا پانی پاک و مطہر اور ہرقسم کی ملاوٹ سے پاک ہے۔ زم زم جنّت کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے۔ یہ روے زمین پر سب سے عمدہ، افضل اور خیروبرکت والا پانی ہے۔ یہ پانی بھوک کے لیے کھانا اور بیمار کے لیے شفا ہے۔ یہ پانی سردرد کے لیے مفید ہے اور بینائی کو تیز کرتا ہے اور جسم و جاں کو توانائی بخشتا ہے اور قوتِ ہاضمہ کو بہتر کرتا ہے۔