تنظیمِ وقت (Time Management) ایک ایسی صلاحیت کا نام ہے جس کی بنیاد آپ کی اپنی ذات ہے۔ جب تک آپ اپنی ذات کی بہتری اوراصلاح نہیں کرلیتے اس وقت تک آپ اپنے مہیا وقت کو بہتر طریقے سے استعمال نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اپنی ذات کی تنظیم ،بہتری ، ترقی اوراخلاق اور کردار میں بڑھوتری کی کوشش آپ کی تنظیمِ وقت کی صلاحیت کو نکھا ر دے گی۔
تنظیمِ وقت کے حوالے سے پانچ مراحل ترتیب دیے گیے ہیں۔ ان مراحل کے ذیلی حصے بھی ہیں۔ اپنی تربیت ، تزکیہ، ترقی، اپنی ذات کی ترتیب اور اپنی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے ان نکات پر غور کیجیے۔
کامیابی کے لیے چند مطلوبہ صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ ان میں اہم ترین یہ ہیں:
دفتری زندگی میں کامیابی کے لیے آپ کو ان باتوں پر عمل کرنا ہوگا:
کامیابی معین اہداف کے حصول کا نام ہے، چاہے وہ دینی ہوں یا دنیاوی۔ ان کا انسان کی انفرادی، خاندانی یا معاشرتی، غرض زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق ہو سکتا ہے۔ انسان جب ان اہداف کو حاصل کرلیتا ہے تو اسے نہ صرف خوشی اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے بلکہ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ زندگی کی شاہراہ پر کافی آگے نکل گیا ہے۔
خوش بختی ایک نفسیاتی اطمینان اورخوشی کی کیفیت کا نام ہے جو خُدا کے دیے پر قناعت اور اس کی رضا پر راضی رہنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔خوش بختی کا سر بستہ راز خداے واحد پر ایمان، بندگی کے کلی مفہوم کی صحیح سمجھ اور اس کی عملی تطبیق میں مضمر ہے۔بندگی کا مفہوم ایک کلی مفہوم ہے جس میں ایک مسلمان کا ہر ہر شعبہ رنگا ہونا چاہیے۔کامیابی کا تصور اس وقت ایجابی اور صحیح سمت رواں ہو گا جب تک وہ بندگی کے تصور سے پیوستہ رہے گا اور اگر یہ تصور بندگی کے تصور سے مربوط نہیں تو لازماً منفی اور غلط نتیجے تک پہنچ کر رہے گا۔
کامیابی کا جوہر اور اس کا راز بعض اہم بنیادی اصولوں کے جان لینے اور ان کی مسلسل مشق کرنے میں مضمر ہے۔ذیل میں کامیابی کے سانچوں ، دائروں اور میدانوں کو ایک چارٹ کی صورت میں پیش کیا جارہاہے:
کامیابی کے دائرے اور سانچے
کامیابی کے میدان
رویے
عادات
صلاحیتیں
ٹکنالوجی، ٹولز اور فنی صلاحیت
ذاتی
تعلیمی
معاشی
خاندانی
معاشرتی
اس مضمون کے مطالعے کے بعد آپ اوپر دیے ہوئے خانوں کو اپنی ضرورت کے مطابق پنسل سے بھرنے کی کوشش کیجیے تاکہ آپ اپنی ذات کے متعلق فیصلہ کرسکیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مضمون میں جو اشارات دیے گئے ہیں ان میں ہر ایک کے ساتھ ایک چیک بکس بناہوا ہے۔ اسے آپ اپنی ضرورت کے مطابق پنسل سے نشان لگائیں گے تو آپ کو اپنی بہتری کی منصوبہ بندی آسان ہوجائے گی۔
اخلاقی اقدار: ان بنیادی اخلاقی اقدار پر بھرپور توجہ دیجیے:
قیادت عوام کے کسی گروہ کو ایک طے شدہ سمت میں بلا جبر کام پر آمادہ کرنے کا نام ہے۔ قیادت ایک کردار بھی ہے اور لوگوں کو متاثر کرنے کا ایک طریقۂ عمل بھی۔ قائد کسی گروہ کا ایک ایسا رکن ہوتا ہے جسے کوئی عہدہ یا ذمہ داری دی جاتی ہے اور اس سے اس منصب کے شایان شان کام کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔
قیادت کی خوبیوں میں درج ذیل عناصر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے:
ایک قائد کو ان چیزوں کے متعلق علم اور مہارت ہونا چاہیے:
پیر وکاروں اور کارکنان کے بیانات سے سامنے آنے والے ایک قائد کے عناصر درج ذیل ہیں:
درج ذیل سوالوں کے جوابات دے کر اپنی منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کیجیے:
اپنی عادات کا جائزہ لیں، انسان عادات کے ذریعے بھت کچھ حاصل کرتا یا گنواتا ھے۔ وقت، مال اور صلاحیتوں کو ضائع کرنے والی خراب عادات کو ترک کر کے ان کی جگہ عمدہ عادات کو اپنی شخصیت کا حصہ بنالیں:
روحانی، عقلی اور جسمانی صحت کا خاص خیال رکہیں، ان کی حفاظت کے اصولوں پر عمل پیرا رھیں تاکہ زندگی کی نعمتوں سے صحیح انداز میں لطف اندوز ھو سکیں:
اس بات کا خیال رکھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ من الستوٰی یوماہ فھومغبون ’’وہ شخص تباہ ہوگیا جس کے دو دن کارکردگی کے لحاظ سے ایک جیسے رہے‘‘۔ اس حدیث پر عمل کا تقاضا یہ ہے کہ ہمار ا آج گذشتہ کل سے بہتر ہو، اور ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہو۔ اس پر عمل کے لیے رات کو سونے سے پہلے احتساب کی، اور صبح کام شروع کرنے سے پہلے منصوبہ بندی، ترجیحات اور ترتیب کی ضرورت ہے۔
اے اللہ! توہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی ، درمیانی حصے کو بہبودی، اور آخری حصے کو کامرانی بنادے۔ آمین!
تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست
(اس مضمون کی تیاری میں ذاتی مطالعے کے نوٹس اور مغربی مصنفین کی کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے: کامیابی کا سفر ، مصنف،ڈاکٹر ابراہیم بن حمدالعقید ترجمہ ،خدیجہ ترابی، ناشر مکتبہ خواتین میگزین، لاہور۔ رہنمائے تربیت، ہشام الطالب، ترجمہ شاہ محی الحق فاروقی، ناشر ادارہ فکر اسلامی، اسلام آباد)
عمومی زندگی میں ہمارے معاملات افراد‘ معاشرہ اور اداروں سے ہوتے ہیں۔ ہماری شخصیت کا اظہار ہمارے معاملات کے انداز‘ ہمارے گفتگو کے طریقے اور اس کے رویے سے ہوتا ہے۔ ہم کبھی کسی ایک فرد سے معاملہ کر رہے ہوتے ہیں‘ کبھی چھوٹے سے گروپ کے ساتھ‘ کبھی تنظیم اور کبھی عوام الناس کے ساتھ۔ عام طور پر یہ دائرہ فرد‘ گروپ اور تنظیم یا ادارے تک محدود رہتا ہے۔ اس فرد‘ گروپ اور تنظیم یا ادارے میں گھر‘ گھرکے افراد‘ اہل خانہ‘ دوست ‘ احباب‘ رشتے دار‘ پڑوسی‘ دفتر کے لوگ‘ کاروباری حلقہ اور سماجی‘ معاشرتی‘ مذہبی اور سیاسی تنظیمیں آجاتی ہیں۔ ہمیں ان ہی کے ساتھ معاملات کرنے ہوتے ہیں اور ان ہی معاملات کے باعث ہماری شخصیت کی قدر ہوتی ہے۔
ذیل میں اسی حوالے سے معاشرتی‘ معاملاتی اور استحکامی عناصرکے نکات پیش کیے جاتے ہیں۔ ان پر غور کیجیے اور لائحہ عمل بنایئے تاکہ لوگ آپ کو قبول کر لیں اور کچھ عرصے کے بعد لوگ آپ کے بارے میں تبصرہ کریں کہ: ع کتنا بدل گیا ہے انسان!
لوگ عام طور پر ان خوبیوں اور باتوں کو پسند کرتے ہیں:
ضد‘ غصے اور ہٹ دھرمی کے بغیر اپنی بات کو سمجھانے اور منوانے کی صلاحیت پیدا کیجیے۔ اس بات کے حوالے سے منطق کے چار سوالات اپنی ذات سے ضرور پوچھ لیجیے۔ امید ہے ان چار سوالات کے جوابات ہی آپ کا ۵۰ فی صد مسئلہ حل کر دیں گے:
۱- میں کیا بات کر رہا ہوں (کیا‘what)۔ علم کی طرف اشارہ ہے۔
۲- یہ بات کیوں کر رہا ہوں (کیوں‘why)۔ اس بات کا مقصد کیا ہے۔ آپ کے رویے کی جانب اشارہ ہے۔
۳- یہ بات کیسے کی جائے (کیسے‘ how)۔ اس کا تعلق طریقہء کار سے اور آپ کی بات کرنے کی صلاحیت سے ہے۔
۴- یہ بات کب کی جائے (کب‘ when)۔ اس کا تعلق وقت کی مناسبت سے ہے۔
کسی گفتگو اور کام سے پہلے آپ کے ذہن میں یہ چار سوالات اور ان کے جوابات ہیں تو آپ موثر‘ مستعد اور کامیاب ہیں۔ بات کرنے اور بات منوانے کا سلیقہ آپ کو بہت اچھا سیلزمین‘ مبلغ اور داعی بنا دے گا۔
معاشرتی مطابقت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے رویے کے ذریعے دوسروں پر اعتماد کا اظہار کریں۔ اس کے باعث لوگ اپنی ذات میں اعتماد محسوس کریں گے اور آپ کے ساتھ اور آپ کے لیے کام کریں گے۔
گفتگو میں چڑچڑے پن اور ضد سے بچتے ہوئے اپنے دلائل میں نرمی اور شائستگی پیدا کیجیے۔ یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی ہوگی۔
اس دنیا اور معاشرے میں ہم ہر ایک سے لڑ کر اور حجت اور دلیل بازی کے ساتھ نہیں رہ سکتے‘ مفاہمت پیدا کیجیے۔ ہر چیز کو اپنی انا کا مسئلہ مت بنایئے۔ جہاں جھکنا ضروری ہو وہاں جھک جایئے۔ کرکٹ کی دنیا میں آج تک ’’چھکا‘‘ اُچھل کر نہیں لگا ہمیشہ جھک کر لگا ہے۔ ذیل کی تمثیل امید ہے گھریلو زندگی اور کاروباری و سماجی معاملات میں مدد دے گی۔
ایک دریا کے اُوپر لکڑی کا ایک فٹ چوڑا پل تھا۔ اس پل پر ایک طرف سے ایک بکرا آ رہا تھا۔ وہ ابھی بیچ پل پر ہی پہنچا تھا کہ دوسری طرف سے دوسرا بکرا آگیا۔ دونوں آمنے سامنے ہو گئے۔ آوازیں تیز ہوگئیں اور قریب تھا کہ دونوں دریا میں گرتے‘ اسی اثنا میں ایک بکرے نے دوسرے کو تجویز پیش کی کہ ’’یار میں بیٹھ جاتا ہوں تو میرے اوپر سے گزر جا‘‘۔ اس نے ایک لمحے کی قربانی‘ اپنی اَنا کی قربانی دے کر دونوں کو ایک بڑے سانحے سے بچا لیا۔ یہی لمحے ہیں جس میں اَنا اور ’’میں‘‘ انسان کو تباہ کر دیتے ہیں اور قوموں کو صدیوں تک نقصان پہنچتا ہے۔ کہتے ہیں کہ لمحوں نے غلطی کی اور صدیوں نے سزا پائی۔
ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے دینی اور دنیاوی معاملات میں بھی ان جیسی مثالوں سے سبق نہیں لیتے اور قرآن اور احادیث کی روشنی میں عمل اور ردعمل کے بجائے شیطان کی آگ میں جھلس جاتے ہیں یا ڈوب جاتے ہیں۔
مفاہمت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم:
__ دوسروں کے نقطۂ نظر کو سننے اور اس کے بعد سمجھنے کی کوشش کریں۔
__ اپنے نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے حقائق پیش کیجیے اور بغیر حقائق اپنی رائے مت پیش کیجیے۔
__ ہمیشہ موقع شناس رہیے مگر خود غرض مت بنیے۔ موقع دیکھ کر بات کرنے کوشش کیجیے۔ اچھے اور بہتر انداز سے بات کرنے کی کوشش کیجیے۔
__ تبدیلی قبول کرنے کے لیے اپنی قوت فیصلہ کی تربیت کیجیے۔
__ جب آپ کسی واقف سے ملیں تو خوش اخلاقی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملیں‘ اور اگر وہ اجنبی ہے تب بھی اپنا تعارف کرانے کے بعد خوش اخلاقی اور مسکراہٹ کے ساتھ پیش آیئے۔
__ مجلس میں ‘ لوگوں میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیجیے۔
__ مثبت رویے کا اظہار کیجیے۔
__ پہلی ہی ملاقات میں بہت زیادہ وعدہ مت کر لیجیے ورنہ پریشان ہوں گے۔
جن اداروں سے آپ وابستہ ہوں‘ تو ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں جنھیں پورا کرنا ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ کے لیے آگے بڑھنے کی راہیں کھلتی رہیں گی۔ یہ صفات معاون ثابت ہوسکتی ہیں:
__ ادارے کے ذمہ داروں کی طرف سے دی گئی ہدایات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت۔
__ اپنے ذمہ دار‘ برابر اور ماتحت افراد کے ساتھ تعاون کرنے کی صلاحیت۔
__ بھروسا کرنے کی صلاحیت۔
__ کام کو چیلنج سمجھنے اور اسے اُمنگ کے ساتھ کرنے کی صلاحیت۔
__ نئے نئے کام اور ٹکنالوجی کو سیکھنے کا جذبہ اور ترقی کرنے کی صلاحیت۔
__ وفاداری اور ایمان داری کی صلاحیت۔
__ تنقید قبول کرنے کی صلاحیت۔
__ اپنے حصے کا کام اچھے‘ موثراور احسن طریقے سے اور وقت پر کر کے دینا۔
__ اوقات کی پابندی۔
__ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لینا اورمعافی مانگ لینا۔
__ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت۔
__ صحیح انداز میں ہدایات دینے کی صلاحیت۔
__ اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی صلاحیت۔
ہماری شخصیت دیگر افراد کے ساتھ معاملات میں پہچانی جاتی ہے۔ ہر انسان اپنے اپنے طور پر دوسرے کو پہچانتا ہے۔ دیگر افراد کے ساتھ جب ہم معاملہ کرتے ہیں تو چند صفات ایسی ہیں جن کی موجودگی ہماری شخصیت کو محکم اور موثر بناتی ہے۔ ان میں حسن خلق‘ سچائی‘ تواضع‘ حلم اور وفاے عہد شامل ہیں۔ ان صفات کے باعث آپ خود بھی مطمئن رہیں گے‘ لوگ بھی آپ سے خوش رہیں گے‘ اور آپ کے لیے بھی آگے بڑھنے میں آسانی ہوگی۔ ضروری نہیں ہے کہ ان صفات کو جب آپ اپنائیں تو دوسرے بھی انھی صفات کے ساتھ پیش آئیں۔ اس معاملے میں بعض اوقات مایوسی بھی ہوتی ہے مگر ہم اپنے عزم صمیم کے ذریعے ہی ان صفات پر قائم رہ سکتے ہیں۔
یہ ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جو امورِ باطنہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے کسی انسان میں اس فضیلت کا وجود اس کے آثار و ثمرات ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے اور باطن کی اس روشنی کا عکس ظاہری علامات ہی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ حسن خلق کی تعریف یوں کی گئی ہے:
انسان اگر خدا کی معرفت و رضا یا مخلوق پر رحم و کرم کی خاطر اپنے اصل درجے اور رتبے سے کم پر راضی ہو جائے ‘ یا خود کو پست کر دے‘ تو اس فضیلت کو تواضع کہیں گے۔ وضع (ذلت) اور تواضع میں بڑا فرق ہے۔ وضع (ذلت) ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان اپنے حظ ِ نفس کی خاطر اپنی ذلت و رسوائی اور نفس کی اہانت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ علامہ زبیدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تواضع‘ خدا کی ذات و صفات کی معرفت‘ اس کے جلال و جبروت اور محبت و علم اور اپنے نفس کے عیوب و نقائص کے علم سے پیدا ہوتی ہے جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جناب میں انکسارِ قلب اور مخلوق کے حق میں رحم اور نیازمندی کے ساتھ جھک جانے کا نام ہے‘اور جو پستی اور اہانت حظوظ نفس کی خاطر‘ خودداری اور عزت نفس کو مٹا کر اختیار کی جاتی ہے اس کا نام ذلت ہے۔ پہلی صفت فضیلت اور دوسری رذلت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کے لیے بشارت ہے جو نفس کو ذلیل کیے بغیر تواضع کا حامل ہے۔
غیظ و غضب کے جوش کے وقت اور ایسے اسباب کے پیدا ہونے کے وقت جن سے غضب میں ہیجان پیدا ہو‘ اس پر قابو پانے کا نام ’’کظمِ غیظ‘‘ ہے‘ اور یہی صفت جب انسان میں فطرت بن جائے اور مستحکم ہو جائے تو اس صفت کو حلم کہا جا تا ہے۔ حلم ایسی فضیلت ہے جو انسان کے کمالِ عقل‘ غلبۂ فرزانگی اور قوتِ غضب کے مقہور و مغلوب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس فضیلت کے ساتھ اگرچہ ہر فرد کو متصف ہونا چاہیے لیکن رہنما‘ قائد اور قوم کے ہادی‘ اہل منصب‘ ذمہ داران‘ کونسلر‘ سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں اوردفتر کے افسروں اور مینجر حضرات کے لیے اس صفت کا وجود ازبس ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان حضرات کو قدم قدم پر ایسی آزمایشوں اور امتحانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے جن میںغصہ‘ غضب اور غیظ کا جوش میں آجانا معمولی بات ہے۔ ایک بار غصہ کرنے کے بعد خود آپ کو بھی کام کرنے میں تکلیف ہو گی اور آپ دوسروں سے بھی کام نہیں لے سکیں گے اور پورا دن پشیمانی میں گزاریں گے‘ اور لوگ تضحیک کے ساتھ آپ کے غصے اور غیر ضروری غضب کا ذکر کریں گے۔
کہتے ہیں کہ غصہ حماقت سے شروع ہوتا ہے اور ندامت پر ختم ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میں صفت حلم موجود ہے وہ سردار ہے اور جس میں سمجھ حاصل کرنے کا شوق ہے ‘ اس میں سمجھ بڑھنے کے لیے راہ کھل جاتی ہے۔
ادبا کا قول ہے جس شخص نے حلم کا درخت بویا اس نے سلامتی کا پھل پایا۔
وفاے عہد زبان و عمل کی یک رنگ سچائی کا نام ہے‘ اور غدر ان دونوں کی خلاف ورزی کا نام ہے۔ وفاے عہد ‘ انسانیت کے مخصوص فرائض میں بہت بڑا فرض ہے۔ اس لیے جو شخص وفاے عہد سے خالی ہے وہ درحقیقت شرفِ انسانیت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایمان میں شمار کیا ہے اور لوگوں کی عملی زندگی کے لیے اس کو سربراہِ کار ٹھیرایا ہے۔ کیونکہ انسان ایک ایسی ہستی کا نام ہے جس کے لیے باہمی تعاون لازمی ہے‘ اور باہمی تعاون وعدے کی رعایت اور عہد کی وفا کے بغیر ناممکن ہے۔ اگر ان کو درمیان سے الگ کر دیا جائے تو تعاون کے بجائے دلوں میں نفرت و وحشت جاگزیں ہو جائے اور معیشت و زندگی ہر قسم کی تباہ کاریوں سے دوچار ہونے لگے۔
قرآن حکیم میں ہے : اچھے وہ ہیں جو اپنے بار امانت اور عہد کے محافظ ہیں۔ وعدہ وفائی کا معاملہ سیاسی رہنمائوں کو بھی سوچنا چاہیے‘ افسروں اور ماتحتوں کو بھی اور فیکٹری کے مالکان اور دکان داروں کو مال کی سپلائی کے سلسلے میں بھی سوچنا چاہیے۔
ذیل میں تعمیرشخصیت کے حوالے سے چند اشارات پیش کیے جاتے ہیں:
امریکی دانش ور بنجمن فرینکلن نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں اخلاقی تکمیل کے سلسلے میں درج ذیل خوبیوں کا تذکرہ کیا ہے:
(۱) اعتدال --- اتنا نہ کھائو کہ طبیعت کند ہو جائے‘ زیادہ نہ پیو۔
(۲) خاموشی --- وہی بات زبان پر لائو جس سے تمھیں یا دوسروں کو فائدہ پہنچے۔ فضول گفتگو سے پرہیز کرو۔
(۳) نظم و ترتیب --- تمام چیزیں ان کے مقامات پر رکھو۔ کاروبار کے ہر حصے کے لیے وقت مقرر کر لو۔
(۴) عزم--- جو کچھ کرنا چاہیے اس کا پختہ ارادہ کر لو۔ جس کا ارادہ کر لو اسے پورا کیے بغیر کبھی نہ چھوڑو۔
(۵) صرف زر--- خرچ نہ کرو مگر وہی جس سے دوسروں کو یا خود تمھیں فائدہ پہنچے‘ یعنی کوئی چیز ضائع نہ کرو۔
(۶) محنت و مشقت --- کوئی وقت نہ گنوائو۔ ہر لحظہ کسی مفید کام میں مشغول رہو۔ غیر ضروری سرگرمیاں بالکل ختم کر دو۔
(۷) دیانت داری --- کسی نقصان رساں فریب سے کام نہ لو۔ منصفانہ اور معصومانہ سوچو۔ بولو تو اسی انداز میں بولو۔
(۸) انصاف--- دکھ پہنچا کر کسی کو رنجیدہ نہ کرو۔ ان خدمات سے احتراز نہ کرو جو تمھارے فرائض میں داخل ہیں۔
۹- میانہ روی --- افراط و تفریط سے بچو۔ جن گزندوں سے غصہ پیدا ہو‘ انھیں اس حد تک برداشت کر لو جس حد تک ضروری ہے۔
۱۰- صفائی اور نظافت--- جسم‘ لباس یا جائے سکونت میں کسی قسم کی گندگی برداشت نہ کرو۔
۱۱- طمانیت --- چھوٹے چھوٹے واقعات یا عام اور ناگزیر حوادث پر پریشان نہ ہو۔
۱۲- پارسائی --- اپنے کردار کو بہتر بنائو‘ لالچ سے پرہیز کرو‘ ذاتی مفاد کے چکر سے بچو۔
۱۳- انکسار--- طبیعت میں انکسار اور اخلاص پیدا کرو۔ تکبر اور مفادپرستی سے پرہیز کرو‘ ورنہ یہ عادت نہ صرف انسان بلکہ پوری قوم کو تباہ کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔
علامہ ابن جوزی ؒ اپنی کتاب منہاج القاصدین کے باب غوروفکر میں فرماتے ہیں:
ہر ایک مرید کے پاس ایک کتاب ہونی چاہیے جس میں وہ تمام صفات مہلکہ اور تمام صفات نافعہ‘ اور تمام معاصی و طاعات کو درج کرے اور ہر روز ان کا مطالعہ کیا کرے۔ ہمارے نزدیک ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ۱۰ چیزوں پر غور کر لینا کافی ہے۔ اگر ان سے بچ گیا تو دوسری چیزوں سے بھی بچ جائے گا۔ وہ یہ ہیں: (۱) بخل (۲) کبر (۳) عجب (۴) ریا (۵) حسد (۶) شدت غضب (۷) کھانے کی حرص (۸)جماع کی حرص (۹) مال کی محبت (۱۰) جاہ کی محبت۔
اسی طرح نجات دلانے والی ۱۰ چیزوں پر غور کرے جو یہ ہیں: (۱) گناہوں پر ندامت (۲)مصیبت پر صبر (۳) تقدیر پر راضی رہنا (۴) نعمتوں پر شکر کرنا (۵) امید و خوف کا معتدل ہونا (۶) دنیا سے بے رغبتی (۷) اعمال میں اخلاص (۸) لوگوں کے ساتھ حسن سلوک (۹) اللہ کی محبت (۱۰) خشوع۔
جب بری خصلتوں میں سے ایک سے نجات پا لے تو اپنی کتاب میں اس پر لکیر کھینچ دے اور اب اس کے متعلق سوچنا چھوڑ دے اور اس کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ یہ سمجھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مدد سے ہوا ہے۔ پھر باقی نو کی طرف توجہ کرے اور اس طرح کرتا جائے۔ یہاں تک کہ سب پرلکیر کھینچ دے۔ اس کے بعد اپنے نفس سے نجات دلانے والی صفات سے متصف ہونے کا مطالبہ کرے اور جب ایک کے ساتھ متصف ہو جائے تو اس پر خط کھینچ دے اور باقی میں مشغول ہو جائے۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپؐ کی سنت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:
اب ہم محسن انسانیتؐ کی چند ان احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں جن کا تعلق شخصیت کی تعمیر کے اخلاقی عناصر سے ہے۔
الف- حضرت معاذ بن جبلؓ نے بیان فرمایا کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ۱۰ باتوں کی وصیت فرمائی:
۱- اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنانا اگرچہ تو قتل کر دیا جائے اور تجھے جلا دیا جائے۔
۲- اپنے ماں باپ کی نافرمانی ہرگز نہ کرنا اگرچہ تجھے حکم دیں کہ اپنے گھر والوں کو اور مال و دولت کو چھوڑ کر نکل جا۔
۳- فرض نماز ہرگز قصداً نہ چھوڑنا کیونکہ جس نے قصداً فرض نماز چھوڑ دی اس سے اللہ کا ذمہ بری ہوگیا۔
۴- شراب ہرگز مت پینا کیونکہ وہ بے حیائی کی جڑ ہے۔
۵- گناہ سے بچنا کیونکہ گناہ کی وجہ سے اللہ کی ناراضی نازل ہوتی ہے۔
۶- میدان جہاد سے مت بھاگنا اگرچہ (دوسرے) لوگ (تیرے ساتھی) جاں بحق ہو جائیں۔
۷- جب لوگوں میں (وبائی) موت پھیل جائے اور تووہاں موجود ہو‘ تو وہاں جم کر رہنا (اس جگہ کو چھوڑ کر مت جانا)۔
۸- اور جن کا خرچہ تجھ پر لازم ہے (بیوی بچے وغیرہ) ان پر اچھا مال خرچ کرنا۔
۹- اور ان کو ادب سکھانے کے پیش نظر ان سے اپنی لاٹھی ہٹا کر مت رکھنا۔
۱۰- ان کو (اللہ کے احکام و قوانین) کے بارے میں ڈراتے رہنا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
ب- حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو مجھ سے‘ یہ باتیں (جو میں بتانا چاہتا ہوں) حاصل کرے۔ پھر ان پر خود عمل کرے یا کسی ایسے شخص کو بتا دے جو ان پر عمل کرے۔ میں نے عرض کیا: یارسول ؐاللہ! میں ایسا کروں گا۔ چنانچہ آپؐ نے میرا ہاتھ پکڑا اور پانچ باتیں (پانچوں انگلیوں پر) گنائیں:
۱- حرام چیز سے بچ‘ تو سب سے زیادہ عابد ہوگا۔ ۲- جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس پر راضی رہ‘ تو سب سے زیادہ مال دار ہوگا۔ ۳- اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کر‘ تو مومن ہوگا۔ ۴- لوگوں کے لیے وہ پسند کر جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘ تو مسلم ہوگا۔ ۵- زیادہ نہ ہنس کیونکہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کر دیتی ہے۔
ج- حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایسے ڈھل مل ارادے والے نہ بنو کہ یوں کہا کرو کہ لوگ ہمارے ساتھ احسان کریں گے تو ہم بھی کریں گے‘ اور وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی کریں گے (ایسا نہ کرو) بلکہ اپنے آپ کو اس چیز کی مشق کرائو کہ دوسرے احسان کریں تو تم بھی احسان کرو۔ اور اگر تمھارے ساتھ برا برتائو کریں تو بھی تم ظلم نہ کرو۔ (مشکوٰۃ المصابیح‘ ترمذی)
د- امام ابوداؤد ؒنے ۵ لاکھ احادیث لکھیں اور ان میں سے تقریباً ۵ ہزار احادیث کو منتخب کر کے سنن ابوداؤد میں درج کیا۔ ان کا قول ہے کہ اگر کوئی ان میں سے چار احادیث کو پکڑ لے تو وہ اس کے دینی فہم کے لیے کافی ہو جائے:
ہ- امام شافعیؒ نے سورہ عصر کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر لوگ اس سورہ پر غور کریں تو یہی ان کی ہدایت کے لیے کافی ہے۔ اس کے اندر مختصر الفاظ میں معنی کی ایک دنیا بھر دی گئی ہے۔ اصحاب رسولؐ میں سے جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملتے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ایک دوسرے کو سورہ عصر نہ سنا لیتے۔ (طبرانی)
وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۵ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (العصر ۱۰۳:۱-۳)
زمانے کی قسم‘ انسان درحقیقت خسارے میں ہے‘ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے‘ اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
تربیت اور تعمیر شخصیت کے حوالے سے اب ہم ان عناصر کا مطالعہ کریں گے جن کا تعلّق فکرکی تربیت اور عقل سلیم سے ہے۔
الف- ایک شخص‘ گائوں سے اپنے رشتے دار کو شہر دکھانے کے لیے لے آیا۔ شہری نے اپنا مکان دکھایا۔ سب چیزیں حیران کن تھیں۔ مگر جب شہری نے اسے باتھ روم دکھایا تو اس کی حیرانی اور بھی بڑھ گئی۔ اسے وہاں کوئی بالٹی‘ ڈرم اور مٹکے وغیرہ نظر نہ آئے جن میں پانی بھرا ہوا ہو۔ وہ یہی سوچتا رہا کہ بہ ظاہر یہ لوگ اتنے ترقی یافتہ ہیں مگر بغیرپانی کے کیسے گزارا کرتے ہوں گے۔
گائوں کے شخص کے ذہن میں تہذیب و تمدّن کی ایک علامت پانی کا استعمال تھا۔ وہ اسے وہاں نظر نہیں آیا اس لیے فوراً ہی وہ حیرانی میں مبتلا ہو گیا۔ اس کی نظر ان پائپ لائنوں اورنلکوں کی طرف نہیں گئی جنھیںعقل نے سہولت کا ذریعہ بنایا کہ پانی بھرنے کی تکلیف سے انسان بچ جائے۔ بعض لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہی سوچ میں گم ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا اپنا طریقۂ کار ہی سب سے بہتر ہوتا ہے‘ باقی لوگوں کو کم تر سمجھتے ہیں--- اپنی سوچ کے اس جال سے باہر آنے کی کوشش کیجیے۔
ب- ایک امریکی وسط ایشیا کے کسی علاقے میں گیا۔ وہاں ابھی تک بجلی نہیں پہنچی تھی۔ علاقے کے باسی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ اس باشندے نے امریکی سے اپنے مٹی کے تیل سے جلنے والے فانوس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا امریکہ میں یہ چیز استعمال ہوتی ہے؟اس نے جواب دیا: کہیں کہیں‘ بہت کم۔
باشندہ یہی سمجھا کہ امریکہ اتنا پس ماندہ ہے کہ وہاں روشنی کا یہ ذریعہ ابھی پہنچا ہی نہیں‘ اور اسے امریکیوں کی غربت پر افسوس بھی ہوا۔ مگر صورت حال یہ تھی کہ اس شخص نے مٹی کے تیل سے جلنے والے فانوس ہی کو ترقی کی علامت سمجھا تھا اور اسی کی امریکہ میں موجودگی کے متعلق سوال کیا تھا‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں بجلی اور توانائی کا استعمال ہو رہاتھا۔
ہم لوگوں کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہے۔ ہماری بھی عجیب قسم کی کیفیت ہے۔ ہمارے اپنے ترقی کے تصورات ہیں‘انھی سے ہم دوسروں کو ناپتے ہیں۔ ہم نظارہ اور مشاہدہ نہیں کرتے‘ بس اپنے ہی قفس میں بند رہتے ہیں اور اسی کو کائنات سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اس ذہنی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کیجیے اور اقدار کو ناپنے کے پیمانے تبدیل کیجیے۔
ج- کہتے ہیں کہ جب آٹوموبائل (موٹرگاڑی) ایجاد ہوئی تو اس زمانے میں امریکہ ہی کا کوئی دیہاتی جاگیردار نیویارک شہر پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ وہاں گاڑیاں جو کہ اپنے ابتدائی مرحلے میں تھیں اور گھوڑا گاڑی سے مشابہت رکھتی تھیں‘ کافی تیزی سے سفر کر رہی تھیں۔ اس دیہاتی نے معلومات حاصل کیں کہ وہ اتنی تیز کیسے چلتی ہیں۔ لوگوں نے بتایا ‘ان میں ہارس پاور مشین لگی ہوئی ہے۔ اس شخص نے معلومات حاصل کر کے کسی فیکٹری سے ہارس پاور مشین خریدی اور اپنے دیہات آگیا‘ اور پھر اس مشین کو اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق گھوڑا گاڑی میں فٹ کر دیا اور اسے مع گھوڑا چلانے کی کوشش کی۔ گھوڑا اپنی عمومی رفتار سے بھاگ رہا تھا۔ دیہاتی پریشان تھا کہ ہارس پاور مشین کے لگنے کے باوجود اس کی گھوڑا گاڑی میں وہ تیزی پیدا نہیں ہوئی جو کہ نیویارک میں اس کے مشاہدہ میں آئی تھی۔
وہ شخص نیویارک کی گاڑی کی ہیئت اور ترکیب کا مطالعہ نہ کر سکا کہ اس ہارس پاور مشین کو لگانے کے لیے گھوڑے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ گاڑی کے نظام میں بنیادی تبدیلی کرنی پڑتی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ گھوڑا گاڑی اور موٹرگاڑی دو مختلف نظاموں کی شکلیں ہیں۔ ایک کی چیز دوسری میں لگا کر کام نہیں چلایا جا سکتا ہے۔
کچھ یہی کیفیت ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو کہ مغرب اور امریکہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور ان کی چند چیزوں کو ہمارے معاشرے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جب کہ دونوں معاشروں کی بنیادیں بالکل مختلف ہیں۔ اس کے لیے ہمیں عقل کے استعمال کی ضرورت ہے۔
فکری طور پر شخصیت کی تعمیر کے لیے ہمیں درج ذیل عناصر کی تربیت کی ضرورت ہے:
۱- عقل انسانی: عقل انسان کے بڑے بڑے مسئلے حل کر دیتی ہے۔ ایک واقعہ ہے کہ کسی زیرتعمیر گیراج کی دیوار میں ایک سوراخ تھا۔ پرندہ سیمنٹ کی اس دیوار کے اندر سوراخ میں گر چکا تھا۔ یہ سوراخ تقریباً ۳۰ انچ گہرا‘ ۴ انچ لمبا اور ڈیڑھ انچ چوڑا تھا۔ گیراج کی تعمیر میں کام کرنے والے مزدور بہت پریشان تھے کہ اس بچے پرندے کو باہر کیسے نکالیں۔
ایک ۱۰ سالہ لڑکا وہاں کسی کام سے پہنچ گیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا۔ کچھ دیر دماغ لڑانے کے بعد اس نے ریت کا ایک ڈولچہ لیا اور پھر مٹھی بھر کے آہستہ آہستہ ریت سوراخ میں گراتا گیا۔ سوراخ جیسے جیسے ریت سے بھرتا جاتا‘ بچہ اُوپر اٹھتا آتا۔ تقریباً ایک گھنٹے کی کوشش کے بعد اس لڑکے کی کوشش سے بچہ باہر نکل آیا۔
اس لڑکے نے یقینا اپنے ذہن کے ذریعے بہت سارے حل تلاش کیے ہوں گے۔ اس ترکیب کے استعمال نے اسے کامیابی عطا کی۔ بے شک اس نے عقل کو استعمال کیا۔ درحقیقت عقل سلیم کا یہ استعمال بہت سارے مسائل حل کر دیتا ہے۔
واقعات میں آتا ہے کہ ایک شخص پیاس کے باعث بہت پریشان تھا۔ اسے کنواں نظر آیا مگر ڈول نہیں تھا۔ وہ نیچے اترا ‘ پانی پیا اور باہر نکل آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے زبان نکالے کھڑا ہے۔ اس شخص کو احساس ہوا کہ اسے بھی میری طرح پیاس لگی ہوگی۔ ڈول تو نہیں تھا‘ مگر اس نے عقل استعمال کی۔ نیچے اترا‘ اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھرا اور اسے منہ سے پکڑ کراُوپر لے آیا اورکتے کو پانی پلایا۔ روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس نیکی کے باعث بخش دیا۔ اس شخص نے کیا کیا۔ اسے احساس تھا‘ ہمدردی ہوئی‘ اور عقل کو استعمال کیا اور کامیابی کی بشارت ہو گئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے ابتدائی زمانے میں حجراسود کا مسئلہ چادر کے ذریعے حل کر کے ایک بہت بڑی ممکنہ جنگ کو ختم کیا اور ہر ایک کومطمئن‘ شریک اور خوش کر کے سب کی جیت کا تصور دیا۔ انسان نے عقل کے استعمال سے نئی نئی غذائوں کے راز دریافت کیے‘ نئے نئے ریشوں سے لباس بنائے‘ بڑے بڑے پل‘ فلک بوس عمارتیں‘ کارخانے‘ گھر اور مختلف مقاصد کے لیے بے شمار چیزیں پیدا کر لیں۔ اس نے زمین سے معدنی چیزیں نکالیں اور انھیں لوہے‘ ایلومینیم‘ سیسے‘ تانبے‘ ٹین اور دوسری دھاتوں کی شکل دے دی۔ یہ دریافت کر لیا کہ ایندھن محفوظ طریقوں پر کیونکر جلایا جا سکتا ہے۔ عقل کے استعمال سے لاتعداد مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ نصب العین اور مقاصد زندگی کو سامنے رکھ کر اور اپنی ذات کے مفاد کو بیچ میں لائے بغیر یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے ذہن سے کام لے کر اسے عقل سلیم بنا دیں۔
۲- عقل معیار ہے: عقل سب سے بڑی بخشش ہے۔وہ اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ اسی سے نیکیوں کے اصول بنتے ہیں۔ انجام کا لحاظ کیا جاتا ہے‘ اور باریکیوں کو سمجھا جاتا اور فضائل حاصل کیے جاتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ کسی شخص کے اسلام کو اس وقت تک بلند مرتبہ نہ سمجھو جب تک کہ اس کی عقل کی گرفت کو نہ پہچان لو۔ ابوزکریا ؒ کا قول ہے کہ جنت میں ہر مومن اپنی عقل کے مطابق لذت حاصل کرے گا۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کا مقولہ ہے کہ عقل (انسان کی ایک طبعی صفت ہے جو اس کی ماہیت کے ساتھ) گڑی ہوئی شے ہے۔ محاسبی ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: عقل ایک نور ہے۔ ایک تعریف یہ ہے کہ عقل ایک قوت ہے جس کے ذریعے سے معلومات کی حقیقتوں کو جدا جدا کیا جاتا ہے۔ ایک اعرابی سے عقل کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس نے جواب دیا: عقل تجربات کا نچوڑ ہے جو بطور غنیمت ہاتھ لگ جائے۔ عقل فرق کو سمجھنے کا نام ہے۔ اسی عقل کا صحیح استعمال ہو اوردل میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے تو انسان تقویٰ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور یہی کیفیت حکمت کا سرچشمہ بن جاتی ہے جس سے علم و دانش کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
۳- ذہانت‘ فہم اور ذکاوت: ذہن وہ قوت ہے جو آرا حاصل کرنے کے لیے مستعد اور تیار ہوتاہے۔ فہم کی تعریف یہ ہے کہ کسی قول کو سنتے ہی اس کے معنی کا علم ہو جائے۔ ذکاوت فہم کی قوت کی تیزی کا نام ہے۔ اس کے معنی سمجھ کی پختگی کے بھی ہیں۔
۴- عقل کی تکمیل کے لیے ضروری صفات: علامہ ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں کہ کسی عاقل کی عقل پر اس کی مناسب موقع پر خاموشی اور سکون اور نیچی نظر اور برمحل حرکات سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ عقل مند اپنے فیصلے میں‘ خواہ کھانے پینے کے معاملے میں یا کسی قول و فعل کے معاملے میں‘اسی امر کو اختیار کرے گا جو انجام کے اعتبار سے اعلیٰ ہوگا‘ اور جس چیز سے نقصان ہوگا اس کو ترک کر دے گا‘ اور اسی کام کی تیاری کرے گا جس کا پورا ہونا ممکن ہو۔
حضرت ابوالدرداء ؓ سے مروی ہے‘ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ کیا میں عاقل کی علامتیں بتائوں؟ وہ یہ ہیں کہ اپنے سے بڑے کے ساتھ تواضع سے پیش آئے‘ چھوٹے کو حقیر نہ سمجھے۔ اپنی گفتگو میں بڑائی کے اظہار سے بچے۔ لوگوں کے ساتھ معاشرت میں ان کے آداب معاشرت کو ملحوظ رکھے اور اپنے اور خدا کے درمیان تعلّق کو سخت اور مضبوط رکھے تو وہ عقل مند ہے۔ وہ دُنیا میں اس تعلّق کو ہر نقصان سے بچاتا ہوا پھرتا ہے۔
وہاب بن منبہ سے منقول ہے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: اے بیٹے! انسان کی عقل کامل نہیں ہوتی جب تک اس میں دس صفات نہ پیدا ہو جائیں :
مکحول سے حضرت لقمان کا یہ قول مروی ہے‘ جو انھوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ انسان کے شرف و سرداری کی بنا حسنِ عقل پر ہے ۔ جس کی عقل اعلیٰ درجے کی ہوگی وہ اس کے تمام گناہوں کو ڈھک دے گی اور اس کی تمام برائیوں کی اصلاح کر دے گی۔ اس کو رضاے الٰہی حاصل ہو جائے گی۔ کسی کا قول ہے کہ بڑائی کی بات یہ ہے کہ کسی بڑے شخص کی عقل زبان سے بڑھی ہوئی ہو‘ یہ نہیں کہ زبان عقل سے بڑھی ہوئی ہو۔
۵- مثبت انداز فکر: حسن ظن‘ خوش گمانی اور مثبت انداز فکر تعمیر و ترقی شخصیت کے لیے اہم ہیں۔فکر کا یہ انداز انسان کو مایوسی سے بچاتا ہے اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ ایک گلاس میں نصف پانی ہو اور باقی خالی ہو تو مثبت فکر انسان کے لیے وہ آدھا بھرا ہوا ہے‘ جب کہ منفی فکر انسان کے لیے آدھا خالی ہے۔ اوّل الذکر شخص کی یہ سوچ زندگی کے عمومی معاملات پر حاوی ہوتی ہے۔ وہ تلخ و نامساعد حالات میں بھی امید اور اچھائی کا پہلو تلاش کرتا ہے۔ وہ ہر مشکل کو موقع سمجھتا ہے اور اسی سے اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔ دوسری طرف منفی فکر کا انسان عموماً قنوطیت‘ مایوسی اور احساس کمتری کا شکار رہتا ہے۔ ہر معاملے کے برے پہلو سے اس کی فکر اور قوت عمل میں کمزوری آتی ہے ‘وہ اولوالعزم نہیں رہتا۔ مثبت انداز فکر انسان میں قوت پیدا کرتا ہے۔ اس قوت کے ذریعے وہ اندھیروں میں ستاروں کی روشنی سے اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔
۶- شکر: شکر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو اس کی پسندیدہ چیزوں میں استعمال کیا جائے۔ ہروہ انسان جس نے کسی چیز کو ایسے کام میں استعمال کیا جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی تو اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران (ناشکری) کی۔ شریف انسان سے رذیل کام لینا بھی کفرانِ نعمت ہے۔ بہترین صلاحیتوں کے افراد سے معمولی معمولی کام لینا بھی کفرانِ نعمت ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہمیں جو وسائل (انسانی اور مادّی) دیے گئے ہیں ان کا صحیح انداز سے جائزہ لیں اور ان وسائل کو ان کے اوصاف اور قوتوں اور قابلیتوں کے مطابق استعمال کریں۔ یہ شکر کی عملی کیفیت ہے۔ دل کا شکر یہ ہے کہ نیکی اور بھلائی کا ارادہ کرے اور تمام مخلوق کا بھلا چاہے۔ زبان کا شکر یہ ہے کہ اللہ کی تعریف کرتا رہے۔ اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان کا احساس کرے۔ ایک قول ہے کہ نعمت ایک جنگلی جانور ہے اسے شکر کی زنجیروں سے باندھ کر رکھو۔ مثبت اندازِ فکر ‘ حسن ظن اور شکر‘ قوت عمل پیدا کرتے ہیں۔ انھیں اپنے مزاج کا حصہ بنا لیجیے۔
۷- احساس وجود: اپنے وجود کا احساس اور اس کے تقاضوں کی سمجھ بھی ضروری ہے۔ ہر انسان سونے اور چاندی کی کانوں کی مانند ہے۔ بات اسے استعمال کرنے اور اخذ کرنے کی ہے۔ اس سے انسان صاحب زر‘ زیور اور زیرک بن سکتا ہے۔ وجود کا احساس غصے اور سختی کے ساتھ حکم دینے سے نہیں کرایا جا سکتا۔ مگر اپنے ماحول میں ہم جو کرنا چاہتے ہیں اس میں کامیابی ضروری ہے۔ ہمیں دوسروں کے سامنے فوراً جھک نہیں جانا چاہیے۔ ہماری جو معلومات ہیں اور جس چیز کو ہم صحیح سمجھتے ہیں اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ جب پھول اپنی خوشبو پھیلا سکتے ہیں‘ پانی زمین کو نرم کر سکتا ہے‘ ہوائیں پتوں کو ہلا سکتی ہیں تو پھر ہم اپنے اخلاق اور قوت نافذہ سے اپنے ارد گرد اور معاشرے میں تبدیلی کیوں نہیں لا سکتے۔ دوسری طرف اگر اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو پھر بحث‘ ہٹ دھرمی کی علامت ہے اور ایسے موقع پر اعتراف میں عظمت ہے۔
۸- تجزیاتی صلاحیت: حالات و واقعات کا تجزیہ کرنا‘ ان کے اسباب پر غور کرنا‘ نتائج کی جانب دیکھنا اور اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اسے آپ تجزیاتی صلاحیت کا نام دے سکتے ہیں۔ کسی بات کے مثبت اور منفی پہلو پر غور کرنا اور اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ضروری ہے۔
۹- ارادہ و عزم: اپنے ارادے اور عزم کو بلند رکھیے اور اپنے عزائم کو صالح بنایئے اور ان کی عملی تنفیذ (عمل درآمد) کی کوشش کیجیے۔ محض عزم باندھنے اور عمل نہ کرنے سے دُنیا میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ مشکلات سے ڈرنا نہیں چاہیے‘ یہ تو انسان کو بنانے کے لیے آتی ہیں۔ ناکامیوں اور اندھیروں سے گھبرانا نہیں چاہیے‘ یہ تو ستاروں کی چمک کے اظہار کے لیے ضروری ہیں۔ شاہراہ حیات پر جب سرخ سگنل نظر آئے تو اسے ناکامی مت سمجھیے‘ چند لمحے آرام کیجیے اور سبز سگنل کا انتظار کیجیے۔ ان لمحوں میں قوت جمع کرنے کی کوشش کیجیے۔ مشکلات ہمیشہ نہیں رہتی ہیں‘ یہ تو قرب خداوندی کا باعث ہوتی ہیں۔ حبس سے مت گھبرایئے‘ یہ تو بارش کی علامت ہے۔ بس عزم کیجیے‘ اپنے مقاصد حاصل کیجیے۔
رابندر ناتھ ٹیگور نے عزم کی مثال دی ہے: شام کا وقت تھا اور سورج غروب ہو رہا تھا۔ ڈوبتے ہوئے سورج نے پوچھا :ہے کوئی جو میری جگہ لے۔ کسی جھونپڑے میں ایک دِیا تھا--- وہ ٹمٹما رہا تھا۔ اس نے جواب دیا: ہاں‘ میں کوشش کروں گا۔ اس نے اس گھر کی کائنات کو روشن کر دیا۔
اپنی مقدور بھر کوشش کیجیے اور ضرور کیجیے۔ نتائج کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیکھیے۔ نیت صاف ہوگی‘ محنت صحیح رُخ پر ہوگی اور وفاداری ہوگی تو پھر نتائج تو جو مطلوب ہیں وہی آتے ہیں بلکہ اس سے بہتر‘ اور اگر کسی وجہ سے نہ بھی مل سکیں تو آخرت کو کتنی دیر ہے۔ جس کی رضا کے لیے محنت کی ہے اس کے ہاں تو اجر باقی ہے اور وہ تو اپنے ظرف کے مطابق اجر دیتا ہے ؎
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
عزم کی ایک اور تمثیل ہے کہ کسی پہاڑ سے چشمہ پھوٹا اور پھر میدان میں ندی کی صورت اختیار کر گیا۔ میدان میں ایک شخص ٹہل رہا تھا۔ وہ اس منظر سے محظوظ ہو رہا تھاکہ پانی اپنا راستہ کیسے بناتا ہے۔ اس کی نظر ندی میں بہتے ہوئے ایک بچھو پر پڑی۔ اسے اس جانور پر ترس آیا۔ اور اس نے اسے نکال لیا۔ بچھو نے اپنا کام دکھایا‘ ڈس لیا‘ اور کود کر پھر ندی میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس شخص کو پھرخیال آیا اور اس نے پانی میں ہاتھ ڈال کر بچھو کو نکال لیا۔ بچھونے اپنا وہی کردار دہرایا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص کو بچھو کی جان کا پھر خیال آیا۔ اس نے جان بچانے کی کوشش کی اور بچھو نے اپنا وہی رویہ اختیار کیا۔ ایک اور شخص جو اس منظر کو دیکھ رہا تھا‘ اس سے رہا نہ گیا اور اس نے کہا: ’’ارے یہ حیوان ہے‘ اپنی حیوانیت نہیں چھوڑے گا ‘تم اپنی جان کیوں ہلاکت میں ڈال رہے ہو‘‘۔ بچھو کی جان بچانے کی کوشش کرنے والے شخص نے کہا:
’’جب ایک حیوان اپنی حیوانیت نہیں چھوڑ سکتا تو میں انسان اپنی انسانیت کیسے چھوڑ سکتا ہوں‘‘۔
یہ شخص اپنی انسانیت اور انسانی کردار کے بارے میں پرُعزم تھا اور اس نے عمل کر کے بھی دکھا دیا۔ ہم جس معاشرے میں ہیں وہاں درندگی‘ سفاکی‘ حیوانیت‘ بدعنوانی اور بے حیائی ہے۔ ہم جن کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں وہ احسان فراموش بن جاتے ہیں۔ ہم جن کی معاش میں مدد کرتے ہیں وہ ہمارا استحصال کردیتے ہیں۔ ہم جنھیں تربیت پرواز دیتے ہیں وہ اڑتے ہوئے ہمیں اپنے پنجوں میں جھپٹ لیتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آج کل ماحول کو دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
لیکن پھربھی فطرت انسانی کا تقاضا ہے کہ بروں کے ساتھ ہم برے نہ بنیں بلکہ اپنی انسانیت کو نہ چھوڑیں۔ مکافات عمل کا انتظار کیجیے۔زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔
۱۰- جوکھم (Risk): دنیا میں ہر کام کے کرنے میں جوکھم ہے۔ ہم میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ ہم اس جوکھم کا اندازہ کر لیں اور اپنے معاملات کی تیاری اس کے مطابق کریں۔ چھٹی حِس ‘ ذہنی صلاحیتوں میں ایک اہم حِس ہے۔ قدآور شخصیات میں یہ حِس کارفرما ہوتی ہے۔
فرض کیجیے آپ سو رہے ہیں اور چولہے میں آگ روشن چھوڑ دی۔ ایک شرارہ اُڑا اور اس نے مکان کو جلا ڈالا۔ ایسی حالت میں آپ کا یہ عذر نہیں سنا جائے گا کہ ’’اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میں نیند کی حالت میں کس طرح چنگاریاں اور شرارے اُڑنے سے روک سکتا تھا‘‘۔ اس معاملے میں آپ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم تھا کہ آپ عنقریب سونے والے ہیں اور نیند کی تیاری کر چکے ہیں اور اس بات کا علم تھا کہ اس حالت میں حواس کا شعور معطل ہو جاتا ہے‘ اس لیے ضروری تھا کہ اپنے بیداریِ حواس کے وقت ان ذرائع کا سدباب کرتے جن کی وجہ سے نیند کے وقت یہ حادثہ پیش آیا‘ یعنی اوّل آگ بجھاتے اور پھر سوتے۔
تدبیر یہ ہے کہ اُونٹ کو کھونٹے سے باندھیں اور اس کے بعد توکل کریں۔ بغیر کھونٹے سے باندھے اُونٹ کو چھوڑ دیں گے تو یہ آپ کی نادانی ہوگی اور آپ غیر ضروری جوکھم سے اپنا اور نہ معلوم کس کس کا امتحان لینے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔
ایک نہر ہے جو تیزی سے بہہ رہی ہے اور قرب و جوار کی بستیوں میں تباہی مچا رہی ہے۔ اہل بستی کو یقین ہو گیا کہ اگر بہائو کا یہی حال رہا تو سب ہی غرق ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اہل بستی کے تین گروہ ہوگئے۔
ایک گروہ نے اپنی تمام قوت اور اسباب اس کو روکنے اور بہائو کے آڑے آنے پر صرف کر دیے مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وجہ یہ تھی کہ پانی کو ایک جگہ سے روکا جاتا تو دوسری طرف سے بہہ نکلتا اور دبائو کے باعث مزید تباہی پھیل رہی تھی۔
دوسرا گروہ اس بات پر مصر تھا کہ اس کا سرچشمہ تلاش کیا جائے تاکہ اسے بند کرنے سے اس نہر کا زور کم ہو اور نقصان سے محفوظ رہا جا سکے۔ سرچشمہ مل تو گیا مگر ایک سوت بند کیا جاتا تو دوسرے سوت سے پانی خارج ہونے لگتا۔ چشمے کے ابلنے میں کوئی کمی نہ آ رہی تھی اور تمام سوتوں کا بند کرنا ناممکن نظر آرہا تھا۔ اس گروہ کے اس اقدام سے بھی بستی والوں کے مکانات نہ بچ سکے اور نہ کھیتیاں پروان چڑھ سکیں۔
تیسرا گروہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ پہلے دونوں گروہوں کے طریقہ کار سے تو مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا‘ اس لیے اس گروہ نے نہ تو پانی روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی سوت بند کرنے کا تہیہ کیا بلکہ انھوں نے اپنی تمام تر کوششیں اس پر صرف کیں کہ پانی کے اس بہائو کو حسب منشا صحیح راہ پر لگا دیا جائے۔ اور اس کوشش کو
اس طرح شروع کیا کہ نہر کا رخ بنجر زمینوں‘ قابل زراعت کھیتوں کی جانب کیا اور جگہ جگہ ضرورت کے لے پانی کے تالاب بنائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گھاس سے تمام زمین سبزہ زار ہو گئی اور اُس کے ثمرات سے تمام اہل بستی مالامال ہو گئے۔
بلاشبہ تیسرا گروہ کامیاب رہا‘ جب کہ پہلے اور دوسرے گروہ نے وقت ضائع کرنے اور بے نتیجہ محنت کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ کیا۔
ہمارا یہ احساس ہے کہ نہر کے بہائو میں دو عناصرہوتے ہیں۔ ایک تو پانی اور دوسرے اس کے ساتھ چلنے والی مٹی۔ بس یہی عناصر حضرت انسان میں بھی ہیں۔ اس تمثیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہماری خواہش ہے کہ قومی زندگی کے اس مرحلے پر تیسرے گروہ کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ناقابل تسخیر اور موثر شخصیت کی آگاہی حاصل کریں تاکہ دین اور دنیا کے تقاضے پورے کر سکیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس معاملے میں صرف مطالعے ہی سے کام نہیں لیا جائے گا بلکہ اپنی شخصیت کے ارتقا اور کامیابی کے لیے تحریری طور پر بھی منصوبہ بندی کر کے اور لائحہ عمل بنا کر کام کیا جائے گا۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے لیے وقت نکال لیتے ہیں‘ دوستوں اور رشتہ داروں سے مل لیتے ہیں مگر نہیں ملتے تو صرف ایک ذات سے‘ اور وہ ہے اپنی ذات۔ ہمیں منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کے نقطہ نظر سے اپنی ذات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
۱- ٹھوس نظریہ حیات: آپ جس نظریۂ حیات کے حامل ہیں اس کی بنیادوں اور بنیادی فلسفہ اور اعتقاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔یہ اعتقاد ٹھوس ہو محض توجیہات پر مشتمل نہ ہو۔ اس نظریۂ حیات کے باعث آپ میں مقصد حیات کا سچا شعور پیدا ہو گیا ہو اور اس کی علامتیں ظاہر و باطن‘ دونوں میں اُبھر رہی ہوں۔ لوگ آپ کو نرم چارہ نہ پائیں بلکہ آپ کو ہوشیار‘ بیدار مغز‘ اور اصول پرست ہونا چاہیے۔ ہم مسلمان ہیں‘ حق و باطل کے ساتھ بیک وقت رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ سیرت کی ان تمام کمزوریوں کا احساس کیجیے جو آپ کی ذات میں باطل کو گھسنے کا موقع دیتی ہیں۔ اپنی حیثیت کا جائزہ لیجیے اور اتنے مستحکم ہو جایئے کہ: لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول۔
۲- اصولوں کا علم اور ان پر عمل: آپ کو اپنے نظریہ حیات کا علم ہو۔ جو علم آپ نے حاصل کیا ہے اور جس تعلیم میں پیش رفت کی ہے اس کے اصولوں کا ادراک ہو‘ احساس ہو اور اس کے ساتھ ان پر عمل بھی ہو۔اصول‘ گفتگو اور بحث اپنی ذات کونمایاں کرنے کے لیے نہ ہوں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوں‘ تب ہی آپ کامیاب ہوں گے۔ سچائی اور ایمان داری‘ ہر نظریہ حیات اور مذہب کے بنیادی اصول ہیں۔ آپ لوگوں کو ان کی تعلیم دیں مگر اپنے معاملات میں اس پر عمل نہ کریں تودرحقیقت خسارے کا سودا کریں گے۔ جیسے جب جھوٹ کی گنجایش ہو تو بول دیں‘ ڈنڈی لگا کر‘ کاموں کو مؤخر کر کے‘ ٹیکس اور کسٹم میں مروجہ طریقہ کے مطابق مالی مفادات حاصل کر کے کام کر لیا جائے تو آپ فوری طور پر تو فائدہ اٹھا لیں گے بلکہ اپنے لیے مکان بھی بنا لیں گے مگر سکون حاصل نہیں ہوگا‘ اور آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس قسم کے مفادات کے حصول کے وقت ممکن ہے پانچ سو یا ہزار گز کا پلاٹ پیش نظر ہو‘ مگر عمر جوں جوں آگے بڑھتی ہے اور انسان ۲x۶ فٹ کے فلیٹ کے قریب پہنچتا ہے‘ تو اس وقت اسے ندامت ہوتی ہے۔
۳- اخلاص نیت اور اخلاص عمل: منہاج القاصدین میں علامہ ابن جوزیؒ نے بیان کیا ہے کہ ارباب بصیرت کو انوارالقرآن سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ سعادت تک پہنچنے کے لیے علم اور عبادت نہایت ضروری ہے۔ دنیا میں سب لوگ ہلاک ہو رہے ہیں مگر علم والے‘ اور سب علم والے ہلاک ہوں گے سوائے عاملین کے‘ اور سب عمل والے ہلاک ہوں گے سوائے مخلصین کے‘ اور مخلص بھی عظیم خطرے میں ہے۔
ہمارے ہاں اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ اخلاص نیت کے اپنے اجر ہیں۔ نیت کے مطابق شعور کے ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ بعض اوقات انسان کو عمل کی فرصت نہیں ملتی مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی نیت کا اجر مل جاتا ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی نیت کا احتساب کریں۔ اس کا جائزہ لیتے رہیں اور اس میں اخلاص پیدا کرتے رہیں۔
۴- احساس ذمہ داری: اس دنیا میں ہم سب لوگ ذمہ دار ہیں۔ ہر فرد کسی نہ کسی انداز میں راعی ہے۔ گھر‘ خاندان‘ دفتر‘ کاروبار اور معاملات اور تنظیم کے حوالے سے ہمیں اپنی متعلقہ رعایا کا احساس کرنا ضروری ہے۔ پورے شعور کے ساتھ ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ پھر ان ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔ ذمہ داری میں اہل خانہ بھی شامل ہیں‘ دفتر کے معاملے میں ملازمت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ آپ کے ساتھیوں اور ماتحت افراد کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ سرکاری ملازم ہیں تو سرکاری وقت‘ وسائل اور خزانے کے متعلق ذمہ داریوں کا احساس اور ادایگی ضروری ہے۔ کاروباری ہیں تو اس کے تقاضوں کا شعور‘ قیمت کا تعین‘ ملازمین کی تنخواہیں اور ان کی خوش حالی‘ اس کے ساتھ ساتھ کاروبار کی ترقی اور پھیلائوکی کوشش اور معیار کا برقرار رکھنا ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ بس ہر حال میں کام کا حق ادا کیجیے۔
۵- شجاعت: ضرورت اور حاجت کے وقت مصائب اورخطرات کا ثابت قدمی سے مقابلہ شجاعت کہلاتا ہے۔ جو شخص نتائج پر نگاہ رکھے اور ان کے پیش آنے سے خوف زدہ ہو مگر جب وہ سامنے آجائیں تو ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کرے تو وہ بہادر ہے‘ اور جب کوئی شخص موقع اور محل کی مناسبت سے بہترین کارگزار ثابت ہو وہ ’’شجاع‘‘ ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ خطرے میں کود ہی جائیں تو آپ بہادر ہوں گے بلکہ بہادر اس حالت میں بھی سمجھا جائے گا کہ نتیجے پر نگاہ رکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے کہ اس خطرے کے موقع سے بچنا ہی بہتر طریقہ کار ہے اور اس کا فرض بھی اسے اس بات کا حکم دیتا ہو کہ وہ اپنے کو خطرے سے بچائے۔ درحقیقت سب سے بڑی بہادری‘ مصیبت اور سختی کے وقت دل کا اطمینان اور حاضر حواسی ہے۔ اس لیے بہادر وہ ہے کہ جب اس پر سخت وقت آئے تو اپنے اطمینان اور بیداری حواس کو نہ کھو بیٹھے بلکہ قابلیت اور ثبات قلبی سے اس کا مقابلہ کرے اور ذہنی بیداری اور مطمئن عقل کے ساتھ اس کو انجام دے۔
۶- حیا: انسان میں ایک ایسی قوت اور ملکہ ودیعت کیا گیا ہے جس سے انسان خیر کی طرف اقدام کرتا ہے اورشر سے بچنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ اس قوت یا ملکہ کا نام ’’حیا‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (۱) حیا ایمان کی ایک شاخ ہے (۲) حیا خیر کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں دیتی۔ علامہ ماوردیؒ کہتے ہیں کہ خیروشر پوشیدہ معانی ہیں جو صرف اپنی ان علامتوں کے ذریعے ہی سے پہچانے جاتے ہیں جو ان معانی پر دلالت کرتے ہیں‘ پس خیر کی بہترین علامت حیا و شرم ہے اور شر کی علامت بے حیائی ہے۔ ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے: ’’انسان سے اس کے اخلاق کے متعلق نہ پوچھو‘ خود اس کے چہرے مہرے میں اس کے اخلاق کی شہادت موجود ہے‘‘۔
ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اے اولاد آدم! جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو تیرا جی چاہے کر۔ حیا اللہ تعالیٰ سے کی جاتی ہے‘ لوگوں سے کی جاتی ہے‘ اور اپنے نفس سے کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے حیا کرو اس درجے جو حیا کا حق ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اللہ کی درگاہ میں ہم حیا کا صحیح حق کس طرح ادا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: سر اور جو اس میں محفوظ ہے‘ اور پیٹ اور جو اس میں محفوظ ہے ان کی حفاظت کے ذریعے‘ اور حیات دنیا کی زینت کے ترک‘ اور موت اور بدن کے گل سڑ جانے کی یاد کے ذریعے سے حیا کا صحیح حق جناب باری میں ادا ہوتا ہے۔
۷- میانہ روی و اعتدال: مقدمہ ابن خلدونسے اعتدال اور میانہ روی پر ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے۔ یہ ذمہ داران کے لیے بہت اہم ہے:
تم اپنے تما م کاموں میں میانہ روی اختیار کرو کیونکہ اس سے زیادہ نفع بخش‘ امن و حفاظت کی ذمہ دار اور فضیلت اور بزرگی کی نشانی کوئی چیز نہیں۔امور میں اعتدال ہی انسان کو بھلائی اور بزرگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور بھلائی توفیق ایزدی کی نشانی ہے‘ اور توفیق سعادت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ بلکہ خود دین و سنت رسولؐ کا قرار اسی اعتدال سے ہے اور دنیا کی اصلاح کا بھی اسی پر مدار (منحصر) ہے۔
شخصیت کیتعمیر و ترقی میں میانہ روی اور اعتدال و توازن اہم عناصر ہیں۔ یہ چیزیں مزاج کے لیے بھی ضروری ہیں‘ کام کاج کے لیے بھی‘ تعلقات اور معاملات کے لیے بھی‘ اور اخراجات کے لیے بھی۔ غرض زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر صورت میں یہ تعمیر و ترقی میں بڑی معاون ہے۔
۸- صبر و تحمل: صبر دو قسم کا ہے: ایک‘ بدنی‘ جیسے مشقت برداشت کرنا اور عبادت کے مشکل اعمال برداشت کرنا۔ دوسرا‘ نفسانی‘ یہ خواہش کے تقاضے اور طبیعت کی مرغوب چیزوں سے رُک جانا ہے۔ صبر کی یہ قسم اگر پیٹ اور شرم گاہ کی خواہش سے متعلق ہو‘ تو اس کا نام عفت ہے۔ اگر میدان جنگ میں صبر ہو‘ تو اس کا نام شجاعت ہے۔ اگر غصہ کو دبانے میںصبر ہو تو اس کا نام حلم ہے۔ اگر کسی پریشان کرنے والی مصیبت سے مقابلے میں ہو‘ تو اس کا نام فراخی ہے۔ اگر کسی معاملے کو پوشیدہ رکھنے کے متعلق ہو‘ تو اس کا نام راز کو چھپانا ہے۔ اگر زائد ضروریات سے رکنا ہو‘ تو اس کا نام زہد ہے۔ اور اگر تھوڑی سی ضروریات پر مطمئن ہونا ہو‘ تو اس کا نام قناعت ہے۔
صبروتحمل صرف مشکل وقت کے لیے ہی مخصوص نہیں بلکہ بہتر وقت میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ بعض عارفین نے کہا ہے کہ مومن مصیبت پر صبر کر لیتا ہے اور عافیت پر صرف صدیق ہی صبر کر سکتا ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا کہ تکلیفوں سے ہماری آزمایش ہوئی تو ہم نے صبر کیا لیکن جب نعمت و آسایش سے آزمایش ہوئی تو ہم صبر نہ کر سکے۔ جوانمرد صرف وہ ہے جو عافیت پر صبر کرے اور یہ صبر شکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب تک شکر کے حقوق ادا نہ ہوں صبر پورا نہیں ہوتا۔ اور نعمت میں صبر مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہاں قدرت حاصل ہوتی ہے‘ جیسے کھانا نہ ہونے کی صورت میں بھوکا زیادہ صبر کر سکتا ہے بہ نسبت لذیذ کھانا موجود ہونے کے۔
صبر کا اپنا وصف ہے کہ بقول حضرت علیؓ ’’ اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور معرفت کا یہ حق ہے کہ تم اپنی تکلیف کی شکایت نہ کرو اور اپنی مصیبت کا ذکر نہ کرو‘‘۔
حکما کہتے ہیں کہ مصیبت کا چھپانا نیکی کا خزانہ ہے۔ایک آدمی نے امام احمدؒ سے پوچھا: اے ابوعبداللہ! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ نے کہا: عافیت اور بھلائی سے ہوں۔ اس نے کہا: کل رات آپ کو بخار تھا۔ تو فرمایا: میں نے جب تم سے کہہ دیا کہ میں عافیت سے ہوں تو بس کافی ہے۔ تم مجھ سے وہ بات کیوں کہلوانا چاہتے ہو جس کا زبان پر لانا مجھے پسند نہیں۔
۹- استقامت و باقاعدگی: اپنے معاملات اور اصولوںپرعمل درآمد میں استقامت اور باقاعدگی بہت جلد آپ کی شخصیت کو شاہراہ کامیابی پر گامزن کر دے گی۔ اصولوں پر عمل کا معمول بنایئے۔ اچھے اطوار اور کاموں کو استقامت کے ساتھ کیجیے‘ اور جائزہ لیتے رہیے۔ مستقل مزاجی اور باقاعدگی شخصیت کو معروف اور مقبول بناتی ہے اور ہم منظم رہتے ہیں۔
۱۰- خوفِ خدا اور خوفِ آخرت: تعمیر شخصیت کے تخلیقی عناصر میں اور ہماری رفتار کار اور استعداد کار میں اضافے کا ایک اہم ذریعہ بلکہ بنیادی ذریعہ خوفِ خدا اور خوفِ آخرت ہے۔ خدا خوفی ہمیں برے اعمال سے بچائے گی‘ وقت ضائع کرنے سے بچائے گی‘ حرام کھانے سے بچائے گی‘ لغویات میں ملوث ہونے سے بچائے گی۔ جب ہم بہت ساری گلیوں سے بچ کر صرف ایک سیدھی راہ پر آجائیں گے اور ہمارے سامنے ایک عظیم ذات کے وجود کا احساس اور اس کی صفات و قدرت کا خوف ہوگا تو پھر ہمارے لیے اس سیدھی راہ پر سیدھا اور تیز چلنا آسان ہوگا ۔ آخرت کی گھڑی ہمارا ہدف ہوگی‘ اور اس شاہراہ پر چلتے ہوئے نظریں ادھر ادھر نہیں بھٹکیں گی۔
۱۱- حکمت: حکمت علم اور اس کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے۔ ابن قتیبہؒ نے کہا: آدمی اس وقت تک حکیم نہیں ہوتاجب تک علم اور عمل کو جمع نہ کرے۔ حکمت‘ نفس کی اس حالت کا نام ہے جس کے ذریعے سے انسان تمام اختیاری امور میں خطا و صواب کے درمیان تمیز کرتا ہے۔ حکمت و عقل کے اعتدال سے حسن تدبیر‘ ذکاوت ذہن‘ باریک بینی‘ راست فکر اور پوشیدہ آفاتِ نفس کا فہم جیسے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔
۱۲- اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے! : ہر وقت یہ احساس رہنا چاہیے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ حسن نیت ‘ عزم اور صحیح طریقہ کار کے مطابق محنت کر کے اپنے معاملات کے نتائج اللہ کے سپرد کر دینے چاہییں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے کا احساس انسان کی نیکیوں میں اضافے اور برائیوں سے رکنے کا باعث ہوتا ہے۔ اسی احساس کے نتیجے میں اس میں غیر مرئی قوت محرکہ اور قوت عمل پیدا ہوتی ہے اور اس کے لیے حالات سازگار ہو جاتے ہیں۔
۱۳- نفس سے سبقت اور احتساب: انسان پر حسد‘ حرص‘ غضب‘ شہوت اور تندی و تیزی بہت جلد غالب آجاتی ہے اور شیطان انھی راستوں سے اس پر حملہ کرتا ہے۔ بغیر تحقیق اور جلدبازی سے کام کرنا بھی اطاعت نفس ہے اور ہم اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ یہ جذبات اور کیفیات بہت جلد غالب آجاتی ہیں۔ بدگمانی‘ بدظنی اور غلط فہمی موجودہ دور کے مسلمانوں کی بہت بڑی کمزوریاں ہیں۔ مسلمان کو ایٹمی قوت تباہ نہیں کر سکتی مگر بدگمانی تباہ کر ڈالتی ہے۔ بس اس صورت میں کنٹرول اور عقل کی ضرورت ہے۔ حقائق معلوم کرنے کی کوشش کیجیے‘ باتوں اور افواہوں پر فوری ردعمل کی ضرورت نہیں ہے۔
ع بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گرمارا
اس کے ساتھ ساتھ انسان کو روزانہ رات کو سونے سے قبل احتساب بھی کرنا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا قول ہے کہ اپنا احتساب کر لو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے۔ اور بقول حضرت جنید بغدادیؒ ’’تم ہروقت یہ سوچتے رہو کہ خدا سے کتنے قریب ہوئے‘ شیطان سے کتنے دُور‘ جنت سے کتنے قریب‘ اور دوزخ سے کتنے دُور‘‘۔ احتساب تحریری ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ تحریری احتساب قوت عمل پیدا کرنے میں آپ کا معاون ہوگا۔
۱۴- دعا: تعمیر شخصیت میں دعا کا اہم مقام ہے۔
دعا سب سے پہلے اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے: ’’ اے اللہ تو نے مجھے اچھی صورت میں پیدا کیا‘ اب میرے اخلاق بھی اچھے کر دے‘‘۔ دعا نفس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے‘ عزائم کی بلندیوں‘ قوتوں کی بحالی اور حالات کی سازگاری اور خوش گواری کے لیے‘ رزق حلال کے لیے‘ بہتر استعداد کے لیے‘ اچھی ٹیم کے لیے‘ سخت گیر لوگوں کے دلوں کی نرمی کے لیے بھی ہونی چاہیے۔
دعا میں یقین کی کیفیت ضروری ہے۔ کسی گائوں میں بارش نہیں ہو رہی تھی تو نماز استسقاء کا اعلان ہوا۔ گائوں والے میدان میں جمع ہو گئے۔ دیکھا گیا کہ ایک گیارہ سالہ بچی بھی اپنے ہاتھ میں چھتری لیے میدان کی طرف آرہی تھی۔ لوگوں نے کہا: بیٹی! ہم تو ابھی بارش کی دعا مانگنے جا رہے ہیں‘ تو چھتری لے کر کیوں آ رہی ہے؟ بچی نے معصومیت سے جواب دیا: جب ہم دعا مانگ کر واپس آ رہے ہوں گے اس وقت تو بارش ہو رہی ہوگی۔ بس یقین کی یہی کیفیت مطلوب ہے!
تمثیلات خلیل جبران میں ہے کہ ’’تالاب میں پتھر گرا‘ پانی میں لہریں اٹھیں اور دُور چاروں طرف کناروں سے ملنے لگیں۔ ساتھ ہی ایک درخت تھا‘ اسے بھی جوش آیا‘ اس نے بھی تالاب میں ایک پتا گرا دیا۔ لیکن نہ شور ہوا اور نہ تالاب میں لہریں پیدا ہوئیں۔ میں اسے دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا: اے بے وقوف! دنیا میں وہی ہلچل مچا سکتے ہیں جو اپنے اندر وزن رکھتے ہیں‘‘۔
یہ ایک تمثیل ہے مگر ایک حقیقت بھی۔ تالاب میں مزید پتے گرا کے بھی اتنی ہلچل پیدا نہیں ہو سکتی تھی جتنی ایک پتھر کے گرنے سے پیدا ہوئی تھی۔ بس یہی حال ہمارے اداروں کا بھی ہے۔ بعض اوقات افراد کے آنے کے ساتھ ہی تنظیم اور طریق کار میں اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ انتظام صحیح چل رہا ہے اور کامیابی حاصل ہو رہی ہے‘ جب کہ دوسری طرف افراد ہی کے باعث ادارے غیر موثر ہو جاتے ہیں اوران کی تباہی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ وہ صاحب منصب افراد پتوں کی طرح تنظیم کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں مگر شخصیت میں وزن اور کردار میں پختگی نہ ہونے کے باعث اپنے وجود کا کوئی فائدہ تنظیم‘ ادارے‘ افراد اور اپنی ذات کونہیں پہنچا سکتے۔
آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ ایک ہی دفتر یا ادارے میں ایک ہی وقت میں دو افراد وابستہ ہوتے ہیں۔ انھیں اہداف (targets)‘ افراد اور اختیارات دے دیے جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک فرد اپنے متعلقہ شعبے میں ہر دلعزیز بن جاتا ہے‘ افراد اس کے لیے وقت دیتے ہیں اور اس کے کام بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ شخص دفتر میں اتنا وقت بھی نکال لیتا ہے کہ افراد اور ساتھیوں سے ذاتی اور ترقیاتی
معاملات پر گفتگو کر سکے ‘ اور اپنے فیصلوں میں ان کی مشاورت بھی لے سکے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ رفتہ رفتہ وہاں ایک موثر ٹیم بن جاتی ہے جو ادارے کے مسائل اور وسائل کو اپنے ہی مسائل و وسائل محسوس کرتی ہے اور پھر اجتماعی جدوجہد سے ادارہ اور اس کے متعلقہ امور اور کاروباری معاملات میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ وہ فرد سپروائزر‘ پھر مینیجر‘ اس کے بعد مینیجر سے ایگزیکٹو اور پھر لیڈر بن جاتا ہے اور لوگ اسے دل سے چاہتے ہیں۔ کامیابی اس فرد کو تلاش کرتی ہے۔ وہ مصروف ترین فرد ہونے کے باوجود مختلف کاموں کے لیے وقت نکال لیتا ہے۔
وہ فرد اور اس کی ٹیم ہر مشکل کو کامیابی کا موقع سمجھتے ہیں۔ وسعتیں ان کے قریب آجاتی ہیں اور وہ اپنی ذات ‘ اپنی ٹیم‘ اپنے ادارے اور مجموعی طور پر ملک و قوم کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور حدیث کے الفاظ میں خیر الناس من ینفع الناس (تم میں بہتر وہ ہیں جو لوگوں کے لیے بہتر ہوں) بن جاتے ہیں۔ اس فرد کے ساتھی افراد جو قانوناً ماتحت ہوتے ہیں‘ ٹیم بن کر کام کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ ادارے کے فرد ہیں اور پھر کسی بھی صورت میں ادارے کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔
اسی مشاہدے کے دوران آپ نے دیکھا ہوگا کہ دوسرا شخص اپنے متعلقہ شعبے میں اپنے ماتحت افراد کے مذاق کا شکار ہو جاتا ہے‘ نہ خود کوئی کام کر سکتا ہے نہ لوگوں سے کوئی کام لے سکتا ہے۔ وہ ہدایت اور حکم دیتا ہے اور لوگ اسے انجانے بن کر ٹال دیتے ہیں۔ اس کے ماتحت افراد کام نہ کرنے کے سیکڑوں بہانے تلاش کر لیتے ہیں۔ اس شعبے میں ہر فرد دوسرے کو اور بالآخر اپنے متعلقہ شعبے کے ذمہ دار کو بے وقوف بنانے کا فن سیکھتا ہے۔ بالآخر وہ شخص بھی‘ اس کا شعبہ بھی‘ اور اس کے متعلقین بھی ناکامی کا شکار ہوتے ہیں‘ بدنام ہوتے ہیں اور شعبے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔ چند افراد کا اخراج ہوتا ہے ‘ دوسرے افراد اپنا راستہ خود تلاش کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور ایک بہت بڑے آپریشن کلین اپ کی ضرورت پڑتی ہے۔
کاروبار ہو یا دفتری زندگی‘ آپ منتظم ہوں یا ماتحت‘ غرض آپ جس حیثیت میں ہوں اور زندگی کے کسی بھی میدان عمل میں ہوں‘ کامیابی کے لیے موثر شخصیت اور شخصی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق تکنیکی صلاحیت صرف ۱۵ فی صد کردار ادا کرتی ہے‘ جب کہ فرد کی شخصی خصوصیات کا کردار ۸۵ فی صد ہوتا ہے۔
ایسا شخص افراد کی تربیت کا کام کرتا ہے‘ اور کل کے لیے لوگوں کو آج سے تیار کر لیتا ہے جس کے باعث لوگوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اس شخصی کردار کے مثبت ہونے اور مقبول ہونے کے باعث فرد نہ صرف خود خوش رہتا ہے بلکہ اس کے افسران‘ اس کے ماتحت اور اس کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی خوش ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے مقاصد اور اہداف بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کر لیتا ہے۔ اسے عموماً کام کرنے والے لوگ اور ساتھ دینے والے ساتھی بھی مل جاتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب اور مقبول کردار کے باعث اپنے لیے ایک مخلص ٹیم بنا لیتا ہے۔ وہ ٹیم کی کامیابی‘ اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ وہ ٹیم اس پر جان نثار کرتی ہے اور اسے پرندوں کی طرح طوفان اور بارش کا پتا بھی دیتی ہے‘ اور خطرے کے وقت ایک مضبوط قوت مدافعت بن جاتی ہے۔ آخرکار نتائج سامنے آنے لگتے ہیں اور بہت جلد آتے ہیں۔ اداروں کی کارکردگی اور کامیابی میں توقع سے زیادہ پیش رفت ہوتی ہے۔ کارکردگی بڑھنے کے باعث پیداوار بڑھتی ہے اور اس کے نتیجے میں منافع میں اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث مجموعی قومی پیداوار اور آمدنی میں خوش آیند اضافہ ہوتا ہے۔
فرد اگر صحیح نہ ہو‘ یا اس کی شخصیت میں خامیاں ہوں‘ یا اس کا شخصی کردار غیر معروف اور غیر مقبول ہو تو ادارے میں عموماً بحران کی کیفیت ہوتی ہے۔ کام عموماً افراتفری کے عالم میں ہوتے ہیں۔ افراد کو عموماً دفتر کے اوقات کے بعد بھی بیٹھنا ہوتا ہے۔ ذہنی کیفیت اور انتشار کا عالم یہ ہے کہ ۱۰ ہزار روپے کے اضافی منافع کے لیے ۳۰ ہزار روپے کی اضافی لاگت آجاتی ہے۔ نفع‘ نقصان کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا‘ انگلیاں دوسروں کی طرف اٹھتی ہیں۔ دوسروں کی طرف ایک انگلی اٹھتی ہے لیکن درحقیقت اس کے ساتھ ساتھ اپنی طرف تین انگلیاںاٹھتی ہیں مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا اور بحران بڑھتا رہتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا ذمہ دار وہ فرد ہے جس پر ہم گفتگو کر رہے ہیں۔
وہ مثال بار بار ذہن میں آتی ہے کہ ایک صاحب اپنے گھر میں مطالعہ کررہے تھے۔ ان کا بچہ --- چھوٹا سا بچہ--- بار بار ان کے مطالعے میں مخل ہو رہا تھا۔ ان صاحب نے بچے کو بہت سمجھایا‘ کھلونے دیے مگر اس نے سمجھ کر نہ دیا۔ بالآخر ان صاحب کو ایک ترکیب سوجھی کہ بچے کو بلایا اور اسے دنیا کا ایک نقشہ دکھایا اوراس میں بچے کو مختلف مقامات کی نشان دہی کی کہ یہ پاکستان‘ یہ ہمالیہ‘ یہ امریکہ‘ یہ سعودی عرب وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس نقشے کے ٹکڑے کیے اور بچے کو دے دیے کہ بیٹا پھر سے اسے بنا کر لائیں۔ ابا جان سوچ رہے تھے کہ تین چار گھنٹے کے لیے فراغت ہوئی مگر بچہ تو آدھے گھنٹے ہی میں آگیا اور کہنے لگا: ابو‘ ابو! دنیا کا نقشہ بن گیا۔ ابا جان نے دیکھا سب مقامات اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ بچے کی طرف دیکھا‘ ذہانت پر تعجب ہوا۔ پوچھا ’’بیٹے یہ کارنامہ تم نے کیسے انجام دیا؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’ابو! جب آپ نقشے کے ٹکڑے کر رہے تھے تو اس وقت میں نے دیکھا کہ اس کے پیچھے آدمی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ بس میں نے اس تصویر کو ٹھیک کر لیا۔ دنیا کا نقشہ خود بخود ٹھیک ہو گیا‘‘۔
ہم اپنے اداروں اور دفاتر‘ کاروبار اور گھر کی کارکردگی بہتر بنانا چاہتے ہیں اور ان کا نقشہ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی اس بچے کی طرح تصویر ٹھیک کرنی پڑے گی۔ ممکن ہے یہ تصویر ہماری اپنی ہی ہو۔ ہمیں اس تصویر کو اپنے ذہن میں نقش کرنا ہے‘ اسے سمجھنا ہے‘ اس کے ٹکڑوں کو منظم کرنا ہے اور اسے بہت جلد صحیح کرنا ہے تاکہ ہمارے معاشرے اور اجتماعی نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں آجائیں۔
اب ہم شخصیت کے موضوع پر گفتگو کریں گے کہ کس انداز سے ہم دفاتر‘ اداروں‘ کاروبار‘ گھر اور معاشرے میں کام کریں کہ:
اب ہم شخصیت کی تعریف اور تصورات پر بات کریں گے۔ اس کے بعد شخصیت کے حوالے سے مختلف موضوعات اور متعلقہ عناصر پر گفتگو کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایسی شخصیت کی تشکیل ہو جو کہ ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کے لیے اہم کردار ادا کر سکے۔ بات کمر باندھنے کی ہے۔ عربی مقولے کا ترجمہ ہے:
’’جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کوشش بھی کرتا ہے‘ وہ داخل ہو ہی جاتا ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان سونے چاندی کی کانوں کی طرح ہے۔ جو تم میں زمانہ جاہلیت میں بہترین اوصاف کے مالک تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں۔ یہ اچھے اوصاف انسان کا قیمتی سرمایہ ہیں اور یہی ان کی کامیابی کا راز اور ذریعہ بھی۔
مختلف ماہرین نے شخصیت کی جو تعریفیں پیش کی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
اب ہم درج ذیل موضوعات اور عناصر پر گفتگو کریں گے: