محمد بشیر جمعہ


تنظیمِ وقت (Time Management) ایک ایسی صلاحیت کا نام ہے جس کی بنیاد آپ کی اپنی ذات ہے۔ جب تک آپ اپنی ذات کی بہتری اوراصلاح نہیں کرلیتے اس وقت تک  آپ اپنے مہیا وقت کو بہتر طریقے سے استعمال نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اپنی ذات کی تنظیم ،بہتری ، ترقی اوراخلاق اور کردار میں بڑھوتری کی کوشش آپ کی تنظیمِ وقت کی صلاحیت کو نکھا ر دے گی۔

تنظیمِ وقت کے حوالے سے پانچ مراحل ترتیب دیے گیے ہیں۔ ان مراحل کے ذیلی حصے بھی ہیں۔ اپنی تربیت ، تزکیہ، ترقی، اپنی ذات کی ترتیب اور اپنی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے   ان نکات پر غور کیجیے۔

پہلا مرحلہ:  شخصیت کا جائزہ

اپنے آپ کو پہچانئے

  • تنہائی میں بیٹھ کر اپنا جائزہ لیں ۔ خالق سے رابطہ قائم کریں اور سوچیں کہ اس نے مٹی کے اس پُتلے میں روح کے ساتھ کتنی نعمتیں، صلاحیتیں اور کتنے رشتے پیدا کیے۔
  • مالک کی دی ہوی نعمتیں شمار نہیں ہو سکتیں،البتہ اپنے تصور میں لانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

اپنی شناخت کو ضبط تحریر میں لائیں

  • احساس کیجیے کہ آپ کیا  تھے، کیا ہیں اور مالک کی نعمتوں کا یہی سلسلہ رہا تو کیا کچھ ہو سکتا ہے۔
  • ہفتے میں ایک دن ضرور تنہائی میں اپنے آپ سے ملاقات کیجیے اور اس ملاقات کے نوٹس لیجیے۔
  • اپنی ذات کو وقت دیجیے اور اس سے باقاعدگی سے ملاقات کیجیے۔ یہ ذات آپ  کے ساتھ ہوتے ہوئے عموماً آپ سے دُور اورمحروم رہتی ہے ۔

اپنے مثبت اور منفی معاملات کو دیکھیں

  • آپ یقینا اس دنیا کے کروڑوں افراد سے بہترہیں اور کروڑوں افراد آپ سے بہتر ہیں۔آپ اپنی کئی خامیوں کو محض کوشش سے دُور کرسکتے ہیں۔
  • ہر ہفتے، اپنی خامیوں کا جائزہ لیں اور انھیں کم کرنے کی کوشش کریں۔
  • اس کام کے لیے اپنی نوٹ بک بنائیں اوراس کے لیے ایک پین یا بال پین بھی مختص کرلیں۔ یہ درحقیقت آپ کی ایک رازدان دستاویز ہے۔

 جائزہ لیں کہ آپ اپنا وقت کھاں اور کیسے خرچ کرتے ھیں؟

  • کم از کم ایک ماہ تک آپ اس بات کی کوشش کریں کہ آپ اپنے جاگنے کے اوقات کے مصرف کو ریکارڈ کریں اور ہر ہفتہ کے ۱۵۶ گھنٹوں کا جائزہ لیں کہ وہ کس انداز سے خرچ ہوئے؟ کیا اس خرچ سے آپ کو ، آپ کے خاندان کو یا آپ کے کاروبارکوکوئی فائدہ ہوا یا دنیا یا آخرت  کے لحاظ سے کوئی بہتری ہوئی؟
  • اس ایک ماہ کے جائزہ کے بعد کوشش کریں کہ غیر مفید کاموں کے مقابلے میں اپنے آپ کو مفید کاموں میں لگائیں۔

تنظیمِ وقت کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں اور خامیوں کا جائزہ لیں

  • اگر تالاب میں دو افراد کو دھکیل کر ان سے کہا جائے کہ وہ دونوں دوسرے کنارے پر پہنچنے کی کوشش کریں، تو دوسرے کنارے پر وہی پہنچ سکتاہے جسے تالاب میں تیرنا آتا ہے اور جسے نہیں آتا وہ کسی اور منزل پر پہنچ جائے گا۔ تنظیمِ وقت ایک فن ہے، اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔
  • تنظیمِ وقت کی صلاحیت کی تربیت شرو ع کے دنوں میں مشکل ہوتی ہے، مگر مسلسل مشق کے نتیجے میں آپ بڑی بلندی پر پہنچ سکتے ہیں۔
  • اس صلاحیت کے ذریعے آپ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ آپ کی شخصیت میں تاثیر ،    آپ کے معاملات میں توازن پیدا ہوجاتا ہے اور آپ کی زندگی معتدل اورآپ کی محنت نتیجہ خیز ہوجاتی ہے۔

اندرونی اور بیرونی مسائل کا جائزہ لیں

  • ہر انسان مسائل سے دو چار ہے۔ مگر تنظیمِ وقت اس گاڑی کی مانند ہے جسے لمبے سفر پر روانہ ہونا ہے اور اس سے پہلے گاڑی کی بہت ساری چیزوں کی چیکنگ کر لی جاتی ہے۔
  • وہ مسائل جو آپ کی ذات سے وابستہ ہیں ان کا جائزہ لیجیے ۔ان مسائل کا بھی جائزہ لیجیے جو آپ کی ذات سے وابستہ نہیں ہیں مگر آپ کے لیے تکلیف دہ ہیں اور ان کی وجہ سے آپ کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔ یہ مسائل دفتری بھی ہوسکتے ہیں، کاروباری بھی، خاندانی بھی اور معاشرتی بھی اور صحت کے حوالے سے بھی۔

اپنی عادات کا جائزہ لیں

  • وہ عمل جو آپ بغیر سوچے سمجھے کرنے لگتے ہیں کیوں کہ وہ آپ کی عادت بن چکا ہوتا ہے،    یہ عادات عملاً آپ کے لیے اصول بن جاتی ہیں۔
  • اپنی بری عادتوں کا جائزہ لیں۔ انھیں کم کرنے اور ختم کرنے کی منصوبہ بندی کریں اور پھر اس پر باقاعدگی سے عمل کریں تاکہ وہ مقررہ مدت میں ختم ہوجائیں۔ جس انداز سے بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے، اسی انداز سے ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والی عادتوں کا بھی علاج کیجیے۔

دوسرا مرحلہ: نصب العین کا تعین

  • زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ زندگی کے لمحات کا پیمانہ وقت ہے۔
  • زندگی ،نعمتوں کے استعمال اور ان سے وابستہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا نام ہے۔
  • زندگی دنیا میں عمل اور آخرت میں نتائج کا نام ہے۔

زندگی کا نصب العین کیا ھونا چاھیے

  • زندگی کا نصب العین خالق سے وابستگی اور اس کے دیے گئے ضابطہ ٔ حیات اور اس سے کیے ہوئے عہد پر عمل کرنا ہے۔
  • اس کی بہترین مثال اللہ کے نبیؐ ہیں اور ان کی سیرت کے تابع زندگی گزارنے کی کوشش، ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔
  • اس عہد کے اپنے آداب ہیں، کچھ کرنے کے کام ہیں اور کچھ کام نہ کرنے کے ہیں۔
  • احساس ذمہ داری اور آخرت میں جواب دہی کی تیاری ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔
  • اس نصب العین کی خوبی یہ ہے کہ دنیا بھی بہتر ہو، آخرت اور دنیا کی درمیانی مدت (برزخ) بھی بہتر ہو، اور بالآخر آخرت بھی بہتر ہو۔

نصب العین کے متعین ھونے کے بعد زندگی پر اثرات

  • مندرجہ بالا نصب العین کے تعین کے بعد ہماری زندگی میں امید اور خوف کا معاملہ آتاہے۔
  • اس نصب العین کے تعین کے بعد شخصیت میں ایک توازن، ترتیب، تنظیم، تہذیب اور توکّل کے عناصر آجاتے ہیں۔
  • متعینہ نصب العین ہمارے اندر سچائی، ایمان داری، امانت،ایفاے عہد اور اپنی ذات کے ساتھ انصاف جیسے اخلاقی اوصاف کا متقاضی ہے۔
  • عزتِ نفس، احترام انسانیت ، اعتدال، معاملہ فہمی، عفو و درگزر ، ضبط، غصہ، صبر و شکر___ یہ اقدار ہماری ذات کے لیے مطلوب ہیں ۔
  • اس نصب العین کے حصول کے لیے، آپ کو  مقاصد یا اہداف متعین کرنے ہوں گے۔

تیسرا مرحلہ: حصولِ نصب العین کے لیے اھداف کا تعین

زادِ سفر کا جائزہ لیں اور بہتری کے لیے بہی مقاصد مقر ر کریں

  • احسا س ذمہ داری: یہ وہ بنیادی عنصر ہے جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر آپ کی ذات میں ہونا چاہیے۔
  • رویہ:یہ وہ عنصر ہے جو آپ کو مقبول بھی بناسکتاہے اور معتوب بھی۔ اس پر غور کرنے اور تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
  • عادات:یہ وہ افعال ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی کے قواعد اور اصول بن سکتے ہیں۔ان عادات کے ذریعے آپ کے سفر کی رفتار تیز اور منزل قریب ہوسکتی ہے۔
  • صلاحیتیں اور قابلیتیں:یہ وہ مطلوبہ صلاحیتیں ہیں جو آپ کی بقا، ترقی اور کامیابی کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔ ان صلاحیتوں میں غوروفکر سے لے کر اجتماعی کوششیں، تقسیم کار اور قیادت شامل ہیں۔ لیکن عمر اور ذمہ داریوں کے ساتھ اس کی نسبت ہے۔
  • ٹکنالوجی :یہ صدی تیز رفتاری، غیر دیواری یا بغیر سرحدوں کی صدی ہے۔ ٹکنا لوجی اس قدر ترقی کرگئی ہے کہ برسوں کے سفر اب لمحوں میں طے ہورہے ہیں اور دنیا ایک لیپ ٹاپ یا موبائل فون میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔

درج ذیل میدانوں کے لیے مقاصد و منازل کا  تعین کریں

  • ذاتی زندگی کے لیے، تربیت اور صحت ، ترقی اور کامیابی کے لیے۔
  • تعلیمی زندگی، کیریر، رزقِ حلال اور معاشی آسودگی کے لیے۔
  • خاندان، والدین، بیوی بچے اور گھریلو زندگی کے لیے ۔
  • سماجی اور معاشرتی زندگی میں اپنی عزت نفس اور مقام کے لیے۔

چوتھا مرحلہ: ذات میں تبدیلی اور سیکھنے کا عمل

  • اپنی سوچ اور انداز فکر کا جائزہ لیں، اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں اور اسے نصب العین اور مقاصد زندگی سے ہم آہنگ بنائیں۔
  • اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیں انھیں دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالیں۔
  • اپنے تعلقات کا جائزہ لیں اور نصب العین اور مقاصد زندگی کے مطابق بنائیں۔
  • اپنے اخلاق کو سنوار کر تمام میدانوں میں ہر دلعزیز  بننے کی کوشش کریں۔
  • اپنے معاملات کے حوالے سے قابل اعتماد بنیں کہ آپ پر بھروسا کیا جا سکے۔
  • اپنے آپ کو منظم کریں۔اپنی ذات کو پھیلانے کے بجاے سمیٹنے کی کوشش کریں۔ اپنی بکھری ہوئی چیزوں اور معاملات کو مجتمع کریں اور پھر جائزہ لیں کہ کیا ضروری ہے اور کیا غیر ضروری ؟
  • جو  کام سرانجام دے رہے ہیں ان کا جائزہ لیں کہ کیا وہ کرنا ضروری ہیں اور ساتھ ساتھ ایک ایسی فہرست بنائیں جس میں آپ طے کرلیں کہ آپ کو یہ کام نہیں کرنے۔
  • تضیع اوقات اور تساہل کو ترک کریں۔اپنے اوقات کے ضائع ہونے کا خاص خیال رکھیں اور اپنی زندگی سے سستی ، کاہلی اور ٹال مٹول کی عادت کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔
  • نصب العین اور مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے کام کریں۔ جو بھی کام کریں، اپنے ذہن میں اپنے نصب العین کو پیش نظر رکھیں اور دیکھیں کیا یہ کام اپنے نصب العین کے مطابق کررہے ہیں۔
  • روزانہ چند لمحات تنہائی کے حاصل کیجیے اور اپنے آج کو گذشتہ کل سے بہتر بنائیں۔ اپنے آنے والے کل کو اپنے گزرے ہوئے آج سے بہتر بنانے کی تیاری اور کوشش کریں۔

پانچواں مرحلہ: عملی پیش رفت اور جائزہ

ترجیحات کے  مطابق منصوبہ بندی کریں

  • ترجیحات کی درجہ بندی کرکے اپنے لیے عملی پروگرام بنائیں۔
  • مقاصد، مطالب، منازل کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کریں۔
  • کیلنڈر کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو اوقات کا پابند بنایئے ۔

فیصلہ کریں کہ اپنے مقاصد کے لیے کن معاملات سے دستبردار ھوں گے

  • اپنے کاموں اور مقاصد کی فہرست بنانا ضروری ہے۔
  • وسائل اور صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو چند مقاصد اور کاموں کو دوسرے کاموں کے مقابلے میں ترجیح دینا ہوگی، اور چند مقاصد اور کاموں سے دستبردار ہوناہوگا۔

اپنے کرنے کے کاموں کا ٹائم ٹیبل بنایئے

  • مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو ترتیب دیجیے۔
  • یومیہ ، گھنٹوں کے لحاظ سے ٹائم ٹیبل بنایئے اور اس کو ٹائم ٹیبل میں مربوط کیجیے۔

کاموں کے لیے وقت اور وسائل کا تعین کیجیے

  • مقاصد سے لگن کے لیے اپنے کاموں کے لیے وسائل مہیا کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔
  • کام، وسائل اور معینہ اور مقررہ وقت کی سختی سے پابندی کیجیے۔

یومیہ امور کی فہرست بنائیں اور اس پر باقاعدگی سے عمل کریں

  • روزانہ رات سونے سے قبل، اگلے روز کرنے کے کاموں کی فہرست تیار کرلیں۔ اپنے کاموں کی ترجیحات بنالیں اور ان پر عمل کرنے کے لیے ترتیب کے نمبر بھی ڈال دیں۔

افراد کے ساتھ کام کرنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کا فن سیکھیے

  • افراد کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت پیدا کیجیے۔
  • افراد کی تربیت کرکے ان کی ایک مؤثر ٹیم بنانے کی کوشش کیجیے۔
  • تربیت کے بعد ٹیم کو کا م بھی سکھائیں۔
  • کام کرکے بھی دکھائیں اور پھر ان میں اعتماد پید ا کرکے تفویض اُمور کا فن بھی سکھائیں۔
  • اپنا بھی جائزہ لیں اور اپنی ٹیم کے ساتھ بھی جائزے کا کوئی فورم بنائیں۔
  • اچھی کارکردگی کو سراہنے کی عادت ڈالیں اور اپنے اچھے کام کرنے والے افراد کی سب کے سامنے تعریف کریں۔
  • متاثرہ کارکردگی والے افراد کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں، ورنہ ان کو اچھے الفاظ میں تنبیہ کریں۔
  • تنبیہ میں اپنے ساتھی کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور ایسی بات نہ کریں جو دل شکنی کا باعث ہو۔

نئی سوچ اور نئی فکر کے ساتھ تبدیلی لائیں۔      

  • اپنی سوچ میں تنوّع پیدا کریں۔
  • اس کے لیے مطالعہ اور غورو فکر کریں۔
  • اپنے افراد کار میں بھی یہ عادت ڈالیں۔ انھیں سمجھائیں کہ یہ گھر کے حساب کی مانند ہے تاکہ آپ کو ضروری اور غیر ضروری مصارف کا احساس ہوسکے۔

اپنے دفتر کو کیسے منظم کریں؟

  • آپ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آپ منظم بھی ہوں اور منظم نظر بھی آئیں۔
  • دفتری زندگی میں کاغذات کثرت سے جمع ہوجاتے ہیں اور ان کی موجودگی پریشان کن ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک الماری لی جائے یا کاغذات کو ترتیب سے رکھنے والے فولڈرز کارآمد ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد آپ اپنے کاغذات کو منظم کرلیں اور جو غیر ضروری ہیں انھیں ضائع کردیں اور جن کے متعلق فیصلہ نہیں کرسکتے انھیں اپنے کاغذات کے بنائے گئے پارکنگ لاٹ میں رکھ دیں۔
  • اپنی میز سے غیر ضروری چیزوں کو ہٹادیں اور ہر چیز کی ایک جگہ بنادیں اور ہر چیز اپنی جگہ پر رکھنے کی عادت ڈالیں۔
  • اپنی میز پر وہ تمام چیزیں جمع کرلیں جن کی آپ کو کام کے دوران ضرورت ہوتی ہے۔
  • اپنی میز کی درازوں کی ترتیب کا جائزہ لیں اور جو چیزیں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ہیں انھیں پہلی دراز میں رکھ لیں۔
  • اپنے اوقات کو منظم کرنے کے لیے کوئی ڈائری رکھیے یا کیلنڈر کا استعمال کریں اور آپ کے لیے ممکن ہے تو دور جدید کے آلات، مثلاً پلاننر، پی ڈی اے یا لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون بھرپور استعمال کریں اور انھیں سکائی ڈراییو کے ذریعے محفوظ بھی کرتے رہیں۔
  • ٹیکنالوجی کے اس دور میں تاروں کی بھرمار ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں نہ صر ف اُلجھن ہوتی ہے بلکہ وقت بھی ضائع ہوتاہے۔ ایسی صورت میں ان تاروں کوآپ تھیلیوں میں ڈال کر رکھیں ورنہ ان کو کسی بھی انداز سے کلپ کرلیں یا ربڑ رنگ سے باندھ لیں۔
  • اپنے دفتر کے لے آئوٹ کو اس انداز سے بنائیں کہ آپ کو کام کرنے میں آسانی ہو۔

یومیہ کرنے کے کاموں کی فہرست

  • انگریزی میں اسےTo Do List کہتے ہیں۔ اس فہرست کے ذریعے آپ اپنے روزانہ کے کرنے کے کاموں کو تحریر کرتے ہیں اور پھر ترجیحات متعین کرکے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند تجاویز یہ ہیں:
  • یہ چھوٹے کارڈز بھی ہوسکتے ہیں یا نوٹ بک بھی یا پاکٹ ڈائری بھی۔ دورِ حاضر میں ٹکنالوجی  کے استعمال سے آپ اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون کو بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
  • جب آپ اس فہرست کو استعمال کریں تو سارا دن آپ کی نظروں کے سامنے ہونی چاہیے۔
  • یہ فہرست روزانہ شام کو بھی اگلے دن کے لیے تیار کی جاسکتی ورنہ کم از کم روزانہ صبح کو کام شروع کرنے سے پہلے تیار کرلینی چاہیے۔
  • اس فہرست میں وہی کام ہوں جو آپ آج کے دن کرنا چاہتے ہیں۔ اس فہرست میں پورے ہفتے کے کام لکھ کر آپ اپنے آپ کو پریشان کردیں گے۔
  • اہم ترین کاموں کو سر فہرست رکھیں ورنہ ترجیحات کے اشارات بنالیں یا اردو کے الف، ب، ج یا انگریزی کے اے، بی ،سی وغیرہ استعمال کرلیں
  • اس دوران آپ کے ذہن میں مختلف خیالات بھی آتے رہیں گے جس کے لیے آپ کے نوٹ کرنے کے لیے جگہ ہونی چاہیے۔
  • اپنے ممنوعات کی بھی فہرست بنالیں، یعنی وہ کام جن کو آپ دن میں نہیں کریں گے، جیسے سوشل میڈیا کے کام اور رابطے۔ یہ کام آپ دفتری اوقات میں نہیں کریں گے بلکہ ان کا بھی ایک وقت معین ہوگا جس میں آپ یہ کام بھی کرکے نکل جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جس میں آپ ڈوب جاتے ہیں اور آسانی کے ساتھ نکل نہیں سکتے۔
  • اتنے کاموں کی فہرست بنائیں جو آپ کرسکتے ہیں۔ انھیں ترجیحات اور ترتیب کے ساتھ کرنے کی کو شش کریں تاکہ شام کو آپ کو کارکردگی کا احساس ہو۔
  • جب آپ فہرست کے کاموں میں سے کوئی کام ختم کرلیں تو آپ کا حق بنتا ہے کہ آ پ ہلکا سا وقفہ لے لیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک کام ختم ہونے کے بعد لیں۔ اگر کام کے دوران وقفے لینے شروع کردیے تو آپ کے کام عموماً ادھورے رہ جائیں گے۔
  • جب آپ کوئی کام نہ کرسکیں تو اسے اگلے دن کی فہرست میں ڈال دیں۔
  • ہمیشہ دفتر وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کریں اور اپنی فہرست کو سامنے رکھتے ہوے اپنے دن کی منصوبہ بندی کریں۔
  • جب فہرست بنائیں تو اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جنگ ِبدر کے شروع ہونے سے پہلے میدان بدر میں اپنی انگلی مبارک سے چند لکیریں کھینچیں تھیں جن کے بارے میں ماہرین جنگ نے لکھا ہے کہ اسلام کے لیڈر جنگ شروع کرنے سے پہلے جنگ کی تیاری کررہے تھے۔ اگر آپ استنباط لیں تو آپ اپنی یومیہ فہرست بناکر  نبی اکرمؐ کی سنت پر عمل کررہے ہیں۔
  • اپنے دن کی ابتدا میں یہ دعا پڑھا کریں۔۔۔اے اللہ ! آپ ہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی، درمیانے حصے کو بہبودی اور آخری حصے کو کامرانی بنادیں۔

 کام کے دوران مطلوبہ صلاحیتیں

کامیابی کے لیے چند مطلوبہ صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ ان میں اہم ترین یہ ہیں:

  • کمیونی کیشن، یعنی زبانی اور تحریری انداز بیان کی مہارت۔ اس کی کاروباری اور دفتری زندگی میں بڑی اہمیت ہے خاص کر جب آپ پرائیویٹ اداروں میں کام کرتے ہیں یا بین الاقوامی معیار کے اداروں میں کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت کے عناصر یہ ہیں:

سمجھ کے پڑہنے کی صلاحیت:

  • تحریری طور پر اپنے خیالات اور نقطۂ نظر بیان کرنے کی صلاحیت۔
  • بات کرنے کاوہ اندازجسے مقابل یا دوسرے لوگ سمجھ سکیں۔
  • متحرک طریقے سے سننے کی صلاحیت۔
  • ناقدانہ انداز سے مشاہدہ کرنے کی صلاحیت۔

باہمی رابطے یا انٹر پرسنل صلاحیتیں:

  • دوسروں کی رہنمائی کی صلاحیت۔
  • باہمی اختلافات کو سمجھنے اور مذاکرات کے ذریعے انھیں حل کرنے کی صلاحیت۔
  • نمایندگی کرنے اور اپنی بات متاثر کن انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت۔
  • ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی صلاحیت۔

فیصلہ کرنے کی صلاحیت:

  • مسائل کو سمجھنے کی اور ان کو گفت وشنید کے ذریعے حل کرنے کی صلاحیت۔
  • مسائل کو حل کرنے اور ان پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت۔
  • اس صورت حال میں احسن طریقے سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت۔

زندگی بھر کام آنے والی صلاحیتیں:

  •  ذاتی طور پر بقا اور ترقی کے لیے سیکھنے کی ذمہ داری کی صلاحیت۔
  • جو کچھ سیکھا ہے اسے ظاہر کرنے اور اس کا جائزہ لینے کی صلاحیت۔
  • تحقیق کے ذریعے سیکھنے کی صلا حیت۔
  • دور جدید کی معلوماتی اور رابطے کی ٹکنالوجی کے استعمال کی صلاحیت۔
  • اپنے ادارے کے ذریعے ان صلاحیتوں کو دفتری اوقات میں یا تعطیلات کے دنوں میں یا گھر کے اوقات میں سیکھنے کی کوشش کیجیے۔

دفتری زندگی اور دفتری سیاست میں بقا کی کوشش

  • دفتری زندگی میں بقا بعض افراد کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ دفتری سیاست ہے جس میں بعض اوقات انسان کے لیے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور بعض اوقات انسان کی عزت نفس کو اس بُری طرح ٹھیس پہنچائی جاتی ہے کہ انسان اپنی ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے یا وہ ذہنی تنائو کا شکار ہوجاتاہے۔اس سلسلے میں چند امور غور طلب ہیں:
  • دفتری سیاسی ہوائوں کو سہنے یا جواب دینے کا معاملہ آپ کی صواب دید پر ہے۔ اس سلسلے میں آپ کو ہوشیار اور باہمت رہنا پڑے گا۔ لوگوں کی چالوں اور مکاریوں سے گھبرانے کے بجاے آپ کو صبر اور مستقل مزاجی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
  • دفتری سیاست کے دوران آپ کوآپ کے ادارے کے کاروباری مقاصد کو پیش نظر رکھنا ہوگا اور اس سیاسی طوفان کے دوران اگر آپ نے اپنے ادارے کے مقاصد کی خاطر کڑوی گولی کھالی تو یہ آپ کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ شروع کے دنوں میں اس بات کی بڑی کوشش ہوتی ہے کہ آپ کی توہین کرکے آپ کو ناکام کردیا جائے۔
  • آپ اپنی صلاحیتوں اور دائرہ کار کی قوت کے ذریعے اپنی مقدور بھر کوشش کریں کہ آپ   اس سیاسی طوفان سے گزر جائیں اور ادارے کی بھلائی کے لیے آپ جو بھی کرسکتے ہوں کرگزریں۔
  • دفتری زندگی میں عموماً کئی گروپ بنے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی سیاسی کش مکش میں آپ اور آپ کا کام اور کارکردگی متا ثر ہوتی ہے۔ بہتر ہے اس سیاسی کش مکش میں آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور کسی گروہ یا پارٹی کا حصہ نہ بنیں۔
  • دفتری زندگی میں کام کے دوران جو صورت حال پیدا ہو اسے آپ اپنی ذات پر نہ لیں بلکہ اپنے ہمدردوں اور دوستوں کے نیٹ ورک سے بھرپور استفادہ کریں۔ آپ کی ترقی کی راہ میں خود آپ کے اپنے ساتھی رکاوٹ بنتے ہیں اور آپ کے افسر کے ساتھ وہ معاملات طے کرتے ہیں جس سے آپ کا افسر آپ کی ترقی کے لیے نامزدگی میں مشکلات محسوس کرتا ہے۔ بہرحال آپ کا نیٹ ورک ہی معاونت کرسکتاہے۔
  • اپنی بات سمجھانے سے پہلے اس بات کی کوشش کریں کہ آپ لوگوں کی بات سمجھ سکیں۔    اس طرح آپ کے دفتری افراد سے روابط اچھے ہوجائیں گے اور وہ محسوس کریں گے کہ  آپ ان کی بات سمجھ گئے ہیں۔
  • آپ کا انداز اور رویہ ایسا ہو کہ لوگ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے ہوے اپنے آپ کو جیتا ہوا محسوس کریں،جب کہ آپ بھی جیتے ہوئے ہوں۔ یہ اکرام شخصیت اور عزتِ نفس کی نفسیات کا معاملہ ہے۔ اسے انگریزی میں وِن وِن کہتے ہیں۔ آپ کے پاس سے جب بھی کوئی اٹھ کر جائے تو اسے محسوس ہو کہ اس کے آپ سے مذاکرات کامیا ب ہوئے ہیں۔
  • دفتر کے افراد کے ساتھ آپ کا رویہ بھی پُرامن ہو اور آپ بھی ان حرکتوں سے دور رہیں جو کہ آپ کو سیاسی دنگل میں لے آئیں۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پروفیشنل تعلقات رکھیں۔
  • دفتر میں بعض اوقات لوگ آپ کو دفتر کے راز بتاتے ہیں۔ یہ معاملہ یا تو اعتماد کے باعث ہوتا ہے یا ایک سیاسی چال۔ آپ اتنے پُراعتماد ہوں کہ وہ راز صر ف اور صرف آپ کی حد تک رہیں اور آپ دوسروں تک وہ باتیں پہنچانے کا باعث نہ بنیں۔اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ سیاسی جنگل میں داخل ہو جائیں گے اور کبھی نہ کبھی شکار بن سکتے ہیں۔
  • دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ ہر دلعزیز بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان کے لیے مددگار ثابت ہوں۔ یہ چیز اپنی گاڑی میں لفٹ دینے کے علاوہ کسی مشکل صورت حال میں مشاورت سے بھی ہوسکتی ہے۔
  • دفتری گفتگو جس میں افراد اور ان کی صورت حال بطور مذاق زیر بحث ہو اس سے پرہیز کریں کہ یہ مذہب کے بھی خلاف ہے اور انسانی جذبات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ ایسے مو قع پر آپ کوشش کریں کہ موضوع تبدیل ہو جائے۔
  • اپنے افسر کے متعلق کہانیوں اور تبصروں سے اپنے آپ کو دُور ر کھیں۔
  • اپنے معاملات اور مسائل جن پر آپ گفتگو کر چکے ہیں اسے آپ ضبطِ تحریر میں لے آئیں، چاہے وہ نوٹ کی صورت ہو یا ای میل کے ذریعے۔
  • اپنے کام میں مہارت رکھیں اور اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو جلا دینے کی کوشش کرتے رہیں۔ محنت ، دیانت اور ہوشیاری کے ساتھ اپنا کام کرتے رہیں۔ اپنے افسر کے دیے گئے ٹارگٹ پورے کرتے رہیں تاکہ اس کا اعتماد آپ پر برقرار رہے۔
  • جب بھی کوئی اچھا کا م کرکے لائے اس کا کریڈٹ آپ اس کو ضرور دیں ورنہ آپ کے خلاف رفتہ رفتہ محاذ بن جائے گا۔

ملازمت میں کامیابی کے لیے چند لوازمات

دفتری زندگی میں کامیابی کے لیے آپ کو ان باتوں پر عمل کرنا ہوگا:

  • اپنے کام کے شیڈول پر باقاعدگی سے عمل کرنا:
  • ہمیشہ دفتر وقت پر یا وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ ٹرانسپورٹ کے متبادل انتظام کا اہتمام کریں۔
  • اپنی نئی ملازمت کے ابتدائی چند مہینوں میں اس بات کی کوشش کریں کہ آپ کام سے وقفے نہ کریں تاکہ آپ کے افسر کو اس بات کا احساس ہو کہ آپ پر اعتماد کیا جاسکتاہے۔
  • اگر کبھی آپ کو دفتر جانے میں دیر ہوجائے تو اپنے افسر کو فوری طور پر اطلاع دے دیں۔
  • کام کے دورانِ معمول کے وقفوں کے دوران آپ وقت پر وقفہ کریں اور وقت پر ہی واپس آجائیں۔ اس پابندی سے آپ کے افسر کو اندازہ ہوگا کہ آپ کب واپس آئیں گے۔
  • ادارے کے قواعد و ضوابط سے واقفیت اور عمل:

  • ادارے کے قواعد و ضوابط کا مطالعہ کریں اور اس سلسلے اہم اور ضروری نکات کو ذہن نشین کرلیں۔
  • اگر آپ کو اس سلسلے میں معلومات نہیں ہیں تواپنے متعلقہ افسر سے معلومات حاصل کریں۔
  • ادارے کی اخلاقیات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور ان کارروائیوں سے گریز کریں جن کے باعث آپ پر انگلیاں اُٹھ سکتی ہیں۔
  • اگر کام کے دوران آپ کسی بھی قسم کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے متعلقہ افسر سے رابطہ کریں۔

لباس اور وضع قطع:

  • اپنے ادارے کے کلچر کو دیکھ کر معلومات حاصل کریں کہ یہاں کس قسم کا لباس قابلِ قبول ہوگا۔
  • آپ کو اپنی تہذیبی اقدار کے باعث لباس کے سلسلے میں مشکل پیش آسکتی ہے مگر آپ اپنی تعلیمی قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر اس معاملے کو حل کرسکتے ہیں۔ ٹکرائو کے بجاے مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔
  • لباس کے معاملے میں تہذیب اور شائستگی کا خاص خیال رکھیں۔ خواتین میک اَپ اور خوشبویات کے باعث پر کشش بننے سے احتراز کریں۔
  • لباس کے ذریعے اہل اور پروفیشنل ثابت کرنے کی کوشش کریں اور چھچھورے پن کا مظاہرہ نہ ہو۔

اپنے آپ کو اہل، قابل اور پروفیشنل ثابت کرنا:

  • کام کے اخلاقیات کے معاملے میں اپنی شخصیت میں نظم و ضبط اور توازن پیدا کریں۔
  • اپنے رویے سے اس بات کو ثابت کریں کہ آپ کام کے اہل ہیں اور آپ کو آپ کے کام میں نگرانی کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔
  • کام خوب کریں اور کام کو احسن طریقے سے کریں۔ اس میں اپنے کمال کا مظاہرہ بھی کریں اور حق بھی ادا کریں ۔
  • رابطے کی صلاحیت کو اجاگر کریں۔ صاف انداز سے گفتگو کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔
  • کام کے ماحول کے لحاظ سے الفاظ اور لہجے کو استعمال کریں۔
  • طنزیہ انداز سے گریز کریں۔
  • نچلے درجے کی زبان اور محاوروں سے گریز کریں۔ کام کے دوران آپ کا ادارے کے کسٹمرز سے بھی رابطہ ہوتا ہے۔
  • آپ کی تحریر بھی صاف اور غلطیوں سے پاک ہونی چاہیے۔
  • اپنی سننے کی صلاحیت کو بہتر کریں اور اپنے مقابل کی بات سننے کا فن سیکھیں۔
  • اپنی آنکھوں کے رابطے کو گفتگو کے دوران منقطع نہ کریں۔ اس سے ظاہر ہوگا کہ آپ بات توجہ سے سن رہے ہیں۔
  • اپنے رویے اور مزاج میں لچک پیدا کیجیے اور صورت حال کے مطابق اپنے انداز اور رویے کو بدلنے کی صلاحیت پید ا کیجیے۔
  • اپنے وقت کو بہتر طور پر استعمال کرنے کی کوشش کیجیے۔
  • آپ کا امتحان اس بات میں ہے کہ آپ اپنے وقت کو کس انداز سے استعمال کرتے ہیں اور مطلوبہ نتائج کس انداز سے حاصل کرتے ہیں۔
  • جب آپ کے پاس کام ہو یا کوئی کسٹمر مدد کے لیے آیا ہو اس وقت آپ گپ شپ سے گریز کریں۔
  • نئے کام اور پراجیکٹ پر کام کریں اور ہمت کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے  آپ میں آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔
  • اپنی ذات کے اندر اعتماد پیدا کریں اور اپنے خیالات اور تجاویز کو بہتر طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کریں۔ یہ انداز آپ کی ترقی اور کامیابی کا باعث ہوگا۔
  • اپنی ذاتی زندگی یا نجی زندگی کو کام کے ساتھ نہ ملائیں۔ دفتر میں رہتے ہوے ذاتی فون نہ کریں۔ ذاتی کاموں کے لیے دفتر کی اسٹیشنری اوروسائل استعمال نہ کریں۔یہ بداخلاقی اور خیانت میں شمار ہوگی۔
  • دفتر کے اوقات میں سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کے ذاتی استعمال سے بھی گریز کریں۔ یہ چوری کی تعریف میں آتی ہے۔
  • سگریٹ کے ذریعے دل کو جلانے، پان کے ذریعے گفتگو میں معذور بننے، اور نسوار کے ذریعے بدبو کا باعث نہ بنیں۔

افرادِ کار کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت:

  • گاڑی چاروں پہیوں کے مل کر چلنے سے چلتی ہے۔ یہ گاڑی کا ٹیم ورک ہے۔اسی انداز سے اداروں کے اندر افراد ایک منظم طریقے سے کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوے، احترام کرتے ہوئے اور معاونت کرتے ہوے کام کرتے ہیں۔ اس انداز کو ٹیم ورک کہتے ہیں جس کے ذریعے سے ادارے کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔
  • اہم اور فوری توجہ طلب معاملات کو اپنے متعلقہ افسر تک فوراًً پہنچا دیں۔
  • اپنے ساتھ کام کرنے والے ان افراد کی شناخت کرلیں جو مثبت رویے کے حامل ہیں اور ان کی کارکردگی بھی اچھی ہے۔ ان افراد سے گریز کریں جن کا رویہ اور کارکردگی قابل ستایش نہیں ہے۔
  • نیٹ ورکنگ یا باہمی معاونت کے دائرے کو سمجھنے اور اس کا احترام کرنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مفید بننے کی کوشش کریں۔
  • اپنے دفتر کے سیاسی، مذہبی اور ثقافتی ماحول کا خیال رکھیں اور ایسی گفتگو اور انداز سے احتراز کریں جس سے اس معاملے میں آپ کی جانب سے جارحیت تصور ہو۔
  • اگر دفتر کے افراد کار آپ کے کا م میں مداخلت کا باعث بنتے ہیں تو اپنے متعلقہ افسر سے اس معاملے میں مشورہ کریں۔

خوش گوار رویہ اپنائیں:

  • مثبت انداز اور مثبت فکر کے حامل رہیں۔ اپنے افسر اور ساتھیوں کا احترام کریں اور احترام سے رہیں۔ عزت نفس کا خیال رکھیں۔ اچھے تعلقات رکھیں مگر دوستی دفتر کے باہر ہی ہونی چاہیے، ورنہ دفتر کا ماحول کیفے ٹیریا یا ڈھابا بن جائے گا۔
  • سوالات اور گفتگو کے ذریعے غلط فہمیوں کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔
  • جب آپ کو مدد کی ضرورت ہو تو ضرور اپنے ساتھیوں سے طلب کریں۔
  • کام کے دبائو کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھیں اور پُرسکون رہیں۔ یہی آپ کی آزمایش کا وقت ہے۔ اس سے آپ ثابت کریں گے کہ آپ مشکل سے مشکل صورت حال میں بھی کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور گھبراتے نہیں ہیں۔
  • اس بات کی بھی صلاحیت پیدا کیجیے کہ آپ مثبت تنقید سن سکیں اور اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکیں۔ اسے احتساب بھی کہتے ہیں۔ اسے اپنی اصلاح کا ذریعہ بنایئے۔
  • اگر آپ سے غلطی یا غلطیاں سرزد ہوں تو ان کا فوراً اعتراف کرلیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کریں۔ اس دنیا میں لوگوں کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔
  • اپنے اقدامات اور فیصلوں کی ذمہ داری قبول کیجیے۔
  • آپ کے ذاتی مسائل آپ کی دفتری کارکردگی کو متاثر نہ کریں۔
  • اپنے جذبات کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔
  • کارکردگی کا جائزہ لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔

کامیابی معین اہداف کے حصول کا نام ہے، چاہے وہ دینی ہوں یا دنیاوی۔ ان کا انسان کی انفرادی، خاندانی یا معاشرتی، غرض زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق ہو سکتا ہے۔ انسان جب ان اہداف کو حاصل کرلیتا ہے تو اسے نہ صرف خوشی اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے بلکہ وہ یہ محسوس کرتا  ہے کہ وہ زندگی کی شاہراہ پر کافی آگے نکل گیا ہے۔

خوش بختی  ایک نفسیاتی اطمینان اورخوشی کی کیفیت کا نام ہے جو خُدا کے دیے پر قناعت اور اس کی رضا پر راضی رہنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔خوش بختی کا سر بستہ راز خداے واحد پر ایمان، بندگی کے کلی مفہوم کی صحیح سمجھ اور اس کی عملی تطبیق میں مضمر ہے۔بندگی کا مفہوم ایک کلی مفہوم ہے جس میں ایک مسلمان کا ہر ہر شعبہ رنگا ہونا چاہیے۔کامیابی کا تصور اس وقت ایجابی اور صحیح سمت رواں ہو گا جب تک وہ بندگی کے تصور سے پیوستہ رہے گا اور اگر یہ تصور بندگی کے تصور سے مربوط نہیں تو لازماً منفی اور غلط نتیجے تک پہنچ کر رہے گا۔

کامیاب اور ناکام  فرد کی خصوصیات

  • کامیاب فرد: وہ کام کی ذمہ داری اٹھاتاہے، یعنی احساس ذمہ داری اس کی اہم خصوصیت ہوتی ہے۔
  •               وہ مسئلے کا تفصیل سے جائزہ لیتا ہے، یعنی باریک بینی سے کام لیتاہے ۔
  •               وہ دوسرے کامیاب لوگوں کی عزت کرتا ہے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، یعنی اس میں دوسروں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ ہوتاہے۔
  •               وہ یہ جانتا ہے کہ وہ کون سے معاملات ہیں جن کے لیے لڑنا چاہیے اور کون سے قابل مصالحت، ہیں، یعنی وہ حکمت اور مصلحت کو پیش نظر رکھتاہے۔
  •               ذمہ داری کو اس سے زیادہ محسوس کرتا ہے جتنا فرض منصبی کا تقاضا ہے۔
  •               شکست کا اتنا خوف نہیں رکھتا جتنا ہارنے والا خوف زدہ ہوتاہے۔
  •               وہ جانتا ہے کہ وہ اچھا ہے مگر اس بات کو بھی تسلیم کرتاہے کہ ا تنا اچھا نہیں جتنا ہونا چاہیے۔
  •               اپنی غلطی کااعتراف کرتا ہے اور حسب موقع معافی بھی مانگ لیتاہے۔
  •               عملاً دکھاتا ہے کہ وہ اس غلطی کو دور کرنا چاہتا ہے۔
  •               ناکام فرد سے زیادہ کام کرتا ہے مگر اس کے باوجود اس کے پاس دوسرے کام کرنے کے لیے  بہت وقت ہوتاہے۔
  •               اپنی رفتار کا تعین کرتا ہے اور جائزہ لیتا رہتا ہے۔ منزل سے فاصلے کو دیکھتاہے اور اسے عبور کرنے کی کوشش کرتا رہتاہے۔
  •               کہتا ہے: ’’اس کام کے لیے کوئی بہتر طریقہ ہونا چاہیے۔ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتاہے۔
  • ناکام فرد :  وہ وعدے کرتاہے مگر غیر ذمہ داری کے ساتھ اور عملاً انہیں نبھا نہیں سکتا -
  •               مسئلے میں اُلجھا رہتا ہے اور کبھی اسے سمجھ نہیں پاتا ۔ ہمیشہ مکڑی کے جال میں پھنسا رہتا ہے۔
  •               کامیاب لوگوں سے جلتا ہے اور ان کی کامیابیوں میں کیڑے نکالتا ہے۔  شخصیت  میں حسد کا مادہ  بھر ا رہتاہے ۔
  •               ایسے مواقع پرمصالحت کرلیتا ہے جہاں مصالحت نہیں کرنی چاہیے اور ان باتوں میں جھگڑتاہے جو اس قابل نہیں کہ ان پر جھگڑا کیا جائے۔ عمومی طور پر جلد باز ہوتاہے۔
  •               کہتا ہے کہ یہاں صرف میں کام کرتا ہوں اور دوسروں کو نہ تو تسلیم کرتا ہے اور نہ ان کے کاموں کو ہی سراہتاہے۔
  •               دل ہی دل میں کامیابی سے خوف زدہ رہتا ہے۔ کامیابی کا خوف بھی اس کا ایک مرض بن جاتا ہے۔
  •               وہ سمجھتا ہے کہ میں اتنا برا نہیں جتنے دوسرے لوگ ہیں اور ہمیشہ اس ذہنی مقابلے میں رہتا ہے۔
  •               وہ اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا اور خرابی اور ناکامی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
  •               کہتا ہے مجھے افسوس ہے مگر اگلی بار پھر وہی کام کرتا ہے، یعنی اسے اپنی ذات پر قابو نہیں ہوتا۔
  •               کامیاب فرد کے مقابلے میں کم کام کرتا ہے مگر پھر بھی وقت کی کمی کا رونا روتا ہے۔
  •               بے حد ہیجانی کیفیت میں رہتاہے اور بے حد سست اور کاہل ہوتا ہے۔ بات اور کام کو ٹالتا ہے۔
  •               کبھی عمدگی سے کام نہیں لیتا-بے حد کمزوری یا ظلم کی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ شخصیت میں     عدم توازن ہوتا ہے۔
  •               اپنے بولنے کی باری کے لیے مضطرب رہتاہے اور دوسروں کے بولنے کے دوران بے چین رہتاہے۔
  •               وہ اپنے معاملات کے دفاع میں کہتا ہے کہ یہاں ہمیشہ اسی طرح کام ہوتاہے۔

کامیابی کے دائرے اور سانچے

  • رویے: مثبت انداز فکر اپنائیے 
  • پر سکون رہیے
  • پُراُمید رہیے rتوکل کیجیے۔
  •               مضبوط قوتِ ارادی اور مستقل مزاجی سے کام لیجیے ۔
  •               جاگتے رہیے اور ہوشیار رہیے، لوگوں کی باتوں میں نہ آیئے اورمعاملات میں محتاط رویہ اختیا ر کیجیے۔
  •               نصب العین اور مقاصد کو ہمیشہ پیش نظر رکھیے اور اپنے رویے اور مزاج کو نصب العین کے تقاضوں کے مطابق بنائیے۔
  •               جہد مسلسل کیجیے اور آگے بڑھنے کے جذبے کو برقرار رکھیے۔
  •               انگریزی کے لفظ ونِ ونِ (win, win) یعنی کامیابی کو پیش نظر رکھیے اور دیکھیے کہ سب کو اجتماعی کامیابی کا احساس ہو۔
  •               ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے اور اس کا احساس کرنا ضروری ہے۔ دیکھیے کہ قائد انسانیتؐ  نے حجر اسود کو اپنی جگہ پر دوبارہ رکھنے کے سلسلے میں کس حکمت عملی اور احساسِ عزتِ نفس کے ساتھ اس معاملے کو چادر پھیلا کر سلجھا دیا۔
  •               باہمی امداد کا رویہ رکھیے۔ جب آپ دوسروں کی امداد کریں گے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ تعاون کریں گے۔
  •               جذباتی پن، غصے اور ردعمل کے رویے پر قابو رکھیے۔
  •               بہت جلدی ناراض مت ہوں۔ اگر ناراض ہونے کی عادت ہے تو جلدی سے خوش بھی ہوجایئے کہ یہ اچھی علامت ہے۔
  •               تصوراتی (آئیڈلسٹک) زندگی مت گزاریں- اس دنیا میں ہی رہ کر آخرت بنانی ہے۔ سب لوگ آپ کو آپ کے مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں ملیں گے۔
  •               نتائج کو ذہن میں رکھیں۔ درحقیقت انجام آخرت کو پیش نظر رکھیں۔
  •               صبر و تحمل اور حلم سے کام لیجیے۔
  •               شکر گزار بنیے۔ لوگوں کے احسانات کا اعتراف کیجیے اور رب کی نعمتوں کو محسوس کیجیے اور    اس کے شکر گزار بنیے۔نعمت ایک جنگلی جانور ہے اسے شکر کی زنجیروں سے باندھ کر رکھو۔
  •               استقامت اور باقاعدگی کا رویہ رکھیں۔
  •               حاسبو قبل ان تحاسبو، یعنی اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے۔ قیامت میں پیشی سے پہلے اپنے معاملات کا جائزہ لے کر شاہراہ آخرت کے لیے اپنے بوجھ کو ہلکا کیجیے۔

عادات

  •               ہر کام شروع کرنے سے پہلے منصوبہ بندی کرنے کی عادت ڈالیے۔
  •               روزانہ ’کرنے کے کام‘ کی فہرست بنائیے۔ یہ فہرست ایک دن پہلے شام کو یا رات کو بھی بن سکتی ہے یا علی الصبح بھی بن سکتی ہے، مگر یہ آپ کی عادت بن جائے اور اس کے بغیر آپ کا کام شروع نہ ہو۔
  •               زندگی کے ہر معاملے میں اور اپنے یو میہ کاموں کے معاملے میں ترجیحات متعین کرنے کی عادت ڈالیے۔ اہم اور ضروری کاموں کو اولیت دینے کا طریقہ اپنایئے۔
  •               جو کام شروع کریں اسے ختم بھی کریں۔ کام کرنے اور کام کو سمٹنے کی عادت بنائیے۔
  •               کام کو احسن طریقے اورمقررہ وقت میں کرنے کی عادت ڈالیے۔ ڈیڈلائن (آخری حد) مقرر کرنے اور اس کے مطابق کام کرنے کی عادت اپنانے کی کوشش کریں۔
  •               وقت کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا اور اسے ریکارڈ کرنے کی اور جائزہ لینے کی عادت   بنائیے۔ کام اور معاملات آپ کے قابو میں آنا شروع  ہو جائیں گے۔
  •               جلدی اُٹھنے اور جلدی سونے کی عادت ا پنائیے۔
  •               مطالعہ کرنے اور نوٹس بنانے کی عادت ڈالیے۔
  •               اپنی بہترین کارکردگی کا وقت (پیک ٹائم)  اور بہترین وقت (پرائم ٹائم)کا اندازہ لگائیے، یعنی اس بات کا تعین کیجیے کہ وہ کون سے اوقات ہیں جن میں آ پ بہترین انداز سے اور بہت اچھا اور بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ ان اوقات کو اپنے اہم ضروری اوربہترین کاموں کے لیے استعمال کرنے کی عادت بنایئے۔
  •               لوگوں کی بات سکون کے ساتھ سننے کی عادت اپنایئے۔
  •               فیصلہ کرنے اور اس پر عمل در آمد کرنے کی عادت ڈالیے۔
  •               انتظار اور فارغ اوقات کو استعمال کرنے کی عادت بنائیے۔
  •               معمولات اور معاملات میں لچک رکھنے کی عادت ڈالیے اور گھڑی فوبیا کی بیماری میں مبتلا نہ ہوں۔
  •               مسکرانے کی عادت ڈالیے۔ اس کے لیے صر ف ارادے کی ضرورت ہے۔
  •               خریداری کی منصوبہ بندی کریں۔ ضرورت کو پیش نظر رکھ کر اور ترتیب بنا کر خریداری کے لیے جایئے۔ غیر ضروری خریداری آپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
  •               ہر چیز کے لیے ایک جگہ اور ہر چیز اپنی جگہ پر رکھنے کی عادت ڈالیے۔
  •               ٹی وی، انٹرنیٹ،ای میل کے استعمال میں توازن پیدا کیجیے۔ یہ خوراک کی طرح ضروری نہیں ہیں، البتہ دور حاضر کی ضرورت اور سہولت کا تقاضوں کے مطابق فائدہ اٹھائیے اوردوا اور وٹامن کی طرح استعمال کریں، تاکہ آپ کو احساس ہو کہ زیادہ استعمال کرنے کے کیا نقصانات ہیں۔
  •               ایک سوال اپنے آپ سے کرتے رہیے کہ کیا یہ کام یا مصروفیت میرے وقت کا بہترین استعمال ہے؟

صلاحیتیں

  •               مشاہدہ کرنے اور اس سے نتائج نکالنے کی صلاحیت پیدا کیجیے۔
  •               دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنے کی کوشش کیجیے۔ عقل مندی یہی ہے کہ ہم دوسروں کے تجربات سے سبق سیکھیں، اس لیے کہ تجربہ ایک ایسا استاد ہے جو سزا پہلے دیتا ہے اور سکھاتا بعد میں ہے۔
  •               ہردلعزیزی کا فن سیکھیے۔
  •               تعلقات عامہ کا فن سیکھیے اور اپنا نیٹ ورک تشکیل دیجیے۔
  •               گفتتگو اور نقطۂ نظر پیش کرنے کا سلیقہ سیکھیے اور اس کے لیے باقاعدہ تربیت حاصل کیجیے۔
  •               فون اور موبائل پر گفتگو کا سلیقہ سیکھیے اور مختصر انداز میں اپنی بات پیش کرنے کا فن سیکھیے۔
  •               ایک وقت میں ایک سے زائد کام کرنے کا سلیقہ سیکھیے یعنی فون پر بات کرتے ہوتے کاغذات کو سمیٹنا اور اس انداز کے دوسرے کام کا فن سیکھیے۔
  •               ٹیم ورک، یعنی لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا فن سیکھیے اور اجتماعی کامیابی کی کوشش کیجیے۔
  •               تفویض امور، یعنی لوگوں سے کام لینے کا فن سیکھیے۔
  •               فالو اَپ (کام کا تعاقب کرنا)اور مسلسل یا ددہانی کے ذریعے کام کو کروانے کی کوشش کرنا اور اس سلسلے میں کوئی تامل نہ کرنا۔
  •               کاموں میں اس انداز سے شریک ہونا کہ وہ کنٹری بیوشن ہو۔آپ اپنے حصے کاکام ضرور کریں۔
  •               افراد کی تربیت اور انھیں آگے بڑھانے کا فن سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ اس سے ادارے بنتے ہیں اور تسلسل برقرار رہتا ہے۔
  •               لکھنے کی صلاحیت اور تحریر کے ذریعے اپنے خیالات پیش کرنے کا فن سیکھیے۔
  •               تقریر اور پریزنٹیشن کا فن مشق اور تربیت کے ذریعے حاصل کیجیے۔
  •               تیز تر مطا لعے کا فن آپ کی ترقی کا باعث ہے۔
  •               منصوبہ بندی کی صلاحیت کامیابی کے لیے بنیادی شرائط میں سے ہے۔
  •               معاملات پر بات چیت اور مذاکرات کی صلاحیت اور پرسکون رہ کر معاملات کو آگے بڑھانے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔
  •               مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کی تربیت حاصل کیجیے۔
  •               کاموں، معاملات، گفتگو اور اخراجات میں کفایت کی صلاحیت پیدا کیجیے۔ یہ آپ کی کامیابی میں مددگار ثابت ہوں گی۔
  •               انتظام کرنے اور انتظامی معاملات کا فن سیکھنے کی کوشش کیجیے۔
  •               میٹینگ میں شرکت اور اس میں اپنی بات رکھنے کا فن تربیت کے ذریعے حاصل کیجیے۔
  •               اپنے کاموں میں فوکس رہنے کا اور یکسوئی کے ساتھ  کام کرنے کا فن حاصل کیجیے۔
  •               معذرت کرنے کا فن جانیے، یعنی لا یعنی مشاغل اور غیر ضروری کاموں اور نصب العین اور مقاصد سے دُور کرنے والے کاموں سے معذرت کر لیجیے۔ تقویٰ کی تعلیم بھی یہی چیز سکھاتی ہے۔
  •               معاملات میں میانہ روی، کفایت شعاری اور اعتدال اور توازن برقرار رکھنے کی کوشش کیجیے۔

ٹکنالوجی ، ٹولز اور فنی صلاحیت

  •               ڈائری کے استعمال  کا فن سیکھیے اور دورِ جدید کی سہولیات اور وسائل (tools)سے بھرپور فائدہ اٹھائیے۔
  •               روز کے کرنے کے کام کی فہرست اور ’ٹو ڈو لسٹ‘ کا استعمال ایک کارآمد ٹول ہے۔
  •               کمپیوٹر کا بہتر استعمال سیکھنے کی کوشش کیجیے اور اس کے ذریعے اپنے کاموں کو بہتر طریقے سے انجام دینا سیکھیے۔
  •               انٹرنیٹ کا بہتر استعمال سیکھ کر معلومات اور علوم کے نئے دروازوں میں داخل ہونے کی کوشش کیجیے۔
  •               ای میل کا بہتر استعمال سیکھ کر رابطے کی دنیا میں سرعت حاصل کیجیے اور اس کے ذریعے سے وقت اور اخراجات میں کفایت حاصل کیجیے۔
  •               سوشل میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا سیکھیے۔
  •               گوگل ٹاک اور سکایپ کا بہتر استعمال سیکھ کر روابط قائم رکھنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔
  •               دور حاضر کی یہ ایجادات سمندر کی مانند ہیں۔ اس سے ضرورت کے مطابق پانی لیجیے اور اپنے آپ پر قابو رکھیے تا کہ ڈوب نہ جائیں۔

کامیابی کے میدان اور ان کے سانچے

کامیابی کا جوہر اور اس کا راز بعض اہم بنیادی اصولوں کے جان لینے اور ان کی مسلسل مشق کرنے میں مضمر ہے۔ذیل میں کامیابی کے سانچوں ، دائروں اور میدانوں کو ایک چارٹ کی صورت میں پیش کیا جارہاہے:

کامیابی کے دائرے اور سانچے
کامیابی کے میدان
رویے

عادات

صلاحیتیں

ٹکنالوجی، ٹولز اور فنی صلاحیت

ذاتی

تعلیمی

معاشی

خاندانی

معاشرتی

 اس مضمون کے مطالعے کے بعد آپ اوپر دیے ہوئے خانوں کو اپنی ضرورت کے مطابق پنسل سے بھرنے کی کوشش کیجیے تاکہ آپ اپنی ذات کے متعلق فیصلہ کرسکیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مضمون میں جو اشارات دیے گئے ہیں ان میں ہر ایک کے ساتھ ایک چیک بکس بناہوا ہے۔ اسے آپ اپنی ضرورت کے مطابق پنسل سے نشان لگائیں گے تو آپ کو اپنی بہتری کی منصوبہ بندی آسان ہوجائے گی۔

چند بنیادی عوامل

  •  نصب العین، مقاصد اور منصوبہ بندی:نصب العین کا تعین اور زندگی کو      اس نصب العین کے مطابق گزارنے کی کوشش کیجیے۔
  •               نصب العین کا تعین اوراس کے حصول کے لیے مقاصد زندگی کا تقرر کیجیے اور اس پر وقت   صرف کیجیے۔
  •               ان مقاصد کے حصول کے لیے وسائل کا تعین کیجیے اور انتظام کرنے کی منصوبہ بندی سیکھیے۔
  •               ان مقاصد کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ اوقات اور مدت کی تعین کے ساتھ شیڈولنگ کیجیے۔
  •               ان پر عمل درآمد کرنے کا طریقۂ کار وضع کیجیے اور اس کا باقاعدگی سے جائزہ لیتے رہیں۔
  •  عرفان ذات: اپنے آپ کو پہچاننا سیکھیے۔
  •               اپنے مثبت اور منفی حقائق کا جائزہ لیتے رہیں اورکمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے بہتری کی کوشش کرتے رہیں۔
  •               اپنی ذات کی عکاس نوٹ بک بنانا سیکھیں اور اسے باقاعدگی سے پڑھتے رہیں۔
  •  توازن زندگی: تعلیم اور گھر کی تنظیم پر بھرپور توجہ دیں۔ جس جگہ پر اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں اسے مکان کے بجاے گھر بنانے اور سکون کی جگہ بنانے کی کوشش کیجیے۔
  •               گھر اور معاش کی تنظیم کیجیے اور اس میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کیجیے۔
  •               خاندان کی تنظیم کی طرف توجہ دیجیے کہ اس کے حوالے سے جواب دہی ہونی ہے۔
  •               اپنی ذات پر سرمایہ کاری کیجیے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کیجیے۔
  •               ترتیب، تسلسل، توازن اور ترکیب کا خیال رکھیے۔
  •  اخلاقی اقدار: ان بنیادی اخلاقی اقدار پر بھرپور توجہ دیجیے:

  •               سچائی بنیادی صفت ہے اور ہر مذہب کا بنیادی تقاضا ہے۔
  •               امانت کردار کا اہم ستون ہے۔
  •               عہد کی پابندی آپ کے وقار میں اضافہ کرتی ہے۔
  •               انصاف لوگوں میں آ پ کو تسلیم کراتاہے۔

 

قیادت عوام کے کسی گروہ کو ایک طے شدہ سمت میں بلا جبر کام پر آمادہ کرنے کا نام ہے۔ قیادت ایک کردار بھی ہے اور لوگوں کو متاثر کرنے کا ایک طریقۂ عمل بھی۔ قائد کسی گروہ کا ایک ایسا رکن ہوتا ہے جسے کوئی عہدہ یا ذمہ داری دی جاتی ہے اور اس سے اس منصب کے شایان شان کام کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔

قیادت کا منصب

  •               قائد کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کا وقت کہاں خرچ ہورہا ہے اور وقت کو کس طرح  منظم طریقے سے استعمال کرناہے۔ اسے عرف عام  میں کنٹرول کہتے ہیں۔
  •               ٹھوس نتایج پر توجہ مرکوز رکھیے۔ محض کام کے بجاے نتائج پر توجہ دیجیے۔
  •               کام کے ذریعے حالات کی اصلاح اور منزل کی تلاش کیجیے۔
  •               تعمیر کمزوریوں پر نہیں، خوبیوں پر کیجیے۔
  •               اپنے مضبوط اور کمزور پہلوؤں کا جائزہ لیجیے، دوسروں کی خوبیوں کو بھی تسلیم کیجیے۔
  •              چند ایسے اہم میدانوں میں کام پر توجہ دیجیے جن میں مسلسل محنت شان دار نتائج پیدا کرسکتی ہے۔
  •              ترجیحات مقرر کرکے اور ان پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ کرایسے میدانوں کا انتخاب کیجیے۔
  •              اللہ پر بھر پور اعتماد کیجیے، محفوظ اور سہل منزل کا انتخاب کرنے کے بجاے اپنا مقصد بلند رکھیے۔
  •              جب تک اللہ کے لیے کام کر رہے ہیں اس وقت تک کسی چیز کا خوف نہ کیجیے۔

قیادت کی خوبیاں

قیادت کی خوبیوں میں درج ذیل عناصر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے:

  •               سائنسی تحقیق کے ذریعے ثابت ہونے والے عناصر۔
  •               انتظامی تجربات سے حاصل ہونے والے عناصر۔
  •               پیر و کاروں کے بیانات سے سامنے آنے والے عناصر۔

سائنسی تحقیق سے ثابت ھونے والے عناصر

  •               ذہنی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔
  •              وسیع دل چسپی اورصلاحیتیں رکھتے ہیں۔
  •               با ت چیت اور گفتگو کی مہارت رکھتے ہیں۔
  •              رویے اور کردار میں پختگی اور بلوغت ہوتی ہے۔
  •              قوتِ محرکہ کے ذریعے وہ خو د بھی متحرک رہتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی متحرک رکھتے ہیں۔
  •               معاشرتی ہنرمندی ہوتی ہے، یعنی وہ معاشرے میں رہ کر معاشرے کے افراد کو بھرپور فائدہ بھی پہنچاتے ہیں اور ان افراد کو اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
  •              دورِ حاضر کی ضروریات کے مطابق انتظامی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ان صلاحیتوں کو  وہ دنیا اور آخرت کی بہتری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

انتظامی تجربات سے حاصل ہونے والے عناصر

عمومی عناصر

  •              اخلاقی پختگی ہو اور بات بات پر رنجیدہ نہ ہوجاتا ہو، صورت حال کو سمجھنے کی صلاحیت ہو۔
  •             فکری صلاحیت ہو اور نصب العین کے تقاضوں کے پیش نظر سوچ کر آگے بڑھنے والا ہو۔
  •               انتظامی صلاحیت کا مالک ہو اور اس کو صلاحیت کے ساتھ ساتھ فن کے طور پر بھی استعمال کرتا ہو۔
  •               تمام متعلقہ افراد کے ساتھ انصاف سے پیش آتا ہواور اپنی ذات کے ساتھ بھی انصاف کرتا ہو۔
  •              مختلف امور میں دل چسپی لیتا ہو اور الگ تھلگ رہنے والا محسوس نہ ہو۔
  •              ہدایات جاری کرنے کا مزاج رکھتا ہو۔ یہ حکم کے زمرے میں تو ہو لیکن اس انداز سے پیش کرے کہ لوگ اسے اپنی ذمہ داری کے طور پر لیں۔
  •               منصوبہ بندی کا ذہن رکھتا ہو۔ہر کام کرنے سے پہلے منصوبہ بندی کرے اور اس میں اپنی ٹیم کو بھرپور انداز میں شامل کرے۔ یہ منصوبہ بندی صرف ذہن تک محدود نہ ہو بلکہ اسے تحریری صورت میں لاکر ایک لائحہ عمل کے طور پر رکھے تاکہ خود بھی پابند ہواور دوسرے افراد بھی بغیر حکم کے اپنے آپ کو پابند سمجھیں۔
  •              خود اپنے اور دوسروں کے لیے احترام کے جذبات رکھتا ہو۔ اپنے ساتھیوں اور معاشرتی رابطے میں آنے والے افراد کی عزت نفس کا خیال رکھتا ہو۔
  •              مطالعے کا شو قین ہو۔ دین اور دنیا کا مطالعہ کرے اوردور حاضر کے تقاضوں کے مطابق دین کے احکامات دنیا کے لوگوں کے لیے آسان طریقے سے پیش کرے تاکہ عمل ممکن ہو۔
  •              قوت فیصلہ کا مالک معاملہ فہم اور فیصلے کرنے کے طریقۂ کار سے واقف ہو۔ جلد باز، رد عمل کرنے والا اور سست نہ ہو۔
  •              تربیتی ذہن رکھتا ہو اور اپنی ٹیم کو تیار رکھتا ہو۔ اس انداز سے کام کرے اور افراد کو تربیت دے اور تیار کرے کہ کل کسی وجہ سے وہ حاضر نہ ہو سکے تو اس کا کام سنبھالنے کے لیے ایک سے زائد افراد موجود ہوں۔
  •              اپنے کام اور معاملات منظم طریقے سے کرتا ہو۔
  • قابل اعتماد ہو۔لوگ اس پر بھروسا کرتے ہوں۔
  • پُر جوش اور سر گرم ہو، سست اور کاہل نہ ہو۔
  • طاقت وراور باہمت ہو۔ قوی مومن ہو اور اپنی صحت کا خیال رکھتا ہو۔
  • تحریری اور تقریری صلاحیتوں کے ساتھ اظہار کرتاہو۔
  • منطقی ذہن رکھتا ہو۔
  • زود فہم اور مستعد ہو۔
  • ذمہ دار ہو۔rبا وسائل ہو۔
  • بہتری پیدا کرنے کا مزاج رکھتا ہو اور احسان کے اصول پر عمل پیرا ہو۔
  • آگے بڑھ کر اقدام کر سکتا ہو اور محنتی ہو۔rتمام متعلقہ افراد کے ساتھ وفادار ہو۔
  • انسان دوست ہو۔

تنظیم کے متعلق عناصر

  •              تنظیم کے اغراض و مقاصد اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں۔
  •               تنظیم کے ڈھانچے اور رُخ سے بھی واقف ہو۔
  •               فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس ہو۔
  •               تنظیم کی پالیسی، عمل اور طریق کار سے بھی واقف ہو۔
  •               کاروباری تنظیم کی مصنوعات، ان کی تیاری کا عمل اور فروخت کی صورتوں سے واقف ہو۔
  •               غیرکاروباری تنظیم کی صورت میں تنظیم کی خدمات کو مصنوعات کے طور پر لے کر اسے دورِ جدید کی techniques کے ذریعے پیش کرے۔
  •              منصوبہ بندی ، کام کے خاکے کی تیاریاں جانتا ہو اور نگرانی کے عمل سے بھی واقف ہو۔
  •               رپورٹنگ کا سلسلہ، محاسبہ اور احتساب کے طریقہ کارسے واقف اور محاسبے اور احتساب کو اپنی ذات پر حملہ یا بد اعتمادی نہ سمجھتا ہو۔
  •               دنیاوی انداز میں نفع اور خسارے کے مفہوم سے واقف ہو۔
  •              ملازمت، تجارت، فنی اور پیشہ ورانہ علم رکھتا ہو۔
  •            خدمات کا معیار برقرار رکھنے کے تقاضے جانتاہو اور ان کی نگرانی کا فن بھی جانتا ہو۔
  •               بنیادی علوم، یعنی ریا ضی، زبان اور سائنس سے واقف ہو۔
  •              موزوں قانون سازی کر سکتا ہو اور قانون کے مفاہیم اور تقاضوں سے واقف ہو۔

علوم اور مھارت سے شناسائی

ایک قائد کو ان چیزوں کے متعلق علم اور مہارت ہونا چاہیے:

  •               اپنے میدان میں پیشہ ورانہ معیارات کو برقرار رکھنے والا ہو۔
  •              ذاتی قوت اور ترقی کے تقاضوں کا خیال رکھنے والا ہو اور اس میں پیش رفت کرتا ہو۔
  •               تخلیقی فکر کا حامل اور جدید علوم و فنون سے واقف ہو۔
  •              انسانی تعلقات کے اصولوں سے واقف ہو، دورِ جدید کے سوشل نیٹ ورک کے طریق کار سے واقف اور اس سے بھرپور فائدہ  اٹھانے والا ہو۔
  •               افراد کے انتخاب، ان کے تقرر کے اصولوں سے واقف ہو، ٹیم ورک اور تفویض اُمور کے ساتھ محاسبے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
  •               اپنے منصب کے مطابق کام کرنے کی مہارت پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہے۔
  •              تخلیقی سوچ و بچار کے ذریعے  اپنی ٹیم کو آگے لے جانے والا ہو۔
  •              منظم انداز میں منصوبہ بندی کرنا، عمل درآمد کرنا اور تعاقب کرنے کے فن سے واقف ہو۔
  •               دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا آتا ہو۔
  •               ضرورت کے مطابق ریکارڈ رکھنا اور حسب موقع اسے استعمال کرنا آتا ہو۔
  •               امانتوں کا خیال رکھنا اور ان کا باقاعدہ حساب رکھنا آتا ہو۔
  •               قواعد اور ضوابط نافذ کرنے کی صلاحیت ہو۔
  •               مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت ہو۔
  •               حالات کار کی اصلاح کرنے کی صلاحیت ہو۔
  •               ہنگامی حالات سے نمٹنا آتا ہو۔
  •              عمدہ طریقے سے دفتر اورخانہ داری کا فن آتا ہو۔
  •               مسلسل بہتری کے لیے مطالعے اور مشاہدے کا عمل جاری رکھنے والا ہو۔
  •               عمدہ ذاتی مثال قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

قائد: کارکنوں کی نظر میں

پیر وکاروں اور کارکنان کے بیانات سے سامنے آنے والے ایک قائد کے عناصر    درج ذیل ہیں:

  •              مروت اور خاطر داری کی صلاحیت رکھتاہو، روکھا فرد نہ ہو۔
  •               غیر جانب داری کی صلاحیت کا مالک ہو، غیر جانب دار ہو بھی اور غیر جانب دار نظر بھی آئے۔
  •              ایمان داری اس کی خاصیت ہو اور ظاہر اور باطن میں ایمان دار رہنے کی کوشش کرتارہے۔
  •              اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک ہو اور اپنے ساتھیوں میں ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنے والا ہو۔
  •               عوام کے بارے میں علم رکھتا ہو اور باخبر ہو۔
  •               ان صلاحیتوں سے واقف ہو، جن کے ذریعے وہ تنظیم کو اپنے اختیار میں رکھ سکے اور دوسرے افراد غیر ضروری طور پر حائل نہ ہوجائیں۔
  •               جرات اور ہمت کا حامل ہو۔
  •               راست روی اس کا طرۂ امتیاز ہو، یعنی نرم دم گفتگو ،گرم دم جستجو،رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز۔
  •               فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور قوت رکھتا ہو۔
  •               پُر وقار اور بُردبار ہو۔
  •               اپنے ساتھیو ں، ٹیم کے افراد اورعوام کا مفاد پیش نظر رکھتاہو۔
  •               مدد گار اور قربانی کا جذبہ رکھتا ہو۔

کرنے کے کام

درج ذیل سوالوں کے جوابات دے کر اپنی منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کیجیے:

  •               آپ کے سامنے بعض واضح اور معین اہداف ہوں ، منزلیں ہوں اور ان کے حصول کے لیے درست لائحۂ عمل اختیا ر کریں۔ دراصل یہ چیز انسانی زندگی کے لیے اس قدر غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ اسے بڑی تفصیل کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس پر انفرادی اور اجتماعی تربیت کی ضرورت ہے۔
  •               کیا آپ  نے اپنی زندگی کا نصب العین متعین کرلیا ہے ؟
  •               کیاآپ نے اپنے نصب العین کے مقاصد اور مطالب متعین کرلیے ہیں؟
  •               کیا آپ نے ان کے مطابق منازل کا تعین کرلیا ہے؟
  •               کیا آپ نے شیڈولنگ کرلی ہے اور وقت مقرر کرلیا ہے؟
  •               کیا آپ نے اس کے محاسبے کا طریقہ متعین کرلیا ہے؟

آپ کی قوت ارادی اس قدر مضبوط ھو کہ آپ اپنے نفس کی لگام کو اپنی مرضی کے مطابق حرکت دے سکیں، اپنے معاملات کو منظّم کر سکیں:

  •               کیا آپ نے اس بات کا جائزہ لے لیا ہے کہ آپ کتنے مضبوط ارادے کے فرد ہیں؟
  •               کیا آپ کے ارادے بلبلے کی طرح بنتے اور اسی طرح ٹوٹ جاتے ہیں؟
  •               آپ نے مضبوط قوت ارادی کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟

اپنی عادات کا جائزہ لیں، انسان عادات کے ذریعے بھت کچھ حاصل کرتا یا گنواتا ھے۔ وقت، مال اور صلاحیتوں کو ضائع کرنے والی خراب عادات کو ترک کر کے ان کی جگہ عمدہ عادات کو اپنی شخصیت کا حصہ بنالیں:

  •               کیا کبھی آپ نے تنہائی میں اپنی ذات سے ملاقات کرکے اپنی عادات کا جائزہ لیا ہے؟
  •               کیا اچھی اور بری عادات کو الگ الگ نوٹ کرلیا ہے؟
  •               کیا بری عادات کو ختم کرنے اور اچھی عادات کو مزید بہتر بنانے کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کی کوشش کرلی ہے؟

آپ کے اندر بھترین حافظہ موجود ھو۔ دوسرے لفظوں میں، اپنے حافظے کو پروان چڑہانے کے لیے شعوری کوششیں کریں:

  •               کیا آپ نے اپنے حافظے کا جائزہ لیا ہے کہ وہ کس طرح کام کررہا ہے؟
  •               کیا آپ نے حافظے کے بہتر استعمال کے لیے کچھ مطالعہ کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے حافظے کی بہتری  کے لیے کو ئی تربیت حاصل کی ہے؟

دوسروں سے تعلقات و روابط رکہنے کی مھارت حاصل کریں۔ ان کے تجربات سے سیکہنے کا عمل جاری رکہیں:

  •               کیاآپ دوسروں سے اچھی طرح مل لیتے ہیں؟
  •               کیا لوگ آپ سے مل کر خوش ہوتے ہیں؟
  •               جب آپ لوگوں سے ملنے کے لیے جاتے ہیں تو کیا معاشرے کے تقاضوں کے مطابق لباس پہنتے ہیں؟
  •               کیا آپ پہلی ملاقات کے بعد ان سے رابطہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟
  •               کیا آپ فون نمبر اور ای میل ایڈریس نوٹ کرتے ہیں؟
  •               کیا آپ ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں؟
  •               کیا آپ ان کے مشکل وقت میں ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہیں؟

اعتماد ذات کی دولت اور اپنی ذات کا احترام آپ کے اندر موجود ھو۔ اس کے علاوہ دوسرے انسانوں کے حوالے سے اور آئے دن پیش آنے والے مختلف حوادث و واقعات کے حوالے سے آپ کی سوچ مثبت ھو:

  •               کیا آپ اپنی عزت نفس کا خیال رکھتے ہیں؟
  •               کیا لوگوں سے ملاقاتوں میں آپ ان کی عزت نفس اور مرتبے کا احترام کرتے ہیں۔
  •               کیا آپ گفتگو کے دوران متنازع معاملات میں سوچ کو مثبت رکھتے ہیں؟
  •               کبھی سخت گفتگو کے بعد آپ کو احساس ندامت ہو، تو کیا آپ معذرت اور معافی کے طریقے کو اپناتے ہیں؟

معاشرتی تعلقات کے بارے میں اتنی حساسیت ضرور ھو کہ بعض اھم معاشرتی آداب آپ کے معمولات کا حصہ بن جائیں:

  •               کیا آپ نے معاشرتی اخلاقیات کی تربیت حاصل کی ہے؟
  •               کیا آپ کی تنظیم اور ادارے نے آپ کے لیے اس قسم کی تربیت کا اہتمام کیا ہے؟
  •               کیا آپ مختلف مواقع کے معاشرتی اخلاقیات سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ اس سلسلے میں اپنا جائزہ لیتے رہتے ہیں؟
  •               اپنی ذات کے خول سے باہر، دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی اہلیت رکھیں، ان کے ساتھ محبت سے پیش آئیں، اپنے معاشرے اور اپنی اُمت کے مسائل میں شریک ہوں۔
  •               کیاآپ تنہائی پسند ہیں تو کیا آپ نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اس گھٹن سے کیسے باہر نکلا جائے؟
  •               کیا آپ نے اپنے قابل اعتماد دوستوں سے اس سلسلے میں کبھی مشورہ کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے اپنے دوستوں کا کوئی گروپ بنایا ہے جس میں بیٹھ کر آپ اپنے آپ کومتحر ک کرسکیں؟

اپنے نفس کو بعض ایسے زریں آداب سے آراستہ کر لیں جو آپ کو زندگی کے چیلنجوں سے نبردآزما ھونے اور مستقبل کی اُمیدوں کو بَر لانے میں معاونت دے سکیں:

  •               کیا آپ اپنی زندگی کے چیلنجوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ دور حاضر کے تقاضوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ جانتے ہیں کہ ملت کن مسائل سے دوچار ہے؟
  •               کیا آپ جانتے ہیں کہ ملت کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے کیا حکمت عملی استعمال ہورہی ہے؟
  •               اس سلسلے میں کیا آپ اپنی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں سے واقف ہیں؟

معاش اور روزگار کے لیے ایسے مواقع کی تلاش کے لیے کوشاں رھیں جو آپ کو زیادہ ترقی اور زیادہ آمدنی فراھم کر سکیں:

  •               کیا آپ روزگار کے معاملے میں خود کفیل ہیں؟
  •               رزق حلال کی ضرورت کے مطابق فراہمی کے لیے آپ نے کچھ کوشش کی ہے؟
  •               کیا آپ نے حالات اور ضرورت کے مطابق پس اندازی کی ہوئی ہے؟
  •               کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ دنیا کمانے کے لیے سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہیں اور آخرت کے معاملات کو بھول گئے ہیں؟
  •               کیا آپ نے قناعت کے معانی اور مفہوم کو سمجھ لیا ہے؟

اپنے اندر بعض ایسے بلند تر اخلاقی اوصاف اور مھارتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں جن کی بدولت آپ مشکلات میں سے اپنے لیے راہ نکالنا سیکہیں۔ نئی نئی منصوبہ بندیوں کا نفاذ کرسکیں اور ناکامی کی صورت میں ناکامی کو اپنے اُوپر طاری کرنے کے بجاے عزم اور حوصلے سے اس کا مقابلہ کرسکیں:

  •               کیا آپ ان اوصاف اور مہارتوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ راہ کی مشکلات کا اندازہ کرسکتے ہیں؟
  •               کیا آپ نے کبھی ان ممکنہ مشکلات کو تحریر کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے کو ئی منصوبہ بندی کی ہے؟

روحانی، عقلی اور جسمانی صحت کا خاص خیال رکہیں، ان کی حفاظت کے اصولوں پر عمل پیرا رھیں تاکہ زندگی کی نعمتوں سے صحیح انداز میں لطف اندوز ھو سکیں:

  •               کیا آپ اللہ تعالیٰ کی دو اہم نعمتوں، یعنی صحت اور فرصت اوقات کی قدر کرتے ہیں؟
  •               اپنی جسمانی صحت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟
  •               کیا آپ نے ان عادتوں کو ترک کردیا ہے، جو آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں؟

اس بات کا خیال رکھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ من الستوٰی یوماہ فھومغبون ’’وہ شخص تباہ ہوگیا جس کے دو دن کارکردگی کے لحاظ سے ایک جیسے رہے‘‘۔ اس حدیث پر عمل کا تقاضا یہ ہے کہ ہمار ا آج گذشتہ کل سے بہتر ہو، اور ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہو۔ اس پر عمل کے لیے رات کو سونے سے پہلے احتساب کی، اور صبح کام شروع کرنے سے پہلے منصوبہ بندی، ترجیحات اور ترتیب کی ضرورت ہے۔

اے اللہ! توہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی ، درمیانی حصے کو بہبودی، اور آخری حصے کو کامرانی بنادے۔ آمین!

تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست

(اس مضمون کی تیاری میں ذاتی مطالعے کے نوٹس اور مغربی مصنفین کی کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے: کامیابی کا سفر ، مصنف،ڈاکٹر ابراہیم بن حمدالعقید ترجمہ ،خدیجہ ترابی، ناشر مکتبہ خواتین میگزین، لاہور۔ رہنمائے تربیت، ہشام الطالب، ترجمہ شاہ محی الحق فاروقی، ناشر ادارہ فکر اسلامی، اسلام آباد)

 

عمومی زندگی میں ہمارے معاملات افراد‘ معاشرہ اور اداروں سے ہوتے ہیں۔ ہماری شخصیت کا اظہار ہمارے معاملات کے انداز‘ ہمارے گفتگو کے طریقے اور اس کے رویے سے ہوتا ہے۔ ہم کبھی کسی ایک فرد سے معاملہ کر رہے ہوتے ہیں‘ کبھی چھوٹے سے گروپ کے ساتھ‘ کبھی تنظیم اور کبھی عوام الناس کے ساتھ۔ عام طور پر یہ دائرہ فرد‘ گروپ اور تنظیم یا ادارے تک محدود رہتا ہے۔ اس فرد‘ گروپ اور تنظیم یا ادارے میں گھر‘ گھرکے افراد‘ اہل خانہ‘ دوست ‘ احباب‘ رشتے دار‘ پڑوسی‘ دفتر کے لوگ‘ کاروباری حلقہ اور سماجی‘ معاشرتی‘ مذہبی اور سیاسی تنظیمیں آجاتی ہیں۔ ہمیں ان ہی کے ساتھ معاملات کرنے ہوتے ہیں اور ان ہی معاملات کے باعث ہماری شخصیت کی قدر ہوتی ہے۔

ذیل میں اسی حوالے سے معاشرتی‘ معاملاتی اور استحکامی عناصرکے نکات پیش کیے جاتے ہیں۔ ان پر غور کیجیے اور لائحہ عمل بنایئے تاکہ لوگ آپ کو قبول کر لیں اور کچھ عرصے کے بعد لوگ آپ کے بارے میں تبصرہ کریں کہ:  ع کتنا بدل گیا ہے انسان!

عوام الناس کے لیے مطلوبہ خوبیاں

لوگ عام طور پر ان خوبیوں اور باتوں کو پسند کرتے ہیں:

  • دوستانہ انداز: آپ کا رویہ ایسا ہو کہ لوگ اس میں اُنسیت اور دوستی کو محسوس کریں۔ اس رویے کے باعث لوگ آپ کے قریب آئیں گے اور آپ کے ساتھ تعاون کریں گے۔
  • انصاف پسندی: اپنی غلطی کا اعتراف کرنا‘ دوسروں کی اچھی بات کو مان لینا‘ معاملات میں توازن‘ حقوق کی پاسداری اور تقسیم کے معاملات میں وسیع القلبی کی عادات‘ آپ کو معروف اور مقبول بنانے میں معاون ثابت ہوں گی۔
  •  باہمی تعاون: جن لوگوں کے ساتھ آپ گزارا کر رہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کی کوشش کیجیے لیکن ایسا نہ ہو کہ اپنے کام کو قربان کر دیں۔ دوسروں کی دُنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت تباہ مت کیجیے۔ تعاون کے معنی ضرورت کے وقت ساتھ دینا ہے۔ ان کے معاملات پر حاوی ہونا اور مداخلت کرنا نہیں۔
  • قابل اعتماد:  اپنی شخصیت میں وہ عناصر اور عادات مستحکم کیجیے جو اخلاقی عناصر کے ذیل میں آتی ہیں‘ یعنی سچائی‘ امانت اور ایفاے عہد۔ ان عناصر کے ذریعے آپ ایک قابل اعتماد فرد کے طور پر نمایاں ہوں گے اور لوگ آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے قبول کریں گے۔
  •  پرعزم: اپنے عزائم کو بلند رکھیے۔ اپنی زندگی کا نصب العین بنایئے۔ اپنی زندگی کے مختلف مراحل کی منصوبہ بندی کیجیے۔ مقاصد اور سنگ میل بنایئے۔ اس کے مطابق شیڈول بنایئے اور روز بروز ترقی کرتے رہیے۔ آپ کا آج کا دن گذشتہ کل سے بہتر ہو۔ آپ آنے والے دن کی ایسی تیاری کریں کہ وہ آج سے بہتر ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص تباہ ہو گیا جس کے دو دن کارکردگی کے لحاظ سے ایک جیسے ہوئے‘‘۔ بہتری اور خوب سے خوب تر کی طرف آیئے تاکہ آخرت میں مایوسی نہ ہو۔
  •  اپنی اور دوسروں کی عزت: آپ اپنی ذات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے‘ اس کی خامیوں کو دُور کیجیے۔ اس میں اچھائیاں اور خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اپنی شخصیت میں حلم‘ طمانیت اور وقار پیدا کیجیے تاکہ آپ خود اپنی ذات میں اپنی عزت کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ جن لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے ہیں وہ بھی عزت اور وقار کے ساتھ کیجیے۔ آپ عموماً عزت دے کر ہی عزت حاصل کرتے ہیں۔
  •  وفاداری:  وفاداری ایک ایسی صفت ہے جو آپ کے چہرے پر نہیں لکھی ہوتی بلکہ مشکلات اورآزمایشوں کے وقت اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کی ضد غداری ہے اور خود غرضی‘ غداری کا پیش خیمہ ہے۔ اپنے گھر‘ ادارے اور تنظیم کے ساتھ وفادار رہیے۔ عموماً اسی کی قدر ہوتی ہے۔
  •  استقامت‘ استحکام اور تسلسل: اس صفت کے ذریعے آپ نہ صرف ترقی کرتے ہیں بلکہ لوگوں میں بھی آپ کی شخصیت کا ایک تاثر قائم رہتا ہے۔
  •  شائستگی اور تواضع: اپنی شخصیت میں نکھار‘ گفتگو میں شیرینی‘ چہرے پر مسکراہٹ‘ لباس میں متانت اور معاملات میں تواضع پیدا کیجیے۔ یہ صفات آپ کی رفتارِ کامیابی کو بڑھائیں گی۔
  •  دُور اندیشی: آپ فیصلوں اور معاملات کے حوالے سے دُور اندیشی کا ثبوت دیجیے۔ جذباتی‘ جلدباز اور انتقام پسند مت بنیے۔ حسب ضرورت اپنی شخصیت میں ٹھہرائو پیدا کیجیے۔
  •  آواز کا بہتر استعمال: اپنی آواز کا استعمال سیکھیے۔ اس کی تربیت کیجیے۔ آواز کی شیرینی‘ الفاظ کی ادایگی‘ ہاتھ اور انگلیوں کا مناسب استعمال اور مسکراہٹ‘ آپ کو ہر دلعزیز بنانے میں کارآمد ثابت ہوں گی۔
  •  سمجھنا اور ہمدردی کرنا: لوگوں کی باتیں سننے اور انھیں سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ سننا ایک صلاحیت ہے۔ اس صلاحیت کو سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ افراد کو سمجھنا‘ ان کی ضروریات کا اندازہ لگانا اور اس کے مطابق کام لینا اور کام دینا کامیابی کے متلاشی انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ ترغیب دینے کی صلاحیت بھی اس میں بہت کام آتی ہے۔
  •  مل کر کام کرنا اور کنٹرول رکھنا: اس دنیا کے اکثر کام اور معاملات تنہا انجام نہیں پاتے۔ اس کے لیے افراد اور گروپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ افراد اور گروپ کو ٹیم بنانا اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا اور ان سے کام لینے کی صلاحیت بہت ضروری ہے۔ اپنے کام اور ذمہ داریوں پر اپنا کنٹرول رکھتے ہوئے لوگوں کے ساتھ ٹیم ورک کی صلاحیت پیدا کیجیے۔
  •  نظم و ضبط : اپنی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کیجیے۔ توازن اور اعتدال پیدا کیجیے۔ یہ عادات آپ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ساتھ دیں گی‘ اور آپ کو غیر ضروری محنت نہیں کرنی پڑے گی۔
  •  صلاحیت اور رویہ: اپنی ذات میں اپنے کام اور معاملات کے حوالے سے صلاحیت (competence) پیدا کیجیے۔ یہ علم‘ عمل اور تجربے کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے جب لوگوں سے معاملات ہوں تو پھر اخلاقی اقدار کا لحاظ رکھ کر کیجیے تاکہ آپ کامیاب ہو سکیں۔

معاشرتی مطابقت

ضد‘ غصے اور ہٹ دھرمی کے بغیر اپنی بات کو سمجھانے اور منوانے کی صلاحیت پیدا کیجیے۔ اس بات کے حوالے سے منطق کے چار سوالات اپنی ذات سے ضرور پوچھ لیجیے۔ امید ہے ان چار سوالات کے جوابات ہی آپ کا ۵۰ فی صد مسئلہ حل کر دیں گے:

۱-  میں کیا بات کر رہا ہوں (کیا‘what)۔ علم کی طرف اشارہ ہے۔

۲- یہ بات کیوں کر رہا ہوں (کیوں‘why)۔ اس بات کا مقصد کیا ہے۔ آپ کے رویے کی جانب اشارہ ہے۔

۳- یہ بات کیسے کی جائے (کیسے‘ how)۔ اس کا تعلق طریقہء کار سے اور آپ کی بات کرنے کی صلاحیت سے ہے۔

۴- یہ بات کب کی جائے (کب‘ when)۔ اس کا تعلق وقت کی مناسبت سے ہے۔

کسی گفتگو اور کام سے پہلے آپ کے ذہن میں یہ چار سوالات اور ان کے جوابات ہیں تو آپ موثر‘ مستعد اور کامیاب ہیں۔ بات کرنے اور بات منوانے کا سلیقہ آپ کو بہت اچھا سیلزمین‘ مبلغ اور داعی بنا دے گا۔

معاشرتی مطابقت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے رویے کے ذریعے دوسروں پر اعتماد کا اظہار کریں۔ اس کے باعث لوگ اپنی ذات میں اعتماد محسوس کریں گے اور آپ کے ساتھ اور آپ کے لیے کام کریں گے۔

گفتگو میں چڑچڑے پن اور ضد سے بچتے ہوئے اپنے دلائل میں نرمی اور شائستگی پیدا کیجیے۔ یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی ہوگی۔

مفاہمت پیدا کرنا

اس دنیا اور معاشرے میں ہم ہر ایک سے لڑ کر اور حجت اور دلیل بازی کے ساتھ نہیں رہ سکتے‘ مفاہمت پیدا کیجیے۔ ہر چیز کو اپنی انا کا مسئلہ مت بنایئے۔ جہاں جھکنا ضروری ہو وہاں جھک جایئے۔ کرکٹ کی دنیا میں آج تک ’’چھکا‘‘ اُچھل کر نہیں لگا ہمیشہ جھک کر لگا ہے۔ ذیل کی تمثیل امید ہے گھریلو زندگی اور کاروباری و سماجی معاملات میں مدد دے گی۔

ایک دریا کے اُوپر لکڑی کا ایک فٹ چوڑا پل تھا۔ اس پل پر ایک طرف سے ایک بکرا آ رہا تھا۔ وہ ابھی بیچ پل پر ہی پہنچا تھا کہ دوسری طرف سے دوسرا بکرا آگیا۔ دونوں آمنے سامنے ہو گئے۔ آوازیں تیز ہوگئیں اور قریب تھا کہ دونوں دریا میں گرتے‘ اسی اثنا میں ایک بکرے نے دوسرے کو تجویز پیش کی کہ ’’یار میں بیٹھ جاتا ہوں تو میرے اوپر سے گزر جا‘‘۔ اس نے ایک لمحے کی قربانی‘ اپنی اَنا کی قربانی دے کر دونوں کو ایک بڑے سانحے سے بچا لیا۔ یہی لمحے ہیں جس میں اَنا اور ’’میں‘‘ انسان کو تباہ کر دیتے ہیں اور قوموں کو صدیوں تک نقصان پہنچتا ہے۔ کہتے ہیں کہ لمحوں نے غلطی کی اور صدیوں نے سزا پائی۔

ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے دینی اور دنیاوی معاملات میں بھی ان جیسی مثالوں سے سبق نہیں لیتے اور قرآن اور احادیث کی روشنی میں عمل اور ردعمل کے بجائے شیطان کی آگ میں جھلس جاتے ہیں یا ڈوب جاتے ہیں۔

مفاہمت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم:

    __       دوسروں کے نقطۂ نظر کو سننے اور اس کے بعد سمجھنے کی کوشش کریں۔

    __       اپنے نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے حقائق پیش کیجیے اور بغیر حقائق اپنی رائے مت پیش کیجیے۔

    __       ہمیشہ موقع شناس رہیے مگر خود غرض مت بنیے۔ موقع دیکھ کر بات کرنے کوشش کیجیے۔ اچھے اور بہتر انداز سے بات کرنے کی کوشش کیجیے۔

    __       تبدیلی قبول کرنے کے لیے اپنی قوت فیصلہ کی تربیت کیجیے۔

ملاقات کے لیے ضروری باتیں

    __       جب آپ کسی واقف سے ملیں تو خوش اخلاقی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملیں‘ اور اگر وہ اجنبی ہے تب بھی اپنا تعارف کرانے کے بعد خوش اخلاقی اور مسکراہٹ کے ساتھ پیش آیئے۔

    __       مجلس میں ‘ لوگوں میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیجیے۔

    __       مثبت رویے کا اظہار کیجیے۔

    __       پہلی ہی ملاقات میں بہت زیادہ وعدہ مت کر لیجیے ورنہ پریشان ہوں گے۔

اداروں کے لیے مطلوبہ خوبیاں

جن اداروں سے آپ وابستہ ہوں‘ تو ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں جنھیں پورا کرنا ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ کے لیے آگے بڑھنے کی راہیں کھلتی رہیں گی۔ یہ صفات معاون ثابت ہوسکتی ہیں:

    __       ادارے کے ذمہ داروں کی طرف سے دی گئی ہدایات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت۔

    __       اپنے ذمہ دار‘ برابر اور ماتحت افراد کے ساتھ تعاون کرنے کی صلاحیت۔

    __       بھروسا کرنے کی صلاحیت۔

    __       کام کو چیلنج سمجھنے اور اسے اُمنگ کے ساتھ کرنے کی صلاحیت۔

    __       نئے نئے کام اور ٹکنالوجی کو سیکھنے کا جذبہ اور ترقی کرنے کی صلاحیت۔

    __       وفاداری اور ایمان داری کی صلاحیت۔

    __       تنقید قبول کرنے کی صلاحیت۔

      __     اپنے حصے کا کام اچھے‘ موثراور احسن طریقے سے اور وقت پر کر کے دینا۔

   __        اوقات کی پابندی۔

   __        اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لینا اورمعافی مانگ لینا۔

    __       دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت۔

    __       صحیح انداز میں ہدایات دینے کی صلاحیت۔

    __       اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی صلاحیت۔

ہماری شخصیت دیگر افراد کے ساتھ معاملات میں پہچانی جاتی ہے۔ ہر انسان اپنے اپنے طور پر دوسرے کو پہچانتا ہے۔ دیگر افراد کے ساتھ جب ہم معاملہ کرتے ہیں تو چند صفات ایسی ہیں جن کی موجودگی ہماری شخصیت کو محکم اور موثر بناتی ہے۔ ان میں حسن خلق‘ سچائی‘ تواضع‘ حلم اور وفاے عہد شامل ہیں۔ ان صفات کے باعث آپ خود بھی مطمئن رہیں گے‘ لوگ بھی آپ سے خوش رہیں گے‘ اور آپ کے لیے بھی آگے بڑھنے میں آسانی ہوگی۔ ضروری نہیں ہے کہ ان صفات کو جب آپ اپنائیں تو دوسرے بھی انھی صفات کے ساتھ پیش آئیں۔ اس معاملے میں بعض اوقات مایوسی بھی ہوتی ہے مگر ہم اپنے عزم صمیم کے ذریعے ہی ان صفات پر قائم رہ سکتے ہیں۔

حسن خلق

یہ ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جو امورِ باطنہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے کسی انسان میں اس فضیلت کا وجود اس کے آثار و ثمرات ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے اور باطن کی اس روشنی کا عکس ظاہری علامات ہی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ حسن خلق کی تعریف یوں کی گئی ہے:

  • مخلوق خدا کو خوشی اور مصیبت دونوں حالتوں میں راضی اور پسندیدہ خاطر رکھنا حسن خلق ہے۔ (ابوبکر واسطی)
  •  ہر حالت میں اللہ عزوجل کی رضاجوئی حسن خلق ہے۔ (ابوعثمان مغربی)
  •  حسن خلق کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان میں قوت برداشت ہو اوروہ انتقام کا کبھی درپے نہ ہو۔ دشمن پر بھی رحمت و شفقت کی نظر ہو اور اس کے ظلم پر خدا سے اس کی مغفرت کا طالب ہو۔ (سہل ابن  ابی عبداللہ استستری)
  •  حسن خلق کی علامات کی تین خصلتیں ہیں: محارم سے اجتناب‘ حلال کی طلب اور اہل و عیال کے ساتھ مالی‘ قولی‘ بلکہ ہر قسم کی وسعت و حوصلہ کا معاملہ۔ (حضرت علیؓ)
  •   چار چیزیں حسن خلق ہیں: سخاوت‘ الفت‘ خیرخواہی اور شفقت -(حضرت جنید بغدادیؒ)
  •  خلق عظیم جود‘ کرم‘ درگزر‘ عفو اور احسان کے مجموعہ کا نام ہے۔ (ابوسعید قریشی)
  •  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے لیے قیامت کے روز میزان عدل میں حسن خلق سے زیادہ وزنی دوسری کوئی چیز نہ ہوگی اور اللہ تعالیٰ بدگو‘ بدخلق کو سخت ناپسند کرتا ہے۔

سچائی ‘ صدق

  •  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: بلاشبہ سچائی بھلائی کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور بھلائی جنت کی راہ دکھاتی ہے۔
  •  امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ عمل فضائل میںاس فضیلت کو ایک طرح کی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے کہ کائنات کی دینی و دنیوی فلاح و بہبود کے تمام امور کا انحصار اسی فضیلت پر ہے۔ ان کے نزدیک صدق کے چھ مراتب ہیں:
  •  انسان کی زبان ہر حال میں امرحق کے اظہار کی عادی ہو۔
  •  اس کی تمام حرکات و سکنات میں مرضات الٰہی کے علاوہ دوسری چیز پیش نظر نہ ہو۔
  •  عزم و ارادے میں قوت ہو اور جو کچھ کہتا ہو اس پر عمل میں تردد اور اضطراب کا قطعاً دخل نہ ہو۔
  •  جو کچھ قول و گفتار سے ادا کرتا ہو ‘ اس کو عملی جامہ پہنانے کا واقعی اور حتمی ارادہ ہو‘ اور جونہی اسباب مہیا ہو جائیں اس کو ثابت اور پورا کر دکھائے۔ کیونکہ گفتار کے وقت کسی شے کا ارادہ و عزم کوئی زیادہ کمال کی بات نہیں ہے۔ درحقیقت وہ انسان ہی نہیں جو ایک بات کہے اور جب اس کی وفا کے لیے اسباب مہیا ہو جائیں تو اس کو پورا کرنے میںاس کا عزم و ارادہ کمزور پڑ جائے۔
  •  انسان کے ظاہری اعمال اس کے باطن کے صحیح آئینہ دار ہوں‘ اور تمام دینی و دنیوی معاملات میں یہی صفات نمایاں ہوں۔
  •  اللہ تعالیٰ کے ساتھ رشتہ خوف و رجا‘ زہد و تقویٰ اور رضا و توکل جیسے فضائل میں حقیقت‘ صداقت کی روشنی پائی جاتی ہو۔ ریا و نمود اور تصنع و بناوٹ کا ان میں مطلق گزر نہ ہو۔

تواضع

انسان اگر خدا کی معرفت و رضا یا مخلوق پر رحم و کرم کی خاطر اپنے اصل درجے اور رتبے سے کم پر راضی ہو جائے ‘ یا خود کو پست کر دے‘ تو اس فضیلت کو تواضع کہیں گے۔ وضع (ذلت) اور تواضع میں بڑا فرق ہے۔ وضع (ذلت) ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان اپنے حظ ِ نفس کی خاطر اپنی ذلت و رسوائی اور نفس کی اہانت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ علامہ زبیدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تواضع‘ خدا کی ذات و صفات کی معرفت‘ اس کے جلال و جبروت اور محبت و علم اور اپنے نفس کے عیوب و نقائص کے علم سے پیدا ہوتی ہے جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جناب میں انکسارِ قلب اور مخلوق کے حق میں رحم اور نیازمندی کے ساتھ جھک جانے کا نام ہے‘اور جو پستی اور اہانت حظوظ نفس کی خاطر‘ خودداری اور عزت نفس کو مٹا کر اختیار کی جاتی ہے اس کا نام ذلت ہے۔ پہلی صفت فضیلت اور دوسری رذلت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کے لیے بشارت ہے جو نفس کو ذلیل کیے بغیر تواضع کا حامل ہے۔

حلم

غیظ و غضب کے جوش کے وقت اور ایسے اسباب کے پیدا ہونے کے وقت جن سے غضب میں ہیجان پیدا ہو‘ اس پر قابو پانے کا نام ’’کظمِ غیظ‘‘ ہے‘ اور یہی صفت جب انسان میں فطرت بن جائے اور مستحکم ہو جائے تو اس صفت کو حلم کہا جا تا ہے۔ حلم ایسی فضیلت ہے جو انسان کے کمالِ عقل‘ غلبۂ فرزانگی اور قوتِ غضب کے مقہور و مغلوب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس فضیلت کے ساتھ اگرچہ ہر فرد کو متصف ہونا چاہیے لیکن رہنما‘ قائد اور قوم کے ہادی‘ اہل منصب‘ ذمہ داران‘ کونسلر‘ سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں اوردفتر کے افسروں اور مینجر حضرات کے لیے اس صفت کا وجود ازبس ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان حضرات کو قدم قدم پر ایسی آزمایشوں اور امتحانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے جن میںغصہ‘ غضب اور غیظ کا جوش میں آجانا معمولی بات ہے۔ ایک بار غصہ کرنے کے بعد خود آپ کو بھی کام کرنے میں تکلیف ہو گی اور آپ دوسروں سے بھی کام نہیں لے سکیں گے اور پورا دن پشیمانی میں گزاریں گے‘ اور لوگ تضحیک کے ساتھ آپ کے غصے اور غیر ضروری غضب کا ذکر کریں گے۔

کہتے ہیں کہ غصہ حماقت سے شروع ہوتا ہے اور ندامت پر ختم ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میں صفت حلم موجود ہے وہ سردار ہے اور جس میں سمجھ حاصل کرنے کا شوق ہے ‘ اس میں سمجھ بڑھنے کے لیے راہ کھل جاتی ہے۔

ادبا کا قول ہے جس شخص نے حلم کا درخت بویا اس نے سلامتی کا پھل پایا۔

وفاے عہد

وفاے عہد زبان و عمل کی یک رنگ سچائی کا نام ہے‘ اور غدر ان دونوں کی خلاف ورزی کا نام ہے۔ وفاے عہد ‘ انسانیت کے مخصوص فرائض میں بہت بڑا فرض ہے۔ اس لیے جو شخص وفاے عہد سے خالی ہے وہ درحقیقت شرفِ انسانیت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایمان میں شمار کیا ہے اور لوگوں کی عملی زندگی کے لیے اس کو سربراہِ کار ٹھیرایا ہے۔ کیونکہ انسان ایک ایسی ہستی کا نام ہے جس کے لیے باہمی تعاون لازمی ہے‘ اور باہمی تعاون وعدے کی رعایت اور عہد کی وفا کے بغیر ناممکن ہے۔ اگر ان کو درمیان سے الگ کر دیا جائے تو تعاون کے بجائے دلوں میں نفرت و وحشت جاگزیں ہو جائے اور معیشت و زندگی ہر قسم کی تباہ کاریوں سے دوچار ہونے لگے۔

قرآن حکیم میں ہے : اچھے وہ ہیں جو اپنے بار امانت اور عہد کے محافظ ہیں۔ وعدہ وفائی کا معاملہ سیاسی رہنمائوں کو بھی سوچنا چاہیے‘ افسروں اور ماتحتوں کو بھی اور فیکٹری کے مالکان اور دکان داروں کو مال کی سپلائی کے سلسلے میں بھی سوچنا چاہیے۔

دیگر امور

ذیل میں تعمیرشخصیت کے حوالے سے چند اشارات پیش کیے جاتے ہیں:

امریکی دانش ور بنجمن فرینکلن نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں اخلاقی تکمیل کے سلسلے میں درج ذیل خوبیوں کا تذکرہ کیا ہے:

(۱)  اعتدال --- اتنا نہ کھائو کہ طبیعت کند ہو جائے‘ زیادہ نہ پیو۔

(۲)  خاموشی --- وہی بات زبان پر لائو جس سے تمھیں یا دوسروں کو فائدہ پہنچے۔ فضول گفتگو سے پرہیز کرو۔

(۳)  نظم و ترتیب --- تمام چیزیں ان کے مقامات پر رکھو۔ کاروبار کے ہر حصے کے لیے وقت مقرر کر لو۔

(۴)  عزم--- جو کچھ کرنا چاہیے اس کا پختہ ارادہ کر لو۔ جس کا ارادہ کر لو اسے پورا کیے بغیر کبھی نہ چھوڑو۔

(۵)  صرف زر--- خرچ نہ کرو مگر وہی جس سے دوسروں کو یا خود تمھیں فائدہ پہنچے‘ یعنی کوئی چیز ضائع نہ کرو۔

(۶)  محنت و مشقت --- کوئی وقت نہ گنوائو۔ ہر لحظہ کسی مفید کام میں مشغول رہو۔ غیر ضروری سرگرمیاں بالکل ختم کر دو۔

(۷) دیانت داری --- کسی نقصان رساں فریب سے کام نہ لو۔ منصفانہ اور معصومانہ سوچو۔ بولو تو اسی انداز میں بولو۔

(۸) انصاف--- دکھ پہنچا کر کسی کو رنجیدہ نہ کرو۔ ان خدمات سے احتراز نہ کرو جو تمھارے فرائض  میں داخل ہیں۔

۹- میانہ روی --- افراط و تفریط سے بچو۔ جن گزندوں سے غصہ پیدا ہو‘ انھیں اس حد تک برداشت کر لو جس حد تک ضروری ہے۔

۱۰- صفائی اور نظافت--- جسم‘ لباس یا جائے سکونت میں کسی قسم کی گندگی برداشت نہ کرو۔

۱۱- طمانیت --- چھوٹے چھوٹے واقعات یا عام اور ناگزیر حوادث پر پریشان نہ ہو۔

۱۲- پارسائی --- اپنے کردار کو بہتر بنائو‘ لالچ سے پرہیز کرو‘ ذاتی مفاد کے چکر سے بچو۔

۱۳- انکسار--- طبیعت میں انکسار اور اخلاص پیدا کرو۔ تکبر اور مفادپرستی سے پرہیز کرو‘ ورنہ یہ عادت نہ صرف انسان بلکہ پوری قوم کو تباہ کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔

ڈائری مرتب کیجیے

علامہ ابن جوزی ؒ اپنی کتاب منہاج القاصدین کے باب غوروفکر میں فرماتے ہیں:

ہر ایک مرید کے پاس ایک کتاب ہونی چاہیے جس میں وہ تمام صفات مہلکہ اور تمام صفات نافعہ‘ اور تمام معاصی و طاعات کو درج کرے اور ہر روز ان کا مطالعہ کیا کرے۔ ہمارے نزدیک ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ۱۰ چیزوں پر غور کر لینا کافی ہے۔ اگر ان سے بچ گیا تو دوسری چیزوں سے بھی بچ جائے گا۔ وہ یہ ہیں: (۱)  بخل (۲) کبر (۳) عجب (۴) ریا (۵) حسد (۶) شدت غضب (۷) کھانے کی حرص (۸)جماع کی حرص (۹) مال کی محبت (۱۰) جاہ کی محبت۔

اسی طرح نجات دلانے والی ۱۰ چیزوں پر غور کرے جو یہ ہیں: (۱) گناہوں پر ندامت (۲)مصیبت پر صبر (۳) تقدیر پر راضی رہنا (۴) نعمتوں پر شکر کرنا (۵) امید و خوف کا معتدل ہونا (۶) دنیا سے بے رغبتی (۷) اعمال میں اخلاص (۸) لوگوں کے ساتھ حسن سلوک (۹) اللہ کی محبت (۱۰) خشوع۔

جب بری خصلتوں میں سے ایک سے نجات پا لے تو اپنی کتاب میں اس پر لکیر کھینچ دے اور اب اس کے متعلق سوچنا چھوڑ دے اور اس کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ یہ سمجھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مدد سے ہوا ہے۔ پھر باقی نو کی طرف توجہ کرے اور اس طرح کرتا جائے۔ یہاں تک کہ سب پرلکیر کھینچ دے۔ اس کے بعد اپنے نفس سے نجات دلانے والی صفات سے متصف ہونے کا مطالبہ کرے اور جب ایک کے ساتھ متصف ہو جائے تو اس پر خط کھینچ دے اور باقی میں مشغول ہو جائے۔

شخصیت کا منشور

حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپؐ کی سنت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:

  •  معرفت میرا راس المال ہے۔
  • عقل میرے دین کی اصل ہے۔
  • محبت میری بنیاد ہے۔ 
  • شوق میرا مرکب (سواری) ہے۔ 
  • ذکرالٰہی میرا انیس ہے۔ 
  • اعتماد میرا خزانہ ہے۔ 
  • غم میرا رفیق ہے۔ 
  • علم میرا ہتھیار ہے۔ 
  • صبر میرا لباس ہے۔ 
  • رضا میرا مالِ غنیمت ہے۔ 
  • عجز میرا فخر ہے۔ 
  • زہد میرا پیشہ ہے۔ 
  • یقین میری قوت ہے۔ 
  • صدقہ میرا حامی و سفارشی ہے۔
  • طاعت میری کفایت کرنے والی ہے۔
  • جہاد میرا خلق ہے۔ اور  
  • میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔

اب ہم محسن انسانیتؐ کی چند ان احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں جن کا تعلق شخصیت کی تعمیر کے اخلاقی عناصر سے ہے۔

الف- حضرت معاذ بن جبلؓ نے بیان فرمایا کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ۱۰ باتوں کی وصیت فرمائی:

۱-  اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنانا اگرچہ تو قتل کر دیا جائے اور تجھے جلا دیا جائے۔

۲-  اپنے ماں باپ کی نافرمانی ہرگز نہ کرنا اگرچہ تجھے حکم دیں کہ اپنے گھر والوں کو اور مال و دولت کو چھوڑ کر نکل جا۔

۳-  فرض نماز ہرگز قصداً نہ چھوڑنا کیونکہ جس نے قصداً فرض نماز چھوڑ دی اس سے اللہ کا ذمہ بری ہوگیا۔

۴-  شراب ہرگز مت پینا کیونکہ وہ بے حیائی کی جڑ ہے۔

۵-  گناہ سے بچنا کیونکہ گناہ کی وجہ سے اللہ کی ناراضی نازل ہوتی ہے۔

۶-  میدان جہاد سے مت بھاگنا اگرچہ (دوسرے) لوگ (تیرے ساتھی) جاں بحق ہو جائیں۔

۷-  جب لوگوں میں (وبائی) موت پھیل جائے اور تووہاں موجود ہو‘ تو وہاں جم کر رہنا (اس جگہ  کو چھوڑ کر مت جانا)۔

۸-  اور جن کا خرچہ تجھ پر لازم ہے (بیوی بچے وغیرہ) ان پر اچھا مال خرچ کرنا۔

۹- اور ان کو ادب سکھانے کے پیش نظر ان سے اپنی لاٹھی ہٹا کر مت رکھنا۔

۱۰-  ان کو (اللہ کے احکام و قوانین) کے بارے میں ڈراتے رہنا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

ب-  حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو مجھ سے‘ یہ باتیں (جو میں بتانا چاہتا ہوں) حاصل کرے۔ پھر ان پر خود عمل کرے یا کسی ایسے شخص کو بتا دے جو ان پر عمل کرے۔ میں نے عرض کیا: یارسول ؐاللہ! میں ایسا کروں گا۔ چنانچہ آپؐ نے میرا ہاتھ پکڑا اور پانچ باتیں (پانچوں انگلیوں پر) گنائیں:

۱- حرام چیز سے بچ‘ تو سب سے زیادہ عابد ہوگا۔ ۲- جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس پر راضی رہ‘ تو سب سے زیادہ مال دار ہوگا۔ ۳- اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کر‘ تو مومن ہوگا۔ ۴- لوگوں کے لیے وہ پسند کر جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘ تو مسلم ہوگا۔ ۵- زیادہ نہ ہنس کیونکہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کر دیتی ہے۔

ج- حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایسے ڈھل مل ارادے والے نہ بنو کہ یوں کہا کرو کہ لوگ ہمارے ساتھ احسان کریں گے تو ہم بھی کریں گے‘ اور وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی کریں گے (ایسا نہ کرو) بلکہ اپنے آپ کو اس چیز کی مشق کرائو کہ دوسرے احسان کریں تو تم بھی احسان کرو۔ اور اگر تمھارے ساتھ برا برتائو کریں تو بھی تم ظلم نہ کرو۔ (مشکوٰۃ المصابیح‘ ترمذی)

د- امام ابوداؤد ؒنے ۵ لاکھ احادیث لکھیں اور ان میں سے تقریباً ۵ ہزار احادیث کو منتخب کر کے سنن ابوداؤد میں درج کیا۔ ان کا قول ہے کہ اگر کوئی ان میں سے چار احادیث کو پکڑ لے تو وہ اس کے دینی فہم کے لیے کافی ہو جائے:

  •  عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔  
  • بہتر اسلام یہ ہے کہ آدمی بے فائدہ بات بولنا چھوڑ دے۔  
  • کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
  • حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے‘ اور ان دونوں کے درمیان شبہے کی چیزیں ہیں۔ جو شبہات سے بچا اس نے اپنے دین کو بچا لیا۔

ہ-  امام شافعیؒ نے سورہ عصر کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر لوگ اس سورہ پر غور کریں تو یہی ان کی ہدایت کے لیے کافی ہے۔ اس کے اندر مختصر الفاظ میں معنی کی ایک دنیا بھر دی گئی ہے۔ اصحاب رسولؐ میں سے جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملتے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ایک دوسرے کو سورہ عصر نہ سنا لیتے۔ (طبرانی)

وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۵ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (العصر ۱۰۳:۱-۳)

زمانے کی قسم‘ انسان درحقیقت خسارے میں ہے‘ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے‘ اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

تربیت اور تعمیر شخصیت کے حوالے سے اب ہم ان عناصر کا مطالعہ کریں گے جن کا تعلّق فکرکی تربیت اور عقل سلیم سے ہے۔

چند تمثیلات

الف- ایک شخص‘ گائوں سے اپنے رشتے دار کو شہر دکھانے کے لیے لے آیا۔ شہری نے اپنا مکان دکھایا۔ سب چیزیں حیران کن تھیں۔ مگر جب شہری نے اسے باتھ روم دکھایا تو اس کی حیرانی اور بھی بڑھ گئی۔ اسے وہاں کوئی بالٹی‘ ڈرم اور مٹکے وغیرہ نظر نہ آئے جن میں پانی بھرا ہوا ہو۔ وہ یہی سوچتا رہا کہ بہ ظاہر یہ لوگ اتنے ترقی یافتہ ہیں مگر بغیرپانی کے کیسے گزارا کرتے ہوں گے۔

گائوں کے شخص کے ذہن میں تہذیب و تمدّن کی ایک علامت پانی کا استعمال تھا۔ وہ اسے وہاں نظر نہیں آیا اس لیے فوراً ہی وہ حیرانی میں مبتلا ہو گیا۔ اس کی نظر ان پائپ لائنوں اورنلکوں کی طرف نہیں گئی جنھیںعقل نے سہولت کا ذریعہ بنایا کہ پانی بھرنے کی تکلیف سے انسان بچ جائے۔ بعض لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہی سوچ میں گم ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا اپنا طریقۂ کار ہی سب سے بہتر ہوتا ہے‘ باقی لوگوں کو کم تر سمجھتے ہیں--- اپنی سوچ کے اس جال سے باہر آنے کی کوشش کیجیے۔

ب-  ایک امریکی وسط ایشیا کے کسی علاقے میں گیا۔ وہاں ابھی تک بجلی نہیں پہنچی تھی۔ علاقے کے باسی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ اس باشندے نے امریکی سے اپنے مٹی کے تیل سے جلنے والے فانوس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا امریکہ میں یہ چیز استعمال ہوتی ہے؟اس نے جواب دیا: کہیں کہیں‘ بہت کم۔

باشندہ یہی سمجھا کہ امریکہ اتنا پس ماندہ ہے کہ وہاں روشنی کا یہ ذریعہ ابھی پہنچا ہی نہیں‘ اور اسے امریکیوں کی غربت پر افسوس بھی ہوا۔ مگر صورت حال یہ تھی کہ اس شخص نے مٹی کے تیل سے جلنے والے فانوس ہی کو ترقی کی علامت سمجھا تھا اور اسی کی امریکہ میں موجودگی کے متعلق سوال کیا تھا‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں بجلی اور توانائی کا استعمال ہو رہاتھا۔

ہم لوگوں کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہے۔ ہماری بھی عجیب قسم کی کیفیت ہے۔ ہمارے اپنے ترقی کے تصورات ہیں‘انھی سے ہم دوسروں کو ناپتے ہیں۔ ہم نظارہ اور مشاہدہ نہیں کرتے‘ بس اپنے ہی قفس میں بند رہتے ہیں اور اسی کو کائنات سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اس ذہنی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کیجیے اور اقدار کو ناپنے کے پیمانے تبدیل کیجیے۔

ج- کہتے ہیں کہ جب آٹوموبائل (موٹرگاڑی) ایجاد ہوئی تو اس زمانے میں امریکہ ہی کا کوئی دیہاتی جاگیردار نیویارک شہر پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ وہاں گاڑیاں جو کہ اپنے ابتدائی مرحلے میں تھیں اور گھوڑا گاڑی سے مشابہت رکھتی تھیں‘ کافی تیزی سے سفر کر رہی تھیں۔ اس دیہاتی نے معلومات حاصل کیں کہ وہ اتنی تیز کیسے چلتی ہیں۔ لوگوں نے بتایا ‘ان میں ہارس پاور مشین لگی ہوئی ہے۔ اس شخص نے معلومات حاصل کر کے کسی فیکٹری سے ہارس پاور مشین خریدی اور اپنے دیہات آگیا‘ اور پھر اس مشین کو اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق گھوڑا گاڑی میں فٹ کر دیا اور اسے مع گھوڑا چلانے کی کوشش کی۔ گھوڑا اپنی عمومی رفتار سے بھاگ رہا تھا۔ دیہاتی پریشان تھا کہ ہارس پاور مشین کے لگنے کے باوجود اس کی گھوڑا گاڑی میں وہ تیزی پیدا نہیں ہوئی جو کہ نیویارک میں اس کے مشاہدہ میں آئی تھی۔

وہ شخص نیویارک کی گاڑی کی ہیئت اور ترکیب کا مطالعہ نہ کر سکا کہ اس ہارس پاور مشین کو لگانے کے لیے گھوڑے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ گاڑی کے نظام میں بنیادی تبدیلی کرنی پڑتی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ گھوڑا گاڑی اور موٹرگاڑی دو مختلف نظاموں کی شکلیں ہیں۔ ایک کی چیز دوسری میں لگا کر کام نہیں چلایا جا سکتا ہے۔

کچھ یہی کیفیت ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو کہ مغرب اور امریکہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور ان کی چند چیزوں کو ہمارے معاشرے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جب کہ دونوں معاشروں کی بنیادیں بالکل مختلف ہیں۔ اس کے لیے ہمیں عقل کے استعمال کی ضرورت ہے۔

فکری طور پر شخصیت کی تعمیر کے لیے ہمیں درج ذیل عناصر کی تربیت کی ضرورت ہے:

۱- عقل انسانی: عقل انسان کے بڑے بڑے مسئلے حل کر دیتی ہے۔ ایک واقعہ ہے کہ کسی زیرتعمیر گیراج کی دیوار میں ایک سوراخ تھا۔ پرندہ سیمنٹ کی اس دیوار کے اندر سوراخ میں گر چکا تھا۔ یہ سوراخ تقریباً ۳۰ انچ گہرا‘ ۴ انچ لمبا اور ڈیڑھ انچ چوڑا تھا۔ گیراج کی تعمیر میں کام کرنے والے مزدور بہت پریشان تھے کہ اس بچے پرندے کو باہر کیسے نکالیں۔

ایک ۱۰ سالہ لڑکا وہاں کسی کام سے پہنچ گیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا۔ کچھ دیر دماغ لڑانے کے بعد اس نے ریت کا ایک ڈولچہ لیا اور پھر مٹھی بھر کے آہستہ آہستہ ریت سوراخ میں گراتا گیا۔ سوراخ جیسے جیسے ریت سے بھرتا جاتا‘ بچہ اُوپر اٹھتا آتا۔ تقریباً ایک گھنٹے کی کوشش کے بعد اس لڑکے کی کوشش سے بچہ باہر نکل آیا۔

اس لڑکے نے یقینا اپنے ذہن کے ذریعے بہت سارے حل تلاش کیے ہوں گے۔ اس ترکیب کے استعمال نے اسے کامیابی عطا کی۔ بے شک اس نے عقل کو استعمال کیا۔ درحقیقت عقل سلیم کا یہ استعمال بہت سارے مسائل حل کر دیتا ہے۔

واقعات میں آتا ہے کہ ایک شخص پیاس کے باعث بہت پریشان تھا۔ اسے کنواں نظر آیا مگر ڈول نہیں تھا۔ وہ نیچے اترا ‘ پانی پیا اور باہر نکل آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے زبان نکالے کھڑا ہے۔ اس شخص کو احساس ہوا کہ اسے بھی میری طرح پیاس لگی ہوگی۔ ڈول تو نہیں تھا‘ مگر اس نے عقل استعمال کی۔ نیچے اترا‘ اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھرا اور اسے منہ سے پکڑ کراُوپر لے آیا اورکتے کو پانی پلایا۔ روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس نیکی کے باعث بخش دیا۔ اس شخص نے کیا کیا۔ اسے احساس تھا‘ ہمدردی ہوئی‘ اور عقل کو استعمال کیا اور کامیابی کی بشارت ہو گئی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے ابتدائی زمانے میں حجراسود کا مسئلہ چادر کے ذریعے حل کر کے ایک بہت بڑی ممکنہ جنگ کو ختم کیا اور ہر ایک کومطمئن‘ شریک اور خوش کر کے سب کی جیت کا تصور دیا۔ انسان نے عقل کے استعمال سے نئی نئی غذائوں کے راز دریافت کیے‘ نئے نئے ریشوں سے لباس بنائے‘ بڑے بڑے پل‘ فلک بوس عمارتیں‘ کارخانے‘ گھر اور مختلف مقاصد کے لیے بے شمار چیزیں پیدا کر لیں۔ اس نے زمین سے معدنی چیزیں نکالیں اور انھیں لوہے‘ ایلومینیم‘ سیسے‘ تانبے‘ ٹین اور دوسری دھاتوں کی شکل دے دی۔ یہ دریافت کر لیا کہ ایندھن محفوظ طریقوں پر کیونکر جلایا جا سکتا ہے۔ عقل کے استعمال سے لاتعداد مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ نصب العین اور مقاصد زندگی کو سامنے رکھ کر اور اپنی ذات کے مفاد کو بیچ میں لائے بغیر یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے ذہن سے کام لے کر اسے عقل سلیم بنا دیں۔

۲- عقل معیار ہے: عقل سب سے بڑی بخشش ہے۔وہ اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ اسی سے نیکیوں کے اصول بنتے ہیں۔ انجام کا لحاظ کیا جاتا ہے‘ اور باریکیوں کو سمجھا جاتا اور فضائل حاصل کیے جاتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ کسی شخص کے اسلام کو اس وقت تک بلند مرتبہ نہ سمجھو جب تک کہ اس کی عقل کی گرفت کو نہ پہچان لو۔ ابوزکریا ؒ کا قول ہے کہ جنت میں ہر مومن اپنی عقل کے مطابق لذت حاصل کرے گا۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کا مقولہ ہے کہ عقل (انسان کی ایک طبعی صفت ہے جو اس کی ماہیت کے ساتھ) گڑی ہوئی شے ہے۔ محاسبی ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: عقل ایک نور ہے۔ ایک تعریف یہ ہے کہ عقل ایک قوت ہے جس کے ذریعے سے معلومات کی حقیقتوں کو جدا جدا کیا جاتا ہے۔ ایک اعرابی سے عقل کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس نے جواب دیا: عقل تجربات کا نچوڑ ہے جو بطور غنیمت ہاتھ لگ جائے۔ عقل فرق کو سمجھنے کا نام ہے۔ اسی عقل کا صحیح استعمال ہو اوردل میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے تو انسان تقویٰ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور یہی کیفیت حکمت کا سرچشمہ بن جاتی ہے جس سے علم و دانش کے سوتے پھوٹتے ہیں۔

۳-  ذہانت‘ فہم اور ذکاوت:  ذہن وہ قوت ہے جو آرا حاصل کرنے کے لیے مستعد اور تیار ہوتاہے۔ فہم کی تعریف یہ ہے کہ کسی قول کو سنتے ہی اس کے معنی کا علم ہو جائے۔ ذکاوت فہم کی قوت کی تیزی کا نام ہے۔ اس کے معنی سمجھ کی پختگی کے بھی ہیں۔

۴- عقل کی تکمیل کے لیے ضروری صفات:  علامہ ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں کہ کسی عاقل کی عقل پر اس کی مناسب موقع پر خاموشی اور سکون اور نیچی نظر اور برمحل حرکات سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ عقل مند اپنے فیصلے میں‘ خواہ کھانے پینے کے معاملے میں یا کسی قول و فعل کے معاملے میں‘اسی امر کو اختیار کرے گا جو انجام کے اعتبار سے اعلیٰ ہوگا‘ اور جس چیز سے نقصان ہوگا اس کو ترک کر دے گا‘ اور اسی کام کی تیاری کرے گا جس کا پورا ہونا ممکن ہو۔

حضرت ابوالدرداء ؓ سے مروی ہے‘ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ کیا میں عاقل کی علامتیں بتائوں؟ وہ یہ ہیں کہ اپنے سے بڑے کے ساتھ تواضع سے پیش آئے‘ چھوٹے کو حقیر نہ سمجھے۔ اپنی گفتگو میں بڑائی کے اظہار سے بچے۔ لوگوں کے ساتھ معاشرت میں ان کے آداب معاشرت کو ملحوظ رکھے اور اپنے اور خدا کے درمیان تعلّق کو سخت اور مضبوط رکھے تو وہ عقل مند ہے۔ وہ دُنیا میں اس تعلّق کو ہر نقصان سے بچاتا ہوا پھرتا ہے۔

وہاب بن منبہ سے منقول ہے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: اے بیٹے! انسان کی عقل کامل نہیں ہوتی جب تک اس میں دس صفات نہ پیدا ہو جائیں  :

  • کبر‘ یعنی نخوت وغرور سے محفوظ ہو ‘ 
  • نیک کاموں کی طرف پورا میلان ہو‘  
  • دنیاوی سامان میں سے صرف بقدر بقاے حیات پر اکتفا کرے‘  
  • زائد کو خرچ کر دے‘  
  • تواضع کو بڑائی سے اچھا سمجھے‘  
  •   اپنی اَنا قربان کرنے کو عزت و سربلندی پر ترجیح دے‘  
  • سمجھ کی باتیں حاصل کرنے سے زندگی بھر نہ تھکے‘  
  •   اپنی طرف سے کسی سے اپنی حاجت کے لیے تحکم وبدمزاجی نہ اختیار کرے‘  
  • دوسرے کے تھوڑے احسان کو زیادہ سمجھے اور اپنے بڑے احسان کو کم سمجھے ‘  
  • اور یہ خصلت جو بڑی بلندہمتی کی چیز ہے اور نیک نام کرنے والی ہے‘ وہ یہ ہے کہ تمام اہل دنیا کو اپنے سے اچھا سمجھے اور اپنے آپ کو سب سے برا سمجھے اور اگر کسی کو اپنے سے اچھا دیکھے تو خوش ہو اور اس بات کا خواہش مند ہو کہ اس کی عمدہ صفات خود بھی اختیار کرے اور کسی کو بری حالت میں پائے تو خیال کرے کہ (انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ ہم کو کیا خبر) یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نجات پا جائے اور میں ہلاک ہو جائوں۔ جب یہ صفات پیدا ہو جائیں تو سمجھو عقل مکمل ہو گئی۔

مکحول سے حضرت لقمان کا یہ قول مروی ہے‘ جو انھوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ انسان کے شرف و سرداری کی بنا حسنِ عقل پر ہے ۔ جس کی عقل اعلیٰ درجے کی ہوگی وہ اس کے تمام گناہوں کو ڈھک دے گی اور اس کی تمام برائیوں کی اصلاح کر دے گی۔ اس کو رضاے الٰہی حاصل ہو جائے گی۔ کسی کا قول ہے کہ بڑائی کی بات یہ ہے کہ کسی بڑے شخص کی عقل زبان سے بڑھی ہوئی ہو‘ یہ نہیں کہ زبان عقل سے بڑھی ہوئی ہو۔

۵- مثبت انداز فکر: حسن ظن‘ خوش گمانی اور مثبت انداز فکر تعمیر و ترقی شخصیت کے لیے اہم ہیں۔فکر کا یہ انداز انسان کو مایوسی سے بچاتا ہے اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ ایک گلاس میں نصف پانی ہو اور باقی خالی ہو تو مثبت فکر انسان کے لیے وہ آدھا بھرا ہوا ہے‘ جب کہ منفی فکر انسان کے لیے آدھا خالی ہے۔ اوّل الذکر شخص کی یہ سوچ زندگی کے عمومی معاملات پر حاوی ہوتی ہے۔ وہ تلخ و نامساعد حالات میں بھی امید اور اچھائی کا پہلو تلاش کرتا ہے۔ وہ ہر مشکل کو موقع سمجھتا ہے اور اسی سے اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔ دوسری طرف منفی فکر کا انسان عموماً قنوطیت‘ مایوسی اور احساس کمتری کا شکار رہتا ہے۔ ہر معاملے کے برے پہلو سے اس کی فکر اور قوت عمل میں کمزوری آتی ہے ‘وہ اولوالعزم نہیں رہتا۔ مثبت انداز فکر انسان میں قوت پیدا کرتا ہے۔ اس قوت کے ذریعے وہ اندھیروں میں ستاروں کی روشنی سے اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔

۶- شکر:  شکر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو اس کی پسندیدہ چیزوں میں استعمال کیا جائے۔ ہروہ انسان جس نے کسی چیز کو ایسے کام میں استعمال کیا جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی تو اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران (ناشکری) کی۔ شریف انسان سے رذیل کام لینا بھی کفرانِ نعمت ہے۔ بہترین صلاحیتوں کے افراد سے معمولی معمولی کام لینا بھی کفرانِ نعمت ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہمیں جو وسائل (انسانی اور مادّی) دیے گئے ہیں ان کا صحیح انداز سے جائزہ لیں اور ان وسائل کو ان کے اوصاف اور قوتوں اور قابلیتوں کے مطابق استعمال کریں۔ یہ شکر کی عملی کیفیت ہے۔ دل کا شکر یہ ہے کہ نیکی اور بھلائی کا ارادہ کرے اور تمام مخلوق کا بھلا چاہے۔ زبان کا شکر یہ ہے کہ اللہ کی تعریف کرتا رہے۔ اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان کا احساس کرے۔ ایک قول ہے کہ نعمت ایک جنگلی جانور ہے اسے شکر کی زنجیروں سے باندھ کر رکھو۔ مثبت اندازِ فکر ‘ حسن ظن اور شکر‘ قوت عمل پیدا کرتے ہیں۔ انھیں اپنے مزاج کا حصہ بنا لیجیے۔

۷-  احساس وجود:  اپنے وجود کا احساس اور اس کے تقاضوں کی سمجھ بھی ضروری ہے۔ ہر انسان سونے اور چاندی کی کانوں کی مانند ہے۔ بات اسے استعمال کرنے اور اخذ کرنے کی ہے۔ اس سے انسان صاحب زر‘ زیور اور زیرک بن سکتا ہے۔ وجود کا احساس غصے اور سختی کے ساتھ حکم دینے سے نہیں کرایا جا سکتا۔ مگر اپنے ماحول میں ہم جو کرنا چاہتے ہیں اس میں کامیابی ضروری ہے۔ ہمیں دوسروں کے سامنے فوراً جھک نہیں جانا چاہیے۔ ہماری جو معلومات ہیں اور جس چیز کو ہم صحیح سمجھتے ہیں اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ جب پھول اپنی خوشبو پھیلا سکتے ہیں‘ پانی زمین کو نرم کر سکتا ہے‘ ہوائیں پتوں کو ہلا سکتی ہیں تو پھر ہم اپنے اخلاق اور قوت نافذہ سے اپنے ارد گرد اور معاشرے میں تبدیلی کیوں نہیں لا سکتے۔ دوسری طرف اگر اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو پھر بحث‘ ہٹ دھرمی کی علامت ہے اور ایسے موقع پر اعتراف میں عظمت ہے۔

۸- تجزیاتی صلاحیت:  حالات و واقعات کا تجزیہ کرنا‘ ان کے اسباب پر غور کرنا‘ نتائج کی جانب دیکھنا اور اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اسے آپ تجزیاتی صلاحیت کا نام دے سکتے ہیں۔ کسی بات کے مثبت اور منفی پہلو پر غور کرنا اور اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ضروری ہے۔

۹-  ارادہ و عزم: اپنے ارادے اور عزم کو بلند رکھیے اور اپنے عزائم کو صالح بنایئے اور ان کی عملی تنفیذ (عمل درآمد) کی کوشش کیجیے۔ محض عزم باندھنے اور عمل نہ کرنے سے دُنیا میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ مشکلات سے ڈرنا نہیں چاہیے‘ یہ تو انسان کو بنانے کے لیے آتی ہیں۔ ناکامیوں اور اندھیروں سے گھبرانا نہیں چاہیے‘ یہ تو ستاروں کی چمک کے اظہار کے لیے ضروری ہیں۔ شاہراہ حیات پر جب سرخ سگنل نظر آئے تو اسے ناکامی مت سمجھیے‘ چند لمحے آرام کیجیے اور سبز سگنل کا انتظار کیجیے۔ ان لمحوں میں قوت جمع کرنے کی کوشش کیجیے۔ مشکلات ہمیشہ نہیں رہتی ہیں‘ یہ تو قرب خداوندی کا باعث ہوتی ہیں۔ حبس سے مت گھبرایئے‘ یہ تو بارش کی علامت ہے۔ بس عزم کیجیے‘ اپنے مقاصد حاصل کیجیے۔

رابندر ناتھ ٹیگور نے عزم کی مثال دی ہے: شام کا وقت تھا اور سورج غروب ہو رہا تھا۔ ڈوبتے ہوئے سورج نے پوچھا :ہے کوئی جو میری جگہ لے۔ کسی جھونپڑے میں ایک دِیا تھا--- وہ ٹمٹما رہا تھا۔ اس نے جواب دیا: ہاں‘ میں کوشش کروں گا۔ اس نے اس گھر کی کائنات کو روشن کر دیا۔

اپنی مقدور بھر کوشش کیجیے اور ضرور کیجیے۔ نتائج کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیکھیے۔ نیت صاف ہوگی‘ محنت صحیح رُخ پر ہوگی اور وفاداری ہوگی تو پھر نتائج تو جو مطلوب ہیں وہی آتے ہیں بلکہ اس سے بہتر‘ اور اگر کسی وجہ سے نہ بھی مل سکیں تو آخرت کو کتنی دیر ہے۔ جس کی رضا کے لیے محنت کی ہے اس کے ہاں تو اجر باقی ہے اور وہ تو اپنے ظرف کے مطابق اجر دیتا ہے    ؎

موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے

قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے

عزم کی ایک اور تمثیل ہے کہ کسی پہاڑ سے چشمہ پھوٹا اور پھر میدان میں ندی کی صورت اختیار کر گیا۔ میدان میں ایک شخص ٹہل رہا تھا۔ وہ اس منظر سے محظوظ ہو رہا تھاکہ پانی اپنا راستہ کیسے بناتا ہے۔ اس کی نظر ندی میں بہتے ہوئے ایک بچھو پر پڑی۔ اسے اس جانور پر ترس آیا۔ اور اس نے اسے نکال لیا۔ بچھو نے اپنا کام دکھایا‘ ڈس لیا‘ اور کود کر پھر ندی میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس شخص کو پھرخیال آیا اور اس نے پانی میں ہاتھ ڈال کر بچھو کو نکال لیا۔ بچھونے اپنا وہی کردار دہرایا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص کو بچھو کی جان کا پھر خیال آیا۔ اس نے جان بچانے کی کوشش کی اور بچھو نے اپنا وہی رویہ اختیار کیا۔ ایک اور شخص جو اس منظر کو دیکھ رہا تھا‘ اس سے رہا نہ گیا اور اس نے کہا: ’’ارے یہ حیوان ہے‘ اپنی حیوانیت نہیں چھوڑے گا ‘تم اپنی جان کیوں ہلاکت میں ڈال رہے ہو‘‘۔ بچھو کی جان بچانے کی کوشش کرنے والے شخص نے کہا:

’’جب ایک حیوان اپنی حیوانیت نہیں چھوڑ سکتا تو میں انسان اپنی انسانیت کیسے چھوڑ سکتا ہوں‘‘۔

یہ شخص اپنی انسانیت اور انسانی کردار کے بارے میں پرُعزم تھا اور اس نے عمل کر کے بھی دکھا دیا۔ ہم جس معاشرے میں ہیں وہاں درندگی‘ سفاکی‘ حیوانیت‘ بدعنوانی اور بے حیائی ہے۔ ہم جن کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں وہ احسان فراموش بن جاتے ہیں۔ ہم جن کی معاش میں مدد کرتے ہیں وہ ہمارا استحصال کردیتے ہیں۔ ہم جنھیں تربیت پرواز دیتے ہیں وہ اڑتے ہوئے ہمیں اپنے پنجوں میں جھپٹ لیتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آج کل ماحول کو دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے     ؎

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

لیکن پھربھی فطرت انسانی کا تقاضا ہے کہ بروں کے ساتھ ہم برے نہ بنیں بلکہ اپنی انسانیت کو نہ چھوڑیں۔ مکافات عمل کا انتظار کیجیے۔زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔

۱۰- جوکھم (Risk): دنیا میں ہر کام کے کرنے میں جوکھم ہے۔ ہم میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ ہم اس جوکھم کا اندازہ کر لیں اور اپنے معاملات کی تیاری اس کے مطابق کریں۔ چھٹی حِس ‘ ذہنی صلاحیتوں میں ایک اہم حِس ہے۔ قدآور شخصیات میں یہ حِس کارفرما ہوتی ہے۔

فرض کیجیے آپ سو رہے ہیں اور چولہے میں آگ روشن چھوڑ دی۔ ایک شرارہ اُڑا اور اس نے مکان کو جلا ڈالا۔ ایسی حالت میں آپ کا یہ عذر نہیں سنا جائے گا کہ ’’اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میں نیند کی حالت میں کس طرح چنگاریاں اور شرارے اُڑنے سے روک سکتا تھا‘‘۔ اس معاملے میں آپ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم تھا کہ آپ عنقریب سونے والے ہیں اور نیند کی تیاری کر چکے ہیں اور اس بات کا علم تھا کہ اس حالت میں حواس کا شعور معطل ہو جاتا ہے‘ اس لیے ضروری تھا کہ اپنے بیداریِ حواس کے وقت ان ذرائع کا سدباب کرتے جن کی وجہ سے نیند کے وقت یہ حادثہ پیش آیا‘ یعنی اوّل آگ بجھاتے اور پھر سوتے۔

تدبیر یہ ہے کہ اُونٹ کو کھونٹے سے باندھیں اور اس کے بعد توکل کریں۔ بغیر کھونٹے سے باندھے اُونٹ کو چھوڑ دیں گے تو یہ آپ کی نادانی ہوگی اور آپ غیر ضروری جوکھم سے اپنا اور نہ معلوم کس کس کا امتحان لینے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔

 

ایک نہر ہے جو تیزی سے بہہ رہی ہے اور قرب و جوار کی بستیوں میں تباہی مچا رہی ہے۔ اہل بستی کو یقین ہو گیا کہ اگر بہائو کا یہی حال رہا تو سب ہی غرق ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اہل بستی کے تین گروہ ہوگئے۔

ایک گروہ نے اپنی تمام قوت اور اسباب اس کو روکنے اور بہائو کے آڑے آنے پر صرف کر دیے مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وجہ یہ تھی کہ پانی کو ایک جگہ سے روکا جاتا تو دوسری طرف سے بہہ نکلتا اور دبائو کے باعث مزید تباہی پھیل رہی تھی۔

دوسرا گروہ اس بات پر مصر تھا کہ اس کا سرچشمہ تلاش کیا جائے تاکہ اسے بند کرنے سے اس نہر کا زور کم ہو اور نقصان سے محفوظ رہا جا سکے۔ سرچشمہ مل تو گیا مگر ایک سوت بند کیا جاتا تو دوسرے سوت سے پانی خارج ہونے لگتا۔ چشمے کے ابلنے میں کوئی کمی نہ آ رہی تھی اور تمام سوتوں کا بند کرنا ناممکن نظر آرہا تھا۔ اس گروہ کے اس اقدام سے بھی بستی والوں کے مکانات نہ بچ سکے اور نہ کھیتیاں پروان چڑھ سکیں۔

تیسرا گروہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ پہلے دونوں گروہوں کے طریقہ کار سے تو مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا‘ اس لیے اس گروہ نے نہ تو پانی روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی سوت بند کرنے کا تہیہ کیا بلکہ انھوں نے اپنی تمام تر کوششیں اس پر صرف کیں کہ پانی کے اس بہائو کو حسب منشا صحیح راہ پر لگا دیا جائے۔ اور اس کوشش کو

اس طرح شروع کیا کہ نہر کا رخ بنجر زمینوں‘ قابل زراعت کھیتوں کی جانب کیا اور جگہ جگہ ضرورت کے لے پانی کے تالاب بنائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گھاس سے تمام زمین سبزہ زار ہو گئی اور اُس کے ثمرات سے تمام اہل بستی مالامال ہو گئے۔

بلاشبہ تیسرا گروہ کامیاب رہا‘ جب کہ پہلے اور دوسرے گروہ نے وقت ضائع کرنے اور بے نتیجہ محنت کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ کیا۔

ہمارا یہ احساس ہے کہ نہر کے بہائو میں دو عناصرہوتے ہیں۔ ایک تو پانی اور دوسرے اس کے ساتھ چلنے والی مٹی۔ بس یہی عناصر حضرت انسان میں بھی ہیں۔ اس تمثیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہماری خواہش ہے کہ قومی زندگی کے اس مرحلے پر تیسرے گروہ کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ناقابل تسخیر اور موثر شخصیت کی آگاہی حاصل کریں تاکہ دین اور دنیا کے تقاضے پورے کر سکیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس معاملے میں صرف مطالعے ہی سے کام نہیں لیا جائے گا بلکہ اپنی شخصیت کے ارتقا اور کامیابی کے لیے تحریری طور پر بھی منصوبہ بندی کر کے اور لائحہ عمل بنا کر کام کیا جائے گا۔

ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے لیے وقت نکال لیتے ہیں‘ دوستوں اور رشتہ داروں سے مل لیتے ہیں مگر نہیں ملتے تو صرف ایک ذات سے‘ اور وہ ہے اپنی ذات۔ ہمیں منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کے نقطہ نظر سے اپنی ذات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

۱- ٹھوس نظریہ حیات:  آپ جس نظریۂ حیات کے حامل ہیں اس کی بنیادوں اور بنیادی فلسفہ اور اعتقاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔یہ اعتقاد ٹھوس ہو محض توجیہات پر مشتمل نہ ہو۔ اس نظریۂ حیات کے باعث آپ میں مقصد حیات کا سچا شعور پیدا ہو گیا ہو اور اس کی علامتیں ظاہر و باطن‘ دونوں میں اُبھر رہی ہوں۔ لوگ آپ کو نرم چارہ نہ پائیں بلکہ آپ کو ہوشیار‘ بیدار مغز‘ اور اصول پرست ہونا چاہیے۔ ہم مسلمان ہیں‘ حق و باطل کے ساتھ بیک وقت رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ سیرت کی ان تمام کمزوریوں کا احساس کیجیے جو آپ کی ذات میں باطل کو گھسنے کا موقع دیتی ہیں۔ اپنی حیثیت کا جائزہ لیجیے اور اتنے مستحکم ہو جایئے کہ: لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول۔

۲- اصولوں کا علم اور ان پر عمل: آپ کو اپنے نظریہ حیات کا علم ہو۔ جو علم آپ نے حاصل کیا ہے اور جس تعلیم میں پیش رفت کی ہے اس کے اصولوں کا ادراک ہو‘ احساس ہو اور اس کے ساتھ ان پر عمل بھی ہو۔اصول‘ گفتگو اور بحث اپنی ذات کونمایاں کرنے کے لیے نہ ہوں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوں‘ تب ہی آپ کامیاب ہوں گے۔ سچائی اور ایمان داری‘ ہر نظریہ حیات اور مذہب کے بنیادی اصول ہیں۔ آپ لوگوں کو ان کی تعلیم دیں مگر اپنے معاملات میں اس پر عمل نہ کریں تودرحقیقت خسارے کا سودا کریں گے۔ جیسے جب جھوٹ کی گنجایش ہو تو بول دیں‘ ڈنڈی لگا کر‘ کاموں کو مؤخر کر کے‘ ٹیکس اور کسٹم میں مروجہ طریقہ کے مطابق مالی مفادات حاصل کر کے کام کر لیا جائے تو آپ فوری طور پر تو فائدہ اٹھا لیں گے بلکہ اپنے لیے مکان بھی بنا لیں گے مگر سکون حاصل نہیں ہوگا‘ اور آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس قسم کے مفادات کے حصول کے وقت ممکن ہے پانچ سو یا ہزار گز کا پلاٹ پیش نظر ہو‘ مگر عمر جوں جوں آگے بڑھتی ہے اور انسان ۲x۶ فٹ کے فلیٹ کے قریب پہنچتا ہے‘ تو اس وقت اسے ندامت ہوتی ہے۔

۳- اخلاص نیت اور اخلاص عمل:  منہاج القاصدین میں علامہ ابن جوزیؒ نے بیان کیا ہے کہ ارباب بصیرت کو انوارالقرآن سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ سعادت تک پہنچنے کے لیے علم اور عبادت نہایت ضروری ہے۔ دنیا میں سب لوگ ہلاک ہو رہے ہیں مگر علم والے‘ اور سب علم والے ہلاک ہوں گے سوائے عاملین کے‘ اور سب عمل والے ہلاک ہوں گے سوائے مخلصین کے‘ اور مخلص بھی عظیم خطرے میں ہے۔

ہمارے ہاں اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ اخلاص نیت کے اپنے اجر ہیں۔ نیت کے مطابق شعور کے ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ بعض اوقات انسان کو عمل کی فرصت نہیں ملتی مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی نیت کا اجر مل جاتا ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی نیت کا احتساب کریں۔ اس کا جائزہ لیتے رہیں اور اس میں اخلاص پیدا کرتے رہیں۔

۴- احساس ذمہ داری:  اس دنیا میں ہم سب لوگ ذمہ دار ہیں۔ ہر فرد کسی نہ کسی انداز میں راعی ہے۔ گھر‘ خاندان‘ دفتر‘ کاروبار اور معاملات اور تنظیم کے حوالے سے ہمیں اپنی متعلقہ رعایا کا احساس کرنا ضروری ہے۔ پورے شعور کے ساتھ ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ پھر ان ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔ ذمہ داری میں اہل خانہ بھی شامل ہیں‘ دفتر کے معاملے میں ملازمت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ آپ کے ساتھیوں اور ماتحت افراد کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ سرکاری ملازم ہیں تو سرکاری وقت‘ وسائل اور خزانے کے متعلق ذمہ داریوں کا احساس اور ادایگی ضروری ہے۔ کاروباری ہیں تو اس کے تقاضوں کا شعور‘ قیمت کا تعین‘ ملازمین کی تنخواہیں اور ان کی خوش حالی‘ اس کے ساتھ ساتھ کاروبار کی ترقی اور پھیلائوکی کوشش اور معیار کا برقرار رکھنا ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ بس ہر حال میں کام کا حق ادا کیجیے۔

۵- شجاعت: ضرورت اور حاجت کے وقت مصائب اورخطرات کا ثابت قدمی سے مقابلہ شجاعت کہلاتا ہے۔ جو شخص نتائج پر نگاہ رکھے اور ان کے پیش آنے سے خوف زدہ ہو مگر جب وہ سامنے آجائیں تو ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کرے تو وہ بہادر ہے‘ اور جب کوئی شخص موقع اور محل کی مناسبت سے بہترین کارگزار ثابت ہو وہ ’’شجاع‘‘ ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ خطرے میں کود ہی جائیں تو آپ بہادر ہوں گے بلکہ بہادر اس حالت میں بھی سمجھا جائے گا کہ نتیجے پر نگاہ رکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے کہ اس خطرے کے موقع سے بچنا ہی بہتر طریقہ کار ہے اور اس کا فرض بھی اسے اس بات کا حکم دیتا ہو کہ وہ اپنے کو خطرے سے بچائے۔ درحقیقت سب سے بڑی بہادری‘ مصیبت اور سختی کے وقت دل کا اطمینان اور حاضر حواسی ہے۔ اس لیے بہادر وہ ہے کہ جب اس پر سخت وقت آئے تو اپنے اطمینان اور بیداری حواس کو نہ کھو بیٹھے بلکہ قابلیت اور ثبات قلبی سے اس کا مقابلہ کرے اور ذہنی بیداری اور مطمئن عقل کے ساتھ اس کو انجام دے۔

۶- حیا:  انسان میں ایک ایسی قوت اور ملکہ ودیعت کیا گیا ہے جس سے انسان خیر کی طرف اقدام کرتا ہے اورشر سے بچنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ اس قوت یا ملکہ کا نام ’’حیا‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (۱) حیا ایمان کی ایک شاخ ہے (۲) حیا خیر کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں دیتی۔ علامہ ماوردیؒ کہتے ہیں کہ خیروشر پوشیدہ معانی ہیں جو صرف اپنی ان علامتوں کے ذریعے ہی سے پہچانے جاتے ہیں جو ان معانی پر دلالت کرتے ہیں‘ پس خیر کی بہترین علامت حیا و شرم ہے اور شر کی علامت بے حیائی ہے۔ ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے: ’’انسان سے اس کے اخلاق کے متعلق نہ پوچھو‘ خود اس کے چہرے مہرے میں اس کے اخلاق کی شہادت موجود ہے‘‘۔

ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اے اولاد آدم! جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو تیرا جی چاہے کر۔ حیا اللہ تعالیٰ سے کی جاتی ہے‘ لوگوں سے کی جاتی ہے‘ اور اپنے نفس سے کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے حیا کرو اس درجے جو حیا کا حق ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اللہ کی درگاہ میں ہم حیا کا صحیح حق کس طرح ادا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: سر اور جو اس میں محفوظ ہے‘ اور پیٹ اور جو اس میں محفوظ ہے ان کی حفاظت کے ذریعے‘ اور حیات دنیا کی زینت کے ترک‘ اور موت اور بدن کے گل سڑ جانے کی یاد کے ذریعے سے حیا کا صحیح حق جناب باری میں ادا ہوتا ہے۔

۷- میانہ روی و اعتدال:  مقدمہ ابن خلدونسے اعتدال اور میانہ روی پر ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے۔ یہ ذمہ داران کے لیے بہت اہم ہے:

تم اپنے تما م کاموں میں میانہ روی اختیار کرو کیونکہ اس سے زیادہ نفع بخش‘ امن و حفاظت کی ذمہ دار اور فضیلت اور بزرگی کی نشانی کوئی چیز نہیں۔امور میں اعتدال ہی انسان کو بھلائی اور بزرگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور بھلائی توفیق ایزدی کی نشانی ہے‘ اور توفیق سعادت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ بلکہ خود دین و سنت رسولؐ کا قرار اسی اعتدال سے ہے اور دنیا کی اصلاح کا بھی اسی پر مدار (منحصر) ہے۔

شخصیت کیتعمیر و ترقی میں میانہ روی اور اعتدال و توازن اہم عناصر ہیں۔ یہ چیزیں مزاج کے لیے بھی ضروری ہیں‘ کام کاج کے لیے بھی‘ تعلقات اور معاملات کے لیے بھی‘ اور اخراجات کے لیے بھی۔ غرض زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر صورت میں یہ تعمیر و ترقی میں بڑی معاون ہے۔

۸- صبر و تحمل:  صبر دو قسم کا ہے: ایک‘ بدنی‘ جیسے مشقت برداشت کرنا اور عبادت کے مشکل اعمال برداشت کرنا۔ دوسرا‘ نفسانی‘ یہ خواہش کے تقاضے اور طبیعت کی مرغوب چیزوں سے رُک جانا ہے۔ صبر کی یہ قسم اگر پیٹ اور شرم گاہ کی خواہش سے متعلق ہو‘ تو اس کا نام عفت ہے۔ اگر میدان جنگ میں صبر ہو‘ تو اس کا نام شجاعت ہے۔ اگر غصہ کو دبانے میںصبر ہو تو اس کا نام حلم ہے۔ اگر کسی پریشان کرنے والی مصیبت سے مقابلے میں ہو‘ تو اس کا نام فراخی ہے۔ اگر کسی معاملے کو پوشیدہ رکھنے کے متعلق ہو‘ تو اس کا نام راز کو چھپانا ہے۔ اگر زائد ضروریات سے رکنا ہو‘ تو اس کا نام زہد ہے۔ اور اگر تھوڑی سی ضروریات پر مطمئن ہونا ہو‘ تو اس کا نام قناعت ہے۔

صبروتحمل صرف مشکل وقت کے لیے ہی مخصوص نہیں بلکہ بہتر وقت میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ بعض عارفین نے کہا ہے کہ مومن مصیبت پر صبر کر لیتا ہے اور عافیت پر صرف صدیق ہی صبر کر سکتا ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا کہ تکلیفوں سے ہماری آزمایش ہوئی تو ہم نے صبر کیا لیکن جب نعمت و آسایش سے آزمایش ہوئی تو ہم صبر نہ کر سکے۔ جوانمرد صرف وہ ہے جو عافیت پر صبر کرے اور یہ صبر شکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب تک شکر کے حقوق ادا نہ ہوں صبر پورا نہیں ہوتا۔ اور نعمت میں صبر مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہاں قدرت حاصل ہوتی ہے‘ جیسے کھانا نہ ہونے کی صورت میں بھوکا زیادہ صبر کر سکتا ہے بہ نسبت لذیذ کھانا موجود ہونے کے۔

صبر کا اپنا وصف ہے کہ بقول حضرت علیؓ  ’’ اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور معرفت کا یہ حق ہے کہ تم اپنی تکلیف کی شکایت نہ کرو اور اپنی مصیبت کا ذکر نہ کرو‘‘۔

حکما کہتے ہیں کہ مصیبت کا چھپانا نیکی کا خزانہ ہے۔ایک آدمی نے امام احمدؒ سے پوچھا: اے ابوعبداللہ! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ نے کہا: عافیت اور بھلائی سے ہوں۔ اس نے کہا: کل رات آپ کو بخار تھا۔ تو فرمایا: میں نے جب تم سے کہہ دیا کہ میں عافیت سے ہوں تو بس کافی ہے۔ تم مجھ سے وہ بات کیوں کہلوانا چاہتے ہو جس کا زبان پر لانا مجھے پسند نہیں۔

۹- استقامت و باقاعدگی: اپنے معاملات اور اصولوںپرعمل درآمد میں استقامت اور باقاعدگی بہت جلد آپ کی شخصیت کو شاہراہ کامیابی پر گامزن کر دے گی۔ اصولوں پر عمل کا معمول بنایئے۔ اچھے اطوار اور کاموں کو استقامت کے ساتھ کیجیے‘ اور جائزہ لیتے رہیے۔ مستقل مزاجی اور باقاعدگی شخصیت کو معروف اور مقبول بناتی ہے اور ہم منظم رہتے ہیں۔

۱۰- خوفِ خدا اور خوفِ آخرت: تعمیر شخصیت کے تخلیقی عناصر میں اور ہماری رفتار کار اور استعداد کار میں اضافے کا ایک اہم ذریعہ بلکہ بنیادی ذریعہ خوفِ خدا اور خوفِ آخرت ہے۔ خدا خوفی ہمیں برے اعمال سے بچائے گی‘ وقت ضائع کرنے سے بچائے گی‘ حرام کھانے سے بچائے گی‘ لغویات میں ملوث ہونے سے بچائے گی۔ جب ہم بہت ساری گلیوں سے بچ کر صرف ایک سیدھی راہ پر آجائیں گے اور ہمارے سامنے ایک عظیم ذات کے وجود کا احساس اور اس کی صفات و قدرت کا خوف ہوگا تو پھر ہمارے لیے اس سیدھی راہ پر سیدھا اور تیز چلنا آسان ہوگا ۔ آخرت کی گھڑی ہمارا ہدف ہوگی‘ اور اس شاہراہ پر چلتے ہوئے نظریں ادھر ادھر نہیں بھٹکیں گی۔

۱۱- حکمت: حکمت علم اور اس کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے۔ ابن قتیبہؒ نے کہا: آدمی اس وقت تک حکیم نہیں ہوتاجب تک علم اور عمل کو جمع نہ کرے۔ حکمت‘ نفس کی اس حالت کا نام ہے جس کے ذریعے سے انسان تمام اختیاری امور میں خطا و صواب کے درمیان تمیز کرتا ہے۔ حکمت و عقل کے اعتدال سے حسن تدبیر‘ ذکاوت ذہن‘ باریک بینی‘ راست فکر اور پوشیدہ آفاتِ نفس کا فہم جیسے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔

۱۲- اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے! : ہر وقت یہ احساس رہنا چاہیے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ حسن نیت ‘ عزم اور صحیح طریقہ کار کے مطابق محنت کر کے اپنے معاملات کے نتائج اللہ کے سپرد کر دینے چاہییں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے کا احساس انسان کی نیکیوں میں اضافے اور برائیوں سے رکنے کا باعث ہوتا ہے۔ اسی احساس کے نتیجے میں اس میں غیر مرئی قوت محرکہ اور قوت عمل پیدا ہوتی ہے اور اس کے لیے حالات سازگار ہو جاتے ہیں۔

۱۳- نفس سے سبقت اور احتساب:  انسان پر حسد‘ حرص‘ غضب‘ شہوت اور تندی و تیزی بہت جلد غالب آجاتی ہے اور شیطان انھی راستوں سے اس پر حملہ کرتا ہے۔ بغیر تحقیق اور جلدبازی سے کام کرنا بھی اطاعت نفس ہے اور ہم اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ یہ جذبات اور کیفیات بہت جلد غالب آجاتی ہیں۔ بدگمانی‘ بدظنی اور غلط فہمی موجودہ دور کے مسلمانوں کی بہت بڑی کمزوریاں ہیں۔ مسلمان کو ایٹمی قوت تباہ نہیں کر سکتی مگر بدگمانی تباہ کر ڈالتی ہے۔ بس اس صورت میں کنٹرول اور عقل کی ضرورت ہے۔ حقائق معلوم کرنے کی کوشش کیجیے‘ باتوں اور افواہوں پر فوری ردعمل کی ضرورت نہیں ہے۔

ع    بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گرمارا

اس کے ساتھ ساتھ انسان کو روزانہ رات کو سونے سے قبل احتساب بھی کرنا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا قول ہے کہ اپنا احتساب کر لو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے۔ اور بقول حضرت جنید بغدادیؒ ’’تم ہروقت یہ سوچتے رہو کہ خدا سے کتنے قریب ہوئے‘ شیطان سے کتنے دُور‘ جنت سے کتنے قریب‘ اور دوزخ سے کتنے دُور‘‘۔ احتساب تحریری ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ تحریری احتساب قوت عمل پیدا کرنے میں آپ کا معاون ہوگا۔

۱۴- دعا:  تعمیر شخصیت میں دعا کا اہم مقام ہے۔

دعا سب سے پہلے اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے: ’’ اے اللہ تو نے مجھے اچھی صورت میں پیدا کیا‘ اب میرے اخلاق بھی اچھے کر دے‘‘۔ دعا نفس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے‘ عزائم کی بلندیوں‘ قوتوں کی بحالی اور حالات کی سازگاری اور خوش گواری کے لیے‘ رزق حلال کے لیے‘ بہتر استعداد کے لیے‘ اچھی ٹیم کے لیے‘ سخت گیر لوگوں کے دلوں کی نرمی کے لیے بھی ہونی چاہیے۔

دعا میں یقین کی کیفیت ضروری ہے۔ کسی گائوں میں بارش نہیں ہو رہی تھی تو نماز استسقاء کا اعلان ہوا۔ گائوں والے میدان میں جمع ہو گئے۔ دیکھا گیا کہ ایک گیارہ سالہ بچی بھی اپنے ہاتھ میں چھتری لیے میدان کی طرف آرہی تھی۔ لوگوں نے کہا: بیٹی! ہم تو ابھی بارش کی دعا مانگنے جا رہے ہیں‘ تو چھتری لے کر کیوں آ رہی ہے؟ بچی نے معصومیت سے جواب دیا: جب ہم دعا مانگ کر واپس آ رہے ہوں گے اس وقت تو بارش ہو رہی ہوگی۔ بس یقین کی یہی کیفیت مطلوب ہے!

 

تمثیلات خلیل جبران میں ہے کہ ’’تالاب میں پتھر گرا‘ پانی میں لہریں اٹھیں اور دُور چاروں طرف کناروں سے ملنے لگیں۔ ساتھ ہی ایک درخت تھا‘ اسے بھی جوش آیا‘ اس نے بھی تالاب میں ایک پتا گرا دیا۔ لیکن نہ شور ہوا اور نہ تالاب میں لہریں پیدا ہوئیں۔ میں اسے دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا: اے بے وقوف! دنیا میں وہی ہلچل مچا سکتے ہیں جو اپنے اندر وزن رکھتے ہیں‘‘۔

یہ ایک تمثیل ہے مگر ایک حقیقت بھی۔ تالاب میں مزید پتے گرا کے بھی اتنی ہلچل پیدا نہیں ہو سکتی تھی جتنی ایک پتھر کے گرنے سے پیدا ہوئی تھی۔ بس یہی حال ہمارے اداروں کا بھی ہے۔ بعض اوقات افراد کے آنے کے ساتھ ہی تنظیم اور طریق کار میں اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ انتظام صحیح چل رہا ہے اور کامیابی حاصل ہو رہی ہے‘ جب کہ دوسری طرف افراد ہی کے باعث ادارے غیر موثر ہو جاتے ہیں اوران کی تباہی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ وہ صاحب منصب افراد پتوں کی طرح تنظیم کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں مگر شخصیت میں وزن اور کردار میں پختگی نہ ہونے کے باعث اپنے وجود کا کوئی فائدہ تنظیم‘ ادارے‘ افراد اور اپنی ذات کونہیں پہنچا سکتے۔

کامیاب شخص

آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ ایک ہی دفتر یا ادارے میں ایک ہی وقت میں دو افراد وابستہ ہوتے ہیں۔ انھیں اہداف (targets)‘ افراد اور اختیارات دے دیے جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک فرد اپنے متعلقہ شعبے میں ہر دلعزیز بن جاتا ہے‘ افراد اس کے لیے وقت دیتے ہیں اور اس کے کام بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ شخص دفتر میں اتنا وقت بھی نکال لیتا ہے کہ افراد اور ساتھیوں سے ذاتی اور ترقیاتی

معاملات پر گفتگو کر سکے ‘ اور اپنے فیصلوں میں ان کی مشاورت بھی لے سکے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ رفتہ رفتہ وہاں ایک موثر ٹیم بن جاتی ہے جو ادارے کے مسائل اور وسائل کو اپنے ہی مسائل و وسائل محسوس کرتی ہے اور پھر اجتماعی جدوجہد سے ادارہ اور اس کے متعلقہ امور اور کاروباری معاملات میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ وہ فرد سپروائزر‘ پھر مینیجر‘ اس کے بعد مینیجر سے ایگزیکٹو اور پھر لیڈر بن جاتا ہے اور لوگ اسے دل سے چاہتے ہیں۔ کامیابی اس فرد کو تلاش کرتی ہے۔ وہ مصروف ترین فرد ہونے کے باوجود مختلف کاموں کے لیے وقت نکال لیتا ہے۔

وہ فرد اور اس کی ٹیم ہر مشکل کو کامیابی کا موقع سمجھتے ہیں۔ وسعتیں ان کے قریب آجاتی ہیں اور وہ اپنی ذات ‘ اپنی ٹیم‘ اپنے ادارے اور مجموعی طور پر ملک و قوم کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور حدیث کے الفاظ میں  خیر الناس من ینفع الناس (تم میں بہتر وہ ہیں جو لوگوں کے لیے بہتر ہوں) بن جاتے ہیں۔ اس فرد کے ساتھی افراد جو قانوناً ماتحت ہوتے ہیں‘ ٹیم بن کر کام کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ ادارے کے فرد ہیں اور پھر کسی بھی صورت میں ادارے کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔

ناکام شخص

اسی مشاہدے کے دوران آپ نے دیکھا ہوگا کہ دوسرا شخص اپنے متعلقہ شعبے میں اپنے ماتحت افراد کے مذاق کا شکار ہو جاتا ہے‘ نہ خود کوئی کام کر سکتا ہے نہ لوگوں سے کوئی کام لے سکتا ہے۔ وہ ہدایت اور حکم دیتا ہے اور لوگ اسے انجانے بن کر ٹال دیتے ہیں۔ اس کے ماتحت افراد کام نہ کرنے کے سیکڑوں بہانے تلاش کر لیتے ہیں۔ اس شعبے میں ہر فرد دوسرے کو اور بالآخر اپنے متعلقہ شعبے کے ذمہ دار کو بے وقوف بنانے کا فن سیکھتا ہے۔ بالآخر وہ شخص بھی‘ اس کا شعبہ بھی‘ اور اس کے متعلقین بھی ناکامی کا شکار ہوتے ہیں‘ بدنام ہوتے ہیں اور شعبے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔ چند افراد کا اخراج ہوتا ہے ‘ دوسرے افراد اپنا راستہ خود تلاش کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور ایک بہت بڑے آپریشن کلین اپ کی ضرورت پڑتی ہے۔

موثر شخصیت اور شخصی کردار - کلید

کاروبار ہو یا دفتری زندگی‘ آپ منتظم ہوں یا ماتحت‘ غرض آپ جس حیثیت میں ہوں اور زندگی کے کسی بھی میدان عمل میں ہوں‘ کامیابی کے لیے موثر شخصیت اور شخصی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق تکنیکی صلاحیت صرف ۱۵ فی صد کردار ادا کرتی ہے‘ جب کہ فرد کی شخصی خصوصیات کا کردار ۸۵ فی صد ہوتا ہے۔

ایسا شخص افراد کی تربیت کا کام کرتا ہے‘ اور کل کے لیے لوگوں کو آج سے تیار کر لیتا ہے جس کے باعث لوگوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اس شخصی کردار کے مثبت ہونے اور مقبول ہونے کے باعث فرد نہ صرف خود خوش رہتا ہے بلکہ اس کے افسران‘ اس کے ماتحت اور اس کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی خوش ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے مقاصد اور اہداف بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کر لیتا ہے۔ اسے عموماً کام کرنے والے لوگ اور ساتھ دینے والے ساتھی بھی مل جاتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب اور مقبول کردار کے باعث اپنے لیے ایک مخلص ٹیم بنا لیتا ہے۔ وہ ٹیم کی کامیابی‘ اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ وہ ٹیم اس پر جان نثار کرتی ہے اور اسے پرندوں کی طرح طوفان اور بارش کا پتا بھی دیتی ہے‘ اور خطرے کے وقت ایک مضبوط قوت مدافعت بن جاتی ہے۔ آخرکار نتائج سامنے آنے لگتے ہیں اور بہت جلد آتے ہیں۔ اداروں کی کارکردگی اور کامیابی میں توقع سے زیادہ پیش رفت ہوتی ہے۔ کارکردگی بڑھنے کے باعث پیداوار بڑھتی ہے اور اس کے نتیجے میں منافع میں اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث مجموعی قومی پیداوار اور آمدنی میں خوش آیند اضافہ ہوتا ہے۔

بحرانی شخصیت

فرد اگر صحیح نہ ہو‘ یا اس کی شخصیت میں خامیاں ہوں‘ یا اس کا شخصی کردار غیر معروف اور غیر مقبول ہو تو  ادارے میں عموماً بحران کی کیفیت ہوتی ہے۔ کام عموماً افراتفری کے عالم میں ہوتے ہیں۔ افراد کو عموماً دفتر کے اوقات کے بعد بھی بیٹھنا ہوتا ہے۔ ذہنی کیفیت اور انتشار کا عالم یہ ہے کہ ۱۰ ہزار روپے کے اضافی منافع کے لیے ۳۰ ہزار روپے کی اضافی لاگت آجاتی ہے۔ نفع‘ نقصان کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا‘ انگلیاں دوسروں کی طرف اٹھتی ہیں۔ دوسروں کی طرف ایک انگلی اٹھتی ہے لیکن درحقیقت اس کے ساتھ ساتھ اپنی طرف تین انگلیاںاٹھتی ہیں مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا اور بحران بڑھتا رہتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا ذمہ دار وہ فرد ہے جس پر ہم گفتگو کر رہے ہیں۔

تصویر ٹھیک کیجیے ‘ نقشہ ٹھیک ہو جائے گا

وہ مثال بار بار ذہن میں آتی ہے کہ ایک صاحب اپنے گھر میں مطالعہ کررہے تھے۔ ان کا بچہ --- چھوٹا سا بچہ--- بار بار ان کے مطالعے میں مخل ہو رہا تھا۔ ان صاحب نے بچے کو بہت سمجھایا‘ کھلونے دیے مگر اس نے سمجھ کر نہ دیا۔ بالآخر ان صاحب کو ایک ترکیب سوجھی کہ بچے کو بلایا اور اسے دنیا کا ایک نقشہ دکھایا اوراس میں بچے کو مختلف مقامات کی نشان دہی کی کہ یہ پاکستان‘ یہ ہمالیہ‘ یہ امریکہ‘ یہ سعودی عرب وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس نقشے کے ٹکڑے کیے اور بچے کو دے دیے کہ بیٹا پھر سے اسے بنا کر لائیں۔ ابا جان سوچ رہے تھے کہ تین چار گھنٹے کے لیے فراغت ہوئی مگر بچہ تو آدھے گھنٹے ہی میں آگیا اور کہنے لگا: ابو‘ ابو! دنیا کا نقشہ بن گیا۔ ابا جان نے دیکھا سب مقامات اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ بچے کی طرف دیکھا‘ ذہانت پر تعجب ہوا۔ پوچھا ’’بیٹے یہ کارنامہ تم نے کیسے انجام دیا؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’ابو! جب آپ نقشے کے ٹکڑے کر رہے تھے تو اس وقت میں نے دیکھا کہ اس کے پیچھے آدمی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ بس میں نے اس تصویر کو ٹھیک کر لیا۔ دنیا کا نقشہ خود بخود ٹھیک ہو گیا‘‘۔

ہم اپنے اداروں اور دفاتر‘ کاروبار اور گھر کی کارکردگی بہتر بنانا چاہتے ہیں اور ان کا نقشہ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی اس بچے کی طرح تصویر ٹھیک کرنی پڑے گی۔ ممکن ہے یہ تصویر ہماری اپنی ہی ہو۔ ہمیں اس تصویر کو اپنے ذہن میں نقش کرنا ہے‘ اسے سمجھنا ہے‘ اس کے ٹکڑوں کو منظم کرنا ہے اور اسے بہت جلد صحیح کرنا ہے تاکہ ہمارے معاشرے اور اجتماعی نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں آجائیں۔

شخصیت کی تعمیر کے مقاصد

اب ہم شخصیت کے موضوع پر گفتگو کریں گے کہ کس انداز سے ہم دفاتر‘ اداروں‘ کاروبار‘ گھر اور معاشرے میں کام کریں کہ:

  •   جو کام کرنا چاہتے ہیں ‘ وہی کریں۔
  •  جو کام کرنا ہے‘ اسے بہتر طریقے سے اور مستعدی کے ساتھ کریں۔
  •   افراد اور معاشرے کے دیگر عناصر کی اس انداز سے تربیت کریں کہ ادارے صرف ہمارے وجود کے محتاج نہ رہیں بلکہ ایک نظام کے تحت چلتے رہیں۔
  •   اس انداز سے ترتیب‘ تنظیم اور تربیت کریں کہ نتائج بہت جلد اور بہتر انداز سے سامنے آئیں۔
  •   آپ اتنے کامیاب ہوں کہ اپنی زندگی اور کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی تعمیر‘ ترقی اور خوش حالی پر بھی توجہ دے سکیں اور انھیں جہنم کی آگ سے بچا سکیں۔
  •   اگر آپ افسر ہیں تو ماتحت آپ سے خوش ہوں‘ اور ماتحت ہیں تو آپ کے ساتھی اور افسر دونوں خوش ہو سکیں۔
  •   آپ کے معاملات اتنے صاف ہوں کہ آپ اضطراب کا شکار نہ ہوں اور ذہنی دبائو سے متعلق بیماریاں آپ کے راستے میں نہ آئیں۔
  •   آپ نہ صرف اپنی اور دوسروں کی دنیا بنائیں بلکہ اپنی اور دوسروں کی آخرت بھی سنواریں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ساتھ ساتھ ادا ہوتا رہے۔

اب ہم شخصیت کی تعریف اور تصورات پر بات کریں گے۔ اس کے بعد شخصیت کے حوالے سے مختلف موضوعات اور متعلقہ عناصر پر گفتگو کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایسی شخصیت کی تشکیل ہو جو کہ ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کے لیے اہم کردار ادا کر سکے۔ بات کمر باندھنے کی ہے۔ عربی مقولے کا ترجمہ ہے:

’’جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کوشش بھی کرتا ہے‘ وہ داخل ہو ہی جاتا ہے‘‘۔

شخصیت اور اوصاف کی تعریف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان سونے چاندی کی کانوں کی طرح ہے۔ جو تم میں زمانہ جاہلیت میں بہترین اوصاف کے مالک تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں۔ یہ اچھے اوصاف انسان کا قیمتی سرمایہ ہیں اور یہی ان کی کامیابی کا راز اور ذریعہ بھی۔

مختلف ماہرین نے شخصیت کی جو تعریفیں پیش کی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

  •   انسانی ’’وجود‘‘ کے علاوہ شخصیت چلتی پھرتی عادتوں کے مجموعے کا نام ہے۔ زندگی میں اس کی شخصیت کی تقویم و تعین ان ہی عادات کی وجہ سے آشکارا ہوتی ہے۔ اس میں لباس میں پاکیزگی‘ گفتار میں نرمی‘ کھانے پینے کے آداب ‘جسمانی ضرورت کے سلسلے میں روزانہ ورزش و غسل کی جانب توجہ اور عقل کی تہذیب و تربیت کی جانب توجہ‘ حالات و ضروریات کے مطابق مطلوبہ صلاحیت اور سبقت کے تقاضے پورے کرنے کی آگہی‘ شعور‘ اہلیت اور قوت عمل شامل ہیں۔
  •    تمام ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی شخصیت‘ نفسیاتی اور بدنی دونوں حصوں سے مرکب ہے۔
  •    شخصیت ایک نفسیاتی اور بدنی وحدت ہے جہاں جذباتی اور بدنی سطحات کے واقعات مختلف طریقوں سے ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
  •    جو کچھ ایک فرد ہے اور جو کچھ وہ تجربہ کرتا ہے اگر سب کو وحدت سمجھا جائے تو یہی اس کی شخصیت ہے۔
  •    شخصیت ایک ایسی اصطلاح ہے جو انفرادیت سے کہیں وسیع تر ہے کیونکہ اس میں فرد سے متعلق تمام نفسیاتی اعمال اور کیفیات کا ترتیب شدہ مجموعہ شامل ہے۔

اب ہم درج ذیل موضوعات اور عناصر پر گفتگو کریں گے:

  •  شخصیت کے تخلیقی عناصر
  • شخصیت کے ذہنی‘ تصوراتی و تخیلی عناصر‘
  • شخصیت کے اخلاقی عناصر‘ 
  • شخصیت کے معاشرتی‘ معاملاتی اور استحکامی عناصر‘ 
  • شخصیت کے انتظامی عناصر‘
  • شخصیت کے ارتقائی عناصر‘
  • شخصیت کے منفی و تخریبی عناصر‘
  • شخصیت‘دین و دنیا اور آخرت۔  (جاری)