مضامین کی فہرست


جنوری ۲۰۰۱

پاکستان کی ۵۳ سالہ تاریخ میں قومی سطح پر ہماری قیادتوں نے غلطیاں‘ زیادتیاں‘ قانون کی خلاف ورزیاں اور مظالم‘ تو بے شمار کیے ہیںلیکن یہ سانحہ پہلی بار موجودہ حکومت کے ہاتھوں رونما ہوا ہے کہ ایک بااثر قومی مجرم اور اس کے پورے گھرانے کو اسلامی اصول و احکام‘ ملکی دستور و قانون‘ قومی رائے اور جذبات و احساسات اور عالمی سطح پر جرم و سزا کے معروف ضابطوں کو یکسرنظرانداز کر کے شرم ناک سودے بازی کر کے ملک سے فرار کرا دیا گیا بلکہ فرار کی شاہانہ سہولتیں مہیا کی گئیں اور المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کے ہاتھوں ہوا اور عدالتوں کی دی ہوئی سزائوں کو ’’معاف‘‘ یا نظرانداز کر کے اسے ’’ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلہ‘‘ قرا ردینے کی جسارت کی گئی۔

بلاشبہ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۰ء ہماری تاریخ کا ایک تاریک ترین دن تھا۔

یہ اقدام ایک ناقابل معافی قومی اور اخلاقی جرم ہے۔ معاملہ افراد کا نہیں‘ اصولوں کا ہے‘ ہمیں نہ نوازشریف سے کوئی دشمنی ہے اور نہ پرویز مشرف سے کوئی پرخاش۔ لیکن یہ قوم اور ملک ہمیں عزیز ہیں۔ اسلام کے اصول و احکام اور ملک کا دستور اور قانون ہماری نگاہ میں وہ میزان ہیں جن پر ہر کسی کے عمل کو پرکھا جانا چاہیے اور جو بھی ان اقدار کو پامال کرے جن پر ہمارا ایمان‘ ہماری آزادی اور ہماری سلامتی کا انحصار ہے اس پر گرفت ایک دینی اور قومی فریضہ ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی درجے کی مداہنت دنیا میں بربادی اور آخرت میں خسارے کا باعث ہو گی۔ یہی جذبہ ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اس گھنائونے اقدام کا بھرپور محاسبہ کریں‘ اس کے مضمرات سے ملک و ملت کو آگاہ کریں اور قوم کو مزید تباہی سے بچنے کے راستے کی نشاندہی کریں۔


حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسلام کی تعلیمات اور انسانی تاریخ کے تجربات کا نچوڑ ایک جملے میں بیان فرما دیا ہے کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتاہے لیکن انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاے کرام اور پھر اپنے آخری پیامبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی زمین پر جس مقصد و ہدف کے حصول کے لیے بھیجا وہ تھا: تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کا قیام اور اسی بنیاد پرمعاشرے اور ریاست کی تعمیرو تشکیل ۔

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا  بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵)

ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ‘اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

حضور اکرمؐ کی زبانی صاف الفاظ میں اعلان فرمایا :

فَلِذٰلِکَ فَادْعُ ج وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ج وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ ج وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ ج وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ط  (الشوریٰ ۴۲:۱۵)

اے محمدؐ ‘ اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو‘ اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائو‘ اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو‘ اور ان سے کہہ دو کہ: اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔

مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے :

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴:۵۸)

مسلمانو‘ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

اسلام اس معاملے میں اتنا حسّاس ہے کہ خود اپنی ذات‘ باپ بیٹے‘ امیر غریب اور دوست و دشمن میں بھی کوئی تمیز گوارا نہیں کرتا۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا قف فَلاَ تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَاِنْ تَلْوٗآ اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا  o  (النساء ۴:۱۳۵)

اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو ‘ انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو‘ اللہ کو اس کی خبر ہے۔

ایک مسلمان ہمیشہ عدل و انصاف کا علم بردار ہوتا ہے--- دوست ہی نہیں دشمن سے بھی عدل سے پیش آنا مسلمان کا شیوہ ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا  قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ  شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ  عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتّٰقْوٰی ز وَاتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ  o (المائدہ ۵:۸)

اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتاہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

انصاف کے معاملے میں اسلام کی حسّاسیت کا ایک بڑا ہی اہم اور نازک پہلو یہ ہے کہ وہ جرم و سزا کو قانون کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے اور اس میں نہ کوئی اضافہ گوارا کرتا ہے اور نہ کمی۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی جا رہی ہے :

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰک اللّٰہُ ط وَلاَ تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًا O وَّاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا  O  وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا O   (النساء ۴:۱۰۵-۱۰۷)

اے نبیؐ‘ ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ تم بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو‘ اور اللہ سے درگزر کی درخواست کرو‘ وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔ جو لوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں تم ان کی حمایت نہ کرو۔ اللہ کوایسا شخص پسند نہیں ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔

جرم کے ثبوت کے بعد اس کے مرتکبین کے لیے نرمی اور رعایت کی بات انصاف کے منافی اور جرم و سزا کے قانون کو غیر موثر کرنے کے مترادف ہے۔ زنا کی سزا کے باب میں قرآن کا صاف ارشاد ہے:

وَّلَاتَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ج  (النور۲۴:۲)

اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔

یہی اصولی بات قتل کے سلسلے میں بیان فرمائی:

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی ط اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی ط فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ئٌ فَاتِّبَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ط ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ ط فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ O وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ O (البقرہ ۲:۱۷۸-۱۷۹)

اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ تمھارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے‘ غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے‘ اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں‘ اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو‘ تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کولازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے‘ اس کے لیے دردناک سزا ہے--- عقل و خرد رکھنے والو‘ تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔  امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔

واضح رہے کہ خوں بہا کا حق واختیار حکومت کو نہیں‘ جس کا حق مارا گیا ہے اس کو حاصل ہے۔ جرم و سزا کے بارے میں امیر غریب‘ عالی نسب اور عامی‘ بااثر اور کمزور میں تمیز و فرق اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

’’لوگو‘ تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں‘ وہ ہلاک ہو گئیں اس لیے کہ جب ان کا کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے‘‘۔ اور آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ قطع کر دیے جاتے‘‘۔ سزا میں تخفیف اور اضافہ بھی انصاف کے منافی ہے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ:

’’قیامت کے روزایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں ایک کوڑا کم کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا کہ یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا کہ آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہو گا تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا؟ پھر حکم ہوگا لے جائو اسے دوزخ میں۔ ایک حاکم لایاجائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانی سے باز رہیں۔ ارشاد ہوگا: اچھا تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا؟ پھر حکم ہوگا لے جائو اسے دوزخ میں (بحوالہ تفسیر کبیر ‘ ج ۶‘ ص ۲۳۵ ‘ تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۳۴۴)

ان احادیث کا تعلق حدود سے ہے لیکن اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ مجرم کا جرم ثابت ہونے کے بعد انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔ اس کو بلادلیل اور قانونی تقاضے پورے کیے بغیر نہ چھوڑ دیا جائے--- اور اس کی سزا میں کمی نہ کی جائے بلکہ پورا عمل عدل و انصاف کے مطابق ہو اور جس پر جو حق واجب ہے اسے بلاکم و کاست وصول کیا جائے اور حق داروں کوپہنچایا جائے۔ اسی لیے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان کی نگاہ میں ہر قوی کمزور ہے جب تک کہ اس سے حق دار کے حق واپس نہ لے لیں اور ہر محروم قوی ہے جب تک کہ اس کا حق اسے دلوا نہ دیں۔

جس سرزمین پر عدل کا نظام موجود نہ ہو‘ جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو‘ جہاں طاقت ور محض اپنی دولت اور اثر و رسوخ کی بنا پر حق داروںکا حق مار کر دندناتا پھرے اور مظلوم اپنے حق سے محروم رہے اُسے اسلامی تو کیا‘ ایک مہذب معاشرہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ چرچل نے دوسری جنگ کے عین ان لمحات کے موقع پر جب برطانیہ کا ہر گھر جرمنی کی توپوں کی زد میں تھا‘ کہا تھا : ’’یہ ملک محفوظ ہے اگر اس کا عدالتی نظام ٹھیک ٹھیک کام کر رہا ہے اور لوگوں کو انصاف مل رہا ہے‘‘۔

جس معاشرے سے انصاف اٹھ جائے سمجھ لیجیے کہ اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔


موجودہ حکومت نے نواز شریف اور ان کے خاندان کو جس طرح معافی دی ہے اور اعزاز کے ساتھ ملک سے رخصت کر دیا ہے اس عمل میں اس نے ایک نہیں حسب ذیل سات بڑے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور اسے ان سب ہی کے بارے جواب دہی کرنا ہو گی:

۱- عدلیہ کی تضحیک اور قوم سے بے وفائی: پہلا جرم یہ کہ ایک ایسے شخص کو ‘جسے ملک کی عدالتوں نے کم از کم دو مقدمات میں مجرم قرار دے کر سنگین سزائیں دی تھیں‘ بلاجواز و اختیار معافی دے کر انصاف کا خون کیا ہے۔ حکومت خود ان معاملات میں مدعی تھی اور ایک مقدمے کے بارے میں عدالت سے سزا میں کمی نہیں‘ مزید اضافے کی درخواست کر رہی تھی۔ نیز مختلف عدالتوں میں اسّی (۸۰) کے قریب دوسرے مقدمات دائر ہو گئے تھے یا دائر کیے جانے کے مراحل میںتھے۔ ایک خاندان جس کے بارے میں ملک اور عالمی اخبارات اور رسائل میں اربوں روپے کے غبن اور  لوٹ مارکی شہادتیں پیش کی جا رہی تھیں اور خود حکومت ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے اقدام کے جواز میں جن جرائم کا شب و روز ذکر کر رہی تھی اور جن کی بنیادپر عدالت عالیہ نے ۱۲ اکتوبر کے اقدام کو ایک گونہ جواز (validation) فراہم کیا تھا‘ ان سب سے بیک چشم صرفِ نظر کرکے محض چند ایسے اثاثوں کو اپنی تحویل میں لے کر‘ جن کی مالیت اصل لوٹ کھسوٹ کاعشر عشیر بھی نہیں‘ اس نے شدید ترین بدعنوانی اور بے انصافی کاارتکاب کیا ہے۔ جرم کرنے والے اس جرم پر پردہ ڈالنے یا مجرم کو بچانے والے اور حق دار کو (جو اس معاملے میں پوری پاکستانی قوم ہے محض کوئی حکمران نہیں) اپنے حق سے محروم کر دینے والے بھی جرم میں اسی طرح شریک اور ذمہ دار ہیں جس طرح اس کا اصل ارتکاب کرنے والے۔ نواز شریف ہوں یا بے نظیر یا کوئی اور سابق حکمران--- ان پر الزام ہی یہ ہے اور عدالتوں اور قوم کے اجتماعی ضمیر نے اس الزام کی توثیق کی ہے کہ انھوں نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں امانتوں میں خیانت کی ہے‘ اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے‘ دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیر دی ہیں‘ قومی خزانے کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔ ملکی دولت بیرون ملک منتقل کی ہے اور ملک و قوم کو اپنے ہی وسائل سے محروم کر کے غربت اور افلاس اور بے روزگاری کے جہنم میں دھکیل دیا ہے۔

نواز شریف صاحب ۱۹۸۱ء سے کسی نہ کسی صورت میں برسرِ اقتدار رہے ہیں۔ اس زمانے میں ان کا خاندان ملک کا پانچواں امیر ترین خاندان بن گیا۔ ان بیس سال میں محض چند لاکھ کی حیثیت والے اس خاندان کے اثاثوں کی مالیت ۱۰ ارب روپے سے زیادہ ہو گئی اور ۵ سو ملین ڈالر سے زیادہ (ایک اندازے کے مطابق ایک بلین ڈالر) ملک کے باہر منتقل کرنے کا مرتکب ہوا۔ اس عرصے میں اس خاندان کے ۳۴ صنعتی یونٹ وجود میں آئے جو ۳۰ چھوٹے بڑے مالیاتی اداروں سے قرض لے کر اور قرض کی بڑی بڑی رقوم معاف کرا کر قائم کیے گئے۔ صرف ایک حبیب بنک سے ایک ارب روپے قرض لیے گئے۔ دوسرے بنکوں اور مالیاتی اداروں کے واجب الادا قرضوں کی مالیت ۵ ارب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح ڈیڑھ ارب روپے سرکاری خزانے کے ٹیکسوں کی شکل میں واجب الادا بتائے جا تے ہیں (ملاحظہ ہو‘ جنگ‘ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۰ء- جو لندن کے اخبارات گارڈین اور انڈی پنڈنٹ کی رپورٹوں پر مبنی ہیں جن کی صحت پر اخبارات نے شریف خاندان کوعدالتی کارروائی کا چیلنج دیا تھا مگر انھوں نے ان اخبارات کے خلاف کوئی عدالتی چارہ جوئی نہیں کی)۔

جس خاندان نے ملک و قوم کو اس بے دردی سے لوٹا ہو‘ اسے معافی دینے اور ملک سے فرار کی اجازت دینے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں تھا۔ یہ اقدام اسلام‘ دستورِ پاکستان‘ قانونِ احتساب اور سب سے بڑھ کر پاکستان اور پاکستانی قوم سے کھلی کھلی بے وفائی ہے۔ معافی اور فرار کا ڈراما رچا کر موجودہ حکومت بھی ان جرائم میں اتنی ہی شریک اور ذمہ دار ہو گئی ہے جتنا ان کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔

۲- دستور کی کھلی خلاف ورزی: دوسرا جرم دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دستور پاکستان کی دفعہ ۴ میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ: ہر شہری خواہ کہیں بھی ہو‘ اور کسی دوسرے شخص کا جو فی الوقت پاکستان میں ہو‘ یہ ناقابل انتقال حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہو اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔

اسی طرح دفعہ ۱۵ میں ہر شہری کے لیے نقل و حرکت اور پاکستان میں کہیں بھی قیام کا حق تسلیم کیا گیا ہے الا یہ کہ کسی قانون کے تحت کسی کو اس سے محروم کیا جائے۔ دستور میں ملک بدری (deportation) کا کوئی حق حکومت کو نہیں دیا گیا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت کسی شخص کو اس کی شہریت سے محروم کیے بغیر ملک سے نہیں نکالا جا سکتا اور یہ عمل بھی عدالتی فیصلے کے تحت ہو سکتا ہے ‘محض انتظامی حکم (executive order) سے نہیں۔ دفعہ ۲۵ میں تمام شہریوں کی برابری اور قانون کے مساوی تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسی طرح دستور کی دفعہ ۴۵ میں معافی یا سزا میں کمی کا جو حق دیا گیا ہے وہ صرف عدالتوں کے آخری فیصلے کے بعد ہے اور دستوری اور قانونی عرف کے مطابق بالعموم صر ف موت کی سزاکے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اب دیکھیے اس اقدام کی صورت میں کس طرح دستور کی ان تمام دفعات کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

 (i) جن دو مقدمات کی سزائیں معاف کی گئی ہیں وہ ابھی عدالتوں میں زیرِغور ہیں اور حکومت اور ملزم دونوں کی طرف سے اپیل کے درجے میں ہیں۔ دستور کی دفعہ ۴۵کا اطلاق ایسے معاملات پر نہیں ہوتا۔

 (ii) ابھی ان ملزموں کے خلاف ۸۰ کے لگ بھگ مقدمات احتساب کی اور دوسری عدالتوں میں  پیش ہونے کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان سارے معاملات میں یک طرفہ طور پر ملزمان کو فرار کی راہ دکھانا  (بلکہ عملاً فرار کرانا) دستور اور قانون کا خون کرنے اور جرم کی سرپرستی اور اس میں شرکت کے مترادف ہے۔

(iii) ایک ہی جرم میں شریک مختلف مجرموں کے درمیان تمیز اور فرق دستور اور اسلامی اصول کے منافی ہے۔

(iv) ملک بدری کی کوئی سزا کتاب قانون میں موجود نہیں۔ ایسی کوئی سزا دینے کا کوئی مجاز نہیں جو قانون کی نگاہ میں سزا نہ ہو۔ اسی طرح ملک بدر کرنے یا ملک میں واپسی کے حق سے کسی کو عدالتی کارروائی کے بغیر محروم نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ بھی مشتبہ ہے کہ عدالتی فیصلے کے ذریعے بھی کسی کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ آنے والے کو قانون کے مطابق گرفتار تو کیا جا سکتا ہے لیکن ایک شہری کو ملک میں داخلے کے حق سے محروم کرنے کا اختیار دستور اور قانون کے تحت کسی کو حاصل نہیں۔

(v) اگرچند ملزموں کو اس طرح سودا بازی کے ذریعے سرکاری اہتمام میں ملک کے‘ باہر عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے بھیجا جا سکتاہے تو پھر کس قاعدے اور قانون کے مطابق دوسروں کو اس ’’حق‘‘ سے محروم رکھا جا سکتا ہے یا ان افراد کو زبردستی ملک میں لایا جا سکتا ہے جو ایسے ہی جرائم کا ارتکاب کر کے ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ خود دوسرے ممالک سے ایسے لوگوں کے بطور ملزم حوالگی (extradition) کا بھی کیا اخلاقی جوازباقی رہ جاتا ہے؟

یہ وہ چند پہلو ہیں جن کے بارے میں دستور اور خود اسلام کے اصول انصاف کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

۳- بااثر اور کمزور میں فرق کی شرم ناک مثال : تیسرا بڑا جرم اس اقدام کے ذریعے یہ کیا گیا ہے کہ امیر اور غریب‘ بااثر اور کمزور‘ بیرونی سرپرستی رکھنے والے اور بیرونی سرپرستی سے محروم انسانوں کے درمیان فرق کی ایک شرم ناک مثال قائم کی گئی ہے۔ نیز مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے کے درمیان تمیز و فرق کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ ایک ہی جرم کے مرتکب انسانوں کے درمیان تمیز اور فرق کا جو رواج ازمنہ قدیم کے براہمنی‘ یا ایسے ہی دوسرے ظالمانہ اور جابرانہ نظاموں میں پایا جاتا تھا اور جسے اسلام اور خود دورِحاضر کے قانونی نظاموں نے ختم کر دیا تھا اس کا بدقسمتی سے ہمارے ملک میں احیا کیا جا رہا ہے۔ بے نظیر‘ الطاف اور ایسے دوسرے بہت سے افراد تو خود ملک سے بھاگ گئے ہیں لیکن یہ ’’اعزاز‘‘ اس حکومت کو اور امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں کے منظورنظر اس گھرانے کو جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں حاصل ہوا ہے کہ قومی مجرموں کو قانون اور انصاف کی گرفت سے نکال کر لوٹی ہوئی دولت سے شادکام ہونے کے لیے شاہی انتظام میں رخصت کر دیا گیا ہے۔ چند ہزار روپوں کا غبن کرنے والے تو جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور موٹر سائیکل پر محض دہری سواری کرنے والے تو پابند سلاسل ہیں لیکن اربوں روپے لوٹنے والے اور پوری قوم کو غلام بنانے والوں کے لیے آرام کے ساتھ سرکاری سرپرستی میں فرار کا اہتمام کیا گیا ہے۔  قانون صرف کمزوروں اور چھوٹے لوگوں کے لیے ہے۔ بڑی مچھلیوں پر اسے کوئی اختیار حاصل نہیں۔ یہ انصاف کا خون اور فرعونی روایات کا فروغ ہے۔  تفو!بر تو چرخ گرداں تفو!

۴- احتساب کے نام پر مذاق: فوجی حکومت اس دعوے کے ساتھ وجود میں آئی تھی کہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائے گی‘ لوٹی ہوئی دولت ہی واپس نہیں لائے گی بلکہ لوٹنے والوں کو بھی دنیا کے کونے کونے سے پکڑ کر قانون کی گرفت میں لے کر قرار واقعی سزادے گی۔ لیکن اس اقدام کے ذریعے اس نے قومی دولت کو لوٹنے والے سب سے بڑے ٹولے کو باعزت معافی دے کر ملک سے خود ہی رخصت کر دیا۔ اب دوسروں کی گرفت کا کیا جواز باقی رہا ہے؟ اس اقدام نے احتساب کے پورے عمل کو محض ایک ڈھونگ اور تماشے میں بدل دیا ہے۔ اب احتساب کے موجودہ نظام کا کوئی سیاسی‘ قانونی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ ملک اور ملک سے باہر اس نظام پر کوئی اعتماد نہیں کر سکتا۔ ایک طرف عدالتی نظام اور قانون کی حکمرانی کے اصول کو پامال کیا گیا ہے تو دوسری طرف احتساب کے پورے نظام کو ایک مضحکہ بنا کر غیر موثر کر دیا گیا ہے جس پر ] اعتماد اور بھروسے والی کوئی بات[ اب باقی نہیں رہی۔ یہ ایک ایسا ظلم ہے جس کی تلافی مشکل ہے۔

۵- ملکی وقار اور خود مختاری پر شدید ضرب:  اس اقدام کے لیے کھلے اور چھپے جو قوتیں کام کرتی رہی ہیں اور جس جس بیرونی دبائو کے آگے ہتھیار ڈالنے کی یہ حکومت مرتکب ہوئی ہے اس نے ملک کے وقار اور خودمختاری پر شدید ضرب لگائی ہے۔ ایک عرب ملک کا کردارتو بہت نمایاں ہے جس کا اعتراف خود سرکاری اعلان میں موجود ہے لیکن بات ایک ملک کی نہیں‘ کئی ملکوں کی ہے۔ اب تو وائٹ ہائوس کے ترجمان نے صاف اعتراف کر لیا ہے کہ ہم اس سلسلے میں برابر دبائو ڈال رہے تھے اور اس اقدام پر خوش ہیں۔ اس طرح کلنٹن صاحب نے ان خدمات کا حساب چکا دیاہے جو سابق وزیراعظم نے بھارت نوازی‘ کارگل سے پسپائی‘ ورلڈ بنک اور امریکہ کی معاشی بالادستی‘ افغانستان پر حملوں میں درپردہ معاونت‘ کانسی کی ملک بدری‘ جوہری صلاحیت کی تحدید اور نہ معلوم کس کس شکل میں انجام دی تھیں۔ سوال صرف سابق حکمرانوں کی مغربی اقوام کی کاسہ لیسی ہی کا نہیں‘ موجودہ حکمرانوں کا ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک دینے کا بھی ہے--- اور اس میں جو خطرات آیندہ کے لیے مضمرہیں‘ وہ ہوش اڑا دینے والے ہیں۔ مغرب کے ایجنڈے میں افغانستان پر دبائو‘ اسامہ بن لادن کی گرفتاری‘ کشمیرمیں جنگ بندی اور بھارت اور امریکہ کی شرائط پر سمجھوتہ کاری‘ قرضوں کی غلامی اور معاشی محتاجی میں اضافے اور بالآخر نیوکلیر صلاحیت سے محرومی اور اسلام سے بنیاد پرستی (فنڈمنٹلزم) کے نام پر عملی دست برداری آگے کے اہداف ہیں۔ جو حکومت قومی مجرموں کو اپنے دستور اور قانون کے مطابق اپنے دائرہ اختیارمیں نہ رکھ سکی اس سے قومی سلامتی کے دوسرے محاذوں پر مضبوطی کی توقع عبث ہے۔ فوجی قیادت کے بارے میں قوم کو توقع تھی کہ وہ سیاسی قیادتوں کے مقابلے میں بیرونی اثرات سے ملک کو محفوظ رکھنے میں زیادہ مستعد ہو گی لیکن یہ بڑی تشویش ناک بات ہے کہ خود فوجی قیادت اس محاذ پر کمزوری اور پسپائی دکھا رہی ہے۔ گویا ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘۔ اس طرح حکومت نے اپنی ساکھ (credibility) کو بالکل ختم کر کے رکھ دیا ہے۔

۶- حکومت کا جواز سے محروم ہو جانا: ایک اور اہم پہلو اس اقدام کا یہ ہے کہ اس کے ذریعے موجودہ حکومت نے خود اپنے کو اس جواز (legitimacy) سے محروم کر دیا ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے اسے حاصل ہو گیا تھا۔ ۱۲ اکتوبر کے اقدام کا اگر کوئی جواز تھا تو وہ سابقہ حکومت کے کرتوت اور ان کو قرار واقعی سزا دیے جانے کا امکان اور انتظام تھا۔ اسی وعدے کے ساتھ جنرل صاحب نے یہ اقدام کیا تھا اور انھی پہلوئوں کو سامنے رکھ کر سپریم کورٹ نے انھیں سند جواز مرحمت کی تھی۔ لیکن اگر اس مجرم ہی کو معافی دے دی گئی ہے اور اس کے سارے جرائم پر نہ صرف یہ کہ پردہ ڈال دیا گیا ہے بلکہ ساری لوٹ کھسوٹ کو بھی ایک طرح تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے تو پھر اسے ہٹانے والوں کے باقی رہنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ اس اقدام کی شکل میں جنرل صاحب نے وہ کام کیا ہے جو اس بڑھیا نے کیا تھاجس نے جو سوت کاتا اسے اپنے ہی ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ویسے بھی حکومت کی ۱۴ ماہ کی کارکردگی ہر میدان میں نہایت مایوس کن ہے لیکن اس اقدام کے بعد تو اب اس کے باقی رہنے اور سپریم کورٹ کی عطا کردہ مدت پوری کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ جلد از جلد اقتدار عوام کے اصل نمایندوں کی طرف منتقل کیا جائے۔

۷- اسلام کے اصول انصاف سے انحراف: ساتواں اور ان سب جرائم کا جامع جرم اسلام کے اصول انصاف اور جرم وسزا کے درمیان نسبت اور تعلق کے نظام کو درہم برہم کر دینا ہے۔ پاکستان بہت سے دوسرے ممالک کی طرح‘ محض ایک ملک نہیں‘ ایک اسلامی ملک ہے۔ اس کے دستور نے قرآن و سنت کی بالادستی کے اصول کو تسلیم کیا ہے۔اس قوم کی منزل اسلامی ریاست اور معاشرے کا قیام ہے۔ ہم نے اپنی معروضات کا آغاز اسلام کے اصول انصاف کے خلاصے ہی سے کیا ہے۔ ۱۰ دسمبر کا اقدام اسلام کے ہراصول سے انحراف اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے کھلے احکام کی بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ خلاف ورزی ہے۔ اس میں پاکستان کی حکومت اور عرب ممالک کی مسلمان حکومتیں برابرکی شریک ہیں۔ نواز شریف کی فیملی بھی اپنے اصل جرائم کے ساتھ خدا کے قانون جرم و سزا سے بغاوت کی مرتکب ہوئی ہے۔ انسان سے غلطی ہو سکتی ہے لیکن مسلمانوں کا رویہ غلطی پر ندامت اور اللہ سے عفو و درگزرکی طلب ہوتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں جرم پر کوئی ندامت کہیں دور دور نظر نہیں آ رہی بلکہ چوری اور سینہ زوری کی روش اختیار کی جا رہی ہے جو خدا اور خلق دونوں کے خلاف بغاوت کی ایک صورت ہے۔ مجرموں کو بچانے کی خدمت جو جو افراد اور قوتیں انجام دے رہے ہیں وہ سب اس بغاوت میں شریک اور معاون ہیں۔ جرم کا ارتکاب کرنے والا اور جرم میں معاونت کرنے والے دونوں قانون اور انصاف کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ مجرم کو تحفظ دینا بھی ایک جرم ہے۔ ۱۰ دسمبر کے اقدام نے ان سب کو مجرموں کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے اور اب ان سب ہی مجرموں سے نجات میں ہماری بقا اور ترقی کا راز ہے۔

اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ جنرل صاحب اور ان کی ٹیم مستعفی ہو‘ عدلیہ کے تحت غیر جانب دارانہ مگر قابل اعتماد افراد پر مشتمل عبوری انتظام بنایا جائے ‘ مکمل طور پر آزاد انتخابی کمیشن مقرر کیا جائے اور ایک معقول مدت میں نئے انتخابات کے لیے قوم کو اپنی نئی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے جو ملک کے حالات کو سدھارنے کی جدوجہد کرے اور ملک و قوم کے مجرموں کو بھی قرار واقعی سزا دینے کا اہتمام کرے۔ یہ کئی وجوہ سے ضروری ہے:

اولاً‘ موجودہ حکومت ناکام رہی ہے اور اسے جو موقع ملا تھا ‘اس نے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی چلا کر اسے ضائع کر دیا ہے۔ یہ حکومت نہ احتساب کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ اس پر اب احتساب کے باب  میں کسی درجے میں بھی اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ معیشت بھی خراب سے خراب تر ہوئی ہے ۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ اس کا ثبوت ہے جو آیندہ بھی اشیاے صرف کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے اور مزید بے روزگاریوں کی بھیانک پیشن گوئیاں کر رہی ہے۔

اس حکومت نے اپنی ہی قوم کے مختلف عناصر سے غیر ضروری محاذ آرائی کا راستہ اختیار کر کے حالات کو خراب کیا ہے۔ جس نئے نظام کی یہ نوید سناتی رہی ہے‘ اسے عوام میں کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ہے جس کا ثبوت بلدیات کے انتخابات میں عوام کی مکمل عدم دل چسپی ہے جسے ایک حد تک اس نظام اور اس حکومت کے خلاف ریفرنڈم قرار دیا جا سکتا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر جس طرح اس نے اپنے آپ کو بیرونی دبائو کے لیے نرم نوالہ بنا دیا ہے‘ اس سے تو اس کا اعتبار بالکل ہی غارت ہو گیا ہے۔ اس کی یہ کمزوری اپنے اندر بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ نئی‘ قابل اعتماد اور عوام کی معتمد علیہ قیادت جلد از جلد زمام کار سنبھالے۔ یہ اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ ۱۰ دسمبر کو ہوا ہے اور جو کچھ اس سے پہلے ہوتا رہا‘ یعنی ۱۹۷۱ء کا سانحہ‘ کارگل کی پسپائی وغیرہ‘ خواہ فوجی حکمران برسرِاقتدار ہوں یا مفاد پرست سیاست دان‘ اس کی بڑی وجہ موثر شورائی نظام کا فقدان‘ حکمرانوں کے ہاتھ میں آمرانہ اختیارات کا ارتکاز اور کسی موثر جواب دہی اور ضروری احتساب کے نظام کی کمی ہے۔

بات ایوبی دور کی ہو ‘جس میں تین دریائوں کے پانی سے دست برداری‘ بھارت چین جنگ کے موقع پر کشمیر پر پیش قدمی سے اجتناب‘ اور تاشقند میں بھارت کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے سانحے وقوع پذیر ہوئے یا ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی کا دور ہو‘ نواز شریف کا زمانہ ہو یا یحییٰ اور ضیا الحق کا اور یا اِس وقت کے جنرل پرویز مشرف کا--- جب بھی اختیارات کسی شخص واحد کی ذات میں مرکوز ہوئے ہیں اور وہ سیاہ و سفید کا مالک بنا ‘ ایسی ہی خوف ناک اور بھیانک غلطیاں (blunders) رونما ہوئیں۔ ستم ظریفی ہے کہ ۱۰ دسمبر کے اقدام کے لیے خود چیف ایگزیکٹو کی اپنی بنائی ہوئی کابینہ تک سے مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور نواز شریف کی رخصتی کے چار دن بعد اس واقعے پر کابینہ میں بحث ہوئی اور اس نے آمنا وصدقنًا کی سند جاری کر دی! ہمارے ملک کی سیاست کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے ادارے موجود نہیں اور جو ادارے بنائے گئے ہیں وہ صرف وزن بیت کے لیے ہیں--- حقیقی اختیارات سے محروم! نواز شریف ہو یا بے نظیر‘ نہ ان کی جماعتوں میں کسی مشورے اور جواب دہی کا نظام ہے اور نہ کبھی ان کی کابینہ یا اسمبلیوں نے ایسا کوئی کردار ادا کیا۔

آج بھی بے نظیر بھارت سے دوستی‘ مشترک کرنسی‘ کشمیر میں جنگ بندی‘ مسام دار (porous) سرحدوں اور نہ معلوم کیا کیا باتیں کر رہی ہیں مگر ان کی پارٹی میں کوئی نہیں کہ اس کی زبان کو لگام دے یا اس کے خلاف آواز اٹھائے۔ نواز شریف مسلم لیگ کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھے ہوئے ہیں۔ جسے چاہیں نامزد کر دیں‘ جسے چاہے نکال دیں۔ کوئی نہیں جو ان کے اس رویے پر گرفت کر سکے اور ان کے دامن کو پکڑ کر ان سے پوچھ سکے۔ یہ تمام صورتیں آمریت کی شکلیں ہیں‘ انھیں جمہوریت سے کوئی نسبت نہیں۔ قوم کی ضرورت صرف فوجی اقتدار ہی سے نجات نہیں‘ آمریت کی ہر شکل سے بغاوت کر کے حقیقی جمہوریت‘ قانون کی بالادستی‘ مشاورت کے موثر نظام کا قیام‘ پالیسی سازی کے لیے افراد کی جگہ اداروں پر انحصار اور سب کے لیے جواب دہی کے نظام کا قیام ہے۔

آج پاکستان ہی نہیں‘ پوری مسلم دنیا کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ فوجی حکومت ہو یا ’’جمہوری تماشا‘‘ اقتدار کسی فردِ واحد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے‘ کرتا ہے اور اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ عبرت کے لیے مسئلہ فلسطین کے بگاڑنے میں مصر کے کردار پر ایک نظر ڈالیے۔ کیمپ ڈیوڈ جس نے شرق اوسط کی سیاست کا رخ بدل دیا اور مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے بگاڑ دیا‘اس کا بڑا سبب فیصلوں کے لیے موثر شورائی نظام اور قومی جواب دہی کا فقدان ہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے وقت انورالسادات نے نہایت خود رائی اور خودسری کا مظاہرہ کیا اور عقل کل بن کر اپنے تمام وزیروں اور مشیروں تک کو نظرانداز کر کے صدر کارٹر پراعتماد کی ترنگ میں اس طرح معاملات نمٹائے کہ آج بھی فلسطین میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور فلسطین اتھارٹی اور عرب حکومتیں دم بخود ہیں۔ اس وقت کے مصری وزیر خارجہ عصمت کمال نے اپنی کتاب Camp David Accrod: A Testimony   (مطبوعہ  ۱۹۸۶ء) میں جو حالات بیان کیے ہیں وہ آنکھیں کھولنے والے اور خون کھولا دینے والے ہیں۔ افسوس کہ یہی کھیل ہے جو برابر کھیلا جا رہا ہے اور کم و بیش ہر ملک میں کھیلا جا رہا ہے۔ انورالسادات کا ایک ہی مطالبہ تھا:

براہ کرم ‘ مجھ پر اعتماد کیجیے۔ کیا آپ کو مجھ پربھروسا نہیں ہے؟

عصمت کمال لکھتا ہے کہ:

اصل مسئلہ نہ اسرائیل کا غیر لچک دار رویہ تھا اور نہ امریکہ کا اسرائیل کے آگے موم کی ناک بن کر ہر معاملے میں سپرانداز ہوجانا (spineless surrender)۔ اصل مسئلہ تو صدر سادات خود تھے۔ انھوں نے صدر کارٹر کے آگے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے اور صدر کارٹر نے بیگن کے آگے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اب جو معاہدہ بھی ہوتا ‘ مصر کے لیے‘ فلسطینیوں کے لیے اور کل عرب قوم کے لیے تباہ کن ہی ہوتا ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں سادات کے عزائم اور رویے کی کیا توجیہ کروں۔ شاید انھوںنے اپنے آپ کو امریکہ سے اس درجے مضبوطی سے وابستہ کر لیا تھا کہ انھیں اس مرحلے پر اس سے باہر نکلنا مشکل محسوس ہوتا تھا (ص ۳۵۸-۳۵۹)۔

امریکہ پر انحصار‘ اس کے ہاتھوں میں کھلونا بن جانا اور فردِواحد کے ہاتھوں میں قوم کی قسمت کو دے دینا ساری خرابی کا اصل سبب تھا۔ اور یہی دو بلائیں ہیں جو مسلمان ملکوں کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔گھر میں آمریت اور باہر کی قوتوں پر انحصار ہی ہمارااصل روگ ہیں۔ ہم ہی نہیں‘ غیر بھی اس کمزوری کو دیکھ رہے ہیں اور خوب خوب اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ڈیوٹ ہرسٹ اور ارنے بی سن نے سادات کی سوانح عمری میں بڑی پتے کی بات کہی ہے جو بدقسمتی سے خود ہمارے حالات پر پوری طرح صادق آتی ہے:

ایک فرد‘ ان اداروں کے بالمقابل جن کا وہ سربراہ ہو‘ جتنا زیادہ خود پالیسی بنائے گا اتنا ہی زیادہ ان کے بنانے میں اس کی ذاتی نفسیات ایک معروضی سیاسی حقیقت کے طورکارفرما ہوگی۔ سادات کسی طرح بھی دنیا کے سب سے زیادہ مطلق العنان حکمران نہ تھے لیکن ان کی سیاسی زندگی بہت ہی نمایاں طور پر اس کی مثال تھی کہ کس طرح سیاسی امور میں ذاتی رجحان کو غلبہ حاصل رہتا ہے۔ اور جب ذاتی رجحان اتنا ہی مخصوص طرح کا ہو جیسا کہ ان کا تھا‘ تو پالیسی کے نام پر کیا کیا بگاڑ رونما ہوسکتے ہیں (ص ۳۵۴)۔

فردِ واحد کی حکمرانی اپنے اندر ایسے ایسے خطرات رکھتی ہے جو برسوںکی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل شدہ آزادی‘ عزت‘ دولت اور امکانات کو لمحوں میں غتربود کر سکتے ہیں!

دستور اور قانون کی حکمرانی‘ موثر شورائی نظام اور جمہوری اداروں کا وجود‘ جواب دہی اور پالیسی سازی کا ادارتی انتظام ہی اچھی حکمرانی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ فوجی حکومت ہو یا جمہوریت کے لبادے میں شخصی حکومت--- دونوں مطلوبہ نظام کی ضد ہیں۔ یہ نہ صرف ملک کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خود فوج کی دفاعی صلاحیتوں کے لیے بھی سم قاتل ہے۔ اس لیے جتنی جلد ممکن ہو‘ حقیقی جمہوری نظام کی طرف مراجعت ہی میں ہماری نجات ہے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ قوم کی قسمت سے کھیلنے کا حق اور اختیار کسی کو حاصل نہیں۔ یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک امانت ہے اور اس کے اصل امین اس ملک کے عوام ہیں۔ ہم اس بات کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جہاں ہماری فوجی اور سیاسی دونوں قیادتیں ناکام رہی ہیں وہیں عوام بھی اس ناکامی میں اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔

انتخاب کے موقع پر اپنا کردار ادا نہ کرنا‘ یا برادری اور مفاد کی بنیاد پر غلط لوگوں کو برسرِاقتدار آنے میں مدد دینا بھی ایک قومی جرم اور اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ آخری ذمہ داری عوام کی ہے کہ وہ اپنے ایمان اور ملکی مفاد کے پیش نظر اچھی قیادت کو بروئے کار لائیں اور سیاسی شعبدہ بازوں سے بار بار دھوکا نہ کھائیں۔

غربت‘ تعلیم کی کمی اور جمہوری روایات کا فقدان راہ کے موانع ہیں لیکن جمہوری عمل کا کوئی متبادل نہیں۔ اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اس عمل کے ذریعے بالآخر بہتر قیادت ابھرے گی اور عوام اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کے لائق بن سکیں گے۔

ہمارے ملک کے حالات کی روشنی میں نظام انتخاب کی اصلاح اور آزاد انتخابی کمیشن کا قیام اس کے لیے ضروری ہیں۔ موجودہ حکومت سے اب احتساب کی کوئی توقع نہیں رہی۔اگر یہ ملک کے اچھی شہرت رکھنے والے افراد کے مشورے سے ضروری انتخابی اصلاحات نافذ کر کے نئے انتخابات کا اہتمام کرے اور اقتدار قوم کی طرف لوٹا دے تو یہ اس کے لیے بھی بہتر ہے اور اس میں ملک و ملّت کے لیے بھی خیر ہے۔ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں--- سوال اتنا ہے کہ یہ کام افہام و تفہیم اور خیرسگالی اور قومی مفاہمت کے ذریعے ہوتا ہے یا ایک نئی کش مکش اور عوام اور حکومت کے درمیان ٹکرائو کے نتیجے میں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ حکومت دانائی کا راستہ اختیار کرے گی اور اپنے اخلاقی جواز کو کھو دینے کے بعد اپنے اقتدارکو طول دینے کی کوشش نہیں کرے گی‘ نوشتہ دیوار کو بروقت پڑھ لے گی اور اصلاح احوال کا وہ راستہ اختیار کرے گی جس سے ملک اس دلدل سے نکل آئے اور فوج کا بھی اعتماد باقی رہے تاکہ وہ دفاع وطن کے کام کے لیے یکسو ہو کر سرگرم ہو سکے۔ پاکستان کو اس دلدل سے نکالنے کا راستہ ہی یہ ہے کہ نظام حکومت ایسے ایمان دار اور باصلاحیت عوامی نمایندوں کے ہاتھوں میں آجائے جو خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہوں اور جو اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد کے تابع رکھ سکیں۔ سابق حکمرانوں کے حشر سے سبق سیکھیں اور اس سے عبرت پکڑیں کہ کس طرح دو دو بار وزیراعظم بننے والوں اور بڑے بڑے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والوں کو ملک سے فرار کی راہ اختیار کرنی پڑی اور ملک کے عوام کس طرح ان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ دونوں کا حال یہ ہے کہ نہ صرف ’’بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘ بلکہ ملک کو ایسا بدحال کر کے نکلے کہ بہ ادنیٰ تصرف یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’’بڑے بے آبرو کر کے ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘۔ لیکن نکلنے کا آبرومندانہ راستہ بھی موجود ہے۔ وہ محاذ آرائی کا نہیں بلکہ حق دار کو اس کا حق دینے کا راستہ ہے۔ فوجی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ فوج کا کام ملک پر حکمرانی کرنا نہیں‘ ملک و ملت کا دفاع ہے۔ سیاست میں الجھ کر فوج نہ اچھی حکمرانی کا نمونہ پیش کر سکتی ہے کہ اس کی نہ یہ تربیت ہے‘ نہ صلاحیت اور نہ اس طرح یہ اپنی دفاع کی صلاحیت ہی کو باقی رکھ سکتی ہے۔ اگر فوج متنازع بن جائے یا اس کے لوگوں کو بھی بدعنوانی کا خون یا اقتدار کی چاٹ لگ جائے تو پھر وہ قوم کی امیدوں اور دعائوں کا مرکز نہیں رہ سکتی۔ پھر تووہ شکایتوں اور نفرتوں کا ہدف ہی بنتی جاتی ہے اور جس فوج پر اس کی اپنی قوم کا اعتماد نہ ہو‘ وہ دفاع کی خدمت کیسے انجام دے سکتی ہے۔ موجودہ قیادت اس حقیقت کو جتنی جلد تسلیم کرلے ‘ اتنا ہی اس کے اور ملک کے لیے بہتر ہے۔

تحریک اسلامی اور ملک کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بیدار کریں‘ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں‘ قوم کا خون چوسنے والوں کے چنگل سے قوم کو نکالیں اور اس ملک خداداد کو ایک اچھی اور ایمان دارانہ قیادت فراہم کریں جو اسے امت کے خوابوں اور تمنائوں کے مطابق ڈھالنے کی جدوجہد کو اپنی منزل بنا لے اور اقبال‘ قائداعظم اور ملت اسلامیہ ہند کے تصور کا پاکستان اس پاک دھرتی پر ایک زندہ حقیقت بن سکے۔ یہی امت مسلمہ کے لیے بھی ایک روشن مینار بن سکتا ہے۔ یہ صلاحیت اور یہ امکان آج بھی موجود ہے‘ اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور اللہ پر بھروسا‘ خود اپنی قوم پر اعتماد‘ اپنے  وسائل کا صحیح استعمال  اور معاشرے کے تمام اچھے عناصر کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے:

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!

 

کامیاب زندگی کا کوئی تصور قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خود زندگی کا کوئی تصور قائم کر لیا جائے‘ کیونکہ اسی پر کامیابی کا تصور مبنی ہو سکتا ہے۔ ایک تصورِ حیات کے لحاظ سے ایک زندگی انتہائی کامیاب قرار پاتی ہے‘ تو دوسرے تصور حیات کے لحاظ سے وہی زندگی انتہائی ناکام ٹھہرتی ہے۔ دنیا کو ایک چراگاہ یا خوانِ یغما سمجھیے تو وہ شخص بہت کامیاب ہے جو اس تھوڑی سی مہلتِ عمر میں خوب عیش کرلے‘ اور وہ بڑا ہی نامراد ہے جو نفس و جسم کے ابتدائی مطالبات بھی اچھی طرح پورے نہ کر سکے۔ دنیا کو ایک رزم گاہ سمجھیے تو کامیاب آدمی وہ ہے جو اس کش مکش کے میدان میں سب کو روندتا کچلتا آگے بڑھتا چلا جائے‘ یہاں تک کہ اس مقام پر جا پہنچے جہاں اس کے جیتے جی کوئی حریف اس کی آرزوئوں کی تکمیل میں مزاحم ہونے والا نہ رہ جائے اور اس کے برعکس وہ آدمی بالکل ہی ناکام بلکہ نکمّا ہے جو اپنی اغراض کے لیے کسی ایک بندئہ خدا سے بھی چھین جھپٹ نہ کرے اور سفرحیات میںکبھی دو ہمراہیوں کو بھی کہنی مار کر آگے نہ نکلے۔ لیکن اگر آپ کا تصورِ حیات ان تصورات سے مختلف ہو تو کامیابی و ناکامی کے متعلق بھی آپ کا تصور ان سے مختلف ہو جائے گا۔ اتنا مختلف کہ آپ ان لوگوں کو سخت ناکام و نامراد سمجھیں گے جو ان تصورات کے لحاظ سے بڑے کامیاب ہیں‘ اور ایسے لوگوں کو انتہائی کامیاب قرار دیں گے جو ان کے لحاظ سے قطعی ناکام ہیں۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کامیابی و ناکامی کا کوئی ایک متعین معیار نہیں ہے جو دنیا بھر میں مسلّم ہو‘ بلکہ مختلف لوگوں کی نگاہ میں اس کے مختلف معیار ہیں اور ان معیاروں کے متعین کرنے میں فیصلہ کن چیز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو‘ اور اس دنیا کو جس میں وہ رہتا ہے‘ اور اس مہلت عمل کو جو اسے یہاں حاصل ہے‘ کیا سمجھتا ہے؟

طولِ کلام سے بچتے ہوئے میں اختصار کے ساتھ یہ بتائوں گا کہ ایک سچے مسلمان کی نگاہ میں فلاح و خسران کا حقیقی معیار کیا ہے۔ یہ معیار اسلام نے پیش کیا ہے اور ہمیشہ سے اہل ایمان اسی کے لحاظ سے رائے قائم کرتے رہے ہیں کہ فائز و کامران کون ہے اور خائب و خاسر کون۔

زندگی کا جو تصور اسلام ہمیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اس دنیا میں آزمایش کے لیے رکھا ہے تاکہ انسان یہاں اس کے دیے ہوئے سروسامان اور اس کی دی ہوئی طاقتوں سے کام لے کر اپنی اصلی قدروقیمت کا اظہار کرے۔ اس تصور کی رو سے دنیا کوئی چراگاہ یا رزم گاہ نہیں ہے‘ بلکہ ایک امتحان گاہ ہے۔ جس چیز کو ہم اپنی زبان میں عمر کہتے ہیں‘وہ دراصل وہ وقت ہے جو امتحان کے پرچے کرنے کے لیے ہم کو دیا گیا ہے‘ اور امتحان کے پرچے بے شمار ہیں۔ ماں باپ‘ اولاد‘ بیوی‘ شوہر‘ بھائی بند‘ رشتے دار‘ دوست‘ ہمسائے‘ قوم‘ وطن اور پوری انسانیت جس کے ساتھ طرح طرح کے تعلقات و روابط میں انسان بندھا ہوا ہے‘ ان میں سے ہر ایک امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ اپنی معاش کے سلسلے میں اور جن جن طریقوں سے بھی انسان کام کرتا ہے اور پھر اس کمائی کو جس جس طرح خرچ کرتا ہے‘ یہ سب بھی امتحان ہی کے مختلف پرچے ہیں۔ اسی طرح جتنی قوتیں اور قابلیتیں اللہ نے اس کو دی ہیں‘ جو جو خواہشیں اور میلانات اور جذبات اس میں رکھے ہیں‘ جن جن ذرائع اور وسائل سے کام لینے کی اس کو قدرت عطا کی ہے‘ ان سب کی اصل حیثیت بھی امتحان کے پرچوں ہی کی ہے۔ اور سب سے بڑا پرچہ اس مضمون کا ہے کہ اپنے اس خالق کے ساتھ انسان کیا رویہ اختیار کرتا ہے جس کی دنیا میں وہ رہتا ہے‘ جس کی دی ہوئی قوتوں اور طاقتوں سے وہ کام لیتا ہے‘ اور جس کے بخشے ہوئے سروسامان کو وہ استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر امتحان ہے‘ جس کی لپیٹ میں زندگی کا ہر پہلو آیا ہواہے اور ہمہ وقتی امتحان ہے جس کا سلسلہ ہوش سنبھالنے کے وقت سے موت کی آخری ساعت تک جاری رہتا ہے۔

اس امتحان گاہ میں اصلی اہمیت اس چیز کی نہیں ہے کہ آپ کس مقام پر‘ کس حیثیت میں امتحان دے رہے ہیں بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ جو شخص یہاں مزدور کی حیثیت سے اٹھ کر ایک بڑا کارخانہ دار‘ یا رعیّت کے مقام سے بلند ہو کر ایک بڑا فرماں روا بن گیا ہے‘ اس نے درحقیقت کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے بلکہ امتحان کے بہت سے زاید پرچے اس نے لے لیے ہیں اور پہلے کی بہ نسبت وہ بہت زیادہ سخت پرچے لے کر بیٹھ گیا ہے‘ جہاں نمبر زیادہ پانے کے جتنے امکانات ہیں‘ اتنے ہی زیادہ ناکامی کے خطرات بھی ہیں۔

یہ امتحانی تصورِ حیات جس شخص کا بھی ہو‘ اس کا معیار کامیابی و ناکامی لازماً دوسرے تصورات حیات رکھنے والوں کے معیار سے بالکل مختلف ہوگا۔ اس کے نزدیک اصل کامیابی خدا کے اس امتحان میں ایک بندئہ وفادار و شکرگزار ثابت ہونا ہے۔ ایک ایسا بندہ ثابت ہونا ہے جس نے خدا کے اور بندوں کے حقوق ٹھیک ٹھیک سمجھے اور ادا کیے ہوں۔ جس نے دل اور نگاہ‘ کان اور زبان‘ پیٹ اور جنسی قوتوں کو بالکل پاک رکھا ہو۔ جس کے ہاتھوں نے کسی پر ظلم نہ کیا ہو‘ جس کے قدم بدی کی راہ پر نہ چلے ہوں‘ جس نے کم کمایا ہو یا زیادہ‘ مگر جو کچھ بھی کمایا ہو‘ حق اور راستی کے ساتھ کمایا اور جائز راستوں میں خرچ کیا ہو۔ جو امانتوں کا محافظ‘ قول و قرار میں سچا اور عہد و پیمان میں راسخ رہا ہو۔ جو بھلائی کا دوست اور برائی کا دشمن ثابت ہوا ہو۔ جسے اس کے خدا نے جس حیثیت میں بھی رکھا ہو وہاں اس نے اپنی ذمے داریوں کو کماحقہ سمجھا اور ادا کیا ہو۔ جس کا یہ حال نہ رہا ہو کہ بقول ظفر:

ع   جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

یہ کامیابی جس کو نصیب ہو گئی ‘ وہ بہرحال فائز المرام ہے‘ خواہ دنیا میں وہ نانِ جویں تک کو محتاج رہا ہو اور اس کا کوئی کارنامہ تاریخ کے صفحات پر ثبت نہ ہو۔ اس کے برعکس جو اس کامیابی سے محروم رہ گیا‘ وہ سخت نامراد ہے خواہ وہ دنیا کے سرمایہ داروں کی صفِ اوّل میں پیشوائی کا مقام حاصل کرگیا ہو‘ یا فاتحین عالم کا سرخیل ہی کیوں نہ ہو (۲ جولائی ۱۹۵۸ء)‘  (کامیاب زندگی کا تصور‘ مرتبہ:پروفیسر انوردل‘ مکتبہ جدید‘ لاہور‘ مارچ ۱۹۶۴ء‘ ص ۲۳-۲۷)۔

 

ترجمہ:   نواب صدیق حسن خاں

یہ تحریر کتاب روزمرہ اسلام (۱۳۰۶ھ) سے لی گئی ہے۔ یہ ملا علی قاری حنفی (م: ۱۰۱۴ھ) کے مسائل سے ماخوذ ہے۔ ترجمہ بھوپال کے معروف عالم دین نواب صدیق حسن خاں (م: ۱۳۰۷ھ) نے کیا ہے اور کہیں کہیں کچھ اضافہ کیا ہے۔ تدوین کرتے ہوئے زبان کی قدامت دور کی گئی ہے اور کچھ حصے حذف کیے گئے ہیں (ادارہ)۔

حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابن آدم! اگر تو وہ مال‘ جو زیادہ ہے خرچ کرے تو یہ تیرے لیے بہتر ہے۔ سب سے پہلے اپنے اہل و عیال پر خرچ کر۔ اور اگر روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہے۔ بقدر ضرورت تجھ کو ملامت نہیں (مسلم) ۔ دوسری روایت یہ ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے رسولؐ خدا! کون سا صدقہ بہت بڑا اجر رکھتا ہے؟ فرمایا:تو صدقہ دے‘ جب کہ تو تندرست و بخیل ہو‘ فقر سے ڈرتا اور غنا کی امیدرکھتا ہو‘ اور اتنی دیر نہ کر کہ جان گلے میں پہنچے تب تو کہے کہ فلاں کو اتنا اور فلاں کو اتنا۔ وہ تو اس کا ہو ہی چکا ہے (متفق علیہ)۔ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے۔ میں آیا‘ مجھے دیکھ کر فرمایا: قسم ہے رب کعبہ کی! وہی زیاں کار ہیں۔ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں‘ وہ کون ہیں؟ فرمایا: یہی بڑے مال دار‘ مگر جس نے دیا دائیں اور بائیں سے‘ سامنے اور پیچھے سے۔ اور ایسے لوگ تھوڑے ہیں (متفق علیہ)۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ سخی قریب ہے اللہ سے‘ قریب ہے جنت سے‘ قریب ہے لوگوں سے‘ دور ہے آگ سے۔ بخیل دور ہے اللہ سے‘ دور ہے جنت سے‘ دور ہے لوگوں سے‘ قریب ہے آگ سے۔ البتہ جاہل سخی دوست تر ہے اللہ کو عابد بخیل سے(ترمذی)۔ حضرت ابوسعیدؓ کی روایت میں ہے کہ اگر آدمی اپنی حیات میں ایک درہم صدقہ دے تو یہ بہتر ہے اس سے کہ ۱۰۰ درہم صدقہ دے موت کے وقت (ابوداؤد)۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ہر دن‘ جب کہ بندے صبح کرتے ہیں دو فرشتے اترتے ہیں۔ ایک کہتا ہے: اللھم اعط منفقا خلفا۔ دوسرا کہتا ہے: اللھم اعط ممسکا تلفا (متفق علیہ)‘ یعنی ایک سخی کو دعا دیتا ہے‘ دوسرا بخیل کے لیے بددعا کرتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: قال اللّٰہ تعالٰی انفق یا ابن آدم انفق علیک (متفق علیہ)۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوتیں‘ بخل و بدخلقی (ترمذی)۔  حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسے یوں روایت کیا ہے کہ نہ جائے گا جنت میں مکار و بخیل اور احسان جتانے والا(ترمذی)۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آدمی میں بدترین اشیا شح ہالع اور جبن خالع ہیں‘ یعنی شدید بخل اور سخت کم ہمتی (ابوداؤد)۔ حدیث ابوہریرہؓ  میں ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنا صدقہ ایک بار چور کو‘ دوسری بار زانیہ کو‘ اور تیسری بار آسودہ آدمی کو ناواقفیت سے دے دیا۔ جب لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوا تو اس نے کہا: اللھم لک الحمد علی سارق وزانیۃ وغنی۔ اس سے کہا گیا کہ تیرا صدقہ چور پر ہوا شاید وہ چوری سے اور زانیہ زنا سے باز رہے‘ اور غنی عبرت پکڑے اور خود بھی خرچ کرے(متفق علیہ)۔ معلوم ہوا کہ جو صدقہ اخلاص نیت سے دیا جاتا ہے اگر غلطی سے وہ کسی غیر مستحق کو پہنچتا ہے تو بھی متصدق کو اجر ملتا ہے اور غیر مستحق کے حق میں بھی کبھی نافع ہو جاتا ہے۔

ایک طویل حدیث میں حصرت ابوہریرہؓ ایک کوڑھی‘ گنجے اور اندھے کا قصہ بیان کرتے ہیں جن کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔اللہ نے ان کا امتحان لیا۔ ان کی خواہش کے مطابق کوڑھی کو اچھا کر کے خوب صورت خوش رنگ بنا دیا گیا اور اس کو اونٹ  یا گائے عطا کی گئی۔ اسی طرح گنجے کو عمدہ بال اور گائے بخشی اور اندھے کو آنکھیں اور بکریاں دیں یہاں تک کہ ہر ایک کے مال سے ایک جنگل بھر گیا۔ پھر وہی فرشتہ جس نے اپنا ہاتھ ان پر پھیرا تھا اور یہ اچھے ہو گئے تھے ان میں سے ہر ایک کے پاس شکل اول میں آکر سائل ہوا اور کہا جس اللہ نے تجھ کو ایسا کر دیا ہے اس کے نام پر کچھ مجھ کو بھی دے کہ میں مسکین اور مسافر ہوں اور گھر تک نہیں پہنچ سکتا۔ کوڑھی نے کہا حقوق بہت ہیں ۔ اس نے کہا میں تجھ کو پہچانتا ہوں تو ابرص اور فقیر تھا‘ اللہ نے تجھ کو یہ مال دیا۔ کہا: یہ مال تو پشت ہا پشت سے مجھ کو ملاہے۔ اس نے کہا: اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تجھ کو پھر ویسا ہی کر دے۔ اسی طرح گنجے سے برتائوہوا اور اس کو بھی بددعا دی۔ پھر اندھے کے پاس آکر وہی گفتگو کی۔ اس نے کہا :میں اندھا تھا‘ اللہ نے مجھ کو بینا کر دیا‘ تو جتنا چاہے لے جا۔ آج میں تجھ کو کسی شے سے نہ روکوں گا۔ فرشتے نے کہا تو اپنا مال اپنے پاس رکھ: فانما ابتلیتم فقد رضی عنک وسخط علی صاحبیک (متفق علیہ)‘یعنی تمھارا امتحان ہوا۔ تجھ سے اللہ راضی رہا اور ان دونوں سے خفا ہوا۔

حضرت اُمِ مجیدؓ نے حضرتؐ سے کہا کہ مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے۔ میں شرم کرتی ہوں کہ گھر میں اس کے دینے کو کچھ نہیں پاتی۔فرمایا: اس کے ہاتھ میں دے اگرچہ ایک سم سوختہ  ہو(مسند احمد)۔ معلوم ہواکہ گدا کو خالی ہاتھ نہ پھیرے۔ کچھ نہ کچھ دے دے اگرچہ بے حقیقت و حقیر و یسیر چیز ہو۔ سلف ہر روز صدقہ دیتے تھے‘ اگرچہ ایک گرہ پیاز کی یا ایک ڈلی نمک کی ہوتی۔ کوئی دن صدقہ سے خالی نہ چھوڑتے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے: کیا میں تم کو بدتر درجے والے لوگوں کی خبر نہ دوں؟ کہا: ہاں۔ فرمایا: الذی یسئل باللّٰہ ولایعطی بہ (مسند احمد)‘یعنی جس سے اللہ کا نام لے کر مانگیں اور اس کو کچھ نہ دیا جائے۔ اس زمانے میں یہ بہت ہوتا ہے کہ سائل باللہ کو نہیں دیتے۔ کچھ نہ کچھ تو دینا چاہیے۔ سائلین نے بھی یہ عادت بنا لی ہے کہ جب بھی مانگتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ للہ فی اللہ براے خدا ہم کو دو‘ اگرچہ بسبب موجود ہونے طعام صبح و شام‘ ان پر سوال کرنا حرام ہوتا ہے۔ آپ بھی ڈوبتے ہیں‘ اور دوسروں کو بھی بدترین خلق بناتے ہیں۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے ]انھوں نے [فرمایا: صدقہ دینے میں جلدی کرو‘ بلا اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ مطلب یہ ٹھیرا کہ صدقہ ردّبلا ہوتا ہے۔ وللّٰہ الحمد۔ تجربے نے اس کی شہادت دی ہے۔ دوسری دافع بلا چیز دعا ہے ‘جب کہ غفلت سے نہ ہو۔

صدقہ کے فضائل

حضرت ابوہریرہ ؓروایت فرماتے ہیں کہ جس نے صدقہ دیا برابر ایک کھجور کے پاک کمائی سے‘ اور اللہ قبول نہیں کرتا مگر پاک کمائی‘ تو لیتا ہے اللہ اس کو اپنے دست راست سے۔ پھر پالتا ہے اس کو واسطے صاحب صدقہ کے جس طرح کہ پالتا ہے کوئی تم میں بچھڑے کو۔ یہاں تک کہ ہو  جاتا ہے  برابرپہاڑ کے (متفق علیہ)۔ ایک دوسری روایت اس طرح سے ہے کہ جس نے راہ خدا میں خرچ کیا ایک جوڑا کسی شے کا اشیا میں سے‘ وہ بلایا جائے گاابواب جنت سے۔ ہر عمل صالح کا ایک دروازہ ہے جس پر جیسا عمل غالب ہوگا وہ اسی عمل کے دروازے سے بلایا جائے گا‘ اور جس پر سب اعمال صالحہ یکساں غالب ہوں گے وہ سب ابواب سے پکارا جائے گا ۔وللّٰہ الحمد۔

حضرت جابرؓ اور حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ ہر معروف صدقہ ہے(متفق علیہ)۔ حضرت ابوذرؓ روایت کرتے ہیں کہ کسی معروف یعنی نیکی کو حقیر نہ جان ‘ اگرچہ ملے تو اپنے بھائی سے بہ کشادہ روی (مسلم)۔ یعنی یہ بھی ایک نیکی و صدقہ ہے۔ ’’معروف‘‘ کہتے ہیں ہر طاعت خدا اور احسان الی الناس کو۔ منجملہ معروف کے ایک پہلو اپنے اہل و غیرہم کے ساتھ حسن صحبت ہے اور لوگوں سے ہشاش بشاش ملنا۔

حضرت ابوموسیٰ ؓسے روایت ہے کہ ہر مسلمان پر صدقہ ہے۔ کہا کہ اگر نہ پائے۔ فرمایا: اپنے ہاتھوںسے کام کرے‘ یعنی کچھ کمائے اپنی جان کو نفع پہنچائے اور صدقہ کرے۔ کہا کہ اگر نہ کر سکے یا نہ کرے؟ فرمایا: کسی حاجت مند کی مدد کرے۔ کہا کہ اگر یہ بھی نہ کرے؟ فرمایا: خیر کا حکم کرے۔ کہا کہ یہ بھی اگر نہ کرے؟ فرمایا: شر سے باز رہے کہ یہ بھی صدقہ ہے(متفق علیہ)۔اللہ کے احسان کی کچھ نہایت نہیں ہے۔ مسلمان کی ہر بات معروف ہے۔ اس کا ہر کام ہمراہ نیت صالحہ کے صدقہ ٹھیرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہر جوڑ پر آدمی کے ایک صدقہ ہے۔ ہر دن جس میں سورج نکلتا ہے دو شخصوں کے درمیان عدل کرنا صدقہ ہے۔ کسی کے جانور پر بار لادنے میں مدد کرنا یا متاع کا اٹھا دینا صدقہ ہے۔ اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔ نماز کے لیے ہر قدم صدقہ ہے۔ ایذا کی چیز دور کرنا صدقہ ہے(متفق علیہ)۔

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ تمھارا جماع کرنا صدقہ ہے۔ پوچھا گیا کہ وہ تو جنسی تسکین کرتا ہے اور اس میں اس کو اجر ملتا ہے؟ فرمایا: اگر وہ اس شہوت کو حرام میں صرف کرتا توکچھ گناہ ہوتا۔ جب اس کو حلال میں صرف کیا تو اب اس کے لیے اجر ہوگا(مسلم)۔ یعنی اس کے ضمن میں تحصین فرج اور اداے حق زوجہ و طلب ولد صالح ہے اور یہ امور بذاتہا صدقات و قربات ہیں۔ حضرت انسؓ کی روایت یہ ہے کہ نہیں لگاتا کوئی مسلمان کوئی درخت یا کرتا ہے کھیتی‘ پھر اس سے انسان یا پرندے یا بہائم کچھ کھاتے ہیں لیکن یہ اس کے لیے صدقہ ہوتے ہیں(متفق علیہ)۔ حضرت جابرؓ کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ جو کچھ اس میں سے چوری ہو گیا وہ بھی صدقہ ہے۔ غرض یہ ساری خوبی اسلام کی ہے کہ مسلمان کاہر فعل و عمل عبادت ہوتا ہے ورنہ کافر کی کوئی نیکی بھی کیسی ہی عمدہ اور اعلیٰ درجے کی کیوں نہ ہو‘کچھ نفع اس کو نہیں دیتی۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کہ ایک گناہ گار عورت محض اس وجہ سے بخش دی گئی کہ اس کا گزر ایک کتے پر ہوا تھا جو برلب چاہ مارے پیاس کے زبان نکالے مرا جاتا تھا۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتارکراور اپنی اوڑھنی میں باندھ کر پانی نکالا اوراس کو پلایا۔ اللہ نے اس بات پر اس کو بخش دیا۔ صحابہؓ نے کہا کہ کیا ہم کو بہائم میں بھی اجر ملتا ہے؟ فرمایا: ہر جگر ترمیں اجر ہے(متفق علیہ)۔ جگر تر سے مراد حیوان ہے۔ یعنی ہر جانور کے کھلانے پلانے میں اجر ملتا ہے مگر وہ جانور جس کے قتل کا حکم ہے جیسے سانپ‘ بچھو۔

حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضرتؐ نے فرمایا: عذاب کی گئی ایک عورت ایک بلی کے پیچھے کہ اس کو باندھ کر رکھا یہاں تک کہ بھوک سے مر گئی۔ نہ اس کو کھلایا اور نہ چھوڑ دیا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھاتی (متفق علیہ)۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرد کا گزر ایک شاخ درخت پر ہوا جو راہ میں تھی۔ اس نے کہا میں اس شاخ کو مسلمانوں کی راہ سے الگ کر دوں گا تاکہ یہ ان کو ایذا نہ دے۔ وہ شخص جنت میں داخل کیا گیا(متفق علیہ)۔ ظاہر حدیث یہ ہے کہ مجرد نیت پر اس کی مغفرت ہوئی۔مگر انھوں نے ایک دوسری روایت یوں بیان کی کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جنت میں لوٹ پوٹ رہا ہے بسبب ایک درخت کے جس کو اس نے راہ سے کاٹ ڈالا تھا کہ وہ لوگوں کو ایذا دیتا تھا(مسلم)۔

ان حدیثوں سے اللہ تعالیٰ کی نکتہ نوازی اور نکتہ چینی ثابت ہوتی ہے کہ چاہے ادنیٰ بات پر پکڑ لے اور چاہے ادنیٰ بات پر بخش دے۔ لیکن پکڑ گناہ ہی پر ہوتی ہے‘گو صغیرہ ہو۔ اور مغفرت حیلہ جو ہے‘ ذرا سی خیر پر بھی بخش دیتا ہے۔ حضرت ابوبرزہؓ نے حضرتؐ سے کہا تھا کہ مجھے کوئی ایسی بات بتایئے جس سے مجھے نفع ہو۔ فرمایا: دور کر ایذا کی چیز کو مسلمانوں کی راہ سے(مسلم)۔ اس سے معلوم ہوا کہ راہ کاسنگ وخار وغیرہ اشیا موذیہ سے صاف کرنا اور اہل اسلام کے آرام کے واسطے سڑکوں کا بنانا منجملہ اسباب مغفرت کے ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ صدقہ رب کے غضب کو بجھا دیتا ہے اور بری موت کو دور کرتا ہے (ترمذی)۔ بری موت سے مراد وہ حالت بد ہے جو مرنے کے وقت ہوتی ہے ‘ عاذنا اللّٰہ منہ۔ یہ نفع صدقے کا کہ سوء خاتمہ کا دافع ہے‘ افضل منافع ہے۔ اگر صدقہ دینے میں کوئی فضلیت و منفعت نہ ہوتی اور صرف یہی دفع میتۃ السوء ہوتا  تو کفایت کرتا۔

حضرت سعد بن عبادہؓ نے نبی کریمؐ سے عرض کیا: اے رسولؐ خدا! سعد کی ماں کا انتقال ہو گیا‘ کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا:پانی۔ انھوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا: ھذہ لِاُمِّ سعد (ابوداؤد)۔ معلوم ہوا کہ مردے کی طرف سے صدقہ کرنا درست ہے اور بہتر صدقہ پانی ہے۔ اس لیے کہ اس کا نفع امور دنیا و دین میں عام ہے خواہ کنواں ہو یا تالاب یا نہر یا حوض یا سبیل یا سقایہ۔حضرت ابوسعیدؓ روایت کرتے ہیں کہ جس مسلمان نے کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنایا‘ اللہ اس کو جنت کا لباس سبز پہنائے گا اور جس مسلمان نے کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلایا‘ اللہ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ اور جس مسلمان نے کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلایا‘ اللہ اس کو شراب مہرزدہ پلائے گا(ابوداؤد)۔ معلوم ہوا کہ ننگے کو پہنانا‘ بھوکے کو کھلانا‘ پیاسے کو پلانا افضل صدقات وانفع خیرات واکرم مبرات ہے۔ شراب مہرزدہ سے مراد بادئہ ناب ہے۔ نفیس شے کو بوتل میں بند کر کے مہر لگا دیتے ہیں‘ اور وہ خاص لوگوں کو ملتی ہے۔

حضرت فاطمہ بنت قیسؓ روایت کرتی ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: ان فی المال حقا سوی الزکٰوۃ‘ پھر یہ آیت پڑھی: لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب(ترمذی)۔ مال کا حق یہ ہے کہ سائل کو محروم نہ پھیرے‘ اور قرض خواہ کو اور متاع بیت کو مانگنے والے سے نہ روکے جیسے دیگ یا رکابی اور ایسی دوسری اشیا۔ آیت سے استشہاد یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اولاً ان وجوہ کو ذکر کیا‘ پھر ذکر کا دینا فرمایا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور بھی حق ہے۔ سو‘ ایک حق تووہ ہوتا ہے جو اللہ نے بندے پر واجب کیا ہے‘ اور دوسرا حق وہ ہے جو خود بندہ اپنی جان پر لازم کر لیتا ہے تاکہ وہ صفت بخل سے محفوظ رہے۔

حضرت ابن مسعودؓ نے روایت کیا ہے کہ جس نے اپنے عیال کے نفقہ میں توسیع کی عاشورے کے دن‘ وسعت دیتا ہے اللہ اس کو باقی سال میں۔ حضرت ابوذرؓ نے حضرتؐ سے پوچھا تھا کہ صدقہ کیا ہے یعنی اس کا ثواب کتنا ہے؟ فرمایا: اضعاف مضاعف ہے‘ اور اللہ کے نزدیک مزید ہے(مسند احمد)۔

(تدوین: امجد عباسی)

ترجمہ:  محمد احمد زبیری

۱۳۵۴ھ‘ مارچ ۱۹۳۶ء کے حج کے موقع پر ’’الشباب العربی السعودی‘‘ نے منیٰ میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں امام حسن البنا ؒ اور کچھ دوسرے خطیبوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس تقریر کو اخبارام القریٰ نے ۱۹ ذی الحجہ ۱۳۵۴ھ کو شائع کیا۔ اس نادر دستاویز کی مائیکروفلم جامعہ ملک فہد دہران میں موجود ہے۔ہم اس کا ترجمہ تذکیر اور تاریخی اہمیت کے حوالے سے پیش کر رہے ہیں (ادارہ)۔

میرے معزز بھائیو!

میں آپ کی اجازت سے اپنی گفتگو کا آغاز‘ اللہ تعالیٰ کے مسلمانوں سے خطاب سے کرنا چاہتا ہوں:

سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے‘ اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے‘ اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے‘ شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے (اٰل عمرٰن  ۳:۱۰۳)۔

اسی مناسبت سے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی سنانا چاہتا ہوں:

مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘ لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو‘ امیدہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا (الحجرات ۴۹: ۱۰)۔

____________

 o ریسرچ اسکالر‘ دعوہ اکیڈمی‘ اسلام آباد

اسلام کا بہترین ہدیہ‘ سلام آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! میں کوئی پیشہ ور خطیب نہیں ہوں لیکن الشباب العربی السعودی نے حجاج کرام کو باہمی تبادلۂ خیالات اور تعارف کا یہ موقع فراہم کیا ہے‘ اللہ تعالی انھیں اجر سے نوازے۔ میں سمجھتا ہوں باہمی تعارف اور تبادلۂ خیالات حج کی تکمیل کا حصہ ہے۔ آپ سے مخاطب ہونے کا جذبہ‘ پرجوش اور مفید تقریریں سننے کے بعد ابھرا ہے۔

معزز نوجوانو! میں آپ کی تعریف میں وقت صرف نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کی مہمان نوازی کا تذکرہ بھی نہیں کروں گا بلکہ ہم اپنی امیدوںاور مسائل کے حوالے سے گفتگو کریں گے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں گے۔ آپ سے محبت اور شیفتگی پہلے بھی تھی لیکن اب یہ ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکی ہے۔ اس محبت کو اللہ تعالیٰ کا یہ مبارک ارشاد انگیز کرتا ہے:

اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے‘ اس مقام کو مستقل جاے نماز بنا لو‘ اور ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑکو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو (البقرہ ۲: ۱۲۵)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب حضرت عائشہ صدیقہؓ نے مکہ مکرمہ کا ذکر کیا تو اس کی خوب صورتی اور رعنائیوں کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں تر ہو گئیں اور کہا ذرا دل کو قرار پکڑنے دو‘ اور اس تذکرے کو سمیٹو۔ مکہ پر حضرت بلالؓ کے اشعار بھی یادآتے ہیں۔

ہم بچپن سے یہ سارے تذکرے سنتے آئے ہیں۔ انھوں نے آتش شوق کو مزید تیز کر دیا۔ ہم ہمیشہ اس مبارک دن کے انتظار میں رہے جب ہم مکہ مکرمہ کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے اورخیف میں کھڑے ہوں گے ‘ مجنوں کی لیلیٰ کے شوق میں نہیں‘ ہر ایک کی اپنی لیلیٰ ہوتی ہے۔ اب یہ آپ کی محبت ہمیں یہاں لے آئی ہے۔ آپ کی محبت کوئی افسانوی چیز نہیں بلکہ یہ ایک قابل محسوس حقیقت ہے۔ اس پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے اس تعلق اور رابطے کو بھلائی اور برکت کا سرچشمہ بنائے۔ آمین!

معزز نوجوانو! آپ کے پہلے خطیب نے یہ کہا کہ اسلام دین اور دنیا کے مصالح اور بھلائیوں کو جمع کرتا ہے۔ یہ ایک مانوس اور قابل مشاہدہ حقیقت ہے۔ آپ چشم تصور سے نماز پر غور کریں۔ تمام اعمال کا مغز اور پاکیزہ ترین عمل ہے۔ آپ کی یہ عبادت قرآن کی تلاوت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ آپ اپنے رب سے سرگوشی میں مصروف ہیں۔ اللہ کا قرآن آپ سے کیا کہہ رہا ہے؟ (یہاں امام حسن البنا ؒنے سورہ البقرہ کی آیات (۲۸۱-۲۸۳) تلاوت کیں جن میں لین دین کے معاملات لکھنے اور انصاف سے معاملات کرنے کا حکم دیا گیا ہے)۔

اسی طرح قرآن آپ سے مخاطب ہے کہ تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ یہ دین کے اٹل اور قطعی معاملات ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ رزق کی تلاش اور کسب حلال میں مصروف ہیں جو دنیاوی کاموں میں سرفہرست ہیں۔ اس سلسلے میں رسولؐ اللہ کا یہ فرمان آپ جانتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ اس انسان سے محبت کرتا ہے جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے۔ اور یہ کہ جو شخص اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہے وہ اپنی بخشش کا سامان کرتا ہے۔دیکھیے رزق حاصل کرنا اور روزی کمانا دنیاوی کام ہے لیکن یہ آخرت کے کاموں سے مربوط ہے اور نجات اور مغفرت کا سبب بن رہا ہے۔

شریعت کے ہر گوشے میں دین اور دنیا کا گہرا تعلق آپ کو نظر آئے گا۔ لیکن مسلمان دین کو صرف ایک زاویے سے دیکھتے ہیں۔

آپ کے دوسرے خطیب نے حجاز کی ترقی کی بات کی۔ اگرچہ یہ ترقی اور پیش رفت اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ لیکن یہ ابتدائی مراحل اور خدوخال ان شاء اللہ نمایاں نقوش میں بدل جائیں گے۔ فطرت کا یہی قانون ہے‘ جیسا کہ شاعر نے کہا: جب میں نے ہلال کو روز افزوں دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ ایک دن ماہ کا مل بن جائے گا۔

ترقی اور انقلاب کی باتیں خوش آیند ہیں اور اس سلسلے میں مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امیدیں اور تمنائیں آپ کے چہروں پرپڑھی جا سکتی ہیں اور زبانوں پر اس کا تذکرہ ہے۔ ترقی اور انقلاب امید سے زندہ رہتے ہیں اور ناامیدی اور یاس اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ زندگی میں ناامیدی کا کوئی عمل دخل نہیں‘ ناامیدی اور زندگی کا ساتھ نہیں رہ سکتا۔ آج کے زندہ حقائق کل تک محض خواب تھے اور آج کے خواب مستقبل کے زندہ حقائق ہوں گے۔ جسے مہلت ملی ان شاء اللہ ضرور دیکھے گا۔ تنگی کے ساتھ فراخی ہے اور بے شک تنگی کے ساتھ فراخی ہے۔ اللہ تعالیٰ مایوسی اور ناامیدی کو اپنی کتاب میں حرام قرار دیتا ہے:

میرے بچو‘ جا کر یوسف ؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگائو‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں (یوسف ۱۲: ۸۷)۔

یہ حالات قوموں کو پیش آتے رہتے ہیں لیکن صورت حال ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی‘ کمزور طاقت ور بن جاتے ہیں اور زبردست زیردست بن جاتے ہیں:

اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں‘ اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں (اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۰)۔

جو شخص اس آیت کی تلاوت کرے اور غوروفکر سے کام لے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ امت کی طاقت کے لیے کوشاں نہ ہوں۔

اللہ تعالیٰ امم اور اقوام کے حالات کو کس طرح بدل دیتا ہے‘ اور اس کا عدل مظلوم کا ظالم سے کیسے بدلہ لیتا ہے‘ اور سرکشی اور حدود سے تجاوز کرنے والوں کو حق داروں کا حق دلوانے پر کس طرح مجبور کرتا ہے‘  سورۃ القصص کی یہ آیات تلاوت کیجیے‘ ان میں اسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے:

واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا‘ اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنا دیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انھیں ڈر تھا (القصص ۲۸: ۴-۶)۔

یہ کتاب ابدی کا ابدی حکم ہے۔ اگر یہ ماضی میں ہو سکتا ہے تو مستقبل میں کیوں نہیں ہو سکتا:

دل شکستہ نہ ہو‘غم نہ کرو ‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹)۔

آپ کے تیسرے خطیب نے کہا کہ ترقی اور تعمیر و ترقی کی بنیاد اور اساس اسلام ہے۔ اللہ کی طرف دعوت اور اسلام کی نشات ثانیہ سے یہ ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔

میرے بھائیو! تم حقیقت کا ادراک کر چکے ہو اور ہدایت کی طرف رہنمائی پا چکے ہو۔

میں اس موقع پر‘ آپ کو یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ سے میری محبت اور شفقت کا لازمی تقاضا ہے۔

جنگ عظیم کے بعد مشرق ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک راستہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کی اندھا دھند تقلید کا ہے اور دوسرا راستہ مشرقی تہذیب و تمدن اور اسلام کی نشات ثانیہ کا ہے۔ دونوں راستوں پر اس کے حامی لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں‘ ترغیب دے رہے ہیں‘ اور اپنے اپنے نظام کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ بعض مشرقی اقوام مغرب کی تقلید میں ان سے بھی سبقت لے گئیں اور بعض اقوام نے مزاحمت کا رویہ اپنایا لیکن بعض مغرب کی ترقی کو چندھیائی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ خواہش نفس اور اتباع ھویٰ انھیں مغرب کے قریب کر رہی ہے‘ اور ایمان انھیں دوسری سمت میں کھینچ رہا ہے۔ ایک صالح گروہ جو اپنی دینی روایات اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چل رہا ہے وہ اپنی مشرقی اور عربی اقدار پر نازاں ہے۔

امت مسلمہ کی یہ حالیہ تصویر ہے۔ عرب نوجوانوں سے ہماری توقع اور امید ہے کہ وہ یہ سبق سیکھ لیں گے کہ اسلام کامل دین ہے اور دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ انسانوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ انسانوں کی تمام مشکلات اور مصائب کا واحد حل اسلام ہے۔ عنقریب اس حقیقت کوساری دنیا جان لے گی۔ انسانیت کا گلا خشک ہو چکا ہے اور اس کے حلق میں شک اور الحاد کے کانٹے چبھ رہے ہیں۔ پیاسی انسانیت کی پیاس صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے چشمہ صافی بجھ سکتی ہے۔

اسلام کی تعلیمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو اور اپنی روایات اور اقدار کو سینے سے لگائے رکھو۔ ساری دنیا کو یہ باور کرا دو کہ تم حق پر ہو اور دوسرے لوگ شک و شبہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ کتاب اللہ کو اپنے درد کادرماں بنائو‘ وہ دلوں کی بیماریوں کے لیے پیغام شفا ہے۔ تڑپتی اور سسکتی انسانیت کے سامنے اللہ کا دین پیش کرو۔ نت نئے افکار کی دل فریبییوں سے بچو‘ اور شیطان اور نفس کے دام فریب سے اپنا دامن بچائو۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین تبدیل نہیں ہوتے:

اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کرچل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے (الرعد ۱۳:۱۷)۔

اسلام میں مقاصد اور ذرائع الگ الگ ہیں۔ اس اصطلاح کی کئی ایک تعبیریں ہو سکتی ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک یوسف علیہ السلام کی طرح ان کی تعبیر و تاویل کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ تفصیل طلب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کافی ہے: خدا کی قسم! کوئی بھلائی ایسی نہیں ہے جس کے کرنے کا میں نے تمھیں حکم نہ دیا ہو‘ اور کوئی شر ایسا نہیں ہے جس سے باز آنے کا میں نے نہ کہا ہو۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا:

(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر‘ نبی امی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے‘ بدی سے روکتا ہے‘ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘ اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت و نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی ہے ‘ وہی فلاح پانے والے ہیں (الاعراف ۷:۱۵۷)۔

اے عرب نوجوانو!  اپنے آپ کو حقیرنہ جانو اور نہ اپنے مقصد کو کم تر سمجھو کیونکہ آپ کو دنیا کی قیادت سنبھالنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی امانت انسانیت کوپہنچانی ہے۔ آج آپ شوروغوغا سن رہے ہیں کہ جرمن عظیم قوم ہے‘ اٹلی کا کوئی مدمقابل نہیں‘ برطانیہ سب سے عظیم ہے‘وغیرہ وغیرہ۔ یہ ان کے جھوٹے دعوے ہیں تاکہ اس کے ذریعے وہ کمزوروں کو تر نوالہ بناسکیں۔

اے اسلام کے سپاہیو! تم ان القاب اور اوصاف کے زیادہ حق دار ہو۔ اگر تم یہ دعویٰ کرو تو یہ بے جا اور خالی خولی دعویٰ نہ ہوگا بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جو قیامت تک قرآن مجیدمیں محفوظ ہے:

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو ان ہی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیش تر افراد نافرمان ہیں (اٰل عمٰرن ۳:۱۱۰)۔

یہ اس لیے نہیں کہ تم کمزوروں پر دست ستم اٹھائو یا پرامن لوگوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائو بلکہ تمھارا مقصد نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا ہے۔

میرے بھائیو! مجھ پر اعتماد کرو ‘ جب میں عربوں کالفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے پیش نظر وہ محدود مفہوم نہیں ہوتا جو جغرافیائی بندشوں میں مقید اور جکڑا ہوا ہوتا ہے بلکہ میں اس لفظ کو وسیع مفہوم میں استعمال کرتا ہوں جو پوری روے زمین کے مسلمانوں پر محیط ہے۔

اے نوجوانو!  اللہ تعالیٰ نے آپ کے نبیؐ کو تمام انسانیت کے لیے معلم بنا کر بھیجا ہے اور انھوں نے یہ امانت آپ کے سپرد کر دی ہے۔ آپؐ نے جس کام کا آغاز فرمایا تھا‘ اسے تکمیل تک پہنچانا اب آپ کا فریضہ ہے۔ اب آپ ؐانسانیت کے معلم اور راہنما ہیں۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہو اور آپؐ کے بعد روشن نشانیوں والے صحابہ کرامؓ کے وارث ہو۔ بعض لوگ روشن چراغ ہوتے ہیں گویا کہ وہ حقیقی ستارے ہیں۔ ان کا اخلاق‘ ان کا اجالا اور روشنی ہے۔ ان کے اخلاق کا جادو ہر سمت میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کی پیروی کیجیے اور ان کے نقش قدم پر چلتے رہیے۔ ان کی میراث اور عظمت رفتہ کو ازسرنو زندہ کیجیے۔ اللہ کی تائید تمھارے ساتھ ہے۔

مصر کے نوجوانوں کے دل تمھارے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ان کے جذبات اور احساسات تمھارے جذبات سے مختلف نہیں ۔ وہ تمھارے اس جہاد میں شریک ہوں گے‘ یا منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں گے یا اس راستے میں جان نچھاور کر دیں گے!

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین

معاشرے کا جب صحت مندانہ ارتقا ہو رہا ہو تو اس کی ایک سمت ہوتی ہے اور مختلف تبدیلیوں کی نوعیت میں ایک ترتیب اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ پاکستانی معاشرے کی تبدیلیاں اس نوعیت کی نہیں ہیں۔ کیونکہ معاشرہ مزاجی ہم آہنگی کھو چکا ہے‘ اس لیے وہ متضاد سمتوں میں جا رہا ہے اور اس سے معاشرے کی تقسیم اور ٹکرائو کا عمل شدید ہوتا جائے گا۔

ابن خلدون نے اپنے مشہور عالم مقدمہ تاریخ میں لکھا تھا کہ معاشرے کی وحدت ایک عصبیت کا نتیجہ ہوتی ہے‘ جو افرادِ معاشرہ میں مشترک ہوتی ہے۔ جب تک یہ عصبیت برقرار رہتی ہے ‘ معاشرہ اوراس کی ریاست قائم رہتی ہے۔ لیکن جب یہ کمزور تر ہوتی چلی جائے تو آخر شیرازہ بکھرنے کی نوبت آجاتی ہے۔

مسلم قومیت کا احساس : پاکستانی معاشرہ اور ریاست کو وجود میں لانے کی عصبیت ‘مسلم قومیت کا احساس تھا لیکن مسلم قومیت کی یہ عصبیت اس وقت انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ اس کی جگہ لسانی عصبیتیں لے رہی ہیں۔ اگرچہ معاشرے میں فرقہ وارانہ عصبیت نے بھی اپنا اظہار کیا ہے‘ لیکن یہ افراد معاشرہ میں عام نہیں ہے۔

فرقہ وارانہ عصبیت:  فرقہ پرست تنظیموں اور ان کے مسلح گروہ یا دہشت گرد کارروائیاں کرتے رہے ہیں‘ لیکن ایک پاکستانی مسلمان کی سوچ پر فرقہ وارانہ رنگ غالب نہیں ہے۔ ویسے ہر فرقے میں اس کی اپنی ایک عصبیت ضرور ہوتی ہے‘ لیکن سنی ‘ شیعہ‘ دیوبندی‘ بریلوی کسی فرقے کے افراد میں یہ عصبیت ایسی غالب نہیں ہے کہ عام فساد کی شکل اختیار کر جائے۔ درحقیقت فرقہ واریت کے خون آشام مناظر کسی عوامی لہر کی نمایندگی نہیں کرتے۔ یہ بعض انتہا پسند تنظیموں کی کارستانی تھی اور ان خون آشام مناظر کو دیکھنے کے بعد عوام میں

فرقہ واریت کے خلاف ذہن پیدا ہوا ہے کہ مسجدوں‘ امام بارگاہوں کے فرش کو خون سے رنگین کر دینا کسی مسلک اور فرقے کی خدمت نہیں ہے اور ان واقعات نے فرقہ واریت کے خونی اورجنونی انداز کے خلاف ذہن پیدا کیا ہے۔ فرقہ پرست تنظیموں کے لیڈروں نے بھی سوچا ہے کہ اگر ایک دوسرے کے فرقے کے ممتاز افراد کے قتل کا سلسلہ جاری رہا‘ تو اس کی زد میں ہم بھی آسکتے ہیں۔ ان تنظیموں کو پہلے انتظامیہ کی ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت جو شہ حاصل تھی‘ وہ بھی اب انھیں حاصل نہیں ہے۔ عراق‘ ایران جنگ کے زمانے میں جو بیرونی شہ تھی‘ وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ میں ایک عرب عجم مفاہمت کا ارتقا ہوا ہے۔ تاہم پچھلے دنوں شیعہ سنی فرقہ واریت میں کمی ہوئی ہے‘ تو دیوبندی بریلوی جھگڑے نے بعض گوشوں سے سے سر اٹھایا ہے‘ لیکن یہ بھی عوام کے کسی موڈ کا نتیجہ نہیں۔ اس کے پیچھے سیاست ہو سکتی ہے یا بعض گروہوں کے جھگڑے‘ اور ان کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ یہ کوئی بڑا فساد پیدا کر سکیں۔ اگرچہ بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان فرقہ وارانہ جنگ و جدل کا اکھاڑہ بن جائے۔ اس کے لیے اس کے ایجنٹ بھی کام کرتے ہیں‘ لیکن پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت محدود دائروں میں ہی ہے اور اس سے کسی جنگ و جدل کا اندیشہ نہیں ہے اور نہ لوگوں کا مزاج فرقہ وارانہ لڑائی کا ہے۔

لسانی عصبیتیں : فرقہ وارانہ عصبیت کے مقابلے میں لسانی عصبیتیں مزاج پر حاوی نظر آتی ہیں اور ان عصبیتوں سے کوئی بھی لسانی گروہ خالی نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس عصبیت نے پاکستان بنایا تھا وہ ختم ہو رہی ہے اور اس کی جگہ کسی نہ کسی عصبیت کو لینا ہے اور حالات لسانی عصبیتوں کے لیے سازگار ہیں۔ سندھ‘ کراچی‘ بلوچستان‘ سرحد‘ پنجاب اور اس کا سرائیکی علاقہ سب عصبیتوں کی لپیٹ میں ہیں اور ان کا اثر آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ لسانی عصبیت کی حامل سیاسی جماعتوں سے قطع نظر بیورو کریسی میںبھی اس کی مضبوط جڑیں قائم ہو چکی ہیں۔ کالا باغ ڈیم بنانے یا نہ بنانے کا مسئلہ ہو‘ پانی کی صوبوں میں تقسیم کا معاملہ ہو‘ یا صوبوں کے وسائل کے حق کا معاملہ ہو‘ ان سب کو عصبیت کی عینک سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف تمام چھوٹے صوبوں کے عوام میں یہ بات متفق علیہ ہو گئی ہے کہ پنجاب ہم سے زیادتی کرتا رہا ہے اور مزید کر رہا ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے عوام کا عام احساس یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کی بیوروکریسی اور ان کی سیاسی قیادت خواہ کسی جماعت کی ہو‘ اس کا رویہ عدم تعاون کا ہے اور یہ عدم تعاون صرف تعصب کی بنیاد پر ہے۔

ملک میں صحت مند سیاست اور قیادت کا غلبہ نہ ہونے کے سبب آیندہ اس لسانی عصبیت کے مزاج کے ترقی کرنے اور باہم متصادم ہونے کے کافی امکانات ہیں۔ چونکہ ملک کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہو رہے ہیں اور عوام کے لیے روزگار کی صورت حال بدتر ہو رہی ہے‘ اس لیے معاشی مصائب کے لیے بھی ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ جب معاشی حالات اچھے ہوتے ہیں تو ہر گروہ مطمئن رہتا ہے‘ لیکن جب یہ بگڑتے ہیں تو اس کا اثر قومی وحدت پر بھی ہوتا ہے‘ اور کسی جوڑنے والے نظریہ کی عدم موجودگی میں شکست و ریخت اورتوڑنے والی قوتوں کو نفرت انگیزی کے لیے مواقع مل جاتے ہیں۔ آیندہ ہمارے معاشرے کو اس صورت حال کا بھی سامنا رہے گا۔

پاکستانی معاشرے میں پچھلے دو تین عشروں میں دو متضاد چیزوں کو بڑی ترقی حاصل ہوئی ہے۔ ایک مذہبیت ہے‘ دوسری عریانیت و فحاشی ۔ پہلے ہم مذہبی مزاج کا تجزیہ کریں گے۔

مذہبی رجحان:  ہمارے معاشرے میں مذہبی رجحان کا ایسا زور و شور نظر آتا ہے کہ جو پہلے کبھی نہیں تھا۔ پہلے صرف تبلیغی جماعت کی مقبولیت تھی‘ جو اب اور زیادہ ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ’’دعوت اسلامی‘‘ اور اسی طرح کی تحریکوں نے نچلے متوسط طبقے اور چھوٹے تاجروں اور کاریگروں کے طبقے میں خاص نفوذ حاصل کیا ہے۔ جو مذہبیت جڑ پکڑ رہی ہے‘ وہ غیر سیاسی ہے اور سیاسی بھی ہے۔ سیاست کے میدان میں جہادی قوتیں منظم حالت میں ہیں۔ افغانستان اور کشمیر میں کامیاب معرکہ آرائیوں کے مظاہرے کے بعد وہ پاکستانی سیاست میں جارحانہ کردار ادا کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن یہ عناصر چھوٹی چھوٹی تنظیموں میں بکھرے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کر کے چلنے کی صلاحیت ان میں نظر نہیں آتی ہے۔ کئی تنظیموں میں کسی گہری سوچ بچار کے بجائے عام جذباتیت غالب نظر آتی ہے‘ جو چوراہوں پر ٹی وی توڑ کر یا اس طرح کے سطحی مناظر سے مطمئن ہونا چاہتی ہے‘ اور اس امر کا پورا امکان ہے کہ اس طرح کی تنظیمیں تشدد اور توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کریں‘ جو بہرحال پاکستان اور اسلام کے مفاد میں نہیں ہوگا۔

مذہبی جماعتوں کی صورت حال:  مذہبی جماعتوں میں پچھلے جمہوری دور کو دیکھ کر یہ خیال بھی پیدا ہوا ہے کہ اسلام انتخابات کے ذریعے نہیں آسکتا۔ مروجہ سیاست کو اپنا کر اسلام کو غالب نہیں کیاجا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں انقلاب کا راستہ اپنانا ہوگا۔ لیکن انقلاب کیا ہے؟ کس طرح آتا ہے؟ اس کے بارے میں صاف ذہن نہیں اور غلط فہمی بھی ہے کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے بھڑ جانے کا نام انقلاب ہے۔ حالانکہ انقلاب کے لیے معاشرے میں ایک فکری عمل کو جاری کرنا اور اسے اس حد تک کامیاب بنانا ضروری ہے کہ خواص اور عوام دونوں طبقات کے قابل لحاظ عناصر اس کے قائل ہو جائیں۔

’’مسلح جدوجہد‘‘ یا ’’گوریلا جنگ‘‘ کا نظریہ کمیونسٹوں کا رہا ہے اور اس جدوجہد یا جنگ کے پیچھے سابق سوویت یونین کی عالمی طاقت کی اعانت بھی رہی ہے‘ لیکن آخر وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ بندوق بازی سے انقلاب نہیں آسکتا اور نہ بندوق کے زور پر انقلاب کو مسلط رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے معاشرے کو فکری اور مزاجی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔ اسے تیارکرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اکثریت بدل جائے کیونکہ اکثریت تو ہمیشہ عوام کالانعام کی رہی ہے۔ اصل حیثیت معاشرے کے ذہین اور فعال طبقات کی ہے۔ اس میں اگر آپ نفوذ حاصل کر لیں‘ تو بعد میں عوام خود بخود ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پچھلے عشروں میں جمہوریت سے مایوسی نے اسلامی انقلاب کا جو نیا ذہن پیدا کیا ہے‘ وہ اسلام کے لیے ایسی بے صبری اور بے تابی کا ہے جس سے خدا نے اپنے رسول کو منع کیا تھا۔ اس بے صبری کی بنا پر ایک نئے مذہبی مزاج کا بھی ظہور ہوا ہے‘ جو مار دھاڑ کے ذریعے اسلام اور شریعت کی حکمرانی حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن یہ مزاج اسلامی تحریک کے لیے سخت نقصان کا موجب ہوگا۔

غیر سیاسی مذہب کا رجحان:  پچھلے عرصے میں جو غیر سیاسی مذہب بڑی تیزی سے مقبول ہوا ہے ‘ اس کے نتیجے میں بلاشبہ لوگوں کے حلیے تبدیل ہوئے ‘ ان کی عادات و اشغال میں تبدیلی آئی ہے‘ لیکن اس غیر ’’سیاسی مذہب‘‘ کے نتیجے میں اس سے متاثرہ لوگ معاشرے سے کٹ رہے ہیں اور اس کے لیے اجنبی بن رہے ہیں‘ حتیٰ کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی ایک الگ مخلوق نظر آتے ہیں۔ ان کی ذہنیت میں غیر ضروری امور اور مباحث میں شدت‘ اچھے اور نیک انسانوںکی توانائیوں کے ضیاع کا باعث ہو رہی ہے‘ اور ان کی وجہ سے یہ معاشرے کوبدل نہیں رہے ہیں‘ بلکہ پاکستانی معاشرے میں جو مختلف معاشرے پائے جاتے ہیں‘ ان میں ایک نئے معاشرے کا اضافہ کر دیا ہے‘ جو کسی اور سے میل نہیں کھاتا اور معاشرتی تضاد کو بڑھا رہا ہے۔

اسلامی نظام کی تشکیل جدید کا رجحان:  لیکن ان سب کے باوجود معاشرے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے اس طرزِ فکر کو بھی بڑھاوا ملا ہے کہ مغربی فلسفے اور نظام ناکام ہو چکے ہیں اور مستقبل میں اسلام کی بنیاد پر انسانی اجتماعیت کی جدید تشکیل کا وقت قریب آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں یہ احساس بھی عام ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کا مقابلہ امریکہ سے ہے‘ جس پر صیہونیت کا غلبہ ہے اور مستقبل کی بڑی جنگ عالم اسلام اور امریکہ کے مغربی حواریوں کے درمیان ہو گی۔ یہ جنگ ناگزیر ہے اور اسے ٹالا نہیں جا سکتا۔

پاکستانی عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی افسوس ناک سیاسی‘ اقتصادی صورت حال بھی امریکہ اور اس کی آلہ کار مقامی قوتوں کی پیدا کردہ ہے‘ اور اپنی اقتصادیات کے لیے بھی مسلمانوں کو امریکہ سے لازماً جنگ آزما ہونا پڑے گا۔ اس طرزِ فکر نے خود حکمران طبقے میں بھی جگہ بنائی ہے اور اب فوج و بیورو کریسی میں بھی اس طرز پر سوچنے والوں کی تعداد کافی ہو گئی ہے۔ تاہم انھیں مختلف مجبوریوں اور موانعات کا بھی خیال ہے‘ جو انھیں یکسو نہیں ہونے دیتا اور کوئی راہِ عمل وہ اختیار نہیں کر پا رہے ہیں لیکن یہ طرزِ فکر بہرحال موثر اور مقتدر طبقات میں بھی بڑھ رہا ہے اور اپنے وقت پر اثر ضرور دکھائے گا۔ اب ہمارے حکمران اور مقتدرطبقہ کے لیے دل و جان سے یکسو ہو کر امریکہ کی تابع داری اور خدمت گزاری ممکن نہیں ہوگی۔ جو تضاد امریکہ سے پیدا ہو چکا ہے‘ وہ بڑھتا جائے گا اور اس سے ایک نئی عظیم الشان تحریک ضرور برپا ہوگی‘ جس میں عوام کا بھی حصہ ہوگا اور خواص کا بھی۔

معاشرتی اقدار سے غفلت کا رجحان: معاشرے کے اس پہلو کو دیکھ کر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ نفس پرستی اور ذات پرستی کے مرض اور مزاج نے بھی معاشرے میں بہت ترقی کر لی ہے۔ ’’حیوۃ الدنیا‘‘ پر جس طرح اب ہر عام و خاص ریجھا ہوا ہے‘ ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔ معیارِ زندگی کو اونچا کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے‘ نمود و نمایش میں لوگ ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے ہیں۔ اسراف کا کلچر عام ہے۔ معاشرے میں فکرونظر‘ علم و تحقیق‘ مطالعے اور مکالمے کے کلچر کو زوال ہوا ہے۔ نئی نسل کی تعلیم کا نظام بربادی کی نذر ہو گیا ہے۔ گھروں میں جو اخلاقی‘ تہذیبی تربیت کا بنیادی ادارہ ہے‘ بگاڑ داخل ہو گیا ہے۔ بچے گھروں میں بگڑتے ہیں‘ درس گاہوں میں بگڑتے ہیں‘ اور عمل کی دنیا میں ان کے کردار کا فساد اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ ہر سینے میں ہوسِ زر ہے۔ مسرت کے حصول کا ذریعہ اقدار نہیں‘ مادی اشیا ہو کر رہ گئی ہیں۔

اخلاقی انحطاط میں اضافہ: آیندہ جو معاشی بحران آرہا ہے ‘ اس میں زندگی کے مادہ پرستانہ معیار کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا‘ اور اس معاشی انحطاط سے نیا اخلاقی انحطاط جنم لے گا۔ عصمت فروشی‘ ڈاکے‘ کاروبار میں دھوکا بازی‘ یہ سب چیزیں زیادہ ہوں گی۔ نوجوانوں کو روزگار کی خراب صورت حال جرائم کی طرف بھی لے جا سکتی ہے اور تخریبی نظریات کی جانب بھی۔

جنسی بے راہ روی میں اضافہ:  سب سے بڑا مسئلہ معاشرے کی جنس زدگی کا ہے۔ ہر طرف سے جنسی جذبات کو اُبھارا جا رہا ہے۔ اخبارات کے اشتہارات سے لے کر فلموں اور ٹی وی پروگراموں تک جنس کا شیطان شرم و حیا کو ختم کر رہا ہے۔ گو یہ بھی صحیح ہے کہ اس کے مقابلے میں عورتوں میں حجاب کا فیشن چل پڑا ہے۔ چادر اوڑھنے اور منہ چھپانے والیوں کی بازاروں میں پہلے کے مقابلے میں کثرت نظر آتی ہے۔ نماز پڑھنے والوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ لوگ عمرے بھی کثرت سے کر رہے ہیں‘ خیرات کا رجحان بھی ترقی پر ہے‘ لیکن اب بھی اس خیر کے مقابلے میں شر کا پلڑہ بہت بھاری ہے اور معاشرے کی جنس زدگی ایسی چیز ہے جو اس میں شیطانیت کو عام کر رہی ہے۔ اسی لیے جنسی جرائم اور درندگی کی خبریں عام ہیں۔ اب چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں اور بچے بھی جنسی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں اور جنس کا یہ شیطان ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ اخبارات‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ ہی کے ذریعے نہیں‘ ملبوسات کے نئے فیشن‘ زیب و زینت کی اشیا اور ہار سنگھار کے بہانے بھی ذہنوں میں کج روی پیدا کر رہا ہے‘ اور سادگی کے کلچر کی جگہ اس نئے کلچر کے عام ہونے سے بھی ذہن کی معصومیت اور پاکیزگی متاثر ہو رہی ہے۔ مختلف تقاریب‘ مثلاً شادی میں مہندی کی رسم‘ یا مخلوط پارٹیوں سے بھی اسے ہوا مل رہی ہے۔

وقت کا تقاضا :  معاشرے کی یہ تصویر کشی اس لیے نہیں ہے کہ لوگوں کو مایوس کیا جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ معاشرے کا نیا مزاج متعین کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بگاڑ کی قوتیں اب عالمی نوعیت کی ہو گئی ہیں اور تمام وسائل ان کے ہاتھ میں ہیں۔ انھیں اپنے مطلب کا مزاج متعین کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے مقصدکا کام خود بخود ہو رہاہے۔ پھر بھی وہ خاص طور پر اپنے مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے این جی اوز کو متحرک کر رہے ہیں اور اپنے مطلب کی محفلیں منعقد کر رہے ہیں۔ لٹریچر بھی پیدا کر رہے ہیں‘ جب کہ ہماری کارکردگی بہت کم ہے اور اگر ہم کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں‘ تو یہ کسی ایک خاص جماعت یا گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عوام کو حرکت میں لانا ہوگا اور ایک نئے ثقافتی انقلاب کے لیے ہربستی اور محلے میں نیکی کا مزاج رکھنے والوں کو بلالحاظ سیاسی و مذہبی نظریات کو منظم و یک جا کرنا ہوگا ۔جب سب مل کر کوشش کریں گے تو معاشرے کا نیا مزاج بنا سکیں گے‘ اور جو مزاج فاسد پیدا ہو چکا ہے‘ اس کی روک تھام کر سکیں گے۔

 

ازبکستان میں آزادی سے پہلے ہی اسلامی بیداری پائی جاتی تھی مگر اسّی کے عشرے کے اواخر میں صدر گوربا چوف نے جونہی خودمختاری کی پالیسی کا اعلان کیا‘ اسلامی بیداری اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئی۔ مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف دعوت دینے اور مساجد و مدارس بنانے کا زریں موقع ملا۔ مختلف موضوعات پر ہر طرح کا اسلامی لٹریچر شائع ہونے لگا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ لاکھوں مسلمان اپنے دین کی طرف پلٹنے لگے۔

مگرافسوس کہ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے جب اپنے قدم جما لیے تو مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۵ء تک تو صدر کی پالیسی ذرا نرم اور حزم و احتیاط پر مبنی رہی مگر اس کے بعد وہ کھل کر سامنے آگیا۔ پہلے اپنے سیاسی مخالفین یعنی علماے اسلام کو قیدوبند میں ڈالا‘ جلیل القدر علما کو اغوا کرایا۔ شیخ عبداللہ اوتار صدر حزب النہضۃ الاسلامی کو ۱۹۹۲ء میں اغوا کرایا۔ شیخ عبدالولی میرزا امام مسجد ’’الجامع‘‘ اندیجان شہر کو ۱۹۹۵ء میں ازبک انٹیلی جنس ایجنسی نے تاشقند ایئرپورٹ سے اغوا کر لیا۔

جمہوریہ قارقلباقستان کے صحرائوں کے وسط اور بحرآرال کے مغرب میں جسلق گائوں کے قریب واقع جیل کیمپ میں ۲۵۰ افراد کو صدر جمہوریہ کی شخصی آمریت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔جیل کے ایک ملازم کے بیان کے مطابق یہاں اُن قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جنھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محبوس رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ گذشتہ سال یہاں اٹھارہ آدمیوں کو مسلسل جسمانی اذیتیں دی گئیں حتیٰ کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انھیں روزانہ ستر مرتبہ قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا جاتا۔ ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے باندھ دیے جاتے اور صبح سے رات گئے تک پورا دن خاموشی کے ساتھ بینچ پر بٹھایا جاتا۔ قیدیوں کے لیے حکم ہے کہ کھاناکھا چکنے کے فوراً بعد وہ بآواز بلند کہیں ’’ہم اس خوراک اور سہولتوں پر اپنے صدرِ محترم اسلام کریموف کے شکرگزار ہیں‘‘۔ اس کے بعد ازبک قومی ترانہ گائیں۔

پورے ملک میں اسلام پسند قیدیوں کی تعداد پچاس ہزار سے زاید ہے۔ یہ اعداد و شمار وسط ایشیا میں حقوق انسانی کے دفاع کی تنظیم کے‘ جس کا صدر دفترماسکو میں ہے‘  مہیا کردہ ہیں‘ جب کہ ازبک حکومت صرف ۲۰ ہزارتحریک اسلامی کے کارکنوں کے قیدی ہونے کی معترف ہے۔ قیدیوںکی تعداد اور جیلوںمیں ان کی شرحِ اموات میں آئے دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ فروری ۱۹۹۹ء میں ازبک راجدھانی تاشقند میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ ہوئی۔ اگرچہ حکومت نے دھماکوں کے فوراً بعد اس کی ذمہ داری بنیاد پرستوں پر ڈالی تھی مگر اہل نظر و اصحاب بصیرت کے نزدیک یہ سرکاری کارستانی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بھی سرکاری آدمی ان دھماکوں میں نہیں مارا گیا۔امن و سلامتی کے کسی ایک ذمہ دار کو بھی اس کے عہدہ سے برطرف نہیں کیا گیا۔ صدر نے وزیرداخلہ‘ وزیر خارجہ اور امن عامہ کے ذمہ دار کا محاسبہ کیا نہ سرزنش کی نہ ان پر تنقید کی بلکہ اس کے برعکس ان کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ان بم دھماکوں کے صرف چند ماہ بعد سلامتی اور امور داخلہ کے سنگ دل اور بدترین سو افراد کے سینوں پر حسنِ کارکردگی کے تمغے سجائے گئے۔

اسلام دشمن کی انتہا :  ازبکستان میں داڑھی رکھنا اور حجاب سرکاری طور پر ممنوع ہیں یعنی ’’جرم ‘‘ ہیں۔ اسلام دشمنی کی انتہا یہ ہے کہ حکومت نے ’’آزادی مذہب آرڈیننس‘‘ جاری کیا ہے جس کی دفعہ ۱۴ کے بموجب پبلک مقامات پر مذہبی لباس پہن کر آنا منع ہے۔ اسی آرڈیننس کی ایک اوردفعہ کی رُو سے باپردہ لڑکیوں اور مستورات کے لیے اداروں اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔ چنانچہ باپردہ تمام طالبات کو تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا۔ اس آرڈی ننس پر عمل درآمد کرانے کے لیے ذمہ دار افسر مسجدوں کے دروازوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہائی اسکولوں کے طلبہ کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے ہیں۔ طلبہ کے لیے قرآن اور نماز سیکھنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

باپردہ خواتین کو پولیس سڑکوں سے سیدھا جیل پہنچا دیتی ہے۔ افسوس کہ مسیحی راہبات (nuns) تو شہر میں اپنے مذہبی لباس میں امن و آزادی کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں لیکن مسلم خواتین کو یہ آزادی بھی میسر نہیں۔ انھیں ذرائع ابلاغ سب و شتم کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ گم کردہ راہ‘ رجعت پسند اور دقیانوسیت زدہ جیسی پھبتیاں اور طعنے مسلم خواتین کے لیے عام الفاظ بن چکے ہیں۔

بہت سی باپردہ لڑکیوں نے مجبور ہو کر حجاب ترک کر دیا ہے۔ بہت سے کم زور دل مسلمانوں نے اچانک چھاپے کے خوف سے اپنے گھروں سے قرآن شریف کے نسخے نکال دیے ہیں۔اس لیے کہ پولیس کے انسپکٹرز قرآن شریف اور عام عربی کتابوں میں امتیاز ملحوظ نہیں رکھتے۔ انھیں تو بس کوئی عربی کتاب ملنی چاہیے‘ گھر سے ملے یا کار سے۔ عربی میں لکھی ہوئی کسی بھی کتاب کا دست یاب ہونا ان کی ملازمت کو پختہ تر کر دیتا ہے اور جس کے قبضے سے کتاب برآمد ہو جائے اس بیچارے کی شامت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ خواہ یہ عربی کتاب صدر اسلام کریموف کی کسی تالیف کا عربی ترجمہ ہی ہو۔

نشانہ ہائے جور و جفا : ازبک سرکار نے حامیان اسلام پر منظم ہلہ بول دیا ہے۔ وادی فرغانہ کے شہر اندیجان کے باشندے نعمت کریموف نے اپنے لخت جگر کی لاش حکام سے گرفتاری کے آٹھ ماہ بعد وصول کی۔ جسم پر مارپیٹ کے واضح نشانات تھے۔ بہت سے خاندانوں نے اپنے جواں سال بیٹوں کی لاشیں اس حالت میں واپس پائی ہیں کہ ان پر تشدد و اذیت دہی کے نشان واضح تھے۔ یہاں پر ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔

۱- فرحات عثمانوف:  تاشقند کا باشندہ‘ ۱۴ جون ۱۹۹۹ء کو گرفتار ہوا۔  تشدد کی وجہ سے اسی ماہ ۲۵ جون کو فوت ہوا۔غسل دیتے وقت معلوم ہوا کہ اس کی کھوپڑی اور دانت پیہم ضربوں سے توڑے گئے تھے۔

۲- حیات اللّٰہ باباناتوف:  اندیجان کا شہری‘ ۲۰ نومبر ۹۸ء کو گرفتار ہوا اور ۲۳ مئی ۹۹ء کو بوجہ اذیت دہی جاں بحق ہوا۔

۳- جلال الدین جمالوف: اندیجان کا باسی‘ عمر ۳۷ سال۔گرفتاری کے چند ہی روز بعد وفات پائی۔

۴- محمد جان انیوف: اندیجان کا باشندہ‘ عمر ۵۵ سال ۔ صدر کریموف نے حامیانِ اسلام کی ’’سرکوبی‘‘ کے لیے جو فوجی ’’عدالتیں‘‘ قائم کی ہیں اسی قسم کی ایک’’عدالت‘‘ نے انھیں ۱۰ فروری ۹۸ء کو چھ سال کی سزا سنائی مگر اس مظلوم نے ۷ فروری ۱۹۹۹ء کو ضرب شدید کی وجہ سے جامِ شہادت نوش کیا۔

۵- ظولوف عالم جان: اندیجان جیسے مردم خیز شہر کا مکین۔ اس شہر نے بہت سے علما و فضلاکو جنم دیا مگر ازبک ہلاکوکریموف کے دورِ استبداد میں یہ شہرِ شہدا بن چکا ہے۔ ظولوف عالم ۱۰ فروری ۹۹ء کو چار بجے شام گرفتار ہوا اور اسی تاریخ کو رات دس بجے‘ اس کی تشدد کے نشانات سے بھرپور نعش گھر پہنچی۔

۶- احمد خان طوراخانوف: وادی فرغانہ کے شہر غنعان کا باشندہ‘ ۵ مارچ ۹۹ء کو ساڑھے پانچ سال قیدِبامشقت کی سزا سنائی گئی۔ اس مردِ مجاہد نے ۱۵ جون ۹۹ء کو قید خانہ میں ہی اپنی جان‘ جانِ آفرین کے حوالے کی۔

۷- الوغ بیگ انواروف:  تاشقند سے تعلق‘ جون ۹۹ء میں گرفتاری عمل میں آئی اور ۹ جولائی ۱۹۹۹ء کو جامِ شہادت پیا۔

۸- عظیموف جوراخان: اندیجان کا باشندہ‘  ۲۲ فروری ۹۹ء کو گرفتار ہوا۔ ۱۷ اپریل ۹۹ء کو جیل میں وفات پائی۔

ازبکی نمرود نے اپنے وزیر داخلہ زاکیرالماتوف کو تاشقند میں بم دھماکوں کی پہلی برسی کے موقع پر یہ مہم سونپی کہ ازبکستان میں اسلام کے خلاف نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کر دے اور ازبکستان سے اسلام کے نام لیوائوں کا قلع قمع کر ے۔

ازبکستان کا دینی ادارہ حکومت کے ماتحت ہے‘ جسے صدر کریموف اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ تقریباً ہر سال ازبکستان کے فقیہ کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ مفتی ازبکستان عبدالرشید بحراموف نے حکومت کے دبائو میں آکر ۹۹ء میں مساجدمیں لائوڈ اسپیکر میں اذان دینے کی ممانعت کا فتویٰ جاری کیا اور دلیل یہ دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لائوڈ اسپیکر نہ تھے۔

ازبک حکمرانوں نے نہ صرف ازبکستان کی حدود میں بلکہ اس کی سرحدوں سے باہر بھی تحریک اسلامی کے کارکنوںکے خلاف اپنی مہم تیز تر کر دی ہے۔ ازبک انتظامیہ کی درخواست پر روسی حکام نے بہت سے ازبک پناہ گزینوں کو گرفتار کیا اور ازبک ظالموں کے سپرد کر دیا۔ یوکرائن اور ترکیہ کی سیکورٹی فورسز نے بھی یہی حرکت کی۔ حالانکہ ایسا کرنا‘ پناہ گزینوں کے بارے میں موجود بین الاقوامی معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

ایک طرف یہودی لابی اور مغرب میں حقوق انسانی کی پاسدار تنظیمیں‘ ایران میں گرفتار یہودیوں کے حق میں‘ بین الاقوامی سطح پر منظم جدوجہد میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف ازبک مسلم قوم کے ہزاروں مقتولوں اور لاکھوں گرفتار شدگان کے بارے میں کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہو رہی۔

ہم مسلمانوں کی یہ بے حسی کب تک رہے گی؟

پُرامن مسلم ازبک قوم کب تک جان و مال اور اہل و عیال کے بارے میں خوف زدہ رہے گی؟

کب تک فدائیان اسلام قید و بند میں پڑے اذیتیں سہتے رہیں گے؟

کب تک اہل ایمان تشدد و اذیت کا نشانہ بنتے رہیں گے؟

ستم گروں اور آمروں سے نجات پانے کے لیے امت مسلمہ کب اٹھے گی؟

طویل و تاریک شب ظلم کا خاتمہ کب ہوگا؟

 

تقدس کا مجروح ہونا

ایک طالبہ کا سوال تھا کہ اس کے والد کے دوست نے ٹیوشن پڑھائی اور اس دوران اسے غلط راہوں پرلے گئے۔ اب اپنی عملی زندگی کے آغاز پر وہ احساس گناہ سے پریشان ہے‘ کیا کرے؟

جواب : آپ کا خط پڑھ کر بہت صدمہ ہوا کہ کسی استاد نے آپ کی سادہ لوحی اور جذباتیت کو ناجائز طور پر اپنی تسکین کا ذریعہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ ان صاحب کو ہدایت دے اور وہ آپ کی طرح کسی اور طالبہ کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب نہ ہوں۔ آپ کے خط سے تین اہم نکات ابھرتے ہیں:

پہلی بات یہ کہ الف نے آپ کے والد صاحب سے اپنے تعلقات اور ان کے اعتماد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی غم بھری کہانی آپ کو سنا کر آپ کے دل میں اپنے لیے ہمدردی پیدا کی اور پھر آپ کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کیا۔ یہ اخلاقی اور قانونی دونوں حیثیت سے ایک جرم ہے۔ اس جرم میں خاموش کردار کی حیثیت سے آپ بھی برابر کی شریک ہیں۔ الف کی طرف سے پہلی مرتبہ جو کوشش ہوئی تھی اس کے بعد آپ کو اس سے قطع تعلق کر لینا چاہیے تھا‘ چاہے اس کا اثر آپ کی تعلیم پر پڑتا۔

دوسری اہم چیز اس سلسلے میں یہ ہے کہ اسلام وہ واحد دین ہے جو ایک غلطی کرنے والے کو غلطی کے احساس کے بعد احساسِ گناہ سے نکال کر دوبارہ پاک صاف اور حقیقی زندگی میں واپس لے آتا ہے۔ یہ خلوصِ نیت سے توبہ و استغفار کرنے کے نتیجے میں ماضی کو مکمل طور پر محو کر دیتا ہے۔ گویا اب‘ جب کہ اس تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد آپ کو یہ احساس ہوا کہ آپ نے بھی الف کی طرح غلطی کی تھی اور اب آپ اس احساسِ گناہ سے اپنے آپ کو نکالنا چاہتی ہیں تو اسلام آپ کو امید اور بشارت دیتا ہے اور ماضی کی غلطیوں کو مکمل طور پر احساسِ گناہ سے بالکل پاک کر دیتا ہے۔ سورہ مومن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے‘ سب کچھ جاننے والا ہے‘ گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے… (۴۰: ۲)۔ گویا گناہ کرنے کے بعد جیسے ہی غلطی کا احساس ہو اور انسان توبہ و استغفار کی طرف مائل ہو ‘ تو وہ اپنی رحمت سے اپنے بندے کے ماضی کو محو کر کے اسے نئی زندگی دے دیتا ہے۔

غلطی کا صادر ہونا بلاشبہ کمزوری کی علامت ہے لیکن یہ وہ کمزوری ہے جو انسان شیطان کے بہکاوے میں آکر اکثر کر بیٹھتا ہے۔ حضرت آدم ؑشیطان کے بہکاوے میں آکر ممنوعہ درخت کے قریب گئے۔اور پھر جب غلطی کا احساس ہوا تواللہ رب کریم سے مخاطب ہوئے: ’’اے ہمارے رب‘ ہم نے اپنے اوپر ستم کیا‘ اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہو جائیں گے‘‘ (الاعراف  ۷:۲۳)۔

اسی طرح اللہ کے ایک اور نبی حضرت یونس ؑ نے جب اللہ تعالیٰ کی اجازت اور حکم کے بغیر اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا۔لیکن جیسے ہی انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے رب کریم سے دعائیہ استدعا کی: ’’نہیں ہے کوئی خدا مگر تو‘ پاک ہے تیری ذات‘ بے شک میں نے قصور کیا‘‘ (الانبیاء ۲۱: ۸۷)۔

حقیقت یہ ہے کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی یہ شان ہے کہ اپنے بندوں سے محبت اور ان پر رحمت کی وجہ سے ان کے گناہوں کو معاف کرے ۔ سورہ اٰل عمرٰن میں اہل ایمان کے حوالے سے ایک انتہائی اہم زمینی حقیقت بیان کی جاتی ہے کہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود کبھی بھول یا وسوسے کی بنا پر اگر وہ کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو محض کڑھتے نہیں بلکہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ کمالِ محبت سے انھیں معاف کر دیتاہے۔ فرمایا: ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘ اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال‘ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں--- ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں--- اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے۔ اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو…‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۳-۱۳۴)۔

خط کشیدہ الفاظ کے مفہوم پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ آیت ہمارے لیے آج ہی نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ ہم جس طرح گناہ اور بعض اوقات فحش کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ‘ اسے اللہ ہی معاف کرسکتا ہے۔ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔

یہاں قرآن یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ صرف شرک ایک ایسا ظلم ہے جسے اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرتا: ’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا‘‘ (النساء ۴:۴۸)۔ مزید یہ کہ: ’’اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے‘ اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے‘‘ (۴:۱۱۶)۔

جس غلطی کا ذکر آپ نے اپنے خط میں کیا ہے اس کا حل قرآن کریم نے بہت واضح الفاظ میں یوں پیش کیا ہے کہ جو اپنی حرکت سے تائب ہو جائے اور اصلاح کر لے ‘ وہ اس کی نگاہ میں مقبول ہے (النور۲۴:۵)۔ رب کریم پکار پکار کر اپنے بندوں کو‘ ہم جیسے کمزور بندوں کو ‘ روشن مستقبل کی خبر یوں دیتا ہے: ’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو۔ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ وہ تو غفور و رحیم ہے‘‘ (الزمر ۳۹:۵۳)۔

اپنے اس کرم کا‘ جان بوجھ کر یا بھول کر غلطی کا ارتکاب کرنے والے کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے گناہوں کو ڈھانک لینے والا‘ مغفرت کر دینے والا‘ گناہوں کو دھو کر ایک گناہ گار کو برف کی طرح سفید بنا دینے والا‘ اپنے عظیم کلام میں یوں مخاطب ہوتا ہے: ’’تمھارے رب نے اپنے اوپر رحم و کرم کا شیوہ لازم کر لیا ہے (یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو‘ پھر اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تووہ اسے معاف کردیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے‘‘ (الانعام ۶: ۵۴)۔

کلام الٰہی کے ان واضح ارشادات کے بعد جن میں ہم میں سے ہر غلطی کرنے والے‘ بھولنے والے‘ حد سے گزرنے والے‘ فحش کا ارتکاب کرنے والے کے لیے سرتاسر مغفرت‘ رحم‘ بخشش اور محبت ہی محبت ہے‘ ہمارے لیے صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اللہ کی مغفرت کی طرف لپک لپک کر‘ اس کے سامنے سربسجود ہو کر‘ نم ناک آنکھوں کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف اور پھر کبھی دوبارہ وہ غلطی نہ کرنے کا عزم صمیم کریں‘ اور ماضی کو یکسر بھول جائیں۔یہ وہ راستہ ہے جس میں نہ کوئی ٹیڑھ ہے‘ نہ ناامیدی‘ نہ احساسِ گناہ‘ اور نہ توبہ کے بعد دل میں کسی قسم کی پریشانی۔ اس طرح نئی زندگی کے آغاز کے بعد آپ جس شخص سے بھی عقد کریں گی اس سے ماضی کے اس تلخ تجربے کے تذکرے کی کوئی ضرورت نہیں‘ اس لیے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا‘ اسے سچی توبہ نے ایک گناہ کی طرح سے دھو دیا۔

اس سلسلے میں بہترین طریقہ جو سنت مطہرہ سے ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ وضوکر کے تنہائی میں اللہ کے حضور دو رکعت نفل کی نیت کیجیے اور اپنے رب سے خلوص نیت سے توبہ و استغفار کیجیے اور جو کچھ ماضی میں ہوا اس کا ذکر کبھی زبان پر بلکہ ذہن میں بھی نہ لایئے۔ ان شاء اللہ‘ رب کریم آپ کو ایمان‘ اعتماد اور قوت کردار دے گا اور آپ اس دنیا میں اور آخرت میں اپنی نیکیوں کا بہترین اجر پائیں گی۔ سچی توبہ کے بعد اپنے بارے میں کبھی یہ بات ذہن میں نہ لایئے کہ آپ کا اپنا کردار کسی سے کم تر ہے (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)۔

تیسیرالقرآن (جلد دوم) از مولانا عبدالرحمن کیلانی- ناشر: مکتبہ السّلام‘ سٹریٹ نمبر ۲۰‘ وسن پورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۶۶۳۔ قیمت: ۲۶۰ روپے۔

تیسیرالقرآن کی جلد اول چند ماہ پہلے شائع ہوئی تھی ]تبصرہ: جولائی ۲۰۰۰ء[ ۔اب دوسری جلد منظرعام پر آئی ہے جو سورہ اعراف سے سورہ الکہف کے ترجمہ و تفسیر پر مشتمل ہے۔یہ جلد بھی اسی (جلد اول کے) انداز و اسلوب پر ہے‘ جس کا ذکر ہم جلد اول پر تبصرے کے ضمن میں کر چکے ہیں۔

مولانا عبدالرحمن کیلانی نے تفسیر ہٰذا کو حیات مستعار کے آخری ۵ برسوں میں تحریر کیا تھا۔ زیرنظر دوسری جلد کے بعد مزید دو جلدوں میں تفسیر کی اشاعت مکمل ہو جائے گی۔ اس جلد کی اشاعت کو (جلد اول کے تجربے کی روشنی میں) بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ متن قرآن‘ مفسر مرحوم کا اپنا کتابت شدہ ہے۔ اور یہ وہی متن ہے جسے سعودی حکومت‘ بہترین نمونۂ کتابت ہونے کی وجہ سے‘ چھپوا کر حجاج میں تقسیم کرتی ہے۔

اگرچہ پروفیسرنجیب الرحمن نے پیش لفظ میں زیرنظر تفسیر کو ’’علماے سلف کے طرز پر لکھی گئی تمام تفاسیر ماثورہ کی جامع پہلی مفصل تفسیر بالحدیث‘‘ قرار دیا ہے لیکن یہ تفسیر کسی خاص گروہی یا فقہی مسلک سے وابستگی پر اصرار نہیں کرتی۔ مفسر مرحوم نے بڑے توازن سے کام لیا ہے اور سابقہ مفسرین سے استفادہ بھی کیا ہے جس کی جھلکیاں اس میں متعدد مقامات پر نظر آتی ہیں۔ مولانا عبدالوکیل علوی نے اس کے تفسیری حوالہ جات کی تخریج و تصحیح کی ہے۔

اس جلد کو بھی حسب سابق نہایت اہتمام کے ساتھ خوب صورت انداز میں اور اچھے طباعتی معیار پر پیش کیا گیا ہے۔ ترجمے اور تفسیر کی کتابت مشینی ہے (رفیع الدین ہاشمی)۔


Quranic Studies: An Introduction از ڈاکٹر اسرار احمد خاں۔ ناشر: فرمان اسلام میڈیا‘ ۶۸ جالان تنکو عبدالرحمن ۵۰۱۰۰‘ کوالالمپور‘ ملایشیا ۔ صفحات: ۳۷۳۔ قیمت: درج نہیں۔

ڈاکٹر اسرار احمد خاں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ملایشیا کے شعبہ قرآن و سنت سے وابستہ ہیں۔ ان کی اس کتاب میں درسی کتاب کے انداز سے علوم القرآن کے تمام پہلوئوں کا جامعیت اور اختصار سے لیکن بلند علمی معیار سے احاطہ کیا گیا ہے۔ جو افراد انگریزی میں علم دین حاصل کرنا چاہیں‘ اور ایسے لوگ اب کم نہیں ہیں‘ ان کے لیے بہت مفید اور بیش بہا کتاب ہے۔

مصنف نے جدید اور قدیم تمام مآخذ سے استفادہ کیا ہے۔ انھوں نے کوشش کی ہے کہ قاری کا تنقیدی نقطۂ نگاہ تشکیل پائے‘ صرف معلومات نہ ملیں۔ مباحث سے معاصر مفسرین سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ مولانا  امین احسن اصلاحی‘ حمیدالدین فراہی اور محمد اسد کے قیمتی کام کا اندازہ ہوتا ہے۔ قرآن کی حفاظت‘ اسباب نزول‘ محکمات و متشابہات ‘ مکی اور مدنی سورتیں‘ سورتوں کی ترتیب‘ ناسخ منسوخ سب ہی موضوعات پر ابواب قائم کیے گئے ہیں۔ نظم قرآن کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ایک باب قرآنی اصطلاحات پر ہے جس میں معروف اصطلاحات ایمان‘ صوم‘ صلوٰۃ‘ صبر‘ شکر ‘ توکل وغیرہ کا مفہوم قرآن میں ان کے تذکرے سے متعین کیا گیا ہے۔ مصنف نے اعجاز القرآن کی بحث کو غیر عربوں کے لیے غیر مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں زیادہ بحث لغت کی ہے‘ اس کے بجائے قرآن کی سند (authenticity) پرباب قائم کیا ہے۔

یہ پتانہیں چلتا کہ یہ کتاب پاکستان میں کسی شائق کو کس طرح دستیاب ہو گی (مسلم سجاد)۔


بیسوی صدی کے رسولؐ نمبر‘ پروفیسر محمد اقبال جاوید۔ ناشر: فروغ ادب اکادمی‘ ۱۰۸ بی سیٹلائٹ ٹائون‘ گوجرانوالہ۔ صفحات: ۵۹۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ محبت ایک کلمہ گو کے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ خالق کائنات سے محبت کا قرینہ بھی حُبِّ رسولؐ سے پھوٹتا ہے ‘ اور ان دونوں محبتوں کا منطقی نتیجہ اُخروی اور ابدی زندگی میں کامیابی ہے۔

گوجرانوالہ کے معروف استاد اقبال جاوید صاحب نے نصرت الٰہی کے سائے میں فرہادی جذبۂ کوہ کنی کو بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ انوکھا ہدف منتخب کیا کہ‘ وہ رسائل‘ جرائد اور اخبارات کے رسولؐ نمبروں پر تحقیق و تعارف کا کام کریں گے۔ کئی حوالوں سے یہ کام اہم ہے۔ ان خاص اشاعتوں میں بہت سے ایسے لوگوں کے مضامین شامل ہیں جو صاحب کتاب نہ تھے‘ سو ان کی محبتوں‘ الفتوں اور بے قراریوں کا حال صرف ان رسائل میں شامل مضامین ہی سے معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ ان میں ایک حد تک روایتی مضامین بھی ہیں‘ تاہم ان میں مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں کے آشوب عصر کے محسوسات اور حب رسولؐ کی جھلکیاں بھی موجود ہیں۔ یوں ان رسائل کا وسیع کینوس‘ سیرت پاکؐ کی روشنی میں انسانی زندگی کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنے کا وسیلہ بن گیا ہے۔

جناب اقبال جاوید نے ان مضامین کی گہرائی اور جذبے کی سچائی کو پرکھا اور پھر ہر شمارے سے نظم و نثر کے نمونے منتخب کر کے انھیں زیر نظر کتاب میں پیش کر دیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ فاضل محقق نے یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔

پہلا رسولؐ نمبر نظام المشائخ دہلی (مارچ ۱۹۱۱ء) ہے۔ اس کے بعد پے درپے نمبروں کی بہار ہے۔ آخری نمبر نورُٗعلٰی نور کراچی (جولائی ۱۹۹۹ء) ہے۔ ماہ نامہ مولوی دہلی‘ جولائی ۱۹۲۸ء کا یہ اقتباس پڑھیے (ص ۸۰):

’’تمام ادیان و ملل کے بانیوں میں یہ خصوصیت صرف داعی اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاصل ہے کہ آپؐ کی شخصیت تیرہ صدیوں سے بالکل اپنے حقیقی رنگ میں نمایاں ہے‘ اور قدرت کی طرف سے ایسا انتظام کر دیا گیا ہے کہ قیامت تک نمایاں رہے گی۔ انسان کی اوہام پرستی اور اعجوبہ پسندی سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اس برگزیدہ ہستی کو بھی‘ جو کمال کے سب سے اعلیٰ درجے پر پہنچ چکی تھی‘ افسانہ بنا کر اور الوہیت سے کسی طرح متصف کر کے تقلید و پیروی کے بجائے محض ایک تحیر و استعجاب اورعبادت و پرستش کی چیز بنا لیتی‘ لیکن اللہ تعالیٰ کو بعثت انبیا  ؑکے آخری مرحلے میں ایک ایسا ہادی و رہنما بھیجنا مقصود تھا‘ جس کی ذات انسان کے لیے دائمی نمونہ عمل اور عالم گیر سرچشمہ ہدایت ہو‘‘ (صاحب القرآن فی القرآن‘ از سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ص ۳۴)۔

اس انتخاب سے نظم و نثر کی وہ زمینیں‘ تلازمے اور فکروبیان کے وہ مضامین اور اسالیب‘ ایک نظر میں سامنے آجاتے ہیں‘ جن تک رسائی پانا‘ عام شائقین کے لیے ناممکن تھا۔ فاضل مرتب نے مدح رسولؐ کے تمام رنگ خوب صورتی اور مقصدیت میں گوندھ کر پیش کر دیے ہیں جس سے اردو صحافت اور مجلاتی و سیرتی ادب میں پیش کردہ سیرت نگاری کی روایت ایک نظر میں سامنے آجاتی ہے (سلیم منصور خالد)۔


خبر و نظر‘ عبدالحق پرواز رحمانی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی‘ چتلی قبر‘ دہلی۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۵۵ روپے۔

یہ مصنف کے ان کالموں کا انتخاب ہے جو دعوت دہلی میں شائع ہوتے رہے۔ صحافت میں کالم نویسی بہت اہم شعبہ ہے۔ فکاہی کالم اداریوں سے بھی زیادہ دل چسپی اور توجہ سے پڑھے جاتے ہیں اور میرے نزدیک رحمانی صاحب کے کالم ایک اضافی شان یہ لیے ہوئے ہیں کہ طنز و مزاح کی عام روش سے ہٹ کر بالعموم سنجیدہ لب و لہجے میں لکھے گئے ہیں اور نفس مضمون کے لحاظ سے ایک بہت ہی خاص ملّی ضرورت پوری کرتے ہیں۔

حکمران ہندو اکثریت کی تنگ نظری کی وجہ سے بھارت میں آباد مسلمانوں کے لیے اَن گنت مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ اگر ایک طرف انھیں اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے تو دوسری طرف ان کے سامنے اپنے دین کی حرمت اور تقدس بحال رکھنے کا معاملہ بھی ہے۔ طاقت کے نشے میں بدمست ہندو‘ بھارت میں آباد مسلمانوں کو ایک حقیر اقلیت میں بدلنے کی جدوجہد کے ساتھ اپنے کفر کو اسلام سے برتر ثابت کرنے کے پاگل پن میں بھی مبتلا ہو گیا ہے۔ وہ مسلمانوں کی تہذیب اور دین پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے۔

جناب پرواز رحمانی نے ان کالموں میں دانائی اور بے جگری سے اپنے تمدن اور دین کا دفاع کیا ہے۔ ان کا اسلوب مدلل اور خوب صورت ہے۔ طنز و مزاح کے نشتر ایسی خوبی سے استعمال کیے ہیں کہ متانت پر حرف نہیں آتا۔ میرے نزدیک یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کا مطالعہ بہت توجہ اور شوق سے کرنا چاہیے۔ یہاں پاکستان میں بھی اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔ اس میں مسلم آزار تحریکوں کا نمایاں عکس آگیا ہے جو بھارت میں منظم ہو رہی ہیں اور یہ اس کی بہت بڑی افادیت ہے (نظرزیدی)۔


شوق آخرت‘ مولانا اشرف علی تھانوی ‘مولانا عبدالماجد دریابادی۔ ناشر: ادارئہ اسلامیات‘ ۱۹۰-انارکلی‘ لاہور۔ صفحات: ۹۵۔ قیمت: درج نہیں۔

اس کتاب میں بیماری‘ عام مصیبت‘ پریشانی‘ موت اور برزخ وغیرہ سے متعلق ایسی حدیثیں جمع کر دی گئی ہیں جو بقول مولانا دریا بادی: ’’بہترین عیادت اور بہترین تعزیت کا کام دے سکتی ہیں اور ان سے ہر زخمی دل پر ٹھنڈے مرہم کا کام لیا جا سکتا ہے‘‘۔ لیکن احادیث اور اردو ترجمے کے ساتھ مولانادریابادی کے عالمانہ حواشی بھی قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ دراصل ابتدا میں مولانا اشرف علی تھانویؒ نے شیخ جلال الدین سیوطیؒ کے ایک چھوٹے سے رسالے کی بنیاد پر  شوق وطن کے عنوان سے ایک مختصر سا مجموعہ حدیث مرتب کیا تھا۔ مولانا دریا بادی نے شوق وطن کے ترجمے پر نظرثانی کرتے ہوئے اس پر حواشی اور توضیحات کا اضافہ کیا اور متن میں بھی ردّ و بدل کیا۔ کتاب کا نام بھی شوق آخرت کر دیا۔ ان کی یہ تالیف صدق جدید میں قسط وار شائع ہوتی رہی۔ ان اقساط کا مسودہ حکیم عبدالقوی دریابادی کے ذریعے ڈاکٹر تحسین فراقی تک پہنچا جنھوں نے اسے کتابی صورت میں مقدمے کے ساتھ مرتب کر کے شائع کر دیا ہے۔

موت کا تصور بالعموم خوف اور دہشت پیدا کرتا ہے--- زیرنظر کتاب میں ایک تو آخرت کی تیاری سے غفلت دور کر کے‘ اصلی گھر کی طرف مراجعت کا شوق دلایا گیا ہے‘ دوسرے بشارت کا پہلو نمایاں کر کے قاری کو تسکین و اطمینان دلانے کی کوشش کی گئی ہے (ر-ہ)۔


انشاے ماجد یا لطائف ادب‘ مولانا عبدالماجد دریابادی۔ ناشر: ادارہ علم و فن‘ ۱۰۸-بی‘ الفلاح ہائوسنگ پراجیکٹ‘ کراچی۔ صفحات: ۵۸۴۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

مولانا عبدالماجد دریا بادی معروف مفسر قرآن‘ صحافی اور انشا پرداز تھے۔ تقریباً چار عشرے قبل انھوں نے اپنے ادبی مضامین شائع کیے تھے۔ زیرنظر ادبی تحریروں میں تنقیدی مقالات بھی ہیں‘ بعض کتابچوں کے دیباچے اور مقدمے‘ بعض کتابوں پر تبصرے‘ اور چند نشری مضامین اور متعدد نامور شخصیتوں کے بارے میں فنیاتی مضامین بھی ہیں اور آخر میں مولانا دریابادی کے خطوط ۔ گو‘ ان تحریروں کا زیادہ تر تعلق اردو زبان و ادب کے مختلف پہلوئوں‘ کتابوں اور مشاہیر سے ہے‘ مگر ان میں معاشرتی و اخلاقی اورملّی پہلو بھی نمایاں ہیں۔

مولانا دریا بادی مسلمہ طور پر ایک بلند پایہ ادیب اور انشا پرداز تھے۔ ان کی یہ تحریریں ادبی اور تنقیدی اعتبار سے وقعت رکھتی ہیں۔ وہ ایک مخصوص اسلوب کے مالک تھے۔ ایک مثبت اور تعمیری نقطۂ نظر مولانا دریابادی کی تحریروں کا طرئہ امتیاز ہے۔ انھوں نے اپنی قلمی کاوشوں خصوصاً ’’سچ‘‘ ‘ ’’صدق‘‘  اور ’’صدق جدید‘‘ کے ذریعے ایک طویل عرصے تک ملّت کی اصلاح احوال کی کوشش کی۔ اردو ادب کے طلبہ کے لیے خاص طور پر زیرنظر مجموعے میں افادیت کا پہلو بہت نمایاں ہے (ر-ہ)۔


مغربی جمہوریت اور اسلام (اقبال کا نقطۂ نظر)‘ پروفیسر ڈاکٹر محمود علی ملک۔ ناشر: بزم اقبال‘ ۲ کلب روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۱+۴۰۔ قیمت: ۵۰ روپے۔

جمہوریت کو عصرحاضر میں سب سے پسندیدہ نظام حکومت قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس میں  ’’بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘۔ مغربی جمہوریت میں پارلیمان کی کامل خود مختاری ایک اہم اصول ہے مگر: ’’اسلامی نظام حکومت میں پارلیمان کی مکمل خودمختاری کا کوئی تصور نہیں ہے کیونکہ یہاں پارلیمان یا شوریٰ اللہ تعالیٰ کی حکومت یا فرمان الٰہی کے تابع ہے‘‘۔ مزید برآں جیسا کہ مصنف وضاحت کرتے ہیں‘ کامیاب انتخابی نتائج کے لیے اقتصادی مساوات ]یہاں ’’عدل‘‘ بہتر ہے [ اور بلند شرح خواندگی ضروری ہے تاکہ ووٹر یا رائے دہندگان اپنے نمایندے بغیر کسی خوف یا لالچ کے چن سکیں۔ لیکن ایسے معاشرے میں جہاں لوگوں کو معمولی ترغیبات کے ذریعے خریدنا بے حد آسان ہو‘ اور جہاں ناخواندگی‘ جہالت اور پسماندگی چھائی ہوئی ہو‘ وہاں لوگوں کو سستے اقتصادی نعروں یا مذہبی نعروںاور جھوٹے وعدوں اور امیدوں کے ذریعے فریب دے کر گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ مصنف‘ بجا طورپر کہتے ہیں: ہمارا گذشتہ نصف صدی کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے جاگیرداروں‘ اور پیشہ ور سیاسی بازی گروں کی ایک بڑی تعداد (جن میں اکثر لوٹے بھی شامل ہیں) اور مفاد پرست لوگ باربار اقتدار پر قابض ہوئے ہیں اور یہ ’’عوامی نمایندے‘‘ اپنی سفلی خواہشات اور مفادات کو بڑھاوا دیتے ہیں‘ کرپشن کرتے ہیں اورپھر شرم ناک طریقے اور ذلت و رسوائی کے ساتھ برخاست ہوتے ہیں۔

مغربی اقوام نے جمہوریت کو ایک طرز حیات کے طور پر ترقی دی ہے اور کسی سیاسی لیڈر کے لیے اخلاقی بے راہ روی یا مالی بدانتظامی اور بے ضابطی بہت بڑا جرم ہے (برطانیہ کا پروفیومو سیکنڈل- امریکی صدر نکسن کا واٹرگیٹ سیکنڈل وغیرہ)۔ ڈاکٹر محمود علی ملک نے اسی ضمن میں بتایا ہے کہ آسٹریلیا کے صوبے تسمانیہ کے لبرل وزیراعلیٰ کو پارلیمنٹ میں ایک ووٹ کی برتری حاصل تھی۔ ایک دولت مند اور بااثر تاجر مسٹر رووس‘ حزب اقتدار کی مخالف لیبر پارٹی کا حامی تھا۔ اس نے ایک لبرل ممبر پارلیمنٹ‘ مسٹر کاکس کو ایک لاکھ ڈالر کی پیش کش کی تاکہ وہ عدم اعتماد کے موقع پر اپنا ووٹ لبرل حکومت کے خلاف دے۔ مسٹر کاکس نے پولیس کو مطلع کیا‘ رووس گرفتار ہو گیا۔ سپریم کورٹ نے اسے تین سال قید اور ۴ ہزار ڈالر جرمانے کی سزا سنائی۔ جج نے فیصلے میں لکھا کہ یہ جرم ایک جائز حکومت کی کارکردگی میں خلل ڈالنے کی کوشش تھی جو انتخابات کے ذریعے برسرِاقتدار آئی تھی۔ اگر رشوت کی پیش کش کا انکشاف نہ ہوتا تو اس سے ریاست کے ایک جمہوری ادارے کی بنیاد کو شدید نقصان پہنچتا (ص ۲۳)۔

مصنف نے آخر میں ایک خاکہ دیاہے جس کے مطابق مسئلے کا حل یہ ہے کہ زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیریں اور بڑی زمینداریاں ختم کی جائیں‘ شرح خواندگی میں خاطرخواہ اضافہ کیا جائے‘ صنعتی اور اقتصادی اصلاحات کے ذریعے معاشی مساوات قائم کی جائے اور تعلیمی اصلاحات نافذ کی جائیں وغیرہ۔

بلاشبہ مصنف نے جمہوریت کے نقائص کی صحیح نشان دہی کی ہے (۳‘ ۴ صفحوں میں اقبال کے حوالے بھی آئے ہیں) جس سے مسئلے کے بعض گوشے ضرور اُجاگر ہو گئے ہیں‘ مگر یہ سوال اپنی جگہ تشنہ جواب ہے کہ اصلاحات کون کرے؟ جب تک عوام الناس کی بہت بڑی اکثریت صحیح طور پر تعلیم یافتہ نہ ہو اور ان کے اندر خاطر خواہ شعور‘ بالغ نظری اور گہرا دینی اور اخلاقی احساس پیدا نہ ہو‘ اور بڑے پیمانے پر مفاد پرست ابن الوقت سیاست دانوں کے خلاف ایک فضا نہ بنے‘ وہ بدستور اپنی مَن مانی کرتے رہیں گے اور ایسی اصلاحات ہرگز نہ کریں گے ‘ نہ کرنے دیں گے جن سے خود ان پر زد پڑتی ہو۔

اصل مقالہ انگریزی میں ہے‘ اس کے ساتھ اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے (ر-ہ)۔

تعارف کتب

  •  قرآنی موضوعات‘ محمد شریف بقا۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۷-سی ماتھر سٹریٹ‘ ۹ لوئرمال‘ لاہور۔ صفحات: ۹۸۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے- ] مختلف موضوعات پر تقریباً ڈیڑھ ہزار عنوانات کے تحت قرآن حکیم سے منتخب آیات مع ترجمہ ‘حوالہ جات کے ساتھ[ ۔
  •  شریعت اسلامیہ کے محاسن ‘ شیخ عمر فاروق۔ ناشر: ایشیا پبلی کیشنز‘ A-9/1 ایشیا منزل‘ رائل پارک‘ لاہور۔ صفحات: ۳۳۱۔ قیمت: ۱۵۰ روپے ] ۴۶ اسلامی‘ دینی اور اخلاقی موضوعات پر قرآن و سنت‘ سیرت نبویؐ‘ سیرت صحابہؓ کی روشنی میں مؤثر اظہارخیال۔ اقبال کے برمحل اشعارکے ساتھ‘ عمومی مطالعے‘ استفادے اور تلقین و تبلیغ کے لیے ایشیا پبلی کیشنز کی ایک اچھی اور خوب صورت پیش کش [۔
  •  فتنۂ قادیانیت کو پہچانیے‘ مرتب: محمد طاہر رزاق۔ ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘ حضوری باغ روڈ‘ ملتان۔ صفحات: ۴۷۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے ] قادیانیت پر علامہ انور شاہ کشمیری اور علامہ اقبال سے لے کر ‘ خود مرتب تک کے ۲۱ مضامین کا مجموعہ اور اس موضوع پر مصنف کی متعدد تالیفات میں سے ایک --- قادیانیت کو بے نقاب کرنا مرتب کی زندگی کا مشن ہے [۔
  •  اسلام میں عورت کا مقام‘ حسن البنا شہید۔ ناشر: اعلیٰ پبلی کیشنز‘ یوسف مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۔ قیمت: ۱۵ روپے ] حیثیت و حقوق نسواں کا موضوع‘ ایک طرح سے عالمی حیثیت اختیار کر گیا ہے--- اسلام کے حوالے سے حسن البنا شہید کی ایک قیمتی تحریر [۔
  •  تعمیر حیات ‘ ابوالحسن علی ندوی نمبر‘ مدیرمسئول: شمس الحق ندوی۔ ناشر: مجلس صحافت و نشریات دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ۔ صفحات: ۳۵۱۔ قیمت: درج نہیں ] مولانا علی میاں کی شخصیت‘ علمی اور دینی کارناموں اور اصلاح و اتحاد ملّت کے لیے ان کی کاوشوں کی تفصیل و تجزیہ اور مشاہدات و تاثرات پر مبنی ۶۱ مضامین اور ۳۰ منظومات--- اپنے موضوع پر ایک جامع اشاعت[۔
  •  غالب --- فکروفرہنگ‘ ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناشر: اردو اکیڈمی پاکستان‘ ۷۹۳‘ این پونچھ روڈ‘ سمن آباد‘ لاہور۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: ۱۲۸ روپے ]مرزا غالب پر ۷ تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ۔ غالب کی بعض فارسی مثنویات‘ مہر نیمروز اور فارسی مکاتیب کے حوالے سے ان کی شخصیت کے بعض ایسے پہلوئوں کو پہلی بار تفصیل کے ساتھ منظرعام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے جنھیں غالب شناسوں نے قابل توجہ نہیں سمجھا تھا[۔
  • انواریے‘ پروفیسر انور رومان۔ ناشر: سیرت اکادمی بلوچستان‘ ۲۷۲-اے  او بلاک III ‘سیٹلائٹ ٹائون‘ کوئٹہ۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے ]مؤلف کے شخصی تاثرات و احساسات کا بے ساختہ اظہار۔ بظاہر آزاد منظومات‘ مگر نثری نظم نما تحریریں جن میں ادبیت ‘ شعریت اور آہنگ موجود ہے۔ نقاد انھیں کیا مقام دیتے ہیں؟ مؤلف اس سے بے نیاز ہے۔ انور رومان وسیع المطالعہ اور صاحب دل اہل قلم ہیں۔ ۴۲ اردو‘ انگریزی کتابوں کے مؤلف‘ مصنف اور مترجم ہیں[۔
  •  حریم دل‘ نجمہ منیر‘ مرتبہ: زاہد منیرعامر۔ ناشر: تناظرمطبوعات‘ ۳۴۰ ریواز گارڈن‘ لاہور۔ صفحات: ۳۲ ۔قیمت: درج نہیں۔  ]آل اولاد‘ اعزہ و اقربا اور شاگردوں کے نام چھوٹی چھوٹی سادہ خوب صورت نظمیں‘ قلبی جذبوں اور لگن اور محبتوں کا بے ساختہ اظہار۔ انسانی رشتوں کے باہمی اخلاص اور بے لوث جذبات کا شعری اظہار[ ۔
  •  انفاق فی سبیل اللہ‘ خلیل الرحمن چشتی۔ ناشر: الفوز اکیڈمی‘ مکان ۳۱۷‘ گلی ۱۶‘ ایف ۱۰/۲ ‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۸۸۔ قیمت: ۳۰ روپے ]اس موضوع کے بیش تر پہلوئوں پر قرآن و سنت کے حوالے ‘ عربی متن مع ترجمہ‘ مختصر تشریحات کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کی ضرورت ‘ اہمیت‘ فضائل اور فوائد--- یہ رسالہ‘ ’’سلسلہ تعلیمات قرآن و سنت‘‘ کی ایک کڑی ہے‘ اسی سلسلے میں متعدد مفید رسالے شائع کیے گئے ہیں۔ نماز‘ رسالت‘ جہاد فی سبیل اللہ‘ توحید اور شرک‘ حقیقت تقویٰ‘ حقیقت صبر وغیرہ--- طباعتی پیش کش دیدہ زیب اور خوب صورت ہے[۔
  •  بیت اللہ کے سائے میں‘ حافظ جاوید اقبال بھٹی۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز ‘ کیمرہ مارکیٹ‘ چیمبرلین روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۳۶ روپے ]سفر حج کی روداد‘ بہ شمول مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کا تذکرہ اور بیت اللہ اور مسجد نبویؐ کی مختصر تاریخ بہ قول پروفیسر آسی ضیائی: ایک طرح کی گائیڈ بک‘ ایک رہنما تحریر[۔
  •  ظلال القرآن ماہنامہ‘ مدیر: سید معروف شاہ شیرازی۔ پتا: سی سن پلازا پروپورشن ‘ فلیٹ نمبر ۱۰‘ مرکز ایف /۱۰‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۴۰۔ قیمت: ۱۵ روپے‘ سالانہ چندہ: ۱۵۰ روپے ]قرآن و حدیث اور علوم اسلامیہ پر ایک نیا مجلہ۔ اس شمارے سے محمد علی الصابونی کی تفسیر صفوۃ التفاسیر کاترجمہ شروع ہے[۔
  •  بچوں کی تربیت میں کتاب کاحصہ‘ ڈاکٹر انعام الحق کوثر۔ پتا: سیرت اکادمی بلوچستان‘ ۲۷۲- اے او بلاک III ‘ سیٹلائٹ ٹائون‘ کوئٹہ ]کتابچوں کے اس سلسلے کا ایک کتابچہ‘ جو یونیسف پاکستان کے تعاون اور اشتراک سے لکھے‘ تیار کیے گئے۔ ۸ تا ۱۲ صفحات پر مشتمل اس طرح کے کتابچے: احترام بچہ‘ اسلام اور بچے کی تربیت و نگہداشت‘ ملی تعمیرنو میں تعلیم کا کردار‘ بچوں کے لیے لٹریچر کی تیاری میں نفسیات کا کردار--- اساتذئہ اطفال کے تربیتی کورسوں کے لیے مفید ہیں[۔
  •  صمصام الاسلام از حافظ محمد صدیق ارکانی‘ ناشر: حرکۃ الجہاد الاسلامی‘ اراکان (برما)۔ صفحات: ۱۲۸‘ قیمت: درج نہیں]جہاد پر مختلف مباحث: اقسام‘ احکام‘ دفاعی جہاد‘ اقدامی جہاد‘ جہاد کے متعلق بعض اہم سوالات کے جوابات[۔
  •  سیارہ  (ماہنامہ) مدیر: حفیظ الرحمن احسن۔ پتا: ایوانِ ادب‘ اردو بازار‘ لاہور۔ خاص شمارہ ۴۵‘ ۲۰۰۰ء۔ صفحات: ۴۲۰۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔ ] اسلامی اور تعمیری ادب کا نقیب۔ تازہ شمارہ نئی تخلیقات (مقالات‘ شاعری اور تبصروں )کے ساتھ [۔
  •  النحو المیسّر‘ شفیق احمد خان قاسمی۔ ناشر: شعبۂ نشرواشاعت‘ جامعہ خدیجۃ الکبریٰ براے خواتین‘ کراچی۔ صفحات: ۸۸۔ قیمت: درج نہیں۔] علامہ شریف الجرجانی کی معروف درسی تصنیف نحو میر کی عربی زبان ہی میں تسہیل۔ قواعد کی یہ کتاب طلبہ کے لیے مفید ہے۔ مقدمہ از ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی[۔

سید سلمان ندوی  ‘  جنوبی افریقہ

ماشاء اللہ  !ترجمان القرآن کی آب و تاب قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں اور ترقی دے۔ آپ کا مضمون ’’ایم ایم احمد کے انکشافات‘‘  (دسمبر ۲۰۰۰ء) پڑھا جو دل چسپ ہے۔ کاش! آپ نے کچھ مزید تفصیل مہیا کی ہوتی۔ مزید انکشاف کی تشنگی باقی رہی۔ اس مضمون میں ص ۴۲ پر دوسرے پیراگراف میں دو جگہ محمد شعیب کے بجائے شعیب قریشی لکھ دیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ ص ۴۴ پر آخری پیراگراف میں صحیح نام محمد شعیب لکھا ہے۔ شعیب قریشی مرحوم تو مولانا محمد علی کے داماد اور خلافت کی تحریک سے وابستہ رہے ہیں۔ آپ کی مراد محمد شعیب وزیر مالیات سے تھی۔

عبداللّٰہ سولنگی‘ لاڑکانہ۔  ہارون اعظم‘ مردان۔ اختر علی‘ سوات

دسمبر ۲۰۰۰ء کا ترجمان القرآن بہ حیثیت مجموعی عمدہ ہے۔ خاص طور پر امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب قاضی حسین احمد نے کارکنوں کو جو ’’ہدایات‘‘ دی ہیں وہ بر وقت‘ اصولی اور موجودہ حالات میں تحریک اسلامی کے کام کو متوازن انداز میں آگے بڑھانے کے لیے عمدہ لائحہ عمل ہے۔ ’’ہدایات‘‘ کارکنوں کی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس پر اسٹڈی سرکل ہونے چاہییں اور نصاب رکنیت میں شامل کیا جانا چاہیے۔سالارکارواں‘ امیر جماعت اسلامی‘ قاضی حسین احمد صاحب کی ’’ہدایات‘‘ بہت اہم ہیں۔ اسے وسیع پیمانے پر شائع کر کے ہر کارکن‘ متفق اور ممبر تک پہنچانا چاہیے۔

اللّٰہ دادنظامی    ‘  جھوک نواز ‘ضلع وہاڑی

ماہنامہ ترجمان القرآن (جون ۲۰۰۰ء) کے سرورق پر شائع ہونے والی آیت میں ایک بڑا سہو ہوا۔ ’معروف‘ میں ’وائو‘ غائب ہے۔ اس پر مزید یہ کہ کسی قاری نے متوجہ نہیں کیا۔ پھر یہ کہ ادارت کے لوگوں کو معلوم ہو گیا‘ انھوں نے معذرت کو شان کے خلاف سمجھا ۔گویا ماہنامہ ترجمان القرآن کی ساکھ کو قرانی آیت کی املا کی تصحیح سے زیادہ اہم سمجھ لیا گیا ہے ۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون کیا آپ اب اس سہو پر معذرت کے قائل ہوئے ہیں یا نہیں؟

 

]سید احمد شہیدؒ کی [ اس تحریک سے ہندستان کے لاکھوں مسلمان وابستہ تھے اور سارے برطانوی علاقے میں اس کے مرکز قائم تھے۔ سید صاحبؒ نے اپنا اصل مرکز ہندستان کی شمالی سرحد کو بنایا جو ایک آزاد اور جنگجو علاقہ تھا اور جس سے آزاد مسلم سلطنتوں اور قوموں کا علاقہ متصل تھا۔ اُس وقت تک آپ کا محاذ جنگ پنجاب کی سکھ حکومت کی طرف تھا جس کے علاقے میں مسلمان مذہبی آزادی اور شہری حقوق سے محروم تھے۔ لیکن آپ کا ارادہ تھا کہ قوت کے فراہم ہو جانے اور مرکزیت قائم ہو جانے کے بعد رفتہ رفتہ ہندستان میں ایک آزاد شرعی حکومت کی بنیاد ڈالی جائے اور غیرمسلم اقتدار کا مقابلہ کیا جائے۔ آپ کو ابتدا میں پوری کامیابی ہوئی۔ ۱۲ جمادی الثانی ۱۲۴۲ھ کو سرحدی قبائل‘ امرا و خوانین‘ ہندستانی مجاہدین اور  علما و مشائخ نے بالاتفاق آپ کے ہاتھ پر بیعت امامت و خلافت کر لی‘ بیت المال قائم ہو گیا‘ زکوٰۃ و عشر کا نظام اور شرعی حدود و تعزیرات جاری ہو گئے۔ کچھ مدت اور متعدد جنگوں کے بعد پشاور مفتوح ہو کر نئی اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا۔

لیکن پھر مسلمانوں کی خیانت اور غداری اور ناسازگار حالات کے سبب مجاہدین اسلام کو شکست ہوئی۔ ۲۴ ذی قعدہ ۱۲۴۶ھ مطابق ۱۸۳۰ء کو سید صاحبؒ اور شاہ اسماعیل صاحبؒ بعض دوسرے رفقا و مجاہدین کے ساتھ مقام بالاکوٹ (ہزارہ) میں شہید ہو گئے اور آپ کی باقی ماندہ جماعت نے سرحد میں ستھانہ اور ہندستان میں پٹنہ میں اپنا مرکز قائم کر لیا۔...

ہندستان کے مرکز صادق پور پٹنہ نے ہندستا ن کے مسلمانوں کی وہ بے نظیر تنظیم اور جہادکی وہ عظیم الشان تبلیغ و تربیت کی جس کی مثال مسلمانوں کے داخلہ ہند سے لے کر اس وقت تک نہیں ملتی۔اس تنظیم و تبلیغ کی وسعت‘ اس اسلامی نظام کی برتری‘ اور ان علما کی سیاسی قابلیت اور انتظامی لیاقت کا تصور کرنے کے لیے اس تحریک کے سب سے بڑے دشمن ڈاکٹر سر ولیم ہنٹر کی کتاب ’’مسلمانان ہند‘‘ کے مندرجہ ذیل اقتباسات پڑھنے چاہییں:

’’یہ لوگ مشنریوں کی طرح ان تھک کام کرتے تھے۔ بے لوث اور بے نفس لوگ تھے جن کا طریق زندگی ہر شبہ سے بالاتر تھا۔ روپیہ اور آدمی فراہم کرنے کی انتہائی قابلیت رکھتے تھے۔ ان کا کام محض تزکیۂ نفس اور اصلاح مذہب تھا۔ میرے لیے ناممکن ہے کہ میں عزت و عظمت کے بغیر ان کا ذکر کروں۔ ان میں سے اکثر نہایت مقدس و مستعد نوجوانوں کی طرح زندگی شروع کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے اخیر تک مذہب کے لیے اپنی جاںفشانی اور جوش قائم رکھتے‘‘۔

(’’تفریق دین و سیاست‘‘ ‘ مولانا ابوالحسن علی ندوی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۷‘ عدد ۴-۵‘ شوال و ذی القعدہ ۱۳۵۹ھ‘ دسمبر ۱۹۴۰ء و جنوری ۱۹۴۱ء‘ ص ۳۷۴-۳۷۵)