مضامین کی فہرست


جولائی ۲۰۱۹

مصر کی تاریخ میں ۱۷جون۲۰۱۹ء نے ایک یادگار حیثیت حاصل کرلی ہے۔ 
۱۷جون ۲۰۱۲ء وہ روشن دن تھا، جب جدید مصر ( جس کا آغاز ۱۹۵۲ء میں شاہ فاروق کے تخت چھوڑنے سے ہوا تھا) میں پہلاآزاد جمہوری انتخاب منعقد ہوا۔ اس کے نتیجے میں ڈاکٹر محمد مرسی عیسیٰ العیاط صدرِ مملکت منتخب ہوئے۔ وہ ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ (حزب الحریۃ والعدالۃ) کے نامزد اُمیدوار تھے۔ مگر مصر میں جمہوری دور کے آغاز کا جو امکان پیدا ہوا تھا، بدقسمتی سے ایک حریصِ اقتدار جنرل عبدالفتاح السیسی نے بیرونی طاقتوں کے اشارے پر، چند روزہ ہنگاموں کا ڈراما رچایا، اور حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ اس طرح ایک سال اور تین دن بعد ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو حکومت پر ناجائز قبضہ کرکے جمہوریت کے اس چراغ کو ضوفشاں ہونے سے پہلے ہی بجھا دیا۔ یوں اکیسویں صدی میں فرعونی استبداد اور ریاستی دہشت گردی کا ایسا آغازہوا کہ جس کا نہایت گہرا زخم ۱۷جون ۲۰۱۹ء کو ٹھیک سات سال بعد منتخب صدرمحمدمرسی کی کمرئہ عدالت میں شہادت ہے۔ 
اس الم ناک واقعے نے ایک بار پھر ساری دنیا کے سوچنے سمجھنے والے افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ خصوصیت سے مصر کے عوام کو، اور دنیا کے ہرگوشے میں مسلمانوں کو آمرانہ اقتدار اور ظلم کے نظام کے خلاف نئی جدوجہد کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔ صدر ڈاکٹرمحمد مرسی کی زندگی کو، جو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ کر اس خوش فہمی میں تھے کہ ان کی زندگی کے چراغ کو گل کرکے وہ محفوظ ہوجائیں گے، ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان شاء اللہ ان کے اقتدار اور ظلم کے اس نظام کے لیے شہید مرسی اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ یہ تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے:وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝  (احزاب ۳۳:۶۲)’’اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی‘‘۔
جارج ٹائون یونی ورسٹی،واشنگٹن کے پروفیسر عبداللہ الریان نے ’الجزیرہ ویب پیج‘ میں  شائع شدہ اپنے مضمون میں بڑی سچی بات لکھی ہے، جس کے آئینے میں مستقبل کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے:

اوریوں ان کی صدارت،درحقیقت شروع ہونے سے قبل ہی ایک ناخوش گوارانجام کو پہنچ گئی۔مرسی کادورحکومت،ایک جمہوری مستقبل کی خاطر محض ایک وقتی اورموہوم سی امید کا پیکر تھا، جوبے رحم مطلق العنان حکمرانوں کے طویل دورکے بعد، ان [مرسی]  کی طرف سے صدرکے پرشکوہ منصب پرفائزہونے میں نظرآیاتھا۔
لیکن ان کے جانشین [جنرل سیسی] کوجلد ہی یہ احساس ہوجائے گاکہ اس موہوم سی اُمید [یعنی جمہوریت کے احیا]کا چراغ بجھانابہت ہی مشکل ہوگا۔اس [نام نہاد] فوجی انقلاب کے چھے برس بعد بھی بہت سے مصری شہری، موجودہ حکومت کو ایک مسلسل غیرقانونی اور ناجائز حکومت تصورکرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ السیسی حکومت جس کاطرۂ امتیاز انسانیت دشمنی ہے، اس نے سابق صدر[ محمد مرسی]کی تدفین بھی کھلے عام نہیں ہونے دی، بلکہ جلدبازی، بدحواسی اور بوکھلاہٹ میں سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی ان کی میت کو دفن کردیا،جب کہ مرسی کے خاندان کے محض [آٹھ] افراد کو تدفین میںشرکت کی اجازت دی۔(الجزیرہ،۲۴جون ۲۰۱۹ء)

مرسی کا سفرِشہادت

محمد مرسی، نیل ڈیلٹا میں واقع شمالی مصر کے ایک چھوٹے سے گائوں ’العدوہ‘ میں ۲۰؍اگست ۱۹۵۱ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک دین دار متوسط درجے کے کاشت کار تھے۔ ابتدائی تعلیم گائوں کے قریبی علاقے میں حاصل کی اور آمدورفت کی مشکلات اور اسکول دُوردراز ہونے کے باعث گدھے پر بیٹھ کر جاتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبہ میٹلرجیکل انجینئرنگ سے حاصل کی۔ بی ایس سی اور ایم ایس سی کے امتحانات امتیازی شان سے پاس کیے۔ سرکاری وظیفہ حاصل کیا اور امریکا کی یونی ورسٹی آف سائوتھ کیرولائنا سے میٹریل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی سند ِفضیلت حاصل کی۔ چندسال امریکا ہی کے تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ امریکا جانے سے پہلے فوجی تربیت بھی حاصل کی اور مصر واپس آکر زقازیق (Zagazig) یونی ورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دینے لگے۔ اعلیٰ تعلیم کے دوران مصر ہی میں اخوان المسلمون کی دعوت و تحریک سے متاثر ہوئے اور رکنیت اختیار کی۔ امریکا میں قیام کے دوران وہاں پر بھی دعوتِ دین اور خدمت ِ خلق کے کاموں میں مصروف رہے۔
مصر واپس آنے کے بعد ۲۰۰۰ء میں آزاد نمایندے کے طور پر پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور بحیثیت رکن پارلیمنٹ اچھی شہرت حاصل کی۔ سابق مصری آمر حسنی مبارک کے دور میں دوبار  جیل بھی گئے۔ اخوان کے مرکزی پالیسی ساز ادارے مکتب الارشاد کے رکن رہے۔ ۲۰۰۷ء میں  نئی سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے والی کمیٹی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جب ۲۰۱۱ء میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ قائم ہوئی، تو اس کے صدر منتخب ہوئے۔ آپ ۲۰۱۲ء کے صدارتی انتخاب میں متبادل صدارتی اُمیدوار تھے، لیکن جب الیکشن کمیشن نے ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کے صدارتی اُمیدوار محمدخیرت سعدالشاطر کو نااہل قراردے دیا، تو ڈاکٹر محمدمرسی صدارتی اُمیدوار کے طور پر سامنے آئے، جو دوسرے رائونڈ میں ۵۱ء۷۳ فی صد ووٹ لے کر حسنی مبارک کے دور میں وزیراعظم اور ایئرفورس کے سابق سربراہ احمد شقیق کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔ 
۳۰جون ۲۰۱۲ءکو صدارتی حلف لے کر ذمہ داری سنبھالی۔ ایک ہی سال بعد ۳۰جولائی ۲۰۱۳ء کو فوجی سربراہ اور وزیردفاع جنرل السیسی نے اقتدار پر قبضہ کرکے، چار ماہ تک ان کو نامعلوم مقام پر قید تنہائی میں رکھا۔ پھر ان پر متعدد مقدمات قائم کر کے مصر کی بدنام ترین ’الطرۃ جیل‘ میں بھی قیدتنہائی میں ڈال دیا۔ان بے سروپا مقدمات میں، قومی رازوں کے افشا، اہرامِ مصر کی مبینہ فروخت، اور بکریوں کی چوری تک کے مضحکہ خیز الزامات لگاکر دسیوں بار موت اور عمرقید کی سزائوں کا مطالبہ کردیا۔ صدرمرسی کو (جو شہادت کے وقت تک قانونی طور پر مصر کے صدر تھے) لوہے کے ایک پنجرے میں بند رکھا گیا، جس میں وہ دن رات ۲۴گھنٹے محبوس رہتے تھے۔ جسمانی تشدد کے علاوہ خوراک، ادویہ اور علاج کی سہولتوں سے انھیں محروم رکھا گیا۔ اس طرح  ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ایسے شخص کو، جو ذیابیطس، گردوں، اور بلڈپریشر کا مریض تھا، موت کے منہ میں دھکیلنے کی مذموم حرکت کی۔ 
الحمدللہ، ڈاکٹر محمد مرسی نے یونی ورسٹی کی تعلیم کے دوران قرآن حفظ کرلیا تھا، اور یہ نُور چالیس سے زیادہ برسوں تک ان کے سینے میں امانت رہا۔ لیکن مصر کے ظالم حکمرانوں اور جیل کے عملے کا حال یہ تھا کہ رمضان میں ڈاکٹر محمدمرسی نے قرآن پاک کا نسخہ ہاتھ میں پکڑنے، چھونے اور آنکھوں سے لگانے کے لیے مانگا تو اس سے بھی انکار کر دیا گیا۔چھے سال کی قید کے دوران میں انھیں صرف تین بار اہلِ خانہ سے (اہلیہ اور بچوں) اور دوبار وکیل سے ملنے دیا گیا، حتیٰ کہ جب وہ عدالت میں لائے جاتے تھے، تو اس وقت بھی وہ اپنے اہلِ خانہ یا وکیل سے نہیں مل سکتے تھے۔ ۱۷جون ۲۰۱۹ء کو وہ ایک پنجرے میں بند تھے اور دوسرے بڑے پنجرے میں اخوان کے دوسرے زعما بند تھے۔ جب ڈاکٹر محمد مرسی بے ہوش ہوکر گرے، تو وہ ۳۰ سے ۴۰منٹ تک زمین پر پڑے رہے۔ اخوان کے دوسرے زعما جو دوسرے پنجرے میں تھے، ان میں پانچ ڈاکٹر بھی تھے جو چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ: ’’ہمیں ڈاکٹر مرسی کو دیکھنے دیا جائے‘‘ مگر ظالم جج اور جیل عملے کے ارکان ٹس سے مَس نہ ہوئے۔ ہسپتال لے جانے اور بے ہوش ہو کر گرنے میں ۴۰منٹ کا فاصلہ ہے، جس میں وہ اللہ کو پیارے ہوگئے: اِنَّـا لِلہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
ہسپتال میں ان کی موت کے تعین کی رپورٹ تک نہیں تیار کی گئی، اور صرف یہ کہا گیا: ’’ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے‘‘۔ حالانکہ ہارٹ اٹیک کی ان کی کوئی ہسٹری نہ تھی۔ ڈاکٹر مرسی کو ذیابیطس اور گردوں کے امراض تو تھے، مگر دل کی تکلیف کبھی نہیں ہوئی تھی۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل ہدف، ان کو علاج سے محروم رکھ کر موت کی طرف دھکیلنا تھا۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر مرسی شہید کے صاحبزادے نے بجاطور پر حکومت پر ان کو ارادے سے قتل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ پھر دوسرے تمام اداروں بشمول اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے نمایندے، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ اور وکلا کے وفد نے (جو ایک سال پہلے مارچ ۲۰۱۸ء میں محمدمرسی کو دیکھنے مصر گیا تھا،اور جسے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی) تمام ضروری تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ: ’’ان کو علاج کی ضروری سہولتوں، غذا اور جسمانی راحت سے محروم رکھنے کا جو رویہ اختیار کیا گیا ہے، وہ اگر ایک طرف تشدد (torture ) کی حدود کو چھورہا ہے تو دوسری طرف ان کو موت کی طرف دھکیل رہا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ صدر طیب اردوغان اور پاکستان سینیٹ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ: ’’ان کی شہادت کے حالات کی آزاد ذرائع سے بلاتاخیر تحقیق ہونی چاہیے‘‘۔ شہید محمد مرسی کے صاحبزادے نے تو الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے، جنرل سیسی، تین ججوں، ایڈووکیٹ جنرل اور چند دوسرے افراد کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

عالمی ضمیر کی گواہی

ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں چند اداروں اور ان کے ذمہ دار حضرات کے مطالبے کو اپنی اس تحریر کا حصہ بنا لیں، جو الجزیرہ ٹی وی نے اپنی ۱۹جون سے لے کر ۲۳جون کی نشریات میں اُٹھائے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمایندے ریوپرٹ کول ولے نے ڈاکٹر مرسی کے اہلِ خانہ، وکلا اور دوسرے افراد کی طرف سے اُٹھائے گئے سوالوں اور سرکاری رویے کی روشنی میں مطالبہ کیا ہے کہ اس پورے معاملے میں آزادانہ اور غیر جانب دارانہ تحقیق ضروری ہے:

ان کی موت کے حالات اوروجوہ کاتعین کرنے کے لیے ایک ایسے عدالتی یاکسی دیگر مجازادارے سے تحقیق کرائی جائے جوحراستی مجازادارے کے اثرسے آزاد ہو، اور  اسے فوری،غیرجانب دار اورمؤثر تفتیش کرنے کااختیارحاصل ہو۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW)کی شرقِ اوسط کی ڈائرکٹر سارہ لیہہ وہیٹ سن نے کہا ہے کہ: ’مرسی کی موت ایک اندوہناک مگر مکمل طور پر قابلِ فہم واقعہ ہے، جو نتیجہ ہے حکومت کا ان کو طبی سہولتیں نہ دینے کا‘۔ ’الجزیرہ‘ کے مطابق سارہ لیہہ کا موقف ہے:

ہم گذشتہ کئی برس سے جس امر کااظہار کرتے رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ: ’وہ [مرسی] انتہائی بدترین حالات کاشکاررہے ہیں۔جب بھی وہ جج کے رُوبرو پیش ہوتے،وہ ذاتی حیثیت سے طبی نگہداشت اورعلاج کے حوالے سے درخواست کرتے‘۔

انھیں مناسب خوراک اورادویات سے محروم رکھاجاتارہا۔مصری [فوجی]حکومت کو  ان کی گرتی ہوئی صحت کے متعلق مسلسل باخبر رکھا جاتارہا۔ان کاوزن بہت زیادہ کم ہوگیاتھا اور وہ متعدددفعہ عدالت میں بھی بے ہوش ہوکر گرتے رہے۔
انھیں قیدتنہائی میں رکھاگیا،جہاں انھیں ٹیلی ویژن،ای میل یاپھرکسی دیگرذرائع ابلاغ تک رسائی حاصل نہیں تھی، کہ وہ اپنے دوستوں یاخاندان سے رابطہ کرسکتے۔ وٹسن نے اس بناپر یہ موقف پیش کیا کہ: ’مرسی کی موت کے متعلق کوئی بھی قابل اعتبار آزادانہ تفتیش نہیں ہوگی،کیونکہ ان [مصری حکومت] کاکام اورکرداریہ ہے کہ کسی بھی غلط کاری سے خودکوبری قراردے دیں‘۔ (الجزیرہ، ۱۹جون ۲۰۱۹ء)

ایک بڑی اہم گواہی برطانیہ کے ’انڈی پنڈنٹ ڈی ٹنشن ریویو پینل‘ کی ہے، جس کے سربراہ سر کرسپین بلنٹ ہیں۔ اس پینل میں برطانوی پارلیمنٹ کے تین ارکان اور دو آزاد وکلا تھے، جو    مارچ ۲۰۱۸ء میں مصر گئے تاکہ ڈاکٹر مرسی کی صحت اور طبی سہولتوں کا جائزہ لیں۔ مگر انھیں ڈاکٹر محمدمرسی سے ملنے نہیں دیا گیا۔ آزاد ذرائع سے جو معلومات اس وفد نے حاصل کیں، ان کی بنیاد پر انھوں نے اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا۔طبی سہولتوں کے فقدان، غذا اور دوسری تمام محرومیوں کی بنا پر صاف الفاظ میں ’قبل از وقت موت‘ (premature death) کے اندیشے کا اظہار کیا اور عالمی راے عامہ کو  خبردار کرنے کے لیے آواز بلند کی ۔ مرسی کی شہادت پر سر کرسپین بلنٹ نے بھی مطالبہ کیا ہے:
مصری حکومت کایہ فرض ہے کہ: ’’وہ ان کی بدقسمت موت کاسبب بتائے اورحراست کے دوران ان کے ساتھ کیے گئے سلوک کی مناسب جواب دہی ہونی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنھوںنے ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا،نہ صرف وہ قابلِ تعزیرہیں بلکہ وہ لوگ بھی سزاکے مستوجب ہیں جنھوںنے اس سازش میںحصہ لیا‘‘۔انھوںنے ایک بیان میںکہا:’’اس صورت کی تلافی کے لیے اس وقت جو قدم ضروری ہے وہ یہ کہ اس کی آزادانہ عالمی تحقیق کی جائے‘‘۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل (AI)نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے:

ہم مصری حکام سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قیدتنہائی اوربیرونی دنیاسے عدم رابطہ سمیت ان کی موت کے حالات کی ایک غیرجانب داراورشفاف تحقیق کرائی جائے ۔

لندن سے انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا:

’مصری حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیاگیاکہ مرسی کو فراہم کردہ طبی امدادکی بھی تحقیق کرائی جائے اور جو کوئی بھی ان سے بدسلوکی کا ذمہ دار پایاجائے،اسے سزادی جائے‘۔
ترکی کے صدر طیب اردوغان اور پاکستان کی سینیٹ نے بھی اپنی متفقہ قرارداد میں آزاد تحقیق اور مجرموں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔خود ڈاکٹر محمد مرسی نے اپنے انتقال سے قبل عدالت کو مخاطب کر کے اپنے ساتھ اس ظالمانہ رویے کی شکایت کی تھی، مگر عدالت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

مرسی کے آخری کلمات

جج صاحب! مجھے کچھ بولنے کی اجازت دیں۔ مجھے قتل کیا جارہا ہے، میری صحت بہت خراب ہے۔ ایک ہفتے کے دوران میں دو دفعہ بے ہوش ہوا، لیکن مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا گیا۔ میرے سینے میں راز ہیں، جنھیں اگر ظاہر کروں، میں جیل سے تو چھوٹ جائوں گا، لیکن میرے وطن میں ایک طوفان آجائے گا۔ ملک کو نقصان سے بچانے کے لیے میں ان رازوں سے پردہ نہیں ہٹا رہا۔ میرے وکیل کو مقدمے کے بارے میں کچھ پتا نہیں اور نہ مجھے پتا ہے کہ عدالت میں کیا چل رہا ہے؟
۳۵سیکنڈ کی اس گفتگو کے بعد سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑپوتے الشریف قتادہ بن ادریس کا یہ مشہور زمانہ شعر پڑھا اور بے ہوش ہوکر گرگئے:

بِلَادِی وَ اِنْ جَارَتْ عَلَیً عَزِیْزَۃٌ                    وَاَھْلِی و  اِنْ     ضَنَوا عَلَیً کِرَامُ

میرا وطن مجھے عزیز ہے، اگرچہ وہ مجھ پر ظلم کرے۔ اور میرا خاندان قابلِ احترام ہے اگرچہ وہ میرے ساتھ کنجوسی سے پیش آئے۔
مصر کی حکومت نے ڈاکٹر مرسی اور خاندان کی خواہش کے مطابق انھیں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیے جانے کی اجازت نہیں دی۔ عام جنازہ بھی نہ کرنے دیا۔ صرف ان کی اہلیہ، دوبیٹوں اور بھائیوں پر مشتمل صرف آٹھ افراد نے جیل کی مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کی اور قاہرہ کے اس قبرستان میں خاموشی سے دفن کر دیا گیا، جہاں اخوان کے دو سابقہ مرشدعام ابدی نیند سو رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد مرسی سے میرا قریبی تعلق نہیں رہا۔ ایک بار ان سے امریکا میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں ملاقات ہوئی، اور دوسری اور آخری بار مارچ ۲۰۱۳ء اسلام آباد میں، جب وہ پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائے۔ اس وقت امیرجماعت اسلامی پاکستان، برادر عزیز و محترم سیّد منورحسن کی سربراہی میں جماعت کے وفد نے ان سے ملاقات کی۔ ان کی طبیعت بڑی سادہ اور اندازِگفتگو بڑا دوستانہ اور حکیمانہ تھا۔ تحریکی مسائل پر بہت جچی تلی بات کرتے تھے اور اپنی بات دلیل سے پیش کرتے تھے۔ 
اخوان نے ۲۰۰۷ء میں اپنی نئی سیاسی حکمت عملی بنانے کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی، ڈاکٹر مرسی اس کے ایک اہم رکن تھے اور میرے علم کی حد تک ابتدائی ڈرافٹ انھی نے تیار کیا تھا۔ مجھے بھی اس مسودے کو دیکھنے کا موقع ملا اور جسے میں نے ایک بہت ہی مثبت اور وقت کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش سمجھا۔ بعد میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کا قیام اسی کمیٹی کی تجویز کا حاصل تھا۔ اسلام آباد کی نشست میں انھوں نے ہم سے بہت کھل کر بات کی اور ان سے بات کرکے حالات سمجھنے میں مدد ملی۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ اصل اختیار و اقتدار کہیں اور ہے۔ اس لیے اخوان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑرہا ہے اور وہ تصادم سے بچتے ہوئے آہستہ آہستہ اختیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
فلسطین کے بارے میں مرسی حکومت نے جو واضح موقف اختیار کیا تھا، اس پر ہم نے انھیں مبارک باد دی اور میں نے خصوصیت سے کشمیر کے مسئلے پر ان کو کردار ادا کرنے کی دعوت دی، جس پر انھوں نے کہا کہ: ’’ہم ضرور اپنا فرض ادا کریں گے‘‘ اور مجھ سے کہا کہ: ’’ایک نوٹ میرے لیے تیار کردیں، جس میں واضح ہو کہ مصر کیا کرسکتا ہے؟‘‘ میں نے دو ہفتے میں وہ نوٹ بنا کر ان کو بھیج دیا، لیکن بدقسمتی سے اس ملاقات کے تین مہینے کے اندر ہی ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔

صدر مرسی کا دورِ حکومت و خدمات

ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں نے جو کارنامہ ایک سال کے مختصر وقت میں انجام دیا،  وہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ افسوس ہے کہ اس کا ادراک پاکستان میں اور پاکستان سے باہر کی دنیا کو نہیں۔ امریکا، مغربی میڈیا، عرب میڈیا اور خصوصاً فوجی حکومت نے جو غلط فہمیاں پھیلائی ہیں، اور غلط بیانیاں کی ہیں، ان کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت حالات کو قابو نہ کرسکی۔ جن حالات میں ڈاکٹر مرسی اور ان کے ساتھیوں نے زمامِ کار سنبھالی اور جن اندرونی اور بیرونی قوتوں سے ان کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، انھیں دیکھا جائے تو میں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ ان کا ایک سال ہراعتبار سے کامیاب اور نئی منزل کی طرف لے جانے کی معتبر کوشش تھی۔
سب سے پہلی بات یہ سامنے رہنی چاہیے کہ اخوان اپنی زندگی کے ۹۱ سالوں میں سے کم از کم ۸۰سال کش مکش اور ابتلا کاشکار اور حکومت اور سامراجی قوتوں کا ہدف رہے ہیں۔ اس کش مکش کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے دوران، فلسطین میں برطانوی سامراجی چالوں اور صہیونی قوتوں کے خطرناک کھیل کی وجہ سے ہوا۔ اخوان نے نہرسویز پر برطانوی قبضے، اور فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی بستیوں کو بسانے اور اسرائیل کے قیام کی سازشوں کی مخالفت اور مزاحمت کی، اور یہیں سے برطانیہ، صہیونیت اور مصری حکومت سے اخوان کی ہمہ پہلو کش مکش کا آغاز ہوا۔ 
امام حسن البنا کو ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو شہید کیا گیا اور شاہ فاروق کی حکومت نے ان کے جنازے تک کی اجازت نہیں دی۔ بالکل وہی منظر تھا، جو ڈاکٹر مرسی کی شہادت کے موقعے پر بھی دیکھنے میں آیا۔ لیکن اخوان نے بڑے صبروتحمل سے اس آزمایش کو برداشت کیا۔ پھر جمال ناصر پر حملے کا   ڈراما رچا کر ہائی کورٹ کے سابق جج عبدالقادر عودہ اور مجاہد اعظم شیخ محمدفرغلی سمیت اخوان کے چھے قائدین کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ اخوان کے ہزاروں کارکنوں، مرد و خواتین کو جیلوں میں ایسی صعوبتوں کا نشانہ بنایا گیا، جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 
۱۹۴۹ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک اخوان پر مظالم اور پابندیوں کی المناک تاریخ ہے۔ یہ ایک کرشمۂ قدرت ہے کہ اتنی مخالفت، اتنی تعذیب، اتنے پروپیگنڈے اور سیاسی دہشت گردی کا مسلسل نشانہ بننے کے باوجود تحریک نہ صرف زندہ رہی بلکہ دعوت، تربیت، خدمت اور بالآخر سیاسی اثرورسوخ میں بھی ہر میدان میں نئی بلندیوں کی طرف سفر کرتی رہی۔ اس پورے زمانے میں فوج، پولیس، عدلیہ، انتظامی مشینری، روایتی مذہبی قیادت اور ادارے بشمول الازہریونی ورسٹی، میڈیا اور مفاد پرست اشرافیہ اخوان کے خلاف صف آرا رہے۔ 
اس پس منظر میں ڈاکٹر مرسی کا صدارتی انتخاب میں کامیاب ہونا اور پارلیمنٹ میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کی اکثریت کا حصول، جہاں ایک بہت بڑا سیاسی کارنامہ ہے، وہیں یہ مخالف قوتوں کے لیے ایک چیلنج اور اشتعال دلانے والے سرخ رومال کی حیثیت اختیار کر گیا۔ مرسی صاحب کے ۵۲فی صد کے مقابلے میں ۴۸ فی صد ووٹ لینے والی قوتوں نے اپنی شکست قبول نہیں کی تھی۔ ان کی ساری کوشش مرسی حکومت کو ناکام بنانے پر مرکوز ہوگئی۔ فوج، پولیس، عدلیہ اور انتظامیہ   سب نے مل کر اخوان کے خلاف محاذ بنالیا۔ ڈاکٹر مرسی کے صدارت کی ذمہ داری اختیار کرنے سے پہلے ہی فوجی کونسل نے صدر کے تمام اختیارات قومی کونسل کو سونپ دیے۔ عدالت نے بھی انتظامیہ کے اختیارات پر شب خون مارا۔ منتخب پارلیمنٹ کو عدالت کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ مرسی صاحب کو پارلیمنٹ میں حلف تک لینے سے روک دیا گیا۔ اس لیے انھوں نے حلف بھی تحریر اسکوائر پر لیا۔ 
جب محمد مرسی صدرمنتخب ہوئے تو اس وقت فوج کے ۷۸سالہ سربراہ جنرل محمد حسین طنطاوی ۱۵سال کی توسیع ملازمت لے چکے تھے، اور مزید کے لیے سازشیں کر رہے تھے۔ جنرل طنطاوی کو ہٹا کر صدر مرسی نے جنرل عبدالسیسی کو ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ء کو مصری فوج کا سربراہ مقرر کیا۔
صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے پہلا کام یہ کیا کہ اسلام سے وفاداری کو( جو دستور کا حصہ تھا) اور مصر کی خودانحصاری اور آزادی کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا۔ سادگی کو عملاً اختیار کیا۔ پہلے دن سے صدرمملکت اور ان کی پوری ٹیم نے سرکاری پروٹوکول کو ترک کرکے عوام کے ساتھ برابری کا رویہ اختیار کیا۔ صدرمرسی کی بہن شدید بیمار تھیں، لیکن ان کو علاج کے لیے باہر نہیں بھیجا، اور قاہرہ ہی کے ہسپتال میں زیرعلاج رہیں جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔ صدر مرسی نے مقتدر طبقات کے امتیازی اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی، جس پر انھیں قدم قدم پر مزاحمت کا سامنا کرناپڑا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مفادپرست عناصر نے ماضی میں حکمرانی کا فائدہ اُٹھانے والے، نیز لبرل اور سیکولر حلقوں کو اسلام کا ہوّا دکھا کر  مرسی حکومت کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے سارے وسائل لگادیے۔ صدافسوس کہ اس میں روایتی مذہبی عناصر، اور سلفی تحریک کی قیادت بھی شامل ہوگئی۔

مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کوششیں

صدرمرسی کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ غزہ اور مغربی فلسطین پر جو پابندیاں مصر کی حکومت نے لگائی ہوئی تھیں اور رفح کی جو سرحد بند کی ہوئی تھی، اسے فوراً کھول دیا۔ حماس پر اسرائیل نے جو زندگی تنگ کی ہوئی تھی، اس کی تلافی کے لیے مؤثر اقدام کیے اور فلسطین کے مسئلے کو مصر کی اوّلین ترجیح قرار دیا، حتیٰ کہ ستمبر ۲۰۱۲ء میں صدر مرسی نے اقوامِ متحدہ میں جو خطاب کیا اس میں سب سے پہلے اور نہایت جان دار الفاظ میں مسئلہ فلسطین کو پیش کیا۔ اس کے حل کا مطالبہ اور اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے خلاف اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ 
واضح رہے کہ تصادم سے بچنے کے لیے مرسی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اس امر کا بھی اعلان کردیا تھا کہ مصر کے ماضی میں کیے گئے تمام عالمی معاہدات کا احترام کیا جائے گا۔ حماس کی حمایت کی وجہ سے اسرائیل اور مصر نے غزہ کے عوام پر زندگی تنگ کردی تھی، صدرمرسی نے انھیں  اس عذاب سے فوری نجات دلائی اور نقل و حرکت اور تجارت کی راہیں ہموار اور کشادہ کیں۔ القدس اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور فلسطین کے حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کی کھل کر تائید و حمایت کی، جو مصر کے سابق صدر انوارالسادات اور صدر حسنی مبارک کی حکومتوں کی شرم ناک اسرائیل نواز چالوں کے برعکس ۱۰۰ فی صد معکوس تبدیلی (reversal) تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے برملا کہا کہ: ’’ہم نے مرسی حکومت سے معاملہ طے کرنے اور سابقہ مصری حکومت سے جو بندوبست کیا ہوا تھا، اس پر تعاون کے لیے ہرکوشش کی، لیکن مقبوضہ علاقوں کے بارے میں کسی انتظام پر مرسی حکومت تیار نہ ہوئی اور پھر ہماری ساری کوشش اس حکومت سے نجات پر مرکوز ہوگئی‘‘۔ یہی کوشش روس، امریکا اور یورپی ممالک کی تھی اور بدقسمتی سے یہی رویہ خود مشرق وسطیٰ کے کئی عرب ممالک نے اختیار کیا۔ حتیٰ کہ مرسی حکومت کے خلاف بغاوت کی مالی اعانت اور پشت پناہی کے لیے چندعرب ممالک نے مصر کے غاصب حکمران، جنرل سیسی کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ 
یہ تھے وہ حالات، جن میں مرسی حکومت نے ایک سال اور تین دن گزارے، اور وہ بھی اس طرح کہ ان عناصر نے نیا دستور بننے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، عدلیہ نے قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالیں، اور عسکری قوتوں نے سول حکومت کو غیرمؤثر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر نام نہاد عوامی بغاوت کے تانے بانے بُنے گئے اور وہ سب عناصر جو ماضی کی حکومتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے یا جو نظریاتی طور پر اسلامی قوتوں کے مخالف تھے، سب کو مرسی حکومت کے خلاف صف آرا کیا گیا۔ ان تمام حالات میں حکومت کا  ایک سال چلنا بھی ایک بڑی کامیابی تھی۔ مخالفت کے اس پورے طوفان اور میڈیا کی یلغار کے باوجود یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ مرسی حکومت کو عوام کی اکثریت کی تائید حاصل تھی۔ جس کا اعتراف ۱۸جون ۲۰۱۹ء کو الجزیرہ ٹی وی پہ نشر کیے جانے والے تعزیتی (obituary) پروگرام میں ان الفاظ میں کیا گیا:’’محمدمرسی کا ایوانِ صدارت میں جو وقت گزرا، اس میں ان کی شہرت اور عزت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی، اور ان کے لیے عوامی پسندیدگی کا اشاریہ ۶۰ اور ۵۵ فی صد کے درمیان رہا‘‘۔
واضح رہے کہ اس ایک سال میں دو بار فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔ البتہ ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو فوج اور نام نہاد عوامی مظاہروں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور پھر ۱۴؍اگست ۲۰۱۳ء کو صدرمرسی کی تائید اور فوجی اقتدار کے خلاف جو عظیم عوامی مظاہرہ ہو رہا تھا، اس کے شرکا کو خود کار رائفلوں کی فائرنگ سے بھون ڈالا گیا اور فوجی گاڑیوں تلے کچل دیا گیا۔ اخوان نے ۲۶۰۰ سے زائد شہدا کی فہرست جاری کی۔ ہزاروں زخمی علاج معالجے کے لیے ترستے رہے۔یوں جنرل سیسی نے اقتدار اپنی مٹھی میں لے کر ایک آمرانہ دستور ملک پر مسلط کردیا، اور اب جنرل سیسی کو ۲۰۳۰ء تک صدر رکھنے کا ڈراما رچایا گیا ہے۔

مرسی صاحب کے مخالفین کا انجام

یہ سب اپنی جگہ، مگر قدرت کے انتقام کا بھی اپنا ہی نظام ہے۔ بہت سے سیکولر اور جمہوریت پسند عناصر جو اخوان دشمنی میں فوجی سازشوں کے آلہ کار بنے اور جنھوں نے۳جولائی ۲۰۱۳ء کی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کی، وہ خود بھی بہت جلد حکومت کی دست درازیوں کا نشانہ بن گئے۔   ان کی ایک بڑی تعداد داخلِ زندان کی گئی اور اخوان کے قیدیوں کے ساتھ اب وہ بھی جنرل السیسی کے قیدی ہیں۔ نیز ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد اخوانیوں کی طرح ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی اور ان میں سے کچھ آج صدر ڈاکٹر مرسی کی شہادت پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں۔
ایمن نُور جو غیراخوانی حزبِ اختلاف کے قائدہیں، انھوں نے بیرونِ مصر سے کہا ہے: 

مرسی بلاشبہہ شہید ہوئے اور انھیں سوچ سمجھ کر مارا گیا ہے… میں اپنی اوردنیاکے تمام آزاد لوگوں کی طرف سے آزادی کے راستے کے ایک عظیم معمار (great striver)کی موت پرغم ودکھ کااظہارکرتاہوں۔(الجزیرہ، ۱۹جون ۲۰۱۹ء)

صدرمحمد مرسی کی ایک سخت ناقدمونا الطحاوی اپنے مضمون میں لکھتی ہیں:

یہ ہے وہ کچھ جوعبدالفتاح السیسی نے حاصل کیا۔جولائی۲۰۱۳ء سے (جب مرسی کی حکومت کاتختہ اُلٹاگیا،اور) جنوری۲۰۱۶ء (جب مصری پارلیمان بحال ہوئی) کے دوران ۱۶ہزار سے ۴۱ہزار کے درمیان لوگ گرفتار کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر اب کالعدم اخوان المسلمون کے حامی تھے۔ البتہ اطلاعات کے مطابق ان میں ایک تعداد ان افراد کی بھی ہے، جو لبرل اور سیکولر (اور اخوان مخالف تحریک میں) سرگرم تھے۔ اس کے بعد سے سزاے موت کے اعلانات کی تکرار ہے، جس پر عمل ہورہا ہے۔ غیرقانونی اور غیرعدالتی اغوا اور قتل اس کے علاوہ ہیں۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی کوشش کا نتیجہ ہے، جس سے معاشرے میں اختلاف راے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ ایک طرف اخوان کو صفحۂ ہستی ہی سے مٹانے کا اہتمام ہورہا ہے، دوسری طرف ہر شکل میں، ہراختلافی راے اور ہرمدمقابل قوت کو دبانے پر بھی توجہ مرکوز ہے۔(دی نیویارک ٹائمز، ۱۸جون ۲۰۱۹ء)

مگر اب اظہارِ حقیقت کرنے کا فائدہ؟  ع

صبح دَم کوئی اگر بالاسے بام آیا تو کیا

مختصر یہ کہ جو عناصر اخوان المسلمون کے خلاف میدان میں لائے گئے تھے، خود وہ بھی موجودہ فوجی استبدادی حکومت کا نشانہ بن رہے ہیں اور اب اخوان اور ان کے مخالف سیکولر عناصر، دونوںمصری عقوبت خانوں میں یا مصر سے باہر مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
واضح رہے کہ صدر محمدمرسی کے زمانے میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ ان سے پہلے صدر   حسنی مبارک کے دور میں جنھیں سیاسی بنیادوں پر قید کیا گیا تھا، صدر مرسی نے ان کے لیے بھی    جیل کے دروازے کھول دیے تھے، اس بات کا لحاظ کیے بغیر کہ ان کی سیاسی یا مذہبی وابستگی کیا ہے، اور یہ ان کے اوّلین اقدام میں سے ایک تھا۔

اخوان المسلمون کا ’جرم‘

اخوان کو جس ’جرم‘ کی سزا دی گئی ہے، وہ اسلامی اور جمہوری اقدار سے ان کی وفاداری اور ہرقیمت پر مصر کے دستور کو اسلام، جمہوریت اور اجتماعی فلاح کی بنیاد بنانے، منصفانہ سیاسی اور معاشی نظام کی تشکیل اور تمام ریاستی اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رکھنے کی کوشش ہے۔ مصر کی قومی خودمختاری اور مسئلہ فلسطین کو انصاف، تاریخی اور زمینی حقائق، اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی بنیاد پر مستقل حل، اور فلسطینی سرزمین اور الاقصیٰ کو اسرائیلی قبضے سے نکالنے کے لیے پُرعزم ہونا اور ڈٹ جانا ہے۔ عرب اور اسلامی دنیا کے مسائل کا مل جل کر اور اپنے وسائل کے صحیح استعمال کے ذریعے حل اور دنیا میں ایک مبنی برانصاف معاشی نظام کا قیام ہے جس میں دولت چند ممالک اور چند ہاتھوں میں مرکوز نہ ہو اور وسائل تمام نسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے، غربت کو ختم کرنے اور سماجی فلاح کے لیے استعمال ہوں۔اس سلسلے میں صدرمحمد مرسی کی تقاریر بہت واضح ہیں اور ان تمام نکات کا جامع اور مؤثر استحضار ان کی اس یادگار تقریر میں موجود ہے، جو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر۲۰۱۲ء میں انھوں نے کی تھی (یہ تقریر یوٹیوب پر آج بھی سنی جاسکتی ہے)۔
صدر مرسی کی حکومت نے پہلے دن سے تہذیبوں، مذاہب اور ملکوں کے درمیان تصادم کے بجاے ایک دوسرے کے احترام کی بنیاد پر مکالمے اور بقاے باہمی کا تصور پیش کیا، اور عالمی سطح پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جو فکری اور تہذیبی جنگ جاری ہے، اسے ختم کرنا اپنا ہدف قرار دیا۔  حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات اور اسلام کی تعلیمات پر جو رکیک حملے کیے جارہے ہیں، ان پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا، ناموسِ رسالت کے سلسلے میں مسلمانوں کے عالمی احتجاج کی مکمل تائید کی اور اقوامِ متحدہ میں برملا اعلان کیا کہ اگر دنیا ہمارے نبیؐ، ہمارے دین اور ہماری اقدار کا احترام نہیں کرے گی، تو ہم سے اپنی تہذیب و ثقافت کے احترام کی توقع نہ رکھے۔ سب کے لیے سلامتی اور آشتی کا راستہ ایک ہی ہے کہ ہم سب مل جل کر تمام انسانوں، تمام علاقوں اور تمام تہذیبوں کا برابری کی بنیاد پر احترام کریں۔ سب کی طرف سے اپنے اپنے موقف کی پیش کاری اور اختلاف، علمی حدود کے اندر ہو، اور کسی کو بھی نفرت کی آگ بھڑکانے اور دوسروں کی تحقیر اور انھیں مشتعل (provocation) کرنے کی کھلی چھٹی حاصل نہ ہو۔ قومی اور بین الاقوامی، ہردائرے کی کچھ اخلاقی حدود ہیں، جن کا احترام ضروری ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے عالمی امن اور تعاون پروان چڑھ سکتا ہے۔
عالمی استعماری قوتیں ہوں یا وہ قومی اور مقامی عناصر، جن کے مفادات پر مندرجہ بالا پالیسی کے خطوطِ کار سے ضرب پڑتی ہے، وہ اخوان اور دوسری اسلامی تحریکات کا راستہ روکنے میں اپنی بقا دیکھتے ہیں، اور ’سیاسی اسلام‘ ، ’اسلامی انتہاپسندی‘ اور ’اسلامی ٹیررازم‘ کے نام پر اسلام اور اسلامی تہذیب کو ہدف بنا رہے ہیں۔ یہی خطرناک کھیل ہے جو مصر میں کھیلتے ہوئے سمجھا جا رہا ہے، وہ یہ کہ محض قوت اور جبرکے ذریعے اسلام کی نظریاتی اور تہذیبی لہر کوروکا جاسکتا ہے۔ 
اخوان المسلمون محض ایک تنظیم نہیں ہے، بلکہ ایک تصور اور نظریہ، ایک پیغام اور نظامِ حیات ہے، جو ایک طرف انسان کو اپنے ربّ سے جوڑتا ہے، تو دوسری طرف ربّ کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں پوری انسانی زندگی کی تشکیل، خیروفلاح، عدل و انصاف، حقوق کی پاس داری اور تعاون اور اخوت کی بنیادوں پر کرنا چاہتا ہے۔ افراد کو قیدوبند اور قتل و غارت گری کا نشانہ تو بنایا جاسکتا ہے، لیکن افکار اور نظریات کو تیروتفنگ اور جبرواستبداد سے ختم نہیں کیاجاسکتا۔ مصر میں اخوان کو گذشتہ ۸۰سال میں جس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سارے ظلم و استبداد کے باوجود اخوان ایک قوت ہیں اوران شاء اللہ رہیں گے، اس لیے کہ:
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا ،جتنا کہ دبا دیں گے
حسن البنا، عبدالقادر عودہ، سیّد قطب اور محمد مرسی مر کر بھی زندہ ہیں اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں اور خود کو فراعنہ کے فرزند قرار دینے والوں کا نام و نشان باقی نہیں ہے۔ کوئی اسرائیل سے شکست کھا کر ندامت کی موت مرا، کوئی اپنے ہی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنا، اور کوئی جیل اور ہسپتال کے درمیان ایڑیاں رگڑتا رہا ہے: فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ (الحشر ۵۹:۲) ’’پس عبرت حاصل کرو اے دیدئہ بینا رکھنے والو!‘‘
قاہرہ میں روزنامہ لاس اینجلس ٹائمز کی نامہ نگار سلمہ اسلام،۲۴ جون ۲۰۱۹ء کو صدرمرسی کی وفات اور اخوان پر پابندی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے قاہرہ کے ماحول کی عکاسی کرتی ہیں، جس میں جبرواستبداد کی گرفت ہے، اور وہ ماحول سب کو دعوتِ فکر دے رہا ہے:

قاہرہ کی گلیوں میں لوگ عام طور پر بے چین نظر آتے ہیں۔ اگر کسی سے سیاست بالخصوص حساس یا ممنوع موضوعات، یعنی اخوان المسلمون کے بارے میں راے لینے کی کوشش کی جائے تو جواب میں صرف بے چین نظریں دکھائی دیتی ہیں۔ وسطی قاہرہ میں سیّدہ زینب کے قرب میں، جب کوئی بھی فرد مرسی کی موت کے بارے میں اپنی راے دینے پر  راضی نہ ہوا تو ایک شخص نے جو بظاہر ۴۰برس کا لگتا تھا، دوٹوک انداز میں کہا: ’’ہم اس موضوع پر بات نہیں کرسکتے کیونکہ حکومت ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی‘‘۔ 

اپوزیشن رہنما، مصر کے تیسرے صدر محمدانور السادات کے بھتیجے نے [مرسی کی شہادت پر]کہا: ’اگرچہ اخوان المسلمون، حکومت کی نظر میں یقینا ’دشمن نمبر۱‘ ہے، مگر تاریخ شاہد ہے کہ اخوان المسلمون ایک نظریہ ہے، اور نظریے کے طور پر یہ کبھی نہیں مرسکے گی‘۔
کلیرمونٹ کے اسکرپس کالج میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر سومٹ پاہاوا کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ :

مرسی کی موت کو اخوان المسلمون کی قیادت اپنے وجود کو ایک شہید کے طور پر  نئی زندگی بخشنے کے لیے استعمال کرے گی....اخوان کے رہنما یہ توقع رکھتے ہیں کہ مرسی کی موت مصری عوام کے دلوں میں زیادہ ہمدردی پیدا کرے گی۔ اس لیے بھی کہ عوام ۲۰۱۳ء کے مقابلے میں آج حکومتی دبائو کے نتیجے میں زیادہ بے حال ہیں اور روزانہ بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی کا سامنا کررہے ہیں۔ ۲۰۱۳ء میں مرسی کی گرفتاری کے وقت اتنا زیادہ اشتعال نہیں تھا کہ جس کا اب مستقبل میں امکان ہے۔ (لاس اینجلس ٹائمز، ۲۴جون ۲۰۱۹ء)

امریکا کے مشہور صحافی اور کالم نگار ڈیوڈ ہرسٹ (David Hearst) نے وہاں کے جریدے Middle East Eye ( ۲۵جون۲۰۱۹ء) میں اخوان کے ایک مخالف اور سابق صدارتی اُمیدوار ایمن نُور کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

مرسی کی موت جس طرح واقع ہوئی ہے، اس سے بڑے پیمانے پر حکومت تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ دراصل مرسی کو چھے سال مسلسل ایک عمل کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے(Killed slowly over six years)اور حکومت کو اس کی پوری ذمہ داری اُٹھانی پڑے گی اور جواب دہی کرنا ہوگی۔

مرسی حکومت پر تنقید کی حقیقت

پروفیسر عبداللہ الاریان الجزیرہ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون: ’محمد مرسی: ایک مصری المیہ‘ میں مرسی حکومت کی کمزوریوں پر گرفت کرنے کے ساتھ بڑے مؤثرانداز میں ان عوامل کی بھی نشان دہی کرتے ہیں، جن کا مرسی حکومت کو مقابلہ کرنا پڑا اور جو گمبھیر مسائل کسی بھی حکومت کے لیے ناقابلِ تسخیر تھے:
تاہم، جو چیز مرسی کے دورِ اقتدار کے ایک متزلزل سال میں ان کے سخت ترین ناقد سمجھنے میں ناکام ہوگئے، درحقیقت وہ تشکیلی ڈھانچے سے متعلق رکاوٹیں تھیں، جو مصر کے  ان انقلابیوں کی صفوں میں سے کسی بھی شخصیت کو ناکامی کی بدنصیبی سے دوچار کر دیتے۔
مرسی کے بدقسمت دورِ صدارت کے اکثر تنقیدی جائزوں میں سے اُن چند در چند  عوامل و عناصر کا ذکر غائب تھا، جو مصر کی انقلابی تحریک کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے یکسو تھے (مثال کے طور:) سابقہ [حسنی مبارک کی آمرانہ] حکومت کے طاقت ور بیوروکریٹ جنھوں نے [مرسی کی] صدارتی پالیسیوں کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا، محدود طبقے کی حکومت سے متعلقہ وہ لوگ کہ جنھوں نے عوامی بے اطمینانی کو بڑھاوا دینے کے لیے توانائی کی کمی کا مصنوعی بحران پیدا کیا، ایک ایسی سیاسی حزبِ مخالف جس نے جب دیکھا کہ وہ مرسی کو یا ان کی جماعت کو انتخابات میں شکست نہیں دے سکے، تو انھوں نے مریضانہ ذہنیت کے ساتھ تخریبی کردار ادا کرنا شروع کردیا، وہ غیرملکی حکومتیں کہ جنھوں نے جوابی [فوجی] انقلاب کی مالی مدد کی، اور بلاشبہہ مصر کی مسلح افواج۔ یہ سب، انقلابی تبدیلی کے عمل کے دوران زیادہ تر مسائل و مشکلات پیدا کرتے رہے۔
اس پس منظر میں کوئی بھی، یقینا مرسی کی قیادت کی غلطیوں کی نشان دہی کرسکتا ہے، کلیدی فیصلوں کا ان کی طرف سے مناسب طور پر لوگوں تک ابلاغ کا نہ ہونا، اور پھر  یہ عدم صلاحیت کہ وہ ایک وسیع تر انقلابی اتحاد نہ تشکیل دے سکے۔ تاہم، اس یلغار کے باوجود، اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ حزبِ مخالف کی کوئی بھی شخصیت کامیاب ہوسکتی۔
اس گفتگو سے چند باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں:

  1. صدر مرسی اور ان کی حکومت کو جن حالات سے سابقہ تھا، وہ غیرمعمولی تھے اور اندرونی اور بیرونی مخالف قوتیں اور پورا نظام ان کے خلاف صف آرا تھا۔ انھوں نے بڑی حکمت اور محنت سے راستہ نکالنے کی کوشش کی، لیکن فوج،خفیہ ایجنسیاں، انتظامیہ، عدلیہ، مفادپرست اشرافیہ اور لبرل جمہوری اور سیکولر قوتوں کے گٹھ جوڑ اور بیرونی طاقتوںخصوصیت سے اسرائیل، امریکا اور چند عرب ممالک کی مشترکہ مزاحمت اور مخالفت نے صدرمرسی کی تعمیری اور پایدار کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا ۔ اس طرح مصر کی تاریخ کے ۹۱سال میں پہلی بار ایک حقیقی جمہوری انتخابی عمل کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کا تختہ اُلٹ کر پھرفوجی آمریت کا نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا۔
  2. اخوان کے لیے ایک سالہ اقتدار بلاشبہہ ایک نیا تجربہ تھا، مگر آمریت، فوجی حکمرانی، ریاستی جبر، قیدوبند، ظلم اور زیادتی کا نشانہ بننا ان کا پہلا تجربہ نہیں۔ وہ پہلے دن سے اور خصوصیت سے گذشتہ ۸۰برسوں سے انھی حالات سے گزر رہے تھے اور الحمدللہ، ہر دور میں اور ہرحال میں، ہرآزمایش میں وہ ثابت قدم رہے۔ انھوں نے قربانیوں اور استقامت کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں اور بیسویں اور اکیسویں صدی میں دعوتِ اسلامی اور اقامت ِ دین کی ہمہ گیر جدوجہد___ علمی، تربیتی ، اصلاحی، تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی، غرض ہر میدان میں خدمات انجام دی۔ پھر ہرقسم کے حالات میں اپنے لیے راستہ بنانے کی تابناک مثالیں قائم کیں۔ ہمیں یقین ہے اور یہی اللہ کا وعدہ ہے کہ جب اس کے بندے خلوص، دیانت، حکمت اور استقامت سے اس کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اس کے فرشتے شریکِ سفر بنتے ہیں اور بند دروازے کھلنے لگتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد اور تاریخ کی شہادت ہے کہ: اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰(حم السجدہ۴۱:۳۰) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے ، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔
  3. اخوان المسلمون محض ایک سیاسی جماعت نہیں ہے، ایک دینی تحریک اور نظریاتی جماعت ہے، جو عقیدے، عبادت اور اخلاق و تزکیے سے لے کر انسان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی کے ہرپہلو کو ایمان،اخلاق، حق اور انصاف کی بنیاد پر تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ ایسی نظریاتی تحریکات کو محض قوت اور جبر سے اور محض سیاسی انتقام اور تشدد اور عقوبت سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات سیکولر نظریاتی تحریکوں کے بارے میں بھی سچ ہے، لیکن اس کی اعلیٰ ترین مثال عقیدہ، اخلاق اور دین پر مبنی تحریک اخوان المسلمون اس کی ایک روشن ترین مثال ہے۔ 

اخوان المسلمون کی جہدِ مسلسل

اخوان المسلمون کی قوت کا اصل سرچشمہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان ہے۔اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت اور طریقے کو زندگی کا شعار بنانا اس کا اصل مطلوب ہے۔ نفس کا تزکیہ اور اخلاق و کردار کی تعمیر اس کا اہم ترین ہتھیار ہے۔ خاندان اور معاشرے کی اصلاح اس کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ خدمت اور حق و انصاف اور زندگی کےسارے معاملات کی صورت گری اس کی قوت کا ذریعہ ہے۔ سیاست اجتماعی زندگی میں اسی اخلاقی انقلاب کا ذریعہ ہے۔ اصل مقصود اللہ کی رضا، آخرت کی کامیابی اور جنّت کی تمنا ہے۔ یہ تمام پہلو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
فرد، معاشرہ، ریاست، انسانیت کی تعمیر اس کا ہدف ہیں، لیکن اس کی کامیابی کا اصل راز اور اس کی جدوجہد کا اصل ہدف اللہ کی رضا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی مرضی اور قانون کو جاری و ساری کرنے کی جدوجہد ہے۔ حسناتِ دنیا اور حسناتِ آخرت دونوں مطلوب ہیں، لیکن رضاے الٰہی کے ثمرات کی حیثیت سے۔ یہ چیز آزمایشوں میں استقامت کا ذریعہ بنتی ہے اور دُنیوی نشیب و فراز سے بے نیازی اور جہد ِ مسلسل کا شعار بناتی ہے۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے میں کلیدی کردار قرآن سے تعلق اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اتباع کا رشتہ ہے۔ اس ضمن میں، مَیں نے اخوان المسلمون کو تمام اسلامی تحریکات میں سب سے بہتر اور سب سے بلند پایا ہے۔ 
گذشتہ ۷۰برس میں مجھے ہرسطح پر اخوان کے ساتھیوں سے قریبی تعلق کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اخوان کے ہرکارکن کا قرآنِ عظیم سے جو تعلق میں نے دیکھا ہے،     وہ قابلِ رشک ہے۔ مصری معاشرے میں جو دینی اور اخلاقی تبدیلی گذشتہ ۹۰برسوں میں آئی ہے، اس میں دوسری تمام دینی قوتوں کی کوششوں کے ساتھ امام حسن البنا شہید اور اخوان المسلمون کا کردار سب سے زیادہ نمایاں اور روشن ہے۔ قرآن سے تعلق اور ایک دوسرے سے محبت اور خبرگیری،   یہ دو ستون ہیں جن پر اخوان کی تحریک قائم ہے۔ اخوت کا رشتہ، محبت اور خبرگیری کا رشتہ اور   بھائی چارے کی فضا، اخوان نے گھرگھر اور محلے محلے میں قائم کی ہے۔ فہم قرآن کے حلقے اور اسرہ کا نظام اخوان کی طاقت کا منبع ہیں اور جب تک یہ تعلق اور نظام موجود ہے، ان شاء اللہ ظلم کی کوئی قوت اس تحریک کو دبا نہیں سکتی، اور بقول جگر مراد آبادی:

یہ خوں جو ہے مظلوموں کا ، ضائع تو نہ جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں ،جو صرفِ بہاراں ہوتے ہیں

استقامت اور تحریک کے نظریاتی کردار کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اتنے ظلم و زیادتی، حقوق کی پامالی، ملک کے دستور اور قانون اور اصولِ انصاف سے رُوگردانی کے باوجود تحریک نے اینٹ کا جواب پتھر، اور تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ ہرظلم و زیادتی کو برداشت کرتے ہوئے قانون، اخلاق اور خود اپنے طے کردہ طریق کار سے انحراف کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحریک اپنے طریق کار کی صحت اور اخلاقی برتری پر یقین رکھتی ہے، اور بُرائی کے جواب میں بُرائی کے راستے کو اصولی اور اخلاقی طور پر غلط سمجھتی ہے۔ اسلامی تحریک کا طریقہ محض مصلحت، بدلہ اور انتقام نہیں بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور سب سے بڑھ کر قرآن کا یہ اصول ہے کہ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ  (فصلت۴۱: ۳۴) ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہے۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو، جو بہترین ہو‘‘۔
اخوان کی عظیم کامیابی ہے کہ ۸۰سال میں آزمایش کے تین ہولناک اور صبر آزما اَدوار میں جھونک دیے جانے کے باوجود، انھوں نے اپنے تعمیری، اخلاقی، اصلاحی، جمہوری اور عدم تشدد کے طریق سے سرِموانحراف نہیں کیا۔ اس کے باوجود اگر غصّے، ردعمل اور بدلے کے جذبے سے مغلوب ہوکر کسی نوجوان نے تحریک کے معروف طریقے سے ہٹنے کی کوشش کی، تو اس کا ہاتھ   روک دیا یا اس کو تنظیم سے خارج کر دیا۔ افسوس کہ مسلم حکومتوں، مقتدر طبقات اور مخالفین نے اس پہلو پر غور نہیں کیا حالانکہ اب تو اس بات کو غیر بھی محسوس کرنے اور اس کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں۔ 
نیویارک ٹائمز  ( ۱۹جون ۲۰۱۹ء) میں اس کے اسٹاف رائٹر پیٹر ہیسلر نے ، جو مصر پر ایک کتاب The Buried: An Archeology of The Egyption Resolution  کے مصنف ہیں، اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ: ’’سامراجی حکمرانوں کے خلاف ابتدائی دور میں اخوان کے   کچھ ارکان سیاسی تشدد کے مرتکب ہوئےہیں، اور اخوان کے رہنمائوں نے بالآخر ایسی حکمت عملی کو مسترد کر دیا اور عدم تشدد کے اصول کو اختیار کیا‘‘۔اخوان پر مظالم اور ریاستی تشدد کے تازہ دور کے پس منظر میں صاحب ِ مقالہ لکھتا ہے کہ:

یہ بات اہم ہے کہ حکومتی قیادت میں ہونے والے قاہرہ کے مختلف قتل عام اور ان کے نتیجے میں بچ جانے والوں اور (ان کے) رشتہ داروں میں سے بہت ہی کم افراد نے دہشت گردانہ عمل یا تشدد سے جواب دیا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات جزیرہ نما سینائی کے دُور دراز حصوں میں ہوئے، نہ کہ بالائی مصر کے گنجان آبادی والے حصوں میں، جو کہ ابتدائی نسلوں میں انقلابی اسلام کا گہوارارہے تھے۔ مصری حکومت نے اخوان پر ایک ’دہشت گرد گروہ‘ کے طور پر پابندی لگادی ہے لیکن اس کے پاس کوئی شہادت نہیں کہ اخوان نے متشددانہ مزاحمت کوچال کے طور پر اختیار کیا ہو۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اخوان جس طرح ماضی کے ہولناک اَدوارِ ابتلا سے صبرواستقامت کے ساتھ نبردآزما ہوئے، اسی طرح اس دور کا بھی مقابلہ کریں گے اور بالآخر  کامیابی کے ساتھ اپنی اصلاحی اور تعمیری سرگرمیوں کو ایک بار پھر چار چاند لگائیں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ بیرونی حلقوں سے بھی اب ایسی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔مثال کے طور پر سی این این کی ایک تازہ رپورٹ، جو صدرمرسی کی شہادت کے اگلے روز (۱۸جون ۲۰۱۹ء) شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں مصر کے حالات کا جائزہ لے کر آخری حصے میں کہا گیا ہے:

اور ابھی تک بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور آمرانہ من مانی ہلاکتوں کے باوجود، اخوان تحریک معدوم ہونے سے کوسوں دُور ہے۔اخوان ظلم و تعذیب سہنے کے عادی ہیں اور خدمت خلق کے لیے ان کا اپنا ایک بے مثل ڈھانچا ہے۔ جیساکہ ’کارنیگی رپورٹ‘ نے کہا ہے: ’’مصر کے سیاسی مقدّر کا تعین بدستور اس تصادم سے ہی ہوتا رہے گا جو حکومت اور اسلام پسندوں کے درمیان جاری ہے‘‘۔

اُمت مسلمہ کے نام

صدر محمد مرسی کی شہادت پر مسلمان عوام، دینی اور سیاسی جماعتوں اور متعدد حکمرانوں کا جو ردعمل سامنے آیا ہے، وہ اُمت مسلمہ اور عالمی سیاسی منظرنامے کے لیے ایک آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ترکی اور اس کے صدر طیب نے سب سے بڑھ کر اور قطر، حماس، ملائیشیا اور انڈونیشیا کی حکومتوں نے کھل کر اور چند دوسرے ممالک کے حکمرانوں نے صرف تعزیت کے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی حکومت تو خاموش ہے، مگر قومی اسمبلی نے دُعاے مغفرت اور پھر سینیٹ آف پاکستان نے ایک جان دار اور مفصل قرارداد کے ذریعے، جسے قائد ایوان اور قائد حزبِ اختلاف کے تعاون سے ۳۵ سینیٹروں  کے دستخطوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے پیش کیا اور سینیٹ نے متفقہ طور پر پاس کیا، وہ پاکستانی عوام کے دل کی آواز ہے۔ 
مسجد اقصیٰ سے لے کر دنیا کے ہراس ملک میں، جہاں مسلمان آباد ہیں، ہزاروں مقامات پرغائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرکے اُمت نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن عوام اور حکمرانوں اور مفاد پرست اشرافیہ کے درمیان بالعموم جو فاصلہ اور دُوری ہے، و ہ بہت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اسی طرح امریکا اور مغربی دنیا کے حکمرانوں، اور بااثر طبقات پر موت کا سکوت طاری رہا ہے، وہ چشم کشا ہے۔ حکمران ، دانش ور، صحافی اور انسانی حقوق کے علَم بردار جو ہر چھوٹے بڑے حادثے یا معاملے پر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، ان کی خاموشی یا پشت پناہی نے    ان کے دوغلے پن اور منافقت کا پردہ بھی بُری طرح چاک کردیا ہے۔بلاشبہہ مغربی دُنیا میں چند اداروں اور کچھ اصحابِ ضمیر نے غاصب مصری حکومت کے اس اقدامِ قتل کی مذمت بھی کی ہے، یا کم از کم افسوس کے اظہار کے ساتھ معاملے کی تحقیق کا برملا مطالبہ کیا ہے۔ ہم ان افراد اور اداروں کے لیے تحسین کے جذبات رکھتے ہیں، لیکن افسوس کہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔
امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا کے وہ حکمران اور سیاسی اور انسانی حقوق کے ان نام نہاد علَم برداروں کو (جو ہرگستاخِ رسولؐ کی حمایت میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں) صدرمرسی کے اس ظالمانہ قتل پر سانپ سونگھ گیا ہے۔ مغربی حکمرانوں اور لبرل ازم اور جمہوریت کے دعوے داروں کے دوغلے پن اور نفاق کا یہی مکروہ رویہ ہے جس کی وجہ سے عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے لوگ    ان کے دعوئوں پر یقین نہیں کرتے۔ جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے بارے میں ان کی نعرے بازی (sloganeering)کو بجاطور پر محض اقتدار اور مفاد کے کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ہم اس مضمون کو رابرٹ فسک کے ایک اقتباس پر ختم کرتے ہیں، جو روزنامہ انڈی پنڈنٹ اور کاؤنٹر پنچ میں شائع ہوا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ ’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘:
اے دیوتائو، محمد مرسی کی پنجرے میں ظالمانہ موت پر ہمارا ردعمل کیا ہی عمدہ تھا! شاید افسوس، پچھتاوے اور غم، نفرت، جبر اور خوف کے تمام الفاظ کو دُہرانا ایک تھکا دینے والا عمل ہو، جو مصر کے واحد منتخب صدر کی اس ہفتے قاہرہ کے کمرئہ عدالت میں موت کی کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کے کانوں میں انڈیلے گئے۔ ڈائوننگ سٹریٹ اور وائٹ ہائوس سے لے کر، جرمن چانسلری اور ایلسی پیلس تک اور کہیں ہم برلے مونٹ کو بھول نہ جائیں۔ ہمارے مدبروں اور ہماری خواتین نے ہماری خوب خاطرداری کی۔ مرسی کی موت پر ان کی پشیمانی اور احتجاجوں پر غور کرنا تو حقیقت میں ہمیں تھکا دے گا۔
کیونکہ یہ مطلقاً موجود ہی نہیں تھا۔ خاک اور دھول، کچھ بھی نہیں۔ نہ خاموشی اور نہ کوئی بڑبڑاہٹ، نہ کسی پرندے کی چہچہاہٹ، نہ کسی پاگل صدر کا کوئی ٹویٹر پیغام، یہاں تک کہ بالکل رسمی اور سرسری سے اظہارِ افسوس کا کوئی لفظ تک بھی نہیں۔ وہ جو ہماری نمایندگی کا دعویٰ کرتے ہیں،خاموش تھے، گنگ تھے۔ ان کی صدا اسی طرح روک دی گئی تھی جس طرح مرسی (کی صدا) کمرئہ عدالت میں اپنے سائونڈ پروف پنجرے میں۔ اور یہ نمایندے اسی طرح خاموش ہیں جس طرح مرسی اب اپنی قاہرہ کی قبر میں ہے۔
لیکن وہ کوئی بُرا آدمی اور کوئی دہشت گرد نہیں تھا۔ اس نے اپنے جانشین [جنرل سیسی] کی طرح ۶۰ہزار سیاسی قیدیوں کو بند نہیں کیا ہوا تھا۔ وہ جانشین کہ جسے وائٹ ہائوس میں موجود عظیم شخص کی طرف سے عظیم شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بات نوٹ کرنا مفید و سبق آموز رہے گا کہ اس انقلابِ مرسی کے ساتھ کتنا مختلف سلوک کیا گیا ہے۔ اسے قیدتنہائی میں ڈال دیا گیا، وہ اپنے خاندان سے بھی بات نہیں  کرسکتا تھا، اس کو طبی امداد سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اب اس گھنائونے سلوک کا ذرا اس سہولت و آسایش سے مقابلہ کرکے دیکھیں، جو اس [صدر مرسی] کے پیش رو [آمرمطلق] حسنی مبارک کو اپنی معزولی کے بعد حاصل رہی۔ مسلسل ہسپتال میں علاج معالجہ، خاندان کے لوگوں کی ملاقاتیں، عوامی ہمدردی کا اظہار، حتیٰ کہ اخبارات کو انٹرویو بھی۔ 
مرسی کے آخری الفاظ، جو اس نے اپنے دفاع میں کہے کہ:’مَیں مصر کا اب بھی صدر ہوں‘ ان کو مشینی انداز میں سائونڈ پروف پنجرے میں دبا دیا گیا۔ ہماری بے حوصلہ ذلت آمیز خاموشی نہ صرف مغرب میں عوامی عہدے داروں اور انتظامیہ کی شرمناک فطرت کا ثبوت ہے بلکہ یہ مشرق وسطیٰ کے ہر[ظالم]رہنما کی قطعی اور حتمی حوصلہ افزائی [کا اجازت نامہ ]بھی ہے، کہ اس کے بُرے افعال کی اسے کبھی سزا نہیں ملے گی۔ کوئی اس بارے میں سوچے گا بھی نہیں، انصاف کبھی نکھر کر سامنے نہیں لایا جائے گا اور تاریخ کی کتابوں کو کبھی پڑھا نہیں جائے گا۔
ان حالات میں اُمت مسلمہ کے لیے ایک ہی راستہ ہے___ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونا اور اپنے ایمان، اپنی آزادی، اپنی عزت، اپنے دین، اپنی تہذیب و ثقافت، اپنے معاشی مفادات، اپنی خودمختاری اور خودانحصاری کا تحفظ اور ترقی۔ صدر محمدمرسی کی شہادت ہمیں اگر غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بنے اور ہمیں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے سرگرم ہونے کے لیے مہمیز کا کام کرے، تو ان کی زندگی بھی قابلِ رشک تھی اور ان کی موت بھی قابلِ رشک ہے۔ بلاشبہہ وہ کامیاب ہیں اور دل گواہی دیتا ہے کہ ان کا شمار ان لوگوں میں سے ہوگا جن کے بارے میں خود زمین و آسمان کے خالق اور پروردگار نے بشارت دی ہے کہ:

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۝۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۝۲۳ۙ (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہدکو سچا کر دکھایا ہے، ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

یہی اللہ کے وہ نیک اور کامیاب بندے ہیں جو حق کے علَم بردار بن کر زندگی گزارتے ہیں جو ظلم کے ہر وار کو مردانہ وار سہتے ہیں اور زندگی کے آخری لمحے تک حق و انصاف، عدل و احسان، اطاعت ِ رب اور خیروفلاح کی سربلندی کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ جو نفسِ مطمئنہ کی چلتی پھرتی تصویر ہوتے ہیں، اور جنت جن کا انتظار کر رہی ہے!
 

جب سے مصر کے واحد منتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت کی خبر ملی، تو دنیا میں ان کے آخری لمحات کی تفصیل کا انتظار تھا۔ الحمدللہ، شہید کی اہلیہ محترمہ نجلاء محمد مرسی سے فون پر گفتگو ہوئی، اور پھر ان کے صاحبزادے احمد محمد مرسی سے بھی رابطہ ہوا،وہ بتارہے تھے کہ:
’’ ہمیں والد صاحب کی وفات کے دس گھنٹے بعد جیل میں ان کی میت کے پاس لے جایا گیا اور چہرے پر پڑی چادر ہٹائی گئی، تو ہم سب کو ایک دھچکا لگا، اور چہرے پر شدید تناؤ، غصّے اور بیماری کے اثرات نمایاں تھے۔ ہم نے مغفرت کی دُعائیں کرتے ہوئے، وہاں بڑی تعداد میں موجود فوجی اور پولیس افسروں سے کہا کہ وہ تجہیز و تکفین کے لیے اہل خانہ کو ان کے ساتھ اکیلے چھوڑ دیں، جسے انھوںنے مان لیا۔ اس ربّ کی قسم! جس نے یہ کائنات پیدا کی جیسے ہی جنرل سیسی کے      وہ گماشتے کمرے سے نکلے، ہم سب حیران رہ گئے کہ ابّو کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ تناؤ کی بجاے سکون اور پیلاہٹ کے بجاے نور طاری ہونے لگا۔ یہ کوئی ابّو کی کرامت نہیں، اللہ کی طرف سے ہم سب کے لیے بشارت اور ڈھارس کا سامان تھا۔ گویا ابّو نے صرف  اپنی حیات ہی میں ان جابروں کے سامنے جھکنے سے انکار نہیں کیا تھا، اپنی وفات کے بعد بھی وہ ان کے مظالم پر احتجاج کررہے تھے‘‘۔
’’گذشتہ تین برس سے قید میرے بھائی اسامہ محمد مرسی کو بھی تجہیز و تکفین اور جنازے میں شرکت کے لیے اسی اثناء میں اجازت دے دی گئی۔ ہم نے مل کر ابّو کو غسل دینا شروع کیا، ابّو کے چہرے پر اطمینان اور مسکراہٹ میں مسلسل اضافہ ہورہاتھا۔ ادھر ہم غسل و کفن دے کر فارغ ہوئے ادھر مؤذن نے فجر کی اذان بلند کی۔ یہ ہمارے لیے ایک اور بشارت تھی، کیونکہ ابّو نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، انھوں نے کبھی فجر کی اذان گھر میں نہیںسنی تھی۔ وہ اذان فجر سے کافی پہلے مسجد چلے جاتے تھے۔  اب وہ گذشتہ چھے سال سے قید تنہائی میں تھے، تو وہاں بھی خود ہی اذان دیتے اور خود ہی اکیلے باآواز بلند نماز ادا کرتے تھے۔ ہم اہل خانہ نے جیل میں باجماعت نماز فجر ادا کی، پھر اکیلے ہی وہیں ان کی نماز جنازہ پڑھی او رسخت فوجی پہرے میں ان کی میت لے کر قبرستان روانہ ہوگئے‘‘۔
’’ابّو کی وصیت تھی کہ انھیں ان کے بزرگوں کے ساتھ مصر کے ضلع شرقی کے آبائی گاؤںمیں دفن کیا جائے، مگر جنرل سیسی نے اس وصیت پر عمل درآمد کی اجازت نہ دی اور قاہرہ کے مضافات میں واقع النصر شہر کے قبرستان میں تدفین کا حکم سنایا۔ یہاں اللہ نے ہمیں ایک اور بشارت سے نوازا۔ ہم نے انھیں الاخوان کے سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف کے پہلو میں دفن کیا۔ ہم نے ابّو کو قبر میں لٹانے کے بعد آخری بار چہرہ دیکھا ،تو اب وہ بلا مبالغہ چودھویں کے چاند کی طرح دمک رہا تھا۔ ابّو کی تدفین کے لیے جیسے ہی مرحوم مرشد عام محمد مہدی عاکف کی قبر کھولی گئی تو اس دن کی آخری بشارت عطا ہوئی (واضح رہے کہ مصر میں قبریں زمین میں کھود کر نہیں، قبروں کے حجم کے چھوٹے کمرے بناکر اس کے کچے فرش پر میت سپرد خاک کر دی جاتی ہے اور دروازہ اینٹوں سے چُن دیا جاتا ہے)۔  دو سال قبل ابّو ہی کی طرح جیل میں بیماریوں اور حکمرانوں کی سفاکی کا شکار ہوکر جامِ شہادت نوش کرجانے والے مرشد عام کا جسد خاکی، دو سال بعد بھی بالکل اسی طرح تروتازہ اور کفن اسی طرح اُجلا اور سلامت تھا۔ ابّو کو ان سے خصوصی محبت تھی۔ ابّو سے ہماری آخری ملاقات گذشتہ سال ستمبر میں ہوئی تھی۔ صرف ۲۰ منٹ کی اس ملاقات میں بھی انھوں نے سب سے پہلے مرحوم محمد مہدی عاکف صاحب کی صحت کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ ہم نے جب انھیں بتایا کہ وہ تو تقریباً ایک سال قبل اللہ کو پیارے ہوگئے تھے، تو ابّو کو بہت دکھ ہوا۔ وہ ان کے لیے دُعائیں کرتے رہے اور پھر کہنے لگے ان شاء اللہ حوض نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اکٹھے ہوں گے۔ اب اللہ نے دونوں کو قبر میں بھی تاقیامت اکٹھا کردیا، ان شاء اللہ جنتوں میں بھی اکٹھے رہیں گے‘‘۔
مصر کے واحد منتخب صدر محمد مرسی کی وفات کے بعد ہر روز ان کی کوئی نہ کوئی نئی خوبی اور نیکی دنیا کے سامنے آرہی ہے۔ ان کی صاحبزادی شیما نے بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ: ’’صدر منتخب ہونے کے بعد وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کی عزت و وقار کے بارے میں پہلے سے بھی زیادہ حساس ہوگئے تھے۔ ایک روز نماز جمعہ کے لیے جانے کی تیاری کررہے تھے۔ اچانک ان کے سیکریٹری کا فون آیا کہ: ’’امریکی صدر اوباما کے دفتر سے فون آرہاہے، وہ ابھی اسی وقت ۱۰ منٹ کے لیے آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے دفتر والے بتارہے ہیں کہ پھر اس کے بعد صدر اوباما کے پاس وقت نہیں ہوگا‘‘۔ صدر محمد مرسی نے کہا: ’’انھیں بتادیں کہ اس وقت میرا اپنے اللہ سے ملاقات کا وقت طے ہے، اس وقت بات نہیں ہوسکتی۔ اگر آج ان کے پاس وقت نہیں ہے، تو میں بھی فارغ ہوکر جب وقت ہوگا انھیں اطلاع کروادوں گا۔ انھیں یہ بھی بتادیں کہ یہ رابطہ ۱۰ منٹ نہیں صرف پانچ منٹ کے لیے ہوسکے گا‘‘۔ اتنا کہہ کر ابّو نے فون بند کردیا۔ میں یہ سن کر اور ابّو کو دیکھ کر ہنس دی، تو وہ کہنے لگے کہ: ’’یہ لوگ ہمارے ساتھ غلاموں کی طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ اب مصر کو ایک آزاد مسلم ملک کی طرح جینا سیکھنا ہوگا‘‘۔
ایک جانب وہ عالمی طاقت کے سربراہ کے سامنے اس قدر خوددار تھے، تو دوسری جانب اپنے بھائیوں اور عام مسلمانوں کے سامنے اتنے ہی منکسر المزاج۔ اُردن کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ: ’’صدر محمد مرسی کی شہادت کے وقت میں جرمنی میں تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ پھولوں کے ایک چھوٹے سے کھوکھے کے باہر ان کی تصویر آویزاں ہے۔ مجھے تعجب ہوا اور میں کھوکھے کے اندر چلا گیا۔ اندر دیکھا تو اس دکان والے نے صدر مرسی کے ساتھ اپنی کئی اور تصاویر لگائی ہوئی تھیں۔ میں نے تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ صدر مرسی جرمنی کی دورے پر آرہے تھے۔ میں نے آمد سے ایک روز قبل سفارت خانے فون کرکے بتایا کہ میں فلاں کھوکھے کا مالک بول رہا ہوں۔ مصر کا ایک مسیحی ہوں اور صدر مرسی سے ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ سفارت خانے والوں نے میرا نمبر لے کر فون بند کردیا۔ اگلی صبح میں نے دکان کھولی تو اس وقت ششدر رہ گیا کہ صدر مرسی کسی پروٹوکول کے بغیر خود میرے کھوکھے کے باہر کھڑے تھے۔ مجھے لے کر ساتھ والے چائے خانے پر بیٹھ گئے اور پوچھا کہ کیوں یاد کیا تھا؟ میں نے کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ آپ کی جیت کے بعد مصر کے قبطی مسیحیوں کے بارے میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ کہنے لگے بیرون ملک مقیم ایک مسیحی بھائی کا پیغام ملنے پر میں خود حاضر ہوگیا ہوں تو بھلا مصر کی ۱۰ فی صد مسیحی آبادی کے بارے میں کیسے تساہل برت سکتا ہوں؟ بس اس کے بعد سے صدر محمد مرسی میرے ہیرو ہیں‘‘۔
امریکا میں دورانِ تعلیم ان کے رہایشی علاقے میں رہنے والے ایک سعودی دوست نے بتایا کہ: ’’امریکی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کے بعد انھیں اسی یونی ورسٹی میں تدریس کی شان دار ملازمت مل گئی۔ دوران تعلیم اور پھر یونی ورسٹی کے پروفیسر بن جانے کے بعد بھی، وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ نماز فجر سے پہلے مسجد آجاتے تھے۔ میاں بیوی مل کر مسجد کے طہارت خانوں سمیت مسجد کی صفائی کرتے، نماز تہجد پڑھتے اور باجماعت نماز فجر کے بعد گھر واپس جاتے۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ مؤذن یا امام صاحب بروقت نہ پہنچ پاتے تو حافظ قرآن محمد مرسی ہی اذان یا امامت کے فرائض انجام دیتے‘‘۔
شہید صدر کو یہ تواضع اور انکساری اپنے والدین سے حاصل ہوئی تھی۔ تمام اہل قصبہ باہم محبت میں گندھے ہوئے تھے۔ ان کے والد صاحب کا نام محمد تھا۔ اس نام سے انھیں اتنی محبت تھی کہ انھوں نے سب سے بڑے بیٹے کا نام بھی محمد ہی رکھا۔ ان کے تمام ذاتی کاغذات میں اور صدر منتخب ہونے کے اعلان کے وقت بھی جب ان کا مکمل نام پکارا گیا، تو یہی تھا: محمد محمد مرسی عیسٰی العیاط۔
۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۰ء میں ہونے والے انتخابات میں انھوں نے الاخوان المسلمون کی طرف سے حصہ لیا اور حسنی مبارک حکومت کی تمام تر دھاندلی کے باوجود رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ۲۰۰۵ء کے انتخابات میں پھر حصہ لیا۔ انھیں تمام اُمیدواران میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ ان کے اور دوسرے نمبر پر آنے والے اُمیدوار کے ووٹوں میں بہت واضح فرق تھا، لیکن حسنی مبارک انتظامیہ نے نتائج تسلیم کرنے کے بجاے، ان کے حلقے میں دوبارہ انتخاب کروادیے اور پھر ان کے بجاے ان سے ہارنے والے کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ دنیا کے بہترین پارلیمنٹیرین کا اعزاز پانے والے جناب محمد مرسی کا ’جرم‘ یہ تھا کہ گذشتہ دو اَدوار میں انھوں نے حکومتی وزرا کی کارکردگی اور ملک میں جاری کرپشن کا کڑا مؤاخذہ کیا تھا۔ انھوں نے ۲۰۰۴ء میں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک قومی پلیٹ فارم تشکیل دیا۔ جنوری ۲۰۱۱ میں جب مصری عوام کی   بے مثال قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں حسنی مبارک کا ۳۰ سالہ دور ختم ہوا، تو ڈاکٹر محمد مرسی نے ملک کی ۴۰ دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاتے ہوئے ’جمہوری اتحاد براے مصر‘ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۳۰ ؍اپریل ۲۰۱۱ء کو الاخوان المسلمون کی مجلس شوریٰ نے اپنی سیاسی جدوجہد کے لیے ’ آزادی اور انصاف پارٹی‘ کے نام سے الگ جماعت بنانے اور ڈاکٹر محمد مرسی کو اس کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس پارٹی نے تمام تر اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود پارلیمانی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی۔
ان کی دینی، سیاسی اور پارلیمانی صلاحیتوں کی طرح ان کی تعلیمی اور تدریسی صلاحیتوں کی شہرت بھی اتنی نمایاں تھی کہ جب ۱۹۸۵ء میں مصر واپس آکر الزقازیق یونی ورسٹی میں تدریس کی خدمات انجام دینے لگے، تو انھیں کئی عالمی یونی ورسٹیوں اور اداروں نے مشورے اور مختلف تحقیقی منصوبوں میں شرکت کے لیے مدعو کیا۔ خود ’ناسا‘ نے بھی مختلف تجربات میں انھیں شریک کیا۔
۳۰ جون ۲۰۱۲ء سے ۳ جولائی ۲۰۱۳ء تک کے اپنے ایک سالہ دور اقتدار میں،صدر محمدمرسی کو اصل مقتدر قوتوں کی طرف سے شدید مزاحمت اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک میں اچانک گیس اور تیل کا بحران کھڑا کردیا گیا۔ یہ مصنوعی بحران پیدا کرنے کے لیے کئی بار یہ ہوا کہ تیل سپلائی کرنے والے ٹینکروں کو صحرا میں لے جا کر ان کا تیل بہا دیا گیا۔ گیس کے سلنڈر اور چینی بڑے بڑے گوداموں میں ذخیرہ کردی گئی۔ ایک غیر جانب دار تحقیقی ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان کے دورِ اقتدار کے ایک سال کے دوران ان پر تین بار قاتلانہ حملوں کی سازشیں پکڑی گئیں۔ منظم مخالفانہ ابلاغی مہمات چلائی گئیں۔ پھر جب ان تمام سازشوں کے نتیجے میں مصری تاریخ کے اکلوتے منتخب صدر کا تختہ اُلٹ دیا گیا تو چند گھنٹوں میں لوڈشیڈنگ، گیس و پٹرول کی فراہمی سمیت سارے مسائل کسی جادوئی چھڑی سے حل ہونے لگے۔ چند نمایاں ممالک کی طرف سے بھی اربوں ڈالر اور مفت تیل کے عطیات کی بارش ہونے لگی۔   یہ الگ بات ہے کہ آج تک اربوں ڈالر وں کی جاری بارش کے باوجود مصر مسلسل تباہی اور ناقابلِ بیان اقتصادی بدحالی کا شکار ہے۔
صدر محمد مرسی نے اپنے ایک سالہ دور میں کرپشن، قومی خزانے سے لوٹ مار اور ظلم و جبر کے خاتمے اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے وہ بنیادی اقدام اُٹھائے تھے کہ اگر وہ اپنا عہدصدارت مکمل کرلیتے تو مصر اس وقت یقینا ایک جبر و استبداد اور تباہی و بدحالی کی علامت بن جانے کے بجاے آزادی و خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہوتا۔ یہی ان کا بنیادی جرم تھا۔ لیکن ان کا اصل اور سنگین جرم یہ تھا کہ وہ پڑوس میں واقع سرزمین قبلۂ اول پر صہیونی قبضہ کسی صورت تسلیم کرنے والے نہیں تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا وہ ویڈیو کلپ آپ آج بھی سن سکتے ہیں، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہم نے صدر مرسی سے رابطہ کرکے معاملات طے کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن انھوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کردیا۔ پھر ہم نے ’مصری دوستوں‘ کے ساتھ مل کر ان کا تختہ اُلٹ دیا‘‘۔
صدر محمد مرسی نے اپنے ایک سالہ دور اقتدار ہی میں ملک کو وہ دستور دیا، جس کی تیاری میں بلامبالغہ ملک کے تمام نمایندوں کو شریک کیا گیا۔ ۱۰۰ رکنی دستوری کونسل نے ایک ایک شق پر باقاعدہ ووٹنگ کرواتے ہوئے ۲۳۶ شقوں پر مشتمل دستوری مسودہ تیار کیا۔ اصل مقتدر قوتوں کی سرپرستی میں اس کے خلاف بھی طوفان کھڑا کردیا گیا۔ سپریم دستوری عدالت نے نومنتخب قومی اسمبلی صدارتی انتخاب سے چند گھنٹے قبل تحلیل کردی۔ اب سازش یہ تھی کہ نہ صرف نومنتخب سینیٹ بھی توڑ دی جائے، بلکہ صدر کا انتخاب بھی چیلنج کرتے ہوئے ملک و قوم کی سب قربانیاں خاک میں ملادی جائیں۔ اس موقعے پر مجبور ہوکر صدر نے ایک چار نکاتی آرڈی ننس جاری کیا، جس کے اہم ترین نکات دو تھے۔ عوامی ریفرنڈم کے ذریعے دستور کی منظوری تک سینیٹ کو نہیں توڑا جاسکتا اور دستور منظور ہونے تک صدر کے کسی فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ بس اسی آرڈی ننس کو آج تک بعض لوگ صدر مرسی اور اخوان کی فرعونیت کا الزام لگاتے ہوئے جھوٹے پروپیگنڈے کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ صدر نے دستوری کونسل کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ ان کی عدم موجودگی میں اس آرڈی ننس کاجائزہ لے کر جو بھی فیصلہ کرے گی، انھیںمنظور ہوگا۔ کونسل نے آرڈی ننس منسوخ کرنے کی سفارش کی تو صدر نے آرڈی ننس منسوخ کردیاتھا۔
شہید صدر کی اہلیہ نے درست کہا کہ بظاہر صدر محمد مرسی کو چھے سال قید تنہائی اور مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن عملاً انھوںنے سات سال یہ ظلم و ستم برداشت کیا۔ صدارت کا ایک سال بھی درحقیقت قید ہی کا ایک سال تھا۔
المیہ یہ ہے کہ مصر کو خاک و خون میں نہلادینے اور ناکامی و نامرادی کی بدترین مثال بنادینے والے حکمران اس موقعے پر بھی شہید صدر پر اعتراضات کا وہی راگ الاپ رہے ہیں۔ میرے سامنے اس وقت مصری وزیر اوقاف کی طرف سے مساجد کے تمام ائمہ و خطبا کے نام جاری حکم نامے کی کاپی پڑی ہے۔ حکم یہ جاری کیا گیا ہے کہ: ’’خطبۂ جمعہ میں سابق صدر محمدمرسی کے جرائم پر تفصیل سے بات کی جائے، اور بلند آواز میں ان کے لیے بددُعائیں کی جائیں، تاکہ اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو‘‘۔ تمام عمر قرآن کے زیر سایہ گزارنے والا صدر محمد مرسی تو اب ان ظالموں کے ہرستم سے آزاد و بالاتر ہوگیا لیکن یہ حکم نامہ خود ان ظالم حکمرانوں اور ان کے بدقسمت دلالوں کا قبیح چہرہ بے نقاب کررہا ہے۔
مصری عوام کو صدر محمد مرسی کی نماز جنازہ کی اجازت نہیں دی گئی،لیکن وہ شاید تاریخ حاضر کی اکلوتی شخصیت ہیں کہ دنیا بھر میں لاکھوں نہیں کروڑوں اہل ایمان نے جن کی غائبانہ نمازِ جنازہ  سب سے زیادہ مرتبہ ادا کی۔ بددُعاؤں کا سرکلر جاری کرنے والے وزیر اور اس کے روسیاہ آقا جنرل سیسی کو شاید یاد نہیں رہا کہ دُعا اور بددُعا کا تعلق سرکلر سے نہیں، دلوں سے ہوتا ہے اور آج اللہ نے دنیا بھر میں اپنے شہید بندے کے لیے محبت و احترام کی ہوائیں چلا دی ہیں۔ یہی اس کا وعدہ بھی ہے: اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۝  (مریم۱۹: ۹۶) ’’یقینا جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کررہے ہیں عنقریب رحمٰن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کردے گا‘‘۔
ایک اہم اور تلخ ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ مظلوم صدر محمد مرسی تو اپنی نیکیوں اور خطاؤں سمیت اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ اب وہ ہر طرح کے ظلم و ستم سے بھی نجات پاگئے، لیکن اس لمحے بھی مصر کی جیلوں میں ۶۰ ہزار سے زائد بے گناہ قدسی نفوس گذشتہ چھے سال سے بدترین مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میںعالمی جامعات سے فارغ التحصیل اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حفاظ کرام بھی شامل ہیں۔ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور خواتین بھی۔ اب تک ان میں سے ۹۰۰کے قریب قیدی تشدد اور مظالم کی وجہ سے شہید ہوچکے ہیں۔ یہ ۶۰ ہزار فرشتہ سیرت انسان عالمی ضمیر کے منہ پر مصری آمر کی جانب سے ایک طمانچہ ہیں۔ کیا حقوق انسانی، توہین رسالت تک کی اجازت چاہنے کے لیے آزادیِ راے کی دہائیاں دینے والے عالمی ادارے، اس پر بھی زبان کھولیں گے؟
 

کئی سال سے مسلسل یہ دیکھا جارہا ہے کہ ہربقرعید کے موقعے پر اخبارات اور رسالوں کے ذریعے سے بھی اور اشتہاروں اور پمفلٹوں کی صورت میں بھی، قربانی کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان اُٹھایا جاتا ہے، اور ہزاروں بندگانِ خدا کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا جاتا ہے کہ: ’’یہ کوئی دینی حکم نہیں ہے بلکہ ایک غلط اور نقصان دہ رسم ہے، جو ملاؤں نے ایجاد کرلی ہے‘‘۔
اس وسوسہ اندازی کے خلاف قریب قریب ہرسال ہی علما کی طرف سے مسئلے کی پوری وضاحت کر دی جاتی ہے۔ قربانی کے ایک حکمِ شرعی ہونے اور مسنون اور واجب ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں، اور مخالفین کے استدلال کی کمزوریاں کھول کر رکھ دی جاتی ہیں۔ لیکن ہرمرتبہ    یہ سب کچھ ہوچکنے کے بعد، دوسرے سال پھر دیکھا جاتا ہے کہ وہی لگی بندھی باتیں، اسی طرح دُہرائی جارہی ہیں۔ گویا نہ کسی نے قربانی کے مشروع [یعنی شریعت کے مطابق]ہونے کا کوئی ثبوت دیا اور نہ اس کے خلاف دلیلوں کی کوئی کمزوری واضح کی، بلکہ [بعض افراد نے] تو ایک قدم اور آگے بڑھا کر حکومت کو بے تکلف یہ مشورہ دے دیا ہے کہ: ’وہ قربانی کو ازروے قانون محدود کرنے کی کوشش کرے‘۔


  • آج سے ۶۰ برس پہلے، جب کھلے اور چھپے میں، کچھ مغرب زدہ یا تحریف دین کی خواہش رکھنے والے عناصر نے ’بقرعید‘ کے موقعے پر قربانی کے ’غیرضروری‘ ہونے کی باتیں شروع کیں، تو مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور نے اس پروپیگنڈے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے یہ تحریر بطور ’اشارات‘ لکھی ایک مدت تک مخالف محاذ پر خاموشی چھائی رہی۔ افسوس کہ آج ۶۰برس گزرنے کے بعد میڈیا، سوشل میڈیا پہ وہی عناصر قربانی کے حوالے سے اسی نوعیت کی گفتگوئیں پیش کر رہے ہیں، اس کی مناسبت سے یہ تحریر مطالعے کے لیے پیش ہے۔ ادارہ

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جو [اگست ۱۹۴۷ء] تک متحدہ ہندستان کا ایک حصہ تھا۔ ہماری سرحد کے اُس پار ہمارے کروڑوں دینی بھائی اب بھی سابق متحدہ ہندستان کے اُس حصے میں موجود ہیں، جس سے ہم الگ ہوئے تھے۔ ان کو آج بھی اُسی قوم سے سابقہ درپیش ہے جس سے کبھی ہم کو درپیش تھا، بلکہ وہ آج تقسیم سے قبل کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ کمزوری اورمغلوبی کی حالت میں مبتلا ہیں۔ اُن پر جس قوم کو غلبہ حاصل ہے، وہ سالہا سال سے گائے کی قربانی پر ہمارے ساتھ سر پھٹول کرتی رہی تھی، اور تقسیم کے بعد جب اسے مسلمانوں پر پورا قابو حاصل ہوا تو اس نے سب سے پہلے ان کو اسی حق سے محروم کیا۔
اب یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ پاکستان جو ہندو تہذیب و تمدن کے تسلط سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کو بچانے کے لیے بنا تھا، وہی آگے بڑھ کر ہندستان کے ہندوئوں کو یہ رہنمائی دے کہ: ’’مہاراج! گائے کی قربانی کیسی؟ آپ تو ہرقسم کی قربانی ازروے قانون بند کرسکتے ہیں۔ یہ چیز سرے سے شعائر اسلام میں داخل ہی نہیں ہے کہ اسے روک دینے پر آپ کو کسی مذہبی تعصب کا الزام دیا جاسکے۔ حق بجانب وہ مسلمان نہیں ہے جو اسے اپنا مذہبی حق کہہ کر اس پر اصرار کرتا ہے، بلکہ وہ ہندو ہے جو اِس غیر مذہبی رسم سے اس کو باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں تو پاکستان میں اس جاہل مسلم اکثریت سے سابقہ ہے، اس لیے یہاں ہم بربناے احتیاط بتدریج اسے محدود کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ آپ کو تو کسی کا ڈر نہیں ہے۔ آپ یک قلم اسے مسدود فرما دیں۔ اس معاملے میں شریعت ِاسلام، مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ آپ کے ساتھ ہوگی!‘‘
کس قدر جلدی بُھولے ہیں ہم اُس حالت کو، جس سے خدا نے ہمیں نکالا اور جس میں ہمارے کروڑوں بھائی اب بھی مبتلا ہیں۔ شاید برطانوی ہند میں ہندوئوں سے ہماری کش مکش صرف اس لیے تھی کہ اپنی تہذیب کا جھٹکا دوسروں سے کرانے کے بجاے ہم خود اسے حلال کرنا چاہتے تھے۔

تفرقے کو ہوا دینے کی کوشش

مسلمانوں میں اختلافات کی پہلے ہی کوئی کمی نہ تھی۔ یہ تفرقوں کی ماری ہوئی قوم فی الواقع رحم کی مستحق تھی۔ کسی کے دل میں اس کے لیے خیرخواہی کا جذبہ موجود ہوتا تو وہ یہ سوچتا کہ اس کے اختلافات میں اتفاق کی کوئی راہ دریافت کرے۔ لیکن یہاں حال یہ ہے کہ جو لوگ خیرخواہی کے ارادے یا دعوے سے اُٹھتے ہیں، وہ ان چیزوں میں بھی اختلاف کی راہیں نکال رہے ہیں، جن میں خوش قسمتی سے مسلمانوں کے درمیان ابتدا سے آج تک اتفاق موجود ہے۔ گویا ان حضرات کے نزدیک دین کی اصل خدمت اور ملّت کی صحیح خیرخواہی یہ ہے کہ متفق علیہ مسائل کو بھی کسی نہ کسی طرح اختلافی بنادیا جائے، اور کوئی چیز ایسی نہ چھوڑی جائے جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ سب مسلمان اس میں متفق ہیں۔
قربانی کا مسئلہ ایسے ہی متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔ پہلی صدی ہجری کے آغاز سے آج تک مسلمان اس پر متفق رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی پوری چودہ صدیوں میں آج تک اس کے مشروع اور مسنون ہونے کے بارے میں اختلاف نہیں پایا گیا ہے۔ اس میں ائمہ اربعہ اور    اہلِ حدیث متفق ہیں۔ اس میں شیعہ اور سُنّی متفق ہیں۔ اس میں قدیم زمانے کے مجتہدین بھی متفق تھے اور آج کے سب فرقے بھی متفق ہیں۔ اب یہ تفرقہ و اختلاف کا شیطانی ذوق نہیں تو اور کیاہے کہ کوئی شخص ایک نرالی بات لے کر اُٹھے اور اس متفق علیہ اسلامی طریقے کے متعلق بے چارے عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرے کہ یہ ’تو سرے سے کوئی اسلامی طریقہ ہی نہیں ہے‘۔
پھر یہ اختلاف بھی کسی معمولی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک بہت بڑی فتنہ انگیز بنیاد پر اُٹھایا گیاہے۔  یعنی سوال یہ چھیڑا گیا ہے کہ: ’یہ بقرعید کی قربانی آخر تم کس سند (authority ) پر کرتے ہو،  قرآن میں تو اس کا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے؟‘ دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہوا کہ: ’اسلام میں سند   صرف ایک قرآن ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کوئی سند نہیں ہے‘۔ حالانکہ جس خدا نے قرآن نازل کیا ہے، اسی نے اپنا رسولؐ بھی مبعوث کیا تھا۔ اس کا رسولؐ اسی طرح ایک اتھارٹی ہے، جس طرح اس کی کتاب۔
اس کے رسولؐ کی اتھارٹی کسی طرح بھی اس کی کتاب کی اتھارٹی سے کم نہیں ہے۔ نہ وہ کتاب کے ساتھ کوئی ضمنی حیثیت رکھتی ہے، نہ اس کے ذریعے سے دیے ہوئے کسی حکم کے لیے قرآن کی توثیق کسی درجے میں بھی ضروری ہے، بلکہ حق تو یہ ہے کہ قرآن جس کی سند پر کلام اللہ مانا گیا ہے وہ بھی رسولؐ ہی کی سند ہے۔ اگر رسولؐ نے یہ نہ بتایا ہوتا کہ: ’یہ قرآن، خدا نے اس پر نازل کیا ہے، تو ہمارے پاس نہ یہ جاننے کا کوئی ذریعہ تھا اور نہ یہ ماننے کی کوئی وجہ تھی کہ یہ کتاب خدا کی کتاب ہے۔ اب یہ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ جو حکم رسولؐ نے دیا ہو اور جس طریقے پر رسولؐ نے خود عمل کیا اور اہلِ ایمان کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہو، اس کے متعلق یہ کہا جائے کہ: ’اس کا حکم قرآن میں ہو تو ہم مانیں گے، ورنہ پیروی سے انکار کردیں گے؟‘___ اس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ: ’خدا کی کتاب تو واجب الاتباع ہے مگر خدا کا رسولؐ واجب الاتباع نہیں ہے‘۔

رسالت کا غلط تصور

یہ بات حقیقت کے خلاف بھی ہے اور سخت فتنہ انگیز بھی۔
حقیقت کے خلاف یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ محض ایک ڈاکیہ بنا کر نہیں بھیجا تھا کہ: ’آپ کا کام اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دینے کے بعد ختم ہوجائے اور اس کے بعد بندے، اللہ کے نامۂ گرامی کو لے کر جس طرح ان کی سمجھ میں آئے، اس کی تعمیل کرتے رہیں‘۔
خود قرآن کی رُو سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی نوعیت کفّار کے لیے الگ اور اہلِ ایمان کے لیے الگ ہے۔ کفّا رکے لیے آپؐ بے شک صرف مبلّغ اور داعی الی اللہ ہیں، مگر جو لوگ ایمان لے آئیں، ان کے لیے تو آپؐ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے مکمل نمایندے ہیں۔ آپؐ کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے، مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ج [النساء۴:۸۰]۔ آپؐ کے اتباع کے سوا اللہ کی خوشنودی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں، قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ   [اٰلِ عمرٰن۳:۳۱]۔اللہ نے آپؐ کو اپنی طرف سے معلّم، مربی، رہنما، قاضی، امروناہی اور حاکمِ مطاع، سب کچھ بنا کر مامور فرمایا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے عقیدہ و فکر، مذہب و اخلاق، تمدن و تہذیب، معیشت و سیاست، غرض زندگی کے ہرگوشے کے لیے وہ اصول، طریقے اور ضابطے مقرر کریں، جو اللہ کی پسند کے مطابق ہوں۔ اور مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ جو کچھ آپؐ نے سکھایا اور مقرر کیا ہے، اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ رسولؐ اللہ جو حکم دیں اس پر ان سے سند طلب کرے۔ رسول ؐ اللہ کی ذات خود  سند ہے۔ اس کا حکم بجاے خود قانون ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی مسلمان یہ سوال کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ جو حکم رسولؐ نے دیا ہے اس کا حوالہ قرآن میں ہے یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کوئی ہدایت خواہ اپنی کتاب کے ذریعے سے دے یا اپنے رسولؐ کے ذریعے سے، سند اور وزن کے اعتبار سے دونوں بالکل یکساں ہیں اور قانونِ الٰہی ہونے میں ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

منصبِ رسالتؐ پر حملہ

بالکل غلط کہتا ہے جو کہتا ہے کہ: ’محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور فیصلوں اور ہدایات کی قانونی حیثیت صرف اپنے عہد کے رئیس مملکت (Head of the State) ہونے کی بناپر تھی، یعنی جب آپ رئیسِ مملکت تھے اس وقت آپؐ کی اطاعت واجب تھی اور اب جو [فرد] رئیسِ مملکت یا ’مرکز ملّت‘ ہوگا، اس کی اطاعت اب واجب ہوگی۔ یہ [منصب ِ] رسالت کا بدترین تصور ہے جو کسی شخص کے ذہن میں آسکتا ہے۔ اسلامی تصورِ رسالت سے اس کو دُور کا واسطہ بھی نہیں:

  •  رئیسِ مملکت کے منصب کو آخر رسولؐ کے منصب سے کیا نسبت ہے؟ اس [یعنی رئیس مملکت]کو عام مسلمان منتخب کرتے اور وہی معزول کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ حالانکہ رسولؐ کو خدا مقرر کرتا ہے اور خدا کے سوا کسی کو اسے معزول کرنے کا اختیار نہیں۔
  • رئیسِ مملکت جس علاقے کا رئیس ہو، اور جب تک اس منصب پر رہے، صرف اسی علاقے میں، اسی وقت تک اس کو رئیس ماننا واجب ہے اور پھر بھی اس پر ایمان لانے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی اُسے نہ مانے تو ملّت ِ اسلام سے خارج ہوجائے۔ حالانکہ رسولؐ جس آن مبعوث ہوا، اس وقت سے قیامت تک دنیا میں کوئی شخص اس پر ایمان لائے بغیر ملّت اسلامیہ کا فرد نہیں بن سکتا۔
  • رئیسِ مملکت کو آپ دل میں بُرا جان سکتے ہیں، اس کو برملا بُرا کہہ سکتے ہیں، اس کے   قول و فعل کو علانیہ غلط کہہ سکتے ہیں، اور اس کے فیصلوں سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ لیکن رسولؐ کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرنا تو درکنار، اس کا خیال بھی اگر دل میں آجائے تو ایمان سلب ہوجائے۔
  •    رئیسِ مملکت کے حکم کو ماننے سے آپ صاف انکار کرسکتے ہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ بس ایک جرم ہوگا، مگر رسولؐ کے حکم کو اگر یہ جاننے کے بعد کہ وہ رسولؐ کا حکم ہے، آپ ماننے سے انکار کردیں تو قطعی خارج از اسلام ہوجائیں۔ اس کے حکم پر تو آپ چون و چرا تک نہیں کرسکتے، بلکہ اس کے خلاف دل میں کوئی تنگی تک محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔
  •    رئیسِ مملکت عوام کا نمایندہ ہے اور رسولؐ اللہ کا نمایندہ۔
  •   رئیسِ مملکت کی زبان قانون نہیں ہے، بلکہ اُلٹا قانون اس کی زبان پر حاکم ہے، مگر رسولؐ اللہ کی زبان قانون ہے، کیونکہ خدا اسی زبان سے اپنا قانون بیان کرتا ہے۔ 

اب یہ کیسا سخت طغیانِ جاہلیت ہے کہ رسولؐ کو محض ایک علاقے اور زمانے کے رئیسِ مملکت کی حیثیت دے کر کہا جائے کہ: ’اس کے دیے ہوئے احکام اور ہدایات بس اسی زمانے اور علاقے کے لوگوں کے لیے واجب الاتباع تھے، آج ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں‘۔

ملّت اسلامیہ کی اساس پر زد

یہ تو ہے حقیقت کے خلاف اس تصور کی بغاوت۔ اب ذرا اس کی فتنہ انگیزی کا اندازہ کیجیے۔ آج جس چیز کو آپ اسلامی نظامِ حیات اور اسلامی تہذیب و تمدن کہتے ہیں، جس کے اصولوں اور عملی مظاہر کی یکسانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک ملّت بنا رکھا ہے، جس کی یک رنگی نے مسلم کو مسلم سے جوڑا اور کافر سے توڑا ہے، جس کی امتیازی خصوصیات نے مسلمانوں کو ساری دنیا میں غیرمسلموں سے ممیز کیا اور سب سے الگ ایک مستقل اُمت بنایا ہے، اس کا تجزیہ کرکے   آپ دیکھیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کا کم از کم ۱۰/۹ حصہ وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقتدارِ رسالت سے مسلمانوں میں رائج کیا ہے، اور بمشکل ۱۰/۱  حصہ ایسا ہے جس کی   سند قرآن میں ملتی ہے۔ پھر اس ۱۰/۱  کا حال بھی یہ ہے کہ اگر اس پر عمل درآمد کی وہ صورت    شریعت ِ واجب الاتباع نہ ہو، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے تو دنیا میں مختلف مسلمان___  افراد بھی اور گروہ بھی اور ریاستیں بھی___ اس پر عمل درآمد کی اتنی مختلف شکلیں تجویز کرلیں کہ ان کے درمیان کوئی وحدت و یک رنگی باقی نہ رہے۔
اب خود اندازہ کرلیجیے کہ اگر وہ سب کچھ ساقط کردیا جائے ، جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے رواج دینے سے مسلمانوں میں رائج ہے، تو اسلام میں باقی کیا رہ جائے گا، جسے ہم اسلامی تہذیب و تمدن کہہ سکیں اور جس پر دنیا بھر کے مسلمان مجتمع رہ سکیں؟
مثال کے طور پر دیکھیے۔ یہ اذان جو دنیا بھر میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ نمایاں ملّی شعار ہے، جسے روے زمین کے ہرگوشے میں ہر روز پانچ وقت مسلم اور کافر سب سنتے ہیں، اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے مقرر اور رائج کیا ہے۔ قرآن میں اس کا کوئی حکم نہیں۔ نہ وہ اس کے الفاظ بتاتا ہے، نہ یہ حکم دیتا ہے کہ روزانہ پانچ وقت نمازوں سے پہلے یہ پکار بلند کی جائے:

  •   اس میں ایک جگہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ: اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ [الجمعۃ ۶۲:۹]’’جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے روز تو دوڑو اللہ کی یاد کی طرف‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ پکار سن کر دوڑنے کا حکم ہے، خود اس پکار کا حکم نہیں ہے۔
  •    دوسری جگہ اہلِ کتاب کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ: وَاِذَا نَادَيْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا ط[المائدہ ۵:۵۸]’’جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو تو وہ اسے مذاق اور کھیل بنالیتے ہیں‘‘۔ یہ سرے سے کوئی حکم ہی نہیں ہے بلکہ صرف ایک رائج شدہ چیز کا مذاق اُڑانےپر ’اہلِ کتاب‘ کی مذمت کی جارہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر وہ اختیار و اقتدار جس نے اس اذان کے الفاظ مقرر کیے اور اسے مسلمانوں میں رواج دیا، دائمی اور عالم گیر شریعت مقرر کرنے کا مجاز نہ ہوتا، تو کیا صرف ان دو آیتوں کی بنیاد پر آج دنیا میں آپ اذان کی آواز کہیں سن سکتے تھے؟
خود یہ نماز باجماعت جس کے لیے اذان دی جاتی ہے، اور یہ نمازِ جمعہ جس کی پکار سن کر دوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، اور یہ عیدین جو ہزارہا مسلمانوں کو اکٹھا کرتی ہیں، اور یہ مسجدیں جو دنیابھر میں مسلم معاشرے کی اجتماعی زندگی کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتی ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہو۔ قرآن صرف نماز کا حکم دیتا ہے ، باقاعدہ نماز باجماعت ادا کرنے کا کوئی صاف حکم نہیں دیتا۔ جمعہ کی نماز کے لیے وہ صرف یہ کہتا ہے کہ جب اس کے لیے پکارا جائے تو دوڑ پڑو۔ اسے خود نمازِ جمعہ قائم کرنے کا حکم مشکل ہی سے کہا جاسکتا ہے۔ عیدین کی نمازوں کا تو سرے سے اس میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ رہیں مسجدیں تو ان کے احترام کا حکم ضرور قرآن میں دیا گیا ہے، مگر یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ: ’اے مسلمانو! تم اپنی ہربستی میں مسجد تعمیر کرو اور اس میں ہمیشہ نمازِ باجماعت قائم کرنے کا اہتمام کرو‘۔ یہ ساری چیزیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس اختیار واقتدار کی بنا پر ، جس کے ساتھ اللہ نے آپؐ کو شارع مقرر کیا تھا، مسلمانوں میں رائج کی ہیں۔ اگر یہ اختیارواقتدار مسلّم نہ ہوتا، تو اسلام کے یہ نمایاں ترین شعائر جن کا مسلمانوں کو مجتمع کرنے اور ایک یک رنگ اُمت بنانے اور اسلامی تہذیب کی صورت گری کرنے میں سب سے زیادہ حصہ ہے، کبھی قائم نہ ہوتے اور مسلمان آج مسیحیوں سے بھی زیادہ منتشر و پراگندہ ہوتے۔
یہ صرف سامنے کی چند مثالیں ہیں۔ ورنہ تفصیل کے ساتھ دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ایک کتاب ہی ملی ہوتی اور اس کے ساتھ اللہ کے رسولؐ نے آکر انفرادی زندگی سے لے کر خاندان، معاشرے اور ریاست تک کے معاملات میں ہمارے لیے تہذیب کی ایک متعین صورت نہ بنا دی ہوتی، تو آج ہم ایک ممتاز عالم گیر ملّت واحدہ کی حیثیت سے موجود نہ ہوتے۔ اب جو شخص اس رسالتؐ کی شرعی حیثیت اور اس کی قانونی سند کو چیلنج کرتا ہے، اس کے اس چیلنج کی زد ایک ’قربانی‘ کے مسئلے یا دوچار منفرد مسئلوں پر نہیں پڑتی، بلکہ اسلامی تہذیب کے پورے نظام اور ملّت اسلامیہ کی اساس و بنیاد پر پڑتی ہے۔ جب تک ہم بالکل خودکشی پر آمادہ نہ ہوجائیں، ہمارے لیے کسی کی یہ بات ماننا محال ہے کہ: ’جس چیز کی سند قرآن میں ملے بس وہی باقی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سند پر جتنی چیزوں کا مدار ہے وہ سب ساقط کردی جائیں‘۔

سنت، قرآن کی عملی تشریح ہے!

اعتراض کی اس غلط بنیاد اور اس کے خطرناک نتائج کو سمجھ لینے کے بعد اب بجاے خود اس مسئلے کو دیکھیے، جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ ’قربانی‘ کے متعلق یہ کہنا کہ: ’قرآن میں سرے سے اس کا کوئی حکم ہی نہیں ہے، خلافِ واقعہ ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن وہ اصولی حقائق بیان کرتا ہے، جس کی بناپر انسان کو اللہ تعالیٰ کے لیے جانوروں کی قربانی کرنی چاہیے، اور پھر اس کا ایک عام حکم دے کر چھوڑ دیتا ہے۔ اس حکم پر عمل درآمد کیسے کیا جائے؟ اس کی کوئی تصریح وہ نہیں کرتا۔ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا کہ آپؐ اُسی خدا کی ہدایت کے تحت، جس نے قرآن آپؐ پر نازل کیا تھا، اس کی عملی صورت، اس کا وقت، اس کی جگہ اور اس کے ادا کرنے کا صحیح طریقہ مسلمانوں کو بتائیں اور خود اس پر عمل کرکے دکھائیں۔
یہ کام تنہا ایک قربانی کے متعلق ہی نہیں، قرآن کے دوسرے احکام کے متعلق بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، نکاح، طلاق، وراثت، غرض مسلم معاشرے کے مذہب اور تمدن و معاشرت اور معیشت و سیاست اور قانون و عدالت اور صلح و جنگ کے تمام معاملات میں یہی کچھ ہوا ہے کہ قرآن نے کسی کے بارے میں مختصر اور کسی کے بارے میں کچھ تفصیل کے ساتھ احکام دیے، یا صرف اشارتاً اللہ تعالیٰ کی مرضی بیان کردی، اور پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عملی جامہ پہنانے کی صورتیں واضح حدود کے ساتھ متعین فرمائیں، ان پر خود کام کر کے دکھایا، اور اپنی رہنمائی میں ان کو رائج کیا___ کوئی صاحب ِ عقل آدمی اس میں شک نہیں کرسکتا کہ کتابی رہنمائی کے ساتھ یہ عملی رہنمائی بھی انسانوں کو درکار تھی، اور اس رہنمائی کے لیے اللہ کے رسولؐ کے سوا کوئی دوسرا نہ موزوں ہوسکتا تھا نہ مجاز۔
قربانی کا قرآن میں حکم اور حکمت
قرآن میں [قربانی کے] مسئلے کے متعلق جو اصولی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں،وہ یہ ہیں:

  • ’عبادت کی تمام وہ صورتیں جو انسان نے غیراللہ کے لیے اختیار کی ہیں، دین حق میں وہ سب غیراللہ کے لیے حرام اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے واجب کردی گئیں‘ مثلاً: 

__ انسان غیراللہ کے آگے جھکتا اور سجدے کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کے لیے مخصوص کر دیا اور اس کے لیے نماز کی صورت مقرر کر دی۔ 
__ انسان غیراللہ کے سامنے مالی نذرانے پیش کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا اور اس کی عملی صورت ’زکوٰۃ‘ مقرر کر دی۔ 
__ انسان غیراللہ کے نام پر روزے رکھتا تھا۔ دین حق نے اسے بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا اور اس غرض کے لیے رمضان کے روزے فرض کر دیے۔ 
__ انسان غیراللہ کے لیے تیرتھ یاترا کرتا اور استھانوں کے طواف کرتا تھا۔ دین حق نے اس کے لیے ایک بیت اللہ بنایا اور اس کا حج اور طواف فرض کر دیا۔ 
__ اسی طرح انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک غیراللہ کے لیے قربانی کرتا رہا ہے۔ دین حق نے اسے بھی غیراللہ کے لیے حرام کر دیا اور حکم دیا کہ یہ چیز بھی صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ 

چنانچہ دیکھیے: ایک طرف قرآنِ مجید مَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ ۝۰ۚ[البقرہ ۲:۱۷۳] ’’جسے غیراللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو‘‘ اور مَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ [المائدہ ۵:۳] ’’جسے استھانوں پر ذبح کیا گیا ہو‘‘ کو قطعی حرام قرار دیتا ہے، اور دوسری طرف حکم دیتا ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ O [الکوثر۱۰۸:۲] ’’اپنے ربّ ہی کے لیے نماز پڑھ اور اسی کے لیے قربانی کر‘‘۔

  • انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں بھی عطا فرمائی ہیں، ان سب کا شکریہ اس پر واجب ہے اور یہ شکریہ ہرنعمت کے لیے قربانی اور نذرانہ کی شکل میں ہونا چاہیے۔ ذہن اور نفس کے عطیے کا شکریہ اسی شکل میں ادا ہوسکتا ہے کہ آدمی ایمان و طاعت کی راہ اختیار کرے۔ جسم اور اس کی طاقتوں کا عطیہ یہی شکریہ چاہتا ہے کہ آدمی نماز اور روزے کی شکل میں اسے ادا کرے۔ مال کے عطیے کا شکریہ زکوٰۃ ہی کی صورت میں ادا کیا جاسکتا ہے، اور زکوٰۃ بھی اس طرح کہ سیم و زر کی زکوٰۃ اسی سیم و زر سے، زرعی پیداوار کی زکوٰۃ اسی پیداوار میں سے، اور مواشی کی زکوٰۃ انھی مواشی میں سے نکال لی جائے۔ اسی طرح اپنے پیدا کیے ہوئے جانوروں پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قدرت بخشی ہے اور ان سے طرح طرح کے بے شمار فائدے اُٹھانے کا جو موقع اس نے دیا ہے، اس کے شکریے کی بھی یہی صورت ہے کہ انسان ان جانوروں ہی میں سے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کرے۔ چنانچہ سورئہ حج میں قربانی کی ہدایت فرمانے کے بعد اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ: كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰہَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ [الحج ۲۲:۳۶] ’’اسی طرح ہم نے ان کو تمھارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو‘‘۔
  •  انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں پر جو اقتدار اور تصرف کا اختیار بخشا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بالادستی اور اس کی حاکمیت و مالکیت کا اعتراف کرتا رہے، تاکہ اسے کبھی یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ سب کچھ میرا ہے اور مَیں ہی اس کا خودمختار مالک ہوں۔ اس بالاتری کے اعتراف کی مختلف شکلیں اللہ کے مختلف عطیوں کے معاملے میں رکھی گئی ہیں۔ جانوروں کے معاملے میں اس کی شکل یہ ہے کہ انھیں اللہ کے نام پر قربان کیا جائے۔ چنانچہ اسی سورئہ حج میں اسی سلسلۂ کلام میں آگے چل کر فرمایا گیا: كَذٰلِكَ سَخَّرَہَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ہَدٰىكُمْ[الحج ۲۲:۳۷]اسی طرح   اللہ نے ان کو تمھارے لیے مسخر کیا ہے، تاکہ تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اس ہدایت پر، جو اس نے تمھیں بخشی۔

یہی تین وجوہ ہیں ، جن کی بنا پر قرآنِ مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیشہ سے تمام شرائع الٰہیہ میں تمام اُمتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے:
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۝۰ۭ [الحج ۲۲:۳۴]اور ہر اُمت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا، تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں۔
اور یہ طریقہ جس طرح دوسری اُمتوں کے لیے تھا، اسی طرح شریعت محمدی میں اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی مقرر کیا گیا:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ  لَا شَرِيْكَ لَہٗ۝۰ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۱۶۳ (الانعام۶:۱۶۲-۱۶۳) اے محمدؐ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور اسی چیز کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے مَیں سرِاطاعت جھکانے والا ہوں۔ 
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ[کوثر۱۰۸:۲]پس، اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
یہ حکمِ عام تھا جو قربانی کے لیے قرآن میں دیا گیا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ قربانی کب کی جائے، کہاں کی جائے، کس پر یہ واجب ہے، اور اس حکم پر عمل درآمد کرنے کی دوسری تفصیلات کیا ہیں؟ ان چیزوں کو بیان کرنے اور ان پر عمل کرکے بتانے کا کام اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دیا کیونکہ رسولؐ اس نے بلاضرورت نہیں بھیجا تھا۔ کتاب کے ساتھ رسولؐ بھیجنے کی غرض یہی تھی کہ وہ لوگوں کو کتاب کے مقصد و منشا کے مطابق کام کرنا سکھائے۔
[جولائی ۱۹۵۹ء]
 

قرآنِ مجید میں یہ تذکرہ ضرور کیا گیا ہے کہ حضرت موسٰی کو اَزخود احساس ہوا کہ واقعی مجھ سے خطا ہوئی، لہٰذا بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا کہ:

رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاَخِيْ وَاَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِكَ ۝۰ۡۖ وَاَنْتَ اَرْحَـمُ الرّٰحِمِيْنَ۝۱۵۱ۧ (الاعراف ۷:۱۵۱) اے میرے رب، میری مغفرت فرما اور میرے بھائی کی بھی اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرمادے اور تو ارحم الراحمین ہے۔

اس مثال سے معلوم ہوا کہ توہین رسولؐ پر اَزخود احساسِ ندامت، توبہ اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دُعا کو کافی ہونا چاہیے۔
یہ اصول اگرچہ حضرت موسٰی کے واقعے میں آیا ہے، لیکن یہ ہرمسلمان کے لیے بھی عام ہے کہ اگر توہین رسالت کی نیت و قصد نہ ہو، اور توہین کا فعل شدتِ جذبات میں سرزد ہو، اور بعد میں اَزخود احساسِ ندامت، یا کسی کے توجہ دلانے پر توبہ و استغفار کرلے، تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا مستحق ہے۔ احناف کا توہین رسالت کی وجہ سے ارتداد میں یہی موقف ہے کہ توبہ و استغفار سے معافی مل جائے گی۔
امام ابن قیم الجوزیہ نے اپنے شیخ ابن تیمیہؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ اکثر یہ فرماتے تھے کہ سچے وفادار اور مخلص محب کو بسااوقات اس کی عظیم خدمات، وفاداری اور قربانی و ثابت قدمی کی وجہ سے بہت کچھ معاف کر دیا جاتا ہے، اور پھر فرماتے: حضرت موسٰی کو نگاہ میں لائو، اللہ تعالیٰ کے کلامِ الٰہی پر مشتمل ان تختیوں کو پھینک دیا، جنھیں وہ کوہِ طور سے لے کر آئے تھے، وہ اَلواح ٹوٹ گئیں اور اپنے جیسے اللہ تعالیٰ کے نبی، اپنے حقیقی بڑے بھائی حضرت ہارون ؑ کی داڑھی کو پکڑ کر کھینچا۔{ FR 785 }
حضرت موسٰی نے معراج کی رات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو احکامِ نماز میں تبدیلی کی درخواست کے لیے بار بار اللہ تعالیٰ کے پاس واپس بھیجا۔ اللہ رب العالمین نے یہ سب کچھ نہ صرف یہ کہ برداشت کیا، بلکہ منصب ِ نبوت و رسالت کے ساتھ، محبت و اِکرام کا تعلق بھی برقرار رکھا۔ وجہ یہ تھی کہ آپ نے خدا کے سب سے بڑے باغی ، فرعون کے دربار میں دعوت و حق گوئی اور مصری قبطیوں کے ساتھ اپنی قوم بنی اسرائیل میں بھی دعوت الی اللہ کا کام عمدہ طریق سے کیا۔ ان جلیل القدر خدمات کے مقابلے میں ان جوشیلی حالتوں کا کوئی وزن نہیں تھا، جیساکہ شاعر کہتا ہے:

وَاِذَا الْحَبِیْبُ أَتَی بِذَنْبٍ وَاحِدٍ        -       جَاءَتْ مَحَاسِنُہُ بِأَلْفِ شَفِیْعِ

[جب کسی محبوب شخصیت سے کبھی کوئی کوتاہی سرزد ہوجائے، تو اس کا پورا کارنامہ زندگی، خوبیاں اور سابقہ خدمات، ہزار سفارش کنندہ کے طور پر آجاتے ہیں]۔{ FR 787 }
کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اسلام قبول کرتے وقت، اپنی جہالت و ناواقفی کی وجہ سے ایسے الفاظ استعمال کر گزرے، جو درحقیقت اسلام قبول کرتے ہوئے نہیں کہے جاتے، اور اپنی جگہ وہ کلماتِ کفر ہیں۔ لیکن چونکہ ایمان لانا اور اسلام قبول کرنا مقصود تھا، اس لیے شریعت نے اس غلطی کو نظراندازکرکے ایمان کے حق میں قبول کرلیا، جیساکہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے حوالے سے ہے، کہ انھوں نے قبیلہ بنوجذیمہ کو اسلام کی دعوت دی۔ انھوں نے اسلام قبول کرنے کے لیے صَبَانَا صَبَانَا ، یعنی ’ہم صائبی ہوئے‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ حضرت سالم، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انھوں نے بیان کیا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کو بنوجذیمہ کی طرف بھیجا۔ حضرت خالدؓ نے انھیں دعوت دی تو انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی، مگر اپنی زبان سے انھوں نے ہم مسلمان ہوگئے کہنے کو اچھا نہ سمجھا، اور یوں کہنے لگے کہ: ’’ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا‘‘ مگر حضرت خالدؓ انھیں قتل و قید کرنے لگے اور قیدیوں کو ہم میں سے ہر ایک کے حوالے کر دیا۔ ایک دن حضرت خالدؓ نے ہمیں اپنے اپنے قیدی قتل کردینے کا حکم دیا، تو میں نے کہا: ’’اللہ کی قسم! نہ میں اپنے قیدی کو اور نہ میرے ساتھی اپنے اپنے قیدی کو قتل کریں گے، یہاں تک کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آگئے اور مَیں نے آپؐ سے یہ واقعہ ذکر کیا، تو آنحضرتؐ نے ہاتھ اُٹھا کر دو مرتبہ فرمایا: اے اللہ! میں خالد کے فعل سے بری ہوں۔{ FR 786 }
حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

فَقَالُوا صَبَأنَا وَأَرَادُوا  اَسْلَمْنَا  فَلَمْ  یَقْبَلْ  خَالِدٌ  ذٰلِکَ مِنْھُمْ  وَقَتَلَھُمْ بِنَاءً  عَلَی ظَاہِرِ اللَّفْظِ  فَبَلَغَ  النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ  ذٰلِکَ  فَأنْکَرَہُ  فَدَلَّ  عَلٰی اَنَّہُ  یُکْتَفَی  مِنْ  کُلِّ  قَوْمٍ  بِمَا  یُعْرَفُ  مِنْ  لُغَتِھِمْ  وَقَدْ  عَذَرَ  النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ  خَالِدَ  بْنَ  الْوَلِیْدِ  فِی  اجْتِھَادِہِ  وَلِذٰلِکَ لَمْ یَقد مِنْہُ { FR 788 } یعنی ان لوگوں نے صَبَأنَا   کہہ کر اسلام قبول کرنا ہی مراد لیا تھا، لیکن خالدؓ نے اس ذومعنی لفظ کو قبول نہ کیا اور ظاہر لفظ کی بنا پر ان کو قتل کرنے کا حکم دیا۔جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے اس کو ناپسند کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہرقوم سے ان کی زبان میں معروف و متداول الفاظ کو انھی معنوں میں قبول کیا جائے گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولیدؓ کو اجتہادی غلطی کی وجہ سے قصاص سے معاف کر دیا۔

ظاہری صورتِ حال کو قبول کرنا

اس قاعدے یا اصول کی مثال حضرت اسامہ بن زید اور بنوسلیم قبیلہ کے چرواہے کا قصہ ہے۔ حضرت اسامہؓ کا واقعہ امام مسلم نے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ جنگ میں بھیجا، توہم صبح صبح جہینہ کے علاقے میں پہنچ گئے۔ میں نے وہاں ایک آدمی کو پایا۔ اس نے کہا: لا الٰہ الا اللہ ، میں نے اسے قتل کر دیا۔ پھر میرے دل میں کچھ خلجان سا پیدا ہوا، کہ میں نے مسلمان کو قتل کیا یا کافر کو؟ میں نے اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کر دیا‘؟ میں نے عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! اس نے تو یہ کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا تھا‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا کہ اس نے دل سے کہا تھا یا نہیں؟‘ آپؐ بار بار یہی کلمات دہراتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ تمنا ہونے لگی کہ کاش! میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔{ FR 789 }
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بنوسلیم کا ایک آدمی بکریوں کا ریوڑ لے کر صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کے قریب سے گزرا اور ان کو سلام کیا ، تو انھوں نے یہ سوچ کر کہ اس نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے سلام کیا ہے، وہ اُٹھے اور اسے قتل کر دیا اور اس کا بکریوں کا ریوڑ مالِ غنیمت کے طور پر ہانک کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ  آمَنُوا  اِذَا  ضَرَبْتُمْ  فِی سَبِیْلِ اللہِ  فَتَبَیَّنُوا  وَلَا تَقُولُوْا  لِمَنْ  اَلْقَی اِلَیْکُمْ  السَّلَامَ لَسْتَ  مُؤْمِنًا  تَبْتَغُوْنَ  عَرَضَ  الْحَیَاۃِ  الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللہِ  مَغَانِمُ  کَثِیْرَۃٌ  کَذٰلِکَ  کُنْتُمْ مِّن  فَمَنْ  اللہُ  عَلَیْکُمْ  فَتَبَیَّنُوا  اِنَّ اللہَ  کَانَ  بِمَا تَعْمَلُوْنَ  خَبِیْرًا { FR 790 } اے ایمان والو! جب تم زمین میں کہیں نکلو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تمھیں سلام کرے اس کو یہ مت کہو کہ تم مومن نہیں ہو، تم دُنیوی مال و متاع کی طلب میں ہو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بے حدوحساب غنائم ہیں۔ آخر تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے، اب تحقیق کرلیا کرو، جو تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔

اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کا ظاہری دعویٰ ایمان قبول فرمایا اور ان کی نیتوں یا دلی ارادوں کی کھوج میں نہیں پڑے اور پورے عہد نبوت میں منافقین کا شمار مسلمانوں میں ہی ہوتا رہا۔ وہ جہاد، نماز، روزہ، سب عبادات میں بطورِ مسلمان حصہ لیتے تھے، اس لیے کہ مسلمان ظاہر کو دیکھ کر معاملہ کرنے کے پابند ہیں۔ باطن اور نیت یا قصد اور ارادے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا چاہیے۔{ FR 791 }
عقیدہ و ایمان کی طرح عدالتی اُمور میں بھی قاضی اور جج یا ثالث حضرات بھی اسی قاعدے کے پابند ہیں کہ ظاہری دلیل کی روشنی میں قاضی جس چیز پر مطمئن ہوجائے، اسی کے مطابق فیصلہ کردے، اگرچہ وہ حقیقی صورتِ حال کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ اس ہدایت کو سیّدہ اُمِ سلمہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ آپؐ نے فرمایا: ’’میں بھی انسان ہوں۔ میرے پاس مقدمے کے فریقین اپنی باتیں پیش کرتے ہیں ،تو ان میں سے کوئی زبان آور ہوسکتا ہے، جو محض اپنے زورِ بیان سے مجھے اپنی سچائی کا قائل کرلے اور مَیں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، تو ایسی صورت میں اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ مَیں اس کے لیے جہنم کی آگ کے ٹکڑے کا فیصلہ کر رہا ہوں۔ اب اس کی مرضی کہ وہ اسے لے یا اس کو صاحب ِ حق کے لیے چھوڑ دے۔{ FR 792 }

قول میں کفر و فسق کے احتمال پر نیت کا پوچھنا

جب کسی انسان کے قولی و فعلی تصرف میں کفرو فسق کا احتمال پایا جائے، تو فوراً اس پر فتویٰ لگانے کے بجاے، اس سے اس کی نیت اور ارادے کے متعلق پوچھنا ضروری ہے۔ اپنی نیت اور ارادے کے بارے میں وہ خود ہی بتاسکتا ہے۔ کسی دوسرے شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کی نیت بتائے۔ اگر متعلقہ شخص پوچھے جانے پر کفروضلال والا موقف قبول کرلے تو معاملہ واضح ہوگیا۔ اگر تردید کردے تو اس کی تردید معتبر ہوگی اور قبول کی جائے گی۔ البتہ اگر وہ خاموش رہے یا اس سے رابطہ ممکن نہ ہو، تو وہ خاموش شمار ہوگا اور اس کی جانب کفرو ضلال کی نسبت درست نہ ہوگی، کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ: لَا یُنْسَبُ اِلٰی سَاکِتٍ  قَوْلٌ { FR 793 }’’خاموش کی طرف کوئی بات منسوب نہیں کی جائے گی‘‘۔
اس کی دلیل حضرت قیس بن سعدؓ کی  حدیث ہے کہ: مَیں حیرہ (کوفہ کے قریب ایک جگہ) آیا، تو میں نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ان کے مقابلے میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ آپؐ کو سجدہ کیا جائے۔ پھرجب مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مَیں نے کہا: مَیں حیرہ گیا تھا اور مَیں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں اور آپؐ ان کے مقابلے میں اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپؐ کو سجدہ کریں۔ آپؐ نے پوچھا: بھلا کیا جب میری قبر پر تُو آئے گا، کیا تُو سجدہ کرے گا؟ مَیں نے کہا: ’نہیں ‘۔تو آپؐ نے فرمایا: تو پھر زندگی میں بھی کسی کو سجدہ نہ کرو۔{ FR 794 }
دوسری دلیل حضرت معاذ بن جبلؓ کا واقعہ ہے جس کو حضرت عبداللہ بن اوفی بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ جب شام سے آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا تو آپؐ نے فرمایا: معاذؓ! یہ کیا؟ عرض کیا: مَیں شام گیا تو دیکھا کہ اہلِ شام اپنے مذہبی اور عسکری رہنمائوں کو سجدہ کرتے ہیں تو میرے دل کو اچھا لگا کہ ہم آپؐ کے ساتھ ایسا ہی کریں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: آیندہ ایسا نہ کرنا، اس لیے کہ اگر مَیں کسی کو حکم دیتا کہ غیراللہ کو سجدہ کرے تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ خاوندکو سجدہ کرے۔{ FR 795 } 
ان دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص سے کفروشرک کا احتمال رکھنے والے افعال کا صدور ہو، تو فتویٰ یا حکم لگانے میں جلدبازی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس سے اس کا قصد و ارادہ اور نیت معلوم کرنا ضروری ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کو فوراً کافرو مرتد قرار نہیں دیا بلکہ طلب کرکے ان سے حقیقی صورتِ حال کی وضاحت پوچھی۔ اسی واقعے کی طرف اللہ نے ارشاد فرمایا:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اگر میری راہ جہاد کرنے کے لیے اور میری رضاجوئی کی خاطر (وطن چھوڑ کر گھروں سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائو۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسولؐ کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلاوطن کرتے ہیں کہ مت اپنے رب، اللہ پر ایمان لائو۔ تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالاںکہ جو کچھ تم چھپاکر کرتے اور جو علانیہ کرتے ہو، ہرچیز کو مَیں خوب جانتا ہوں۔ جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے، وہ یقینا راہِ راست سے بھٹک گیا۔(الممتحنہ۶۰:۱)
یہ آیات حضرت علی بن ابی طالبؓ کے بیان کے مطابق حضرت حاطبؓ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ: مجھے، زبیر اور مقداد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور آپؐ نے فرمایا: تم لوگ جائو، حتیٰ کہ (مقام) روضہ خاخ تک پہنچو۔ وہاں تمھیں ایک کجاوہ نشین عورت ملے گی، جس کے پاس ایک خط ہوگا، وہ خط اس سے لے لو۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھوڑے تیزی کے ساتھ ہمیں لے اُڑے ، حتیٰ کہ روضہ خاخ پہنچ گئے۔ وہاں ہمیں ایک کجاوہ نشین عورت ملی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس سے کہا کہ یا تو خط نکال دے، ورنہ ہم تیرے کپڑے اُتار (کر تلاشی) لیں گے، تو اس نے اپنی چوٹی میں سے خط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو اس میں لکھا ہوا تھا: ’حاطب بن ابی بلتعہ کی جانب سے مشرکین مکّہ کے نام‘۔ انھیں اس خط کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض معاملات (جنگ) کی اطلاع دے رہے تھے۔ رسولؐ اللہ نے حاطب سے فرمایا: حاطب !یہ کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: یارسولؐ اللہ! میرے بارے میں جلدی فیصلہ نہ فرمایئے۔ میں ایسا آدمی ہوں کہ قریش سے میرا تعلق ہے۔ میں ان کا حلیف ہوں اور مَیں ان کی ذات سے نہیں اور آپؐ کے ساتھ جو مہاجر ہیں، ان سب کےرشتہ دار ہیں جو ان کے مال، اولاد کی حمایت کرسکتے ہیں۔ چونکہ ان سے میری قرابت نہیں تھی، اس لیے میں نے چاہا کہ ان پر کوئی ایسا احسان کردوں، جس سے وہ میری رشتہ داری کی حفاظت کریں اور یہ کام میں نے اپنے دین سے پھر جانے اور اسلام لانے کے بعد کفر پر راضی ہونے کے سبب سے نہیں کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو، حاطب نے تم سے سچ سچ کہہ دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن مار دوں۔ آپؐ نے فرمایا:نہیں، نہیں کہ یہ بدر میں شریک تھے اور تمھیں کیا معلوم ہے؟ اللہ تعالیٰ نے حاضرین بدر کی طرف التفات کر کے فرمایا تھا کہ تم جو تمھارا جی چاہے، عمل کرو کہ مَیں تمھیں بخش چکا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی کہ اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنائو کہ تم ان سے اپنی محبت ظاہر کرو، فَقَدْ  ضَلَّ  سَوَاءَ السَّبِیْلِ { FR 796 } [الممتحنہ ۶۰:۱] ’’وہ یقینا راہِ راست سے بھٹک گیا‘‘۔  
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ محض قیاسات و گمان اور جوش و جذبات کے زیراثر، کسی کے کفروارتداد کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کا خط لکھنے کا کیا مقصد تھا؟اس میں کئی احتمال موجود ہیں۔ اس کا اصل مقصد وہ بھی ممکن تھا جس کو انھوں نے خود بیان کیا کہ انھوں نے اسلام میں شک و تردّد یا ارتدداد کی وجہ سے نہیں لکھا، بلکہ صرف اپنے خاندان اور مفادات کو ایک طرح کا تحفظ مہیا کرنا مقصود تھا، یعنی یہ محض ایک غلطی اور لغزش کا ارتکاب تھا، کہ جس میں اسلام سے پلٹ جانے کا تصور بھی نہ تھا۔
ایک احتمال یہ بھی ہوسکتا تھاکہ نعوذ باللہ وہ دین و ایمان کو ترک کرکے کفروشرک اختیار کررہے ہیں۔ایسی صورت میں فیصلے کے لیے انھی کی طرف رجوع کر کے اصل صورتِ حال معلوم کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ یہی ہوا، ان کو بلا کر استفسار کیا گیا، اور انھوں نے جو مقصود اور نیت بتائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو قبول کرنے کا حکم دیا، اور اس ضمن میں حضرت عمرؓ کا جوش و غیرتِ ایمانی پر مبنی یہ موقف بھی تسلیم نہ کیا، کہ ان کا اسلام محض نفاق ہے جس پر یہ قابلِ گردن زدنی ہیں۔ رسولؐ اللہ نے نہ صرف یہ کہ اُن کا موقف قبول کیا بلکہ اُن کی سابقہ خدمات کا کھلے عام اعلان کیا، اور ایک ضمنی بشارت بھی دی کہ اللہ تعالیٰ نے بدر میں شرکت کے طفیل ان کی مغفرت فرما دی۔
حضرت حاطبؓ کے معاملے میں کفروارتداد کے مسئلے میں ملزم سے استفسار اور قصدونیت معلوم کرنے اور پھر اسی کے قول کو معیار ماننے کی یہ ایسی روشن مثال ہے، جس سے کوئی صاحب ِ ایمان انحراف کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات اس لیے مان لی تھی کہ آپؐ کو ان کی سچائی کا وحی کی بنیاد پر یقین ہوگیا تھا،  نہ کہ اس وجہ سے کہ ان کے تصرف میں کوئی احتمال تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں کوئی تضاد نہیں۔ آپؐ نے ہمیشہ فیصلہ ظاہر پر ہی کیا۔ منافقین کے نفاق و کفر کو آپ یقینی طور پر جانتے تھے، لیکن آپؐ نے ہمیشہ ان کی جان بخشی ظاہر کی بنیاد پر کی، اور حضرت حاطب کی جان بخشی بھی ان کی بیان کردہ ظاہری صورتِ حال پر کی۔{ FR 797 }
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرزِعمل تقریباً پوری سیرت میں واضح نظر آتا ہے ، اور آپؐ کے اسی طرزِعمل سے فقہا و محدثین نے ایک شرعی قاعدہ اخذ کیا ہے، جو تقریباً سب فقہی مذاہب میں معتبر مانا جاتا ہے: نَحْنُ  نَحْکُمْ بِالظَّاھِرِ  وَاللہ  یَتَوَلَّی  السَّرَائِرَ [ہم ظاہر پر فیصلہ کرتے ہیں اور غیب کا علم اللہ کے پاس ہے]۔اس قاعدے کواکثر لوگوں نے مرفوع حدیث کے طور پر بیان کیا ہے، لیکن درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث تو نہیں ہے لیکن اس میں بیان شدہ مضمون اہلِ علم کے ہاں متفق علیہ ہے اور یہ ایک قاعدے کے طور پر درست اور مسلّم ہے۔{ FR 798 }
حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ نے جو کچھ کیا، اس سے یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ عام اُمت کے افراد پر بھی اذیت کی کیفیت پیدا ہوئی تھی کہ ایک دفاعی راز دشمن کے علم میں لایا گیا ہے،لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدبازی اور فوری فیصلے کے بجاے ان کو بلایا، ان کا موقف سنا، صفائی کا بھرپور موقع دیا، جس میں انھوں نے اپنے مرتد ہونے کی تردید کی۔
اس طرح کی صورتِ حال میں تین ہی امکانات ہوتے ہیں:

  • اوّل: یہ کہ ملزم کے سامنے اس کے تصرف سے، فوری سمجھ میں آنے والا مفہوم اور اس کے نتائج رکھے جائیں، تو وہ اس مفہوم کو نتائج سمیت قبول کرلے کہ یہی اس کا مقصود تھا۔
  • دوم: یہ کہ ملزم کے سامنے اس کے تصرف سے، فوری سمجھ میں آنے والا مفہوم اور اس کے نتائج رکھے جائیں، تو وہ کہہ دے کہ یہ مفہوم اور اس کے نتائج میرا مقصود نہیں تھا۔
  • سوم: یہ کہ ملزم تصدیق یا تردید کے بجاے خاموشی اختیار کرے۔

تیسری صورت میں مشہور فقہی قاعدہ: لَا یُنْسَبُ اِلٰی سَاکِتٍ قَوْلٌ { FR 799 } [خاموش کی طرف کوئی بات منسوب نہیں کی جائے گی]کے مطابق اس کی طرف کوئی موقف منسوب کرنا درست نہ ہوگا، بلکہ دوسرے شرعی قاعدے: الاصْلُ بَقَاءُ مَا کَانَ  عَلٰی مَا کَانَ  [قاعدہ یہ ہے کہ چیز کو اپنی اصل حالت پر محمول کیا جائے گا]پر عمل کیا جائے گا کہ وہ مسلم تھا، اور کفریہ مفہوم کے محتمل تصرف کا کفریہ مفہوم اس نے قبول نہیں کیا۔ اس لیے وہ اپنی پہلی حالت ِ’ایمان‘ پر ہی شمار ہوگا۔

نیت کی بنیاد پر کفر و ایمان کا فیصلہ

قبل ازیں ہم حضرت معاذ ؓ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے کے واقعات، اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کا واقعہ نقل کرچکے ہیں۔ انھی واقعات اور نصوص جیسی بے شمار دلیلیں قرآن و سنت میں موجود ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ انسان کی نیت اور قصد و ارادے کو اس کے کفر و ایمان میں کسوٹی کا درجہ حاصل ہے۔
زیربحث معاملے کی وضاحت کے لیے ذیل میں چند مزید احادیث نقل کرتے ہیں:

  • حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے یمن کا کچھ سونا مٹی میں ملا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ رسولؐ اللہ نے اسے چار آدمیوں اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری (قبیلہ بنی کلاب) اور سیاور زید الخیر عطائی (قبیلہ بنی نبھان) پر تقسیم فرمایا۔ قریش اس بات پر ناراض ہوئے اور کہا کہ: ’آپ نجد کے سرداروں کو دیتے اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں نے ایسا ان کی تالیف ِ قلب کے لیے کیا۔ پھر ایک آدمی گھنی داڑھی اور پھولےہوئے رخسار والے، آنکھیں اندر دھنسی والے اور اُونچی جبین والے، مونڈے ہوئے سر والے نے آکر کہا: اے محمدؐ! اللہ سے ڈرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر مَیں اللہ کی نافرمانی کروں تو کون ہے جو اللہ کی فرماں برداری کرے؟ یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے، مجھے امین بنایا اہلِ زمین پر، اور تم مجھے امانت دار نہیں سمجھتے‘‘۔ 

وہ آدمی چلا گیا تو قوم میں سے ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت طلب کی جو کہ غالباً حضرت خالد بن ولیدؓ تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنِّیْ  لَمْ  أُومَرْ  اَنْ أَنْقُبَ  عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ وَلَا  أَشُقَّ  بُطُوْنَھُمْ ، ’’مجھے کسی انسان کے دل میں اُتر کر دیکھنے یا لوگوں کے پیٹ پھاڑ کر حقیقت معلوم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا‘‘۔ پھر فرمایا: ’’اس آدمی کی نسل سے وہ قوم پیدا ہوگی جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہ اُترے گا۔ اہلِ اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑیں گے۔ وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے، جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ اگر مَیں ان کو پاتا تو انھیں قومِ عاد کی طرح قتل کرتا۔{ FR 800 }
امام نووی ؒاس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یعنی مجھے ظاہر کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم ہے، باطن اور اندرون کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا چاہیے‘‘۔{ FR 801 }

  • حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار فرماتے ہیں کہ مجھے ایک انصاری نے بتایا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مجلس میں گیا اور سرگوشی کے انداز میں ایک منافق کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بآوازِ بلند فرمایا: ’کیا وہ کلمۂ شہادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی نہیں دیتا؟‘ انصاری صحابی نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! لیکن اس کی اس شہادت کا کوئی اعتبار نہیں۔ پھر فرمایا: ’کیا وہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت کی گواہی نہیں دیتا؟‘ عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! وہ گواہی ضرور دیتا ہے، لیکن اس کی یہ شہادت قابلِ اعتماد نہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟‘ عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! لیکن اس کی کوئی نماز نہیں۔ اس کے بعد رسولؐ اللہ نے واضح حکم دیا: ’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں قتل کرنے سے اللہ تعالیٰ نے مجھے منع کیا ہے‘۔{ FR 802 }

امام نووی فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کو قتل نہیں کیا، کیونکہ وہ بظاہر مسلمان تھے، اور رسولؐ اللہ کو ظاہر کے مطابق ہی فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور نیت و باطنی قصد کو  اللہ تعالیٰ پر چھوڑنے کی ہدایت دی گئی تھی۔{ FR 803 }

اعتقادی اور عملی کفرو شرک میں فرق

کفرو ایمان، شرک و توحید، بدعت و سنت کا باہمی تعلق تو اضداد پر مبنی ہے۔ لیکن قرآن و سنت پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایک ہی شخص میں بعض اوقات توحید کے ساتھ شرک، سنت کے ساتھ بدعت، ایمان کے ساتھ کفر، فسق و معصیت کے ساتھ طاعت و تسلیم بہ یک وقت جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہی شخص میں باہمی متضاد ان چیزوں کا اجتماع ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسی شخصیات کا وجود پایا جاتا تھا، جن میں یہ تضادات جمع تھے اور آپؐ نے ایمان و توحید، سنت اور طاعت و تسلیم کو ان کے کفروشرک، بدعت، فسق و معصیت پر ترجیح دی اور اس کی اصل وجہ اور بنیاد ، دو باتیں تھیں:

  • اوّل یہ کہ ’کفر‘ کا لفظ کتاب و سنت میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے:۱- ایمان و توحید کی ضد و مقابل۔ عام طور پر قرآن و سنت میں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔۲-کفرانِ نعمت، شکر کی ضد و مقابل۔ اس مفہوم میں بھی قرآن میں استعمال ہوا۔ ۳-اعلان برأت و لاتعلقی ۴-بمعنی انکار و جحود ۵-پردہ پوشی و ستر چھپانا۔یہ کفر کا عربی زبان میں اصل اور بنیادی مفہوم ہے۔{ FR 804 }
  • دوم یہ کہ شرعی کفر جس سے آدمی دائرۂ ملّت سے خارج اور باہر ہوجاتا ہے وہ صرف کفر اکبر ہوتا ہے نہ کہ کفر اصغر۔ اور یہ بات ایک حقیقت ہے کہ آپؐ نے اعتقادی کفروشرک ، اور عملی کفروشرک اور بدعت و معصیت میں فرق کیا۔ منافقین کے ساتھ آپؐ کا معاملہ اس کی واضح مثال ہے کہ    ان میں کفروشرک اور معاصی کا وجود ایک حقیقت تھی، لیکن دوسری طرف وہ بیش تر ظاہری اعمال: نماز، روزہ، حج، جہاد وغیرہ میں عملی طور پر مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوتے تھے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسلمان شمار کر کے ان کے ساتھ مسلمانوںوالا معاملہ کیا۔ آں حضوؐر کا یہ فرق ملحوظ رکھنا شریعت کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے:

وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۴۵ وَقَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ  ۝۰۠ وَاٰتَيْنٰہُ الْاِنْجِيْلَ فِيْہِ ہُدًى وَّنُوْرٌ۝۰ۙ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَہُدًى وَّمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۴۶ۭ  وَلْيَحْكُمْ اَہْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فِيْہِ۝۰ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۴۷(المائدہ ۵:۴۵-۴۷) اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ پھر ہم نے ان پیغمبروںؑ کے بعد مریم ؑ کے بیٹے عیسٰی ؑ کو بھیجا۔ تورات میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات میں سے جو کچھ اس وقت موجودتھا اُس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خداترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔ ہمارا حکم تھا کہ اہلِ انجیل اُس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔

ان آیات میں، اپنے جھگڑوں کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام و قوانین کے مطابق نہ کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق قرار دیا گیا ہے۔ اگر ظاہری مفہوم کو لیا جائے تو: ’’موجودہ زمانے میں اکثر مسلم ممالک کا عدالتی نظام اور قوانین نوآبادیاتی زمانے میں سامراجی حاکموں سے لیے گئے ہیں۔ اس لیے وہ دائرۂ ملّت سے خارج اور باہر ہوجاتے ہیں‘‘۔ اکثر تکفیریوں کا یہی موقف ہے کہ: ’’ مسلم ممالک کے حکمران دائرۂ ملّت سے خارج ہیں، اسی لیے ان کے خلاف جہاد و لڑائی واجب ہے‘‘۔ لیکن ان کا یہ موقف اس لیے درست نہیں کہ انھوں نے عملی اور اعتقادی کفر میں فرق نہیں کیا، حالاں کہ یہ فرق نصوص نے کیا اور صاحب ِوحی صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم قدم پر اس کو ملحوظ رکھا۔
اس آیت کی تفسیر میں مفتی مکہ مکرمہ اور مشہور مفسر تابعی حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

اِنَّہٗ لَیْسَ بِالْکُفْرِ  الَّذِیْ تَذْھَبُوْنَ اِلَیْہِ  وَاِنَّہٗ لَیْسَ کُفْرًا یَنقِلُ عَنْ مِلَّۃٍ کُفْرٌ دُوْنَ کُفْرٍ { FR 805 } ان آیات میں وہ کفر مراد نہیں، جس کی طرف عام طور پر لوگوں کا ذہن جاتا ہے، اور اس سے وہ کفر بھی مراد نہیں جو دائرۂ ملّت سے خارج کردیتا ہے، بلکہ بڑے کفر سے کم درجے کا کفر، ظلم اور فسق مراد ہے۔

متعین فرد کو کافر قرار دینے کے لیے شرائط

اس سلسلے میں یہ قاعدہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ کچھ اعمال و اقوال کو شریعت میں کفر قرار دیا گیا ہے اور ان کا حکم ہمیشہ یہی ہوگا اور ان کا مرتکب کافر ہوگا۔ یہ عمومی بات سو فی صد درست ہے۔ البتہ ان اعمال و اقوال کا کوئی متعین مرتکب یا فاعل ضروری نہیں کہ کافر ہوجائے، اس لیے کہ ان اعمال کے متعین مرتکب پر کفر کا حکم لگانے کے لیے کچھ شرائط کا وجود اور موانع کا عدم وجود لازمی قرار دیا گیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ایک حدیث میں شراب کے سلسلے میں دس افراد پر لعنت کی تصریح فرمائی جن میں: شراب، اس کو پینے والا، اس کا ساقی  (پلانے والا)،فروخت کرنے والا ، خریدار، شراب ساز، جس کے لیے تیار کی گئی، نقل و حمل میں کام کرنے والا کہ جس کے لیے منتقل کی گئی، شامل ہیں۔ { FR 806 }
آپؐ نے ایک طرف تو شراب نوشی پر لعنت فرمائی،لیکن جب حضرت عبداللہؓ کا نام اور حمار لقب والے ایک متعین شخص کو بار بار جرمِ شراب نوشی میں آں حضوؐر کے سامنے پیش کیا گیا۔ تب بعض صحابہ کرامؓ نے ان پر لعنت بھیجی، تو آپؐ نے سختی سے منع فرمایا: لَا تَلْعَنُوہُ فَاِنَّہُ  یُحِبُّ اللہَ  وَرَسُوْلَہُ  ’’اس پر لعنت مت بھیجو، کیونکہ یہ میرے علم میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے محبت رکھتا ہے‘‘۔{ FR 807 }
اسی طرح شدت مسرت میں اپنے آپ کو ربّ، اور اللہ تعالیٰ کو عبد قرار دینے والے مسافر کی حدیث، اور حضرت قیس بن سعدؓ کے حیرہ سے واپسی اور معاذ بن جبلؓ کے شام سے و اپسی پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے، اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کے دشمن کے لیے مخبری کے واقعات ہم نقل کرچکے ہیں، کہ کفروخیانت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو  دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کیا، کیونکہ شروط و موانع پر بھی آپؐ کی نظر تھی۔اس لیے عین ممکن ہے کہ کوئی فعل، شرعاً ثابت شدہ یقینی کفر، شرک، بدعت یا معصیت ہو، لیکن اس کا فاعل کسی شرط کے  عدم وجود یا کسی مانع (رکاوٹ) کے وجود کی وجہ سے مسلم ہی رہے، کافر اور مرتد یا متبدع و عاصی نہ ہو۔ یعنی فعل اور فاعل کا حکم بالکل ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہوسکتا ہے۔

تکفیر کے لیے لازمی شرائط

اب ہم ذیل میں ان شرائط و موانع کو بیان کریں گے:
lعقل اور ہوش و حواس: ان شرائط میں سب سے اوّلین شرط عقل و شعور اور  ہوش و حواس کا موجود ہونا ہے اور اس کی ضد ’جنون‘ مانع، یعنی رکاوٹ ہے۔ گویا کسی مسلمان شخص کو کافر قرار دینے کے لیے اس کا عاقل ہونا شرط ہے جس کی عدم موجودگی میں مشروط کا وجود بھی کالعدم ہوگا اور عقل کی ضد ’جنون‘ تکفیر مسلم میں مانع ہے۔

  • بلوغت: دوسری شرط بلوغت ہے، اور اس کی ضد نابالغ ہونا مانع ہے۔ لہٰذا ،بچے اور کسی بھی نابالغ پر ارتداد کا حکم نہیں لگ سکتا۔
  • علم : تیسری شرط علم، اور اس کی ضد جہالت مانع ہے۔ لہٰذا، اگر کوئی شخص کسی قولی یا فعلی کفر کا ارتکاب لاعلمی اور جہالت میں کربیٹھے، تو شرطِ علم کے فقدان اور مانع جہالت کے وجود کی وجہ سے اس کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک حدیث میں ایک  گناہ گار کا قصہ بیان ہوا جس میں اس نے بچوں کو وصیت کی کہ اس کی لاش جلا کر راکھ ہوا میں    اُڑا دیں، تاکہ اللہ تعالیٰ اس کو عذاب نہ دے سکے۔ اس نے بعث و قدرتِ الٰہی کا انکار کیا، جو کفر ہے۔ لیکن آخرت میں اس کی مغفرت ہوگئی کیونکہ لاعلمی و جہل کی وجہ سے اس نے یہ گمان کیا کہ اس طرح وہ حساب کتاب اور عذاب سے بچ جائے گا۔ اس کی لاعلمی گویا مانع بن گئی اور اس شخص کا ایمان معتبر مان کر اس کی مغفرت کردی گئی۔
  • ارادہ و اختیار : چوتھی شرط ارادہ و اختیار ہے اور اس کی ضد ’جبر و اِکراہ‘ مانع ہے۔ گویا جس نے کفر کا ارتکاب جبر و اِکراہ کی وجہ سے کیا، اس کو مرتد نہیں قرار دیا جائے گا۔ اس ضمن میں حضرت عمار بن یاسرؓ کا قصہ ہم ذکر کرچکے ہیں، جس کا تذکرہ اشارتاً قرآنِ مجید میں بھی آیا ہے۔
  • تاویل و اجتہاد: پانچویں شرط تاویل و اجتہاد کا نہ ہونا ہے اور تاویل و اجتہاد کا وجود، تکفیر میں مانع ہے۔ لہٰذا، اگر کسی نے کسی معقول تاویل یا غلط اجتہاد کی وجہ سے کفر کا ارتکاب کیا، تو اس پر ارتداد کا حکم صادق نہیں آئے گا۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کا قصہ گزر چکا کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا، لیکن تکفیر کا حکم نہ ہوا۔ اسی طرح حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ نے رسولؐ اللہ اور صحابہ کرامؓ کا دفاعی راز دشمن تک پہنچایا۔ ان دونوں واقعات میں مانع تاویل و اجتہاد اور ایک عظیم نیکی غزوئہ بدر میں شرکت کا شرف ہے۔
  • قصدونیت : چھٹی شرط قصد و نیت ہے۔ جس نے کوئی قول و فعل بغیر قصدونیت کے کیا، مثلاً: غفلت، نسیان، بے ہوشی ، نیند اور غنودگی، یا کسی جذباتی (مسرت ، خوف، غصّے کی) کیفیت میں کوئی کفریہ حرکت کی تو نیت کےفقدان کی وجہ سے اس شخص کو کافر قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ قبل ازیں ہم شدتِ مسرت میں کفریہ کلمات کہنے والے بیابان کے مسافر کی حدیث ذکر کرچکے ہیں، جس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدح و تعریف اور پسندیدگی کے ساتھ فرمایا، اور یہاں مانع عدمِ قصد ہے۔

خلاصۂ کلام

اس مقالے میں کسی مسلمان کے کفروارتداد کا فیصلہ کرنے کے لیے شرعی قواعد و ضوابط اور اصول و مبادی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بطورِ خلاصہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
اصولاً ہرانسان مسلم ہے، اور اس کا دین اسلام ہے، کفربعد میں پیدا ہونے والا ایک عارض ہے۔ دین و ایمان کی حفاظت شریعت کا اوّلین اور سب سے اہم مقصد ہے۔ شریعت میں تکفیر کے لیے جلدبازی، بے احتیاطی پر سخت وعید آئی ہے، تو ایمان کا یقین کفر و ارتداد کے شک سے ختم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ جو بات یقینی طور پر ثابت ہو، وہ صرف یقین سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔
شریعت کی نظر میں ایمان کی جو اہمیت ہے، اس کے پیش نظر شارع نے کبھی ظاہر حال کو ترک کرکے دل کی نیت کو، ایمان کی خاطر قبول کرلیا، اور کبھی ظاہری صورتِ حال اگر ایمان کے  حق میں ہو، تو نیتوں کو ٹٹولنے یا دلوں میں اُترنے کے بجاے ظاہر کو قبول کرلیا۔ 
قول وفعل میں کفر و فسق کا احتمال ہو تو صاحب ِ قول سے اس کی نیت کا پوچھنا لازمی ہے اور انسان کی نیت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے یا کوئی انسان خود اپنی نیت بتاسکتا ہے نہ کہ کوئی دوسرا۔
شارع نے نصوص میں اعتقادی اور عملی کفروشرک میں فرق رکھا ہے۔ جس کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ جب معاملہ کسی متعین شخص یا افراد کو کافر، مشرک قرار دینے کا ہو، تو اس مقصد کے لیے  کچھ شروط کا وجود ضروری ہے، اور اسی طرح کچھ موانع کا نہ ہونا بھی لازمی ہے۔ تکفیر کے لیے لازمی ان شرائط و موانع میں عقل اور ہوش و حواس میں ہونا، بلوغت اور مکفرات کا علم ہونا، نیز یہ کہ اس نے اپنے آزاد ارادے و اختیار کے ساتھ ان کا ارتکاب کیا ہو۔ اور تاویل و اجتہادی خطا نہ ہو، قصد اور نیت بھی پائے جائیں۔
گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی مسلمان کے عقیدے اور دین و ایمان کا فیصلہ کرنا، صحافیوں، کالم نویسوں، ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے اینکروں یا عامۃ الناس، شعلہ نوا مقرروں اور پُرجوش طلبہ کا کام نہیں بلکہ عام علما اور مفتی حضرات کو بھی اس میں حصہ نہیں لینا چاہیے، کیونکہ کفروایمان کے مسائل کا فیصلہ کرنے کے لیے اجتہادی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔ 
اور یاد رکھنا چاہیے کہ کسی قول و فعل یا رواج و عادت کو عمومی طور پر کفروشرک، یا فسق و فجور اور ظلم، یا بدعت، یا قابلِ لعنت و پھٹکار، یا گناہ تسلیم کرنے یا قرار دینے سے اس کے مرتکب کسی خاص یا متعین شخص کو کافر، مشرک یا فاسق، فاجر وظالم، یا ملعون یا بدعتی قرار دینا درست نہیں، جب تک کہ سابق بیان کردہ چند شرائط کا وجود اور چند موانع کا عدم وجود یقینی نہ ہو۔
اس ضمن میں کئی مزید قواعد اور اصول بھی بیان کیے جاسکتے ہیں، لیکن بیان شدہ اصول و ہدایات اس معاملے کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ کسی مسلمان کی تکفیر و تفسیق یا مشرک بدعتی کہنے میں جلدبازی کے بجاے، احتیاط اور معاملہ فہمی سے لے کر شریعت کے مقصد کو پیش نظر رکھا جائے کہ دینِ اسلام میں لانا اورداخل کرنا، اور پھر دین و ایمان کی حفاظت کرنا اصل مقصود ہے اور جلدبازی میں کسی کے عقیدے پر حکم لگانا درست نہیں۔(مکمل)

میں چند گزارشات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کروں گا۔پچھلے چھے عشروں پر پھیلے سیاسی سفر کے دوران میں مَیں نے ریاست کے تقریباً ہرشہر و دیہات میں جس بات کی باربار تلقین کی ہے، آج ایک بار پھر اپنی قوم کے ذی حس اور باشعور عوام کے ذہن کے دریچوں پر دستک دینے کے لیے مجبور ہوں۔ شاید سنجیدگی سے غوروخوض کر کے اس میں چھپے اُس دردوکرب کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کر کے مجھ سمیت ہم سب کو محاسبہ کرنے کے لیے آمادہ کرسکیں۔
عالمِ اسلام کی تباہ حالی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تفصیلات مجھ سے بہتر آپ حضرات جانتے ہیں کہ اسلام دشمنوں کے اسلحہ اور گولہ بارود کے ذخائر اور نت نئے مہلک ترین ہتھیاروں کی آزمایش اور ٹیسٹنگ کے لیے اگر کرئہ ارض میں کوئی تجربہ گاہ (testing lab) ہے تو وہ ارضِ مسلم ہی ہے۔ اگر اس تحقیقاتی اور تجرباتی عمل کے لیے کوئی مخلوق چاہیے، تو وہ بھی ملت اسلامیہ ہی ہے جوکٹتی بھی ہے، مرتی بھی ہے، زندہ درگور بھی ہوتی ہے۔ جس کی ہنستی کھیلتی بستیاں پلک جھپکنے میں ہی کھنڈرات میں تبدیل کر دی جاتی ہیں، جن میں ہزاروں معصوم اور بے گناہ کلمہ گو مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ سڑک کنارے اور کھیت کھلیانوں میں ان بے گوروکفن لاشوں پر ماتم کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ 
میانمار (برما)کی وحشت ناک ہلاکتوں کے بعد وہاں کی چھوٹی سی مسلم آبادی کو اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا اور ایغور مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ رمضان میں مسلمانوں کو زبردستی دن کے اُجالے میں کھلایا اور پلایا جاتا رہا ہے۔ مردوں کی داڑھی منڈوائی جاتی رہی ہے۔ خواتین کو پردہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور مساجد کو مسمار کرکے مسلمانوں کو سالہا سال تک قیدخانوں میں رکھا جاتا ہے، لیکن باہر کی دنیا کو اس ظلم اور سفاکیت کی بھنک بھی پڑنے نہیں دی جاتی۔ کوئی خبر رساں ایجنسی ان حالات کو منظرعام پر لانے کے لیے تیار نہیں ۔ صرف اس لیے کہ کہیں مظلوموں کی بات کرکے ظالموں اور جابروں کی دشمنی مول نہ لینی پڑے۔ غیروں سے تو کوئی توقع نہیں، لیکن جسد ِ واحد کا دعویٰ کرنے والی ملّت بھی مصلحتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک باہمی سرپٹھول اور ملکی مفادات میں دشمنوں کا چارا بن کر رہ گئے ہیں۔ عالمی برادری اور مسلم ممالک کے ادارے کاغذی گھوڑے دوڑا کر اعلامیہ جاری کرنے کے علاوہ شاید ہی کوئی ٹھوس اور عملی اقدام اُٹھانے کی ہمت کرتے ہیں، بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ ذکر بھی نہ ہی آئے تو اچھا ہے۔ جس کے نتیجے میں دشمن شہ پاکر اور زیادہ خطرناک منصوبے بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
برادرانِ ملّت! ہم انگریز کی غلامی سے نکلنے کے بعد پھر بھارت کی غلامی میں پچھلے ۷۲برسوں سے غلامی کی آہنی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہرشہر اور گائوں میں تباہی و بربادی اور خون خرابے سے ہماری داستان لہو رنگ ہوچکی ہے۔ ہمارے ناعاقبت اندیش سیاسی لیڈر،   بڑے ملک سے رشتے کے لالچ میں ہماری غیرت، ہماری پہچان، ہماری شناخت، ہمارے ایمان اور ہمارے کلچر کو دائو پر لگا کر خود اقتدار اور دولت کے مزے لوٹتے رہے۔ بھارت میں صدیوں سے بسنے والے مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ہورہی ہے۔ کبھی گائورکھشا کے نام پر، کبھی دیش بھگتی کے نام پر، کبھی لوّجہاد کے نام پر اور کبھی کسی اور نام پر تڑپایا اور ترسایا جارہا ہے۔ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو ہرلمحے اور ہرموقعے پر اپنی وفاداری ثابت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 
۲۰۱۹ء کے بھارتی انتخابات میں مسلمانوں کے قاتلوں کو پارلیمنٹ میں پہنچاکر بھارت کے ’ہندو توا‘ کے پرچارکوں نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ یہ ملک مستقبل قریب میں خالصتاً ایک ہندو راشٹر بننے جارہا ہے، جس میں جمہوریت کے نام پر اکثریتی راج ہوگا جو اقلیتوں کو اپنی مرضی کے مطابق ہی زندگی گزارنے پر مجبور کر دے گا۔ اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کو اکثریتی رنگ میں رنگ کر ہی رہنے کی آزادی دی جائے گی۔ اگرچہ سیکولرازم کے پردے میں بھی بھارتی مسلمانوں کو تقسیم ہند کے وقت ہجرت کے بجاے اسی ملک میں رہنے کی سزا اور قیمت اپنے لہو سے چکانی پڑی ہے۔ لیکن پچھلے کئی برسوں سے ملک کی پوری پوری مشینری اور فوجی قوت سے ہر اُس آواز کو اُبھرنے سے پہلے ہی  دبایا جارہا ہے جس سے چہارسُو خوف و دہشت کے ماحول میں اس چھوٹی سی اقلیت کو تڑپنے اور  ترسنے کے لیے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ اس ذلّت آمیز برتائو کے باوجود کچھ مسلمان تان کر دوقومی نظریے کو ٹھکرا کر اس ملک میں رہنے کو ترجیح دینے پر فخر محسوس کرتے ہیں___ واحسرتًـا۔
برادرانِ ملّت! اسی گھٹاٹوپ اندھیرے میں ہماری بدنصیب ریاست پر ایک انجانے خوف اور دہشت کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔ قابض طاقتوں کے نزدیک ریاست جموں و کشمیر کے رستے ہوئے ناسور کا ایک ہی حل ہے کہ یہاںان خصوصی دفعات کو جو پچھلے ۷۲سال سے صرف کاغذوں پر ہی نظر آرہی ہیں، ان کو مٹاکر یہاں کی آبادی کا اس قدر تناسب تبدیل کیا جائے، کہ یہاں غصب شدہ حقوق کی بازیابی کی کوئی مؤثر آواز جڑپکڑنے سے پہلے ہی اُکھاڑ پھینکی جاسکے۔
ریاست کے سیاسی شطرنج کے ماہر کھلاڑی مختلف بہانوں سے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔ کبھی اٹانومی کے نام پر اور کبھی سیلف رول کا راگ الاپ کر یہاں کے لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ اب بہت جلد دفعہ اے-۳۵ اور ۳۷۰ کی بیساکھیوں کے سہارے یہ شاطر لوگ اقتدار حاصل کرنے کی تاک میں بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ان خصوصی دفعات کو ان ہی ابن الوقت سیاسی بہروپیوں نے کھوکھلا کرکے بھارت کی غلامی کی زنجیروں کو اس قدر مضبوط اور مستحکم بنانے میں   اپنا گھنائونا کردار ادا کیا، ورنہ بھارتی حکمرانوں کی کیا مجال تھی کہ یہاں کے عوام کو بکائو مال سمجھ کر، ہرایک کی بولی لگا کر، ان کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کو اپنا فرضِ عین اور دیش بھگتی کی سند سمجھ کر    اسی کے بدلے اکثریتی ووٹ اور سپورٹ حاصل کرتے۔
عزیزانِ ملّت ! میں آپ سب سے دردمندانہ درخواست کر رہا ہوں کہ خدارا! اپنا نہ سہی اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے، اپنے لخت جگروں کے لہو سے مزین تحریک کے وارث بن کر پوری یکسوئی اور یک جہتی کے ساتھ اس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا مؤثر اور مثبت کردار ادا کریں۔ مختلف نعروں کے سراب میں بہہ جانے یا ہر ایک کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر، بہت سے افراد تو کسی سے بھی وفا نہ کرنے کے جرمِ عظیم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اس طرح  ٹکڑوں میں بٹ کر شکاری کے لیے تر نوالہ بنتے ہوئے، دشمن کا کام آسان بنا دیتے ہیں۔ 
قرآن پاک میں اللہ اپنے بندوں سے خود کہتا ہے کہ جو بھی عہد کرو اُس کو پورا کرو۔ وہ عہد جو انسان اپنے ربّ سے کرتا ہے یا انسان انسان سے کرے۔ ہم اپنی نمازوں میں دن میں پانچ مرتبہ یہ عہد نبھانے کا اقرار کرتے ہیں۔ کیا ہم ایک بار بھی اس پر عمل کرتے ہیں؟ بندگانِ شکم کی پست سطح سے اُوپر اُٹھ کر اشرف المخلوقات کی بلند سطح پر آکر ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ ہمیں ریوڑ کی طرح اپنے پیچھے پیچھے چلانے والوں کو حق و صداقت کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا اور میزانِ حق و باطل میں جس کے حق کا پلڑا بھاری ہوگا، قدمے، درمے، سخنے، ہرسطح اور ہرقدم پر، مقدور بھر اور استطاعت کے مطابق اس کا ساتھ دینا ہوگا، اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مربوط اور مضبوط طاقت بن کر دشمن کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بے روح نمازوں اور بے اثر دُعائوں سے زیادہ کچھ حاصل ہونے کی کوئی اُمید نہیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین یارب العالمین!
 

گذشتہ چند عشروں میں بھارت کے کسی وزیراعظم کو وہ مقبولیت اور کامیابی نہیں ملی، جو نریندر مودی کے حصے میں آئی ہے۔ لوک سبھا کی ۵۴۲ نشستوں کے انتخابات میں بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) اور اس کے اتحادیوں نے ۳۵۳ نشستیں حاصل کرلیں، جب کہ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو صرف ۹۰ نشستیں ملیں۔
بی جے پی کی اتنی بھرپور کامیابی کی وجوہ کیا ہیں؟ یہ نتائج بھارت میں کن تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں؟ بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل کیا نظر آرہا ہے؟ پڑوسیوں کو اب بھارت سے کس سلوک کی توقع رکھنی چاہیے؟علاقے میں امن کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں؟ عالمی جریدے ٹائم نے گذشتہ ماہ اپنے سرورق مضمون میں نریندر مودی کو Divider in Chief قرار دیا۔ بھارت کی بڑی منڈی کی قوت نے وہ کرشمہ دکھایا کہ پھر اسی مؤقر رسالے نے اگلے شمارے کے اداریے میں مودی کو ’بھارت کومتحدکرنے والا‘ وزیراعظم قرار دے دیا۔ گویا ’ہندو بنیا جیت گیا، امریکی بنیا ہار گیا‘۔
 لوک سبھا میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے مزید صرف ۹؍ارکان کی حمایت درکار ہے۔اسے حاصل کرنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوسکتی۔ ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں اسے پہلے سے دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ریاستوں میں بھی وہ ۵۰ فی صد نشستیں رکھتی ہے اور مزید کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔ گویا آئین میں ترمیم کے تمام لوازمات تقریباً پورے ہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ کن مقاصد کی تکمیل کے لیے بی جے پی کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے پہلے ہم امریکا کی یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کی رپورٹ کا جائزہ لے لیں، جو مرحلہ وار بھارتی انتخابات شروع ہونے سے صرف گیارہ روز قبل جاری ہوئی۔ اس پس منظر میں بھارت کے مستقبل کے عزائم کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ رپورٹ مذکورہ یونی ورسٹی کے Centre for Race & Gender's Islamophobia Research & Documentation Project نے تیار کی ہے۔ اس کا عنوان ہے: ’بھارت میں اسلافوبیا: بدسلوکی کی بھڑکتی آگ‘۔ مصنّفین میں ڈاکٹر حاتم بازیان، پاؤلاٹومسن اور رونڈا اٹاوی شامل ہیں۔ ڈاکٹر حاتم نے یونی ورسٹی کی جانب سے ۲۰۱۹ء کے سالانہ افطار ڈنر کے موقعے پر اپنی کلیدی تقریرمیں رپورٹ کے چیدہ چیدہ حصے بیان کیے۔

بھارتی اسلاموفوبیا

اوکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق: ’’اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے طور پر ایک راے قائم کر کے اس کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے، خصوصاً ان کی سیاسی قوت کو ناپسند کرنے کو اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے‘‘۔ بھارت میں اسلاموفوبیا روزِ اوّل سے موجودتھا۔ بی جے پی کے جھنڈے تلے انتہاپسندوں کی حکومت میں گذشتہ عشرے میں اس فتنے نے معاشرے کے بہت بڑے حصے کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔ مسلمانوں،عیسائیوں، سکھوں، نچلی ذات کے شودروں اور دلتوں پر حملوں میں تیزرفتاری سے اضافہ ہوگیا۔اقلیتوں پر عرصۂ حیات مسلسل تنگ کیا جانے لگا۔
بھارتی اسلاموفوبیا کے واقعات کو آج تک مغرب میں تحقیق کا موضوع نہیں بنایا گیا تھا۔ حال ہی میں یہ پہلی رپورٹ ہے، جو ایک امریکی یونی ورسٹی نے تیار کی ہے۔ یہ رپورٹ واشگاف الفاظ میں بتاتی ہے کہ عوام کی حفاظت کے ذمہ دار سرکاری اداروں اور کارندوں کے ذریعے بی جے پی کی حکومت نے کس طرح مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہے؟ بے سہارا طبقوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے مغرب کے انتہاپسند دائیں بازو کے گروپ اسلاموفوبیا کا ہوّا کھڑا کر کے جو حملے کرتے ہیں، ان کے طریقۂ واردات سے امریکا اور یورپ کے مبصرین خوب آگاہ ہیں، مگر دانستہ طور پر خاموش تماشائی۔ کس طرح ایک طبقےکو ملک و ملّت اور دین و دھرم کا دشمن اور خود کو جنتا کا محافظ قرار دے کر زیادہ ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں؟ جمہوریت کے نام پر فسطائیت قائم کی جاتی ہے، اسے کوئی خطرناک بات تصور ہی نہیں کیا گیا۔
زیربحث رپورٹ کے مطابق حکمران بی جے پی کے لیڈر نفرت کے پرچارک اور فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث رہے۔ جن سیاسی رہنمائوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے پر مقدمے درج ہیں، ان میں سب سے زیادہ تعداد بی جے پی کے ارکانِ پارلیمنٹ کی ہے۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن کے لیے ٹکٹ بھی انھیں دیے گئے جو نفرت پھیلانے میں سب سے آگے تھے۔ یوں اسلاموفوبیا کا مرض تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ سیاست اور نفرت کا کیا جوڑ ہے؟ اس کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ: ’معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے والوں کی کامیابی کا امکان چار گنا بڑھ گیا، ان کا تعلق چاہے کسی جماعت سے ہو۔ ان کے لیے یہ بڑا نفع بخش سودا ہے‘۔

اسلاموفوبیا کے چند نمونے

اس رپورٹ میں انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے رہنمائوں کی تقریروں کے چند نمونے درج کیے ہیں:

  • وزیراعظم مودی کہتے ہیں: ’کانگریس کے رہنما جو زبان بول رہے ہیں وہ جمہوریت میں قابلِ قبول نہیں، توہین آمیز ہے۔ یہ مغلوں کی ذہنیت کی عکاس ہے‘۔lممبرپارلیمنٹ سبرامینم سوامی دھمکاتے ہیں: ’مسلمانوں کو بھارت میں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے یہ حلف اُٹھانا پڑے گا کہ ان کے آباواجداد ہندو تھے‘۔ lممبر پارلیمنٹ سریندر سنگھ حملہ آور ہوتے ہیں: ’صرف چند مسلمان ہی محب وطن ہیں۔ بھارت جب ہندو ریاست بن جائے گا تو صرف انھی مسلمانوں کو یہاں رہنے کی اجازت ہوگی جو ہمارے طور طریقے اپنا لیںگے۔ جن پر ہمارے کلچر کارنگ نہیں چڑھے گا، وہ کسی اور ملک میں جاکر سیاسی پناہ لے لیں‘۔ l مرکزی وزیر گری راج سنگھ یہ کہہ کر ہندوئوں کو ڈراتے ہیں: ملک کی، خصوصاً مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے سماجی ڈھانچے ، معاشرتی ہم آہنگی اور ملک کی ترقی کے لیے خطرہ ہے‘۔ lایک اور قانون ساز سنجے پٹیل ہندوئوں کو سمجھاتے ہیں: ’یہ انتخابات سڑکوں، پانی اور اس جیسے دوسرے مسائل کے لیے نہیں ہورہے۔  یہ مسلمان بمقابلہ ہندو، بابری مسجد بمقابلہ رام مندر کا معاملہ ہے‘۔ lبی جے پی کے چوٹی کے رہنما اور یوپی کے چیف منسٹر یوگی ادتیاناتھ کے نشتر دل میں گہرائی تک اُترنے والے ہیں۔ کہتے ہیں: ’ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح مسلمانوں کے بھارت میں داخلے پر پابندی لگا دیں گے‘۔ ان کی دیگر دھمکیاں جو رپورٹ کا تو نہیں، اخبارات کی زینت بنی ہیں: ’یوگا ہماری مذہبی عبادت ہے، جو اسے نہیں مانتا وہ ملک چھوڑ دے‘۔’تمام مساجد اور گرجاگھروں کو مسمار کر دیں گے، یا مسجدوں میں سور پا لیں گے‘ وغیرہ۔

ظلم و جور کے نئے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے!

بھارتی حکومتی عمائدین کے اس نوعیت کے بیانات نہ صرف اسلاموفوبیا کے مظاہر ہیں، بلکہ ان سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ پہلے سے چاروں اطراف سے خطرات میں گھری ہوئی مسلم آبادی کے خلاف ظلم و جور کے نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت اور سرکاری اداروں کے اقدامات سے مسلمان ہراساں تو ہیں ہی ، انھیں مزید حملوں، مجرمانہ کارروائیوں، قیدوبند، ریاستی تشدد، ملک بدری، حتیٰ کہ موت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس طرح کی رپورٹوں میں عموماً گذشتہ واقعات کا تذکرہ کیاجاتا ہے اور مستقبل پر اظہارِ خیال میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے، خصوصاً جب معاملہ ایسے ملک کا ہو، جو نہ صرف مغربی ملکوں بلکہ اسرائیل کا بھی چہیتا ہو۔ لیکن اس رپورٹ کے مصنّفین کو ڈھکے چھپے الفاظ میں سہی، آنے والے خطرات کا ذکر کرنا پڑا ہے۔
۲ کروڑ دیوتائوں کو ماننے والے ہندوئوں کی سرشت میں خوف رچا بسا ہوتا ہے۔ مظاہرِ فطرت میں سے اس نے ہراس چیز کو دیوتا بنا لیا، جس سے اسے خوف محسوس ہوا یا کسی فائدے کی توقع ہوئی۔ ہزار سالہ غلامی نے اس ذہنیت کو مہمیز لگادی۔ وہ نہیں چاہتا کہ بھارت میں ایک بھی مسلمان موجود رہے۔ چنانچہ رپورٹ میں’گھر واپسی‘ مہم کا جائزہ لیا گیا ہے۔

’گھر واپسی مہم‘

مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم کا نام ’گھر واپسی‘ رکھا گیا ہے۔ ’آر ایس ایس‘ اپنی اس مہم کا فلسفہ بتاتی ہے کہ: ’یہ مذہب کی تبدیلی نہیں بلکہ اصل کی طرف لوٹنا ہے۔ آج بھارت میں جو شہری ہندو نہیں، ان کے آباواجداد کو جبراً ہندومت چھوڑ کر اسلام یا دوسرے ’غیرملکی‘ مذاہب قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ایشور نے ہندستان کو دیوتائوں کے لیے منتخب کیا تھا۔ ہمالہ میں برہما، وشنو، شیواترے، گویا یہاں دیوتائوں اور دیویوں کا راج تھا۔ پھر کرشنا مہاراج اور دوسرے اوتار بھیجے گئے۔ 
یہ سرزمین صرف ہندوئوں کے لیے ہے۔ مقامی آبادی میں سے راجپوت، جاٹ جیسی قومیں ہندومت میں واپس آجائیں تو انھیں تو قبول کرلیا جائے گا۔ لیکن جو غیرملکی افغانستان سے لے کر عرب تک کے علاقوں سے آئے ہوں، چاہے وہ ہاشمی ہوں یا پٹھان اور وہ ہندو بننے کوبھی تیار ہوں، تب بھی انھیں قبول نہیں کیا جائے گا، کیوںکہ انھوں نے اس دھرتی کو ناپاک کیا ہے۔ وہ ملیچھ ہیں۔ ہم انھیں شہریت کا حق نہیں دیں گے بلکہ اس سرزمین پر کوئی سیکولر قانون نہیں چلے گا۔ صرف ہندو قوانین نافذ ہوں گے۔ ہندو، سکھ، عیسائی، جین، مسلمان ایک قوم نہیں۔ یہ ’دوقومی نظریہ‘ تھا، جو آرایس ایس کی طرف سے ۱۹۲۵ء میں اس کے قیام کے وقت پیش کیا گیا تھا۔ صرف دو سال بعد ۱۹۲۷ء میں ناگ پور میں جب گھنیش یاترا نکالی گئی، تو مسلمانوں پر حملے شروع ہوگئے۔ آرایس ایس نے جن سنگھ اور مہاسبھا کے ساتھ مل کر طے کیا کہ اب ہندو پُرامن نہیں رہے گا، جتھے بنائے گا، جنگی تربیت لے گا۔ چنانچہ ابتدائی طور پر ۱۲ مراکز قائم کیے گئے۔ 
بھارت کی آزادی کے بعد جب کانگریس نے سیکولر آئین بنانا چاہا تو آر ایس ایس نے اس سے انکار کر دیا اور سیکولر آئین سازی کے جرم میں گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔ آر ایس ایس بھارت کے ترنگا جھنڈے کو بھی نہیں مانتی۔ وہ کہتی ہے: اس میں دوسری قوموں کو نمایندگی دی گئی ہے۔ ہم اس کی جگہ زرد رنگ کا جھنڈا، قومی جھنڈابنائیں گے۔ ان کا اصرار ہے کہ ملک کو انڈیا نہیں، ہر زبان میں ہندستان ہی کہا جائے۔ ۱۹۷۳ء کے آر ایس ایس کے رہنما ہندوئوں کی ذہن سازی کرتے رہے۔ 
آر ایس ایس کی ایک شریک کار تنظیم وشوا ہندو پریشد(VHP) کے رہنما کا کہنا ہے کہ ایک دور میں ساری دنیا ہندو تھی۔ ۷؍ ارب لوگ ہندو تھے۔ آج صرف ایک ارب ہی رہ گئے ہیں۔ ۱۹۸۰ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اب انتخابات میں حصہ لینے کا مرحلہ آگیا ہے۔ بجرنگ دل کے ساتھ مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بناکر ۱۹۸۴ء کے انتخابات میں قسمت آزمائی کی گئی، لیکن وہ صرف دو نشستیں ہی حاصل کرسکے۔ بہت سوچ بچار کے بعد امرناتھ یاترا کو ساتھ ملا کر ایودھیامیں رام مندر کی تعمیر کی مہم شروع کی گئی۔ یہ وار اس حد تک تو کامیاب رہا کہ بی جے پی کو ۸۳ نشستیں مل گئیں مگر وہ حکومت نہ بنا سکی، البتہ آیندہ پانچ سال کی محنت کے بعد اسے حکومت مل گئی۔ واجپائی وزیراعظم بن گئے اور ۱۲سال تک رہے۔ 
آر ایس ایس کو جب یقین ہوگیا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کی مہم کے ذریعے ہندوئوں میں نفرت کے شعلے اتنے بلند کرچکی ہے کہ اب اپنے ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکے گی، تو انھوں نے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن، گجرات کے سکّہ بند قاتل وزیراعلیٰ نریندر مودی کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے اپنا اُمیدوار بنالیا۔
۲۰۱۴ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد ’گھر واپسی تحریک‘ کا آغاز کر دیا گیا تھا، لیکن اس میں تیزی ۲۰۱۷ء میں دیکھنے میں آئی۔ زیربحث رپورٹ کے مصنّفین کا کہنا ہے کہ وہ اس کی جامع تفصیلات جمع نہیں کرسکے ہیں۔ ’دھرم جاگرن سمیتی‘ (بیداریِ مذہب کونسل) نے ہزاروں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے کے لیے بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک بڑے پیمانے پر فنڈز اکٹھے کرنے شروع کیے۔ آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے تعاون سے یہ کونسل بنائی گئی۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق اس تنظیم نے ہندو سازی کا کام تیز کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ۲۰۲۱ء تک پورے ملک میں ہندوئوں کے سوا کوئی نہیں بچے گا۔ ان اعلانات سے مسلمانوں میں خوف و ہراس بڑھ گیا۔ وہ ہندوئوں کی آبادی سے نکل کر ان پس ماندہ علاقوں میں منتقل ہونے لگے، جہاں پہلے سے مسلمان اکٹھے رہ رہے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں ’وشوا ہندو پریشد‘ نے اعلان کیا کہ وہ اڑیسہ، گجرات، ستیش گڑھ، جھاڑکھنڈ اور آسام میں ۳۴ہزار افراد کو ہندو بنا چکی ہے اور ۴۹ہزار افراد کو ہندومت چھوڑ کر دوسرے مذہب میں جانے سے روک چکی ہے۔ ان کی طرف سے جو کتابچے شائع کیے گئے ہیں، ان میں بتایا گیا ہے کہ ایک مسلمان کو ہندو بنانے پر ۵لاکھ روپے اور ایک عیسائی کو ہندو بنانے پر ۲ لاکھ روپے خرچ ہوتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں بھی اس طرح کی رپورٹیں سامنے آئی تھیں کہ لوگوں کو زبردستی ہندو بنایا جارہا ہے۔

تبدیلیِ مذہب کی چند مثالیں

  1.  ستمبر ۲۰۱۴ء میں مدھیہ پردیش کے علاقے شیوپوری میں بجرنگ دل اور وی ایچ پی نے مقامی حکام پر دبائو ڈالا کہ ان ۹ دلتوں کی درخواستیں مسترد کر دی جائیں جو اسلام قبول کرنا چاہتے تھے۔
  2. دسمبر ۲۰۱۴ء میں آر ایس ایس سے منسلک گروپوں نے ۲۰۰ مسلمانوں کو ہندو بنانے کا اعلان کیا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ انھیں تو یہ کہا گیا تھا کہ ہم آپ کا شناختی کارڈ بنوانے میں مدد کر رہے ہیں۔
  3. فروری ۲۰۱۶ء میں ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنوں پر اچانک بڑے بڑے بینرز آویزاں کیے گئے کہ: ’’جو عیسائی ہندو نہیں بنتا، وہ ۲۰۲۱ء تک ملک چھوڑ دے یا پھر قتل ہونے کے لیے تیار رہے‘‘۔
  4. اپریل ۲۰۱۷ء میں مہاراج گنج، یوپی میں ایک ہندو گروپ نے ایک گرجے کا گھیرائو کرکے پولیس طلب کرلی اور دعویٰ کیا کہ اندر لوگوں کا مذہب تبدیل کرا کے عیسائی بنایا جارہا ہے۔ پولیس جب گرجے کے اندر گئی تو پتا چلا کہ امریکا اور یوکراین سے آئے ہوئے عیسائی سیاح اپنی عبادت (سروس) میں مشغول ہیں۔

میڈیا پر کنٹرول

مودی حکومت کی زیادتیوں کو بے نقاب کرنے اور اسے تنقید سے بچانے کے لیے میڈیا کے تمام شعبوں کو سخت قسم کے دبائو،دھونس اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔اس میں کچھ اسی نوعیت کے جابرانہ ہتھکنڈے برتے جارہے ہیں جو ۵۴-۱۹۵۰ء کے دور میں سینیٹر میکارتھی کی نگرانی میں امریکی حکومت نے مبینہ طور پر کمیونسٹوں کے خلاف اُٹھائے تھے۔ تب جن لوگوں کو بلیک لسٹ کیا گیا اور نوکریوں سے نکالا گیا، ان میں بہت سوں کا تو کمیونسٹ پارٹی سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔ چنانچہ صحافیوں کا گلا گھونٹنے کے لیے حکومتیں جو بھی سخت اقدامات کرتی ہیں، انھیں اب دنیا بھر میں ’میکارتھی ازم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے ’وار روم‘ میں ایسے تمام صحافیوں اور دانش وروں کی نشان دہی کی جاتی ہے، جو اخبارات و جرائد، ریڈیو یا ٹی وی یاسوشل میڈیا پر مودی سرکار پر تنقید کرتے ہیں۔ پھر ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے کہ کس کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے؟
The Reporters without Borders World Press Freedom Index کا تحقیقات کے بعد کہنا ہے کہ: ’ان میڈیا ہائوسز اور صحافیوں کے خلاف آن لائن نفرت انگیز مہم شروع کی جاتی ہے۔ انھیں قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں‘۔ بھارت کے پہلے پرائیویٹ نیوز چینل NDTV کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ: ’مودی کی پالیسیوں پرذرا سی تنقید کے جواب میں فیڈرل پولیس، ادارے کے خلاف ’فراڈ‘ کے الزام میں تحقیقات کر رہی ہے‘۔ ایک اور ادارے ’The Wire‘ کے سدارتھ راجن کا کہنا ہے کہ: ’جو صحافی وزرا کی دوستی کا حقِ نمک ادا نہیں کرتے انھیں وہ Prostitute  (طوائف)کے وزن پر اپنی وضع کردہ اصطلاح میں Presstitute کہتے ہیں، کچھ اور صحافیوں کا کہنا تھا کہ: ’اگر وہ مودی یا اس کے اداروں کے بارے میں معمولی سی بھی لب کشائی کرلیں تو انھیں سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ذرا سی تنقید کی اشاعت پر تین سینئر ایڈیٹروں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ جو رپورٹر سرکاری لائن سے ہٹ جائیں، انھیں بغاوت کے الزام میں قیدوبند کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘۔
ایک خاتون مسلم صحافی رعنا ایوب اور اس کے خاندان کو گینگ ریپ کی دھمکی دی گئی۔ اس کی جان کو اتنا خطرہ لاحق ہوا کہ اقوامِ متحدہ کو مداخلت کرنا پڑی۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے ۲۰۱۶ء میں Gujrat Files: Anatomy of a Cover Up کے نام سے ایک کتاب میں ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں مودی حکومت کے ملوث ہونے کا پردہ چاک کیا تھا۔ پھر گذشتہ سال اس نے ایک نوجوان، دانش کا انٹرویو شائع کیا۔ مودی حکومت کے دوسرے سال ۲۰۱۵ء میں ایک ہندو جتھے نے محمد اخلاق اور اس کے بیٹے دانش پر یہ کہتے ہوئے حملہ کر دیا تھا کہ: ’تم نے اپنے ریفریجٹر میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے‘۔ شدید زد و کوب کے نتیجے میں محمداخلاق تو موقع پر ہی شہید ہوگیا، جب کہ دانش کے سر پر اتنے وار کیے گئے کہ دماغ کے دو آپریشنوں کے بعد اسے ہوش آیا۔ وہ ان دنوں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز کے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا۔ دانش نے اس انٹرویو میں بھارتی رہنمائوںسے سوال کیا کہ: ’’کیا تم بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے سب مسلمانوں کو قتل کر دو گے؟ یا انھیں ملک بدر کروگے؟ مجھے بتائو تم مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے کس حد تک جانا چاہتے ہو؟ دانش نے اس وقت خدشہ ظاہر کیا تھا کہ: ’’اگر بی جے پی جیت گئی تو کوئی بہت بڑا حادثہ رونما ہوگا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی نوعیت کیا ہوگی؟ لیکن مجھے لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ جائے گا اور ہم اسے جوڑ نہ سکیں گے‘‘۔ دانش کا یہ خوف اب بھارت کا ہرمسلمان اپنے دل میں محسوس کررہا ہے۔ مسلمان ہونے کے ’جرم‘ میں ان پر انتہاپسند ہندوئوں کے حملے بڑھتے جارہے ہیں۔
۲۰۱۹ء کے بھارتی انتخابات کے پہلے ہی روز بی جے پی کی طرف سے یہ ٹویٹ کیا گیا کہ ہم شہریوں کے قومی رجسٹر سے بودھوں، سکھوں اور ہندوئوں کے سوا ہر ایک ’گھس بیٹھیے‘ [مراد ہے مسلمان اور عیسائی] کا نام خارج کردیں گے۔اشارہ واضح ہے بی جے پی مذکورہ تین قوموں کے سوا سب کو شہریت اور حق راے دہی سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت شا جو اَب وزیرداخلہ بن گئے ہیں، وہ بار بار کہتے رہے ہیں: ’’ہم ان ’دیمکوں‘ (termites) کو اُٹھا کر     خلیج بنگال میں پھینک دیں گے‘‘۔ مولانا سیّد حسین احمد مدنی مرحوم و مغفور آج حیات ہوتے تو اپنی اس راے سے رجوع کرلیتے کہ: ’قومیں وطن سے بنتی ہیں اور ہندو مسلم ایک قوم ہیں‘۔
مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت ،غصے اور انتقام کی یہ آگ،فیس بک ، وٹس ایپ، ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے تمام دیگر ذرائع پر اتنی تیزی اور شدت سے پھیلائی جارہی ہے کہ اس کی تپش ہرمسلمان اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے۔

صحافیوں پر حملے

’اسلاموفوبیا رپورٹ‘ کے مطابق ۲۰۱۷ء میں مودی سرکار پر تنقید کے جرم میں چار صحافیوں کو قتل کر دیا گیا اور ۲۰۱۸ء میں اس رپورٹ کی تیاری تک مزید چار صحافی ہلاک کر دیے گئے۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق: ایک خاتون صحافی گوری لینکش کے قتل کا فیصلہ ایک سال پہلے کیا گیا۔ زیرزمین دہشت گرد تنظیموں کے ایک کارکن پرشورام کو بالآخر حکم دیا گیا کہ ’ہندو دھرم کی خاطر‘ گوری کو ٹھکانے لگا دو۔ نام نہاد تحقیقات کے بعد قاتل پرشورام کو بری کر دیا گیا۔ 
’کمیٹی براے تحفظ صحافی‘ (CPJ)کے مطابق: ’’مودی کی حکومت آنے کے بعد ۱۲صحافی قتل کیے جاچکے ہیں۔ آزادیِ صحافت کی عالمی رینکنگ میں بھارت کا نمبر ۱۳۶ ہے۔ اس حوالے سے ایک حالیہ رپورٹ میں جسے ’آپریشن ۱۳۶‘ کا نام دیا گیا ہے، بتایا گیا ہے کہ دو درجن میڈیا ہائوسز کو مودی حکومت نے ’ہندوتوا‘ کے پرچار کے لیے بھاری رقوم دیں۔ دو کے سوا تمام میڈیا ہائوسز نے یہ پیسے پکڑ لیے اور ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے لیے ووٹروں کو بی جے پی کی طرف راغب کرنا شروع کر دیا‘‘۔ مال کی محبت میں ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی کہ انھیں یہ نظر نہیں آیا کہ وہ معاشرے کو تقسیم کرکے تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ: ’’بہت سے میڈیا ہائوسز سیاست دانوں کی ملکیت میں اور ان کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہ کثرت انڈین میڈیا ہائوسز کے نیوز اور بورڈ روموں میں ہندوتوا کا نظریہ نمایاں ہے‘‘۔

اندرونِ ملک، ملک بدری

رفتہ رفتہ یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ’مسلمانوں کے لیے کوئی محلہ ،کوئی علاقہ اور کوئی سفر محفوظ نہیں رہا ہے‘۔ اسلاموفوبیا رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت کے مختلف علاقوں میں: ’مسلمان بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں‘۔ جب پارٹی ٹکٹ کا معیار یہ ہو کہ: ’اُمیدوار نے کتنے مسلمان قتل کیے ہیں؟ تو پھر پراگیا ٹھاکرجیسے لوگ لیڈر بنتے ہیں کہ جس نے صرف ایک حملے میں ۱۰مسلمان شہید کر دیے تھے اور مودی نے اسے اپنا چہیتا اُمیدوار بنا لیا۔ اس پر ایسے قتلِ عمد اور کئی قاتلانہ حملوں کا الزام ہے، لیکن کہیں کسی نے کوئی تحقیقات نہیں کیں۔ ۲۳جون ۲۰۱۷ء کو ایک ۱۶سالہ نوجوان جنید خان عید کی خریداری کے لیے ہریانہ کے ضلع پلوال میں اپنے گائوں سے اپنے بھائی کے ساتھ دہلی آیا۔ ان کے دودوست بھی ہمراہ تھے۔ جب وہ واپس جارہے تھے تو ایک جتھے نے ٹرین میں ان پر حملہ کر دیا اور جنید کو مار مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس نے چھے نوجوان گرفتار کرلیے۔ بڑے مجرم نریش کمار کے سوا باقی سارے حملہ آوروں کو رہا کر دیا گیا‘۔
رپورٹ میں متعدد واقعات کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ: ’مسلمانوں پر حملوں کی بڑی وجہ سیاسی مفادات ہیں۔ اس فضا کے نتیجے میں مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ اگر کوئی مسلمان، ہندو اکثریت کے محلے میں رہتا تھا تو اس کا گھر حملے کا نشانہ بننے لگا۔ شہروں، قصبوںاور محلوں میں آبادیاں مذہب کے حوالے سے بٹنے لگیں۔ حکومت نے اس رجحان کی روک تھام کرنے کے بجاے مزید ہوا دی، جو اسلاموفوبیا کا واضح ثبوت ہے۔ جس زمین کی ذرا سی بھی اچھی قیمت نظر آئی، اسے مسلمانوں سے خالی کرانے کے لیے پورے محلے اُجاڑ دیے گئے اور مسجدیں گرا دیں۔
اترپردیش، کرناٹک، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، بہار، راجستھان، مغربی بنگال، جھاڑکھنڈ، تلنگانہ اور آسام میں سب سے زیادہ ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ ۱۷-۲۰۱۵ء کے دوران ان ۱۰ریاستوں میں سیاسی اور مذہبی تعصب کی بناپر مسلمانوں پر ۱۹۷۲ حملے ریکارڈ کیے گئے۔    ان حملوں میں جانی و مالی نقصان مسلمانوں کا ہوتا رہا اور اُلٹا الزام بھی ان پر دھر دیا جاتا کہ انھوں نے ہندوئوں پر حملے کیے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنے کی پالیسی میں ۲۰۱۷ء سے تیزی دیکھنے میں آئی۔ ان کی رہایشی، تجارتی یا زرعی اراضی پر دعوے دائر کردیے گئے۔ مسلمانوں کی جاسوسی شروع کر دی گئی۔ ان کے محلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پمفلٹ تقسیم کیے گئے۔
 تحقیقاتی رپورٹ میں ۲۰۱۷ء کے بعد کے حملوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ: ’مودی حکومت میں مسلمان ٹوٹی پھوٹی، بدحال اور گندی آبادیوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ سماجی اور اقتصادی میدانوں میں ان پر آگے بڑھنے کے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ ہرلمحے انھیں اپنی سلامتی کی فکردامن گیر رہتی ہے‘۔

روہنگیا کے مسلم پناہ گزین

میانمار (برما) میں قتل و غارت گری اور شہریت سے محروم کیے جانے کے بعد جو مسلمان کسی نہ کسی طرح بھارت آگئے، انھیں یہاں بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ انھیں نفرتوں، امتیازی سلوک اور حملوں کی وجہ سے صبح و شام اپنی سلامتی کے خطرات کا سامنا ہے۔ آبادیوں سے باہر جنگلوں اور میدانوں میں بنائے گئے اپنے کیمپوں کی انھیں ۲۴گھنٹے نگرانی کرنی پڑتی ہے۔ بار بار ان کے کیمپ اُجاڑے جاتے ہیں۔ سرکاری طور پر ان کی نگرانی کی جاتی ہے کہ وہ کہیں شہروں میں منتقل نہ ہوجائیں۔ انھیں مسلسل ملک بدری کا سامنا ہے، جو ان کی ہلاکت کا باعث بن رہا ہے۔ انتہاپسند ہندو اور میڈیا ، روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی کو ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ بناکر پیش کررہے ہیں۔ انھیں ’پناہ گزین‘ کے بجاے ’غیرملکی‘ اور ’غیرقانونی‘ کہا جاتا ہے۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیاناتھ جو بھارت کو مسلمانوں سے خالی کرانے کی مہم کے سرخیل ہیں اور روہنگیا مسلمانوں کو بھارتی کلچر اور قوم کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔

عدم تحفظ کا احساس

رپورٹ سے ذرا ہٹ کر یہاں بھارت کی ایک مسلم خاتون صحافی رعنا ایوب اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ:’میرا بھائی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا ہے۔ ممبئی کے اَپرمڈل کلاس علاقے میں اسے اپنا اپارٹمنٹ، جو اسے مارکیٹ کے نرخ سے زیادہ قیمت پر دیا گیا تھا، اس لیے چھوڑنا پڑا کہ مسلمان ہونے کے ناتے اس کا مکمل سماجی بائیکاٹ کیا جارہا تھا۔ وہ اسی شہر میں پلابڑھا مگرنفرت کا سامنا کرتے ہوئے اسے بے در ہونا پڑا۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ یہاں تجارت اور صنعت سے وابستہ کتنے ہی مسلمان یہ رونا رو چکے ہیں‘۔ ۱۹۹۳ء کےمسلم کش فسادات میں رعنا کے خاندان کو نقل مکانی کرکے مسلم اکثریتی علاقے میں منتقل ہونا پڑا۔ یہ مالی طور پر مستحکم مسلمانوں کا حال ہے۔ وہ دوسرے ملکوں میں منتقل ہونے یا کم از کم اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے انھیں بیرونِ ملک یونی ورسٹیوں میں بھیجنے کی سبیلیں سوچ رہے ہیں۔ مسلمانوں میں اس اَپرمڈل کلاس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ذرا سوچیے کہ مسلمانوں کی اکثریت آسودہ حال نہیں ہے، اور وہ اس انسانیت کُش فضا میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنے پر مجبور ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد کا تخمینہ ۲۳کروڑ لگایا جاتا ہے۔ رعنا اپنے مضمو ن میں یہ تعداد۱۹کروڑ بتاتی ہیں۔ اگر یہ تعداد بھی تسلیم کرلی جائے تو مسلمان کُل آبادی کا ۱۴ فی صد ہیں۔
۲۰۰۲ء کے مسلم کُش فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا۔ ریلیف کیمپوں کے دورے کے بعد رعنا لکھتی ہیں کہ: ’’میں نے ان عورتوں کی بے بسی دیکھی جن کی آبروریزی کی گئی تھی۔ ان معصوم بچوں سے ملی جن کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی گئی تھی، جن کے والدین کو ان کی آنکھوں کے سامنے نیزوں، برچھوں اور تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور حملہ آور ’جے جے کار‘ کر رہے تھے۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔ اب وہ پورے ملک کا وزیراعظم ہے۔ کیا گجرات کی تاریخ پورے ملک میں دُہرائی جائے گی؟‘‘

گاؤ رکھشاکے نام پر حملے

۲۰۱۴ء میں مودی سرکار کے آتے ہی ’گائوماتا کی رکھشا‘ [تحفظ]کے نام پر بھی مسلمانوں پر حملوں میں تیزی آگئی۔ ایک طرف تو بھارت گائے کے گوشت کا دنیا میں سب سے بڑا برآمد کرنے والا ملک ہے۔ بیف کی برآمدات میں ۲۰ فی صد حصہ بھارت کا ہے۔ اس مد میں وہ سالانہ ۴؍ارب ڈالر کماتا ہے۔ برازیل ، آسٹریلیا اور امریکا کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ اس کے تمام تاجر ہندو ہیں، مگر دوسری جانب اسی گائے کے نام پر مسلمانوں کے گلے کاٹے جارہے ہیں۔ گائے کا پیشاب اور اس کی پوجا کرنے والے ہندو یہ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیںکہ کوئی مسلمان گائے کو چھو بھی لے۔ حد تو یہ ہے کہ ڈنڈوں، سریوں اور چاقوئوں سے لیس ہندو دستے  اس مسلمان پر  پل پڑتے ہیں کہ جسے وہ گائے کے قریب بھی دیکھ لیں اور پولیس خاموشی سے تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ متعدد ریاستوں میں اندرونِ ملک استعمال کے لیے گائے ذبح کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ 
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس قانون سازی کے بعد مسلمانوں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔  وٹس ایپ پر ہندو ان حملوں کی کتنی ہی وڈیو اَپ لوڈ کرچکے ہیں کہ جب انھوں نے مسلمانوں کو مار مار کر معذور کر دیا۔ مودی حکومت میں حملہ آوروں کو مسلمانوں کے ’شکار‘ کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ حملہ آوروں کو گرفتار نہیں کیا جاتا یا پھر فوراً چھوڑ دیا جاتا ہے اور مقدمہ لپیٹ دیا جاتا ہے۔ کتنے ہی حملہ آوروں کو بی جے پی کے رہنمائوں نے انعامات سے نوازا۔ جن مسلمانوں نے گائے پالی ہوئی تھی وہ ا ن سے چھین کر گئوشالوں کو دے دی گئیں۔ وہاں سے انھیں ہندو لے گئے ہیں۔ یوں مسلمانوں کا مال مفت میں ہندو ہتھیارہے ہیں۔
اپریل ۲۰۱۷ء میں ایک ۵۵سالہ مسلمان ڈیری فارمر پہلوخان پر، جو اپنی نابینا ماں، بیوی اور بچوں کا واحد کفیل تھا۔ ایک ہندو جتھے نے اس پر، اس وقت حملہ کردیا جب وہ اپنے مویشی ٹرک میں لے جارہا تھا۔ پھر حملے کی مکمل وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ بھی کی گئی۔ سارے مویشی چھین لیے۔ پہلوخان زخموں کے تالاب نہ لاکر دو دن میں چل بسا۔ اپنی موت سے قبل اس نے پولیس کو تمام چھے حملہ آوروں کے نام بتا دیے۔ پولیس نے آج تک کوئی کارروائی نہیں کی، بلکہ  حملہ آوروں کے نام کیس سے خارج کردیے۔ 
پولیس ریکارڈ دیکھ کر مذکورہ رپورٹ تیار کرنے والوں کو پتا چلا کہ حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے بجاے پولیس اُلٹا مسلمانوں کا ’گوشت خور‘ اور ’گائے کے سمگلر‘ کے نام سے اندراج کرتی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق: پولیس حملوں کا نشانہ بننے والوں کو ہی مجرم بنا کر پیش کرتی ہے۔ بی جے پی کے ایک لیڈر ونے کتیار، حملہ آوروں کے دفاع میں کہتے ہیں کہ: ’’مسلمان گائے کو ہاتھ لگائے گا تو ہندو تو مشتعل ہوگا۔ بہت سے مسلمانوں نے گائے پالی ہوئی ہیں۔ وہ ان کو کاٹ کر کھا جاتے ہیں‘‘۔ ہندو لیڈروں کا یہ طرزِعمل انتہاپسندوں کو مزید حملوں کی شہ دیتا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ پکڑے نہیں جائیں گے اور اگر پکڑ بھی لیے گئے تو چھوٹ جائیں گے۔

بھارتی مسلمانوں کا مستقبل

بی جے پی کی تمام پالیسیاں آر ایس ایس تشکیل دیتی ہے۔ آر ایس ایس اپنی ۸۴سالہ جدوجہد کا پھل اب کھانے کو تیار ہے۔ کیا وہ آئین کو تبدیل کرکے بھارت کو مکمل ہندو ریاست بنالے گی؟ کیا وہ ۲۳کروڑ مسلمانوں کی شہریت ختم کرکے انھیں ملک بدر کرنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ میانمار میں اس کا پہلے ہی تجربہ کیاجاچکا ہے۔ روہنگیا مسلمان بے وطن ہوکر کشتیوں میں ملک ملک پھر رہے ہیں اور کوئی ملک انھیں پناہ دینے کو تیار نہیں۔ صرف معمولی سی تعداد کچھ ملکوں میں داخل ہوسکی ہے اور وہاں بھی، ترکی کے سوا، بے سہارا پڑے ہیں۔ اگر بھارت مکمل ہندو ریاست بن گیا تو اس میں بھارتی مسلمانوں کے لیے آزمایش کا ایک سخت دور شروع ہوگا، جس کے بارے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم پیش گوئی کرچکے ہیں کہ: ’ایک دور میں مسلمان ہونا ہاتھ پر انگارہ رکھنے سے زیادہ مشکل ہوگا‘۔

پڑوسیوں کے لیے خطرات

اسلاموفوبیا پورٹ سے ہٹ کر یہاں پڑوسیوں کو درپیش خطرات کا ذکر بھی ضروری ہے۔ بھارت اپنے قیام کے بعد سے ہی علاقے میں بالادستی کے لیے کوشاں رہا ہے۔ مغرب اور اسرائیل کی شہ کے بعد اس کے عزائم مزید بلند ہوگئے ہیں۔ مودی حکومت نے منتخب ہوتے ہی ۶جون ۲۰۱۹ء کو اسلحے کی خریداری کے لیے سب سے پہلا آرڈر اسرائیل کو دیا۔ ۳۰۰ کروڑ روپے میں وہ ۱۰۰’سپائس ۲۰۰۰ بم‘ خرید رہا ہے۔ بھارت میں انھیں ’بالاکوٹ بم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہاں حملے کے لیے یہی بم استعمال کیے گئے تھے۔ ان بموں میں ۸۰کلوگرام بارود اور ۹۰۰کلوگرام کا خول (casing) ہوتا ہے۔ یہ بم عمارتوں کی چھتوں کو توڑتے ہوئے اندر جاکر پھٹتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ انسان ہلاک ہوسکیں۔ بھارت یہ بم کس لیے حاصل کر رہا ہے؟ ملک کے اندر تو وہ انھیں استعمال نہیں کرسکتا۔ کیا ان کا ہدف پاکستان کی کمانڈ اینڈ کنٹرول پوسٹیں ہیں؟ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ اسرائیل سے اسے یہ بم ۲۰۱۹ء کے آخر تک مل جائیں گے۔ پاک فضائیہ سے زک اُٹھانے کے بعد بھارت نے فرانس سے درخواست کی ہے کہ اسے رافیل طیارے طے شدہ مدت سے پہلے دے دیے جائیں۔ 
بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ بی جے پی کے دورِ حکومت میں پاکستان پر جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے اور یہ فضا خود بھارتی حکومت قائم رکھے گی، تاکہ اس نفرت سے سیاسی فائدہ اُٹھائے۔ اس ماحول میں ضروری ہے کہ پاکستان بدلتے ہوئے منظرنامے پرنظر رکھے۔
 

قتل و غارت اور دہشت گردی کے الزامات میں ملوث پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو جب حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھوپال سے انتخابی میدان میں اتارا، تو ایک ساتھی نے ازراہِ مذاق جملہ اُچھالا کہ: ’’بھارت کے لیے ایک نیا وزیر داخلہ تیار ہو رہا ہے‘‘۔ درحقیقت وہ ایسے بھارت کی منظر کشی کر رہے تھے، جس میں اتر پردیش کے حالیہ وزیر اعلیٰ اجے سنگھ بشٹ (یعنی یوگی آدتیہ ناتھ) کو مستقبل میں بھارت کا وزیر اعظم اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو وزارت داخلہ سنبھالے دیکھ رہے تھے۔  اسی طرح یاد آرہا ہے کہ محض چند برس قبل ہم نیوز روم میں ازراہِ تفنن امیت شا(موجودہ بی جے پی صدر، جو ان دنوں جیل میں تھے)کے وزیر داخلہ بننے کی پیش گوئی کرتے اور اسے ہنسی میں اُڑاتے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ ۲۰۱۹ء میں یہ مذاق بالکل حقیقت کا رُوپ دھار لے گا۔ 
اپنی دوسری مدت میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے وزارتِ داخلہ کا اہم قلم دان اپنے دست راست امیت شا کے سپرد کرکے پیغام دیا ، کہ نہ صرف و ہ حکومت میں دوسرے اہم ترین فرد ہیں، بلکہ ان کے جانشین بھی ہیں۔ اگرچہ بظاہر پارٹی کے سینیر لیڈر راج ناتھ سنگھ کی نمبر دو پوزیشن سرکار ی طور پر برقرار رہے گی، مگر وزارت دفاع ان کو منتقل کرنے کا مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ ان کی پوزیشن کمزور کر دی گئی ہے۔
کابینہ کے ۲۶؍اراکین میں سے ۲۱؍ارکان اُونچی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی بھارت میں مجموعی آبادی ۱۵ فی صد سے بھی کم ہے۔سینیر وزیروں میں ۱۳ برہمن ہیں،تین نچلی ذاتوں سے  اور ایک سکھ ہے۔ بطور مسلم وزیر بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی کو شامل کیا گیا ہے، جنھوں نے برسوں پہلے ایک بار رام پور سے انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔ حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) میں بہار سے ’لوک جن شکتی پارٹی‘ کی ٹکٹ پر واحد مسلمان محبوب علی قیصر دوسر ی بار منتخب ہوکر ایوان میں آتو گئے ہیں، لیکن حیر ت کا مقام ہے کہ ان کو وزارت کے قابل نہیں سمجھا گیا۔    بی جے پی کے ایک لیڈر نے اس کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ: ’’مودی جی تو ان کو وزیر بنانا چاہتے تھے ، مگر ان کی پارٹی نے پارٹی صدر رام ولاس پاسوان کو وزیر بنانے کی سفارش کی ہے۔ چونکہ سبھی اتحادیوں کو صرف ایک ہی وزارت دی گئی ہے، اس لیے لوک جن شکتی پارٹی سے دو ارکان کو وزارت میں شامل کرنے سے توازن بگڑ سکتا تھا‘‘۔ اس ضمن میں رام ولاس پاسوان کی ذہنیت پر افسوس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کو وزیر بنانے کے بجاے، وہ خود ہی وزارت کے دعوے دار بن گئے۔ حالانکہ رام پاسوان، پچھلے ۲۰برسوں کے دوران چاہے کانگریس کی حکومت تھی یا بی جے پی کی، مسلسل وزارت میں شامل رہے۔ 
بھارت میں وزارت داخلہ کا قلم دان انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے وزراے اعظم اکثر اس عہدے پر یاتو اپنے انتہائی قریبی یا نہایت کمزور افراد کا تعین کرتے آئے ہیں، جو ان کے لیے خطرے کا باعث نہ بن سکیں۔ بی جے پی کی پچھلی حکومت میں راج ناتھ سنگھ اوروزارت عظمیٰ کے دفتر کے درمیان کشمیر کی صورت حال سے نمٹنے کے معاملے پر کئی دفعہ اختلافات سامنے آئے۔ جون۲۰۱۸ء کو جب راج ناتھ سنگھ، جموں و کشمیر کی حلیف وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ہاتھ مضبوط کرنے پر زور دے رہے تھے، تو دوسری طرف امیت شا کی رہایش گاہ کے باہر پارٹی جنرل سیکرٹری رام مادھو صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ: ’میری پارٹی نے محبوبہ مفتی حکومت سے حمایت واپس لے کر گورنر راج لاگو کرنے کی سفارش کی ہے‘۔ بتایا جاتا ہے کہ راج ناتھ سنگھ کو یہ معلومات ٹی وی چینل سے موصول ہورہی تھیں۔ نجی گفتگو میں کئی بار انھوں نے اشار ے دیے کہ کشمیر اور شمال مشرقی صوبوں کے لیے پالیسی ترتیب دیتے ہوئے ان کی راے کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا اور ایک ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج کو انھوں نے کشمیر میں بیک چینل کھولنے کی ترغیب دی تھی، مگر اس کوشش کو بُر ی طرح سبوتاژ کیا گیا۔ سنہا سے وزیر اعظم نے ملنے سے انکار کرتے ہوئے ان کو قومی سلامتی مشیر  اجیت دوول سے ملنے کے لیے کہا، جس نے شکایت کی کہ: ’سنہا کے مشن سے حریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں‘۔ مذکورہ جج کے خلاف کشمیر واپسی پر ہی مرکزی تفتیشی بیورو نے ایک کیس کی فائل کھول کر اس کو جیل میں پہنچادیا۔ 
مودی اور امیت شا کی رفاقت کا رشتہ ۳۰سال پرانا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں مودی کے گجرا ت کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ کو آسان کرنے کے لیے ’شا‘ نے پارٹی میں ان کے مخالفوں، یعنی ہرین پانڈیا اور کیشو بائی پاٹل کو ٹھکانے لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہرین پانڈیا کو تو قتل کیا گیا۔ گجرات میں  ’شا‘ کو وزارتِ داخلہ کا قلم دان دیا گیا تھا اور ان کا دورِ وزارت کئی جعلی پولیس مقابلوں کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ قومی تفتیشی بیورو نے تو ان کو سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کوثر کے قتل کیس میں ایک کلیدی ملزم ٹھیرایا تھا۔ اس کے علاوہ ۱۹سالہ عشرت جہاں کے اغوا اور بعد میں قتل کے الزام میں بھی ان کے خلاف تفتیش جاری تھی۔ ۲۰۱۳ء میں ان کی ایک ریکارڈنگ میڈیا میں آئی تھی ، جس میں وہ ایک دوشیزہ کا فون ٹیپ کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ یاد رہے کہ   وہ دوشیزہ ان کے باس کو پسند آگئی تھی۔۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں مودی نے ’شا‘ کو سب سے اہم صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا تھا، جہاں موصوف نے بی جے پی کوسب سے زیادہ سیٹیں دلا کر پارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۔ اس کامیابی کے بعد ان کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔
 بطور وزیر داخلہ کشمیر کی صورت حال تو امیت شا کے لیے چیلنج ہوگی، مگر کشمیریوں کے لیے بھی ان سے نمٹنا ایک بڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ جس طرح ۱۹۷۳ء کے شملہ سمجھوتے میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس مسئلے کی بین الا قوامی نوعیت کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملے میں تبدیل کرواکے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا تھا، اسی طرح اب نریندر مودی بھی اپنا نام امرکروانے کے لیے کشمیر کو پوری طرح بھارت میں ضم کروانا چاہتے ہیں۔
کشمیرکی بین الاقوامی حیثیت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ امیت شا ایک اور پلان پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس پلان کا کوڈ نام ’مشن ۴۴‘ ہے اور اس کے تحت کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں اور بودھ اکثریتی ضلع لیہہ کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے اُمیدواروں کو کامیاب بنانا ہے۔ اس کے علاوہ وادیِ کشمیر کی ایسی نشستوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے جہاں حریت کانفرنس کی بائیکاٹ کال کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ ان نشستوں پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوںکے ووٹوں کی زیادہ سے زیادہ رجسٹریشن کرواکر ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ امیت شا کی حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوںکو بے اثرکرناہے۔ کشمیر اسمبلی کی ۸۷منتخب نشستیں ہیں جن میں سے ۳۷جموں، ۴۶ وادیِ کشمیر اور۴ لداخ خطے سے ہیں۔ بی جے پی جموں،کٹھوعہ، یعنی خالص ہندو پٹی کی سبھی نشستوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح بی جے پی متنازعہ خطے کی اسمبلی میں بڑی پارٹی کے طورپر ابھر سکتی ہے اور بعد میں ہم خیال ارکان اورکانگریس کے ہندوارکان کی مدد سے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کو ختم یا اس میں ترمیم کروائی جاسکتی ہے۔۱۹۵۴ء اور۱۹۶۰ء میںکشمیر اسمبلی نے اس شق میں ترمیم کی سفارش کی تھی، جس کے بعد بھارتی صدر نے ایک حکم نامے کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں کا دائرہ کشمیر تک بڑھادیاتھا اور ریاست کے صدراور وزیر اعظم کے عہدوںکے نام تبدیل کرکے انھیں دوسرے بھارتی صوبوں کے مساوی بنادیا تھا۔ 
جموں وکشمیر کے انتخابی نقشے پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے ، توجموں ریجن کی ۳۷نشستوں میں ۱۸ حلقے ہندو اکثریتی علاقوںمیں ہیں۔ یہ سیٹیں اکثر کانگریس کے پاس ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ اسی ریجن میں نو ایسی سیٹیں ہیں جہاں ہندو مسلم تناسب تقریباً یکساں ہے۔ یہاں پرامیت شا وہی فارمولا اپنانے کے لیے کوشاں ہے ،جو اس نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ریاست اترپردیش اور بہار کی مسلم اکثریتی سیٹوں میں اپنایا کہ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے ان کو بے اثر بنایا جائے، جب کہ ہندوووٹروں کو خوف میں مبتلا کر کے ان کو پارٹی کے پیچھے یک جا کیا جائے۔دوسری طرف لداخ کے بودھ اکثریتی لیہہ ضلع کی دو اسمبلی نشستوں پر بھی بی جے پی آس لگائے ہوئے ہے، تاکہ آیندہ اسمبلی میںزیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے وادیِ کشمیر اور مسلم اکثریت کے سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرکے مسئلہ کشمیر کو ایک نئی جہت دے۔ 
حالیہ الیکشن سے قبل جب بھارت بھر میں مودی لہر شروع ہوئی تو ریاست کے سیاسی پنڈتوں اور بھارت نواز لیڈروں کے ساتھ ساتھ مزاحمتی قیادت نے بھی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرح یہ کہنا شروع کیا تھاکہ:’ کشمیر کے بارے میں اگر کوئی روایت سے ہٹ کر اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ بی جے پی ہی ہے‘۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اس سے قبل بھی کشمیر کے سلسلے میں  اٹل بہاری واجپائی کی سرکارہی نے بولڈ فیصلے لینے کی جرأت کی تھی۔ ’لاہور اعلامیہ‘، ’اسلام آباد ڈیکلریشن‘ اور انسانیت کے دائرے میں بات کرنے کا اعلان اور اس کے بعدمزاحمتی کیمپ سے  لے کر پاکستان تک کے ساتھ بات چیت کی شروعات بی جے پی نے ہی کی تھی۔ تاہم، جو لوگ   اِس اُمید کے ساتھ جی رہے ہیں کہ ’انسانیت کے دائرے ‘میں بات ہوگی، انھیں جان لینا چاہیے کہ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پاکستان اور کشمیر کی زمینی صورت حال ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں خاصی مختلف ہے۔ایسے حالات میں کشمیر کے مسئلے کے حل میں کسی پیش رفت کی اُمید رکھنا بے معنی ہے ۔ 
امیت شا کے وزار ت داخلہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد تو کشمیر کی شناخت اور تشخص ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ کشمیر کی مختلف الخیال پارٹیوں کو فی الحال اس کے بچائو کے لیے قابل عمل اور فوری اقدامات کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ بد قسمتی سے ایسا نظر آ رہا ہے کہ کشمیرکی  سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی اصل قومی وعوامی ذمہ داریوں سے دامن چھڑا کر بھاگ رہی ہیں،بلکہ ان میں سے بعض لوگ تو نریندرمودی کا نام سن کر ہی گویا مرعوب ہو جاتے ہیں۔
بات واضح ہے کہ قوم کے وسیع تر مفا دمیں سوچنے کے بجاے اقتدار کی شدید ہوس اور اقتدار کے لیے رسہ کشی نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی ’نیشنل کانفرنس‘ کو نہ صرف بزدل بنایا ہے بلکہ اس کی نفسیاتی صورت حال کی بھاری قیمت سادہ لوح کشمیریوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ فی الحال اس جماعت کا محور اقتدار کی نیلم پری سے ربط وتعلق رکھنے کے لیے کس سے رشتہ جوڑا جائے اور کس سے ناتا توڑا جائے کا سوال اہم ہے۔ اگر واقعی اس جماعت میں کشمیریوں کے حوالے سے ذرہ بھر بھی ہمدردی ہے تواسے دیگر کشمیر ی جماعتوں کے ساتھ گفت و شنید کے دروازے کھول کر آگے کے تمام خطرات کی پیش بینی کر کے، ریاست میں بی جے پی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا ہوگا۔ 
اٹانومی (خودمختاری) اور سیلف رول ___ کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا دُور کی بات ہے، فی الحال جس تیز رفتار ی سے مودی سرکار کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے، اس کا توڑ کرنے میں نیشنل کانفرنس، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے میں ہر گز ہچکچانا نہیں چاہیے۔ کشمیریوں کے وکیل اور غم خوار، پاکستان کی داخلی صورت حال بھی نئی دہلی سرکار کے عزائم کا ٹمپر یچر بڑھارہی ہے۔ ایسے میں صاف لگتا ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہندو انتہا پسند وں کے دیرینہ خوابوں کے پورا ہونے کے لیے شاید راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔
مودی کی کابینہ میں ایک اور اہم وزیر سبرامنیم جے شنکر ہیں، جن کو وزیر خارجہ بنایا گیا ہے۔ بھارتی محکمہ خارجہ میں امریکی ڈیسک کے سربراہ کے طور پر وہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ (کانگریس) کے چہیتے افسر تھے۔ آخر کیوں نہ ہوتے، انھوں نے ’بھارت-امریکا جوہری معاہدہ‘ کو حتمی شکل دینے اور اس کو امریکی کانگریس سے منظوری دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ۲۰۱۳ء میں   من موہن سنگھ نے ان کا نام خارجہ سیکرٹری کے لیے تجویز کیا، مگر کانگریس پارٹی نے سخت مخالفت کی جس پر سجاتا سنگھ کو خارجہ سیکرٹری بنایا گیا۔ تاہم، جنوری ۲۰۱۵ءکو امریکی صدر بارک اوباما کے بھارتی دورے کے بعد نریندر مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جے شنکر کو سیکرٹری خارجہ بنایا دیا، تب جے شنکر امریکا میں بھارت کے سفیر تھے اور اوباما کے دورے کے سلسلے میں نئی دہلی آئے ہوئے تھے۔
 اس طرح غیر رسمی طور پر یا اکھڑ پن سے خارجہ سیکرٹری کو معزول کرنے کا بھارت میں یہ دوسرا واقعہ تھا۔ اس سے قبل۱۹۸۷ء میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ہی اپنے سیکرٹری خارجہ اے پی وینکٹ شورن کو معزول کیاتھا۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے ۔ نئی دہلی میں مقیم پاکستانی صحافی عبدالوحید حسینی نے پریس کانفرنس کے دوران راجیوگاندھی سے ان کے پاکستان کے دورے کے بارے میں سوال کیا۔ راجیو نے کہا کہ: ’’میرا پاکستان کے دورے کا کوئی پروگرام نہیں ہے‘‘۔ مگر حسینی نے دوسرا سوال داغا کہ: ’’سر،آپ کے خارجہ سیکرٹری تو صحافیوں کو بتار ہے ہیں کہ وزیر اعظم کا دورہ پائپ لائن میں ہے؟‘‘راجیو نے جواب دیا کہ: ’’خارجہ سیکرٹری اب اپنے عہدے پر نہیں ہیں۔ جلد ہی نئے فارن سیکرٹری کا تعین کیا جا رہا ہے‘‘۔ وینکٹے شوارن نے جو پریس کانفرنس ہال میں ہی بیٹھے تھے، چپکے سے اپنا استعفا تحریرکرکے وزیراعظم کو ہال میں ہی تھمادیا۔ 
جے شنکر کو خارجہ سیکرٹری کے عہدے پر فائز کرنے کی کانگریسی لیڈروں نے اس لیے مخالفت کی تھی کہ ان کے مطابق ایک امریکا نواز افسر کو اس اہم عہدے پر فائز کرانے سے بھارت کی غیر جانب دارانہ تصویر متاثر ہوگی۔ وکی لیکس فائلز نے جے شنکر کی امریکا کے ساتھ قربت کو طشت از بام کردیا تھا۔ بتایا گیا کہ جے شنکر کی تعیناتی سے ہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ ۲۰۰۴ء سے۲۰۰۷ء تک جے شنکر دفترخارجہ میں امریکی ڈیسک کے انچارج تھے۔ ان کا نام بار بار امریکی سفارتی کیبلز میں آیا ہے۔
۱۹دسمبر۲۰۰۵ء کو ایک کیبل میں امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ جے شنکر نے ان کو خارجہ سیکرٹری شیام سرن کے دورۂ امریکا کے ایجنڈے کے بارے میں معلومات دی ہیں۔ امریکی عہدے داروں کے ساتھ ملاقاتوں میں بھارتی موقف سے واقفیت خارجہ سیکرٹری کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی، مگر سب سے زیادہ ہوش ربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانے نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں بھارت کے سفیر جے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویے کو لگام دینے کے لیے امریکا کی معاونت کرنے کی   پیش کش کی ہے۔ گویا ایک طرح سے وہ نئی دہلی میں حکومت کی رضامندی کے بغیر امریکا کے   ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ایک اور کیبل میں اپریل۲۰۰۵ء میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانتانامو بے کے معاملے پر بھارت ، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دے گا، جنھوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔ اس کےعلاوہ جے شنکر نے ایک نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا ، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سیٹلائٹ کی اطلاع تھی، جو بھارتی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔ 
جے شنکر بھارت کے مشہور اسٹرے ٹیجک امور کے ماہر آنجہانی آر سبرامنیم کے صاحبزادے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۷۷ءمیں دفترخارجہ میں ملازمت شروع کی۔ معروف دفاعی تجزیہ کار بھارت کرناڈ کے مطابق جے شنکر کی کابینہ میں شمولیت سے بھارت کا امریکی پٹھو ہونے کا آخری پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔ ان کی تعیناتی بھارت کی اسٹرے ٹیجک آٹونامی کے حوالے سے خاصی اہم ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی جے شنکر نے کارپوریٹ گروپ ٹاٹا کے بیرون ملک مفادات کے ڈویژن کے سرابراہ کا عہدہ سنبھالا۔ اس حوالے سے بھارتی فضائیہ کے لیے ایف-۱۶طیاروں کی خریداری کے لیے امریکی فرم لاک ہیڈ مارٹن کے لیے وکالت کا کام کر رہے تھے۔ لاک ہیڈ مارٹن کو کنٹریکٹ ملنے سے ٹاٹا کو ان کی دیکھ بھال ،پرزے سپلائی کرنے، اور بھارت میں ان طیاروں کو تیار کرنے کا کام مل جاتا۔ 
بتایا جاتا ہے کہ ۱۹۸۰ء میں واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے میں تعیناتی کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے ان پر نظر کرم کی بارش کر کے ان کی ایک دوست کے رُوپ میںشناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریر کو آگے بڑھانے میں بلاواسط طور پر خاصی مدد کی۔ امریکا میں   بطور بھارتی سفیر ، انھوں نے مقامی بھارتی نژاد افراد کو جمع کرکے نئے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرکے ان کا دل جیت لیا۔ ان کے دور میں بھارت نے امریکا کے ساتھ دو اہم معاہدوں پر دستخط کیے، جن میں امریکی افواج کو خطے میں رسل و رسائل کی سہولتیں فراہم کرنا اور فوجی اطلاعات کا تبادلہ شامل ہیں۔ ان معاہدوں کے مسودات بھارتی دفترخارجہ کے بجاے واشنگٹن سے ہی تیار ہوکر آئے تھے۔ 
تجزیہ کاروں کے مطابق جے شنکر کی تعیناتی کا ایک اور مقصد قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کو قابو میں رکھنا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی کمان ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہوئے وہ مودی کے رفقا میں خاصے طاقت ور ہوگئے تھے۔گذشتہ حکومت میں دوول، قومی سلامتی کے مشیر تھے اور اب وزیر ہیں۔ 
جے شنکر کے لیے سب سے بڑا امتحان ایران سے تیل، چاہ بہار بندرگاہ، اور روس سے ایس-۴۰۰  میزائل شیلڈخریداری کے سلسلے میں امریکا سے مراعات حاصل کروانا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو ایران سے تیل کی خریداری کے متعلق خبردار کیا ہے۔ جس پر بھارت ایرا ن کے تیل کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے، مگر چاہ بہار بندر گاہ اور میزائل شیلڈ کے سلسلے میں امریکی معاونت کا خواست گار ہے۔ 
 

تقریباً ایک صدی قبل شروع ہونے والی حقوقِ نسواں کی تحریکیں آج بہت بلند آہنگ ہوچکی ہیں۔ حکومتیں بھی بڑی حد تک ان سے وابستہ این جی اوز کی پابند ہو چکی ہیں۔ پارلیمنٹ سے لے کر تعلیمی اداروں اور کاروباری شعبہ جات تک میں ان کی سفارشات، قانون بن کر نافذ ہو رہی ہیں۔ ’خواتین کی خوداختیاری‘ سے منسوب ادارہ ’سیڈا‘ (CEDAW) اقوامِ متحدہ کے تحت کام کر رہا ہے، اور اس کے اعلامیوں یا کنونشنز کے تحت حکومتیں کئی ایک اقدامات کرنے کی پابند ہو چکی ہیں۔ بے شک ان میں کئی مثبت قوانین بھی بنے ہیں، لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے مسلم معاشروں پر اثرات کس نوعیت کے ہیں؟ گھر اور خاندان کیسے متاثر ہوتے ہیں؟ ملکوں کی مجموعی معیشت پر یہ کس طرح اثرانداز ہوئے ہیں؟ تہذیب اسلامی کو انھوں نے کس طرح متاثر کیا ہے؟ مسلم ممالک کے باشعور طبقے اور سوچ بچار کرنے والے اداروں کو اعداد و شمار کے ساتھ یہ جائزے مرتب کرنے چاہییں۔ یہ ضروری نہیں کہ تمام اثرات کو منفی انداز میں دیکھا جائے، لیکن ایک حقیقت پسندانہ جائزہ ضروری ہے۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے کئی کئی روزہ کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ طویل بحث، مباحثے ہوتے ہیں۔ الفاظ کا محتاط اور شاطرانہ چناؤ کیا جاتا ہے۔اہداف (Goals) مقرر کیے اور ان پر عمل درآمد کے لیے نقشہ گری کی جاتی ہے، پھر این جی اوز کے ذریعے مقتدر طبقے میں بھر پور لابنگ کی جاتی ہے اور ان اہداف کے حصول کے لیے قانون سازی کی خاطر فضا بنائی جاتی ہے۔ اس سارے عمل پر اربوں کا خرچ ہوتا ہے۔ شرکا کو مہنگے ہوٹلوں میں کئی کئی دن ٹھیرایا جاتا ہے اور کھلے دل سے کرایے خرچ کیے جاتے ہیں۔ مرضی کی قانون سازی کے لیے راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں (حکومتیں جن کی مقروض ہوتی ہیں) کے ذریعے قرضوں کو بعض طریقوں سے ان قوانین پر عمل درآمد کے ساتھ مشروط کیا جاتا ہے۔میڈیا کا بھرپور انداز میں استعمال کیاجاتا ہے اور اپنے مقاصد کو پُرکشش (گلیمرائز) انداز میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے، تاکہ وہ عام لوگوں کی زبان بھی بن جائیں اور مطالبہ بھی۔ کاروباری اداروں کے ذریعے ان کی عملی شکلیں پیش کی جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں آج عورت نہ صرف ہر شاپنگ مال پر سیلز گرل بن کے کھڑی ہے بلکہ فاسٹ فوڈ کو گھر پہنچانے کے لیے موٹر سائیکل رائیڈر بھی بن گئی ہے، اور اسے فخریہ انداز میں یہ کہہ کر پیش کیا جاتا ہے کہ:’’ ہم نے عورت کی معاشی برتری و خود اختیاری کے سلسلے میں عملی قدم اٹھایا ہے‘‘۔
اقوامِ متحدہ نے اس کے لیے ایک کمیشن Commission on the Status of Women کے نام سے ۱۹۴۶ء میں قائم کر دیا تھا، جو مختلف ممالک کے حکومتی نمایندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا مقصد معاشرے میں خواتین کو برابری اور مؤثر حیثیت دلوانا ہے۔ اس کمیشن کا ہرسال اجلاس ہوتا ہے، جس میں حکومتی نمایندوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسل میں رجسٹرڈ این جی اوز کے نمایندے بھی شریک ہوتے ہیں، اپنی کارکردگی رپورٹیں پیش کرتے ہیں، اور آیندہ سال کے لیے نیا منصوبہ لے کر جاتے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں اس کمیشن کے تریسٹھویں اجلاس کا مرکزی عنوان: ’’صنفی برابری کےلیے محفوظ معاشرتی نظام، پاےدار بنیادی ڈھانچے کا قیام،اور عورتوں کی پبلک اور لیبرسروسز تک رسائی‘‘ تھا۔
اجلاس CSW63  [Commission on the Status of Women] میں شرکت کے لیے پاکستان سے ہم نے چھے خواتین کا وفد تیار کیا، لیکن صرف دو ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں، جن میں ایک راقمہ اور دوسری بہن عائشہ سید تھیں۔ ۹ مارچ کو ہم کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکا روانہ ہوئے۔ یہ سفر بذات خود تہذیبی جنگ کا ایک عنوان نظر آرہا تھا۔  عورت کی پردے، لباس، اللہ و رسولؐ کے احکام سے رُوگردانی اور آزادی کی گواہیاں اسلام آباد ایئرپورٹ سے شروع ہوگئیں۔ہوائی جہاز میں ایئر ہوسٹسوں کی برہنہ ٹانگیں اور ابو ظہبی ایئر پورٹ پر مسلمان عورت کی حد کو چھوتی ہوئی بے باکی اس رویے پر مہر تصدیق ثبت کر رہی تھی۔
نیویارک کے جس حصّے میں اقوام متحدہ کا مرکزی دفتر ہے وہ بہت گنجان آباد علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ کی بلڈنگ میں داخل ہونے اور گراؤنڈ پاس حاصل کرنے کے لیے طویل قطار میں کھڑا ہونا پڑا۔ تقریباً ڈیڑھ دوگھنٹے میں یہ کام مکمل ہوا۔ تہہ در تہہ سکیورٹی اور چھانٹی کے بعد کانفرنس ہال کے اندر داخل ہوئے۔ دنیا بھر سے تقریباً ۴ سے ۵ہزار این جی اوز کے نمایندے شریک تھے۔ مختلف قسم کے معلوماتی اور تعارفی ڈیسک لگے ہوئے تھے۔ 
یہاں نجی سطح پر بہنوں نے ہمارے لیے رہایش کا انتظام کر رکھا تھا۔ ہم اس رہایش گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ عائشہ بہن کے بھتیجے کے ہمراہ وہاں پہنچے تو بہنیں منتظر تھیں جوبہت ہی پرتپاک طریقے سے ملیں۔ جنھوں نے ایک بہت آرام دہ اپارٹمنٹ میں بہترین میزبانی کا حق ادا کیا۔   اگلی صبح پیدل چلتے ہوئے یو این او کے آفس پہنچے اور پھر مرکزی ہال میں پہنچے۔
آج کے سیشن میں دنیا بھر سے آئی ہوئی با اثر خواتین، یعنی مختلف ممالک کی صدور اور وزراے اعظم کے ساتھ نشست تھی۔ دوسری نشست دوسرے وزرا اور مختلف عہدے دار خواتین کے ساتھ تھی۔ ان نشستوں کے تقریباً تین سیشن ہوئے۔ پہلا سیشن حکمران خواتین کے ساتھ، دوسرا سیشن وزرا کے ساتھ، اور تیسرا سیشن معاشرے کی دیگر نمایاں اور مختلف عہدوں پر فائز خواتین کے ساتھ تھا۔ اس میں خوشی کی یہ بات تھی کہ حکمران خواتین میں سے اکثر کے انداز ِگفتگو میں توازن تھا۔ بھارت کی ایک خاتون نے ایک اسکالر کا یہ قول دُہرایا کہ خواتین کو Push back against the push backs کرنا چاہیے ’’یعنی کوئی آپ کو روکتا ہے تو آپ اُسے روک دیں‘‘۔ مراد یہ ہے کہ جتنی بھی رکاوٹیں ہیں ان کودور کریں اور آگے بڑھیں اور اپنے لیے معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کریں۔ ایک خاتون نے بڑے مناصب پر فائز عورتوں کے حوالے سے کہا : ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت تبدیلی آ چکی ہے اور دس ممالک ایسے ہیں کہ جہاں پر مکمل طور پر صنفی برابری (Gender Equality) حاصل کرلی گئی ہے‘‘۔ اگرچہ ان دس ممالک کے نام نہیں بتائے۔ اسی طرح یورپی یونین کی خاتون نے یہ جملہ ادا کیا:I don’t say better than he, but as he can do you can do it  یعنی ، ’’ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم مردوں سے بہتر ہیں، لیکن جو کچھ مرد کرسکتا ہے وہ ہم بھی کر سکتے ہیں‘‘۔پھر ایک خاتون نے کہا: If I win doesn’t mean you lose  کہ ’’اگر عورت آگے آتی ہے، تو اس کایہ مطلب نہیں کہ مرد پیچھے رہ رہا ہے‘‘۔اس طرح کے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ ان میں تمام خواتین انتہا پسند نہیں ہیں بلکہ توازن رکھنے والی خواتین بھی موجود ہیں۔ 
اس بات پر بہت زور دیا گیا کہ:’’ خواتین کے لیے ہر میدان میں کوٹہ مخصوص کیا جائے‘‘۔  جس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سی صلاحیتیں مرد میں زیادہ ہوتی ہیں، اسی لیے مادر پدر آزاد ماحول کے باوجود صنف کی بنیاد پر کوٹہ چاہیے، صلاحیت کی بنیاد پر نہیں۔ گوئٹے مالا کی وزیر نے کہا کہ: ’’ہماری ۷۰فی صد آبادی ۲۹سال سے کم عمر ہے اور ہم گوئٹے مالا میں Gender Equality (صنفی برابری) کی نہیں بلکہ Gender Equity (صنفی توازن)کی بات بھی کرتے ہیں‘‘۔ تیونس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ: ’’اب تک ہم خواتین کے ۳۰پراجیکٹس کر چکے ہیں۔ ہم ہر گاؤں میں خواتین کو معاشی حقوق دیتے ہیں جہاں ہم نے ٹکنالوجی بھی پہنچائی ہے۔ زچگی کی چھٹی ہم ماں اور باپ دونوں کو دیتے ہیں‘‘۔ مالدیپ نے رپورٹ میں بتایا کہ: ۱۹۶۸ء میں مالدیپ میں ماؤں کی شرح اموات ۱۸۶ء۴ فی ہزار تھی اور ۲۰۱۷ء میں ۶ء۸فی ہزار ہوچکی ہے‘‘۔ واقعی یہ بہت ہی شان دار کامیابی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ: ’’مالدیپ میں ٪۲۵ فی صد وزارتیں خواتین کے پاس ہیں اور معاشی افرادی قوت میں ۳۷ فی صد خواتین ہیں‘‘۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ لیبر فورس میں اتنی زیادہ خواتین ڈال کر قوم نے کیا حاصل کیا ہوگا؟ 
یہاں ایک کہاوت یاد آتی ہے کہ: ’’کسی شخص نے گائے کو ، ہل میں جوت رکھا تھا اور بیل درخت کے نیچے آرام کر رہا تھا۔ ایک فرد پاس سے گزرا تو اُس نے کہا کہ ’’بھائی یہ کیا کر رہے ہو،  تم نے گائے کو جوتا ہوا ہے؟‘‘ تو اُس نے جواب دیا کہ: ’’یہ بہت شور مچاتی تھی کہ میرے حقوق بیل کے برابر کرو۔ میں نے اس کو جوتا ہے تو بہت خوش ہے‘‘۔ اُس نے پوچھا : ’’بیل کیا کرتا ہے؟‘‘ کہا کہ: ’’بیل تو درخت کے نیچے بیٹھ کر آرام کرتا ہے، گائےکے حقوق کے لیے پُرزور آواز اٹھاتا اور خوش ہوتا ہے‘‘___ چنانچہ یہاں بھی فخر سے بتا یا جا رہا ہے کہ لیبر فورس میں ٪۳۷ فی صد خواتین ہیں، یعنی وہ اینٹیں بھی اٹھاتی ہوںگی، سڑکیں بھی بناتی ہوںگی اور نا معلوم کیا کیا لیبر فورس کے کام کرتی ہوںگی اور کن حالات میں ہوںگی؟ ساتھ گھر میں کھانا، کپڑے، صفائی اور بچوں کی نگہداشت بھی۔ ایک بات انھوں نے اچھی کہی کہ کام کرنے والی ماؤں کو ہم چھے ماہ کی زچگی کی چھٹی، مع تنخواہ دیتے ہیں‘‘۔  مراکش کی خاتون نے درود شریف سے آغاز کیا۔ فلسطین کی خاتون نے بتایا کہ: فلسطین کی ۷۰ فی صد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے تو ہم اپنے اہداف کیسے پورے کریں؟‘‘ 
دوپہر تک مختلف ممالک کے رپورٹ سیشن میں شرکت کی۔ اسی دوران نماز کا وقت ہو گیا۔ پہلے روز دونوں نمازیں جمع کر کے اپارٹمنٹ میں پڑھی تھیں۔ آج ہم نے سوچا کہ ہمیں تلاش کرنا چاہیے یہاں کہیں نماز کے لیے جگہ ہوگی۔ ہم نے استقبالیہ سے عبادت کی جگہ (Prayer Room) کا پوچھا، تو وہ خاتون ہمیں نیلے شیشوں والے ایک کمرے تک چھوڑ آئی۔ اندر چند افریقی بھائی اور بہنیں  نماز کی تیاری کر رہے تھے۔ انھوں نے جماعت کا اہتمام کیا، آگے مرد اور پیچھے خواتین کھڑی ہوگئیں۔ پھر آیندہ دنوں میں بھی ہم وہاں نمازیں پڑھتے رہے۔ ایک دن وہاں پر ایک عیسائی خاتون کو بہت دیر تک عبادت میں بڑے خشوع و خضوع کی حالت میں دیکھا۔
اقوام متحدہ کے پروگراموں کے علاوہ این جی اوز بھی اپنے اپنے پروگرام کرتی ہیں اور کچھ پروگرام یو این او کے مختلف اداروں کے تحت ہوتے ہیں۔ انھیں ’متبادل سرگرمی‘کہا جاتا ہے۔ زیادہ پروگرام ’عورت کے معاشرتی تحفظ اور معاشی خود مختاری‘ اور ’صنفی برابری‘ پر ہی تھے۔ ساتھ ہی تیسرا عنوان ’جنسی تشدد اور اس کی روک تھام‘ بھی تھا۔ ایک جگہ معذور خواتین کی بحالی یا معاشی زندگی پر پروگرام ہو رہا تھا۔ایک پروگرام ’نقد رقوم کی منتقلی سے خواتین کی زندگیاں بدلنا‘ تھا۔ یہ عنوان دیکھ کر اس بڑے کمرے میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہاں فلم انڈسٹری کی خواتین زیادہ تھیں اور میڈیا کے ذریعے زندگیاں بدلنے پر بات ہورہی تھی۔ جب ہم داخل ہوئے تو پورا کمرہ بھر چکا تھا۔ تھوڑی دیر پیچھے کھڑے رہے ، تو پروگرام انتظامیہ کی ایک خاتون آئی اور ہمیں اشارہ کیا کہ میرے ساتھ آئیں۔ وہ ہمیں اگلی سیٹوں پر لے گئی اور وہاں اُس نے اپنی کچھ خواتین کو اٹھایا اور ہمیں جگہ دی۔ ہم نے دیکھا کہ جن کو اٹھایا تھا وہ نیچے بیٹھ گئیں، حالانکہ ہم نے بہت کہا کہ انھیں مت اُٹھائیں۔ 
اس کے بعد اگلے دن کانفرنس میں آئے تو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹو نیو گوٹرس کے ساتھ سوال جواب کا سیشن تھا۔ بہت زیادہ سوال کیے جا رہے تھے۔ اس سیشن کی دل چسپ بات یہ تھی کہ ’طاقت وَر خواتین‘ کے خلاف لوگ شکایات کا انبار لگا رہے تھے۔ بنگلہ دیش کے بارے میں   یہ بات رکھی گئی کہ وزیراعظم حسینہ واجد، سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے ساتھ بُرا سلوک کر رہی ہے اور انھیں اتنے عرصے سے قید میں رکھا ہوا ہے۔ گویا یہ ثابت ہو رہا تھا کہ عورت اگر طاقت وَر (Empowered) ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک بھی کرے گی یا اُن کے حقوق دلوائے گی۔ 
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے سوا تمام مسلم ممالک اور شمالی افریقہ میں بھی بیش تر ملکوں میں اقوام متحدہ، امریکا اور مغربی ممالک کے نزدیک مسلمان عورت کو معاشی استحکام حاصل نہیں ہے۔ ان کے خیال میں ’عورت جب تک خود نہ کمائے وہ مفلس ہے‘۔ انھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان خواتین کو گھر کی ملکہ بنایا ہے اور اکثریتی مسلمان گھرانوں کی عورتیں کوئی نوکری کیے بغیر بھی والدین اور شوہرو ں کے گھروں میں تمام میسر سہولیات کے ساتھ رہتی ہیں۔ البتہ مسئلہ وہاں پر پیدا ہوتا ہے کہ جہاں اسلام کی تعلیمات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ 
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار وومن ججز (AWJ) کے تحت پروگرام تھا کہ: ’’عورت کے بارے میں شعبۂ قانون کی خواتین اہداف کیسے حاصل کریں؟‘‘ عملاً ہر پروگرام میں قانون سازی پر زور تھا کیو ںکہ قانون سازی کے بعد ساری قوم کو پابندی کرنی پڑتی ہے چاہے، کوئی متفق ہو یا نہ ہو۔
سعودی عرب میں ’قومی پالیسیوں کی تشکیل میں خواتین کے تحقیقاتی ادارے کا کردار‘   میں بتایا گیا کہ: ’’سعودیہ میں خواتین کی ترقی کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے‘‘۔ گویا کہ اقوام متحدہ، مسلم ممالک کو اپنی مرضی کے ایجنڈے بنانے اور نفاذ کی سطح تک لے آئی ہے۔
افغانی خواتین کےلیے چیلنجز اور ترقی کے مواقع پر بھی ایک پروگرام تھا، جس کا اہتمام افغانستان اور ناروے نے کیا تھا۔اسی طرح شام اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں متاثرہ خواتین کی بہبود اور سماجی تحفظ پر بھی پروگرام رکھے گئے۔
اقوام متحدہ کے نوجوانوں سے متعلق اداروں اور لڑکیوں کے بارے میں کئی ورکنگ گروپس کے تحت، حکومتوں اور اقوام متحدہ کے سینئر افسران کے ساتھ مکالمے کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کاعنوان تھا: Take a Hot seat۔ یہ یو این ویب ٹی وی پر براہ راست بھی نشر ہو رہا تھا۔ یہاں سب کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ صرف دعوت نامے کے ذریعے سے جا سکتے تھے۔ 
اسی طرح ایک نیا عنوان سننے کو ملا، جس کے تحت ایک میلہ منعقد کیا گیا تھا: Gender inclusive Language Fair (غیر صنفی زبان و کلام)۔ تفصیل یہ ہے کہ: ’’عام استعمال ہونے والی روز مرہ کی زبان سے وہ تمام الفاظ ختم کیے جائیں یا بدل دیے جائیں، جو کسی بھی طرح مرد کی برتری ثابت کرتے یا کسی جنس کو ظاہر کرتے ہیں، مثلاً  Mankind, Chairman, Man power 
,  Manmade, congress men, Ladies and gentlemen, girls and guys وغیرہ۔ ان کی جگہ غیر جانب دار (neutral) الفاظ لائے جائیں، مثلاًYou Guys (اے جوانو!)کے بجاے  You all  (آپ تمام)، Chairman کی جگہ Chair اور جہاں یہ الفاظ میسر نہ ہوں Self-inclusive language ، یعنی صیغہ متکلم استعمال کیا جائے ’ہم‘ ،’سب‘، ’ہمارا‘ وغیرہ۔ اس ضمن میں Gender inclusive Charts متعارف کروائے گئے جو انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ ان چارٹوں میں جو رنگ استعمال کیے گئے وہ ’ہم جنس زدگان‘ (LGBTs) کی کلر اسکیم ہے۔
گویا اس کے ڈانڈے وہاں جا کر ملتے ہیں کہ: ’’خاندان جب عورت اورعورت، مرد اور مرد پر بھی مشتمل ہوگا تو پھر جنسی تفریق کیوں؟ بس سب ایک ہیں ، جب اور جیسے چاہیں اپنا خاندان بنا سکتے ہیں۔ عورت اور عورت جا کر بنک سے مرد کے تولیدی جرثومے (sperms) حاصل کرلے اور بچہ پیدا کرلے۔ مرد+مرد کسی بھی عورت کا رحم (uterus) کرائے پر حاصل کریں (جو ان ممالک میں آسانی سے مل جاتے ہیں) اور اپنے لیے بچے پیدا کر لیں‘‘۔ اسی طرح بچوں کو گود لینا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ خاص طور پر اب تو بہت سے مہاجر، یتیم اور لاوارث بچے شام، عراق، برما اور دیگر مسلم ممالک سے انسانی ہمدردی کے تحت این جی اوز مغربی ممالک میں منتقل کر رہی ہیں، جو ان خاندانوں میں پل رہے ہیں، اور بہت سے بچے وہاں رہنے والے مسلمان گھرانوں کے ہیں جنھیں والدین کی طرف سے ذرا بھی ڈانٹ ڈپٹ ہوتی ہے تو چھین کر ایسے لوگوں کو دے دیے جاتے ہیں۔ 
’عورت کی صحت‘ اقوام متحدہ کے تحت این جی اوز کے لیے اہم عنوان ہے۔ اس ضمن میں عورت کی تولیدی صحت اور زچگی کے وقت شرح اموات کو کم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
ایک پروگرام ’خصوصی خواتین‘ کے بارے میں تھا۔ چین کی ایک خاتون جو خود بھی قوت گویائی سے محروم تھیں اس پروگرام کی روح رواں تھیں۔ وہ اشاروں سے تقریر کر رہی تھیں اور ان کی ترجمان لفظوں میں کمال کی ترجمانی کر رہی تھی۔
ایک پروگرام تھا: ’ماہانہ نسوانی آزمایش اور صحت کا معاملہ‘۔ اس عنوان کو دیکھ کر سمجھ میں آیا کہ پاکستان کی بیکن ہائوس نیشنل یونی ورسٹی میں لڑکیوں نے ایک سال پہلے جو گندا مظاہرہ کیا تھا،  وہ انجانے اور ناسمجھی میں نہیں ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر عورت کی صحت کا ہر عنوان چوراہے پر ہی کیوں زیربحث آئے؟
اسی طرح ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کی مختلف ایسوسی ایشنوں کے تحت پروگرام ہو رہے تھے۔ خاص طور پر ’اسقاط حمل‘ اور ’عورت کا حق‘ کے بارے میں۔ مثلاً: ایک عنوان تھا: ’اسقاط حمل کے حق میں، یک جا اور ہم آواز‘۔ پیغام یہ تھا کہ: ’’عورت کو ہر وہ حق دیں، جس کے تحت وہ خانگی، زچگی، مرد اور عائلی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔ اس کے لیے قانون سازی بھی کی جائے۔ رکاوٹ بننے والی ہر مذہبی اور سماجی آواز کو دبایا جائے‘‘۔
ایک اور عنوان عورت کی صحت کے حوالے سے ایڈز میں مبتلا ہم جنس زدگان، سیکس ورکرز  (بدن فروشوں) اور اسی طرح کی دوسری خواتین کے بارے میں تھا کہ جن کو معاشرہ الگ تھلگ کردیتا ہے۔ ان کے تمام حقوق کی نگہداشت اور معاشرتی حقوق کی حفاظت کے لیے کیا اقدام کیا جائے؟ حکومتوں کی ذمہ داری ہو کہ وہ ان کےلیے قانون سازی کریں۔
ایک پروگرام کا عنوان تھا: Let’s talk about sex work (آئیے، قحبہ گری کی بات کریں)۔ مطلب یہ کہ عورت کو اس گھنائونے کاروبار کی آزادی دی جائے، ایسی عورتوں کی مدد کی جائے کہ وہ گھر سے باہر کتنے مردوں کے کام آ سکتی ہے؟ اس کام کو کیسے بہتر بنا سکتی ہے؟ جنسی کاروبار سے کیسے، کتنا زیادہ کما سکتی ہے؟ اس کے لیے قانون سازی کی جائے۔
دوسری جانب پروگرام ’کم عمری کی شادی کو کیسے روکا جائے؟‘کے بارے میں تھا۔ بلاشبہہ  کوئی بھی مذہب یا معاشرہ بہت چھوٹی عمر کی شادی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، لیکن یہاں تو ایجنڈا ہی کچھ اور ہے جو تمام عنوانات سے ظاہر ہے۔
’جاے ملازمت پر عورت کو ہراساں کیا جانا‘ ایک مستقل عنوان ہے۔معاشرے کے ہرطبقے کے خلاف، ہر طرح کا تشدد قابل مذمّت ہے، خصوصاً عورت اور بچوں پر تشدد کی کسی صورت   حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی، لیکن وہاں کنونشن کے عنوان بہت دل چسپ تھے مثلاً: ’پارلیمنٹ میں منتخب خواتین کو ہراساں کیا جانا‘۔پارلیمنٹ میں پہنچنے والی خواتین سے زیادہ با اثر اور طاقت ور اور کون ہوگا؟ لیکن اگر ان کو بھی جنسی سراسیمگی کا خوف ہے تو گویا عورت کا اقتدار بھی اس کو تشدد اور سراسیمگی سے بچانے والا نہیں ۔ پھر وہ کیا عوامل ہوںگے جو عورت کو تحفظ اور عزت فراہم کریں گے؟  حیرت ہے اس انسان پر، جو پھر بھی اپنے مالک کی طرف نہیں پلٹتا اور اس بات پر غور نہیں کرتا کہ عورت اور معاشرے کے ہر فرد کے لیے اس نے کون سے حفاظتی قلعے بنائے ہیں؟ کن عورتوں کو محصنات قرار دیا ہے؟ معاشرتی استحکام کے لیے، معاشرتی قدروں کے لیے اس نے کون سے اصول وضوابط بنائے ہیں کہ ایک عورت کو لمبا سفر تن تنہاکرنے کے باوجود کسی سراسیمگی اور عدم تحفظ کے خوف سے نجات کی بشارت دی گئی ہے۔ 
سات نارڈک ممالک (ناروے، سویڈن، فن لینڈ، آئس لینڈ، ڈنمارک وغیرہ) کے وزرا پر مشتمل گروپ کے زیربحث عنوان تھا:The Gender effect on leave and care policies, stronger with dads involved ، یعنی: ’چھٹیوں کے دوران دیکھ بھال کی پالیسیوں پر صنفی اثرات، باپ کی شمولیت سے زیادہ مضبوط‘۔ بظاہر عنوان سے لگتا تھا زچگی کی چھٹیاں ماں کے ساتھ باپ کو بھی دی جائیں تاکہ دونوں مل کر بچے کی اور ایک دوسرے کی دیکھ بھال کریں۔ لیکن تفصیلات کے مطابق یہ تھا کہ وزرا کا گروپ یہ وضاحت کرے گا کہ: ’’مرد، بچوں کی دیکھ بھال میں زیادہ ہاتھ بٹاسکیں اور عورت لیبر مارکیٹ میں زیادہ مشغول ہوسکے، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر اقتصادی خوش حالی اور معاشرتی فلاح میں بہتری ہوسکے‘‘ یعنی معاشرے کا پہیہ  اُلٹا گھمانے کی تیاریاں۔ سُن ، پڑھ اور زیربحث دیکھ کر دماغ چکّرا گیا۔ان ممالک کے وزرا نے اپنے اپنے ملک میں اس پالیسی پر عمل درآمد کی رپورٹیں پیش کیں۔ غور کریں ان معاشروں کا مستقبل کیا ہوگا، جہاں عورتیں مزدوری کریں گی، مرد بچے سنبھالیں گے؟ 
گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے معاشی و سماجی تحفظ پر بتایا گیا کہ دنیا بھر میں  ان کی اُجرتیں کم ہیں اس پر غور کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ’گھریلو کام کی اُجرت‘ پر زور دیا گیا کہ گھریلو خواتین، یعنی بیویوں (House wife’s) کو گھر کے کام کی بھی اُجرت دی جائے، یعنی گھر کو بھی کاروباری ادارہ بنا دیں اور احسان، محبت، ایثار ختم کر دیں۔ عورت، شوہر اور بچوں کے جو کام کرے اس کی تنخواہ دی جائے، یعنی ممتا کا گلا گھونٹ دیں، زوجیت کا بھی بل لیا جائے۔کاش!  یہ عورتیں اور مرد جان سکیں کہ اللہ نے تو حکم دیا ہے کہ عورت کی ہر ضرورت کا کفیل مرد ہوگا۔ اپنی آمدن کے مطابق اس کو گھر اور ذاتی استعمال کے لیے بن مانگے خرچ دےگا، تاکہ میاں بیوی میں اس سے محبت اور اعتماد پروان چڑھے اور وہ اعتماد سے نئی نسل کی پرورش کریں۔
انسانی سمگلنگ (Human Trafficking)کی روک تھام پر بھی پروگرام کیے گئے۔ 
ایک عنوان میں:’ماؤں کے لیےمعاشرتی تحفظ میں بہتری‘ لانے کا سوال اُٹھایا گیاتھا۔  یہ اچھا عنوان تھا، لیکن فکر مندی والی بات یہ تھی کہ آج ماں کو بھی اس کی ضرورت پیش آ گئی کہ اس کو بھی سوشل پروٹیکشن دی جائے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ اسلام میں ماں کے جتنے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق دیے گئے ہیں وہ ہم دنیا تک پہنچا سکیں اور انھیں اسلام کا یہ روشن چہرہ دکھا سکیں۔   دنیا کو بتا سکیں کہ اسلام کا سافٹ امیج وہ نہیں ہے، جو آج کے دین سے بیزار لوگ ناچ گانے کی شکل میں دکھا رہے ہیں۔ دراصل سافٹ امیج یہ بہترین قوانین ہیں، جن میں عورت کو مختلف معاشرتی حیثیتوں میں جو تحفظ اللہ نے دیا ہے وہ مرد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اجلاس میں شرکت کے بعد (اور اس سے پہلے ان ایجنڈوں کو سمجھتے ہوئے) جو چیزیں ذہن میں آ رہی ہیں اور اللہ کے دین کے داعی کی حیثیت سے جو ہماری ذمہ داریاں بنتی ہیں، ان کو ترتیب دیں۔ ایک جانب ہم ان مختلف ایجنڈوں کو سمجھ سکیں اور دوسری جانب ہم اقدامی طور پر وہ ایجنڈا جو اللہ تعالیٰ نے انسانیت اور عورت کی فلاح کے لیے دیا ہے، اس کو آگے بڑھا سکیں۔ اس معرکۂ حق و باطل میں ہم آنکھیں بند کرکے نہیں رہ سکتے۔نقطہ وار چند باتیں عرض ہیں:

  1. ان عالمی طاقتوں کے پروگرام اور ایجنڈے سے آگاہی کے لیے ان کو پڑھیں، سمجھیں اور ان کےاصل مقاصد کو جانیں اور پہچانیں۔
  2. ان ایجنڈوں کو پرکھیں کہ ان میں سے کیا چیزیں درست ہیں اور کون سی درست نہیں؟ ہر چیز کی نفی مقصود نہیں ہے۔ ان کےایجنڈے اور پروگرام چاہے وہ سیڈا کنونشن ہے ، یا بیجنگ پلس۵ ، اور یہ CSW۔ ان سب میں جو کچھ درست ہے، ان کا اعتراف ہونا چاہیے۔ اگر ہمارے معاشرے کے اندر ایسی کوئی رسومات موجود ہیں، جو عورت اور خاندان کے واقعی استحصال پر مبنی ہیں، ہم بھی ان کی نفی کریں اور ان کے خلاف آواز اٹھائیں۔
  3. اسلامی تحریکیں اپنی درست پہچان کرائیں کہ بحیثیت مسلمان ہم ، عورت، خاندان اور معاشرے کی فلاح کے لیے کیا پروگرام رکھتے ہیں؟ ہم صرف کسی کے پیش کیے گئے اقدامات یا ایجنڈے پر رد عمل کے طور پر کام کرنے والے نہیں ہیں بلکہ اپنے مقام اور کام کو خود سمجھتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت خالق اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور اللہ کے نبی اور پیغمبر ہمیں دیا ہے۔
  4. ضرورت یہ ہے کہ معاشرے کے اندر ہمیں اور ہمارے ہر بچے کو معلوم ہو کہ اسلام، عورت کا اصل مقام کیا متعین کرتا ہے؟ خاندان کے اندر عورت کی کیا اہمیت ہے؟ مرد اور بچوں کی کیا اہمیت ہے؟ خاندان کے بزرگوں کا مقام کیا ہے اور معاشرے کی فلاح کس چیز میں ہے؟ یہ وہ بنیادیں ہیں جو ہمارے ہر داعی اور ہر اس کارکن کو ازبر ہونی چاہییں جو معاشرے کے اندر کام کر رہا ہے۔ جب اس کو خود ان بنیادوں کا علم ہو گا تو وہ کسی دوسرے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوگا۔
  5. اپنی حکومتوں کو راہ راست پر رکھنے کے لیے علمی فکری گروپس بنائے جائیں، کیوںکہ ہم نے وہاں پر دیکھا کہ غیر مسلم حکومتیں تو جو کر رہی ہیں سو کر رہی ہیں، لیکن مسلمان حکومتیں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار نظر آ رہی تھیں۔ وہ اپنی رپورٹوں میں آگے بڑھ بڑھ کر غلط اور مبالغہ آمیز اعداد و شمار کے ساتھ پیش کررہی تھیں کہ: ’’ہم نے یو این او کے ایجنڈا کے اہداف کتنے فی صد حاصل کر لیے ہیں اور کتنے فی صد ۲۰۳۰ء تک حاصل کر لیں گے اور اس کے لیے کیا کچھ کر رہے ہیں؟‘‘ ہماری حکومتوں نے ظاہر ہے بہت سی منفی چیزوں کو بھی قبول کرلیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کے لیے پریشر گروپ ہوں، جو مسلم ممالک کی حکومتوں کو اس بات پر کھڑا رکھیں کہ وہ کسی غلط چیز پر دستخط نہیں کریں گی اور کوئی غلط ایجنڈا نہیں اپنائیں گی۔ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان کی حکومت ا ور پاکستان کے لوگوں نے ہمیشہ خاندان کے حق میں آواز اٹھائی ہے، ’فیملی واچ‘ کے ساتھ مل کر کئی چیزوں، مثال کے طور پر ہم جنسیت اور اس طرح کے کئی عنوانات کے خلاف ابھی تک اپنا موقف رکھا ہے۔ اللہ کرے کہ ہماری حکومتیں اس پر قائم رہیں۔ اس ضمن میں ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ ایسے معاملات میں جو اچھے کام کررہے ہیں، ان کی مزید حوصلہ افزائی کریں اور جو غلط چیزیں ہیں ان کی نشان دہی کریں اور انھیں اس بات پر مجبور کریں کہ وہ کسی غلط چیز پر قانون سازی نہیں کریں گے۔
  6. ’فیملی واچ‘ اور اس طرح کے دوسرے ادارے جو فلاحِ خاندان کے لیے کام کر رہے ہیں اور معاشرے کو تباہی سے بچانا چاہتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی اور ان کی مدد کرنا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے۔
  7. ہمیں اپنے اپنے ملک میں نظام تعلیم اور نصاب پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کم از کم تحریکی یا تحریکی افراد کے اداروں کے اندر ہم ایسا نظام تعلیم بنائیں اور ایسا نصاب دیں کہ وہاں سے پڑھ کر نکلنے والے بچّے، شیطان کی چالوں کو سمجھ سکیں اور کسی بھی منفی چیز سے متاثر نہ ہوں۔ جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں مختلف اسکولوں اور اداروں سے پڑھی بچیاں بہت سی منفی سرگرمیوں کے اندر اس لیے ملوث ہوجاتی ہیں کہ ان کے پاس صحیح بنیادی تعلیم نہیں ہوتی۔ اگر ہم ایسا نصاب تعلیم بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ اسی طرح صنفی بنیادوں پر مبنی جو تعلیمات دی جا رہی ہیں ، ان کا مثبت اور منفی پہلو سمجھا سکیں ۔
  8. ہماری مدرسات دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ شیطانی ایجنڈوں کو بھی سمجھتی ہوں ۔ توازن اور وضاحت کے ساتھ ان چیزوں کو مسلمانوں، غیر مسلموں اور مختلف معاشرتی طبقات کے سامنے پیش کر سکیں کہ خاندان ، عورت اور مرد ، یہ سب الگ الگ اکائیاں نہیں ہیں بلکہ اللہ نے معاشرے کی فلاح کا منصوبہ ایک ہی دیا ہے اور جب معاشرہ فلاح پاتا ہے تو عورت بھی فلاح پاتی ہے، مرد اور بچے بھی فلاح پاتے ہیں۔
  9. ہم اپنے کام کو اعداد و شمار کے ساتھ پیش کریں۔ ہم نے دیکھا کہ جب ہم نے اقوام متحدہ کے ان پلیٹ فارموں پر اپنا کام پیش کیا تو زبانی کلامی باتوں سے لوگ متاثر نہیں ہوئے۔ 

اہم بات یہ ہے کہ تہذیبی جنگ صرف 'عورت کا عنوان نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام ایجنڈوں کے اصل اور مرکزی کردار مرد ہی ہیں جو منصوبہ ساز ہیں۔ مسلم دنیا میں جب تک مرد اس معرکے میں اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح سمجھ کر ادا نہیں کرتے، تنہا عورتیں اس کامقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اسلامی تحریکوں کے سربراہوں کو اس تہذیبی جنگ کا فہم حاصل کرنا اور پھراس کے مطابق منصوبہ سازی کرنا ہو گی۔ یہ انسانیت کی فلاح اور اسلامی اقدار کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
 

The Light of The Qur'an [قرآن کی روشنی میں]، عامرہ احسان۔ ناشر: گوشہ علم و فکر، مکان ۱۹۴، سٹریٹ ۵۲، سیکٹر جی ۱۰/۳، اسلام آباد۔ مجلاتی صفحات:۵۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔
یہ سب اللہ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آخری پیغام کی تعلیم وتدریس کی نعمت کس کو عطا فرماتا ہے۔ پھر کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ، جو اس مقصد کے لیے نئے نئے تجربے کرتے اور والہانہ انداز سے ہردل کو پیغامِ حق کی جانب موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیرنظر کتاب بھی اسی سمت ایک بامعنی اور باوزن کاوش ہے۔ محترمہ عامرہ احسان نے اس سے قبل گذشتہ دس برسوں کے دوران قرآن کی روشنی کے زیرعنوان ایک تدریسی کتاب، قرآن فہمی کے لیے ترتیب دی تھی، جس میں تمام سورتوں کے مرکزی موضوعات کو اس طرح مرتب کیا تھا کہ آج کے قاری تک، اس کے مانوس ذوقِ مطالعہ کے مطابق تفہیم کرسکے۔
اس کامیاب اور مؤثر تدریسی کتاب کو اب بہت سے اضافوں کے ساتھ انگریزی خواں طبقے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ بالخصوص، اس نسل کے لیے مرتب کیا گیا ہے، جو انگریزی میڈیم تعلیم سے نکلنے کے بعد اُردو سے نابلد اور اُردو میں اعلیٰ درجے کے دینی و علمی اثاثے سے محروم ہوگئی ہے۔ یعقوب انور صاحب نے انگریزی ترجمہ بہت عام فہم اور مؤثر انداز سے کیا ہے۔ موضوعات، زندگی کی گرہوں کو کھولتے ہیں اور پیغامِ ربّانی دل اور ذہن میں اُتارتے ہیں۔ (س م خ)


عزیمت کے راہی (ہفتم)، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔صفحات: ۳۸۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔
انسان عمر طبعی گزار کر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے، مگر اس کی یادیں پس ماندگان کے دلوں میں زندہ و تابندہ رہتی ہیں۔ حافظ محمد ادریس صاحب نے کئی سال پہلے اپنے بزرگوں، عزیزوں اور تحریک ِ اسلامی کے احباب کی یادوں کو قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ عزیمت کے راہی کے عنوان سے اس سلسلے کے چھے حصے شائع ہوچکے ہیں، ساتواں حصہ حال ہی میں منظرعام پر آیا ہے۔ اس میں ۲۳مرحومین (خواتین و حضرات) کا ذکر ہے جن میں اخوان المسلمون کے ساتویں مرشدعام الاستاذ محمد مہدی عاکف، مولانا محمد افضل بدر، حسن صہیب مراد، صفدر علی چودھری، مظفراحمد ہاشمی، رانا نذرالرحمان اور مظفروانی شہید جیسے معروف رفتگان کے ساتھ خدابخش کلیار، پروفیسر میاں سعید احمد، ملک محمد شریف، حکیم عبدالوحید سلیمانی، ڈاکٹر ہارون رشیدخان، افتخار فیروز اور عبدالعزیز ہاشمی جیسے نسبتاً کم معروف مرحومین کا تذکرہ بھی شامل ہے۔
اس طرح کا تذکرہ مرتب کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ حافظ صاحب نے بڑی محنت، محبت، توجہ اورخاصی کاوش سے مرحومین کے حالات جمع کیے ہیں۔ لیاقت بلوچ صاحب (نائب امیرجماعت) نے بجا طور پر اس کتاب کو اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے’ تحفہ‘قرار دیا ہے۔ ’دعوت و تربیت اور کردار سازی کے لیے‘ بھی زیرنظر تذکرہ نہایت مفید ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


گلدستۂ تربیت، اہتمام: ادارہ فروغِ علم (مسجد مکتب اسکیم) منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۵۹۲-۰۴۲۔ مجلاتی صفحات، مجلد: ۲۵۶۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔ 
اسلام کا تصورِ تعلیم و تربیت سے رچا ہوا ہے۔ محض اعداد و شمار اور نری معلومات ایک اچھے انسان کی تشکیل میں خام رہتی ہیں وہ لوگ جن کے پیش نظر کوئی مقصد ہوتا ہے، وہ اس بات کا ضرور اہتمام کرتے ہیں کہ انسانِ مطلوب کو ایک نقشۂ کار کے مطابق تیار کرسکیں۔
ادارہ فروغِ علم نے معاشرے کی بالکل عام آبادی میں، اور درحقیقت ناخواندہ بالغان کو اسلامی، سماجی، شہری فہم دینے کے لیے یہ ایک ایسی ’ورک بک‘ تیار کی ہے، جس کو سبقاً سبقاً پڑھ کر،  یا سن کر، بنیادی معلومات تک رسائی ہوجاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسے عام دینی مدرسے، اسکول اور کالج کے طالب علموں کی تربیت کے لیے بھی ایک مفید ماخذ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔(س م خ)

 نیاز عرفان ،اسلام آباد

ویسے تو ترجمان کا ہر شمارہ معلوماتی اور اصلاحی مضامین لیے ہوتا ہے، لیکن ماہ جون کا ہر مضمون اور مقالہ نہایت درجے کا معیاری ہے۔ بالخصوص مفتی عدنان کاکا خیل صاحب کی تحریر تو محاکمے کی بہترین مثال ہے، جس میں نام نہاد ترقی پسندوں کو مدلل جواب دیا گیا ہے۔دوسرے، ’تکفیر کے شرعی اصول‘ میں ایک غلطی کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ لکھا ہے: ’’ انھوں (حضرت عمرو بن العاصؓ ) نے اپنے پولیس چیف خارجہ بن ابی حبیب کو اقامت کا حکم دیا، جن کو عمروتمیمی نے حضرت معاویہ ؓ کے شبہے میں قتل کر دیا‘‘(ص ۸۰)۔یہاں حضرت معاویہ ؓ کے بجاے حضرت عمر وبن العاصؓ ہونا چاہیے تھا۔ بغور پروف پڑھا ہوتا تو ایسی غلطی سے بچا جا سکتا ہے۔ 


بشیر احمد کانجو، ڈھرکی، گھوٹکی

جون ۲۰۱۹ء کا شمارہ حالات حاضرہ کاحقیقی بیانیہ ہے۔ پہلی دستور ساز اسمبلی کا مقدمہ جماعت کی تاریخ کا اہم ورق ہے۔چائلڈ میرج بل ؟معاشی بحران، بھارتی سیکولرازم بے نقاب ، تکفیر کے شرعی اصول ، شادی سے قبل رہنمائی، جیسے جدید عنوانات نے رسالے کے مباحث کو زور دار بنا دیا ہے ۔ ’موت کی یاد ‘ میں یہ الفاظ عمدہ تذکیر ہیں: ’’موت کی یاد تازہ کرنے سے اصلاً مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو اصلاحِ احوال کی فکر دامن گیر ہوجائے ،    نیک اعمال میں اپنے آپ کو سرگرم رکھیں ، گناہوں کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے قدم رک جائیں، اور نیکیوں کی طرف تیز قدم بڑھانے والے بن جائیں ‘‘(ص۲۹)۔ ’اشارات‘ میں جناب عبدالغفار عزیز نے بڑی خوبی سے بتایا ہے کہ ایک سازش کے تحت ذرائع ابلاغ، دریدہ دہن شخصیات کو نمایاں کررہے ہیں ۔ 


رحمت اللہ ، چک درہ، دیر پائین

’اشارات‘ میں عبدالغفار عزیز صاحب نے شیطان کی چالاکیاں ، مکاریاں اور حربے بیان کیے ہیں ۔ نیز خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں غیر ملکی سازشوں اور مسلم ممالک کی شرکت کو بیان کیا ہے۔ افسو س کہ آج بھی مسلمان حکمران یہی حرکت کر رہے ہیں ۔ اس تحریر کا بڑا کمال مختصر ہونا بھی ہے۔’ موت کی یاد‘ ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی صاحب کا ہر اعتبار سے شان دار مضمون ہے۔ مفتی سیّد عدنان کاکا خیل صاحب کے علمی مضمون سے اندازہ ہوا کہ سیکولرطبقے اسلامی تعلیمات سے بے خبر ہیں۔ 


احمد حسن آفندی، کراچی

’معاشی بحران اور آئی ایم ایف‘ مضمون مناسب نہیںلگا ، اگرچہ محترم پروفیسرخورشید احمد نے وضاحت بھی کی ہے، مگر تاثر یہ بنتا ہے کہ آئی ایم ایف ہمارے لیے ناگزیز ہے۔ اللہ کرے یہ تاثر غلط ہو۔


راجا محمد عاصم ، موہری شریف ،کھاریاں

جناب عدنان کاکا خیل نے ایک اہم معاشرتی مسئلے پر مغرب نوازوںکے چہرے سے پردہ اٹھایا ہے،اور محترم وقار مسعود خان نے پاکستانی معیشت کے خدوخال سے تعارف کرایا ہے ۔ 


ملک وارث جسرہ ایڈووکیٹ ، خوشاب

ترجمان القرآن ایک دعوتی اور تحریکی رسالہ ہے۔ لیکن میرا یہ خیال ہے کہ اس کے مضامین سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے۔اکثر مضامین کا دعوتی نقطۂ نظر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور زبان بڑی مشکل ہوتی ہے، اسی لیے لوگ دل چسپی نہیں لیتے ۔ اس کو آسان اور عام فہم ہونا چاہیے، اور چالیس صفحات کے ’اشارات‘ کا مجموعہ نہیں ہونا چاہیے۔

  • [ترجمان القرآن ایک دعوتی وتحریکی رسالہ ہونے کے ساتھ ایک علمی وفکری رسالہ بھی ہے۔ قارئین کی علمی اور فکری ضرورت اور سطح بلند کرنے کے لیے علمی مضامین پیش کرنا اور ان کا مطالعہ کرنا اسی طرح ضروری ہے کہ جس طرح طاغوت اور جاہلیت کے فکروعمل کا جائزہ لینا اہم ہے ۔ کوشش کی جاتی کہ زبان وبیان کو عام فہم بنائیں ، لیکن بعض مقامات پر ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ توقع ہے کہ قارئین بھی اپنی علمی صلاحیت اور فہم کو بلند کریں گے ۔ ہم ، ترجمان کو عام فہم بنانے کے لیے مزید کوشش کرتے رہیں گے ۔البتہ ایک وضاحت ہے کہ: علمی اور فکری بلندی کا تعلق پی ایچ ڈی سے نہیں ہوتا ۔ ادارہ ]

محمد یوسف  ،وزیرآباد

ترجمان القرآن جماعت کا ایک منفرد ماہ نامہ ہے، مگر اب اس کا علمی معیار کم ہوگیا ہے اور فکری اعتبار سے کم زور، بلکہ فکری انتشار کا شکار ہے۔ براہِ کرم اس کے علمی اور تحقیقی معیارکو بلند بنایا جائے۔

  • [مسلسل کوشش کی جاتی ہے کہ بلند درجے کے تحقیقی اور فکری مضامین پیش بھی کریں، لیکن ساتھ ہی بیش تر قارئین کی فکری سطح کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ’بحث و نظر‘ کے تحت مختلف فیہ نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے تاکہ دوسرا پہلو بھی سامنے رہے۔ محترم قاری نے علمی معیار کم بلکہ فکری انتشار کا تذکرہ فرمایا ہے، براہِ کرم کسی مضمون کےاس پہلو کی نشان دہی کردیں تاکہ مستقبل میں اس کوتاہی سے بچا جا سکے۔ادارہ]