معاشرہ کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ زندگی اور موت، تعمیر اور تخریب کا معاشرتی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ تاہم جب موت کے سایے گہرے اور تخریب کے حوالے بڑھ جائیں تو معاشرہ بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں زندگی اور تعمیر کی قوتوں کے لیے ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا بھرپور اورمثبت کردار ادا کرکے معاشرے کو زندگی اور تعمیر کا نمونہ بنائیں۔
پاکستانی معاشرہ بھی اسی طرح کی کش مکش سے دوچار ہے۔ یہاں ایک طرف اگر تعمیر کا نشان بلند ہوتا ہے تو ساتھ ہی تخریب کی موجیں اسے زیرآب لے جانے کے لیے اُمڈ آتی ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل کے لیے آج کے حالات کی شدت بے مثال ہے، لیکن انھیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ: ’ہم لائے ہیں طوفاں سے کشتی نکال کے‘ بھی ایک حقیقت ہے۔ ہمارا معاشرہ آج اچانک کسی عفریت کے جبڑوں میں نہیں جکڑا گیا، بلکہ یہ کام بہت پہلے شروع ہوا، اور یہ عفریت اپنی کینچلی اور رنگ بدل بدل کر اس معاشرے کی کمرتوڑنے کے درپے رہا ہے۔ یہ سب کچھ یکایک رُونما نہیں ہوگیا بلکہ اس میں درجہ بدرجہ بہت سی قوتوں نے حصہ ڈالا ہے، بالخصوص طاقت ور منفی طبقوں نے!
یہاں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ (۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ئ-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ئ)کی چند تحریروں اور بیانات کی روشنی میں پاکستانی تاریخ کے اوراق اُلٹے ہیں کہ اس موسمِ خزاں نے گلستانِ وطن کو کس کس طرح اُجاڑا ہے۔
پاکستان میں دستور سازی کا عمل ابتدائی منازل طے کررہا تھا، مگر طاقت کے حریص طبقے، ملک و قوم کے مستقبل سے بے پروا ہوکر باہم جنگ و جدل میں مصروف تھے۔ مغربی پاکستان سے جاگیردارانہ پس منظر کے حامل سیاست دان، کھلے عام اعلیٰ سول افسروں سے مل کر اور پس پردہ اعلیٰ فوجی افسروں سے سازباز کرکے، زیر تشکیل دستور میں نقب لگا رہے تھے۔ وہ اس امر سے بے پروا تھے کہ اس کا نتیجہ مشرقی پاکستان میں کیا نکلے گا اور خود یہاں مغربی پاکستان میں کیا عذاب آئے گا۔ جدید تعلیم یافتہ اور انگریزی طور طریقوں کا رسیا یہ حاکم طبقہ اپنی دُھن میں ہرچیز کو تہس نہس کر رہا تھا۔ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کو مولانا مودودی نے قوم کو متنبہ کرتے ہوئے لاہور میں خطاب کے دوران کہا تھا:
کسی زندہ قوم کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ چند آدمیوں کے ہاتھ میں دے کر خاموش بیٹھ جائے، اور ان کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ جس طرح چاہیں ملک کے نظام کو ڈھال دیں۔(سیّد مودودی: دستوری سفارشات پر تنقید و تبصرہ،ص ۴۱)
دراصل وہ خبردار کر رہے تھے کہ قومی معاملات کو چند ہاتھوں میں دے دینے کا نتیجہ محلاتی سازشوں اور ان کے نتیجے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ ظاہر ہے کہ ملک میں لاقانونیت اور غیردستوری کلچر کے فروغ سے ظلم کے علاوہ کون سی فصل برگ و بار لاسکتی ہے؟ اور جب مسئلہ ملک کے دفاع کا ہو تو حسِ انصاف کو بیدار رکھنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے، بجاے اس کے کہ جنگی صورتِ حال میں عدل کو بھی گولی کا نشانہ بنادیا جائے۔ یہاں مولانا مودودی کی ایک طویل تقریر سے اقتباس دیا جا رہا ہے۔ یہ تقریر انھوں نے ۲۲جولائی ۱۹۵۱ء کو لاہور میں کی تھی۔ تب بھارتی افواج، پاکستان پر حملے کے لیے تیار کھڑی تھیں اور ملک سخت ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھا۔ مولانا نے بنیادی اخلاقی اصولوں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا تھا:
یہ بات ہرجگہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کریں کہ [قومی] مورال کے بحال رکھنے کے لیے جھوٹ کے بجاے سچ کا ہتھیار استعمال کیا جائے۔ خالی خولی پُرجوش باتوں سے مورال اگر بحال ہو بھی جائے تو یہ مستقل نہیں، عارضی ہوتا ہے۔
ایک اور چیز جسے دفاع کے معاملے میں خاص اہمیت حاصل ہے، وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ظلم و ستم اور بے انصافیوں اور حق تلفیوں کو قطعی طور پر بند ہونا چاہیے۔ ظلم سے بڑھ کر قومی دفاع کو کمزور کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سرزمین [پاکستان] ہمارا نہیں بلکہ اسلام کا گھر ہے۔ ہمارے لیے یہ سب سے بڑی نعمت ہے، اور ہم ہرقیمت پر اس کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہرمسلمان میں اس نعمت کی قدر کا جذبہ پیدا کریں، اور اس کے قلب و روح میں یہ خیال جاگزیں کردیں کہ اس نعمت کی حفاظت میں کوئی قربانی بھی گراں نہیں ہے۔l(اخبار سہ روزہ کوثر، لاہور، ۲۸جولائی ۱۹۵۱ئ)
اس تقریر میں مولانا مودودی نے جنگی صورتِ حال میں جھوٹے پروپیگنڈے کی اشاعت اور ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت محض جوشیلے طرزِ بیان کی نفی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بتایا ہے کہ بھلے لوگو، جب ملک جنگی صورتِ حال سے دوچارہو تو اپنے معاشرے میں اور زیادہ عدل و انصاف کی دولت لٹائو، نہ کہ عدل و انصاف کو صدمہ پہنچائو، اور یہ بھی کہ اسلام کے گھر کے مانند پاکستان کی حفاظت کرنے کے لیے ہر آن تیار بھی رہو۔
اس تقریر کو اڑھائی ماہ اور پاکستان کو قائم ہوئے ابھی چار برس گزرے تھے کہ اوّلین وزیراعظم لیاقت علی خاں کے قتل (۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۱ئ) نے پاکستان کو خونیں دلدل میں دھکیل دیا۔ تلوار اور تشدد کے اس پہلو کو مولانا مودودی نے ’قاضیِ شمشیر‘ کی اصطلاح سے منسوب کیا، اور جماعت ِ اسلامی کے کُل پاکستان اجتماع منعقدہ کراچی میں خطاب کے دوران فرمایا:
کسی ملک کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی کہ اس میں فیصلے کا آخری اختیار عقل، شعور، دلیل اور راے عام سے چھین کر ’قاضیِ شمشیر‘ کے سپرد کردیا جائے۔ یہ قاضی کوئی عادل اور صاحب ِ فکر قاضی نہیں ہے۔ یہ اندھا، بہرا اور گونگا قاضی ہے۔ اس سے جب کبھی فیصلہ چاہا گیا ہے ، اس نے حق اور انصاف دیکھ کر نہیں، بلکہ خون کی رشوت لے کر فیصلہ کیا ہے، اور جس نے بھی زیادہ خون چٹا دیا، اسی کے حق میں اس نے فیصلہ دیا ہے، خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق پر، خواہ وہ نیک ہو یا نہ ہو۔
کوئی قوم جو خود اپنی دشمن نہ ہو، اور جس کی عقل کا دیوالیہ نہ نکل چکا ہو، ایسی بے وقوف نہیں ہوسکتی کہ اپنے معاملات کا فیصلہ: شعور و استدلال کے بجاے تلوار کے اندھے قاضی کے سپرد کردے۔ اگر ہم اپنا مستقبل تاریک نہیں کرنا چاہتے تو ہمیںپوری قوت کے ساتھ اپنے ملک کے حالات کو اس خطرناک رُخ پر جانے سے روکنا چاہیے۔(۱۰نومبر ۱۹۵۱ئ، رُوداد جماعت اسلامی،ششم: ص ۵۴)
مولانا مودودی کی جانب سے ’قاضیِ شمشیر‘ کا یہ اشارہ ہر اس اندھی بہری قوت کی طرف ہے، جو عدل کے نام پر عدل کوقتل کرے یا تشدد کے لیے خودساختہ اُصولوں کی بنیادپر دوسروں کی جان لینے کے بہانے گھڑے اور وسیلے تراشے۔ یہ فعل کسی کے بھی ہاتھوں رُونما ہوسکتا ہے: سیاسی لبادے میں ایم کیو ایم جیسے طائفے ہوں یا ’محرومی‘ کے نام پر قوم پرستوں کی پُرتشدد خفیہ تنظیمیں، یا مذہب کے نام کو استعمال کرنے والے خونیں گروہ، یا پھر عدل و انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے بالاتر ادارے۔ انسانی جان لینے کے کھیل میں یہ سب ’قاضیِ شمشیر‘ بن جاتے ہیں۔
جب وزیراعظم لیاقت علی خاں کا قتل ہوا تو اُس وقت ملک میں دستورسازی اور اختیارات کی تقسیم کا معاملہ زیربحث تھا۔زیربحث کہنا درست نہیں، درست بات یہ ہے کہ دستورسازی کے موقعے پر مختلف طاقت ور گروہ زیادہ سے زیادہ اختیارات چھیننے کی دوڑ میں باہم معرکہ آرا تھے۔ ان حالات میں ۳۰جنوری ۱۹۵۳ء کو لاہور کے جلسۂ عام میں مولانا مودودی نے زیربحث بہت سی دستوری سفارشات کے بعض پہلوئوں پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے بارے میں چنداصولی نکات ارشاد فرمائے۔ یاد رہے کہ اُن کی تقریر کا یہ حصہ عام (سویلین) شہریوں کے حوالے سے نہیں بلکہ خود فوجیوں کے بارے میں اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’دستوری سفارشات کی رپورٹ‘ میں فوجی عدالتوں کے مقدمات کے خلاف سماعت کرنے سے سپریم کورٹ کو روک دیا گیا ے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیںآتی، حالانکہ خود انگلستان میں، سپریم کورٹ میں ہرعدالت کے [فیصلے کے] خلاف اپیل کی جاسکتی ہے، حتیٰ کہ فوجی عدالت کے خلاف بھی، اور پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر ہمارے سپاہی کس پاداش میں انصاف سے محروم رکھے جائیں؟ جس طرح سے ایک عام آدمی کے لیے ملک کی آخری عدالت سے انصاف حاصل کرنے کا امکان ہے، اسی طرح سے ہمارے فوجیوں کے لیے بھی انصاف کے حصول کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔ کوئی شخص کہتا ہے کہ اس طرح فوج میں ڈسپلن قائم نہیں رہتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فوج میں بے انصافی سے ڈسپلن کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری فوج کے بھی ہرسپاہی کو پوری طرح سے یہ اطمینان حاصل ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ بے انصافی کبھی نہیں ہوسکے گی، اور یہ ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ کورٹ مارشل کے مقابلے میں سپریم کورٹ سے اپیل کرسکے۔ دستور میں کورٹ مارشل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گنجایش نہ رکھنا قطعی طور پر اسلامی اصولِ عدل کے خلاف ہے۔ (ماہ نامہ چراغِ راہ، کراچی، مدیر: نعیم صدیقی، خصوصی ضمیمہ، جولائی ۱۹۵۳ئ)
یاد رہے یہ اُس وقت کی بات ہے جب پاکستان کا نظامِ حکومت ۱۹۳۵ء کے برطانوی ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت چل رہا تھا اور ابھی تک دستورسازی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اب، جب کہ دستور بن چکا ہے اور ۶۰برس کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد دستوری روایات اور عدالتی عمل اپنی گہری بنیادیں استوار کرچکے ہیں، تو فوج کے داخلی نظام میں فوجی عدالتوں کا معاملہ اور ان کا اختیارِ سماعت کہیں زیادہ واضح انداز میں طے ہوچکا ہے۔
اس دستور ی بحث کے دوران ۱۹۵۳ء کے ابتدائی مہینوں میں صوبہ پنجاب ’فتنۂ قادیانیت‘ کے مسئلے پر ہنگاموں میںگِھر گیا (ان ہنگاموں کی صورت گری کرنے والے چہروں سے کب کا نقاب اُترچکا، مگر ہمارا مقبوضہ میڈیا ان کے نام لینے سے شرماتا ہے)۔ پنجاب کے حاکم آگے بڑھے، سول اور فوجی اعلیٰ افسروں سے مل کر لاہور میں ۶مارچ کو مارشل لا لگادیا۔ اس اقدام سے ’قاضیِ شمشیر‘ نے اقتدار کا ذائقہ چکھا اور اپنی قوت کا اندازہ بھی لگایا۔ فوجی عدالت لگی، سرسری سماعت ہوئی اور ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کے روز مولانا مودودی کو سزاے موت سنانے کا فیصلہ صادر ہوا۔ ازاں بعد شدید عوامی اور بین الاقوامی ردّعمل اور احتجاج کے نتیجے میں یہ سزا عمرقید میں تبدیل ہوگئی۔ وہ مولانا مودودی جو صرف ساڑھے چار ماہ قبل فوجیوں کے لیے انصاف اور اپیل کا حق مانگ رہے تھے، چند ہی ماہ بعد خود اُنھیں فوجی عدالت میں دھر لیا گیا اور اعلیٰ سول عدالت میں اپیل کے حق کا تو کوئی سوال ہی نہ تھا۔
انھی ہنگاموں کی تحقیقات کے لیے جسٹس محمد منیر (م: ۱۹۷۹ئ) اور جسٹس ایم آر کیانی (م:۱۹۶۲ئ) پر مشتمل ایک ’تحقیقاتی عدالت‘ ۱۹جون ۱۹۵۳ء کو قائم کی گئی۔ اس خصوصی عدالت میں ۱۳فروری ۱۹۵۴ء کو مولانا مودودی نے اپنا تیسرا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے فرمایا:
ایک جمہوری نظام میں یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ قوم خود اپنے مفاد کی دشمن ہے، اور اس کے مفاد کو [فقط] چند افسرزیادہ جانتے ہیں۔
دراصل یہ نشان دہی تھی اس خطرے کی، کہ ملک کے کاروبارِ حکومت اور فیصلہ سازی کے عمل کو چند (سول یا فوجی) افسروں کے ہاتھ میں دے دینے کا نتیجہ جمہوری بساط کے لپٹنے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ پہلے مارشل لا کی فوجی عدالتوں نے سول شہریوں کو سزائیں سنائیں، پھر تحقیقات کے نام پر انڈین سول سروس کے تیار کردہ عدالتی افسروں نے مذکورہ بالا تحقیقاتی عدالت کی ایک رپورٹ مرتب اور ۱۰؍اپریل ۱۹۵۴ء کو جاری کی گئی، جس میں دینی اصولوں اور علما کا مذاق اُڑایا گیا تھا اور بہت سی غیرمتعلقہ بحثیں بھی ٹھونس دی گئیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی یہ واحد تحقیقاتی رپورٹ ہے جو سرکاری طور پر بیک وقت انگریزی، اُردو اور بنگلہ زبان میں بڑے پیمانے پر شائع کی گئی (اور اب بھی لاہور کے فٹ پاتھوں سے دستیاب ہوجاتی ہے)۔ یہ رپورٹ دراصل تحقیقات سے زیادہ سیکولرزم کے جواز کا مقدمہ پیش کرنے کی دستاویز تھی، جسے سیاسی مقتدرہ اور اعلیٰ افسرشاہی نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
رپورٹ کی بے سروپا اور حددرجہ متنازع باتوں کا مولانا مودودی نے جیل ہی میں بیٹھ کر جواب لکھا، جو ۱۹۵۵ء میں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع ہوا۔ مولانا مودودی نے برطانیہ میں اصولِ قانون کے مایہ ناز پروفیسر البرٹ وین ڈائسی (Dicey: ۱۸۳۵ئ-۱۹۲۲ئ) کی معروف کتاب The Law of Constitution (طبع نہم) کے حوالے سے لکھا:
مارشل لا کا مفہوم یہ ہے کہ ایک ملک کی یا اس کے کسی حصے کی حکومت عارضی طور پر فوجی عدالتوں کے ذریعے چلائی جائے… سپاہی ایک فساد کو اسی طرح دباسکتے ہیں جس طرح وہ ایک بیرونی حملے کو دفع کرسکتے ہیں۔ وہ باغیوں سے اسی طرح جنگ کرسکتے ہیں، جس طرح وہ غیرملکی دشمنوں سے کرسکتے ہیں۔ مگر وہ [یعنی فوجی] ازروے قانون اس کا کوئی حق نہیں رکھتے کہ فساد یا بدامنی کی سزا لوگوں کودیں۔ امن قائم کرنے کی کوشش کے دوران میں لڑتے باغیوں کو قتل کیا جاسکتا ہے، اور قیدیوں کو اگر وہ بھاگ نکلنے کی کوشش کررہے ہوں گولی سے ماراجاسکتا ہے، مگر کوئی ایسی سزاے موت، جو ایک کورٹ مارشل کی طرف سے دی جائے، غیرقانونی ہے بلکہ اصولاً ایک مجرمانہ قتل ہے۔(ایضاً،ص ۲۹۳).... جب باقاعدہ عدالتیں کھلی ہوں اور مجرموں کو ان کے حوالے کیا جاسکتا ہو، تاکہ وہ عام قانون کے مطابق ان کے بارے میں کارروائی کرسکیں، تو تاج [ریاست]کو دوسرا کوئی طریق کارروائی اختیار کرنے کا حق نہیں ہے۔ (ایضاً، ص ۱۹۸)
مولانا مودودی کسی بھی درجے میں ریاست یا ریاستی اداروں کوعدل اور انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے ہٹ کر چلنے سے روکتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ریاست اور حکومت ایک مہذب حوالہ ہیں، جنھیں قانون شکن اور عدل کے قاتل باغیوں کے برعکس راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ اسی لیے وہ مذکورہ تبصرے میں ڈبلیو فورسائیتھ کی کتاب Cases and Opinions on Constitutional Law کے حوالے سے لکھتے ہیں:
۱۸۶۶ء میں جمیکا کی بغاوت کو کچلنے کے لیے جو مارشل لا لگایا گیا تھا، اس پر انگلستان کے دو ممتازماہرین قانون بحث میں لکھتے ہیں: بغاوتوں کو فوجی طاقت سے دبانا بلاشبہہ قانونی فعل ہے، مگر غیرقانونی [یعنی فوجی] عدالتوں کے ذریعے سے جرائم کے مرتکبین کو سزا دینا ایسی کارروائی ہے جو ’دستاویز حقوق‘ (Petition of Rights) کے ذریعے ممنوع ہے۔ فوجی حکام کا یہ فرض تھا کہ قیدیوں کو دیوانی اقتدار کے سپرد کردیتے… اگر مسٹرگورڈن نے فی الواقع غداری کی بھی تھی تو وہ [یعنی فوجی حکام] اس کو سزا دینے کا کوئی حق نہ رکھتے تھے۔ ان کا دائرۂ اختیار صرف طاقت کے ذریعے دبا دینے تک محدود تھا، نہ کہ وہ جرائم کی سزا بھی دینے لگیں۔
قانون کے سب ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں عام ملکی عدالتیں کھلی ہوئی ہوں، یا کھل سکتی ہوں، وہاں فوجی عدالتیں قائم کر کے لوگوں کو سزائیں دینا بالکل ناجائز ہے۔(تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ، ص ۶۰)
آگے بڑھنے سے پیش تر تاریخ کا یہ باب دیکھنا مفید ہوگا۔وزیراعظم محمدعلی بوگرہ [م:۱۹۶۳ئ] قوم کو یہ خوش خبری سناچکے تھے کہ: ’’۲۵دسمبر ۱۹۵۴ء کے روز قوم کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘۔ مگر منفی قوتوں کی شرانگیزی متحرک ہوئی، جسے یہاں پر ڈاکٹر صفدرمحمود کی کتاب مسلم لیگ کا دورِ حکومت سے نقل کیا جارہا ہے۔ یہ نثرپارہ بلاتبصرہ بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ یاد رہے ۲۸؍اکتوبر کو اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان ہوچکا تھا کہ:
گورنر جنرل [ملک] غلام محمد نے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو [پاکستان کی] مرکزی وزارت کو برطرف کر دیا، دستور ساز اسمبلی کوتوڑ دیا۔ یہ اقدامات فوج کے سربراہ [جنرل محمد ایوب خان] اور بیوروکریسی کی مکمل حمایت سے کیے گئے۔ امریکا میں خفیہ مواد کے سامنے آنے سے پتا چلا ہے کہ دستور سازاسمبلی کو واشنگٹن کی آشیرباد اور منظوری کے بعد توڑا گیا تھا۔ عملی اقدام سے پہلے اسکندر مرزا اور واجد علی (امریکا میں پاکستانی سفیر امجدعلی کے بھائی) نے امریکی سفیر [متعینہ پاکستان] کو اپنے ارادوں، منصوبوں اور سخت اقدامات سے آگاہ کیا، اور اسے بتایا کہ: ’’اس اقدام کا مقصد پاکستان کو مُلّاازم سے بچانا ہے‘‘ (ص ۲۳۵)۔ جب غلام محمد نے، جو عوام کے منتخب نمایندے نہیں تھے، نے دستورساز اسمبلی کو منسوخ کردیا تو… اسے [مسلح افواج پاکستان کے]کمانڈر انچیف محمدایوب خان کی بھی حمایت حاصل رہی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت، ناشر: جنگ پبلشرز، لاہور، مارچ ۱۹۹۳ئ، ص ۲۳۶)
[ملک] غلام محمد کبھی کبھی اپنے فیصلوں پر ریوالور کی رہنمائی میں بھی عمل کرایا کرتے تھے۔ [سابق وزیراعظم] چودھری محمد علی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت) اور اسکندر مرزا (غیرمطبوعہ سوانح عمری) دونوں راوی ہیں، امریکا سے واپسی پر [وزیراعظم] محمدعلی بوگرہ کو[گورنر جنرل ملک] غلام محمد کے سامنے پیش کیا گیا، تو غلام محمد نے تکیہ کے نیچے سے ریوالور نکال لیا اور جب تک بوگرہ نے [دستور ساز اسمبلی توڑنے کی] تجویز سے اتفاق نہ کرلیا غلام محمد انھیں قتل کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اس کارروائی کے دوران [جنرل محمد] ایوب خان ریوالور ہاتھ میں پکڑے پس پردہ کھڑے رہے۔ ( خوشامدی ادب اور سیاست، القمر انٹرپرائزز، لاہور،۱۹۹۴ئ، ص ۲۷)
اس دعوے کی تردید کبھی سامنے نہیں آئی۔ اس میں سے ریوالور کی بات کو نظرانداز کر بھی دیں تو ’طاقت ور‘ کے قلم اور چھڑی میں بہرحال ریوالور سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔
اس دستور ساز اسمبلی کے توڑنے کے واقعے پر تڑپ کر میاں طفیل محمد (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان) کراچی پہنچے اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر چودھری غلام محمد کے ہمراہ تمیزالدین (م: ۱۹۶۳ئ) اسپیکردستور ساز اسمبلی کو بڑی مشکل سے آمادہ کیا کہ وہ اس آمرانہ اور ملکی سالمیت کے لیے تباہ کن اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں۔ میاں طفیل محمد اپنی کتاب مشاہدات (نومبر۲۰۰۰ئ) میں تفصیل (ص ۲۳۲-۲۴۴) سے بیان کرتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے وکلا کی فیس تک کے لیے مالی وسائل جماعت اسلامی نے فراہم کیے اور سندھ ہائی کورٹ میں اس اقدام کو کس طرح چیلنج کیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل غلام محمد کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، مگر سپریم کورٹ نے پاکستانی سیکولر لابی کے نظریہ ساز رہنما چیف جسٹس محمدمنیر کی سربراہی میں گورنر جنرل کے فیصلے کو ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے سند ِ جواز عطا کی ۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید اور جسٹس منیر کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے وہ واحد رکن جسٹس اے آر کارنیلیس تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء میں لاہور میں نافذ ہونے والا مارشل لا عملی سطح پر سیاست دانوں کی ناکامی کا اعلان اور فوجی اقتدار کی ریہرسل تھا۔ چنانچہ اس کامیاب ریہرسل کے بعد، صدر اسکندر مرزا (م: ۱۹۶۹ئ) نے ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو اسمبلیاں توڑ کر اور سول حکومتیں برطرف کر کے پورے پاکستان میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ مسلح افواج کے کمانڈرانچیف جنرل محمد ایوب خان کو وزیراعظم اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ (یاد رہے کہ ’قائد عوام‘ ذوالفقار علی بھٹونے اس مارشل لائی کابینہ میں وفاقی وزیر کا عہدہ حاصل کیا تھا)۔ ۲۰روز بعد ۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو جنرل ایوب خان، صدر اسکندرمرزا کو برطرف کر کے کرسیِ صدارت پر بھی متمکن ہوگئے۔ یاد رہے اس مارشل لا کے نفاذ سے قبل یہ اعلان ہوچکا تھا کہ فروری ۱۹۵۹ء میں عام انتخابات ہوں گے۔اس مارشل لا سے صرف دوماہ قبل سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی زیرادارت ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور (اگست ۱۹۵۸ئ) میں جو اداریہ (اشارات) شائع ہوا، اس کے انتباہ کو ملاحظہ کیجیے کہ کس قدر دُوراندیشی سے آنے والے خطرات سے قوم کو خبردار کیا گیا تھا، کس اندازسے سیاست دانوں کو جھنجھوڑا گیا تھا اور کن الفاظ میں اعلیٰ فوجی قیادت کو عقل و خرد کی بات سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لکھا تھا:
اسے مسلمان ممالک کی بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ دنیا نے آج تک اجتماعی زندگی کے بارے میں جتنے مفید سبق سیکھے ہیں، نہ صرف ان سب کو بھلا دیا جاتا ہے بلکہ اُن غلطیوں کو باربار دُہرایا بھی جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فوج کے غلط استعمال کو ہی لیجیے۔ ہرمعمولی عقل و خرد رکھنے والاآدمی بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ فوج اپنے ملک پر حکومت کرنے کے لیے نہیں بلکہ ملک کو بیرونی دشمنوں سے بچانے کے لیے منظم کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے دنیا کے تمام عقل مند لوگ ملکی معاملات میں فوج کی دخل اندازیوں کو پسند نہیں کرتے، مگر ہماری شومیِ قسمت کہ جو لوگ ہمارے ہاں اقتدار پر قابض ہیں، وہ چونکہ عوامی تائید کی قوت سے محروم ہیں، اس لیے وہ اس کمی کو فوج کی طاقت اور پشت پناہی سے پورا کرتے ہیں۔ جہاں کسی حلقے میں اضطراب یا عدم اطمینان دکھائی دیا، اُسے فوراً فوج کی مدد سے دبا دیا۔ بظاہر یہ نسخہ بڑا سستا اور آسان ہے، لیکن اس کے نتائج ملک، قوم، اصحابِ اقتدار اور خود فوج کے حق میں نہایت مہلک ہوتے ہیں۔ اس کا پہلااثر یہ پڑتا ہے کہ ملک کے باشندے خود اپنی فوج سے بوجوہ متنفر ہوجاتے ہیں اور ملک کی حفاظت کے لیے فوج اور قوم کا تعاون ممکن نہیں رہتا۔ یہ صورتِ حالات ’سامراجی من چلوں‘ کے لیے بڑی ہی حوصلہ افزا ثابت ہوتی ہے اور اس سے بسااوقات ملک کی آزادی پر آبنتی ہے۔
فوجی افسروں کے منہ کو جب ایک دفعہ اقتدار کا [ذائقہ] لگ جاتا ہے، تو پھر پوری فوج کا نظم تہ و بالا ہوجاتا ہے۔ ملک کے یہ پاسبان ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ باہر چاہے انھیں کچھ فتح کا موقع ملے یا نہ ملے، مگرانھیں گھر کو ضرور فتح کرڈالنا چاہیے۔ اگر اخلاقی حیثیت سے اس معاملے کو دیکھا جائے تو یہ بے حد افسوس ناک ہے۔ اس سے بڑی غداری اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک فوج جن لوگوں کے روپے سے منظم اور مسلح ہوتی ہے، وہ طاقت پاکر خود اپنی قوم کی گردن پر ہی سوار ہوجائے اور سنگین کی نوک پر ملک میں اپنا حکم منوانا شروع کردے۔
معاملہ صرف ایک انقلاب تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ فوجی انقلاب ایک ایسا شیطانی چکر ہے کہ کوئی ملک بدقسمتی سے اس میں ایک دفعہ گرفتار ہوجائے تو اس سے بچ نکلنے کی کوئی اُمید باقی نہیں رہتی۔ ایسا ملک پیہم انقلاب اور ناگہانی تغیرات کی آماج گاہ بن جاتا ہے، اور کش مکش اور چھین جھپٹ کی بیماری سیاسی پارٹیوں سے نکل کر فوج کے مختلف طبقوں میں سرایت کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے جو معاملات بساطِ سیاست پر سیاسی جوڑتوڑ سے طے کیے جاتے تھے، اب ان کے فیصلے کے لیے ’قاضیِ شمشیر ‘کی طرف رجوع کرنا بالکل ناگزیر ہوجاتا ہے، اور یہ قاضی اپنے مزاج کے اعتبار سے اس قسم کا بے حس واقع ہوا ہے کہ اسے اگر ایک مرتبہ عدالت کی کرسی پر متمکن کردیا جائے تو پھر یہ اُس وقت تک چین نہیں لیتا، جب تک کہ سارا ملک تاخت و تاراج نہ کردیا جائے۔
اس کے علاوہ فوجی انقلاب کے وقت خواہ نعرے کتنے ہی خوش کُن اور احساسات و جذبات خواہ کتنے پاکیزہ ہوں، لیکن یہ انقلاب اپنی کامیابی اور بقا کے لیے اس بات پر مجبور ہے کہ کسی ایسے جابرانہ نظام کو جنم دے، جس میں نہ صرف لوگوں کے جسم گرفتار ہوں بلکہ ان کی روح بھی پابہ زنجیر رہے۔ اور لوگ دم بخود ہوکر ان فوجی آمروں کے افعال و اعمال دیکھتے چلے جائیں۔ پوری قوم بھیڑ بکریوں کا ایک بے زبان گلہ بن کر رہے جسے یہ ’مصلحین قوم‘ میکانکی طور پر جس طرف چاہیں ہانک کرلے جائیں۔
اس صورت ِ حال کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے پہلے فوجی آمر کے کارناموں کو بڑے ہی مصنوعی اندازسے بڑھاچڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ آمر ایک عام انسان کے بجاے فوق البشر دکھائی دے اور قوم اُسے اپنا واحد نجات دہندہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو۔ چنانچہ دیکھیے، ان فوجی آمروں کی کارگزاریوں کو کس مبالغہ آمیزی کے ساتھ مختلف طریقوں سے نشر کیا جاتا ہے اور قوم کے ذہن میں یہ خیال راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کے کارنامے بالکل غیرمعمولی ہیں۔ دوسرے قوم کی ذہنی تربیت کے لیے ایک ایسا پروگرام طے کیا جاتا ہے، جس سے وہ ہرمعاملے کو فہم و فراست کی معتدل میزان پر تولنے کے بجاے اُسے جذبات کی شعلہ فشانیوں سے حل کرتی ہے اور اندھی پیروی کی اتنی خوگر بنادی جاتی ہے کہ تباہ کن حوادث میں مبتلا ہونے کے بعد بھی اُس کی آنکھیں کھلنے نہیں پاتیں۔
اس قسم کی تلاطم خیز ذہنی کیفیت پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جذبات کے سمندر میں طوفان اُٹھائے جائیں۔ یہ کام معمولی طریقوں سے تو سرانجام نہیں پاسکتا، اس کے لیے بڑے ہی غیرمعمولی حربے استعمال کیے جاتے ہیں، مثلاً سب سے پہلے پوری قوم کو ٹھوس حقائق کی دنیا سے نکال کر سپنوں کی ایسی فضا میں آباد کیا جاتا ہے، جہاں وہ صرف آرزوئوں اور تمنائوں پر مرنا سیکھتی ہے ۔جہاں وہ عقل کی بات بتانے والوں کو دشمن اور خوش کن باتیں بنانے والوں کودوست سمجھنے لگتی ہے۔ جہاں صرف خواب و خیال کی پرستش ہوتی ہے اور جہاں رہبرانِ قوم کے اخلاقی اور ذہنی اوصاف نہیں دیکھے جاتے بلکہ صرف اس بات کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ وہ لاف گزاف میں کس قدر مشّاق اور زبان کے استعمال میں کس حد تک مطلق العنان ہیں۔
پھر اس قوم کے بارے میں اس بات کا بھی التزام کیا جاتا ہے کہ اُس کے دل و دماغ پر مستقل خوف کی کیفیت طاری رہے تاکہ وہ اپنے بچائو اور حفاظت کے لیے ایک فوجی آمر کی آمریت بخوشی قبول کرلے۔ اس صورتِ حال کے نتائج دیکھ کر ہر حساس مسلمان تڑپ اُٹھتا ہے۔ آئے دن کے تغیرات نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے وقار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آخر مسلمانوں کو وہ کیا بیماری لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال نہیں کرسکتے اور اپنی قومی طاقت کو آپس کی کش مکش میں تباہ کردیتے ہیں۔
یہ وہ وقت ہے، جب کہ ہمارے فرماں روائوں کو اپنی آنکھیں کھولنی چاہییں۔ اپنے محلات میں بیٹھ کر وہ یہ نہ سمجھیں کہ آج سے ہزار سال پہلے کی فضا، جیسی کہ اُن کے محلوںکے اندر ہے، ویسی باہر بھی موجود ہے۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے، باہر انقلاب کی بڑی بڑی موجیں اُٹھ رہی ہیں، وہ ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہیں۔ ان سے صرفِ نظر کرکے چلنا کوئی دانش مندانہ فعل نہیں۔ ملکی اقتدار یا قیادت، خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو، اُس کے بچائو کی صورت صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس جمہوری دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے عوام کو اُن کے پورے پورے جمہوری حقوق بہم پہنچانے میں قطعاً بخل سے کام نہ لے۔ نیز عوام کے حقیقی مسائل کو سمجھے اور اپنی عیاشیوں میں مست رہنے کے بجاے اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام کرے… ہر شخص اور ہرملّت کے صبر کا ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ اس میں خواہ کتنی ہی وسعت ہو، مگر ایک حد ایسی ضرور آتی ہے جہاں پہنچ کر وہ اپنی ساری وسعتوں کے باوجود چھلک پڑتا ہے۔ یہ حد بڑی ہی خطرناک اور ہلاکت خیز ہوتی ہے۔ اس سے ہمارے اصحابِ اقتدار کو بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اگر یہ حضرات وقت کے اس مطالبے کو پورا نہیں کریںگے تو زمانے کی کروٹ انھیں اس مطالبے کی تعمیل پر مجبور کرے گی اور یہ تعمیل اکثروبیش تر بہ نوکِ شمشیر ہی ہوا کرتی ہے۔(ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، اگست ۱۹۵۸ئ)
اور پھر یہی ہوا کہ ملک میں ایسے مادرپدر آزاد انتخابات ہوئے، کہ جن میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کی عوامی لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔ مارشل لا حکومت کے زیرسایہ یہ فسطائیت خوب تروتازہ ہوئی، اور دھاندلی و غنڈا گردی کے زور پر پورا انتخاب ہی لُوٹ کر لے گئی۔ پھر نہ اُس ’دستورساز اسمبلی‘ کا اجلاس ہوا اور نہ آئین بنا، البتہ پاکستان ضرور ٹوٹ گیا۔
گذشتہ برس پاکستان کی وفاقی حکومت کی ہٹ دھرمی اور اس کے جواب میں دھرنا کریسی نے عملاً ریاست اور جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ حاکموں اور حاکموں سے لڑنے والوں کی کم فہمی کا یہ نتیجہ ہے یا پس پردہ قوتوں کی جادوگری کہ سیاست دانوںکو نااہل ثابت کردیا جائے، جیسا سوال یہاں زیربحث نہیں لا رہے، مگر نتیجہ تو یہی نکلا ہے۔ اس کھیل کے لیے کس نے کس کا کندھا استعمال کیا، یا کس نے اپنا کندھا پیش کیا، عملی سطح پر طاقت کے سرچشمے اپنی جگہ سے سرک کر وہاں جاپہنچے ہیں، کہ جہاں سے انھیں درست جگہ پر لانے کے لیے بڑی قربانیاں دی گئی تھیں۔
ہمہ وقتی وزیرخارجہ کو مقرر نہ کرنا، وزارتِ دفاع کا قلم دان ایسی شخصیت کو تھمانا کہ جن سے دفاعی ادارے ویسے ہی مغائرت محسوس کرتے ہیں، پالیسیوں کو عارضی (ایڈہاک) بنیادوں پر چلانا، بھارت سے تجارتی تعلقات کے لیے شوق و ذوق کا مظاہرہ کرنا اور فیصلہ سازی کو گنتی کی چند رکنی ٹیم کا کھیل بنانا، بہرحال کسی سازش کا نتیجہ نہیں، البتہ کم فہمی کا ثمرہ ہے۔ حماقت ایسی بلا ہے کہ جو بہت سی بلائوں کو جنم دیتی ہے۔ پھر وطن عزیز ایک جانب حالت ِ جنگ میں ہے تو دوسری جانب میڈیا گروپ ۲۴گھنٹے سنگ زنی میں مشغول ہیں، دلیل اور دلیل سے عاری گوناگوں میزائلوں سے لیس ہیں۔ اس عالم میں بے چاری جمہوریت کی کمزور سی عمارت کہاں تک ان حملوں کا مقابلہ کرتی۔ پھر طویل عدالتی جنگ کے نتیجے میں عدل کے ایوانوں کی کسی حد تک جو آزادی بحال ہوئی تھی، اسے ریاست و حکومت کی جانب سے اعانت کی ضرورت تھی، لیکن شاہانہ اندازِ حکومت نے بھی گویا ایک ایک کرکے اختیار کے سارے پتے بکھیر دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ اور دکھائی یہ دیتا ہے کہ ریاستی اختیار و اقتدار کے قلم دان عملاً دوسری جگہ منتقل ہوچکے ہیں۔ آج اخبارات اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں کہیں دبے الفاظ میں اور کہیں کھلے الفاظ میں کہا جا رہا ہے کہ: ’’سیاست دان نااہل، کرپٹ اور نالائق ہیں، یہ ملک نہیںچلاسکتے‘‘۔
ان جملوں میں پیغام صاف ظاہر ہے۔ اس طرح نہ صرف معاملات کوخاص جانب دھکیلا جارہا ہے، بلکہ ایک ایک کرکے حد توڑی جارہی ہے، اور ہر کام خود سیاست دانوں سے کرایا جا رہا ہے۔ ماضی میں اسی قسم کے شوروغوغے پر مولانا مودودی نے سبھی کو متنبہ کیا اور ۲۹؍اگست ۱۹۶۲ء کو چوک یادگار پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا:
جب انتقام کے جذبے سے مغلوب قوم پرست بھگوڑے اور ان کے ہم نوا بھتّاخور ایک کمزور جمہوری حکومت کا مذاق اُڑاتے ہوئے کھلے عام فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے ہیں تو انھیں مولانا مودودی کا یہ انتباہ یاد رکھنا چاہیے:
یہ کہنا کہ ملکی اقتدار کی آخری ذمہ داری فوج پر ہے، ایک غلط پالیسی ہے۔ فوج کی ذمے داری ملک کوبیرونی حملہ آوروں سے بچانے کی ہے، نہ کہ ملک چلانے کی۔ ملک فوج کا نہیں بلکہ اپنے باشندوں کا ہے۔ اور یہ باشندوں کا اپنا ہی کام ہے کہ وہ اپنے گھر کے معاملات کو چلائیں بھی اور بگڑ رہا ہو تو اسے درست بھی کریں۔ ملازمین خواہ فوج کے ہوں یا سول، ان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ملک کا نظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔(تحریکِ جمہوریت: اسباب اور مقاصد، ۱۹۶۷ئ،ص ۹)
یہ عاقبت نااندیش عناصر صرف دعوتِ اقتدار ہی نہیں دیتے بلکہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کھلے عام فوجی آپریشن کرے۔ ظاہر ہے کہ کچھ آپریشن تو ہوچکے اور کچھ آپریشن ہو بھی رہے ہیں، مگر معاملات سلجھنے کے بجاے اُلجھ رہے ہیں۔ اسی قسم کے خطرات کو بھانپتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا تھا:
اس سے زیادہ غلط کام کوئی نہ ہوگا، اور اس ملک کا کوئی بدخواہ ہی ایسا کام کرسکتا ہے کہ ملک کی فوج کو ملک کے عوام سے لڑا دے۔ اگر فوج سے ہم وطنوں پر گولیاں چلانے کا کام لیا گیا تو اس سے فوج اور قوم دونوں کو نقصان پہنچے گا۔ بڑا ظالم ہوگا وہ حاکم، جو ملک کی فوج کو اپنے عوام کے سامنے لاکھڑا کرے۔ (۵-اے، ذیلدار پارک، اوّل: مرتبہ: مظفر بیگ،ص ۲۴۳)
درحقیقت جو عناصر قومی افواج کو سول آبادی میں آپریشن اور اقتدار سنبھالنے پر اُبھارتے ہیں، و ہ بظاہر دوست بن کر، لیکن عملاً دشمن کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔ ۳۵برس تک فوج ملک کے سیاہ و سفید کی مالک رہ چکی ہے، مگر اس دوران میں معاملات کی کوئی کل سیدھی نہ ہوسکی، بلکہ ایسے ایسے اُلجھائو پیدا ہوئے کہ عشرے گزر جانے کے باوجود تار سلجھائے نہیں جاسکے۔
پاکستان میں ۲۱ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں جو فوجی عدالتیں قائم ہوئی ہیں ، ان کے بارے میں روزنامہ The Newsنے اپنی رپورٹ ۴جنوری ۲۰۱۵ء میں لکھا ہے:
دہشت گردی کے ملزموں پر پاکستان آرمی ایکٹ (PAA) کے تحت مقدمے چلائے جائیں گے، جنھیں کسی بھی سول عدالت میں اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔ سینیروکیل کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحمن کے بقول دہشت گردوں کو فوج گرفتار کرے گی، تفتیش کرے گی اور بند کمرے میں مقدمے کی سماعت کرے گی۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق کورٹ مارشل کے فیصلوں کے خلاف کوئی دادرسی نہ ہوسکے گی۔ تاہم دفعہ ۱۴۳ کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف ہی سزامیں کمی یا معافی کا اختیار رکھتے ہیں۔
یقینا بہت سوچ بچار کے بعد یہ اصول وضع کیے گئے ہوںگے، مگر یوں انصاف اور صفائی کے اصولوں کی کس حد تک پاس داری ممکن ہوگی؟ ایک نازک سوال ہے۔ اور کیا اس کے نتیجے میں واقعی معاملات سلجھ جائیںگے یا پھر عجلت میں سخت فیصلے، کسی اور بڑے ردعمل کی فصل بوئیں گے؟
جن تشدد پسندوں اور دہشت گردوں نے ملک کے امن کو تباہ کیا ہے، ان کی سرکوبی پر قوم میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ ان عناصر کی ہمدردی یا اعانت کے لیے کوئی قابلِ ذکر آواز پاکستانی معاشرے میں سنائی نہیں دیتی۔ لیکن کیا انصاف کے طے شدہ ضابطوں کے برعکس اس بیماری کا علاج صرف گولی ہے؟ اس ضمن میں مولانا مودودی بڑی وضاحت کے ساتھ اسلام کا اصول بیان کرتے ہیں:
شریعت ِ الٰہی کسی بُرائی کو محض حرام کردینے یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردینے پراکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کردینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس بُرائی میں مبتلا ہونے پر اُکساتے ہوں، یا اُس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔
نیز شریعت، جرم کے ساتھ اسبابِ جرم، محرکاتِ جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہے، تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پر ٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں۔
وہ [شریعت ِ الٰہی] صرف محتسب (prosecutor) ہی نہیں ہے، بلکہ ہمدرد، مصلح اور مددگار بھی ہے۔ اس لیے تمام تعلیمی، اخلاقی اورمعاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو بُرائیوں سے بچنے میں مدد دی جائے۔(تفہیم القرآن، سوم، سورۃ النور، حاشیہ ۲۳،ص ۳۷۲)
اندریں حالات معاشرے کی تمام مقتدر اور ذمہ دار قوتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ باہم تصادم کے بجاے اس خطرناک صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں، ٹھنڈے دل و دماغ سے کوششیں کریں، اور جو عناصر ان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے یا گہری دلدل میں دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کی شرانگیزی سمجھنے کی بصیرت حاصل کریں۔
اس تمام صورتِ حال کو پیش نظر رکھیں تو پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ’شمشیر‘ اور ’قاضیِ شمشیر‘ کے ہاتھوں یہ مسائل حل ہونے مشکل ہیں، بلکہ اس مقصد کے لیے قانون کی عمل داری اور جمہوری راستے کے سوا ہرراستہ سواے خرابی کے کچھ بھی نتیجہ نہ دے سکے گا۔مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کے سامنے لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے ۱۹۵۷ء میں واضح طور پر یہ فرمایا تھا:
تیسری یہ کہ ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلیِ قیادت کے لیے کوئی غیرآئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے اور اسی بناپر آپ کی جماعت کے دستور نے آپ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ آپ اپنے پیش نظر اصلاح و انقلاب کے لیے آئین و جمہوری طریقوں ہی سے کام کریں۔(تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ۱۹۵۷ئ، ص ۱۳۸)
کہتے ہیں کہ چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کا چہرہ اُترا ہوا ہے، کسی کا بگڑا ہوا ہے، کسی کا چہرہ تمتا رہا ہے تو کسی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔ کسی کے چہرے کا رنگ سرخ ہے تو کسی کا زرد وغیرہ۔ انسانی چہرے صرف اس دنیا میں ہی بدلتے رنگوں اور کیفیات کے ساتھ نہ ہوں گے بلکہ آخر ت میں بھی اس طرح کے مناظر دکھائی دیں گے۔ اس کی منظرکشی قرآنِ پاک میں جگہ جگہ کی گئی ہے۔
نیکوکاروں کے چھرے
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ ط ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۷) رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوںگے تو ان کو اللہ کے دامنِ رحمت میں جگہ ملے گی اور ہمیشہ وہ اسی حالت میں رہیں گے۔
یہ بھی فرمایا گیا: یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۶) ’’کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے‘‘۔ کہیں فرمایا گیا کہ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ o لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ o (الغاشیہ ۸۸:۸-۹) ’’کچھ چہرے اس روز بارونق ہوں گے اپنی کارگزاری پر خوش ہوں گے‘‘۔ اسی طرح ایمان والوں کے چہروں کا حال دنیا میں بھی بیان کیا گیا کہ سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْہِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ط (الفتح ۴۸:۲۹) ’’سجود کے اثرا ت ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں‘‘۔
صاحب ِ ایمان لوگوں کے چہروں کا حال قیامت کے روز کیا ہوگا؟ یہ منظر بھی دیکھ لیں: تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِھِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِo(المصطففین۸۳:۲۴) ’’ان کے چہروں پر تم خوش حالی کی رونق محسوس کرو گے‘‘۔گویا ایمان داروں کے چہرے ان کی دلی کیفیات کا مظہر ہوں گے۔ اس کا اثر ان کے پُررونق اور چمکتے دمکتے چہروں سے خوب خوب عیاں ہوگا۔
مجرمین کے چھرے
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ قف اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ o ( اٰل عمرٰن ۳:۱۰۶) جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا کہ) نعمت پانے کے بعد تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا۔ اچھا! اس کفرانِ نعمت کے صلے میں عذاب کا مزا چکھو۔
یعنی کفار و مجرمین کے چہروں سے جہالت و گمراہی کی سیاہی ٹپک رہی ہوگی اور ہیبت و دبدبے کی وجہ سے ان کی رنگت اُڑی جارہی ہوگی۔ چنانچہ فرمایا گیا: کَاَنَّمَآ اُغْشِیَتْ وُجُوْھُھُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا ط (یونس ۱۰:۲۷) ’’ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوگی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ: وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تَرَی الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلَی اللّٰہِ وُجُوْہُھُمْ مُّسْوَدَّۃٌ ط (الزمر ۳۹:۶۰) ’’آج جن لوگوں نے خدا پر جھوٹ باندھے ہیں قیامت کے روز تم دیکھ لو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے‘‘۔
منکرینِ حق جب روزِ قیامت عذاب کو دیکھ لیں گے، انھیں اپنی شامت صاف دکھائی دینے لگے گی اور پھر ان کے چہرے بھی ان کی دلی کیفیت کی چغلی کھا رہے ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے کہ دنیا میں وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز، بڑی بڑی جاگیروں کے مالک، سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ عیش و عشرت میں پلے بڑھے۔یہی مال و دولت، عیش و عشرت ان کے قبولِ حق کی راہ میں دیوار ثابت ہوا۔ آخرت میں جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی انھیں صاف دکھائی دے گا تو چہرے بھی عجیب منظر پیش کر رہے ہوں گے۔
آیئے ان چہروں کا حال جاننے کے لیے قرآنِ حکیم کی ورق گردانی کیجیے۔ فرمایا گیا: وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ oعَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ o (الغاشیہ۸۸:۲-۳) ’’کچھ چہرے اس روز خوف زدہ ہوںگے، سخت مشقت کر رہے ہوں گے، تھکے جاتے ہوں گے‘‘۔ اسی طرح فرمایا گیا: وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍم بَاسِرَۃٌ o تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِھَا فَاقِرَۃٌ o (القیامۃ۷۵:۲۴-۲۵) ’’اور کچھ چہرے اُداس ہوں گے اور سمجھ رہے ہوں گے کہ اُن کے ساتھ کمرتوڑ برتائو ہونے والا ہے‘‘۔ مزید تشریح کرتے ہوئے بتایا گیا کہ: فَلَمَّا رَاَوْہُ زُلْفَۃً سِیُٓـئَتْ وُجُوْہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا (الملک۶۷:۲۷) ’’پھر جب یہ اس چیز کو قریب دیکھ لیں گے تو ان سب لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے‘‘۔ یہ حالت ان کی دنیا میں بھی ہوتی تھی۔ جب وہ کلامِ پاک سنتے تھے ، بجاے اس کے کہ وہ اس سے نصیحت قبول کریں اُلٹا وہ ان کے لیے گراں ثابت ہوتا تھا۔ چنانچہ فرمایا گیا:وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمُنْکَرَ ط (الحج ۲۲:۷۲) ’’اور جب ان کو ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ منکرین حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں‘‘۔
اب آخرت میں محض ان کے چہرے ہی خوف زدہ نہیں ہوں گے بلکہ خوف و ہراس اور ہذیان کی عجیب کیفیت ہوگی جس کا عبرت ناک منظر اس آیت مبارکہ میں دکھائی دیتا ہے کہ:
لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ o مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُئُ وْسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ وَ اَفْئِدَتُھُمْ ھَوَآئٌ ط (ابراھیم ۱۴:۴۳) اس دن جب یہ حال ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اڑے جاتے ہیں۔
قرآنِ حکیم منکرین کے چہروں کا حال بھی بیان کرتاہے جو حق کی صدا اور نیکی کی پکار سن کر بگڑنے لگتے ہیں اور قرآن کی باتیں ان کی طبع نازک پر گراں گزرتی ہیں۔ اس حالت کا جو نقشہ سورئہ حج کی آیت ۷۲ میں کھینچا گیا ہے وہ اُوپر گزر چکا ہے۔ دیگر مقامات پر بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے:
قُلْ ھُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ o اَنْتُمْ عَنْہُ مُعْرِضُوْنَ o(صٓ۳۸:۶۷-۶۸) ان سے کہو یہ ایک بڑی خبر ہے جس کو سن کر تم منہ پھیرتے ہو۔
فَمَا لَھُمْ عَنِ التَّذْکِرَۃِ مُعْرِضِیْنَ o (المدثر۷۴:۴۹) آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ اس نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔
اسی منہ پھیرنے اور حق سے انکار کی سزا تو جہنم ہے جس کا ذکر یوں کیا گیا ہے کہ: لَا یَصْلٰھَآ اِِلَّا الْاَشْقَی o الَّذِیْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی (الیل : ۹۲:۱۵-۱۶) ’’اس میں نہیں جھلسے گا مگر وہ انتہائی بدبخت جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا‘‘۔ یہ بھی فرمایا گیا: فَمَا لَھُمْ عَنِ التَّذْکِرَۃِ مُعْرِضِیْنَ (المدثر ۷۴:۴۹) ’’آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ اس نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں‘‘۔
ان چہروں کا کچھ بھی عبرت ناک انجام ہوسکتا ہے جیساکہ فرمایا گیا کہ وَاِِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَآ اَمْثَالَھُمْ تَبْدِیلًا o(الدھر۷۶:۲۸) ’’اور ہم جب چاہیں ان کی شکلوں کو بدل کر رکھ دیں‘‘۔ آخرت میں ایسے بدبخت چہرے ہی الم ناک اور رُسوا کن عذاب سے دوچار ہوں گے۔
عذاب النار تو ہے ہی سخت ترین اور دُکھ دینے والا عذاب۔ قیامت کے دن جب جسم کے دیگر اعضا اس بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے تو چہرے بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکیں گے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ: تَلْفَحُ وُجُوْہَھُمُ النَّارُ وَھُمْ فِیْھَا کٰلِحُوْنَ o(المومنون۲۳:۱۰۴) ’’آگ ان کے چہروں کی کھال چاٹ جائے گی اور ان کے جبڑے باہر نکل آئیں گے‘‘۔ گویا جس طرح جانور کی سری آگ پر جھلسائی جاتی ہے اس طرح ان لوگوں کے چہرے آگ کے سپرد کیے جائیں گے، حتیٰ کہ گوشت گل کر جبڑے سامنے اُبھر آئیں گے۔ اسی طرح فرمایا گیا :
یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَاo(احزاب ۳۳:۶۶) جس روز ان کے چہرے آگ پر اُلٹ پلٹ کیے جائیں گے ا س وقت وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی ہوتی۔
اور یہ حال ان کا اس لیے ہوگا کہ انھوں نے دنیا میں نیکیوں کے بجاے بُرائیاں ہی کمائی ہوں گی۔ چنانچہ فرمایا گیا:
وَمَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَکُبَّتْ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارط (النمل ۲۷:۹۰) اور جو برائی لیے ہوئے آئے گا ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے۔
اور یہی نہیں بلکہ ان کی پیٹھیں بھی عذاب کا شکار ہوں گی۔لَا یَکُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْھِھِمُ النَّارَ (الانبیاء ۲۱:۳۹) ’’جب کہ یہ نہ اپنے منہ آگ سے بچاسکیں گے نہ پیٹھیں‘‘۔ چہروں کو صرف آگ کا سامنا ہی نہیں کرنا ہوگا بلکہ عذاب کی دیگر صورتیں بھی ہوں گی: اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْہِہٖ سُوٓئَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط (الزمر ۳۹:۲۴) ’’اب اس شخص کی بدحالی کا تم کیا اندازہ کرسکتے ہو جو قیامت کے روز عذاب کی سخت مار اپنے منہ پر لے گا ‘‘۔اور اس عذاب کی صورت کا نقشہ بھی یوں کھینچا گیا ہے کہ: فَکَیْفَ اِِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْ (محمد ۴۷:۲۷) ’’پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انھیں لے جائیں گے‘‘۔
پھر آگ کا عذاب اس پر مستزاد ہوگا اور ذلت آمیز طریقے سے انھیں آگ کے سپرد کیا جائے گا۔ چنانچہ فرمایا گیا: یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِھِمْ ط ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ (القمر۵۴:۴۸) ’’جس روز یہ منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے اس روز ان سے کہا جائے گا اب چکھو جہنم کی لپٹ کا مزا‘‘۔
انسانی چہرہ دل کی اندرونی کیفیت کی واضح عکاسی کرتا ہے اور دل کا چور آشکارا کردیتاہے ، چاہے وہ اپنے جذبات و احساسات کوکتنا ہی دباتا پھرے۔ چنانچہ کہاگیا کہ: یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیمٰھُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِی وَالْاَقْدَامِ o (الرحمٰن۵۵:۴۱) ’’مجرمین وہاں اپنے چہرے سے پہچان لیے جائیںگے اور انھیں پیشانی کے بال اور پائوں سے پکڑپکڑ کر گھسیٹا جائے گا‘‘۔
ظاہر ہے کہ جب کچھ چہرے اداس اور کچھ سیاہ، کسی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہوں، کچھ خوف زدہ اور کچھ بگڑے ہوئے، جب کہ دوسری طرف کچھ چہرے روشن، بارونق اور خوش باش ہوں گے تو خود ہی واضح ہوجائے گا کہ مومنین کون ہیں اور مجرمین کون؟
آج ہمیں کوئی پروا نہیں ہے کہ کل ہمارا انجام کیاہوگا! بدی سے رشتہ استوار کیے ہوئے ہیں اور حق سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ہماری اسی روش کا نقشہ اس آیت مبارکہ میں کھینچا گیا ہے :
اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُکِبًّا عَلٰی وَجْہِہٖٓ اَہْدٰٓی اَمَّنْ یَمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(الملک۶۷: ۲۲) بھلا سوچو جو شخص اوندھے منہ چل رہا ہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اُٹھائے ایک ہموار سڑک پر چل رہا ہو۔
اسی طرح ظالموں کی عادات کا ذکر کیا گیا ہے کہ: وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْھَا ط (السجدہ۳۲: ۲۲) ’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیرلے‘‘۔ اس روش کا انجام تو پھر ظاہر ہے کہ جہنم ہی ہوگا۔ چنانچہ فرمایا گیا: اِِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ o فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ o (الغاشیہ ۸۸:۲۳-۲۴) ’’البتہ جو شخص منہ موڑے گا اورانکار کرے گا تو اللہ اس کو بھاری سزا دے گا‘‘۔
انسان اپنے چہرے کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ معمولی سا داغ اور ذرا سا نشان بھی اسے ناگوار گزرتا ہے۔ تل، کیل اور مہاسے جیسی چھوٹی اور معمولی چیز بھی اسے ناگوار گزرتی ہے۔ اسی طرح منہ پر طمانچے رسید کرنے میں بھی وہ بڑی توہین خیال کرتا ہے۔ اسلام میں بھی چہرے پر مارنے کی ممانعت ہے، حتیٰ کہ جانوروں کے چہرے پر مارنے کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ لیکن مقامِ حیرت ہے کہ چہرے کے معاملے میں اتنا حساس ہونے کے باوجود اپنے چہرے کو آگ کی لپٹ، جہنم کی لُو، دوزخ کے دھوئیں اور عذاب کی تپش سے بچانے کے معاملے میں وہ اتنا لاپروا کیوں ہے؟ آخرت کا ایسا ہولناک منظر کہ جب خود ہمارا چہرہ بھی ہمارے کرتوتوں کی چغلی کھارہا ہو، ایسے میں بھی ہم اتنے بے خوف اور لاپرواہیں، آخر کیوں؟
جی ہاں! وہ دن بھی آنے والا ہے کہ جب ہم اپنے رب کو منہ دکھائیں گے، لیکن کیا ہمارے اعمال بھی ایسے ہیں کہ ہم منہ دکھانے کے قابل ہوں؟ اس کا جواب ہمیں اپنی آنکھیں بند ہونے اور دل کی دھڑکنیں رُکنے سے پہلے ہی سوچ لینا چاہیے۔
حضرت ازرق بن قیسؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم اہواز میں نہر کے کنارے پر تھے، نہر خشک ہوگئی تھی حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ گھوڑے پر سوار ہوکر پہنچے۔ گھوڑے سے اُترے، نماز پڑھنے لگے اور گھوڑے کو کھلا چھوڑ دیا۔ گھوڑا کھڑا رہنے کے بجاے چل پڑا۔ حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ نے نماز چھوڑ دی اور گھوڑے کے پیچھے چل پڑے۔ گھوڑے کو پکڑ لیا، پھر آئے اور اپنی نماز ادا کی۔ ہمارے اندر ایک آدمی تھا جو خوارج کی راے رکھتا تھا۔ کہنے لگا: اس بزرگ کو دیکھیں کہ اس نے گھوڑے کی خاطر نماز چھوڑ دی! حضرت ابوبرزہؓ نماز سے فارغ ہوکر آئے تو فرمانے لگے: جب سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہوا ہوں اب تک کسی نے مجھے نہیں جھڑکا۔پھر فرمایا: میرا گھر بہت دُور ہے۔ اگر میں نمازپڑھتا رہتا اور گھوڑے کو پکڑنے کے لیے نہ جاتا تو میں اپنے گھر رات تک نہ پہنچ سکتا۔ پھر فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں اور مَیں نے اُمت کے لیے آپ کی آسانیاں دیکھی ہیں۔(بخاری، کتاب الادب)
حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عملی جامہ پہنایا ،آپؐ سے جو سبق سیکھا اس پر عمل کیا اور اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ خوارج ایک متشدد گروہ تھا۔ چند عبادات میں انتہاپسندی ان کا طرزِعمل تھا۔ لمبی لمبی نمازیں، مسلسل روزے، ظاہری وضع قطع اور لباس میں عبادت گزاری اور ریاکاری، لیکن اسلامی آداب سے عاری۔ بزرگوں کا ادب ان کے ہاں کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ صحابہ کرامؓ کی گستاخی بھی ان کا شیوہ تھا۔ بجاے اس کے کہ حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ جو جلیل القدر صحابی تھے ان سے سیکھتے اور انھی کی طرح زندگی گزارتے، اُلٹا ان پر طعن و تشنیع شروع کردی۔
گھوڑے کی خاطر نماز چھوڑ دینا اور گھوڑے کو پکڑ کر نماز ادا کرنا اپنے آپ کو ایک بڑی مصیبت سے بچانا تھا لیکن خارجی نے اس کی حکمت کو نہ سمجھا۔ جولوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سیرت سے سیکھنے کے بجاے اپنی خواہشات کے مطابق عبادت اور زُہد اختیار کرتے ہیں وہ لاحاصل سعی کرتے ہیں۔انھیں ایسی عبادات اور زہد سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہ بلاوجہ اپنے آپ کو تنگی اور مشکل میں ڈالتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی خوارج کی طرح کے فتنے کھڑے ہوئے ہیں جن کے سبب اُمت مشکل میں گرفتار ہے۔ اللہ تعالیٰ ان فتنہ پردازوں کو ہدایت دے۔
m
حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے آج رات دو آدمیوں کو دیکھا جو میرے پاس آئے (اور مجھے مختلف گناہوں کے سبب عذاب میں گرفتار لوگ دکھلائے، ان میں وہ آدمی بھی تھا جس کی باچھیں چیری پھاڑی جارہی تھیں اور ان کو گدی تک چیرا اور پھاڑا جا رہا تھا)۔ ان دونوں آنے والوں (فرشتوں ) نے مجھے بتایا یہ جس کی باچھیں چیری جارہی تھیں، وہ آدمی ہے جو کذّاب ہے، بہت بڑا جھوٹا آدمی ہے۔ لوگ اس سے جھوٹ سنتے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں پہنچاتے ہیں۔ اس آدمی کے ساتھ قیامت تک عذاب کا یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ (بخاری،کتاب الادب)
پہلے زمانے میں بھی کذّاب ہوتے تھے اور ان کے ذریعے بھی دنیا کے گوشے گوشے میں جھوٹ پہنچتا تھا لیکن اس وقت جھوٹ کے پہنچنے اور پھیلنے میں کافی وقت لگتا تھا۔ آج کا دور تو ذرائع ابلاغ کا ایسا دور ہے جس میں بیک وقت دنیا کے گوشے گوشے میں سچ بھی پہنچتا ہے اور جھوٹ بھی۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا، انٹرنیٹ اور فیس بُک کے ذریعے دنیا جھوٹ پر کھڑی ہے۔ دن رات جھوٹ کا راج ہے۔ جھوٹ سنایا بھی جاتا ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ جھوٹ گھڑ کر بے گناہوں کو اس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔ عدل و انصاف کا نام و نشان مٹ رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو فرشتوں نے کذّاب اور اس کی سزا کا جو مشاہدہ کروایا ہے اس کا بڑا مصداق آج کا دور ہے۔ یہ آپؐ کا مشاہدہ بھی ہے اور اس میں پیشنگوئی کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ سچے لوگوں، دین کے علَم برداروں کوچاہیے کہ وہ جھوٹ کا مقابلہ کریں ، دین اور سچ کو بھی دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں تاکہ ظلم کا قلع قمع ہو اور ظالموں کو پیچھے دھکیلا جاسکے۔
m
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف میں تھے (ایک قلعے کو محاصرہ کیے ہوئے تھے جو فتح نہیں ہورہاتھا)، آپؐ نے فرمایا: ان شاء اللہ ہم کل واپس چلے جائیں گے۔ صحابہؓ نے یہ سنا تو بعض نے کہا: ہم اس وقت کیسے جائیں گے جب تک قلعہ کو فتح نہ کرلیں ( جذبۂ جہاد کے غلبے کے سبب انھوں نے یہ الفاظ کہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کی خلاف ورزی مقصود نہ تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں راحت پہنچانے کے لیے ایسا فرما رہے ہیں)۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کا یہ ذوق و شوق دیکھا تو فرمایا: اچھا! صبح واپس جانے کے بجاے لڑائی کے لیے نکلو۔ صحابہؓ اگلے دن لڑائی کے لیے نکلے اور سخت ترین لڑائی لڑی اور انھیں بہت زیادہ زخم لگے۔ اس کے بعد پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل ہم لڑنے کے بجاے واپس جائیں گے ان شاء اللہ۔ اس وقت صحابہ کرامؓ خاموش رہے، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔(بخاری، کتاب الادب)
فتح مکہ اور غزوئہ حنین کے بعد کفار کی قوت ٹوٹ گئی تھی۔ اب مکمل فتح قریب تھی لیکن طائف میں جو لوگ قلعہ بند تھے، اسلام اور مسلمانوں کے مقابلے میں جان کی بازی لگانے پر تلے ہوئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعہ کا محاصرہ کیا لیکن فتح نہ ہوسکا۔ آپؐ نے اس خیال سے کہ یہ قلعہ بند لوگ بالآخر اپنے آپ کو لڑائی کے بغیر اسلام کے حوالے کردیں گے،اس لیے وقتی طور پر لڑائی بند کرانے کا فیصلہ فرمایا اور صحابہؓ سے فرمایا کہ کل ہم واپس چلے جائیں گے۔
صحابہ کرامؓ کی نظر میں اتنی دُوربینی نہ تھی جتنی دُوربینی اللہ تعالیٰ کے نبیؐ کو عطا ہوئی تھی۔ وہ لڑنا چاہتے تھے اور لڑ کر فتح کرکے جانا چاہتے تھے۔ اگلے دن جو نتیجہ سامنے آیا اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک راے ان کی سمجھ میں آگئی۔ چنانچہ لڑائی ملتوی کرنے پر راضی ہوگئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعے پر ہنس پڑے کہ وہ جذبہ جو انتہا کو پہنچا ہوا تھا آج کے زخم اس کو اعتدال پر لے آئے ہیں۔ بعض اوقات انسان زخم کھانے کے بعد ہی سمجھتا ہے۔ لڑائی ملتوی ہوگئی لیکن بعد میں قلعے والے خود ہی مسلمان ہوکر آپؐ کے پاس آگئے اور یوں عرب کی سرزمین کلیتاً اسلام کے لیے مسخر ہوگئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست بھی صحابہ کرامؓ کے مشاہدے میں آگئی اور جووہ چاہتے تھے وہ سب اللہ تعالیٰ نے انھیں لڑائی کے بغیر عطافرمادیا۔
m
حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض حلال چیزیں واضح ہیں اور بعض حرام چیزیں واضح ہیں اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں۔ پس جس نے اس گناہ کو چھوڑا جس کا گناہ ہونا مشتبہ ہے تو وہ اس گناہ کو زیادہ ترک کرنے والا ہوگا جس کا گناہ ہونا اس پر واضح ہے۔ اور جس نے مشتبہ گناہ کے ارتکاب پر جرأت کی، قریب ہے کہ وہ واضح گناہ کا ارتکاب کرے۔گناہ اللہ تعالیٰ کی ممنوع کردہ چراگاہیں ہیں اور جو شخص ممنوعہ چراگاہوں کے قریب چرے گا، قریب ہے کہ ان چراگاہوں کے اندر داخل ہوجائے۔(بخاری، کتاب البیوع)
گناہ سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ گناہ کے قریب بھی نہ جائے اور جو چیزیں ممنوع ہیں ان سے دُور رہے، مثلاً زنا ممنوع اور حرام ہے تو اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ غیرمحرم عورتوں کے قریب بھی نہ جائے، ان کو نہ دیکھے، ان کے گھر میں بلااذن اور پردہ کرائے بغیر داخل نہ ہو۔ عورتوں اور مردوں کا باہمی میل جول اور رُو در رُو گفتگو نہ ہو۔ بے تکلفی اور کسی رکاوٹ کے بغیر آمدورفت اور نشست و برخاست گناہ میں گرفتار کرنے کا ذریعہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مرد ایک عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں بیٹھے گا مگر ان کا تیسرا شیطان ہوگا۔ اسی وجہ سے قرآن و سنت میں پردے کے احکام آئے ہیں اور بغیر اجازت گھروں میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ عورت کو بن سنور کر بے پردہ کھلے عام پھرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ آج کل مغربی تہذیب کا دور دورہ ہے، فحاشی اور عریانی عام ہے۔ ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ اور فیس بُک پر عورت بے پردہ سامنے آتی ہے اور لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتی پھرتی ہے۔ یہ معاشرہ اسلام کی ضد ہے۔ اسلام شرم و حیا اور عفت و عصمت کا دین ہے۔ آج مسلمان ممالک مغرب کو متاثر کرنے اور ان میں اسلام کی عفت و عصمت اور شرم و حیا پر مبنی تہذیب کو فروغ دینے کے بجاے مغربی تہذیب کے دلدادہ ہوگئے ہیں اور اپنے ملکوں کو مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگنے پر فخر کرتے ہیں۔ اللہ ہدایت عطا فرمائے۔آمین!
فرانسیسی رسالہ ہو یا کوئی اور بدنصیب، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے لیے اللہ کا فیصلہ ازلی و ابدی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: وَ لَقَدِ اسْتُھْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُھُمْ قف فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِo (الرعد۱۳:۳۲) ’’تم سے پہلے بھی بہت سے رسُولوں کا مذاق اُڑایا جا چکا ہے ، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخرِ کار ان کو پکڑلیا ، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی‘‘۔گویا اگر یہ لوگ تائب نہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کے لیے عذاب و عتاب اب بھی یقینی ہے، بس ذرا سی مہلت ملی ہے جسے وہ اپنی جیت اور غلبہ سمجھ رہے ہیں۔
چارلی ایبڈو نے پہلی بار نہیں، مسلسل گستاخیاں کی ہیں۔ ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ چار کارٹونسٹ اور آٹھ دیگر افراد کے مارے جانے کے باوجود بھی اپنا رویہ بدلنے پر تیار نہیں۔ اصرار و تکرار سے دوبارہ خاکے بنائے اور اعلان کیا ہے کہ وہ یہ گستاخیاں مسلسل جاری رکھے گا۔ ۷جنوری ۲۰۱۵ء کو رسالے کے دفتر پر حملے سے پہلے فرانس میں مقیم متعدد مسلمان تنظیموں نے فرانسیسی عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے کہ رسالے کو اس جسارت سے روکا جائے جس سے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کی روح زخمی ہوتی ہے۔ عدالت نے یہ اپیل مسترد کرتے ہوئے، کامل رعونت سے جواب دیا :’’ ہم آزادیِ اظہارِ راے پر قدغن نہیں لگاسکتے، اخبارات آزاد ہیں، جو چاہیں شائع کریں‘‘۔
نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کے دہرے معیار ملاحظہ کیجیے۔ اسی رسالے نے سابق فرانسیسی صدر چارلس ڈی گال (۱۸۹۰ئ-۱۹۷۰ئ)کے انتقال کے بعد اس کا مذاق اڑایا تھا۔ تب اس کا نام ’ہارا کیری‘ ہوا کرتا تھا۔ آزادیِ اظہارِ راے کا دعوے دار پورا ملک اور حکومت اس پر چڑھ دوڑی اور اس پر پابندی لگادی گئی جس نے ایک ’قومی ہیرو‘ ڈیگال کی شان میں گستاخی کی تھی۔ ۱۹۷۰ء میں اس رسالے نے دوبارہ اور نئے نام سے کام شروع کیا۔ پھر ہر کسی کا استہزا اُڑانے لگا۔ لیکن اپنی حرکتوں کے باعث۱۹۸۱ء میں پھر بند ہوگیا اور ۱۹۹۲ء میں اپنے حالیہ نام سے جاری ہوا۔ پھر ایک بار سابق فرانسیسی صدر نیکولاسرکوزی کے بیٹے کا مذاق اُڑاتے ہوئے اس کے یہودی ہونے کا بھی ذکر کردیا۔ آزادیِ اظہارِ راے کی جگالی کرنے والوں نے اسے یہودیت کے خلاف نسلی تعصب قرار دیتے ہوئے اس بار بھی اسے متعلقہ صحافی کو نکال باہر کرنے پر مجبور کردیا۔
معاملہ صرف ایک اخبار، رسالے یا چند توہین آمیز خاکوں کا نہیں، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک عالم گیر مہم کا ہے۔ صدر بش کے اس بیان کہ: ’’ہم ایک صلیبی جنگ شروع کرنے جارہے ہیں‘‘ کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ نادانستگی میں کہے گئے الفاظ (Slip of Tongue) تھے، لیکن پیرس کے واقعے کے بعد رسالے اور اس کے مقتولین کے خلاف جو مظاہرہ ہوا اس میں بہت سے شرکا صلیبی جنگوں کے دوران استعمال کیا گیا، صلیبی سپاہیوں کا لباس پہن کر شریک ہوئے۔ اس کے بعد بھی کئی ملکوں میں کئی تنظیموں اور کئی اخباروں کے ذریعے وہی صلیبی جنگوں کے بگل بجاے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں صہیونی اخبارات پیش پیش ہیں۔
ہالینڈ کی ایک سیاسی جماعت کا سربراہ گیراتھ فلڈرز جو خود بھی متعدد گستاخانہ کارروائیوں کا ارتکاب کرچکا ہے، گویا ہوا کہ ’’ہم طویل عرصے سے اسلام کے ساتھ جنگ لڑرہے ہیں‘‘۔ اسی طرح کے بیانات فرانس کے شدت پسند سیاسی رہنماؤں نے دیے۔ جن پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک فرانسیسی دانش ور بوب ڈی رونر لکھتا ہے کہ : ’’طرفین (مسلمان اور مغرب) ایک ایسی جنگ میں کودنے کی تیاریاں کررہے ہیں، کہ جس میں تشدد کا کسی بھی حد تک چلے جانا بعید نہیں، اور میرے خیال میں طرفین کو اس ساری قیامت سے خسارے اور نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا‘‘۔
صہیونی اخبارات اس جلتی پر تیل ڈالنے میں سرفہرست ہیں۔ حکومتی اخبار اسرائیل ٹوڈے میں ڈان مرگلیت لکھتا ہے: ’’یورپ میں روزافزوں اسلامی دہشت گردی کے حقیقی خطرے سے وہاں کی حکومت اور ذرائع ابلاغ غافل ہیں۔ سیاسی اسلام اور دور جدید کے نازی پوری دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ پوری دنیا کو اپنا غلام بنانا اور انسانوں کی آزادی و عزت کو قدموں تلے روند دینا چاہتے ہیں۔ شدت پسند اسلام، مغربی تہذیب، جمہوریت، مسیحیت اور یہودیت سے تصادم چاہتا ہے‘‘۔
اسرائیلی روزنامہ ھارٹز لکھتا ہے: ’’پیرس حملہ انتہائی اسٹرے ٹیجک کارروائی ہے جس کا ہدف صرف فرانس نہیں، ساری کی ساری آزاد دنیا ہے۔ دنیا کے تمام جمہوری اور صحافتی اداروں کو اس کارروائی سے متاثر ہوئے بغیر، پوری جرأت و عزم کے ساتھ آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے خلاف اس غلیظ کارروائی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا‘‘۔
ایک اور صہیونی ناسم ڈینا اسرائیل ٹوڈے میں لکھتا ہے: ’’اسلام جب سے آیا ہے، ساری دنیا کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ اب یورپ میں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے، یہ لوگ اپنے بچوں کو عیسائی اور یہود دشمنی سکھاتے ہیں۔ بالخصوص جمعے کے روز یہ اپنے عقیدہ و ایمان کی آبیاری کرتے ہوئے، اپنے لوگوں کو غیر مسلموں کے خلاف اُکساتے ہیں، لیکن مغربی ممالک ان کا کوئی علاج کرنے کے بجاے، حقوق انسانی اور جمہوریت جیسے اُصولوں پر مصر ہیں‘‘۔
صہیونی روزنامہ معاریف میں افشائی عبری یورپ کو مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن حملہ کرنے پر اُکساتے ہوئے لکھتا ہے: ’’دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے پیچھے اصل ہاتھ اسلام کا ہے... اس خطرے کا ایک ہی اصل حل ہے اور وہ یہ کہ یورپ میں مقیم مسلمانوں کو ان بیرونی افواج کا ہراول دستہ سمجھا جائے جو یورپ پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں‘‘۔ مزید ارشاد ہوتا ہے: ’’یورپ ابھی تک عالمی جنگوں کے صدمے سے نہیں نکل پایا، اور وہ جنگوں کو ایک انتہائی خوف ناک مصیبت سمجھتا ہے، لیکن اگر اس نے آج جنگوں کی ناگزیریت کو نہ سمجھا تو اسے جلد اس سے بھی زیادہ خوف ناک حقائق کا سامنا کرنا پڑے گا، اور وہ ہے اس جنگ میں ہزیمت‘‘۔
ان چند مثالوں سے اس اصل خطرناک، نفرت آمیز اور تباہ کن ذہنیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جو ان توہین آمیز خاکوں کے پیچھے کارفرما ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ کسی براے نام مسلمان کے لیے بھی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کیا حیثیت رکھتی ہے۔ وہ شاید سب کچھ برداشت کرلے، لیکن اپنے نبی محترمؐ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔ دنیا کو یہ حقیقت بھی بخوبی معلوم ہے کہ جب تک مسلمانوں کے ہاتھ میں قرآن کریم اور دلوں میں حُب رسول صلی اللہ علیہ وسلم باقی ہے، انھیں تباہی اور فنا کے گھاٹ نہیں اتارا جاسکتا۔ یہی وہ آخری حصار ہے جس میں آکر اُمت مسلمہ اپنے ہر اندرونی و بیرونی دشمن کو شکست دے سکتی ہے۔ اس لیے اب انھوں نے اس آخری حصار پر پے درپے حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔ سلمان رُشدی یا تسلیمہ نسرین جیسے بدنصیب و ملعون ہوں، یا ڈنمارک کے اخبارات میں خاکے شائع کرنے والے، امریکی پادری ٹیری جونز کی طرف سے قرآن کریم جلانے کے اعلانات ہوں یا قرآن کریم کو (نعوذ باللہ) فتنہ قرار دیتے ہوئے فلمیں تیار کرنے کی مکروہ حرکتیں، سب اسی ناپاک سلسلے کی غلیظ کڑیاں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ خود نام نہاد مسلمانوں کے ذریعے بھی آئے دن مختلف درفنطنیاں چھوڑی جاتی ہیں، تاکہ ان کے ذریعے خود مسلمانوں کے دلوں میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کا تقدس ختم ہوتا چلا جائے۔ کبھی مساوات مردوزن کے نام پر، کم لباس خواتین کو مردوں کی صفوں میں اور ان کے شانہ بشانہ کھڑا کرکے، کسی بدنام زمانہ خاتون سے نماز کی امامت کروائی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں، مخصوص خانہ ساز خبروں کی گردان کی جاتی ہے، مثلاً یہ کہ ’’دہشت گرد بے گناہوں کو قتل کرکے جنت میں جانا چاہتے تھے‘‘۔ اور پھر جنت اور قرآن کریم میں بیان کی گئی اس کی نعمتوں اور حوروں ہی کو اپنے زہریلے طنز و مزاح کا محور بنادیا جاتا ہے۔
یہ اور ایسی دیگر حقیر حرکتیں کوئی نئی بات نہیں۔ رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان بعثت ہی سے ان کا آغاز ہوگیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ایسے آوازے کسے اور دشنام بازی کی گئی کہ اخلاق و تہذیب کی تمام حدیں مسمار ہوگئیں۔ آپؐ کے اہل خانہ اور ازواجِ مطہراتؓ کو بھی سب و شتم اور قذف و اتہام کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام آزمایشوں اور تکلیفوں کے باوجود، اپنے اصل مشن اور نصب العین کوایک لمحے کے لیے بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ خود پروردگار عالم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی فرماتے ہوئے اطلاع دی کہ آپؐ کے پیغمبرِ برحق ہونے کی ایک نشانی، مخالفین و اعداء کا آپے سے باہر ہوجانا بھی ہے۔ آپؐ سے پہلے بھی جو انبیا مبعوث کیے گئے، انھfیں بھی ان تمام تکالیف کا سامنا کرنا پڑا:
وَ لَقَدِ اسْتُھْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْھُمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَـ(الانعام۶:۱۰) ’’اے نبی ؐ ، تم سے پہلے بھی بہت سے رسُولوں کا مذاق اُڑایا جاچکا ہے، مگر ان مذاق اُڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلّط ہوکررہی جس کا وہ مذاق اُڑاتے تھے‘‘۔ وَمَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ ْنَ (الحجر۱۵:۱۱)’’ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کے پاس کوئی رسُول آیا ہو اور انھوں نے اُس کا مذاق نہ اُڑایا ہو‘‘۔ یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ ج مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِؤُنَ (یٰسٓ: ۳۶:۳۰) ’’افسوس بندوں کے حال پر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا، اس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے‘‘۔وَمَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِؤُنَ (الزخرف۴۳:۷) ’’کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی ؑان کے ہاں آیا ہو، اور انھوں نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہو‘‘۔
تب سوال یہ بنتا تھا اور آج بھی بنتا ہے کہ ان تمام استہزائیہ جسارتوں کا سامنا کیسے کیا جائے؟ اس کا جواب بھی ربِّ کائنات ہی کی طرف سے عطا ہوتا ہے: فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِھَا وَ مِنْ اٰنَآیِٔ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّھَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی (طٰہٰ ۲۰:۱۳۰)’’ پس اے نبیؐ ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، سُورج نکلنے سے پہلے اور غرُوب ہونے سے پہلے ، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، شاید کہ تم راضی ہوجاؤ‘‘۔ دشمن کی زبان سے ملنے والی ایذا رسانیوں کے جواب میں صبر اور تسبیح و تحمید کی بالکل یہی تعلیم سورئہ قٓ کی آیت ۳۹ میں بھی دی گئی۔ ایک موقعے پر یہ بھی ارشاد ہوا کہ اے میرے حبیب آپ اپنے کام میں لگے رہیے، ان مذاق اُڑانے والوں کے مقابلے میں ہم ہی آپ کے لیے کافی ہیں۔ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِ یْنَ o (الحجر۱۵:۹۴-۹۵) ’’پس اے نبی ؐ ، جس چیز کا تمھیں حکم دیا جا رہا ہے اُسے ہانکے پُکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو۔ تمھاری طرف سے ہم اُن مذاق اُڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ کرام اس دشنام و مذاق پر دل گرفتہ ہوئے تو مزید ارشاد ہوا: وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ o فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ کُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ o (الحجر۱۵:۹۷-۹۸) ’’ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ تم پربناتے ہیں اُن سے تمھارے دل کو سخت کوفت ہوتی ہے ۔ (اُس کا علاج یہ ہے) کہ اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، اور اُس کی جناب میں سجدہ بجا لاؤ‘‘۔
آپؐ کے صاحب زادے ابراہیم علیہ السلام کا انتقال ہوا، تو کم ظرف دشمن نے جڑیں کٹ جانے کا طعنہ دیا۔ رب ذو الجلال نے قیامت تک کے لیے فیصلہ کردیا کہ: اِِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ o (الکوثر۱۰۸:۳) ’’آپ کا مذاق اُڑانے والا ہی جڑ کٹا ہے‘‘۔ آپؐ کے مخالفین اور دشمنانِ دین نبی کا الْاَبْتَر ہونا اس قدر حتمی اور یقینی تھا کہ اہل ایمان سے پہلے خود دشمنوں کے دلوں نے اس کی گواہی دی۔ آپؐ کی شان میں گستاخیاں کرنے والے کتنے ہی نامور سلاطین اور عالمی نظام ایسے طلوع ہوئے کہ ایک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا، لیکن پھر یوں غروب ہوئے کہ اپنے گھروں کی دہلیزوں کے لیے بھی اجنبی ہوگئے۔ آج بھی سلمان رُشدی جیسے بدنصیب، گستاخیِ رسولؐ کے صلے میں خواہ درجنوں مغربی ایوارڈ اپنی کلغیوں پر سجائے پھریں، ان کا جڑ کٹا اور ناپید ہونا، خود ان کے اپنے وجود سے زیادہ یقینی ہے۔
اس سوال پر غور کرنے سے پہلے کہ نبی مہربان کی شان میں ہونے والی گستاخیوں کے جواب میں، آج مسلمانوں کی حکمت عملی کیا ہو؟ آئیے ایک کوشش ان کے اسباب جاننے کی کرتے ہیں۔
اس شر و فساد کی سب سے بڑی وجہ تو یقینا شیطان اور اس کے چیلوں کی دین اسلام سے نفرت و عداوت ہے، جو مختلف ادوار میں مختلف صورتوں میں سامنے آتی رہتی ہے۔ ایک اسرائیلی اخبار میں شائع شدہ سابق الذکر یہ جملہ اسی ازلی عداوت کی کہانی بیان کررہا ہے کہ ’’اسلام جب سے آیا ہے ساری دنیا سے برسرپیکار ہے‘‘۔ اسلام اور اس کی تعلیمات سے یہ شیطانی دشمنی اب اس لیے عروج پر ہے کہ عیسائیت خود یورپ میں سکڑتی جارہی ہے۔ ہزاروں چرچ بے آباد ہوکر فروخت ہوچکے ہیں۔ مذہب سے مغرب کا تعلق براے نام ہوتا چلا جارہا ہے۔ مذہب کو چند رسوم تک محدود کردینے سے پورے مغربی معاشرے کی تاروپودبکھر چکی ہے۔ کئی ممالک باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے شادی کے بندھن اور خاندانی نظام کی بجاے، مردوں کی مردوں سے اور عورتوں کی عورتوں سے شادی کو تحفظ دے رہے ہیں۔ قومِ لوطؑ پر جب عذاب کا فیصلہ ہوگیا تو رب ذوالجلال نے ان کی فرد جرم سناتے ہوئے فرمایا تھا: وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ o (العنکبوت۲۹: ۲۹) ’’اب تو تم کھلم کھلا مجالس میں اس فعل مکروہ کا ارتکاب کرنے لگے ہو‘‘۔ آج مغرب میں بھی بڑے بڑے عہدوں پر براجمان انسان نما مخلوق، مجالس میں اس فعل شنیع پر فخر و مباہات کرتی ہے۔ اب تقریباً ہردستاویز میں باپ، شوہر یا بیگم کا نام پوچھنے کے بجاے، ماں اور ساتھی (partner) کا نام پوچھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ معاشرے کی ایک بڑی تعداد (بعض ممالک میں ۶۴فی صد) کو اپنے باپ کا نام یا تو معلوم نہیں، یا اس سے کسی طرح کا کوئی تعلق باقی نہیں۔ یورپی شماریات کے ادارے یوروسٹیٹ (Eurostat) کے مطابق فرانس میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کا تناسب ۸ئ۵۲ فی صد اور برطانیہ میں تناسب ۴ئ۴۵ فی صد ہے۔ اس پر کسی بھی طرح کی شرمندگی تو کجا، اس مادر پدر آزادی پر فخر کیا جاتا ہے اور اسی کے تحفظ کی بات کی جاتی ہے۔
دوسری جانب اسی تعفن زدہ تہذیب میں رہنے کے باوجود، مسلمانوں کی اپنے دین سے وابستگی میںنہ صرف مضبوطی اور پختگی آرہی ہے، بلکہ ان کی تعداد میںمسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ رب کی قدرت اور اِِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ کی حقانیت ملاحظہ کیجیے کہ جب سے بعض شیطانی ذہنوں نے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں شروع کی ہیں، یورپ میں آپؐ کی سیرت کے مطالعے اور قبول اسلام کے تناسب میں حیرت انگیز اضافہ ہواہے۔
نائن الیون کے بعد یورپ میں اسلامی مراکز کی تعداد تقریباً دگنی ہوگئی ہے۔ گذشتہ ۱۰ برس میں فرانس میں ۱۰ کیتھولک چرچوں کا اضافہ ہوا، جب کہ اسی عرصے میں ۶۰ چرچوں کو تالے لگ گئے۔ دوسری جانب اس عرصے میں صرف فرانس میں مساجد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اسلامی مراکز کی موجودہ تعداد آیندہ ۱۰ برس میں دُگنی ہوجائے گی۔ فرانس کے بڑے بڑے مشاہیر، کھلاڑی اور فنکار دائرۂ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ مغرب میں بسنے والے مسلمان اب اپنے آپ کو زیادہ منظم کرتے ہوئے، اپنے سیاسی نفوذ کو بھی زیادہ مؤثر و مفید بنارہے ہیں۔ فرانس میں ایک سروے ہوا تو ۳۹ فی صد فرانسیسی عوام نے اسلام کو ایک معتدل اور دوسروں سے درگزر کرنے والا دین قرار دیا۔ اس وقت فرانس میں مسلمانوں کا تناسب ۵ئ۸فی صد ہے جو ان کے نزدیک بہت خوف ناک تعداد ہے لیکن اس سے بھی خوف ناک امر یہ ہے کہ ان کے اندازوں کے مطابق ۲۰۲۵ء یعنی آج سے ۱۰سال بعد یہ تناسب ملکی آبادی کا ۲۵ فی صد ہوجائے گا۔ اس پورے پس منظر میں اسلام کا روشن چہرہ مسخ کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے کا سلسلہ تیز تر کیا جارہا ہے۔
یہ بات بعید از قیاس ہے کہ ان مکروہ سرگرمیاں کرنے والوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ قرآن اور صاحب ِقرآن کی شان میں گستاخیاں، صرف یورپ میں مقیم چند لاکھ نفوس کا مسئلہ نہیں، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پونے دو اَرب کے قریب مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ ان سفیہانہ اقدامات سے پوری اُمت کی روح مجروح اور دل زخمی ہوتے ہیں۔ امریکا میں بننے والی ایک اخلاق باختہ توہین آمیز فلم کے نتیجے میں، اگر لیبیا میں امریکی سفیر مظاہرین کے غم و غصے کا شکار بنتا ہے، فرانس میں اُڑائے جانے والے ناقابل بیان خاکوں پر چیچنیا تک میں لاکھوں انسان سڑکوں پر سراپا احتجاج بن جاتے ہیں، تو چاہیے تو یہ تھا کہ انسان دوستی کے دعوے دار اہل مغرب ان ناپاک ہاتھوں کوروکتے جو بار بار ان جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لیکن ترقی، تہذیب، قانون کی عمل داری اور انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار نہ صرف چپ سادھے بیٹھے ہیں، بلکہ مجرموں کی پشتیبانی کررہے ہیں۔ وہی مغرب جو خود کو پرندوں اور حیوانات سے محبت کرنے والا ثابت کرتے نہیں تھکتا، جہاں یہودیوں کے اس دعوے، کہ ہولوکاسٹ میں ان کے لاکھوں افراد جلا دیے گئے کے بارے میں کسی شک کا اظہار کرنا بھی نسلی تعصب قرار پاتا ہے،جہاں باقاعدہ قوانین بنادیے گئے ہیںکہ ہولوکاسٹ کے بارے میں یہودیوں کی روایت کردہ کہانی سے متصادم بات کرنے والے کو کڑی سزا دی جائے گی، اسی مغرب میں پونے دو اَرب انسانوں کے ایمان پر آرے چلانا، عین آزادی قراردیا جارہا ہے۔
مغرب کے ان دہرے معیارات کے خلاف اب خود مغرب سے آوازیں اُٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ اپنے پیش رو مسیحی پوپ کے برعکس حالیہ پوپ فرانسس نے بھی آزادی کے اس تصور کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’اگر کوئی میری ماں کو گالی دے گا تو اسے بھی میرے گھونسے کا منتظر رہنا چاہیے‘‘۔ یہاں تو معاملہ کسی ماں کا نہیں، اس سراپا رحمت ہستی کا ہے، جس کے سامنے دنیا کی تمام ماؤں کی محبتیں ہیچ ہیں۔ فن لینڈ کے وزیر خارجہ نے بھی آواز اُٹھائی ہے کہ خواتین کے خلاف کوئی بات کرے تو اسے شوفینزم کہا جاتا ہے، سیاہ فاموں کے خلاف بات کی جائے تو نسلی تعصب کہا جاتا ہے یہودیوں کے خلاف بات کی جائے تو سامیت کی خلاف ورزی کہا جاتا ہے، تو آخر مسلمانوں کے نبی کے بارے میں بات کرنا ہی کیوں آزادی اظہار کہلاتا ہے؟
ترک اخبار زمان میں عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کے بارے میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ مضمون نگار نے عہد عثمانی میں فرانس، برطانیہ اور امریکا میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا ڈرامے پیش کرنے کی مختلف کوششوں کا احاطہ کیاہے۔ سلطان عبد الحمید نے یہ ڈرامے پیش کیے جانے کی اطلاع ملتے ہی، ان تمام جسارتوں کو ناکام بنایا۔ اس ضمن میں کبھی تو فرانسیسی صدر نکولس ساری کارنٹ (۱۷۹۶ئ-۱۸۳۲ئ) کے نام مؤثر خط کام آیا، کبھی برطانوی وزیرخارجہ رابرٹ سالسبری (۱۸۹۵ئ-۱۹۰۲ئ) کے ساتھ ذاتی روابط کو استعمال کیا گیا، اور کبھی سلطان عبد الحمید نے برطانیہ بہادر کو دوٹوک انداز میں خط ارسال کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس گستاخی کو فوراً روکا جائے، وگرنہ میں خلیفۂ وقت کی حیثیت سے پوری اُمت مسلمہ کو تمھارے خلاف جہاد کاحکم جاری کردوں گا‘‘۔افسوس کہ آج نہ تو عالم اسلام میں کسی ملک کو عثمانی خلافت کی قوت و سطوت حاصل ہے اور نہ کوئی حکمران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر تڑپ کر اُٹھا اور ہر سفارتی، ذاتی اور حکومتی نفوذ استعمال میں لاتے ہوئے، اس فتنے کی سرکوبی کرنے کی کوشش کرکے سرخرو ہوسکا۔
اس پورے معاملے میں ایک اور پہلو بھی انتہائی اہم ہے، اور یہ نکتہ بھی خود بعض مغربی ذمہ داران کی طرف سے اُٹھایا گیا ہے۔ مختلف اخبارات میں، مختلف ذمہ داران اور باخبر ذرائع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ فرانسیسی رسالے پر حملہ، غم و اندوہ کا شکار کسی مسلمان نے نہیں کیا، یہ امریکا اور اسرائیل کا مشترک منصوبہ تھا۔ برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ فرانس کی ایک سیاسی جماعت کے بانی Jean Marie Le Pen کے حوالے سے لکھتا ہے کہ:’’حملہ امریکی یا اسرائیلی ایجنٹوں کا کام تھا جس کا مقصد اسلام اور مغرب کے درمیان خانہ جنگی کرواناتھا‘‘۔
روسی اخبار پراودا کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ: ’’میرا نہیں خیال کہ فرانسیسی خفیہ ادارے بھی اس میں شریک تھے، لیکن انھوں نے بھی اس واقعے کو ہونے دیا‘‘۔
صدر ریگن کے دور میں نائب وزیر خزانہ اور معروف امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے ڈپٹی ایڈیٹر ڈاکٹر پال کریج نے بھی اپنے ایک مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ ایک جعلی جھنڈے تلے آپریشن تھا، تاکہ فرانس کو امریکا کی مرضی کے مطابق پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔
اس طرح کے دیگر بیانات و مضامین میں دعویٰ کیا گیا ہے، کہ فرانس کئی بین الاقوامی مسائل میں امریکی پالیسیوں سے آزاد دکھائی دے رہا تھا، اس لیے اسے سزا دینے کے لیے یہ اقدام کیا گیا۔ اس ضمن میں سوال اُٹھانے والوں نے کئی واقعاتی حقائق پر بھی حیرت کا اظہار کیا۔ مثلاً یہ کہ:
یہ سوالات برمحل اور حقیقی ہیں یا قطعی بے جواز و بے بنیاد، وقت ان سوالات کا جواب ضرور دے گا، لیکن اُمت مسلمہ، بالخصوص غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ وہ آیندہ ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کریں۔ پونے دواَرب کے قریب مسلمان، جن میں سے ۵۳ ملین مسلمان صرف براعظم یورپ میں رہتے ہیں (بحوالہ’دی انسٹی ٹیوٹ، جرمنی) ان گستاخیوں کا جواب کیا اور کیسے دیں؟
فرانس کے واقعے نے ایک بات تو یہ ثابت کردی کہ کسی رسالے کو تباہ کردینا یا گستاخوں کو قتل کردینا نہ صرف مؤثر نہیں ثابت ہوا، بلکہ اس کے منفی نتائج سامنے آئے ہیں۔ جس رسالے کی اشاعت ۵۵ سے ۷۰ ہزار تھی، اس ناپاک جسارت کے بعد اس نے دوبارہ خاکے شائع کیے اور اس کی اشاعت ۳۰ لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ اس نے سیکڑوں مزید خاکے شائع کرنے اور کئی زبانوں میں رسالہ نکالنے کا اعلان کردیا۔ مغرب کے دہرے معیار کے باعث واقعے میں شریک دو افراد کو دین اسلام ، قرآن حکیم، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور پوری اُمت مسلمہ کے خلاف دریدہ دہنی کا بہانہ بنالیا گیا۔ بلاتحقیق اور فوراً ہی واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف لاکھوں لوگ جمع کرلیے گئے۔ ۴۰سے زائد سربراہان مملکت بھی پہنچ گئے، جن میں سرفہرست دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اور ہزاروں معصوم فلسطینی بچوں کا قاتل صہیونی وزیراعظم نتن یاہو تھا۔ وہ خود کو امن اور سلامتی کا ہیرو قرار دیتے ہوئے اور دوسرے عالمی رہنماؤں کو (حقیقتاً) کہنیاں مارتے ہوئے خود کو سب سے نمایاں کرتا رہا۔ لیکن ان لاکھوں مظاہرین میں سے تمام عالمی سربراہوں اور دنیا کے کسی شخص نے یہ بتانے کا تکلف نہیں کیا کہ جو ۱۲؍ افراد حملے میں مارے گئے، ان میں احمد مرابط نامی ایک پولیس ملازم اور مصطفی اوراد نامی رسالے کا ایک ملازم بھی شامل تھے۔ اگر دو حملہ آوروں کے باعث پورا دین اور پوری اُمت مطعون کی جاسکتی ہے، تو دو مسلمان مقتولین کی وجہ سے پوری اُمت کے ساتھ اظہار یک جہتی کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ شاید اس لیے کہ ان دو مقتولین میں سے ایک کا نام احمد اور دوسرے کا نام مصطفی ہے، یعنی یہ دونوں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اُمتی اور عاشق تھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مغرب کے اس دوہرے معیار کو بے نقاب کرتے ہوئے، خود مغرب میں مقیم انصاف پسند اکثریت کے دل و دماغ پر دستک دی جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی سزا یقینا موت ہے۔ الحمدللہ پاکستان کو توہین رسالت کا قانون بنانے کا اعزاز حاصل ہے (اگرچہ اس پر عمل درآمد کا طریقہء کار، مزید شفاف اور مامون و محفوظ بنانے کی ضرورت ہے) لیکن غیر مسلم ممالک میں رہتے ہوئے، ہمارے لیے مکی دور کا وہ اسوۂ حسنہ انتہائی اہم ہے کہ جس میں فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ کی تعلیم دی گئی۔ توہین آمیز خاکے دیکھ کر جس طرح ہر مسلمان کرب محسوس کرتا ہے، اگر وہ اس کرب کے نتیجے میں رسول اکرمؐ کی سیرتِ مطہرہ اور اسلام کا روشن اُجلا چہرہ مؤثر انداز سے دنیا کے سامنے پیش کرنا شروع کردے، اور سب سے پہلے خود اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا اُمتی اور حقیقی مطیع فرمان بنانے کی سعی کرے، تو ایسا کرنا یقینا کسی بھی جلاؤ گھیراؤ اور مارو یا مرجاؤ سے زیادہ مؤثر ہوسکتا ہے۔
اگر اُمت مسلمہ مل کر فیصلہ کرلے کہ جو ممالک اور کمپنیاں بھی حبیب کبریاؐ کی شان میں گستاخی کی مرتکب ہوں گی، ان کی مصنوعات کا مؤثر بائیکاٹ کرنا ہے، تو دمڑی کے پجاری مغربی سوداگر، خود ان خاکوں کا راستہ روکنے کے لیے میدان میں آئیں گے، جیسا کہ اس سے پہلے ناروے اور ڈنمارک میں کامیاب تجربہ ہوچکا ہے۔
آج، جب کہ دنیا ایک بستی کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ کسی بھی خطے میں رُوپذیر واقعے کی حرارت پلک جھپکنے میں پوری دنیا تک پہنچ جاتی ہے اور اسے متاثر کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی شخص، گروہ، حکومت یا ملک کو اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ عدل و انصاف کی حدود سے تجاوز کرسکے۔عالمی سطح پر ایسی قانون سازی کی جائے کہ خود آیندہ ایسے فتنوں کا سدباب ہوسکے۔ چاہیے تو یہ تھا عالمی سطح پر اقوام متحدہ اور اسلامی تنظیم براے تعاون (OIC) اس کام کا بیڑا اُٹھاتیں،لیکن دونوں کی حیثیت اس وقت کسی بے بس و بے کس مریض سے زیادہ نہیں رہ گئی۔ اگر اقوامِ عالم یا مسلم ممالک مخلصانہ سعی کریں، تو اس مریض کو شفا مل سکتی ہے۔
اگر عالم اسلام کا ہر باسی اپنی حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالے کہ ان مکروہ واقعات پر وقتی ردعمل اور زبانی جمع خرچ کے بجاے وہ عالمی سطح پر ان کے خلاف قانون سازی کروائے تو خود پوپ اور لاتعداد مغربی دانش وروں اور سیاسی زعماء میں سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو تمام انبیاے کرام ؑ اور کتب ِمقدسہ کے احترام کے لیے یک جان ہوکر میدان میں آجائیں۔
حرارت ایمانی یقینا شب بھر میں مسجد تعمیر کرواسکتی ہے، لیکن خود کو مستقل اور حقیقی نمازی بنانا، زیادہ کڑی اور اصل آزمایش ہے۔ وگرنہ کیا اپنے نبی کی حرمت و ناموس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی حفاظت رب ذو الجلال کے لیے کوئی مشکل کام ہے؟ اہل طائف نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لہولہان کردیا، اور آپ ایک باغیچے کی دیوار سے ٹیک لگاکر اپنے رب سے مناجات کرنے لگے، تو اللہ نے پہاڑوں کے منتظم فرشتے کو آپؐ کی خدمت میں بھیجا۔ ’’اگر آپؐ فرمائیں ، تو میں سب اہل طائف کو ان پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں‘‘؟ فرشتے نے عرض کی۔ آپؐ نے فوراً فرمایا: بَلْ أرجُو أن یُخرِجَ اللّٰہُ مِن أصلابِہِم مَن یَّعبُدُ اللّٰہ وَحدَہُ لا یُشرِکُ بِہ شَیئًا ،’’نہیں، مجھے اُمید ہے کہ اللہ ان کی پشت سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی بندگی کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیرائیں گے‘‘۔ اللہ رب العزت نے رسولِ رحمتؐ کی یہ اُمیدیں پوری کردیں اور اہل طائف سمیت پورا جزیرۂ عرب مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
میدان اُحد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید کردیے گئے تو کسی نے تڑپ کر عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! أُدعُ اللّٰہَ عَلَیہِم، ’’یارسولؐ اللہ! ان کے لیے بددُعا کیجیے‘‘۔ آپؐ نے فوراً ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَبْعَثْنِی طَعَّاناً وَلَا لَعَّاناً وَ لٰکِنْ بَعَثَنِی دَاعِیَۃً وَرَحْمَۃً۔ اَللّٰہُمَّ اھْدِ قَوْمِی فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ، ’’اللہ نے مجھے لعن طعن کرنے والا بناکر نہیں بھیجا۔ اللہ نے مجھے داعی اور رحمت بناکر بھیجا ہے۔ اے اللہ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما یہ لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
آج مشرق و مغرب میں بسنے والے ہم سب گنہگار اُمتی، اسی دعوت و رحمت کے وارث ہیں۔ ہماری بعض کرتوتوں اور دشمن کی مکارانہ سازشوں کے باعث دنیا میں ہمارا تعارف ایک وحشی، خوں خوار ، جاہل و گنوار اُمت کی حیثیت سے کروایا جارہا ہے۔ ہمیں دوسرے گستاخوں کا منہ نوچنے سے پہلے، خود اپنے منہ پر لگی کالک بھی دھونا ہوگی۔ توہین و گستاخی صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی مردود آپؐ کے خاکے اُڑانے لگے۔ یہ بھی آپؐ اور آپؐ کے لائے ہوئے دین و شریعت کی شان میں گستاخی ہے کہ ہماری زبان پر تو آپؐ کا نام نامی ہو اور ہمارے اعمال کفار و مشرکین سے بھی بدتر ہوں۔
آج اگر غیر مسلم ممالک کی اکثریت کا جائزہ لیں تو ایک تلخ حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ وہ اسلامی معاشرت کی بہت سی خوبیوں کو اپناکر، ترقی کی منزلیں طے کررہے ہیں۔ اور یہ بھی ایک بہت بڑی سچائی ہے کہ ان کی ایک غالب اکثریت، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کو جانتی ہی نہیںہے۔ یقینا کئی مخصوص لابیاں انھیں گمراہ کرنے، اور ان کے سامنے اُمت کا چہرہ مسخ کرکے پیش کرنے میں مصروف ہیں، لیکن اب بھی ان کی غالب اکثریت اُمت کے بارے میں کسی تعصب کا شکار نہیں ہے۔ آج اگر ہمدردی، محبت اور مثبت انداز سے آپؐ کے اصل مشن ’دعوت و رحمت‘ کو اپنا لیا جائے تو یقینا پوری انسانیت راہِ نجات اختیار کرلے گی کہ یہی خالق کائنات کا فیصلہ ہے۔ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ، ’’تاکہ وہ (اسلام کو) تمام ادیان پر غالب کردے‘‘۔ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ ،’’ اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرکے رہے گا‘‘۔
آئیے ہم سب اپنا اصل مشن پورا کرنے میں جت جائیں۔ ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و حرمت و ناموس محفوظ ہوجائے۔ اگر ہم سب آج سے اپنی دُعا اور اپنا شعار یہ بنالیں کہ اَللّٰہُمَّ اھْدِ قَوْمَنَا فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ’’اے اللہ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما، یہ لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘___ تو کامل یقین رہنا چاہیے کہ آج سے چندبرس بعد دنیا کا نقشہ ہی مختلف ہوگا!
کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۸ روپے۔ سیکڑے پر خصوصی رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور
دنیا میں کتنے غریب ہیں جو غربت میں ہی زندگی پوری کرجاتے ہیں۔ کتنے بیمار ہیں جن کو بیماری کی حالت میں ہی موت آجاتی ہے۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جو ظالموں کے ظلم کی چکّی میں پستے رہتے ہیں، وہ اپنی اس مظلومانہ کیفیت سے نکل نہیں سکتے۔بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنے بیمار بیٹے کی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ کئی بیٹے کی دنیاوی ناکامی پر کُڑھتے رہتے ہیں اور کئی بیٹے کی غلطیوں اور بے راہ روی سے شاکی ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ تو ایسے ہیں جن کو بیٹے چھوڑ گئے ہیں اور ماں باپ بڑھاپے کی معذورانہ زندگی بڑی بے چارگی اور بے بسی میں گزار رہے ہیں۔ اس بھری دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں جن کی گردن پر دوسروں کے مال کی لوٹ کھسوٹ اور حق تلفی کا بوجھ پڑا ہوا ہے۔ اس طرح کے دیگر بے شمار مسائل اور پریشانیاں انسانوں کو درپیش ہیں۔ کیا ان حالات اور کیفیات کو بدلنے اور انھیں اَنمول بنانے کی کوئی راہ موجود ہے؟ کیا ان مسائل سے نبٹنے کا کوئی طریقہ ہے؟ کیا کس مپرسی کی زندگی کو خوش حالی کے لمحات میں نہیں بدلا جاسکتا؟
اللہ سے دعاگو رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ایسی کسی بھی پریشانی سے محفوظ فرمائے۔ تاہم اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ زندگی تنگی اور تکلیف، عُسر اور یُسر، خوشی اور غمی، الم و حُزن اور مسرت و شادمانی جیسے بے شمار ملے جلے حالات و کیفیات کے مجموعے کا نام ہے۔ اگر خدانخواستہ اطمینان وسکون کے بجاے پریشان کُن حالات کا سامنا ہے، تو ان حالات کی سنگینی اور شدت کو کسی حد تک کم کرنا، اجروثواب کے اعتبار سے اپنے نامۂ اعمال کا ارفع و اعلیٰ عمل بنانا، حتیٰ کہ اس کیفیت سے نکلنے اور اس کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے ایک صاحب ِ ایمان انسان کے پاس مواقع موجود ہیں۔ فکرواعتقاد اور جہدو عمل کو بروے کار لاکر ان کیفیات سے گزرنا اور ان کو انگیز کرنا نہ صرف ممکن ہے، بلکہ یہ مسلمان کی اعتقادی اور فکری زندگی کا ناگزیر تقاضا ہے۔
خدانخواستہ اگر آپ فقروفاقہ میں مبتلا ہیں تو ذرا سوچیے کہ کچھ اور لوگ بھی اسی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ کسی نے قرض لے رکھا ہے تو یہ قرض اس کے لیے دن کو ذلت اور رات کو غم کا سبب ہے۔اگر آپ کے پاس ذرائع آمدورفت موجود نہیں ہیں تو نظر دوڑایئے کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے پائوں بھی نہیں کہ وہ چل سکیں۔ اگر آپ بیماری کے باعث تکلیف میں ہیں تو غور کیجیے کہ کتنے ہی بیمار ایسے ہیں جو برسوں سے صاحب ِ فراش ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں کہ اُن کا مرض دائمی ہے۔ اُس سے شفایاب ہونا دنیاوی اسباب کے اعتبار سے ناممکن ہے۔ بیماری اگر اس قدر شدید ہے کہ اُس کی تاب لانا اور اسے برداشت کرنا آپ کے لیے ممکن نہیں ہورہا تو یہ بات جان لیجیے کہ اس مرض میں آپ کا صبر اور شکر آپ کے گناہوں کو مٹا ڈالے گا۔ آپ کی حسنات کو بڑھا دے گا اور آپ کے درجات کو بلند کردے گا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھیے کہ اگر واقعتا آپ نے صبر سے کام لیا تو آپ اللہ رحمن و رحیم کے محبوب اور پسندیدہ ہیں کیونکہ اللہ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اُسے آزمایش میں ڈال کر اُس کا امتحان لیتا ہے۔
اللہ نہ کرے کہ آپ ظلم کا شکار ہوں۔ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر آپ صبر اور حوصلے سے کام لیجیے، بے ہمتی اور بے دلی کا مظاہرہ نہ کیجیے۔ ظالم کا مقابلہ کیجیے اور اپنے رب کو مدد اور نصرت کے لیے پکاریئے۔ آپ کا رب ہی تو اصل طاقت ور، غالب و زبردست ہے۔ وہی اپنے بندوں پر قابو پاسکتا اور انھیں سزا سے دوچار کرسکتا ہے۔ سب انسان اُس کے سامنے کمزور و ناتواں اور مجبور و بے بس ہیں۔ یہ یقین رکھیے کہ اللہ بزرگ وبرتر آپ کا دفاع کرے گا، وہ ظالموں کے ظلم سے غافل نہیں ہے: وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ط اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ o (ابراھیم ۱۴:۴۲) ’’یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انھیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے، جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں‘‘۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تو مظلوم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اُس کی دعا آسمان تک پہنچ کر رہے گی اور اللہ اس کی نصرت فرمائے گا، بلکہ لسانِ نبوت کے فرمودہ الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے دعاے مظلوم کی قبولیت و نصرت پر قسم اُٹھائی ہے: ’’مجھے میری عزت و عظمت اور جلال و قدرت کی قسم! اے مظلوم ! میں تیری ضرور مدد کروں گا خواہ کچھ دیر بعد ہی کروں‘‘۔(جامع ترمذی)
خدا نہ کرے کہ آپ کسی ناخوش گوار حادثے میں اپنے بیٹے سے محروم ہوگئے ہوں۔ آپ دیکھیے کہ کئی تو ایسے ہیں کہ وہ ایک ہی حادثے میں اپنی ساری اولاد سے محروم ہوجاتے ہیں۔
اگر آپ گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے اپنے اُوپر ظلم کربیٹھے ہیں تو مایوس نہ ہوں، اپنے گناہوں پر اللہ سے معافی مانگ کر اس کی طرف پلٹ آئیں۔ پریشان نہ ہوں، آپ کا رب تو بار بار معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ وہ نہ صرف معاف کرنے والا ہے بلکہ تمام تر گناہوں اور نافرمانیوں کو معاف کردیتا ہے۔ گناہوں کی صورت میں اپنے اُوپر ظلم کرنے والوں کے لیے وہ غفّار ہے۔ اُس نے گناہگاروں کو یہ خوش خبری دی ہے اور انھیں مایوسی و نااُمیدی سے منع فرمایا ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) (اے نبیؐ!) کہہ دو کہ میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے۔
اگر آپ دوسروں کے حق میں خطاکے مرتکب ہوئے ہیں تو معذرت کرنے اور معافی مانگنے میں جلدی کیجیے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ آپ کا یہ عمل کوئی شکست اور پسپائی نہیں ہے، بلکہ ایک اعزاز اور فضیلت ہے۔ حق کا اعتراف کرلینا ایک فضیلت ہے اور غلطی پر معافی مانگنا ایک قابلِ تعریف عمل ہے۔ معافی مانگنے سے اُس کا دل خوش ہوتا ہے جس کے حق میں آپ زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کسی کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر اُس سے معافی مانگنے کا عمل ہرمعاشرے میں لوگوں کے درمیان کشادہ دلی اور قوتِ برداشت پیدا کرتا ہے۔ دوسروں کو راضی اور خوش کرنے کا فن سیکھیے۔ خوش اعتقادی کو معمول بنایئے۔ آدمی ہر کام کو خوش اعتقادی کی نگاہ سے دیکھے گا یا پھر بدشگونی اور بدفالی کے نقطۂ نظر سے۔ آپ خوش اعتقاد لوگوں میں شمار ہونے کو ترجیح دیجیے۔ خوش اعتقاد لوگ ہر مشکل میں کوئی ایسا موقع دیکھتے ہیں جس کو اپنی کامیابی کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔ بدشگونی کے عادی لوگ اس رویے سے کچھ حاصل کرنے کے بجاے بہت کچھ کھو بیٹھنے کی راہ پر چلتے رہتے ہیں۔ وہ کسی چیز کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ وہ ساری زندگی غم و اندوہ اور محرومی میں ہی گزار دیتے ہیں۔ ناکامی اور تلخی کے گھونٹ پیتے رہتے ہیں۔
خدانخواستہ اگر آپ ان میں سے کسی بھی سلبی اور منفی کیفیت میں مبتلا ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ بے صبری و بے ہمتی اور حزن و اَلم سے بچنے کی کوشش کریں۔ یہ چیز انسان کے اندر قلق و اضطراب اور بے دلی و کم ہمتی پیدا کرتی ہے۔لہٰذا آپ بے صبری کا مظاہرہ نہ کیجیے کیونکہ بے صبری اور مایوسی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں انسان کے لیے ناکامی، نااُمیدی اور نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ بے صبری کھوئی ہوئی چیز کو واپس نہیں لاسکتی، کسی مرنے والے کو زندہ نہیں کرسکتی۔ بے صبری کا مظاہرہ تو قضاوقدر پر اعتراض کے مترادف ہے، اور کبھی کوئی قضاوقدر کو ٹال نہیں سکا۔ آپ کی بے صبری کا فائدہ آپ کے مخالفین کو ہوگا۔ آپ سے بُغض رکھنے والے اور حسد کرنے والے اس سے راحت محسوس کریں گے مگر آپ کے دکھ درد کی الم ناکی میں اضافہ ہوگا۔ بے صبری کے اظہار سے آپ کا چہرہ مرجھا جائے گا، چہرے کی چمک اور تازگی جاتی رہے گی، اور بالآخر یہ ساری کیفیات مل کر آپ کی صحت اور جسم و جان پر منفی اثرات ڈالیں گی۔
ایک مومن کا یہ عقیدہ ہے کہ بے صبری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کا فیصلہ (قضا) ہرصورت نافذ ہوکر رہتا ہے اور جو مقدر ہوچکا اور لکھا جاچکا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ کیونکہ قضاوقدرکو لکھنے والے قلم رکھ دیے گئے ہیں اور صفحات کی سیاہی خشک ہوچکی ہے۔ آپ رحمت ِ عالمؐ کے ان الفاظ کو بار بار دُہرائیں اور ان پر غور بھی فرمائیں کہ: ’’جان رکھو کہ اگر ساری کی ساری اُمت تجھے کوئی نفع پہنچانے کے لیے یک جا ہوجائے تو وہ اُس کے علاوہ کوئی نفع نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تیرے مقدر میں لکھ دیا ہے، اور اگر وہ سارے کے سارے تجھے کوئی نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہوجائیں تو اس کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تیری قسمت میں لکھ رکھا ہے‘‘۔ (ترمذی)
رسول اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا ہے: ’’جان رکھو کہ جو نقصان اور مصیبت تمھیں پہنچی ہے وہ کبھی ٹل نہیں سکتی، اور جو ٹل گئی ہے وہ کبھی پہنچ نہیں سکتی‘‘۔ (احمد، داؤد)
یہ وہ حقائق ہیں جن کا اقرار شریعت اسلام نے الصادق المصدوق نبی کریمؐ کی لسانِ مبارک سے کرایا ہے۔ لہٰذا ان حقائق پر ایمان رکھنا نفس کے سکون اور دل کے اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔
اگر آپ کسی چیز سے محرومی کی آزمایش میں ڈالے گئے ہیں تو آپ بے صبری کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟ جس ذات نے آپ کو اس آزمایش میں ڈالا ہے وہ آپ سے محبت کرتی ہے۔ آپ کے لیے تو جودوسخا کا مالک اللہ ہی کافی ہے۔ وہ محبت جس کا بدل دنیا و مافیہا بھی نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان دونوں نعمتوں کے درمیان تو کوئی موازنہ ہی ممکن نہیں۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ جس نے تمھیں ایک نعمت چھین کر آزمایا ہے اُس نے اتنی نعمتیں تمھیں عطا کر رکھی ہیں کہ اُن کا شمار ممکن نہیں۔ نعمتیں عطا کرنے والے اللہ نے حق فرمایا ہے کہ: وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا ط اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ o (ابراہیم ۱۴:۳۴) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے‘‘۔
کسی بھی دکھ تکلیف میں بے صبری نہ دکھایئے کیونکہ دکھ، تکلیف اور غم و الم کی کیفیت ختم ہوسکتی ہے، مرض اور بیماری زائل ہوسکتی ہے، گناہ معاف ہوسکتے ہیں، قرض ادا ہوسکتا ہے،اسیر رہائی پاسکتا ہے، غائب واپس لوٹ سکتا ہے، فقیر امیر ہوسکتا ہے، اور دنوں کا اُلٹ پھیر ہوسکتا ہے، کیونکہ خالقِ کائنات کا کہنا ہے: تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ(اٰل عمران ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔
۲- تسبیح: یہ وہ ذریعہ اور راستہ ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دلائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَلَوْلَآ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ o لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖٓ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ o (الصافات ۳۷: ۱۴۳-۱۴۴) ’’اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو روزِ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا‘‘۔
صبر سے لو لگایئے کہ آپ کے شایانِ شان یہی ہے، کیونکہ اللہ آپ کے ساتھ ہے اور قرآن آپ کے پاس ہے تاکہ آپ اپنے دل کو صبروثبات دلا سکیں۔
آپ بے صبری کا مظاہرہ کیوں کریں گے، کیا اللہ نے آپ کو دل و زبان عطا نہیں کر رکھے کہ آپ اُن کے ذریعے، اپنے رب سے دعا گو رہیں۔ آپ سے بے صبری کا مظاہرہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ آپ کی روحانی و جسمانی راحت تو آپ کی نماز میں ہے۔ رسولِ کریمؐ کو جب بھی کوئی معاملہ پریشان کرتا تو آپؐ نماز کا سہارا لیتے اور فوراً نماز ادا فرماتے۔ اپنے مؤذن حضرت بلالؓ سے کہتے: ’’بلال! اُٹھ کر اذان کہو اور نماز کے ذریعے ہمیں سکون پہنچائو!‘‘ (ابوداؤد)
آپ ہمت کیوں ہاریںگے ، آپ کے بس میں ہے کہ آپ صدقہ کرسکتے ہیں، خواہ کھجور کا آدھا حصہ ہی ہو، یاکوئی اچھی بات ہی ہو، یا خندہ پیشانی اور مسکراہٹ ہی ہو؟ آپ بے ہمت نہیں ہوسکتے کیونکہ اچھے کام انجام دینا آپ کے بس میں ہے، نفع بخش کام کرنا آپ کے اختیار میں ہے۔ رشتہ داروں کے ساتھ تعلق قائم رکھیے، کامیابی آپ کا مقدر بن جائے گی۔ اللہ کے لیے نماز ادا کیجیے، اس کی تسبیح کرتے رہیے اور اپنے رب کے اس وعدے پر ایمان رکھتے ہوئے اُس سے دعا کیجیے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ط فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۶) ’’اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔(یہ بات تم انھیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔
جب دنیاوی اسباب کی رسیاں ٹوٹ جائیں تو جان رکھیے کہ اللہ کی رسی کا تعلق اپنے بندوں سے کبھی نہیں ٹوٹتا۔ اس لیے دل کی حضوری کے ساتھ اپنے رب کو آواز دیجیے: یااللہ!
جب حسرتوں نے آپ کا دل توڑ کے رکھ دیا ہو اور حزن و اَلم نے آپ کو چور کر دیا ہو تو پھر پکاریئے: یااللہ!
جب معاملہ اپنی سنگینی کی انتہا کو پہنچ جائے اور مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو اپنے خالق کو پکاریئے: یااللہ!
جب سینہ تنگی محسوس کرے اور زبان سے کچھ ادا نہ ہو، قدم اُٹھیں تو لڑکھڑا جائیں اور معاملات مشکل تر ہوجائیں تو پھر اپنے رب کو ندا دیجیے اور دل کی گہرائیوں سے پکاریئے: یااللہ!
جب انسان اپنے اور تمھارے درمیان کے تمام دروازے بند کردیں تو یاد رکھیے کہ تمھارے ربِ کریم، رحمن و رحیم، عطا و سخا اور جود وکرم کے مالکِ حقیقی کا دروازہ ہمیشہ اُس شخص کے لیے کھلا ہوتا ہے جو اپنے رب کے اُوپر پختہ یقین رکھتا ہو۔
ایسی کیفیاتِ الم انگیز میں راتوں کو جاگیے، نالۂ نیم شبی سے وضو کیجیے اور اپنے ہاتھوں کو آہ و زاری کے ساتھ رب کے سامنے پھیلا دیجیے۔اپنی زبان کو اسماے الٰہی کے ذکر سے تر رکھیے۔ ایک بار تجربہ کرکے تو دیکھیے آپ کو اپنے رب کی بارگاہ میں رسائی کی لذت کی چاٹ نہ لگ جائے تو کہنا۔ آپ کے اعصاب راحت محسوس کریںگے، آپ کے جذبات میں ٹھیرائو آجائے گا، آپ کا اضطراب اور بے چینی زائل ہوجائے گی، آپ کا ایمان مزید پختہ ہوگا، آپ کا دل سکون محسوس کرے گا: اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o (الرعد ۱۳:۲۸) ’’خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔
جب تک آپ مسکرا نہیں لیتے تب تک خوشی کا انتظار مت کیجیے، بلکہ خوش ہونے کے لیے مسکرایئے۔ آپ پریشانیوں میں کیوں گھلتے ہیں، جب کہ آپ کو معلوم ہے کہ تدبیر کا مالک تو اللہ ہے۔ لہٰذا جس چیز کا آپ کو علم نہیں اُس پر کڑھنے اور رنجیدہ ہونے کا کیا فائدہ، اللہ کو ہرچیز معلوم ہے۔ آپ اطمینان رکھیے کہ اُس وقت تک آپ اللہ کی نگرانی اور حفاظت میں ہیں جب تک اللہ پر آپ کا توکّل بہترین ہے۔اپنی زبان سے پہلے اپنے دل سے یہ بات کہلوایئے کہ: وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ o (مومن ۴۰:۴۴) ’’اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپردکرتا ہوں، وہ ا پنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔
(ماہنامہ المجتمع، کویت، عدد ۲۰۲۸، فروری ۲۰۱۴ئ)
عالمی سرمایہ دارانہ نظام(گلوبل کیپٹلزم ) اپنی نئی شکل و شباہت کے باوجود‘ عمومی طور پر ’عالم گیریت‘(گلوبلائزیشن) کی طرح کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ نہ تو اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی نظام سرمایہ داری بہت تیزی سے آگے بڑھا ہے اور نہ انسانی وسائل، کمپیوٹر (Micro-Chip) کے بڑھتے ہوئے کردار کو کسی صورت میں کم کیا جاسکتا ہے۔ یہ چیزیں اور جغرافیائی حدود بہت اہم سہی‘ لیکن اس کے ساتھ کچھ دوسرے بنیادی مسائل بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
مجھے عالمی سرمایہ داری کے ہاتھوں انسانیت کو درپیش عالمی چیلنج کے اخلاقی، انسانی اور برابری کی بنیاد پر حقوق کو درپیش خطرات اور صدمات کے حوالے سے برابر تشویش ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں افراد، اقوام اور معاشروں کے حوالے سے بھی یہ مسائل زیادہ گہرے اور نہایت پیچیدہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’عالم گیریت‘ مختلف جغرافیائی اور تہذیبی پس منظر رکھنے کے باوجود کس طرح اس چیلنج کا جواب دے رہی ہے؟ یہ عالم گیریت کیا انسانیت کو ایک غالب معاشی نظام، یعنی عالم گیر نظام سرمایہ داری کی طرف لے کر جارہی ہے، یا تکثیریت پر مبنی دنیا میں مختلف نظاموں کے پھلنے پھولنے کے ساتھ، مستقبل میں انسانیت زیادہ بہتر حالت میں ہوگی؟
گذشتہ چھے صدیوں سے نظام سرمایہ داری ایک زبردست قوت کے طور پر موجود ہے۔ یہ نظام تاجرانہ سرمایہ داری سے صنعتی سرمایہ داری، مالیاتی سرمایہ داری، اخلاقی سرمایہ داری اور ریاستی سرمایہ داری سے ہوتا ہوا، اب عالم گیر سرمایہ داری تک آ پہنچا ہے۔ اس نظریے کا تنقیدی جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ جس مقام پر آج انسانیت کھڑی ہے، اسے بھلا کس طرح تاریخ کا اختتام (End of History) کہا جاسکتا ہے، کہ جہاں پوری نوع انسانی کے پاس عالم گیر معاشی نظام کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے؟
اِ ن معروضات میں نظام سرمایہ داری کے اصولوں کی تشریح غیر روایتی انداز سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نقطۂ نظر سے عالم گیر نظام سرمایہ داری کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے ایک ایسی عالم گیر معیشت اور عالم گیر معاشرت کا نقشہ بھی پیش کیا گیا ہے، جہاں مختلف نظام کچھ مشترک اقدار، ترجیحات، مقاصد و اہداف، تعاون کے میدان اور اسی طرح کے اہم میدانوں میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہوئے اکٹھے موجود رہیں، اور مختلف طریقے اختیار کرتے ہوئے مسلسل ابھرتے ہوئے نئے نئے درپیش مسائل اور چیلنجوں کا جواب بھی پیش کرسکیں۔ اسے ایک اختلافی (dissent)آواز بھی قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں بہرحال بہتری کا کچھ پہلو بھی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا معاشی نظام ہے، جس کی بنیاد نجی ملکیت اور نجی کاروبار پر ہے۔ اس میں معاشی زندگی کاایک بڑا حصہ خصوصاً اشیاے سرمایہ کی ملکیت اور سرمایہ کاری نجی ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ افراد اور کاروباری ادارے، منڈی کی میکانیت (خرید و فروخت اور لین دین) کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے مقابلے میں برسرپیکار ہوتے ہیں۔ نظام سرمایہ داری کی بنیاد ان فطری اقدار اور اصولوں پر رکھی گئی ہے، جن کا خاکہ نظام سرمایہ داری سے بہت پہلے انفرادی طور پر تیار اور مرتب کیا گیا، اور اس کی سمت کا تعین کرنے کے لیے یورپ میں نشات ثانیہ کے بعد کے عرصے میں ایک مضبوط عقلی، سیاسی، ثقافتی، تکنیکی اور معاشی ترقی کی بنیاد پر ایک سمت دی گئی (یہ عرصہ چودھویں صدی سے انیسویں صدی کے درمیان کا ہے)۔
۱- ذاتی مفاد، ۲- نجی ملکیت اور ذاتی کاروبار، ۳-نفع کے حصول کا داعیہ، ۴-منڈی کی میکانیت، ۵- آزاد کاروبار کے اداراتی تحفظ کو یقینی بنانے والا معاشرہ، ۶-کاروباری حقوق اور معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے قانونی ضوابط کی تشکیل، ۷-لین دین میں زر کا کردار ، ۸- اچھی حکومت اور سیاسی استحکام براے داخلی اور خارجی امن و سلامتی ۔
انسان کی معاشی زندگی میں اشیا کے باہم تبادلے کے نظام (Barter System)کے بعد اُبھرنے والے معاشی نظاموں میں درج بالا اصول انفرادی حیثیت میں کسی نہ کسی طور موجود رہے ہیں۔ باوجودیکہ ان کی شکل و صورت اور سمت مختلف معاشروں اور مختلف ادوار میں مذہبی، اخلاقی، سماجی اور سیاسی پس منظر سے مخصوص رہی ہے۔ جاگیرداری نظام کے زوال، نشات ثانیہ کے فروغ، یورپ کے ابھرنے اور بڑے یورپی ممالک کی ٹکنالوجی اور سیاسی حدود میں وسعت نے اس پس منظر کو ترتیب دیا، جس میں جدید نظام سرمایہ داری ابھر کر سامنے آیا۔ سومبارٹ، میکس ویبر، رابرٹ ٹانی جیسے اسکالرز کی طرف سے پیش کیے گئے اخلاقی اصولوں اور کچھ ثقافتی رویوں کے علاوہ کانٹ، والٹیر، ہیوم، روسو، ہابز، بینتھم، ایڈم سمتھ اور دوسرے دانش وروں کی طرف سے پیش کی گئی نئی فکر نے ایک نئی معاشرتی اخلاقیات کو جنم دیا، جس نے ایک نئے نظام کی بنا ڈالی۔ اس کانام اس کے معترضین کے نزدیک ’مسیحی سرمایہ داری نظام‘ ہے۔ نئے نظام یعنی ’کیپٹل ازم‘ کی اہم خصوصیات میں نفع اندوزی، پیدایش دولت اور غیرمنقسم قوت اور اثر و رسوخ کا حصول شامل ہیں۔
اس نئے نظام کا یہ کردار اس کی اُوپر بیان کردہ خصوصیات ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ کاروباری لوگوں کے ایک گروہ کی طرف سے تشکیل دیا گیا ہے۔ وہ نہ صرف تجارت اور سامراجی استحصال کے ذریعے دولت حاصل کرنے کے قابل تھے بلکہ معاشی وسائل کی پیدایش میں جدّت کے لیے نئی ٹکنالوجی کے استعمال پر حاوی تھے۔ اس نے صنعتی انقلاب، دیہی معاشرت کے شہری زندگی میں منتقل ہونے (urbanisation) اور بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تجارت کی راہ ہموار کی۔ اس طرح طاقت کا توازن اس نئے گروہ کی طرف منتقل ہوگیا۔ معاشی اور سیاسی تعلقات کے تمام رشتے، سرمایے اور سرمایہ کاروں کے اس اہم کردار کی روشنی میں تشکیل پانے لگے۔ معاشی رویوں کا اظہار مقابلہ بازی سے ہونے لگا اور فیصلہ سازی کا مؤثر ذریعہ منڈی کے لین دین اور کاروبار سے منسلک ہوگیا۔ معاشرے کی تقسیم دولت مند اور محنت کش طبقوں کی صورت میں فروغ پانے لگی۔
نیا نظام جن عقلی بنیادوں پر استوار ہوا وہ یہ ہیں کہ: ۱- فرد معیشت کا بنیادی ستون بن گیا۔ ۲- فرد کے ذاتی مفاد کا اظہار مالی ادایگی، زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین، او ر نفع اندوزی کی صورت میں نظام کی حقیقی بنیاد بن گیا۔
یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس نتیجے میں فرد کو بہت کچھ حاصل ہوگا۔ معاشیات میں ہر جگہ ذرائع کی بہترین حدبندی کی جاسکے گی، جس کے نتیجے میں کارکردگی بہتر ہوگی اور معاشی دوڑ میں حصہ لینے والے بہترین نفع (reward) حاصل کر سکیں گے۔ اس طرح ’ذاتی مفاد‘ کام کروانے کی واحد نہیں تو غالب قوت بن گیا۔ اسی طرح دولت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ سب سے بڑی خوبی اور زندگی کا سب سے بڑا تحفہ قرار پایا۔ خواہشات اور ان کو پورا کرنے کا جذبہ معاشرے کی بنیادی قدر قرار پاگیا۔ ریاست کا کردار صرف ایسے حالات اور ماحول کو پیدا کرنے تک محدود کردیا گیا جس میں یہ نظام اچھے طریقے سے چل سکے۔ عدم مداخلت کو ریاست کے اندر اور عالم گیر سطح پر ایک رہنمااصول کے طور پر اختیار کیا گیا۔ اس نظام کے نتیجے میںصنعتی و کاروباری سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے درمیان ایک مضبوط اتحاد وجود میں آگیا۔ اس مضبوط سیاسی و معاشی اتحاد نے نئے سرمایہ دارانہ نظام کو پوری طرح رُوبہ عمل آنے کے قابل کیا اور اسے غیر معمولی ترقی دینے اور عالم گیر سطح پر پھیلنے کا موقع دیا۔ نظام سرمایہ داری اور سامراجیت ایک دوسرے کے ہم نوا بن کر ایک دوسرے کو بھرپور امداد اور قوت فراہم کرنے لگے۔
ثقافتی، عملی، عقلی اور سماجی عوامل کی اثر اندازی کے نتیجے میں لادینی اور سیکولر بنیادوں پر معاشروں کی تشکیل ہوئی۔ مذہب اور روایتی اخلاقیات کے بندھن کمزور پڑ گئے۔ دولت پرستی نے ایک نئے طرز زندگی کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں دولت کی نمایش اور مفاد پرستی بڑھ گئی۔ مزید برآں ذاتی مفاد کی چکا چوند اور بے لگام انفرادیت پسندی ہی سماجی نظام کے ستون بن گئے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو باہمی تصادم، عدم مساوات اور نا انصافی پر مبنی تھا۔ اس نئی آزاد روی (لبرلائزیشن) اور موقع پرستی نے تخلیقی صلاحیتوں، جدّت طرازی ، مہم جوئی اور انتظامی صلاحیتوں کو فروغ دیا ۔ جس کے نتیجے میں زبردست معاشی ترقی اور مادی دولت وجود میں آئی، تاہم یہ دولت صرف مراعات یافتہ طبقے تک ہی محدود رہی۔
مفادات کے اس تصادم، آمدنیوں اور دولت کی تقسیم میں گہری ناہمواری اور دولت مندی کی برق رفتار اُڑان نے معاشرے کو طبقات میں تقسیم کردیا، اور ایک ایسا منظر پیدا کیا، جسے ماہرین سماجیات سوشل ڈارونزم (Social Darwinism) کا نام دیتے ہیں، یعنی ایسا نظام جس میں: ’’مقاصد کے حصول کے لیے ہر ذریعہ اختیار کرنا جائز ہے‘‘۔۱؎ جیسے جدید اصول نے اس صورت حال کو مزید گمبھیر بنادیا۔ یوں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس میں ترقی کے ثمرات معاشرے کے تمام افراد کے مابین منصفانہ بنیادوں پر تقسیم نہ تھے۔ گویا کہ عالم گیر سطح پر یہ نظام سامراجی استحصال کا علَم بردار بن گیا۔
چودھویں اور اٹھارھویں صدی کے درمیان ہونے والی مختلف النوع ترقی کو سرمایہ داری کا تشکیلی (formative) دور کہا جاتا ہے، تاہم اس نظام کو حقیقی فروغ اٹھارھویں صدی کے وسط سے انیسویں صدی کے اختتام کے دوران حاصل ہوا۔ بیسویں صدی میں اس نظام کی مزید ترقی کے ساتھ ساتھ سوشلزم اور اس کے دیگر حریف بڑے بڑے چیلنجوں کی صورت میں ابھرے اور پھر بیسویں صدی ہی کے اختتام تک بکھر گئے۔
دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹ئ-۱۹۴۵ئ) کے بعد کا دور اس نظام کی بھرپور ترقی کا دور ہے۔ خصوصاً ۱۹۸۹ء میں دیوار برلن کا ٹوٹنا کمیونزم کے خاتمے کا علامتی اعلان تھا۔ اس کے بعد سابقہ کمیونسٹ ریاستوں اور کسی تیسرے نظام کے لیے کوشاں ممالک میں نظام سرمایہ داری کا نفوذ اس نظام کی بالادستی اور عروج کا دور ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر دنیا بھر میں نظام سرمایہ داری ایک غالب معاشی نظام کے طور پر موجود ہے۔ باوجویکہ ترقی پذیر دنیا کا بہت بڑا حصہ غربت، بھوک، بیماری اور محرومی کی گرفت میں ہے، خاص طور پر افریقا، لا طینی امریکا اور جنوبی ایشیا۔ مشرقی ایشیا کی مالیاتی منڈیوں میں ہونے والی تباہی اور دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی مالیاتی ہلچل نے اس نظام کے تحفظ اور استحکام کو مضبوطی عطا کر دی ہے ۔
روس اور مشرقی یورپ کے کچھ ممالک میں معاشی نج کاری اور معاشی آزاد روی (لبرلائزیشن) کے تجربات نے اجنبی زمین پر نظام سرمایہ داری کے زوال کو روز روشن کی طرح واضح کیا ہے۔ عالم گیر نظام سرمایہ داری کی دو جہتیں ہیں: ۱- یہ غیر مغربی ممالک کے لیے ایک چیلنج ہے۔ ۲- یہ نظام سرمایہ داری کے لیے بذات خود ایک چیلنج ہے کہ وہ نظام سرمایہ داری کے اندر سے اٹھنے والے لاینحل مسائل کو کیسے حل کرے؟ صرف ایک روشنی کی کرن یہ ہے کہ ہر چیلنج دراصل ایک اور موقع ہوتا ہے۔
تین صدیوں پر محیط سرمایہ دارانہ تجربے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ: معاشی ترقی، پیداواریت، تخلیق اور جدّت طرازی کی بے مثال کامیابیوں کے ساتھ ساتھ یہ ناقابلِ معافی حادثات اور سماجی و انسانی حوالوں سے نامساوات کی ملی جلی تصویر پیش کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی اور سرمایہ دارانہ نظام کے ناقد (بشمول کارل مارکس) اس نظام کے پیدایش دولت کے زبردست کردار پر متفق ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جو معاشی ترقی اور دولت مندی نظامِ سرمایہ داری کی قیادت میں حاصل کی گئی ہے وہ نظام سرمایہ داری سے پہلے کی تمام معاشی سرگرمی سے زیادہ ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ صدی میں نظام سرمایہ داری کو چیلنج کرنے والا متبادل اشتراکی نظام، دولت کی پیدایش کے حوالے سے نظام سرمایہ داری سے بہت پیچھے رہا ہے اور اپنی خامیوں کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا،جب کہ اس کے مقابلے میں نظام سرمایہ داری زمانے کے نشیب و فراز اور انقلابات کے باوجود محفوظ نظر آتا ہے اور تخلیق، جدت طرازی اور صنعت کاری و ہنر مندی کو فروغ دینے کاباعث دکھائی دیتا ہے۔ اگر استعدادِ کار کی تعریف طبعی اور مادی نقطۂ نظر سے کی جائے تو کہاجاسکتا ہے کہ جیسے تیسے اس نظام نے استعدادِ کار کا ایک معیار قائم رکھا ہے۔ فرد کے محوری کردار اور آزادی، جدوجہد، موقع ملنے پر فوری عمل اور کامیابی پر انعام نے اس نظام کے اعتبار کو دوام بخشا ہے اور جس نظام نے اسے چیلنج کیا اس پر اپنی تقابلی برتری کو ثابت کیا ہے۔ معاشی فیصلہ سازی میں منڈی کی میکانیت اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کے باجود زیادہ مستعد ثابت ہوئی ہے۔
یہ نظام بنیادی طور پر کچھ مفروضات، اقدار اور اصولوں پر قائم کیا گیا تھا، جو بُری بھلی انسانی فطرت سے مطابقت رکھتے ہیں اور معیشت کی فطری حالت سے قریب تر ہیں۔ اس لیے سرمایہ داری نے، باوجود بہت سی ناکامیوں کے، اپنی قوت کو ظاہر کیا اور قائم رکھا ہے، اور اشتراکیت (کنٹرولڈ اکانومی) پر اپنی برتری اور قابل عمل ہونے کو ظاہر کیا ہے۔ نظام سرمایہ داری نے اپنے فعال اور لچک دار نظام کے ذریعے صورت حال کا مقابلہ کیا۔ جس میں پیش آمدہ حالات سے مطابقت پیدا کرنے اور ٹکنالوجی کے مؤثر استعمال سے اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے تبدیلیوں میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں جغرافیائی حدود کو پار کرنے اور عالم گیر حیثیت حاصل کرنے کی استعداد بھی موجود ہے۔ نظام سرمایہ داری او رجمہوریت میں تعلق کے بارے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں۔ تاہم یہ امر واقع ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں ’مثبت آزادی‘ کے مقابلے میں ’منفی آزادی‘ اور اس کے ذمہ داروں میں بہت زیادہ امیر لوگوں کی موجودگی کی وجہ، دولت کا ارتکاز ہے۔ بحیثیت مجموعی کہا جاسکتا ہے کہ سرمایہ داری، جمہوری عمل اور آزادی میں بہت زیادہ ہم آہنگی ہے۔ یہ پس منظر نظامِ سرمایہ داری کامثبت پہلو پیش کرتا ہے، تاہم اس کا دوسرا پہلو بہت ناگوار اور اذیت ناک ہے۔
انفرادیت پسندی بھی انسان کو ’کلیت پسندانہ‘ (Totalitarianism)، ا شتمالیت اور بے لگام ریاستی طاقت کے سے انداز میں پاگل پن میں مبتلا کرسکتی ہے۔ فرد کو ملنے والے فوائد اور سماجی بھلائی دونوں ہی ایک صحت مند معاشرے کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ ہر معاشرے میں افراد کے مفادات کاٹکرائو ہوتا ہے۔ لیکن ہر معاشرہ اس طرح کے تعلقاتِ کار کو فروغ دیتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ اختلافات اس طرح کم ہوتے ہیں کہ فرد کی بھلائی اور سماجی بھلائی کے مقاصد بیک وقت حاصل کیے جاسکیں۔ فرد کی بھلائی اور عوامی بھلائی دونوں کو ان کا مقام دیا جائے تو ایک پروقار معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو اہمیت نہ دینے سے معاشرتی اور معاشی اضطراب پیداہوتا ہے۔اگر ’سوشلزم‘ کی غلطی اجتماعیت کی انتہا تھی تو اس کے مقابلے میں سرمایہ داری کی ناکامی کو اس کی بے لگام انفرادیت میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ باوجود ان تمام سنجیدہ کوششوں کے، جو انفرادی اور سماجی بھلائی، ذاتی اور معاشرتی مقاصد کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کی گئیں، ان کے درمیان تصادم تقریباً ہر سطح پر قائم رہا۔
بڑی مچھلیاں نہ صرف تالاب کو کنٹرول کرتی ہیں، بلکہ بے بس چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں۔ اشیا پر مشتمل منڈی کی اجارہ داریاں، عاملین پیدایش کے ذرائع پر مشتمل منڈی کی اجارہ داریاں اور چند بڑی قوموں کی معاشی استعماری اجارہ دارانہ قوتیں منڈیوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ منڈی کی غیرمتوازن کارکردگی اور خرابیاں، داخلی اور عالم گیر سطح پر معیشت کے لیے تباہی کاباعث ہیں ۔ ان کی وجہ سے طبقاتی کش مکش، علاقائی دشمنیوں، قومی لڑائیوں اور عالم گیر سطح پرتصادم کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ یہ نظام مراعات یافتہ طبقوں اور افراد کی بقا اور طبقاتی تقسیم پر منتج ہوا ہے۔ طاقت اور دولت مندی میں عدم مساوات اس نظام کی بنیاد ہے، جو خرابی، استحصال اور عدم مساوات کو فروغ دینے کا باعث ہے۔
معاشی اعتبار سے ترقی پذیر دنیا کے زیادہ تر ممالک: معاشی ترقی، بہبود اور فی کس آمدنی کے حوالے سے کم و بیش اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں آج کے سرمایہ دارانہ ممالک اٹھارھویں صدی کے وسط میں تھے۔ نظام سرمایہ داری کی ترقی کے ۳۰۰ برسو ںمیں اکیسویںصدی کے آغاز میں صورت حال تبدیل ہوچکی ہے جس کے مطابق دنیا کی ۲۰ فی صد آبادی والے امیر ترین ممالک دنیا کی ’خام داخلی پیداوار‘ (GDP) کے ۸۷ فی صد کے مالک ہیں،جب کہ دنیا کی بقیہ ۸۰ فی صد آبادی صرف ۱۳ فی صد خام داخلی پیداوار کی مالک ہے۔ یہ تفاوت نہ صرف عالم گیر سطح پر امیر اور غریب ممالک اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بڑھ رہا ہے بلکہ ہر سرمایہ دارانہ معاشرے کے امیر اور غریب طبقات کے درمیان بھی روز افزوں ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ طرز پر ترقی کا ناگزیر نتیجہ ہے اور اس صورت حال کا تدارک کرنے کے لیے نئی منڈیوں کے ساتھ ساتھ معاشی دائرے سے باہر بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ نظام سرمایہ داری کی بنیادی خرابی ہے۔ ’مارکیٹ‘ حقیقی انسانی ضروریات کے بجاے موضوعی اور نفسانی خواہشات کے مطابق کام کرتی ہے۔ آمدنیوں اور دولت میں کسی حد تک تو تفاوت قابل قبول ہے اور کچھ حدود کے اندر تو یہ ناگزیر بھی ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو مؤثر ترغیب اور کارکردگی کی بنیاد پر اجر اور نفع حاصل ہو۔ اس معاملے میں جان لینا چاہیے کہ بہت زیادہ معاشی تفاوت اور ناہمواری معاشرے کے پورے ڈھانچے اور اس کی پیداواری اور صرفی ترجیحات کو بدل کر رکھ دے گی، جس کا نتیجہ ایک غیر متوازن اور استحصالی نظام کی صورت میں نکلے گا۔
معیشت اور منڈی کو ایک ہی چیز سمجھ لینے سے سرمایہ دارانہ نظام کی آہستہ آہستہ قلب ِماہیت ہوئی اور یہ سماجی بھلائی اور اخلاقی ذمہ داری سے بے تعلق ہوگیا ہے۔ اس کی اصل توجہ ضروریات سے خواہشات، انسان سے زر، معاشرے سے معیشت کی طرف منتقل ہوئی ہے۔
زر اور مالیات کے اس بدلتے ہوئے کردار اور معیشت میں حقیقی اثاثوں کی پیدایش اور زر کے لین دین سے بڑھتی ہوئی عدم وابستگی نے بہت شدید خرابیاں اور عدم استحکام پیدا کیا ہے۔ زر کا اصل کردار مالیاتی ثالثی اور قدر کی پیمایش تھا۔ معاشی سرگرمیوں کا اصل ہدف انسانی ضروریات کی فراہمی کے لیے اشیا اور خدماتی وسائل کو پیدا کرنا تھا۔ معاشی علامتی زبان میں CMC (Commodity Money Commodity) ،یعنی ’اشیا۔ زر۔ اشیا ‘کا مطلب زر کے ثالثی کردار پر زور دینا تھا، جب کہ حقیقی ہدف معیشت کا طبیعی پھیلائو تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت یہ تعلق اُلٹ کر کچھ یوں تبدیل ہواکہ یہMCMہوگیا، یعنی زر۔ اشیا۔ زر، جب کہ حقیقی معیشت اس نازک موڑ پر آگئی کہ معیشت کاحقیقی ہدف اشیا و خدمات کی زیادہ سے زیادہ پیداوار، عوام کی کثیر الجہتی ضروریات کو پورا کرنا اور معاشرے کی فلاح و بہبود اور خوش حالی نہ رہا، بلکہ سرمایہ داروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع اور سرمایہ کاری پر زیادہ سے زیادہ اضافہ ہی ہدف بن گیا۔ طبیعی معیشت کا فروغ اور اس کے نتیجے میں اشیا و خدمات کی مقدار میں اضافہ مقصد کے حصول کا ذریعہ بن گئے۔ اس طرح موجودہ مالیاتی سرمایہ داری نظام ،اثاثوں کی تخلیق کے کردار سے بہت دُور چلا گیا ہے۔
اس طرح ’مالیاتی آلات‘ نے حقیقی مالیاتی اقدامات کارخ ’تخمینی مالیات‘ (Speculative Finance) کے ذریعے منافع کمانے کے ایک ایسے عمل کی طرف موڑ دیا ہے، جس کا اثاثوں کی تخلیق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کے نتیجے میں انسانی ضروریات کو پورا کرنے والی اشیا و خدمات کی رسد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس مالیات کے کھیل کے نتیجے میں کروڑوں اور اربوں میں کھیلنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ داخلی سطح پر اور عالم گیر سطح پر معاشرے میں حقیقی اثاثوں اور بنیادی ضروریات کی چیزوں کی مقدار میں اضافے کی رفتار، مالیاتی اضافے کے مقابلے میں کم ہے۔
انسان کی ذہنی قوت اور انسانی سرمایے کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا جانا چاہیے اور ان کی استعداد کے مطابق معاوضہ لازماً دیا جانا چاہیے۔ تاہم حقیقی معیشت کے محرکات کچھ ایسے ہیں کہ عدم مساوات اور عدم استحکام کے ساتھ ساتھ معیشت غبارے کی طرح پھولتی جاتی ہے، جس کی وجہ سے معیشت میں ایک ایسی تبدیلی پیدا ہوتی ہے جو طبیعی معیشت کو متاثر کرتی ہے اور امیروںکی ایک ایسی فوج پیدا کرتی ہے جس کا معاشرے کی فلاح و بہبود میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ وہ فوائد جو اس کے نتیجے میں ان کو حاصل ہوتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے امیر ترین ایک فی صد لوگ دنیا کی کل دولت کے ۵۹فی صد کے مالک ہیں۔ بالفاظ دیگر ۵کروڑ امیر لوگوں کی دولت ۲ ارب ۷۰کروڑ لوگوں کی دولت کے مساوی ہے اور اس میں امرا کا حصہ بڑھتا جا رہا ہے۔۲؎ ۱۹۶۰ء میں ۲۰فی صد امیر ترین اور ۲۰ فی صد غریب ترین لوگوں کے درمیان دولت کی تقسیم کاتناسب ۳۰:۱ کا تھا۔ ۱۹۹۷ء میں یہ تناسب بڑھ کر ۷۴:۱ ہوگیا، اور یہ کیفیت اس دنیا میں ہے جہاں ڈھائی ارب انسان دو ڈالر روزانہ سے کم پر گزارا کرتے ہیں، اور پھر ایک ارب ۲۰ کروڑ لوگ روزانہ ایک ڈالر سے بھی کم پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ دنیا کی آبادی کے ۴۰ فی صد کو صاف پانی اور دوسری نہایت بنیادی سہولیاتِ زندگی تک نصیب نہیں ہیں۔ جہاں ہرروز ۱۰ہزار بچے پانی سے جنم لینے والی بیماریوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ المیہ لوگوں کی ناآسودگی کی وجہ سے ہے۔
دنیا میں نظر آنے والی اس مضحکہ خیز ترقی نے دنیا کی معیشت میں خرچ (consumption) اور پیدایش دولت کو اس طرح متاثر کیا ہے کہ عمومی سماجی زندگی: خوف اور اذیت کا عنوان بن کررہ گئی ہے۔ مارکیٹوں میں اشیاے تعیش کی بھرمار ہے، جب کہ بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کا کوئی تسلی بخش انتظام نہیں ہے۔ اشتہار بازی کے ذریعے مصنوعی طلب پیدا کی جاتی ہے۔ جس چیز کو صحیح معلومات کی فراہمی کا بہت اچھا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، وہ خواہشات کے ابھارنے اور منافع خوری کاذریعہ بن گئی۔ مارکیٹ میں چھا جانے والی طاقت ور قوت کے سامنے اخلاقی اور ثقافتی اقدار غیرمؤثر اور غیرمتعلق ہوگئی ہیں۔
’علمی ملکیت کے حقوق‘ (Intellectual Rights) کے نام پر ضروری ادویات بھی مناسب قیمتوں پر ان غریب ممالک کو مہیا نہیں کی جاسکتیں، جہاں لاکھوں لوگ ان سہولتوں کی عدم فراہمی کے سبب سسک سسک کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ یہ تمام ہلاکت خیز باتیں سرمایہ داری کے تحت ہونے والی نام نہاد ترقی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔
مالیاتی عدم استحکام سرمایہ دارانہ دنیا میں جاری و ساری ہے۔ جنوبی افریقہ اور مشرقی ایشیا، گذشتہ تین عشروں میں اس سے بری طرح متاثر ہوئے، حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک بھی عالم گیر مالیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نہیں بچ سکے۔ دنیا کے تمام حصوں میں قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ناقابلِ اصلاح حد تک دوسروں پر انحصار اور عدم استحکام بڑی تیزی سے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ افراد اور معیشتوں کے لیے قرضوں کے بوجھ اور مصارف، قرضے کی برداشت کو روزبروز مشکل بناتے جارہے ہیں۔
’مارشل پلان‘ بحرِ اوقیانوس کے حوالے سے مل جل کر کام کرنے کی ایک واحد مثال ہے۔ لیکن یہ ماڈل ایشیا اور افریقہ کے ممالک کے حوالے سے ناکام ہوچکا ہے۔ تمام وعدے جو غریب ممالک کی مدد کے حوالے سے کیے گئے تھے، بھلا دیے گئے ہیں۔ ابتدائی طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی خام قومی پیداوار کاایک فی صد ہر سال غریب ممالک کو دیں گے۔ اسے ۱۹۹۲ء میں کم کرکے ۷ئ۰ فی صد کردیا گیا، جب کہ حقیقی طور پر دی جانے والی امداد صرف ۳ئ۰فی صد ہے، اور اس میں امریکا کا حصہ اس کی خام قومی پیداوار کا صرف ۱ئ۰ فی صد ہے۔
ترقی یافتہ ممالک اپنے کسانوں کو زرعی منڈی کی صورت میں روزانہ ایک ارب ڈالر (یا سالانہ ۱۳۵۰ بلین پائونڈ) دیتے ہیں۔ جس سے تیسری دنیا کے کسانوں کے لیے یورپ اور امریکا کی منڈیوں میں مقابلہ کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNCTAD کے جائزے کے مطابق ان یک طرفہ پالیسیوں کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک ہر سال کئی سو ارب ڈالر سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں ’آکس فم رپورٹ‘ بعنوان Rigged Rules and Double Standards میں انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں نظام سرمایہ داری کے لیڈروں کی ناکامی پر فرد جرم عائد کی گئی ہے، اور ان اصولوں کے منفی پہلوئوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن پر نظام سرمایہ داری اور عالم گیریت کی بنیاد ہے ۔
آخر میں، لیکن آخری نہیں، عالم گیر سرمایہ داری کی سیاسی جہتیں ہیں، نیز معاشی اور مالیاتی قوت کے نامساوی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور فوجی بالادستی کا بھی معاملہ ہے۔ تمام بڑے بین الاقوامی اداروں بشمول اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لے کر ’عالمی بنک‘ اور ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ پر ترقی یافتہ ممالک کی بالادستی ہے۔ جمہوریت کے بارے میں تمام زبانی جمع خرچ کے باوجود ان اداروں میں فیصلہ سازی میں کسی قسم کا جمہوری طریق کار اختیار نہیں کیا جاتا۔ عالم گیر سرمایہ داری نظام دنیا کے ہر ہر خطے کو متاثر کر رہا ہے۔ اس کی یلغار غیر جانب دارانہ یا از خود عامل طریق کار پر استوار نہیں ہے۔ حکومتوں کے بننے بگڑنے میں بہت سے بیرونی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں اور بیرونی مداخلت ہوتی ہے۔ ان میں سیاسی، معاشی، اطلاعاتی اور ثقافتی اثرات شامل ہیں۔ حکومتیں، کثیر قومی کارپوریشنیں (MNCs)، عالم گیرمالیاتی ادارے، ذرائع ابلاغ، ہالی وڈ، این جی اوز کی ایک فوج ظفر موج، وہ عناصر ہیں جو ان خرابیوں کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کا موجب ہیں۔
مشہور ’واشنگٹن اتفاق راے‘ (Washington Consensus) کے آزاد روی، نج کاری اور عالم گیریت کے نسخے نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ ترقی پذیر اور غریب دنیا کے بہت سے ممالک محسوس کرتے ہیں کہ اب ان کی اپنی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ہے۔ ایک نئے انداز میںسابقہ شہنشاہی اور استبدادی نظام اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک عالم گیر نظام سرمایہ داری فطری ترقی کامظہر ہے، جب کہ کچھ اسے معاشی اور ترقی یافتہ آمریت کہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ ان کے اقتدار اعلیٰ اور ان کے رضاکارانہ انتخاب کی آزادی کا قاتل ہے۔ وہ عالم گیر نظام کاحصہ بننا چاہتے ہیں لیکن دب کر نہیں بلکہ وہ ایک عالم گیر دوستانہ ماحول کے خواہش مند ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام فطری اصولوں پر مبنی ایک آفاقی نظام ہونے کا دعوے دار ہے۔ اس کی عالم گیر پہنچ سے انکار نہیں ہے، لیکن اس سے مطابقت اختیار کرنا اور پسندیدگی پیدا کرنا قابلِ بحث ہے۔ اس کے سیاسی و ثقافتی پہلو اور اس کے معاشی اصولوں کے درمیان عدم موافقت بھی قابل بحث ہے۔ کیا یہ سب کچھ باقی ساری دنیا کے لیے بھی ہے؟ اور کیا اسے دوسرے اختیار کرسکتے ہیں؟ اور جو یورپی وامریکی تاریخی و ثقافتی بنیادیں ہیں، کیا وہ دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں سے مطابقت رکھتی ہیں؟ کیا ہم ان اصولوں اور اوامر کوجن پر سرمایہ دارانہ نظام پروان چڑھا ہے، اخلاقی اقدار اور رسوم سے علیحدہ کرسکتے ہیں؟ بلاشبہہ ذاتی مفاد ایک بڑی تخلیقی قوت ہے۔ لیکن اگر اسے ایک مرتبہ قوت محرکہ کے طور پر فروغ دے دیا جائے، تو وہ اخلاقی فکر جو سماجی ضروریات کو تحفظ دیتی ہے بتدریج کم ہوتی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ہدف اُلٹ جاتا ہے، پھر معاشرے کے بجاے معیشت ہی مرکزی ہدف بن جاتا ہے اور معیشت سکڑ کر منڈی بن جاتی ہے ۔
یہی معاشی منڈی ’قدر‘ (Value) کاحقیقی منبع بن جاتی ہے۔ اس کی میکانیت ذاتی پسند و ناپسند کے محور کے گرد گھومتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اخلاقی اقدار کاجنازہ نکل جاتا ہے اور عدل کے تقاضے مجروح ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو سماجی و اخلاقی اقدار کو اہمیت دیتے ہیں، ان کے نزدیک: ’’نظام سرمایہ داری کا یہ دعویٰ کہ وہ فطری نظام ہے‘‘ قابل قبول نہیں ہے۔
مختلف ممالک کے حوالے سے زمینی حقائق، ترقی کے مختلف مدارج اور وسائل کی دست یابی میں فرق ایک زندہ ثبوت ہے جس میں انسانی سرمایے اور سماجی سرمایے کی کیفیات، اور سماجی و ثقافتی پہلو مختلف رنگ و نسل پر مشتمل مختلف انسانوں اور معاشروں کے لیے ایک ہی نوع کا معاشی ماڈل اختیار کرنا ممکن نہیں ہے۔ عالم گیر معاشرے کی طرح عالم گیر معیشت کو بھی ایک ہی ماڈل میں نہیں سمویا جاسکتا ہے۔ اس کے بجاے ایک آزاد اور عادلانہ دنیا کو، جو حقیقی طور پر مختلف النوع ہو، وجودمیںلانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپس میں ان کو اس انداز میں مربوط بنانا اور باہمی تعلق پیدا کرنا ہوگا کہ جس کے نتیجے میں تمام لوگ، معاشرے اور ریاستیں باہمی تعاون اور صحت مندانہ مقابلے کے ذریعے ترقی کے فوائد سمیٹ سکیں۔
مغرب کے کئی روشن خیال مفکرین بھی ترقی پذیر دنیا اور مسلم دنیا کے مفکرین کی اکثریت کے اس نقطۂ نظر کے حامی ہیں۔ پروفیسر لیسٹر تھرو کے مطابق: ’’خطرہ یہ نہیں کہ اشتراکیت کی طرح نظام سرمایہ داری کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ایک قابل عمل متبادل نظام کی عدم موجودگی میں جس کی طرف لوگ نظام سرمایہ داری سے مایوس ہوکر لپکیں، نظام سرمایہ داری خود بخود تباہ نہیں ہوگا۔ نظام سرمایہ داری کے حقیقی مسائل بالکل واضح ہیں: یعنی عدم استحکام، ناہمواریوں میں اضافہ اور مزدور طبقے کی بدحالی جیسے مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ نئے مسائل بھی ہیں جیسے نظام سرمایہ داری کا انسانی وسائل پر حد سے زیادہ انحصار اور انسانی ذہنی قوتوں کو بروے کار لاکر وجود میں آنے والی صنعتیں۔ انسانی ذہنی کاوشوں کی اہمیت کے اس دور میں جو لوگ کامیاب ہوں گے، وہ ایک نیا کھیل کھیلنے کی پوزیشن میں ہوں گے اور اس کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔آج کے فاتحین کے مقابلے میں کل کے فاتح مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوں گے‘‘۔۳؎
معاملہ صرف ذہنی صلاحیتوں کاہی نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ اہمیت انسان کے اخلاقی، سماجی، ثقافتی، روحانی اور سیاسی پہلوئوں کو بھی حاصل ہے۔ مشین سے ہٹ کر دانش کی اہمیت کی طرف توجہ پھیرنا عالم گیر انسانی صورت حال میں ایک قابلِ قدر تبدیلی ہے۔ اس جانب بڑھیں تو بحث کا محور اخلاقی اصول بن جاتے ہیں اور مادی دولت اور مادی ترقی اور استعداد کے مقابلے میں اصل اہمیت عدل اختیار کرجاتا ہے۔
معاشیات پر ۱۹۹۳ء کے نوبیل انعام یافتہ رابرٹ ولیم فوگل نے اپنی تحریر "The Fourth Great Awakening and Future of Egalitarianism" میں اس مسئلے پر قلم اٹھایا ہے اور اس حقیقی مسئلے پر بہت جامع انداز سے بحث کی ہے۔ فوگل نے لکھا ہے: ’’نئے ہزاریے کے آغاز پر اصل مسئلہ کاروباری اتار چڑھائو (بزنس سائکلز) کو درست کرنا یا معیشت کی ایک اطمینان بخش سطح پر نمو (ترقی دینا ہی) نہیں ہے، اور مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ کیا ہم پچھلی صدی کے دوران میں انسانی معاشرت کو عطا کیے گئے سماجی شعور کو دفن کیے بغیر ترقی کرسکتے ہیں۔ پچھلی کامیابیوں کو بلاشبہہ ہم نظر اندازنہیں کرسکتے۔ امریکا میں معاشرتی مساوات کا مستقبل قوم کی اس صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ مسلسل معاشی نمو اور سماجی مساوات کے حوالے سے نئی اصلاحات کو ساتھ لے کر چل سکے۔ پھر ہمارے دور کی روحانی ضروریات کوبھی ساتھ ساتھ پیش نظر رکھے، جو سیکولربھی ہو اور مقدس بھی۔ روحانی(یا غیر مادی) عدم مساوات بھی مادی عدم مساوات کی طرح ایک بڑا اہم مسئلہ ہے، شاید اس سے بھی بڑا ‘‘۔۴؎
فوگل اپنی کتاب کا اختتام ایک انتباہ سے کرتا ہے:’’ہماری تیسری نسل (ہمارے پوتے) جو دنیا ہم سے وراثت میں پائے گی، وہ ہماری نسل کے مقابلے میں مادی لحاظ سے بہت امیر ہوگی، ماحولیاتی خرابیاں بہت تھوڑی ہوں گی، لیکن یہ دنیا ان کے لیے زیادہ پیچیدہ اور زیادہ پریشان کُن ہوگی۔ علمی و فکری سطح پر اخلاقی معاملہ بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا اور ان مسائل کے ساتھ ملحق معاملات آج کے مقابلے میں روز مرہ زندگی کا بہت بڑاحصہ ہوں گے ۔ علمی زندگی میںجمہوریت کے بارے میں مباحث میں وسعت آئے گی اور سیاسی زندگی میں روحانی معاملات زیادہ جگہ کا مطالبہ کریں گے۔ پرانے اور نئے مذاہب میں اختلاف اور زیادہ اُبھریں گے، لیکن آبادی کی اوسط عمر کافی بڑھ جائے گی۔امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے نتیجے میں متانت بڑھے گی اور علمی قوت میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں ہماری آنے والی نسلیں ہمارے مقابلے میں مسائل کا بہتر حل تلاش کرسکیں گی‘‘۔۵؎
اسی طرح جان گرے نے سیاسی پہلوؤں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے: ’’دنیا کی معیشت میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جس میں تہذیبوں، حکومتوں اور منڈی کی معیشتوں کے تنوع کو تسلیم کیا گیا ہو۔ ایک عالم گیر آزاد منڈی، ایسی دنیا کو سامنے لاتی ہے، جہاں مغربی ممالک کی بالادستی یقینی ہے۔ ایک آفاقی تہذیب پر مبنی خیالی دنیا (Utopia) میں مغرب کی بالادستی لازم ہے۔ یہ آفاقی تہذیب، کثیر تہذیبی دنیا کے تصور کو قبول نہیں کرتی۔ یہ [آفاقی تہذیب] اپنے وقت کی ان ضروریات کے مطابق نہیں ہے کہ جس میں مغربی ادارے اور مغربی اقوام آفاقی حاکم نہ ہوں۔ اسی طرح یہ دنیا کی بہت ساری تہذیبوں کو یہ اجازت بھی نہیں دیتی کہ وہ اپنی تاریخ، حالات اور مخصوص ضروریات کے مطابق جدیدیت کی منزل حاصل کرسکیں‘‘۔۶؎
عالم گیریت کے حوالے سے یہ بحث ثقافتی اور سیاسی تناظر میں تھی۔ یہ بات بڑی خوش آیند اور اُمید افزا تبدیلی کی نشان دہی کرتی ہے کہ دنیا کے تمام حصوں اور مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے مفکرین میں سے ایک گروہ، اس سارے معاملے کااخلاقی نقطۂ نظر سے جائزہ لے رہا ہے۔ تاہم نظام سرمایہ داری کی جو بھی خوبیاں یا خامیاں ہیں، اگر تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ اس نظام میں تبدیلیاں قبول کرنے اور اندرونی و بیرونی محسوسات کا جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسی صلاحیت کا یہ ثبوت ہے کہ نظام سرمایہ داری نے کئی انداز اور شکلیں اختیار کی ہیں۔ کاروباری سرمایہ داری سے لے کر صنعتی سرمایہ داری ،پھر مالیاتی سرمایہ داری، ریاستی سرمایہ داری، فلاحی سرمایہ داری اور اب عالم گیر سرمایہ داری تک، یہ سب اس نظام میں تبدیلیوں کو قبول کرنے اور نئی صورت گری کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
اشتراکیت، سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ لیکن اشتراکی نظام انسانی ہمدردی کے تمام تر جذبات کے باوجود ایک قابل عمل اور پایدار متبادل ثابت نہ ہوسکا، تاہم اس نے نظام سرمایہ داری میں تبدیلیاں لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ شروع میں اشتراکی چیلنج نے اپنی بنیاد اخلاق اور انسان دوستی کی بنیادوں پر ہی رکھی تھی۔ رابرٹ اوون، سینٹ سائمن اور کئی دوسروں نے سرمایہ دارانہ نظام کو اس کی اخلاقی اور معاشرے میں مساوات پیدا کرنے کی ناکامیوں کی بنیاد پر چیلنج کیا۔ کارل مارکس اور اینجلز نے معاملے کوایک اور رنگ دیا۔ سائنٹفک سوشلزم نے مادی اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر سرمایہ داری کو چیلنج کیا اور سائنس کے نام پر معاشی اور تاریخی جبر کی ایک نئی قسم دریافت کی گئی۔ جرمنی، اٹلی اور سپین میں پروان چڑھنے والا نیشنل سوشلزم ایک اور چیلنج تھا۔ سرمایہ داری نے ان چیلنجوں کا بھی مقابلہ کیا، اور ان کا بھی جو نظام کے اندر سے کاروباری اتار چڑھائو، افراطِ زر، بے روزگاری، جمود اور محروم طبقوں کی بغاوت کی صورت میں سامنے آرہے تھے۔ فلاحی سرمایہ داری اورمخلوط معیشت جیسی تبدیلیاں اصلاحی تحریکوں کانتیجہ ہیں۔ عالم گیر سرمایہ داری کے موجودہ دور کوبھی اسی تناظر میں دیکھا جاناچاہیے۔ بہرحال اخلاقی اور انسانی تناظر میں تنقیدی مباحث کاسلسلہ برابر جاری ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں میں لاطینی امریکا میں شروع ہونے والی عیسائی جمہوری تحریک، دنیا کے دوسرے ملکوں میں انسانی اور معاشرتی حوالے سے گرین گروپس (Green Groups) اب عالم گیر حیثیت کے مالک بن چکے ہیں۔ انسانی شرف کے بارے میں احساس اور ظلم سے نفرت کے خلاف یہ جذبات حقیقی ہیں اور ان کے اثرات دُور دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ جبر اور انسانیت کش پالیسیوں کے خلاف شدید ردّعمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔ انتہائی بائیں بازو کے لوگ بھی اس جبر کے خلاف ردّ عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف جو اظہار سیٹل واشنگٹن، بڈاپسٹ (ہنگری)، اوٹاوہ (کینیڈا) اور جنیوا (سوئٹزرلینڈ) میں شروع ہوا، اس نے فکری میدان میں عملی سوچ کے لب و لہجے اور انداز کو تبدیل کیا ہے۔
ڈربن (جنوبی افریقہ) میں ۲۰۰۱ء میں منعقدہ اقوام متحدہ کی کانفرنس اور ۲۰۰۲ء میں دوحہ(قطر) میں ہونے والی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی کانفرنس میں نئے انداز میں معاملات پر اتفاق راے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ حقیقت کہ بڑے کاروباری ادارے، یعنی ورلڈ اکنامک فورم نے مشترکہ بنیادوں کی تلاش کے لیے ڈیووس (Devos) سے نیویارک تک اجلاس منعقد کیے۔ جب ’ورلڈ اکنامک فورم‘ (WEF)کا اجلاس نیویارک میں ہو رہا تھا، عین اسی وقت ایک اور پلیٹ فارم، ’ورلڈ سوشل فورم‘(WSF) کا اجلاس دھوم دھام سے ایلے گر (برازیل) میں منعقد ہوا۔ مارچ ۲۰۰۲ء میں ہونے والے مالیاتی اتفاق راے کاانداز، نام نہاد واشنگٹن اتفاق راے سے مختلف تھا۔ یہ تمام نکات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ عالم گیر سرمایہ دارانہ نظام میں اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لچک اور حرکت موجودہے۔
۱- اس کی اپنی اندرونی کمزوریاں، تضادات اور نا انصافیاں
۲- مسلمان اور ترقی پذیر دنیا کے ممالک کا رد عمل، جو دنیا کا ۸۰ فی صد حصہ ہیں اور جن کا ثقافتی، سماجی اور اخلاقی لحاظ سے دنیا کے بارے میں بالکل مختلف نقطۂ نظر ہے اور ان کی ثقافتی اور تہذیبی اقدار مختلف ہیں۔
اب ، جب کہ سرمایہ دارانہ نظام بے خوف و خطر عالم گیریت کی لہروں پر سفر کر رہا ہے، اس کے لیے ’تنوع میں وحدت‘ (unity in diversity) کا راستہ حقیقی راستہ نہیں ہے، بلکہ چیلنج یہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ وجود میں لایا جائے جس میں ایک سے زائد نظاموں کا حقیقی تصور (genuine plurality) موجود ہو۔ ایک ایسا تنوع موجود ہو جس میں باہمی مشترک اقدار اور مشترک مفادات کے تحت باہمی تعاون ہو۔ ایک ماڈل سے بالادستی کا تصور اُبھرتا ہے۔ عالم گیر معاشرے کی ایک مختلف تشکیل وقت کی ضرورت ہے۔
جان رالز نے ۱۹۷۲ء میں اپنی شروع کی تحریروں میں باہمی برابری (reciprocity) کی بنیاد پرانصاف کی فراہمی کا مقدمہ مضبوطی سے پیش کیاتھا، ۷؎ لیکن ۳۰سال بعد اپنی کتاب ’عوام کا قانون‘ میں اپنے نظریے کو ’بے لاگ انصاف‘ کے عنوان سے اس طرح پیش کیا ہے کہ اسے دوسرے لوگوں اور معاشروں تک پھیلایا جانا چاہیے۔۸؎ یہ تصور عام طور پر دیگر مغربی مفکرین کے سیاسی آزادی کے فکری احاطے میں نہیں آتا۔ جان رالز نے تہذیب یافتہ معاشروں کے تنوع کو تسلیم کیا ہے۔ وہ مثالوں کے ذریعے معاشرتی تنظیم کے مختلف طریقوں کی بھی وضاحت کرتا ہے۔ وہ ’مناسب طور پر آزاد رو لوگوں‘ (reasonably liberal people) کے ساتھ ’معقول لوگوں‘ (decent people) کا نظریہ پیش کرتا ہے اور اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کچھ دوسرے معقول لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو میری بیان کی ہوئی ترتیب میں نہ سموئے گئے ہوں، لیکن وہ انسانوں کے معاشرے کے قابل احترام رکن ہوں۔
جان رالز نے اس بات کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک عوامی قانون نہیں بلکہ معقول قوانین کا ایک ایسا مجموعہ درکار ہے جو تمام شرائط اور معیارات پر پورا اترے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اس پر بحث کروں گا اور قانون سازی کرنے والے عوامی نمایندوں کو اس بات پر قائل کروں گا۔ آزاد پسندی کے اس پہلو پر رالز کا نقطۂ نظر ایک ایسی دنیا کے تناظر کی طرف اہم قدم ہے، جس میں حقیقی تکثیریت (pluralism) قائم رہ سکتی ہے اور ایک عالم گیر سیاسی، معاشی اور ثقافتی منظر قائم کیا جاسکتا ہے۔ جو انسانیت کو باہم مل جل کر تعاون اور مقابلے کی فضا میں رہنے کے مواقع فراہم کرسکتا ہے۔ مستقبل کی ایک عالم گیر معاشرت کے اس تناظر کاانحصار ایک معقول اور مناسب تکثیریت پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں معقول لوگوں کے درمیان مختلف ثقافتوں اور مذہبی اور غیرمذہبی فکری روایتوں کا تنوع، معقول تکثیریت کے ساتھ ساتھ۔۹؎
اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عالم گیر سرمایہ دارانہ نظام دوسرے نظاموں کے ساتھ بقاے باہمی کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس سے یہ سمجھنا ہرگز ضروری نہیں ہے کہ دوسری معاشرتوں اور ثقافتوں کو نظام سرمایہ داری کی متنوع شکل بننے کی کوشش کرنا چاہیے۔ پھر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ باہم مشترک اقدار، دل چسپیوں ، آرزوئوں کے وسیع میدان میں اور باہمی تعاون ، تعامل اور تقابل کے امکانات نہیں ہیں۔ وسائل کی فراہمی، تخصیص کار (specialization) اور کم و بیش فائدے کے لحاظ سے فرق کی بنا پر معقول حدود کے اندر رہ کر ایک دوسرے کے اوپر انحصار کو بھی ردنہیں کیا جاسکتا۔ جس بات کو رد کیا جا رہا ہے وہ ایک نظام کی بالادستی اور محتاجی کا ایسا تعلق ہے، جو سیاسی آزادی، ثقافتی انفرادیت، معاشی خود انحصاری اور اخلاقی و روحانی تشخص سے متصادم ہو۔
۱- دیکھیے: جے ایم کینز، The End of Laissez Faire ،ہوگرتھ پریس، ۱۹۲۶ئ، ص ۱۳، ۱۴۔
۲- برانسامیلانووچ، The World Income Distribution، مشمولہ The Economic Journal، شمارہ ۱۱۲، ص ۵۱-۹۲۔
۳- لیسٹرتھرو، The Future of Capitalism، ناشر نکولس برکلے، لندن ۱۹۹۶ء ، ص ۳۲۵، ۳۲۶۔
۴- رابرٹ فوگل، حوالۂ مذکور، مطبع شکاگو یونی ورسٹی ، شکاگو، ۲۰۰۰ئ، ص ۱۔
۵- ایضاً، ص ۲۴۲۔
۶- جان گرے، False Down: The Delusions of Global Capitalism،لندن، ۱۹۹۸ئ، ص ۲۰۔
۷- جان رالز، A Theory of Justice، اوکسفرڈ کلارنڈن پریس، ۱۹۷۲ئ۔
۸- جان رالز، The Law of Peoples، ہارورڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۹ئ، ص ۴۔
۹- جان رالز، ایضاً، ص ۱۱۔
ریاست جموں وکشمیر پر برطانیہ کی آشیر باد سے کانگریسی قیادت نے مہاراجا سے سازباز کرکے ۱۹۴۷ء میں فوجی قبضہ کیا اور بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کا ڈراما رچایا گیا۔ ابتدائی دستاویز الحاق کے مطابق مہاراجا کی موروثی حکمران کی حیثیت ختم کی گئی اور داخلی سطح پر صدرریاست ، وزیر اعظم ایک دو ا یوانی پارلیمان کے ساتھ ایسی بااختیار حکومت کا جھانسا دیاگیا جو قانون سازی اور ریاست کے معاملات میں مکمل طور پر با اختیار قرار دی گئی،البتہ دفاع ،مواصلات، کرنسی اور امور خارجہ کے محکمے مرکز کے سپرد کیے گئے ۔اس فارمولے کے مطابق شیخ عبداﷲ کو بھی شیشے میں اتارا گیا اور بالآخر ریاست کی وزارت عظمیٰ ان کے سپرد کی گئی ، لیکن آہستہ آہستہ ۱۹۴۹ء کے سیز فائر اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادیں پاس ہونے کے بعد بھارت کی مرکزی سرکار نے ریاست کے اختیارات چھیننے کا عمل شروع کر دیا ۔
نہرو اور شیخ عبداﷲ کے گہرے دوستانہ مراسم کے پس منظر میں شیخ صاحب کے لیے نہرو کی حکومت کا رویہ ان کی آرزوئوں اور تمنائوں کے برعکس ثابت ہوا جس پر شیخ صاحب نے احتجاج کیا اور ۱۹۵۳ء میں انھیں حکومت سے فارغ کر کے جیل میں ڈال دیا گیا،جب کہ ان کے ایک قریبی ساتھی بخشی غلام محمد کو کٹھ پتلی وزیر اعظم بنا دیا۔اس کے ذریعے ریاست کے اختیارات سلب کر نے کی حکمت عملی جاری رکھی۔ آہستہ آہستہ گورنر اور وزیراعظم کی اصطلاحات کو وزیر اعلیٰ کی اصطلاح سے تبدیل کردیا گیا اور ریاست کی داخلی خودمختاری بھی تحلیل ہوتی چلی گئی۔بھارتی حکمران ریاست کے عارضی الحاق کو مستقل ادغام میں بدلنے کی کوشش کرتے رہے۔
بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کی رُوسے بھارتی یونین میں ریاست جموں وکشمیر کی ایک خصوصی حیثیت تسلیم کی گئی ہے ۔ایک طرف سے تو اس دفعہ کی رو سے بھارتی صدر کو ریاست میں ایگزیکٹو آرڈر کے تحت احکامات اور قوانین نافذ کرنے کا جواز بخشا گیا ہے ، جب کہ دوسری طرف دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ A-۳۵کی رو شنی میں مہاراجا کے سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو تحفظ دیا گیا ہے جس کی رُو سے غیر ریاستی شہریوں کو قانونی طور پر نہ ریاست کی شہریت دی جا سکتی ہے اور نہ وہ جایداد خرید سکتے ہیں اور نہ ووٹر ہی بن سکتے ہیں ۔۱۹۴۷ء میں صوبہ جموں میں ایک منظم سازش کے تحت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا ۔صرف ۶نومبر۱۹۴۷ء کو ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور باقی لاکھوں کو حراساں کر کے ہجرت پر مجبور کیاگیا ۔ان کی جایدادیں اگرچہ عارضی طور پر وہاں کسٹوڈین کے سپرد کی گئیں اور پنجاب اور غربی پاکستان میں سے غیر ریاستی سکھوں اور ہندوئوں کو جموں میں بسایا گیا جن کی تعداد اب آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔ایک طویل عرصے سے بھارتی حکومتیں سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو ختم کر کے انھیں ریاست کا مستقل شہری بنانا چاہتی ہیں تاکہ ریاست کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کے اس کا مسلم تشخص ختم کیا جاسکے ۔
اس پس منظر میں نریندر مودی نے اپنے انتخابی منشور میں کشمیر کے حوالے سے دفعہ ۳۷۰کو ختم کرکے اس کے بھارتی یونین میں مکمل ادغام کا اظہار کیااور ان مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے مقبوضہ ریاست کے حالیہ انتخابات میں جارحانہ انتخابی مہم بھی چلائی ۔ایک ایک علاقے میں خود دورہ کیا اور صوبہ جموں کے غیر مسلم ووٹروں کو بالخصوص اپنی اس انتہا پسندانہ سوچ سے ہم آہنگ کرنے کی پوری کوشش کی اور یہ ہدف دیا کہ ریاستی اسمبلی کی کُل ۸۷نشستوں میں سے ۴۴ سے زائد نشستوں پر بہر صورت کامیابی حاصل کرنی ہے ۔گذشتہ ستمبر میں سیلاب سے وادی کشمیر اور جموں میں ۵۵ لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ ان کے بحالی کے عمل کو بھی اپنی انتخابی کامیابی کے ساتھ مشروط کیا۔ ارب ہا روپے کے وسائل جھونکنے کے باوجود نریندر مودی ایک بھی مسلم نشست پر کامیابی حاصل نہ کرسکے، البتہ صوبہ جموں کی ۳۷میں سے ۲۵نشستیں لینے میںکامیاب ہوگئے۔ اس وقت وہ ریاست میں اپنی بارگیننگ پوزیشن مستحکم کرنے اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے انھیں استعمال کر رہے ہیں۔
دوسری طرف مسلمان ووٹروں (بالخصوص وادیِ کشمیر )کے مسلمان ووٹروں نے نریندر مودی کے ایجنڈے کو ناکام کرنے کے لیے وادی میں مفتی سعید کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو بڑے پیمانے پر ووٹ دیے اور بعض حلقوں میں بی جے پی کے امیدوار کو ہرانے کے لیے عمر عبداﷲ کی نیشنل کانفرنس اورکانگریس کے امیدواران کو کامیاب کیا ۔مسابقت کی اس فضا میں ایک طرف تو غیر مسلم ووٹروں کے ٹرن آئوٹ میں اضافہ ہو ااور دوسری طرف مسلم انتخابی حلقوں میں مسلمانوں نے بی جے پی کے ایجنڈے کو ناکام کرنے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے ۔حالانکہ قائدین حریت اور متحدہ جہاد کونسل نے الیکشن کے بائیکاٹ کی اپیل بھی کر رکھی تھی لیکن ووٹروں نے ووٹ ڈالتے وقت میڈیا پر برملا اپنے اس موقف کا اظہار کیا کہ ان کی تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ وابستگی اپنی جگہ برقرار ہے۔ ان کے مطابق روز مرہ مسائل سے نبٹنے کے لیے ووٹ ڈالنا ہماری مجبوری ہے اور اس لیے بھی کہ ہم بی جے پی کے عزائم کو ناکام بنانا چاہتے ہیں ۔ تاہم اس مرحلے پر نریندر مودی کے ۴۴+نشستوں کے نظریے کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اب ایک معلق اسمبلی قائم ہو چکی ہے جس میں ۲۸نشستوں کے ساتھ پی ڈی پی پہلی پوزیشن پر ہے۔ ۲۵نشستیں بی جے پی کے حصے میں آئیں، ۱۵نشستیں کانگریس اور ۱۲نیشنل کانفرنس ، جب کہ چند سیٹیں آزاد اورچھوٹی پارٹیوں نے بھی حاصل کیں۔
اس صورتِ حال میں کوئی ایک پارٹی بھی اپنی بنیاد پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں، لہٰذا گورنر راج نافذ کر دیا گیا ہے ۔نتیجتاً ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے۔اگرچہ مسلمان ووٹروں کی خواہش ہے کہ بی جے پی کے علاوہ باقی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں لیکن بھارت کی مرکزی حکومت اور بھارتی ایجنسیاں پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے اصولی اتفاق کے باوجود اختلاف وزارت اعلیٰ کی میعاد پر ہے ۔ پی ڈی پی یہ چاہتی ہے کہ آیندہ چھے سال کے لیے مخلوط حکومت کی سربراہی مفتی سعید کریں اور نائب وزیر اعلیٰ بی جے پی کا کوئی غیر مسلم نمایندہ بن جائے ، جب کہ بی جے پی کا اصرار ہے کہ مخلوط حکومت میں تین تین سال کی حکومت بنائی جائے ۔اگر بی جے پی کی شرائط پر حکومت بنی تو ۱۹۴۷ء کے بعد پہلی مرتبہ ریاست جموں وکشمیر میں ایک غیر مسلم وزیر اعلیٰ مسندِ اقتدار پر فائز ہو سکے گا ۔اس موقعے پر پی ڈی پی عجیب مخمصے کا شکار ہے کہ اگر وہ بی جے پی کی شرائط پر مخلوط حکومت بناتی ہے تو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت سے محروم ہوسکتی ہے۔اس لیے کہ وادیِ کشمیر میں بالخصوص اور ریاست کے دوسرے حصوں میں بالعموم کسی بھی طور پر اہلِ کشمیر بی جے پی کے امیدوار کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان نہیں دیکھنا چاہتے۔
بی جے پی کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس وقت مرحوم کشمیری رہنما عبدالغنی لون کے صاحب زادے سجاد غنی لون ،جن کی پارٹی کے پاس پیپلز کانفرنس کی دو نشستیں ہیں اور وہ بی جے پی کے اتحادی بھی ہیں، وزارت اعلیٰ کے حصول کے لیے سرگرم ہیں ۔حکومت جو بھی بنائے گا بہر حال یہ طے ہے کہ مقبوضہ ریاست کی پاور پالیٹکس میں کشیدگی اور عدم استحکام کا سلسلہ جاری رہے گااور جوں جوں بی جے پی ریاست میں اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی، اسی رفتار سے اس کے خلاف عوامی مزاحمت بھی مزید منظم اور شدید ہوتی چلی جائے گی۔صورت حال کے اس دبائو کی وجہ سے حریت کانفرنس کے مختلف دھڑے بھی مشترکہ لائحۂ عمل پر صلاح مشورہ کر رہے ہیں ۔اس وقت تحریک آزادیِ کشمیر اور تحریکِ مزاحمت کی سخت ضرورت ہے کہ حریت قائدین اپنے اس بنیادی تاسیسی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں جس سے بعض رہنمائوں کے انحراف کی وجہ سے حریت کانفرنس تقسیم ہو گئی ۔یہ اتحاد بی جے پی کی حکمت عملی کا توڑ کرنے کے لیے ایک اہم ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف بھارت کے پالیسی سا زجب انتخابی عمل کے ذریعے اپنے عزائم میں نامراد ہوئے تو انھوں نے ریاست کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی متوازی تدابیر اختیا رکرنا شروع کر دی ہیں۔غربی پاکستان سے ۱۹۴۷ء میں منتقل ہونے والے ۸لاکھ غیر مسلم کمیونٹی کے ساتھ ساتھ ۹۰ء کی دہائی میں جگموہن کی تحریک پر ۳ لاکھ بے گھر پنڈت کمیونٹی جو جموں اور دہلی کی مختلف کالونیوں میں مقیم ہیں ،کی باز آبادکاری کے لیے ہندستان کی وزارت داخلہ نے سفارشات مرتب کیں جنھیں حکومت قانون کی شکل میںنافذ کرنا چاہتی ہے۔جن کی رو سے ایک طرف تو وادی میں پنڈتوں کی محفوظ بستیوں کے لیے (جس طرح فلسطین میں یہودیوں کی محفوظ بستیاں تعمیر کی گئی ہیں )بڑے وسائل مختص کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ انھیں شہری حقوق دیے جائیں۔ خاص طو رپر جموں میں ۸لاکھ ہندوئوں اور سکھوں کو سٹیٹ سبجیکٹ تسلیم کیا جائے، نیز ان کے لیے اسمبلی کی آٹھ نشستیں بھی وقف کرنے کا مطالبہ کیاگیا ہے ۔اگر مودی کی حکومت خدا نخواستہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوئی تو ریاستی اسمبلی میں مسلم اور غیر مسلم ممبران میں فرق بھی ختم ہو سکتا ہے اور یہی ان کاہدف ہے
ان خطرات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بلاشبہہ حریت کانفرنس غور و فکر کررہی ہے لیکن بھارت کے یہ عزائم بنیادی طور پر کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی سپرٹ پر بھی سنگین وار ہے۔ اس لیے کہ ریاست جموں وکشمیر سے جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان و آزاد کشمیر میں منتقل ہوئے ان کی جایدادوں کو غیر ریاستی ہندوئوں اور سکھوں کے سپرد کر نا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رُو سے قطعاً ناجائز اور ناقابل برداشت امر ہے ۔اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھائے اور ہندستان کو مجبور کرے کہ وہ ریاست کے آبادی کے تناسب کی تبدیلی کی سازشوں سے باز آ ئے۔اس لیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رُو سے ناظم راے شماری کا تقرر اس کو اختیارات اور وسائل کی فراہمی سری نگر حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہاں کسی ایسی حکومت کا مسلط ہونا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پوری سپرٹ کے خلاف ہو یقینی طو رپر تشویش ناک امر ہے اور اس پر اقوام متحدہ کو خود بھی نوٹس لینا چاہیے۔ حکومت پاکستان کو بھی اس امر پر فی الفور کردار اداکرنا چاہیے اور اس بات پر زور دینا چاہیے کہ کشمیری مسلمانوں کی جایدادیں ہندوئوں کو سپردکرنے کے بجاے جو مہاجرین جموں وکشمیر میں بے گھر ہو کر اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں انھیں باز آباد کاری کا موقع ملنا چاہیے۔اس لیے کہ یہ راے شماری کی شرائط کا ایک بنیادی تقاضا ہے ۔
بہرحال بی جے پی اور نریندر مودی جو بھی ہتھکنڈے استعمال کریں کشمیری اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرُعزم ہیں اور اس سارے گیم پلان میں سیّدعلی گیلانی صاحب کا یہ موقف بھی درست ثابت ہوا کہ بھارت نواز پارٹیاں اور لیڈر ہی مقبوضہ ریاست پر بھارتی قبضے کے لیے آلۂ کار ہیں۔ انھیں کشمیریوں کے حال پر رحم کرنا چاہیے ، اپنی پارٹی اور خاندان کے مفادات سے بالا تر ہو کر اب اس نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے کہ ہندو بنیا کسی طور پر ان کی وفاداری پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔وقت آ گیا کہ یہ نام نہاد قائدین کھل کر حریت کے موقف کی تائید کریں۔ اگر یہ جماعتیں اسمبلی کے ایوان سے بھی نام نہاد الحاق کو چیلنج کریں تو آیندہ نسلیں انھیں معاف کر سکتی ہیں، ورنہ تاریخ انھیں غداروں اور مجروں کے کٹہرے میںکھڑا کرے گی۔
۱۹۸۴ء میں جناب الیف الدین ترابی سے پہلی ملاقات منصورہ، لاہور میںہوئی تھی، جب میں ادارہ معارف اسلامی سے وابستہ تھا۔ پروفیسر ترابی ان دنوں سعودی عرب سے آئے تھے۔ ان کے علم و فضل اور ان کے مزاج کے عجزو انکسار نے متاثر کیا تھا۔ منصورہ میںخاصے عرصے تک ہم دونوں اپنے گھرانوں کے ساتھ بطور ہمسایے مقیم رہے۔ ان دنوں کی یادیں آج بھی میرے حافظے میں ان کے حسن ِخلق کے پھول بن کر مہکتی ہیں۔
۸۵- ۱۹۸۴ء میں افغان جہاد کامیابی کی طرف گامزن تھا، اور میںافغان جہاد کے ابلاغی محاذ سے منسلک تھا۔ ادھر فکری سطح پر ترابی صاحب کشمیر کی آزادی کی جد و جہد سے وابستہ تھے۔ ہماری گفتگو کا موضوع اکثر کشمیر رہتا تھا۔ انھی دنوںایک دن ترابی صاحب کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے ایک وجیہ نوجوان ادارئہ معارف اسلامی میں تشریف لائے۔ ترابی صاحب نے انھیں ادارے کے سارے کارکنوں سے ملایا۔ ہم نے ان سے مقبوضہ کشمیر کے حالات پوچھے اورمیں نے کچھ نوٹس بھی لیے ۔ ترابی صاحب نے اصرار کرکے مجھ سے ’’مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے‘‘کے عنوان سے مضمون لکھوا کر چھوڑا۔
ترابی صاحب کے ذہن میں کوئی منصوبہ آتا تو مجھے مشاورت میں شریک کرلیتے۔ایک روز ہم نے طے کیا کہ عربی، اُردو اور انگریزی میں ایک ایسا اخبار شائع کیا جائے جو بین الاقوامی ہو اور اس کے لیے ــــ’اُمت‘نام بھی پسند کر لیا تھا۔ وسائل کی عدم موجودگی کے سبب یہ شائع نہ ہوسکا۔ تاہم ۱۹۹۰ء میں ۱۵روزہ جہاد کشمیر جاری کیا اور چند برسوں کے اندر اندر اس کی اشاعت ۳۰ہزار تک پہنچ گئی۔ مرحوم ترابی صاحب کا تعاون شروع ہی سے اس جریدے کو حاصل رہا ۔ اس کے چندسال بعد انھوں نے بھی کشمیر کی تحریک کو عالمِ عرب میں متعارف کرنے کے لیے عربی زبان میں کشمیر المسلمہ جاری کیا۔
الیف الدین ترابیؒ ۱۹۴۱ء میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ کی ایک بستی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میںکشمیر یونی ورسٹی سے بی اے کیا۔ وہ ضلع بھر میں چوتھے مسلم گریجویٹ تھے۔۱۹۶۵ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ پنجاب یونی ورسٹی سے اسلامیات اور پھر عربی میں ایم اے کیا۔ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۷ء تک کالج کے استاد کے طور پر تعلیمی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۷۷ء میں اُم القریٰ یونی ورسٹی مکہ مکرمہ سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔ قیام مکہ کے عرصے میں ترابی صاحب نے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت سے رابطے استوار کیے۔ ۸۰ کے عشرے کے آخیر میں تحریک آزادی کو جو نئی اٹھان ملی، اس میںجناب الیف الدین ترابی کا اہم کردار تھا۔ سعودی عرب سے پاکستان واپس پہنچ کر اپنے آپ کو مکمل طور پر تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا۔
۱۹۸۶ ء میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے نائب امیر بنا ئے گئے۔ وہ آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مہمانوں،مہاجرین اور مجاہدین کو تحریک آزادی کی ناقابل تسخیر قوت میں ڈھالنے والی ٹیم کے ایک اہم رکن تھے۔ مقبوضہ کشمیر سے آزاد خطے میں آنے والے بے سروسامان سرفروشانِ آزادی کو محبت سے گلے لگانے اوران کے لیے روحانی و جسمانی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کرنے اور ان کو تحریکِ آزادی کا ہر اول دستہ بنانے میں جنھوں نے مرکزی کردار ادا کیا، ان میں مولانا عبدالباری مرحوم ،رشید عبا سی مرحوم، جناب عبدالرشید ترابی اورالیف الدین ترابی مرحوم شامل تھے۔
وہ اول و آخر اسلامی تحریک کے ایک منفرد کارکن تھے۔ گوناں گوں بیماریوں میں مبتلاہونے کے باوجود ان کے بدن میں روح بہت صحت مند اور اُجلی تھی۔ وہ اتنے عوارض کے ساتھ بھی حلیم الطبع، متواضع مزاج، شگفتہ رو اور کشادہ فطرت تھے۔ زندگی کے آخری بیس پچیس سال انھوں نے مختلف بیماریوں کے نرغے میںگزارے، مگر وہ اپنے کام کے راستے میں کسی رکاوٹ کو حائل کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ دل مضطرب اور جانِ پر سوز کو کسی دم قرار نہ تھا۔ جوانی کے زمانے میں وہ جس تحریک کا پرچم لے کر اٹھے تھے، ان کابڑھاپا بھی اسی کے لیے وقف رہا۔ ان کے سراپے کو تصور میں لائیں تو ان کی مجموعی شخصیت طبعی شرافت، حسن خلق اور علم وعمل کا مجموعہ نظرآتی ہے۔
وہ نہ صرف تحریک آزادیِ کشمیر کے پاکستان، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں بہت بڑے مددگار تھے، بلکہ نظریۂ پاکستان کے سچے مبلغ اور جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے عظیم داعی بھی تھے۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے موقف پروہ زندگی کے آخری سانس تک قائم رہے۔ الیف الدین ترابی صاحب نے تحریک آزادیِ کشمیر کے لیے کسی صلے اور ستایش کی خواہش کے بغیرعظیم خدمات سرانجام دیں۔ ہمیں یہ حقیقت یقیناًغم زدہ کر دیتی ہے کہ تحریک آزادیِ کشمیر اور مہاجرین و مجاہدین ِکشمیرکے حق میں بلند ہونے والی وہ مؤثر آواز اب خاموش ہو گئی ہے۔۔۔آئیے ہم سب دست دعا اٹھائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس نقصان کی تلافی فرمادے۔
ان کے جذب وسوز، اخلاص وایقان اور تعلق باللہ کی کیفیات کا بھی قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کی غلطیوں سے صرفِ نظر کرتے، لیکن اپنی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر بھی اپنی باز پرس کرتے ہیں۔ ایک سفر میں ان کے ساتھ گاڑی میں راولپنڈی سے مظفر آباد جانا ہوا۔ سارے راستے میں کشمیر کی جہادی سرگرمیاں زیر بحث موضوع رہیں۔ میں نے ایک موقعے پر جیسے ہی یہ کہا: ’’ترابی صاحب یہ بہت بڑاا کام ہم جیسے کم صلاحیت لوگوں پر آن پڑا ہے، میں ڈرتا ہوں،خدا نخواستہ ہماری بے تدبیری اور بصیرت کی کمی سے اگر یہ تحریک ناکام ہو گئی تو ہمارا انجام کیا ہو گا۔۔۔!!‘‘ یہ بات سنتے ہی ان کی آواز گلوگیر ہوگئی اور پھر وہ ایسے روے کہ مجھے اس بات پر ندامت ہونے لگی کہ یہ تذکرہ کیوں چھیڑا، اور پھر اگلے کم و بیش ۲۵کلومیٹر کے سفر کے دوران ان پر رقت طاری رہی اور ان کے آنسو نہیں تھمے۔
تحریک آزادیِ کشمیر کے رہنما جناب الیف الدین ترابی کی وفات سے کشمیر کی تحریک آزادی ایک ان تھک مجاہد اورمخلص ترین انسان سے محروم ہوگئی۔ ان کی پوری زندگی وطن عزیز کشمیر کی آزادی کی جد وجہد میں گزری ہے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک باوفا شخص تھے۔۔۔ نوجوان تھے تواپنے کاز سے وفا نبھاتے ہوئے گھر بار، مال و منال اوروطن عزیز کو قربان کر دیا۔ بڑھاپا آیا تو ان کی بہت پاکیزہ صفت بیٹی عذرا اورعزیز ترین داماد احسن عزیز شہید ہوگئے۔
کشمیر کی تحریک کو فروغ دینے کے لیے انھوں نے کئی ادارے بھی قائم کیے۔ ترابی صاحب کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ۲۲ ہے، جن میں تحریک آزادیِ کشمیر منزل بہ منزل اور مسئلۂ کشمیر:نظریاتی و آئینی بنیادیں اور بھارتی دعویٰ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔بلاشبہہ وہ عرب دنیا میں کشمیر اور پاکستان کی پہچان بن گئے تھے۔ میں۲۰۱۲ء میں حج کے لیے گیا، تومنیٰ میں الشیخ یوسف قرضاوی سے ملاقات اور علیک سلیک ہوئی۔ جب انھیں جہادِکشمیر سے میری نسبت معلوم ہوئی تو پہلا سوال یہ کیا: کیف اخینا السیدالیف الدین الترابی؟ رابطہ عالم اسلامی کے سربراہ شیخ محسن ترکی نے بھی کشمیر کے حالات پر گفتگو سے پہلے ترابی صاحب کی خیریت معلوم کی اور عربوں کے مخصوص انداز میں ان کے حق میں دعائیں کیں۔
تحریک آزادیِ کشمیر کے ساتھ اْن کی غیرمتزلزل وابستگی مرتے دم تک کم نہیں ہوئی اور اسلامی ممالک میں ان کی اس مقبولیت کا رازبھی یہی تھا کہ اپنے آپ کوہمہ تن اور ہمہ وقت اپنے کازکے لیے وقف کیے رہے۔ چند ایک بشری کمزوریوں کے سوا وہ نجابت اور استقامت کے کوہِ گراں تھے۔ عمر ِ مستعار کے تقریباً۳۰ برس تک وہ جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے نائب امیر رہے۔ علامہ محمد اقبال نے جن تین اوصاف ’نگاہ بلند، سخن دل نواز اور جانِ پُرسوز‘ کو میرکارواں کے لیے رخت ِسفر کہا ہے، ترابی صاحب ان تینوں اوصاف سے متصف تھے۔ خصوصاً اپنے کاز پر اپنے آرام اور عیش و مسرت کو قربان کرنا ان کی شخصیت کا مابہ الامتیاز وصف تھا، مگر انھوں نے کبھی میر کاررواں ہونے کا دعویٰ نہ کیا۔
سوال: دعوتِ دین اور سیاسی و انتخابی جدوجہد دو بالکل مختلف میدانِ کار ہیں جو بالکل مختلف افراد کار، دعوت و پیغام، اسلوب اور طریقۂ کار کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل پہلو غور طلب ہیں:
۱- جب ایک دینی جماعت عوام کو دعوتِ دین دیتی ہے تو وہ سچائی، نیکی، عملِ صالح اور آخرت کی دعوت دیتی ہے اور اس میں وہ عوام کی پسند وناپسند کو سامنے نہیں رکھتی، جب کہ ایک سیاسی جماعت کو اپنے پیغام یا دعوت میں عوام کی پسندو ناپسند کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔
۲- دینی جماعت جب عوام کو حق اور عملِ صالح کی دعوت دیتی ہے تو عوام کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ کل ہم سے یہ کوئی مطالبہ نہیں کریں گے، جب کہ سیاسی جماعت کا معاملہ ایک سودے بازی (bargaining) یا کچھ لو اور دو (give & take) والا ہوتا ہے کہ عوام آج ہمیں ووٹ دیں، کل ہم ان کے مسائل حل کریں گے۔
۳-دینی جماعت سے عوام کو کوئی توقعات نہیں ہوتیں، جب کہ سیاسی جماعتوں سے عوام توقعات وابستہ کرتے ہیں۔
۴- دینی جماعت کو نتائج کی پروا نہیں ہوتی، چاہے لوگ اس کی دعوت قبول کریں یا نہ کریں، جب کہ سیاسی جماعت کی کامیابی اور ناکامی کو ووٹوں اور نشستوں کی تعداد سے پرکھا جاتا ہے۔
۵- دینی جماعت کا کارکن نیکی و حق کا کھلم کھلا نمونہ ہوتا ہے جو ہر جگہ اپنے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے۔ وہ اپنے قائد یا کارناموں کی بات نہیں کرتا، جب کہ سیاسی جماعت کا کارکن عوام کی سوچ اور مسائل کو سامنے رکھ کر بات کرتا ہے۔ اپنی قیادت اور پارٹی کے کارنامے گنواتا ہے، عوام کو سہانے خواب دکھاتا اور ووٹ کا مطالبہ کرتا ہے۔
۶- دینی جماعت کا کارکن تشہیر یا پروپیگنڈے پر بہت کم توجہ دیتا ہے، جب کہ ایک سیاسی جماعت کی سرگرمیوں میں تشہیر و پروپیگنڈے کی بہت اہمیت ہے اور ان کا مقصد حصولِ اقتدار ہے۔
یہ وہ ابہام (confusion) ہے جو مجھے اُوپر سے نیچے تک ہرجگہ نظر آتا ہے۔ ہم نے کام تو بہت بڑا اُٹھا لیا ہے___ دعوتِ دین ، سیاسی جدوجہد، رفاہی کام، بین الاقوامی معاملات___ لیکن ہرمیدان کی وسعت اور جزئیات کا پوری طرح اِدراک نہیں کرپائے۔ خیال رہے کہ کامیابی کے لیے صرف اخلاص کافی نہیں بلکہ واضح حکمت عملی بھی درکار ہے۔
جواب: ان سوالات سے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ تحریک سے وابستہ ساتھیوں میں سوچنے سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت ہے۔ تنقیدی ذہن کے ساتھ سوچنا ہی تحریک کو زندہ رکھتا ہے۔ اسی بناپر حدیث نبویؐ میں اختلاف راے کو رحمت قرار دیا، اور قرآنِ کریم نے اس پہلو کو ایک زیادہ جامع اصطلاح، یعنی شوریٰ سے تعبیر کرتے ہوئے حکم دیا کہ اپنے تمام اُمور میں مشاورت کرو۔ ظاہر ہے مشاورت اسی وقت ہوگی جب ایک سے زیادہ آرا سامنے آئیں اور ہرتجویز پر غور کرنے کے بعد جب کسی ایک راے پر اتفاق یا اجماع ہوجائے توپھر عزم اور توکل کا سہارا لیا جائے۔
سوالات کی ترتیب کے لحاظ سے چند قابلِ غور پہلو تحریر کیے جارہے ہیں۔
یہ طے کرنے کے لیے کہ کیا دعوتِ دین کی جدوجہد اور سیاسی اور انتخابی جدوجہد دو مختلف میدان ہیں، ہمیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ قرآن کریم میں انبیاے کرام ؑ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے حوالے سے یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ حضرت سلیمان ؑ، حضرت دائود ؑاور حضرت یوسف ؑنے، جن اُمور کو ہم آج سیاست اور گورننس سے تعبیر کرتے ہیں، نہ صرف اپنی دعوت کا لازمی جزو سمجھا بلکہ عملاً نظامِ حکمرانی کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا:
قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ ج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ o وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ ط (یوسف ۱۲:۵۵-۵۶) یوسف ؑ نے کہا:ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ اس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔
گویا حضرت یوسف ؑ کا دائرۂ اختیار محض مالیات تک محدود نہ تھا بلکہ آپ تمام اُمور مملکت پر اختیار رکھتے تھے اور جہاں جہاں عزیزِ مصر کا اثر تھا وہاں وہاں آپ کا حکم چلتا تھا۔
حضرت موسٰی ؑ کے تذکرے میں بھی ملتا ہے: ’’یاد کرو جب موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمھیں عطا کی تھی۔ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تم کو فرماں روا بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا‘‘۔(المائدہ ۵:۲۰)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مکی دور میں جو دعا رب کریم نے آپؐ کو تعلیم فرمائی وہ محض مشرکین کے شر سے محفوظ رکھنے کی نہیں تھی بلکہ اقتدار کے ذریعے اقامت دین کی دُعا تھی۔’’اور دعا کرو کہ پروردگار مجھ کو جہاں کہیں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا، اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال، اور اپنی طرف سے ایک اقتدار [سُلْطَانًا] کو میرا مددگار بنادے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۸۰)
ان قرآنی آیات پر غور کیا جائے تو انبیاے کرام کے مشن میں دعوتی تسلسل، دعوتی ہمہ گیریت اور خود مقصد ِ نبوت میں اسلامی اقتدار کا قیام بالکل واضح نظر آتا ہے۔ اگر مکہ مکرمہ میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ دین، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ہوتی تو مشرکینِ مکہ کو اس پر معاندانہ اور مخالفانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر انھوں نے حرمِ مکہ میں تین سو سے اُوپر خدائوں کو جگہ دے رکھی تھی تو ان میں ایک کے اضافے سے قیامت نہیں آجاتی۔ اس لیے مسئلہ ایک نئے خدا کے اقرار کا ہی نہ تھا بلکہ توحید یا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے کا مطلب ہی یہ تھا کہ زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لے آیا جائے ا ورتمام خدائوں کو یک قلم منسوخ کردیا جائے۔ آخرانگریز کے دورِ غلامی میں مسلمان برعظیم پاک و ہند سے حج کے لیے بھی جاتے تھے، مسجدیں بھی آباد تھیں اور صاحب ِ نصاب حضرات زکوٰۃ بھی دیتے تھے اور بھلائی کی تلقین بھی کی جاتی تھی۔ مکہ مکرمہ میں اصل مسئلہ یہی تھا کہ اگر توحید کو قبول کرلیا جاتا تو پھر سود کا بت، قبائلی فخر کا بت، تبرجات الجاہلیہ پر مبنی ثقافت و معاشرت، ہرشعبۂ زندگی کو اللہ کی بندگی میں آنا پڑتا۔ توحید کو ماننے کا پہلا تقاضا ہی یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر ارباب کو زندگی سے خارج کیا جائے اور معیشت ہو یا سیاست، عبادت ہو یا ثقافتی سرگرمی، ہرہرکام کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کردیا جائے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ مسجد میں اللہ کی حاکمیت ہو اور پارلیمان میں، عدلیہ میں، معاشی منڈی میں کوئی دوسرا اسلوب ، طریقہ اور اصول کارفرما ہو۔ مسجد میں سجدہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو کیا جائے اور تجارت میں مالی مفاد کو خدا بنا لیا جائے اور جب ایک شخص پارلیمنٹ میں ہو تو ہوا کا رُخ دیکھ کر بات کرے! اس لیے دعوت کا میدان اور سیاسی میدان دو الگ چیزیں نہیں ہوسکتے۔ دونوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو اس زمین پر قائم کرنا ہے۔
جو سوال اُٹھایا گیا ہے یہ اس سے قبل بھی بہت سے ذہنوں کو پریشان کرتا رہا ہے، چنانچہ فکری اور معاشرتی اصلاح پہلے یا سیاسی انقلاب پہلے پر سیدمودودیؒ کا جامع تبصرہ یہ ہے: ’’بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ اور بلاشبہہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اُوپر سے ہی مسلط نہیں کیے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رُونما ہوچکا ہے۔ اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بے کار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں۔ اب تو سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جب تک قوم میں ذہنی انقلاب واقع نہ ہو اس وقت تک آیا ہم سیاسی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطابق استعمال کرتے رہیں یا ان اختیارات کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق کام میں لائیں۔ سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی مصرف اور مقصد بہرحال ہمیں متعین کرنا پڑے گا۔ حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رُونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جاسکتا… حکومت کی طاقت نہ صرف بجاے خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے، بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ مؤثر، نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ آخر اس حماقت اور جہالت کا ارتکاب ہم کیوں کریں کہ ایک طرف انفرادی حیثیت سے ہم اسلام کے سماجی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کے سارے ذرائع، اخلاق کے بگاڑنے اور فسق و فجور پھیلانے میں لگے رہیں‘‘۔(رسائل و مسائل، چہارم، ص۱۷۹-۱۸۸)
تبدیلیِ نظام اور قیامِ عدل کے لیے ایک طریقۂ کار تو یہ ہوسکتا ہے کہ موجودہ نظام کی خامیوں کے پیش نظر اس سے اپنے آپ کو الگ کر کے تعمیر کردار پر توجہ دی جائے اور جب ایک طویل عمل کے نتیجے میں ایسے افراد تیار ہوجائیں تو پھر سیاسی تبدیلی کی طرف توجہ دی جائے۔ دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ کسی عسکری قوت کے ذریعے پورے نظام کو درہم برہم کر کے نئے سرے سے نظام کو صالح بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ ایک تیسری شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس طرح آپ ایک ایسا مکان خریدیں جس کی چھت ٹپک رہی ہو، دروازے بوسیدہ ہوں، بجلی کا نظام صحیح کام نہ کر رہا ہو توبجاے پورے مکان کو منہدم کر کے نئے سرے سے مکان تعمیر کرنے کے آپ ترجیحات کا تعین کریں اور مکان کی خرابیوں کو دُور کرتے جائیں۔ انسانی معاشرہ اور میکانکی معاشرہ میں یہی فرق ہے۔ اس میں بیک وقت دعوتِ نماز اور دعوتِ قیامِ عدل پر عمل کیے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی۔
دوسری بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ کیا ’دینی جماعت‘ تو عملِ صالح کی دعوت دے اور سیاسی جماعت عوام کے دل جیتنے کے لیے سیاسی حربے استعمال کر کے اقتدار حاصل کرلے۔ کیا یہ دوعملی اسلام کا مقصود و مطلوب ہے؟ کیا قرآن کریم اور سنت ِ رسولؐ یا خلفاے راشدین کی سیاسی زندگی سے اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ بات بڑی آسان اور واضح ہے۔ اسلام جس سیاسی نظام کا قیام چاہتا ہے، اس کی بنیاد تقویٰ، اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نفاذ، شفافیت، عدم مداہنت، اصول پرستی، حق کے اظہار، عدل کے قیام، امانت، اہلیت اور احتساب پر ہے۔ اسلام میں صرف سیاست یا صرف دین کا کوئی تصور، نہ قرآن میں پایا جاتا ہے نہ سنت ِ رسولؐ ، نہ خلفاے راشدین کی مثال میں۔ خلفاے راشدین نے اقتدار کو دین کے قیام اور استحکام کے لیے استعمال کیا۔ یہی وہ دعوت ہے جو تحریک اسلامی کی قیادت خصوصاً مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے شعوری طور پر پیش کی۔
یہ بات بھی محلِ نظر ہے کہ ’دینی جماعتوں‘ کی کامیابی یا ناکامی کا معیار نشستوں کی تعداد ہے۔ کیا حضرت نوحؑ کی طویل دعوتی جدوجہد اور حضرت موسٰیؑ کے اپنی قوم کو دعوت دینے کے نتیجے میں ساری قوم یا اس کی اکثریت آپ کے ساتھ آگئی تھی؟ کیا یہ ان حضرات علیہم الصلوٰۃ کی ناکامی تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمان میں نشستوں کی تعداد نظریاتی جماعتوں کی کامیابی یا ناکامی کا حتمی پیمانہ نہیں ہوسکتی۔ ان کی کامیابی کا پیمانہ خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی مقدور بھر کوشش اور ربِ کریم پر اعتماد و توکّل ہے۔ ترکی میں اب سے ۲۰سال قبل وہاں کی اسلامی تحریک نے ۱۰ فی صد سے بھی کم نشستیں حاصل کیں لیکن اگلے انتخابات میں اس میں اضافہ ہوا، اور آخرکار تیسرے انتخاب میں وہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ہمارے ہاں انتخاب کا نظام، انتخابات میں قوت کا استعمال اور نفاذِ تحریکِ اسلامی کی حکمت عملی کا بروقت بننا اور صحیح روح کے ساتھ اس کا نفاذ، یہ اور دیگر تنظیمی اور مالی وجوہات مل کر نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خود سیاسی سرگرمی تحریک کے نقطۂ نظر سے ایک دعوتی سرگرمی ہے جس میں کارکن اور قیادت عوام کے سامنے اپنی دعوت اور مسائل کا اسلامی حل پیش کرتے ہیں۔ اس عمل میں معمولی سی کوتاہی نتائج کو متاثر کرسکتی ہے۔ دوسری جماعتیں جو خالص سیاسی مقاصد کے لیے وجود میں آتی ہیں، ان کی کامیابی کا سبب تنہا ان کا ’نظریہ‘ نہیں ہوتا بلکہ اکثر وہ غیراخلاقی ذرائع ہوتے ہیں جن کا استعمال تحریکِ اسلامی کے لیے ناممکنات میں سے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ غیراخلاقی ذرائع سے کامیابی سے افضل چیز اپنے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کسی نشست کا کھو دینا ہے، تو بے جا نہ ہوگا، بلکہ اصولی سیاست کے فروغ کا ناگزیر تقاضا ہے۔
یہ بات غیر اسلامی سیاست میں تو ممکن ہے کہ کچھ لو اور دو کے ذریعے ووٹ لے لیے جائیں لیکن اسلامی تحریک کی اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا کہ دینی جماعت سے عوام کوئی توقعات نہیں رکھتے، مشاہدے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پاکستان کی تین مسلکی جماعتیں اپنے واضح مسلکی پس منظر کے باوجود عوام کی نگاہ میں ان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اسی بنا پر انھیں ووٹ ملتے ہیں۔جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جسے مسلکی جماعت نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی رکنیت کے لیے کسی کا دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث یا جعفری ہونا شرط نہیں ہے۔ ہرمسلمان جو اس کے دستور سے اتفاق رکھتا ہو اس میں شامل ہوسکتا ہے، جب کہ جو جماعتیں مذہبی کہلاتی ہیں ان کے نام ہی اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ وہ دراصل مسلکی جماعتیں ہیں۔ اس کے باوجود سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں لوگ انھیں ان کے مسلک سے وابستگی کے باوجود ووٹ توقعات کے پیش نظر ہی دیتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ تحریکِ اسلامی کی سیاسی جدوجد کا بنیادی مقصد اپنی دعوت کا پہنچانا ہے۔ اس لیے وہ نتائج سے بے پروا ہوکر اللہ کی رضا کے لیے کام کرتی ہے۔ اس جدوجہد میں اگر رب کریم اپنے فضل اور نصرت سے اسے کامیاب کردے تو یہ اس کا انعام ہے۔
تحریکِ اسلامی کے کارکن کسی کو جتائے بغیر خلوص سے معاشرتی اصلاح کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ لوگ خود مخلص اور مطلبی افراد میں امتیاز کرسکتے ہیں۔ پروپیگنڈا اور تشہیر کے مقابلے میں تحریک تحدیث ِنعمت کی تعلیم دیتی ہے، ناگزیر تشہیر کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ تاہم قیادت اور کارکن دونوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ نفس کے شیطان سے ہمہ وقت چوکنے رہیں اور باہمی احتساب کے ذریعے ایک دوسرے کو نصیحت بھی کرتے رہیں۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تحریک کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مذاکروں میں اور سوشل میڈیا پر زیادہ سرگرمی کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کرنا چاہیے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ حصولِ مقصد کے لیے حکمت عملی بہت واضح ہونی چاہیے۔ اگر ماضی میں اس پہلو سے کوئی کمی رہی ہے تو اسے اب دُور کیا جانا چاہیے۔
دعوتِ دین، عوامی مقبولیت اور حصولِ اقتدار میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ کوئی شرعی قباحت جیساکہ حضرت سلیمان ؑ کی زبان سے قرآن کریم میں یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایسی سلطنت کی توفیق دے جس کی کوئی مثال نہ پائی جاتی ہو۔ پھر تحریکِ اسلامی جس کا مقصد معاشرہ، معیشت اور اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں لانا ہے، وہ اس کے حصول کے لیے جدوجہد کیوں نہیں کرسکتی۔ اس جدوجہد اور انبیا ؑ کے دعوت و طریق کار میں تضاد کہاں پایا جاتا ہے۔
دعوتِ دین اور سیاسی جدوجہد دو الگ دائرے نہ قرآن کریم میں ہیں، نہ سنت ِ رسولؐ میں اور، نہ سنت خلفاے راشدین میں۔ اس لیے تحریک ِ اسلامی بھی اس فرق کو تسلیم نہیں کرتی۔ معاشرتی اصلاح کے لیے تمام ذرائع کا استعمال شریعت کی رُو سے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ جو جماعتیں اپنے آپ کو خالص سیاسی جماعت کہتی ہیں وہ دین کو اپنا ذاتی معاملہ سمجھتی ہیں، اس لیے صرف سیاست کرنے میں لگی رہتی ہیں۔تحریکِ اسلامی اس لحاظ سے ایک ’خالص سیاسی جماعت‘ نہ کبھی تھی نہ کبھی ہوسکتی ہے۔ اس کی دعوت ہمہ گیر ہے۔ یہ زندگی کو خانوں میں نہیں بانٹتی اور یہ کلیسا اور ریاست کی تفریق کو رد کرتی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
قرآن کریم نے انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد یہ بتایا ہے کہ وہ معاشرے میں عدل قائم کریں (الحدید ۵۷:۲۱)، اور سورئہ رحمن میں تو یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ تمام کائنات ایک میزانِ عدل پر قائم ہے (۵۵:۲)۔ اس طرح اور متعدد مقامات پر عدل و انصاف کی تلقین کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر سواتی کی زیرتبصرہ کتاب اسلام کے نظامِ عدل کے اہم موضوع پر بڑی جامع تصنیف ہے۔ یہ علمی اور تحقیقی کتاب جو حقیقتاً ایک دائرۃ المعارف کا مقام رکھتی ہے، ان کی تمام زندگی کی کاوش کا ماحصل ہے۔
ڈاکٹر سواتی نے ۱۹۷۲ء میں، لندن یونی ورسٹی میںاس موضوع پر اپنا تحقیقی مطالعہ پیش کیا تھا اور اس کے بعد وہ مختلف یونی ورسٹیوں میں اپنی ملازمت کے دوران اس موضوع پر تحقیق کرتے رہے اور اپنے ذاتی کتب خانے میں قیمتی اور نادر ذخیرہ بھی جمع کرتے رہے۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے ۸۰۰ سے زائد صفحات کی ضخیم کتاب میں اسلام کے نظامِ قضا کے تمام اہم اور امتیازی پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔
کتاب کا آغاز مصنف نے عہدِ جاہلیت کے نظامِ قضا سے کیا ہے اور اس امر کی عقدہ کشائی کی ہے کہ اس دور کو دورِ جاہلیت کیوں کہا جاتا ہے اور اس ضمن میں جاہلی عصبیت و حمیت اور دیگر بُرائیوں کی وضاحت کی ہے۔ دوسرے ابواب میں قرآن کے حوالے سے اس نظام پر جو تنقید کی ہے اس کا ذکر ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصد، توحید کا اعلان اور عدل و انصاف کے نظام کا قیام زیربحث آیا ہے۔ اس ضمن میں حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے دو مقدموں کا تذکرہ ہے۔
اس کے بعد کے ابواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے عدالتی نظام کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور پھر ادب القاضی کے حوالے سے عدالتی قوانین پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے اور پھر اس ضمن میں پولیس، قیدخانوں اور محکمہ الحسبہ کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
کتاب کو دو حصوں اور ۱۱؍ ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے اور تین کتابیات کی فہرست تقریباً ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہے جس میں ۱۸۰۰ سے زائد کتابیں شامل ہیں جو اساتذہ اور طلبا کے لیے بڑی مفید معلومات کا خزانہ ہے۔ اصل کتاب انگریزی میں ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی تھی جس کی علمی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی تھی۔ اب اسے ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی نے جو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں لیکچرار ہیں بامحاورہ اور سلیس اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کی سلاست اور روانی سے اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ ہے۔ کتاب اعلیٰ معیار پر اچھی کتابت اور طباعت کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ اُمید ہے صاحب ِ علم حضرات اور طلبا اس جامع اور مستند علمی کتاب سے استفادہ کریں گے اور برعظیم کے کتب خانوں میں یہ جگہ پائے گی۔(عبدالرشید صدیقی)
عرب کے مشہور شاعر متنبی جس کی مدح کرتا اُسے آسمان پر اٹھاکر ماورائی مخلوق بنالیتا، اسی طرح جب کسی کی ہجوکرتا تو اسے انسانیت کے دائرے سے نکال کر اسفل السافلین بنا کردَم لیتا۔ یہی حال ہمارے اکثر قلم کاروں کا ہے ۔وہ جب بھی کسی شخصیت پر قلم اُٹھاتے ہیں تو دونوں انتہاؤں میں سے ایک پر ہوتے ہیں۔حکمرانوں،سیاست دانوں اور با اثر شخصیات کے خاکوں اور سوانح میں بالخصوص اپنے پسندیدہ اور ناپسندیدہ رنگ اہتمام سے بھرے جاتے ہیں۔ عام آدمی تک صحیح معلومات نہ پہنچنے کی وجہ سے وہ یا تو رہزن کو رہبر سمجھنے لگتا ہے یا پھر ’سب چورہیں ‘ کہتے ہوئے قومی واجتماعی معاملات سے دامن جھٹک کر الگ ہوجاتا ہے۔بارِ شناسائی اس معاملے میں ایک مختلف اور منفرد کتاب ہے۔کتاب کے مصنف کرامت اللہ غوری وزارت خارجہ کے بیوروکریٹ اورایک طویل عرصے تک مختلف ممالک میں پاکستان کے سفارت کار رہے ہیں۔خوش گوار حیرت کی بات یہ ہے کہ سفارت کاری کے ساتھ ساتھ مصنف کا قلم قبیلے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ان کی تازہ تصنیف بارِشناسائی دراصل ان کی اُن یاداشتوں کا مجموعہ ہے جو ہمارے حکمرانوں: وزراے اعظم،صدور،کابینہ کے اراکین،کمیٹیوں کے سربراہان اوردیگر اہم شخصیات سے متعلق ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نوازشریف اور بے نظیر تک کے حکمرانوں،نوابزادہ نصراللہ خان ،مولانا فضل الرحمٰن،حکیم محمد سعید،فیض احمد فیض اور ڈاکٹرعبدالسلام جیسی شخصیات کے تذکرے اس کتاب کا حصہ ہیں۔دل آویزاسلوب،بے لاگ تبصرے اورشخصیات کے نفسیاتی تجزیے اس کتاب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔مصنف نے پیش لفظ میں لکھاہے: ’’میں نے توصرف وہ خاکے مرتّب کیے ہیں جو میرے مشاہدے کی آنکھ سے گزرکرمیرے ذہن کے کینوس پراپنے تاثرات چھوڑگئے ہیں۔میں نے صرف وہی لکھا ہے جو میں نے دیکھا اور محسوس کیا‘‘۔(ص ۲۶)
مصنف نے ضیاء الحق کے کردارکے دونوں پہلو بیان کرنے کے بعد ان کی عجزوانکسار، کھرے پن اور نرم خوئی کی کھل کر تعریف کی ہے، لکھتے ہیں:’’ وہ بلاشبہہ ایک انتہائی متنازع شخصیت تھے اور رہیں گے لیکن ایک حقیقت جس کا میں آج بھی بلا خوف تردید اعادہ اور توارد کر سکتا ہوں یہ ہے کہ میں نے ۳۵برس کی سفارتی اور سرکاری ملازمت کی تمام مدت میں ضیاء الحق سے زیادہ نرم خواور حلیم انسان نہیں دیکھا۔ کوئی بھی دیانت دار مؤرخ ان کے خلق اور اخلاق کے ضمن میں میرے بیان کی تردیدنہیں کرسکے گا‘‘۔ (ص۷۲)
ذوالفقار علی بھٹو کے غرور و تکبر ،سخت گیری اور درشت مزاجی کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ: ’’بھٹوصاحب کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ وہ اپنے مزاج اور اپنی اَنا پرست نفسیات سے اپنی موروثی وڈیرہ ذہنیت کو کبھی جدا نہیں کرسکے۔‘‘ (ص۲۸)
مصنف نے بے نظیر کی ذہانت ،فطانت اور معاملہ فہمی کے ساتھ ساتھ وزیروں مشیروں کے انتخاب میں ان کی قوتِ فیصلہ اور اصابتِ راے کی ناکامی، نواز شریف کے حُسنِ سلوک اور کھانے پینے کے حد سے بڑھے ہوئے شوق،محمد خان جونیجو کی سادہ لوحی اور برتری کے گھمنڈ میں مبتلا پرویزمشرف کی آمریت کے واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔علاوہ ازیں اس کتا ب میں مال و دولت کے پجاری،پروٹوکول کے بھوکے،شہرت کے طلب گار،سیاحت اور شاپنگ کے شوقین نااہل اور کارِسرکار سے بے نیاز وزیروں اور مشیروں کے چہروں سے بھی نقاب کشائی کی گئی ہے۔
دیکھا جائے تو زیر نظر کتاب میں کوئی بھی بات ایسی نہیں جو ہمیں پہلے سے معلوم نہ ہو لیکن اس کے باوجود اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ایک معتبرچشم دید گواہ کی شہادت ہے۔آخر میں مصنف نے وطن عزیز کے زبوں حالی کی درست تشخیص کرتے ہوئے ہماری سیاست اور سیاسی کلچرمیں جاگیرداروں اور وڈیروں کے تسلط کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ طبقہ جسے صرف اور صرف اپنے مفاد سے محبت ہے اور اپنی غرض ہی ان کو عزیز ہے، ملک چاہے جائے بھاڑ میں، جونک کی طرح ہمارے سیاسی نظام سے چمٹاہواہے اور اس کا خون چُوس رہاہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ہمارے ہاں روزافزوں جہالت اور تعلیم کی کمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا شمار معدودے چندممالک میں ہوتا ہے جہاں ان پڑھ لوگوں کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے۔ جس تیزی سے ہماری آبادی میں اضافہ ہورہاہے، ملک میں تعلیم وتدریس کی سہولتیں اس رفتارکاساتھ نہیں دے رہی ہیں۔ (ص۱۸۱)
وہ لکھتے ہیں کہ: ’’ملک کی سیاست اور سیاسی عمل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہرفوجی آمر نے جاگیرداروں اور وڈیروں کوشریک اقتدارکیاتھا، اس لیے کہ اقتدارکے بھوکے یہ جاگیرداراپنی قیمت لگوانے میں کسی اخلاقی ضابطے یااصول کے اسیرنہیں ہوتے۔ جو ان کی مانگ پوری کردے اور انھیں لوٹ مارکرنے کے لیے اپنی سرپرستی فراہم کردے، وہ اس کے ساتھ شریک بھی ہوجاتے ہیں اور اس کے ہاتھ بھی مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہوجاتے ہیں‘‘۔ (ص۱۸۲)
مزید لکھتے ہیں کہ: ’’عوامی انقلاب کی فتح کے بعد ماؤنے سب سے پہلا کام یہ کیاکہ جاگیرداروں اور زمین داروں کا قلع قمع کردیا۔ اسی طرح امام خمینی نے بھی ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعدان شاہ پرستوں اور استحصال پسندوں کو تہہ تیغ کردیاجنھوں نے ایران کے غریب عوام کا جینا دوبھرکررکھاتھا‘‘۔ وہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے خاتمے میں سمجھتے ہیں۔اس بات کو اگر اس کتاب کا حاصل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خالصتاًپاکستان سے متعلق اور پاکستانیوں کے لیے لکھی ہوئی اس کتاب کا پہلا ایڈیشن پاکستان کے بجاے بھارت(دہلی) سے شائع ہوا تھا۔(حمیداللّٰہ خٹک)
ایچ ای سی سے منظورشدہ جریدے الایام کا تازہ شمارہ تحقیقی وتنقیدی مقالوں، مفصل اور مختصر تبصروں اوررفتگان کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ الطاف حسین حالی کے صدسالہ یومِ ولادت کی مناسبت سے چار اُردو مضمون اور ایک انگریزی مقالہ شامل ہے۔ ایچ ای سی کے رسالوں میں اب بھرتی کی چیزیں بھی چھپنے لگی ہیں۔ الایام نے اس کا خیال رکھا ہے، چنانچہ زیرنظر مضامین و مقالات سارے ہی عمدہ اور معیاری ہیں۔
عمومی خیال کے مطابق مسدس حالی مسلم قوم کی داستانِ زوال و انحطاط اور اس پر ایک پُرتاثیر مرثیہ ہے۔ پروفیسر منیرواسطی نے بشدّت اس کی تردید کی ہے۔ انھوں نے متعدد معروف ناقدینِ ادب کے حوالے دیتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ مسدس زوال و انحطاط کی داستان نہیں، تجدید واحیا اور نشاتِ ثانیہ کا راستہ ہے، غیرملکی غلبہ اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ طویل نظم مسلم تشخص پر زور دیتی ہے اور اس سے قدرتی طور پر ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
خالد ندیم نے ’شبلی و حالی: تعلقات کا ازسرِنو جائزہ‘ میں بہ دلائل تردید کی ہے کہ شبلی اور حالی کے درمیان کسی طرح کی ’معاصرانہ چشمک‘ تھی۔ ’’ثابت ہوجاتا ے کہ دونوں بزرگوں کے درمیان احترام کا رشتہ زندگی بھر قائم رہا‘‘۔ (ص ۲۱۱)
’بیاد رفتگان‘ میں مارچ ۲۰۱۴ء کے بعد سے ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء تک (کے درمیان دنیاے فانی سے کوچ کرنے والی ۱۴ شخصیات کا مختصر تعارف شامل ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس عرصے میں فوت ہونے والی دو شخصیات محمد قطب (م: ۴؍اپریل ۲۰۱۴ء ، جدہ) اور ڈاکٹر ذوالفقار علی ملک (۸؍اگست ۲۰۱۴ئ، لاہور) کا تذکرہ رہ گیا۔ شاہد حنائی کا تفصیلی مکتوب عبرت ناک ہے اور سبق آموز بھی۔ہمارا خیال ہے علمی مقالات میں آیاتِ قرآنی اور متونِ حدیث پر اِعراب کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر سہیل شفیق نے ۲۱نئی کتابوں اور رسائل کا تعارف کرایا ہے۔ انھیں مختصر تبصرہ کہہ سکتے ہیں۔’انجامِ گلستان‘ کے عنوان سے مدیرہ نے ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کے حوالے سے نہایت دردمندانہ اداریہ لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں جہاں ظلم ہو رہا ہے اس کے خلاف احتجاج کرنا اور آواز اُٹھانا ضروری ہے ورنہ خاموشی کا مفہوم یہ ہے کہ ہم ظالم کی حمایت کر رہے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
’’تو کیا یہ اُونٹوں کو نہیں دیکھتے کیسے بنائے گئے؟ (الغاشیہ: ۸۸:۱۷)۔ اس آیت قرآنی نے مصنف کو اس علمی، تحقیقی کتاب لکھنے کی طرف توجہ دلائی۔ ۱۲؍ابواب کی اس کتاب میں اُونٹ سے متعلق تمام ہی پہلو زیرمطالعہ آگئے ہیں۔
’قرآن کریم میں اُونٹ کا تذکرہ ‘ پہلا باب ہے۔ وہ ۲۰ آیات بیان کی گئی ہیں جن میں ۱۳مختلف الفاظ آئے ہیں جو اُونٹ کے لیے بیان ہوئے ہیں۔اُونٹ کو نہ صرف اللہ کی نشانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے بلکہ انسان سے اس پر غور کرنے کا سوال بھی کیا گیا ہے۔ باب کے آخیر میں اُردو اور انگریزی کتب اور مضامین کے حوالے ہیں۔ اس طرح کے حوالے ہر باب کے آخیر میں ہیں۔ بارھویں باب میں تو عربی زبان کے ۱۰۸ الفاظ بیان ہوئے جو مختلف خصوصیات کے حامل اُونٹوں کے لیے مستعمل ہیں۔
’اُونٹ ریگستان کا جہاز‘ کے حوالے سے سب ہی واقف ہیں۔ اس کتاب میں اُونٹ کی مزید افادیت تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ اس کے خون میں مخصوص قسم کی ضد اجسام ہیں جن کو نیٹوباڈیز کہا جاتا ہے۔ مصنف تحریر کرتے ہیں یہ اپنی ساخت اور فعالیت میں حیرت انگیز ہیں، اس لیے دنیابھر کی نگاہیں ان پر مرکوز ہوگئی ہیں اور انھوں نے دنیابھر کے ادویہ ساز اداروں کی فوری توجہ حاصل کرلی ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ جلد ہی اُونٹ کی ضداجسام کی ادویات عام فروخت کے لیے دستیاب ہوں گی اور سرطان، ایڈز اور کئی لاعلاج بیماریوں سے نجات حاصل کرلی جائے گی۔ اُونٹ کا دودھ ، فضلہ، گوشت اپنی کیمیاوی ساخت میں مختلف ہے اور طبی طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور جدیدتحقیقات کی روشنی میں بعض مہلک امراض میں اب بھی استعمال ہوتا ہے۔
اس حوالے سے مصنف کا یہ جملہ بہت اہم اور دل چسپ ہے کہ لاعلاج بیماریوں کے متوقع علاج کے حوالے سے اُونٹ کے لیے نیا لقب ’ادویاتی باربردار‘ استعمال کیا جا رہا ہے۔پاکستان کے تمام اہم کتب خانوں کے لیے یہ کتاب ایک وقیع اضافہ ہے۔(پروفیسر شہزادالحسن چشتی)
مصنف کے مطابق اللہ کی نعمتوں پر شکر کرنا اور پوری زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق گزارنا حقیقی ذکرِ الٰہی ہے۔ یہ ضخیم کتاب اسی کا سیرحاصل بیان ہے۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کی نوعیت کتاب سے زیادہ ایک طویل تقریر کی ہے جس میں کوئی ابواب نہیں ہیں بلکہ تقریباً ۴۵۰عنوانات کے تحت ایک مسلسل بیان ہے۔ جو موضوع بھی آتا ہے خواہ وہ نماز ہو، آخرت ہو یا دنیا ہو یا کوئی اور، اس کے بارے میں قرآن کی آیات، احادیث، و اقعات، ’حکایات‘ اشعار اور کوئی بھی عمل پر اُبھارنے والی بات بیان کی گئی ہے۔ معروف علما کی مختلف کتابوں سے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں اور اشعار بھی۔ بعض حکایات سے کوئی ایسا پیغام ملتا ہے جو قابلِ عمل نہیں، مثلاً ایک بزرگ کے بارے میں آیا کہ وہ لقمے چبانے کے بجاے ستُو گھول کر ۴۰سال تک اس لیے پیتے رہے کہ چبانے سے جو وقت بچتا تھا اس میں وہ ۷۰تسبیحات کرسکتے تھے۔ ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل نے اپنے نام سے اس کے آگے نوٹ دیا ہے کہ یہ ہمارے آپ کے لیے نہیں ہے۔
عبادت کا مفہوم اور نماز کے بیان میں سیّدمودودی کی خطبات سے مسلسل ۳۲صفحات نقل کیے گئے ہیں (ص ۲۲۱ تا ۲۵۳)۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ کتاب موجودہ زمانے کی کتاب معلوم ہوتی ہے۔ مسلمانوں پر پاکستان میں اور پوری اُمت مسلمہ پر جو وقت گزر رہا ہے اس کا حوالہ حسب ِ موقع دیا گیا ہے ۔ پوری کتاب میں جگہ جگہ خطاب بھائیو اور بہنو کر کے کیا گیا ہے۔ نظر آتا ہے کہ مصنف کو اپنے پڑھنے والوں کی بڑی فکر ہے اور وہ انھیں حقیقی ذکرِ الٰہی کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اوّل تا آخر پڑھنے کا حوصلہ نہ کریں تو جہاں سے بھی جتنے صفحے چاہے پڑھ لیں تو علم میں ہی نہیں ایمان میں بھی اضافہ ہوگا اور یقینا کچھ عمل کی اور زندگی کو صحیح راستے پر گزارنے کی توفیق ملے گی۔ پوری کتاب کو ایک بہت اچھی، جامع اور ہر پہلو کا احاطہ کرنے والی تذکیر کہا جاسکتا ہے۔(مسلم سجاد)
جماعت اسلامی کے حوالے سے یہ بات پھیلا دی گئی ہے کہ جماعت قیامِ پاکستان کی مخالف تھی۔ اس بات کا حقائق سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ اب محمودعالم صدیقی صاحب نے اس مختصر کتاب میں پانچ عنوانات کے تحت سب حقائق یک جا کرکے بیان کردیے ہیں۔ تقسیم سے قبل، تحریکِ پاکستان کے دوران، فسادات کے موقعے پر اور پاکستان کے حوالے سے جماعت اسلامی کے کردار کے بارے میں ضروری مستند تفصیلات بیان کردی گئی ہیں۔ اگر کوئی حقائق جاننا چاہتا ہو تو وہ سچائی تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بدنیتی سے حقائق جھٹلائے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ سیّدمنورحسن کے مطابق: مصنف سب باتیں چھان پھٹک کر سامنے لائے ہیں۔ یہ ایک اہم دستاویز ہے جو نوجوان نسل کو تحریک کی سچائی سے آگاہ کرے گی۔ مجموعی طور پر یہ کتاب جماعت اسلامی کے لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ ہے‘‘(ص۴۰)۔(مسلم سجاد)
قبل ازیں بھی بعض اہلِ علم کی اس جیسی کوششیں ظہور میں آتی رہی ہیں مگر وہ عربی میں تھیں۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ سلیس اُردو زبان میں لکھی گئی ہے، نیز یہ براہِ راست عوام کی ضرورت اور ذہنی سطح کے عین مطابق ہے۔ کتاب میں مسائل کو معروف دینی موضوعاتی ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔ عقائد کے بعد عبادات اور پھر معاملات کا ذکرہے۔ کُل ۱۳۸۹ مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب میں مولانا عبدالمالک اور دیگر علما کی تقریظات سے کتاب کے مندرجات کا درجۂ استناد بڑھ گیا ہے۔ کتاب معاشرے کی اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے۔
دینی مسائل کے بارے میں عام تاثر ہے کہ ان میں بہت اختلافات ہیں۔ اختلاف اگر حدود کے اندر ہو، قرآن اور اجماعِ اُمت کے خلاف نہ ہو تو اس وسعت سے عمل کر نے والوں کو سہولت فراہم ہوتی ہے، تاہم بیش تر اور بنیادی مسائل متفقہ ہیں۔ یہی واضح کرنے کے لیے یہ کتاب مرتب کی گئی ہے۔(عبدالحق ہاشمی)
جولائی اور اگست ۲۰۱۴ء کے مہینوں میں اہلِ غزہ پر قیامت گزری۔ غزہ پر کیا گزری؟ دراصل اسی قیامت کاتذکرہ ہے۔ پانچ ابواب پر مشتمل یہ مختصرسی کتاب جہاں فلسطینیوں کی جدوجہد سے روشناس کرانے کا ذریعہ ہے وہیں اسرائیلی جبر اور اس کے سرپرستوں کا پردہ چاک کرتی ہے اور اُمت مسلمہ کی بے چارگی، بے بسی اور بے حسی کا نوحہ بھی ہے۔ فلسطین کی تاریخ ، محلِ وقوع حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتح، صہیونیت کی ابتدا اور اقدامات، برطانوی رویہ، حماس کی تاسیس اور موجودہ صورت، حماس کی لیڈرشپ کا تعارف، مراحل، طریق کار، جدوجہد اور تازہ اسرائیلی واردات پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ تصاویر کتاب کی افادیت اور کشش میں اضافہ کرتی ہیں۔(عمران ظہور غازی)
o رسولؐ اللہ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ ، سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات:۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [تحریکِ نظامِ مصطفیؐ کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ریڈیو پاکستان کے نمایندے جناب ناصرقریشی اور جناب عبدالوحید خان نے مولانا مودودیؒ سے رسولِ کریمؐ کے نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کے نفاذ کے بارے میں ایک طویل تاریخی انٹرویو ۷ اور ۸؍اپریل ۱۹۷۸ء کو لیا تھا، جسے بعد میں مولانامودودی کی نظرثانی کے بعد شائع بھی کیا گیا۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے اسے ذیلی عنوانات کے ساتھ دوبارہ شائع کیا ہے۔ اسلامی نظامِ حکومت کے تصور، موجودہ دور میں اس کے نفاذ اور اس بارے میں غلط فہمیوں کے حوالے سے ایک مختصر اور جامع تحریر ہے۔ تاہم پروف کی اغلاط توجہ چاہتی ہیں۔]
o اللہ میرے دل کے اندر ، ملک احمد سرور، ناشر: مکتبہ تعمیر انسانیت ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۷۲۳۷۵۰۰-۰۳۳۳۔صفحات:۵۵۲۔ قیمت: ۷۹۵ روپے۔[زیادہ دل چسپی سے پڑھی جانے والی کتابوں میں آج کل ایسی کتابیں زیادہ مقبول ہیں جو قبولِ اسلام کی تفصیل بتاتی ہیں۔ اسی قبیل کی ایک وقیع اور خوب صورت کتاب بیدار ڈائجسٹ اور خطیب کے مدیر اور نام وَر صحافی ملک احمد سرور صاحب نے مرتب کی ہے جو سرورق کے مطابق: ’’ممتاز غیرمسلم شخصیات کے قبولِ اسلام کی داستانوں‘‘ پر مشتمل ہے۔ جن میں ہندو بھی ہیں، عیسائی بھی، اور لامذہب اور یہودی بھی۔ مرتب نے، جہاں ممکن ہوا، نومسلم کا شخصی تعارف بھی دے دیا ہے۔ بعض خود نوشتیں بھی ہیں، کچھ انٹرویو ہیں اور چند داستانیں مضامین کی شکل میں ہیں۔ ڈاکٹر خالد علوی صاحب نے اس پر مفصل دیباچہ سپردِقلم کیا ہے۔ ان کے الفاظ میں: ’’یہ ایک شان دار مرقع ہے۔ کفر کی یلغار کے ان بے رحم موسموں میں یہ کتاب اعتماد کی ایک کرن ہے‘‘۔]
o علامہ اقبال کا خطبۂ صدارت ، اسلم عزیز درّانی۔ ناشر: بیکن بکس ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۶+۴۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [علامہ اقبال کے تاریخ ساز خطبہ الٰہ آباد ۱۹۳۰ء کا انگرزی متن اور اُردو ترجمہ اور اس پر ۱۵ حواشی و تعلیقات۔ خطبے کا تعارف اُردو اور انگریزی دونوں حصوں میں شامل ہے۔ بیکن بکس نے اسے دوسری بار بہتر معیارِطباعت پر شائع کیا ہے۔]
o اشاریہ جہانِ حمد ، مرتب: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق۔ ناشر: جہانِ حمد پبلی کیشنز، حمدونعت ریسرچ سنٹر، نوشین سینٹر، سیکنڈفلور، کمرہ نمبر۱۹،اُردو بازار، کراچی۔ صفحات:۳۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔[یہ ایک موضوعاتی رسالے جہانِ حمد کے ۱۹شماروں (جون ۱۹۹۸ء تا ۲۰۱۱ء )کا زیرنظر اشاریہ ہے۔ اس میں رسالے کے متعدد خاص نمبروں (نعت نمبر، مناجات نمبر، قرآن نمبر یا بہزاد لکھنوی نمبر، صبا اکبر آبادی، علامہ اقبال، امام احمد رضا نمبر وغیرہ) کے مضامین و مقالات، تبصرئہ کتب اور حمدومناجات کے حوالے سے الگ الگ گوشوں میں دیے گئے ہیں۔ مقالات و مضامین کا اشاریہ عنوانات کے لحاظ سے بھی مرتب کیا گیا ہے۔ اگر آپ یہ معلوم کرنا چاہیں کہ کسی خاص شاعر کی کوئی حمد یا نعت جہان حمد میں کب چھپی ہے یا چھپی بھی ہے یا نہیں، تو اس اشاریے سے فی الفور جواب مل جائے گا۔ حمدیہ اور نعتیہ رباعیات، حمدیہ و نعتیہ اشعار، قطعات، منظومات اور حمدومناجات کے عنوانات کے تحت الگ الگ مصنف وار اشاریے مرتب کیے گئے ہیں جو ہمارے خیال میں یک جا ہونے چاہیے۔ ’پیغامات و تاثرات‘ کا اشاریہ بھی بہ اعتبار مصنفین شامل ہے۔ خطوط اور انٹرویو کا اشاریہ الگ ہے، اسی طرح نذرانہ ہاے عقیدت کا الگ۔]
قرآن کریم نے انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد یہ بتایا ہے کہ وہ معاشرے میں عدل قائم کریں (الحدید ۵۷:۲۱)، اور سورئہ رحمن میں تو یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ تمام کائنات ایک میزانِ عدل پر قائم ہے (۵۵:۲)۔ اس طرح اور متعدد مقامات پر عدل و انصاف کی تلقین کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر سواتی کی زیرتبصرہ کتاب اسلام کے نظامِ عدل کے اہم موضوع پر بڑی جامع تصنیف ہے۔ یہ علمی اور تحقیقی کتاب جو حقیقتاً ایک دائرۃ المعارف کا مقام رکھتی ہے، ان کی تمام زندگی کی کاوش کا ماحصل ہے۔
ڈاکٹر سواتی نے ۱۹۷۲ء میں، لندن یونی ورسٹی میںاس موضوع پر اپنا تحقیقی مطالعہ پیش کیا تھا اور اس کے بعد وہ مختلف یونی ورسٹیوں میں اپنی ملازمت کے دوران اس موضوع پر تحقیق کرتے رہے اور اپنے ذاتی کتب خانے میں قیمتی اور نادر ذخیرہ بھی جمع کرتے رہے۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے ۸۰۰ سے زائد صفحات کی ضخیم کتاب میں اسلام کے نظامِ قضا کے تمام اہم اور امتیازی پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔
کتاب کا آغاز مصنف نے عہدِ جاہلیت کے نظامِ قضا سے کیا ہے اور اس امر کی عقدہ کشائی کی ہے کہ اس دور کو دورِ جاہلیت کیوں کہا جاتا ہے اور اس ضمن میں جاہلی عصبیت و حمیت اور دیگر بُرائیوں کی وضاحت کی ہے۔ دوسرے ابواب میں قرآن کے حوالے سے اس نظام پر جو تنقید کی ہے اس کا ذکر ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصد، توحید کا اعلان اور عدل و انصاف کے نظام کا قیام زیربحث آیا ہے۔ اس ضمن میں حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے دو مقدموں کا تذکرہ ہے۔
اس کے بعد کے ابواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے عدالتی نظام کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور پھر ادب القاضی کے حوالے سے عدالتی قوانین پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے اور پھر اس ضمن میں پولیس، قیدخانوں اور محکمہ الحسبہ کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
کتاب کو دو حصوں اور ۱۱؍ ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے اور تین کتابیات کی فہرست تقریباً ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہے جس میں ۱۸۰۰ سے زائد کتابیں شامل ہیں جو اساتذہ اور طلبا کے لیے بڑی مفید معلومات کا خزانہ ہے۔ اصل کتاب انگریزی میں ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی تھی جس کی علمی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی تھی۔ اب اسے ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی نے جو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں لیکچرار ہیں بامحاورہ اور سلیس اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کی سلاست اور روانی سے اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ ہے۔ کتاب اعلیٰ معیار پر اچھی کتابت اور طباعت کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ اُمید ہے صاحب ِ علم حضرات اور طلبا اس جامع اور مستند علمی کتاب سے استفادہ کریں گے اور برعظیم کے کتب خانوں میں یہ جگہ پائے گی۔(عبدالرشید صدیقی)
عرب کے مشہور شاعر متنبی جس کی مدح کرتا اُسے آسمان پر اٹھاکر ماورائی مخلوق بنالیتا، اسی طرح جب کسی کی ہجوکرتا تو اسے انسانیت کے دائرے سے نکال کر اسفل السافلین بنا کردَم لیتا۔ یہی حال ہمارے اکثر قلم کاروں کا ہے ۔وہ جب بھی کسی شخصیت پر قلم اُٹھاتے ہیں تو دونوں انتہاؤں میں سے ایک پر ہوتے ہیں۔حکمرانوں،سیاست دانوں اور با اثر شخصیات کے خاکوں اور سوانح میں بالخصوص اپنے پسندیدہ اور ناپسندیدہ رنگ اہتمام سے بھرے جاتے ہیں۔ عام آدمی تک صحیح معلومات نہ پہنچنے کی وجہ سے وہ یا تو رہزن کو رہبر سمجھنے لگتا ہے یا پھر ’سب چورہیں ‘ کہتے ہوئے قومی واجتماعی معاملات سے دامن جھٹک کر الگ ہوجاتا ہے۔بارِ شناسائی اس معاملے میں ایک مختلف اور منفرد کتاب ہے۔کتاب کے مصنف کرامت اللہ غوری وزارت خارجہ کے بیوروکریٹ اورایک طویل عرصے تک مختلف ممالک میں پاکستان کے سفارت کار رہے ہیں۔خوش گوار حیرت کی بات یہ ہے کہ سفارت کاری کے ساتھ ساتھ مصنف کا قلم قبیلے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ان کی تازہ تصنیف بارِشناسائی دراصل ان کی اُن یاداشتوں کا مجموعہ ہے جو ہمارے حکمرانوں: وزراے اعظم،صدور،کابینہ کے اراکین،کمیٹیوں کے سربراہان اوردیگر اہم شخصیات سے متعلق ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نوازشریف اور بے نظیر تک کے حکمرانوں،نوابزادہ نصراللہ خان ،مولانا فضل الرحمٰن،حکیم محمد سعید،فیض احمد فیض اور ڈاکٹرعبدالسلام جیسی شخصیات کے تذکرے اس کتاب کا حصہ ہیں۔دل آویزاسلوب،بے لاگ تبصرے اورشخصیات کے نفسیاتی تجزیے اس کتاب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔مصنف نے پیش لفظ میں لکھاہے: ’’میں نے توصرف وہ خاکے مرتّب کیے ہیں جو میرے مشاہدے کی آنکھ سے گزرکرمیرے ذہن کے کینوس پراپنے تاثرات چھوڑگئے ہیں۔میں نے صرف وہی لکھا ہے جو میں نے دیکھا اور محسوس کیا‘‘۔(ص ۲۶)
مصنف نے ضیاء الحق کے کردارکے دونوں پہلو بیان کرنے کے بعد ان کی عجزوانکسار، کھرے پن اور نرم خوئی کی کھل کر تعریف کی ہے، لکھتے ہیں:’’ وہ بلاشبہہ ایک انتہائی متنازع شخصیت تھے اور رہیں گے لیکن ایک حقیقت جس کا میں آج بھی بلا خوف تردید اعادہ اور توارد کر سکتا ہوں یہ ہے کہ میں نے ۳۵برس کی سفارتی اور سرکاری ملازمت کی تمام مدت میں ضیاء الحق سے زیادہ نرم خواور حلیم انسان نہیں دیکھا۔ کوئی بھی دیانت دار مؤرخ ان کے خلق اور اخلاق کے ضمن میں میرے بیان کی تردیدنہیں کرسکے گا‘‘۔ (ص۷۲)
ذوالفقار علی بھٹو کے غرور و تکبر ،سخت گیری اور درشت مزاجی کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ: ’’بھٹوصاحب کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ وہ اپنے مزاج اور اپنی اَنا پرست نفسیات سے اپنی موروثی وڈیرہ ذہنیت کو کبھی جدا نہیں کرسکے۔‘‘ (ص۲۸)
مصنف نے بے نظیر کی ذہانت ،فطانت اور معاملہ فہمی کے ساتھ ساتھ وزیروں مشیروں کے انتخاب میں ان کی قوتِ فیصلہ اور اصابتِ راے کی ناکامی، نواز شریف کے حُسنِ سلوک اور کھانے پینے کے حد سے بڑھے ہوئے شوق،محمد خان جونیجو کی سادہ لوحی اور برتری کے گھمنڈ میں مبتلا پرویزمشرف کی آمریت کے واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔علاوہ ازیں اس کتا ب میں مال و دولت کے پجاری،پروٹوکول کے بھوکے،شہرت کے طلب گار،سیاحت اور شاپنگ کے شوقین نااہل اور کارِسرکار سے بے نیاز وزیروں اور مشیروں کے چہروں سے بھی نقاب کشائی کی گئی ہے۔
دیکھا جائے تو زیر نظر کتاب میں کوئی بھی بات ایسی نہیں جو ہمیں پہلے سے معلوم نہ ہو لیکن اس کے باوجود اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ایک معتبرچشم دید گواہ کی شہادت ہے۔آخر میں مصنف نے وطن عزیز کے زبوں حالی کی درست تشخیص کرتے ہوئے ہماری سیاست اور سیاسی کلچرمیں جاگیرداروں اور وڈیروں کے تسلط کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ طبقہ جسے صرف اور صرف اپنے مفاد سے محبت ہے اور اپنی غرض ہی ان کو عزیز ہے، ملک چاہے جائے بھاڑ میں، جونک کی طرح ہمارے سیاسی نظام سے چمٹاہواہے اور اس کا خون چُوس رہاہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ہمارے ہاں روزافزوں جہالت اور تعلیم کی کمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا شمار معدودے چندممالک میں ہوتا ہے جہاں ان پڑھ لوگوں کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے۔ جس تیزی سے ہماری آبادی میں اضافہ ہورہاہے، ملک میں تعلیم وتدریس کی سہولتیں اس رفتارکاساتھ نہیں دے رہی ہیں۔ (ص۱۸۱)
وہ لکھتے ہیں کہ: ’’ملک کی سیاست اور سیاسی عمل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہرفوجی آمر نے جاگیرداروں اور وڈیروں کوشریک اقتدارکیاتھا، اس لیے کہ اقتدارکے بھوکے یہ جاگیرداراپنی قیمت لگوانے میں کسی اخلاقی ضابطے یااصول کے اسیرنہیں ہوتے۔ جو ان کی مانگ پوری کردے اور انھیں لوٹ مارکرنے کے لیے اپنی سرپرستی فراہم کردے، وہ اس کے ساتھ شریک بھی ہوجاتے ہیں اور اس کے ہاتھ بھی مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہوجاتے ہیں‘‘۔ (ص۱۸۲)
مزید لکھتے ہیں کہ: ’’عوامی انقلاب کی فتح کے بعد ماؤنے سب سے پہلا کام یہ کیاکہ جاگیرداروں اور زمین داروں کا قلع قمع کردیا۔ اسی طرح امام خمینی نے بھی ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعدان شاہ پرستوں اور استحصال پسندوں کو تہہ تیغ کردیاجنھوں نے ایران کے غریب عوام کا جینا دوبھرکررکھاتھا‘‘۔ وہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے خاتمے میں سمجھتے ہیں۔اس بات کو اگر اس کتاب کا حاصل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خالصتاًپاکستان سے متعلق اور پاکستانیوں کے لیے لکھی ہوئی اس کتاب کا پہلا ایڈیشن پاکستان کے بجاے بھارت(دہلی) سے شائع ہوا تھا۔(حمیداللّٰہ خٹک)
ایچ ای سی سے منظورشدہ جریدے الایام کا تازہ شمارہ تحقیقی وتنقیدی مقالوں، مفصل اور مختصر تبصروں اوررفتگان کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ الطاف حسین حالی کے صدسالہ یومِ ولادت کی مناسبت سے چار اُردو مضمون اور ایک انگریزی مقالہ شامل ہے۔ ایچ ای سی کے رسالوں میں اب بھرتی کی چیزیں بھی چھپنے لگی ہیں۔ الایام نے اس کا خیال رکھا ہے، چنانچہ زیرنظر مضامین و مقالات سارے ہی عمدہ اور معیاری ہیں۔
عمومی خیال کے مطابق مسدس حالی مسلم قوم کی داستانِ زوال و انحطاط اور اس پر ایک پُرتاثیر مرثیہ ہے۔ پروفیسر منیرواسطی نے بشدّت اس کی تردید کی ہے۔ انھوں نے متعدد معروف ناقدینِ ادب کے حوالے دیتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ مسدس زوال و انحطاط کی داستان نہیں، تجدید واحیا اور نشاتِ ثانیہ کا راستہ ہے، غیرملکی غلبہ اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ طویل نظم مسلم تشخص پر زور دیتی ہے اور اس سے قدرتی طور پر ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
خالد ندیم نے ’شبلی و حالی: تعلقات کا ازسرِنو جائزہ‘ میں بہ دلائل تردید کی ہے کہ شبلی اور حالی کے درمیان کسی طرح کی ’معاصرانہ چشمک‘ تھی۔ ’’ثابت ہوجاتا ے کہ دونوں بزرگوں کے درمیان احترام کا رشتہ زندگی بھر قائم رہا‘‘۔ (ص ۲۱۱)
’بیاد رفتگان‘ میں مارچ ۲۰۱۴ء کے بعد سے ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء تک (کے درمیان دنیاے فانی سے کوچ کرنے والی ۱۴ شخصیات کا مختصر تعارف شامل ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس عرصے میں فوت ہونے والی دو شخصیات محمد قطب (م: ۴؍اپریل ۲۰۱۴ء ، جدہ) اور ڈاکٹر ذوالفقار علی ملک (۸؍اگست ۲۰۱۴ئ، لاہور) کا تذکرہ رہ گیا۔ شاہد حنائی کا تفصیلی مکتوب عبرت ناک ہے اور سبق آموز بھی۔ہمارا خیال ہے علمی مقالات میں آیاتِ قرآنی اور متونِ حدیث پر اِعراب کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر سہیل شفیق نے ۲۱نئی کتابوں اور رسائل کا تعارف کرایا ہے۔ انھیں مختصر تبصرہ کہہ سکتے ہیں۔’انجامِ گلستان‘ کے عنوان سے مدیرہ نے ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کے حوالے سے نہایت دردمندانہ اداریہ لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں جہاں ظلم ہو رہا ہے اس کے خلاف احتجاج کرنا اور آواز اُٹھانا ضروری ہے ورنہ خاموشی کا مفہوم یہ ہے کہ ہم ظالم کی حمایت کر رہے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
اُونٹ (تخلیق کے اسرار سے جدید طبی فوائد تک)، ڈاکٹرسیّدصلاح الدین قادری۔ ناشر: فضلی بک، سپرمارکیٹ، نزد ریڈیو پاکستان ، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۶۲۹۷۲۴-۰۲۱۔صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: درج نہیں۔
’’تو کیا یہ اُونٹوں کو نہیں دیکھتے کیسے بنائے گئے؟ (الغاشیہ: ۸۸:۱۷)۔ اس آیت قرآنی نے مصنف کو اس علمی، تحقیقی کتاب لکھنے کی طرف توجہ دلائی۔ ۱۲؍ابواب کی اس کتاب میں اُونٹ سے متعلق تمام ہی پہلو زیرمطالعہ آگئے ہیں۔
’قرآن کریم میں اُونٹ کا تذکرہ ‘ پہلا باب ہے۔ وہ ۲۰ آیات بیان کی گئی ہیں جن میں ۱۳مختلف الفاظ آئے ہیں جو اُونٹ کے لیے بیان ہوئے ہیں۔اُونٹ کو نہ صرف اللہ کی نشانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے بلکہ انسان سے اس پر غور کرنے کا سوال بھی کیا گیا ہے۔ باب کے آخیر میں اُردو اور انگریزی کتب اور مضامین کے حوالے ہیں۔ اس طرح کے حوالے ہر باب کے آخیر میں ہیں۔ بارھویں باب میں تو عربی زبان کے ۱۰۸ الفاظ بیان ہوئے جو مختلف خصوصیات کے حامل اُونٹوں کے لیے مستعمل ہیں۔
’اُونٹ ریگستان کا جہاز‘ کے حوالے سے سب ہی واقف ہیں۔ اس کتاب میں اُونٹ کی مزید افادیت تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ اس کے خون میں مخصوص قسم کی ضد اجسام ہیں جن کو نیٹوباڈیز کہا جاتا ہے۔ مصنف تحریر کرتے ہیں یہ اپنی ساخت اور فعالیت میں حیرت انگیز ہیں، اس لیے دنیابھر کی نگاہیں ان پر مرکوز ہوگئی ہیں اور انھوں نے دنیابھر کے ادویہ ساز اداروں کی فوری توجہ حاصل کرلی ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ جلد ہی اُونٹ کی ضداجسام کی ادویات عام فروخت کے لیے دستیاب ہوں گی اور سرطان، ایڈز اور کئی لاعلاج بیماریوں سے نجات حاصل کرلی جائے گی۔ اُونٹ کا دودھ ، فضلہ، گوشت اپنی کیمیاوی ساخت میں مختلف ہے اور طبی طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور جدیدتحقیقات کی روشنی میں بعض مہلک امراض میں اب بھی استعمال ہوتا ہے۔
اس حوالے سے مصنف کا یہ جملہ بہت اہم اور دل چسپ ہے کہ لاعلاج بیماریوں کے متوقع علاج کے حوالے سے اُونٹ کے لیے نیا لقب ’ادویاتی باربردار‘ استعمال کیا جا رہا ہے۔پاکستان کے تمام اہم کتب خانوں کے لیے یہ کتاب ایک وقیع اضافہ ہے۔(پروفیسر شہزادالحسن چشتی)
مصنف کے مطابق اللہ کی نعمتوں پر شکر کرنا اور پوری زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق گزارنا حقیقی ذکرِ الٰہی ہے۔ یہ ضخیم کتاب اسی کا سیرحاصل بیان ہے۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کی نوعیت کتاب سے زیادہ ایک طویل تقریر کی ہے جس میں کوئی ابواب نہیں ہیں بلکہ تقریباً ۴۵۰عنوانات کے تحت ایک مسلسل بیان ہے۔ جو موضوع بھی آتا ہے خواہ وہ نماز ہو، آخرت ہو یا دنیا ہو یا کوئی اور، اس کے بارے میں قرآن کی آیات، احادیث، و اقعات، ’حکایات‘ اشعار اور کوئی بھی عمل پر اُبھارنے والی بات بیان کی گئی ہے۔ معروف علما کی مختلف کتابوں سے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں اور اشعار بھی۔ بعض حکایات سے کوئی ایسا پیغام ملتا ہے جو قابلِ عمل نہیں، مثلاً ایک بزرگ کے بارے میں آیا کہ وہ لقمے چبانے کے بجاے ستُو گھول کر ۴۰سال تک اس لیے پیتے رہے کہ چبانے سے جو وقت بچتا تھا اس میں وہ ۷۰تسبیحات کرسکتے تھے۔ ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل نے اپنے نام سے اس کے آگے نوٹ دیا ہے کہ یہ ہمارے آپ کے لیے نہیں ہے۔
عبادت کا مفہوم اور نماز کے بیان میں سیّدمودودی کی خطبات سے مسلسل ۳۲صفحات نقل کیے گئے ہیں (ص ۲۲۱ تا ۲۵۳)۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ کتاب موجودہ زمانے کی کتاب معلوم ہوتی ہے۔ مسلمانوں پر پاکستان میں اور پوری اُمت مسلمہ پر جو وقت گزر رہا ہے اس کا حوالہ حسب ِ موقع دیا گیا ہے ۔ پوری کتاب میں جگہ جگہ خطاب بھائیو اور بہنو کر کے کیا گیا ہے۔ نظر آتا ہے کہ مصنف کو اپنے پڑھنے والوں کی بڑی فکر ہے اور وہ انھیں حقیقی ذکرِ الٰہی کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اوّل تا آخر پڑھنے کا حوصلہ نہ کریں تو جہاں سے بھی جتنے صفحے چاہے پڑھ لیں تو علم میں ہی نہیں ایمان میں بھی اضافہ ہوگا اور یقینا کچھ عمل کی اور زندگی کو صحیح راستے پر گزارنے کی توفیق ملے گی۔ پوری کتاب کو ایک بہت اچھی، جامع اور ہر پہلو کا احاطہ کرنے والی تذکیر کہا جاسکتا ہے۔(مسلم سجاد)
جماعت اسلامی کے حوالے سے یہ بات پھیلا دی گئی ہے کہ جماعت قیامِ پاکستان کی مخالف تھی۔ اس بات کا حقائق سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ اب محمودعالم صدیقی صاحب نے اس مختصر کتاب میں پانچ عنوانات کے تحت سب حقائق یک جا کرکے بیان کردیے ہیں۔ تقسیم سے قبل، تحریکِ پاکستان کے دوران، فسادات کے موقعے پر اور پاکستان کے حوالے سے جماعت اسلامی کے کردار کے بارے میں ضروری مستند تفصیلات بیان کردی گئی ہیں۔ اگر کوئی حقائق جاننا چاہتا ہو تو وہ سچائی تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بدنیتی سے حقائق جھٹلائے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ سیّدمنورحسن کے مطابق: مصنف سب باتیں چھان پھٹک کر سامنے لائے ہیں۔ یہ ایک اہم دستاویز ہے جو نوجوان نسل کو تحریک کی سچائی سے آگاہ کرے گی۔ مجموعی طور پر یہ کتاب جماعت اسلامی کے لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ ہے‘‘(ص۴۰)۔(مسلم سجاد)
قبل ازیں بھی بعض اہلِ علم کی اس جیسی کوششیں ظہور میں آتی رہی ہیں مگر وہ عربی میں تھیں۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ سلیس اُردو زبان میں لکھی گئی ہے، نیز یہ براہِ راست عوام کی ضرورت اور ذہنی سطح کے عین مطابق ہے۔ کتاب میں مسائل کو معروف دینی موضوعاتی ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔ عقائد کے بعد عبادات اور پھر معاملات کا ذکرہے۔ کُل ۱۳۸۹ مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب میں مولانا عبدالمالک اور دیگر علما کی تقریظات سے کتاب کے مندرجات کا درجۂ استناد بڑھ گیا ہے۔ کتاب معاشرے کی اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے۔
دینی مسائل کے بارے میں عام تاثر ہے کہ ان میں بہت اختلافات ہیں۔ اختلاف اگر حدود کے اندر ہو، قرآن اور اجماعِ اُمت کے خلاف نہ ہو تو اس وسعت سے عمل کر نے والوں کو سہولت فراہم ہوتی ہے، تاہم بیش تر اور بنیادی مسائل متفقہ ہیں۔ یہی واضح کرنے کے لیے یہ کتاب مرتب کی گئی ہے۔(عبدالحق ہاشمی)
جولائی اور اگست ۲۰۱۴ء کے مہینوں میں اہلِ غزہ پر قیامت گزری۔ غزہ پر کیا گزری؟ دراصل اسی قیامت کاتذکرہ ہے۔ پانچ ابواب پر مشتمل یہ مختصرسی کتاب جہاں فلسطینیوں کی جدوجہد سے روشناس کرانے کا ذریعہ ہے وہیں اسرائیلی جبر اور اس کے سرپرستوں کا پردہ چاک کرتی ہے اور اُمت مسلمہ کی بے چارگی، بے بسی اور بے حسی کا نوحہ بھی ہے۔ فلسطین کی تاریخ ، محلِ وقوع حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتح، صہیونیت کی ابتدا اور اقدامات، برطانوی رویہ، حماس کی تاسیس اور موجودہ صورت، حماس کی لیڈرشپ کا تعارف، مراحل، طریق کار، جدوجہد اور تازہ اسرائیلی واردات پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ تصاویر کتاب کی افادیت اور کشش میں اضافہ کرتی ہیں۔(عمران ظہور غازی)
o رسولؐ اللہ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ ، سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات:۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [تحریکِ نظامِ مصطفیؐ کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ریڈیو پاکستان کے نمایندے جناب ناصرقریشی اور جناب عبدالوحید خان نے مولانا مودودیؒ سے رسولِ کریمؐ کے نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کے نفاذ کے بارے میں ایک طویل تاریخی انٹرویو ۷ اور ۸؍اپریل ۱۹۷۸ء کو لیا تھا، جسے بعد میں مولانامودودی کی نظرثانی کے بعد شائع بھی کیا گیا۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے اسے ذیلی عنوانات کے ساتھ دوبارہ شائع کیا ہے۔ اسلامی نظامِ حکومت کے تصور، موجودہ دور میں اس کے نفاذ اور اس بارے میں غلط فہمیوں کے حوالے سے ایک مختصر اور جامع تحریر ہے۔ تاہم پروف کی اغلاط توجہ چاہتی ہیں۔]
o اللہ میرے دل کے اندر ، ملک احمد سرور، ناشر: مکتبہ تعمیر انسانیت ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۷۲۳۷۵۰۰-۰۳۳۳۔صفحات:۵۵۲۔ قیمت: ۷۹۵ روپے۔[زیادہ دل چسپی سے پڑھی جانے والی کتابوں میں آج کل ایسی کتابیں زیادہ مقبول ہیں جو قبولِ اسلام کی تفصیل بتاتی ہیں۔ اسی قبیل کی ایک وقیع اور خوب صورت کتاب بیدار ڈائجسٹ اور خطیب کے مدیر اور نام وَر صحافی ملک احمد سرور صاحب نے مرتب کی ہے جو سرورق کے مطابق: ’’ممتاز غیرمسلم شخصیات کے قبولِ اسلام کی داستانوں‘‘ پر مشتمل ہے۔ جن میں ہندو بھی ہیں، عیسائی بھی، اور لامذہب اور یہودی بھی۔ مرتب نے، جہاں ممکن ہوا، نومسلم کا شخصی تعارف بھی دے دیا ہے۔ بعض خود نوشتیں بھی ہیں، کچھ انٹرویو ہیں اور چند داستانیں مضامین کی شکل میں ہیں۔ ڈاکٹر خالد علوی صاحب نے اس پر مفصل دیباچہ سپردِقلم کیا ہے۔ ان کے الفاظ میں: ’’یہ ایک شان دار مرقع ہے۔ کفر کی یلغار کے ان بے رحم موسموں میں یہ کتاب اعتماد کی ایک کرن ہے‘‘۔]
o علامہ اقبال کا خطبۂ صدارت ، اسلم عزیز درّانی۔ ناشر: بیکن بکس ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۶+۴۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [علامہ اقبال کے تاریخ ساز خطبہ الٰہ آباد ۱۹۳۰ء کا انگرزی متن اور اُردو ترجمہ اور اس پر ۱۵ حواشی و تعلیقات۔ خطبے کا تعارف اُردو اور انگریزی دونوں حصوں میں شامل ہے۔ بیکن بکس نے اسے دوسری بار بہتر معیارِطباعت پر شائع کیا ہے۔]
o اشاریہ جہانِ حمد ، مرتب: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق۔ ناشر: جہانِ حمد پبلی کیشنز، حمدونعت ریسرچ سنٹر، نوشین سینٹر، سیکنڈفلور، کمرہ نمبر۱۹،اُردو بازار، کراچی۔ صفحات:۳۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔[یہ ایک موضوعاتی رسالے جہانِ حمد کے ۱۹شماروں (جون ۱۹۹۸ء تا ۲۰۱۱ء )کا زیرنظر اشاریہ ہے۔ اس میں رسالے کے متعدد خاص نمبروں (نعت نمبر، مناجات نمبر، قرآن نمبر یا بہزاد لکھنوی نمبر، صبا اکبر آبادی، علامہ اقبال، امام احمد رضا نمبر وغیرہ) کے مضامین و مقالات، تبصرئہ کتب اور حمدومناجات کے حوالے سے الگ الگ گوشوں میں دیے گئے ہیں۔ مقالات و مضامین کا اشاریہ عنوانات کے لحاظ سے بھی مرتب کیا گیا ہے۔ اگر آپ یہ معلوم کرنا چاہیں کہ کسی خاص شاعر کی کوئی حمد یا نعت جہان حمد میں کب چھپی ہے یا چھپی بھی ہے یا نہیں، تو اس اشاریے سے فی الفور جواب مل جائے گا۔ حمدیہ اور نعتیہ رباعیات، حمدیہ و نعتیہ اشعار، قطعات، منظومات اور حمدومناجات کے عنوانات کے تحت الگ الگ مصنف وار اشاریے مرتب کیے گئے ہیں جو ہمارے خیال میں یک جا ہونے چاہیے۔ ’پیغامات و تاثرات‘ کا اشاریہ بھی بہ اعتبار مصنفین شامل ہے۔ خطوط اور انٹرویو کا اشاریہ الگ ہے، اسی طرح نذرانہ ہاے عقیدت کا الگ۔]
’رسائل و مسائل‘ حصہ اوّل کے ایک مضمون سے متعلق
ایک ضروری استدراک
(ہمیں مولانا مودودی کی جانب سے جیل کی سنسرشدہ مندرجہ ذیل تحریر وصول ہوئی ہے۔ آپ کے حسب ِ ہدایت اسے ترجمان میں شائع کیا جارہا ہے تاکہ جن اصحاب کے پاس یہ کتاب ہو، وہ عبارتیں تبدیل کرلیں۔ ان شاء اللہ طبع سوم میں اصل کتاب کے اندر بھی یہ اصلاحات کردی جائیں گی)۔
ایک دوست نے مجھے رسائل و مسائل حصہ اوّل کے مضمون ’تحقیق حدیث دجال‘ کی طرف توجہ دلائی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس کے بعض الفاظ اور فقروں سے جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا پہلو نکلتا ہے۔
معاذاللہ، کیا کوئی مسلمان اس بارگاہ میں گستاخی کا کبھی خیال بھی کرسکتا ہے؟ اور اگر کرے تو ایک لمحے کے لیے بھی دائرۂ ایمان میں رہ سکتا ہے؟ میرے کسی دینی بھائی کو یہ سوء ظن تو مجھ سے نہ کرنا چاہیے کہ میں کبھی اس کفر سے بھی ملوث ہوسکتا ہوں ، البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی مسئلے کے بیان میں ایک طرزِتعبیر میرے نزدیک حدودِ شرع و ادب کے اندر ہو اور دوسرا اس میں کوئی تجاوز محسوس کرے۔ میں نے اس مضمون میں جو کچھ لکھا تھا پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ یہی سمجھتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ حدِشرع و ادب کے اندر ہے اور اب بھی،اپنے دوست کے توجہ دلانے کے بعد، کافی غور کرنے پر بھی مَیں اس میں کوئی تجاوز محسوس نہیں کرسکا ہوں۔ تاہم یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ کوئی شخص اس میں تجاوز محسوس کرسکتا ہے، میں ان عبارتوں کو بدل دینا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں تاکہ کسی غلط فہمی کی گنجایش باقی نہ رہے۔ (’ایک ضروری استدراک‘، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۴۳، عدد۵، جمادی الاولیٰ ۱۳۷۴ھ، فروری ۱۹۵۵ئ،ص ۷۲)
[اس کے بعد مولانا مودودی نے ص۵۵ ، سطر ۸ تا ۱۰، ص ۶۵، سطر ۵تا ۱۱، اور ص ۵۷ ، سطر ۴ تا ۵ اور سطر ۷ تا ۹ کے لیے متبادل تحریریں دی ہیں]۔
______________