اگست ۲۰۲۰

فہرست مضامین

منور بھائی! کارکن، رفیق اور قائد

پروفیسر خورشید احمد | اگست ۲۰۲۰ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

سیّد منور حسن کا دنیا سے رخصت ہونا ہم سب کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔ زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور موت سے کسی کو مفر نہیں۔ ۲۶جون سے آج تک کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا کہ پیارے منور بھائی کا خیال دل و دماغ سے اوجھل ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے، اور انھیں جنّت کے اعلیٰ مقامات پر اَبدی زندگی سے سرفراز فرمائے،آمین!

حقیقت یہ ہے کہ منور بھائی، تحریک ِ اسلامی کا قیمتی سرمایہ اور دورِ حاضر میں اسلام کی ایک قیمتی متاع تھے۔ مجھے ان کے ساتھ ۶۰سال بہت قریب اور ہرحیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا، یعنی: ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے، تحریک کے ایک کارکن اور ساتھی کی حیثیت سے، میرے ساتھ علمی کام کرنے والے ایک معاون کی حیثیت سے، اور میرے امیر کی حیثیت سے۔ الحمدللہ، ہرحیثیت سے ہمارا تعلق احترام، محبت اور تعاون کا رہا ہے۔ انھیں ہرحیثیت میں ایک بہت اچھا انسان اور ایک بڑا سچا مسلمان اور تحریک اسلامی کا ایک مخلص اور بہترین خادم پایا۔ بلکہ اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ اللہ سے تعلق کو مضبوط تر بنانے، مقصد کی لگن میں یکسو ہونے، اور شہادتِ حق کے راستے پر ثبات و استقامت سے جدوجہد میں اپنے آپ کو گھلادینے کی منزل پر جاپہنچے تھے۔    اسی طرح جہاں دنیا کو اسلام کے رنگ میں ڈھالنے کا جذبہ، کوشش اور تڑپ تھی، وہیں دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے کنارہ کشی، سادگی، اخلاص، للہیت، قناعت اور درویشی ان کی زندگی کے امتیازی پہلو تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں منور بھائی کی زندگی میں سلف کی زندگی کی ایک جھلک نظر آتی تھی۔

۱۹۶۰ء میں جب وہ عزیزی آصف صدیقی کی دعوتی مساعی کے نتیجے میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے،  اسی وقت سے میرا اُن سے قریبی تعلق رہا۔ شروع میں ایک زیرتربیت ساتھی اور اجتماعی مطالعے میں شریک کی حیثیت سے ربط قائم ہوا۔ ۱۹۶۲ء میں جب محترم چودھری غلام محمد مرحوم کے ایما اور داعی تحریک مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی سرپرستی میں کراچی میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی قائم کی گئی تو وہ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم تھے۔ اس وقت انھوں نے ایم اے سوشیالوجی کیا تھا۔ تب اپنے نوجوان ساتھیوں کی جو پہلی ٹیم بطور اسسٹنٹ میں نے بنائی، اس میں وہ شامل تھے۔ اکتوبر۱۹۶۴ء میں وہ شیخ محبوب علی بھائی کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے  ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اور نظامت اعلیٰ سے فارغ ہوتے ہی جماعت اسلامی کے رکن بنے اور کراچی جماعت کے نظم کو اپنی خدمات پیش کردیں۔ اسی دوران ۱۹۶۸ء میں مَیں برطانیہ چلا گیا تو اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے سیکرٹری کی حیثیت سے انھوں نے اس علمی و تحقیقی ادارے کا نظم سنبھالا۔ انگریزی ماہنامے The Critarion اور پھر Universal Message کے مدیر رہے۔ایک مدت تک کراچی جماعت کے قیم اور پھر کراچی جماعت کے امیر بنے۔ ازاں بعد ۱۹۹۲ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے قیم بنے۔ ۲۰۰۹ء میں امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے اور پھر امارت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے بعد ۲۰۱۴ء میں دوبارہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی میں آخری لمحات تک علمی اور اجتماعی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

منور بھائی کو میری اور برادرم ڈاکٹر انیس احمد کی طرح مولانا مودودیؒ کی یہ محبت حاصل رہی کہ وہ ہم کو پیار سے خورشیدمیاں، انیس میاں اور منور میاں کہا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد نذیر احمد قریشی صاحب کی طرح منوربھائی کے والد محترم سیّد اخلاق حسن صاحب بھی مولانا کے قیام دہلی کے زمانے کے احباب میں سے تھے اور آخری وقت تک ان کے گہرے ذاتی تعلقات رہے۔

منور بھائی کی زندگی کا سب سے غالب پہلو مقصدیت ہے۔ جس پیغام اور دعوت کو انھوں نے شعور کے ساتھ قبول کیا، پھر زندگی بھر اس پر وہ یکسو ہوگئے۔ جس چیز کو انھوں نے حق سمجھ کر اپنی زندگی کا مقصد بنالیا، آخر دم تک اس سےوفاداری کا حق ادا کیا، اس کے لیے جدوجہد کرتے رہے، اس کے لیے قربانی دی اور ایسی سعادت کی زندگی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ تج دیا۔

دوسری قابلِ رشک خوبی اعلیٰ درجے کا نظم و ضبط (ڈسپلن) تھا۔ ان کی زندگی میں جو بے پناہ نظم پایاجاتا تھا، اس کی مثال سوائے چند لوگوں کے، مَیں کہیںاور نہیں دیکھ سکا۔ ان میں اپنے تمام کاموں کو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دینے کی صلاحیت پائی جاتی تھی۔ وہ ایک ایک لمحہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے سوچتے، پروگرام بناتے اور پھر اس پر عمل درآمد کرتے تھے۔ یعنی منصوبہ سازی، جائزہ، نفاذ اور تنظیمی ڈھانچے کی تیاری۔

مجھے اس بات کا بہت دُکھ ہے کہ آج تحریک میں علمی ذوق کم ہورہا ہے اور مطالعہ تو اس سے بھی کم ہے۔ دوسری طرف منور بھائی کو دیکھتا ہوں تو گو انھوں نے لکھا کم ہے، لیکن ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ ان کی تقریر میں گہرائی اور جذبہ تھا۔ گفتگو میں علمی وژن، حاضردماغی اور دلیل تھی۔ وہ تحریک کے مسائل و معاملات پر مسلسل غوروفکر کرتے تھے کہ یہی ہمارا شعار ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔

منور بھائی ایک غیرمعمولی مقرر تھے۔ فطری خطابت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سرفراز فرمایا تھا۔ تقریر میں وہ سحر باندھ دیتے تھے۔ برجستگی اور مزاح سے، بڑے نپے تلے جملوں اور کم الفاظ میں بڑی بات کہنا ان کا طرئہ امتیازتھا۔ بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ وہ بڑے خوش الحان اور خوش گلو بھی تھے۔ کلامِ اقبال پڑھنے اور سنانے کا شان دار ذوق رکھتے تھے۔

مقصدیت، قیادت، اَن تھک جدوجہد اور محنت کے ساتھ ساتھ نماز سے تعلق میں عشق کی کیفیت کا مظہر تھے۔ عبادت میں خشوع و خضوع کی جو چاشنی میں نے ان کے لڑکپن سے ان میں دیکھی، وہ مثالی تھی۔ کراچی میں ان کوایک ایک مسجد کا پتا تھا کہ کس مسجد میں کس وقت نماز ہوتی تھی؟ اگر کسی ایک مسجد میں جماعت سے نماز چھوٹ جاتی تھی تو دوسری مسجد میں جاکر باجماعت پڑھتے تھے۔ اس پہلو سے منور بھائی اس دور میں الحمدللہ ثم الحمدللہ، اس کی ایک اچھی مثال تھے۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ لَا شَرِيْكَ لَہٗ۝۰ۚ (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳) کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔

 تحریک کی قیادت کے دوران ایک طرف انھوں نے بحیثیت امیر اپنی راے کا برملا اظہار کیا، تو وہاں دوسری طرف شوریٰ اور عاملہ نے جو بات طے کردی، انھوں نے پوری وفاداری کے ساتھ اس پر عمل کیا ۔ اپنی امارت کے دوران دعوت الی اللہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت دینے کے ساتھ، طاغوت کی شیطنت کو بے نقاب کرنے میں لمحہ بھر غافل نہ رہے۔

اسی طرح منوربھائی تحریک اسلامی کے تمام طبقات خصوصاً علماے کرام، اساتذہ، صحافتی برادری، ادیبوں،دانش وروں ،مزدور تنظیموں اور یونینوں سےربط اور رہنمائی کے لیے ہروقت مستعد رہتے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان انھیں حددرجہ محبوب تھے، جن کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے لیے دامے، درمے اور سخنے، وہ ان کے ہم قدم رہتے۔ پھر ہزاروں کارکنوں سے بالکل ذاتی سطح پر خط، ملاقات اور پیغام کے ذریعے رابطہ رکھ کر انھیں مقصد ِ زندگی سے جڑے رہنے کے لیے اُبھارتے رہتے تھے۔ یہ فرائض، ان کی منصبی ذمہ داریوں کا حصہ نہ تھے، لیکن ان کے جذبے کا عملی مظہر تھے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں ان کو ایک مجاہد فی سبیل اللہ پایا۔ مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ ان کا شمار، اللہ کے ان خوش نصیب بندوں میں ہوگا، جن کے لیے قرآن نے فرمایا ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ  فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۝۲۳ۙ (احزاب ۳۳:۲۳)ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

اللہ تعالیٰ ان کی تمام مساعی اور قربانیوں کو قبول فرمائے، ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے، انھیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ انھوں نے اُمت مسلمہ کے لیے، تحریک اسلامی کے لیے اور دعوتِ حق سے وابستہ افراد کی زندگیوں کو مسلسل جدوجہد کے جذبے سے سرشار کرنے کے لیے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ اللہ تعالیٰ  ہم سب کو ان کی نیک اور اچھی روایات کا احترام کرنے اور اس روش پر چلنے کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اور ہم سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔ ہمیں دینِ حق پر قائم رکھے اور ایمان پر خاتمہ کرے۔ دعوتِ دین کی تحریک میں، ملک میں اور اُمت اسلامیہ میں، ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ اس خلا کو پُر کرنے کا سامان کردے، آمین!