جنوری ۲۰۲۰

فہرست مضامین

سیّد مودودیؒ کے افکار اور عصرِحاضر

ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی | جنوری ۲۰۲۰ | تحریک اسلامی

Responsive image Responsive image

مولانا سیّدابوالاعلی مودودیؒ(۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) زندگی بھر اس طریق کار پر گام زن رہے کہ تشدّد اور تکفیر، اسلامی انقلاب کا طریقِ کار نہیں، بلکہ اس کی راہ میں مزاحم ہے۔ خفیہ سرگرمیوں اور زیر زمین کارروائیوں سے اسلامی انقلاب برپا نہیں ہوتا،بلکہ اس کی راہ کھوٹی ہوجاتی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے زندگی کے سخت ترین مراحل میں بھی اس موقف سے سرِموتجاوز نہ کیا۔ ان کا یہ موقف کسی وقتی سیاسی حکمت عملی کا حصہ نہ تھا، بلکہ وہ اسے اسلام کا عین تقاضا تصور کرتے تھے۔ ان کی پختہ راے تھی کہ سیاسی انقلاب سے پہلے فکری وتمدنی انقلاب ناگزیر ہے۔ فکر ،عقیدہ اور اجتماع ومعاشرت میں کوئی تبدیلی نہ زبردستی لائی جاسکتی ہے اور نہ اوپر سے تھوپی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے تعلیم وتزکیے کے راستے سے راے عامہ کی ہمواری ناگزیر ہے۔

تشدد اور خفیہ سرگرمی کی مخالفت

مختلف معاشروں اور ملکوں میں رائج سیاسی و حکومتی عمل داری، بلکہ جبر نے ایسے سوال کھڑے کر دیے ہیں کہ جن کے جواب کے لیے بہت سوچ بچار کے بعد اقدام کی ضرورت ہے۔ ریاستی جبر اور عالمی سامراجی قوتیں تو جبروزیادتی کے تمام ’حقوق‘ اپنے نام ’محفوظ‘ رکھتی ہیں، لیکن  جن کو نشانہ بنایا یا شکار کیا جاتا ہے، ان کے لیے تڑپنے کا حق بھی نہیں باقی چھوڑتیں۔ اس منظرنامے میں اسلامی قیادتوں کی سوچی سمجھی حکمت کے برعکس، مسلم نوجوانوں میں ردعمل کی بعض ایسی صورتیں پیدا ہوئی ہیں کہ جنھوں نے اُمت کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔
بدقسمتی سے پچھلے چند برسوں میں تشدّد کو بعض نام نہاد اسلامی جماعتوں اور تنظیموں نے سندِجواز فراہم کی ہے۔ مغرب اور امریکا کی چیرہ دستیوں اور استعماری عزائم کی منصوبہ بندیوں کے خلاف شدید ردِّ عمل رُونماہوا۔ مسلم ممالک کی مغرب نواز حکومتوں کے روح فرسامظالم نے جلتی آگ پر تیل کا کام کیا۔ جماعۃ التکفیر والھجرۃ  مصر سے لے کر داعش، القاعدہ اور بوکوحرام تک مسلّح جدوجہد میں مصروف ہوئے۔ سیّدمودودیؒ نے کبھی اس طرح کی مہمات کا ساتھ نہیں دیا۔
برطانوی ہندستان میں بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی سیّد مودودی تشدّد اور قوت کے استعمال پر تنقید کرتے رہے اوراسے اسلامی انقلاب کے لیے مضر اور رکاوٹ تصور کرتے رہے۔اکتوبر ۱۹۴۵ء میں انھوں نے لکھا:’’ہمیں جو کچھ بھی واسطہ ہے اپنے مقصد سے ہے ،نہ کہ کسی خاص طریق کار (Method)سے۔لیکن اگر پُرامن ذرائع سے جوہراقتدار (Substance of Power)ملنے کی توقع نہ ہوتو پھر ہم عام انقلابی دعوت جاری رکھیں گے اور تمام مشروع [جائز شرعی] ذرائع سے انقلاب برپاکرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔۱
ستمبر ۱۹۵۴ء میں مولاناؒ نے صراحت کردی کہ ’جائز شرعی ذرائع‘ سے ان کی مراد کیاہے؟  انھوں نے لکھا: ’’بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہے،اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے… اگر آپ اجتماعی و اخلاقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ کو غور کرنا پڑے گا کہ اس انقلاب کے ذرائع اور وسائل کیا کیا ہوسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان ذرائع میں تعلیم و تربیت، معاشرتی اصلاح، ذہنی اصلاح اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔۲
اسی طرح مکہ معظمہ میں اسلامی تحریکوں کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے، اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے، لوگوں کے ذہن بدلیے، اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں، ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے‘‘۔۳
نومبر۱۹۶۸ء میں لندن میں سوال وجواب کی ایک مجلس منعقد ہوئی۔سیّد مودودیؒ نے صراحت سے فرمایا: ’’توڑ پھوڑ اور تشدّد کے ذریعے کوئی مستحکم اور پاے دار نظامِ حکومت قائم نہیں کیاجاسکتا۔اس لیے نہ ہم خود تشدّد کا راستہ اختیار کریں گے اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے‘‘۔۴
اکتوبر ۱۹۷۴ء میںاسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’جب تک ہمت اور جرأت اور عزم واستقلال کے ساتھ Openly (برسرزمین)کام نہیں کیا جائے گا، اسلامی ریاست قائم نہیں ہوسکتی۔ Under ground(زیرِ زمین) کام کے نتیجے میں اسلامی ریاست نہیںبن سکتی۔اسلامی ریاست پہلے بھی جب قائم ہوئی تھی تو وہ برسرِزمین کام سے ہی قائم ہوئی تھی۔زیرِ زمین کام صرف تھوڑی مدت کے لیے کیاگیا کہ کچھ سرفروش اور Devotees (جاں باز) آدمی فراہم ہوجائیں۔ اس کے بعد سارا کام برسرِزمین کیاگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں نے ماریں کھائیں، پتھر کھائے، تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹے گئے، دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹائے گئے۔ ان کے ساتھ سب کچھ ہوا۔ اس سے جو لوگ نکلے وہ ایسے نکلے کہ پھر ان کے مقابلے میں پورے عرب کی کوئی طاقت کھڑی نہ ہوسکی۔آپ کھلم کھلا اپنا کام کیجیے۔آپ کے سرپھٹیں گے، آپ کو قید کیاجائے گا،آپ کو ننگاکیاجائے گا، آپ کے ساتھ بدتمیزیاں کی جائیں گی، ہر قسم کی مصیبتیں بھگتنی پڑیں گی۔پھر جب ہر قسم کی مصیبتیں بھگتنے کے بعد آپ اپنے عزم پر قائم رہیں گے تو وہ جو مصیبتیں ڈالنے والے ہیں، ان کے اوپر الٹی مصیبت پڑجائے گی کہ وہ اپنی جان کہاں بچائیں؟ ایک وقت ایسا آنے والا ہے۔ ان شاء اللہ۔۵

جمہوری و شورائی  نظریہ

معاشرے میں تبدیلی کے لیے سیّد مودودیؒآئینی و دستوری اور جمہوری طریق کار اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔ وہ جمہوریت کو اسلام کے تصورِ شوریٰ سے قریب تر مانتے ہیں۔ وہ مغرب کے فلسفۂ جمہوریت کو مسترد کرتے ہیں کہ اس کی بنیاد انکارِ خدا اور انکارِ ِوحی پر ہے، مگر جمہوریت کو ایک نظامِ کار کے طورپر تسلیم کرتے ہیں کہ یہ زیادہ قابلِ عمل اور ترقی یافتہ نظام ہے۔ اسلام اور جمہوریت کے باہمی تعلق یا امتیاز پر مولانا مودودی نے بیان کیا:
    ۱-    ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کرلیاگیاہے۔ اس بناپر جمہوریت مطلق العنان ہوگئی ہے۔ اسلام اس حاکمیت ِ جمہور کا پہلے ہی قدم پر صحیح علاج کردیتا ہے، اور وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے، جو کائنات کے اصل حاکم نے مقرر کیا ہے۔ اس میں مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی۔
    ۲-    اسلام ہر فرد کے اندر تعلیم و تربیت اور تزکیہ پر زور دیتا ہے۔ اس سے جمہوریت کی کام یابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
    ۳-    جمہوریت کی کام یابی کا انحصار ایک بیدار اور مضبوط راے عام پر ہے۔ اسلام نے اس کے لیے تمام ضروری ہدایات فراہم کی ہیں۔۶
اگر درج بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری کام یابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔
اسلامی تصوّرِ جمہوریت مغرب کے تصوّرِ جمہوریت سے یک سر مختلف ہے۔ اسلامی جمہوریت سے مراد ہے اللہ کی حاکمیت اور عوام کی خلافت۔ بنیادی قوانین اللہ کے عطاکردہ ہیں اور مسلمان خلیفہ نائب ِخداہونے کی حیثیت سے ان قوانین کو نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ اس لیے سیّد مودودیؒ اسلام کے تصوّرِ حکومت کو ’خلافت ِجمہور‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے مغرب کی ’لادین جمہوریت‘ سے متصادم قرار دیتے ہیں۔۷
خلافت ِجمہور یا الٰہی جمہوری حکومت سیّد مودودیؒ کی وضع کردہ اصطلاح ہے، جس سے  ان کی تخلیقی بصیرت اور اجتہادی ملکہ کا اندازہ ہوتاہے۔تھیاکریسی (پاپائیت) میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ خدا کے نام سے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرتاہے اور عملاً اپنی خدائی تمام باشندوں پر مسلّط کرتاہے۔ ڈیموکریسی میں جمہور ہی حاکمِ مطلق، بے قید فرماں روا اور حلّت و حرمت اور جواز وعدمِ جواز میں قولِ فیصل ہوتے ہیں۔خلافت ِجمہور میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اسی کا اقتدار ِاعلیٰ حکمراں ہوتاہے اور مسلمانوں کو محدود عمومی حاکمیت عطا ہوتی ہے۔ جن مسائل میں قرآن و سنت میں نصوص موجود نہیں ہیں، ان میں مسلمان شریعت کی روح کے مطابق قانون سازی کے مجاز ہوتے ہیں۔
 سیّد مودودیؒ کہتے ہیں:’’یہ چیز اسلامی خلافت کو قیصریت اور پاپائیت اور مغربی تصور والی مذہبی ریاست (Theocracy)کے برعکس ایک جمہوریت بنادیتی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ  اہلِ مغرب جس چیز کو لفظ’ جمہوریت‘ سے تعبیر کرتے ہیں اس میں جمہور کو حاکمیت کا حامل قرار دیاجاتاہے اور ہم مسلمان جسے ’جمہوریت‘ کہتے ہیں اس میں جمہور صرف خلافت کے حامل ٹھیرائے جاتے ہیں۔ ریاست کے نظام کو چلانے کے لیے ان کی جمہوریت میں بھی عام راے دہندوں کی راے سے حکومت بنتی اور بدلتی ہے اور ہماری جمہوریت بھی اسی کی متقاضی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ ان کے تصور کے مطابق جمہوری ریاست مطلق العنان اور مختارِ مطلق ہے اور ہمارے تصور کے مطابق جمہوری خلافت اللہ کے قانون کی پابند‘‘۔۸  اس ضمن میں راقم نے ایک مقالے میں تفصیل سے بحث کی ہے۔۹

تنقیدِ مغرب

فکرِ مودودیؒ کا ایک امتیاز مغرب کے فکر وفلسفہ، سائنس اور نظامِ تعلیم پر بھرپور اور مدلل محاکمہ و تجزیہ ہے۔ اس فکر کو وہ’ جاہلیت ِخالصہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں، جس کی بنیاد الحاد وتشکیک اور  وحی ورسالت کے انکار پر ہے۔ اس جاہلیتِ خالصہ نے انسان کو ایک خود مختارانہ اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرنے پر آمادہ کیا اور وہ شترِ بے مہار ہوگیا۔ اس طرزِ فکر کے نتیجے میں سیاست کی بنیاد انسانی حاکمیت پر استوارہوئی۔ مملکت کے تمام قوانین خواہشِ نفس اور تجربی مصلحت کی بنیاد پر  بنائے گئے۔ منفعت پرستی اور مصلحت پسندی تمام پالیسیوں پر حاوی رہی۔ تمدن و معاشرت اور تہذیب و ثقافت، لذّات ِ نفس کی طلب پر پروان چڑھی۔فنونِ لطیفہ، ادب وشاعری میں عریانی و شہوانیت کا تسلّط رہا۔ نظام تعلیم و تربیت اسی تصوّرِ حیات کے مناسب ِحال مرتّب ہوا۔ ’’اس طرزِ فکر سے افراد کی بے ایمانیوں، حکام کے مظالم، منصفوں کی بے انصافیوں، مال داروں کی خود غرضیوں اور عام لوگوں کی بداخلاقیوں کا جو تلخ تجربہ آج انسانیت کو ہورہاہے اور بڑے پیمانے پر اس نظریے سے قوم پرستی، استحصال واستعمار،جنگ وفساد، ملک گیری اور اقوام کشی کے جو شرارے نکل رہے ہیں، ان کے چرکوں سے یہ نتیجہ خود بخود نکلتاہے کہ یہ جاہلیت کا رویّہ ہے‘‘۔۱۰
سیّد مودودیؒ نے مغرب کی جاہلیتِ خالصہ کے تاریخی نشو ونما کا تجزیہ کیا۔ عیسائیت اور حرّیت ِفکر کے علَم برداروں کے درمیان جس خوں ریز کش مکش کا آغاز ہواتھا، وہ نفسِ مذہب کے خلاف معرکہ آرائی میں تبدیل ہوگئی۔ نئے دور کے ارباب ِحکمت وفلسفہ نے روحانیت اور مافوق الفطرت کے خلاف جنگ چھیڑدی۔ مغربی فلسفہ و سائنس نے آغاز ِسفر میں ’نیچریت‘ کو خداپرستی کے ساتھ نباہنے کی کوشش کی، مگر آگے چل کر ’نیچریت‘ خداپرستی پر غالب آگئی اور خدا کا تخیل اور عالم فطرت سے بالا ہر فکر اور نظریہ نظروں سے اوجھل ہوگیا اور سائنس ’نیچریت‘ کا ہم معنی قرار پاگئی۔۱۱
سترھویں صدی میں مغربی فلسفہ و سائنس نے کامل الحاد کارنگ اختیار نہیں کیاتھا، مگر اٹھارھویں صدی میں مادہ پرستی،الحاد اور لادینیت سکۂ رائج الوقت بن گئے۔ مشہور فلسفی ہیوم نے اپنی تجربیت اور فلسفۂ تشکیک سے عالمِ طبیعیت اور دنیاے مادہ و حرکت کے باہر کسی طاقت کے وجود کو نہ ماننے اورمشاہدہ وتجربہ ہی کو معیار قرار دینے پر زور دیا۔ برکلے نے کوشش کی کہ مادیت کی اس بڑھتی ہوئی رَو پر بندش لگے، مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ہیگل نے مادیت کے مقابلے میں تصوریت کو فروغ دینا چاہا، مگر ٹھوس مادہ کے مقابلے میں لطیف تصور کی پرستش نہ ہوسکی ۔کانٹ نے بیچ کی راہ نکالی،مگر خداپرستی اور نیچریت کے درمیان مصالحت کی یہ آخری کوشش بھی ناکام ہوئی۔۱۲
ڈارون کی کتاب اصل الانواع (Origin of Species)کو سیّد مودودی ؒ مغرب کے فکروفلسفہ کی دنیا میں ایک انقلاب انگیز تصنیف قرار دیتے ہیں، جس نے اس نظریے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ کائنات کا کاروبار خدا کے پیغمبر کے بغیر چل سکتاہے۔ آثار و مظاہر ِفطرت کے لیے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اور علّت کی حاجت نہیں۔ زندگی کے ادنیٰ مراتب سے لے کر اعلیٰ مراتب تک موجودات کا ارتقا ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کا نتیجہ ہے، جو عقل وحکمت کے جوہر سے عاری ہے۔ انسان اور دوسری انواعِ حیوانی کو پیداکرنے والا کوئی صانع حکیم نہیں ہے، بلکہ وہی ایک جان دار مشین، جو کبھی کیڑے کی شکل میں رینگاکرتی تھی، تنازع للبقاء، بقاے اصلح اور انتخابِ طبیعی کے نتیجے کے طور پر ذی شعور اور ناطق انسان کی شکل میں نمودار ہوگئی۔۱۳  
سیّدمودودیؒ تخلیق آدم کے قرآنی نظریے کا اثبات کرتے اور ڈارون کا ابطال کرتے ہیں: سورۂ اعراف آیت ۱۱: وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ      (ہم نے تمھاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمھاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو) کی تفسیر میں وہ صراحت کرتے ہیں: ’’قرآن مجید انسان کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتاہے جو موجودہ زمانے میں ڈارون کے متبعین سائنس کے نام سے پیش کرتے ہیں۔      ان نظریات کے برخلاف قرآن ہمیں بتاتاہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہواہے۔ اس کی تاریخ کسی غیرانسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی۔البتہ ہم اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتے کہ موادِ ارضی سے بشر کس طرح بنایاگیا؟ پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی اور اس کے اندر روح پھونکنے کی نوعیت کیاتھی؟۱۴

خواتین کی خود اختیاری

فکر مودودیؒ کی ایک امتیازی خصوصیت خواتین کی خود اختیاری اور ان کے سماجی و سیاسی حقوق کے باب میں وہ اجتہادی موقف ہے، جو روایت پرستی اور تجدّد کے دونوں انتہا پسندانہ نظریات کے مابین ایک نئی راہ اختیار کرنے پر منحصر ہے۔ ایک طرف قدیم الفکر اور روایت پسند علما ہیں ،جن میں سے اکثر حضرات عورت کے وجود کو شمع ِخانہ کی حیثیت دے کر اسے تمام سماجی و تمدنی حقوق سے محروم کردیتے ہیں، تو دوسری طرف حقوق ِنسواں کے علم بردار وہ جدید الفکر دانش ور ہیں جو مغرب کی نسائی تحریکات سے متاثرہوکر اسے مردوں کے دوش بہ دوش کھڑاکرنے کی وکالت کرتے ہیںاور فطری و خلقی فرق تک کو نظرانداز کردیتے ہیں۔سیّد مودودیؒ کا موقف ان دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال کو اختیار کرنے کا ہے۔ان کے تصورات ان کے مجموعی نظام احیاے دین کا حصہ ہیں۔ ان میں وہ جدید تحریک ِنسواں کے متشدد رجحانات کی نفی کرتے ہیں، مگر ان پر روایت پرستانہ فکر کی چھاپ بھی نظر آتی ہے، تاہم اس روایت پسندی پر ان کی اصلاح پسندی اور تجدیدی فکر غالب ہے۔۱۵
سیّد مودودیؒ خاندانی نظام کی تشکیل کو اسلامی تہذیب کی تعمیر کے لیے ناگزیر تصور کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے نکاح کے لیے ’حصن‘ کا لفظ استعمال کیاہے، جس کا مطلب ہے عفت و پاکیزگی کے قیام و دوام کے ذریعے خاندان کو مضبوط بنانا۔۱۶  نکاح کا ادارہ میاں بیوی کو قانونی رشتوں میں باندھ کرجنسی بے راہ روی سے دونوں کی حفاظت کرتاہے۔ نکاح کے بنیادی مقاصد دو ہیں: (۱)پاک دامنی اور عفّت کا تحفظ (۲)مودّت، سکینت اور رحمت کا خاندان میں فروغ واستحکام اور اس کے ذریعے انسانی تہذیب کا فروغ۔۱۷
سیّد مودودیؒ کے مطابق تہذیب وتمدن کی ترقی کے لیے ادارۂ خاندان کی تشکیل اور اس کا استحکام ناگزیر ہے۔ نکاح کی صورت میں مرد اور عورت کے درمیان مستقل اور والہانہ وابستگی ہی سے خاندانی نظام وجود میں آتاہے۔ ان کے نزدیک مساوات ِمرد و زن کا نعرہ غیر حقیقی،غیر فطری اور حقائق سے دور ہے۔ اسلام نے عورت کے سپرد وہی فرائض کیے ہیں، جو فطرت نے اس کے سپرد کیے ہیں ۔اس کے بعد مردوں کے ساتھ بالکل مساویانہ حیثیت دی ہے۔ عزت اور تکریم میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ نص قرآنی(النساء۴:۳۴ )کے مطابق مرد خاندان کا قوام ہے اوراسے کچھ حوالوں سے عورت پر فضیلت حاصل ہے۔۱۸  مگر اس فضیلت سے عورت کی کم تری کا پہلو نکالنا غلط ہے۔ بلاشبہہ مرد خاندان کا سربراہ ہے اور عورت اس کے ماتحت ہے، مگر یہ ماتحتی کسی بھی حیثیت میں مرد کی فوقیت ثابت نہیں کرتی ،بلکہ اسے ذمہ دار قرار دیتی ہے۔۱۹
حاکمانہ اختیارات کے غلط استعمال پر سیّد مودودیؒ نے بندش لگائی ہے۔ روایت پسند علما کے علی الرغم وہ تنبیہ کرتے ہیں کہ’’مرد کو جو اختیارات قوّام کی حیثیت میں دیے گئے ہیں، ان کا غلط استعمال مرد نہ کرے اور ان سے ناجائز فائدہ اٹھاکر وہ عورت پر ظلم نہ کرے‘‘۔۲۰
ایک دوسری جگہ وہ کہتے ہیں:’’شوہر اور والد اگرچہ قوّام ہیں ،مگر اس حیثیت کی بناپر یہ نامناسب ہوگا کہ وہ عورتوں پر ہر معاملے میں اپنی مرضی مسلّط کریں، مثلاًعورتیں اپنی جایداد اور ملکیت میں تصرف کا پوراپورا حق رکھتی ہیں‘‘۔۲۱
خواتین کی سماجی، معاشی اور سیاسی خود اختیاری کے باب میں سیّد مودودیؒ مغرب کے سخت ناقد ہیں۔ ان کے خیال میں جب عورت پر مرد کے برابر معاشی و تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالاجائے گا تو وہ اپنے اوپر سے فطری ذمہ داریوں کا بوجھ اتار پھینکے گی اور اس کا نتیجہ نہ صرف تمدن بلکہ خود انسانیت کی بربادی ہوگا‘‘۔۲۲  اسلام مردانگی (Manhood) اور نسوانیت (Womanhood) دونوں کو انسانیت کے ضروری اجزا تصوّر کرتاہے اور تہذیبی وتمدنی ارتقاکے لیے دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتاہے۔ مغربی خواتین اپنی نسوانیت سے محروم ہیں اور مردانہ پن کی ترجمانی کرنے لگی ہیں۔۲۳
خواتین کی سیاسی و سماجی اور تعلیمی خود اختیاری کی ترجمانی کرتے ہوئے سیّد مودودیؒ لکھتے ہیں:’’اسلامی حکومت میں ہر بالغ عورت کو ووٹ کا حق اسی طرح حاصل ہوگا جس طرح ہر بالغ مرد کو یہ حق دیاجائے گا۔ اسی طرح انھیں وراثت اور مال و جایداد کی ملکیت کے پورے پورے حقوق بھی حاصل ہوں گے اور ان کے شوہروں اور باپوں کو ان کی املاک پر کسی قسم کا اختیار نہیں ہوگا۔ عورتوں کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیاجائے گا، بلکہ ہم مسلمان عورتوں کو ضروری فوجی تعلیم دینے کا بھی انتظام کریں گے…یہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی تو وہ عورتوں کے لیے بھی ویسی ہی بابرکت ثابت ہوگی جیسی مردوں کے لیے ہے‘‘۔۲۴
ایک قاری کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سیّد مودودیؒ مرد اور عورت کے دائرہ کار کو ایک دوسرے سے مختلف بتاتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام میں ’’عورت اور مرد، عزت واحترام کے لحاظ سے برابر ہیں۔اخلاقی معیار کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ آخرت میں اپنے اجر کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ لیکن دونوں کا دائرۂ عمل ایک نہیں ہے۔ سیاست اور ملکی انتظام، فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے کام مرد کے دائرئہ عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔اس دائرے میں عورت کو گھسیٹ لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو ہماری خانگی زندگی بالکل تباہ ہوجائے گی ،یا پھر عورتوں پر دہرا بار ڈالاجائے گا۔ مغربی ممالک کا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ صورت رُونماہوچکی ہے۔آنکھیں بندکرکے دوسروں کی حماقتوں کی نقل اُتارنا عقل مندی نہیں ہے‘‘۔۲۵

تفسیر یا سلوکِ قرآنی

سیّد مودودیؒ کا سب سے بڑا کارنامہ تفہیم القرآن  کی تکمیل ہے۔چھے جلدوں میں اس  عظیم الشان تفسیر کا امتیاز اس کی علمیت اور ادبیت ہے۔ مولانا نے حالاں کہ وضاحت کی ہے کہ  ان کے پیش نظر وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔اس لیے علما اور محققین کی ضروریات کی رعایت اس تفسیر میں نہیں کی گئی ہے، نہ ان حضرات کے معیار کو سامنے رکھا گیا ہے جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔۲۶
مگر سید حامد عبدالرحمٰن الکاف کے بقول بالیقین تفہیم القرآن ایک علمی اور تحقیقی تفسیرہے۔ اس میں علمی تحقیق کے وہ نمونے ملتے ہیں جو کسی اور تفسیر میں نہیں پائے جاتے۔ مثال کے طورپر    نقشہ جات، مصادر، تحقیق کا تنوع، علمی اسلوب کی سنجیدگی اور متانت، پیچیدہ اور اختلافی مسائل میں نہایت درجہ محققانہ اور متوازن راے کا اظہار۔ یہ محض سیّد مودودیؒ کی خاکساری ہے کہ انھوں نے اس کے متعلق کوئی بلند دعویٰ نہیں کیا۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں، عین حقیقت کا اظہار ہے کہ عصر حاضر کے انتہائی دقیق اور الجھے ہوئے مسائل کا حل جس اسلوب میں تفہیم القرآن نے پیش کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
تفہیم القرآن کی زبان کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی شستہ وشائستہ ، ادب وبلاغت کے اعتبار سے انتہائی معیاری، افہام و ترسیل کے لحاظ سے بے حد مؤثر اور بصیرت افرز ہے۔ تفہیم القرآن  کا قاری اس کی ادبیت اور اسلوبِ بیان کے سحر میں کھوجاتاہے۔ جی چاہتاہے کہ وہ پڑھتاجائے اور تکمیل سے پہلے بند نہ کرے۔ مولانا نے ترجمۂ قرآن میں لفظی ترجمہ کی جگہ ترجمانی کا ڈھنگ اختیارکیاہے، تاکہ اسلوب ِبیان میں ترجمہ پن نہ ہو۔’’عربی مبین کی ترجمانی اُردوے مبین میں ہو، تقریر کا ربط فطری طریقے سے تحریر کی زبان میں ظاہر ہو اور کلامِ الٰہی کا مطلب ومدعا صاف صاف واضح ہونے کے ساتھ اس کا شاہانہ وقار اور زورِ بیان بھی جہاں تک بس چلے، ترجمانی میں منعکس ہوجائے‘‘۔۲۷
تفہیم القرآن   ایک حرکی، انقلابی اور داعیانہ تفسیر ہے، جو قاری کو جاہلیت کے خلاف   صف آراہونے کی تحریک دیتی ہے۔ سیّد مودودیؒ نے یہ تفسیر اسی غرض کے لیے لکھی ہے کہ وہ پڑھنے والے کو داعیٔ حق بناکے چھوڑے۔ دیباچہ میں وہ خود صراحت کرتے ہیں:’’لیکن فہم قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہوپاتا ،جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیاہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔یہ دنیا کے عام تصوّرِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کرلیے جائیں۔ جیسا کہ اس مقدمے کے آغاز میں بتایاجاچکاہے، یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر   خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑاکیا۔اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے  نزاعِ کفر و دین، معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہواہو، اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔؟!‘‘۔۲۸
سیّد مودودیؒ اسے ’سلوک ِقرآنی‘ سے تعبیر کرتے ہیں، جس کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آدمی گزرتاجائے گا، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خودسامنے آکر اس کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ قرآن کے احکام اور اس کی تعلیمات آدمی کی سمجھ میں آہی نہیں سکتیں، جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔’’نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتاہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد کررکھاہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں‘‘۔۲۹

سنت و حدیث کا دفاع

فکرِ مودودیؒکا ایک اور امتیازی پہلو سنت و حدیث کا دفاع اور منکرین ِسنت و حدیث کا مدلل اور مسکت جواب ہے۔مولانا کی معروف کتاب سنت کی آئینی حیثیت،ان مسکت دلائل کا مجموعہ ہے جو انھوں نے منکرِ سنت و حدیث دانش وروں کی تحریروں اور مکتوبات کے جواب میں سپردقلم فرمائے تھے۔ یہ سب سے پہلے یک جاشکل میں’ منصبِ رسالت نمبر‘ کے عنوان سے ماہ نامہ  ترجمان القرآن لاہور میں شائع ہوئے، پھر فاضل مصنف نے نظرثانی کے بعد کتابی شکل میں سنت کی آئینی حیثیت کے نام سے مرتب فرمایا۔یہ کتاب ۱۹۶۳ء میں اسلامک پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوئی۔
سیّد مودودیؒ نے شرح وبسط سے اور علمی استدلال کے ساتھ ثابت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت محض ایک نامہ بریا شارحِ قانون کی نہیں تھی۔ آپؐ اقوام عالم کے رہبر و رہنماتھے۔ قرآن مجید کے شارح و مفسر تھے اور شارع و قانون ساز اور قاضی و حاکم بھی۔ آپؐ کی تمام حیثیتوں کی پیروی اور غیر مشروط والہانہ اطاعت مسلمانوں پر فرض ہے۔ جو شخص اطاعت ِرسول سے آزاد ہوکر قرآن کی پیروی کادعویٰ کرتاہے وہ قرآن کا نہیں، خواہشِ نفس کا پیروہے۔جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیری وتشریحی حیثیت اور تشریعی حیثیت میں خطِّ امتیاز قائم کرتاہے اور تشریحی حیثیت کو تو مانتاہے،مگر آپ کی تشریعی حیثیت کا انکار کرتایا اس میں شکوک و شبہات پیداکرتاہے، وہ سنت و حدیث کا انکار کرتاہے۔ دور جدید میں فتنۂ انکار ِحدیث کی سربراہی پاکستانی دانش ور غلام احمد پرویز (۱۹۰۳ء- ۱۹۸۵ء) نے کی اور دھیرے دھیرے ایک مؤثر طبقے کو اس نے اپنا اسیر بنالیا۔
سیّد مودودیؒ کی ان تحریروں کو امت ِمسلمہ کے ہر طبقے میں قبولِ عام حاصل ہوا۔ رسولؐ اللہ کی قانون سازی اور تشریعی حیثیت پر مولانا نے سورۂ اعراف:۱۵۷ اور سورۂ الحشر:۷ سے استدلال کیا۔ ان آیات کے الفاظ صریح اور دوٹوک ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی اختیارات(Legislative Powers) عطاکیے ہیں۔ اللہ کی طرف سے امر ونہی اور تحلیل و تحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے، بلکہ جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام یا حلال قراردیاہے اور جس چیز کا حضورؐ نے حکم دیاہے یاجس سے منع کیاہے، وہ بھی اللہ کے دیے ہوئے اختیارات میں سے ہے۔اس لیے وہ بھی قانونِ خداوندی کا ایک حصہ ہے۔
آگے فرماتے ہیں:’’ان دونوں آیتوں(الاعراف:۱۵۷ ، الحشر:۷) میں سے کسی کی یہ تاویل نہیں کی جاسکتی کہ ان میں قرآن کے امر ونہی اور قرآن کی تحلیل وتحریم کا ذکر ہے۔ یہ تاویل نہیں ،بلکہ اللہ کے کلام میں ترمیم ہوگی۔ اللہ نے تو یہاں ا مر ونہی اور تحریم و تحلیل کو رسول کا فعل قراردیا ہے، نہ کہ قرآن کا۔ پھر کیا کوئی شخص اللہ سے یہ کہناچاہتاہے کہ آپ سے بیان میں غلطی ہوگئی۔آپ بھولے سے قرآن کے بجاے رسول کانام لے گئے؟‘‘۔۳۰
سیّد مودودیؒ صراحت کرتے ہیں کہ انکارِ سنت وحدیث کے فتنہ پرور دانش وروں کے ہاں علم کم اور بے علمی کی جسارت زیادہ ہے۔ انھوں نے اس فتنے کو فروغ دینے کے لیے جو تکنیک استعمال کی ہے اس کے اجزا یہ ہیں:
۱-حدیث کو مشتبہ بنانے کے لیے مغربی مستشرقین نے جتنے حربے استعمال کیے ان پر ایمان لانا اور اپنی طرف سے ان میں حواشی کا اضافہ کرنا۔
۲-احادیث کے مجموعوں کو عیب چینی کی غرض سے کھنگالنا، جیسے آریہ سماجیوں اور عیسائی مشنریوں نے کبھی قرآن کو کھنگالاتھا۔
۳-رسولؐ کے منصب ِ رسالت کو محض ایک ڈاکیے کا منصب قرار دینا۔
۴-صرف قرآن کو اسلامی قانون کا ماخذ قراردینا اور سنت ِرسول کو اسلام کے قانونی نظام سے خارج کردینا۔
۵-امت کے تمام فقہا، محدثین، مفسرین اور ائمۂ لغت کو ساقط الاعتبار قراردینا۔
۶-خود ایک نئی لغت تصنیف کرکے قرآن کی تمام اصطلاحات کے معنیٰ بدل ڈالنا اور آیاتِ قرآنی کو وہ معانی پہنانا جن کی کوئی گنجایش دنیا کے کسی عربی داں آدمی کو قرآن کے الفاظ میں نظر نہ آئے۔
اس تخریبی کام کے ساتھ ایک نئے اسلام کی تعمیر بھی منکرین ِسنت کے پیش نظر ہے، جس کے بنیادی اصول تین ہیں:
(الف)نظامِ ربوبیت کے نام سے ایک مرکز کا قیام ،جو شخصی املاک کو ختم کرکے انھیں ایک مرکزی حکومت کے تصرف میں دے دے اور وہی حکومت افراد کے درمیان تقسیمِ رزق کی مختارکل ہو۔
(ب)مسلمانوں کی تمام جماعتیں توڑ دی جائیں۔ وہ مرکزی حکومت میں ضم ہوجائیں۔
(ج)قرآن میں اللہ ورسول کی اطاعت کا جوحکم دیاگیاہے اس سے مراد ہے’مرکزِ ملت‘۔ اسی کی تفسیر وتشریح اور تحلیل و تحریم مستند ہوگی۔۳۱
چوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت پر منکرینِ حدیث نے سب سے زیادہ اشکالات قائم کیے تھے، اس لیے سیّد مودودیؒ کی تحریروں میں سب سے زیادہ بحث اسی نکتے پر ملتی ہے۔ خود قرآن کریم کی آیات سے انھوں نے ثابت کیا ہے:
    ۱-    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی کام کی نوعیت قرآن کی تفسیر وتشریح کی بھی تھی اور قرآن کے علاوہ قانون سازی کی بھی۔
    ۲-    تشریح وتفسیر کے باب میں مجمل حکم کی تفصیل فراہم کرنا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے احکام وہدایات اور اشارات ومضمرات کی شرح وتفسیر فرمائی ہے۔ یہ قرآن میں دیے ہوئے فرمانِ تفویض پر ہی مبنی ہے۔۳۲  قرآن کے کسی مجمل حکم کی حدیث کے ذریعے تفصیل قرآن کے خلاف نہیں ہے، بلکہ قرآن سے زائد ہے۔۳۳
    ۳-    وحی غیر متلوپرایمان، ایمان بالرسول کا جزوہے۔(النور۲۴:۵۴، الانعام۶: ۹۰، النساء۴: ۸۰)۔۳۴
    ۴-    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض میں کتاب کے ساتھ حکمت کی تعلیم کا تذکرہ ہے اور حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے۔۳۵
    ۵-    سورۂ حدید:۲۵ میں ’کتاب‘ کے ساتھ’ میزان‘ نازل کرنے کا تذکرہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ اور آپؐ کے اقوال وافعال میں خدا کی عطاکردہ حکمت اور میزانِ عدل کے آثار صاف ظاہر ہیں۔۳۶
    ۶-    وحی متلو، یعنی قرآن میں لفظ اور معنیٰ دونوں اللہ کی طرف سے ہیں،مگر وحی غیر متلو اپنی نوعیت وکیفیت اور مقصد میں بالکل مختلف ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہ نمائی کے لیے آتی تھی اور لوگوں تک وہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں نہیں ، بلکہ حضورؐ کے ارشادات، فیصلوں اور کاموں کی صورت میں پہنچتی تھی۔۳۷
تفہیم حدیث کا متکلمانہ اسلوب
سنت و حدیث کی تشریح وتوضیح معتدل ومتوازن اسلوب میں اُس دائرۃ المعارف میں پوری طرح جھلکتی ہے، جسے مولاناعبدالوکیل علوی نے تفہیم الاحادیث کے عنوان سے مرتب کیاہے۔ بڑی تقطیع کی آٹھ ضخیم جلدوں میں یہ عظیم الشان تصنیف ان ہزاروں احادیث نبویہ کے جمع وترتیب ، تخریج وابواب بندی اور ترجمہ پر مشتمل ہے، جو سیّد مودودیؒ کی شاہ کار تصانیف بالخصوص تفہیم القرآن میں استعمال ہوئی ہیں۔۳۸
فاضل مرتب نے بجاطورپر لکھاہے کہ تالیف وتدوین کا یہ کام اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے جتنا اہم اور عظیم ہے، اپنے حجم کے لحاظ سے اسی قدر ضخیم ہے۔ اس کام کی تکمیل کس قدر عرق ریزی اور جاں فشانی کا تقاضاکرتی تھی، اس کا اندازہ عام لوگ نہیں کرسکتے۔ سیّد مودودیؒ کی تصانیف میں سے انتخاب کا یہ موادہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا، عبارتوں پر نشان لگاکر یہ واضح کرنا کہ یہ حدیث کامتن ہے اور یہ اس کا ترجمہ وتشریح ہے، تمام احادیث کی اسناد کا التزام کرنا، نامکمل حدیث کا مکمل حوالہ دینا اور محدثین کی محدثانہ آرا کا اہتمام ، پھر حدیث کی تائید میں دوسری احادیث کو درج کرنے کی کاوش۔۳۹   
آٹھ جلدوں پر مشتمل اس عظیم الشان ترتیب وتخریج ِحدیث کو دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ سیّدمودودیؒ نے احادیثِ نبویہ کی تفہیم وتشریح میں کس حکمت وبالغ نظری اور بصیرت وفراست کا مظاہرہ کیاہے۔ یہ پہلو حدیث وسنت کے دفاع سے آگے بڑھ کر تشریح و تبیین اور اثبات واقدام سے متعلق ہے۔ اس اثبات واقدام میں حدیث پر کامل درجہ ایمان وایقان کا عنصر غالب ہے۔ اسلوب ِنگارش پر عقلی استدلال اور متکلمانہ اسلوب کی زبردست چھاپ ہے اور تفہیم وتشریح کا انداز اتنا منطقی، مدلل اور مستحکم ہے کہ قاری کے ذہن میں حدیث کی حکمت ومعنویت اندر تک سرایت کرجاتی ہے۔
مثال کے طورپر سیّد مودودی سورۂ شوریٰ آیت ۳۶: وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (اور وہ اپنے ربّ پر بھروسا کرتے ہیں) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ پر توکل کو قرآن نے ایمان کا لازمی تقاضا اور آخرت کی کام یابی کے لیے ضروری وصف قرار دیاہے۔ پھر توکل کی یہ تشریح کرتے ہیں:۴۰
    ۱-    آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہ نمائی پر کامل اعتمادہو اور اسے اللہ کے عطاکردہ علم حقیقت پر، اخلاق کے اصولوں پر، حلال وحرام کے حدودپر اور زندگی بسرکرنے کے قواعد وضوابط پر مکمل ایقان ہو۔
    ۲-    آدمی کا بھروسااپنی طاقت وقابلیت ،اپنے ذرائع ووسائل، اپنی اور دوسروں کی تدابیر پر نہ ہو، بلکہ اللہ کی توفیق وتائید پر ہو اور یہ توفیق وتائید اسی وقت ملتی ہے جب اللہ کی رضا پیش نظرہو۔
    ۳-    آدمی کو ان وعدوں پر پورا بھروساہوجو اللہ نے ایمان اورعمل صالح کا رویہ اختیار کرنے والوں سے کیے ہیں۔ ان وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ باطل کے فوائد ومنافع اور لذّات کو لات ماردے اور حق پر استقامت کی صورت میں آنے والے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کرے۔۴۱
شورائی اجتہاد
فکر مودودیؒ کا ایک اور امتیاز اسلامی قانون سازی کے میدان میں اس اجتماعی عمل کا تصور ہے جسے پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے ’شورائی اجتہاد‘ کا نام دیاہے۔ ان کے مطابق سیّد مودودیؒ اجتہاد کے ایک لازمی شورائی تصور کے قائل نظرآتے ہیں، جس میں کوئی تنہا امام مجتہد نہیں،بلکہ اسکالرز،محققین اور علما مل کر جملہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل پر تبادلۂ خیال کے بعد اجماع کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں۔انفرادی سطح پر اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں رہا،لیکن انفرادی راے کے مقابلے میں جب تک امت کے اسٹرے ٹیجک معاملات میں اتحادفکری نہ ہو، اس وقت تک ترقی کا عمل صحیح رخ اختیار نہیں کرسکتا۔سیّد مودودیؒ چاہتے تھے کہ علما و مفکرین کا ایک ایساادارہ وجود میں آئے، جو برسرِاقتدارطبقے کے اثرات سے محفوظ رہتے ہوئے، آزادانہ طورپر امت کو عالمی سطح پر درپیش مسائل پر غور کرے اور شریعت کے اصولوں کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرنے کے مواقع فراہم کرے۔۴۲
کسی اجتہاد کو قانون کا مرتبہ حاصل ہونے کی چار صورتیں سیّد مودودیؒ نے تجویز کی ہیں:
    ۱-    امت کے تمام اہلِ علم کا اس اجتہاد پر اجماع ہوجائے۔
    ۲-    کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبولِ عام حاصل ہوجائے، جیسے مختلف فقہی مکاتب کو مسلمانوں نے قانون کے طوپر تسلیم کرلیا۔
    ۳-    کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قراردے دے، جیسے فقہ حنفی کو عثمانی سلطنت نے قانون ِملکی مان لیاتھا۔۴۳
    ۴-    سیاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنائے۔
جو اہل علم اجتہاد کریں ان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ حسب ذیل اوصاف کے حامل ہوں:
(الف)شریعت ِالٰہی پر ایمان اور اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ۔
(ب)عربی زبان اور اس کے قواعد وادب سے اچھی واقفیت۔
(ج)قرآن وسنت کا گہراعلم کہ وہ شریعت کے کلیات و مقاصد کو اچھی طرح سمجھتے ہوں۔
(د)پچھلے مجتہدینِ امت کے کاموں سے واقفیت۔
(ہ)عملی زندگی کے حالات و مسائل سے آگاہی، اور
(و)اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت وکردار۔۴۴
سیّد مودودیؒ نے صراحت کی ہے کہ اسلام قانون سازی کی نفی نہیں کرتا، بلکہ اسے خدائی قانون کی بالاتری سے محدود کرتاہے۔ اس دائرئہ عمل کو انھوں نے تین مراحل سے مربوط کیا ہے: (۱)تعبیر احکام(۲)قیاس(۳)استنباط۔۴۵
مولانا موصوف کہتے ہیں کہ آزادانہ قانون سازی کا دائرہ کافی وسیع ہے، کیوں کہ معاملات کی ایک بڑی قسم ایسی ہے جس کے بارے میں شریعت بالکل خاموش ہے۔ یہ خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی انسان کو خود اپنی راے سے فیصلہ کرنے کا حق دے رہاہے، مگر یہ آزادانہ قانون سازی ایسی ہو جو روحِ اسلام اور اس کے اصول ِعامہ سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس خالص علمی تحقیق اور عقلی کاوش کو اجتہاد کہتے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مرادہے یہ معلوم کرنے کی کوشش کہ ایک زیر ِبحث مسئلہ میں اسلام کاحکم یا اس کا منشاکیاہے؟اسے آزاداجتہاد سمجھنا غلط ہے۔قرآن وسنت کے نصوص اور ان کے طے کردہ حدود سے بے نیاز ہوکر جو اجتہاد کیاجائے وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔۴۶
سیّد مودودیؒ یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ اجتہاد کا صحیح طریقہ کیاہے؟مجتہد خواہ تعبیر و تشریحِ احکام کررہا ہویا قیاس واستنباط کے عمل میں مصروف ہو، ضروری ہے کہ اس کے استدلال کی بنیاد قرآن وسنت پر ہو۔ مباحات کے دائرہ میں آزادانہ اجتہاد کے لیے بھی اسے یہ دلیل فراہم کرنی چاہیے کہ قرآن وسنت نے زیر بحث مسئلہ میں کوئی حکم یا قاعدہ مقر ر نہیں کیاہے اور نہ قیاس ہی کے لیے کوئی بنیاد فراہم کی ہے۔ من مانی تاویل سے جو اجتہاد کیاجائے گا اسے مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر کبھی قبول نہیں کرے گا ،نہ وہ حقیقتاً اسلامی نظامِ قانون کا جز بن سکتاہے۔۴۷
حواشی و مراجع
۱-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ماہ نامہ ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۴۵ء،ص ۹۱
۲-    ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، ستمبر ۱۹۵۴ء، ص ۴۶
۳-    سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ، تفہیمات،سوم، ۱۹۶۷ء، ص ۳۶۲-۳۶۳
۴-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تصریحات (مرتب: سلیم منصور خالد)، البدرپبلی کیشنز، لاہور،۱۹۹۲، ص۱۹۲
 ۵-    حوالہ سابق ، ص۲۸۷۔۲۸۸         ۶- ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، جون ۱۹۶۳ء، ص۶۱-۶۲
۷-   حوالہ سابق ، ص۱۲۸۔۱۲۹         ۸- حوالہ سابق ، ص۵۰۰-۵۰۱
۹-    حوالہ سابق ، ص ۳۲۰۔سیّد مودودیؒ کی سیاسی فکر کے مفصل مطالعے کے لیے ملاحظہ کیجیے: پروفیسر غلام اعظم کا مضمون’ اسلام کا سیاسی نظامِ فکر اور سیّد مودودی ‘ اور راقم کامضمون’سیّد مودودی کی سیاسی فکر۔ ایک تجزیاتی مطالعہ‘ در مجموعہ، ابوالاعلیٰ مودودی، علمی وفکری مطالعہ، مرتبہ : رفیع الدین ہاشمی اور سلیم منصور خالد، ادارۂ معارف اسلامی۔،منصورہ، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۳۰۱۔۳۴۳،۳۴۶-۳۸۷
۱۰-     سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، اسلام اور جاہلیت، مکتبہ جماعت اسلامی ہند رام پور، ۱۹۵۲ء، ص۱۸
۱۱-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تنقیحات، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ۱۹۹۱ء، ص ۱۱
۱۲-    حوالہ سابق ، ص۱۳                  ۱۳-حوالہ سابق ، ص۱۴،۱۵
۱۴-    سیّدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، مارچ ۱۹۸۵ء، جلد دوم، ص ۱۱۔  سورۂ الحجر:۲۸۔۲۹ کی تفسیر میں بھی مولانا’نئے دور کے ڈاروینیت سے متاثر ان مفسرینِ قرآن‘ پر تنقید کرتے ہیں، جو حیوانی منازل سے ترقی کرتے ہوئے بشریت کی حدود میں داخل ہونے والے انسان کی وکالت کرتے ہیں۔ قرآن صراحت کرتاہے کہ انسان کی تخلیق آغاز میں براہِ راست ارضی مادوں سے ہوئی، جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صلصال   من   حمإ  مسنون کے الفاظ میں بیان فرمایاہے۔ حوالہ سابق، ص ۵۰۴۔
۱۵-    ڈاکٹر زینت کوثر، خواتین کی خود اختیاریت اور سیّد مودودیؒ،در مجموعہ ابوالاعلٰی مودودی، علمی وفکری مطالعہ، حوالہ سابق، ص ۲۶۰-۲۹۹
۱۶-     سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،حقوق الزوجین، ادارۂ ترجمان القرآن لاہور، ۱۹۷۹ء،ص۱۷،۱۸
۱۷-    حوالہ سابق ، ص۲۱
۱۸-    حقوق الزوجین،حوالہ بالا، ص ۲۹           ۱۹-پردہ ، حوالہ بالا،ص۲۳۲
۲۰-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،اسلام اور مسلم خواتین، ادارۂ ترجمان القرآن لاہور، ۱۹۹۹ء،ص ۶۹
۲۱-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ،مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، ۱۹۸۶ء، ص۲۲
۲۲-    پردہ ، حوالہ سابق،ص۱۹۴
۲۳-    پردہ، ص ۲۵۶۔سیّد مودودیؒ لکھتے ہیں:’’عزت اگر ہے تو اس مردِ مونث(He-woman) یازنِ مذکر (She-man)کے لیے ہے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت، مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو اور تمدن ومعاشرت میں مرد ہی کے سے کام کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ انوثت(Woman hood)کی عزت نہیں، رجولیت(Manhood)کی عزت ہے۔
۲۴-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات، حوالہ سابق، ص ۲۱-۲۴
۲۵-    ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، جنوری ۱۹۶۲ء، ص ۵۲،۵۳
۲۶-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،تفہیم القرآن ، جلد اول، ۲۰۱۷ء، ص ۵-۶
۲۷-    حوالہ سابق ، ص۱۰۔۱۱               ۲۸- حوالہ سابق ، ص۳۳-۳۴
۲۹-   حوالہ سابق ، ص۳۴۔۳۵
۳۰-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،سنت کی آئینی حیثیت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،نئی دہلی، طبع ششم، فروری ۲۰۱۶ء، ص ۶۳،۶۴۔سیّد مودودی نے دیباچے میں صراحت کی ہے کہ انکارِ سنت کا فتنہ کس طرح سفر کرتا دورِحاضر تک پہنچا ہے۔
۳۱-    حوالہ سابق ، ص۱۸-۲۰        ۳۲- حوالہ سابق ، ص۶۹-۷۳
۳۳-    حوالہ سابق ، ص۴۴        ۳۴- حوالہ سابق ، ص۱۶۴،۱۶۵
۳۵-    حوالہ سابق ، ص۱۶۷،۱۶۸        ۳۶- حوالہ سابق ، ص۱۶۹،۱۷۰
۳۷-  حوالہ سابق ، ص۱۹۱
۳۸-    سیّد مودودی،تفہیم الاحادیث (مرتبہ: عبدالوکیل علوی) lجلد اول ، اگست ۱۹۹۳ء، صفحات ۴۶۲، lجلد دوم،ستمبر ۱۹۹۴ء، صفحات ۴۷۴، lجلد سوم،اکتوبر۱۹۹۷ء،صفحات۴۴۱،lجلد چہارم، جنوری۱۹۹۸ء، صفحات۵۱۷، lجلد پنجم، جون۱۹۹۹ء، صفحات۶۴۹، lجلدششم،ستمبر۲۰۰۰ء، صفحات۵۵۳، lجلد ہفتم، جنوری ۲۰۰۲ء، صفحات۵۳۹، lجلد ہشتم،اگست ۲۰۰۳ء،صفحات۴۸۴، ناشر:ادارہ معارف اسلامی، لاہور
۳۹-    دیکھیے: عرض مرتب، تفہیم الاحادیث، سیّد ابوالاعلی مودودیؒ،ترتیب وتخریج:مولانا عبدالوکیل علوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، جلد اول،اکتوبر ۲۰۰۳ء، ص ۹۔۱۰
۴۰- تفہیم القرآن، جلد چہارم، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، مارچ ۲۰۱۷ء، ص ۳۷۴۔ ۳۷۵، حاشیہ ۵۷، ص ۵۰۷، حاشیہ ۵۷
۴۱-    تفہیم الاحادیث، جلد اول، حوالا سابق، ص ۶۶۔۶۷
۴۲-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، علمی وفکری مطالعہ، حوالہ سابق،ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون:’مولانا مودودی اور شریعت کا حرکی تصور‘،ص۴۷
۴۳-    اسلامی ریاست، حوالہ سابق، ص ۴۴۶     ۴۴-حوالہ سابق ، ص۴۴۴۔۴۴۵
۴۵-    حوالہ سابق ، ص۴۴۱۔۴۴۲                ۴۶-حوالہ سابق ، ص۴۴۳
۴۷-    حوالہ سابق ، ص۴۴۵۔۴۴۶