عالم اسلام آج جس انتشار، بدنظمی اور جمود کا شکار ہے، اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ امراض کا علاج قرآن و سنت میں تدبر و تفکر، اجتہاد کی ضرورت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اعتدال پسندی میں مضمر ہے۔ ہر چند کہ ان مقاصد کے حصول میں وسائل، تنظیم، باہمی اتحاد اور سیاسی اقتدار کا فقدان ہے، مگر ان حوصلہ شکن حالات کے باوجود عالم اسلام کی بعض ہستیوں نے نشاتِ ثانیہ کے لیے علم و دانش اور امید و عمل کے چراغ روشن کیے۔ ایسی نابغۂ روزگار ہستیوں اور سحر انگیز شخصیتوں میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی شامل ہیں۔ جنھوں نے قرآن و سنت کے ابدی پیغام، مسلمانوں کی زندگیوں میں عملی تبدیلی، اسلامی تہذیب کی تعبیر، جذبوں کی تنظیم اور عصر حاضر میں اسلامی اجتماعیت اور اقامت دین کے عظیم فریضے کی تفہیم اور نفاذ کی تحریک برپا کی۔
سید مودودیؒ کا تذکرہ، درحقیقت فکر و عمل کے قافلۂ حق کے سفر کی روداد ہے۔ یہ روداد ہے ان کی انفرادی اور اجتماعی خدمات سے نمو پانے والے شعور کی، جس نے اپنے فکروعمل سے پورے عالم اسلام کو متاثر کیا۔ ان سے فکری اکتساب کرنے والوں میں عصر حاضر کی نوجوان نسل کے علاوہ ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ بلاشبہہ میری ذہنی تربیت، میرے کردار اور عمل کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے، سیدھی راہ دکھانے اور اسلام کا ایک ادنیٰ رضاکار بنانے میں مولانا مودودیؒ کی شخصیت کا بڑا دخل ہے۔
آزاد جموںوکشمیر کے ایک دور افتادہ اوراس وقت کے ایک نسبتاً چھوٹے سے شہر کھوئی رٹہ سے کراچی آکر ملازمت اور اس کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والے نوجوان نے ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس میں کن عوامل کو دخل حاصل تھا اور کیا یہ فیصلہ اس نے سوچے سمجھے بغیر ہی کر لیا تھا؟ اور اگر رشوت سے نفرت اس فیصلے کا محرک تھی تو یہ نفرت آخر کیسے پیدا ہوئی؟ سماجی و معاشی سوچ میں یہ انقلاب کیسے آیا؟ ان سارے سوالات کا بڑا ہی مختصر جواب یہ ہے کہ ناخواندہ مگر صوم وصلوٰۃ کے پابند والد صاحب کا عملی نمونہ تو سامنے تھا ہی، اس دینی گھریلو ماحول کے اثرات اپنی جگہ تھے، مگر جس ہستی نے مجھے مکمل طور پر بدل دیا تھا وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی سحر انگیز شخصیت تھی۔
مولانا مودودی کی کتابوں کا مطالعہ اسکول کے زمانے سے ہی کر رہا تھا۔ اصل میں ان کی مشہور کتاب رسالہ دینیاتہمارے میٹرک کے نصاب میں شامل تھی، جسے سبقاً سبقاً پڑھا تھا اور پھر ان کی دیگر کتب کا مطالعہ بھی بعد میں جاری رہا۔ مولانا محترم کی ان کتب نے میرے اندر ایک قسم کا شعوری انقلاب پیدا کردیا ۔مولانا محترم کا اللہ کے فضل سے مجھ پر یہ اتنا بڑا احسان ہے جس کا اجر انھیں اللہ تعالیٰ روز جزا دیں گے۔ بلاشبہہ اس لٹریچر نے پوری دنیا میں کروڑوں افراد کی زندگیاں بدل ڈالی ہیں اور ان کا مختلف زبانوں میں لٹریچر اور مشہور تفسیر تفہیم القرآن اس وقت بھی لاکھوں کروڑوں افراد کی زندگیوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ یہ تھی وہ افراد سازی جو مولانا محترم کی کتب بتدریج کر رہی تھیں، اور اسی کردار نے مجھے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ملازمت سے استعفا جیسا اتنا بڑا فیصلہ کرنے پر نہ صرف آمادہ بلکہ مجبور کر دیا۔ یہ فیصلہ دراصل میرے دل کی آواز تھی۔
میں بہت خوش تھا کہ میری ایک عرصے کی تمنا پوری ہورہی ہے اور ساتھ ہی مولانا محترم کی شخصیت کا رعب و دبدبہ بھی میرے حواس پر حاوی تھا کہ عالم اسلام کی اتنی بڑی شخصیت سے میں بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل کررہا ہوں۔ ان ملے جلے جذبات کے ساتھ میں کمرے میں داخل ہوا۔ سامنے سفید براق لباس میں ملبوس ایک نورانی شخصیت کو پایا، جو میری طرف متوجہ تھی۔ میں نے بڑی ہمت کرکے ’السلام علیکم‘ کہا۔ جس کا مولانا محترم نے بڑی محبت کے ساتھ ’وعلیکم السلام‘ جواب دیا اور مجھے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں بیٹھ تو گیا لیکن میری زبان گنگ تھی۔ میں خاموش بیٹھا تھا کہ مولانانے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے خود گفتگو کا آغاز کیا اور پوچھا: ’آپ کیا کرتے ہیں اور کہاں سے تعلق ہے؟‘میں نے جب کشمیر کا ذکر کیا تو مولانا نے نہایت شفقت سے وہاں کے حالات دریافت کیے۔ جو کچھ میں بیان کرسکتا تھا وہ عرض کیا۔ جوں ہی مَیں نے بات مکمل کی تو مولانا کہنے لگے کہ: ’کشمیر میں پاکستان کے مقابلے میں شعور اور خواندگی زیادہ ہے، وہاں جماعت اسلامی کا کام ہر سطح پر منظم کرنا چاہیے‘۔ اس وقت تک آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی قائم نہیں ہوئی تھی، مگر جماعت اسلامی اور مولانا محترم کی شخصیت اور ان کے لٹریچر سے آزاد کشمیر کا تعلیم یافتہ طبقہ اچھی طرح متعارف تھا ۔ میں نے مولانا محترم سے عرض کیا کہ: ’وہاں جماعت اسلامی کا نظم قائم کرنا چاہیے جس کا جواب انھوں نے یہ دیا کہ: ’پہلے کچھ لوگ جماعت اسلامی کی دعوت کو پوری طرح سمجھ لیں اور یہ کام کرنے کو تیار ہوں تو اس پر کچھ سوچا جاسکتا ہے‘۔
پھر انھوں نے میری تعلیم کے بارے میں دریافت کیا۔ جب میں نے انھیں اپنے حالات اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے شوق کا ذکر کیا تو انھوں نے تحسین آمیز الفاظ کے ساتھ کہا: ’اگر آپ کا یہ شوق اور جذبہ اسی طرح جاری رہاتو اللہ کے فضل سے وہ دن ضرور آئے گا جب آپ کوئی نہ کوئی اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی محنت کو ضائع نہیں کرے گا‘۔ آج میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے مولانا محترم کے یہ الفاظ الہامی لگتے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد ایک صحافی کی حیثیت سے مولانا محترم کو کئی بار دیکھنے اور ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ان کی پریس کانفرنسوں اور تقریروں کی رپورٹنگ کا بھی موقع ملا او ر مختلف اجتماعات میں ان کی تقریریں سننے کا تو متعدد بار شرف حاصل ہوا۔ ان کی پریس کانفرنسیں اور تقریریں، ان کی تحریروں کی طرح بہت ہی دل نشین اور پر اثراور اردو ے معلّٰی کا اعلیٰ نمونہ ہوتیں۔اگر ان کوبراہ راست لکھ لیا جاتا تو ان میں کہیں ترمیم و اضافے کی قطعاً ضرورت محسوس نہ ہوتی۔وہی روانی، وہی سلاست اور وہی منطقی استدلال تقریر میں بھی موجزن ہوتا جو ان کی تحریر کا خاصہ تھا۔
مجھے ان کے ہمراہ ناشتے پر ایک ملاقات اچھی طرح یاد ہے۔ یہ ۱۹۶۷ء ہی کی بات ہے۔ مولانا محترم کراچی کے دورے پر تھے اور بعدازاں جماعت اسلامی پاکستان کے مایہ ناز رہنما پروفیسر غفور احمد کے گھر پر قیام پذیر تھے۔ان دنوں پروفیسر صاحب ناظم آباد نمبر۳ میں رہایش پذیر تھے۔ وہیں پر مولانا کے ساتھ ناشتے میں مختلف شخصیات کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ مجھے روزنامہ جنگ کے دفترمیں اس ناشتے کی اطلاع مل گئی تھی۔ حافظ محمد اسلام صاحب جنگ میں چیف رپورٹر تھے اورسیاسی جماعتوں کی رپورٹنگ کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ تمام سیاسی و مذہبی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ مولانا محترم بھی ان کو اچھی طرح جانتے تھے۔میں اور دیگر صحافی حضرات مقررہ وقت پر پروفیسرصاحب کے گھر پہنچ گئے۔ پروفیسر صاحب نے مولانا سے ناشتہ شروع کرنے کی درخواست کی، مگر مولانا نے یہ ذومعنی جملہ ادا کرکے سب کو حیران کردیا کہ: ’جب تک اسلام نہیں آئے گا میں ناشتہ نہیں کروں گا‘۔ اصل بات یہ تھی کہ حافظ محمد اسلام ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ تھوڑی دیر میں حافظ محمداسلام مسکراتے ہوئے داخل ہوئے اور دیر سے آنے کی معذرت کی، چنانچہ ان کے آتے ہی ناشتہ لگادیا گیا اور سب نے اس عبقری شخصیت کے ساتھ ناشتہ تناول کیا جس کے دوران ہلکی پھلکی خوش گوار بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
اس موقعے پر مجھے مولانا محترم سے ایک اور ملاقات بھی یاد آرہی ہے جو اسلامک ریسرچ اکیڈمی (ادارہ معارف اسلامی) کراچی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی۔ یہ بھی۱۹۶۸ء، ۱۹۶۹ء کی بات ہے۔ اُس وقت ادارہ معارف اسلامی کا دفتر ناظم آباد نمبر۱، کراچی میں عزیزیہ مسجد کے نزدیک تھا۔ مولانا اس اکیڈمی کے سربراہ تھے۔ سالانہ اجلاس صبح سے جاری تھا۔ میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ پڑوس ہی میں قیام پذیر تھا۔ میرے دوسرے ساتھیوں میں ممتاز احمد اس لحاظ سے واقعی ممتاز تھے کہ وہ بھی اکیڈمی کے فیلوز میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ پروفیسر خورشیداحمد، ممتاز صحافی مصباح الاسلام فاروقی، ڈاکٹر نثار احمد، سید معروف شاہ شیرازی،سید منور حسن اکیڈمی کے ذمہ دار اور ریسرچ اسکالرتھے۔
مسجد عزیزیہ میں نماز ظہر ادا کی گئی، جس کی امامت مولانا نے کی۔ کھانے کا اہتمام اکیڈمی کے اندر تھا۔ پکوان میں مولانا کی پسند کا خیال رکھا گیا تھا، کچھ ہی دیر میں کھانا لگادیا گیا ۔ برنس روڈ کے وحید ہوٹل کے گولا کباب خاص طور پر منگوانے کے لیے ایک صاحب کو بھیجا گیا تھا جو ابھی تک پہنچے نہیں تھے۔ کافی انتظار کیا گیا مگر ان کے آنے میں تاخیر ہوگئی تو مولانا کی اجازت سے کھانا لگادیا گیا۔ جب مولانا کھانا تناول کرچکے تو کباب بھی آگئے۔ مولانا سے درخواست کی گئی کہ ان کی پسندکے کباب آچکے ہیں، مگر مولانا نے معذرت کر لی اور کہا: ’میں ایک بار جب کھانا کھالوں تو اس کے بعد اگر سونے کا نوالہ بھی آجائے تو کبھی نہیں کھاتا، میرے کھانے کے یہ اصول ہیں جن کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا‘۔ وہاں موجود ہر شخص نے مولانا کے ان الفاظ کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ اس اجلاس میں ملک کے ممتاز ڈینٹل سرجن ڈاکٹر الٰہی علوی بھی موجود تھے، جو مولانا محترم کے دہلی کے زمانے سے دوست اور اکیڈمی کی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔
سید مودودی کا جسد خاکی ۲۵ ستمبر کی صبح نیویارک سے لندن ہوتا ہوا ، پی آئی اے کی پرواز سے کراچی لایا گیا، جہاں ایئر پورٹ کے سامنے کھلے میدان میں ان کی نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیاتھا۔ بعد ازاں ان کی میت کو طیارے کے ذریعے لاہور لے جایا گیا ۔ میں دوسری پرواز سے لاہور پہنچا۔ لاہور میں قذافی اسٹیڈیم میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔میں نے ائیرپورٹ سے قذافی اسٹیڈیم جاتے ہوئے پورے لاہور کو سوگوار دیکھا،واقعی احساس ہورہا تھا کہ عالِم کی موت عالَم کی موت ہوتی ہے۔ لوگ بسوں ، ویگنوں ، کاروں ، ٹیکسیوں ،موٹر سائیکلوں ، تانگوں کے ذریعے اور پیدل قذافی اسٹیڈیم کی طرف رواں دواں تھے۔جہاں مولانا محترم کی نماز جنازہ ادا ہونا تھی۔ قذافی اسٹیڈیم میں عوام کا جمِ غفیر نماز جنازہ کے لیے امڈا چلا آرہا تھا۔ ایک جانب لوگ میلوں قطار میں بڑے منظم انداز میں عالم اسلام کے اس عظیم مفکر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ بڑا ہی دل خراش منظر تھا! جنازے کے بعد جسد خاکی کو ان کی رہایش گاہ ، لاہور کے علاقے ۵- اے ذیلدارپارک اچھرہ لایا گیا۔ میں تدفین کے مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ بڑے ہی رقت آمیز مناظر تھے۔وہاں موجود تمام افراد افسردہ تھے اور ان کے چہرے آنسوئوں سے تر تھے۔ میں مولانا کی تدفین کے بعددل شکستہ اسی رات ہی واپس کراچی پہنچا۔ ائیرپورٹ سے سیدھا دفتر آیا اور مولانا کی تدفین کی خبر اور تفصیل لکھی، جو میری افسردگی، شدید ذہنی اضطراب اور رنج و غم کی عکاس تھی۔
میں اس وقت ہائی کورٹ میں اہم مقدمات کی رپورٹنگ کرتاتھا۔ میرا معمول تھا کہ صبح۹بجے کورٹ پہنچ جاتا اورجو بھی اہم نظربند رہنما پیشی کے لیے لایا جاتا، اس سے ملاقات بھی کرتا اور جیل میں پیش آنے والے واقعات معلوم کرنے کے ساتھ اہم مقدمات کی رپورٹنگ بھی کرتا۔ الطاف گوہر صاحب کی پیشی شروع ہوئی تو ان سے بھی ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ اس موقع پر ان کے اہل خانہ ، بھائی تجمل حسین اور بیٹے ہمایوں گوہر بھی روزانہ عدالت آتے تھے۔
الطاف گوہر بتایا کرتے کہ جیل میں ان کو کس طرح قید تنہائی میں رکھا گیا۔ کمرہ بہت چھوٹا تھا اورکسی طرح کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی، جو الطاف گوہر جیسی بڑی شخصیت کے لیے بڑی تکلیف دہ بات تھی۔ اسی دوران ایک موقع پر انھوں نے بیان کیا کہ ساتھ والی کوٹھری سے ایک بار انھیں رات کے آخری پہر تلاوت قرآن پاک کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ کھانا لانے والے مشقتی سے ایک چٹھی کے ذریعے انھوں نے معلوم کرایا تو پتا چلا کہ یہ آواز کراچی کے مشہور تاجراور سماجی شخصیت نقی نواب کی ہے جو روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ ان کو بھی بھٹو حکومت کے حکم پر کال کوٹھری میں رکھا گیا ہے۔ الطاف گوہر نے اسی مشقتی کے ذریعے ان سے قرآن مجید منگوایا، کیونکہ ان کے پاس پڑھنے کے لیے قرآن مجید تو کیا کوئی بھی دوسری کتاب موجود نہیں تھی۔ نقی نواب صاحب نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی قرآن پاک کی مشہور تفسیر تفہیم القرآن کی پہلی جلد بھجوادی، جسے انھوں نے دو تین دن ہی میں پڑھ لیا۔الطاف گوہر کو اس کے مطالعے میں اتنا مزہ آیا کہ باری باری دوسری تیسری اور پھر پوری پانچ جلدیں مختصر عرصے میں ختم کرلیں (اس وقت تک چھٹی جِلد شائع نہیں ہوئی تھی)۔اس تفسیر کے ذریعے وہ پہلی بار مولانا مودودی کے علمی مرتبے سے آگاہ ہوئے ۔ الطاف صاحب کہتے تھے کہ مولانا محترم نے اس تفسیر میں دینی علوم اور مسائل کو جس طرح عام فہم اورآسان اردو زبان میں بیان کیا ہے، اس کی کسی دوسری تفسیر میں مثال نہیں ملتی۔ وہ خاص طور پر اس کے ’مقدمہ‘ کی بڑی تعریف کرتے اور کہتے تھے کہ: ’میرے نزدیک یہ مولانا محترم کی شاہکار تحریر ہے‘ ۔ ایک موقع پر انھوں نے کہا: ’میں نے اس مقدمے کو بار بار پڑھا مگر پھر بھی سیری نہیں ہوئی۔ یہ اُردو ادب کا شہ پارہ ہے جس کا اگر دنیا کی مختلف زبانوں کے بہترین نثر پاروں سے مقابلہ کیا جائے تو یہ مقدمہ ان میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کر سکتا ہے‘۔ وہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن میں اُردو زبان کی تحریر کو اردو معلیٰ کا نام دیتے تھے۔
میں ان کی باتیں بڑے غور سے سنتا رہا کہ ایک دن اچانک میرے ذہن میں یہ تجویز آئی کہ کیوں نہ میں الطاف گوہر صاحب کوا س بات پر آمادہ کروں کہ وہ تفہیم القرآن کا انگریزی زبان میں ترجمہ کریں۔ ایک پیشی پر جب وہ عدالت آئے تو میں نے ان سے گزارش کی کہ: ’آپ نے تفہیم القرآن کو ایک نہیں کئی بار پڑھا ہے۔ آپ اس کی تعریف بھی کرتے ہیں کہ یہ تفسیر اپنی تشریحات اور معلومات کے علاوہ اردو نثر نگاری کا بھی عمدہ نمونہ ہے۔ اس لیے آپ جیسا انگریزی کا بڑا ادیب اگر اس کا انگریزی میں ترجمہ کردے تو اس تفسیر سے انگریزی داں طبقہ بھی استفادہ کرسکے گا۔ اور آپ کا یہ کارنامہ نہ صرف یاد رکھا جائے گا بلکہ صدقہ جاریہ بھی ثابت ہوگا‘۔ انھوں نے میری بات خاموشی سے سن لی تاہم کوئی ردعمل ظاہرنہ کیا۔
میں نے اگلی پیشی پر اپنی اس درخواست کا اصرار جاری رکھا۔ بالآخر ایک موقع پر انھوں نے کہا کہ: ’عارف میاں، میں تو یہ کام کرنے کو تیار ہوں، لیکن مولانا سے اجازت کیسے حاصل ہوگی اور کون لے کر دے گا۔ ہوسکتا ہے کہ مولانا مجھے پسند نہ کرتے ہوں اور اجازت نہ دیں ،کیوں کہ میں حکومت کے اعلیٰ عہدوں اور صدر ایوب خان کا سیکریٹری اطلاعات رہا ہوں، جنھوں نے مولانا کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیے رکھا تھا‘۔میں نے ان کو تجویز پیش کی کہ آپ کچھ پسندیدہ حصوں کا ترجمہ کرکے مجھے دے دیں۔ میں اگرچہ ایک معمولی اخبار نویس اور ان کا قدردان ہوں، مگر ان شاء اللہ مولانا سے اجازت حاصل کرلوں گا۔ اس بات چیت کے بعد ان کو کافی عرصے تک عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ اور میں اس موضوع پر ان سے مزید بات نہ کر سکا۔ لیکن پھرحکومت نے عدالتی حکم پر یا از خود ان کو اچانک رہا کرنے کا فیصلہ کردیا۔
مجھے الطاف گوہر کے جیل سے رہا ہونے کے وقت کی اطلاع مل گئی تھی، اس لیے میں ان کے استقبال اور رپورٹنگ کے لیے جیل کے گیٹ پر پہنچ گیا۔ جہاں ان کے اہلِ خانہ اور دیگر احباب بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ جب وہ رہا ہوئے تو میں نے ان کا استقبال کیا۔ انھوں نے مجھے گلے لگاتے ہوئے میرے کان میں آہستہ سے کہا: ’مبارک ہو، اجازت مل گئی ہے‘۔ میرے پوچھنے پر صرف میجر جنرل (ریٹائرڈ) شیر علی خاں کا نام لیا اور پھر مجھ سے جدا ہوگئے۔ میں ان کے اس ایک جملے سے پوری بات سمجھ گیا کہ وہ تفہیم القرآن کے انگریزی ترجمے کی بات کررہے تھے کہ ان کو مولانا محترم نے ترجمے کی اجازت دے دی تھی۔ بعد میں پتا چلاکہ یہ اجازت والا کام جنرل شیر علی خان کے ذریعے ہوا تھا، جو ان کے ساتھ ہی سنٹرل جیل کراچی میں نظر بند تھے اور رہا ہونے والے تھے۔جنرل شیر علی ریاست پٹودی کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور بڑے نستعلیق انسان تھے۔ وہ جنرل یحییٰ خان کی مرکزی کابینہ میں وزیر اطلاعات و نشریات بھی رہے تھے۔ دین اسلام سے گہری وابستگی کے سبب وہ سیکولر صحافیوں کے نشانے پر رہے۔
الطاف گوہر صاحب نے تفہیم القرآن کے منتخب حصوں کا ترجمہ کرکے جنرل صاحب کو دے دیا کہ وہ رہا ہونے پر لاہور جائیں تومولانا محترم کو پیش کریں اور پھر ان سے باقاعدہ اجازت لے لیں۔ جنرل شیر علی نے رہائی کے بعد لاہور میں مولانا کو وہ ترجمہ دکھایا اور مولانا نے بخوشی اجازت دی اور کہا کہ: ’الطاف گوہر صاحب کو میر اسلام کہیں‘ اور ان کی رہائی کے بعد لاہور آنے کی دعوت دی۔ میں نے دفتر آکر دو خبریں فائل کیں۔ ایک یہ کہ الطاف گوہر کو رہا کردیا گیا اور دوسری یہ کہ الطاف گوہر مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کا انگریزی میں ترجمہ کریں گے۔ روزنامہ جنگ میں یہ دونوں خبریں نمایاں طور پر شائع ہوئیں اور دوسرے دن الطاف گوہرکے گھر پر جماعت اسلامی کے متعدد کارکن خوشی سے جمع ہوکر ان کو مبارک باد دینے پہنچ گئے۔ وہ اپنی اس پذیرائی پر جہاں خوش ہوئے، وہیں پریشان بھی تھے۔ انھوں نے اسی دن شام مجھے فون کر کے کہا کہ: عارف میاں، آپ نے جنگ اخبار میں خبر شائع کرکے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی‘۔میں نے کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیںلیکن میں نے بھی خبر لگاکر کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میں اصل میں یہ چاہتا تھا کہ یہ بات ریکارڈ پر آجائے اور میں آپ کو تفہیم القرآن کے ترجمے کے احسن کام کے وعدے پر مستحکم رکھوں۔ جس پر وہ مطمئن ہوگئے۔رہائی کے بعد انھوں نے پھر سے روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور تفہیم القرآن کے منتخب حصوں کا ترجمہ اقساط میں ڈان میں شائع کرنا شروع کردیا۔
کچھ عرصے کے بعد الطاف گوہر صاحب کراچی سے لندن چلے گئے اور پھر ان کا وہاں برسوں قیام رہا۔ وہ تفہیم القرآن کا مکمل ترجمہ تونہ کرسکے، البتہ ڈان کی ادارت کے زمانے میں بعض منتخب حصوںکا ترجمہ کیا، جو کتابی شکل میں Translations from The Quranکے عنوان سے موجود ہے۔ایک عرصے کے بعد کراچی میں پیپلز پارٹی کے رہنما نفیس صدیقی نے اپنی قیام گاہ پر ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت ملی۔ میں جب نفیس صاحب کے گھر پہنچا تو الطاف صاحب مجھ سے بڑی محبت سے ملے۔ میں نے انھیں تفہیم القرآن کے ترجمے کی بات یاد دلائی تو ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے ٹھیک کہا تھا کہ رہائی کے بعد دوسری مصروفیتیں مجھے یہ کام نہیں کرنے دیں گی۔ اس لیے خبر شائع کر کے آپ نے مجھے اپنے فیصلے پر قائم رہنے کاپابند کیا تھا۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس اہم قومی و دینی فریضے کی انجام دہی میں حسب ِپروگرام کامیابی نہ ہو سکی‘۔ تاہم مولانا سے ان کی محبت و عقیدت ہمیشہ قائم رہی ۔
عرصے بعد مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کا انتقال ہوا اور مرحوم کا جسد خاکی امریکا سے لندن پہنچ رہا تھا جہاں نماز جنازہ ادا کی جانی تھی۔ مولانا مودودی کے عقیدت مند برطانیہ کے مختلف شہروں سے ایئر پورٹ پہنچ رہے تھے۔ الطاف گوہر بھی ایک ٹیکسی میں لندن ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔
الطاف گوہر نے ۲۴ ستمبر ۱۹۷۹ء کی شب بی بی سی سے مولانا مودودی کے جنازے میں شرکت کے اپنے سفرکا ذکر کیا۔ ان کی گفتگو علم و دانش کا مرقع اور خوب صورت طرز ادایگی کا امتزاج نظر آتی ہے، جس میں پاکستان میں دین اور سیاست کی ہم آہنگی اور اس ضمن میں پیدا ہونے والے باہمی اختلافات اور مولانا سے ان کی عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔
الطاف گوہرنے مولانا کو خراج عقیدت ان الفاظ میں پیش کیا: ’’مولانا مودودی کے انتقال کی اطلاع ۲۳ ستمبر کی رات کو مل گئی تھی۔۲۴ ستمبر کی صبح ان کی میت نیویارک سے لندن پہنچی۔ میں غم زدگی کی حالت میں ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ نماز جنازہ کا اہتمام اس جگہ کیا گیا ہے جہاں جہازوں کی کھیپ رکھی جاتی ہے۔ لندن کے ٹیکسی ڈرائیوروں میں اب بھی کوئی شُستہ مزاج شخص مل جاتا ہے۔ جس ٹیکسی میں میرے بھائی اور میں بیٹھے اس کا ڈرائیور ہماری پریشانی کو بھانپ گیا اور یہ سن کر کہ ہمیں ایک نماز جنازہ میں شرکت کے لیے جانا ہے، وہ بڑی تیزی کے ساتھ منزل کی طرف روانہ ہوا، مگر جب تک ہم پہنچے تو پتا چلا کہ پہلی نماز جنازہ ادا ہوچکی ہے۔ ہم دوسری نماز جنازہ میں شامل ہوئے۔ سامنے لکڑی کا صندوق رکھا تھا، جس پر گلاب کے پھولوں کی چادر تھی۔ پیتل کے کنڈے مضبوطی سے بند تھے اور تابوت کے کنارے پر لکھا تھا:سرہانہ۔ مولانا کا دمکتا ہوا چہرہ میرے سامنے آگیا۔ وہی ملاحت، وہی شفقت، وہی مسکنت، وہی فضیلت۔
’’مولانا سے میری آخری ملاقات اس سال [۱۹۷۹ء] لندن میں ہوئی۔ وہ علاج کے لیے امریکا جارہے تھے۔ قیام گاہ پر معتقدین کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ اس شام مولانا کی طبیعت قدرے بہتر تھی۔ انھوں نے مجھے رات کے کھانے کے لیے روک لیا۔ مولانا کی باتوں سے مجھے یوں لگا جیسے وہ ملک کے حالات سے نامطمئن اور ایک حد تک مایوس ہوچکے ہوں۔ کھانے کے بعد مولانا نے اللہ حافظ کہا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اپنی خواب گاہ کی طرف چلے گئے۔ مولانا نے زندگی بھر دین کو سیاست سے جدا نہ کیا۔ تحریک خلافت اور تحریک ہجرت میں شامل ہوئے اور عمر بھر نوآبادیاتی نظام اور اشتراکی فکر و نظر کی مخالفت کرتے رہے۔۱۹۴۱ء میں مولانا نے جماعت اسلامی قائم کی اور ۳۰برس تک وہ جماعت کے امیر رہے۔ یہی ۳۰برس ان کی تخلیقی زندگی کی معراج تھے۔ پابند سلاسل رہے، زینت زنداں بنے اور۱۹۵۳ء میں معاملہ دار ورسن تک جاپہنچامگر اللہ کو ان کی زندگی منظور تھی۔اسی زمانے میں مولانا نے قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر مکمل کی جو چھے جلدوں میں تفہیم القرآن کے عنوان سے شائع ہوئی۔
’’پاکستان میں .... بہت سے دوست احباب جو مولانا کی فکری اور ذہنی صلاحیتوں کے معترف تھے، ان کی سیاسی فکر سے متفق نہ تھے.... مولانا سے میری عقیدت اور تعلق علمی سطح تک محدود تھا۔ ان کی جماعت کی سیاست سے میرا کوئی واسطہ نہیں رہا۔ اس لیے میں مولانا کی زندگی کے اس اختلافی پہلو پر آزادی سے بات کرسکتا ہوں۔ ہرمعاشرے میں دائرہ اثر اور دائرہ اقتدار میں ٹکرائو رہتا ہے۔ خود مولانا نے اپنی کتاب خلافت و ملوکیتمیں اسی ٹکرائو اور ستیزہ کاری کی وضاحت کی ہے۔ ایک عالم کی شخصیت جب تک دائرہ اثر تک محدود رہتی ہے، اس کی تحریر و تقریر کو ایک معیار پر پرکھا جاتا ہے اور جوں ہی وہ دائرہ اثر سے نکل کر دائرہ اختیار یا اقتدار کی طرف بڑھتا ہے تو اس کے افعال اور کردار کے جانچنے اور پرکھنے کا معیار بدل جاتا ہے۔ سیاستدان مسند اقتدار تک پہنچنے کے لیے بہت سے مراحل سے باآسانی گزر جاتے ہیں۔ یہی مراحل ایک بااصول عالم کے لیے انتہائی ذہنی کش مکش کا باعث بن جاتے ہیں۔وہ اصول پر اڑتا ہے تو اقتدار سے کھسکتا ہے اور اصول سے کھسکتا ہے تو تضاد کا شکار ہوجاتا ہے۔ نظری اور بنیادی اصولوں کی تشریح اور تفسیر ایک بات ہے، اور حالات پر اطلاق الگ بات ہے۔ مفسر عملی سیاست میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو اسے حالات سے نبرد آزمائی اور بالآخر مفاہمت کرنا پڑتی ہے۔ یہ سودا اسے ہمیشہ مہنگا پڑتا ہے۔
’’مولانا کو یقین تھا کہ لوگ ایک دفعہ قرآن تک پہنچ جائیں تو ان کی زندگی کی اُلجھنیں دور ہوجائیں گی۔ روحِ قرآن کیا ہے؟ خداوند عالم کی فرماںروائی، وہ سارے جہاں کا مالک، معبود اور حاکم ہے۔ انسان کی زندگی ایک امتحان ہے اور اس امتحان میں کامیابی کے لیے خداوند کریم کی ہدایت پر عمل لازم ہے اور جوں ہی یہ معاشرہ عادلانہ اصولِ اخلاق سے منحرف ہوتا ہے تو یہ زمین ظلم سے بھرجاتی ہے۔ قرآن کا مرکزی موضوع انسان ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ انسان نے ظاہر بینی قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے سبب جو نظریات بنالیے ہیں وہ اس کے لیے تباہ کن ہیں۔ قرآن کا مدعا اس ہدایت کی دعوت دینا ہے جسے انسان کھوچکا ہے۔ تفہیم القرآن کی چھے جلدیں قرآن کے اس موضوع ، مضمون اور مدعا کی تشریح ہیں۔
’’قرآن پڑھنے کی سعادت مجھے اس زمانے میں نصیب ہوئی، جب کسی اور کتاب تک میری دسترس نہ تھی۔ میری یہ مجبوری، میرے لیے ایک نعمت بن گئی۔ ہر مسلمان قرآن کی روح تک پہنچنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس کوشش میں تفہیم القرآن نے میری بڑی رہنمائی کی۔ تفہیم کیاہے، علم کا سرچشمہ ہے۔ مولانا کو احساس تھا کہ قرآن کے لفظی ترجمے کو پڑھتے وقت پہلی چیز جو محسوس ہوتی ہے وہ روانیِ عبارت، زورِ بیان، بلاغت ِزبان اور تاثیرِ کلام کا فقدان ہے۔ قرآن کی سطروں کے نیچے آدمی کو ایک ایسی بے جان عبارت ملتی ہے، جسے پڑھ کر نہ اس کی روح وجد میں آتی ہے، نہ اس کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں، نہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور نہ اس کے جذبات میں کوئی طوفان برپا ہوتا ہے۔ حالانکہ قرآن کی تاثیر میں اس کی پاکیزہ تعلیم اور اس کے عالی قدر مضامین کا جتنا حصہ ہے، اس کے ادب کا حصہ بھی اس سے کچھ کم نہیں ہے۔ یہی تو وہ چیز ہے جو سنگ دل آدمی کا بھی دل پگھلادیتی تھی اور جس نے بجلی کے کڑکے کی طرح عرب کی ساری زمین ہلادی تھی۔
’’مولانا نے تفہیم القرآن میں قرآن کا جو اردو ترجمہ کیا ہے، اس میں سادگی بھی ہے اور گداز بھی۔ ایک ایک لفظ نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے۔ ایک ایک آیت جذبے میں ڈوبے ہوئے جملوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ سورۃ الزخرف کی آخری آیات میں ہے: ’’وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا ہے اور وہی حکیم اور علیم ہے۔ بہت برتر اور بالا ہے جس کے قبضے میں زمین اور آسمانوں اور اس چیز کی بادشاہی ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان پائی جاتی ہیںاور وہی قیامت کی گھڑی کا علم رکھتا ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو‘‘۔ قرآن کریم کا مترجم، تفہیم القرآن کا مصنف اپنے رب کی طرف پلٹ گیا۔ اس کا جسد خاکی کاٹھ کے صندوق میں بند سمندروں، صحرائوں، پہاڑوں اور بستیوں پر پرواز کرتا ہوا ساری دنیا کو الوداع کہتا ہوا اپنے وطن کی مٹی کی طرف لوٹ گیا۔
ٹیکسی ڈرائیور ہمیں واپس لندن لے جارہا تھا۔ سڑکوں پر زندگی رواں دواں تھی۔ دھوپ میں ڈوبے ہوئے در و دیوار پر نظر پڑتی تو لاہور کی یاد تمتما اُٹھتی۔ ڈرائیور نے پوچھا:کوئی جواں سال تھا؟ ’نہیں، جواں فکر تھا‘۔ اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور پوچھا: ’آپ کا عزیز تھا؟‘ میں نے کہا: ’عزیزِ جہاں تھا‘‘۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
مضمون نگار پاکستان کے معروف صحافی ہیں اور امریکا میں مقیم ہیں