اگست کا ترجمان مجموعی لحاظ سے ایک جامع اور عالمی دستاویز کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ پروفیسرخورشید احمد صاحب کا ’تبدیلی کے سفر کا آغاز اس طرح ہوتا ہے‘ پاکستان کے حالات کے عمدہ تجزیے اور جامع تبصرے پر مبنی ہے۔ڈاکٹر انیس احمد نے ’مصر میں جمہوریت کے قتل‘ کے عنوان سے ایک فکرانگیز اور پُرمغز مقالہ پیش کیا ہے، جس میں مصر کے تازہ ترین حالات اور اسلامی تحریک کی جدوجہد کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ مصر کے حالات اور اسلامی تحریک کی جدوجہد تقاضا کرتے ہیں کہ اس کے مختلف پہلو اُجاگر کیے جائیں کیونکہ مصری اسلامی تحریک کے تحت ہونے والا تجربہ___ اور جنرل سیسی کا شب خون صرف اخوان المسلمون کے لیے نہیں بلکہ دنیا کی دوسری اسلامی تحریکوں کو اپنی جدوجہد کے مراحل طے کرتے ہوئے سامنے رکھ کرتجربات اور پیش قدمی کرنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ تیونس پر راشدغنوشی اور بنگلہ دیش کے حالات پر سلیم منصورخالد نے تازہ ترین حالات کا احاطہ کیا ہے۔ مصر سے لے کر بنگلہ دیش تک اسلامی تحریک جن حالات سے گزر رہی ہے وہ عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ضرورت ہے کہ عالمی اسلامی تحریکات ان چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے اور اپنی جدوجہد آگے بڑھانے میں ان پہلوئوں پر بھی نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اللہ مصر اور بنگلہ دیش کے مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے اور اسلامی تحریکوں کے لیے روشنی کا ذریعہ بنا دے،آمین!
’جنوبی ایشیا: اسلامی تحریک کا احیا، چند آثار‘ (اگست ۲۰۱۳ء) ایک جاپانی محقق پروفیسر یامانے سو کے قلم سے اسلامی تحریک کے احیا اور مستقبل پر عمدہ تجزیہ ہے۔ افکارِ مودودی اور اقبال کا انھوں نے جس گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے یہ جہاں قابلِ قدر ہے وہاں افکارِ مودودی کی عالمی سطح پر پذیرائی کا ثبوت بھی ہے۔
آپ کے قارئین کی دل چسپی کے لیے: ایک ایرانی اسکالر رضا اسلان نے حضرت عیسٰی ؑ کی سوانح عمری پر ایک کتاب Zealot کے نام سے لکھی ہے۔ فاکس نیوز نے اس کتاب پر مصنف سے انٹرویو میں پوچھا کہ تم مسلمان ہو، پھر تم نے عیسائیت کے بانی پر کتاب کیوں لکھی؟ اسلان نے جواب دیا کہ میں مذاہب کا اسکالر ہوں، میرے پاس چار ڈگریاں ہیں۔ میں دو عشروں سے عیسائیت کے مآخذ کا مطالعہ کر رہا ہوں اور بس اتفاق سے مسلمان ہوں۔ یہ ۱۰منٹ کی ویڈیو کلپ اگلے ہی دن انٹرنیٹ کی لہروں پر دنیا میں پھیل گئی اور ۴۰لاکھ دفعہ دیکھی گئی۔ اسلان کے ٹویٹر ساتھیوں میں ۵ہزار کا اضافہ ہوگیا۔ پبلشرز رینڈم ہائوس نے بتایا کہ دو ہی دن میں اس کی فروخت ۳۵فی صد بڑھ گئی۔ طلب پورا کرنے کے لیے ۵۰ہزار نئی کاپیوں کا آرڈر دیا ہے جس سے کُل تعداد اب ڈیڑھ لاکھ ہوگئی۔ میزان ڈاٹ کام پر اس کا نمبر۸ تھا، اب ایک ہوگیا ہے۔کتاب کی اشاعت کے بعد اسلان کو بہت شہرت ملی۔ کئی چینلوں پر انٹرویو دے چکے ہیں۔ اسلان ایران میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں امریکا آگئے اور یہاں کیلی فورنیا، ہارورڈ اور آئیوا یونی ورسٹی سے ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ کیلی فورنیا یونی ورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔
’انتخابی مرحلے کے بعد‘ (جون ۲۰۱۳ء) میں سیّد منور حسن صاحب نے حالیہ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی خامیوں اور موجودہ نظامِ انتخاب کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ انتخابات کے حوالے سے جماعت کی سیاسی حکمت عملی بظاہر ناکام معلوم ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پہلے بڑی سیاسی جماعتوں سے ایڈجسٹمنٹ میں ناکامی،ایم ایم اے کا نہ بننا، ۲۰۰۸ء کے الیکشن کا بائیکاٹ، پی پی کے جیتنے کا خوف اور میڈیاوار میں نوازلیگ اور پی ٹی آئی کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری چند بڑے بڑے اسباب ہیں۔ اب جماعت کو بہتر حکمت عملی کے ساتھ اگلے انتخابات کی تیاری شروع کرنی چاہیے۔
’تحریکِ اسلامی اور اجتماعی تبدیلی‘ (جون ۲۰۱۳ء) اہم مقالہ ہے جس میں اقامت ِ دین اور تبدیلی نظام کے لیے اسلامی تحریک کے پانچ مراحل کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکمت عملی کے لیے اہم خطوط کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ اسلامی تحریک کو منصوبۂ عمل اور حکمت عملی کی تیاری میں ان اُمور کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
’کچھ حسن البناؒ کے بارے میں‘ (جون ۲۰۱۳ء) امام حسن البنا شہیدؒ کی بیٹی کا انٹرویو بہت پسند آیا۔ خاص طور پر خانگی معاملات، اولاد کی نگہداشت اور تربیت اور عوام الناس سے روابط کے پہلو ہر دور کی تحریکِ اسلامی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
’اسلام اور جنسیت‘ (جون ۲۰۱۳ء) میں عملِ قومِ لوطؑ کو لواطت تحریر کرنا ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر کی شان میں نادانستہ طور پر گستاخی کے مترادف ہے۔ اگرچہ یہ غلط اصطلاح اب تک مستعمل ہے لیکن ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے بجاے ’ہم جنسیت‘ یا ’ہم جنس پرستی‘ کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
’مروجہ نظامِ تعلیم___ ایک دعوتِ فکر‘ (مئی ۲۰۱۳ء) میں ہمارے نظامِ تعلیم کی خامیوں کا احاطہ کیا گیا ہے بلکہ اس کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ تحریک سے تعلق رکھنے والے ملغوبہ تعلیم پر مبنی سکول (hybrid school) ہماری ذہنی غلامی کے عکاس ہیں۔ پنجاب میں انگلش بطور ذریعہ تعلیم اختیار کیے جانے سے طلبہ اور اساتذہ کرب کا شکار ہیں، اور تعلیم سے دل برداشتہ ہورہے ہیں۔ ہماری آیندہ نسل کو دانستہ جاہل رکھنے کا منصوبہ پورے صوبے میں جاری ہے۔ ماہرین تعلیم کی متفقہ راے ہے کہ بچہ غیرزبان میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتا لیکن تحریکی اور غیرتحریکی حلقے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آج لارڈ میکالے کی روح اپنی ۱۸۳۵ء کی خواہش کو اہلِ پاکستان کے ہاتھوں پایۂ تکمیل پاتے دیکھ کر خوش ہورہی ہوگی۔ بقول ریاض زیدی ؎
واے نادانی کہ اپنے ہاتھوں سے کھودی ہے قبر
ہم کہ ٹھیرے گورکن اور آپ ہی مدفن بھی ہیں
مئی کے شمارے میں ’مروجہ نظامِ تعلیم___ ایک دعوتِ فکر‘ میں ایک جملے پر مَیں کھٹکا : مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے لیے استاد رومی خاں (م:۱۵۳۰ء) نے توپیں تیار کیں (ص ۶۷)۔ظہیرالدین بابر مغل نہیں تھا (وقائع بابر از محمد ظہیرالدین بابر، مترجم فارسی: عبدالرحیم خان خاناں، مترجم اُردو: یونس جعفری، حواشی و جزیات حسن بیگ، مطبوعہ شہربانو پبلشرز، ۱۷-میتھیون روڈ کریکاڈی، برطانیہ، سال اشاعت ۲۰۰۷ء)۔ یہ کتاب جناب حسن بیگ کے سخن ہاے گفتنی سے مزین ہوکر نہایت خوب صورت انداز میں چھپی ہے۔ اس کے آغاز میں ص ۷، آخری پیراگراف میں لکھا ہے: بابری اخلاف کی حکومت عام طور پر خاندانِ مغلیہ کہلاتی ہے، یہ درست نہیں کیونکہ بابر ترک تھا، اور اپنے ترک ہونے پر فخر بھی کرتا تھا۔ اس حکومت کو خاندانِ بابری کہنا چاہیے۔